16. فرائض کا بیان

【1】

علم الفرائض سیکھنے کی فضیلت کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اصل) علم تین ہیں اور ان کے علاوہ علوم کی حیثیت فضل (زائد) کی ہے : آیت محکمہ ٢ ؎، یا سنت قائمہ ٣ ؎، یا فریضہ عادلہ ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٨ (٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧٦) (ضعیف) (اس کے راوی دونوں عبد الرحمن ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : فرائض فریضہ کی جمع ہے یعنی اللہ کے مقرر کردہ حصے۔ ٢ ؎ : یعنی غیر منسوخ قرآن کا علم۔ ٣ ؎ : یعنی صحیح احادیث کا علم۔ ٤ ؎: فرائض کا علم، جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے۔

【2】

کلالہ کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں میں بیمار ہوا تو نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر (رض) مجھے دیکھنے کے لیے پیدل چل کر آئے، مجھ پر غشی طاری تھی اس لیے آپ ﷺ سے بات نہ کرسکا تو آپ نے وضو کیا اور وضو کے پانی کا مجھ پر چھینٹا مارا تو مجھے افاقہ ہوا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنا مال کیا کروں اور بہنوں کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، اس وقت میراث کی آیت يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (سورۃ النساء : ١٧٦) ، اتری ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر النساء ٢٧ (٤٦٠٥) ، المرضی ٥ (٥٦٥١) ، الفرائض ١٣ (٦٧٤٣) ، صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٦) ، سنن الترمذی/الفرائض ٧ (٢٠٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٥ (٢٧٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الطھارة ٥٦ (٧٦٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کلالہ : ایسا شخص جو نہ باپ چھوڑے نہ کوئی اولاد، اس کے سلسلہ میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی مرجائے اور اس کی اپنی کوئی اولاد نہ ہو صرف ایک بہن ہو تو آدھا مال لے گی، دو ہوں تو ثلث لے لیں گی، اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا اخیر تک۔

【3】

جس کی صرف بہنیں ہوں اور اولاد نہ ہو اس کا حکم

جابر (رض) کہتے ہیں میں بیمار ہوا اور میرے پاس سات بہنیں تھیں، رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے اور میرے چہرے پر پھونک ماری تو مجھے ہوش آگیا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی بہنوں کے لیے ثلث مال کی وصیت نہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نیکی کرو ، میں نے کہا آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نیکی کرو ، پھر آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا : جابر ! میرا خیال ہے تم اس بیماری سے نہیں مرو گے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام اتارا ہے اور تمہاری بہنوں کا حصہ بیان کردیا ہے، ان کے لیے دو ثلث مقرر فرمایا ہے ۔ جابر کہا کرتے تھے کہ یہ آیت يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة میرے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٩٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٦٣٢٥) ، مسند احمد (٣/٣٧٢) (صحیح )

【4】

جس کی صرف بہنیں ہوں اور اولاد نہ ہو اس کا حکم

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کلالہ کے سلسلے میں آخری آیت جو نازل ہوئی ہے وہ : يستفتونک قل الله يفتيكم في الکلالة ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦٦ (٤٣٦٤) ، والتفسیر ٢٧ (٤٦٠٥) ، ٣ (٤٦٥٦) ، والفرائض ١٤ (٦٧٤٤) ، صحیح مسلم/الفرائض ٣ (١٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء ٢٧ (٤٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جو سورة نساء کے اخیر میں ہے۔

【5】

جس کی صرف بہنیں ہوں اور اولاد نہ ہو اس کا حکم

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول !يستفتونک في الکلالة میں کلالہ سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : آیت صيف ١ ؎ تمہارے لیے کافی ہے۔ ابوبکر کہتے ہیں : میں نے ابواسحاق سے کہا : کلالہ وہی ہے نا جو نہ اولاد چھوڑے نہ والد ؟ انہوں نے کہا : ہاں، لوگوں نے ایسا ہی سمجھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفرائض ٢ عن عمر (١٦١٧) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء ٢٧ (٣٠٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٩٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٣، ٢٩٥، ٣٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سورة نساء کا آخری حصہ گرمی کے زمانہ میں نازل ہوا ہے اس لئے اسے آیت صيف کہا جاتا ہے۔

【6】

اولاد کی میراث کا بیان یعنی بیٹا بیٹی اور پوتا پوتی کی میراث کا بیان

ہزیل بن شرحبیل اودی کہتے ہیں ایک شخص ابوموسیٰ اشعری (رض) اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن (یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پوتی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پوچھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتائی تو انہوں نے کہا : تب تو میں بھٹکا ہوا ہوں گا اور راہ یاب لوگوں میں سے نہ ہوں گا، لیکن میں تو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور وہ یہ کہ بیٹی کا آدھا ہوگا اور پوتی کا چھٹا حصہ ہوگا دو تہائی پورا کرنے کے لیے (یعنی جب ایک بیٹی نے آدھا پایا تو چھٹا حصہ پوتی کو دے کر دو تہائی پورا کردیں گے) اور جو باقی رہے گا وہ سگی بہن کا ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٨ (٦٧٣٦) ، سنن الترمذی/الفرائض ٤ (٢٠٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٢ (٢٧٢١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٢٨، ٤٤٠، ٤٦٣) ، سنن الدارمی/الفرائض ٧ (٢٩٣٢) (صحیح )

【7】

اولاد کی میراث کا بیان یعنی بیٹا بیٹی اور پوتا پوتی کی میراث کا بیان

اسود بن یزید کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) نے بہن اور بیٹی میں اس طرح ترکہ تقسیم کیا کہ آدھا مال بیٹی کو ملا اور آدھا بہن کو (کیونکہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہے) اور وہ یمن میں تھے، اور اللہ کے نبی کریم ﷺ اس وقت باحیات تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٦، ١٢ (٦٧٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الفرائض ٤ (٢٩٢١) (صحیح )

【8】

اولاد کی میراث کا بیان یعنی بیٹا بیٹی اور پوتا پوتی کی میراث کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو اسواف (مدینہ کے حرم) میں ایک انصاری عورت کے پاس پہنچے، وہ عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر آئی، اور کہنے لگی : اللہ کے رسول ! یہ دونوں ثابت بن قیس (رض) کی بیٹیاں ہیں، جو جنگ احد میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا سارا مال اور میراث لے لیا، ان کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا، اب آپ کیا فرماتے ہیں ؟ اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! ان کا نکاح نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان کے پاس مال نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ فرمائے گا ، پھر سورة نساء کی یہ آیتیں يوصيكم الله في أولادکم نازل ہوئیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس عورت کو اور اس کے دیور کو بلاؤ ، تو آپ ﷺ نے ان دونوں لڑکیوں کے چچا سے کہا : دو تہائی مال انہیں دے دو ، اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دو ، اور جو انہیں دینے کے بعد بچا رہے وہ تمہارا ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس میں بشر نے غلطی کی ہے، یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی تھیں، ثابت بن قیس (رض) تو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ٣ (٢٠٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٢ (٢٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٢) (حسن) (اس روایت میں ثابت بن قیس کا تذکرہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : لہذا مسئلہ (٢٤) سے ہوگا، (١٦) دونوں بیٹیوں کے اور (٣) ان کی ماں کے اور (٥) ان کے چچا کے ہوں گے۔

【9】

اولاد کی میراث کا بیان یعنی بیٹا بیٹی اور پوتا پوتی کی میراث کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی عورت نے کہا : اللہ کے رسول ! سعد مرگئے اور دو بیٹیاں چھوڑ گئے ہیں، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٥) (حسن )

【10】

دادی اور نانی کی میراث کا بیان

قبیصہ بن ذویب کہتے ہیں کہ میت کی نانی ابوبکر صدیق (رض) کے پاس میراث میں اپنا حصہ دریافت کرنے آئی تو انہوں نے کہا : اللہ کی کتاب (قرآن پاک) میں تمہارا کچھ حصہ نہیں ہے، اور مجھے نبی اکرم ﷺ کی سنت میں بھی تمہارے لیے کچھ نہیں معلوم، تم جاؤ میں لوگوں سے دریافت کر کے بتاؤں گا، پھر انہوں نے لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، آپ نے اسے چھٹا حصہ دلایا ہے، اس پر ابوبکر (رض) نے کہا : کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے (جو اس معاملے کو جانتا ہو) تو محمد بن مسلمہ (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی وہی بات کہی جو مغیرہ (رض) نے کہی تھی، تو ابوبکر (رض) نے اس کے لیے اسی کو نافذ کردیا، پھر عمر (رض) کی خلافت میں دادی عمر (رض) کے پاس اپنا میراث مانگنے آئی، عمر (رض) نے کہا : اللہ کی کتاب (قرآن) میں تمہارے حصہ کا ذکر نہیں ہے اور پہلے (رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کے زمانہ میں) جو حکم ہوچکا ہے وہ نانی کے معاملے میں ہوا ہے، میں اپنی طرف سے فرائض میں کچھ بڑھا نہیں سکتا، لیکن وہی چھٹا حصہ تم بھی لو، اگر نانی بھی ہو تو تم دونوں ( سدس ) کو بانٹ لو اور جو تم دونوں میں اکیلی ہو (یعنی صرف نانی یا صرف دادی) تو اس کے لیے وہی چھٹا حصہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٠ (٢١٠١) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٤ (٢٧٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٢، ١١٥٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الفرائض ٨ (٤) ، مسند احمد (٤/٢٢٥) (ضعیف) (اس کی سند میں قبیصہ اور ابوبکر صدیق کے درمیان انقطاع ہے )

【11】

دادی اور نانی کی میراث کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نانی کا چھٹا حصہ مقرر فرمایا ہے اگر ماں اس کے درمیان حاجب نہ ہو (یعنی اگر میت کی ماں زندہ ہوگی تو وہ نانی کو حصے سے محروم کر دے گی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٨٥) (ضعیف) (اس کے راوی عبیداللہ کے بارے میں کلام ہے )

【12】

داداکی میراث کا بیان

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : میرا پوتا مرگیا ہے، مجھے اس کی میراث سے کیا ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے چھٹا حصہ ہے ، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا : تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصہ ہے ، جب وہ واپس ہونے لگا تو آپ ﷺ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا : یہ دوسرا سدس تمہارے لیے تحفہ ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں : معلوم نہیں دادا کو کس کے ساتھ سدس حصہ دار بنایا ؟۔ قتادہ کہتے ہیں : سب سے کم حصہ جو دادا پاتا ہے وہ سدس ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ٩ (٢٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٨، ٤٣٦) (ضعیف) (اس کے رواة قتادة اور حسن مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، نیز حسن کے عمران بن حصین (رض) سے سماع میں بھی سخت اختلاف ہے )

【13】

داداکی میراث کا بیان

حسن بصری کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے دادا کو ترکے میں سے جو دلایا ہے اسے تم میں کون جانتا ہے ؟ معقل بن یسار (رض) نے کہا : میں (جانتا ہوں) رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھٹا حصہ دلایا ہے، انہوں نے پوچھا : کس وارث کے ساتھ ؟ وہ کہنے لگے : یہ تو معلوم نہیں، اس پر انہوں نے کہا : تمہیں پوری بات معلوم نہیں پھر کیا فائدہ تمہارے جاننے کا ؟۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الکبری (٦٣٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٣ (٢٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧) (صحیح) (حسن بصری کا عمر (رض) سے سماع نہیں ہے، لیکن دوسرے طرق اور شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٨ ؍ ٢٥١ )

【14】

عصبات کی میراث کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذوی الفروض ١ ؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٥ (٦٧٣٢) ، صحیح مسلم/الفرائض ١ (١٦١٥) ، سنن الترمذی/الفرائض ٨ (٢٠٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٠ (٢٧٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٢، ٣١٣، ٣٢٥) ، سنن الدارمی/الفرائض ٢٨ (٣٠٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ذوی الفروض : وہ وارثین ہیں جن کے حصے کتاب اللہ میں مقرر ہیں۔ ٢ ؎ : جیسے بھائی چچا کے بہ نسبت اور چچا زاد بھائی کی بہ نسبت اور بیٹا پوتے کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہے۔

【15】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

مقدام (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بوجھ (قرضہ یا بال بچے) چھوڑ جائے تو وہ میری طرف ہے، اور کبھی راوی نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ٢ ؎ اور جو مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا میں وارث ہوں، میں اس کی طرف سے دیت دوں گا اور اس شخص کا ترکہ لوں گا، ایسے ہی ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کی دیت دے گا اور اس کا وارث ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفرائض ٩ (٢٧٣٨) ، والدیات ٧ (٢٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١، ١٣٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : میت کا ایسا رشتہ دار جو نہ ذوی الفروض میں سے ہو اور نہ عصبہ میں سے۔ ٢ ؎ : یعنی میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اس کی اولاد کی خبر گیری کروں گا۔

【16】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

مقدام کندی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ہر مسلمان سے اس کی ذات کی نسبت قریب تر ہوں، جو کوئی اپنے ذمہ قرض چھوڑ جائے یا عیال چھوڑ جائے تو اس کا قرض ادا کرنا یا اس کے عیال کی پرورش کرنا میرے ذمہ ہے، اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا حق ہے، اور جس کا کوئی والی نہیں اس کا والی میں ہوں، میں اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور میں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور جس کا کوئی والی نہیں، اس کا ماموں اس کا والی ہے (یہ) اس کے مال کا وارث ہوگا اور اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس روایت کو زبیدی نے راشد بن سعد سے، راشد نے ابن عائذ سے، ابن عائذ نے مقدام سے روایت کیا ہے اور اسے معاویہ بن صالح نے راشد سے روایت کیا ہے اس میں عن المقدام کے بجائے سمعت المقدام ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ضيعة کے معنی عیال کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٩) (حسن صحیح )

【17】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

مقدام (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث میں ہوں اس کے قیدیوں کو چھڑاؤں گا، اور اس کے مال کا وارث ہوں گا، اور ماموں اس کا وارث ہے ١ ؎ جس کا کوئی وارث نہیں وہ اس کے قیدیوں کو چھڑائے گا، اور اس کے مال کا وارث ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٧٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنے بھانجے کا۔

【18】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک غلام مرگیا، کچھ مال چھوڑ گیا اور کوئی وارث نہ چھوڑا، نہ کوئی اولاد، اور نہ کوئی عزیز، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کا ترکہ اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سفیان کی روایت سب سے زیادہ کامل ہے، مسدد کی روایت میں ہے : نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : یہاں کوئی اس کا ہم وطن ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا ترکہ اس کو دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٣ (٢١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٧ (٢٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧، ١٧٤، ١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وہ ترکہ آپ کا حق تھا مگر آپ نے اس کے ہم وطن پر اسے صدقہ کردیا، امام کو ایسا اختیار ہے اس میں کوئی مصلحت ہی ہوگی۔

【19】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : قبیلہ ازد کے ایک آدمی کا ترکہ میرے پاس ہے اور مجھے کوئی ازدی مل نہیں رہا ہے جسے میں یہ ترکہ دے دوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک سال تک کسی ازدی کو تلاش کرتے رہو ۔ وہ شخص پھر ایک سال بعد آپ ﷺ کے پاس آیا اور بولا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ازدی نہیں ملا کہ میں اسے ترکہ دے دیتا آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ کسی خزاعی ہی کو تلاش کرو، اگر مل جائے تو مال اس کو دے دو ، جب وہ شخص پیٹھ پھیر کر چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا : آدمی کو میرے پاس بلا کے لاؤ ، جب وہ آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : دیکھو جو شخص خزاعہ میں سب سے بڑا ہو اس کو یہ مال دے دینا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” جبریل بن احمر “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ جو سب سے بڑا ہوگا وہ اپنے جد اعلیٰ سے زیادہ قریب ہوگا اور جو اپنے جد اعلیٰ سے قریب ہوگا ازد سے بھی زیادہ قریب ہوگا کیونکہ خزاعہ ازد ہی کی ایک شاخ ہے۔

【20】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں خزاعہ (قبیلہ) کے ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اس کی میراث رسول اللہ ﷺ کے پاس لائی گئی تو آپ نے فرمایا : اس کا کوئی وارث یا ذی رحم تلاش کرو تو نہ اس کا کوئی وارث ملا، اور نہ ہی کوئی ذی رحم، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خزاعہ میں سے جو بڑا ہو اسے میراث دیدو ۔ یحییٰ کہتے ہیں : ایک بار میں نے شریک سے سنا وہ اس حدیث میں یوں کہتے تھے : دیکھو جو شخص خزاعہ میں سب سے بڑا ہو اسے دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٥) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اوپری نسب میں خزاعہ سے نزدیک ہو۔

【21】

ذوی الارحام کی میراث کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مرگیا اور ایک غلام کے سوا جسے وہ آزاد کرچکا تھا کوئی وارث نہ چھوڑا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا کوئی اس کا وارث ہے ؟ لوگوں نے کہا : کوئی نہیں سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کردیا تھا تو آپ ﷺ نے اسی کو اس کا ترکہ دلا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٤ (٢١٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١١ (٢٧٤١) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢١، ٣٥٨) (ضعیف) (اس کے راوی عوسجہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتق ( آزاد کیا ہوا) بھی وارث ہوتا ہے جب آزاد کرنے والے کا کوئی اور وارث نہ ہو، لیکن جمہور اس کے خلاف ہیں اور حدیث بھی ضعیف ہے۔

【22】

جس عورت سے لعان ہو اس کے بچہ کی میراث کا بیان

واثلہ بن اسقع (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : عورت تین شخص کی میراث سمیٹ لیتی ہے : اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی، راہ میں پائے ہوئے بچے کی، اور اپنے اس بچے کی جس کے سلسلہ میں لعان ہوا ہو (یعنی جس کے نسب سے شوہر منکر ہوگیا ہو) تو عورت اس کی وارث ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ٢٣ (٢١١٥) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٢ (٢٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٠، ٤/١٠٦) (ضعیف) (اس کے راوی عمر بن رؤبة ضعیف ہیں )

【23】

جس عورت سے لعان ہو اس کے بچہ کی میراث کا بیان

مکحول کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے لعان والی عورت کے بچے کی میراث اس کی ماں کو دلائی ہے پھر اس کی ماں کے بعد ماں کے وارثوں کو دلائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٧١) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الفرائض ٢٤ (٣٠١٠) (صحیح) (اگلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ یہ مرسل روایت ہے کیونکہ مکحول تابعی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ باپ کو اور اس کے وارثوں کو بچے سے واسطہ نہ رہا۔

【24】

جس عورت سے لعان ہو اس کے بچہ کی میراث کا بیان

اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٧١) (صحیح )

【25】

کیا مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے؟

اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٤٨ (٤٢٨٣) ، الفرائض ٢٦ (٦٧٦٤) ، صحیح مسلم/الفرائض (١٦١٤) ، سنن الترمذی/الفرائض ١٥ (٢١٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٦ (٢٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠١، ٢٠٨، ٢٠٩) (صحیح )

【26】

کیا مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے؟

اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے ؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی ۔ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خریدو فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں : خیف ایک وادی کا نام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٠١٠) (تحفة الأشراف : ١١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے چچا ابوطالب کی وفات کے وقت عقیل اسلام نہیں لائے تھے، اس لئے وہ ابوطالب کی میراث کے وارث ہوئے، جب کہ علی اور جعفر (رض) اسلام لانے کے سبب ابوطالب کی میراث کے حقدار نہ بن سکے۔

【27】

کیا مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے؟

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو دین والے (یعنی مسلمان اور کافر) کبھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٦ (٢١٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٦ (٢٧٣٢) ، مسند احمد (٢/١٧٨، ١٩٥) (حسن صحیح )

【28】

کیا مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے؟

عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ دو بھائی اپنا جھگڑا یحییٰ بن یعمر کے پاس لے گئے ان میں سے ایک یہودی تھا، اور ایک مسلمان، انہوں نے مسلمان کو میراث دلائی، اور کہا کہ ابوالاسود نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ ان سے ایک شخص نے بیان کیا کہ معاذ (رض) نے اس سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اسلام بڑھتا ہے گھٹتا نہیں ہے پھر انہوں نے مسلمان کو ترکہ دلایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٣١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٦) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی رجلا مبہم ہیں )

【29】

کیا مسلمان کسی کافر کا وارث ہوسکتا ہے؟

ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ معاذ (رض) کے پاس ایک یہودی کا ترکہ لایا گیا جس کا وارث ایک مسلمان تھا، اور اسی مفہوم کی حدیث انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٣١٨) (ضعیف )

【30】

میراث تقسیم ہونے سے پہلے اگر وارث مسلمان ہو جائے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں جو ترکہ تقسیم ہوگیا ہو وہ زمانہ اسلام میں بھی اسی حال پر باقی رہے گا، اور جو ترکہ اسلام کے زمانہ تک تقسیم نہیں ہوا تو اب اسلام کے آجانے کے بعد اسلام کے قاعدہ و قانون کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الرھن ٢١ (٢٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٨٣) (صحیح )

【31】

ولا کا بیان (آزاد کردہ غلام کا ترکہ)

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ١ ؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ (رض) نے اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : یہ خریدنے میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٣ (٢١٦٩) ، والمکاتب ٢ (٢٥٦٢) ، والفرائض ١٩ (٦٧٥٢) ، صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن النسائی/البیوع ٧٦ (٤٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العتق ١٠ (١٨) ، مسند احمد (٢/٢٨، ١١٣، ١٥٣، ١٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔

【32】

ولا کا بیان (آزاد کردہ غلام کا ترکہ)

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولاء اس شخص کا حق ہے جو قیمت دے کر خرید لے اور احسان کرے (یعنی خرید کر غلام کو آزاد کر دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٢٠ (٦٧٦٠) ، سنن النسائی/الطلاق ٣٠ (٣٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٢، ١٥٩٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/العتق ٢٠ (١٥٠٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٣ (٢١٢٦) ، مسند احمد (٦/١٧٠، ١٨٦، ١٨٩) (صحیح )

【33】

ولا کا بیان (آزاد کردہ غلام کا ترکہ)

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رئاب بن حذیفہ نے ایک عورت سے شادی کی، اس کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے، پھر لڑکوں کی ماں مرگئی، اور وہ لڑکے اپنی ماں کے گھر کے اور اپنی ماں کے آزاد کئے ہوئے غلاموں کی ولاء کے مالک ہوئے، اور عمرو بن العاص (رض) ان لڑکوں کے عصبہ (یعنی وارث) ہوئے اس کے بعد عمرو بن العاص (رض) نے انہیں شام کی طرف نکال دیا، اور وہ وہاں مرگئے تو عمرو بن العاص (رض) آئے اور اس عورت کا ایک آزاد کیا ہوا غلام مرگیا اور مال چھوڑ گیا تو اس عورت کے بھائی عمر بن خطاب (رض) کے پاس اس عورت کے ولاء کا مقدمہ لے گئے، عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ولاء اولاد یا باپ حاصل کرے تو وہ اس کے عصبوں کو ملے گی خواہ کوئی بھی ہو (اولاد کے یا باپ کے مرجانے کے بعد ماں کے وارثوں کو نہ ملے گی) پھر عمر (رض) نے اس باب میں ایک فیصلہ نامہ لکھ دیا اور اس پر عبدالرحمٰن بن عوف اور زید بن ثابت (رض) اور ایک اور شخص کی گواہی ثابت کردی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو پھر ان لوگوں نے جھگڑا کیا یہ لوگ اپنا مقدمہ ہشام بن اسماعیل یا اسماعیل بن ہشام کے پاس لے گئے انہوں نے عبدالملک کے پاس مقدمہ کو بھیج دیا، عبدالملک نے کہا : یہ فیصلہ تو ایسا لگتا ہے جیسے میں اس کو دیکھ چکا ہوں۔ راوی کہتے ہیں پھر عبدالملک نے عمر بن خطاب (رض) کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا اور وہ ولاء اب تک ہمارے پاس ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفرائض ٧ (٢٧٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨١، ١٨٥٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧) (حسن )

【34】

جو شخص جس کے ہاتھ پر اسلام قبول کرے گا وہی اس کا وارث قرار پائے گا (بشرطیکہ اس کا کوئی وارث موجود نہ ہو)

تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس شخص کے بارے میں شرع کا کیا حکم ہے جو کسی مسلمان شخص کے ہاتھ پر ایمان لایا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص دوسروں کی بہ نسبت اس کی موت و حیات کے زیادہ قریب ہے (اگر اس کا کوئی اور وارث نہ ہو تو وہی وارث ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفرائض ٢٠ (٢١١٢) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٨ (٢٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٢، ١٠٣) ، سنن الدارمی/الفرائض ٣٤ (٣٠٧٦) (حسن صحیح )

【35】

ولا کی فروخت کا مسئلہ

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ العتق ١٠ (٢٥٣٥) ، الفرائض ٢١ (٦٧٥٦) ، صحیح مسلم/ العتق ٣ (١٥٠٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٠ (١٢٣٦) ، الولاء ١ (٢١٢٦) ، سنن النسائی/البیوع ٨٥ (٤٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٧١٨٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العتق والولاء ١٠ (٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ١٥ (٢٧٤٧) مسند احمد (٢/٩، ٧٩، ١٠٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٦ (٢٦١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حق ولاء کی بیع وہبہ جائز نہیں کیونکہ وہ بالفعل معدوم ہے۔

【36】

جو بچہ پیدا ہونے کے بعد روئے اور پھر مرجائے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب بچہ آواز کرے تو وراثت کا حقدار ہوجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پیدا ہونے کے بعد بچے میں زندگی کے آثار معلوم ہوں تو ازروئے شرع اس کی میراث ثابت ہوگئی۔

【37】

ناتہ کی میراث نے اقرار کی میراث کو موقوف کردیا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان : والذين عقدت أيمانکم فآتوهم نصيبهم جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو ان کا حصہ دے دو (سورۃ النساء : ٣٣) کے مطابق پہلے ایک شخص دوسرے شخص سے جس سے قرابت نہ ہوتی باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے وارث ہونے کا عہد و پیمان کرتا پھر ایک دوسرے کا وارث ہوتا، پھر یہ حکم سورة الانفال کی آیت :وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں (سورۃ الانفال : ٧٥) سے منسوخ ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦١) (حسن صحیح )

【38】

ناتہ کی میراث نے اقرار کی میراث کو موقوف کردیا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول : والذين عقدت أيمانکم فآتوهم نصيبهم کا قصہ یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو اس مواخات (بھائی چارہ) کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے انصار و مہاجرین کے درمیان کرا دی تھی وہ انصار کے وارث ہوتے (اور انصار ان کے وارث ہوتے) اور عزیز و اقارب وارث نہ ہوتے، لیکن جب یہ آیت ولکل جعلنا موالي مما ترك ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ کر مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کردیے ہیں (سورۃ النساء : ٣٣) نازل ہوئی تو والذين عقدت أيمانکم فآتوهم نصيبهم ‏‏‏‏ والی آیت کو منسوخ کردیا، اور اس کا مطلب یہ رہ گیا کہ ان کی اعانت، خیر خواہی اور سہارے کے طور پر جو چاہے کر دے نیز ان کے لیے وہ (ایک تہائی مال) کی وصیت کرسکتا ہے، میراث ختم ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکفالة ٢ (٢٢٩٢) ، تفسیر سورة النساء ٧ (٢٢٩٢) ، الفرائض ١٦ (٦٧٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٢٣) (صحیح )

【39】

ناتہ کی میراث نے اقرار کی میراث کو موقوف کردیا

داود بن حصین کہتے ہیں کہ میں ام سعد بنت ربیع سے (کلام پاک) پڑھتا تھا وہ ابوبکر صدیق (رض) کی زیر پرورش ایک یتیم بچی تھیں، میں نے اس آیت والذين عقدت أيمانکم کو پڑھا تو کہنے لگیں : اس آیت کو نہ پڑھو، یہ ابوبکر اور ان کے بیٹے عبدالرحمٰن (رض) کے متعلق اتری ہے، جب عبدالرحمٰن نے مسلمان ہونے سے انکار کیا تو ابوبکر (رض) نے قسم کھالی کہ میں ان کو وارث نہیں بناؤں گا پھر جب وہ مسلمان ہوگئے تو اللہ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ (ابوبکر (رض) سے کہیں) کہ وہ ان کا حصہ دیں۔ عبدالعزیز کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ عبدالرحمٰن تلوار کے دباؤ میں آ کر مسلمان ہوئے (یعنی جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جس نے عقدت کہا اس نے اس سے حلف اور جس نے عاقدت کہا اس نے اس سے حالف مراد لیا اور صحیح طلحہ کی حدیث ہے جس میں عاقدت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٢٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ منسوخ ہوگئی ہے یا کسی ایک شخص کے لئے مخصوص تھی، نہ پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ اس پر عمل نہ کرو۔

【40】

ناتہ کی میراث نے اقرار کی میراث کو موقوف کردیا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا : والذين، ‏‏‏‏ آمنوا وهاجروا ، والذين آمنوا ولم يهاجروا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی تو وہ ان کے وارث نہیں ہوں گے (سورۃ الانفال : ٧٢) تو اعرابی ١ ؎ مہاجر کا وارث نہ ہوتا اور نہ مہاجر اس کا وارث ہوتا اس کے بعد وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں (سورۃ الانفال : ٧٥) والی آیت سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٢) (حسن صحیح )

【41】

عہد وپیمان کا بیان

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (زمانہ کفر کی) کوئی بھی قسم اور عہد و پیمان کا اسلام میں کچھ اعتبار نہیں، اور جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں (بھلے کام کے لیے) تھا تو اسلام نے اسے مزید مضبوطی بخشی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٠ (٢٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کفار عرب کا دستور تھا کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا ہم حلیف ہوتا، اور ہر ایک دوسرے کا حق و ناحق میں مدد کرتا تھا، سو فرمایا کہ اسلام میں کفر کی قسم اور عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیں۔

【42】

عہد وپیمان کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمارے گھر میں انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ کرایا، تو ان (یعنی انس) سے کہا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا ہے کہ اسلام میں حلف (عہد و پیمان) نہیں ہے ؟ تو انہوں نے دو یا تین بار زور دے کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے گھر میں انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ کرایا ہے کہ وہ بھائیوں کی طرح مل کر رہیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکفالة ٢ (٢٢٩٤) ، والأدب ٦٧ (٦٠٨٣) ، والاعتصام ١٦ (٧٣٤٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٠ (٢٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣ /١١١، ١٤٥، ٢٨١) (صحیح )

【43】

عورت اپنے شوہر کی دیت سے حصہ پائے گی

سعید کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) پہلے کہتے تھے کہ دیت کنبہ والوں پر ہے، اور عورت اپنے شوہر کی دیت سے کچھ حصہ نہ پائے گی، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ اشیم ضبابی کی بیوی کو میں اس کے شوہر کی دیت میں سے حصہ دلاؤں، تو عمر (رض) نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ١ ؎۔ احمد بن صالح کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر کے واسطہ سے بیان کی ہے وہ اسے زہری سے اور وہ سعید سے روایت کرتے ہیں، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں (یعنی ضحاک کو) دیہات والوں پر عامل بنایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١٩ (١٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٢ (٢٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ آپ کو صحیح حدیث مل گئی، حدیث یا آیت کے مل جانے پر رائے اور قیاس پر اعتماد صحیح نہیں ہے، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کہ جن کی اتباع رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ضروری ہے ان کا یہ حال ہو کہ اپنی رائے و قیاس کو حدیث پہنچتے ہی چھوڑ دیں تو فقہاء و مجتہدین کی رائے کس شمار میں ہے۔