17. محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء
امام (حاکم) پر رعیت کے حقوق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار سن لو ! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہوگی ١ ؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہوگی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ٢ ؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا ومالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١١ (٨٩٣) ، والاستقراض ٢٠ (٢٤٠٩) ، والعتق ١٧ (٢٥٥٤) ، والوصایا ٩ (٢٧٥١) ، والنکاح ٨١ (٥٢٠٠) ، والأحکام ١ (٧١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥ (١٨٢٩) ، سنن الترمذی/الجھاد ٢٧ (١٥٠٧) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٤، ١١١، ١٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کہ تو نے کس طرح اپنی رعایا کی نگہبانی کی شریعت کے مطابق یا خلاف شرع۔ ٢ ؎ : کہ شوہر کے مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی اور اس کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی یا نہیں۔
حکومت طلب کرنے کی ممانعت
عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے عبدالرحمٰن بن سمرہ ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ١ ؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہوگی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١ (٦٦٢٢) ، وکفارات الأیمان ١٠ (٦٧٢٢) ، والأحکام ٥ (٧١٤٦) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥٢) ، سنن الترمذی/النذور ٥ (١٥٢٩) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٥ (٥٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦١، ٦٢، ٦٣) ، سنن الدارمی/النذور والأیمان ٩ (٢٣٩١) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (٣٢٧٧، ٣٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ معاملات کو سلجھانے و نمٹانے میں تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ ٢ ؎ : یعنی تم معاملات کو بہتر طور پر انجام دے سکو گے۔
حکومت طلب کرنے کی ممانعت
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں دو آدمیوں کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، ان میں سے ایک نے (اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی) گواہی دی پھر کہا کہ ہم آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ آپ ہم سے اپنی حکومت کے کام میں مدد لیجئے ١ ؎ دوسرے نے بھی اپنے ساتھی ہی جیسی بات کہی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہمارے نزدیک تم میں وہ شخص سب سے بڑا خائن ہے جو حکومت طلب کرے ۔ ابوموسیٰ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے معذرت پیش کی، اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں آدمی اس غرض سے آئے ہیں پھر انہوں نے ان سے زندگی بھر کسی کام میں مدد نہیں لی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/آداب القضاة ٤ (٥٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٣، ٤١١) (منکر ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہمیں عامل بنا دیجئے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجئے۔
نابینا شخص کو حاکم بنایا جاسکتا ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن ام مکتوم (رض) کو مدینہ میں دو مرتبہ (جب جہاد کو جانے لگے) اپنا قائم مقام (خلیفہ) بنایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ نسب اور سیر کے علماء کی ایک جماعت نے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے غزوات میں ابن ام مکتوم (رض) کو تیرہ مرتبہ اپنا جانشین مقرر کیا ہے، اور قتادہ کے اس قول کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ ان تک وہ روایتیں نہیں پہنچ سکی ہیں جو دوسروں تک پہنچی ہیں۔
وزیر مقرر کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ جب کسی حاکم کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے سچا وزیر عنایت فرماتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے، اور اگر اسے یاد رہتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جب اللہ کسی حاکم کی بھلائی نہیں چاہتا ہے تو اس کو برا وزیر دے دیتا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ یاد نہیں دلاتا، اور اگر یاد رکھتا ہے تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/البیعة ٣٣ (٤٢٠٩) ، مسند احمد (٦/٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ایک اصل عظیم ہے، اکثر بادشاہوں کی حکومتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں کہ ان کے وزیر اور مشیر نالائق اور نکمے تھے۔
عرافت کا بیان
مقدام بن معد یکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا : قدیم ! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مرگئے تو تم نے نجات پا لی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٣) (ضعیف) (اس کے راوی صالح بن یحییٰ بن مقدام ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : عریف : اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے۔ ٢ ؎ : اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔
عرافت کا بیان
غالب قطان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عرب کے ایک چشمے پر رہتے تھے جب ان کے پاس اسلام پہنچا تو چشمے والے نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا، چناچہ وہ سب مسلمان ہوگئے تو اس نے اونٹوں کو ان میں تقسیم کردیا، اس کے بعد اس نے اپنے اونٹوں کو ان سے واپس لے لینا چاہا تو اپنے بیٹے کو بلا کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا : تم نبی اکرم ﷺ کے پاس جاؤ اور نبی کریم ﷺ سے کہو کہ میرے والد نے آپ کو سلام پیش کیا ہے، اور میرے والد نے اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا چناچہ وہ اسلام لے آئے اور والد نے ان میں اونٹ تقسیم بھی کردیئے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا وہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ اب اگر آپ ہاں فرمائیں یا نہیں فرمائیں تو فرما دیجئیے میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اس چشمے کے وہ عریف ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ مجھے وہاں کا عریف بنادیں، چناچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور آ کر عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو ۔ پھر انہوں نے کہا : میرے والد نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں، تو وہ انہیں سو اونٹ دیں گے چناچہ وہ سب اسلام لے آئے اور اچھے مسلمان ہوگئے، اب میرے والد چاہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو ان سے واپس لے لیں تو کیا میرے والد ان اونٹوں کا حق رکھتے ہیں یا وہی لوگ حقدار ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارے والد چاہیں کہ ان اونٹوں کو ان لوگوں کو دے دیں تو دے دیں اور اگر چاہیں کہ واپس لے لیں تو وہ ان کے ان سے زیادہ حقدار ہیں اور جو مسلمان ہوئے تو اپنے اسلام کا فائدہ آپ اٹھائیں گے اور اگر مسلمان نہ ہوں گے تو مسلمان نہ ہونے کے سبب قتل کئے جائیں گے (یعنی اسلام سے پھرجانے کے باعث) ۔ پھر انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اور اس چشمے کے عریف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کا عہدہ مجھے دے دیں، آپ ﷺ نے فرمایا : عرافت تو ضروری (حق) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن (یہ جان لو) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٧١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٦) (ضعیف) (اس کی سند میں کئی مجہول ومبہم راوی ہیں )
منشی (سیکرٹری) رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سجل رسول اللہ ﷺ کے کاتب (منشی یا محرر) تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٦٥) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن کعب مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ابن القیم (رح) کہتے ہیں : میں نے اپنے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ حدیث موضوع ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبین وحی میں سے کسی بھی کاتب کا نام سجل نہیں تھا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے کسی بھی صحابی کا نام سجل نہیں تھا۔
زکوة وصول کرنے کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ایمانداری سے زکاۃ کی وصولی وغیرہ کا کام کرنے والا شخص جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کی طرح ہے، یہاں تک کہ لوٹ کر اپنے گھر آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٨ (٦٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٤ (١٨٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٥، ٤/١٤٣) (صحیح )
زکوة وصول کرنے کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : صاحب مکس (قدر واجب سے زیادہ زکاۃ وصول کرنے والا) جنت میں نہ جائے گا (کیونکہ یہ ظلم ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٥، ١٩٢٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٣، ١٥٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٨ (١٧٠٨) (ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
زکوة وصول کرنے کا بیان
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ صاحب مکس وہ ہے جو لوگوں سے عشر لیتا ہے (بشرطیکہ وہ ظلم وتعدی سے کام لے رہا ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٥، ١٩٢٨٦) (حسن )
بیعت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے کہا : اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں (تو کوئی حرج نہیں) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا ١ ؎ اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دوں (تو بھی کوئی حرج نہیں) کیونکہ ابوبکر (رض) نے خلیفہ مقرر کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی ! انہوں نے صرف رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کا ذکر کیا تو میں نے سمجھ لیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے برابر کسی کو درجہ نہیں دے سکتے اور یہ کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢ (١٨٢٣) ، سنن الترمذی/الفتن ٤٨ (٢٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٢١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأحکام ٥١ (٧٢١٨) ، مسند احمد (١/٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر (رض) کے فرمان : کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے لئے کسی متعین شخص کا نام نہیں لیا تھا بلکہ صرف اتنا کہہ کر رہنمائی کردی تھی کہ الأئمة من قريش چناچہ عمر (رض) نے بھی اسی سنت نبوی کو اپنا کر کبار صحابہ میں سے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے لئے چھ ناموں کا اعلان کیا اور کہا کہ ان میں سے صحابہ جس پر اتفاق کرلیں وہی میرے بعد ان کا خلیفہ ہے چناچہ سبھوں نے عثمان (رض) پر اتفاق کیا۔
بیعت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تھے اور ہمیں آپ ﷺ تلقین کرتے تھے کہ ہم یہ بھی کہیں : جہاں تک ہمیں طاقت ہے (یعنی ہم اپنی پوری طاقت بھر آپ کی سمع و طاعت کرتے رہیں گے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧١٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٣ (٧٢٠٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٢ (١٨٦٧) ، سنن الترمذی/السیر ٣٤ (١٥٩٣) ، سنن النسائی/البیعة ٢٤ (٤١٩٢) ، موطا امام مالک/البیعة ١ (١) ، مسند احمد (٢/٦٢، ٨١، ١٠١، ١٣٩) (صحیح )
بیعت کا بیان
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں سے کس طرح بیعت لیا کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی اجنبی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا، البتہ عورت سے عہد لیتے جب وہ عہد دے دیتی تو آپ ﷺ فرماتے : جاؤ میں تم سے بیعت لے چکا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢١ (١٨٦٦) ، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٦٠ (٣٣٠٦) (تحفة الأشراف : ١٦٦٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الممتحنة ٢ (٤٨٩١) ، والطلاق ٢٠ (٥٢٨٨) ، والأحکام ٤٩ (٧٢١٤) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤٣ (٢٨٧٥) ، مسند احمد (٦/١١٤) (صحیح )
بیعت کا بیان
عبداللہ بن ہشام (انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا عہد پایا تھا) فرماتے ہیں کہ ان کی والدہ زینب بنت حمید (رض) ان کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں اور کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! اس سے بیعت کرلیجئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کم سن ہے پھر آپ ﷺ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ١٣ (٢٥٠١) ، والأحکام ٤٦ (٧٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٣) (صحیح )
عاملین زکوة کی تنخواہ کا بیان
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیں اور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقررہ حصے سے جو زیادہ لے گا تو وہ (مال غنیمت میں) خیانت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٧) (صحیح )
عاملین زکوة کی تنخواہ کا بیان
ابن الساعدی (عبداللہ بن عمرو السعدی القرشی العامری) (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے مجھے صدقہ (وصولی) پر عامل مقرر کیا جب میں اس کام سے فارغ ہوا تو عمر (رض) نے میرے کام کی اجرت دینے کا حکم دیا، میں نے کہا : میں نے یہ کام اللہ کے لیے کیا ہے، انہوں نے کہا : جو تمہیں دیا جائے اسے لے لو، میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (زکاۃ کی وصولی کا) کام کیا تھا تو آپ نے مجھے اجرت دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥١ (١٤٧٣) ، والأحکام ١٧ (٧١٦٣) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٧ (١٠٤٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٤ (٢٦٠٥، ٢٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧، ٤٠، ٥٢) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٩ (١٦٨٩) (صحیح )
عاملین زکوة کی تنخواہ کا بیان
مستورد بن شداد (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے آپ کہہ رہے تھے : جو شخص ہمارا عامل ہو وہ ایک بیوی کا خرچ بیت المال سے لے سکتا ہے، اگر اس کے پاس کوئی خدمت گار نہ ہو تو ایک خدمت گار رکھ لے اور اگر رہنے کے لیے گھر نہ ہو تو رہنے کے لیے مکان لے لے ۔ مستورد کہتے ہیں : ابوبکر (رض) نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص ان چیزوں کے سوا اس میں سے لے تو وہ خائن یا چور ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٩) (صحیح )
عاملین کو ہدیہ لینا درست نہیں
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا : یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : عامل کا کیا معاملہ ہے ؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے : یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہیں وہ اپنی ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں ١ ؎، تم میں سے جو شخص کوئی چیز لے گا وہ اسے قیامت کے دن لے کر آئے گا، اگر اونٹ ہوگا تو وہ بلبلا رہا ہوگا، اگر بیل ہوگا تو ڈکار رہا ہوگا، اگر بکری ہوگی تو ممیا رہی ہوگی ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ ہم نے آپ کی بغل کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا : اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ (یعنی تو گواہ رہ جیسا تو نے فرمایا ہو بہو ویسے ہی میں نے اسے پہنچا دیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٧ (١٥٠٠) ، الھبة ١٧ (٢٥٩٧) ، الأیمان والنذور ٣ (٦٦٣٦) ، الحیل ١٥ (٦٩٧٩) ، الأحکام ٢٤ (٧١٧٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٧ (١٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣١ (١٧١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس کام پر مقرر نہ ہوتا تو یہ ہدیہ اس کو کبھی نہ ملتا۔
زکوة میں خیانت کرنے کا بیان
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے عامل بنا کر بھیجا اور فرمایا : ابومسعود ! جاؤ (مگر دیکھو) ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت میں اپنی پیٹھ پر زکاۃ کا اونٹ جسے تم نے چرایا ہو لادے ہوئے آتا دیکھوں اور وہ بلبلا رہا ہو ، ابومسعود (رض) بولے : اگر ایسا ہے تو میں نہیں جاتا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو میں تجھ پر جبر نہیں کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی خواہ مخواہ تم جاؤ ہی بلکہ اگر تمہیں اپنے نفس پر اطمینان ہو تو جاؤ ورنہ نہ جانا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔
امام پر رعیت کے حقوق اور ان کی ضروریات کی تکمیل کا بیان
ابومریم ازدی (اسدی) (رض) کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے پاس گیا، انہوں نے کہا : اے ابوفلاں ! بڑے اچھے آئے، میں نے کہا : میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث بتارہا ہوں، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے : جسے اللہ مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے ١ ؎ تو اللہ اس کی ضروریات اور اس کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ٢ ؎۔ یہ سنا تو معاویہ (رض) نے ایک شخص کو مقرر کردیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٦ (١٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی ضروریات پوری نہ کرے اور ان کی محتاجی و تنگ دستی دور نہ کرے۔ ٢ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجت و ضروریات پوری نہیں کرتا۔
امام پر رعیت کے حقوق اور ان کی ضروریات کی تکمیل کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٧٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٧ (٣١١٧) ، مسند احمد (٢/ ٣١٤، ٤٨٢) (صحیح )
امام پر رعیت کے حقوق اور ان کی ضروریات کی تکمیل کا بیان
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ایک دن فیٔ (بغیر جنگ کے ملا ہوا مال) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فیٔ کا تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مراتب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہوگا یا جس نے (اسلام کے لیے) زیادہ مصائب برداشت کئے ہونگے یا عیال دار ہوگا یا حاجت مند ہوگا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہوگا، ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فیٔ تقسیم کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢) (حسن )
مال فئی کی تقسیم کا بیان
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) معاویہ (رض) کے پاس آئے، معاویہ (رض) نے ان سے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! کس ضرورت سے آنا ہوا ؟ کہا : آزاد کئے ہوئے غلاموں کا حصہ لینے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ جب آپ کے پاس فیٔ کا مال آتا تو سب سے پہلے آپ ﷺ آزاد غلاموں کا حصہ دینا شروع کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ آزاد غلاموں کا نام حکومت کے رجسٹر میں نہیں رہتا تھا اس لئے وہ بیچارے محروم رہ جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے معاویہ (رض) کو ان غلاموں کی بابت یاد دلایا اور ان کے حق میں عطیات کے سلسلہ میں سفارش کی۔
مال فئی کی تقسیم کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک تھیلا لایا گیا جس میں خونگے (قیمتی پتھر) تھے تو آپ ﷺ نے انہیں آزاد عورتوں اور لونڈیوں میں تقسیم کردیا۔ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : میرے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) آزاد مردوں اور غلاموں میں تقسیم کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٦، ١٥٩، ٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مونگوں کی تقسیم عورتوں کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
مال فئی کی تقسیم کا بیان
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جس دن مال فیٔ آتا آپ اسی دن اسے تقسیم کردیتے، شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے، تو ہم بلائے گئے، اور میں عمار (رض) سے پہلے بلایا جاتا تھا، میں بلایا گیا تو مجھے دو حصے دئیے گئے کیونکہ میں شادی شدہ تھا، اور میرے بعد عمار بن یاسر (رض) بلائے گئے تو انہیں صرف ایک حصہ دیا گیا (کیونکہ وہ کنوارے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥، ٢٩) (صحیح )
مسلمانوں کے بچوں کو حصہ دینا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : میں مسلمانوں سے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں (بس) جو مرجائے اور مال چھوڑ جائے تو وہ مال اس کے گھر والوں کا حق ہے اور جو قرض چھوڑ جائے یا عیال، تو وہ (قرض کی ادائیگی اور عیال کی پرورش) میرے ذمہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٤٥) ، والصدقات ١٣ (٢٤١٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٦٧) ، سنن النسائی/العیدین ٢١ (١٥٧٩) ، والجنائز ٦٧ (١٩٦٤) ، مسند احمد (٣/٣٧١) (صحیح )
مسلمانوں کے بچوں کو حصہ دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مال چھوڑ کر جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو عیال چھوڑ کر مرجائے تو ان کی پرورش ہمارے ذمہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الاستقراض ١١ (٢٣٩٨) ، الفرائض ٢٥ (٦٧٦٣) ، صحیح مسلم/الفرائض ٤ (١٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤١٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٩ (٢٠١٩) ، سنن النسائی/الجنائز ٦٧ (١٩٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٣ (٢٤١٦) مسند احمد (٢/٢٩٠، ٤٥٣، ٤٥٥) (صحیح )
مسلمانوں کے بچوں کو حصہ دینا
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : میں ہر مسلمان سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں، تو جو مرجائے اور قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے، اور جو مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٥٩) (صحیح )
کس عمر کے مرد کا حصہ لگانا چاہیے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر (١٤) سال تھی، آپ ﷺ نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھر وہ غزوہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہوگئے تھے، آپ ﷺ نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٨ (٢٦٦٤) ، والمغازي ٢٩ (٤٠٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ٢٠ (٣٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٣، ٨١١٥، ٨١٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٣ (١٨٦٤) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٤ (١٣١٦) ، والجھاد ٣١ (١٧١١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٤ (٢٥٤٣) ، مسند احمد (٢/١٧) ویأتی ہذا الحدیث فی الحدود (٤٤٠٦) (صحیح )
آخر زمانہ میں حصہ لینے کی کراہت کا بیان
سلیم بن مطیر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حج کرنے کے ارادے سے نکلے، جب مقام سویدا پر پہنچے تو انہیں ایک (بوڑھا) شخص ملا، لگتا تھا کہ وہ دوا اور رسوت ١ ؎ کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کہنے لگا : مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں اس حال میں سنا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے، انہیں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور بری باتوں سے روک رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! (امام و حاکم کے) عطیہ کو لے لو جب تک کہ وہ عطیہ رہے ٢ ؎، اور پھر جب قریش ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں، اور عطیہ (بخشش) دین کے بدلے ٣ ؎ میں ملنے لگے تو اسے چھوڑ دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس روایت کو ابن مبارک نے محمد بن یسار سے انہوں نے سلیم بن مطیر سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٦) (ضعیف) (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ایک کڑوی دوا جو اکثر آنکھوں اور پھنسیوں کی دوا میں استعمال ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی شریعت کے مطابق وہ مال حاصل کیا گیا ہو اور شریعت کے مطابق تقسیم بھی کیا گیا ہو۔ ٣ ؎ : یعنی حاکم عطیہ دے کر تم سے کوئی ناجائز کام کرانا چاہتا ہو۔
آخر زمانہ میں حصہ لینے کی کراہت کا بیان
وادی القری کے باشندہ سلیم بن مطیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میں نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں سنا آپ نے (لوگوں کو اچھی باتوں کا) حکم دیا (اور انہیں بری باتوں سے) منع کیا پھر فرمایا : اے اللہ ! کیا میں نے (تیرا پیغام) انہیں پہنچا دیا ، لوگوں نے کہا : ہاں، پہنچا دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جب قریش کے لوگ حکومت اور ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں اور عطیہ کی حیثیت رشوت کی بن جائے (یعنی مستحق کے بجائے غیر مستحق کو ملنے لگے) تو اسے چھوڑ دو ۔ پوچھا گیا : یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ذوالزوائد ١ ؎ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٦) (ضعیف) (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اہل مدینہ میں سے ایک صحابی کا لقب ہے، ان کے نام کا پتہ نہیں چل سکا۔
رجسٹر میں مستحقین کے ناموں کا اندراج کرنا
عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ انصار کا ایک لشکر اپنے امیر کے ساتھ سر زمین فارس میں تھا اور عمر (رض) ہر سال لشکر تبدیل کردیا کرتے تھے، لیکن عمر (رض) کو (خیال نہیں رہا) دوسرے کام میں مشغول ہوگئے جب میعاد پوری ہوگئی تو اس لشکر کے لوگ لوٹ آئے تو وہ ان پر برہم ہوئے اور ان کو دھمکایا جب کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تھے، تو وہ کہنے لگے : عمر ! آپ ہم سے غافل ہوگئے، اور آپ نے وہ قاعدہ چھوڑ دیا جس پر عمل کرنے کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ایک کے بعد ایک لشکر بھیجنا تاکہ پہلا لشکر لوٹ آئے اور اس کی جگہ وہاں دوسرا لشکر رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦١٥) (صحیح الإسناد )
رجسٹر میں مستحقین کے ناموں کا اندراج کرنا
عدی بن عدی کندی کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ جو کوئی شخص پوچھے کہ مال فیٔ کہاں کہاں صرف کرنا چاہیئے تو اسے بتایا جائے کہ جہاں جہاں عمر بن خطاب (رض) نے حکم دیا ہے وہیں خرچ کیا جائے گا، عمر (رض) کے حکم کو مسلمانوں نے انصاف کے موافق اور نبی اکرم ﷺ کے قول : جعل الله الحق على لسان عمر وقلبه (اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے) کا مصداق جانا، انہوں نے مسلمانوں کے لیے عطیے مقرر کئے اور دیگر ادیان والوں سے جزیہ لینے کے عوض ان کے امان اور حفاظت کی ذمہ داری لی، اور جزیہ میں نہ خمس (پانچواں حصہ) مقرر کیا اور نہ ہی اسے مال غنیمت سمجھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد) (عدی بن عدی کے لڑکے مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کے حق کے طور پر نکالا جاتا ہے۔
رجسٹر میں مستحقین کے ناموں کا اندراج کرنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے وہ (جب بولتے ہیں) حق ہی بولتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٥، ١٦٥، ١٧٧) (صحیح )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چناچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پر جس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے : مالک ! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لیے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو ، میں نے کہا : اگر اس کام کے لیے آپ کسی اور کو کہتے (تو اچھا رہتا) عمر (رض) نے کہا : نہیں تم (جو میں دے رہا ہوں) لے لو (اور ان میں تقسیم کر دو ) اسی دوران یرفاء ١ ؎ آگیا، اس نے کہا : امیر المؤمنین ! عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں ؟ عمر (رض) نے کہا : ہاں (بلا لو) اس نے انہیں اجازت دی، وہ لوگ اندر آگئے، جب وہ اندر آگئے، تو یرفا پھر آیا، اور آ کر کہنے لگا : امیر المؤمنین ! ابن عباس اور علی (رض) آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں ؟ کہا : ہاں (آنے دو ) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چناچہ وہ بھی اندر آگئے، عباس (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! میرے اور ان کے (یعنی علی (رض) کے) درمیان (معاملے کا) فیصلہ کر دیجئیے، (تاکہ جھگڑا ختم ہو) ٢ ؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا : ہاں امیر المؤمنین ! ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں (عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا (کہ وہ لوگ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدد دیں) ۔ عمر (رض) نے کہا : اللہ ان پر رحم کرے ! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو (میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں) پھر ان موجود صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا : میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ؟ ، سبھوں نے کہا : ہاں ہم جانتے ہیں۔ پھر وہ علی اور عباس (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا : میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، و آسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : ہمارا (گروہ انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے ؟ ، ان دونوں نے کہا : ہاں ہمیں معلوم ہے۔ عمر (رض) نے کہا : اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ایک ایسی خصوصیت سے سرفراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سرفراز نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب ولکن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شىء قدير اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ الحشر : ٦) چناچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لیے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ ﷺ اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کا سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا (یعنی مستحقین اور ضرورت مندوں میں خرچ ہوتا) ۔ پھر عمر (رض) صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو (یعنی یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے تھے) انہوں نے کہا : ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر (رض) عباس اور علی (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا : میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں ہم جانتے ہیں (یعنی ایسا ہی ہے) پھر جب رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے تو ابوبکر (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں، پھر تم اور یہ ابوبکر (رض) کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ ﷺ ) کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر (اللہ ان پر رحم کرے) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ، اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر (رض) سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابوبکر (رض) اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔ پھر تم اور یہ (علی) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا : اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پردے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ ﷺ متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چناچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔ اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوا دوسرے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں ٣ ؎ تو قسم اللہ کی ! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا (معاہدہ کے مطابق) اہتمام نہیں کرسکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو (میں اپنی تولیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ان دونوں حضرات نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کردیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا فرمان :لا نورث ما ترکنا صدقة ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پر عمر (رض) نے کہا : میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا (کیونکہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پر باقی رہنے دوں گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٨٠ (٢٩٠٤) ، فرض الخمس ١ (٣٠٩٤) ، المغازي ١٤ (٤٠٣٣) ، تفسیرالقرآن ٣ (٤٨٨٠) ، النفقات ٣ (٥٣٥٨) ، الفرائض ٣ (٦٧٢٨) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٥) ، صحیح مسلم/الجھاد ٥ (١٧٥٧) ، سنن الترمذی/السیر ٤٤ (١٦١٠) ، الجھاد ٣٩ (١٧١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٢، ١٠٦٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یرفأ عمر (رض) کے دربان کا نام تھا، وہ ان کا غلام تھا۔ ٢ ؎ : معاملہ تھا بنو نضیر کے فِدَک اور خیبر کے اموال کی وراثت کا جوا للہ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا۔ ٣ ؎ : یعنی اس مال کو تم دونوں میں تقسیم کر دوں اور وہ تم میں سے ہر ایک کے ملک میں ہوجائے۔
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
اس سند سے بھی مالک بن اوس سے یہی قصہ مروی ہے اس میں ہے : اور وہ دونوں (یعنی علی اور عباس رضی اللہ عنہما) اس مال کے سلسلہ میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بنو نضیر کے مالوں میں سے عنایت فرمایا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وہ (عمر رضی اللہ عنہ) چاہتے تھے کہ اس میں حصہ و تقسیم کا نام نہ آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٢، ١٠٦٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ تقسیم تو ملکیت میں جاری ہوتی ہے اور وہ مال کسی کی ملکیت میں تھا نہیں۔
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
عمر (رض) کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں : کہ آپ ﷺ اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں : في الکراع والسلاح کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٩٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣١) (صحیح )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ابن شہاب زہری کہتے ہیں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا اللہ نے فرمایا : وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (سورۃ الحشر : ٦) زہری کہتے ہیں : عمر (رض) نے کہا : اس آیت سے رسول اللہ ﷺ کے لیے عرینہ کے چند گاؤں جیسے فدک وغیرہ خاص ہوئے، اور دوسری آیتیں ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساکين وابن السبيل گاؤں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے (سورۃ الحشر : ٧) ، اور للفقراء الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم (فئی کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئیے گئے ہیں (سورۃ الحشر : ٨) والذين تبوء وا الدار والإيمان من قبلهم اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے (سورۃ الحشر : ٩) والذين جاء وا من بعدهم اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں (سورۃ الحشر : ١٠) تو اس آیت نے تمام لوگوں کو سمیٹ لیا کوئی ایسا مسلمان باقی نہیں رہا جس کا مال فیٔ میں حق نہ ہو۔ ایوب کہتے ہیں : یا فيها حق کے بجائے، ، فيها حظ کہا، سوائے بعض ان چیزوں کے جن کے تم مالک ہو (یعنی اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٨) (صحیح) ( پچھلی اور اگلی روایات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں زہری اور عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تین صفایا ١ ؎ (منتخب مال) تھے : بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول ﷺ کی (ہنگامی) ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا ٢ ؎، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ ﷺ نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ ﷺ کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کردیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٥) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : صفايا : صفیہ کی جمع ہے، صفیہ اس مال کو کہتے ہیں جسے امام تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چھانٹ لے، یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص تھا کہ خمس کے ساتھ اور بھی جو چیزیں چاہیں لے لیں۔ ٢ ؎ : جیسے مہمانوں کی ضیافت اور مجاہدین کے لئے ہتھیار و سواری کی فراہمی۔
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) نے (کسی کو) ابوبکر صدیق (رض) کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ ﷺ کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے (یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے) ، اور میں قسم اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر (رض) نے فاطمہ (رض) کو اس مال میں سے (بطور وراثت) کچھ دینے سے انکار کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١ (٣٠٩٢) ، و فضائل الصحابة ١٢ (٣٧١١) ، والمغازي ١٤ (٤٠٣٥) ، ٣٨ (٤٢٤١) ، والفرائض ٣ (٦٧٢٥) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٦ (١٧٥٩) ، سنن النسائی/الفيء (٤١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤، ٦، ٩، ١٠، ٦/١٤٥، ٢٦٢) (صحیح )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سے یہی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ فاطمہ (رض) اس وقت (اپنے والد) رسول اللہ ﷺ کے اس صدقے کی طلب گار تھیں جو مدینہ اور فدک میں تھا اور جو خیبر کے خمس میں سے بچ رہا تھا، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : ابوبکر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد ﷺ کی اولاد اس مال میں سے (یعنی اللہ کے مال میں سے) صرف اپنے کھانے کی مقدار لے گی اس مال میں خورا کی کے سوا ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٠) (صحیح) (لیکن مال اللہ کا لفظ صحیح نہیں اور یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں بھی نہیں ہے )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ ابوبکر (رض) نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا : میں کوئی ایسی چیز چھوڑ نہیں سکتا جسے رسول اللہ ﷺ کرتے رہے ہوں، میں بھی وہی کروں گا، میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجاؤں۔ پھر عمر (رض) نے آپ کے مدینہ کے صدقے کو علی اور عباس (رض) کی تحویل میں دے دیا، علی (رض) اس پر غالب اور قابض رہے، رہا خیبر اور فدک تو عمر (رض) نے ان دونوں کو روکے رکھا اور کہا کہ یہ دونوں آپ ﷺ کے وہ صدقے ہیں جو آپ کی پیش آمدہ ضروریات اور مشکلات و حوادث، مجاہدین کی تیاری، اسلحہ کی خریداری اور مسافروں کی خبرگیری وغیرہ امور) میں کام آتے تھے ان کا اختیار اس کو رہے گا جو والی (یعنی خلیفہ) ہو۔ راوی کہتے ہیں : تو وہ دونوں آج تک ایسے ہی رہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٩٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٠) (صحیح )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ اللہ نے جو فرمایا ہے : فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب یعنی تم نے ان مالوں کے واسطے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوئے (سورۃ الحشر : ٦) تو ان کا قصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل فدک اور کچھ دوسرے گاؤں والوں سے جن کے نام زہری نے تو لیے لیکن راوی کو یاد نہیں رہا صلح کی، اس وقت آپ ایک اور قوم کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، اور ان لوگوں نے آپ کے پاس بطور صلح مال بھیجا تھا، اس مال کے تعلق سے اللہ نے فرمایا : فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب یعنی بغیر لڑائی کے یہ مال ہاتھ آیا (اور اللہ نے اپنے رسول کو دیا) ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں بنو نضیر کے مال بھی خالص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھے، لوگوں نے اسے زور و زبردستی سے (یعنی لڑائی کر کے) فتح نہیں کیا تھا۔ صلح کے ذریعہ فتح کیا تھا، تو آپ نے اسے مہاجرین میں تقسیم کردیا، اس میں سے انصار کو کچھ نہ دیا، سوائے دو آدمیوں کے جو ضرورت مند تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٣٧٩) (صحیح الإسناد )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
مغیرہ کہتے ہیں عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے پاس فدک تھا، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ (رض) نے آپ ﷺ سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا، آپ ﷺ کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ ﷺ انتقال فرما گئے، پھر جب ابوبکر (رض) خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر (رض) خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر (رض) بھی انتقال فرما گئے، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں : تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فاطمہ (علیہا السلام) کو دینے سے منع کردیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں ؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کردیا ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمر بن عبدالعزیز خلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہوگئی تھی، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہوجاتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی مغیرة بن مقسم مدلس اور کثیر الارسال ہیں )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ابوطفیل کہتے ہیں کہ فاطمہ (رض) ابوبکر (رض) کے پاس نبی اکرم ﷺ کے ترکہ سے اپنی میراث مانگنے آئیں، ابوبکر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ عزوجل جب کسی نبی کو کوئی معاش دیتا ہے تو وہ اس کے بعد اس کے قائم مقام (خلیفہ) کو ملتا ہے ، (یعنی اس کے وارثوں کو نہیں ملتا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٥٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤، ٦، ٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا جاتا ہے، دنیا کا مال حاصل کرنے کے لئے نہیں، اس لئے جو مال دولت اس کو اس کی زندگی میں مل جائے، وہ بھی اس کی وفات کے بعد صدقہ ہوگا، تاکہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ اپنے وارثوں کے لئے جمع کرنے میں مصروف تھا۔ قرآن مجید میں جو زکریا (علیہ السلام) کا قول منقول ہے يرثني ويرث من آل يعقوب ( سورة مریم : ٦) اور جو یہ فرمایا گیا ہے وورث سليمان ( سورة النمل : ١٣) تو اس سے مراد علم اور نبوت کی وراثت ہے، نہ کہ دنیا کے مال کی۔
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے ورثاء میری میراث سے جو میں چھوڑ کر مروں ایک دینار بھی تقسیم نہ کریں گے، اپنی بیویوں کے نفقے اور اپنے عامل کے خرچے کے بعد جو کچھ میں چھوڑوں وہ صدقہ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مؤنة عاملي میں عاملي سے مراد کاشتکار، زمین جوتنے، بونے والے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣٢ (٣٠٩٦) ، فرض الخمس ٣ (٢٧٧٦) ، الفرائض ٣ (٦٧٢٩) ، صحیح مسلم/الجھاد ١٦ (١٧٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الکلام ١٢ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٣٧٦) (صحیح )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ابوالبختری کہتے ہیں میں نے ایک شخص سے ایک حدیث سنی وہ مجھے انوکھی سی لگی، میں نے اس سے کہا : ذرا اسے مجھے لکھ کر دو ، تو وہ صاف صاف لکھ کر لایا : علی اور عباس (رض) عمر (رض) کے پاس آگئے اور ان کے پاس طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی عباس اور علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، عمر (رض) نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا : کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ، لوگوں نے کہا : کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ اپنے مال میں سے اپنے اہل پر صرف کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کردیتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی ابوبکر (رض) دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی کرتے رہے جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، پھر راوی نے مالک بن اوس کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٦٤٩، ٣٩٥٢) (صحیح) (شواہد و متابعات پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جو پتہ نہیں صحابی ہے یاتابعی ؟ )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو امہات المؤمنین نے ارادہ کیا کہ عثمان بن عفان (رض) کو ابوبکر (رض) کے پاس بھیج کر رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپنا آٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سب سے کہا (کیا تمہیں یاد نہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٤ (٤٠٣٤) ، الفرائض ٣ (٦٧٣٠) ، صحیح مسلم/الجہاد ١٦ (١٧٥٨) ، موطا امام مالک/ الکلام ١٢ (٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥، ٢٦٢) (صحیح )
ان مالوں کا بیان جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت میں سے اپنے لئے چن لیتے تھے
اس سند سے بھی ابن شہاب زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے، اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے (دیگر امہات المؤمنین سے) کہا : تم اللہ سے ڈرتی نہیں، کیا تم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور یہ مال آل محمد کی ضروریات اور ان کے مہمانوں کے لیے ہے، اور جب میرا انتقال ہوجائے گا تو یہ مال اس شخص کی نگرانی و تحویل میں رہے گا جو میرے بعد معاملہ کا والی ہوگا (مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الشمائل (٤٠٢) ، مسند احمد (٦/١٤٥) (حسن )
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم (رض) نے خبر دی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ١ ؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں ٢ ؎ جبیر (رض) کہتے ہیں : آپ ﷺ نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا جیسے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا، ابوبکر (رض) ٣ ؎ بھی اپنی خلافت میں خمس کو اسی طرح تقسیم کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم فرماتے تھے مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے عزیزوں کو نہ دیتے تھے جب کہ نبی اکرم ﷺ ان کو دیتے تھے، عمر بن خطاب (رض) اس میں سے ان کو دیتے تھے اور ان کے بعد عثمان بن عفان (رض) بھی ان کو دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٧ (٣١٤٠) ، المناقب ٢ (٣٥٠٢) ، المغازي ٣٩ (٤٢٢٩) ، سنن النسائی/الفيء (٤١٤١) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤٦ (٢٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨١، ٨٣، ٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ان دونوں کے خاندان والوں کو نہیں دیا تھا جب کہ ان سب کا اصل خاندان ایک تھا عبدمناف کے چار بیٹے تھے ایک ہاشم جن کی اولاد میں رسول اللہ ﷺ تھے، دوسرے مطلب، تیسرے عبدشمس جن کی اولاد میں عثمان (رض) تھے، اور چو تھے نوفل جن کی اولاد میں جبیر بن مطعم (رض) تھے۔ ٢ ؎ : یعنی ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اسی لئے کفار نے جب مقاطعہ کا عہد نامہ لکھا تو انہوں نے اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں کو شریک کیا۔ ٣ ؎ : ابوبکر (رض) نے اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ اس وقت غنی اور مالدار رہے ہوں گے، اور دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسری روایت میں علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک حصہ خمس میں سے دیدیا تھا، جب عمر (رض) نے انہیں حصہ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے نہیں لیا اور کہا کہ ہم غنی ہیں۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
جبیر بن مطعم (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔ ابوبکر (رض) بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ تقسیم کیا کرتے تھے، مگر وہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ ﷺ ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر (رض) انہیں دیا کرتے تھے اور عمر (رض) کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کو غالباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے قرابت داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو چھوڑ دیا، تو میں اور عثمان (رض) دونوں چل کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ بنو ہاشم ہیں، ہم ان کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انہیں میں سے کیا ہے، لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کا کیا معاملہ ہے ؟ کہ آپ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا، جب کہ آپ سے ہماری اور ان کی قرابت داری یکساں ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، ہم اور وہ ایک چیز ہیں ١ ؎، آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا (گویا دکھایا کہ اس طرح) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں ، تو قصہ یہ ہے کہ قریش اور بنی کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے جدا کرنے پر حلف لیا تھا کہ وہ نہ ان سے نکاح کریں گے، نہ خریدو فروخت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے سپرد نہ کریں، اور اس عہد نامہ کو محصب میں لٹکا دیا تھا، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسے دیمک چاٹ گئی اور کفار مغلوب ہوئے۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
سدی کہتے ہیں کہ کلام اللہ میں ذي القربى کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٣٨) (ضعیف) (اس کے راوی حسین عجلی کثیرالخطأ ہیں )
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یزید بن ہرمز نے خبر دی کہ نجدہ حروری (خارجیوں کے رئیس) نے ابن زبیر (رض) کے بحران کے زمانہ میں ١ ؎ جس وقت حج کیا تو اس نے ایک شخص کو عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس ذي القربى کا حصہ پوچھنے کے لیے بھیجا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس سے کون مراد ہے ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : اس سے رسول اللہ ﷺ کے عزیز و اقارب مراد ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اسے ان سب میں تقسیم فرمایا تھا، عمر (رض) نے بھی ہمیں اس میں سے دیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنے حق سے کم پایا تو لوٹا دیا اور لینے سے انکار کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٤٨ (١٨١٢) ، سنن الترمذی/السیر ٨ (١٥٥٦) ، سنن النسائی/الفيء (٤١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٨، ٢٩٤، ٣٠٨، ٣٢٠، ٣٤٤، ٣٤٩، ٣٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا تھا۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے خمس کا خمس (پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صرف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اور ابوبکر و عمر (رض) زندہ رہے پھر (عمر (رض) کے زمانہ میں) ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا : اس کو لے لو، میں نے کہا : میں نہیں لینا چاہتا، انہوں نے کہا : لے لو تم اس کے زیادہ حقدار ہو، میں نے کہا : اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بےنیاز کردیا ہے) تو انہوں نے اسے بیت المال میں داخل کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٤) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابوجعفر رازی ضعیف ہیں )
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : میں نے علی (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے موافق ہے وہ ہمارے اختیار میں دے دیجئیے تاکہ آپ ﷺ کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑا نہ کرے، تو آپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ ﷺ زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر (رض) نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر (رض) کی خلافت کے آخری سال میں آپ کے پاس بہت سا مال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا : اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئیے، عمر (رض) نے ان کو دے دیا، عمر (رض) کے بعد پھر کسی نے مجھے اس مال (یعنی خمس الخمس) کے لینے کے لیے نہیں بلایا، عمر (رض) کے پاس سے نکلنے کے بعد میں عباس (رض) سے ملا، تو وہ کہنے لگے : علی ! تم نے ہم کو آج ایسی چیز سے محروم کردیا جو پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے گی (یعنی اب کبھی یہ حصہ ہم کو نہ ملے گا) اور وہ ایک سمجھدار آدمی تھے (انہوں نے جو کہا تھا وہی ہوا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٤) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی حسین بن میمون لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایت اور یہ روایت دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مل کر اس واقعہ کی اصلیت کو حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچا دیتی ہیں )
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبر دی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب (رض) نے ان سے اور فضل بن عباس (رض) سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول ! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شادی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول ! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول ! ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئیے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ (یعنی حق محنت) ہوگا وہ ہم پائیں گے۔ عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب (رض) گئے اور انہوں نے ہم سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : قسم اللہ کی ! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے ١ ؎۔ اس پر ربیعہ (رض) نے کہا : یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی (رض) اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور کہنے لگے : میں ابوالحسن سردار ہوں (جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی ! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آجائیں جس کے لیے تم نے انہیں اللہ کے نبی کریم ﷺ کے پاس بھیجا ہے۔ عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں : میں اور فضل بن عباس (رض) دونوں گئے، ہم نبی کریم ﷺ کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہوگئی ہم نے سب کے ساتھ نماز جماعت سے پڑھی، نماز پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم ﷺ کے حجرے کے دروازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المؤمنین زینب بنت حجش (رض) کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ آگئے اور (پیار سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا : بولو بولو، جو دل میں لیے ہو ، یہ کہہ کر آپ ﷺ گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لیے اشارہ کیا (تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کو ہوا) آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیں حکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ ایک گھڑی تک چپ رہے، پھر نگاہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شاید آپ ﷺ ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پردے کی آڑ سے (ام المؤمنین) زینب (رض) اشارہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو (گھبراؤ نہیں) رسول اللہ ﷺ تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا : یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد ﷺ کے لیے اور محمد ﷺ کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ چناچہ نوفل بن حارث (رض) کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : نوفل ! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو ، تو نوفل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردیا۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : محمیہ بن جزء کو میرے پاس بلاؤ ، محمیۃ بن جزء (رض) بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا (وہ آئے) آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم فضل کا (اپنی بیٹی سے) نکاح کر دو ، تو انہوں نے ان کا نکاح کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے (ان سے) کہا : جاؤ مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کر دو ۔ (ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حارث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥١ (١٠٧٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٥ (٢٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان، گھاس کے ٹوکرے اور رسیاں (وغیرہ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضروری سامان میں مہیا کرسکتا تھا کر کے لوٹ کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئیے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لیے گئے ہیں، جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا میں نے کہا : یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے، وہ اس گھر میں چند انصاریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں گا یا : ألا يا حمز للشرف النواء ١ ؎ (اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لیے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو) یہ سن کر وہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جا کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چاک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لیے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حارثہ (رض) بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو (صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حارثہ (رض) بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ ﷺ اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے، آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ حمزہ کو ان کے کئے پر ملامت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی، اور آپ ﷺ کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی اور آپ ﷺ کے چہرہ کو دیکھا، پھر بولے : تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آئے (اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٨ (٢٠٨٩) ، المساقاة ١٣ (٢٣٧٥) ، فرض الخمس ١ (٣٠٩١) ، المغازي ١٢ (٤٠٠٣) ، اللباس ٩ (٥٧٩٣) ، صحیح مسلم/الأشربة ١ (١٩٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎؎ : باقی اشعار اس طرح ہیں : أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء ضَع السکين في اللبات منها وضرجهن حمزة بالدماء وعجل من أطايبها لشرب قديدًا من طبيخ أو شواء اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اور ان کے حلق پر چھری پھیر کر انہیں خون میں لت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو ۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ (رض) (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ١ ؎ کا آپ ﷺ سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں) ، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے، ہر نماز کے بعد (٣٣) مرتبہ اللہ اکبر، (٣٣) مرتبہ سبحان اللہ، (٣٣) مرتبہ الحمداللہ، اور ایک بار لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير کہہ لیا کرو ۔ عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضباعہ اور ام الحکم رضی اللہ عنہما) دونوں نبی اکرم ﷺ کی چچا زاد بہنیں تھیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٢، ١٥٣١٤) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (٥٠٦٦) (ضعیف) (اس حدیث کی البانی نے صحیحة ٢ ؍ ١٨٨، اور صحیح ابی داود ٢٦٤٤، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ٢ ؍ ٤٢٤ ) وضاحت : ١ ؎ : مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے، سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
ابن اعبد کہتے ہیں کہ علی (رض) نے مجھ سے کہا : کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے، آپ نے کہا : فاطمہ (رض) نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑگئے، اور پانی بھربھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہوجاتے، نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا : اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیتی، چناچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کر رہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ ﷺ خود فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا : تم کس ضرورت سے آئی تھیں ؟ ، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو بتاتا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑگیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت و تکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : فاطمہ ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (٣٣) بار سبحان اللہ، (٣٣) بار الحمدللہ، اور (٣٤) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لیے خادمہ سے بہتر ہیں ١ ؎۔ فاطمہ (رض) نے کہا : میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے خوش ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق : (اتقي اللّٰہ یا فاطمة، وأدي فریضة ربک، واعملي عمل أہلک) ، وأما البقیة من الحدیث فقد رواہ کل من : صحیح البخاری/فرض الخمس ٦ (٣١١٣) ، فضائل الصحابة ٩ (٣٧٠٥) ، النفقات ٦ (٥٣٦١) ، الدعوات ١١ (٦٣١٨) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٩ (٢٧٢٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٤ (٣٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٦) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (٥٠٦٢) (ضعیف) (مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : شاید اسی میں مصلحت رہی ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں خادم نہیں دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (علی بن حسین زیدالعابدین نے اپنے نانا علی کو نہیں پایا ہے لیکن واقعہ صحیح ہے )
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
مجاعہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے بھائی کی دیت مانگنے آئے جسے بنو ذہل میں سے بنی سدوس نے قتل کر ڈالا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر میں کسی مشرک کی دیت دلاتا تو تمہارے بھائی کی دیت دلاتا، لیکن میں اس کا بدلہ تمہیں دلائے دیتا ہوں ، پھر نبی اکرم ﷺ نے بنو ذہل کے مشرکین سے پہلے پہل حاصل ہونے والے خمس میں سے سو اونٹ اسے دینے کے لیے لکھ دیا۔ مجاعہ (رض) کو ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بنو ذہل کے مسلمان ہوجانے کے بعد ملے، اور مجاعہ (رض) نے اپنے باقی اونٹوں کو ابوبکر صدیق (رض) سے ان کے خلیفہ ہونے کے بعد طلب کئے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی کتاب (تحریر) دکھائی تو ابوبکر (رض) نے مجاعہ (رض) کے یمامہ کے صدقے میں سے بارہ ہزار صاع دینے کے لیے لکھ دیا، چار ہزار صاع گیہوں کے، چار ہزار صاع جو کے اور چار ہزار صاع کھجور کے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجاعہ کو جو کتاب (تحریر) لکھ کردی تھی اس کا مضمون یہ تھا : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے، یہ کتاب محمد نبی کی جانب سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے ہے جو بنو سلمی میں سے ہیں، میں نے اسے بنی ذہل کے مشرکوں سے حاصل ہونے والے پہلے خمس میں سے سو اونٹ اس کے مقتول بھائی کے عوض میں دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٢١٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی دخیل مجہول الحال ، اور ہلال لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کی کوئی دیت نہیں، البتہ جو مشرک ذمی ہو یعنی اسلامی حکومت کا باشندہ ہو، اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہو تو اس کو اگر کوئی کافر مار ڈالے تو اس پر قصاص ہوگا، یا دیت ہوگی، اور جو مسلمان مار ڈالے تو دیت دینی ہوگی۔
صفی کا بیان
عامر شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک حصہ تھا، جس کو صفي کہا جاتا تھا آپ اگر کوئی غلام، لونڈی یا کوئی گھوڑا لینا چاہتے تو مال غنیمت میں سے خمس سے پہلے لے لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفيء ١ (٤١٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٨٦٨) (ضعیف الإسناد) (عامر تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے )
صفی کا بیان
ابن عون کہتے ہیں میں نے محمد (محمد ابن سیرین) سے نبی اکرم ﷺ کے حصے اور صفي کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا بھی حصہ لگایا جاتا تھا اگرچہ آپ لڑائی میں شریک نہ ہوتے اور سب سے پہلے خمس میں سے ١ ؎ صفی آپ کے لیے لیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٩٥) (ضعیف الإسناد) (یہ بھی مرسل ہے، محمد بن سیر ین تابعی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفي خمس میں سے ہوتا تھا اور اس سے پہلے شعبی والی روایت دلالت کرتی ہے کہ صفي خمس سے پہلے پورے مال غنیمت میں سے ہوتا تھا دونوں میں تطبیق کے لئے تاویل یہ کی جاتی ہے کہ قبل الخمس سے مراد قبل أن يقسم الخمس ہے یعنی صفی خمس میں سے ہوتا تھا لیکن خمس کی تقسیم سے پہلے اسے نکالا جاتا تھا۔
صفی کا بیان
قتادہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب خود لڑائی میں شریک ہوتے تو ایک حصہ چھانٹ کر جہاں سے چاہتے لے لیتے، ام المؤمنین صفیہ (رض) (جو جنگ خیبر میں آپ ﷺ کو ملیں) اسی حصے میں سے آئیں اور جب آپ لڑائی میں شریک نہ ہوتے تو ایک حصہ آپ ﷺ کے لیے لگایا جاتا اور اس میں آپ کو انتخاب کا اختیار نہ ہوتا کہ جو چاہیں چھانٹ کرلے لیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢١٤) (ضعیف الإسناد) (قتادہ تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت بھی مرسل ہے )
صفی کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں صفیہ (رض) صفي میں سے تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٩١٨) (صحیح )
صفی کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں ہم خیبر آئے (یعنی غزوہ کے موقع پر) تو جب اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ ﷺ سے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) کے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا، ان کا شوہر مارا گیا تھا، وہ دلہن تھیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرما لیا، پھر آپ ﷺ انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم سد صہباء ١ ؎ پہنچے، وہاں وہ حلال ہوئیں (یعنی حیض سے فارغ ہوئیں اور ان کی عدت پوری ہوگئی) تو اس وقت آپ ﷺ نے ان کے ساتھ شب زفاف منائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١١ (٢٢٣٥) ، الجہاد ٧٤ (٢٨٩٣) ، المغازی ٣٩ (٤٢١١) ، الأطعمة ٢٨ (٥٤٢٥) ، الدعوات ٣٦ (٦٣٦٣) ، وانظر حدیث رقم (٢٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خیبر میں ایک مقام کا نام ہے۔
صفی کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ (رض) پہلے دحیہ کلبی (رض) کے حصے میں آگئی تھیں پھر رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ النکاح ٤٢ (١٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٠) وانظر حدیث رقم (٢٠٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے ان کی جگہ دحیہ (رض) کو دوسری لونڈی دے دی، اور ام المومنین صفیہ (رض) کو اپنے لئے منتخب کرلیا، صفیہ قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں، اس لئے ان کا ایک عام صحابی کے پاس رہنا مناسب نہ تھا، کیونکہ اس سے دوسروں کو رشک ہوتا۔
صفی کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں دحیہ کلبی (رض) کے حصے میں ایک خوبصورت لونڈی آئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سات غلام دے کر خرید لیا اور انہیں ام سلیم (رض) کے حوالے کردیا کہ انہیں بنا سنوار دیں۔ حماد کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی (رض) کو ام سلیم (رض) کے حوالے کردیا کہ وہ وہاں عدت گزار کر پاک و صاف ہو لیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (٢٠٥٤) (تحفة الأشراف : ٣٧٧، ٣٩٠) (صحیح )
صفی کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں خیبر میں سب قیدی جمع کئے گئے تو دحیہ کلبی (رض) آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان قیدیوں میں سے مجھے ایک لونڈی عنایت فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ ایک لونڈی لے لو ، دحیہ نے صفیہ بنت حیی (رض) کو لے لیا، تو ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور بولا : اللہ کے رسول ! آپ نے (صفیہ بنت حیی کو) دحیہ کو دے دیا، صفیہ بنت حیی قریظہ اور نضیر (کے یہودیوں) کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں و مناسب ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : دحیہ کو صفیہ سمیت بلا لاؤ ، جب آپ ﷺ نے صفیہ (رض) کو دیکھا تو آپ نے دحیہ (رض) سے کہا تم کوئی اور لونڈی لے لو، پھر رسول اللہ ﷺ نے صفیہ کو آزاد کردیا اور ان سے نکاح کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصلاة ١٢ (٣٧١) ، صحیح مسلم/ النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، سنن النسائی/ النکاح ٦٤ (٣٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠، ١٠٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠١، ١٨٦) (صحیح )
صفی کا بیان
یزید بن عبداللہ کہتے ہیں ہم مربد (ایک گاؤں کا نام ہے) میں تھے اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کے ہاتھ میں سرخ چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے کہا : تم گویا کہ صحراء کے رہنے والے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ہم نے کہا : چمڑے کا یہ ٹکڑا جو تمہارے ہاتھ میں ہے تم ہمیں دے دو ، اس نے اس کو ہمیں دے دیا، ہم نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا : یہ محمد ﷺ کی طرف سے زہیر بن اقیش کے لیے ہے (انہیں معلوم ہو کہ) اگر تم اس بات کی گواہی دینے لگ جاؤ گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے لگو گے اور مال غنیمت میں سے (خمس جو اللہ و رسول کا حق ہے) اور نبی اکرم ﷺ کے حصہ صفی کو ادا کرو گے تو تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہوگی ، تو ہم نے پوچھا : یہ تحریر تمہیں کس نے لکھ کردی ہے ؟ تو اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٧، ٧٨، ٣٦٣) (صحیح الإسناد )
مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا سبب
کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے (اور آپ ان تین لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی ١ ؎ ) : کعب بن اشرف (یہودی) رسول اللہ ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا اور کفار قریش کو آپ کے خلاف اکسایا کرتا تھا، نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اس وقت وہاں سب قسم کے لوگ ملے جلے تھے ان میں مسلمان بھی تھے، اور مشرکین بھی جو بتوں کو پوجتے تھے، اور یہود بھی، وہ سب رسول اللہ ﷺ کو اور آپ کے صحابہ کو بہت ستاتے تھے تو اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو صبر اور عفو و درگزر کا حکم دیا، انہیں کی شان میں یہ آیت ولتسمعن من الذين أوتوا الکتاب من قبلکم تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جو شرک کرتے ہیں سنو گے بہت سی مصیبت یعنی تم کو برا کہیں گے، تم کو ایذا پہنچائیں گے، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو بڑا کام ہے (سورۃ آل عمران : ١٨٦) اتری تو کعب بن اشرف جب نبی اکرم ﷺ کی ایذارسانی سے باز نہیں آیا تو آپ ﷺ نے سعد بن معاذ (رض) کو حکم دیا کہ چند آدمیوں کو بھیج کر اس کو قتل کرا دیں تو آپ نے محمد بن مسلمہ (رض) کو بھیجا، پھر راوی نے اس کے قتل کا قصہ بیان کیا، جب ان لوگوں نے اسے قتل کردیا تو یہودی اور مشرکین سب خوف زدہ ہوگئے، اور دوسرے دن صبح نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہنے لگے : رات میں ہمارا سردار مارا گیا، تو نبی کریم ﷺ نے ان سے وہ باتیں ذکر کیں جو وہ کہا کرتا تھا، آپ ﷺ نے انہیں ایک بات کی دعوت دی کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جائے جس کی سبھی لوگ پابندی کریں، پھر آپ ﷺ نے اپنے اور ان کے درمیان ایک عمومی صحیفہ (تحریری معاہدہ) لکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١١٥٢) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : سند میں عبدالرحمن بن عبدالله بن کعب بن مالک، عن أبيه ہے، اس عبارت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ بن کعب بن مالک ان تین اشخاص میں سے ایک ہیں جن کی غزوہ تبوک کے موقع پر توبہ قبول ہوئی حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ عبدالرحمن کے والد عبداللہ کے بجائے ان کے دادا کعب بن مالک (رض) ہیں اور باقی دو کے نام مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رض) ہیں۔
مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا سبب
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے جنگ بدر میں قریش پر فتح حاصل کی اور مدینہ لوٹ کر آئے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو بنی قینقاع کے بازار میں اکٹھا کیا، اور ان سے کہا : اے یہود کی جماعت ! تم مسلمان ہوجاؤ قبل اس کے کہ تمہارا حال بھی وہی ہو جو قریش کا ہوا ، انہوں نے کہا : محمد ! تم اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تم نے قریش کے کچھ نا تجربہ کار لوگوں کو جو جنگ سے واقف نہیں تھے قتل کردیا ہے، اگر تم ہم سے لڑتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ مرد میدان ہم ہیں ابھی تمہاری ہم جیسے جنگجو بہادر لوگوں سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری قل للذين کفروا ستغلبون کافروں سے کہہ دیجئیے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے (سورۃ آل عمران : ١٢) حدیث کے راوی مصرف نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : فئة تقاتل في سبيل الله ، وأخرى کافرة تک تلاوت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٠٦) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی محمد بن ابی محمد مجہول ہیں )
مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا سبب
محیصہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہودیوں میں سے جس کسی مرد پر بھی تم قابو پاؤ اسے قتل کر دو ، تو محیصہ (رض) نے یہود کے سوداگروں میں سے ایک سوداگر کو جس کا نام شبیبہ تھا حملہ کر کے قتل کردیا، اور اس وقت تک حویصہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور وہ محیصہ (رض) سے بڑے تھے، تو جب محیصہ (رض) نے یہودی تاجر کو قتل کردیا تو حویصہ محیصہ کو مارنے لگے اور کہنے لگے : اے اللہ کے دشمن ! قسم اللہ کی تیرے پیٹ میں اس کے مال کی بڑی چربی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٦، ٤٣٥) (ضعیف) (اس کے دوراوی مولی زید بن ثابت اور ابنت محیصہ ضعیف ہیں )
مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا سبب
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں ہم مسجد میں تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لے آئے اور فرمانے لگے : یہود کی طرف چلو ، تو ہم سب آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچ گئے، پھر رسول ﷺ کھڑے ہوئے اور انہیں پکار کر کہا : اے یہود کی جماعت ! اسلام لے آؤ تو (دنیا و آخرت کی بلاؤں و مصیبتوں سے) محفوظ ہوجاؤ گے ، تو انہوں نے کہا : اے ابوالقاسم ! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پھر یہی فرمایا : أسلموا تسلموا انہوں نے پھر کہا : اے ابوالقاسم ! آپ نے اپنا پیغام پہنچا دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرا یہی مقصد تھا ، پھر تیسری بار بھی آپ ﷺ نے یہی فرمایا اور مزید یہ بھی کہا کہ : جان لو ! زمین اللہ کی، اور اس کے رسول کی ہے (اگر تم ایمان نہ لائے) تو میں تمہیں اس سر زمین سے جلا وطن کردینے کا ارادہ کرتا ہوں، تو جو شخص اپنے مال کے لے جانے میں کچھ (دقت و دشواری) پائے (اور بیچنا چاہے) تو بیچ لے، ورنہ جان لو کہ (سب بحق سرکار ضبط ہوجائے گا کیونکہ) زمین اللہ کی اور اس کے رسول کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ٦ (٣١٦٧) ، والإکراہ ٢ (٦٩٤٤) ، والاعتصام ١٨ (٧٣٤٨) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٠ (١٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٥١) (صحیح )
بنونضیر کے یہودیوں کے احوال
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک ایک صحابی رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ کفار قریش نے اس وقت جب کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ آگئے تھے اور جنگ بدر پیش نہ آئی تھی عبداللہ بن ابی اور اس کے اوس و خزرج کے بت پرست ساتھیوں کو لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی (رسول اللہ ﷺ ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم اس سے لڑ بھڑ (کر اسے قتل کر دو ) یا اسے وہاں سے نکال دو ، نہیں تو ہم سب مل کر تمہارے اوپر حملہ کردیں گے، تمہارے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے لیے مباح کرلیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو پہنچا تو وہ سب رسول اللہ ﷺ سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے، جب یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ جا کر ان سے ملے اور انہیں سمجھایا کہ قریش کی دھمکی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی دھمکی ہے، قریش تمہیں اتنا ضرر نہیں پہنچا سکتے جتنا تم خود اپنے تئیں ضرر پہنچا سکتے ہو، کیونکہ تم اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں سے لڑنا چاہتے ہو، جب ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے یہ سنا تو وہ آپس میں ایک رائے نہیں رہے، بٹ گئے، (جنگ کا ارادہ سب کا نہیں رہا) تو یہ بات کفار قریش کو پہنچی تو انہوں نے واقعہ بدر کے بعد پھر اہل یہود کو خط لکھا کہ تم لوگ ہتھیار اور قلعہ والے ہو تم ہمارے ساتھی (محمد ﷺ ) سے لڑو نہیں تو ہم تمہاری ایسی تیسی کردیں گے (یعنی قتل کریں گے) اور ہمارے درمیان اور تمہاری عورتوں کی پنڈلیوں و پازیبوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہوگی، جب ان کا خط رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ لگا، تو بنو نضیر نے فریب دہی و عہدشکنی کا پلان بنا لیا اور رسول اللہ ﷺ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اصحاب میں سے تیس آدمی لے کر ہماری طرف نکلئے، اور ہمارے بھی تیس عالم نکل کر آپ سے ایک درمیانی مقام میں رہیں گے، وہ آپ کی گفتگو سنیں گے اگر آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے، آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے ان کی یہ سب باتیں بیان کردیں، دوسرے دن رسول اللہ ﷺ اپنا لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور ان کا محاصرہ کرلیا، آپ ﷺ نے ان سے کہا : اللہ کی قسم ہمیں تم پر اس وقت تک اطمینان نہ ہوگا جب تک کہ تم ہم سے معاہدہ نہ کرلو گے ، تو انہوں نے عہد دینے سے انکار کیا (کیونکہ ان کا ارادہ دھوکہ دینے کا تھا) ، آپ ﷺ نے ان سے اس دن جنگ کی، پھر دوسرے دن آپ نے اپنے لشکر کو لے کر قریظہ کے یہودیوں پر چڑھائی کردی اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور ان سے کہا : تم ہم سے معاہدہ کرلو ، انہوں نے معاہدہ کرلیا کہ (ہم آپ سے نہ لڑیں گے اور نہ آپ کے دشمن کی مدد کریں گے) آپ ﷺ بنو قریظہ سے معاہدہ کر کے واپس آگئے، دوسرے دن پھر آپ ﷺ فوجی دستے لے کر بنو نضیر کی طرف بڑھے اور ان سے جنگ کی یہاں تک کہ وہ جلا وطن ہوجانے پر راضی ہوگئے تو وہ جلا وطن کر دئیے گئے، اور ان کے اونٹ ان کا جتنا مال و اسباب گھروں کے دروازے اور کاٹ کباڑ لاد کرلے جاسکے وہ سب لاد کرلے گئے، ان کے کھجوروں کے باغ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص ہوگئے، اللہ نے انہیں آپ کو عطا کردیا، اور آپ کے لیے خاص کردیا، اور ارشاد فرمایا : وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کافروں کے مال میں سے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہارے اونٹ اور گھوڑے دوڑانے یعنی جنگ کرنے کے نتیجہ میں نہیں دیا ہے (سورۃ الحشر : ٦) ۔ راوی کہتے ہیں : فما أوجفتم عليه من خيل ولا رکاب کے معنی ہیں جو آپ کو بغیر لڑائی کے حاصل ہوا ہے، نبی اکرم ﷺ نے اس کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دیا اور انہیں کے درمیان تقسیم فرمایا اور اس میں سے آپ نے دو ضرورت مند انصاریوں کو بھی دیا، ان دو کے علاوہ کسی دوسرے انصاری کو نہیں دیا، اور جس قدر باقی رہا وہ رسول اللہ ﷺ کا صدقہ تھا جو فاطمہ (رض) کی اولاد کے ہاتھ میں رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٢٢) (صحیح الإسناد )
بنونضیر کے یہودیوں کے احوال
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے جنگ کی آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا، اور بنو قریظہ کو رہنے دیا اور ان پر احسان فرمایا (اس لیے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے معاہدہ کرلیا تھا) یہاں تک کہ قریظہ اس کے بعد لڑے ١ ؎ تو ان کے مرد مارے گئے، ان کی عورتیں، ان کی اولاد، اور ان کے مال مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے، ان میں کچھ ہی لوگ تھے جو رسول اللہ ﷺ سے آ کر ملے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں امان دی، وہ مسلمان ہوگئے، باقی مدینہ کے سارے یہودیوں کو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے نکال بھگایا، بنو قینقاع کے یہودیوں کو بھی جو عبداللہ بن سلام (رض) کی قوم سے تھے اور بنو حارثہ کے یہودیوں کو بھی اور جو کوئی بھی یہودی تھا سب کو مدینہ سے نکال باہر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٤ (٤٠٢٨) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٠ (١٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جنگ خندق کے موقع پر انہوں نے بد عہدی کی اور در پردہ قریش کی اعانت کی۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اہل خیبر سے جنگ کی، ان کی زمین، اور ان کے کھجور کے باغات قابض ہوگئے اور انہیں اپنے قلعہ میں محصور ہوجانے پر مجبور کردیا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شرط پر صلح کرلی کہ سونا چاندی اور ہتھیار جو کچھ بھی ہیں وہ سب رسول اللہ ﷺ کے لیے ہوں گے اور ان کے لیے صرف وہی کچھ (مال و اسباب) ہے جنہیں ان کے اونٹ اپنے ساتھ اٹھا کرلے جاسکیں، انہیں اس کا حق و اختیار نہ ہوگا کہ وہ کوئی چیز چھپائیں یا غائب کریں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو مسلمانوں پر ان کی حفاظت اور معاہدے کی پاس داری کی کوئی ذمہ داری نہ رہے گی تو انہوں نے حیی بن اخطب کے چمڑے کی ایک تھیلی غائب کردی، حیی بن اخطب خیبر سے پہلے قتل کیا گیا تھا، اور وہ جس دن بنو نضیر جلا وطن کئے گئے تھے اسے اپنے ساتھ اٹھا لایا تھا اس میں ان کے زیورات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے سعیہ (یہودی) سے پوچھا : حیی بن اخطب کی تھیلی کہاں ہے ؟ ، اس نے کہا : لڑائیوں میں کام آگئی اور مصارف میں خرچ ہوگئی پھر صحابہ کو وہ تھیلی مل گئی تو آپ ﷺ نے ابن ابی حقیق کو قتل کردیا، ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا، اور ان کی اولاد کو غلام بنا لیا، ان کو جلا وطن کردینے کا ارادہ کرلیا، تو وہ کہنے لگے : محمد ! ہمیں یہیں رہنے دیجئیے، ہم اس زمین میں کام کریں گے (جوتیں بوئیں گے) اور جو پیداوار ہوگی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا آپ کو دیں گے، رسول اللہ ﷺ (اس پیداوار سے) اپنی ہر ہر بیوی کو (سال بھر میں) (٨٠، ٨٠) وسق کھجور کے اور (٢٠، ٢٠) وسق جو کے دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٨٧٧) (حسن الإسناد )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے کہا : لوگو ! رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے یہ معاملہ کیا تھا کہ ہم جب چاہیں گے انہیں یہاں سے جلا وطن کردیں گے، تو جس کا کوئی مال ان یہودیوں کے پاس ہو وہ اسے لے لے، کیونکہ میں یہودیوں کو (اس سر زمین سے) نکال دینے والا ہوں، پھر آپ ﷺ نے انہیں نکال دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الشروط ١٤ (٢٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہودیوں نے عمر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ہمیں نکال رہے ہیں، حالانکہ آپ کے رسول نے ہمیں یہاں رکھا تھا، تو عمر (رض) نے انہیں جواب دیا کہ ہمارے رسول ﷺ نے کہا ہے کہ جزیرہ عرب میں دو دین نہ رہیں، اسی وجہ سے میں تمہیں نکال رہا ہوں۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ : آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہوگی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے، ، چناچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ ﷺ اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر (رض) نے یہود کو نکال دینے کا ارادہ کرلیا تو امہات المؤمنین کو کہلا بھیجا کہ آپ میں سے جس کا جی چاہے کہ میں اس کو اتنے درخت دے دوں جن میں سے سو وسق کھجور نکلیں مع جڑ کھجور اور پانی کے اور اسی طرح کھیتی میں سے اس قدر زمین دے دوں جس میں بیس وسق جو پیدا ہو، تو میں دے دوں اور جو پسند کرے کہ میں خمس میں سے اس کا حصہ نکالا کروں جیسا کہ ہے تو میں ویسا ہی نکالا کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١ (١٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ٨ (٢٣٢٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٤١ (١٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٤ (٢٤٦٧) ، مسند احمد (٢/١٧، ٢٢، ٣٧) (صحیح )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل خیبر سے جہاد کیا، ہم نے اسے لڑ کر حاصل کیا، پھر قیدی اکٹھا کئے گئے (تاکہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ (٣٧١) ، صحیح مسلم/الجھاد ٤٣ (١٣٦٥) ، سنن النسائی/النکاح ٦٤ (٣٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩) (صحیح )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
سہل بن ابی حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا : ایک حصہ تو اپنی حوائج و ضروریات کے لیے رکھا اور ایک حصہ کے اٹھارہ حصے کر کے مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢) (حسن صحیح )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
بشیر بن یسار (رض) کہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے خیبر اپنے نبی اکرم ﷺ کو بطور غنیمت عطا فرمایا تو آپ نے اس کے (٣٦ چھتیس) حصے کئے اور ہر حصے میں سو حصے رکھے، تو اس کے نصف حصے اپنی ضرورتوں و کاموں کے لیے رکھا اور اسی میں سے وطیحہ وکتیبہ ١ ؎ اور ان سے متعلق جائیداد بھی ہے اور دوسرے نصف حصے کو جس میں شق و نطاۃ ٢ ؎ ہیں اور ان سے متعلق جائیداد بھی شامل تھی الگ کر کے مسلمانوں میں تقسیم کردیا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ ان دونوں گاؤں کے متعلقات میں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٥، ١٨٤٥٦) (صحیح) (یہ روایت گرچہ مرسل ہے پچھلی سے تقویت پا کر صحیح ہے، أغلب یہی ہے کہ وہی صحابی یہاں بھی واسطہ ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یہ دونوں گاؤں کے نام ہیں۔ ٢ ؎ : یہ بھی دو گاؤں کے نام ہیں۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
بشیر بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں سے سنا، انہوں نے کہا، پھر راوی نے یہی حدیث ذکر کی اور کہا کہ نصف میں سب مسلمانوں کے حصے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا بھی حصہ تھا اور باقی نصف مسلمانوں کی ضروریات اور مصائب و مشکلات کے لیے رکھا جاتا تھا جو انہیں پیش آتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٥، ١٨٤٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦) (صحیح الإسناد )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
بشیر بن یسار جو انصار کے غلام تھے بعض اصحاب رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خیبر پر غالب آئے تو آپ نے اسے چھتیس حصوں میں تقسیم فرمایا، ہر ایک حصے میں سو حصے تھے تو اس میں سے نصف رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے ہوا اور باقی نصف آنے والے وفود اور دیگر کاموں اور اچانک مسلمانوں کو پیش آنے والے حادثات و مصیبتوں میں خرچ کرنے کے لیے الگ کر کے رکھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٥، ١٨٤٥٦) (صحیح الإسناد)
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب اللہ نے خیبر کا مال عطا کیا تو آپ نے اس کے کل چھتیس حصے کئے، پھر آپ ﷺ نے آدھے یعنی اٹھارہ حصے مسلمانوں کے لیے الگ کر دئیے، ہر حصے میں سو حصے تھے نبی اکرم ﷺ بھی انہیں کے ساتھ تھے آپ کا بھی ویسے ہی ایک حصہ تھا جیسے ان میں سے کسی دوسرے شخص کا تھا، اور رسول اللہ ﷺ نے اٹھارہ حصے (یعنی نصف آخر) اپنی ضروریات اور مسلمانوں کے امور کے لیے الگ کردیے، اسی نصف میں وطیح، کتیبہ اور سلالم (دیہات کے نام ہیں) اور ان کے متعلقات تھے، جب یہ سب اموال رسول اللہ ﷺ کے قبضے میں آئے تو مسلمانوں کے پاس ان کی دیکھ بھال اور ان میں کام کرنے والے نہیں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے یہود کو بلا کر ان سے (بٹائی پر) معاملہ کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٥، ١٨٤٥٦) (صحیح) (یہ روایت بھی سابقہ روایت سے تقویت پا کر صحیح ہے )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
مجمع بن جاریہ انصاری (جو قرآن کے قاریوں میں سے ایک تھے) کہتے ہیں کہ خیبر ان لوگوں پر تقسیم کیا گیا جو صلح حدیبیہ میں شریک تھے ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو اٹھارہ حصوں میں تقسیم کیا، لشکر کی تعداد ایک ہزار پانچ سو تھی، ان میں تین سو سوار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے سواروں کو دو دو حصے دئیے اور پیادوں کو ایک ایک حصہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : (٢٧٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢١٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہی لوگ مکہ سے آ کر خیبر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
ابن شہاب زہری، عبداللہ بن ابوبکر اور محمد بن مسلمہ کے بعض لڑکوں سے روایت ہے یہ لوگ کہتے ہیں (جب خیبر فتح ہوگیا) خیبر کے کچھ لوگ رہ گئے وہ قلعہ بند ہوگئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ ان کا خون نہ بہایا جائے اور انہیں یہاں سے نکل کر چلے جانے دیا جائے، آپ نے ان کی درخواست قبول کرلی) یہ خبر فدک والوں نے بھی سنی، تو وہاں کے لوگ بھی اس جیسی شرط پر اترے تو فدک (اللہ کی جانب سے، رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص (عطیہ) قرار پایا، اس لیے کہ اس پر اونٹ اور گھوڑے نہیں دوڑائے گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٨٨٦) (ضعیف الإسناد) (یہ روایت مرسل ہے جیسا کہ سند سے ظاہر ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوا جنگ سے حاصل ہوتا تو اس میں مسلمانوں کا بھی حق ہوتا۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا کچھ حصہ طاقت سے فتح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ آپ لوگوں کو ابن وہب نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا ہے وہ ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں کہ خیبر کا بعض حصہ زور و طاقت سے حاصل ہوا ہے، اور بعض صلح کے ذریعہ اور کتیبہ (جو خیبر کا ایک گاؤں ہے) کا زیادہ حصہ زور و طاقت سے فتح ہوا اور کچھ صلح کے ذریعہ ۔ ابن وہب کہتے ہیں : میں نے مالک سے پوچھا کہ کتیبہ کیا ہے ؟ بولے : خیبر کی زمین کا ایک حصہ ہے، اور وہ چالیس ہزار کھجور کے درختوں پر مشتمل تھا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عَذْق کھجور کے درخت کو کہتے ہیں، اور عِذْق کھجور کے گچھے کی جڑ جو ٹیڑھی ہوتی ہے، اور گچھے کو کاٹنے پر درخت پر خشک ہو کر باقی رہ جاتی ہے اس کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٣٢، ١٩٣٦٧) (ضعیف) (یہ روایت بھی مرسل ہے ) وضاحت : ١ ؎ : خیبر کے زیادہ تر درخت کھجور ہی کے تھے اور کچھ زراعت (کھیتی باڑی) بھی ہوتی تھی۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو طاقت کے ذریعہ لڑ کر فتح کیا اور خیبر کے جو لوگ قلعہ سے نکل کر جلا وطن ہوئے وہ بھی جنگ کے بعد ہی جلا وطنی کی شرط پر قلعہ سے باہر نکلے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٠٢) (ضعیف) (اس سند میں انقطاع ہے، زہری اور نبی کریم صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے درمیان واسطے کا پتہ نہیں ہے مگر بات یہی صحیح ہے کہ خبیر بزور طاقت (جنگ سے) فتح کیا گیا تھا جیسا کہ صحیح اور متصل مرفوع روایات میں وارد ہے ) وضاحت : ١ ؎ : پھر انہوں نے منت سماجت کی اور کہنے لگے کہ ہمیں یہاں رہنے دو ، ہم زراعت (کھیتی باڑی) کریں گے، اور نصف پیداوار آپ کو دیں گے، تو آپ ﷺ نے انھیں رکھ لیا، اس شرط کے ساتھ کہ جب ہم چاہیں گے، نکال دیں گے۔
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے مال میں سے (جو غنیمت میں آیا) خمس (پانچواں حصہ) نکال لیا اور جو باقی بچ رہا اسے ان لوگوں میں تقسیم کردیا جو جنگ میں موجود تھے اور جو موجود نہیں تھے لیکن صلح حدیبیہ میں حاضر تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٠١) (حسن )
خیبر کی زمین کا بیان اور اس کا حکم
عمر (رض) کہتے ہیں اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا (یعنی ان کی محتاجی کا) خیال نہ ہوتا تو جو بھی گاؤں و شہر فتح کیا جاتا اسے میں اسی طرح تقسیم کردیتا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو تقسیم کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٤ (٢٣٣٤) ، فرض الخمس ١٤ (٣١٢٥) ، المغازي ٣٨ (٤٢٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١، ٣٢) (صحیح )
فتح مکہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ١ ؎ عباس بن عبدالمطلب (رض) ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے وہ مرالظہران ٢ ؎ میں مسلمان ہوگئے، اس وقت عباس (رض) نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کردیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا) ، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کردیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ بھی مامون ہے (ہم اسے نہیں ماریں گے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٨٥٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ ٨ ہجری میں فتح ہوا۔ ٢ ؎ : مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
فتح مکہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے مرالظہران میں (فتح مکہ کے لیے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ) پڑاؤ کیا، عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حاضر ہو کر امان حاصل نہ کرلی تو قریش تباہ ہوجائیں گے، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے خچر پر سوار ہو کر نکلا، میں نے (اپنے جی) میں کہا : شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت سے مکہ جاتا ہوا مل جائے (تو میں اسے بتادوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ ﷺ کے متعلق خبر کر دے (کہ آپ مع لشکر جرار تمہارے سر پر آپہنچے ہیں) تاکہ وہ آپ کے حضور میں پہنچ کر آپ سے امان حاصل کرلیں۔ میں اسی خیال میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ابوسفیان اور بدیل بن ورقاء کی آواز سنی، میں نے پکار کر کہا : اے ابوحنظلہ (ابوسفیان کی کنیت ہے) اس نے میری آواز پہچان لی، اس نے کہا : ابوفضل ؟ (عباس کی کنیت ہے) میں نے کہا : ہاں، اس نے کہا : کیا بات ہے، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میں نے کہا : دیکھ ! یہ رسول اللہ ﷺ ہیں اور آپ کے ساتھ کے لوگ ہیں (سوچ لے) ابوسفیان نے کہا : پھر کیا تدبیر کروں ؟ وہ کہتے ہیں : ابوسفیان میرے پیچھے (خچر پر) سوار ہوا، اور اس کا ساتھی (بدیل بن ورقاء) لوٹ گیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا (وہ مسلمان ہوگیا) میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ابوسفیان فخر کو پسند کرتا ہے، تو آپ اس کے لیے (اس طرح کی) کوئی چیز کر دیجئیے، تو آپ ﷺ نے کہا : ہاں (ایسی کیا بات ہے، لو کردیا میں نے) ، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لیے امن ہے (وہ قتل نہیں کیا جائے گا) اور جو اپنے گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کے لیے امن ہے، اور جو خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اس کو امن ہے ، یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں میں اور مسجد میں بٹ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٣٢) (حسن) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم (بعض أہلہ) راوی ہے )
فتح مکہ کا بیان
وہب (وہب بن منبہ) کہتے ہیں میں نے جابر (رض) سے پوچھا : کیا مسلمانوں کو فتح مکہ کے دن کچھ مال غنیمت ملا تھا ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٣٥) (صحیح الإسناد )
فتح مکہ کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابوعبیدہ ابن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو گھوڑوں پر سوار رہنے دیا، اور ابوہریرہ (رض) سے کہا : تم انصار کو پکار کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلا دیں ، اتنے میں ایک منادی نے آواز دی : آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے ، قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، نبی اکرم ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی پھر خانہ کعبہ کے دروازے کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر (کھڑے ہوئے) تو خانہ کعبہ کے اندر سے لوگ نکلے اور نبی اکرم ﷺ سے اسلام پر بیعت کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ کسی شخص نے احمد بن حنبل سے پوچھا : کیا مکہ طاقت سے فتح ہوا ہے ؟ تو احمد بن حنبل نے کہا : اگر ایسا ہوا ہو تو تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا : تو کیا صلح (معاہدہ) کے ذریعہ ہوا ہے ؟ کہا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٣١ (١٧٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٢، ٥٣٨) (صحیح )
طائف کی فتح کا بیان
وہب کہتے ہیں میں نے جابر (رض) سے بنو ثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ثقیف نے نبی اکرم ﷺ سے شرط رکھی کہ نہ وہ زکاۃ دیں گے اور نہ وہ جہاد میں حصہ لیں گے۔ جابر (رض) کہتے ہیں : اس کے بعد انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب وہ مسلمان ہوجائیں گے تو وہ زکاۃ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣١٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤١) (صحیح )
طائف کی فتح کا بیان
عثمان بن ابوالعاص (رض) کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ جہاد کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر (زکاۃ) لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہوسکتی ہے کہ تم جہاد کے لیے نہ نکالے جاؤ (کیونکہ اور لوگ جہاد کے لیے موجود ہیں) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے (کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع (نماز) نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٨) (ضعیف) (حسن بصری کا عثمان ابن أبی العاص (رض) سے سماع نہیں ہے )
یمن کی زمین کا حکم
عامر بن شہر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا (بحیثیت نبی) ظہور ہوا تو مجھ سے (قبیلہ) ہمدان کے لوگوں نے کہا : کیا تم اس آدمی کے پاس جاؤ گے اور ہماری طرف سے اس سے بات چیت کرو گے ؟ اگر تمہیں کچھ بھی اطمینان ہوا تو ہم اسے قبول کرلیں گے، اگر تم نے اسے ناپسند کیا تو ہم بھی برا جانیں گے، میں نے کہا : ہاں (ٹھیک ہے میں جاؤں گا) پھر میں چلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ کا معاملہ ہمیں پسند آگیا (تو میں اسلام لے آیا) اور میری قوم بھی اسلام لے آئی، اور رسول اللہ ﷺ نے عمیر ذی مران کو یہ تحریر لکھ کردی، اور آپ ﷺ نے مالک بن مرارہ رہاوی کو تمام یمن والوں کے پاس (اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے) بھیجا، تو عک ذوخیوان (ایک شخص کا نام ہے) اسلام لے آیا۔ عک ذوخیوان سے کہا گیا کہ تو رسول اللہ ﷺ کے پاس جا اور آپ سے اپنی بستی اور اپنے مال کے لیے امان لے کر آ (تاکہ آئندہ کوئی تجھ پر اور تیری بستی والوں پر زیادتی نہ کرے) تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھ کردیا آپ نے لکھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم محمد ﷺ کی طرف سے جو اللہ کے رسول ہیں عک ذوخیوان کے لیے اگر وہ سچا ہے تو اسے لکھ کردیا جاتا ہے کہ اس کو امان ہے، اس کی زمین، اس کے مال اور اس کے غلاموں میں، اسے اللہ اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کی طرف سے ذمہ اور امان و پناہ حاصل ہے ۔ (راوی کہتے ہیں) خالد بن سعید بن العاص نے یہ پروانہ (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) اسے لکھ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠٤٣) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی مجالد ضعیف ہیں )
یمن کی زمین کا حکم
ابیض بن حمال (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ وفد میں شامل ہو کر رسول اللہ کے پاس آئے تو آپ سے صدقے کے متعلق بات چیت کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے سبائی بھائی ! (سبا یمن کے ایک شہر کا نام ہے) صدقہ دینا تو ضروری ہے ، ابیض بن حمال نے کہا : اللہ کے رسول ! ہماری زراعت تو صرف کپاس (روئی) ہے، (سبا اب پہلے والا سبا نہیں رہا) سبا والے متفرق ہوگئے (یعنی وہ شہر اور وہ آبادی اب نہیں رہی جو پہلے بلقیس کے زمانہ میں تھی، اب تو بالکل اجاڑ ہوگیا ہے) اب کچھ تھوڑے سے سبا کے باشندے مارب (ایک شہر کا نام ہے) میں رہ رہے ہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے ہر سال کپڑے کے ایسے ستر جوڑے دینے پر مصالحت کرلی جو معافر ١ ؎ کے ریشم کے جوڑے کی قیمت کے برابر ہوں، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک برابر یہ جوڑے ادا کرتے رہے، رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد عمال نے رسول ﷺ کے ابیض بن حمال سے سال بہ سال ستر جوڑے دیتے رہنے کے معاہدے کو توڑ دیا، پھر ابوبکر (رض) نے سال میں ستر جوڑے دئیے جانے کے رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کو دوبارہ جاری کردیا، پھر جب ابوبکر (رض) کا انتقال ہوا تو یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا اور ان سے بھی ویسے ہی صدقہ لیا جانے لگا جیسے دوسروں سے لیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے دو راوی ثابت بن سعید اور سعید بن ابیض لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یمن میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں کپڑے بنے جاتے تھے۔
جزیرةالعرب سے یہودیوں کا اخراج
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت) تین چیزوں کی وصیت فرمائی (ایک تو یہ) کہا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، دوسرے یہ کہ وفود (ایلچیوں) کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرنا جیسے میں ان کے ساتھ کرتا ہوں۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : اور تیسری چیز کے بارے میں انہوں نے سکوت اختیار کیا یا کہا کہ (نبی اکرم ﷺ نے ذکر تو کیا) لیکن میں ہی اسے بھلا دیا گیا۔ حمیدی سفیان سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے کہا کہ مجھے یاد نہیں، سعید نے تیسری چیز کا ذکر کیا اور میں بھول گیا یا انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا خاموش رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٧٥ (٣٠٥٣) ، الجزیة ٦ (٣١٦٨) ، المغازي ٨٣ (٤٤٣١) ، صحیح مسلم/الوصیة ٥ (١٦٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٢) (صحیح )
جزیرةالعرب سے یہودیوں کا اخراج
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میں جزیرہ عرب سے یہود و نصاری کو ضرور با لضرور نکال دوں گا اور اس میں مسلمانوں کے سوا کسی کو نہ رہنے دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٢١ (١٧٦٧) ، سنن الترمذی/السیر ٤٣ (١٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩، ٣٢، ٣/٣٤٥) (صحیح )
جزیرةالعرب سے یہودیوں کا اخراج
اس سند سے بھی عمر (رض) سے اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٩) (صحیح )
جزیرةالعرب سے یہودیوں کا اخراج
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک ملک میں دو قبلے نہیں ہوسکتے ، (یعنی مسلمان اور یہود و نصاریٰ عرب میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١١ (٦٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٢٢٣، ٢٨٥) (ضعیف) (اس کے راوی قابوس ضعیف ہیں )
جزیرةالعرب سے یہودیوں کا اخراج
سعید یعنی ابن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ جزیرہ عرب وادی قریٰ سے لے کر انتہائے یمن تک عراق کی سمندری حدود تک ہے۔
جزیرةالعرب سے یہودیوں کا اخراج
ابوداؤد کہتے ہیں : حارث بن مسکین کے سامنے یہ پڑھا گیا اور میں وہاں موجود تھا کہ اشہب بن عبدالعزیز نے آپ کو خبر دی ہے کہ مالک کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے اہل نجران ١ ؎ کو جلا وطن کیا، اور تیماء سے جلا وطن نہیں کیا، اس لیے کہ تیماء ٢ ؎ بلاد عرب میں شامل نہیں ہے، رہ گئے وادی قریٰ کے یہودی تو میرے خیال میں وہ اس وجہ سے جلا وطن نہیں کئے گئے کہ ان لوگوں نے وادی قری کو عرب کی سر زمین میں سے نہیں سمجھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٥١) (منقطع) (امام مالک نے اپنی سند کا ذکر نہیں کیا اس لئے انقطاع ہے) وضاحت : ١ ؎ : شام و حجاز کے درمیان ایک گاؤں ہے۔ ٢ ؎ : سمندر کے قریب شام کے نواح میں ایک مقام ہے۔ مالک کہتے ہیں عمر (رض) نے نجران و فدک کے یہودیوں کو جلا وطن کیا (کیونکہ یہ دونوں عرب کی سرحد میں ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٥٢) (ضعیف) (سند میں امام مالک اور عمر (رض) کے درمیان انقطاع ہے لیکن اسی معنی کی پچھلی حدیث کی سند صحیح ہے )
جو زمین کافروں کے ملک میں جنگ کے بعد حاصل ہو مسلمانوں میں اسی تقسیم کا طریقہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ایک وقت آئے گا) جب عراق اپنے پیمانے اور روپے روک دے گا اور شام اپنے مدوں اور اشرفیوں کو روک دے گا اور مصر اپنے اردبوں ٢ ؎ اور اشرفیوں کو روک دے گا ٣ ؎ پھر (ایک وقت آئے گا جب) تم ویسے ہی ہوجاؤ گے جیسے شروع میں تھے ٤ ؎، (احمد بن یونس کہتے ہیں :) زہیر نے یہ بات (زور دینے کے لیے) تین بار کہی اور ابوہریرہ (رض) کے گوشت و خون (یعنی ان کی ذات) نے اس کی گواہی دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن وأشراط الساعة ٨ (٢٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٢) ، (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سواد سے مراد عراق کے دیہات کی وہ زمینیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے عمر (رض) کے عہد میں حاصل کیا، یہ اپنے کھجور کے باغات اور زراعت کی ہریالی کی وجہ سے سواد کے نام سے مشہور ہے، اور اس کی لمبائی موصل سے عبدان تک اور چوڑائی قادسیہ سے حلوان تک ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ مفتوحہ زمینیں مال غنیمت میں داخل نہیں ہیں ، امام کو مصلحت کے اعتبار سے اس کے تصرف کے بارے میں اختیار ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اسے تقسیم بھی کیا ہے ، اور چھوڑا بھی ہے، عمر (رض) نے تقسیم نہ کر کے اس کو جوں کا توں رکھا اور اس پر مستقل خراج (محصول) مقرر کردیا ، جو فوجیوں کے استعمال میں آئے ، یہ اس زمین (ارض سواد) کے وقف کا معنی ہے، اس کا معنی اصطلاحی وقف نہیں ہے ، جس کی ملکیت منتقل نہیں ہوسکتی بلکہ اس زمین کا بیچنا جائز ہے ، جس پر امت کا عمل ہے ، اور اس بات پر اجماع ہے کہ یہ وراثت میں منتقل ہوگی ، اور وقف میں وراثت نہیں ہے ، امام احمد نے یہ تنصیص فرمائی ہے کہ اس (ارض سواد) کو مہر میں دیا جاسکتا ہے ، اور وقف کو مہر میں دینا جائز نہیں ہے ، اور اس واسطے بھی کہ وقف کی بیع ممنوع ہے ، ایسے ہی اس کی نقل ملکیت بھی ممنوع ہے ، اس لیے کہ جن لوگوں کے لیے وقف ہوتا ہے ، وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے ، اور فوجیوں کا حق زمین (ارض سواد) کے خراج (محصول) میں ہے ، تو جس نے اس زمین کو خرید لیا وہ اس کے خراج کا مستحق ہوگیا، جیسے کہ کوئی چیز بائع کے یہاں ہوتی ہے (تو جب مشتری کے یہاں منتقل ہوتی ہے ، تو اس کا نفع بھی منتقل ہوجاتا ہے) ، تو اس بیع سے کسی مسلمان کا حق باطل نہیں ہوتا، جیسے کہ میراث ، ہبہ اور صدقہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (انتہی مختصراً ) مسلمانوں نے جن علاقوں کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اس کے بارے میں اختلاف ہے ، امام ابن منذر کہتے ہیں کہ امام شافعی اس بات کی طرف گئے ہیں کہ عمر (رض) نے ان مجاہدین کو راضی کرلیا تھا جنہوں نے علاقہ سواد کو فتح کیا تھا اور مال غنیمت میں اس کے حق دار تھے، اور طاقت سے حاصل کی گئی زمین کا حکم یہ ہے کہ وہ تقسیم کی جائے گی ، جیسے کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کی زمین کو تقسیم فرمایا تھا ، امام مالک کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں حاصل ہونے والی یہ زمینیں تقسیم نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وقف رہیں گی ، اور اس کے محصول سے فوجیوں کے وظائف ، پل بنانا اور دوسرے کار خیر کیے جائیں گے ، ہاں اگر امام کبھی یہ دیکھے کہ مصلحت کا تقاضا اس کا تقسیم کردینا ہے تو وہ اس زمین کو تقسیم کرسکتا ہے، ابوعبید نے کتاب الأموال میں حارثہ بن مضرب سے نقل کیا ہے کہ عمر (رض) نے سواد کی زمین کو تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس سلسلے میں مشورہ کیا تو علی (رض) نے آپ سے عرض کیا کہ اسے مسلمانوں کے مفاد عامہ کے لیے چھوڑ دیجئے ، تو آپ نے اسے مجاہدین میں تقسیم نہ کر کے اس کو ایسے ہی چھوڑ دیا ، اور عبداللہ بن ابی قیس سے یہ نقل کیا کہ عمر (رض) نے ارض سواد کی تقسیم کا ارادہ فرمایا تو معاذ (رض) نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اسے تقسیم کردیں گے تو اس کی بڑی آمدنی لوگوں کے پاس چلی جائے گی اور لوگوں کے فوت ہوجانے کے بعد وہ ایک مرد یا ایک عورت کے ہاتھ میں چلی جائے گی ، اور دوسرے ضرورت مند مسلمان آئیں گے تو انہیں کچھ نہ ملے گا ، تو آپ کوئی ایسا راستہ اختیار کیجئے جس سے پہلے اور بعد کے سارے مسلمان فائدہ اٹھائیں، تو عمر (رض) نے اس زمین کی تقسیم کو مؤخر کردیا ، اور غنیمت پانے والے مجاہدین اور بعد کے آنے والے لوگوں کی مصلحت کے لیے اس پر محصول لگا دیا۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داود ٨/١٩٤، ١٩٥) ٢ ؎ : اردب ایک پیمانہ کا نام ہے۔ ٣ ؎ : یعنی ان ممالک کی دولت پر تم قابض ہوجاؤ گے۔ ٤ ؎ : یعنی یہ ساری دولت تم سے چھِن جائے گی۔
جو زمین کافروں کے ملک میں جنگ کے بعد حاصل ہو مسلمانوں میں اسی تقسیم کا طریقہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس بستی میں تم آؤ اور وہاں رہو تو جو تمہارا حصہ ہے وہی تم کو ملے گا ١ ؎ اور جس بستی کے لوگوں نے اللہ و رسول کی نافرمانی کی (اور اسے تم نے زور و طاقت سے زیر کیا) تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کا نکال کر باقی تمہیں مل جائے گا (یعنی بطور غنیمت مجاہدین میں تقسیم ہوجائے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٥ (١٧٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی غنیمت کی طرح وہ گاؤں تم میں تقسیم نہ ہوگا، کیونکہ بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے بلکہ امام کو اختیار ہے کہ جس کو جس قدر چاہے اس میں سے دے۔
جزیہ لینے کا بیان
انس (رض) سے (مرفوعاً ) اور عثمان بن ابو سلیمان سے (مرسلاً ) روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خالد بن ولید کو اکیدر ١ ؎ دومہ کی طرف بھیجا، تو خالد اور ان کے ساتھیوں نے اسے گرفتار کرلیا اور آپ ﷺ کے پاس لے آئے، آپ نے اس کا خون معاف کردیا اور جزیہ پر اس سے صلح کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٣٧، ١٩٠٠٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اکیدر شہر دومہ کا نصرانی بادشاہ تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے زندہ پکڑ لانے کا حکم دیا تھا۔
جزیہ لینے کا بیان
معاذ (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن کی طرف (حاکم بنا کر) بھیجا، تو انہیں حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے جزیہ لیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٣١٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٥ (٦٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٣) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٣، ٢٤٧) (صحیح )
جزیہ لینے کا بیان
اس سند سے بھی معاذ (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) (صحیح )
جزیہ لینے کا بیان
زیاد بن حدیر کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : اگر میں زندہ رہا تو بنی تغلب کے نصاریٰ کے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دوں گا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لوں گا کیونکہ ان کے اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ عہد نامہ میں نے ہی لکھا تھا اس میں تھا کہ وہ اپنی اولاد کو نصرانی نہ بنائیں گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام احمد بھی اس حدیث کا نہایت سختی سے انکار کرتے تھے۔ ابوعلی کہتے ہیں : ابوداؤد نے دوسری بار جب اس کتاب کو سنایا تو اس میں اس حدیث کو نہیں پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٧) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوة عبد الرحمن ، شریک اور ابراہیم حافظے کے کمزور راوی ہیں )
جزیہ لینے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں، اور باقی ماہ رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے، اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور (ضرورت پوری ہوجانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریۃً دینا اس وقت ہوگا جب یمن میں کوئی فریب کرے (یعنی سازش کر کے نقصان پہنچانا چاہے) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے (اور وہاں جنگ در پیش ہو) اس شرط پر کہ ان کا کوئی گرجا نہ گرایا جائے گا، اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا، اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔ اسماعیل سدی کہتے ہیں : پھر وہ سود کھانے لگے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جب انہوں نے اپنے اوپر لاگو بعض شرائط توڑ دیں تو نئی بات پیدا کرلی (اور وہ ملک عرب سے نکال دئیے گئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٦١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی اسماعیل سدی کا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں )
مجوسیوں سے جزیہ لینے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب اہل فارس کے نبی مرگئے تو ابلیس نے انہیں مجوسیت (یعنی آگ پوجنے) پر لگا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (حسن الإسناد )
مجوسیوں سے جزیہ لینے کا بیان
عمرو بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے بجالہ کو عمرو بن اوس اور ابوشعثاء سے بیان کرتے سنا کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا منشی (کاتب) تھا، کہ ہمارے پاس عمر (رض) کا خط ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا (اس میں لکھا تھا کہ) : ہر جادوگر کو قتل کر ڈالو، اور مجوس کے ہر ذی محرم کو دوسرے محرم سے جدا کر دو ، ١ ؎ اور انہیں زمزمہ (گنگنانے اور سر سے آواز نکالنے) سے روک دو ، تو ہم نے ایک دن میں تین جادوگر مار ڈالے، اور جس مجوسی کے بھی نکاح میں اس کی کوئی محرم عورت تھی تو اللہ کی کتاب کے مطابق ہم نے اس کو جدا کردیا، احنف بن قیس نے بہت سارا کھانا پکوایا، اور انہیں (کھانے کے لیے) بلوا بھیجا، اور تلوار اپنی ران پر رکھ کر بیٹھ گیا تو انہوں نے کھانا کھایا اور وہ گنگنائے نہیں، اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچروں کے بوجھ کے برابر چاندی (بطور جزیہ) لا کر ڈال دی تو عمر (رض) نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے گواہی نہ دے دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر ٢ ؎ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١ (٣١٥٦) ، سنن الترمذی/السیر ٣١ (١٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٧١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٤ (٤١) ، مسند احمد (١/١٩٠، ١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غالباً مجوسی اپنی بہن، خالہ وغیرہ سے شادی کرتے رہے ہوں گے۔ ٢ ؎ : بحرین کے ایک گاؤں کا نام ہے۔
مجوسیوں سے جزیہ لینے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بحرین کے رہنے والے اسبذیوں ١ ؎ (ہجر کے مجوسیوں) میں کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر نکلا تو میں نے اس سے پوچھا : اللہ اور اس کے رسول نے تم سب کے متعلق کیا فیصلہ کیا ؟ وہ کہنے لگا : برا فیصلہ کیا، میں نے کہا : چپ (ایسی بات کہتا ہے) اس پر اس نے کہا : فیصلہ کیا ہے کہ یا تو اسلام لاؤ یا قتل ہوجاؤ۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ لینا قبول کرلیا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : تو لوگوں نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے قول پر عمل کیا اور اسبذی سے جو میں نے سنا تھا اسے چھوڑ دیا (عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے مقابل میں کافر اسبذی کے قول کا کیا اعتبار) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٧١، ٩٧٢٣، ١٥٦١٣) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی قشیر مجہول الحال ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اسبذی منسوب ہے اسپ کی طرف، اسپ فارسی میں گھوڑے کو کہتے ہیں، ممکن ہے وہ یا اس کے باپ دادا گھوڑے کو پوجتے رہے ہوں اسی وجہ سے انہیں اسبذی کہا جاتا ہو۔
جزیہ وصول کرنے میں سختی کرنے کا بیان
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام (رض) نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں) سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا : یہ کیا ہے ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٣٣ (٢٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٤، ٤٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ظلم کرتے ہیں، اور لوگوں کو جرم اور قصور سے زیادہ سزا دیتے ہیں۔
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
حرب بن عبیداللہ کے نانا (جو بنی تغلب سے ہیں) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عشر (دسواں حصہ) یہود و نصاریٰ سے لیا جائے گا اور مسلمانوں پر دسواں حصہ (مال تجارت میں) نہیں ہے (بلکہ ان سے چالیسواں حصہ لیا جائے گا۔ البتہ پیداوار اور زراعت میں ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٦، ١٨٤٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٤، ٤/٣٢٢) (ضعیف) (اس کے راوی حرب بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں نیز ان کے شیخ کے بارے میں سخت اضطراب ہے، دیکھیں اگلی روایتوں کی سندیں )
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
حرب بن عبیداللہ سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے لیکن عشور کی جگہ خراج کا لفظ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٦، ١٨٤٨٩) (ضعیف) (حرب بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں، نیز روایت مرسل ہے )
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
عطا سے روایت ہے انہوں نے (قبیلہ) بکر بن وائل کے ایک شخص سے اس نے اپنے ماموں سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی قوم سے (اموال تجارت میں) دسواں حصہ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دسواں حصہ یہود و نصاریٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٦، ١٨٤٨٩) (ضعیف) (اس کے سند میں بکر بن وائل اور ان کے ماموں مجہول ہیں )
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
حرب بن عبیداللہ کے نانا جو بنی تغلب سے تعلق رکھتے تھے کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے پاس مسلمان ہو کر آیا، آپ نے مجھے اسلام سکھایا، اور مجھے بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جو اسلام لے آئیں کس طرح سے صدقہ لیا کروں، پھر میں آپ کے پاس لوٹ کر آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو آپ نے مجھے سکھایا تھا سب مجھے یاد ہے، سوائے صدقہ کے کیا میں اپنی قوم سے دسواں حصہ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، دسواں حصہ تو یہود و نصاریٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٦، ١٨٤٨٩) (ضعیف) (حرب ضعیف ہیں )
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
عرباض بن ساریہ سلمی (رض) کہتے ہیں ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : محمد ! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو ؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے فرمایا : عبدالرحمٰن ! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لیے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ نماز کے لیے جمع ہوجاؤ ، تو سب لوگ اکٹھا ہوگئے، نبی اکرم ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا : کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے ؟ خبردار ! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ١ ؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٦) (ضعیف) (اس کے راوی اشعث لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حدیث پر بھی قرآن کی طرح عمل واجب اور ضروری ہے، یہ نہ سمجھو کہ جو قرآن میں نہیں ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، رسول اللہ ﷺ نے جس بات کا حکم دیا ہے، وہ اصل میں اللہ ہی کا حکم ہے، اسی طرح جن باتوں سے آپ ﷺ نے روکا ہے ان سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، ارشاد باری ہے : وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ( سورة الحشر : ٧ ) ۔
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
جہینہ کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا ہوسکتا ہے کہ تم ایک قوم سے لڑو اور اس پر غالب آجاؤ تو وہ تمہیں مال (جزیہ) دے کر اپنی جانوں اور اپنی اولاد کو تم سے بچا لیں ۔ سعید کی روایت میں ہے : فيصالحونکم على صلح پھر وہ تم سے صلح پر مصالحت کرلیں پھر (مسدد اور سعید بن منصور دونوں راوی آگے کی بات پر) متفق ہوگئے کہ : جتنے پر مصالحت ہوگئی ہو اس سے زیادہ کچھ بھی نہ لینا کیونکہ یہ تمہارے واسطے درست نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٧) (ضعیف) ( رجل من ثقیف مبہم مجہول راوی ہے )
جب ذمی کا فرمال ِتجارت لے کر لوٹیں تو ان سے دسواں حصہ محصول لیا جائے گا
ابوصخر مدینی کا بیان ہے کہ صفوان بن سلیم نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائ سے (جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے وکیل ١ ؎ ہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں حجیج کا لفظ ہے یعنی میں اس کے دعوے کی وکالت کروں گا۔
اس ذمی کا بیان جو دوران سال مسلمان ہوجائے تو کیا اس سے جزیہ لیا جائے گا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر جزیہ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١١ (٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٥) (ضعیف) (اس کے راوی قابوس لین الحدیث ہیں )
اس ذمی کا بیان جو دوران سال مسلمان ہوجائے تو کیا اس سے جزیہ لیا جائے گا
محمد بن کثیر کہتے ہیں سفیان سے اس حدیث کا مطلب ١ ؎ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب ذمی اسلام قبول کرلے تو اس پر (اسلام لاتے وقت سال میں سے گزرے ہوئے دنوں کا) جزیہ نہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ابن عباس (رض) کی مذکورہ حدیث (نمبر ٣٠٥٣) کے متعلق سوال کیا۔
امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال (رض) سے حلب ١ ؎ میں ملاقات کی، اور کہا : بلال ! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ کا خرچ کیسے چلتا تھا ؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا : بلال ! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آپہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا : اے حبشی ! میں نے کہا : يا لباه ٢ ؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا : تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں ؟ میں نے کہا : قریب ہے، اس نے کہا : مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ٣ ؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہوجائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا) تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہوچکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہوجائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ ﷺ یاد کر رہے ہیں) چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ ﷺ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا : بلال ! خوش ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کردی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں ؟ ، میں نے کہا : ہاں دیکھ لی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو ، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال (رض) کہتے ہیں : پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے پوچھا : جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا ؟ ، میں نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کردیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ ﷺ نے فرمایا : کچھ مال بچا بھی ہے ؟ ، میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہوجائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا ، پھر جب رسول اللہ ﷺ عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا : کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا ؟ میں نے کہا : وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول ﷺ نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے) یہاں تک کہ جب آپ ﷺ عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا : وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا ؟ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کو اس سے بےنیاز و بےفکر کردیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آجاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی ! ) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : شام کے ایک شہر کا نام ہے۔ ٢ ؎ : یہ کلمہ عربی میں جی، یا حاضر ہوں کی جگہ بولا جاتا ہے۔ ٣ ؎ : قرض واپسی کی مدت میں ابھی چار دن باقی تھے اس لئے اسے لڑنے جھگڑنے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بولنے اور جھگڑنے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا۔
امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
اس سند سے بھی ابوتوبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ جب میں نے کہا کہ نہ آپ کے پاس اتنا مال ہے اور نہ میرے پاس کہ قرضہ ادا ہوجائے تو رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا تو مجھے بڑی گرانی ہوئی (کہ شاید رسول اللہ ﷺ نے میری بات پر توجہ نہیں دی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٠) (صحیح الإسناد )
امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا تم مسلمان ہوگئے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کردی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٢٤ (١٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نجاشی، مقوقس، اکیدر دومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ إني نهيت عن زبد المشرکين کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے۔
زمین مقطعہ دینا
وائل (رض) ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حضرموت ١ ؎ میں زمین کا ٹکڑا جاگیر میں دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣٩ (١٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٩) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٦ (٢٦٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یمن کا ایک شہر ہے۔ ٢ ؎ : حاکم یا حکومت کی طرف سے رعایا کو دی گئی زمین کو جاگیر کہتے ہیں۔
زمین مقطعہ دینا
اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی کے مثل روایت مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٣) (صحیح )
زمین مقطعہ دینا
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں مجھے گھر بنانے کے لیے کمان سے نشان لگا کر ایک زمین دی اور فرمایا : میں تمہیں مزید دوں گا مزید دوں گا (فی الحال یہ لے لو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی خلفیہ مخزومی لین الحدیث ہیں )
زمین مقطعہ دینا
ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو فرع ١ ؎ کی طرف کے قبلیہ ٢ ؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جاتا رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٣ (٨) ، مسند احمد (١/٣٠٦) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، اس میں مذکور جاگیر دینے والے واقعہ کی متابعت اور شواہد تو موجود ہیں مگر زکاة والے معاملہ کے متابعات و شواہد نہیں ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ ٢ ؎ : قبلیہ ایک گاؤں ہے جو فرع کے متعلقات میں سے ہے۔
زمین مقطعہ دینا
عمرو بن عوف مزنی (رض) ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ کی نشیب و فراز کی کانیں ٹھیکہ میں دیں ١ ؎۔ (ابوداؤد کہتے ہیں) اور دیگر لوگوں نے جلسيها وغوريها کہا ہے) اور قدس (ایک پہاڑ کا نام ہے) کی وہ زمین بھی دی جو قابل کاشت تھی اور وہ زمین انہیں نہیں دی جس پر کسی مسلمان کا حق اور قبضہ تھا، اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس کے لیے ایک دستاویز لکھ کردی، وہ اس طرح تھی : بسم الله الرحمن الرحيم، ، یہ دستاویز ہے اس بات کا کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ کے کانوں کا جو بلندی میں ہیں اور پستی میں ہیں، ٹھیکہ دیا اور قدس کی وہ زمین بھی دی جس میں کھیتی ہوسکتی ہے، اور انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا ۔ ابواویس راوی کہتے ہیں : مجھ سے بنو دیل بن بکر بن کنانہ کے غلام ثور بن زید نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٠١٥، ١٠٧٧٧) (حسن) ( کثیر کی روایت متابعات و شواہد سے تقویت پا کر حسن ہے، ورنہ کثیر خود ضعیف راوی ہیں، ابن عباس (رض) کی روایت حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کے نام سے الاٹ کردیا۔
زمین مقطعہ دینا
محمد بن نضر کہتے ہیں کہ میں نے حنینی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اسے یعنی نبی اکرم ﷺ کے جاگیر نامہ کو کئی بار پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھ سے کئی ایک نے حسین بن محمد کے واسطہ سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں : مجھے ابواویس نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں : مجھ سے کثیر بن عبداللہ نے بیان کیا ہے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث مزنی (رض) کو قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں بطور جاگیر دیں۔ ابن نضر کی روایت میں ہے : اور اس کے جرس اور ذات النصب ١ ؎ کو دیا، پھر دونوں راوی متفق ہیں : اور قدس کی قابل کاشت زمین دی، اور بلال بن حارث کو کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا، اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں لکھ کردیا کہ یہ وہ تحریر ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حارث مزنی کو لکھ کردی، انہیں قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں اور قدس کی قابل کاشت زمینیں دیں، اور انہیں کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا۔ ابواویس کہتے ہیں کہ ثور بن زید نے مجھ سے بیان کیا انہوں نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کیا اور ابن نضر نے اتنا اضافہ کیا کہ (یہ دستاویز) ابی بن کعب (رض) نے لکھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو جگہوں کے نام ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کی قسموں کے نام ہیں۔
زمین مقطعہ دینا
ابیض بن حمال ماربی (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے : جو مآرب ١ ؎ میں تھی) تو آپ ﷺ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ واپس مڑے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے عرض کیا : جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے ؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت و مشقت کے حاصل ہوتا ہے ٢ ؎ وہ کہتے ہیں : تو آپ ﷺ نے اسے واپس لے لیا، تب انہوں نے آپ سے پوچھا : پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ گھیری جائے ؟ ٣ ؎، آپ نے فرمایا : جہاں جانوروں کے پاؤں نہ پہنچ سکیں ٤ ؎۔ ابن متوکل کہتے ہیں : خفاف سے مراد أخفاف الإبل (یعنی اونٹوں کے پیر) ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣٩ (١٣٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٧ (٢٤٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٦٦ (٢٦٥٠) (حسن لغیرہ) (یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے : ثمامہ لیّن، سمی مجہول اور شمیر لین ہیں، لیکن آنے والی حدیث (٣٠٦٦) سے تقویت پا کر یہ حسن ہوئی، اس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، البانی نے دوسرے طریق کی وجہ سے اس کی تحسین کی ہے، ما لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ کے استثناء کے ساتھ، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٨ ؍ ٣٨٨ ) وضاحت : ١ ؎ : یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے۔ ٢ ؎ : یعنی یہ چیز تو سب کے استعمال و استفادہ کی ہے اسے کسی خاص شخص کی جاگیر میں دے دینا مناسب نہیں۔ ٣ ؎ : کہ جس میں اور لوگ نہ آسکیں اور اپنے جانور وہاں نہ چرا سکیں۔ ٤ ؎ : یعنی جو آبادی اور چراگاہ سے دور ہو۔
زمین مقطعہ دینا
ہارون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ محمد بن حسن مخزومی نے کہا : ما لم تنله أخفاف الإبل کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کا سر جہاں تک پہنچے گا وہاں تک وہ کھائے ہی کھائے گا اس سے اوپر کا حصہ بچایا جاسکتا ہے (اس لیے ایسی جگہ گھیرو جہاں اونٹ جاتے ہی نہ ہوں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف جداً ) (محمد بن حسن مخزومی کذّاب راوی ہے )
زمین مقطعہ دینا
ابیض بن حمال ماربی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پیلو کی ایک چراگاہ مانگی ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پیلو میں روک نہیں ہے ، انہوں نے کہا : پیلو میرے باڑھ اور احاطے کے اندر ہیں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پیلو میں روک نہیں ہے (اس لیے کہ اس کی حاجت سبھی آدمیوں کو ہے) ۔ فرج کہتے ہیں : حظاری سے ایسی سر زمین مراد ہے جس میں کھیتی ہوتی ہو اور وہ گھری ہوئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣) ، وقد أخرجہ : دی/ البیوع ٦٦ (٢٦٥٠) (حسن لغیرہ) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٨ ؍ ٣٩٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک احاطہ جس میں دوسرے لوگ آ کر نہ درخت کاٹیں نہ اس میں اپنے جانور چرائیں۔
زمین مقطعہ دینا
صخر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثقیف سے جہاد کیا (یعنی قلعہ طائف پر حملہ آور ہوئے) چناچہ جب صخر (رض) نے اسے سنا تو وہ چند سوار لے کر نبی اکرم ﷺ کی مدد کے لیے نکلے تو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ واپس ہوچکے ہیں اور قلعہ فتح نہیں ہوا ہے، تو صخر (رض) نے اس وقت اللہ سے عہد کیا کہ وہ قلعہ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ جائیں اور قلعہ خالی نہ کردیں (پھر ایسا ہی ہوا) انہوں نے قلعہ کا محاصرہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ گئے۔ صخر (رض) نے آپ ﷺ کو لکھا : امّا بعد، اللہ کے رسول ! ثقیف آپ کا حکم مان گئے ہیں اور وہ اپنے گھوڑ سواروں کے ساتھ ہیں میں ان کے پاس جا رہا ہوں (تاکہ آگے کی بات چیت کروں) ، جب آپ ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے باجماعت نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور نماز میں احمس ١ ؎ کے لیے دس (باتوں کی) دعائیں مانگیں اور (ان دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی) : اللهم بارک لأحمس في خيلها ورجالها اے اللہ ! احمس کے سواروں اور پیادوں میں برکت دے ، پھر سب لوگ (یعنی ضحر (رض) اور ان کے ساتھی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی اور کہا : اللہ کے نبی ! صخر نے میری پھوپھی کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ وہ اس (دین) میں داخل ہوچکی ہیں جس میں سبھی مسلمان داخل ہوچکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے صخر (رض) کو بلایا، اور فرمایا : صخر ! جب کوئی قوم اسلام قبول کرلیتی ہے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو بچا اور محفوظ کرلیتی ہے، اس لیے مغیرہ کی پھوپھی کو انہیں لوٹا دو ، تو صخر (رض) نے مغیرہ (رض) کو ان کی پھوپھی واپس کردی، پھر صخر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے سلیمیوں کے پانی کے چشمے کو مانگا جسے وہ لوگ اسلام کے خوف سے چھوڑ کر بھاگ لیے تھے، صخر (رض) نے کہا : اللہ کے نبی ! آپ مجھے اور میری قوم کو اس پانی کے چشمے پہ رہنے اور اس میں تصرف کرنے کا حق و اختیار دے دیجئیے، آپ ﷺ نے کہا : ہاں ہاں (لے لو اور) رہو ، تو وہ لوگ رہنے لگے (اور کچھ دنوں بعد) بنو سلیم مسلمان ہوگئے اور صخر (رض) کے پاس آئے، اور صخر (رض) سے درخواست کی کہ وہ انہیں پانی (کا چشمہ) واپس دے دیں، صخر (رض) (اور ان کی قوم) نے دینے سے انکار کیا (اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ چشمہ انہیں اور ان کی قوم کو دے دیا ہے) تو وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے نبی ! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم صخر کے پاس پہنچے (اور ان سے درخواست کی) کہ ہمارا پانی کا چشمہ ہمیں واپس دے دیں تو انہوں نے ہمیں لوٹانے سے انکار کردیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے صخر (رض) کو بلوایا اور فرمایا : صخر ! جب کوئی قوم اسلام قبول کرلیتی ہے تو اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیتی ہے (نہ اسے ناحق قتل کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا مال لیا جاسکتا ہے) تو تم ان کو ان کا چشمہ دے دو صخر (رض) نے کہا : بہت اچھا اللہ کے نبی ! (صخر (رض) کہتے ہیں) میں نے اس وقت رسول اللہ ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا کہ وہ شرم و ندامت سے بدل گیا اور سرخ ہوگیا (یہ سوچ کر) کہ میں نے اس سے لونڈی بھی لے لی اور پانی بھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٨٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٤ (١٧١٥) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابان ضعیف الحفظ اور عثمان لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : احمس ایک قبیلہ ہے، صخر اسی قبیلہ کے ایک فرد تھے۔ ٢ ؎ : لونڈی وہی مغیرہ کی پھوپھی اور پانی وہی بنی سلیم کے پانی کا چشمہ۔
زمین مقطعہ دینا
ربیع جہنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس جگہ جہاں اب مسجد ہے ایک بڑے درخت کے نیچے پڑاؤ کیا، وہاں تین دن قیام کیا، پھر تبوک ١ ؎ کے لیے نکلے، اور جہینہ کے لوگ آپ ﷺ سے ایک وسیع میدان میں جا کر ملے (یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ہوئے) آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : مروہ والوں میں سے یہاں کون رہتا ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : بنو رفاعہ کے لوگ رہتے ہیں جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :، ، میں یہ زمین (علاقہ) بنو رفاعہ کو بطور جاگیر دیتا ہوں تو انہوں نے اس زمین کو آپس میں بانٹ لیا، پھر کسی نے اپنا حصہ بیچ ڈالا اور کسی نے اپنے لیے روک لیا، اور اس میں محنت و مشقت (یعنی زراعت) کی۔ ابن وہب کہتے ہیں : میں نے پھر اس حدیث کے متعلق سبرہ کے والد عبدالعزیز سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس کا کچھ حصہ بیان کیا پورا بیان نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٨١٢) (ضعیف) (ربیع جہنی تابعی ضعیف ہیں، اور حدیث مرسل ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ٢/٤٥٧ ) وضاحت : ١ ؎ : تبوک مدینہ سے شمال شام کی طرف ایک جگہ کا نام ہے، جہاں نو ہجری میں لشکر اسلام گیا تھا۔
زمین مقطعہ دینا
اسماء بنت ابوبکر (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زبیر (رض) (اسماء (رض) کے خاوند ہیں) کو کھجور کے کچھ درخت بطور جاگیر عنایت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ١٩ (٢٨١٥) ، مسند احمد (٦/٣٤٧) (حسن صحیح )
زمین مقطعہ دینا
عبداللہ بن حسان عنبری کا بیان ہے کہ مجھ سے میری دادی اور نانی صفیہ اور دحیبہ نے حدیث بیان کی یہ دونوں علیبہ کی بیٹیاں تھیں اور قیلہ بنت مخرمہ (رض) کی پروردہ تھیں اور قیلہ ان دونوں کے والد کی دادی تھیں، قیلہ نے ان سے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ہمارا ساتھی حریث بن حسان جو بکر بن وائل کی طرف پیامبر بن کر آیا تھا ہم سے آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا، اور آپ سے اسلام پر اپنی اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے اور بنو تمیم کے درمیان دہناء ١ ؎ کو سرحد بنا دیجئیے، مسافر اور پڑوسی کے سوا اور کوئی ان میں سے آگے بڑھ کر ہماری طرف نہ آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے غلام ! دہناء کو انہیں لکھ کر دے دو ، قیلہ کہتی ہیں : جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے دہناء انہیں دے دیا تو مجھے اس کا ملال ہوا کیونکہ وہ میرا وطن تھا اور وہیں میرا گھر تھا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! انہوں نے اس زمین کا آپ سے مطالبہ کر کے مبنی پر انصاف مطالبہ نہیں کیا ہے، دہناء اونٹوں کے باندھنے کی جگہ اور بکریوں کی چراگاہ ہے اور بنی تمیم کی عورتیں اور بچے اس کے پیچھے رہتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے غلام رک جاؤ ! (مت لکھو) بڑی بی صحیح کہہ رہی ہیں، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ایک دوسرے کے درختوں اور پانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مصیبتوں و فتنوں میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے اور کام آسکتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٥٠ (٢٨١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٧) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٧/٣٩٢ ) وضاحت : ١ ؎ : دہناء : ایک جگہ کا نام ہے۔
زمین مقطعہ دینا
اسمر بن مضرس (رض) کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بیعت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی ایسے پانی (چشمے یا تالاب) پر پہنچ جائے (یعنی اس کا کھوج لگالے) جہاں اس سے پہلے کوئی اور مسلمان نہ پہنچا ہو تو وہ اس کا ہے ، (یعنی وہ اس کا مالک و مختار ہوگا) (یہ سن کر) لوگ دوڑتے اور نشان لگاتے ہوئے چلے (تاکہ نشانی رہے کہ ہم یہاں تک آئے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥) (ضعیف) (یہ سند مسلسل بالمجاہیل ہے : ام الجنوب سویدة اور عقیلہ سب مجہول ہیں اور عبد الحمید لین الحدیث ہیں )
زمین مقطعہ دینا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے زبیر (رض) کو اتنی زمین جاگیر میں دی جہاں تک ان کا گھوڑا دوڑ سکے، تو زبیر (رض) نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور جہاں گھوڑا رکا اس سے آگے انہوں نے اپنا کوڑا پھینک دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دے دو زبیر کو جہاں تک ان کا کوڑا پہنچا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٧٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٦) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی عبد اللہ بن عمر ضعیف ہیں )
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
سعید بن زید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کا ہے (وہی اس کا مالک ہوگا) کسی اور ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣٨ (١٣٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٠٤٣، ٤٤٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢٤ (٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کوئی ظالم اس کی آباد اور قابل کاشت بنائی ہوئی زمین کو چھین نہیں سکتا۔
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ زمین اسی کی ہے ۔ پھر راوی نے اس کے مثل ذکر کیا، راوی کہتے ہیں : جس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی اسی نے یہ بھی ذکر کیا کہ دو شخص اپنا جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر گئے ایک نے دوسرے کی زمین میں کھجور کے درخت لگا رکھے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے زمین کو اس کی زمین دلا دی، اور درخت والے کو حکم دیا کہ تم اپنے درخت اکھاڑ لے جاؤ میں نے دیکھا کہ ان درختوں کی جڑیں کلہاڑیوں سے کاٹی گئیں اور وہ زمین سے نکالی گئیں، حالانکہ وہ لمبے اور گنجان پورے پورے درخت ہوگئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٣) (حسن ) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ یہ روایت مرسل ہے )
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
ابن اسحاق اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں مگر اس میں الذي حدثني هذا کی جگہ یوں ہے، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا : میرا گمان غالب یہ ہے کہ وہ ابو سعید خدری (رض) رہے ہوں گے کہ میں نے اس آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے درختوں کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٣) (حسن) (حدیث نمبر : ٣٠٧٣ سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ یہ حدیث مرسل ہے )
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
عروہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے (فیصلہ) فرمایا ہے کہ زمین اللہ کی ہے اور بندے بھی سب اللہ کے بندے ہیں اور جو شخص کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اس زمین کا زیادہ حقدار ہے، یہ حدیث ہم سے نبی اکرم ﷺ کے واسطہ سے ان لوگوں نے بیان کی ہے جنہوں نے آپ سے نماز کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٣٧) (صحیح الإسناد )
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی بنجر زمین پر دیوار کھڑی کرے تو وہی اس زمین کا حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ٢١) (ضعیف) (حسن بصری اور قتادہ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
مالک نے خبر دی کہ ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ ظالم رگ سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی غیر کی زمین میں درخت لگائے اور پھر اس زمین پر اپنا حق جتائے۔ امام مالک کہتے ہیں : ظالم رگ ہر وہ زمین ہے جو ناحق لے لی جائے یا اس میں گڈھا کھود لیا جائے یا درخت لگا لیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٣) (صحیح )
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
ابوحمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تبوک (جہاد کے لیے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا : تخمینہ لگاؤ (کہ باغ میں کتنے پھل ہوں گے) رسول اللہ ﷺ نے دس وسق ١ ؎ کا تخمینہ لگایا، پھر آپ ﷺ نے عورت سے کہا : آپ اس سے جو پھل نکلے اس کو ناپ لینا ، پھر ہم تبوک آئے تو ایلہ ٢ ؎ کے بادشاہ نے آپ ﷺ کے پاس سفید رنگ کا ایک خچر تحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے (جزیہ کی شرط پر) اپنے ملک میں رہنے کی سند (دستاویز) لکھ دی، پھر جب ہم لوٹ کر وادی قری میں آئے تو آپ ﷺ نے اس عورت سے پوچھا : تیرے باغ میں کتنا پھل ہوا ؟ اس نے کہا : دس وسق، رسول اللہ ﷺ نے دس وسق ہی کا تخمینہ لگایا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : میں جلد ہی مدینہ کے لیے نکلنے والا ہوں تو تم میں سے جو جلد چلنا چاہے میرے ساتھ چلے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٤ (١٤٨١) ، والجزیة ٢ (٣١٦١) ، صحیح مسلم/الحج ٩٣ (١٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع پانچ رطل (تقریباً ڈھائی کلو) کا۔ ٢ ؎ : شام کی ایک آبادی کا نام ہے۔ ٣ ؎ : باب سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ : آپ ﷺ نے باغ پر اس عورت کی ملکیت برقرار رکھی اس لئے کہ اس نے اس زمین کو آباد کیا تھا، اور جو کسی بنجر زمین کو آباد کرے وہی اس کا حقدار ہے۔
لاوارث زمین کو آباد کرنے کا بیان
زینب (رض) فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک سے جوئیں نکال رہی تھیں، اس وقت عثمان (رض) کی بیوی اور کچھ دوسرے مہاجرین کی عورتیں آپ کے پاس بیٹھیں تھیں اور اپنے گھروں کی شکایت کر رہی تھیں کہ ان کے گھر ان پر تنگ ہوجاتے ہیں، وہ گھروں سے نکال دی جاتی ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مہاجرین کی عورتیں ان کے مرنے پر ان کے گھروں کی وارث بنادی جائیں، تو جب عبداللہ بن مسعود (رض) کا انتقال ہوا تو ان کی عورت مدینہ میں ایک گھر کی وارث ہوئی (شاید یہ حکم مہاجرین کے ساتھ خاص ہو) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : مہاجر عورتیں پردیس میں تھیں اور جب ان کے شوہر کے ورثاء شوہر کے گھر سے ان کو نکال دیتے تھے تو ان کو پردیس میں سخت پریشانیوں کا سامنا ہوتا تھا اس لئے گھروں کو ان کے لئے الاٹ کردیا گیا یہ ان کے لئے خاص حکم تھا، تمام حالات میں گھروں میں بھی حسب حصص ترکہ تقسیم ہوگا، اور باب سے تعلق یہ ہے کہ ان کے شوہروں نے خالی جگہوں پر ہی یہ گھر بنائے تھے اس لئے ان کے لئے یہ گھر بطور مردہ زمین کو زندہ کرنے کے حق کے ہوگئے تھے۔
جزیہ والی زمین کی خریداری اور اس میں رہائش کا بیان
معاذ (رض) کہتے ہیں جس نے اپنی گردن میں جزیہ کا قلادہ ڈالا (یعنی اپنے اوپر جزیہ مقرر کرایا) تو وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے بری ہوگیا (یعنی اس نے اچھا نہ کیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی محمد بن عیسیٰ سیٔ الحفظ ہیں )
جزیہ والی زمین کی خریداری اور اس میں رہائش کا بیان
ابوالدرداء (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جزیہ والی زمین خرید لی تو اس نے (گویا) اپنی ہجرت فسخ کردی اور جس نے کسی کافر کی ذلت (یعنی جزیہ کو) اس کے گلے سے اتار کر اپنے گلے میں ڈال لیا (یعنی جزیے کی زمین خرید لے کر زراعت کرنے لگا اور جزیہ دینا قبول کرلیا) تو اس نے اسلام کو پس پشت ڈل دیا ۔ (اس حدیث کے راوی سنان) کہتے ہیں : خالد بن معدان نے یہ حدیث مجھ سے سنی تو انہوں نے کہا : کیا شبیب نے تم سے یہ حدیث بیان کی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : جب تم شبیب کے پاس جاؤ تو ان سے کہو کہ وہ یہ حدیث مجھ کو لکھ بھیجیں۔ سنان کہتے ہیں : (میں نے ان سے کہا) تو شبیب نے یہ حدیث خالد کے لیے لکھ کر (مجھ کو) دی، پھر جب میں خالد بن معدان کے پاس آیا تو انہوں نے قرطاس (کاغذ) مانگا میں نے ان کو دے دیا، جب انہوں نے اسے پڑھا، تو ان کے پاس جتنی خراج کی زمینیں تھیں سب چھوڑ دیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ یزید بن خمیر یزنی ہیں، شعبہ کے شاگرد نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٩) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی سنان بن قیس لیّن الحدیث ہیں، نیز اس میں بقیہ بھی ہیں جو متکلم فیہ ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم غالباً ابتداء اسلام میں تھا یا پھر یہ تہدید ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ صرف کاشتکار بن کر رہ جائے اور جہاد کو بھول جائے۔
امام یا کسی اور شخص کے لئے زمین کو روک لینا (یعنی اس زمین کی گھاس اور پانی وغیرہ لینے سے روک دے)
صعب بن جثامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نقیع (ایک جگہ کا نام ہے) کو حمی (چراگاہ) بنایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المساقاة ١١ (٢٣٧٠) ، الجہاد ١٤٦ (٣٠١٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧، ٣٨، ٧١، ٧٣) (صحیح )
امام یا کسی اور شخص کے لئے زمین کو روک لینا (یعنی اس زمین کی گھاس اور پانی وغیرہ لینے سے روک دے)
صعب بن جثامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نقیع کو چراگاہ بنایا، اور فرمایا : اللہ کے سوا کسی اور کے لیے چراگاہ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حکومت کے مویشی جیسے جہاد سے یا زکاۃ میں حاصل ہونے والے جانوروں کے لیے چراگاہ کو خاص کرنا جائز ہے ، اور عام آدمی کسی جگہ یا چشمہ وغیرہ کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے روک لے تو یہ صحیح نہیں ہے ، یہ حکم ایسی زمینوں کا ہے جو کسی خاص آدمی کی ملکیت اور قبضے میں نہیں ہے۔
رکاز (دفینہ اور کان) کا بیان
ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دفینہ میں خمس (پانچواں حصہ) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٦ (١٤٩٩) ، والمساقاة ٣ (٢٣٥٥) ، والدیات ٢٨ (٦٩١٢) ، ٢٩ (٦٩١٣) ، صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٧ (١٣٧٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٨ (٢٤٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٤ (٢٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٨، ١٥١٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العقول ١٨ (١٢) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٢٩، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٨٥، ٣١٩، ٣٨٢، ٣٨٦، ٤٠٦، ٤١١، ٤١٤، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٧، ٤٧٥، ٤٨٢، ٤٩٢، ٤٩٥، ٤٩٩، ٥٠١، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٠ (١٧١٠) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الدیات (٤٥٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پانچ حصے میں ایک حصہ اللہ و رسول کا ہے باقی چار حصے پانے والے کے ہیں۔
رکاز (دفینہ اور کان) کا بیان
حسن بصری کہتے ہیں کہ رکاز سے مراد جاہلی دور کا مدفون خزانہ ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض نسخوں میں یحییٰ بن معین ہے، مزی نے تحفۃ الاشراف میں ابن معین ہی لکھا ہے۔ ٢ ؎ : حسن بصری نے رکاز کی تعریف الکنز العادی سے کی ، یعنی زمانہ جاہلیت میں دفن کیا گیا خزانہ ، اور ہر پرانی چیز کو عادی عاد سے منسوب کر کے کہتے ہیں، گرچہ عاد کا عہد نہ ملا ہو، حسن بصری کی یہ تفسیر لؤلؤئی کے سنن ابی داود کے نسخے میں نہیں ہے ، امام مزی نے اسے تحفۃ الأشراف میں ابن داسہ کی روایت سے ذکر کیا ہے۔
رکاز (دفینہ اور کان) کا بیان
ضباعۃ بنت زبیر بن عبدالمطلب بن ہاشم سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں مقداد اپنی ضرورت سے بقیع خبخبہ ١ ؎ گئے وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چوہا سوراخ سے ایک دینار نکال رہا ہے (وہ دیکھتے رہے) وہ ایک کے بعد ایک دینار نکالتا رہا یہاں تک کہ اس نے (١٧) دینار نکالے، پھر اس نے ایک لال تھیلی نکالی جس میں ایک دینار اور تھا، یہ کل (١٨) دینار ہوئے، مقداد ان دیناروں کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو پورا واقعہ بتایا اور عرض کیا : اس کی زکاۃ لے لیجئے، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا تم نے سوراخ کا قصد کیا تھا ، انہوں نے کہا : نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تمہیں اس مال میں برکت عطا فرمائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٠) (ضعیف) (اس کی راویہ قریبہ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ کے اطراف میں ایک گاؤں کا نام ہے۔
کافروں کی پر انی قبریں کھودنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ طائف کی طرف نکلے تو راستے میں ہمارا گزر ایک قبر کے پاس سے ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا : یہ ابورغال ١ ؎ کی قبر ہے عذاب سے بچے رہنے کے خیال سے حرم میں رہتا تھا ٢ ؎ لیکن جب (ایک مدت کے بعد) وہ (حدود حرم سے) باہر نکلا تو وہ بھی اسی عذاب سے دوچار ہوا جس سے اس کی قوم اسی جگہ دوچار ہوچکی تھی (یعنی زلزلہ کا شکار ہوا) وہ اسی جگہ دفن کیا گیا، اور اس کی نشانی یہ تھی کہ اس کے ساتھ سونے کی ایک ٹہنی گاڑ دی گئی تھی، اگر تم قبر کو کھودو تو اس کو پالو گے ، یہ سن کر لوگ دوڑ کر قبر پر گئے اور کھود کر ٹہنی (سونے کی سلاخ) نکال لی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٧) (ضعیف) (اس کے راوی بجیر مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : قوم ثمود کے ایک شخص کا نام تھا جو ثقیف کا جد اعلیٰ تھا۔ ٢ ؎ : کیونکہ حرم میں عذاب نازل نہیں ہوگا۔