13. عقیقہ کا بیان
عقیقہ کا بیان
ام کرز کعبیہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے : (عقیقہ) میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : احمد نے مكافئتان کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمر میں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ١٧ (١٥١٦) ، سنن النسائی/العقیقة ٢ (٤٢٢١) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨١، ٤٢٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠٠٩) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
ام کرز (رض) کہتی ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں بیٹھے رہنے دو (یعنی ان کو گھونسلوں سے اڑا کر تکلیف نہ دو ) ، میں نے آپ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے : لڑکے کی طرف سے (عقیقہ میں) دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، اور تمہیں اس میں کچھ نقصان نہیں کہ وہ نر ہوں یا مادہ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العقیقة ٣ (٤٢٢٣، ٤٢٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٧) ، وقد أخرجہ : دی/ الأضاحی ٩ (٢٠١١) (ضعیف) (یہ حدیث ضعیف ہے ، اس کی سند میں اضطراب ہے، عقیقہ سے متعلق حدیث کے لئے اوپر اور نیچے کی احادیث دیکھئے، ملاحظہ ہو : صحیح ابوداود ٨/١٨٣ )
عقیقہ کا بیان
ام کرز (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (عقیقے میں) لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہی دراصل حدیث ہے، اور سفیان کی حدیث (نمبر : ٢٨٣٥) وہم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : عبید اللہ بن ابی یزید کے بعد سند میں عن ابیہ کا اضافہ سفیان کا وہم ہے، حماد کی روایت میں یہ اضافہ نہیں ہے اور یہی دیگر لوگوں کی روایتوں میں ہے۔
عقیقہ کا بیان
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے میں گروی ہے ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے اور عقیقہ کا خون اس کے سر پر لگایا جائے ١ ؎۔ قتادہ سے جب پوچھا جاتا کہ کس طرح خون لگایا جائے ؟ تو کہتے : جب عقیقے کا جانور ذبح کرنے لگو تو اس کے بالوں کا ایک گچھا لے کر اس کی رگوں پر رکھ دو ، پھر وہ گچھا لڑکے کی چندیا پر رکھ دیا جائے، یہاں تک کہ خون دھاگے کی طرح اس کے سر سے بہنے لگے پھر اس کے بعد اس کا سر دھو دیا جائے اور سر مونڈ دیا جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : يدمى ہمام کا وہم ہے، اصل میں ويسمى تھا جسے ہمام نے يدمى کردیا، ابوداؤد کہتے ہیں : اس پر عمل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحي ٢٣ (١٥٢٢) ، سنن النسائی/العقیقة ٤ (٤٢٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧٢) ، مسند احمد (٥/٧، ٨، ١٢، ١٧، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٢) (صحیح) (لیکن يدمى کی جگہ يسمى صحیح ہے جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے ، ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں يسمى ہی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : بریدہ (رض) کی آنے والی حدیث نمبر (٢٨٤٣) اس حدیث کے لئے ناسخ ہے ، لہٰذا عقیقہ کا خون بچے کے سر پر نہیں لگایا جائے گا۔
عقیقہ کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لفظ يسمى لفظ يدمى سے زیادہ صحیح ہے، سلام بن ابی مطیع نے اسی طرح قتادہ، ایاس بن دغفل اور اشعث سے اور ان لوگوں نے حسن سے روایت کی ہے، اس میں ويسمى کا لفظ ہے، اور اسے اشعث نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اس میں بھی ويسمى ہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨١) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
سلمان بن عامر ضبی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑکے کی پیدائش کے ساتھ اس کا عقیقہ ہے تو اس کی جانب سے خون بہاؤ، اور اس سے تکلیف اور نجاست کو دور کرو (یعنی سر کے بال مونڈو اور غسل دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧١) ، سنن الترمذی/الأضاحي ١٧ (١٥١٥) ، سنن النسائی/العقیقة ١ (٤٢١٩) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧، ١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٠) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
حسن سے روایت ہے، وہ کہتے تھے تکلیف اور نجاست دور کرنے سے مراد سر مونڈنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٥٦) (صحیح )
عقیقہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین کی طرف سے ایک ایک دنبہ کا عقیقہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٠١١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العقیقة ٣ (٤٢٢٤) (صحیح) لکن في روایة النسائي :” کبشین کبشین “ ، وھوالأصح وضاحت : ١ ؎ : سنن نسائی میں کبشین کبشین یعنی دو دو دنبے کی روایت ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
عقیقہ کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ عقوق (ماں باپ کی نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا گویا آپ ﷺ نے اس نام کو ناپسند فرمایا، اور مکروہ جانا، اور فرمایا : جس کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے قربانی (عقیقہ) کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری پھر آپ ﷺ سے فرع کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : فرع حق ہے اور یہ کہ تم اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اونٹ جوان ہوجائے، ایک برس کا یا دو برس کا، پھر اس کو بیواؤں محتاجوں کو دے دو ، یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے دے دو ، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو (پیدا ہوتے ہی) کاٹ ڈالو کہ گوشت اس کا بالوں سے چپکا ہو (یعنی کم ہو) اور تم اپنا برتن اوندھا رکھو، (گوشت نہ ہوگا تو پکاؤ گے کہاں سے) اور اپنی اونٹنی کو بچے کی جدائی کا غم دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العقیقة ١ (٤٢١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩١٦٩، ٨٧٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٢، ١٨٣، ١٩٤) (حسن )
عقیقہ کا بیان
بریدہ (رض) کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس کا خون بچے کے سر میں لگاتا، پھر جب اسلام آیا تو ہم بکری ذبح کرتے اور بچے کا سر مونڈ کر زعفران لگاتے تھے (خون لگانا موقوف ہوگیا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٦٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث سمرہ کی حدیث نمبر (٢٨٣٧) کی ناسخ ہے۔