14. شکار کا بیان

【1】

شکار وغیرہ کے لئے کُتّا پالنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مویشی کی نگہبانی، یا شکار یا کھیتی کی رکھوالی کے علاوہ کسی اور غرض سے کتا پالے تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کے برابر کم ہوتا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٥) ، سنن الترمذی/الصید ٤ (١٤٩٠) ، سنن النسائی/الصید ١٤ (٤٢٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧١، ١٥٣٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ٣ (٢٣٢٣) ، وبدء الخلق ١٧ (٣٣٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٠٤) ، مسند احمد (٢/٢٦٧، ٣٤٥) (صحیح) ولیس عند (خ) ” أو صید “ إلا معلقًا وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوپایوں کی نگہبانی، زمین و جائیداد کی حفاظت اور شکار کی خاطر کتوں کا پالنا درست ہے۔ نیز حدیث میں مذکورہ غرض کے علاوہ کتا پالنے میں ثواب کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کتا نجس ہے، اس کے گھر میں رہنے سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے ، یا آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

【2】

شکار وغیرہ کے لئے کُتّا پالنا

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں میں سے ایک امت ہیں ١ ؎ تو میں ان کے قتل کا ضرور حکم دیتا، تو اب تم ان میں سے خالص کالے کتوں کو قتل کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ٣ (١٤٨٦) ، سنن النسائی/الصید ١٠ (٤٣٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٥، ٨٦، ٥/٥٤، ٥٦، ٥٧) ، دی/ الصید ٢ (٢٠٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کی طرح یہ بھی ایک مخلوق ہیں۔

【3】

شکار وغیرہ کے لئے کُتّا پالنا

جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کتوں کے مارنے کا حکم دیا یہاں تک کہ کوئی عورت دیہات سے اپنے ساتھ کتا لے کر آتی تو ہم اسے بھی مار ڈالتے، پھر آپ ﷺ نے کتوں کو مارنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ صرف کالے کتوں کو مارو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٣) (صحیح )

【4】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ میں سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لیے شکار پکڑ کر لاتا ہے تو کیا میں اسے کھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو، اور اللہ کا نام اس پر لو تو ان کا شکار جس کو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں کھاؤ ۔ عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اگرچہ وہ شکار کو قتل کر ڈالیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اگرچہ وہ قتل کر ڈالیں جب تک دوسرا غیر شکاری کتا اس کے قتل میں شریک نہ ہو ، میں نے پوچھا : میں لاٹھی یا بےپر اور بےکانسی کے تیر سے شکار کرتا ہوں (جو بوجھ اور وزن سے جانور کو مارتا ہے) تو کیا اسے کھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم لاٹھی، یا بےپر، اور بےکانسی کے تیر اللہ کا نام لے کر مارو، اور وہ تیر شکار کے جسم میں گھس کر پھاڑ ڈالے تو کھاؤ، اور اگر وہ شکار کو چوڑا ہو کر لگے تو مت کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٥) ، والبیوع ٣ (٢٠٥٤) ، والصید ١ (٥٤٧٥) ، ٢ (٥٤٧٦) ، ٣ (٥٤٧٧) ، ٧ (٥٤٨٣) ، ٩ (٥٤٨٤) ، ١٠ (٥٤٨٥) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن الترمذی/الصید ١ (١٤٦٥) ، ٣ (١٤٦٧) ، ٤ (١٤٦٨) ، ٥ (١٤٧٩) ، ٦ (١٤٧٠) ، ٧ (١٤٧١) ، سنن النسائی/الصید ١ (٤٢٧٤) ، ٢ (٤٢٧٥) ، ٣ (٤٢٧٠) ، ٨ (٤٢٨٥) ، ٢١ (٤٣١٧) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٣ (٣٢٠٨) ، ٥ (٣٢١٢) ، ٦ (٣٢١٣) ، ٧ (٣٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٥، ٩٨٥٥، ٩٨٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٧، ٢٥٨، ٣٧٧، ٣٧٩، ٣٨٠) ، سنن الدارمی/الصید ١ (٢٠٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (پہلا) یہ کہ سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے ، ( دوسرا) یہ کہ کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو ، (تیسرا) یہ کہ اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لئے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں یہی جمہور علماء کا قول ہے ، ( چوتھا) یہ کہ کتے کو شکار پر بھیجتے وقت ” بسم الله “ کہا گیا ہو ، (پانچواں) یہ کہ معلّم کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو، اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا، (چھٹواں) یہ کہ کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں۔

【5】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : ہم ان کتوں سے شکار کرتے ہیں (آپ کیا فرماتے ہیں ؟ ) تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑو تو وہ جو شکار تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں انہیں کھاؤ گرچہ وہ انہیں مار ڈالیں سوائے ان کے جنہیں کتا کھالے، اگر کتا اس میں سے کھالے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصید ٧ (٥٤٨٣) ، ١٠ (٥٤٨٧) ، صحیح مسلم/ الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابن ماجہ/ الصید ٣ (٣٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٨، ٣٧٧) (صحیح )

【6】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم بسم اللہ کہہ کر تیر چلاؤ، پھر اس شکار کو دوسرے روز پاؤ (یعنی شکار تیر کی چوٹ کھا کر نکل گیا پھر دوسرے روز ملا) اور وہ تمہیں پانی میں نہ ملا ہو ١ ؎، اور نہ تمہارے تیر کے زخم کے سوا اور کوئی نشان ہو تو اسے کھاؤ، اور جب تمہارے کتے کے ساتھ دوسرا کتا بھی شامل ہوگیا ہو (یعنی دونوں نے مل کر شکار مارا ہو) تو پھر اس کو مت کھاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس جانور کو کس نے قتل کیا ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ دوسرے کتے نے اسے قتل کیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ کتے کے قتل کرنے کے سبب وہ ہلاک ہوا ہو بلکہ پانی ہی اس کے ہلاک ہونے کا سبب بنا ہو۔

【7】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے تیر کا شکار پانی میں گرپڑے اور ڈوب کر مرجائے تو اسے مت کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الذبائح ٨ (٥٤٨٤) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن الترمذی/الصید ٣ (١٤٦٩) ، سنن ابن ماجہ/ الصید ٦ (٣٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٢) (صحیح )

【8】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کتے یا باز کو تم سدھا رکھو اور اسے اللہ کا نام لے کر یعنی (بسم اللہ کہہ کر) شکار کے لیے چھوڑو تو جس شکار کو اس نے تمہارے لیے روک رکھا ہو اسے کھاؤ ۔ عدی (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اگرچہ اس نے مار ڈالا ہو ؟ آپ نے فرمایا : جب اس نے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس نے شکار کو تمہارے لیے روک رکھا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : باز جب کھالے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور کتا جب کھالے تو وہ مکروہ ہے اگر خون پی لے تو کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ٣ (١٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٧، ٣٧٩) (صحیح) (مگر باز کا اضافہ منکر ہے )

【9】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے سلسلہ میں فرمایا : جب تم اپنے (شکاری) کتے کو چھوڑو، اور اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ کہہ) کر چھوڑو تو (اس کا شکار) کھاؤ اگرچہ وہ اس میں سے کھالے ١ ؎ اور اپنے ہاتھ سے کیا ہوا شکار کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما یأتي برقم : (٢٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٨) (منکر) (اس میں وإن أَکَلَ مِنْہ کا جملہ منکر ہے اور کسی راوی کے یہاں نہیں ہے، مسند احمد میں اس کی جگہ وإنّ قَتَلَ (اگرچہ قتل کر ڈالا ہو) کا جملہ ہے ، اور یہ حدیث عدی (رض) کی حدیث کے مطابق ہے وضاحت : ١ ؎ : ابوثعلبہ خشنی (رض) کی اس حدیث اور عدی بن حاتم (رض) کی روایت کردہ اس سے ماقبل کی حدیث کے مابین تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ابوثعلبہ (رض) کی روایت کو بیان جواز پر، اور عدی بن حاتم (رض) کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا، ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ عدی بن حاتم (رض) کی حدیث حرمت کے سلسلہ میں اصل ہے، اور ابوثعلبہ (رض) کی روایت میں وإن أكل کے معنی ہیں اگرچہ وہ اس سے پہلے کھاتا رہا ہو مگر اس شکار میں اس نے نہ کھایا ہو۔

【10】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی اپنے شکار کو تیر مارتا ہے پھر اسے دو دو تین تین دن تک تلاش کرتا پھرتا ہے، پھر اسے مرا ہوا پاتا ہے، اور اس کا تیر اس میں پیوست ہوتا ہے تو کیا وہ اسے کھائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اگر چاہے یا فرمایا : کھا سکتا ہے اگر چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ الصید ٨ (٥٤٨٥ تعلیقًا) (صحیح )

【11】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے بےپر کے تیر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب وہ اپنی تیزی سے پہنچے تو کھاؤ (یعنی جب وہ تیزی سے گھس گیا ہو) ، اور جو تیر چوڑائی میں لگا ہو تو مت کھاؤ کیونکہ وہ چوٹ کھایا ہوا ہے ۔ پھر میں نے کہا : میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں (اس بارے میں کیا حکم ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : جب بِسْمِ اللهِ پڑھ کر چھوڑو تو کھاؤ، ورنہ نہ کھاؤ، اور اگر کتے نے اس میں سے کھایا ہو تو اس کو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہے ۔ پھر میں نے پوچھا : میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں کہ دوسرا کتا بھی آ کر اس کے ساتھ لگ جاتا ہے (تب کیا کروں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : مت کھاؤ، اس لیے کہ بِسْمِ اللهِ تم نے صرف اپنے ہی کتے پر کہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الوضوء ٣٣ (١٧٥) ، البیوع ٣ (٢٠٥٤) ، الصید ٢ (٥٤٧٦) ، صحیح مسلم/ الصید ١٩ (١٩٢٩) ، سنن النسائی/الصید ٧ (٤٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٠) ، دی/ الصید ١ (٢٠٤٥) (صحیح )

【12】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سدھائے اور بےسدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو شکار تم سدھائے ہوئے کتے سے کرو اس پر اللہ کا نام لو (یعنی بِسْمِ اللهِ کہو) اور کھاؤ، اور جو شکار اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ کرو اور اس کے ذبح کو پاؤ (یعنی زندہ پاؤ) تو ذبح کر کے کھاؤ (ورنہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ کتا جو تربیت یافتہ نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا ذبح کے قائم مقام نہیں ہوسکتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٤ (٥٤٧٨) ، ١٠ (٥٤٨٨) ، ١٤ (٥٤٩٦) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٣٠) ، سنن الترمذی/ السیر ١١ (١٥٦٠) ، سنن النسائی/الصید ٤ (٤٢٧١) سنن ابن ماجہ/الصید ٣ (٣٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ، سنن الدارمی/السیر ٥٦ (٢٥٤١) (صحیح )

【13】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عرض کیا : ابوثعلبہ ! جس جانور کو تم اپنے تیر و کمان سے یا اپنے کتے سے مارو اسے کھاؤ ۔ ابن حرب کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ : وہ کتا سدھایا ہوا (شکاری) ہو، اور اپنے ہاتھ سے (یعنی تیر سے) شکار کیا ہوا جانور ہو تو کھاؤ خواہ اس کو ذبح کرسکو یا نہ کرسکو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الصید ١ (١٩٣١) ، سنن الترمذی/ الصید ١٦ (١٤٤٦) (صحیح )

【14】

سدھائے ہوئے کتے اور تیر سے شکار کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ابوثعلبہ (رض) نامی ایک دیہاتی نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس شکار کے لیے تیار سدھائے ہوئے کتے ہیں، ان کے شکار کے سلسلہ میں مجھے بتائیے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں انہیں کھاؤ ۔ ابو ثعلبہ نے کہا : خواہ میں ان کو ذبح کرسکوں یا نہ کرسکوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ ابو ثعلبہ نے کہا : اگرچہ وہ کتے اس جانور میں سے کھا لیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگرچہ وہ اس جانور میں سے کھا لیں ۔ پھر انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے تیر کمان سے شکار کے متعلق بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا تیر کمان جو تمہیں لوٹا دے اسے کھاؤ، خواہ تم اسے ذبح کر پاؤ یا نہ کر پاؤ ۔ انہوں نے کہا : اگرچہ وہ شکار تیر کھا کر میری نظروں سے اوجھل ہوجائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اگرچہ وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہوجائے جب تک کہ گلے سڑے نہیں، اور تمہارے تیر کے سوا اس کی ہلاکت کا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو سکے ۔ پھر انہوں نے کہا : مجوسیوں (پارسیوں) کے برتن کے متعلق بتائیے جب کہ ہمیں اس کے سوا دوسرا برتن نہ ملے، آپ ﷺ نے فرمایا : دھو ڈالو اور اس میں کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٦٧١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصید ١٦ (٤٣٠١) ، مسند احمد (٢/١٨٤) (حسن) (مگر وإن اَکَلَ منہ کا جملہ منکر ہے جو عدی کی حدیث (٢٨٥٤) کے مخالف ہے ، اور نسائی کی روایت میں یہ جملہ ہے تو مگر اس میں اس کی جگہ وإن قتلنَ ہے جو عدی کی حدیث کے مطابق ہے )

【15】

زندہ جانور کے جسم کے گوشت کا ٹکڑا حرام ہے

ابو واقد لیثی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زندہ جانور کے بدن سے جو چیز کاٹی جائے وہ مردار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ٤ (١٤٨٠) أتم منہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٨) ، سنن الدارمی/الصید ٩ (٢٠٦١) (صحیح )

【16】

شکار کو مشغلہ بنالینا کیسا ہے؟

【17】

None

اس میں ہے: جو شخص بادشاہ کے ساتھ چمٹا رہے گا وہ فتنے میں پڑے گا اور اتنا اضافہ ہے: جو شخص بادشاہ کے جتنا قریب ہوتا جائے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا ۔

【18】

شکار کو مشغلہ بنالینا کیسا ہے؟

ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی شکار کو تیر مارو اور تین دن بعد اس جانور کو اس طرح پاؤ کہ تمہارا تیر اس میں موجود ہو تو جب تک کہ اس میں سے بدبو پیدا نہ ہو اسے کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٢ (١٩٣١) ، سنن النسائی/الصید ٢٠ (٤٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تیر کے موجود رہنے کی شرط اس لئے ہے کہ شکاری کو یہ یقین ہوجائے کہ شکار کی موت کا سبب شکاری کا تیر ہے نہ کہ کوئی دوسری چیز اس کی موت کا سبب بنی ہے۔