15. وصیتوں کا بیان

【1】

شکار کو مشغلہ بنالینا کیسا ہے؟

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤٤، ٨١٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٣٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥ (٩٧٤) ، والوصایا ٣ (٢١١٩) ، سنن النسائی/الوصایا ١ (٣٦٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٢ (٢٦٩٩) ، موطا امام مالک/الوصایا ١ (١) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠، ٣٤، ٥٠، ٥٧، ٨٠، ١١٣) ، سنن الدارمی/الوصایا ١ (٣٢١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجبی حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض و امانت وغیرہ تو ایسے شخص پر وصیت واجب ہے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے۔

【2】

شکار کو مشغلہ بنالینا کیسا ہے؟

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت) دینار و درہم، اونٹ و بکری نہیں چھوڑی اور نہ کسی چیز کی وصیت فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٦ (١٦٣٥) ، سنن النسائی/الوصایا ٢ (٣٦٥١) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ١ (٢٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی کا مطلب یہ ہے کہ مال و جائیداد سے متعلق کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی، کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی امت کو عام وصیت فرمائی ہے، مثلاً نماز سے متعلق وصیت، اسی طرح جزیرۃ العرب سے یہودیوں کو نکالنے کی وصیت وغیرہ وغیرہ۔

【3】

جو وصیت درست نہیں اس کا بیان

سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے : مکہ میں، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، پوچھا : کیا آدھا مال صدقہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، پھر پوچھا : تہائی مال خیرات کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تہائی مال (دے سکتے ہو) اور تہائی مال بھی بہت ہے، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور جو چیز بھی تم اللہ کی رضا مندی کے لیے خرچ کرو گے اس کا ثواب تمہیں ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اٹھا کر دو گے تو اس کا ثواب بھی پاؤ گے ١ ؎، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟ (یعنی آپ ﷺ مکہ سے چلے جائیں گے، اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے مکہ ہی میں رہ جاؤں گا، جب کہ صحابہ مکہ چھوڑ کر ہجرت کرچکے تھے) ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم پیچھے رہ گئے، اور میرے بعد میرے غائبانہ میں بھی نیک عمل اللہ کی رضا مندی کے لیے کرتے رہے تو تمہارا درجہ بلند رہے گا، امید ہے کہ تم زندہ رہو گے، یہاں تک کہ تمہاری ذات سے کچھ اقوام کو فائدہ پہنچے گا اور کچھ کو نقصان و تکلیف ٢ ؎، پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ : اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت مکمل فرما، اور انہیں ان کے ایڑیوں کے بل پیچھے کی طرف نہ پلٹا ، لیکن بیچارے سعد بن خولہ (رض) ان کے لیے رسول اللہ ﷺ رنج و افسوس کا اظہار فرماتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال فرما گئے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٦ (١٢٩٥) ، الوصایا ٢ (٢٧٤٢) ، ٣ (٢٧٤٤) ، مناقب الأنصار ٤٩ (٣٩٣٦) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، النفقات ١ (٥٣٥٤) ، المرضی ١٣ (٥٦٥٩) ، ١٦ (٥٦٦٨) ، الدعوات ٤٣ (٦٣٧٣) ، الفرائض ٦ (٦٧٣٣) ، صحیح مسلم/الوصایا ٢ (١٦٢٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦ (٩٧٥) ، الوصایا ١ (٢١١٧) ، سنن النسائی/الوصایا ٣ (٣٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٥ (٢٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الوصایا ٣ (٤) ، مسند احمد (١/١٦٨، ١٧٢، ١٧٦، ١٧٩) ، دی/ الوصایا ٧ (٣٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وارثوں کا حق فقیروں پر مقدم ہے، اور تہائی سے زیادہ وصیت درست نہیں، اور بیوی بچوں پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے، بشرطیکہ اسے اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر خرچ کرے۔ ٢ ؎ : چناچہ ایسا ہی ہوا وہ اس کے بعد (٤٥) سال تک زندہ رہے ، اور جنگ قادسیہ وغیرہ میں مسلم فوج کے قائد و سربراہ رہے اور رب العزت نے ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے نوازا، جب کہ مشرکین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٣ ؎ : سعد بن خولہ (رض) پر رسول اللہ ﷺ نے رنج و افسوس کا اظہار اس لئے کیا کہ ان کا انتقال مکہ میں ہوا، اور مکہ ہی سے وہ ہجرت کر کے گئے تھے ، اگر وہ مکہ کے علاوہ دوسری سرزمین میں وفات پاتے تو ان کا مقام و مرتبہ کچھ اور ہوتا۔

【4】

صحت وتندرستی کی حالت میں صدقہ کرنیکی فضیلت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جسے تم صحت و حرص کی حالت میں کرو، اور تمہیں زندگی کی امید ہو، اور محتاجی کا خوف ہو، یہ نہیں کہ تم اسے مرنے کے وقت کے لیے اٹھا رکھو یہاں تک کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے تو کہو کہ : فلاں کو اتنا دے دینا، فلاں کو اتنا، حالانکہ اس وقت وہ فلاں کا ہوچکا ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١١ (١٤١٩) ، والوصایا ٧ (٢٧٤٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣١ (١٠٣٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٠ (٢٥٤٣) ، الوصایا ١ (٣٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣١، ٢٥٠، ٤١٥، ٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مرتے وقت جب مال کے وارث اس کے حقدار ہوگئے تو صدقہ کے ذریعہ ان کے حق میں خلل ڈالنا مناسب نہیں، بہتر یہ ہے کہ حالت صحت میں صدقہ کرے کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ باعث ثواب ہوگا۔

【5】

صحت وتندرستی کی حالت میں صدقہ کرنیکی فضیلت

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کا اپنی زندگی میں (جب تندرست ہو) ایک درہم خیرات کردینا اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سو درہم خیرات کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٠٧١) (ضعیف) (اس کے راوی شرحبیل آخر عمر میں مختلط ہوگئے تھے )

【6】

وصیت سے کسی کو نقصان پہنچانا مکروہ ہے

ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مرد اور عورت دونوں ساٹھ برس تک اللہ کی اطاعت کے کام میں لگے رہتے ہیں، پھر جب انہیں موت آنے لگتی ہے، تو وہ غلط وصیت کر کے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں (کسی کو محروم کردیتے ہیں، کسی کا حق کم کردیتے ہیں) تو ان کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے ۔ شہر بن حوشب کہتے ہیں : اس موقع پر ابوہریرہ (رض) نے آیت کریمہ من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار پڑھی یہاں تک کہ ذلک الفوز العظيم پر پہنچے۔ یعنی (اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو، یہ مقرر کیا ہوا اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ النساء : ١١، ١٢) ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ یعنی اشعت بن جابر، نصر بن علی کے دادا ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الوصایا ٢ (٢١١٧) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٣ (٢٧٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٨) (ضعیف) (اس کے راوی شہر بن حوشب ضعیف ہیں )

【7】

وصی بننا کیسا ہے؟

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے ابوذر ! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی بننا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کی روایت کرنے میں اہل مصر منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤ (١٨٢٥) ، سنن النسائی/الوصایا ٩ (٣٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح یتیم کے مال کا ولی بننا اور لوگوں پر حاکم بننا ایک مشکل کام ہے اور خوف کا باعث ہے اسی طرح وصیت کرنے والے کا وصی بننا بھی ایک مشکل عمل اور باعث خوف ہے۔

【8】

والدین اور دسرے عزیزوں کے حق میں وصیت کا منسوخ ہونا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ : إن ترک خيرا الوصية للوالدين والأقربين اگر مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے (سورۃ البقرہ : ١٨٠) ، وصیت اسی طرح تھی (جیسے اس آیت میں مذکور ہے) یہاں تک کہ میراث کی آیت نے اسے منسوخ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الوصایا ٢٨ (٣٣٠٦) (حسن صحیح )

【9】

وار ثت کیلئے وصیّت کرنا درست نہیں

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : کہ اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ١ ؎ لہٰذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الوصایا ٥ (٢١٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٦ (٢٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٧) ، ویأتي ہذا الحدیث برقم : ٣٥٦٥ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آیت میراث نازل فرما کر اس کا حصہ مقرر کردیا ہے۔

【10】

یتیم کا کھانا اپنے کھانے کے ساتھ شریک کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں جب اللہ عزوجل نے آیت کریمہ : ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہے (سورۃ الانعام : ١٥٢) : اور إن الذين يأکلون أموال اليتامى ظلما جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں (سورۃ النساء : ١٠) نازل فرمائی تو جن لوگوں کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا کھانا اپنے کھانے سے اور ان کا پانی اپنے پانی سے جدا کردیا تو یتیم کا کھانا بچ رہتا یہاں تک کہ وہ اسے کھاتا یا سڑ جاتا، یہ امر لوگوں پر شاق گزرا تو انہوں نے اس بات کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو اللہ نے یہ آیت ويسألونک عن اليتامى قل إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانکم اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں (سورۃ البقرہ : ٢٢٠) اتاری تو لوگوں نے اپنا کھانا پینا ان کے کھانے پینے کے ساتھ ملا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الوصایا ١٠ (٣٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٩) (حسن )

【11】

یتیم کے متولی کو اس کے مال سے کس قدر لینے کا حق حاصل ہے؟

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ ایک یتیم میرے پاس ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ، لیکن فضول خرچی نہ کرنا، نہ جلد بازی دکھانا (اس کے بڑے ہوجانے کے ڈر سے) نہ اس کے مال سے کما کر اپنا مال بڑھانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الوصایا ١٠(٣٦٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٩ (٢٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٦، ٢١٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے بقدر تم کھاؤ ، نہ کہ فضول خرچی کرو، یا یہ خیال کر کے یتیم بڑا ہوجائے گا تو مال نہ مل سکے گا جلدی جلدی خرچ کر ڈالو، یا اس میں سے اپنے لئے جمع کرلو۔

【12】

یتیم کتنی عمر کے بچہ کو کہا جاتا ہے

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سن کر یاد رکھی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں (یعنی جب جوان ہوگیا تو یتیم نہیں رہا) اور نہ دن بھر رات کے آنے تک خاموشی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی عبادت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ خاموشی کا روزہ رکھتے اور دوران خاموشی کسی سے بات نہیں کرتے تھے ، اسلام نے اس طریقہ عبادت سے منع کردیا ہے۔

【13】

یتیم کا مال کھانے کی سخت وعید

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات تباہ و برباد کردینے والی چیزوں (کبیرہ گناہوں) سے بچو ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، ناحق کسی کو جان سے مارنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، اور لڑائی کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنا، اور پاک باز اور عفت والی بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالغیث سے مراد سالم مولی ابن مطیع ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٣ (٢٧٦٦) ، والطب ٤٨ (٥٧٦٤) ، والحدود ٤٤ (٦٨٥٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٨٩) ، سنن النسائی/الوصایا ١١ (٣٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٥) (صحیح )

【14】

یتیم کا مال کھانے کی سخت وعید

عمیر بن قتادۃ لیثی (رض) (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ نو ہیں ١ ؎، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر بیان ہوئی، اور اس میں : مسلمان ماں باپ کی نافرمانی، اور بیت اللہ جو کہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے کی حرمت کو حلال سمجھ لینے کا اضافہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المحاریة ٣ (٤٠١٧) (وعندہ : ” تسع “ )، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ان کے علاوہ اور بھی متعدد کبیرہ گناہ ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے۔

【15】

کفن کا کپڑا بھی مردہ کے مال میں داخل ہے

خباب (رض) کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر (رض) احد کے دن قتل کردیے گئے، اور ان کے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہ تھا، جب ہم ان کا سر ڈھانکتے تو ان کے دونوں پاؤں کھل جاتے اور جب دونوں پاؤں ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر اذخر ڈال دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٧ (١٢٧٦) ، مناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٧) ، المغازي ١٧ (٤٠٤٥) ، ٢٦ (٤٠٨٢) ، الرقاق ٧ (٦٤٣٢) ، ١٦ (٦٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤٠) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٤ (٣٨٥٣) ، سنن النسائی/الجنائز ٤٠ (١٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٢، ٦/٣٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اذخر بلاد عرب میں ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے جو بہت سی ضرورتوں میں استعمال کی جاتی ہے۔

【16】

ایک شخص کوئی چیز ہبہ کردے اور پھر اسی چیز کو وصیت یا میراث کے ذریعہ پائے

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آ کر کہا : میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی ہبہ کی تھی، اب وہ مرگئیں اور لونڈی چھوڑ گئیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا ثواب بن گیا اور تمہیں تمہاری لونڈی بھی میراث میں واپس مل گئی ، پھر اس نے عرض کیا : میری ماں مرگئی، اور اس پر ایک مہینے کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے قضاء کروں تو کافی ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ١ ؎، پھر اس نے کہا : اس نے حج بھی نہیں کیا تھا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں تو اس کے لیے کافی ہوگا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں (کر لو) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض اہل علم کا خیال ہے کہ میت کی طرف سے روزہ رکھا جاسکتا ہے جب کہ علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ بدنی عبادت میں نیابت درست نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ نماز میں کسی کی طرف سے نیابت نہیں کی جاتی، البتہ جن چیزوں میں نیابت کی تصریح ہے ان میں نیابت درست ہے جیسے روزہ و حج وغیرہ۔

【17】

وقف کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کو خیبر میں ایک زمین ملی، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے ایک ایسی زمین ملی ہے، مجھے کبھی کوئی مال نہیں ملا تو اس کے متعلق مجھے آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو زمین کی اصل (ملکیت) کو روک لو اور اس کے منافع کو صدقہ کر دو ١ ؎، عمر (رض) نے ایسا ہی کیا کہ نہ زمین بیچی جائے گی، نہ ہبہ کی جائے گی، اور نہ میراث میں تقسیم ہوگی (بلکہ) اس سے فقراء، قرابت دار، غلام، مجاہدین اور مسافر فائدہ اٹھائیں گے۔ بشر کی روایت میں مہمان کا اضافہ ہے ، باقی میں سارے راوی متفق ہیں : جو اس کا والی ہوگا دستور کے مطابق اس کے منافع سے اس کے خود کھانے اور دوستوں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں جب کہ وہ مال جمع کر کے رکھنے والا نہ ہو ۔ بشر کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ محمد (ابن سیرین) کہتے ہیں : مال جوڑنے والا نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشروط ١٩ (٢٧٣٧) ، والوصایا ٢٢ (٢٧٦٤) ، ٢٨ (٢٧٧٢) ، ٣٢ (٢٧٧٧) ، صحیح مسلم/الوصایا ٤ (١٦٣٢) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٦ (١٣٧٥) ، سنن النسائی/الإحب اس ١ (٣٦٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٤ (٢٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٥، ١٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ پہلا اسلامی وقف ہے جس کی ابتداء عمر (رض) کی ذات سے ہوئی۔

【18】

وقف کا بیان

یحییٰ بن سعید سے عمر بن خطاب (رض) کے صدقہ کے متعلق روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عبدالحمید بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نے مجھے عمر بن خطاب (رض) کے صدقے کی کتاب نقل کر کے دی، اس میں یوں لکھا ہوا تھا : بسم الله الرحمن الرحيم ، یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ کے بندے عمر نے ثمغ (اس مال یا باغ کا نام ہے جس کو عمر (رض) نے مدینہ یا خیبر میں وقف کیا تھا) کے متعلق لکھا ہے ، پھر وہی تفصیل بیان کی جو نافع کی حدیث میں ہے اس میں ہے : مال جوڑنے والے نہ ہوں، جو پھل اس سے گریں وہ مانگنے اور نہ مانگنے والے فقیروں اور محتاجوں کے لیے ہیں ، راوی کہتے ہیں : اور انہوں نے پورا قصہ بیان کیا، اور کہا کہ : ثمغ کا متولی پھلوں کے بدلے (باغ کے) کام کاج کے لیے غلام خریدنا چاہے تو اس کے پھل سے خرید سکتا ہے ، معیقیب نے اسے لکھا اور عبداللہ بن ارقم نے اس بات کی یوں گواہی دی۔ بسم الله الرحمن الرحيم ، یہ وہ وصیت نامہ ہے جس کی اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر (رض) نے وصیت کی اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آجائے (یعنی مرجاؤں) تو ثمغ اور صرمہ بن اکوع اور غلام جو اس میں ہے اور خیبر کے میرے سو حصے اور جو غلام وہاں ہیں اور میرے سو وہ حصے جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے خیبر سے قریب کی وادی میں دیئے تھے ان سب کی متولیہ تاحیات حفصہ رہیں گی، حفصہ کے بعد ان کے اہل میں سے جو صاحب رائے ہوگا وہ متولی ہوگا لیکن کوئی چیز نہ بیچی جائے گی، نہ خریدی جائے گی، سائل و محروم اور اقرباء پر ان کی ضروریات کو دیکھ کر خرچ کیا جائے گا، ان کا متولی اگر اس میں سے کھائے یا کھلائے یا ان کی حفاظت و خدمت کے لیے ان کی آمدنی سے غلام خرید لے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٩) (صحیح) (بطور وجادہ کے یہ روایت صحیح ہے ، وجادہ کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کی کتاب میں ایسا لکھا ہوا پایا، وجادہ کے راوی اگر ثقہ ہوں اور صاحب تحریر کی تحریر پہچانتے ہوں تو ایسی روایت بھی صحیح ہوتی ہے )

【19】

میت کی طرف سے جو صدقہ ہوگا اس کا ثواب میت کو پہنچے گا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے) : ایک صدقہ جاریہ ١ ؎، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ٢ ؎، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٠٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الوصایا ٣ (١٦٣١) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٦ (١٣٧٦) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨١) ، مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٥٠، ٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسی خیرات جس کا فائدہ ہمیشہ جاری رہے مثلا مسجد ، مدرسہ ، کنواں وغیرہ۔ ٢ ؎ : مثلاً دینی تعلیم دینا ، کتاب و سنت کے مطابق کتابیں و تفسیریں وغیرہ لکھ جانا۔

【20】

جو شخص وصیت کیے بغیر مرجائے اس کی طرف سے صدقہ دینا

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : میری ماں اچانک انتقال کر گئیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں اور (اللہ کی راہ میں) دیتیں، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو یہ انہیں کفایت کرے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں تو ان کی طرف سے صدقہ کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٩٦٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٥ (١٠٠٤) ، الوصیة ٢ (١٦٣٠) ، سنن النسائی/الوصایا ٧ (٣٦٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٨ (٢٧١٧) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٤١ (٥٣) ، مسند احمد (٦/٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس بات پر علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ صدقے اور دعا کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔

【21】

جو شخص وصیت کیے بغیر مرجائے اس کی طرف سے صدقہ دینا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، کیا اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو انہیں فائدہ پہنچے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں (پہنچے گا) ، اس نے کہا : میرے پاس کھجوروں کا ایک باغ ہے، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٠ (٢٧٧٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٣ (٦٦٩) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٠) (صحیح )

【22】

جو شخص وصیت کیے بغیر مرجائے اس کی طرف سے صدقہ دینا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تو اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے، اس کے بعد اس کے (دوسرے) بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ باقی پچاس وہ اس کی طرف سے آزاد کردیں، پھر انہوں نے کہا : (ہم رکے رہے) یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیں، چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی تو ہشام نے اس کی طرف سے پچاس غلام آزاد کردیئے ہیں، اور پچاس غلام ابھی آزاد کرنے باقی ہیں تو کیا میں انہیں اس کی طرف سے آزاد کر دوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ (باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن جب وہ کافر مرا ہے اور کافر کا کوئی عمل اللہ کے یہاں مقبول نہیں لہٰذا اس کی طرف سے تمہارے غلام آزاد کرنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں۔

【23】

اگر کوئی شخص قرض داری کی حالت میں وفات پا جائے اور اسکا مال موجود ہو تو اس کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلوائی جائیگی

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر (رض) نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کردیا، تو آپ نے نبی اکرم ﷺ سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کردیں، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : اچھا جابر کو مہلت دے دو ، اس نے اس سے بھی انکار کیا، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥١ (٢١٢٧) ، الاستقراض ٨ (٢٣٩٥) ، ٩ (٢٣٩٦) ، ١٨ (٢٤٠٥) ، الھبة ٢١ (٢٦٠١) ، الصلح ١٣ (٢٧٠٩) ، الوصایا ٣٦ (٢٧٨١) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨٠) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٣) ، سنن النسائی/الوصایا ٤ (٣٦٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٢٠ (٢٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پھر رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے جابر (رض) کے باغ کے کھجوروں کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کرنا شروع کردیا، بفضل الٰہی سب کا قرضہ اداء ہوگیا اور کھجوروں کا ڈھیر ویسا ہی رہا ، یہ آپ کا معجزہ تھا۔