19. قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان
جھوٹی قسم کھانے کا گناہ
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی دباؤ میں آ کر (یا دیدہ و دانستہ) جھوٹی قسم کھالے تو چاہیئے کہ اس کے سبب وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : تفرد بہ أبوداود، ١(تحفة الأشراف : ١٠٨٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٦، ٤٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دنیا میں اس کا کوئی کفارہ نہیں آخرت میں اسے یہ سزا دی جائے گی کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔
کسی کا مال مارنے کی خاطر (جھوڑی) قسم کھانے کا بیان
عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی بات پر جھوٹی قسم کھائے تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال ہڑپ لے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضبناک ہوگا ۔ اشعث (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی آپ ﷺ نے یہ بات میرے ایک مقدمے میں (جو میرے اور ایک یہودی کے درمیان تھا) فرمائی تھی، میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، یہودی نے میرے حصہ کا انکار کیا تو میں اس کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : تمہارے پاس گواہ ہیں ؟ میں نے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے یہودی سے کہا : تم قسم کھاؤ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو قسم کھا کر میرا مال ہڑپ کرلے گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں (سورۃ آل عمران : ٧٧) آخیر تک نازل فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المساقاة ٤ (٢٣٥٦) ، والخصومات ٤ (٢٤١٦) ، والرھن ٦ (٢٥١٥) ، والشہادات ١٩ (٢٦٦٦) ، ٢٠ (٢٦٦٩) ، ٢٣ (٢٦٧٣) ، ٢٥ (٢٦٧٦) ، تفسیر آل عمران ٣ (٤٥٤٩) ، الأیمان ١١ (٦٦٥٩) ، ١٧ (٦٦٧٦) ، الأحکام ٣٠ (٧١٨٣) ، التوحید ٢٤ (٧٤٤٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (١٣٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٢ (١٢٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٨ (٢٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعی علیہ جب انکار کرے تو مدعی کے ذمہ گواہ پیش کرنا ہوگا ورنہ مدعی علیہ سے قسم لی جائے گی۔
کسی کا مال مارنے کی خاطر (جھوڑی) قسم کھانے کا بیان
اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ یمن کی ایک زمین کے سلسلے میں کندہ کے ایک آدمی اور حضرموت کے ایک آدمی نے جھگڑا کیا اور دونوں اپنا مقدمہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لے گئے، حضرمی نے کہا : اللہ کے رسول ! میری زمین کو اس شخص کے باپ نے مجھ سے چھین لی تھی اور اب وہ زمین اس شخص کے قبضہ میں ہے، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : تمہارے پاس بیّنہ (ثبوت اور دلیل) ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، لیکن میں اسے قسم دلانا چاہوں گا، اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ میری زمین ہے جسے اس کے باپ نے مجھ سے غصب کرلی تھی، (یہ سن کر) کندی قسم کھانے کے لیے تیار ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے (اس وقت) فرمایا : جو شخص کسی کا مال قسم کھا کر ہڑپ کرلے گا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے کوڑھی ہو کر ملے گا (یہ سنا تو) کندی نے کہا : یہ اسی کی زمین ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکبری ٤٧ (٦٠٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٩ (٢٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١١، ٢١٢) ویأتی ہذا الحدیث فی الأقضیة (٣٦٢٢) (صحیح )
کسی کا مال مارنے کی خاطر (جھوڑی) قسم کھانے کا بیان
وائل بن حجر حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ حضر موت کا ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، حضرمی نے کہا : اللہ کے رسول ! اس شخص نے میرے والد کی ایک زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا : واہ یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے میں خود اس میں کھیتی کرتا ہوں اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں : تو نبی اکرم ﷺ نے حضرمی سے پوچھا : کیا تمہارے پاس گواہ ہیں ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو تمہارے لیے اس کی جانب سے قسم ہے (جیسی وہ قسم کھالے اسی کے مطابق فیصلہ ہوجائے گا) ، حضرمی نے کہا : اللہ کے رسول : وہ تو فاجر ہے کسی بھی قسم کی پرواہ نہیں کرتا، کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (وہ کچھ بھی ہو) تمہارے لیے تو بس اس سے اتنا ہی حق ہے (یعنی تم اس سے بس قسم کھلا سکتے ہو) پھر وہ قسم کھانے چلا، تو اس کے مڑتے ہی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دیکھو اگر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس نے جھوٹی قسم کھالی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے منہ پھیرے ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٦١ (١٣٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٢ (١٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٧) ویأتی ہذا الحدیث فی القضا (٣٦٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کی طرف التفات نہیں فرمائے گا، بندے کے لئے اس سے بڑھ کر کیا عذاب ہوگا کہ اس کا مالک اس کی طرف متوجہ نہ ہو۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے سامنے جھوٹی قسم کھانا گناہ عظیم ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میرے منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے گا اگرچہ ایک تازی مسواک کے لیے کھائے تو سمجھ لو اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا یا یہ کہا : جہنم اس پر واجب ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٩ (٢٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٨ (١٠) ، مسند احمد (٣/٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گو جھوٹی قسم کھانا بروقت اور ہر جگہ گناہ ہے، پر مقدس جگہوں اور مقدس وقتوں میں ان کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔
غیر اللہ کی قسم کھانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی قسم کھائے اور اپنی قسم میں یوں کہے کہ میں لات کی قسم کھاتا ہوں تو چاہیئے کہ وہ لا إله إلا الله کہے، اور جو کوئی اپنے دوست سے کہے کہ آؤ ہم تم جوا کھیلیں تو اس کو چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرے (تاکہ شرک اور کلمہ شرک کا کفارہ ہوجائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم ٢ (٤٨٦٠) ، الأدب ٧٤ (٦١٠٧) ، الاستئذان ٥٢ (٦٣٠١) ، الأیمان ٥ (٦٦٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ٢ (١٦٤٨) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٧ (١٥٤٥) ، سنن النسائی/الأیمان ١٠ (٣٨٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٩) (صحیح )
غیر اللہ کی قسم کھانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ، نہ اپنی ماؤں کی قسم کھانا، اور نہ ان کی قسم کھانا جنہیں لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، تم صرف اللہ کی قسم کھانا، اور اللہ کی بھی قسم اسی وقت کھاؤ جب تم سچے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان ٥ (٣٨٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٨٣) (صحیح )
باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس حال میں پایا کہ وہ ایک قافلہ میں تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے روکتا ہے اگر کسی کو قسم کھانی ہی ہے تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ١ (١٦٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٤ (٦١٠٧) ، الأیمان ٤ (٦٦٤٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ٨ (١٥٣٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٤ (٣٣٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢ (٢٠٩٤) ، موطا امام مالک/النذور ٩ (١٤) ، مسند احمد (٢/١١، ٣٤، ٦٩، ٨٧، ١٢٥، ١٤٢) (صحیح )
باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت
عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول ﷺ نے (غیر اللہ کی قسم کھاتے ہوئے) سنا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث :بآبائكم تک بیان کی، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ عمر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی پھر میں نے نہ جان بوجھ کر اس کی قسم کھائی، اور نہ ہی کسی کی بات نقل کرتے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الإیمان ٤ (٦٦٤٧) ، صحیح مسلم/ الأیمان ١ (١٦٤٦) ، سنن النسائی/ الأیمان ٤ (٣٧٩٨، ٣٧٩٩) ، سنن ابن ماجہ/ الکفارات ٢ (٢٠٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٨، ٣٦) (صحیح )
باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر (رض) نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان ٨ (١٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤، ٥٨، ٦٠، ٦٩، ٨٦، ١٢٥) (صحیح )
باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت
مالک بن ابی عامر کہتے ہیں کہ طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے سنا (یعنی اعرابی کے واقعہ میں) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس کے باپ کی، وہ کامیاب ہوگیا اگر وہ سچا ہے، قسم ہے اس کے باپ کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اگر وہ سچا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٤ (٤٦) ، والصوم ١ (١٨٩١) ، والشھادات ٢٦ (٢٦٧٨) ، والحیل ٣ (٦٩٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢، (١١) ، سنن النسائی/الصلاة ٤ (٤٥٩) ، الصوم ١ (٢٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٥ (٩٤) (وهو قطعة من حديث تقدم في أول الصلاة برقم (391) وليس فيه ” وأبيه “ (اس حدیث میں یہ ٹکڑا ” أفلح وأبيه إن صدق “ شاذ ہے )
لفظ امانت پر قسم کھانے کا بیان
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امانت کی قسم کھائے وہ ہم میں سے نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ قسم اللہ کے اسماء وصفات کی کھانی چاہیے، اور امانت اس کے اسماء وصفات میں سے نہیں ہے بلکہ اس کے اوامر میں سے ایک امر ہے، اس لیے امانت کی قسم کھانا جائز کام ہوگا، اور اس میں کفارہ نہ ہوگا، امام ابوحنیفہ کے نزدیک امانت کی قسم صحیح ہے ، اور اس میں کفارہ واجب ہوگا، کیونکہ امین اللہ کا نام ہے۔ عطاء سے یمین لغو کے بارے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے گھر میں (تکیہ کلام کے طور پر) كلا والله وبلى والله (ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہاں قسم اللہ کی) کہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابراہیم صائغ ایک نیک آدمی تھے، ابومسلم نے عرندس میں انہیں قتل کردیا تھا، ابراہیم صائغ کا حال یہ تھا کہ اگر وہ ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوتے اور اذان کی آواز آجاتی تو (مارنے سے پہلے) اسے چھوڑ دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو داود بن ابوالفرات نے ابراہیم صائغ سے ام المؤمنین عائشہ (رض) پر موقوفاً روایت کیا ہے اور اسے اسی طرح زہری، عبدالملک بن ابی سلیمان اور مالک بن مغول نے روایت کیا ہے اور ان سب نے عطاء سے انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یمین لغو ایسے قسمیہ الفاظ کو کہا جاتا ہے جو دوران گفتگو لوگوں کی زبان سے بلا قصد و ارادہ جاری ہوجاتے ہیں۔
یمین لغوکا بیان
عطاء سے یمین لغو کے بارے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے گھر میں (تکیہ کلام کے طور پر) كلا والله وبلى والله (ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہاں قسم اللہ کی) کہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابراہیم صائغ ایک نیک آدمی تھے، ابومسلم نے عرندس میں انہیں قتل کردیا تھا، ابراہیم صائغ کا حال یہ تھا کہ اگر وہ ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوتے اور اذان کی آواز آجاتی تو (مارنے سے پہلے) اسے چھوڑ دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو داود بن ابوالفرات نے ابراہیم صائغ سے ام المؤمنین عائشہ (رض) پر موقوفاً روایت کیا ہے اور اسے اسی طرح زہری، عبدالملک بن ابی سلیمان اور مالک بن مغول نے روایت کیا ہے اور ان سب نے عطاء سے انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یمین لغو ایسے قسمیہ الفاظ کو کہا جاتا ہے جو دوران گفتگو لوگوں کی زبان سے بلا قصد و ارادہ جاری ہوجاتے ہیں۔
قسم کھانے میں اپنا بچاؤ کرلینا فائدہ نہیں بخشتا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری قسم کا اعتبار اسی چیز پر ہوگا جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے ۔ مسدد کی روایت میں : أخبرني عبد الله بن أبي صالح ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عباد بن ابی صالح اور عبداللہ بن ابی صالح دونوں ایک ہی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٤ (١٦٥٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٩ (١٣٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٤ (٢١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٨) ، سنن الدارمی/النذور ١١ (٢٣٩٤) (صحیح )
قسم کھانے میں اپنا بچاؤ کرلینا فائدہ نہیں بخشتا
سوید بن حنظلہ (رض) کہتے ہیں ہم نکلے، رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے کا ارادہ کر رہے تھے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر (رض) بھی تھے، انہیں ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا تو اور ساتھیوں نے انہیں جھوٹی قسم کھا کر چھڑا لینے کو برا سمجھا (لیکن) میں نے قسم کھالی کہ وہ میرا بھائی ہے تو اس نے انہیں آنے دیا، پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو میں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اور لوگوں نے تو قسم کھانے میں حرج و قباحت سمجھی، اور میں نے قسم کھالی کہ یہ میرے بھائی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے سچ کہا، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٤ (٢١١٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٩) (صحیح )
اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہوجا نے کی قسم کھانا
ثابت بن ضحاک (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی ١ ؎، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ملت اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہونے کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسے ہی ہوجائے گا جیسا اس نے کہا ہے، اور جو شخص اپنے آپ کو کسی چیز سے ہلاک کر ڈالے (یعنی خودکشی کرلے) تو قیامت میں اس کو اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا، اور اس آدمی کی نذر نہیں مانی جائے گی جو کسی ایسی چیز کی نذر مانے جو اس کے اختیار میں نہ ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٣ (١٣٦٣) ، الأدب ٤٤ (٦٠٤٧) ، ٧٣ (٦١٠٥) ، الایمان ٧ (٦٦٥٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١١٠) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٥ (١٥٤٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٦ (٣٨٠١) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٣ (٢٠٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٢، ٢٠٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣، ٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے، جو صلح حدیببہ کے موقع پر لی گئی۔ ٢ ؎ : مثلا یوں کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کروں تو یہودی ہوجاؤں، مثلاً دوسرے کے غلام یا لونڈی کو آزاد کرنے کی نذر مانے۔
اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہوجا نے کی قسم کھانا
بریدہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قسم کھائے اور کہے میں اسلام سے بری ہوں (اگر میں نے فلاں کام کیا) اب اگر وہ جھوٹا ہے تو اس نے جیسا ہونے کو کہا ہے ویسا ہی ہوجائے گا، اور اگر سچا ہے تو بھی وہ اسلام میں سلامتی سے ہرگز واپس نہ آسکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان ٧ (٣٨٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٣ (٢١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٥، ٣٥٦) (صحیح )
جو شخص سالن نہ کھانے کی قسم کھالے
یوسف بن عبداللہ بن سلام کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ٹکڑے پر کھجور رکھا اور کہا یہ اس کا سالن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٤) ویأتی ہذا الحدیث فی الأطعمة (٣٨٣٠) (ضعیف) (اس کے راوی یحییٰ بن العلاء ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس نے سالن نہ کھانے کی قسم کھائی ہو اگر وہ روٹی کے ساتھ کھجور کھائے تو وہ حانث شمار ہوگا۔
جو شخص سالن نہ کھانے کی قسم کھالے
اس سند سے بھی یوسف بن عبداللہ بن سلام سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٤) (ضعیف) (اس کے راوی یزیدا لا عور مجہول ہیں )
قسم میں انشاء اللہ لگا دینا
عبداللہ بن عمر (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کام پر قسم کھائی پھر انشاء اللہ کہا تو اس نے استثناء کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان ٧ (١٥٣١) ، سنن النسائی/الأیمان ١٨ (٣٨٢٤) ، ٣٩ (٣٨٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٦ (٢١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦، ١٠، ٤٨، ٤٩، ٦٨، ١٢٦، ١٢٧، ١٥٣) ، دی/ النذور ٧ (٢٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اب وہ اپنی قسم میں جھوٹا نہ ہوگا اس لئے کہ اس کی قسم اللہ کی مشیت و مرضی پر معلق ہوگئی۔
قسم میں انشاء اللہ لگا دینا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قسم کھائی اور انشاء اللہ کہا تو وہ چاہے قسم کو پورا کرے چاہے نہ پورا کرے وہ حانث (قسم توڑنے والا) نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٧) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کس طرح کی ہوتی تھی
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ اکثر اس طرح قسم کھاتے تھے : لا، ومقلب القلوب نہیں ! قسم ہے دلوں کے پھیرنے والے کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/القدر ١٤ (٦٦١٧) ، والأیمان ٣ (٦٦٢٨) ، والتوحید ١١ (٧٣٩١) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٢ (١٥٤٠) ، سنن النسائی/الأیمان ١ (٣٧٩٣) ، سنن ابن ماجہ/ الکفارات (٢٠٩٢) مسند احمد (٢/٢٦، ٦٧، ٦٨، ١٢٧) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کس طرح کی ہوتی تھی
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ زور دے کر قسم کھاتے تو فرماتے : والذي نفس أبي القاسم بيده قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابوالقاسم کی جان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦، ٦٦) (ضعیف) (اس کے راوی عکرمہ صدوق ہیں، لیکن غلطی کرتے ہیں، اور عاصم بن شمیخ کی صرف عجلی نے توثیق کی ہے، عجلی توثیق رواة میں متساہل ہیں )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کس طرح کی ہوتی تھی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قسم کھاتے تو فرماتے : لا، وأستغفر الله نہیں، قسم ہے میں اللہ سے بخشش اور مغفرت کا طلب گار ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ١ (٢٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨) (ضعیف) (اس کے راوی ہلال مدنی لین الحدیث ہیں )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کس طرح کی ہوتی تھی
عاصم بن لقیط کہتے ہیں کہ لقیط بن عامر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک وفد لے کر گئے، لقیط (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی، اس میں ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے تمہارے معبود کی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١١٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢) (ضعیف) (اس کے راوی اسود اور ان کے والد عبد اللہ دونوں لین الحدیث ہیں )
کیا لفظ قسم بھی یمین میں داخل ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو قسم دلائی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : قسم مت دلاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ التعبیر ١١ (٧٠٠٠) ، ٤٧ (٧٠٤٦) ، صحیح مسلم/ الرؤیا ٣ (٢٢٦٩) ، سنن ابن ماجہ/ التعبیر ١٠ (٣٩١٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٩) دی/ النذور ٨ (٢٣٨٩) ، ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (٤٦٣٣) (صحیح )
کیا لفظ قسم بھی یمین میں داخل ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میں نے رات خواب دیکھا ہے، پھر اس نے اپنا خواب بیان کیا، ابوبکر (رض) نے اس کی تعبیر بتائی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے کچھ تعبیر درست بیان کی ہے اور کچھ میں تم غلطی کر گئے ہو ابوبکر (رض) نے کہا : قسم ہے آپ پر اے اللہ کے رسول ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں آپ ہمیں ضرور بتائیں میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : قسم مت دلاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرؤیا ٩ (٢٢٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١٠ (٣٩١٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٣، ١٣٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤٧ (٧٠٤٦) ، صحیح مسلم/الرؤیا ٣ (٢٢٦٩) ، سنن الدارمی/الرؤیا ١٣ (٢٢٠٢) ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (٤٦٣٢) (صحیح )
کیا لفظ قسم بھی یمین میں داخل ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں انہوں نے قسم کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے : آپ ﷺ نے انہیں (تعبیر کی غلطی) نہیں بتائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٨) (ضعیف) (یہ سند سلیمان بن کثیر کی وجہ سے ضعیف ہے، وہ زہری سے روایت میں ضعیف ہیں لیکن پچھلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ممکن ہے تعبیر کی غلطی نہ بتانے میں کوئی مصلحت رہی ہو۔
جو شخص یہ قسم کھائے کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا
عبدالرحمٰن بن ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ہمارے کچھ مہمان آئے، اور ابوبکر (رض) رات میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر بات چیت کیا کرتے تھے (جاتے وقت) کہہ گئے کہ میں واپس نہیں آسکوں گا یہاں تک کہ تم اپنے مہمانوں کو کھلا پلا کر فارغ ہوجاؤ (یعنی میں دیر سے آسکوں گا تم انہیں کھانا وغیرہ کھلا دینا) تو وہ (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ) ان کا کھانا لے کر آئے تو مہمان کہنے لگے : ہم ابوبکر (رض) کے آئے بغیر نہیں کھائیں گے، پھر وہ آئے تو پوچھا : کیا ہوا تمہارے مہمانوں کا ؟ تم کھانا کھلا کر فارغ ہوگئے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، میں نے کہا : میں ان کا کھانا لے کر ان کے پاس آیا مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا : قسم اللہ کی جب تک وہ (ابوبکر) نہیں آجائیں گے ہم نہیں کھائیں گے، تو ان لوگوں نے کہا : یہ سچ کہہ رہے ہیں، یہ ہمارے پاس کھانا لے کر آئے تھے، لیکن ہم نے ہی انکار کردیا کہ جب تک آپ نہیں آجاتے ہیں ہم نہیں کھائیں گے، آپ نے کہا : کس چیز نے تمہیں کھانے سے روکا ؟ انہوں نے کہا : آپ کے نہ ہونے نے، انہوں نے کہا : قسم اللہ کی میں تو آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا، مہمانوں نے کہا : جب تک آپ نہیں کھائیں گے ہم بھی نہیں کھائیں گے، ابوبکر (رض) نے کہا : آج جیسی بری رات میں نے کبھی نہ دیکھی، پھر کہا : کھانا لاؤ تو ان کا کھانا لا کر لگا دیا گیا تو انہوں نے بسم الله کہہ کر کھانا شروع کردیا، مہمان بھی کھانے لگے۔ عبدالرحمٰن (رض) کہتے ہیں : مجھے اطلاع دی گئی کہ صبح اٹھ کر ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے، اور جو کچھ انہوں نے اور مہمانوں نے کیا تھا اس سے آپ ﷺ کو آگاہ کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان لوگوں سے زیادہ قسم کو پورا کرنے والے اور صادق ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٤١ (٦٠٢) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨١) ، الأدب ٨٧ (٦١٤٠) ، صحیح مسلم/الأشربة ٣٢ (٢٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٧، ١٩٨) (صحیح )
جو شخص یہ قسم کھائے کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا
اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابوبکر (رض) سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے اور اس میں مزید یہ ہے کہ سالم نے اپنی حدیث میں کہا کہ مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ابوبکر (رض) نے اس قسم کا کفارہ دیا ہو (کیونکہ یہ قسم لغو ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٨) (صحیح )
قطع رحم کی قسم کھانے کا بیان !
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انصار کے دو بھائیوں میں میراث کی تقسیم کا معاملہ تھا، ان میں کے ایک نے دوسرے سے میراث تقسیم کردینے کے لیے کہا تو اس نے کہا : اگر تم نے دوبارہ تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو میرا سارا مال کعبہ کے دروازے کے اندر ہوگا ١ ؎ تو عمر (رض) نے اس سے کہا : کعبہ تمہارے مال کا محتاج نہیں ہے، اپنی قسم کا کفارہ دے کر اپنے بھائی سے (تقسیم میراث کی) بات چیت کرو (کیونکہ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے : قسم اور نذر اللہ کی نافرمانی اور رشتہ توڑنے میں نہیں اور نہ اس مال میں ہے جس میں تمہیں اختیار نہیں (ایسی قسم اور نذر لغو ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٤٤٧) (ضعیف الإسناد) (سعید بن مسیب کے عمر (رض) سے سماع میں اختلاف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کعبہ کے لئے وقف ہوجائے گا۔
قطع رحم کی قسم کھانے کا بیان !
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صرف ان چیزوں میں نذر جائز ہے جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہو اور قسم (قطع رحمی) ناتا توڑنے کے لیے جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢١٩٢) (تحفة الأشراف : ٨٧٣٦) (حسن )
قطع رحم کی قسم کھانے کا بیان !
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو ابن آدم کے اختیار میں نہ ہو، اور نہ اللہ کی نافرمانی میں، اور نہ ناتا توڑنے میں، جو قسم کھائے اور پھر اسے بھلائی اس کے خلاف میں نظر آئے تو اس قسم کو چھوڑ دے (پوری نہ کرے) اور اس کو اختیار کرے جس میں بھلائی ہو کیونکہ اس قسم کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ تمام حدیثیں نبی اکرم ﷺ سے مروی ہیں ١ ؎ اور چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دیں مگر جو قسمیں بےسوچے کھائی جاتی ہیں اور ان کا خیال نہیں کیا جاتا تو ان کا کفارہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد سے پوچھا : کیا یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عبیداللہ سے روایت کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں پہلے کی تھی، پھر ترک کردیا، اور وہ اسی کے لائق تھے کہ ان سے روایت چھوڑ دی جائے، احمد کہتے ہیں : ان کی حدیثیں منکر ہیں اور ان کے والد غیر معروف ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الأیمان ١٦ (٣٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٢) (حسن) (اس روایت کا یہ جملہ فإن تركها کفارتها منکر ہے کیوں کہ یہ دیگر تمام صحیح روایات کے برخلاف ہے، صحیح روایات کا مستفاد ہے کہ کفارہ دینا ہوگا ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مرفوع ہیں۔ ٢ ؎ : ابوداود کا یہ کلام کسی اور حدیث کی سند کی بابت ہے، نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگیا ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو ابن آدم کے اختیار میں نہ ہو، اور نہ اللہ کی نافرمانی میں، اور نہ ناتا توڑنے میں، جو قسم کھائے اور پھر اسے بھلائی اس کے خلاف میں نظر آئے تو اس قسم کو چھوڑ دے (پوری نہ کرے) اور اس کو اختیار کرے جس میں بھلائی ہو کیونکہ اس قسم کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ تمام حدیثیں نبی اکرم ﷺ سے مروی ہیں ١ ؎ اور چاہیئے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ دیں مگر جو قسمیں بےسوچے کھائی جاتی ہیں اور ان کا خیال نہیں کیا جاتا تو ان کا کفارہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد سے پوچھا : کیا یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عبیداللہ سے روایت کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں پہلے کی تھی، پھر ترک کردیا، اور وہ اسی کے لائق تھے کہ ان سے روایت چھوڑ دی جائے، احمد کہتے ہیں : ان کی حدیثیں منکر ہیں اور ان کے والد غیر معروف ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الأیمان ١٦ (٣٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٢) (حسن) (اس روایت کا یہ جملہ فإن تركها کفارتها منکر ہے کیوں کہ یہ دیگر تمام صحیح روایات کے برخلاف ہے، صحیح روایات کا مستفاد ہے کہ کفارہ دینا ہوگا ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مرفوع ہیں۔ ٢ ؎ : ابوداود کا یہ کلام کسی اور حدیث کی سند کی بابت ہے، نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگیا ہے۔
جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی اپنا جھگڑا لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے مدعی سے گواہ طلب کیا، اس کے پاس گواہ نہ تھا تو آپ ﷺ نے مدعی علیہ سے قسم کھانے کے لیے کہا، اس نے اس اللہ کی قسم کھائی جس کے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں، تم نے کیا ہے (یعنی جس کام کے نہ کرنے پر تم نے قسم کھائی ہے اسے کیا ہے) لیکن تمہارے اخلاص کے ساتھ لا إله إلا الله کہنے کی وجہ سے اللہ نے تجھے بخش دیا ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے اسے کفارہ کا حکم نہیں دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٤٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٣، ٢٨٨، ٢٩٦، ٣٢٢، ٢/٧٠) ویأتی ہذا الحدیث فی الأقضیة (٣٦٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ کبائر اخلاص کے ساتھ کلمۂ توحید پڑھنے پر معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ٢ ؎ : کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جسے کفارہ مٹا نہیں سکتا اس کا کفارہ صرف توبہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے خمس ليس لهن کفارة : الشرک بالله وقتل النفس بغير حق وبهت مؤمن والفرار يوم الزحف ويمين صابرة يقتطع بها مالا بغير حق۔
جب بھلائی دوسری جانب ہو تو قسم توڑ دینے کا بیان
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی میں کسی بات کی قسم کھا لوں اور پھر بھلائی اس کے خلاف میں دیکھوں تو انشاء اللہ میں اپنی قسم توڑ کر کفارہ دے دوں گا اور اسے اختیار کرلوں گا جس میں بھلائی ہوگی یا کہا : میں اسے اختیار کرلوں گا جس میں بھلائی ہوگی اور اپنی قسم توڑ کر کفارہ دے دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ١٥ (٣١٣٣) ، المغازي ٧٤ (٤٣٨٥) ، الصید ٢٦ (٥٥١٧) ، الأیمان ١ (٦٦٢١) ، ٤ (٦٦٤٩) ، ١٨ (٦٦٨٠) ، کفارات الأیمان ٩ (٦٧١٨) ، ١٠ (٦٧١٩) ، التوحید ٥٦ (٧٥٥٥) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٤٩) ، سنن النسائی/الأیمان ١٤ (٣٨١١) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٧ (٢١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٨، ٤٠١، ٤٠٤، ٤١٨) (صحیح )
جب بھلائی دوسری جانب ہو تو قسم توڑ دینے کا بیان
عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عبدالرحمٰن بن سمرہ ! جب تم کسی بات پر قسم کھالو پھر اس کے بجائے دوسری چیز کو اس سے بہتر پاؤ تو اسے اختیار کرلو جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد سے سنا ہے وہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کو جائز سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ١ (٦٦٢٢) ، کفارات الأیمان ١٠ (٦٧٢٢) ، الأحکام ٥ (٧١٤٦) ، ٦ (٧١٤٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ٣ (١٦٥٢) ، سنن الترمذی/الأیمان ٥ (١٥٢٩) ، سنن النسائی/ آداب القضاة ٥ (٥٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦١، ٦٢، ٦٣) ، دی/ النذور ٩ (٣٢٩١) (صحیح )
جب بھلائی دوسری جانب ہو تو قسم توڑ دینے کا بیان
اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے اس میں ہے : تو قسم کا کفارہ ادا کرو پھر اس چیز کو اختیار کرو جو بہتر ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوموسی اشعری، عدی بن حاتم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات جو اس موضوع سے متعلق ہیں ان میں بعض میں الکفارة قبل الحنث ہے اور بعض میں الحنث قبل الکفارة ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٥) (صحیح )
قسم کے کفارہ میں میں کونسا صاع معتبر ہے؟
عبدالرحمٰن بن حرملہ کہتے ہیں کہ ام حبیب بنت ذؤیب بن قیس مزنیہ قبیلہ بنو اسلم کے ایک شخص کے نکاح میں تھیں پھر وہ ام المؤمنین صفیہ (رض) کے بھتیجے کے نکاح میں آئیں، آپ نے ہم کو ایک صاع ہبہ کیا، اور ہم سے بیان کیا کہ ام المؤمنین صفیہ (رض) کے بھتیجے سے روایت ہے، اور انہوں نے ام المؤمنین صفیہ سے روایت کی ہے کہ ام المؤمنین کہتی ہیں کہ یہ نبی اکرم ﷺ کا صاع ہے۔ انس (رض) کہتے ہیں : میں نے اس کو جانچا یا کہا میں نے اس کا اندازہ کیا تو ہشام بن عبدالملک کے مد سے دو مد اور آدھے مد کے برابر پایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠٣) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : ایک مد دو رطل کا ہوتا ہے تو ایک صاع پانچ رطل کا ہوا یہ صاع حجازی کہلاتا ہے اور صاع عراقی (٨) رطل کا ہوتا ہے یعنی (٤) مد کا۔
قسم کے کفارہ میں میں کونسا صاع معتبر ہے؟
محمد بن محمد بن خلاد ابوعمر کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک مکوک ١ ؎ تھا اسے مکوک خالد کہا جاتا تھا، وہ ہارون کے کیلجہ (ایک پیمانہ ہے) سے دو کیلجہ کے برابر تھا۔ محمد کہتے ہیں : خالد کا صاع ہشام یعنی ابن عبدالملک کا صاع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٣٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک پیمانہ ہے۔
قسم کے کفارہ میں میں کونسا صاع معتبر ہے؟
امیہ بن خالد کہتے ہیں جب خالد قسری گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے صاع کو دو چند کردیا تو ایک صاع (١٦) رطل کا ہوگیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : محمد بن محمد بن خلاد کو حبشیوں نے سامنے کھڑا کر کے قتل کردیا تھا انہوں نے ہاتھ سے بتایا کہ اس طرح (یہ کہہ کر) ابوداؤد نے اپنا ہاتھ پھیلایا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے باطن کو زمین کی طرف کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے ان کو خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا : اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟ انہوں نے کہا : اللہ نے مجھے جنت میں داخل فرما دیا، تو میں نے کہا : پھر تو آپ کو حبشیوں کے سامنے کھڑا کر کے قتل کئے جانے سے کچھ نقصان نہ پہنچا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خالد قسری کا یہ عمل دلیل نہیں ہے، عراقی صاع (٨) رطل کا ہوتا ہے، حجازی نبوی صاع (٥) رطل کا ہوتا ہے۔
مومن باندی کا بیان (جو کفارہ میں آزاد کرنے کے لائق ہو
معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ایک لونڈی ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مارا ہے، تو رسول ﷺ نے اس تھپڑ کو عظیم جانا، تو میں نے عرض کیا : میں کیوں نہ اسے آزاد کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے میرے پاس لے آؤ میں اسے لے کر گیا، آپ ﷺ نے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : آسمان کے اوپر، آپ ﷺ نے (پھر) پوچھا : میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے آزاد کر دو ، یہ مومنہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم :(٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٨) (صحیح ) شرید سے روایت ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنی طرف سے ایک مومنہ لونڈی آزاد کردینے کی وصیت کی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری والدہ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے ایک مومنہ لونڈی آزاد کر دوں، اور میرے پاس نوبہ (حبش کے پاس ایک ریاست ہے) کی ایک کالی لونڈی ہے۔۔۔ پھر اوپر گزری ہوئی حدیث کی طرح ذکر کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ خالد بن عبداللہ نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے، شرید کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٣٨٨، ٣٨٩) ، دی/ النذور ١٠ (٢٣٩٣) (حسن صحیح )
None
ان کی والدہ نے انہیں اپنی طرف سے ایک مومنہ لونڈی آزاد کر دینے کی وصیت کی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میری والدہ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے ایک مومنہ لونڈی آزاد کر دوں، اور میرے پاس نوبہ ( حبش کے پاس ایک ریاست ہے ) کی ایک کالی لونڈی ہے۔ ۔ ۔ پھر اوپر گزری ہوئی حدیث کی طرح ذکر کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ خالد بن عبداللہ نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے، شرید کا ذکر نہیں کیا ہے۔
مومن باندی کا بیان (جو کفارہ میں آزاد کرنے کے لائق ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص ایک کالی لونڈی لے کر آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ذمہ ایک مومنہ لونڈی آزاد کرنا ہے، آپ ﷺ نے اس (لونڈی) سے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی آسمان کے اوپر ہے) پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : میں کون ہوں ؟ تو اس نے نبی اکرم ﷺ اور آسمان کی طرف اشارہ کیا یعنی (یہ کہا) آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ ﷺ نے (لونڈی لے کر آنے والے شخص سے) کہا : اسے آزاد کر دو یہ مومنہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩١) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی مسعود ی اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے، اور یزید بن ہارون نے ان سے اختلاط کے بعد ہی روایت لی ہے لیکن معاویہ سلمی کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے) (الصحیحة : ٣١٦١، تراجع الألباني : ١٠٧ )
کلام کرنے کے بعد انشاء اللہ کہنے کا بیان
عکرمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی، میں قریش سے جہاد کروں گا، قسم اللہ کی، میں قریش سے جہاد کروں گا، قسم اللہ کی، میں قریش سے جہاد کروں گا پھر کہا : ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس روایت کو ایک نہیں کئی لوگوں نے شریک سے، شریک نے سماک سے، سماک نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے اور ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے مسنداً بیان کیا ہے، اور ولید بن مسلم نے شریک سے روایت کیا ہے اس میں ہے : پھر آپ نے ان سے غزوہ نہیں کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١١٦) (ضعیف) (البانی نے اسے صحیح ابی داود (٣٢٨٥) میں عن عکرمة مرسلا داخل کیا ہے، ابن حبان نے مسند ابن عباس کو صحیح میں ذکر کیا ہے ٤٣٤٣ )
کلام کرنے کے بعد انشاء اللہ کہنے کا بیان
عکرمہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی میں قریش سے جہاد کروں گا ، پھر فرمایا : ان شاء اللہ پھر فرمایا : قسم اللہ کی میں قریش سے جہاد کروں گا انشاء اللہ پھر فرمایا : قسم اللہ کی میں قریش سے جہاد کروں گا پھر آپ خاموش رہے پھر فرمایا : ان شاء اللہ ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ولید بن مسلم نے شریک سے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : پھر آپ نے ان سے جہاد نہیں کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١١٦) (ضعیف) (عکرمة سے سماک کی روایت میں اضطراب ہے، نیز حدیث مرسل ہے کہ عکرمہ نے صحابی کا تذکرہ نہیں کیا ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ٣٢٨٦، والتلخیص الحبیر ٢٤٩٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اگر قسم میں انشاء اللہ بدون توقف اور سکوت کہے تب قسم میں حانث ہونے سے کفارہ لازم نہیں آئے گا، ورنہ لازم آئے گا، جیسا کہ حدیث نمبر (٣٢٦١) میں ہے، یہ حدیث ضعیف ہے۔
نذر ماننے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نذر سے منع فرماتے تھے، اور فرماتے تھے کہ نذر تقدیر کے فیصلے کو کچھ بھی نہیں ٹالتی سوائے اس کے کہ اس سے بخیل (کی جیب) سے کچھ نکال لیا جاتا ہے۔ مسدد کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ٦ (٦٦٠٨) ، الأیمان ٢٦ (٦٦٩٣) ، صحیح مسلم/النذر ٢ (١٦٣٩) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٤ (٣٨٣٢، ٣٨٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٥ (٢١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦١، ٨٦، ١١٨) ، دی/النذور ٥ (٢٣٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اس کی نذر سے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ نذر ماننے والے کے حق میں منجانب اللہ جو فیصلہ ہوچکا ہے اس میں اس کی نذر سے ذرہ برابر تبدیلی نہیں آسکتی، اس لئے یہ سوچ کر نذر نہ مانی جائے کہ اس سے مقدر شدہ امر میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نذر سے منع فرماتے تھے، اور فرماتے تھے کہ نذر تقدیر کے فیصلے کو کچھ بھی نہیں ٹالتی سوائے اس کے کہ اس سے بخیل (کی جیب) سے کچھ نکال لیا جاتا ہے۔ مسدد کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ٦ (٦٦٠٨) ، الأیمان ٢٦ (٦٦٩٣) ، صحیح مسلم/النذر ٢ (١٦٣٩) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٤ (٣٨٣٢، ٣٨٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٥ (٢١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦١، ٨٦، ١١٨) ، دی/النذور ٥ (٢٣٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اس کی نذر سے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ نذر ماننے والے کے حق میں منجانب اللہ جو فیصلہ ہوچکا ہے اس میں اس کی نذر سے ذرہ برابر تبدیلی نہیں آسکتی، اس لئے یہ سوچ کر نذر نہ مانی جائے کہ اس سے مقدر شدہ امر میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔
نذر ماننے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اللہ تعالیٰ کہتا ہے :) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لاسکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے (یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٨٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٦ (٦٦٩٢) ، صحیح مسلم/النذر ٢ (١٦٤٠) ، سنن الترمذی/النذر ١٠ (١٥٣٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٥ (٣٨٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٥ (٢١٢٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٤٢، ٣٠١، ٣١٤، ٤١٢، ٤٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ نبی اکرم ﷺ نے صراحۃً اسے اللہ کی طرف مرفوع نہیں کیا ہے۔
کسی گناہ کے کام کی منت مان لینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اللہ کی اطاعت کرے اور جو اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانے تو اس کی نافرمانی نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٨ (٦٦٩٦) ، ٣١ (٦٧٠٠) ، سنن الترمذی/الأیمان ٢ (١٥٢٦) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٦ (٣٨٣٧) ، ٢٧ (٣٨٣٨، ٣٨٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦ (٢١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النذور ٤ (٨) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٤١، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/النذور ٣ (٢٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا معصیت کی نذر نہیں پوری کی جائے گی کیونکہ یہ غیر مشروع ہے، لیکن کفارہ دیا جائے گا۔
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معصیت کی نذر نہیں ہے (یعنی اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے) اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان ٢ (١٥٢٤) ، سنن النسائی/الأیمان ٤٠ (٣٨٦٥-٣٨٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦ (٢١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٤٧) (صحیح ) اس سند سے بھی ابن شہاب سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں میں نے احمد بن شبویہ کو کہتے سنا : ابن مبارک نے کہا ہے (یعنی اس حدیث کے بارے میں) کہ ابوسلمہ (رض) نے بیان کیا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ زہری نے اسے ابوسلمہ (رض) سے نہیں سنا ہے۔ احمد بن محمد کہتے ہیں : اس کی تصدیق وہ روایت کر رہی ہے جسے ہم سے ایوب یعنی ابن سلیمان نے بیان کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں نے اس حدیث کو ہم پر فاسد کردیا ہے ان سے پوچھا گیا : کیا آپ کے نزدیک اس حدیث کا فاسد ہونا صحیح ہے ؟ اور کیا ابن اویس کے علاوہ کسی اور نے بھی اسے روایت کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ایوب یعنی ایوب بن سلیمان بن بلال ان سے قوی و بہتر راوی ہیں اور اسے ایوب نے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٠) (صحیح )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معصیت کی نذر نہیں ہے (یعنی اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے) اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۔ احمد بن محمد مروزی کہتے ہیں : اصل حدیث علی بن مبارک کی حدیث ہے جسے انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے انہوں نے محمد بن زبیر سے اور محمد نے اپنے والد زبیر سے اور زبیر نے عمران بن حصین (رض) سے اور عمران نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ احمد کی مراد یہ ہے کہ سلیمان بن ارقم کو اس حدیث میں وہم ہوگیا ہے ان سے زہری نے لے کر اس کو مرسلاً ابوسلمہ (رض) سے انہوں نے عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بقیہ نے اوزاعی سے، اوزاعی نے یحییٰ سے، یحییٰ نے محمد بن زبیر سے علی بن مبارک کی سند سے اسی کے ہم مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٨٢) (صحیح بما قبلہ) (اس سند میں سلیمان بن ارقم ضعیف راوی ہیں اس لئے پچھلی سند سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عقبہ بن عامر (رض) نے خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اپنی ایک بہن کے بارے میں پوچھا جس نے نذر مانی تھی کہ وہ ننگے پیر اور ننگے سر حج کرے گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ اپنا سر ڈھانپ لے اور سواری پر سوار ہو اور (بطور کفارہ) تین دن کے روزے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأیمان ١٦ (١٥٤٤) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٢ (٣٨٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢٠ (٢١٣٤) (تحفة الأشراف : ٩٩٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٣، ٣/١٤٥، ١٤٧، ١٤٩، ١٥١) ، سنن الدارمی/النذور ٢ (٢٣٧٩) (ضعیف) (اس کے راوی عبیدا للہ بن زحر سخت ضعیف ہیں اس میں صیام والی بات ضعیف ہے، باقی کے صحیح شواہد موجود ہیں )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عبدالرزاق کہتے ہیں : ہم سے ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ یحییٰ بن سعید نے مجھے لکھا کہ مجھے بنو ضمرہ کے غلام عبیداللہ بن زحر نے یا کوئی بھی رہے ہوں خبر دی کہ انہیں ابوسعید رعینی نے یحییٰ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث کی خبر دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠) (ضعیف) (عبید اللہ بن زخر کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری بہن نے پیدل حج کرنے کے لیے جانے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا (یعنی اس مشقت کا کوئی ثواب نہ دے گا) اسے چاہیئے کہ وہ سوار ہو کر حج کرے اور قسم کا کفارہ دیدے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٠، ٣١٥) (ضعیف) (اس کے راوی شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں، اور اس میں بھی کفارہ (بذریعہ صیام) کی بات منکر ہے )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر (رض) کی بہن نے پیدل بیت اللہ جانے کی نذر مانی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سواری سے جانے اور ہدی ذبح کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٩٧، ١٩١٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٩، ٢٥٢، ٣١١) ، سنن الدارمی/النذور ٢ (٢٣٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی اس نذر کا کفارہ ہے۔
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب خبر ملی کہ عقبہ بن عامر (رض) کی بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس کی نذر سے بےنیاز ہے، اسے کہو : سوار ہوجائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح اور خالد نے عکرمہ (رض) سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ : (٣٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٩٧، ١٩١٢١) (صحیح )
None
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن، آگے وہی باتیں ہیں جو ہشام کی حدیث میں ہے لیکن اس میں ہدی کا ذکر نہیں ہے نیز اس میں ہے: «مر أختك فلتركب» اپنی بہن کو حکم دو کہ وہ سوار ہو جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے خالد نے عکرمہ سے ہشام کے ہم معنی روایت کیا ہے۔
None
میری بہن نے بیت اللہ پیدل جانے کی نذر مانی اور مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھ کر آؤں ( کہ میں کیا کروں ) تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: چاہیئے کہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو ۔
کسی گناہ کے کام کی منت مان لینا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران آپ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو دھوپ میں کھڑا تھا آپ نے اس کے متعلق پوچھا، تو لوگوں نے بتایا : یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ میں آئے گا، نہ بات کرے گا، اور روزہ رکھے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ بات کرے، سایہ میں آئے اور بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٣١ (٦٧٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ٢١ (٢١٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩١) (صحیح )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان (سہارا لے کر) چلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا : اس نے (خانہ کعبہ) پیدل جانے کی نذر مانی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے کہ یہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالے آپ نے حکم دیا کہ وہ سوار ہو کر جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عمرو بن ابی عمرو نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ (رض) سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٧ (١٨٦٥) ، الأیمان ٣١ (٦٧٠١) ، صحیح مسلم/النذور ٤ (١٦٤٢) ، سنن الترمذی/الأیمان ٩ (١٥٣٧) ، سنن النسائی/الأیمان ٤١ (٣٨٨٣، ٣٨٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٦، ١١٤، ١٨٣، ٢٣٥، ٢٧١) (صحیح )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ایک ایسے انسان کے پاس سے گزرے جس کی ناک میں ناتھ ڈال کرلے جایا جا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی ناتھ کاٹ دی، اور حکم دیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کرلے جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦٥ (١٦٢٠) ، ٦٦ (١٦٢١) ، الأیمان ٣١ (٦٧٠٣) ، سنن النسائی/الحج ١٣٥ (٢٩٢٣) الأیمان ٢٩ (٣٨٤١، ٣٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٤) (صحیح )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عقبہ بن عامر (رض) کی بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور پیدل جانے کی طاقت نہیں رکھتی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے (عقبہ بن عامر (رض) سے) کہا : اللہ تعالیٰ کو تمہاری بہن کے پیدل جانے کی پرواہ نہیں، (تم اپنی بہن سے کہو کہ) وہ سوار ہوجائیں اور (نذر کے کفارہ کے طور پر) ایک اونٹ کی قربانی دے دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٢١٧) (صحیح )
جب گناہ کی نذر توڑے تو اس کا کفارہ ادا کرے
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : میری بہن نے بیت اللہ پیدل جانے کی نذر مانی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری بہن کے پیدل بیت اللہ جانے کا اللہ کوئی ثواب نہ دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٣٢٩٣، ٣٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٨) (صحیح )
جو شخص یہ منت مانے کہ وہ بیت المقدس میں نماز پڑھے گا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں نے اللہ سے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو مکہ پر فتح نصیب کیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت ادا کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہیں پڑھ لو (یعنی مسجد الحرام میں اس لیے کہ اس سے افضل ہے اور سہل تر ہے) ، اس نے پھر وہی بات دہرائی، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : یہیں پڑھ لو پھر اس نے (سہ بارہ) وہی بات پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اب تمہاری مرضی (چاہو تو یہاں پڑھ لو اور بیت المقدس جانا چاہو تو وہاں چلے جاؤ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح سے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٣) ، سنن الدارمی/النذور ٤ (٢٣٨٤) (صحیح )
جو شخص یہ منت مانے کہ وہ بیت المقدس میں نماز پڑھے گا
عمر بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بعض صحابہ رسول ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر تم یہاں (یعنی مسجد الحرام میں) نماز پڑھ لیتے تو تمہارے بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی جگہ پر کافی ہوتا (وہاں جانے کی ضرورت نہ رہتی) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے انصاری نے ابن جریج سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے حفص بن عمر کے بجائے جعفر بن عمر کہا ہے اور عمرو بن حنۃ کے بجائے عمر بن حیۃ کہا ہے : اور کہا ہے ان دونوں نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے اور نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٧٣) (ضعیف الإسناد) ( اس کے رواة یوسف، حفص، عمر وبن عبدالرحمن سب کے سب لین الحدیث ہیں )
میت کی طرف سے کسی دوسرے کیلئے نذر پوری کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا اور کہا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی جسے وہ پوری نہ کرسکیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان کی جانب سے پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٧٦١) ، الأیمان ٣٠ (٦٦٩٨) ، الحیل ٣ (٦٩٥٩) ، صحیح مسلم/النذور ١ (١٦٣٨) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٩ (١٥٤٦) ، سنن النسائی/الوصایا ٨ (٣٦٨٦) ، الأیمان ٣٤ (٣٨٤٨، ٣٨٤٩، ٣٨٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٩ (٢١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النذور ١ (١) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٣٢٩، ٣٧٠) (صحیح )
میت کی طرف سے کسی دوسرے کیلئے نذر پوری کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت بحری سفر پر نکلی اس نے نذر مانی کہ اگر وہ بخیریت پہنچ گئی تو وہ مہینے بھر کا روزہ رکھے گی، اللہ تعالیٰ نے اسے بخیریت پہنچا دیا مگر روزہ نہ رکھ پائی تھی کہ موت آگئی، تو اس کی بیٹی یا بہن رسول اللہ ﷺ کے پاس (مسئلہ پوچھنے) آئی تو اس کی جانب سے آپ نے اسے روزے رکھنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٤٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الأیمان ٣٣ (٣٨٤٨) ، مسند احمد (١/٢١٦) (صحیح )
None
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا: میں نے ایک باندی اپنی والدہ کو دی تھی، اب وہ مر گئیں اور وہی باندی چھوڑ گئیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہارا اجر مل گیا اور باندی بھی تمہیں وراثت میں مل گئی اس نے کہا: وہ مر گئیں اور ان کے ذمہ ایک مہینے کا روزہ تھا، پھر عمرو ( عمرو بن عون ) کی حدیث ( نمبر ۳۳۰۸ ) کی طرح ذکر کیا۔
میت کی طرف سے کسی دوسرے کیلئے نذر پوری کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ میری والدہ کے ذمے ایک مہینے کے روزے تھے کیا میں اس کی جانب سے رکھ دوں ؟ آپ ﷺ نے پوچھا : اگر تمہاری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا قرض تو اور بھی زیادہ ادا کئے جانے کا مستحق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٢ (١٩٥٣) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٧ (١١٤٨) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٢ (٧١٦) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥١ (١٧٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٢٢٧، ٢٥٨، ٢٥٨، ٣٦٢) ، دی/ الصوم ٤٩ (١٨٠٩) (صحیح )
میت کی طرف سے کسی دوسرے کیلئے نذر پوری کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مرجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٢) (صحیح )
اس کا بیان کہ نذر کا پورا کرناضروری ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے نذر مانی ہے کہ میں آپ کے سر پر دف بجاؤں گی، آپ ﷺ نے فرمایا : (بجا کر) اپنی نذر پوری کرلو اس نے کہا : میں نے ایسی ایسی جگہ قربانی کرنے کی نذر (بھی) مانی ہے جہاں جاہلیت کے زمانہ کے لوگ ذبح کیا کرتے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا کسی صنم (بت) کے لیے ؟ اس نے کہا : نہیں، پوچھا : کسی وثن (بت) کے لیے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٥٦) (حسن صحیح )
اس کا بیان کہ نذر کا پورا کرناضروری ہے
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحاک نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرلو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٥) (صحیح )
None
میں اپنے والد کے ساتھ حجۃ الوداع میں نکلی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے آپ پر اپنی نظریں گاڑ دیں، میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوئے آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معلمین مکتب کے درہ کے طرح ایک درہ تھا، میں نے بدویوں اور لوگوں کو کہتے ہوئے سنا: شن شن ( درے کی آواز جو تیزی سے مارتے اور گھماتے وقت نکلتی ہے ) تو میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئے اور ( جا کر ) آپ کے قدم پکڑ لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعتراف و اقرار کیا، آپ کھڑے ہو گئے اور ان کی باتیں آپ نے توجہ سے سنیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرے یہاں لڑکا پیدا ہو گا تو میں بوانہ کی دشوار گزار پہاڑیوں میں بہت سی بکریوں کی قربانی کروں گا۔ راوی کہتے ہیں: میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے پچاس بکریاں کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا وہاں کوئی بت بھی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اللہ کے لیے جو نذر مانی ہے اسے پوری کرو انہوں نے ( بکریاں ) اکٹھا کیں، اور انہیں ذبح کرنے لگے، ان میں سے ایک بکری بدک کر بھاگ گئی تو وہ اسے ڈھونڈنے لگے اور کہہ رہے تھے اے اللہ! میری نذر پوری کر دے پھر وہ اسے پا گئے تو ذبح کیا۔
None
اسی جیسی لیکن اس سے قدرے اختصار کے ساتھ روایت کرتی ہیں آپ نے پوچھا: کیا وہاں کوئی بت ہے یا جاہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: یہ میری والدہ ہیں ان کے ذمہ نذر ہے، اور پیدل حج کرنا ہے، کیا میں اسے ان کی طرف سے پورا کر دوں؟ اور ابن بشار نے کبھی یوں کہا ہے: کیا ہم ان کی طرف سے اسے پورا کر دیں؟ ( جمع کے صیغے کے ساتھ ) آپ نے فرمایا: ہاں ۔
آدمی کو جس بات کا اختیار نہیں اس کی نذر کرنا
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ عضباء ١ ؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتار کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے، اس نے کہا : محمد ! آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جانے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑ رکھا ہے ۔ راوی کہتے ہیں : ثقیف نے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے دو شخصوں کو قید کرلیا تھا۔ اس نے جو بات کہی اس میں یہ بات بھی کہی کہ میں مسلمان ہوں، یا یہ کہا کہ میں اسلام لے آیا ہوں، تو جب نبی اکرم ﷺ آگے بڑھ گئے (آپ نے کوئی جواب نہیں دیا) تو اس نے پکارا : اے محمد ! اے محمد ! عمران کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ رحم دل اور نرم مزاج تھے، اس کے پاس لوٹ آئے، اور پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : میں مسلمان ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم یہ پہلے کہتے جب تم اپنے معاملے کے مختار تھے تو تم بالکل بچ جاتے اس نے کہا : اے محمد ! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ، میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلاؤ۔ عمران (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : یہی تمہارا مقصد ہے یا : یہی اس کا مقصد ہے ۔ راوی کہتے ہیں : پھر وہ دو آدمیوں کے بدلے فدیہ میں دے دیا گیا ٢ ؎ اور عضباء کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری کے لیے روک لیا (یعنی واپس نہیں کیا) ۔ پھر مشرکین نے مدینہ کے جانوروں پر حملہ کیا اور عضباء کو پکڑ لے گئے، تو جب اسے لے گئے اور ایک مسلمان عورت کو بھی پکڑ لے گئے، جب رات ہوتی تو وہ لوگ اپنے اونٹوں کو اپنے کھلے میدانوں میں سستانے کے لیے چھوڑ دیتے، ایک رات وہ سب سو گئے، تو عورت (نکل بھاگنے کے ارادہ) سے اٹھی تو وہ جس اونٹ پر بھی ہاتھ رکھتی وہ بلبلانے لگتا یہاں تک کہ وہ عضباء کے پاس آئی، وہ ایک سیدھی سادی سواری میں مشاق اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہوگئی اس نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے اسے بچا دیا تو وہ اسے ضرور قربان کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی کی حیثیت سے پہچان لی گئی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے اسے بلوایا، چناچہ اسے بلا کر لایا گیا، اس نے اپنی نذر کے متعلق بتایا، آپ ﷺ نے فرمایا : کتنا برا ہے جو تم نے اسے بدلہ دینا چاہا، اللہ نے اسے اس کی وجہ سے نجات دی ہے تو وہ اسے نحر کر دے، اللہ کی معصیت میں نذر کا پورا کرنا نہیں اور نہ ہی نذر اس مال میں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ عورت ابوذر کی بیوی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النذر ٣ (١٦٤١) ، سنن النسائی/الأیمان ٣١ (٣٨٢١) ، ٤١ (٣٨٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ السیر (١٥٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٦ (٢١٢٤) ، مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٣٠، ٤٣٢، ٤٣٣) ، دی/ النذور ٣ (٢٣٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک اونٹنی کا نام ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ثقیف نے اسے لے لیا اور اس کے بدلہ میں ان دونوں مسلمانوں کو چھوڑ دیا جنہیں انہوں نے پکڑ رکھا تھا۔
اپنا سارا مال راہ اللہ میں صدقہ کرنے کی نذر کرنا
کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے تو میں نے عرض کیا : میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الأیمان ٣٥ (٣٨٥٤) ، انظر حدیث رقم : (٢٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٥) (صحیح )
None
جب ان کی توبہ قبول ہو گئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میں اپنے مال سے دستبردار ہو جاتا ہوں، پھر آگے راوی نے اسی طرح حدیث بیان کی: «خير لك» تک۔
None
انہوں نے یا ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے یا کسی اور نے جسے اللہ نے چاہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری توبہ میں شامل ہے کہ میں اپنے اس گھر سے جہاں مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے ہجرت کر جاؤں اور اپنے سارے مال کو صدقہ کر کے اس سے دستبردار ہو جاؤں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس ایک ثلث کا صدقہ کر دینا تمہیں کافی ہو گا ۔
None
یہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ تھے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی اور واقعہ ابولبابہ کا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے یونس نے ابن شہاب سے اور ابن شہاب نے سائب بن ابولبابہ کے بیٹوں میں سے کسی سے روایت کیا ہے نیز اسے زبیدی نے زہری سے، زہری نے حسین بن سائب بن ابی لبابہ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
اپنا سارا مال راہ اللہ میں صدقہ کرنے کی نذر کرنا
کعب بن مالک (رض) سے اسی قصہ میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری توبہ میں یہ شامل ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں اپنا سارا مال صدقہ کر دوں، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : نصف صدقہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : ثلث صدقہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں میں نے کہا : تو میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، انظر رقم (٢٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٥) (حسن صحیح )
جو شخص ایسی بات کی نذر کرلے جس کو پورا نہ کرسکتا ہو
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص غیر نامزد نذر مانے تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جو کسی گناہ کی نذر مانے تو اس کا (بھی) کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے پوری کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے، اور جو کوئی ایسی نذر مانے جسے وہ پوری کرسکتا ہو تو وہ اسے پوری کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وکیع وغیرہ نے اس حدیث کو عبداللہ بن سعید (بن ابوہند) سے ابن عباس (رض) پر موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٧ (٢١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٤١) (ضعیف مرفوعاً ) (اس کے راوی طلحہ انصاری حافظہ کے کمزور راوی ہیں ان کے بالمقابل وکیع ثقہ ہیں اور انہوں نے اسے ابن عباس (رض) کے قول سے روایت کیا ہے )
غیر معین نذر ماننے کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عمرو بن حارث نے کعب بن علقمہ سے انہوں نے ابن شماسہ سے اور ابن شہاب نے عقبہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النذر ٥ (١٦٤٥) ، سنن الترمذی/النذور ٤ (١٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الأیمان ٤٠ (٣٨٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٧ (٢١٢٥) ، مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٦، ١٤٧) (صحیح )
غیر معین نذر ماننے کا بیان
اس سند سے بھی عقبہ بن عامر (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦٠) (صحیح )
زمانہء فاہلیت کی مانی ہوئی منت اسلام لانے کے بعد بھی پوری کی جائے گی
عمر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد الحرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اپنی نذر پوری کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٥ (٢٠٣٢) ، ١٥ (٢٠٤٢) ، ١٦ (٢٠٤٣) ، الخمس ١٩ (٣١٤٤) ، المغازي ٥٤ (٤٣٢٠) ، الأیمان ٢٩ (٦٦٩٧) ، صحیح مسلم/الأیمان ٦ (١٦٥٦) ، سنن الترمذی/الأیمان ١١ (١٥٣٩) ، سنن النسائی/الأیمان ٣٥ (٣٨٥١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦٠ (١٧٧٢) ، الکفارات ١٨ (٢١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧، ٢/٢٠، ٨٢، ١٥٣) ، سنن الدارمی/النذور ١ (٢٣٧٨) (صحیح )