2. نماز کا بیان
نماز کی فرضیت کا بیان
طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ اہل نجد کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سنی جاتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قریب آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اسلام) دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنی ہے ، اس نے پوچھا : ان کے علاوہ اور کوئی نماز مجھ پر واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ١ ؎ إلا یہ کہ تم نفل پڑھو ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے ماہ رمضان کے روزے کا ذکر کیا، اس نے پوچھا : اس کے سوا کوئی اور بھی روزے مجھ پر فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، إلا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو ۔ آپ ﷺ نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا : اس کے علاوہ کوئی اور بھی صدقہ مجھ پر واجب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، إلایہ کہ تم نفلی صدقہ کرو ۔ پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے چلا : قسم اللہ کی ! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم، آپ ﷺ نے فرمایا : بامراد رہا اگر اس نے سچ کہا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٤ (٤٦) ، والصوم ١ (١٨٩١) ، والشہادات ٢٦ (٢٦٧٨) ، والحیل ٣ (٦٩٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢ (١١) ، سنن النسائی/الصلاة ٤ (٤٥٩) ، والصوم ١ (٢٠٩٢) ، الإیمان ٢٣ (٥٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ٢٥(٩٤) ، مسند احمد (١/١٦٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وتر اور عیدین کی نماز واجب نہیں جیسا کہ علماء محققین کی رائے ہے۔
نماز کی فرضیت کا بیان
اس سند سے بھی ابوسہیل نافع بن مالک بن ابی عامر سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کے باپ کی قسم ! ١ ؎ اگر اس نے سچ کہا تو وہ بامراد رہا، اور اس کے باپ کی قسم ! اگر اس نے سچ کہا تو وہ جنت میں جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ قسم عادت کے طور پر ہے، بالارادہ نہیں، یا غیر اللہ کی قسم کی ممانعت سے پہلے کی ہے۔
نماز کے اوقات کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کے پاس دو بار میری امامت کی، ظہر مجھے اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہوگیا، عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ١ ؎ ہوگیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار روزہ کھولتا ہے (سورج ڈوبتے ہی) ، عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق ٢ ؎ غائب ہوگئی، اور فجر اس وقت پڑھائی جب صائم پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے یعنی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے۔ دوسرے دن ظہر مجھے اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ٣ ؎ ہوگیا، عصر اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوگیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب روزے دار روزہ کھولتا ہے، عشاء تہائی رات میں پڑھائی، اور فجر اجالے میں پڑھائی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے محمد ﷺ ! یہی وقت آپ سے پہلے انبیاء کا بھی رہا ہے، اور نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١ (١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٣، ٣٥٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ ٢ ؎ : شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔ ٣ ؎ : یعنی برابر ہونے کے قریب ہوگیا۔ ٤ ؎ : پہلے دن جبرئیل (علیہ السلام) نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھائیں ، اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اوّل اور آخر وقت معلوم ہوجائے۔
نماز کے اوقات کا بیان
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے عصر میں کچھ تاخیر کردی، اس پر عروہ بن زبیر نے آپ سے کہا : کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے محمد ﷺ کو نماز کا وقت بتادیا ہے ؟ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا : جو تم کہہ رہے ہو اسے سوچ لو ١ ؎۔ عروہ نے کہا : میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابومسعود انصاری (رض) کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جبرائیل (علیہ السلام) اترے، انہوں نے مجھے اوقات نماز کی خبر دی، چناچہ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی ، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں (وقت کی) نماز کو شمار کرتے جا رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلتے ہی ظہر پڑھی، اور جب کبھی گرمی شدید ہوتی تو آپ ﷺ ظہر دیر کر کے پڑھتے۔ اور میں نے آپ ﷺ کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا جب سورج بالکل بلند و سفید تھا، اس میں زردی نہیں آئی تھی کہ آدمی عصر سے فارغ ہو کر ذوالحلیفہ ٢ ؎ آتا، تو سورج ڈوبنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا، آپ ﷺ مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے اور عشاء اس وقت پڑھتے جب آسمان کے کناروں میں سیاہی آجاتی، اور کبھی آپ ﷺ عشاء میں دیر کرتے تاکہ لوگ اکٹھا ہوجائیں، آپ ﷺ نے ایک مرتبہ فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، اور دوسری مرتبہ آپ نے اس میں اسفار ٣ ؎ کیا یعنی خوب اجالے میں پڑھی، مگر اس کے بعد آپ ﷺ فجر ہمیشہ غلس میں پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی اور آپ ﷺ نے پھر کبھی اسفار میں نماز نہیں ادا کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث زہری سے : معمر، مالک، ابن عیینہ، شعیب بن ابوحمزہ، لیث بن سعد وغیرہم نے بھی روایت کی ہے لیکن ان سب نے (اپنی روایت میں) اس وقت کا ذکر نہیں کیا، جس میں آپ نے نماز پڑھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے، نیز ہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے بھی عروہ سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح معمر اور ان کے اصحاب نے روایت کی ہے، مگر حبیب نے (اپنی روایت میں) بشیر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور وہب بن کیسان نے جابر (رض) سے، جابر نے نبی اکرم ﷺ سے مغرب کے وقت کی روایت کی ہے، اس میں ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) دوسرے دن مغرب کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں آئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے بھی اسی طرح نبی اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل نے مجھے دوسرے دن مغرب ایک ہی وقت میں پڑھائی ۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے بھی مروی ہے یعنی حسان بن عطیہ کی حدیث جسے وہ عمرو بن شعیب سے، وہ ان کے والد سے، وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے، اور عبداللہ بن عمرو نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : م /المساجد ٣١ (٦١٠) ، سنن النسائی/ المواقیت ١ (٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/ الصلاة ١ (٦٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/ المواقیت ١ (٥٢١) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢٢١) ، والمغازي ١٢ (٤٠٠٧) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١(١) ، مسند احمد (٤/١٢٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣ (١٢٢٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : عمر بن عبدالعزیز کو اس حدیث کے متعلق شبہہ ہوا کہ کہیں یہ ضعیف نہ ہو کیونکہ عروہ نے اسے بغیر سند بیان کیا تھا ، یا یہ شبہہ ہوا کہ اوقات نماز کی نشاندہی تو اللہ تعالیٰ نے معراج کی رات میں خود براہ راست کردی ہے اس میں جبرئیل (علیہ السلام) کا واسطہ کہاں سے آگیا ، یا جبرئیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کی امامت کیسے کی جبکہ وہ مرتبہ میں آپ ﷺ سے کمتر ہیں، چناچہ انہیں شبہات کے ازالہ کے لئے عروہ نے اسے مع سند بیان کرنا شروع کیا۔ ٢ ؎ : ذوالحلیفہ مدینہ سے مکہ کے راستہ میں دو فرسخ (چھ میل یا ساڑھے نو کیلو میٹر) کی دوری پر ہے، اس وقت یہ بئر علی یا ابیار علی سے معروف ہے ، یہ اہل مدینہ اور مدینہ کے راستہ سے گزرنے والے حجاج اور معتمرین کی میقات ہے۔ ٣ ؎ : نبی اکرم ﷺ کا سفر میں یہ پڑھنا جواز کے بیان کے لئے تھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیشہ غلس ہی میں فجر ادا کی۔
نماز کے اوقات کا بیان
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ ایک سائل نے نبی اکرم ﷺ سے (اوقات نماز کے بارے میں) پوچھا تو آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب صبح صادق کی پو پھٹ گئی، اور آپ ﷺ نے نماز فجر اس وقت پڑھی جب آدمی اپنے ساتھ والے کا چہرہ (اندھیرے کی وجہ سے) نہیں پہچان سکتا تھا، یا آدمی کے پہلو میں جو شخص ہوتا اسے نہیں پہچان سکتا تھا، پھر آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب آفتاب ڈھل گیا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا : (ابھی تو) ٹھیک دوپہر ہوئی ہے، اور آپ کو خوب معلوم تھا (کہ زوال ہوچکا ہے) ، پھر آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند و سفید تھا، پھر آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت سورج ڈوبنے پر کہی، پھر آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غائب ہوگئی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ ﷺ نے فجر پڑھی اور نماز سے فارغ ہوئے، تو ہم لوگ کہنے لگے : کیا سورج نکل آیا ؟ پھر ظہر آپ ﷺ نے اس وقت پڑھی جس وقت پہلے روز عصر پڑھی تھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج زرد ہوگیا یا کہا : شام ہوگئی، اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی، اور عشاء اس وقت پڑھی جب تہائی رات گزر گئی، پھر فرمایا : کہاں ہے وہ شخص جو نماز کے اوقات پوچھ رہا تھا ؟ نماز کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے، عطاء نے جابر (رض) سے، جابر نے نبی اکرم ﷺ سے مغرب کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے، اس میں ہے : پھر آپ ﷺ نے عشاء پڑھی ، بعض نے کہا : تہائی رات میں پڑھی ، بعض نے کہا : آدھی رات میں ، اور اسی طرح یہ حدیث ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ) سے، بریدہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٣) ، سنن النسائی/المواقیت ١٥ (٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٩١٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١ (١٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١ (٦٦٧) ، مسند احمد (٥/٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پہلے دن نبی اکرم ﷺ نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں، ایسا آپ ﷺ نے لوگوں کو بتانے کے لئے کیا تھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے کبھی بھی فجر اسفار میں نہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی بلاوجہ ظہر، عصر اور مغرب میں تاخیر کی۔
نماز کے اوقات کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آجائے، عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے، مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی ختم نہ ہوجائے، عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٢) ، سنن النسائی/المواقیت ١٤ (٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٠، ٢١٣، ٢٢٣) (صحیح )
نبی کی نماز کی کیفیت اور انکے اوقات کا بیان
محمد بن عمرو سے روایت ہے ( اور وہ حسن بن علی بن ابی طالب (رض) کے لڑکے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جابر (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی نماز کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے تھے، عصر ایسے وقت پڑھتے کہ سورج زندہ رہتا، مغرب سورج ڈوب جانے پر پڑھتے، اور عشاء اس وقت جلدی ادا کرتے جب آدمی زیادہ ہوتے، اور جب کم ہوتے تو دیر سے پڑھتے، اور فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٦٠) ، ٢١ (٥٦٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٦) ، سنن النسائی/المواقیت ١٧ (٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢ (١٢٢٢) (صحیح ) وضاحت : اس سے پہلے والے باب میں مطلق وقت کا بیان تھا اور اس باب میں مستحب اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنی افضل ہے۔
نبی کی نماز کی کیفیت اور انکے اوقات کا بیان
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا : آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا : آپ ﷺ عشاء سے پہلے سونے ١ ؎ کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے ٢ ؎، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ ﷺ ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، ١٣ (٥٤٧) ، ٢٣ (٥٦٨) ، ٣٨ (٥٩٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١ (١٦٨) ، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٦) ، ١٦ (٥٢٦) ، ٢٠ (٥٣١) ، الافتتاح ٤٢ (٩٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٤) ، ١٢ (٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨) ، ویأتي في الأدب ٤٨٩٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢ ؎ : مراد لایعنی باتیں ہیں جن سے دنیا و آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔
نماز ظہر کا وقت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر پڑھتا تو ایک مٹھی کنکری اٹھا لیتا تاکہ وہ میری مٹھی میں ٹھنڈی ہوجائے، میں اسے گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : وقد تفرد بہ أبو داود : (تحفة الأشراف : ٢٢٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/التطبیق ٣٣ (١٠٨٠) ، مسند احمد (٣/٣٢٧) (حسن )
نماز ظہر کا وقت
اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کی (نماز ظہر) کا اندازہ گرمی میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٥ (٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اصلی سایہ اور زائد دونوں کا مجموعہ ملا کر اس مقدار کو پہنچتا تھا نہ کہ صرف زائد، یہ بات سارے ملکوں اور شہروں کے حق میں یکساں نہیں ، ملکوں اور علاقوں کے اختلاف سے اس کا معاملہ مختلف ہوگا، مکہ اور مدینہ دوسری اقلیم میں واقع ہیں، جو شہر اس اقلیم میں واقع ہوں گے انہیں کے لئے یہ حکم ہوگا، رہے دوسرے شہر جو دوسرے اقالیم میں واقع ہیں تو ان کا معاملہ دوسرا ہوگا۔
نماز ظہر کا وقت
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (ظہر) ٹھنڈی کرلو ، پھر اس نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ٹھنڈی کرلو ، اسی طرح دو یا تین بار فرمایا یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے سے ہوتی ہے لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦ (١٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٥، ١٦٢، ١٧٦) (صحیح )
نماز ظہر کا وقت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈی کر کے پڑھو، (ابن موہب کی روایت میں فأبردوا عن الصلاة کے بجائے فأبردوا بالصلاة ہے) ، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٩ (٥٣٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥ (١٥٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٤ (٥٠١) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٤ (٦٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٦، ١٥٢٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٧ (٢٨، ٢٩) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٨، ٢٥٦، ٢٦٦، ٣٤٨، ٣٧٧، ٣٩٣، ٤٠٠، ٤١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤ (١٢٤٣) ، الرقاق ١١٩ (٢٨٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسے حقیقی اور ظاہری معنی میں لینا زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ بخاری و مسلم کی (متفق علیہ) حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ نے اللہ رب العزت سے شکایت کی کہ میرے بعض حصے گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں، تو اللہ رب العزت نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک جاڑے کے موسم میں، اور ایک گرمی کے موسم میں، جہنم جاڑے میں سانس اندر کو لیتی ہے، اور گرمی میں باہر کو، اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنا جلدی پڑھنے سے بہتر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک مثل کے بعد پڑھے، اس سے مقصود صرف اتنا ہے کہ بہ نسبت دوپہر کے کچھ ٹھنڈک ہوجائے اور جب سورج زیادہ ڈھل جاتا ہے تو دوپہر کی بہ نسبت کچھ ٹھنڈک آ ہی جاتی ہے۔
نماز ظہر کا وقت
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) ظہر کی اذان اس وقت دیتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦١٨) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٣) ، مسند احمد (٥/١٠٦) (حسن صحیح )
نماز عصر کا وقت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج سفید، بلند اور زندہ ہوتا تھا، اور جانے والا (عصر پڑھ کر) عوالی مدینہ تک جاتا اور سورج بلند رہتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢١) ، سنن النسائی/المواقیت ٧ (٥٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٥ (٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٣ (٥٥٠) ، والاعتصام ١٦ (٧٣٢٩) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١(١١) ، مسند احمد (٣/٢٢٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥ (١٢٤٤) (صحیح )
نماز عصر کا وقت
زہری کا بیان ہے کہ عوالی مدینہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے چار میل بھی کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٣٧٨) (صحیح )
نماز عصر کا وقت
خیثمہ کہتے ہیں کہ سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کی تپش اور گرمی محسوس کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦١٨) (صحیح )
نماز عصر کا وقت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے کمرے میں ہوتی، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١ (٥٢٢) ، ١٣ (٥٤٤) ، والخمس ٤ (٣١٠٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦ (١٠٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٧ (٥٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٥ (٦٨٣) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١(٢) (صحیح )
نماز عصر کا وقت
علی بن شیبان (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ آئے تو دیکھا کہ آپ عصر کو مؤخر کرتے جب تک کہ سورج سفید اور صاف رہتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٩) (ضعیف) (اس کے دو راوی محمد بن یزید اور یزید مجہول ہیں )
صلوٰة وسطی کا بیان
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے روز فرمایا : ہم کو انہوں نے (یعنی کافروں نے) نماز وسطیٰ (یعنی عصر) سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٨ (٢٩٣١) ، والمغازي ٢٩ (٤١١١) ، و تفسیر البقرة (٤٥٣٣) ، والدعوات ٥٨ (٦٣٩٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، ٣٦ (٦٢٧) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة ٤٢ (٢٩٨٤) ، سنن النسائی/الصلاة ١٤ (٤٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٤) ، مسند احمد (١/٨١، ٨٢، ١١٣، ١٢٢، ١٢٦، ١٣٥، ١٣٧، ١٤٤، ١٤٦، ١٥٠، ١٥١، ١٥٢، ١٥٣، ١٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٨ (١٢٨٦) (صحیح )
صلوٰة وسطی کا بیان
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ (رض) کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ : حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چناچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا : حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين ١ ؎ ٢ ؎، پھر عائشہ (رض) نے کہا : میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٦ (٦٢٩) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٨٢) ، سنن النسائی/الصلاة ١٤ (٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٧ (٢٥) ، مسند احمد (٦/٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز وسطیٰ ( درمیانی نماز) نماز عصر نہیں کوئی اور نماز ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے اس سے استدلال صحیح نہیں ، یا یہ عطف عطف تفسیری ہے۔ ٢ ؎: نمازوں کی حفاظت کرو خصوصی طور پر درمیان والی نماز کی اور عصر کی اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔
صلوٰة وسطی کا بیان
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر دوپہر کو پڑھا کرتے تھے، اور کوئی نماز رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر اس سے زیادہ سخت نہ ہوتی تھی، تو یہ آیت نازل ہوئی : حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى ١ ؎ زید نے کہا : بیشک اس سے پہلے دو نماز ہیں (ایک عشاء کی، دوسری فجر کی) اور اس کے بعد دو نماز ہیں (ایک عصر کی دوسری مغرب کی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٣) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٧ (٢٧ موقوفا) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نماز وسطی سے مراد کون سی نماز ہے اس سلسلے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے عصر مراد ہے ، اکثر علماء کا رجحان اسی جانب ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
جس نماز کی ایک رکعت پائی تو اس نے گویا پوری نماز پائی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز فجر پالی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٨) ، سنن النسائی/المواقیت ١٠ (٥١٥) ، ٢٨ (٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٨ (٥٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥ (١٨٦) ، سنن النسائی/١١ (٥١٦، ٥١٧) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١١ (١١٢٢) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١(٥) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٦٠، ٢٨٢، ٣٤٨، ٣٩٩، ٤٦٢، ٤٧٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فجر اور عصر دونوں ادا سمجھی جائیں گی نہ کہ قضا ، اس سے معلوم ہوا کہ فجر کا وقت سورج نکلنے تک، اور عصر کا وقت سورج ڈوبنے تک رہتا ہے ، البتہ دھوپ میں زردی آجانے کے بعد وقت مکروہ ہوجاتا ہے۔
نماز عصر کو سورج کے زرد ہونے تک موئخر کرنے پر وعید
علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم ظہر کے بعد انس بن مالک (رض) کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز کے جلدی ہونے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہوجائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہوجائے یا اس کی دونوں سینگوں پر ہوجائے ١ ؎ تو اٹھے اور چار ٹھونگیں لگالے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦ (١٦٠) ، سنن النسائی/المواقیت ٨ (٥١٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ١٠(٤٦) ، مسند احمد (٣/١٠٢، ١٠٣، ١٤٩، ١٨٥، ٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علماء نے اس کی تاویل میں اختلاف کیا ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ شیطان سورج ڈوبنے کے وقت اپنا سر سورج پر رکھ دیتا ہے کہ سورج کے پجاریوں کا سجدہ اسی کو واقع ہو اور بعض نے کہا ہے کہ شیطان کی سینگ سے مراد اس کے وہ پیروکار ہیں جو سورج کو پوجتے ہیں۔
عصر کی نماز فوت ہوجانے پر وعید
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہوگئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبیداللہ بن عمر نے وتر (واؤ کے ساتھ) کے بجائے أتر (ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں : لوٹ لیے گئے) ۔ اس حدیث میں وتر اور أتر کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے وتر فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٤ (٥٥٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، سنن النسائی/الصلاة ١٧ (٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٥) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٥ (٢١) ، مسند احمد (٢/٨، ١٣، ٢٧، ٤٨، ٦٤، ٧٥، ٧٦، ١٠٢، ١٣٤، ١٤٥، ١٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٧ (١٢٦٧) (صحیح )
عصر کی نماز فوت ہوجانے پر وعید
ابوعمرو یعنی اوزاعی کا بیان ہے کہ عصر فوت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جو دھوپ ہے وہ تمہیں زرد نظر آنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٦٥) (ضعیف ) (ولید مدلس راوی ہیں، نیز یہ اوزاعی کا اپنا خیال ہے )
مغرب کا وقت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر تیر مارتے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٤) وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٧٠) (صحیح )
مغرب کا وقت
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے تھے جب اس کے اوپر کا کنارہ غائب ہوجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٦١) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٨ (٦٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨ (١٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٧ (٦٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٥٤) ، دی/الصلاة ١٦(١٢٤٥) (صحیح )
مغرب کا وقت
مرثد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ابوایوب (رض) ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں عقبہ بن عامر (رض) مصر کے حاکم تھے، تو عقبہ نے مغرب میں دیر کی، ابوایوب نے کھڑے ہو کر ان سے کہا : عقبہ ! بھلا یہ کیا نماز ہے ؟ عقبہ نے کہا : ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ : میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستارے چمکنے لگ جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٧) (حسن صحیح )
عشاء کی نماز کا وقت
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ اس نماز یعنی عشاء کے وقت کو جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ یہ نماز تیسری رات کا چاند ڈوب جانے کے وقت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٩ (١٦٥) ، سنن النسائی/المواقیت ١٨ (٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨ (١٢٤٧) (صحیح )
عشاء کی نماز کا وقت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کے لیے رسول اللہ ﷺ کی آمد کا انتظار کرتے رہے، آپ ﷺ اس وقت تشریف لائے جب تہائی رات یا اس سے زیادہ گزر گئی، ہم نہیں جانتے کہ کسی چیز نے آپ ﷺ کو مشغول کر رکھا تھا یا کوئی اور بات تھی، جس وقت آپ ﷺ نکل کر آئے تو فرمایا : کیا تم لوگ اس نماز کا انتظار کر رہے ہو ؟ اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں انہیں یہ نماز اسی وقت پڑھاتا ، پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٣٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٠ (٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٢٤ (٥٧١) ، مسند احمد (٢/٢٨، ٩٥، ١٢٦) (صحیح )
عشاء کی نماز کا وقت
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عشاء میں نبی اکرم ﷺ کا انتظار کیا لیکن آپ نے تاخیر کی، یہاں تک کہ گمان کرنے والوں نے گمان کیا کہ آپ ﷺ نہیں نکلیں گے، اور ہم میں سے بعض کہنے والے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ نماز پڑھ چکے ہیں، ہم اسی حال میں تھے کہ نبی اکرم ﷺ نکلے، لوگوں نے آپ سے بھی وہی بات کہی جو پہلے کہہ رہے تھے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم لوگ اس نماز کو دیر کر کے پڑھو، کیونکہ تمہیں اسی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فضیلت دی گئی ہے، تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٧) (صحیح )
عشاء کی نماز کا وقت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء پڑھنی چاہی تو آپ باہر نکلے ہی نہیں یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی (اس کے بعد نکلے) اور فرمایا : تم لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو، ہم لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں نے نماز پڑھ لی اور اپنی خواب گاہوں میں جا کر سو رہے، اور تم برابر نماز ہی میں رہے جب تک کہ تم نماز کا انتظار کرتے رہے، اگر مجھے کمزور کی کمزوری، اور بیمار کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٢٠ (٥٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٨ (٦٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥) (صحیح )
نماز فجر کا وقت
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصلاة ١٣ (٣٧٢) ، المواقیت ٢٧ (٥٧٨) ، والأذان ١٦٣ (٨٦٧) ، ١٦٥ (٨٧٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢ (١٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٦٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٤ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١(٤) ، مسند احمد (٦/٣٣، ٣٦، ١٧٩، ٢٤٨، ٢٥٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠ (١٢٥٢) (صحیح )
نماز فجر کا وقت
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فجر (نماز صبح) اس وقت پڑھو جب اچھی طرح صبح (صادق) ہوجائے، کیونکہ یہ چیز تمہارے ثوابوں کو زیادہ کرنے والی ہے (یا کہا : ثواب کو زیادہ کرنے والی ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣ (١٥٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٦ (٥٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٧٢) ، تحفة الأشراف (٣٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٠، ٤/١٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١ (١٢٥٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی فجر طلوع صبح کے وقت پڑھو کیونکہ اصبح الرجل اس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی صبح کرے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے أسفروا بالفجر کی روایت کی ہے، وہ روایت بالمعنی ہے اور یہ غلس میں پڑھنے کی فضیلت کی دلیل ہے نہ کہ اسفار کی۔
نماز کی پا بندی کا بیان
عبداللہ بن صنابحی نے کہا کہ ابومحمد کا کہنا ہے کہ وتر واجب ہے تو اس پر عبادہ بن صامت (رض) نے کہا : ابومحمد نے غلط کہا ١ ؎، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع و سجود کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصلاة ٦ (٤٦٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٤ (١٤٠١) ، مسند احمد (٥/٣١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان سے غلطی ہوئی ہے نہ کہ انہوں نے جان بوجھ کر جھوٹ کہا ہے ( اور یہ ابومحمد کا اجتہادی فتویٰ تھا جس کی تردید عبادہ نے اس حدیث سے کی )
نماز کی پا بندی کا بیان
ام فروہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا ۔ خزاعی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے (قاسم نے) اپنی پھوپھی (جنہیں ام فروہ کہا جاتا تھا اور جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی) سے روایت کی ہے، اس میں سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم کی بجائے أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٣(١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٧٥، ٣٧٤، ٤٤٠) (صحیح) (اس کے راوی قاسم مضطرب الحدیث اور عبداللہ بن عمر سیٔ الحفظ ہیں، نیز بعض أمھاتہ مجہول راوی ہیں) لیکن یہ حدیث شواہد کی بنا پر اس باب میں صحیح ہے، عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث متفق علیہ (بخاری و مسلم) میں ہے
نماز کی پا بندی کا بیان
عمارہ بن رویبہ کہتے ہیں کہ اہل بصرہ میں سے ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا : آپ مجھے ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : وہ آدمی جہنم میں داخل نہ ہوگا جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نماز پڑھی ، اس شخص نے کہا : کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ؟ یہ جملہ اس نے تین بار کہا، انہوں نے کہا : ہاں، ہر بار وہ یہی کہتے تھے : میرے دونوں کانوں نے اسے سنا ہے اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے، پھر اس شخص نے کہا : میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کو اسے فرماتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٦٣٤) ، سنن النسائی/الصلاة ١٣ (٤٧٢) ، ٢١ (٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٦، ٢٦١) (صحیح )
نماز کی پا بندی کا بیان
فضالہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا : یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہوجائے، آپ ﷺ نے فرمایا : عصرین پر محافظت کرو ، عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا : عصرین کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دو نماز : ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے (فجر اور عصر) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بہت زیادہ مصروف ہو اس کے لئے فقط دو وقت کی نماز کافی ہوجائے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کم سے کم ان دو وقتوں کی نماز کو اول وقت پر پابندی سے پڑھ لیا کرے (بیہقی، عراقی) ۔
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزیں ہیں، جو انہیں ایمان و یقین کے ساتھ ادا کرے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا: جس نے وضو کے ساتھ ان پانچوں نماز کی، ان کے رکوع اور سجدوں کی اور ان کے اوقات کی محافظت کی، رمضان کے روزے رکھے، اور بیت اللہ تک پہنچنے کی طاقت رکھنے کی صورت میں حج کیا، خوش دلی و رضا مندی کے ساتھ زکاۃ دی، اور امانت ادا کی ۔ لوگوں نے پوچھا: ابوالدرداء! امانت ادا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے کہا: اس سے مراد جنابت کا غسل کرنا ہے۔
None
ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میں نے آپ کی امت پر پانچ ( وقت کی ) نماز فرض کی ہیں اور میری طرف سے یہ وعدہ ہے کہ جو ان کے وقتوں پر ان کی محافظت کرتے ہوئے میرے پاس آئے گا، میں اسے جنت میں داخل کروں گا، اور جس نے ان کی محافظت نہیں کی، میرا اس سے کوئی وعدہ نہیں ۔
حاکم نماز دیر سے پڑھائے تو کیا کرنا چاہیے؟
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ابوذر ! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حاکم و سردار ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے ؟ یا فرمایا : نماز کو تاخیر سے پڑھیں گے ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم نماز وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو ١ ؎، یہ تمہارے لیے نفل ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤١ (٦٤٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥ (١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٠ (١٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٢ (٧٨٠) ، ٥٥ (٨٦٠) ، مسند احمد (٥/١٦٨، ١٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٥ (١٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر حدیث عام ہے ساری نمازیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجر کی ہو یا عصر کی یا مغرب کی، اور بعض لوگوں نے اس حدیث کو ظہر اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب کو دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی۔
حاکم نماز دیر سے پڑھائے تو کیا کرنا چاہیے؟
عمرو بن میمون اودی کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) رسول اللہ ﷺ کے قاصد بن کر ہمارے پاس یمن آئے، میں نے فجر میں ان کی تکبیر سنی، وہ ایک بھاری آواز والے آدمی تھے، مجھ کو ان سے محبت ہوگئی، میں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو شام میں دفن کیا، پھر میں نے غور کیا کہ ان کے بعد لوگوں میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ (تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں) چناچہ میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آیا اور ان کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حکمراں مسلط ہوں گے جو نماز کو وقت پر نہ پڑھیں گے ؟ ، تو میں نے کہا : اللہ کے رسول ! جب ایسا وقت مجھے پائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : نماز کو اول وقت میں پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لینا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٤٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٢ (٧٨٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٠ (١٢٥٥) ، مسند احمد (١/٣٧٩، ٤٥٥، ٤٥٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں : ایک تو یہ کہ نماز اوّل وقت میں پڑھنا افضل ہے، دوسرے یہ کہ جماعت کے لئے اسے مؤخر کرنا جائز نہیں، تیسرے یہ کہ جو نماز پڑھ چکا ہو اس کا اسی دن اعادہ (دہرانا) جائز ہے بشرطیکہ اس اعادہ کا کوئی سبب ہو، ایک ہی نماز کو ایک ہی دن میں دوبارہ پڑھنے کی جو ممانعت آئی ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کا کوئی سبب نہ ہو، چوتھے یہ کہ پہلی نماز فرض ہوگی اور دوسری جو اس نے امام کے ساتھ پڑھی ہے نفل ہوگی۔
حاکم نماز دیر سے پڑھائے تو کیا کرنا چاہیے؟
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد تمہارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جنہیں وقت پر نماز پڑھنے سے بہت سی چیزیں غافل کردیں گی یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہوجائے گا، لہٰذا تم وقت پر نماز پڑھ لیا کرنا ، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اگر تم چاہو ۔ سفیان نے (اپنی روایت میں) یوں کہا ہے : اگر میں نماز ان کے ساتھ پاؤں تو ان کے ساتھ (بھی) پڑھ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، تم ان کے ساتھ (بھی) پڑھ لو اگر تم چاہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٥١ (١٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٥، ٣٢٩) (صحیح )
حاکم نماز دیر سے پڑھائے تو کیا کرنا چاہیے؟
قبیصہ بن وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد تم پر ایسے حکمران مسلط ہوں گے جو نماز تاخیر سے پڑھیں گے، یہ تمہارے لیے مفید ہوگی، اور ان کے حق میں غیر مفید، لہٰذا تم ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہنا جب تک وہ قبلہ رخ ہو کر پڑھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قبلہ رخ وہی نماز پڑھتا ہے جو مسلمان ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ نماز پڑھتے اور اسے قائم کرتے رہیں وہ مسلمان ہیں، نیک کاموں میں ان کی اطاعت واجب ہے۔
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت غزوہ خیبر سے لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب ہمیں نیند آنے لگی تو آپ ﷺ نے اخیر رات میں پڑاؤ ڈالا، اور بلال (رض) سے فرمایا : (تم جاگتے رہنا) اور رات میں ہماری نگہبانی کرنا ، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ بلال بھی سو گئے، وہ اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر نہ نبی اکرم ﷺ بیدار ہوئے نہ بلال رضی اللہ عنہ، اور نہ آپ کے اصحاب میں سے کوئی اور ہی، یہاں تک کہ جب ان پر دھوپ پڑی تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ گھبرا کر بیدار ہوئے اور فرمایا : اے بلال ! انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی اسی چیز نے گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا، پھر وہ لوگ اپنی سواریاں ہانک کر آگے کچھ دور لے گئے ١ ؎، پھر نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ ﷺ نے فجر پڑھائی، جب نماز پڑھا چکے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب بھی یاد آئے اسے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : نماز قائم کرو جب یاد آئے ۔ یونس کہتے ہیں : ابن شہاب اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے (یعنی للذکرى لیکن مشہور قرأت :أقم الصلاة للذکرى (سورۃ طہٰ : ١٢) ہے) ۔ احمد کہتے ہیں : عنبسہ نے یونس سے روایت کرتے ہوئے اس حدیث میں للذکرى کہا ہے۔ احمد کہتے ہیں : الكرى نعاس (اونگھ) کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/التفسیر ٢٠ (٣١٦٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦١٩، ٦٢٠) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٦(٢٥ مرسلاً ) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وہاں سے سواریوں کو ہانک کرلے جانے اور کچھ دور جا کر نماز پڑھنے کی وجہ کیا تھی ؟ اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، اصحاب رائے کا کہنا ہے کہ ایسا اس وجہ سے کیا تھا کہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہوجائے جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، ان کے نزدیک فوت شدہ نماز بھی ان وقتوں میں پڑھنی جائز نہیں لیکن ائمہ دین : مالک، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راھویہ کے نزدیک چھوٹی ہوئی نماز کی قضا ہر وقت جائز ہے، ممنوع اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت نفل نماز کے ساتھ خاص ہے، چناچہ اس کی تاویل ان لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ آپ ﷺ اس جگہ سے ہٹ کر نماز پڑھنی چاہتے تھے جہاں آپ کو غفلت و نسیان لاحق ہوا ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آرہی ہے۔
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ابوہریرہ (رض) سے اس حدیث میں یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی اس جگہ سے جہاں تمہیں یہ غفلت لاحق ہوئی ہے کوچ کر چلو ، وہ کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے اذان ١ ؎ دی اور تکبیر کہی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے مالک، سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور عبدالرزاق نے معمر اور ابن اسحاق سے روایت کیا ہے، مگر ان میں سے کسی نے بھی زہری کی اس حدیث میں اذان ٢ ؎ کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز ان میں سے کسی نے اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے سوائے اوزاعی اور ابان عطار کے، جنہوں نے اسے معمر سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٣٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت میں اذان کا اضافہ ہے، یونس والی روایت میں اذان کا ذکر نہیں، چھوٹی ہوئی نماز کے لئے اذان دی جائے گی یا نہیں اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، امام احمد کی رائے میں اذان اور اقامت دونوں کہی جائے گی ، اور یہی قول اصحاب الرای کا بھی ہے، امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف تکبیر کہی جائے گی اذان نہیں۔ ٢ ؎ : یہی واقعہ ہشام نے حسن کے واسطے سے عمران بن حصین (رض) سے بیان کیا ہے اس میں بھی اذان کا ذکر ہے، اور ابوقتادہ (رض) کی روایت میں بھی اذان اور اقامت دونوں کا ذکر ہے (اور ان دونوں کی روایتیں آگے آرہی ہیں) یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں، نیز دیگر صحابہ کرام سے بھی ایسے ہی مروی ہے، اور احادیث و روایات میں ثقہ راویوں کے اضافے اور زیادات مقبول ہوتی ہیں۔
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے ایک سفر میں تھے، تو آپ ایک طرف مڑے، میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ اسی طرف مڑ گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : دیکھو، (یہ کون آ رہے ہیں) ؟ ، اس پر میں نے کہا : یہ ایک سوار ہے، یہ دو ہیں، یہ تین ہیں، یہاں تک کہ ہم سات ہوگئے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ہماری نماز کا (یعنی نماز فجر کا) خیال رکھنا ، اس کے بعد انہیں نیند آگئی اور وہ ایسے سوئے کہ انہیں سورج کی تپش ہی نے بیدار کیا، چناچہ لوگ اٹھے اور تھوڑی دور چلے، پھر سواری سے اترے اور وضو کیا، بلال (رض) نے اذان دی تو سب نے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھیں، پھر دو رکعت فرض ادا کی، اور سوار ہو کر آپس میں کہنے لگے : ہم نے اپنی نماز میں کوتاہی کی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سو جانے میں کوئی کوتاہی اور قصور نہیں ہے، کوتاہی اور قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز بھول جائے تو جس وقت یاد آئے اسے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے وقت پر پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣ (٦١٨) ، مسند احمد (٥/٣٠٥) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
خالد بن سمیر کہتے ہیں کہ مدینہ سے عبداللہ بن رباح انصاری جنہیں انصار مدینہ فقیہ کہتے تھے ہمارے پاس آئے اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ مجھ سے ابوقتادہ انصاری (رض) نے جو رسول اللہ ﷺ کے شہسوار تھے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجا (اور پھر یہی قصہ بیان کیا) ، اس میں ہے : تو سورج کے نکلنے ہی نے ہمیں جگایا، ہم گھبرائے ہوئے اپنی نماز کے لیے اٹھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ٹھہرو، ٹھہرو، یہاں تک کہ جب سورج چڑھ آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو لوگ فجر کی دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے پڑھ لیں ، چناچہ جو لوگ سنت پڑھا کرتے تھے اور جو نہیں پڑھتے تھے، سبھی سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور سبھوں نے دو رکعت سنت ادا کی، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا، اذان دی گئی پھر آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : سنو ! ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کام میں نہیں پھنسے تھے، جس نے ہم کو نماز سے باز رکھا ہو، ہماری روحیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تھیں، جب اس نے چاہا انہیں چھوڑا، تم میں سے جو شخص کل فجر ٹھیک وقت پر پائے وہ اس کے ساتھ ایسی ہی ایک اور نماز پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٩) (شاذ) (اس کے راوی خالد بن سمیر وہم کے شکار ہوجاتے تھے اور اس حدیث میں ان سے کئی جگہ وہم ہوا ہے جو بقیہ احادیث سے واضح ہے )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ابوقتادہ (رض) سے اس حدیث میں یوں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہاری روحوں کو جب تک چاہا روکے رکھا، اور جب چاہا انہیں چھوڑ دیا، تم اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو ، چناچہ سب اٹھے اور سب نے وضو کیا یہاں تک کہ جب سورج چڑھ گیا تو نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت الصلاة ٣٥ (٥٩٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٧ (٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٦) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ابوقتادہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں، اس میں ہے : تو آپ ﷺ نے وضو کیا جس وقت سورج چڑھ گیا پھر انہیں نماز پڑھائی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٦) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سو جانے میں کوتاہی نہیں ہے، بلکہ کوتاہی یہ ہے کہ تم جاگتے ہوئے کسی نماز میں اس قدر دیر کر دو کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٥٣(٦١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٥) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے، یہی اس کا کفارہ ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور کفارہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (١٧٨) ، سنن النسائی/المواقیت ٥١ (٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٧ (٥٩٧) ، مسند احمد (٣/١٠٠، ٢٤٣، ٢٦٦، ٢٦٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٦ (١٢٦٥) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے کہ لوگ نماز فجر میں سوئے رہ گئے، سورج کی گرمی سے وہ بیدار ہوئے تو تھوڑی دور چلے یہاں تک کہ سورج چڑھ گیا، پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے اذان دی تو آپ نے فجر (کی فرض نماز) سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی، پھر (مؤذن نے) تکبیر کہی اور آپ نے فجر پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التیمم ٦ (٣٤٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٢) (کلا ھما من غیر طریق الحسن) ، مسند احمد (٤/٤٣١، ٤٤١، ٤٤٤) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
عمرو بن امیہ ضمری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ فجر میں سوئے رہ گئے، یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر آپ ﷺ نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا : اس جگہ سے کوچ کر چلو ، پھر آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی پھر لوگوں نے وضو کیا اور فجر کی دونوں سنتیں پڑھیں، پھر آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا، انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی تو آپ ﷺ نے انہیں فجر پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩١، ١٣٩) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
ذی مخبر حبشی (رض) (خادم رسول اللہ ﷺ ) سے اس واقعے میں روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (اتنے پانی سے) وضو کیا کہ مٹی اس سے بھیگ نہیں سکی، پھر آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا انہوں نے اذان دی، پھر آپ ﷺ اٹھے اور آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے دو رکعتیں ادا کیں، پھر بلال (رض) سے کہا : نماز کے لیے تکبیر کہو تو پھر آپ ﷺ نے فرض نماز کو ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے ادا کیا۔ حجاج کی روایت میں عن يزيد بن صليح حدثني ذو مخبر رجل من الحبشة ہے اور عبید کی روایت میں يزيد بن صليح کے بجائے يزيد بن صالح. ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٨) ، وقد أخرجہ : (٤/٩٠) (صحیح )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
اس سند سے بھی ذی مخبر سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے انہوں نے بغیر جلد بازی کے ٹھہر ٹھہر کر اذان دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٨) (شاذ) (ولید بن مسلم مدلس ہیں اور دیگر رواة کی مخالفت کرتے ہوے اذان کی بابت بھی وھو غیر عجل بڑھا دیا ہے )
بھول سے یا سونے کی بناء پر نماز ترک ہو جانا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں ہم صلح حدیبیہ کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آئے، آپ نے فرمایا : رات میں ہماری نگرانی کون کرے گا ؟ ، بلال (رض) نے کہا : میں، پھر لوگ سوئے رہے یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا، تو نبی اکرم ﷺ نیند سے بیدار ہوئے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ویسے ہی کرو جیسے کیا کرتے تھے ۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں : چناچہ ہم لوگوں نے ویسے ہی کیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی سو جائے یا (نماز پڑھنی) بھول جائے تو وہ اسی طرح کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٥٤ (٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٦، ٣٩١، ٤٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ جس طرح وقت پر ادا کی جانے والی نماز میں کیا جاتا ہے اسی طرح اس کی قضا نماز میں کرے ، پس فجر کی قضا نماز میں بھی قرات جہری ہوگی۔
مسجد بنانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے مسجدوں کے بلند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : تم مسجدیں اسی طرح سجاؤ گے جس طرح یہود و نصاریٰ سجاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ٢ (٧٤٠) (صحیح )
مسجد بنانے کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر و مباہات نہ کرنے لگیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المساجد ٢ (٦٩٠) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٢ (٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٤، ١٧٥، ٢٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک دوسرے پر فخر کرے گا کہ میری مسجد بلند، عمدہ اور مزین ہے، ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ مسجدوں کی آرائش و زیبائش اور زیادہ روشنی شرعاً ممنوع اور ناپسندیدہ ہے، مسجد کی اصل زینت اور آرائش یہ ہے کہ وہاں پنچ وقتہ اذان و اقامت اور سنت کے مطابق نماز اپنے وقت پر ہو۔
مسجد بنانے کا بیان
عثمان بن ابی العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں طائف کی مسجد ایسی جگہ بنانے کا حکم دیا، جہاں طائف والوں کے بت تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ٣ (٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی ابن عیاض لین الحدیث ہیں )
مسجد بنانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی، مجاہد کہتے ہیں : اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، ابوبکر (رض) نے اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا، البتہ عمر (رض) نے اس میں اضافہ کیا، اور اس کی تعمیر رسول اللہ ﷺ کی بنائی ہوئی بنیادوں کے مطابق کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی نئی لکڑی کے لگائے، مجاہد کی روایت میں عمده خشبا کے الفاظ ہیں، پھر عثمان (رض) نے اس کی عمارت میں تبدیلی کی اور اس میں بہت سارے اضافے کئے، اس کی دیواریں منقش پتھروں اور گچ (چونا) سے بنوائیں، اس کے ستون منقش پتھروں کے بنوائے اور اس کی چھت ساگوان کی لکڑی کی بنوائی۔ مجاہد کی روایت میں وسقفه الساج کے بجائے وسقفه بالساج ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حدیث میں مذکور ( قصة ) کے معنی گچ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٢ (٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٠) (صحیح )
مسجد بنانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، اس کے اوپر کھجور کی شاخوں سے سایہ کردیا گیا تھا، پھر وہ ابوبکر (رض) کی خلافت میں بوسیدہ ہوگئی تو انہوں نے اس کو کھجور کے تنوں اور اس کی ٹہنیوں سے بنوایا، پھر عثمان (رض) کی خلافت میں وہ بھی بوسیدہ ہوگئی تو انہوں نے اسے پکی اینٹوں سے بنوا دیا، جو اب تک باقی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٣٣٥) (ضعیف) (اس کے ایک راوی عطیہ عوفی ضعیف ہیں )
مسجد بنانے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ شہر کے بالائی حصہ میں ایک محلہ میں اترے، جسے بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہا جاتا تھا، وہاں آپ ﷺ چودہ دن تک قیام پذیر رہے، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلوایا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے آئے، انس (رض) کہتے ہیں : گویا میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں اور ابوبکر (رض) آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنو نجار کے لوگ آپ ﷺ کے اردگرد ہیں یہاں تک کہ آپ ابوایوب (رض) کے مکان کے صحن میں اترے، جس جگہ نماز کا وقت آجاتا آپ ﷺ نماز پڑھ لیتے تھے، بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ ﷺ نے مسجد بنانے کا حکم فرمایا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلوایا، (وہ آئے) تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اے بنو نجار ! تم مجھ سے اپنے اس باغ کی قیمت لے لو ، انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم اس کی قیمت اللہ ہی سے چاہتے ہیں۔ انس (رض) کہتے ہیں : اس باغ میں جو چیزیں تھیں وہ میں تمہیں بتاتا ہوں : اس میں مشرکوں کی قبریں تھیں، ویران جگہیں، کھنڈرات اور کھجور کے درخت تھے، آپ ﷺ نے حکم فرمایا، مشرکوں کی قبریں کھود کر پھینک دی گئیں، ویران جگہیں اور کھنڈر ہموار کردیئے گئے، کھجور کے درخت کاٹ ڈالے گئے، ان کی لکڑیاں مسجد کے قبلے کی طرف قطار سے لگا دی گئیں اور اس کے دروازے کی چوکھٹ کے دونوں بازو پتھروں سے بنائے گئے، لوگ پتھر اٹھاتے جاتے تھے اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ تھے اور فرماتے تھے : اللهم لا خير إلا خير الآخره فانصر الأنصار والمهاجره اے اللہ ! بھلائی تو دراصل آخرت کی بھلائی ہے تو تو انصار و مہاجرین کی مدد فرما۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٨ (٤٢٨) ، و فضائل المدینة ١ (١٨٦٨) ، و فضائل الأنصار ٤٦ (٣٩٠٦) ، صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٤) ، سنن النسائی/المساجد ١٢ (٧٠٣) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٣ (٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٢ (٣٥٠) ، مسند احمد (٣/١١٨، ١٢٣، ٢١٢، ٢٤٤) (صحیح )
مسجد بنانے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی جگہ پر قبیلہ بنو نجار کا ایک باغ تھا، اس میں کچھ کھیت، کچھ کھجور کے درخت اور مشرکوں کی قبریں تھیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : مجھ سے اس کی قیمت لے لو ، انہوں نے کہا : ہم اس کی قیمت نہیں چاہتے، تو کھجور کے درخت کاٹے گئے، کھیت برابر کئے گئے اور مشرکین کی قبریں کھدوائی گئیں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، مگر اس حدیث میں لفظ فانصر کی جگہ لفظ فاغفر ہے (یعنی اے اللہ ! تو انصار و مہاجرین کو بخش دے) ۔ موسیٰ نے کہا : ہم سے عبدالوارث نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور عبدالوارث خرث کے بجائے خرب (ویرانے) کی روایت کرتے ہیں، عبدالوارث کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہی حماد سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٩١) (صحیح )
گھروں میں مسجد بنانے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھر اور محلہ میں مسجدیں بنانے، انہیں پاک صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ٩ (٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٩١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجمعة ٦٤ (٥٩٤) ، مسند احمد (٥/١٢، ٢٧١) (صحیح )
گھروں میں مسجد بنانے کا بیان
سمرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے (سلیمان) کو لکھا : حمد و صلاۃ کے بعد معلوم ہونا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے گھروں اور محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں درست اور پاک و صاف رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، مسند احمد (٥/١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٦) (صحیح )
مسجد میں چراغ جلانے کا بیان
نبی اکرم ﷺ کی آزاد کردہ لونڈی میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ بیت المقدس کے سلسلے میں ہمیں حکم دیجئیے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم وہاں جاؤ اور اس میں نماز پڑھو ، اس زمانے میں ان شہروں میں لڑائی پھیلی ہوئی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم وہاں نہ جا سکو اور نماز نہ پڑھ سکو تو تیل ہی بھیج دو کہ اس کی قندیلوں میں جلایا جاسکے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٦ (١٤٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦٣ ) ( ضعیف) (زیاد اور میمونہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، لیکن ابن ماجہ کی سند میں یہ واسطہ عثمان بن أبی سودة ہے، اس حدیث کی تصحیح بوصیری نے کی ہے، اور نووی نے تحسین کی ہے، البانی نے صحیح أبی داود (٦٨) میں اس کی تصحیح کی ہے، اور اخیر خبر میں نکارت کا ذکر کیا ہے، ناشر نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ البانی صاحب نے بعد میں صحیح أبی داود سے ضعیف أبی داود میں منتقل کردیا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اس پر اپنے فیصلے کو تبدیل کریں، جبکہ آخری حدیث میں ذہبی سے نکارت کی وجہ بیان کردی ہے، کہ زیتون کا تیل فلسطین میں ہوتا ہے، تو حجاز سے اس کو وہاں بھیجنے کا کیا مطلب، اور یہ کہ یہ تیل نصارے کے لئے وہ بھیجیں کہ وہ صلیب و تمثال پر اس کو جلائیں، یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے )
مسجد کی کنکریوں کا بیان
ابوالولید سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رض) سے مسجد کی کنکریوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ایک رات بارش ہوئی، زمین گیلی ہوگئی تو لوگ اپنے کپڑوں میں کنکریاں لا لا کر اپنے نیچے بچھانے لگے، جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا : کتنا اچھا کام ہے یہ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥٩٤) (ضعیف) (اس کے راوی ابوالولید مجہول ہیں )
مسجد کی کنکریوں کا بیان
ابوصالح کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا : جب آدمی کنکریوں کو مسجد سے نکالتا ہے تو وہ اسے قسم دلاتی ہیں (کہ ہمیں نہ نکالو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٨٣٧) (صحیح )
مسجد کی کنکریوں کا بیان
ابوبدر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کنکری اس شخص کو قسم دلاتی ہے جو اس کو مسجد سے نکالتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٨٣٧) (ضعیف) (اس میں قاضی شریک ضعیف راوی ہیں )
مسجد میں جھاڑو دینے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر میری امت کے ثواب پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالتا ہے، اور مجھ پر میری امت کے گناہ پیش کئے گئے تو میں نے دیکھا کہ اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر وہ اسے بھلا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٩ (٢٩١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢) (ضعیف) ( ابن جریج اور مطلب دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، دونوں کے مابین انقطاع ہے، نیز مطلب اور انس کے درمیان انقطاع ہے مطلب کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ١ ؍ ١٦٤) ۔
مسجد میں عورتوں کا مردوں سے الگ رہنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر ہم اس دروازے کو عورتوں کے لیے چھوڑ دیں (تو بہتر ہے) ١ ؎۔ نافع کہتے ہیں : تو ابن عمر (رض) تاحیات اس دروازے سے مسجد میں داخل نہیں ہوئے۔ عبدالوارث کے علاوہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ (رسول اللہ ﷺ کے بجائے) یہ عمر (رض) کا قول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٨) ، ویأتی ہذا الحدیث عند المؤلف برقم (٥٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس سے مسجد میں آنے جانے میں عورتوں کا مردوں سے اختلاط اور میل جول نہیں ہوگا۔
مسجد میں عورتوں کا مردوں سے الگ رہنا
نافع سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے یہ بات کہی اور یہی زیادہ صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ عمر بن خطاب (رض) کا اپنا قول ہے، یہی صحیح روایت ہے۔
مسجد میں عورتوں کا مردوں سے الگ رہنا
نافع سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) (مردوں کو) عورتوں کے دروازہ سے داخل ہونے سے منع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٨) (صحیح ) .
مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا
ابوحمید یا ابواسید انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو نبی اکرم ﷺ پر سلام بھیجے پھر یہ دعا پڑھے : اللهم افتح لي أبواب رحمتک اے اللہ ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے، پھر جب نکلے تو یہ کہے : اللهم إني أسألک من فضلک اے اللہ ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٠ (٧١٣) ، سنن النسائی/المساجد ٣٦ (٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٣ (٧٧٢) ، مسند احمد (٥/ ٤٢٥) سنن الدارمی/الصلاة ١١٥ (١٤٣٤) ، والاستئذان ٥٦ (٧٧٢) (صحیح )
مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا
حیوہ بن شریح کہتے ہیں کہ میں عقبہ بن مسلم سے ملا تو میں نے ان سے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ جب مسجد میں تشریف لے جاتے تو فرماتے : أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم وسلطانه القديم من الشيطان الرجيم (میں اللہ عظیم کی، اس کی ذات کریم کی اور اس کی قدیم بادشاہت کی مردود شیطان سے پناہ چاہتا ہوں) تو عقبہ نے کہا : کیا بس اتنا ہی ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : جب مسجد میں داخل ہونے والا آدمی یہ کہتا ہے تو شیطان کہتا ہے : اب وہ میرے شر سے دن بھر کے لیے محفوظ کرلیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٠) (صحیح )
مسجد میں داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے کا بیان
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں (تحیۃ المسجد) پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٠ (٤٤٤) ، والتھجد ٢٥ (١١٦٣) ، صحیح مسلم/ المسافرین ١١ (٧١٤) ، سنن الترمذی/ الصلاة ١١٩ (٣١٦) ، سنن النسائی/ المساجد ٣٧ (٧٣١) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ٥٧ (١٠١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ١٨(٥٧) ، مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٣) ، سنن الدارمی/الصلا ة ١١٤ (١٤٣٣) (صحیح )
مسجد میں داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے کا بیان
اس سند سے بھی ابوقتادہ (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر اس کے بعد چاہے تو وہ بیٹھا رہے یا اپنی ضرورت کے لیے چلا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٣) (صحیح )
مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتے تم میں سے ہر ایک شخص کے لیے دعائے خیر و استغفار کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ میں جہاں اس نے نماز پڑھی ہے بیٹھا رہتا ہے، جب تک کہ وہ وضو نہ توڑ دے یا اٹھ کر چلا نہ جائے، فرشتے کہتے ہیں : اللهم اغفر له اللهم ارحمه اے اللہ ! اسے بخش دے، اے اللہ ! اس پر رحم فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٤ (١٧٦) ، والصلاة ٦١ (٤٤٥) ، ٨٧ (٤٧٧) ، والأذان ٣٠ (٦٤٧) ، ٣٦ (٦٥٩) ، والبیوع ٤٩ (٢٠١٣) ، وبدء الخلق ٧ (٣٢٢٩) ، سنن النسائی/المساجد ٤٠ (٧٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٩ (٣٣٠) ، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٩ (٧٩٩) ، موطا امام مالک/ قصر الصلاة ١٨ (٥١) ، مسند احمد (٢/٢٦٦، ٢٨٩، ٣١٢، ٣٩٤، ٤١٥، ٤٢١، ٤٨٦، ٥٠٢) (صحیح )
مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت
اسی سند سے ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک شخص برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز اس کو روکے رہے یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے سے اسے نماز کے علاوہ کوئی اور چیز نہ روکے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٦ (٦٥٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٧) (صحیح )
مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک اپنے مصلی میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا رہے، فرشتے کہتے ہیں : اے اللہ ! تو اسے بخش دے، اے اللہ ! تو اس پر رحم فرما، جب تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر گھر نہ لوٹ جائے، یا حدث نہ کرے ۔ عرض کیا گیا : حدث سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (حدث یہ ہے کہ وہ) بغیر آواز کے یا آواز کے ساتھ ہوا خارج کرے (یعنی وضو توڑ دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥١) ، مسند احمد (٢/٤١٥، ٥٢٨) (صحیح )
مسجد میں بیٹھنے کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں جو جس کام کے لیے آئے گا وہی اس کا نصیب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جیسی نیت ہوگی اسی کے مطابق اسے اجر و ثواب ملے گا۔
مسجد میں گم شدہ چیز ڈھو نڈ نے کے لئے اعلان نہ کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص کسی کو مسجد میں گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے تو وہ کہے : اللہ تجھے (اس گمشدہ چیز کو) واپس نہ لوٹائے، کیونکہ مسجدیں اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٨ (٥٦٨) ، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١١ (٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٨ (١٤٤١) (صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم اسے (مٹی) میں چھپا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث مسلم بن إبراہیم عن ہشام وأبان تفرد بہ أبو داود، تحفة (١١٣٧، ١٣٨٣) ، وحدیث مسلم بن إبراہیم عن شعبة، صحیح البخاری/الصلاة ٣٧ (٤١٥) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجمعة ٤٩ (٥٧٢) ، سنن النسائی/المساجد ٣٠ (٧٢٤) ، مسند احمد (٣/١٧٣، ٢٣٢، ٢٧٤، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جن مسجدوں کا فرش خام اور غیر پختہ ہوتا ہے وہاں تو یہ ممکن ہے کہ تھوک کر اسے مٹی میں دبا دیں، مگر جن مسجدوں کا فرش پختہ ہو وہاں تھوکنا بالکل منع ہے، اگر تھوکنے کی ضرورت آ ہی پڑے تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ دستی یا ٹیشو پیپر میں تھوک کر جیب میں رکھ لے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے اور نہ مسجد گندی ہو۔
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس پر مٹی ڈال دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٥٥٢) ، سنن الترمذی/الجمعة ٤٩ (٥٧٢) ، سنن النسائی/المساجد ٣٠ (٧٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨) (صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسجد میں حلق سے بلغم نکال کر ڈالنا ...، پھر راوی نے اوپر والی حدیث کے مثل ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٩، ٢٠٩، ٢٣٤) (صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اس مسجد میں داخل ہو اور اس میں تھوکے یا بلغم نکالے تو اسے مٹی کھود کر دفن کردینا چاہیئے، اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اپنے کپڑے میں تھوک لے، پھر اسے لے کر نکل جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٤ (٤٠٨ و ٤٠٩) ، ٣٥ (٤١٠ و ٤١١) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٨) ، سنن النسائی/المساجد ٣٢ (٧٢٦) ، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٠ (٧٢٤) ، مسند احمد (٢/٢٦٠، ٣٢٤، ٤٧١، ٥٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٨) (حسن صحیح) (مؤلف کی سند میں ابن أبی حدرد لین الحدیث ہیں جن کی متابعت حمید بن عبدالرحمن نے کی ہے اس لئے یہ حدیث حسن صحیح ہے )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
طارق بن عبداللہ محاربی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو یا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے آگے اور داہنی طرف نہ تھوکے لیکن (اگر تھوکنا ہو اور جگہ خالی ہو) تو بائیں طرف تھوکے یا بائیں قدم کے نیچے تھوکے پھر اسے مل دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٤٩ (٥٧١) ، سنن النسائی/المساجد ٣٣ (٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦١ (١٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٦) (صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران اچانک آپ ﷺ نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو آپ لوگوں پر ناراض ہوئے، پھر آپ ﷺ نے اسے کھرچ کر صاف کیا۔ راوی کہتے ہیں : میرے خیال میں ابن عمر نے فرمایا آپ ﷺ نے زعفران منگا کر اس میں رگڑ دیا اور فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے ١ ؎، لہٰذا وہ اپنے سامنے نہ تھوکے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسماعیل اور عبدالوارث نے یہ حدیث ایوب سے اور انہوں نے نافع سے روایت کی ہے اور مالک، عبیداللہ اور موسیٰ بن عقبہ نے (براہ راست) نافع سے حماد کی طرح روایت کی ہے مگر ان لوگوں نے زعفران کا ذکر نہیں کیا ہے، اور معمر نے اسے ایوب سے روایت کیا ہے اور اس میں زعفران کا لفظ موجود ہے، اور یحییٰ بن سلیم نے عبیداللہ کے واسطہ سے اور انہوں نے نافع کے واسطہ سے (زعفران کے بجائے) خلوق (ایک قسم کی خوشبو) کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٦) ، والأذان ٩٤ (٧٥٣) ، والعمل في الصلاة ٢ (١٢١٣) ، والأدب ٧٥ (٦١١١) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٨) وقد أخرجہ : سنن النسائی/المساجد ٣٠ (٧٢٤) ، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٠ (٧٢٤) ، موطا امام مالک/القبلہ ٣ (٤) ، مسند احمد (٢/٣٢، ٦٦، ٨٣، ٩٦) سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت مصلی کے سامنے ہوتی ہے کیونکہ دوسری روایت میں ہے فإن الرحمة تواجهه۔
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھجور کی شاخوں کو پسند کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں ایک شاخ رہتی تھی، (ایک روز) آپ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو قبلہ کی دیوار میں بلغم لگا ہوا دیکھا، آپ ﷺ نے اسے کھرچا پھر غصے کی حالت میں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تم میں سے کسی کو اپنے منہ پر تھوکنا اچھا لگتا ہے ؟ جب تم میں سے کوئی شخص قبلے کی طرف منہ کرتا ہے تو وہ اپنے رب عزوجل کی طرف منہ کرتا ہے اور فرشتے اس کی داہنی طرف ہوتے ہیں، لہٰذا کوئی شخص نہ اپنے داہنی طرف تھوکے اور نہ ہی قبلہ کی طرف، اگر تھوکنے کی حاجت ہو تو اپنے بائیں جانب یا اپنے پیر کے نیچے تھوکے، اگر اسے جلدی ہو تو اس طرح کرے ۔ ابن عجلان نے اسے ہم سے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اس کو مل لے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٤ (٤٠٨، ٤٠٩) ، ٣٥ (٤١٠، ٤١١) ، ٣٦ (٤١٣) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٠) ، سنن النسائی/المساجد ٣٢ (٧٢٦) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٠ (٧٦١) ، مسند احمد (٣/٦، ٢٤، ٥٨، ٨٨، ٩٣) (حسن صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے، وہ اپنی مسجد میں تھے، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ابن طاب ١ ؎ کی ایک ٹہنی تھی، آپ ﷺ نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو اس کی طرف بڑھے اور اسے ٹہنی سے کھرچا، پھر فرمایا : تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اس سے اپنا چہرہ پھیر لے ؟ ، پھر فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، لہٰذا اپنے سامنے اور اپنے داہنی طرف ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف اپنے بائیں پیر کے نیچے تھوکے اور اگر جلدی میں کوئی چیز (بلغم) آجائے تو اپنے کپڑے سے اس طرح کرے ، پھر آپ ﷺ نے کپڑے کو اپنے منہ پر رکھا (اور اس میں تھوکا) پھر اسے مل دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے عبير ٢ ؎ لا کر دو ، چناچہ محلے کا ایک نوجوان اٹھا، دوڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور اپنی ہتھیلی میں خلوق ٣ ؎ لے کر آیا، رسول اللہ ﷺ نے اسے لے کر لکڑی کی نوک میں لگایا اور جہاں بلغم لگا تھا وہاں اسے پوت دیا۔ جابر (رض) کہتے ہیں : اسی وجہ سے تم لوگ اپنی مسجدوں میں خلوق لگایا کرتے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابن طاب ایک قسم کی کھجور کا نام ہے۔ ٢ ؎ : ایک قسم کی خوشبو ہے۔ ٣ ؎ : ایک قسم کی خوشبو ہے۔
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
ابو سہلہ سائب بن خلاد (رض) کہتے ہیں (احمد کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں) کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کی امامت کی تو قبلہ کی جانب تھوک دیا اور رسول اللہ ﷺ یہ دیکھ رہے تھے، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ شخص اب تمہاری امامت نہ کرے ، اس کے بعد اس نے نماز پڑھانی چاہی تو لوگوں نے اسے امامت سے روک دیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے، اس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، (میں نے منع کیا ہے) ، صحابی کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : تم نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٥٦) (حسن )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
عبداللہ بن شخیر بن عوف (رض) کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے نماز میں اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوکا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/المساجد ٣٤ (٧٢٨) ، مسند احمد (٤/٢٥، ٢٦) (صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
اس سند سے ابوالعلاء یزید بن عبداللہ بن الشخیر نے اپنے والد عبداللہ بن الشخیر (رض) سے اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے، اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے جوتے سے مل دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٨) (صحیح )
مسجد میں تھوکنا مکروہ ہے
ابوسعید حمیری کہتے ہیں کہ میں نے دمشق کی مسجد میں واثلہ بن اسقع (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے بوریے پر تھوکا، پھر اپنے پاؤں سے اسے مل دیا، ان سے پوچھا گیا : آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے کہا : اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٠) (ضعیف) (اس کے راوی فَرَج ضعیف اور ابوسعید حمیری مجہول ہیں )
مشرک مسجد میں داخل ہوسکتا ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، پھر پوچھا : تم میں محمد کون ہے ؟ رسول اللہ ﷺ اس وقت ان (لوگوں) کے بیچ ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ہم نے اس سے کہا : یہ گورے شخص ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، پھر اس شخص نے آپ ﷺ سے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : میں نے تمہاری بات سن لی، (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) ، تو اس شخص نے کہا : محمد ! میں آپ سے پوچھتا ہوں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٦ (٦٣) ، سنن النسائی/الصیام ١ (٢٠٩٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٤ (١٤٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣ (١٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢ (٦١٩) ، مسند احمد (٣/١٤٣، ١٩٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٠ (١٤٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسجد میں داخل ہونے والا شخص مشرک تھا، نبی اکرم ﷺ نے اسے مسجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا۔
مشرک مسجد میں داخل ہوسکتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بنی سعد بن بکر نے ضمام بن ثعلبہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، وہ آپ کے پاس آئے انہوں نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر بٹھایا اور اسے باندھ دیا پھر مسجد میں داخل ہوئے، پھر محمد بن عمرو نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے اس نے کہا : تم میں عبدالمطلب کا بیٹا کون ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عبدالمطلب کا بیٹا میں ہوں ، تو اس نے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! اور راوی نے پوری حدیث اخیر تک بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٠، ٢٦٤، ٢٦٥) (حسن )
مشرک مسجد میں داخل ہوسکتا ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ مسجد میں اپنے اصحاب میں بیٹھے ہوئے تھے تو ان یہودیوں نے کہا : اے ابوالقاسم ! ہم ایک مرد اور ایک عورت کے سلسلے میں جنہوں نے زنا کرلیا ہے ١ ؎ آئے ہیں (تو ان کے سلسلہ میں کیا حکم ہے ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٩) ویأتی ہذا الحدیث فی الأقضیة برقم (٣٦٢٤، ٣٦٢٥) ، وفی الحدود برقم (٤٤٥٠، ٤٤٥١) (ضعیف) (رجل مزینہ مجہول ہے ) وضاحت : ١ ؎ : باب کی ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کافر بوقت ضرورت مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا جائز نہیں
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے ساری زمین ذریعہ طہارت اور مسجد بنائی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١١٩٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٥، ١٤٧، ٢٤٨، ٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہر پاک زمین تیمم کرنے اور نماز پڑھنے کے لائق بنادی گئی ہے، یہ صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے، پہلی امتوں کو اس کے لئے بڑا اہتمام کرنا پڑتا تھا، وہ صرف عبادت خانوں ہی میں نماز پڑھ سکتی تھیں ، دوسری جگہوں پر نہیں۔
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا جائز نہیں
ابوصالح غفاری کہتے ہیں کہ علی (رض) بابل سے گزر رہے تھے کہ ان کے پاس مؤذن انہیں نماز عصر کی خبر دینے آیا، تو جب آپ بابل کی سر زمین پار کر گئے تو مؤذن کو حکم دیا اس نے عصر کے لیے تکبیر کہی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : میرے حبیب ﷺ نے مجھے قبرستان میں اور سر زمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎ کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٨) (ضعیف) (اس کے راوی عمار ضعیف ہیں اور ابوصالح الغفاری کا سماع علی (رض) سے ثابت نہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت اس باب کی صحیح روایت کے معارض ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بفرض صحت اس سے مقصود یہ ہے کہ بابل میں سکونت اختیار نہ کی جائے یا یہ ممانعت خاص علی (رض) کے لئے تھی کیونکہ آپ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ یہاں کے لوگوں سے انہیں ضرر پہنچے گا۔
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا جائز نہیں
اس سند سے بھی علی (رض) سے سلیمان بن داود کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، مگر اس میں : فلما برز کے بجائے فلما خرج ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٨) (ضعیف) (اس کے رواة میں الحجاج بھی ضعیف ہیں )
وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا جائز نہیں
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اور موسیٰ بن اسماعیل نے اپنی روایت میں کہا : جیسا کہ عمرو کا خیال ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا) : ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے، سوائے حمام (غسل خانہ) اور قبرستان کے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٢٠ (٣١٧) ، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ٤ (٧٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٣، ٩٦) (صحیح )
اونٹوں کے رہنے کی جگہ پر نماز پڑھنے کی مما نعت
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اونٹ کے باڑوں (بیٹھنے کی جگہوں) میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اونٹ کے بیٹھنے کی جگہوں میں نماز نہ پڑھو اس لیے کہ وہ شیطانوں میں سے ہیں ١ ؎، اور آپ ﷺ سے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہاں نماز پڑھو، اس لیے کہ یہ باعث برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٤، (تحفة الأشراف : ١٧٨٣، ١٦٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان میں شیطانی خصلتیں ہیں۔
لڑ کے کو نماز پڑھنے کا کب حکم کیا جائے
سبرہ بن معبد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو ، اور جب دس سال کے ہوجائیں تو اس (کے ترک) پر انہیں مارو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٢ (٤٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤١ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٣٨١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٤) (حسن صحیح )
لڑ کے کو نماز پڑھنے کا کب حکم کیا جائے
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو ، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٧) (حسن صحیح )
لڑ کے کو نماز پڑھنے کا کب حکم کیا جائے
داود بن سوار مزنی سے اس سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں انہوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس لونڈی کی ناف کے نیچے اور گھٹنوں کے اوپر نہ دیکھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وکیع کو داود بن سوار کے نام میں وہم ہوا ہے۔ ابوداود طیالسی نے بھی یہ حدیث انہیں سے روایت کی ہے اور اس میں حدثنا أبو حمزة سوار الصيرفي ہے (یعنی ان کے نزدیک بھی صحیح سوار بن داود ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٧) (حسن )
لڑ کے کو نماز پڑھنے کا کب حکم کیا جائے
ہشام بن سعد کا بیان ہے کہ مجھ سے معاذ بن عبداللہ بن خبیب جہنی نے بیان کیا، ہشام کہتے ہیں : ہم معاذ کے پاس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا : بچے کب نماز پڑھنا شروع کریں ؟ تو انہوں نے کہا : ہم میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ سے نقل کر رہا تھا کہ اس کے متعلق آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : جب بچہ اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں تمیز کرنے لگے تو تم اسے نماز کا حکم دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧١٠) (ضعیف) (اس میں معاذ کی اہلیہ مبہم اور معاذ کے شیخ مجہول ہیں )
اذان کی ابتداء
ابو عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فکرمند ہوئے کہ لوگوں کو کس طرح نماز کے لیے اکٹھا کیا جائے ؟ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا نصب کر دیجئیے، جسے دیکھ کر ایک شخص دوسرے کو باخبر کر دے، آپ ﷺ کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ پھر آپ ﷺ سے ایک بگل ١ ؎ کا ذکر کیا گیا، زیاد کی روایت میں ہے : یہود کے بگل (کا ذکر کیا گیا) تو یہ تجویز بھی آپ ﷺ کو پسند نہیں آئی، آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے ۔ پھر آپ ﷺ سے ناقوس کا ذکر کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں نصرانیوں کی مشابہت ہے ۔ پھر عبداللہ بن زید بن عبدربہ (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس سے لوٹے، وہ بھی (اس مسئلہ میں) رسول اللہ ﷺ کی طرح فکرمند تھے، چناچہ انہیں خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا۔ عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں : وہ صبح تڑکے ہی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ کو اس خواب کی خبر دی اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص (خواب میں) میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اذان سکھائی، راوی کہتے ہیں : عمر بن خطاب (رض) اس سے پہلے یہ خواب دیکھ چکے تھے لیکن وہ اسے بیس دن تک چھپائے رہے، پھر انہوں نے اسے نبی اکرم ﷺ کو بتایا تو آپ نے ان سے فرمایا : تم کو کس چیز نے اسے بتانے سے روکا ؟ ، انہوں نے کہا : چونکہ مجھ سے پہلے عبداللہ بن زید (رض) نے اسے آپ سے بیان کردیا اس لیے مجھے شرم آرہی تھی ٢ ؎، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلال ! اٹھو اور جیسے عبداللہ بن زید تم کو کرنے کو کہیں اسی طرح کرو ، چناچہ بلال (رض) نے اذان دی ٣ ؎۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوعمیر نے بیان کیا کہ انصار سمجھتے تھے کہ اگر عبداللہ بن زید ان دنوں بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ان ہی کو مؤذن بناتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : بخاری کی روایت میں بوق ۃ کا لفظ ہے اور مسلم اور نسائی کی روایت میں قرن کا لفظ آیا ہے ، یہ چاروں الفاظ ( قنع، شبور ، بوق ۃ اور قرن ) ہم معنی الفاظ ہیں، یعنی بگل اور نرسنگھا جس سے پھونک مارنے پر آواز نکلے۔ ٢ ؎ : عمر (رض) خواب دیکھنے کے بعد بھول بیٹھے تھے، بلال (رض) کی اذان سننے پر آپ کو یہ کلمات یاد آئے، اور جب رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے تو عبداللہ بن زید (رض) اپنا خواب بیان کرچکے تھے۔ ٣ ؎ : یہ اہتمام ٢ ہجری میں ہوا اس کے پہلے بغیر اذان کے نماز پڑھی جاتی تھی، اور لوگ خود بخود مسجد میں جمع ہوجایا کرتے تھے، مگر اس طرح بہت سے لوگوں کی جماعت چھوٹ جایا کرتی تھی۔
اذان کا طریقہ
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ناقوس کی تیاری کا حکم دینے کا ارادہ کیا تاکہ لوگوں کو نماز کی خاطر جمع ہونے کے لیے اسے بجایا جاسکے تو ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ١ ؎ کے ہاتھ میں ناقوس ہے، میں نے اس سے پوچھا : اللہ کے بندے ! کیا اسے فروخت کرو گے ؟ اس نے کہا : تم اسے کیا کرو گے ؟ میں نے کہا : ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے، اس شخص نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتادوں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے، تو اس نے کہا : تم اس طرح کہو الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں : پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، زیادہ دور نہیں گیا پھر اس نے کہا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس طرح کہو : الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله ۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا اسے آپ سے بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے ، پھر فرمایا : تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے ٢ ؎۔ چناچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں : تو عمر بن خطاب (رض) نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے : اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ (رض) نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الحمدللہ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح زہری کی روایت ہے، جسے انہوں نے سعید بن مسیب سے، اور سعید نے عبداللہ بن زید (رض) سے روایت کیا ہے، اس میں ابن اسحاق نے زہری سے یوں نقل کیا ہے : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر (یعنی چار بار) اور معمر اور یونس نے زہری سے صرف الله أكبر الله أكبر کی روایت کی ہے، اسے انہوں نے دہرایا نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥ (١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ١ (٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٩) ، مسند احمد (٤/٤٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣ (١٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک فرشتہ تھا جو اللہ کی طرف سے اذان سکھانے کے لئے مامور ہوا تھا۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مؤذن کا بلند آواز ہونا بہتر ہے۔
اذان کا طریقہ
ابومحذورہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! آپ مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئیے، تو آپ نے میرے سر کے اگلے حصہ پر (ہاتھ) پھیرا اور فرمایا : کہو : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر ، تم انہیں بلند آواز سے کہو، پھر کہو : أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله انہیں ہلکی آواز سے کہو، پھر انہیں کلمات شہادت أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله کو بلند آواز سے کہو ١ ؎، پھر حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح کہو، اور اگر صبح کی اذان ہو تو الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم کہو، پھر الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله کہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣ (٣٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦ (١٩١) ، سنن النسائی/الأذان ٣ (٦٣٠) ، ٤ (٦٣١) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٢ (٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) ، مسند احمد (٣/ ٤٠٨، ٤٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧ (١٢٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے ترجیع یعنی شہادتین کو دو دو بار کہنا ثابت ہوا۔
اذان کا طریقہ
اس سند سے بھی ابو محذورہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے اس میں فجر کی پہلی (اذان) میں الصلاة خير من النوم الصلاة خير من النوم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد کی روایت زیادہ واضح ہے، اس میں یہ ہے کہ : آپ ﷺ نے مجھے دوہری تکبیر سکھائی الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله۔ عبدالرزاق کی روایت میں ہے : اور جب تم تکبیر کہو تو دو بار قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة کہو، کیا تم نے سنا ؟ اس میں یہ بھی ہے کہ ابو محذورہ اپنی پیشانی کے بال نہیں کترتے تھے اور نہ ہی اسے جدا کرتے تھے، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : t
اذان کا طریقہ
ابن محیریز کا بیان ہے کہ ابو محذورہ (رض) نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اذان کے انیس کلمات اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے، اذان کے کلمات یہ ہیں : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله ۔ اور اقامت کے کلمات یہ ہیں : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله ۔ ہمام بن یحییٰ کی کتاب میں ابومحذورہ کی جو حدیث مذکور ہے، وہ اسی طرح ہے (یعنی اقامت کے سترہ کلمات مذکور ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حديث رقم : 500، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) (حسن صحیح )
اذان کا طریقہ
ابو محذورہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بذات خود مجھے اذان کے کلمات سکھائے اور فرمایا : کہو : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله دو دو بار ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر دہراؤ اور اپنی آواز کھینچ کر یوں کہو : أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حديث رقم : 500، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) (صحیح )
اذان کا طریقہ
عبدالملک کا بیان کہ انہوں نے ابو محذورہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اذان کے کلمات حرفاً حرفاً یوں سکھائے : الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح ۔ اور فرمایا : فجر میں آپ ﷺ الصلاة خير من النوم کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حديث رقم : 500، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) (صحیح )
اذان کا طریقہ
ابو محذورہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اذان سکھائی، آپ کہتے تھے : الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله ۔ پھر راوی نے عبدالعزیز بن عبدالملک سے ابن جریح کی اذان کے ہم مثل و ہم معنی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ مالک بن دینار کی حدیث میں ہے کہ نافع بن عمر نے کہا : میں نے ابو محذورہ (رض) کے لڑکے سے پوچھا اور کہا : تم مجھ سے اپنے والد ابو محذورہ (رض) کی اذان جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے، کے متعلق بیان کرو تو انہوں نے ذکر کیا اور کہا : الله أكبر الله أكبر صرف دو بار، اسی طرح جعفر بن سلیمان کی حدیث ہے جو انہوں نے ابو محذورہ (رض) کے لڑکے سے، انہوں نے اپنے چچا سے انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے مگر اس روایت میں یہ ہے کہ پھر ترجیع کرو اور بلند آواز سے الله أكبر الله أكبر کہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حديث رقم : 500، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) (صحیح) چار مرتبہ اللہ اکبر کہنے کی بات صحیح ہے وَكَذَلِكَ حَدِيثُ جَعْفَرِ ابْنِ سُلَيْمَانَ عَنِ ابْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ عَنْ عَمِّهِ عَنْ جَدِّهِ ، إِلا أَنَّهُ قَالَ : ثُمَّ تَرْجِعُ فَتَرْفَعُ صَوْتَكَ : اللَّهُ أَكْبَرُ ، اللَّهُ أَكْبَرُ (منکر) (شہادتین میں ترجیع ثابت و محفوظ ہے )
اذان کا طریقہ
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ نماز تین حالتوں سے گزری، ہمارے صحابہ کرام نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ بات بھلی معلوم ہوئی کہ سارے مسلمان یا سارے مومن مل کر ایک ساتھ نماز پڑھا کریں، اور ایک جماعت ہوا کرے، یہاں تک کہ میں نے قصد کیا کہ لوگوں کو بھیج دیا کروں کہ وہ نماز کے وقت لوگوں کے گھروں اور محلوں میں جا کر پکار آیا کریں کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے۔ پھر میں نے قصد کیا کہ کچھ لوگوں کو حکم دوں کہ وہ ٹیلوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو نماز کے وقت سے باخبر کریں، یہاں تک کہ لوگ ناقوس بجانے لگے یا قریب تھا کہ بجانے لگ جائیں ، اتنے میں ایک انصاری (عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! جب میں آپ کے پاس سے گیا تو میں اسی فکر میں تھا، جس میں آپ تھے کہ اچانک میں نے (خواب میں) ایک شخص (فرشتہ) کو دیکھا، گویا وہ سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے ہے، وہ مسجد پر کھڑا ہوا، اور اذان دی، پھر تھوڑی دیر بیٹھا پھر کھڑا ہوا اور جو کلمات اذان میں کہے تھے، وہی اس نے پھر دہرائے، البتہ : قد قامت الصلاة کا اس میں اضافہ کیا۔ اگر مجھے اندیشہ نہ ہو تاکہ لوگ مجھے جھوٹا کہیں گے (اور ابن مثنی کی روایت میں ہے کہ تم (لوگ) جھوٹا کہو گے) تو میں یہ کہتا کہ میں بیدار تھا، سو نہیں رہا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے تمہیں بہتر خواب دکھایا ہے (یہ ابن مثنی کی روایت میں ہے اور عمرو بن مرزوق کی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہتر خواب دکھایا ہے) ، (پھر فرمایا) : تم بلال سے کہو کہ وہ اذان دیں ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : اتنے میں عمر (رض) (آ کر) کہنے لگے : میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے جیسے عبداللہ بن زید (رض) نے دیکھا ہے، لیکن چونکہ میں پیچھے رہ گیا، اس لیے شرم سے نہیں کہہ سکا۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : ہم سے ہمارے صحابہ کرام نے بیان کیا کہ جب کوئی شخص (نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں آتا اور دیکھتا کہ نماز باجماعت ہو رہی ہے) تو امام کے ساتھ نماز پڑھنے والوں سے پوچھتا کہ کتنی رکعتیں ہوچکی ہیں، وہ مصلی اشارے سے پڑھی ہوئی رکعتیں بتادیتا اور حال یہ ہوتا کہ لوگ جماعت میں قیام یا رکوع یا قعدے کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہوتے۔ ابن مثنیٰ کہتے ہیں کہ عمرو نے کہا : حصین نے ابن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے مجھ سے یہی حدیث بیان کی ہے اس میں ہے : یہاں تک کہ معاذ (رض) آئے ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے بھی یہ حدیث حصین سے سنی ہے اس میں ہے کہ معاذ (رض) نے کہا : میں تو رسول اللہ ﷺ کو جس حالت میں دیکھوں گا ویسے ہی کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معاذ نے تمہارے واسطے ایک سنت مقرر کردی ہے تم ایسے ہی کیا کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : پھر میں عمرو بن مرزوق کی حدیث کے سیاق کی طرف پلٹتا ہوں، ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : معاذ (رض) آئے تو لوگوں نے ان کو اشارہ سے بتلایا، شعبہ کہتے ہیں : اس جملے کو میں نے حصین سے سنا ہے، ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : تو معاذ نے کہا : میں جس حال میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھوں گا وہی کروں گا، وہ کہتے ہیں : تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معاذ نے تمہارے لیے ایک سنت جاری کردی ہے لہٰذا تم بھی معاذ کی طرح کرو ، (یعنی جتنی نماز امام کے ساتھ پاؤ اسے پڑھ لو، بقیہ بعد میں پوری کرلو) ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : ہمارے صحابہ کرام نے ہم سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انہیں (ہر ماہ) تین دن روزے رکھنے کا حکم دیا، پھر رمضان کے روزے نازل کئے گئے، وہ لوگ روزے رکھنے کے عادی نہ تھے، اور روزہ رکھنا ان پر گراں گزرتا تھا، چناچہ جو روزہ نہ رکھتا وہ اس کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، پھر یہ آیت : فمن شهد منکم الشهر فليصمه ١ ؎ نازل ہوئی تو رخصت عام نہ رہی، بلکہ صرف مریض اور مسافر کے لیے مخصوص ہوگئی، باقی سب لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم ہوا۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : ہمارے اصحاب نے ہم سے حدیث بیان کی کہ اوائل اسلام میں جب کوئی آدمی روزہ افطار کر کے سو جاتا اور کھانا نہ کھاتا تو پھر اگلے دن تک اس کے لیے کھانا درست نہ ہوتا، ایک بار عمر (رض) نے اپنی بیوی سے صحبت کا ارادہ کیا تو بیوی نے کہا : میں کھانے سے پہلے سو گئی تھی، عمر سمجھے کہ وہ بہانہ کر رہی ہیں، چناچہ انہوں نے اپنی بیوی سے صحبت کرلی، اسی طرح ایک روز ایک انصاری آئے اور انہوں نے کھانا چاہا، ان کے گھر والوں نے کہا : ذرا ٹھہرئیے ہم کھانا گرم کرلیں، اسی دوران وہ سو گئے، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت اتری : أحل لکم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٤، ١٥٦٢٧، ١٨٩٧٢) ، مسند احمد (٥/٢٣٣، ٢٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” تو جو تم میں سے یہ مہینہ (رمضان) پائے وہ اس کے روزے رکھے “ (سورۃ البقرۃ : ١٨٥) ٢ ؎ : تمہارے لئے روزوں کی رات میں اپنی عورتوں سے جماع کرنا حلال کردیا گیا ہے “ (سورۃ البقرۃ : ١٨٧ )
اذان کا طریقہ
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نماز میں تین تبدیلیاں ہوئیں، اسی طرح روزوں میں بھی تین تبدیلیاں ہوئیں، پھر نصر نے پوری لمبی حدیث بیان کی اور ابن مثنیٰ نے صرف بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا۔ معاذ (رض) کہتے ہیں : تیسری حالت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے، آپ نے بیت المقدس کی طرف (رخ کر کے) تیرہ مہینے تک نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينک قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما کنتم فولوا وجوهكم شطره ١ ؎ تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا۔ ابن مثنیٰ کی حدیث یہاں مکمل ہوگئی اور نصر نے خواب دیکھنے والے کا نام ذکر کیا، وہ کہتے ہیں : انصار کے ایک شخص عبداللہ بن زید (رض) آئے۔ اس میں یوں ہے کہ : پھر انہوں نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور کہا : الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة دو بار، حى على الفلاح دو بار، الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله ، یہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح (تکبیر) کہی، مگر اس میں انہوں نے : حى على الفلاح کے بعد قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة کا اضافہ کیا ۔ راوی کہتے ہیں : پھر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم بلال کو یہ الفاظ سکھلا دو ، چناچہ بلال (رض) نے ان الفاظ کے ذریعہ اذان دی۔ اور معاذ (رض) نے روزے کے بارے میں کہا : رسول اللہ ﷺ ہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے اور عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ بھی رکھتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : كتب عليكم الصيام کما كتب على الذين من قبلکم اللہ تعالیٰ کے قول : طَعَامُ مسكين تک ٢ ؎، تو اب جو چاہتا روزے رکھتا، اور جو چاہتا نہ رکھتا، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا، ایک سال تک یہی حکم رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا : شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن اپنے قول : أيام أخر تک ٣ ؎، پھر روزہ ہر اس شخص پر فرض ہوگیا جو ماہ رمضان کو پائے، اور مسافر پر قضاء کرنا، اور بوڑھے مرد اور عورت کے لیے جن کو روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو فدیہ دینا باقی رہا۔ پھر صرمہ (رض) آئے، انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ... اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٤، ١٥٦٢٧، ١٨٩٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” ہم آپ کا چہرہ باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، تو اب ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر رہے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں، اور مسلمانو ! تم جہاں کہیں بھی رہو نماز کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف پھیرے رکھو “ (سورۃ البقرۃ : ١٤٤) ٢ ؎ : ” اے ایمان والو ! تم پر روزہ فرض کردیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا ، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو، یہ گنتی کے چند ہی دن ہیں، لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پوری کرے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں “ (سورۃ البقرۃ : ١٨٤) ٣ ؎ : ” ماہ رمضان ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے، اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل میں تمیز کی واضح نشانیاں ہیں، لہٰذا جو تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے گنتی پوری کرے “ (سورۃ البقرۃ : ١٨٤-١٨٥ )
اقامت کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔ حماد نے اپنی روایت میں : إلا الإقامة (یعنی سوائے قد قامت الصلاة کے) کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١ (٦٠٣) ، ٢ (٦٠٥) ، ٣ (٦٠٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢ (٣٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧ (١٩٣) ، سنن النسائی/الأذان ٢ (٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٦ (٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٣) ، مسند احمد (٣/١٠٣، ١٨٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦ (١٢٣٠، ١٢٣١) (صحیح )
اقامت کا بیان
اس طریق سے بھی انس (رض) سے وہیب کی حدیث کے مثل حدیث مروی ہے اسماعیل کہتے ہیں : میں نے اسے ایوب سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : إلا الإقامة (یعنی سوائے قد قامت الصلاة کے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٩٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ پوری اقامت اکہری (ایک ایک بار) ہوگی البتہ قد قامت الصلاة کو دو بار کہا جائے گا۔
اقامت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان کے کلمات دو دو بار اور اقامت کے کلمات سوائے : قد قامت الصلاة کے ایک ایک بار کہے جاتے تھے، چناچہ جب ہم اقامت سنتے تو وضو کرتے پھر نماز کے لیے آتے تھے ١ ؎۔ شعبہ کہتے ہیں : میں نے ابو جعفر سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث نہیں سنی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان ٢ (٦٢٩) ، ٢٨ (٦٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٥) ، مسند احمد (٢/٨٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہ کبھی کبھی کا معاملہ تھا، نیز آپ ﷺ کی قرات لمبی ہوا کرتی تھی تو پہلی رکعت پالینے کا یقین رہتا تھا۔
اقامت کا بیان
مسجد عریان ١ ؎ کے مؤذن ابو جعفر کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مسجد کے مؤذن ابو مثنیٰ کو کہتے سنا کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا ہے، پھر انہوں نے اوپر والی حدیث پوری بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : عریان کوفہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
ایک شخص اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اذان کے سلسلہ میں کئی کام کرنے کا (جیسے ناقوس بجانے یا سنکھ میں پھونک مارنے کا) ارادہ کیا لیکن ان میں سے کوئی کام کیا نہیں۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں : پھر عبداللہ بن زید (رض) کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے بلال کو سکھا دو ، چناچہ عبداللہ بن زید (رض) نے اسے بلال (رض) کو سکھا دیا، اور بلال (رض) نے اذان دی، اس پر عبداللہ بن زید (رض) نے کہا : اسے میں نے دیکھا تھا اور میں ہی اذان دینا چاہتا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم تکبیر کہہ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣١٠) ، مسند احمد (٤/٤٢) (ضعیف) (ا س کے راوی محمد بن عمرو انصاری لین الحدیث ہیں )
ایک شخص اذان دے اور دوسرا تکبیر کہے
عبداللہ بن محمد کہتے ہیں میرے دادا عبداللہ بن زید (رض) یہ حدیث بیان کرتے تھے، اس میں ہے : تو میرے دادا نے اقامت کہی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٣٦٥٣) (ضعیف) (محمد بن عمرو انصاری کے سبب سے یہ حدیث ضعیف ہے )
جو اذان دے وہی اقا مت بھی کہے
زیاد بن حارث صدائی (رض) کہتے ہیں کہ جب صبح کی پہلی اذان کا وقت ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے مجھے (اذان دینے کا) حکم دیا تو میں نے اذان کہی، پھر میں کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اقامت کہوں ؟ تو آپ مشرق کی طرف فجر کی روشنی دیکھنے لگے اور فرما رہے تھے : ابھی نہیں (جب تک طلوع فجر نہ ہوجائے) ، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہوگئی تو آپ ﷺ اترے اور وضو کیا، پھر میری طرف واپس پلٹے اور صحابہ کرام اکھٹا ہوگئے، تو بلال (رض) نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : صدائی نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی تکبیر کہے ۔ زیاد (رض) کہتے ہیں : تو میں نے تکبیر کہی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٢ (١٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥٣) ، مسند احمد (٤/١٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں )
بلند آواز سے اذان دینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مؤذن کی بخشش کردی جاتی ہے، جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے ١ ؎، اور اس کے لیے تمام خشک و تر گواہی دیتے ہیں، اور جو شخص نماز میں حاضر ہوتا ہے اس کے لیے پچیس نماز کا ثواب لکھا جاتا ہے اور ایک نماز سے دوسری نماز کے درمیان جو کوتاہی سرزد ہوئی ہو وہ مٹا دی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان ١٤ (٦٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٥ (٧٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٦) ، مسند احمد (٢/٤٢٩، ٤٥٨) (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ابویحییٰ مجہول راوی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں : یہ ابویحییٰ اسلمی ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ حسن کے مرتبہ کے راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے اتنے گناہ بخش دیے جاتے ہیں جو اتنی جگہ میں سما سکیں۔
بلند آواز سے اذان دینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے یہاں تک کہ (وہ اتنی دور چلا جاتا ہے کہ) اذان نہیں سنتا، پھر جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے، لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوتی ہے وہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، جب تکبیر ختم ہوجاتی ہے تو شیطان دوبارہ آجاتا ہے اور مصلی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے : فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو، ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں تھیں یہاں تک کہ اس شخص کو یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤ (٦٠٨) ، سنن النسائی/الأذان ٣٠ (٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٨) ، موطا امام مالک/السہو ١ (١) ، مسند احمد (٢/٣١٣، ٤٦٠، ٥٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٣٨٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٥ (٣٩٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٥ (١٢١٧) ، ویأتي برقم (١٠٣٠) (صحیح )
مو ذن وقت کی پا بندی کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ١ ؎ اور کفیل ہے اور مؤذن امین ہے ٢ ؎، اے اللہ ! تو اماموں کو راہ راست پر رکھ ٣ ؎ اور مؤذنوں کو بخش دے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٤٢٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٣٨٢، ٤١٩، ٥٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٩ (٢٠٧) (صحیح) (مؤلف کی سند میں رجل مبہم راوی ہے، اگلی سند بھی ایسی ہی ہے، البتہ دیگر بہت سے مصادر میں یہ حدیث ثقہ راویوں سے مروی ہے، اعمش نے بھی خود براہ راست ابو صالح سے یہ حدیث سنی ہے (دیکھیے : ارواء الغلیل حدیث نمبر : ٢١٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مقتدیوں کی نماز کی صحت و درستگی امام کی نماز کی صحت و درستگی پر موقوف ہے؛ اس لئے امام طہارت وغیرہ میں احتیاط برتے اور نماز کے ارکان و واجبات کو اچھی طرح ادا کرے۔ ٢ ؎ : یعنی لوگ مؤذن کی اذان پر اعتماد کر کے نماز پڑھ لیتے اور روزہ رکھ لیتے ہیں، اس لئے مؤذن کو وقت کا خیال رکھنا چاہیے، نہ پہلے اذان دے نہ دیر کرے۔ ٣ ؎ : یعنی جو ذمہ داری اماموں نے اٹھا رکھی ہے اس کا شعور رکھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی انہیں توفیق دے۔ ٤ ؎ : یعنی اس امانت کی ادائیگی میں مؤذنوں سے جو کوتاہی اور تقصیر ہوئی ہو اسے معاف کر دے۔
مو ذن وقت کی پا بندی کرے
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے گذشتہ حدیث کے مثل مرفوع روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٢٤٢٩) (صحیح )
مینار کے اوپر چڑھ کر اذان دینے کا بیان
قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال (رض) اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چناچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے : اے اللہ ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں ، وہ کہتی ہے : پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٧٨) (حسن )
موذن اذان میں گردن دائیں بائیں گھمائے
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں مکہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ چمڑے کے ایک لال خیمہ میں تھے، بلال (رض) باہر نکلے پھر اذان دی، میں انہیں اپنے منہ کو ادھر ادھر پھیرتے دیکھ رہا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ نکلے، آپ یمنی قطری چادروں ١ ؎ سے بنے سرخ جوڑے پہنے ہوئے تھے، موسیٰ بن اسماعیل اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ ابوحجیفہ نے کہا : میں نے بلال (رض) کو دیکھا کہ وہ ابطح کی طرف نکلے پھر اذان دی، جب حي على الصلاة اور حي على الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن دائیں اور بائیں جانب موڑی اور خود نہیں گھومے ٢ ؎، پھر وہ اندر گئے اور نیزہ نکالا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠ (١٩٧) ، سنن النسائی/الأذان ١٣ (٦٤٤) ، والزینة ١٢٣ (٥٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠٦، ١١٨١٧) ، مسند احمد (٤/٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨ (١٢٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ سے یمن جنوب میں ہے، اور قطر احساء اور بحرین کے درمیانی علاقہ کا ایک مقام ہے، مذکورہ چادر ان جنوبی علاقوں میں بن کر ” یمنی قطری چادروں “ کے نام سے مشہور تھی۔ ٢ ؎ : اس سلسلہ میں روایتیں مختلف آئی ہیں بعض میں ہے إنه کان يستدير اور بعض میں ہے لم يستدر ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے گھومنے کا ذکر کیا ہے اس نے سر کا گھمانا مراد لیا ہے، اور جس نے نفی کی ہے اس نے جسم کے گھمانے کی نفی کی ہے۔
اذان اور اقا مت کے درمیان دعا کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤٤ (٢١٢) ، الدعوات ١٢٩ (٣٥٩٤، ٣٥٩٥) ، سنن النسائی/الیوم اللیلة (٦٨، ٦٩، ٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩) (صحیح )
جب اذان سنو تو اسکا جواب دو
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧ (٦١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٠ (٢٠٨) ، سنن النسائی/الأذان ٣٣ (٦٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١(٢) ، مسند احمد (٣/٦، ٥٣، ٧٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠ (١٢٣٧) (صحیح )
جب اذان سنو تو اسکا جواب دو
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے، پھر میرے اوپر درود بھیجو، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٤) ، سنن الترمذی/المناقب ١ (٣٦١٤) ، سنن النسائی/الأذان ٣٧ (٦٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧١) ، مسند احمد (٢/١٦٨) (صحیح )
جب اذان سنو تو اسکا جواب دو
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مؤذنوں کو ہم پر فضیلت حاصل ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم بھی اسی طرح کہو جس طرح وہ کہتے ہیں (یعنی اذان کا جواب دو ) ، پھر جب تم اذان ختم کرلو تو (اللہ تعالیٰ سے) مانگو، تمہیں دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٤) ، مسند احمد (٢/١٧٢) (حسن صحیح )
جب اذان سنو تو اسکا جواب دو
سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ کلمات کہے : وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا اور میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، محمد ﷺ کے رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اسے بخش دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٢ (٢١٠) ، سنن النسائی/الأذان ٣٨ (٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٧٧) ، مسند احمد (١/١٨١) (صحیح )
جب اذان سنو تو اسکا جواب دو
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مؤذن کو : أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدًا رسول الله کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے : اور میں بھی (اس کا گواہ ہوں) اور میں بھی (اس کا گواہ ہوں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧١٢٢) (صحیح )
جب اذان سنو تو اسکا جواب دو
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مؤذن : الله أكبر الله أكبر کہے تو تم میں سے جو (اخلاص کے ساتھ) الله أكبر الله أكبر کہے، پھر جب وہ أشهد أن لا إله إلا الله کہے تو یہ بھی أشهد أن لا إله إلا الله کہے، اور جب وہ أشهد أن محمدا رسول الله کہے تو یہ بھی أشهد أن محمدا رسول الله کہے، جب وہ حى على الصلاة کہے تو یہ لا حول ولا قوة إلا بالله کہے، جب وہ حى على الفلاح کہے تو یہ لا حول ولا قوة إلا بالله کہے، پھر جب وہ الله أكبر الله أكبر کہے تو یہ بھی الله أكبر الله أكبر کہے، اور جب وہ لا إله إلا الله کہے تو یہ بھی لا إله إلا الله کہے تو وہ جنت میں جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٥) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٥) (صحیح )
جب اقامت سنے تو کیا کہے؟
ابوامامہ (رض) سے یا بعض صحابہ کرام سے روایت ہے کہ بلال (رض) نے اقامت شروع کی، جب انہوں نے قد قامت الصلاة کہا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : أقامها الله وأدامها اللہ اسے قائم رکھے اور اس کو دوام عطا فرمائے اور باقی اقامت کے جواب میں وہی کہا جو اذان کے سلسلے میں عمر (رض) کی حدیث میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٨) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ثابت اور شہر ضعیف ہیں اور دونوں کے درمیان ایک مبہم راوی ہے )
اذان کے بعد کی دعا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی : اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته اے اللہ ! اس کامل دعا اور ہمیشہ قائم رہنے والی نماز کے رب ! محمد ﷺ کو وسیلہ ١ ؎ اور فضیلہ ٢ ؎ عطا فرما اور آپ کو مقام محمود ٣ ؎ پر فائز فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے تو قیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨ (٦١٤) ، تفسیر الإسراء ١١ (٤٧١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٣ (٢١١) ، سنن النسائی/الأذان ٣٨ (٦٨١) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٦) ، مسند احمد (٣/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وسیلہ جنت کے درجات میں سے ایک اعلیٰ درجہ کا نام ہے۔ ٢ ؎ : فضیلہ وہ اعلیٰ مرتبہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوقات پر حاصل ہوگا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ وسیلہ ہی کی تفسیر ہو۔ ٣ ؎ : یہ وہ مقام ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائے گا اور اسی جگہ آپ وہ شفاعت عظمیٰ فرمائیں گے جس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہوگا۔
مغرب کی اذان کے وقت کی دعا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سکھایا کہ میں مغرب کی اذان کے وقت کہوں :اللهم إن هذا إقبال ليلک وإدبار نهارک وأصوات دعاتک فاغفر لي اے اللہ ! یہ تیری رات کی آمد اور تیرے دن کی رخصت کا وقت ہے، اور تیری طرف بلانے والوں کی آوازیں ہیں تو تو میری مغفرت فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٢٧ (٣٥٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابوکثیر لین الحدیث ہیں )
اذان پر اجرت لینے کا بیان
عثمان بن ابی العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان ٣٢ (٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٠) ، مسند احمد (٤/٢١٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤١ (٢٠٩) (صحیح )
اگر وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تو کیا کرنا چاہیئے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) نے فجر کا وقت ہونے سے پہلے اذان دے دی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ دوبارہ اذان دیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہیں : سنو، بندہ سو گیا تھا، سنو، بندہ سو گیا تھا۔ موسیٰ بن اسماعیل کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ بلال (رض) نے دوبارہ اذان دی اور بلند آواز سے کہا : سنو، بندہ سو گیا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ایوب سے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٧) (صحیح )
اگر وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تو کیا کرنا چاہیئے
عمر (رض) کے مسروح نامی مؤذن سے روایت ہے کہ انہوں نے صبح صادق سے پہلے اذان دے دی تو عمر (رض) نے انہیں حکم دیا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن زید نے عبیداللہ بن عمر سے، عبیداللہ نے نافع سے یا کسی اور سے روایت کیا ہے کہ عمر (رض) کا ایک مؤذن تھا (جس کا نام مسروح یا کچھ اور تھا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے دراوردی نے عبیداللہ سے، عبیداللہ نے نافع سے، نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ عمر (رض) کا مسعود نامی ایک مؤذن تھا، اور دراوردی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور یہ پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٧) (صحیح )
اگر وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تو کیا کرنا چاہیئے
بلال (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم اذان نہ دیا کرو جب تک کہ فجر تمہارے لیے اس طرح واضح نہ ہوجائے ، اور آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ چوڑائی میں پھیلائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عیاض کے آزاد کردہ غلام شداد نے بلال (رض) کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٤) (حسن) (اس کے راوی شدّاد مجہول ہیں، حافظ ابن حجر نے انہیں مقبول یرسل کہا ہے، لیکن اس کی تقویت ابو ذر (رض) کی حدیث ہے، ملاحظہ ہو مسند احمد : ٥/١٧١- ١٧٢، و صحیح ابی داود : ٣/٤٥ )
اگر وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تو کیا کرنا چاہیئے
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ابن ام مکتوم (رض) رسول اللہ ﷺ کے مؤذن تھے اور وہ نابینا تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥ (٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٠٧) (صحیح )
اذان کے بعد مسجد سے جانے کا بیان
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مسجد میں تھے کہ ایک شخص مؤذن کے عصر کی اذان دینے کے بعد نکل کر (مسجد سے باہر) گیا تو آپ نے کہا : اس نے ابوالقاسم (رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے) کی نافرمانی کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٥ (٦٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٦ (٢٠٤) ، سنن النسائی/الأذان ٤٠ (٦٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٧ (٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٧) ، مسند احمد (٢/٤١٠، ٤١٦، ٤١٧، ٥٠٦، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢ (١٢٤١) (صحیح )
موذن (تکبیر لیے) امام کا انتظار کرے
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) اذان دیتے تھے پھر رکے رہتے تھے، پھر جب نبی اکرم ﷺ کو دیکھ لیتے کہ آپ نکل چکے ہیں تو نماز کی اقامت کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٤ (٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٦) ، مسند احمد (٥/٧٦، ٧٨، ٩٥، ١٠٤، ١٠٥) (صحیح )
تثویب کا بیان
مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا کہ ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب ١ ؎ کی، تو ابن عمر (رض) نے کہا : ہمیں یہاں سے لے چلو، اس لیے کہ یہ بدعت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٣٩٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اذان کے بعد دوبارہ نماز کے لئے اعلان کرنے کا نام ” تثویب “ ہے، اور ” تثویب “ کا اطلاق اقامت پر بھی ہوتا ہے اور فجر کی اذان میں الصلاة خير من النوم کہنے پر بھی، لیکن یہاں پہلا معنی مراد ہے۔
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے نکلتے ہوئے نہ دیکھ لو کھڑے نہ ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے ایوب اور حجاج الصواف نے یحییٰ سے روایت کیا ہے۔ اور ہشام دستوائی کا بیان ہے کہ مجھے یحییٰ نے یہ حدیث لکھ کر بھیجی، نیز اسے معاویہ بن سلام اور علی بن مبارک نے بھی یحییٰ سے روایت کیا ہے، ان دونوں کی روایت میں ہے : یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو، اور سکون اور وقار کو ہاتھ سے نہ جانے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٢ (٦٣٧) ، ٢٣ (٦٣٨) ، والجمعة ١٨ (٩٠٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٨ (٥٩٢) ، سنن النسائی/الأذان ٤٢ (٦٨٨) ، والإمامة ١٢ (٧٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠٤، ٣٠٧، ٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٧ (١٢٩٦) (صحیح )
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
یحییٰ سے اسی سند سے گذشتہ حدیث کے ہم مثل حدیث مروی ہے، اس میں ہے یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو کہ میں نکل چکا ہوں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : معمر کے علاوہ کسی نے قد خرجت کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ ابن عیینہ نے بھی اسے معمر سے روایت کیا ہے، اس میں بھی انہوں نے قد خرجت نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٦) (صحیح )
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے جب نماز کی تکبیر کہی جاتی تھی تو لوگ اپنی اپنی جگہیں لے لیتے قبل اس کے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی جگہ لیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حديث رقم : 235، (تحفة الأشراف : ١٥٢٠٠) (صحیح )
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
حمید کہتے ہیں میں نے ثابت بنانی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز کی تکبیر ہوجانے کے بعد بات کرتا ہو، تو انہوں نے مجھ سے انس (رض) کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ نماز کی تکبیر کہہ دی گئی تھی کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے سامنے آیا اور اس نے آپ کو تکبیر ہوجانے کے بعد (باتوں کے ذریعے) روکے رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٧ (٦٤٢) ، ٢٨ (٦٤٣) ، والاستئذان ٤٨ (٦٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٣٣ (٣٧٦) ، سنن النسائی/الإمامة ١٣ (٧٩٢) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١١٤، ١٨٢) (صحیح )
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
کہمس کہتے ہیں کہ ہم منیٰ میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے، امام ابھی نماز کے لیے نہیں نکلا تھا کہ ہم میں سے کچھ لوگ بیٹھ گئے، تو کوفہ کے ایک شیخ نے مجھ سے کہا : تمہیں کون سی چیز بٹھا رہی ہے ؟ میں نے ان سے کہا : ابن بریدہ کہتے ہیں : یہی سمود ١ ؎ ہے، یہ سن کر مذکورہ شیخ نے مجھ سے کہا : مجھ سے عبدالرحمٰن بن عوسجہ نے براء بن عازب (رض) کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ کے تکبیر کہنے سے پہلے صفوں میں دیر تک کھڑے رہتے تھے ٢ ؎۔ براء (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ ان لوگوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے دعا کرتے ہیں، جو پہلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور صف میں شامل ہونے کے لیے جو قدم اٹھایا جائے اس سے بہتر اللہ کے نزدیک کوئی قدم نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧) (ضعیف) (اس کی سند میں شیخ من أہل الکوفة مبہم راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : امام کے انتظار میں کھڑے رہنے کو سمود کہتے ہیں جو منع ہے، ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سمود کو مکروہ سمجھتے تھے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے اس کو کسی صحیح حدیث کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
انس (رض) کہتے ہیں کہ نماز (عشاء) کی تکبیر کہی گئی اور رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں ایک شخص سے باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٧ (٦٤٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٣٣(٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥) (صحیح )
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
سالم ابوالنضر کہتے ہیں جب نماز کی تکبیر کہہ دی جاتی اور رسول اللہ ﷺ دیکھتے کہ (مسجد میں) لوگ کم آئے ہیں تو آپ بیٹھ جاتے، نماز شروع نہیں کرتے اور جب دیکھتے کہ جماعت پوری ہے تو نماز پڑھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٤، ١٨٦٦٨) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، سالم ابوالنضر بہت چھوٹے تابعی ہیں اور ارسال کرتے ہیں )
نماز کے لئے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کرامام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں
اس سند سے ابومسعود زرقی بھی علی بن ابی طالب (رض) سے گذشتہ روایت کے ہم مثل روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٤، ١٨٦٦٨) (ضعیف) ( اس کے راوی ابو مسعود زرقی مجہول ہیں )
ترک جماعت پر وعید
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، اس لیے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہوتی ہے ۔ زائدہ کا بیان ہے : سائب نے کہا : جماعت سے مراد نماز باجماعت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٤٨ (٨٤٨) ، مسند احمد (٥/١٩٦، ٦/٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٧) (حسن )
ترک جماعت پر وعید
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے سوچا کہ نماز کھڑی کرنے کا حکم دوں، پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، اور میں چند آدمیوں کو لے کر جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹھر ہوں، ان لوگوں کے پاس جاؤں، جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں میں آگ لگا دوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٧ (٧٩١) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ١ (٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٩ (٦٤٤) ، ٣٤ (٦٥٧) ، والخصومات ٥ (٢٤٢٠) ، والأحکام ٥٢ (٧٢٢٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٨ (٢١٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٩ (٨٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٣٧٦، ٤٨٩، ٥٣١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٤ (١٣١٠) (صحیح )
ترک جماعت پر وعید
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے ارادہ کیا کہ اپنے جوانوں کو لکڑیوں کے گٹھر جمع کرنے کا حکم دوں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جو بغیر کسی عذر کے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرتے ہیں، جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت آگ لگا دوں ۔ یزید بن یزید کہتے ہیں : میں نے یزید بن اصم سے پوچھا : ابوعوف ! کیا اس سے آپ ﷺ کی مراد جمعہ ہے، یا اور وقتوں کی نماز ؟ فرمایا : میرے کان بہرے ہوجائیں اگر میں نے ابوہریرہ (رض) کو اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے نہ سنا ہو، انہوں نے نہ جمعہ کا ذکر کیا، نہ کسی اور دن کا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٤٨ (٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨١٩) (صحیح) حدیث میں واقع یہ اضافہ : ليست بهم علة صحیح نہیں ہے
ترک جماعت پر وعید
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں تم لوگ ان پانچوں نمازوں کی پابندی کرو جہاں ان کی اذان دی جائے، کیونکہ یہ ہدایت کی راہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کے لیے ہدایت کے طریقے اور راستے مقرر کر دئیے ہیں، اور ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ نماز باجماعت سے وہی غیر حاضر رہتا تھا جو کھلا ہوا منافق ہوتا تھا، اور ہم یہ بھی دیکھتے تھے کہ آدمی دو شخصوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلایا جاتا، یہاں تک کہ اس آدمی کو صف میں لا کر کھڑا کردیا جاتا تھا، تم میں سے ایسا کوئی شخص نہیں ہے، جس کی مسجد اس کے گھر میں نہ ہو، لیکن اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہے اور مسجدوں میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا، تو تم نے اپنے نبی کریم ﷺ کا طریقہ ترک کردیا اور اگر تم نے اپنے نبی کریم ﷺ کا طریقہ ترک کردیا تو کافروں جیسا کام کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٤ (٦٥٤) بلفظ : ” ضللتم “ ، سنن النسائی/الإمامة ٥٠ (٨٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٤ (٧٨١) ، مسند احمد (١/٣٨٢، ٤١٤) (صحیح )
ترک جماعت پر وعید
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اذان کی آواز سنے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے اسے کوئی عذر مانع نہ ہو (لوگوں نے عرض کیا : عذر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : خوف یا بیماری) تو اس کی نماز جو اس نے پڑھی قبول نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٧ (٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٠) (صحیح) (لیکن ما العذر والا جملہ صحیح نہیں ہے، نیز صحیح لفظ لا صلاة له ہے) (ابن ماجہ وغیرہ کی سند سے یہ حدیث صحیح ہے ورنہ مؤلف کی سند میں ابوجناب کلبی اور مغراء ضعیف راوی ہیں )
ترک جماعت پر وعید
عبداللہ بن ام مکتوم (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نابینا آدمی ہوں، میرا گھر بھی (مسجد سے) دور ہے اور میری رہنمائی کرنے والا ایسا شخص ہے جو میرے لیے موزوں و مناسب نہیں، کیا میرے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اذان سنتے ہو ؟ ، انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : (پھر تو) میں تمہارے لیے رخصت نہیں پاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٧ (٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٥٠ (٨٥١) ، مسند احمد (٣/٤٢٣) (حسن صحیح )
ترک جماعت پر وعید
ابن ام مکتوم (رض) کہتے ہیں : اللہ کے رسول ! مدینے میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم حى على الصلاة اور حى على الفلاح (یعنی اذان) سنتے ہو ؟ تو (مسجد) آیا کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے قاسم جرمی نے سفیان سے روایت کیا ہے، ان کی روایت میں حى هلا (آیا کرو) کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٥٠ (٨٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٧) (صحیح )
نماز باجماعت کی فضیلت
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فجر پڑھائی پھر فرمایا : کیا فلاں حاضر ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا فلاں حاضر ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں (عشاء و فجر) منافقوں پر بقیہ نماز سے زیادہ گراں ہیں، اگر تم کو ان دونوں کی فضیلت کا علم ہوتا تو تم ان میں ضرور آتے چاہے تم کو گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑتا، اور پہلی صف (اللہ سے قریب ہونے میں) فرشتوں کی صف کی مانند ہے، اگر اس کی فضیلت کا علم تم کو ہوتا تو تم اس کی طرف ضرور سبقت کرتے، ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز پڑھنا اس کے تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے، اور ایک شخص کا دو شخصوں کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز پڑھنا ایک شخص کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے، جتنی تعداد زیادہ ہو اتنی ہی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٤٥ (٨٤٤) ، ق الصلاة ١٧(٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣٩، ١٤١) (حسن )
نماز باجماعت کی فضیلت
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے عشاء جماعت سے پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا، اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٦ (٦٥٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥١ (٢٢١) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٢ (٧) ، مسند احمد (١/٥٨، ٦٨) (صحیح )
نماز کے لئے پیدل جانے کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو مسجد سے جتنا دور ہوگا اتنا ہی اس کا ثواب زیادہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٥ (٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٧) ، وقد أخرجہ : حم (٢/٣٥١، ٤٢٨) (صحیح )
نماز کے لئے پیدل جانے کی فضیلت
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں اہل مدینہ میں نمازیوں میں ایک صاحب تھے، میری نظر میں کسی کا مکان مسجد سے ان کے مکان سے زیادہ دور نہیں تھا، اس کے باوجود ان کی کوئی نماز جماعت سے ناغہ نہیں ہوتی تھی، میں نے ان سے کہا : اگر آپ ایک گدھا خرید لیتے اور گرمی اور تاریکی میں اس پر سوار ہو کر (مسجد) آیا کرتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) تو انہوں نے کہا : میں نہیں چاہتا کہ میرا گھر مسجد کے بغل میں ہو، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میری غرض یہ تھی کہ مجھے مسجد آنے کا اور پھر لوٹ کر اپنے گھر والوں کے پاس جانے کا ثواب ملے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ سب عنایت فرما دیا، اور جو کچھ تم نے چاہا، اللہ نے وہ سب تمہیں دے دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٦٣) ، سنن ابن ماجہ/المساجد والجماعات ١٦ (٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ٦٠ (١٣٢١) (صحیح )
نماز کے لئے پیدل جانے کی فضیلت
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلے، تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے، اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے، اور ایک نماز سے لے کر دوسری نماز کے بیچ میں کوئی لغو کام نہ ہو تو وہ علیین ١ ؎ میں لکھی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٣، ٢٦٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : علیین اللہ تعالیٰ کے پاس ایک دفتر ہے جس میں نیک اعمال لکھے جاتے ہیں۔
نماز کے لئے پیدل جانے کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی باجماعت نماز اس کے گھر یا بازار کی نماز سے پچیس درجہ بڑھ کر ہے، اور یہ اس وجہ سے کہ تم میں سے کوئی جب اچھی طرح وضو کر کے مسجد آئے اور نماز کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے پیش نظر نہ رہی ہو تو وہ جو بھی قدم اٹھائے گا اس کے بدلے میں اس کا ایک درجہ بلند ہوگا اور ایک گناہ معاف ہوگا، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے، پھر جب وہ مسجد میں پہنچ گیا تو نماز ہی میں رہا جب تک کہ نماز اسے روکے رہی، اور فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں جب تک وہ اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے، فرشتے کہتے ہیں : اے اللہ ! اسے بخش دے، اے اللہ ! اس پر رحم فرما، اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما، (اور یہ دعا برابر کرتے رہتے ہیں) جب تک کہ اس مجلس میں (جہاں وہ بیٹھا ہے) کسی کو تکلیف نہ دے یا وضو نہ توڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٩ (٦٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٧ (٣٣٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٤٢ (٨٣٩) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٦ (٧٨٦) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ١ (١، ٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٧ (٤٧٧) ، مسند احمد (٢ /٢٥٢، ٢٦٤، ٢٦٦، ٢٧٣، ٣٢٨، ٣٩٦، ٤٥٤، ٤٧٣، ٤٧٥، ٤٨٥، ٤٨٦، ٥٢٠، ٥٢٥، ٥٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٦ (١٣١٢، ١٣١٣) (صحیح )
نماز کے لئے پیدل جانے کی فضیلت
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باجماعت نماز (کا ثواب) پچیس نمازوں کے برابر ہے، اور جب اسے چٹیل میدان میں پڑھے اور رکوع و سجدہ اچھی طرح سے کرے تو اس کا ثواب پچاس نمازوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالواحد بن زیاد کی روایت میں یوں ہے : آدمی کی نماز چٹیل میدان میں باجماعت نماز سے ثواب میں کئی گنا بڑھا دی جاتی ہے ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٦ (٧٨٨) ، مسند احمد (٣/٥٥) (كلهم إلى قوله : ” خمسا وعشرين صلاة “ )، (تحفة الأشراف : ٤١٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٠ (٦٤٦) (صحیح )
اندھیری راتوں میں نماز کے لئے مسجد جانے کی فضیلت
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اندھیری راتوں میں مسجدوں کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن پوری روشنی کی خوشخبری دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٥٣ (٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٩٤٦) (صحیح )
نماز کے لئے وقار و سکون کے ساتھ جانا چاہیے
سعد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو ثمامہ حناط نے بیان کیا ہے کہ وہ مسجد جا رہے تھے کہ کعب بن عجرہ (رض) نے انہیں راستہ میں پا لیا، تو دونوں ایک دوسرے سے ملے، وہ کہتے ہیں : انہوں نے مجھے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم پیوست کئے ہوئے پایا تو اس سے منع کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کا ارادہ کر کے نکلے تو اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست نہ کرے، کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١١١٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦٧ (٣٨٦) ، مسند احمد (٤/٢٤١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢١ (١٤٤٤) (صحیح )
نماز کے لئے وقار و سکون کے ساتھ جانا چاہیے
سعید بن مسیب کہتے ہیں ایک انصاری کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے کہا : میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے صرف ثواب کی نیت سے بیان کر رہا ہوں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کے لیے نکلے تو وہ جب بھی اپنا داہنا قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے، اور جب بھی اپنا بایاں قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے لہٰذا تم میں سے جس کا جی چاہے مسجد سے قریب رہے اور جس کا جی چاہے مسجد سے دور رہے، اگر وہ مسجد میں آیا اور اس نے جماعت سے نماز پڑھی تو اسے بخش دیا جائے گا اور اگر وہ مسجد میں اس وقت آیا جب کہ (جماعت شروع ہوچکی تھی اور) کچھ رکعتیں لوگوں نے پڑھ لی تھیں اور کچھ باقی تھیں پھر اس نے جماعت کے ساتھ جتنی رکعتیں پائیں پڑھیں اور جو رہ گئی تھیں بعد میں پوری کیں تو وہ بھی اسی طرح (اجر و ثواب کا مستحق) ہوگا، اور اگر وہ مسجد میں اس وقت پہنچا جب کہ نماز ختم ہوچکی تھی اور اس نے اکیلے پوری نماز پڑھی تو وہ بھی اسی طرح ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٨٣) (صحیح )
آدمی نماز کے ارادہ سے مسجد کے لئے نکلا مگر جماعت ہوگئی تو بھی ثواب ملے گا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا، اس سے جماعت سے نماز ادا کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٥٢ (٨٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٠) (صحیح )
مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو، البتہ انہیں چاہیئے کہ وہ بغیر خوشبو لگائے نکلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٨، ٤٧٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٧ (١٣١٥) (حسن صحیح )
مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٦٦ (٩٠٠) ، والنکاح ١١٦ (٥٢٣٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٢) ، سنن النسائی/المساجد ١٥ (٧٠٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٦) ، موطا امام مالک/القبلة ٦ (١٢) ، مسند احمد (٢/١٦، ٣٦، ٤٣، ٣٩، ٩٠، ١٢٧، ١٤٠، ١٤٣، ١٤٥، ١٥١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٧ (١٣١٤) (صحیح )
مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، البتہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٦٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧٦) (صحیح )
مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان
مجاہد کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو ، اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا : قسم اللہ کی ! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی، ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں : اس پر انہوں نے (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے : میں کہتا ہوں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : تم انہیں اجازت دو ، اور تم کہتے ہو : ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٣(٨٩٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٠(٤٤٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٨ (٥٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦، ٤٣، ٤٩، ٩٨، ١٢٧، ١٤٣، ١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا تم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے مقابل لا رہے ہو، احمد کی ایک روایت (٢/٣٦) میں ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے زندگی بھر اس لڑکے سے بات نہیں کی۔
مسجد میں عورتوں کو نماز کے لئے نہ جانے دینے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ اگر وہ چیزیں دیکھتے جو عورتیں کرنے لگی ہیں تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں۔ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : میں نے عمرہ سے پوچھا : کیا بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٣ (٨٦٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القبلة ٦ (١٥) ، مسند احمد (٦/٩١، ١٩٣، ٢٣٥، ٢٣٢) (صحیح )
مسجد میں عورتوں کو نماز کے لئے نہ جانے دینے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عورت کی اپنے گھر کی نماز اس کی اپنے صحن کی نماز سے افضل ہے، اور اس کی اپنی اس کوٹھری کی نماز اس کے اپنے گھر کی نماز سے افضل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرضاع ١٨ (١١٧٣ ببعضہ) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٢٩) (صحیح )
مسجد میں عورتوں کو نماز کے لئے نہ جانے دینے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر ہم اس دروازے کو عورتوں کے لیے چھوڑ دیں (تو زیادہ اچھا ہو) ۔ نافع کہتے ہیں : چناچہ ابن عمر (رض) تاحیات اس دروازے سے مسجد میں کبھی داخل نہیں ہوئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے، انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے، اس میں قال رسول الله ﷺ کے بجائے قال عمر (عمر (رض) نے کہا) ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٨) (صحیح )
نماز میں شامل ہونے کے لئے اطمینان وسکون سے جانا چاہیے دوڑنا نہیں چاہیے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب نماز کی تکبیر کہہ دی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ اطمینان و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ، تو اب جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کرلو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زبیدی، ابن ابی ذئب، ابراہیم بن سعد، معمر اور شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اسی طرح : وما فاتکم فأتموا کے الفاظ روایت کئے ہیں، اور ابن عیینہ نے تنہا زہری سے لفظ : فاقضوا روایت کی ہے۔ محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے، اور جعفر بن ربیعہ نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے لفظ : فأتموا سے روایت کی ہے، اور اسے ابن مسعود (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اور ابوقتادہ (رض) اور انس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور ان سب نے : فأتموا کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٨ (٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧١، ١٥٣٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٨ (٩٠٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٢ (٣٢٧) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٤ (٧٧٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ١(٤) ، مسند احمد (٢/٢٧٠، ٢٨٢، ٣١٨، ٣٨٧، ٤٢٧، ٤٥٢، ٤٦٠، ٤٧٣، ٤٨٩، ٥٢٩، ٥٣٢، ٥٣٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٩ (١٣١٩) (حسن صحیح )
نماز میں شامل ہونے کے لئے اطمینان وسکون سے جانا چاہیے دوڑنا نہیں چاہیے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نماز کے لیے اس حال میں آؤ کہ تمہیں اطمینان و سکون ہو، پھر جتنی رکعتیں جماعت سے ملیں انہیں پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائیں وہ قضاء کرلو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ابن سیرین نے ابوہریرہ (رض) سے لفظ وليقض سے روایت کی ہے۔ اور ابورافع نے بھی ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح کہا ہے۔ لیکن ابوذر نے ان سے : فأتموا واقضوا روایت کیا ہے، اور اس سند میں اختلاف کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٩٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٢، ٣٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح روایتوں سے معلوم ہوا کہ چھوٹی ہوئی رکعتیں بعد میں پڑھنے سے نماز پوری ہوجاتی ہے، اور مقتدی جو رکعت پاتا ہے وہ اس کی پہلی رکعت ہوتی ہیں، بقیہ کی وہ تکمیل کرتا ہے ، فقہاء کی اصطلاح میں قضا نماز کا اطلاق وقت گزرنے کے بعد پڑھی گئی نماز پر ہوتا ہے، احادیث میں قضا و اتمام سے مراد اتمام و تکمیل ہے، واللہ اعلم۔
مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا : کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٥٠ (٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٨ (١٤٠٨) (صحیح )
اگر کوئے شخص گھر پر تنہا نماز پڑھ لے اور پھر مسجد میں جا کر جماعت ملے تو پھر سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے
یزید بن الاسودخزاعی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، وہ ایک جوان لڑکے تھے، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ مسجد کے کونے میں دو آدمی ہیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، تو آپ نے دونوں کو بلوایا، انہیں لایا گیا، خوف کی وجہ سے ان پر کپکپی طاری تھی، آپ ﷺ نے ان دونوں سے پوچھا : تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ ، تو ان دونوں نے کہا : ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے پھر امام کو اس حال میں پائے کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ (بھی) نماز پڑھے، یہ اس کے لیے نفل ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٤٩ (٢١٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٥٤ (٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٠، ١٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٧ (١٤٠٧) (صحیح )
اگر کوئے شخص گھر پر تنہا نماز پڑھ لے اور پھر مسجد میں جا کر جماعت ملے تو پھر سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے
یزید بن اسود خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز منیٰ میں پڑھی، پھر آگے راوی نے سابقہ معنی کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٢) (صحیح )
اگر کوئے شخص گھر پر تنہا نماز پڑھ لے اور پھر مسجد میں جا کر جماعت ملے تو پھر سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے
یزید بن عامر (رض) کہتے ہیں میں (مسجد) آیا، نبی اکرم ﷺ نماز میں تھے، تو میں بیٹھ گیا اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہوا، آپ ﷺ نماز پڑھ کر ہماری طرف مڑے تو مجھے (یزید بن عامر کو) بیٹھے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ نے فرمایا : یزید ! کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ ، میں نے کہا : کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! میں اسلام لا چکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک کیوں نہیں ہوئے ؟ ، میں نے کہا : میں نے اپنے گھر پر نماز پڑھ لی ہے، میرا خیال تھا کہ آپ لوگ نماز پڑھ چکے ہوں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی ایسی جگہ آؤ جہاں نماز ہو رہی ہو، اور لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے پاؤ تو ان کے ساتھ شریک ہو کر جماعت سے نماز پڑھ لو، اگر تم نماز پڑھ چکے ہو تو وہ تمہارے لیے نفل ہوگی اور یہ فرض ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٣١) (ضعیف) (اس کے ایک راوی نوح بن صعصعة مجہول ہیں )
اگر کوئے شخص گھر پر تنہا نماز پڑھ لے اور پھر مسجد میں جا کر جماعت ملے تو پھر سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے
عفیف بن عمرو بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھ سے قبیلہ بنی اسد بن خزیمہ کے ایک شخص نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوایوب انصاری (رض) سے دریافت کیا کہ ہم میں سے ایک شخص اپنے گھر پر نماز پڑھ لیتا ہے، پھر مسجد آتا ہے، وہاں نماز کھڑی ہوتی ہے، تو میں ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیتا ہوں، پھر اس سے میں اپنے دل میں شبہ پاتا ہوں، اس پر ابوایوب انصاری نے کہا : ہم نے نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اس کے لیے مال غنیمت کا ایک حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٠١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٣(١١) (ضعیف) (اس کے راوی عفیف لین الحدیث ہیں اور رجل مبہم ہے )
ایک مرتبہ جماعت سے نماز پڑھنے کے بعد دوسری مرتبہ جماعت میں شرکت
ام المؤمنین میمونہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار کہتے ہیں : میں بلاط میں عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آیا، لوگ نماز پڑھ رہے تھے تو میں نے کہا : آپ ان کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھ رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ تم کوئی نماز ایک دن میں دو بار نہ پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٥٦ (٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩، ٤١) (حسن صحیح )
امامت کی فضیلت
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے لوگوں کی امامت کی اور وقت پر اسے اچھی طرح ادا کیا تو اسے بھی اس کا ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی، اور جس نے اس میں کچھ کمی کی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہوگا ان (مقتدیوں) پر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٧ (٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٥، ١٥٤، ١٥٦) (حسن صحیح )
امامت کے مسلہ پر جھگڑنا نہیں چاہیئے
خرشہ بن حر فزاری کی بہن سلامہ بنت حر (رض) کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسجد والے آپس میں ایک دوسرے کو امامت کے لیے دھکیلیں گے، انہیں کوئی امام نہ ملے گا جو ان کو نماز پڑھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٨ (٩٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨١) (ضعیف) (اس کی راویہ عقیلہ اور طلحہ أم الغراب مجہول ہیں )
امامت کا مستحق کون ہے؟
ابومسعود بدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو، اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو ان میں جس نے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں بڑی عمر والا امامت کرے، آدمی کی امامت اس کے گھر میں نہ کی جائے اور نہ اس کی حکومت میں، اور نہ ہی اس کی تکرمہ (مسند وغیرہ) پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے ۔ شعبہ کا بیان ہے : میں نے اسماعیل بن رجاء سے کہا : آدمی کا تکرمہ کیا ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کا فراش یعنی مسند وغیرہ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٢ (٢٣٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٣، (٧٨١) ، ٦ (٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٦ (٩٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ١١٨، ١٢١، ١٢٢) (صحیح )
امامت کا مستحق کون ہے؟
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : ولا يؤم الرجل الرجل في سلطانه کوئی شخص کسی کی سربراہی کی جگہ میں اس کی امامت نہ کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح یحییٰ قطان نے شعبہ سے أقدمهم قرائة (لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو قرأت میں سب سے فائق ہو) کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٦) (صحیح )
امامت کا مستحق کون ہے؟
ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ قرأت میں برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جس نے پہلے ہجرت کی ہو ۔ اس روایت میں فأقدمهم قرائة کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حجاج بن ارطاۃ نے اسماعیل سے روایت کیا ہے، اس میں ہے : تم کسی کے تکرمہ (مسند وغیرہ) پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٦) (صحیح )
امامت کا مستحق کون ہے؟
عمرو بن سلمہ (رض) کہتے ہیں ہم ایسے مقام پر (آباد) تھے جہاں سے لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے جاتے گزرتے تھے، تو جب وہ لوٹتے تو ہمارے پاس سے گزرتے اور ہمیں بتاتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ایسا فرمایا ہے، اور میں ایک اچھے حافظہ والا لڑکا تھا، اس طرح سے میں نے بہت سا قرآن یاد کرلیا تھا، چناچہ میرے والد اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ وفد کی شکل میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے تو آپ ﷺ نے انہیں نماز سکھائی اور فرمایا : تم میں لوگوں کی امامت وہ کرے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو ، اور میں ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والا تھا اس لیے کہ میں قرآن یاد کیا کرتا تھا، لہٰذا لوگوں نے مجھے آگے بڑھا دیا، چناچہ میں ان کی امامت کرتا تھا اور میرے جسم پر ایک چھوٹی زرد رنگ کی چادر ہوتی، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری شرمگاہ کھل جاتی، چناچہ ایک عورت نے کہا : تم لوگ اپنے قاری (امام) کی شرمگاہ ہم سے چھپاؤ، تو لوگوں نے میرے لیے عمان کی بنی ہوئی ایک قمیص خرید دی، چناچہ اسلام کے بعد مجھے جتنی خوشی اس سے ہوئی کسی اور چیز سے نہیں ہوئی، ان کی امامت کے وقت میں سات یا آٹھ برس کا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٣ (٤٣٠٢) ، سنن النسائی/الأذان ٨ (٦٣٧) ، والقبلة ١٦ (٧٦٨) ، والإمامة ١١ (٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٥، ٥/٢٩، ٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فرض ہو یا نفل نابالغ لڑکا (جو اچھا قاری اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو) امام ہوسکتا ہے۔
امامت کا مستحق کون ہے؟
اس سند سے بھی عمرو بن سلمہ (رض) سے یہ حدیث مروی ہے، اس میں ہے میں ایک پیوند لگی ہوئی پھٹی چادر میں ان کی امامت کرتا تھا، تو جب میں سجدہ میں جاتا تو میری سرین کھل جاتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٥) (صحیح )
امامت کا مستحق کون ہے؟
عمرو بن سلمہ (رض) کے والد سلمہ بن قیس اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور جب لوٹنے کا ارادہ کیا تو ان لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہماری امامت کون کرے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس کو قرآن زیادہ یاد ہو ۔ راوی کو شک ہے جمعا للقرآن کہا، یا : أخذا للقرآن کہا، عمرو بن سلمہ (رض) کہتے ہیں : میرے برابر کسی کو قرآن یاد نہ تھا، تو لوگوں نے مجھ کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا، حالانکہ میں اس وقت لڑکا تھا، میرے جسم پر ایک چادر ہوتی تھی، اس کے بعد سے میں قبیلہ جرم کی جس مجلس میں بھی موجود رہا میں ہی ان کا امام رہا، اور آج تک میں ہی ان کے جنازوں کی نماز پڑھاتا رہا ہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے یزید بن ہارون نے مسعر بن حبیب جرمی سے اور مسعر نے عمرو بن سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ جب میری قوم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور اس میں انہوں نے عن أبيه نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٥) (صحیح) لیکن : عن أبيه کا قول غیر محفوظ ہے
امامت کا مستحق کون ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے جب مہاجرین اوّلین (مدینہ) آئے اور عصبہ ١ ؎ میں قیام پذیر ہوئے تو ان کی امامت ابوحذیفہ (رض) کے آزاد کردہ غلام سالم (رض) کیا کرتے تھے، انہیں قرآن سب سے زیادہ یاد تھا۔ ہیثم نے اضافہ کیا ہے کہ ان میں عمر بن خطاب (رض) اور ابوسلمہ بن عبدالاسد (رض) بھی موجود ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٤ (٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٠٠، ٨٠٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ میں قبا کے پاس ایک جگہ ہے۔
امامت کا مستحق کون ہے؟
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے یا ان کے ایک ساتھی سے فرمایا : جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم اذان دو ، پھر تکبیر کہو، پھر جو تم دونوں میں عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرے ۔ مسلمہ کی روایت میں ہے : اور ہم دونوں علم میں قریب قریب تھے۔ اسماعیل کی روایت میں ہے : خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا : پھر قرآن کہاں رہا ؟ انہوں نے کہا : اس میں بھی وہ دونوں قریب قریب تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٧ (٦٢٨) ، ٣٥ (٦٥٨) ، ٤٩ (٦٨٥) ، ١٤٠ (٨١٩) ، والجہاد ٤٢ (٢٨٤٨) ، والأدب ٢٧ (٦٠٠٨) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٤٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٧ (٢٠٥) ، سنن النسائی/الأذان ٧ (٦٣٥) ، ٨ (٦٣٦) ، ٢٩ (٦٧٠) ، والإمامة ٤ (٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٦ (٩٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٦، ٥/٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٢ (١٢٨٨) (صحیح )
امامت کا مستحق کون ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے وہ لوگ اذان دیں جو تم میں بہتر ہوں، اور تمہاری امامت وہ لوگ کریں جو تم میں عالم و قاری ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأذان ٥ (٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٩) (ضعیف) (اس کے راوی حسین حنفی ضعیف ہیں )
عورتوں کی امامت کا مسئلہ
ام ورقہ بنت عبداللہ بن نوفل انصاریہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب غزوہ بدر میں جانے لگے تو میں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! اپنے ساتھ مجھے بھی جہاد میں چلنے کی اجازت دیجئیے، میں آپ کے بیماروں کی خدمت کروں گی، شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو، اللہ تمہیں شہادت نصیب کرے گا ۔ راوی کہتے ہیں : چناچہ انہیں شہیدہ کہا جاتا تھا، وہ کہتے ہیں : ام ورقہ (رض) نے قرآن پڑھ رکھا تھا، رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھر میں مؤذن مقرر کرنے کی اجازت چاہی، تو آپ نے انہیں اس کی اجازت دی، اپنے ایک غلام اور ایک لونڈی کو اپنے مرجانے کے بعد آزاد کردینے کی وصیت کردی تھی، چناچہ وہ دونوں (یعنی غلام اور لونڈی) رات کو ام ورقہ (رض) کے پاس گئے اور انہی کی ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئیں اور وہ دونوں بھاگ نکلے، صبح ہوئی تو عمر (رض) لوگوں میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ان دونوں کے متعلق جس کو بھی کچھ معلوم ہو، یا جس نے بھی ان دونوں کو دیکھا ہو وہ انہیں پکڑ کر لائے، (چنانچہ وہ پکڑ کر لائے گئے) تو آپ نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں سولی دے دی گئی، یہی دونوں تھے جنہیں مدینہ منورہ میں سب سے پہلے سولی دی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٥) (حسن) (اس کے دو راوی ولید کی دادی اور عبدالرحمن بن خلاد دونوں مجہول ہیں، لیکن ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہیں، ابن خزیمہ نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٣ ؍ ١٤٢)
عورتوں کی امامت کا مسئلہ
اس سند سے بھی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے، اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ ﷺ نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کردیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں : میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٤) (حسن) (ملاحظہ ہو حدیث سابق )
مقتد یوں کی ناراضگی کی صورت میں امامت درست نہیں
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : تین آدمیوں کی نماز اللہ قبول نہیں فرماتا : ایک تو وہ شخص جو لوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز میں پیچھے آئے، پیچھے آنا یہ ہے کہ جماعت فوت ہوجانے یا وقت گزر جانے کے بعد آئے، اور تیسرا وہ شخص جو اپنے آزاد کئے ہوئے شخص کو دوبارہ غلام بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٣ (٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٣) (ضعیف) (اس کے دو راوی عبدالرحمن افریقی اور عمران ضعیف ہیں، مگر اس کا پہلا جزء شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے )
مقتد یوں کی ناراضگی کی صورت میں امامت درست نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٩) (ضعیف) (علاء بن حارث مختلط ہوگئے تھے اور مکحول کی ابوہریرہ (رض) سے ملاقات ثابت نہیں )
نابینا کی امامت کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابن ام مکتوم (رض) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٢) (حسن صحیح )
مہمان میزبان کی امامت نہ کرے
بدیل کہتے ہیں کہ ہمارے ایک غلام ابوعطیہ نے ہم سے بیان کیا کہ مالک بن حویرث (رض) ہماری اس مسجد میں آتے تھے، (ایک بار) نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو ہم نے ان سے کہا : آپ آگے بڑھئیے اور نماز پڑھائیے، انہوں نے ہم سے کہا : تم اپنے لوگوں میں سے کسی کو آگے بڑھاؤ تاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائے، میں ابھی تم لوگوں بتاؤں گا کہ میں تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھا رہا ہوں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ انہیں لوگوں میں سے کوئی آدمی ان کی امامت کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٨ (٣٥٦) ، سنن النسائی/الإمامة ٩ (٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٦) ، (صحیح) (مالک بن حویرث کے قصہ کے بغیر حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اگر خوشی و رضا مندی سے لوگ زائر کو امام بنانا چاہیں اور وہ امامت کا مستحق بھی ہو تو اس کا امام بننا جائز ہے، کیونکہ ابومسعود کی ایک روایت میں إلا بإذنه کا اضافہ ہے۔
امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر نہ کھڑا ہو
ہمام کہتے ہیں کہ حذیفہ (رض) نے مدائن (کوفہ کے پاس ایک شہر ہے) میں ایک چبوترہ (اونچی جگہ) پر کھڑے ہو کر لوگوں کی امامت کی (اور لوگ نیچے تھے) ، ابومسعود (رض) نے ان کا کرتا پکڑ کر انہیں (نیچے) گھسیٹ لیا، جب حذیفہ نماز سے فارغ ہوئے تو ابومسعود نے ان سے کہا : کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اس بات سے لوگوں کو منع کیا جاتا تھا، حذیفہ نے کہا : ہاں مجھے بھی اس وقت یاد آیا جب آپ نے مجھے پکڑ کر کھینچا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٨) (صحیح )
امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر نہ کھڑا ہو
عدی بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ وہ عمار بن یاسر (رض) کے ساتھ مدائن میں تھا کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو عمار آگے بڑھے اور ایک چبوترے پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے اور لوگ ان سے نیچے تھے، یہ دیکھ کر حذیفہ (رض) آگے بڑھے اور عمار بن یاسر کے دونوں ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے لانے لگے، عمار بن یاسر بھی پیچھے ہٹتے گئے یہاں تک کہ حذیفہ نے انہیں نیچے اتار دیا، جب عمار اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو حذیفہ نے ان سے کہا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا کہ جب کوئی شخص کسی قوم کی امامت کرے تو ان سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو ؟ عمار (رض) نے کہا : اسی لیے جب آپ نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں آپ کے ساتھ پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٦) (حسن) (اس کا جتنا حصہ پچھلی حدیث کے موافق ہے اتنا اس سے تقویت پاکر درجہ حسن تک پہنچ جاتا ہے باقی باتیں سند میں ایک مجہول راوی (رجل) کے سبب ضعیف ہیں اس میں امام عمار (رض) کو اور کھینچنے والا حذیفہ (رض) کو بنادیا ہے )
نماز پڑھنے کے بعد پھر اسی نماز کی امامت کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) عشاء کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھتے پھر اپنی قوم میں آتے اور وہی نماز انہیں پڑھاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٠ (٧٠٠) ، والأدب ٧٤ (٦١٠٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٩ (٨٣٢) ، ٤١ (٨٣٦) ، والافتتاح ٦٣ (٩٨٥) ، ٧٠ (٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٨ (٩٨٦) ، مسند احمد (٣/ ٢٩٩، ٣٠٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/ الصلاة ٦٥ (١٣٣٣) ، ویأتي برقم : (٧٩٠) (حسن صحیح) (مؤلف کی سند سے حسن صحیح ہے ورنہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست اور صحیح ہے کیونکہ معاذ (رض) فرض نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھتے تھے، اور واپس آ کر اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، معاذ (رض) کی دوسری نماز نفل ہوتی اور مقتدیوں کی فرض ہوتی تھی۔
نماز پڑھنے کے بعد پھر اسی نماز کی امامت کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹ کر جاتے اور اپنی قوم کی امامت کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة (٣٦ (٤٦٥) ، سنن النسائی/الإمامة ٤١ (٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٣) (صحیح )
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے پر سوار ہوئے پھر اس سے گرگئے، آپ ﷺ کے دائیں پہلو میں خراش آگئی جس کی وجہ سے آپ ﷺ نے ایک نماز بیٹھ کر پڑھی، تو ہم لوگوں نے بھی وہ نماز آپ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو، اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، والأذان ٥١ (٦٨٩) ، ٨٢ (٧٣٢) ، ١٢٨ (٨٠٥) ، وتقصیر الصلاة ١٧ (١١١٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، سنن النسائی/امامة ١٦ (٧٩٥) ، ٤٠ (٨٣٣) ، والتطبیق ٢٢ (١٠٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٥ (٣٦١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٤ (١٢٣٨) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٥ (١٦) ، مسند احمد (٣/١١٠، ١٦٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس باب میں جو حدیثیں بیان کی گئی ہیں وہ جمہور علماء کے نزدیک منسوخ ہیں کیونکہ مرض الموت میں نبی اکرم ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس نے آپ کو ایک کھجور کے درخت کی جڑ پر گرا دیا، جس سے آپ ﷺ کے پاؤں میں موچ آگئی، ہم لوگ آپ کی عیادت کے لیے آئے، اس وقت ہمیں آپ ﷺ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے کمرے میں بیٹھ کر نفل نماز پڑھتے ملے، ہم لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ ہمارے بارے میں خاموش رہے (ہمیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہا) ۔ پھر ہم دوسری مرتبہ آپ ﷺ کی عیادت کے لیے آئے تو آپ نے فرض نماز بیٹھ کر ادا کی، ہم لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ نے ہمیں اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا : جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو، اور جب امام کھڑے ہو کر پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور اس طرح نہ کرو جس طرح فارس کے لوگ اپنے سر کردہ لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٤ (١٢٤٠) ، الطب ٢١ (٣٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٢٠٧ (١٢٠١) ، مسند احمد (٣/٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اہل فارس و روم اپنے امراء و سلاطین کے سامنے بیٹھتے نہیں، کھڑے رہتے تھے۔
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، تو جب امام الله أكبر کہے تو تم بھی الله أكبر کہو، تم اس وقت تک الله أكبر نہ کہو جب تک کہ امام الله أكبر نہ کہہ لے، اور جب امام رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، تم اس وقت تک رکوع نہ کرو جب تک کہ وہ رکوع میں نہ چلا جائے، جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا لک الحمد کہو (مسلم کی روایت میں ولک الحمد واو کے ساتھ ہے) ، پھر جب امام سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور تم اس وقت تک سجدہ نہ کرو جب تک کہ وہ سجدہ میں نہ چلا جائے، اور جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اللهم ربنا لک الحمد کو مجھے میرے بعض ساتھیوں نے سلیمان کے واسطہ سے سمجھایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٢٨٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٠ (٤١٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٠ (٩٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣ (٨٤٦) ، ١٤٤ (١٢٣٨) ، مسند احمد (٢/٣٧٦، ٤٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب میں نے یہ حدیث سلیمان بن حرب سے سنی تو اللهم ربنا لک الحمد کے الفاظ میری سمجھ میں نہیں آئے تو میرے بعض ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ سلیمان نے : اللهم ربنا لک الحمد کہا ہے۔
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
اس طریق سے بھی ابوہریرہ (رض) سے إنما جعل الإمام ليؤتم به والی یہی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً مروی ہے، اس میں راوی نے وإذا قرأ فأنصتوا جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وإذا قرأ فأنصتوا کا یہ اضافہ محفوظ نہیں ہے، ہمارے نزدیک ابوخالد کو یہ وہم ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإفتتاح ٢٠(٩٢٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣ (٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٠) (صحیح )
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں بیٹھ جانے کا اشارہ کیا، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : امام اسی لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥١ (٦٨٨) ، وتقصیر الصلاة ١٧ (١١١٣) ، ٢٠ (١١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٢) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ١٤٤ (١٢٣٧) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ٥ (١٧) ، مسند احمد (٦/١١٤، ١٦٩) (صحیح )
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بیمار ہوئے تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور ابوبکر (رض) تکبیر کہتے تھے تاکہ وہ لوگوں کو آپ کی تکبیر سنا دیں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٢١٣) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٢٠٧ (١٢٠١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٥ (١٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٤) (صحیح )
امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟
اسید بن حضیر (رض) کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی امامت کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے، تو لوگ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! ہمارے امام بیمار ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم لوگ بھی بیٹھ کر پڑھو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث متصل نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٢) (صحیح) (سابقہ حدیثوں سے تقویت پاکر یہ حدیث معنیً صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں انقطاع ہے، حصین کی اسید بن حضیر (رض) سے لقاء ثابت نہیں ہے )
جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دوسرا کہاں کھڑا ہو
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام حرام (رض) کے پاس آئے تو ان کے گھر والوں نے گھی اور کھجور پیش کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے (کھجور کو) اس کی تھیلی میں اور اسے (گھی کو) اس کے برتن میں لوٹا دو کیونکہ میں روزے سے ہوں ، پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور ہمیں دو رکعت نفل نماز پڑھائی تو ام سلیم (انس کی والدہ) اور ام حرام ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ ثابت کہتے ہیں : میں تو یہی جانتا ہوں کہ انس (رض) نے کہا کہ مجھے آپ ﷺ نے اپنی داہنی طرف فرش پر کھڑا کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٨ (٧٢٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (١٤٩٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٠ (٨٠٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٥ (٩٧٥) ، مسند احمد (٣/١٦٠، ١٨٤، ٢٠٤، ٢٣٩، ٢٤٢، ٢٤٨) (صحیح )
جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دوسرا کہاں کھڑا ہو
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اور ان کے گھر کی ایک عورت کی امامت کی تو آپ ﷺ نے انہیں (یعنی انس (رض) کو) اپنے داہنی طرف کھڑا کیا، اور عورت کو پیچھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٦٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٠ (٨٠٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٤ (٩٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٤، ٢٥٨، ٢٦١) (صحیح )
جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دوسرا کہاں کھڑا ہو
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ (رض) کے گھر رات بسر کی تو رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے، مشک کا منہ کھول کر وضو کیا پھر اس میں ڈاٹ لگا دی، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، پھر میں بھی اٹھا اور اسی طرح وضو کیا جس طرح آپ ﷺ نے وضو کیا تھا، پھر میں آ کر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، تو آپ نے اپنے داہنے ہاتھ سے مجھے پکڑا، اور اپنے پیچھے سے لا کر اپنی داہنی طرف کھڑا کرلیا، پھر میں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٤ (٩٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٧) ، والأذان ٥٧ (٦٩٧) ، ٥٩ (٦٩٩) ، ٧٩ (٧٢٨) ، واللباس ٧١ (٥٩١٩) ، سنن النسائی/الغسل ٢٩ (٤٤٣) ، الإمامة ٢٢ (٨٠٧) ، و قیام اللیل ٩ (١٦٢١) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٥٢، ٢٥٨، ٢٨٧، ٣٤١، ٣٤٧، ٣٥٤، ٣٥٧، ٣٦٠، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٣ (١٢٩٠) (صحیح )
جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دوسرا کہاں کھڑا ہو
اس سند سے ابن عباس (رض) سے اس واقعہ میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے میرا سر یا میری چوٹی پکڑی پھر مجھے اپنی داہنی جانب لا کھڑا کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧١ (٥٩١٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٨٧) (صحیح )
جب تین آدمی جماعت کریں تو کیسے کھڑے ہوں؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ان کی دادی ملیکہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر بلایا، جو انہوں نے آپ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا، تو آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا : تم لوگ کھڑے ہوجاؤ تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں ۔ انس (رض) کہتے ہیں : تو میں اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا، جو عرصے سے پڑے پڑے کالی ہوگئی تھی تو اس پر میں نے پانی چھڑکا، پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے، میں نے اور ایک یتیم نے آپ ﷺ کے پیچھے صف باندھی اور بوڑھی عورت (ملیکہ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں تو آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر آپ ﷺ اپنے گھر واپس ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٠ (٣٨٠) ، والأذان ٧٨ (٧٢٧) ، ١٦١ (٨٦٠) ، ١٦٤ (٨٧١) ، ١٦٧ (٨٧٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٥٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٩ (٢٣٤) ، سنن النسائی/المساجد ٤٣ (٧٣٨) ، والإمامة ١٩ (٨٠٢) ، ٦٢ (٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٩(٣١) ، مسند احمد (٣/١٣١، ١٤٥، ١٤٩، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (١٣٢٤) ، (صحیح )
جب تین آدمی جماعت کریں تو کیسے کھڑے ہوں؟
اسود بن یزید نخعی سے روایت ہے کہ میں نے اور علقمہ بن قیس نخعی نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آنے کی اجازت مانگی اور ہم دیر تک آپ کے دروازے پر بیٹھے تھے، تو لونڈی نکلی اور اس نے جا کر عبداللہ بن مسعود (رض) سے ہمارے لیے اجازت مانگی، آپ نے ہم کو اجازت دی (اور ہم اندر گئے) پھر ابن مسعود میرے اور علقمہ کے درمیان میں کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المساجد ٢٧ (٧٢٠) ، والإمامة ١٨ (٨٠٠) ، والتطبیق ١ (١٠٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (١١٩١) ، مسند احمد (١/٤٢٤، ٤٥١، ٤٥٥، ٤٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب تین آدمی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہوں تو امام آگے کھڑا ہوگا ، اور دونوں مقتدی اس کے پیچھے کھڑے ہوں گے، اور یہ حکم کہ تین آدمی ہوں تو امام ان کے درمیان کھڑا ہو منسوخ ہے ، ابن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) جگہ کی تنگی کی وجہ سے آگے بڑھنے کے بجائے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے (دیکھئے عون المعبود ، حدیث مذکور) ۔
سلام پھیرنے کے بعد امام قبلہ سے رخ پھیر لے
یزید بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو (نمازیوں کی طرف) مڑ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٥١ (٢١٩) ، الإمامة ٥٤ (٨٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٩) (صحیح )
سلام پھیرنے کے بعد امام قبلہ سے رخ پھیر لے
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہماری یہ خواہش ہوتی کہ ہم آپ کی داہنی طرف رہیں، تاکہ آپ ﷺ (سلام پھیرنے کے بعد) اپنا رخ ہماری طرف کرلیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٨ (٧٠٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٤ (٨٢٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٥ (١٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩) ، وقد أخرجہ : (٤/٢٩٠، ٣٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ زیادہ تر داہنی طرف مڑتے تھے، اس لئے لوگ آپ کے دائیں رہنا پسند کرتے تھے، بعض اوقات آپ ﷺ بائیں طرف بھی مڑتے تھے۔
امام اپنے مصلے سے ہٹ کر نوافل پڑھے
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام اس جگہ پر (نفل) نماز نہ پڑھے جہاں اس نے (فرض) نماز پڑھی ہے، جب تک کہ وہاں سے ہٹ نہ جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عطاء خراسانی کی مغیرہ بن شعبہ (رض) سے ملاقات نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٣ (١٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٧) (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں دو علتیں ہیں : عطاء خراسانی اور مغیرہ بن شعبہ (رض) کے درمیان انقطاع، اور عبدالعزیز قرشی مجہول ہیں )
آخری رکعت کے سجدہ کے بعد حدث پیش آجانا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام نماز پوری کرلے اور آخری قعدہ میں بیٹھ جائے، پھر بات کرنے (یعنی سلام پھیرنے) سے پہلے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کی اور اس کے پیچھے جنہوں نے نماز مکمل کی، سب کی نماز پوری ہوگئ ی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٨ (٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦١٠) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں، نیز یہ حدیث اگلی صحیح حدیث کے مخالف ہے )
نماز کی تحریم و تحلیل کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کی کلید (کنجی) پاکی ہے، اور اس کی تحریم تکبیر ہے، اور اس کی تحلیل تسلیم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٣ (٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣ (٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٢١ (٧١٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی نماز کے منافی سارے کام حرام ہوجاتے ہیں، اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی وہ سارے کام جائز ہوجاتے ہیں جو نماز میں ناجائز ہوگئے تھے، پس سلام ہی کے ذریعہ آدمی کی نماز پوری ہوگی نہ کہ کسی اور چیز سے۔
مقتدی کو امام کی پوری پوری اطاعت کرنی چاہیے
معاویہ بن ابی سفیان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے پہلے نہ رکوع کرو اور نہ سجدہ، کیونکہ میں تم سے جس قدر پہلے رکوع میں جاؤں گا اتنا تم مجھے پالو گے، جب میں تم سے پہلے سر اٹھاؤں گا ١ ؎ کیونکہ میں موٹا ہوگیا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤١ (٩٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٢٦) ، وقد أخرجہ : حم (٤/٩٢، ٩٨) ، سنن الدارمی/الطھارة ٧٢ (٧٨٢) (حسن صحیح ) وضاحت : وضاحت : یعنی میرے سر اٹھانے تک تم رکوع ہی میں رہو، یہ عوض ہوجائے گا اس مدت کا جو تم میرے بعد رکوع میں گئے تھے۔
مقتدی کو امام کی پوری پوری اطاعت کرنی چاہیے
براء (رض) کا بیان ہے (اور وہ جھوٹے نہ تھے) کہ لوگ جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے سروں کو رکوع سے اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہوجاتے، پھر جب وہ آپ ﷺ کو دیکھ لیتے کہ آپ سجدے میں چلے گئے ہیں، تب سجدہ میں جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٢ (٦٩٠) ، ٩١ (٧٤٧) ، ١٣٣ (٨١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٩ (٤٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٣ (٢٨١) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٣٠) ، مسند احمد (٤/٢٩٢، ٣٠٠، ٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢) (صحیح )
مقتدی کو امام کی پوری پوری اطاعت کرنی چاہیے
براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص اس وقت تک اپنی پیٹھ نہیں جھکاتا جب تک کہ وہ نبی اکرم ﷺ کو (زمین پر اپنی پیشانی رکھتے ہوئے) نہ دیکھ لیتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٩ (٤٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤) (صحیح )
مقتدی کو امام کی پوری پوری اطاعت کرنی چاہیے
براء بن عازب (رض) کا بیان ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو جب آپ رکوع کرتے تو وہ بھی رکوع کرتے، اور جب آپ ﷺ سمع الله لمن حمده کہتے تو ہم کھڑے رہتے یہاں تک کہ لوگ آپ کو اپنی پیشانی زمین پر رکھتے دیکھ لیتے، پھر وہ آپ ﷺ کے پیچھے سجدہ میں جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣) (صحیح )
جو شخص امام سے پہلے سجدہ سے سر اٹھائے یا رکھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے وہ شخص جو اپنا سر اٹھاتا ہے جب کہ امام سجدے میں ہو، کیا اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کا سر یا اس کی صورت گدھے کی بنا دے ۔ راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے أما يخشى فرمایا، یا ألا يخشى۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٣ (٦٩١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٢ (٥٨٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٢٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤١ (٩٦١) ، مسند احمد (٢/٢٦٠، ٢٧١، ٤٢٥، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٩، ٤٧٢، ٥٠٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٥) (صحیح )
امام سے پہلے اٹھ کر چلے جانے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں (یعنی مسلمانوں کو) نماز کی ترغیب دلائی اور انہیں امام سے پہلے نماز سے اٹھ کر جانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٧) ، سنن النسائی/السھو ١٠٢ (١٣٦٤) ، مسند احمد (٣/١٠٢، ١٢٦، ١٥٤، ٢٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٦) (صحیح )
کتنے کپڑوں میں نماز درست ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : کیا تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٥) ، سنن النسائی/القبلہ ١٤ (٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٩ (١٠٤٧) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٩ (٣٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٣٩، ٢٨٥، ٣٤٥، ٤٩٥، ٤٩٨، ٤٩٩، ٥٠١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٩ (١٤١٠) (صحیح )
کتنے کپڑوں میں نماز درست ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے دونوں کندھوں پر اس میں سے کچھ نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٦) ، سنن النسائی/القبلة ١٨ (٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥ (٣٥٩) ، مسند احمد (٢/٢٤٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٩ (١٤١١) (صحیح )
کتنے کپڑوں میں نماز درست ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اس کے داہنے کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو داہنے کندھے پر ڈال لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥ (٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٥، ٢٦٦، ٤٢٧، ٥٢٠) (صحیح )
کتنے کپڑوں میں نماز درست ہے؟
عمر بن ابی سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ اسے اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کا دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٢ (٣٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤ (٣٥٥) ، سنن النسائی/القبلة ١٤(٧٦٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٩ (١٠٤٩) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٩ (٢٩) ، مسند احمد (٤/ ٢٦، ٢٧) (صحیح )
کتنے کپڑوں میں نماز درست ہے؟
طلق (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنا تہبند کھولا، اور اپنی چادر اور تہبند کو ایک کرلیا پھر آپ نے انہیں لپیٹ لیا، پھر کھڑے ہوئے، پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : کیا تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢) (صحیح )
کپڑے کو گردن کے ارد گرد لپیٹ کر نماز پڑھنا
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اپنے تہبند تنگ ہونے کی وجہ سے گردنوں پر بچوں کی طرح باندھے ہوئے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا : اے عورتوں کی جماعت ! تم اپنے سر اس وقت تک نہ اٹھانا جب تک مرد نہ اٹھا لیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦ (٣٦٢) ، والأذان ١٣٦ (٨١٤) ، والعمل في الصلاة ١٤ (١٢١٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٩ (٤٤١) ، سنن النسائی/القبلة ١٦ (٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٣١) (صحیح )
ایسے کپڑے پر نماز پڑھنا جس کا ایک حصہ کوئی دوسرا اوڑھے ہوئے ہو
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جس کا کچھ حصہ میرے اوپر تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٤) ، سنن النسائی/القبلة ١٧ (٧٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٣١ (٦٥٢) ، مسند احمد (٦/٢٠٤) (صحیح )
صرف ایک کرتہ پہن کر نماز پڑھنا
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں شکاری ہوں، کیا میں ایک کرتے میں نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اور اسے ٹانک لیا کرو، خواہ کسی کانٹے سے ہی سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القبلة ١٥ (٧٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٩، ٥٤) (حسن )
صرف ایک کرتہ پہن کر نماز پڑھنا
عبدالرحمٰن بن ابی بکر کہتے ہیں جابر بن عبداللہ (رض) نے ایک کرتے میں ہماری امامت کی، ان کے جسم پر کوئی چادر نہ تھی، تو جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کرتے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٩) ، وقد أخرجہ : وقد ورد بلفظ : ” ثوب واحد “ عند : صحیح البخاری/الصلاة ٣ (٣٥٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥٢ (٥١٨) ، مسند احمد (٣/٢٩٣، ٢٩٤) (ضعیف) (عبدالرحمن بن أبی بکر ملی کی ضعیف ہیں، یہ حدیث صحیحین میں ” ایک کپڑا “ کے لفظ سے موجود ہے ) وضاحت : ١ ؎ : صحیحین میں ” ایک قمیص یا کرتا “ کی جگہ ” ایک کپڑا “ یا ” ایک تہبند “ کا لفظ ہے۔
چھو ٹے کپڑے میں نماز پڑھنا
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : میں ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلا (رات میں میں کسی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ) آپ ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، اس وقت میرے جسم پر صرف ایک چادر تھی، میں اس کے دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کو دائیں کندھے پر ڈالنے لگا تو وہ میرے لیے ناکافی ہوئی، البتہ اس میں کچھ گوٹ اور کناریاں لگی تھیں تو میں نے اسے الٹ لیا اور اس کے دونوں کناروں کو ادھر ادھر ڈال لیا اور گردن سے اسے روکے رکھا تاکہ گرنے نہ پائے، پھر میں آ کر رسول اللہ ﷺ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی داہنی طرف کھڑا کرلیا۔ پھر ابن صخر (رض) آئے، وہ آپ ﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہوگئے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ہم دونوں کو پکڑ کر اپنے پیچھے کھڑا کردیا، مجھے آپ ﷺ کنکھیوں سے دیکھنے لگے، میں سمجھ نہیں پا رہا تھا (کہ آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں) ، پھر بات میری سمجھ میں آگئی، آپ ﷺ نے مجھے تہہ بند باندھنے کا اشارہ کیا، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : جابر !، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! فرمائیے، حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : جب چادر کشادہ ہو تو اس کے دونوں کناروں کو ادھر ادھر ڈال لو، اور جب تنگ ہو تو اسے اپنی کمر پر باندھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ، (تحفة الأشراف : ٢٣٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (١٧٨٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٤ (٩٧٣) ، مسند احمد (٣/٣٥١) (صحیح )
نماز میں اسبال (کپڑالٹکا نے) کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص نماز میں غرور و تکبر کی وجہ سے اپنا تہہ بند (ٹخنوں سے نیچے) لٹکائے گا تو اللہ تعالیٰ نہ اس کے لیے جنت حلال کرے گا، نہ اس پر دوزخ حرام کرے گا ؛ یا نہ اس کے گناہ بخشے گا اور نہ اسے برے کاموں سے بچائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ایک جماعت نے عاصم کے واسطے سے ابن مسعود (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے، انہیں میں سے حماد بن سلمہ، حماد بن زید، ابوالاحوص اور ابومعاویہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٩) (صحیح )
نماز میں اسبال (کپڑالٹکا نے) کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : جا کر دوبارہ وضو کرو ، چناچہ وہ گیا اور اس نے (دوبارہ) وضو کیا، پھر آیا تو آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا : جا کر پھر سے وضو کرو ، چناچہ وہ پھر گیا اور تیسری بار وضو کیا، پھر آیا تو ایک شخص نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا بات ہے ! آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا پھر آپ خاموش رہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اپنا تہہ بند ٹخنے سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے تہبند لٹکا کر نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وأعاده في اللباس (رقم : ٤٠٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٤١) (ضعیف) (اس کے راوی ابوجعفر مؤذن لین الحدیث ہیں )
کپڑا چھوٹا ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھنا چاہئیے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یا عمر (رض) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو چاہیئے کہ ان دونوں میں نماز پڑھے، اور اگر ایک ہی کپڑا ہو تو چاہیئے کہ اسے تہہ بند بنا لے اور اسے یہودیوں کی طرح نہ لٹکائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس طرح نہ اوڑھے کہ اس کے دونوں کنارے دونوں طرف لٹکے ہوئے ہوں۔
کپڑا چھوٹا ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھنا چاہئیے
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لحاف میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس کے دائیں کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو دائیں کندھے پر نہ ڈالا جاسکے، اور دوسری بات جس سے آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے یہ کہ تم پاجامہ میں نماز پڑھو اور تمہارے اوپر کوئی چادر نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٨٧) (حسن )
عورت کو کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی چاہیئے؟
ام حرام والدہ محمد بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے پوچھا : عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے ؟ تو انہوں نے کہا : وہ اوڑھنی اور ایک ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے جو اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو چھپالے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ١٠(٣٦) (ضعیف موقوف) (محمد بن زید بن قنفذ کی ماں أم حرام مجہول ہیں )
عورت کو کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی چاہیئے؟
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو مالک بن انس، بکر بن مضر، حفص بن غیاث، اسماعیل بن جعفر، ابن ابی ذئب اور ابن اسحاق نے محمد بن زید سے، محمد بن زید نے اپنی والدہ سے، اور محمد بن زید کی والدہ نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ ام سلمہ (رض) پر ہی اسے موقوف کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩١) (ضعیف) (مذکورہ سبب سے یہ مرفوع حدیث بھی ضعیف ہے )
دوپٹہ کے بغیر عورت کی نماز درست نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے، قتادہ نے حسن بصری سے، حسن بصری نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦٠ (٣٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٣٢ (٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٥٠، ٢١٨، ٢٥٩) (صحیح )
دوپٹہ کے بغیر عورت کی نماز درست نہیں
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) طلحہ (رض) کی والدہ صفیہ (رض) کے پاس گئیں اور ان کی لڑکیوں کو دیکھا تو کہا کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، میرے حجرے میں ایک لڑکی موجود تھی، آپ ﷺ نے اپنی لنگی مجھے دی اور کہا : اسے پھاڑ کر دو ٹکڑے کرلو، ایک ٹکڑا اس لڑکی کو دے دو ، اور دوسرا ٹکڑا اس لڑکی کو دے دو جو ام سلمہ (رض) کے ہاں ہے، اس لیے کہ میرا خیال ہے کہ وہ بالغ ہوچکی ہے، یا میرا خیال ہے کہ وہ دونوں بالغ ہوچکی ہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اسی طرح ہشام نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٦، ٢٣٨) (ضعیف) (ابن سیرین اور عائشہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے )
سدل کرنے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل ١ ؎ کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عسل نے عطاء سے، عطاء نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤١٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦١ (٣٧٨) ، مسند احمد (٢/٢٩٥، ٣٤٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٤ (١٤١٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : سدل یہ ہے کہ کپڑے کے دونوں کنارے دونوں مونڈھوں پر ڈالے بغیر یوں ہی نیچے کی جانب لٹکتا چھوڑ دیا جائے۔
سدل کرنے کی ممانعت
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء کو نماز میں اکثر سدل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عطاء کا یہ فعل (سدل کرنا) سابق حدیث کی تضعیف کر رہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبو داود (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : راوی کا اپنی روایت کردہ حدیث کے مخالف عمل اس حدیث کے ترک کرنے کے لئے قابل اعتبار نہیں، اصل اعتبار روایت کا ہے (اگر صحیح ہو) راوی کے عمل کا نہیں : الحجة فيما روى، لا فيما رأى نیز عطاء کا فتوی حدیث کے مطابق ثابت ہے جیسا کہ گزرا ، اس لئے عطاء کے فعل سے حدیث کی تضعیف درست نہیں ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ سدل کرتے وقت بھول گئے ہوں یا کوئی دوسرا عذر لاحق ہوگیا ہو۔
سدل کرنے کی ممانعت
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے شعار یا لحاف ١ ؎ میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ عبیداللہ نے کہا : میرے والد (معاذ) کو شک ہوا ہے (کہ ام المؤمنین عائشہ نے لفظ : شعرنا کہا، یا : لحفنا ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حديث رقم : 367 ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢١، ١٧٥٨٩، ١٩٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جو کپڑا جسم سے لگا رہتا ہے اسے شعار کہتے ہیں، اور اوڑھنے کی چادر کو لحاف۔
بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا
ابوسعید مقبری سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے غلام ابورافع (رض) کو دیکھا کہ وہ حسن بن علی (رض) کے پاس سے گزرے، اور حسن اپنے بالوں کا جوڑا گردن کے پیچھے باندھے نماز پڑھ رہے تھے تو ابورافع نے اسے کھول دیا، اس پر حسن غصہ سے ابورافع کی طرف متوجہ ہوئے تو ابورافع نے ان سے کہا : آپ نماز پڑھئیے اور غصہ نہ کیجئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : یہ یعنی بالوں کا جوڑا شیطان کی بیٹھک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامةالصلاة ١٦٧ (١٠٤٢) ، مسند احمد (٦/٨، ٣٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٥ (١٤٢٠) (حسن )
بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث (رض) کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا ؟ تو انہوں نے کہا : اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٥٧ (١١١٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٥ (١٤٢١) (صحیح )
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فتح مکہ کے دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ اپنے دونوں جوتوں کو اپنے بائیں جانب رکھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٧٦ (١٠٠٨) ، والقبلة ٢٥ (٧٧٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٥ (١٤٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١١) (صحیح )
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مکہ میں صبح کی نماز پڑھائی، آپ نے سورة مؤمنون کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ جب آپ ﷺ موسیٰ ١ ؎ اور ہارون علیہما السلام، یا موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) کے قصے پر پہنچے (راوی حدیث ابن عباد کو شک ہے یا رواۃ کا اس میں اختلاف ہے) تو آپ ﷺ کو کھانسی آگئی، آپ نے قرآت چھوڑ دی اور رکوع میں چلے گئے، عبداللہ بن سائب (رض) (سابقہ حدیث کے راوی) اس وقت وہاں موجود تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦(٧٧٤ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٦ (١٠٠٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥ (٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کا ذکر : ثم أرسلنا موسیٰ وأخاه هارون بآياتنا وسلطان مبين (سورۃ المومنون : ٤٥) میں ہے، اور عیسیٰ کا ذکر اس سے چار آیتوں کے بعد : وجعلنا ابن مريم وأمه آية وآويناهما إلى ربوة ذات قرار ومعين (سورۃ المؤمنون : ٥٠) میں ہے۔ ٢ ؎ : اس سے پہلے والی حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہے اور یہ حدیث اسی حدیث کی مناسبت سے یہاں نقل کی گئی ہے۔
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتوں کو اتار کر انہیں اپنے بائیں جانب رکھ لیا، جب لوگوں نے یہ دیکھا تو (آپ ﷺ کی اتباع میں) انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا : تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار لیے ؟ ، ان لوگوں نے کہا : ہم نے آپ کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار لیے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے ۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے : قذرا کہا، یا : أذى کہا، اور فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان میں نجاست لگی ہوئی نظر آئے تو اسے زمین پر رگڑ دے اور ان میں نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠، ٩٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٣ (١٤١٨) ، (صحیح )
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
بکر بن عبداللہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث (مرسلاً ) روایت کی ہے، اس میں لفظ : فيهما خبث ہے، اور دونوں جگہ خبث ہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٤٣٦٢) (صحیح )
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
شداد بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود کی مخالفت کرو، کیونکہ نہ وہ اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے ہیں اور نہ اپنے موزوں میں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٠) (صحیح )
جوتوں سمیت نماز پڑھنا
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ننگے پاؤں نماز پڑھتے اور جوتے پہن کر بھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٦ (١٠٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤) (حسن صحیح )
نمازی اگر اپنے جوتے اتارے تو کہاں رکھے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے جوتے (اتار کر) نہ داہنی طرف رکھے اور نہ بائیں طرف، کیونکہ یہ دوسری مصلی کا داہنا ہے، سوائے اس کے کہ اس کے بائیں طرف کوئی نہ ہو اور چاہیئے کہ وہ انہیں اپنے دونوں پاؤں کے بیچ میں رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥٥) (حسن صحیح )
نمازی اگر اپنے جوتے اتارے تو کہاں رکھے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے اور اپنے جوتے اتارے تو ان کے ذریعہ کسی کو تکلیف نہ دے،چاہیے کہ انہیں اپنے دونوں پاؤں کے بیچ میں رکھ لے یا انہیں پہن کر نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣١) (صحیح )
چھوٹے بوریے میں نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن شداد (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین میمونہ بنت حارث (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے ہوتی اور حائضہ ہوتی، جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو بسا اوقات آپ کا کپڑا مجھ سے لگ جاتا، آپ ﷺ چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٣٠ (٣٣٣) ، والصلاة ١٩ (٣٧٩) ، ٢١ (٣٨١) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٥١٣) ، سنن النسائی/المساجد ٤٤ (٧٣٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٠ (٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠١ (١٤١٣) (صحیح )
چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں بھاری بھر کم آدمی ہوں ۔ وہ بھاری بھر کم تھے بھی، میں آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا ہوں، انصاری نے آپ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر بلایا اور کہا : آپ یہاں نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں آپ کو دیکھ لوں کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں ؟ تو میں آپ کی پیروی کیا کروں، پھر ان لوگوں نے اپنی ایک چٹائی کا کنارہ دھویا، رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ راوی کہتے ہیں : فلاں بن جارود نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے آپ کو کبھی اسے پڑھتے نہیں دیکھا سوائے اس دن کے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤١ (٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٠، ١٣١، ١٨٤، ٢٩١) (صحیح )
چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ام سلیم (رض) کی زیارت کے لیے آتے تھے، تو کبھی نماز کا وقت ہوجاتا تو آپ ہماری ایک چٹائی پر جسے ہم پانی سے دھو دیتے تھے نماز ادا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٣٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٠ (٣٨٠) ، والأذان ٧٨ (٧٢٧) ، ١٦١ (٨٦٠) ، ١٦٤ (٨٧١) ، ١٦٧ (٨٧٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٥١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٩ (٣٣١) ، سنن النسائی/المساجد ٤٣ (٧٣٨) ، والإمامة ١٩ (٨٠٢) ، ٦٢ (٨٧٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣١) ، مسند احمد (٣/١٣١، ١٤٥، ١٤٩، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (١٣٢٤) (صحیح )
چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چٹائی اور دباغت دیئے ہوئے چمڑوں پر نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٤) (ضعیف) (یونس بن الحارث ضعیف ہیں اور ابوعون کے والد عبیداللہ بن سعید ثقفی مجہول ہیں، نیز مغیرہ (رض) سے ان کی روایت منقطع ہے )
کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، تو جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پر نہیں ٹیک پاتا تھا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٣ (٣٨٥) ، والمواقیت ١١ (٥٤٢) ، والعمل في الصلاة ٩ (١٢٠٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦٢٠) ، سنن الترمذی/الجمعة ٥٨ (٥٨٤) ، سنن النسائی/ الکبری التطبیق ٥٧ (٧٠٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٤ (١٠٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٢ (١٣٧٦) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس کرتے ہیں ؟ ، ہم نے عرض کیا : فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣٠) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٨ (٨١٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٠ (٩٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠١، ١٠٦) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم لوگ اپنی صفیں درست کرو ۔ یہ (جملہ آپ نے تاکید کے طور پر) تین بار کہا۔ اللہ کی قسم تم لوگ اپنی صفیں درست کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا ، نعمان بن بشیر کہتے ہیں : تو میں نے آدمی کو اپنے ساتھی کے مونڈھے سے مونڈھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٦١٦) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہماری صفیں درست کیا کرتے تھے، جیسے تیر درست کیے جاتے ہیں (اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا) یہاں تک کہ آپ کو یقین ہوگیا کہ ہم نے اسے آپ سے خوب اچھی طرح سیکھ اور سمجھ لیا ہے، تو ایک روز آپ متوجہ ہوئے، اتنے میں دیکھا کہ ایک شخص اپنا سینہ صف سے آگے نکالے ہوئے ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنی صفیں برابر رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٥ (٢٢٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٥ (٨١١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٠ (٩٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٢، ٢٧٦، ٢٧٧) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صفوں کے اندر ایک طرف سے دوسری طرف جاتے اور ہمارے سینوں اور مونڈھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے (یعنی ہمارے سینوں اور مونڈھوں کو برابر کرتے تھے) ، اور فرماتے تھے : (صفوں سے) آگے پیچھے مت ہونا، ورنہ تمہارے دل مختلف ہوجائیں گے ، آپ ﷺ فرماتے تھے : اللہ تعالیٰ اگلی صفوں پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے دعا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان ١٤ (٦٤٧) ، والإمامة ٢٥ (٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥١ (٩٩٣) ، مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٥، ٢٩٧، ٢٩٨، ٢٩٩، ٣٠٤) ، دی/الصلاة ٤٩(١٢٩٩) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں درست فرماتے، پھر جب ہم لوگ سیدھے ہوجاتے تو آپ الله أكبر کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٦٣، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٠) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ (قتیبہ کی روایت میں جسے انہوں نے ابوزاہریہ سے، اور ابوزاہریہ نے ابوشجرہ (کثیر بن مرہ) سے روایت کیا ہے، ابن عمر کا ذکر نہیں ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنی صفیں درست کرو، اور اپنے کندھے ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اور (صفوں کے اندر کا) شگاف بند کرو، اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو، جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا، اور جو شخص صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لينوا بأيدي إخوانکم کا مطلب ہے کہ جب کوئی شخص صف کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونا چاہے تو ہر ایک کو چاہیئے کہ اس کے لیے اپنے کندھے نرم کر دے یہاں تک کہ وہ صف میں داخل ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٣١ (٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٠، ١٩٢٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٧) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٢٨ (٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٦٠، ٢٨٣) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنی صفیں درست رکھو کیونکہ صف کی درستگی تکمیل نماز میں سے ہے (یعنی اس کے بغیر نماز ادھوری رہتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٤ (٧٢٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٣) ، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ٥٠ (٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٢٧ (٨١٢) ، مسند احمد (٣/١٧٧، ١٧٩، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٧٩، ٢٩١) ، سنن الدارمی/ الصلاة ٤٨ (١٢٩٨) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
صاحب مقصورہ محمد بن مسلم بن سائب کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز انس بن مالک (رض) کے بغل میں نماز پڑھی، تو انہوں نے کہا : کیا تم کو معلوم ہے کہ یہ لکڑی کیوں بنائی گئی ہے، میں نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے اس کا علم نہیں، انس نے کہا : رسول اللہ ﷺ اس پر اپنا ہاتھ رکھتے تھے، اور فرماتے تھے : برابر ہوجاؤ، اور اپنی صفیں سیدھی رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٥٤) (ضعیف) (مصعب اور محمد بن مسلم دونوں ضعیف ہیں )
صفیں برابر کرنے کا بیان
اس سند سے بھی انس (رض) سے یہی حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس لکڑی کو اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑتے، پھر (نمازیوں کی طرف) متوجہ ہوتے، اور فرماتے : سیدھے ہوجاؤ، اپنی صفیں درست کرلو ، پھر اسے بائیں ہاتھ سے پکڑتے اور فرماتے : سیدھے ہوجاؤ اور اپنی صفیں درست کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٤) (ضعیف) (اس سے پہلی والی حدیث ملاحظہ فرمائیں )
صفیں برابر کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلے اگلی صف پوری کرو، پھر اس کے بعد والی کو، اور جو کچھ کمی رہ جائے وہ پچھلی صف میں رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٣٠ (٨١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٢، ٢١٥، ٢٣٣) (صحیح )
صفیں برابر کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو نماز میں اپنے مونڈھوں کو نرم رکھنے والے ہیں ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جعفر بن یحییٰ کا تعلق اہل مکہ سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ٥٩٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صفیں درست کرنے کے لئے مصلیوں کو اگر کوئی آگے بڑھاتا ہے تو آگے بڑھ جاتے ہیں، اور پیچھے ہٹاتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں، یا نماز میں سکون و اطمینان کا پورا خیال کرتے ہیں، ادھر ادھر نہیں دیکھتے، اور نہ کندھے سے کندھا رگڑتے ہیں، بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ صفوں کے درمیان شگاف کو بند کرنے کے لئے یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے صف کے بیچ میں آ کر کوئی داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے داخل ہوجانے دیتے ہیں اس سے مزاحمت نہیں کرتے۔
ستونوں کے بیچ میں صف قائم کرنا
عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کے ساتھ جمعہ کے دن نماز پڑھی (جگہ کی تنگی اور ہجوم کے سبب سے) ہم ستونوں کے بیچ میں کھڑے ہونے پر مجبور کردیئے گئے، تو ہم آگے پیچھے ہونے لگے، اس پر انس نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس سے بچتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٥٥ (٢٢٩) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٣ (٨٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے سے بچتے تھے کیونکہ اس سے صف ٹوٹ جاتی ہے۔
امام سے قریب رہنا باعث ثواب ہے اور اس سے دور رہنا نا پسندیدہ ہے
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے عقلمند اور باشعور لوگ میرے قریب رہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٣ (٨٠٨) ، ٢٦ (٨١٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٥ (٩٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥١ (١٣٠٢) (صحیح )
امام سے قریب رہنا باعث ثواب ہے اور اس سے دور رہنا نا پسندیدہ ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں اس میں اتنا اضافہ ہے : تم لوگ صف میں آگے پیچھے نہ رہو، ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف ہوجائے گا، اور تم (مسجدوں میں) بازاروں جیسے شور و غل سے بچو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٤ (٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٥٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥١ (١٣٠٣) (صحیح )
امام سے قریب رہنا باعث ثواب ہے اور اس سے دور رہنا نا پسندیدہ ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ صفوں کے دائیں طرف کے لوگوں پر اپنی رحمت بھیجتا ہے، اور اس کے فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٥ (١٠٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٧، ٨٩، ١٦٠) ، (حسن) بلفظ : ” على الذين يصلون الصفوف “۔
صف میں بچے کہاں کھڑے ہوں
عبدالرحمٰن بن غنم کہتے ہیں کہ ابو مالک اشعری (رض) نے کہا : کیا میں تم کو رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں ؟ آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، پہلے مردوں کی صف لگوائی، ان کے پیچھے بچوں کی، پھر آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی۔ پھر ابومالک (رض) نے آپ کی نماز کی کیفیت بیان کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : (میری امت کی) نماز اسی طرح ہے ۔ عبدالاعلیٰ کہتے ہیں کہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ آپ نے میری امت کی نماز فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤١، ٣٤٣، ٣٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی شہر بن حوشب ضعیف ہیں )
عورتوں کی ص
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی سب سے بہتر پہلی صف، اور سب سے بری آخری صف ہے، اور عورتوں کی ١ ؎ سب سے بہتر آخری صف، سب سے بری پہلی صف ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٤٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٢ (٢٢٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٢ (٨٢١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٢ (١٠٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٣٧، ١٢٥٨٩، ١٢٥٩٦، ١٢٧٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٧، ٣٣٦، ٣٤٠، ٣٦٦، ٤٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٢ (١٣٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد وہ عورتیں ہیں جو مردوں کے ساتھ نماز پڑھ رہی ہوں، رہیں وہ عورتیں جو مردوں سے الگ پڑھ رہیں ہوں تو ان کی بھی سب سے بہتر صف پہلی ہی صف ہوگی اور سب سے بری آخری صف ہوگی۔
عورتوں کی ص
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ پہلی صف سے پیچھے ہٹتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو جہنم میں پیچھے ڈال دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٨٦) (صحیح) (حدیث میں واقع لفظ في النار کے ثبوت میں کلام ہے، ملاحظہ ہو : صحیح الترغیب : ٥١٠، وتراجع الالبانی : ١٤٦ ) وضاحت : ١ ؎ : وہاں عذاب کی شدت زیادہ ہوگی بہ نسبت آگے کے۔
عورتوں کی ص
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پہلی صف سے پیچھے رہتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : آگے آؤ اور میری پیروی کرو، اور تمہارے پیچھے جو لوگ ہیں وہ تمہاری پیروی کریں، کچھ لوگ ہمیشہ پیچھے رہا کریں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی انہیں پیچھے ڈال دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٨) ، سنن النسائی/الإمامة ١٧ (٧٩٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٥ (٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩، ٣٤، ٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت و فضل عظیم، اور بلند مرتبہ سے پیچھے کر دے گا۔
امام صف کے آگے کہاں کھڑا ہو؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام کو (صف کے) بیچ میں کھڑا کرو، اور خالی جگہوں کو پر کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٦٠٠) (ضعیف) (لیکن حدیث میں واقع دوسرا جملہ وسدوا الخلل صحیح ہے) (یحییٰ بن بشیر کی والدہ مجہول ہیں )
صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنا
وابصہ بن معبد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، تو آپ نے اسے (نماز) لوٹانے کا حکم دیا۔ سلیمان بن حرب کی روایت میں ہے نماز کو لوٹانے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٥٨ (٢٣٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٤ (١٠٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٤/٢٢٧، ٢٢٨، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (١٣٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے میں اہل علم کا اختلاف ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے شخص کی نماز ظاہر حدیث کی رو سے فاسد ہے، یہی قول ابراہیم نخعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، مالک، اوزاعی اور شافعی کا کہنا ہے کہ اس کی نماز درست ہے، اور یہی قول اصحاب الرای کا بھی ہے ان لوگوں نے اس حدیث کی تاویل یہ کی ہے کہ اعادہ کا یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں۔
امام کو رکوع میں جاتے ہوئے دیکھ کر صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کرنا
ابوبکرہ (رض) کا بیان ہے کہ وہ مسجد میں آئے اور اللہ کے نبی کریم ﷺ رکوع میں تھے، وہ کہتے ہیں : تو میں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کرلیا، تو نبی اکرم ﷺ نے (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) فرمایا : اللہ تمہارے شوق کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٤ (٧٨٣) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٣ (٨٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩، ٤٢، ٤٥، ٤٦، ٥٠) (صحیح )
امام کو رکوع میں جاتے ہوئے دیکھ کر صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کرنا
ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ (مسجد میں) آئے اس حال میں کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں تھے، انہوں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کرلیا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چلے، جب نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ چکے، تو آپ نے پوچھا : تم میں سے کس نے صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کیا تھا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چل کر آیا ؟ ، ابوبکرہ نے کہا : میں نے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تمہاری نیکی کی حرص کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زياد الأعلم سے مراد زیاد بن فلاں بن قرہ ہیں، جو یونس بن عبید کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٩) (صحیح )
سترہ کا بیان
طلحہ بن عبیداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نے (اونٹ کے) کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے مثل کوئی چیز اپنے سامنے رکھ لی تو پھر تمہارے سامنے سے کسی کا گزرنا تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٤٩٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٨ (٣٣٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٦ (٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠١١) وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦١، ١٦٢) (صحیح )
سترہ کا بیان
عطاء (عطاء بن ابی رباح) کہتے ہیں کجاوہ کی پچھلی لکڑی ایک ہاتھ کی یا اس سے کچھ بڑی ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٠٦٣) (صحیح )
سترہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن نکلتے تو برچھی (نیزہ) لے چلنے کا حکم دیتے، وہ آپ ﷺ کے سامنے رکھی جاتی، تو آپ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے، اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے ہوتے، اور ایسا آپ سفر میں کرتے تھے، اسی وجہ سے حکمرانوں نے اسے اختیار کر رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٠ (٤٩٤) ، والعیدین ١٣ (٩٧٢) ، ١٤ (٩٧٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠١) ، تحفةالأشراف (٧٩٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العیدین ٩ (١٥٦٦) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ١٦٤ (١٣٠٥) ، مسند احمد (٢/٩٨، ١٤٢، ١٤٥، ١٥١) ، سنن الدارمی/ الصلاة ١٢٤ (١٤٥٠) (صحیح )
سترہ کا بیان
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھائیں اور آپ کے سامنے برچھی (بطور سترہ) تھی، اور برچھی کے پیچھے سے عورتیں اور گدھے گزرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٠ (١٨٧) ، والصلاة ١٧ (٣٧٦) ، ٩٣ (٤٩٥) ، ٩٤ (٤٩٩) ، والمناقب ٢٣ (٣٥٥٣) ، واللباس ٣ (٥٧٨٦) ، ٤٢ (٥٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٨١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٢٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٢ (١٩٧) ، سنن النسائی/الطھارة ١٠٣ (١٣٧) ، والأذان ١٣ (٦٤٤) ، والزینة ١٢٣ (٣٥٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٧١١) ، مسند احمد (٤/٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨ (١٢٣٥) ، ١٢٤ (١٤٤٩) (صحیح )
جب سترہ کے لئے لکڑی نہ ہو تو زمین پر لکیر کھینچ لیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی شخص نماز پڑھنے کا قصد کرے، تو اپنے آگے (بطور سترہ) کوئی چیز رکھ لے، اگر کوئی چیز نہ پائے تو لاٹھی ہی گاڑ لے، اور اگر اس کے ساتھ لاٹھی بھی نہ ہو تو زمین پر ایک لکیر (خط) کھینچ لے، پھر اس کے سامنے سے گزرنے والی کوئی بھی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ٣٦ (٩٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٠) ، وقد أخرجہ : حم ( ٢/٢٤٩، ٢٥٤، ٢٦٦) (ضعیف) (اس حدیث کے روای ابوعمرو اور ان کے دادا حریث کے ناموں میں بڑا اختلاف ہے، نیز یہ دونوں مجہول راوی ہیں، آگے مؤلف اس کی تفصیل دے رہے ہیں )
جب سترہ کے لئے لکڑی نہ ہو تو زمین پر لکیر کھینچ لیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا، پھر سفیان نے لکیر کھینچنے کی حدیث بیان کی۔ سفیان کہتے ہیں : ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے اس حدیث کو تقویت مل سکے، اور یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے۔ علی بن مدینی کہتے ہیں : میں نے سفیان سے پوچھا : لوگ تو ابو محمد بن عمرو بن حریث کے نام میں اختلاف کرتے ہیں ؟ تو سفیان نے تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد کہا : مجھے تو ان کا نام ابو محمد بن عمرو ہی یاد ہے۔ سفیان کہتے ہیں : اسماعیل بن امیہ کی وفات کے بعد ایک شخص یہاں (کوفہ) آیا، اور اس نے ابو محمد کو تلاش کیا یہاں تک کہ وہ اسے ملے، تو اس نے ان سے اس (حدیث خط) کے متعلق سوال کیا، تو ان کو اشتباہ ہوگیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل سے سنا، آپ سے متعدد بار لکیر کھینچنے کی کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا : تو آپ نے کہا : وہ اس طرح ہلال کی طرح چوڑائی میں ہوگی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور میں نے مسدد کو کہتے سنا کہ ابن داود کا بیان ہے کہ لکیر لمبائی میں ہوگی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل (رح) سے لکیر کی کیفیت کے بارے میں متعدد بار سنا، انہوں نے کہا : اس طرح یعنی چوڑائی میں چاند کی طرح محور اور مدور یعنی مڑا ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٤٠) (ضعیف) (مذکورہ سبب سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے )
جب سترہ کے لئے لکڑی نہ ہو تو زمین پر لکیر کھینچ لیں
سفیان بن عیینہ کا بیان ہے کہ میں نے شریک کو دیکھا، انہوں نے ہمارے ساتھ ایک جنازے کے موقع پر عصر پڑھی تو اپنی ٹوپی (بطور سترہ) اپنے سامنے رکھ لی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح )
اونٹ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے اونٹ کو قبلہ کی طرف کر کے اس کی آڑ میں نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٩ (٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٠ (٤٣٠) ، مسند احمد (٢/١٠٦، ١٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٦ (١٤٥٢) (صحیح )
جب نماز پڑھے تو سترہ کو کس چیز کے مقابل کرے
مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں میں نے جب بھی رسول اللہ ﷺ کو کسی لکڑی یا ستون یا درخت کی طرف نماز پڑھتے دیکھا، تو آپ اسے اپنے داہنے ابرو یا بائیں ابرو کے مقابل کئے ہوتے، اسے اپنی دونوں آنکھوں کے بیچوں بیچ میں نہیں رکھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤) (ضعیف) (اس کے رواة میں ولید لین الحدیث اور مہلب اور ضباعہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ بت پرستوں سے مشابہت نہ ہو۔
گفتگو کرنے والے یا سونے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھو، اور نہ بات کرنے والے کے پیچھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٠ ( ٩٥٩ ) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٨ ) (حسن) (اس حدیث میں عبدالملک و عبداللہ بن یعقوب دونوں مجہول، اور عبداللہ کے شیخ مبہم ہیں ، لیکن شواہد کے بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو : ارواء الغلیل حدیث نمبر : ٣٧٥ ، و صحیح ابی داود : ٣؍٦٩١)
سترہ سے نزدیک ہو کر کھڑے ہونے کا بیان
سہل بن ابی حثمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص سترے کی آڑ میں نماز پڑھے تو چاہیئے کہ اس کے نزدیک رہے، تاکہ شیطان اس کی نماز توڑ نہ سکے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے واقد بن محمد نے صفوان سے، صفوان نے محمد بن سہل سے، محمد نے اپنے والد سہل بن ابی حثمہ سے، یا (بغیر اپنے والد کے واسطہ کے) نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور بعض نے نافع بن جبیر سے اور نافع نے سہل بن سعد (رض) سے، اور اس کی سند میں اختلاف کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القبلة ٥ (٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢) (صحیح )
سترہ سے نزدیک ہو کر کھڑے ہونے کا بیان
سہل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے کھڑے ہونے کی جگہ اور قبلہ (کی دیوار) کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے بقدر جگہ ہوتی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حدیث کے الفاظ نفیلی کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩١ (٤٩٦) ، والاعتصام ١٥ (٧٣٣٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٠٧) (صحیح )
اگر کوئی نماز کے سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہئیے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے، بلکہ جہاں تک ہو سکے اسے روکے، اگر وہ نہ رکے تو اس سے قتال کرے (یعنی سختی سے روکے) کیونکہ وہ شیطان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٥) ، سنن النسائی/القبلة ٨ (٧٥٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٩ (٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ١٠(٣٣) ، مسند احمد (٣/٣٤، ٤٣، ٤٤، ٤٩، ٥٧، ٩٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٥ (١٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی شیطانوں کا سا کام کر رہا ہے روکنے سے بھی نہیں مانتا۔
اگر کوئی نماز کے سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہئیے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو کسی سترے کی طرف منہ کر کے پڑھے، اور اس سے قریب رہے ۔ پھر ابن عجلان نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤١١٧) (حسن صحیح )
اگر کوئی نماز کے سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہئیے
سلیمان بن عبدالملک کے دربان ابو عبید بیان کرتے ہیں کہ میں نے عطاء بن زید لیثی کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا، تو میں ان کے سامنے سے گزرنے لگا، تو انہوں نے مجھے واپس کردیا، پھر (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) کہا : ابو سعید خدری (رض) نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص طاقت رکھے کہ کوئی شخص اس کے اور قبیلہ کے بیچ میں حائل نہ ہو تو وہ ایسا کرے (یعنی سامنے سے گزرنے والے کو روکے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١٥٩) (حسن صحیح )
اگر کوئی نماز کے سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہئیے
ابوصالح کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری (رض) کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا اور سنا، وہ تم سے بیان کرتا ہوں : ابو سعید خدری (رض) مروان کے پاس گئے، تو عرض کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو (جسے وہ لوگوں کے لیے سترہ بنائے) سامنے کر کے نماز پڑھے، پھر کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ سینہ پر دھکا دے کر اسے ہٹا دے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے (یعنی سختی سے دفع کرے) کیونکہ وہ شیطان ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سفیان ثوری کا بیان ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور کوئی آدمی میرے سامنے سے اتراتے ہوئے گزرتا ہے تو میں اسے روک دیتا ہوں، اور کوئی ضعیف العمر کمزور گزرتا ہے تو اسے نہیں روکتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠٠ (٥٠٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٣) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے گزرنے کی ممانعت
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ زید بن خالد جہنی (رض) نے انہیں ابوجہیم (رض) کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ تو ابوجہیم (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اگر مصلی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لے کہ اس پر کس قدر گناہ ہے، تو اس کو مصلی کے سامنے گزرنے سے چالیس (دن یا مہینے یا سال تک) وہیں کھڑا رہنا بہتر لگتا ۔ ابونضر کہتے ہیں : مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠١ (٥١٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٨ (٥٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٩ (٣٣٦) ، سنن النسائی/القبلة ٨ (٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٧ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصر الصلاة ١٠ (٣٤) ، مسند احمد (٤/١٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٠ (١٤٥٦) (صحیح )
کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ (حفص کی روایت میں ہے) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ ابوذر (رض) نے کہا جب آدمی کے سامنے کجاوہ کے اگلے حصہ کی لکڑی کے برابر کوئی چیز نہ ہو، تو گدھے، کالے کتے اور عورت کے گزر جانے سے اس کی نماز ٹوٹ جائے گی ١ ؎۔ میں نے عرض کیا : سرخ، زرد یا سفید رنگ کے کتے کے مقابلے میں کالے کتے کی کیا وجہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میرے بھتیجے ! میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے ایسے ہی پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کالا کتا شیطان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٥٠ (٥١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤١ (٣٣٨) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٨ (٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٩، ١٥١، ١٥٥، ١٦٠، ١٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٨ (١٤٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور علماء نے اس روایت کی تاویل یہ کی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے مراد نماز میں نقص پیدا ہونا ہے، کیونکہ ان چیزوں کے گزرنے سے مصلی کا دھیان بٹ جاتا ہے اور خشوع و خضوع میں فرق آجاتا ہے۔
کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں (شعبہ نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے) : نماز حائضہ عورت اور کتا (مصلی کے سامنے گزرنے) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے سعید، ہشام اور ہمام نے قتادہ سے، قتادہ نے جابر بن زید سے، جابر نے ابن عباس (رض) سے موقوفاً یعنی ان کا اپنا قول نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القبلہ ٧ (٧٥٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٨ (٩٤٩) ، مسند احمد (١/٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٩) (صحیح )
کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں، عکرمہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ وہ اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں : جب تم میں سے کوئی شخص بغیر سترہ کے نماز پڑھے تو اس کی نماز کتا، گدھا، سور، یہودی، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے باطل ہوجاتی ہے، البتہ اگر یہ ایک پتھر کی مار کی دوری سے گزریں تو نماز ہوجائے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کے سلسلے میں میرے دل میں کچھ کھٹک اور شبہ ہے، میں اس حدیث کے متعلق ابراہیم اور دوسرے لوگوں سے مذاکرہ کرتا یعنی پوچھتا تھا کہ کیا معاذ کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث ہشام سے روایت کی ہے، تو کسی نے مجھے اس کا جواب نہیں دیا اور کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسے ہشام سے کسی اور نے بھی روایت کیا ہے یا نہیں، اور نہ ہی میں نے کسی کو اسے ہشام سے روایت کرتے دیکھا (سوائے معاذ کے) ، میرا خیال ہے کہ یہ ابن ابی سمینہ (یعنی بنی ہاشم کے آزاد کردہ غلام محمد بن اسماعیل بصریٰ ) کا وہم ہے، اس میں مجوسی کا ذکر منکر ہے، اور اس میں پتھر کی مار کی دوری، اور خنزیر کا ذکر ہے، اس میں بھی نکارت ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث محمد بن اسماعیل بن سمینہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں سنی، اور میرا خیال ہے کہ انہیں وہم ہوا ہے، کیونکہ وہ ہم سے اپنے حافظے سے حدیثیں بیان کیا کرتے تھے تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٥) (ضعیف) (ابن أبی سمینہ ثقہ راوی ہیں، ممکن ہے یحییٰ بن أبی کثیر سے وہم واقع ہوا ہو، نیز یحییٰ مدلس ہیں، ممکن ہے تدلیس سے کام لے کر موقوف کو أحسبہ کے ذریعہ مرفوع بنادیا ہو، ابن عباس (رض) پر موقوفاً یہ روایت صحیح ہے )
کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
یزید بن نمران کہتے ہیں کہ میں نے تبوک میں ایک اپاہج کو دیکھا، اس نے کہا : میں نبی اکرم ﷺ کے سامنے سے گدھے پر سوار ہو کر گزرا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! اس کی چال کاٹ دے ، تو میں اس دن کے بعد سے گدھے پر سوار ہو کر چل نہیں سکا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦٤، ٥/٣٧٦) (ضعیف) (اس کے راوی مولی یزید مجہول ہیں )
کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
سعید سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں انہوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے ہماری نماز کاٹ دی، اللہ اس کی چال کاٹ دے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابومسہر نے بھی سعید سے روایت کیا ہے، جس میں صرف اتنا ہے : اس نے ہماری نماز کاٹ دی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٤) (ضعیف )
کس چیز کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
غزوان کہتے ہیں کہ وہ حج کو جاتے ہوئے تبوک میں اترے، انہیں ایک اپاہج آدمی نظر آیا، انہوں نے اس سے اس کا حال پوچھا، تو اس آدمی نے غزوان سے کہا کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا، بشرطیکہ تم اس حدیث کو کسی سے اس وقت تک بیان نہ کرنا جب تک تم یہ سننا کہ میں زندہ ہوں، رسول اللہ ﷺ تبوک میں ایک درخت کی آڑ میں اترے اور فرمایا : یہ ہمارا قبلہ ہے ، پھر آپ نے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کی، میں ایک لڑکا تھا، دوڑتا ہوا آیا یہاں تک کہ آپ کے اور درخت کے بیچ سے ہو کر گزر گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے ہماری نماز کاٹ دی، اللہ اس کا قدم کاٹ دے ، چناچہ اس روز سے آج تک میں اس پر کھڑا نہ ہوسکا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی سعید بن غزوان مجہول ہیں )
امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہے
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اذاخر ١ ؎ کی گھاٹی میں اترے تو نماز کا وقت ہوگیا، آپ ﷺ نے ایک دیوار کو قبلہ بنا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور ہم آپ کے پیچھے تھے، اتنے میں بکری کا ایک بچہ آ کر آپ ﷺ کے سامنے سے گزرنے لگا، تو آپ اسے دفع کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا پیٹ دیوار میں چپک گیا، وہ سامنے سے نہ جاسکے، آخر وہ آپ ﷺ کے پیچھے سے ہو کر چلا گیا، مسدد نے اسی کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨١١، ألف) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ١٩٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔
امام کا سترہ مقتدیوں کا سترہ ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک بکری کا بچہ آپ کے سامنے سے گزرنے لگا، تو آپ اسے دور کرنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٩ (٩٥٣) ، مسند احمد (١/٢٩١، ٣٤١) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے عورت گزرنا مفسد صلوة نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے اور قبلہ کے بیچ میں ہوتی تھی، شعبہ کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا : اور میں حائضہ ہوتی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے زہری، عطاء، ابوبکر بن حفص، ہشام بن عروہ، عراک بن مالک، ابواسود اور تمیم بن سلمہ سبھوں نے عروہ سے، عروہ نے عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے، اور ابراہیم نے اسود سے، اسود نے عائشہ سے، اور ابوالضحیٰ نے مسروق سے، مسروق نے عائشہ سے، اور قاسم بن محمد اور ابوسلمہ نے عائشہ سے روایت کیا ہے، البتہ ان لوگوں نے وأنا حائض اور میں حائضہ ہوتی تھی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٩ (٣٨٢) ، ٢١ (٣٨٣) ، ١٠٣ (٥١٢) ، ١٠٤ (٥١٣) ، والوتر ٣ (٩٩٧) ، والعمل في الصلاة ١٠ (١٢٠٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٢) ، والمسافرین ١٧ (١٣٥) ، سنن النسائی/القبلة ١٠ (٧٦٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٠ (٩٥٦) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ١(٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٧ (١٤٥٣) ، مسند احمد (٦/٩٤، ٩٨، ١٧٦) (صحیح) دون قولہ : وأنا حائض
نمازی کے سامنے سے عورت گزرنا مفسد صلوة نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی رات کی نماز پڑھتے اور وہ آپ کے اور قبلے کے بیچ میں اس بچھونے پر لیٹی رہتیں جس پر آپ سوتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو انہیں جگاتے تو وہ بھی وتر پڑھتیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٩٠٢، ١٦٣٣٣) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے عورت گزرنا مفسد صلوة نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ تم لوگوں نے بہت برا کیا کہ ہم عورتوں کو گدھے اور کتے کے برابر ٹھہرا دیا، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے عرض میں لیٹی رہتی تھی، جب آپ ﷺ سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے، میں اسے سمیٹ لیتی پھر آپ سجدہ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٧) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے عورت گزرنا مفسد صلوة نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں سوئی رہتی تھی، میرے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہوتے اور آپ رات میں نماز پڑھ رہے ہوتے، جب آپ ﷺ سجدہ کرنا چاہتے تو میرے دونوں پاؤں کو مارتے تو میں انہیں سمیٹ لیتی پھر آپ سجدہ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٩ (٣٨٢) ، العمل فی الصلاة ١٠ (١٢٠٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٢) ، سنن النسائی/القبلة ١٠ (٧٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٨، ٢٢٥) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے عورت گزرنا مفسد صلوة نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی سمت میں لیٹی رہتی، آپ نماز پڑھتے اور میں آپ کے آگے ہوتی، جب آپ ﷺ وتر پڑھنا چاہتے (عثمان کی روایت میں یہ اضافہ ہے : تو آپ مجھے اشارہ کرتے ، پھر عثمان اور قعنبی دونوں روایت میں متفق ہیں) تو آپ ﷺ فرماتے : سرک جاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨٢) (حسن صحیح )
نمازی کے سامنے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں بالغ ہونے کے قریب ہوچکا تھا، اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں صف کے بعض حصے کے آگے سے گزرا، پھر اترا تو گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، اور صف میں شریک ہوگیا، تو کسی نے مجھ پر نکیر نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ قعنبی کے الفاظ ہیں اور یہ زیادہ کامل ہیں۔ مالک کہتے ہیں : جب نماز کھڑی ہوجائے تو میں اس میں گنجائش سمجھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ١٨ (٧٦) ، والصلاة ٩٠ (٤٩٣) ، والأذان ١٦١ (٨٦١) ، وجزاء الصید ٢٥ (١٨٥٧) ، والمغازي ٧٧ (٤٤١٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٠ (٣٣٧) ، سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٨ (٩٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ١١(٣٨) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٦٤، ٣٣٧، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٩(١٤٥٥) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی
ابوصہباء کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس (رض) کے پاس ان چیزوں کا تذکرہ کیا جو نماز کو توڑ دیتی ہیں، تو انہوں نے کہا : میں اور بنی عبدالمطلب کا ایک لڑکا دونوں ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، ہم دونوں اترے اور گدھے کو صف کے آگے چھوڑ دیا، تو آپ ﷺ نے کچھ پرواہ نہ کی، اور بنی عبدالمطلب کی دو لڑکیاں آئیں، وہ آ کر صف کے درمیان داخل ہوگئیں تو آپ نے اس کی بھی کچھ پرواہ نہ کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی
منصور سے یہی حدیث اس سند سے بھی مروی ہے، اس میں یہ ہے کہ ابن عباس (رض) نے کہا : بنی عبدالمطلب کی دو لڑکیاں لڑتی ہوئی آئیں، تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو پکڑ لیا، عثمان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے پکڑ کر دونوں کو جدا کردیا۔ اور داود بن مخراق کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک کو دوسرے سے جدا کردیا، اور اس کی کچھ پرواہ نہ کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٧) (صحیح )
نمازی کے سامنے سے کتا گذر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی
فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک صحرا میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ساتھ عباس (رض) بھی تھے، آپ ﷺ نے صحرا (کھلی جگہ) میں نماز پڑھی، اس حال میں کہ آپ کے سامنے سترہ نہ تھا، اور ہماری گدھی اور کتیا دونوں آپ ﷺ کے سامنے کھیل رہی تھیں، لیکن آپ نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القبلة ٧ (٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١١، ٢١٢) (ضعیف) (اس کے راوی عباس لین الحدیث ہیں )
دو ران نماز کسی بھی چیز کے سامنے سے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی، اور جہاں تک ہو سکے گزرنے والے کو دفع کرو، کیونکہ وہ شیطان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٩) (ضعیف) (اس کے راوی مجالد ضعیف ہیں ، اور پہلا جزء صحیح احادیث کے مخالف ہے، ہاں دوسرے حصے کے صحیح شواہد ہیں )
دو ران نماز کسی بھی چیز کے سامنے سے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی
ابوالوداک کہتے ہیں کہ ابو سعید خدری (رض) نماز پڑھ رہے تھے کہ قریش کا ایک نوجوان ان کے سامنے سے گزرنے لگا، تو انہوں نے اسے دھکیل دیا، وہ پھر آیا، انہوں نے اسے پھر دھکیل دیا، اس طرح تین بار ہوا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے کہا : نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی، لیکن رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جہاں تک ہو سکے تم دفع کرو، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جب رسول اللہ ﷺ سے مروی دو حدیثوں میں تعارض ہو، تو وہ عمل دیکھا جائے گا جو آپ کے صحابہ کرام نے آپ کے بعد کیا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٨٩) (ضعیف) (اس سے پہلی والی حدیث ملاحظہ فرمائیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں دو حدیثیں ایک دوسرے کے معارض تو ہیں مگر دوسری حدیث ” نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی “ ضعیف ہے، اس لیے دونوں میں تطبیق کے لیے اب کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے، ہاں نماز ٹوٹ جانے سے مطلب باطل ہونا نہیں بلکہ خشوع و خضوع میں کمی واقع ہونا ہے، جمہور علماء نے یہی مطلب بیان کیا ہے، اور اسی معنی میں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار و اقوال کو لیا جائے گا جن سے یہ مروی ہے کہ ” نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی “۔
رفع یدین کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے (تو بھی اسی طرح کرتے) ، اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد بھی۔ سفیان نے ( اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد بھی کے بجائے) ایک مرتبہ یوں نقل کیا : اور جب آپ اپنا سر اٹھاتے ، اور زیادہ تر سفیان نے : رکوع سے اپنا سر اٹھانے کے بعد کے الفاظ ہی کی روایت کی ہے، اور آپ دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٣ (٧٣٥) ، ٨٤ (٧٣٦) ، ٨٥ (٧٣٨) ، ٨٦ (٧٣٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٦ (٢٥٥، ٢٥٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ١ (٨٧٥) ، ٨٦ (١٠٢٦) ، والتطبیق ١٩ (١٠٥٨) ، ٢١ (١٠٦٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥ (٨٥٨) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤(١٦) ، مسند احمد (٢ /٨، ١٨، ٤٤، ٤٥، ٤٧، ٦٢، ١٠٠، ١٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٥) ، ٧١ (١٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٦، ٦٨٤١) (صحیح )
رفع یدین کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (رفع یدین کرتے) ، یہاں تک کہ وہ آپ کے دونوں کندھوں کے مقابل ہوجاتے، پھر آپ ﷺ الله أكبر کہتے، اور وہ دونوں ہاتھ اسی طرح ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر جب رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھانے کا ارادہ کرتے تو بھی ان دونوں کو اٹھاتے (رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ وہ آپ کے کندھوں کے بالمقابل ہوجاتے، پھر آپ ﷺ سمع الله لمن حمده کہتے، اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ نہ اٹھاتے، اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہوجاتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٦، ٦٩٢٨) (صحیح )
رفع یدین کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ ﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا، اور انہیں اپنے کپڑے میں داخل کرلیا، جب آپ نے رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ (چادر سے) نکالے پھر رفع یدین کیا، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کیا تو رفع یدین کیا، پھر سجدہ کیا اور اپنی پیشانی کو دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں رکھا، اور جب سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو رفع یدین ١ ؎ کیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے۔ محمد کہتے ہیں : میں نے حسن بصری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا : یہی رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے، کرنے والوں نے ایسا ہی کیا اور چھوڑنے والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ أبوداود کہتے ہیں : اس حدیث کو ہمام نے بھی ابن جحادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٥ (٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٤، ١١٧٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ١١ (٨٩٠) ، الافتتاح ١٣٩ (١١٠٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣ (٨١٠) ، مسند احمد (٤/٣١٧، ٣١٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٥ (١٢١٧) ، ٩٢ (١٣٩٧) (ولیس عند أحد ذکر رفع الیدین مع الرفع من السجود) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کے سوا کسی کے یہاں بھی سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں ہے، اکثر علماء کے نزدیک مؤلف کی یہ روایت منسوخ ہے۔
رفع یدین کا بیان
عبدالجبار بن وائل کہتے ہیں : مجھ سے میرے گھر والوں نے بیان کیا کہ میرے والد نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو تکبیر کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٦) (صحیح )
رفع یدین کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے رفع یدین کیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہوئے، اور آپ ﷺ کے دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے بالمقابل ہوئے پھر آپ ﷺ نے الله أكبر کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٦١) (ضعیف) (عبدالجبار کی اپنے والد سے روایت ثابت نہیں ہے، نیز کبر کا لفظ منکر ہے، کیونکہ تکبیر رفع الیدین کے پہلے ہوگی یا ساتھ میں، رفع الیدین کے بعد نہیں جیسا کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے )
رفع یدین کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں ضرور رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز ادا کرتے ہیں ؟ (میں نے دیکھا) کہ رسول اللہ ﷺ قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور آپ نے اللہ اکبر کہا، پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ وہ دونوں کانوں کے بالمقابل ہوگئے، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑا، پھر جب آپ ﷺ نے رکوع کا ارادہ کیا تو بھی اسی طرح ہاتھوں کو اٹھایا، پھر دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے، پھر رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی انہیں اسی طرح اٹھایا، پھر جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ اس جگہ پہ رکھا، پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھایا، اور بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کو داہنی ران سے جدا رکھا اور دونوں انگلیوں (خنصر، بنصر) کو بند کرلیا اور دائرہ بنا لیا (یعنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) ۔ بشر بن مفضل بیان کرتے ہیں : میں نے اپنے شیخ عاصم بن کلیب کو دیکھا وہ اسی طرح کرتے تھے، اور بشر نے انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا دائرہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الافتتاح ١١ (٨٩٠) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ٣ (٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٦، ٣١٧، ٣١٨، ٣١٩) (صحیح) ویأتی ہذا الحدیث عند المؤلف برقم (٩٥٧ )
رفع یدین کا بیان
عاصم بن کلیب نے اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت پہنچے اور کلائی پر رکھا، اس میں یہ بھی ہے کہ پھر میں سخت سردی کے زمانہ میں آیا تو میں نے لوگوں کو بہت زیادہ کپڑے پہنے ہوئے دیکھا، ان کے ہاتھ کپڑوں کے اندر ہلتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨١) (صحیح )
رفع یدین کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے بالمقابل اٹھایا، پھر میں (ایک زمانہ کے بعد) لوگوں کے پاس آیا تو میں نے انہیں دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ اپنے سینوں تک اٹھاتے اور حال یہ ہوتا کہ ان پر جبے اور چادریں ہوتیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ السہو ٣١ (١٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٣) (صحیح )
نماز شروع کرنے کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں میں سردی کے موسم میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو میں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ نماز میں (سردی کی وجہ سے) اپنے کپڑوں کے اندر ہی رفع یدین کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٦) (صحیح )
نماز شروع کرنے کا بیان
عبدالحمید بن جعفر کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن عمرو بن عطاء نے خبر دی ہے کہ میں نے ابو حمید ساعدی (رض) کو رسول اللہ ﷺ کے دس صحابہ کرام کے درمیان جن میں ابوقتادہ (رض) بھی تھے کہتے سنا : میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا : وہ کیسے ؟ اللہ کی قسم آپ ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرتے تھے، نہ ہم سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں آئے تھے۔ ابوحمید (رض) نے کہا : ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا : (اگر آپ زیادہ جانتے ہیں) تو پیش کیجئیے۔ ابوحمید (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر سیدھی ہوجاتی، پھر آپ ﷺ قرآت کرتے، پھر الله أكبر کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کرلیتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور رکوع میں پیٹھ اور سر سیدھا رکھتے، سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ ہی پیٹھ سے بلند رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور سمع الله لمن حمده کہتے، پھر اپنا دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ سیدھا ہو کر انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کرتے پھر الله أكبر کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور اپنے بائیں پیر کو موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں پیر کی انگلیوں کو نرم رکھتے اور (دوسرا) سجدہ کرتے پھر الله أكبر کہتے اور (دوسرے سجدہ سے) اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر واپس آجاتی، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو الله أكبر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے جس طرح کہ نماز شروع کرنے کے وقت الله أكبر کہا تھا، پھر اپنی بقیہ نماز میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب اس سجدہ سے فارغ ہوتے جس میں سلام پھیرنا ہوتا، تو اپنے بائیں پیر کو اپنے داہنے پیر کے نیچے سے نکال کر اپنی بائیں سرین پر بیٹھتے (پھر سلام پھیرتے) ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا : آپ نے سچ کہا، اسی طرح آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٥ (٨٢٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٨ (٣٠٤) ، سنن النسائی/التطبیق ٦ (١٠٤٠) ، والسہو ٢ (١١٨٢) ، ٢٩ (١٢٣٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥ (١٠٦١) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢٤) سنن الدارمی/الصلاة ٧٠ (١٣٤٦) (كلهم مختصرًا من سياق المؤلف، وليس عند البخاري ذکر رفع اليدين ما سوى عند التحريمة) (صحیح )
نماز شروع کرنے کا بیان
محمد بن عمرو ( بن عطاء) عامری کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس میں تھا، ان لوگوں نے آپس میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کا تذکرہ کیا، تو ابوحمید (رض) نے کہا ...، پھر راوی نے اسی حدیث کا بعض حصہ ذکر کیا، اور کہا : جب نبی اکرم ﷺ رکوع کرتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر جماتے اور اپنی انگلیوں کے درمیان کشادگی رکھتے، پھر نہ اپنی پیٹھ کو خم کرتے، نہ سر کو اونچا کرتے، نہ منہ کو دائیں یا بائیں جانب موڑتے (بلکہ سیدھا قبلہ کی جانب رکھتے) ، پھر جب دو رکعت کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور داہنا پاؤں کھڑا رکھتے، پھر جب آپ چوتھی رکعت میں ہوتے، تو اپنی بائیں سرین زمین پر لگاتے اور دونوں پاؤں ایک جانب (یعنی داہنی جانب) نکالتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) (صحیح) ( ولا صافح بخدہ کا جملہ صحیح نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تورک کرتے۔
نماز شروع کرنے کا بیان
اس سند سے بھی محمد بن عمرو بن عطاء سے اسی طرح مروی ہے، اس میں ہے جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے، نہ ہی انہیں بچھاتے اور نہ ہی انہیں سمیٹے رکھتے، اور اپنی انگلیوں کے کناروں سے قبلہ کا استقبال کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) (صحیح )
نماز شروع کرنے کا بیان
عباس بن سہل ساعدی یا عیاش بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ وہ ایک مجلس میں تھے، جس میں ان کے والد بھی تھے اور وہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے، مجلس میں ابوہریرہ، ابو حمید ساعدی، اور ابواسید رضی اللہ عنہم بھی تھے، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی و زیادتی کے ساتھ روایت کی، اس میں ہے : پھر آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لک الحمد کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر الله اکبر کہا اور سجدے میں گئے اور سجدے کی حالت میں اپنی دونوں ہتھیلیوں، گھٹنوں اور اپنے دونوں قدموں کے اگلے حصہ پر جمے رہے، پھر الله اکبر کہہ کر بیٹھے تو تورک کیا (یعنی سرین پر بیٹھے) اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا، پھر الله اکبر کہا اور سجدہ کیا، پھر الله اکبر کہا اور (سجدہ سے اٹھ کر) کھڑے ہوگئے، اور سرین پر نہیں بیٹھے ۔ پھر راوی عباس (رض) نے (آخر تک) حدیث بیان کی اور کہا : پھر آپ دونوں رکعتوں کے بعد بیٹھے، یہاں تک کہ جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھنے کا قصد کیا تو الله اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے، پھر بعد والی دونوں رکعتیں ادا کیں۔ اور راوی (عیسیٰ بن عبداللہ) نے تشہد میں تورک کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٧٨ (٢٦٠) ، ٨٦ (٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥ (٨٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) (ضعیف) (اس کے راوی عیسیٰ بن عبداللہ لین الحدیث ہیں )
نماز شروع کرنے کا بیان
عباس بن سہل بیان کرتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور آپس میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کا تذکرہ کیا تو ابوحمید نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کی نماز تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، پھر انہوں نے اس کے بعض حصے کا ذکر کیا اور کہا : پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے پر رکھا گویا آپ ان کو پکڑے ہوئے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح کیا اور انہیں اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھا، پھر آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو اپنی ناک اور پیشانی زمین پر جمائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی دونوں بغلوں سے جدا رکھا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل رکھیں، پھر اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی (آپ نے ایسے ہی کیا) یہاں تک کہ دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہوگئے پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھا لیا اور داہنے پیر کی انگلیاں قبلہ رخ کیں اور دائیں گھٹنے پر داہنی اور بائیں گھٹنے پر بائیں ہتھیلی رکھی اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عتبہ بن ابوحکیم نے عبداللہ بن عیسٰی سے انہوں نے عباس بن سہل سے روایت کیا ہے، اور اس میں تورک کا ذکر نہیں کیا ہے، اور اسے فلیح کی حدیث کی طرح (بغیر تورک کے) ذکر کیا ہے، اور حسن بن حر نے فلیح بن سلیمان اور عتبہ کی حدیث میں مذکور بیٹھک کی طرح ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) (صحیح )
نماز شروع کرنے کا بیان
اس طریق سے بھی ابوحمید (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے جب آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں کے کسی حصہ پر اٹھائے بغیر اپنی دونوں رانوں کے درمیان کشادگی رکھی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن مبارک نے روایت کیا ہے، ابن مبارک سے فلیح نے بیان کیا ہے، فلیح کہتے ہیں : میں نے عباس بن سہل کو بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں رکھ سکا۔ ابن مبارک کہتے ہیں : فلیح نے مجھ سے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ فلیح نے عیسیٰ بن عبداللہ کا ذکر کیا کہ انہوں نے اسے عباس بن سہل سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں : میں ابو حمید ساعدی (رض) کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے یہی حدیث روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) (ضعیف) (عبد اللہ بن عیسیٰ لین الحدیث ہیں )
نماز شروع کرنے کا بیان
وائل بن حجر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو آپ کے دونوں گھٹنے آپ کی ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑے، پھر جب آپ ﷺ سجدے میں چلے گئے تو اپنی پیشانی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا، اور اپنی دونوں بغلوں سے علیحدہ رکھا ۔ حجاج کہتے ہیں : ہمام نے کہا : مجھ سے شقیق نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : مجھ سے عاصم بن کلیب نے بیان کیا، عاصم نے اپنے والد کلیب سے، کلیب نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی حدیث میں، اور غالب گمان یہی ہے کہ محمد بن حجادہ کی حدیث میں یوں ہے : جب آپ سجدے سے اٹھے تو اپنے دونوں گھٹنوں پر اٹھے اور اپنی ران پر ٹیک لگایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٢) (ضعیف) (عبدالجبار کا اپنے والد وائل سے سماع نہیں ہے )
نماز شروع کرنے کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں انگوٹھے اپنے دونوں کانوں کی لو تک اٹھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٥(٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٩) (ضعیف) (ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ٧٢٤)
نماز شروع کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سجدے میں جانے کے لیے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٧ (٧٨٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٠ (٣٩٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٣ (٢٣٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٨٠ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧٠، ٤٥٤) (ضعیف) (ابن جریج مدلس ہیں اور یہاں عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
نماز شروع کرنے کا بیان
میمون مکی سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت اور رکوع کرنے کے وقت اور سجدہ اور قیام کے لیے اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، تو میں ابن عباس (رض) کے پاس گیا اور جا کر میں نے ان سے کہا کہ میں نے ابن زبیر کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا کہ کسی اور کو اس طرح پڑھتے نہیں دیکھا، پھر میں نے ان سے اس اشارہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : اگر تم رسول اللہ ﷺ کی نماز کو دیکھنا چاہتے ہو تو عبداللہ بن زبیر کی نماز کی پیروی کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٩) (صحیح) (اس کے راوی ابن لھیعہ ضعیف اور میمون مکی مجہول ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٣/٣٢٦ )
نماز شروع کرنے کا بیان
نضر بن کثیر بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن طاؤس نے مسجد خیف میں میرے بغل میں نماز پڑھی، جب آپ نے پہلا سجدہ کیا، اور اس سے اپنا سر اٹھایا تو اپنے چہرے کے بالمقابل انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تو مجھے یہ عجیب سا لگا، چناچہ میں نے وہیب بن خالد سے اس کا تذکرہ کیا تو وہیب نے عبداللہ بن طاؤس سے کہا : آپ ایک ایسا کام کر رہے ہیں جسے میں نے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ ! تو عبداللہ بن طاؤس نے کہا : میں نے اپنے والد کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابن عباس (رض) کو ایسا کرتے دیکھا، اور ان کے متعلق بھی مجھے یہی معلوم ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایسا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ١٧٧ (١١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٩) (صحیح) (اس کے راوی نضر بن کثیر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث نیز دوسرے شواہد کی بناء پر یہ حدیث بھی صحیح ہے )
نماز شروع کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ جب نماز میں داخل ہوتے تو الله اکبر کہتے، اور جب رکوع کرتے اور سمع الله لمن حمده کہتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب دونوں رکعتوں سے اٹھتے تو رفع یدین کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے، اسے وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صحیح یہی ہے کہ یہ ابن عمر (رض) کا قول ہے، مرفوع نہیں ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بقیہ نے اس حدیث کا ابتدائی حصہ عبیداللہ سے روایت کیا ہے، اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور ثقفی نے بھی اسے عبیداللہ سے روایت کیا ہے مگر ابن عمر (رض) پر موقوف ٹھہرایا ہے، اس میں یوں ہے : جب آپ دونوں رکعت پوری کر کے کھڑے ہوتے تو دونوں ہاتھ دونوں چھاتیوں تک اٹھاتے ، اور یہی صحیح ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے لیث بن سعد، مالک، ایوب اور ابن جریج نے موقوفاً روایت کیا ہے، صرف حماد بن سلمہ نے اسے ایوب کے واسطے سے مرفوعاً روایت کیا ہے، ایوب اور مالک نے اپنی روایت میں دونوں سجدوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے، البتہ لیث نے اپنی روایت میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن جریج نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا ہے کہ میں نے نافع سے پوچھا : کیا ابن عمر (رض) پہلی بار میں ہاتھ زیادہ اونچا اٹھاتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، بلکہ ہر مرتبہ برابر اٹھاتے تھے۔ میں نے کہا : اشارہ کر کے مجھے بتاؤ تو انہوں نے دونوں چھاتیوں تک یا اس سے بھی نیچے تک اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٣ (٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٧، ٨٣٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان سندوں سے یہ حدیث موقوف ہے، لیکن حدیث نمبر (٧٢١) میں اس کے مرفوع ہونے کی صراحت ہے۔
نماز شروع کرنے کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اس سے کم اٹھاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جہاں تک مجھے معلوم ہے مالک کے علاوہ کسی نے رفعهما دون ذلك (انہیں یعنی ہاتھوں کو اس سے کم یعنی مونڈھے سے نیچے اٹھاتے) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٧٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨٠١٧، ٨٣٩٦) (صحیح )
خالی ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دو رکعتیں پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے، تو الله اکبر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٤١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٥) ، البخاري في رفع الیدین (٢٥) (صحیح )
خالی ہے
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے اور جب اپنی قرآت پوری کر چکتے اور رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور جب رکوع سے اٹھتے تو بھی اسی طرح کرتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور آپ ﷺ بیٹھنے کی حالت میں کبھی بھی نماز میں اپنے دونوں ہاتھ نہیں اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر (تیسری) کے لیے اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور الله اکبر کہتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوحمید ساعدی (رض) کی حدیث میں ہے کہ جس وقت انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کی تو کہا : جب آپ ﷺ دونوں رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو الله اکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرلیتے جیسا کہ آپ ﷺ نماز شروع کرتے وقت الله اکبر کہتے وقت کرتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٢ (٣٤٢١، ٣٤٢٢، ٣٤٢٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٧(٨٩٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥(٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٤(١٦) ، مسند احمد (١/٩٣) سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) (حسن صحیح )
خالی ہے
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے جب آپ تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کانوں کی لو تک لے جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤ (٨٨١) ، ٨٥ (١٠٢٥) ، التطبیق ١٨(١٠٥٧) ، ٣٦ (١٠٨٦) ، ٨٤ (١١٤٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥ (٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٤ (٧٣٧) ، مسند احمد (٣/٤٣٦، ٤٣٧، ٥/٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٦) (صحیح )
خالی ہے
بشیر بن نہیک کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا : اگر میں نبی اکرم ﷺ کے آگے ہوتا تو (رفع یدین کرتے وقت) آپ کی بغل دیکھ لیتا۔ عبیداللہ بن معاذ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ لاحق (ابومجلز) کہتے ہیں : کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ نماز میں تھے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے آگے نہیں ہوسکتے تھے، ابوداؤد کے شیخ موسیٰ بن مروان رقی نے یہ اضافہ کیا یعنی جب آپ ﷺ تکبیر کہتے تو رفع یدین کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٥١ (١١٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٥) (صحیح )
خالی ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز سکھائی تو آپ نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی اور رفع یدین کیا، پھر جب آپ ﷺ رکوع میں گئے تو دونوں ہاتھ ملا کر آپ نے انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں رکھ لیا، جب یہ خبر سعد بن ابی وقاص (رض) کو پہنچی تو انہوں نے کہا : سچ کہا میرے بھائی (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے، پہلے ہم ایسا ہی کرتے تھے، پھر آپ ﷺ نے ہمیں اس کا یعنی دونوں ہاتھوں سے دونوں گھٹنوں کے پکڑنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ١ (١٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٧، ٩٤٦٩) (صحیح )
رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
علقمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں ؟ علقمہ کہتے ہیں : پھر ابن مسعود (رض) نے نماز پڑھائی، تو رفع یدین صرف ایک بار (نماز شروع کرتے وقت) کیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ایک طویل حدیث سے ماخوذ ایک مختصر ٹکڑا ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٥٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٧ (١٠٢٧) ، التطبیق ٢٠ (١٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١) ، وقد أخرجہ البخاري في رفع الیدین (٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ائمہ حدیث : احمد، ابن مبارک، بخاری، رازی ابوحاتم، دارقطنی اور ابن حبان نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، لیکن ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا ہے، نیز یہ حدیث ان احادیث صحیحہ کثیرہ کے معارض نہیں ہے جن سے رکوع وغیرہ میں رفع یدین ثابت ہے اس لئے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں ہے، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے یاد نہ رکھنے سے یہ لازم نہیں کہ دوسرے صحابہ کرام کی روایات غلط ہوں، کیونکہ کبار صحابہ نے رفع یدین نقل کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں، عبداللہ بن مسعود (رض) سے بعض مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہوسکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا تطبیق (یعنی رکوع میں دونوں ہاتھ کو گھٹنے پر نہ رکھ کر دونوں کے بیچ میں رکھنا) کے منسوخ ہونے کا معاملہ۔
رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
براء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے قریب تک اٹھاتے تھے پھر دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٢، ٣٠١، ٣٠٢، ٣٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا، کبھی لایعود کے ساتھ روایت کرتے تھے اور کبھی بغیر اس کے، اس لئے ان کی روایت کا اعتبار نہیں )
رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
اس طریق سے بھی یزید سے شریک ہی کی حدیث کی طرح حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے ثم لا يعود (پھر ایسا نہیں کرتے تھے) کا لفظ نہیں کہا ہے۔ سفیان کہتے ہیں : اس کے بعد ہم سے یزید نے کوفہ میں ثم لا يعود کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو ہشیم، خالد اور ابن ادریس نے یزید سے روایت کیا ہے، ان لوگوں نے ثم لا يعود کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥) (ضعیف) (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں )
رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
اس طریق سے بھی سفیان سے یہی حدیث گذشتہ سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ اٹھایا ، اور بعض لوگوں کی روایت میں ہے کہ ایک بار اٹھایا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٧٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٨) (صحیح )
رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی، پھر آپ ﷺ نے انہیں نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوگئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٦) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلی ضعیف ہیں )
رکوع کے وقت رفع یدین نہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ لمبے کر کے اٹھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦٣ (٢٤٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦ (٨٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٥، ٤٣٤، ٥٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٢ (١٢٧٣) (صحیح )
نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
زرعہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں نے ابن زبیر (رض) کو کہتے سنا : دونوں قدموں کو برابر رکھنا، اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٠) (ضعیف) (اس کے راوی زرعہ لین الحدیث ہیں )
نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں (اس کیفیت میں) دیکھا تو آپ نے ان کا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ١٠ (٨٨٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣ (٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٤٧) (حسن )
نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ علی (رض) کا کہنا ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١٠) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن اسحاق واسطی متروک ہیں )
نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
جریر ضبیی کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا پہنچا (گٹا) پکڑے ہوئے ناف کے اوپر رکھے ہوئے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سعید بن جبیر سے فوق السرة (ناف کے اوپر) مروی ہے اور ابومجلز نے تحت السرة (ناف کے نیچے) کہا ہے اور یہ بات ابوہریرہ (رض) سے بھی روایت کی گئی ہے لیکن یہ قوی نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٠) (ضعیف) (اس کے راوی جریر ضبّی لین الحدیث ہیں )
نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
ابو وائل کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا (سنت ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو سنا، وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کوفی کو ضعیف قرار دے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٤) (ضعیف) (اس سند میں بھی عبدالرحمن بن اسحاق ہیں )
نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٨٢٩) (صحیح) (دو صحابہ وائل اور ہلب (رض) کی صحیح مرفوع روایات سے تقویت پاکر یہ مرسل حدیث بھی صحیح ہے )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو الله اکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے : وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا مسلما وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا أول المسلمين اللهم أنت الملک لا إله لي إلا أنت أنت ربي وأنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بک وإليك تبارکت وتعاليت أستغفرک وأتوب إليك میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں تمام ادیان سے کٹ کر سچے دین کا تابع دار اور مسلمان ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا تابعدار ہوں، اے اللہ ! تو بادشاہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی اور معبود برحق نہیں، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف ہے، تو میرے تمام گناہوں کی مغفرت فرما، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کرنے والا کوئی نہیں، مجھے حسن اخلاق کی ہدایت فرما، ان اخلاق حسنہ کی جانب صرف تو ہی رہنمائی کرنے والا ہے، بری عادتوں اور بدخلقی کو مجھ سے دور کر دے، صرف تو ہی ان بری عادتوں کو دور کرنے والا ہے، میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، تیری طرف برائی کی نسبت نہیں کی جاسکتی، میں تیرا ہوں، اور میرا ٹھکانا تیری ہی طرف ہے، تو بڑی برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں ، اور جب آپ ﷺ رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑ ھتے : اللهم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت خشع لک سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي اے اللہ ! میں نے تیرے لیے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا تابعدار ہوا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ، میری ہڈی اور میرے پٹھے تیرے لیے جھک گئے) ، اور جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے : سمع الله لمن حمده ربنا ولک الحمد ملء السموات والأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شىء بعد اللہ نے اس شخص کی سن لی (قبول کرلیا) جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے رب ! تیرے لیے حمد و ثنا ہے آسمانوں اور زمین کے برابر، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کے برابر، اور اس کے بعد جو کچھ تو چاہے اس کے برابر ۔ اور جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو کہتے : اللهم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت سجد وجهي للذي خلقه وصوره فأحسن صورته وشق سمعه وبصره و تبارک الله أحسن الخالقين اے اللہ ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا فرماں بردار و تابعدار ہوا، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کا جس نے اسے پیدا کیا اور پھر اس کی صورت بنائی تو اچھی صورت بنائی، اس کے کان اور آنکھ پھاڑے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے وہ بہترین تخلیق فرمانے والا ہے ۔ اور جب آپ ﷺ سلام پھیرتے تو کہتے : اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم والمؤخر لا إله إلا أنت اے اللہ ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے گناہوں کی مغفرت فرما، اور مجھ سے جو زیادتی ہوئی ہو ان سے اور ان سب باتوں سے درگزر فرما جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی برحق معبود نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن الترمذی/ الدعوات ٣٢ (٣٤٢١، ٣٤٢٢) ، سنن النسائی/ الافتتاح ١٧ (٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥، (٨٦٤) ، ٧٠ (١٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٣، ٩٥، ١٠٢، ١٠٣، ١١٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، ویأتي ہذا الحدیث برقم : (١٥٠٩) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
علی بن ابی طالب (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو الله اکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے (رفع یدین کرتے) ، اور جب اپنی قرأت پوری کر چکتے اور رکوع کا ارادہ کرتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے (رفع یدین کرتے) ، اور نماز میں بیٹھنے کی حالت میں کسی بھی جگہ رفع یدین نہیں کرتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور الله اکبر کہتے، اور عبدالعزیز کی سابقہ حدیث میں گزری ہوئی دعا کی طرح کچھ کمی و زیادتی کے ساتھ دعا کرتے، البتہ اس روایت میں :والخير كله في يديك والشر ليس إليك کا ذکر نہیں ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے : نماز سے فارغ ہوتے وقت آپ ﷺ یہ دعا پڑ ھتے : اللهم اغفر لي ما قدمت وأخرت وما أسررت وأعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت اے اللہ ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے سارے گناہوں کی مغفرت فرما، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٧٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) (حسن صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
شعیب بن ابی حمزہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن منکدر، ابن ابی فروہ، اور دیگر فقہائے اہل مدینہ نے کہا : جب تم اس مذکورہ دعا کو پڑھو تو وأنا أول المسلمين کے جگہ وأنا من المسلمين کہا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٢٣) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نماز کے لیے آیا، اس کی سانس پھول رہی تھی، تو اس نے یہ دعا پڑھی : الله أكبر الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه اللہ سب سے بڑا ہے، تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں، اور ہم خوب خوب اس کی پاکیزہ و بابرکت تعریفیں بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مکمل کرلی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے ہیں ؟ اس نے کوئی قابل حرج بات نہیں کہی ، تب اس شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے (کہا ہے) ، جب میں جماعت میں حاضر ہوا تو میرے سانس پھول گئے تھے، اس حالت میں میں نے یہ کلمات کہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے سبھی جلدی کر رہے تھے کہ ان کلمات کو کون پہلے اٹھا لے جائے ۔ حمید نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : جب تم میں سے کوئی آئے تو (اطمینان و سکون سے) اس طرح چل کر آئے جیسے وہ عام چال چلتا ہے پھر جتنی رکعتیں ملیں انہیں پڑھ لے اور جو چھوٹ جائیں انہیں پورا کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٦٠٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٩ (٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٣١٣، ١١٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٧، ١٦٨، ١٨٨، ٢٥٢) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا (عمرو کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سی نماز تھی ؟ ) آپ ﷺ نے تین تین بار فرمایا : الله أكبر کبيرا الله أكبر کبيرا الله أكبر کبيرا والحمد لله كثيرا والحمد لله كثيرا والحمد لله كثيرا و سبحان الله بكرة وأصيلا اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں اور میں صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں ، اور فرمایا : أعوذ بالله من الشيطان من نفخه ونفثه وهمزه میں شیطان کے کبر و غرور، اس کے اشعار و جادو بیانی اور اس کے وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں ۔ عمرو بن مرہ کہتے ہیں : اس کا نفث شعر ہے، اس کا نفخ کبر ہے اور اس کا همز جنون یا موت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢ (٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٠، ٨٣، ٨٥، ٤/٨٠، ٨٢، ٨٥) (ضعیف) (اس کے ایک راوی عاصم کے نام میں بہت اختلاف ہے، تو گویا وہ مجہول ہوئے، ابن حجر نے ان کو لین الحدیث کہا ہے )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو نفل نماز میں کہتے سنا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٩) (ضعیف) (اس کے ایک راوی رجل مبہم ہیں، یہ وہی عاصم ہیں )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ قیام اللیل (تہجد) کو کس دعا سے شروع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : تم نے مجھ سے ایک ایسی چیز کے متعلق پوچھا ہے کہ تم سے پہلے کسی نے بھی اس کے متعلق مجھ سے نہیں پوچھا، آپ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دس بار الله اکبر ، دس بار الحمد الله ، دس بار سبحان الله ، دس بار لا إله إلا الله ، اور دس بار استغفر الله کہتے اور یہ دعا کرتے : اللهم اغفر لي واهدني وارزقني وعافني اللہ ! میری مغفرت فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا کر، اور مجھے عافیت سے رکھ ، پھر قیامت کے دن (سوال کے لیے) کھڑے ہونے کی پریشانی سے پناہ مانگتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے خالد بن معدان نے ربیعہ جرشی سے ربیعہ نے ام المؤمنین عائشہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦١٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٠ (١٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٢، ١٦١٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٥٠٨٥) (حسن صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے مجھ سے بیان کیا، انہوں نے کہا : میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : اللہ کے نبی کریم ﷺ جب قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتے تو اپنی نماز کس دعا سے شروع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ قیام اللیل کرتے تو اپنی نماز اس دعا سے شروع کرتے تھے : اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحکم بين عبادک فيما کانوا فيه يختلفون اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك إنك أنت تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم اے اللہ ! جبرائیل و میکائیل اور اسرافیل کے رب ! آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے ! غیب اور ظاہر کے جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، فیصلہ فرمائے گا، جن چیزوں میں اختلاف کیا گیا ہے، ان میں اپنی مرضی سے حق کی طرف میری رہنمائی کر، بیشک تو جسے چاہتا ہے اسے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صلاة المسافرین ٢٦ (٧٧٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣١ (٣٤٢٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١١ (١٦٢٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٠ (١٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٦) (حسن )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
اس طریق سے بھی عکرمہ سے اسی سند سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے جب آپ رات میں (نماز کے لیے) کھڑے ہوتے تو الله اکبر کہتے اور یہ دعا پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٩) (حسن )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
مالک کہتے ہیں نماز کے شروع، بیچ اور اخیر میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، فرض نماز ہو یا نفل۔ تخریج دارالدعوہ : موطا امام مالک/کتاب القرآن ٩، عقیب حدیث (٣٩) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
رفاعہ بن رافع زرقی (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سمع الله لمن حمده کہا تو آپ ﷺ کے پیچھے ایک آدمی نے اللهم ربنا ولک الحمد حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه کہا، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : ابھی ابھی یہ کلمات کس شخص نے کہے ہیں ؟ ، اس آدمی نے کہا : میں نے، اللہ کے رسول ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا جو ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کون پہلے ان کلمات کو لکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٦ (٩٣٢) ، التطبیق ٢٢ (١٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٥) ، موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٥) ، مسند احمد (٤/٣٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٤ (٤٠٤) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے :اللهم لک الحمد أنت نور السموات والأرض ولک الحمد أنت قيام السموات والأرض ولک الحمد أنت رب السموات والأرض ومن فيهن أنت الحق وقولک الحق ووعدک الحق ولقاؤك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق اللهم لك أسلمت وبک آمنت وعليك توکلت وإليك أنبت وبک خاصمت وإليك حاکمت فاغفر لي ما قدمت وأخرت وأسررت وأعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت اے اللہ ! تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے، تیرے لیے حمد و ثنا ہے، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، سب کا رب ہے، تو حق ہے، تیرا قول حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تجھ سے ملاقات حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے، اے اللہ ! میں تیرا فرماں بردار ہوا، تجھ پر ایمان لایا، صرف تجھ پر بھروسہ کیا، تیری ہی طرف توبہ کی، تیرے ہی لیے جھگڑا کیا، اور تیری ہی طرف فیصلہ کے لیے آیا، تو میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے سارے گناہ معاف فرما، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٩ (٣٤١٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٠ (١٣٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥١) ، موطا امام مالک/القرآن ٨ (٣٤) ، مسند احمد (١/٢٩٨، ٣٥٨، ٣٦٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٩ (١٥٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التھجد ١ (١١٢٠) ، والدعوات ١٠ (٦٣١٧) ، والتوحید ٨ (٧٣٨٥) ، ٢٤ (٧٤٤٢) ، ٣٥ (٧٤٩٩) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تہجد میں الله اکبر کہنے کے بعد دعا فرماتے تھے پھر انہوں نے اسی معنی کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٢، ٥٧٤٤) (صحیح )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، مجھ کو (رفاعہ) کو چھینک آئی۔ اور قتیبہ نے اپنی روایت میں رفاعة کا لفظ ذکر نہیں کیا ۔ تو میں نے یہ دعا پڑھی : الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضى اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، ایسی تعریف جو پاکیزہ، بابرکت اور پائیدار ہو، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے ، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو مڑے اور پوچھا : نماز میں کون بول رہا تھا ؟ ، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے ہم مثل اور اس سے زیادہ کامل روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٠ (٤٠٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٦ (٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٠، ٣٦٠٦) (حسن )
نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی دعا
عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے حالت نماز میں ایک انصاری نوجوان کو چھینک آگئی، تو اس نے کہا : الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه حتى يرضى ربنا وبعد ما يرضى من أمر الدنيا والآخرة اللہ کے لیے بہت بہت تعریف ہے، ایسی تعریف جو پاکیزہ اور بابرکت ہو، یہاں تک کہ ہمارا رب خوش و راضی ہوجائے اور دنیا اور آخرت کے معاملہ میں اس کے خوش ہوجانے کے بعد بھی یہ حمد و ثنا برقرار رہے ، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : یہ کلمات کس نے کہے ؟ ، عامر بن ربیعہ کہتے ہیں : نوجوان انصاری خاموش رہا، آپ ﷺ نے پھر پوچھا : یہ کلمات کس نے کہے ؟ جس نے بھی کہا ہے اس نے برا نہیں کہا ، تب اس نوجوان نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ کلمات میں نے کہے ہیں، میری نیت خیر ہی کی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کلمات عرش الٰہی کے نیچے نہیں رکے (بلکہ رحمن کے پاس پہنچ گئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٨) (ضعیف) (اس کے دو راوی شریک اور عاصم ضعیف ہیں )
تکبیر تحریمہ کے بعدثناء پڑھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو (نماز کے لیے) کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر یہ دعا پڑھتے : سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالى جدک ولا إله غيرك یعنی اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے، ہم تیری حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، تیرا نام بابرکت اور تیری ذات بلند و بالا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں پھر تین بار لا إله إلا الله کہتے، پھر تین بار الله أكبر کبيرا کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه پھر قرآن کی تلاوت کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حدیث علی بن علی سے بواسطہ حسن مرسلاً مروی ہے اور یہ وہم جعفر کا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦٥ (٢٤٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٨ (٩٠١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١ (٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠، ٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٥) (صحیح) (یہ حدیث اور اگلی حدیث متابعات و شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہیں، ورنہ خود ان کی سندوں میں کچھ کلام ہے جسے مؤلف نے بیان کردیا ہے )
تکبیر تحریمہ کے بعدثناء پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو سبحانک اللهم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالى جدک ولا إله غيرك پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالسلام بن حرب سے مروی یہ حدیث مشہور نہیں ہے کیونکہ اسے عبدالسلام سے طلق بن غنام کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور نماز کا قصہ بدیل سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے اس میں سے کچھ بھی ذکر نہیں کیا (یعنی : افتتاح کے وقت اس دعا کے پڑھنے کی بابت) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦٧ (٢٦٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١ (٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤١) (صحیح )
نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں : ایک امام کے تکبیر تحریمہ کہنے سے، قرأت شروع کرنے اور دوسرا جب فاتحہ اور سورت کی قرأت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے کے قریب ہوا، اس پر عمران بن حصین (رض) نے اس کا انکار کیا، تو لوگوں نے اس سلسلے میں مدینہ میں ابی بن کعب (رض) کو خط لکھا، تو انہوں نے سمرہ کی تصدیق کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حمید نے بھی اس حدیث میں اسی طرح کہا ہے کہ دوسرا سکتہ اس وقت کرتے جب آپ قرآت سے فارغ ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٧٤ (٢٥١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢ (٨٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٠٩) ، مسند احمد (٥/١١، ٢١، ٢٣) (ضعیف) (حسن بصری نے سمرہ (رض) سے عقیقہ کی حدیث کے سوا اور کوئی حدیث نہیں سنی ہے، نیز وہ مدلس ہیں )
نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دو سکتے کرتے : ایک جب نماز شروع کرتے اور دوسرا جب قرآت سے پورے طور سے فارغ ہوجاتے، پھر راوی نے یونس کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٦) ، مسند احمد (٥/١٥، ٢٠، ٢١، ٢٢) (ضعیف) (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں )
نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان
حسن سے روایت ہے کہ سمرہ بن جندب اور عمران بن حصین (رض) نے آپس میں (سکتہ کا) ذکر کیا تو سمرہ بن جندب (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد رکھے ہیں : ایک سکتہ اس وقت جب آپ تکبیر تحریمہ کہتے اور دوسرا سکتہ جب آپ ﷺ غير المغضوب عليهم ولا الضالين ١ ؎ کی قرآت سے فارغ ہوتے، ان دونوں سکتوں کو سمرہ نے یاد رکھا، لیکن عمران بن حصین نے اس کا انکار کیا تو دونوں نے اس کے متعلق ابی بن کعب (رض) کو خط لکھا تو انہوں نے ان دونوں کے خط کے جواب میں لکھا کہ سمرہ (رض) نے (ٹھیک) یاد رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٧٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٩، ٤٦٠٩) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : سورة الفاتحة : (٧ )
نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، سعید کہتے ہیں : ہم نے قتادہ سے پوچھا : یہ دو سکتے کون کون سے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : جب آپ ﷺ نماز میں داخل ہوتے اور جب آپ قرات سے فارغ ہوتے، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا : جب آپ ﷺ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہہ لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٧٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٩، ٤٦٠٩) (ضعیف) (گذشتہ حدیث ملاحظہ فرمائیں )
نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے تو تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان (تھوڑی دیر) خاموش رہتے تو میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، تکبیر تحریمہ اور قرآت کے درمیان آپ جو سکتہ کرتے ہیں، مجھے بتائیے آپ اس میں کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم أنقني من خطاياى کا لثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني بالثلج والماء والبرد اے اللہ ! جس طرح تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے اسی طرح میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری فرما دے، اے اللہ ! تو مجھے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف کر دے جیسے سفید کپڑے کو میل سے پاک کیا جاتا ہے، اے اللہ ! تو میرے گناہوں کو برف پانی اور اولوں سے دھو دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٥٩٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٥ (٨٩٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١ (٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٦) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٤٤٨، ٤٩٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٦ (١٢٨٠) (صحیح )
بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر (رض) اور عثمان (رض) عنہ الحمد لله رب العالمين سے قرآت شروع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٣ (٣٩٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٨ (٢٤٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٠ (٩٠٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤ (٨١٣) ، موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٣٠) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١١١، ١١٤، ١٨٣، ٢٧٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٤ (١٢٧٦) (صحیح )
بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کو تکبیر تحریمہ الله اکبر اور الحمد لله رب العالمين کی قرآت سے شروع کرتے تھے، اور جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکائے رکھتے بلکہ درمیان میں رکھتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ نہ کرتے یہاں تک کہ بالکل سیدھے بیٹھ جاتے، اور ہر دو رکعت کے بعد التحيات پڑھتے، اور جب بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے اور شیطان کی طرح بیٹھنے ١ ؎ سے اور درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے ٢ ؎ سے منع کرتے اور نماز سلام سے ختم کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤ (٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ١١٠، ١٧١، ١٩٤، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣١ (١٢٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد شیطان کی مانند دونوں قدموں کا گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے تشہد میں یہ بیٹھک حرام ہے جبکہ دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح کی بیٹھک مسنون و مشروع ہے۔ ٢ ؎ : اس سے مراد سجدہ میں دونوں ہاتھوں کو زمین پر بچھانا ہے۔
بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابھی ابھی مجھ پر ایک سورة نازل ہوئی ہے ، پھر آپ ﷺ نے پڑھا : بسم الله الرحمن الرحيم * إنا أعطيناک الکوثر یہاں تک کہ آپ نے پوری سورة ختم فرما دی، پھر پوچھا : تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس کو زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کوثر ایک نہر کا نام ہے، جسے میرے رب نے مجھے جنت میں دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٤ (٤٠٠) ، الفضائل ٩ (٢٣٠٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢١ (٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥) ، مسند احمد (٣/١٠٢، ٢٨١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر الکوثر (٣٣٥٩) ، ویأتي عند المؤلف في السنة برقم : (٤٧٤٧) (حسن )
بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا : أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاء وا بالإفک عصبة منكم ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٤٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٩٧) (ضعیف شاذ) (یہ حدیث شاذ اس لئے ہے کہ حمید اگرچہ ثقہ ہیں مگر انہوں نے ثقہ جماعت کی مخالفت کی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ” یعنی بیشک جو لوگ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم ہی میں سے ایک گروہ ہے “ (سورہ نور : ١١) ۔
بسم اللہ کا بلند آواز سے پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کا بیان ہے کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) سے پوچھا : آپ کو کس چیز نے ابھارا کہ آپ سورة برات کا جو کہ مئین ١ ؎ میں سے ہے، اور سورة الانفال کا جو کہ مثانی ٢ ؎ میں سے ہے قصد کریں تو انہیں سات لمبی سورتوں میں کردیں اور ان دونوں (یعنی انفال اور برات) کے درمیان میں بسم الله الرحمن الرحيم نہ لکھیں ؟ عثمان نے کہا : نبی اکرم ﷺ پر آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپ کاتب کو بلاتے اور ان سے فرماتے : اس آیت کو اس سورة میں رکھو، جس میں ایسا ایسا (قصہ) مذکور ہے ، اور آپ ﷺ پر ایک ایک دو دو آیتیں اترا کرتیں تو آپ ایسا ہی فرمایا کرتے، اور سورة الانفال ان سورتوں میں ہے جو پہلے پہل مدینہ میں آپ پر اتری ہیں، اور برات ان سورتوں میں سے ہے جو آپ ﷺ پر آخر میں اتری ہیں اور سورة برات کا مضمون سورة الانفال کے مضمون سے ملتا جلتا ہے، اس وجہ سے مجھے گمان ہوا کہ شاید برات (توبہ) انفال میں داخل ہے، اسی لیے میں نے دونوں کو سبع طوال ٣ ؎ میں رکھا اور دونوں کے بیچ میں بسم الله الرحمن الرحيم نہیں لکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ١٠ (٣٠٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٧، ٦٩) (ضعیف) (یزید الفارسی لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مئین ان سورتوں کو کہتے ہیں جو سو (١٠٠) سے زیادہ آیتوں پر مشتمل ہوں۔ ٢ ؎ : مثانی وہ سورتیں ہیں جو مئین سے چھوٹی ہیں۔ ٣ ؎ : سبع طوال سے مراد بقرہ ، آل عمران ، نساء ، مائدہ ، انعام اور اعراف ہیں اور ساتویں کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ وہ انفال اور براہ (دونوں ایک ساتھ) ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ سورة یونس ہے۔
بسم اللہ کا بلند آواز سے پڑھنا
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی مفہوم کی روایت آئی ہے، اس میں ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا، اور آپ نے ہم سے بیان نہیں کیا کہ سورة برات انفال میں سے ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعبی، ابو مالک، قتادہ اور ثابت بن عمارہ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے بسم الله الرحمن الرحيم نہیں لکھا یہاں تک کہ سورة النمل نازل ہوئی، یہی اس کا مفہوم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٨١٩) (ضعیف )
بسم اللہ کا بلند آواز سے پڑھنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سورة کی حد و انتہا کو نہیں جان پاتے تھے، جب تک کہ بسم الله الرحمن الرحيم آپ پر نہ اتر جاتی، یہ ابن سرح کی روایت کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٤، ١٨٦٧٨) (صحیح )
دوران نماز کوئی حادثہ پیش آجانے پر نماز میں تخفیف کی جاسکتی ہے
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے لمبی کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو اسے مختصر کردیتا ہوں، اس اندیشہ سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٥ (٧٠٧) ، ١٦٣ (٨٦٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٥ (٨٢٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٩ (٩٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٠) ، وقد أخرجہ : (حم ٥/٣٠٥) (صحیح )
نماز کو ہلکا کرنے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ معاذ (رض) نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے ۔ ایک روایت میں ہے : پھر وہ لوٹتے تو اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، نبی اکرم ﷺ نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے : عشاء دیر سے پڑھائی، چناچہ معاذ بن جبل (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورة البقرہ کی قرآت شروع کردی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی، لوگ کہنے لگے : اے فلاں ! تم نے منافقت کی ہے ؟ اس نے کہا : میں نے منافقت نہیں کی ہے، پھر وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں، ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورة البقرہ کی قرآت شروع کردی (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے ؟ فلاں اور فلاں سورة پڑھا کرو ۔ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) : تم سبح اسم ربک الأعلى ، والليل إذا يغشى پڑھا کرو ، ہم نے عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا : میرا بھی خیال ہے کہ آپ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٣) (صحیح )
نماز کو ہلکا کرنے کا بیان
حزم بن ابی بن کعب سے اس واقعہ کے سلسلہ میں روایت ہے کہ وہ معاذ بن جبل (رض) کے پاس آئے، وہ لوگوں کو مغرب پڑھا رہے تھے، اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالنے والے نہ بنو، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور، حاجت مند اور مسافر نماز پڑھتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٩) (منکر) (اس حدیث میں مسافر کا تذکرہ منکر ہے )
نماز کو ہلکا کرنے کا بیان
ایک صحابی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی سے پوچھا : تم نماز میں کون سی دعا پڑھتے ہو ؟ ، اس نے کہا : میں تشہد پڑھتا ہوں اور کہتا ہوں : اللهم إني أسألک الجنة وأعوذ بک من النار اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، البتہ آپ اور معاذ کیا گنگناتے ١ ؎ ہیں اس کا مجھے صحیح ادراک نہیں ہوتا، آپ ﷺ نے فرمایا : ہم بھی اسی ٢ ؎ (جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ) کے اردگرد پھرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد ٣/٤٧٤، (تحفة الأشراف : ١٥٥٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٦ (٩١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں دندنہ کا لفظ آیا ہے، یعنی انسان کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دے لیکن اس کے معنی و مطلب سمجھ میں نہ آئیں۔ وضاحت : حولها میں ها کی ضمیر اس آدمی کے قول کی طرف لوٹتی ہے، یعنی ہمارا اور معاذ کا کلام بھی تمہارے ہی کلام جیسا ہے، ان کا ماحصل بھی جنت کی طلب اور جہنم سے پناہ مانگنا ہے۔
نماز کو ہلکا کرنے کا بیان
جابر (رض) معاذ (رض) کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس نوجوان سے پوچھا : میرے بھتیجے ! جب تم نماز پڑھتے ہو تو اس میں کیا پڑھتے ہو ؟ ، اس نے کہا : میں (نماز میں) سورة فاتحہ پڑھتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں، اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں، لیکن مجھے آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ سمجھ میں نہیں آتی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور معاذ بھی انہی دونوں کے اردگرد ہوتے ہیں ، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٢) (صحیح )
نماز کو ہلکا کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ جماعت میں کمزور، بیمار اور بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، البتہ جب تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنی چاہے لمبی کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٢ (٧٠٣) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٥ (٨٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٣ (٢٣٦) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٤ (١٣) ، مسند احمد (٢ /٢٥٦، ٢٧١، ٣١٧، ٣٩٣، ٤٨٦، ٥٠٢، ٥٣٧) (صحیح )
نماز کو ہلکا کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں بیمار، بڑے بوڑھے، اور حاجت مند لوگ (بھی) ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٣٠٤، ١٥٢٨٨) (صحیح )
نماز میں ثواب کم ہونے کا بیان
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : آدمی (نماز پڑھ کر) لوٹتا ہے تو اسے اپنی نماز کے ثواب کا صرف دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور آدھا ہی حصہ ملتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکبری : کتاب السہو ١٣٠ (٦١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : جب نماز کے شرائط ، ارکان یا خشوع و خضوع میں کسی طرح کی کمی ہوتی ہے تو پوری نماز کا ثواب نہیں لکھا جاتا بلکہ ثواب کم ہوجاتا ہے، بلکہ کبھی وہ نماز الٹ کر پڑھنے والے کے منھ پر مار دی جاتی ہے۔ جابر (رض) کہتے ہیں کہ معاذ (رض) نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر لوٹتے تو ہماری امامت کرتے تھے ۔ ایک روایت میں ہے : پھر وہ لوٹتے تو اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے، نبی اکرم ﷺ نے ایک رات نماز دیر سے پڑھائی اور ایک روایت میں ہے : عشاء دیر سے پڑھائی، چناچہ معاذ بن جبل (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی پھر گھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کی اور سورة البقرہ کی قرآت شروع کردی تو ان کی قوم میں سے ایک شخص نے جماعت سے الگ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی، لوگ کہنے لگے : اے فلاں ! تم نے منافقت کی ہے ؟ اس نے کہا : میں نے منافقت نہیں کی ہے، پھر وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر یہاں سے واپس جا کر ہماری امامت کرتے ہیں، ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) معاذ نے آ کر ہماری امامت کی اور سورة البقرہ کی قرآت شروع کردی (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا : اے معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے ؟ فلاں اور فلاں سورة پڑھا کرو ۔ ابوزبیر نے کہا کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) : تم سبح اسم ربک الأعلى ، والليل إذا يغشى پڑھا کرو ، ہم نے عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا : میرا بھی خیال ہے کہ آپ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٣) (صحیح )
ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا : ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جیسے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بالجہر سنایا ہم نے بھی تمہیں (جہراً ) سنا دیا اور جسے آپ نے چھپایا ہم نے بھی اسے تم سے چھپایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٤ (٧٧٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٤ (٩٧٠) ، مسند احمد (٢/ ٢٥٨، ٢٧٣، ٢٨٥، ٣٠١، ٣٤٣، ٣٤٨، ٤١١، ٤١٦، ٤٣٥، ٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس میں جہر نہیں کیا اسے آہستہ سے پڑھا۔
ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں (ایک آدھ) آیت سنا دیتے تھے، اور آپ ظہر کی پہلی رکعت لمبی اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح صبح کی نماز میں کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد نے فاتحة الکتاب اور سورة کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٦ (٧٥٩) ، ٩٧ (٧٦٢) ، ١٠٧ (٧٧٦) ، ١٠٩ (٨٨٧) ، ١١٠ (٧٧٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٦(٩٧٥) ، ٥٧(٩٧٦) ، ٥٨ (٩٧٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨ (٨٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٣، ٥/٢٩٥، ٢٩٧، ٣٠٠، ٣٠١، ٣٠٥، ٣٠٧، ٣٠٨، ٣١٠، ٣١١، ٣٨٣) (صحیح )
ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان
اس سند سے ابوقتادہ (رض) سے گزشتہ حدیث کے بعض حصے مروی ہیں، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ پچھلی دونوں رکعتوں میں (صرف) سورة فاتحہ پڑھتے تھے اور حسن بن علی نے بواسطہ يزيد بن هارون عن همام اتنی زیادتی اور کی ہے کہ آپ پہلی رکعت اتنی لمبی کرتے جتنی دوسری نہیں کرتے تھے اور اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں (بھی کرتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٨) (صحیح )
ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ ﷺ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پاجائیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٩٨، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٨) (صحیح )
ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے خباب (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ ظہر و عصر میں قرآت کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں (قرآت کرتے تھے) ، ہم نے کہا : آپ لوگوں کو یہ بات کیسے معلوم ہوتی تھی ؟ انہوں نے کہا : آپ کی داڑھی کے ہلنے سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩١ (٧٤٦) ، ٩٦ (٧٦٠) ، ٩٧، ١٠٨ (٧٧٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧ (٨٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٠، ١١٢، ٦/٣٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام بیہقی نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ سری قرات میں یہ ضروری ہے کہ آدمی خود کو سنا سکے کیونکہ اضطراب لحية زبان اور دونوں ہونٹ ہلے بغیر ممکن نہیں اگر آدمی اپنے دونوں ہونٹ بند رکھے اور صرف زبان ہلائے تو داڑھی نہیں ہل سکتی اور قرات خود کو نہیں سنا سکتا (فتح الباری، حدیث : ٧٦٠ )
ظہر کی نماز میں قرأت کا بیان
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ظہر کی پہلی رکعت میں اتنی دیر تک قیام کرتے تھے کسی قدم کی آہٹ نہیں سنی جاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداو، (تحفة الأشراف : ٥١٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٦) (ضعیف) (اس کی سند میں رجل مبہم راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جماعت میں آنے والے سب آ چکے ہوتے کوئی باقی نہیں رہتا۔
آخر کی دو رکعتوں میں مختصر قرأت کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے سعد (رض) سے کہا : لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد (رض) نے کہا : میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ ﷺ (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر (رض) نے کہا : مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٥) ، ١٠٣ (٧٧٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٤ (١٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٦، ١٧٩، ١٨٠) (صحیح )
آخر کی دو رکعتوں میں مختصر قرأت کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے ظہر اور عصر میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کا اندازہ لگایا تو ہم نے اندازہ لگایا کہ آپ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں تیس آیات کے بقدر یعنی سورة الم تنزیل السجدہ کے بقدر قیام فرماتے ہیں، اور پچھلی دونوں رکعتوں میں اس کے آدھے کا اندازہ لگایا، اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں ہم نے اندازہ کیا تو ان میں آپ کی قرآت ظہر کی آخری دونوں رکعتوں کے بقدر ہوتی اور آخری دونوں رکعتوں میں ہم نے اس کے آدھے کا اندازہ لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٢) ، سنن النسائی/الصلاة ١٦ (٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧ (٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٢ (١٣٢٥) (صحیح )
ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں والسماء والطارق ، والسماء ذات البروج اور ان دونوں جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ (٣٠٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٠ (٩٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠١، ١٠٣، ١٠٦، ١٠٨) (حسن صحیح )
ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھتے اور اس میں والليل إذا يغشى جیسی سورت پڑھتے تھے، اسی طرح عصر میں اور اسی طرح بقیہ نمازوں میں پڑھتے سوائے فجر کے کہ اسے لمبی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦١٨) ، سنن النسائی/الإفتتاح ٦٠ (٩٨١) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣(٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ١٠١، ١٠٦، ١٠٨) (صحیح )
ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر میں سجدہ کیا پھر کھڑے ہوئے اور رکوع کیا تو ہم نے جانا کہ آپ نے الم تنزیل السجدہ پڑھی ہے۔ ابن عیسیٰ کہتے ہیں : معتمر کے علاوہ کسی نے بھی (سند میں) امیہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨٣) (ضعیف) (اس کے راوی أمیہ مجہول ہیں، نیز سند میں ان کا ہونا نہ ہونا مختلف فیہ ہے )
ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں بنی ہاشم کے کچھ نوجوانوں کے ہمراہ عبداللہ بن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے اپنے میں سے ایک نوجوان سے کہا : تم ابن عباس سے پوچھو کہ کیا رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے ؟ ابن عباس نے کہا : نہیں، نہیں، تو ان سے کہا گیا : شاید آپ ﷺ اپنے جی میں قرآت کرتے رہے ہوں، اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : اللہ تمہارے چہرے یا چمڑے میں خراش کرے ! یہ پہلی سے بھی بری ہے ١ ؎، آپ ایک مامور (حکم کے پابند) بندے تھے، آپ کو جو حکم ملتا وہی لوگوں کو پہنچاتے، آپ ﷺ نے ہم (بنی ہاشم) کو کوئی مخصوص حکم نہیں دیا سوائے تین باتوں کے : ایک یہ کہ ہم کامل وضو کریں دوسرے یہ کہ صدقہ نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ گدھے کو گھوڑی پر نہ چڑھائیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجہاد ٢٣ (١٧٠١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٠٦ (١٤١) ، والخیل ٩ (٣٦١١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٩ (٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢، ٢٣٥، ٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ابن عباس (رض) کا وہم ہے، نبی اکرم ﷺ سے ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورة فاتحہ اور دوسری سورت کا پڑھنا ثابت ہے، اوپر ابوقتادہ (رض) اور خباب (رض) کی روایتیں گزر چکی ہیں جو صریح طور سے اس پر دلالت کرتی ہیں۔
ظہر و عصر کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر میں قرآت کرتے تھے یا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٩، ٢٥٧) (صحیح )
نماز مغرب میں قرأت کی مقدار
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث (رض) نے انہیں والمرسلات عرفا پڑھتے ہوئے سنا تو کہنے لگیں : میرے بیٹے ! تم نے اس سورة کو پڑھ کر مجھے یاد دلا دیا، یہی آخری سورت ہے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب میں پڑھتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٨ (٧٦٣) ، والمغازي ٨٣ (٤٤٢٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٨ (٣٠٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٤ (٩٨٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩ (٨٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٤) ، مسند احمد (٦/٣٣٨، ٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣١) (صحیح )
نماز مغرب میں قرأت کی مقدار
جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب میں سورة الطور پڑھتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٩ (٧٦٥) ، والجھاد ١٧٢ (٣٠٥٠) ، والمغازي ١٢ (٤٠٢٣) ، و تفسیر الطور ١ (٤٨٥٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٥ (٩٨٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩ (٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٥(٢٣) ، مسند احمد (٤/٨٠، ٨٣، ٨٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣٢) (صحیح )
نماز مغرب میں قرأت کی مقدار
مروان بن حکم کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے مجھ سے کہا : کیا وجہ ہے کہ تم مغرب میں قصار مفصل پڑھا کرتے ہو ؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، مروان کہتے ہیں : میں نے (ان سے) پوچھا : وہ دو لمبی لمبی سورتیں کون سی ہیں ؟ انہوں نے کہا سورة الاعراف اور دوسری سورة الانعام ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں : میں نے ابن ابی ملیکہ سے پوچھا : تو انہوں نے مجھ سے خود اپنی طرف سے کہا : وہ سورة المائدہ اور اعراف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٨ (٧٦٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٧ (٩٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٥، ١٨٧، ١٨٨، ١٨٩) (صحیح )
مغرب کی نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کا بیان
حماد کہتے ہیں کہ ہشام بن عروہ نے ہمیں خبر دی ہے کہ ان کے والد مغرب میں ایسی ہی سورة پڑھتے تھے جیسے تم پڑھتے ہو مثلاً سورة العادیات اور اسی جیسی سورتیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ١ ؎ حدیث منسوخ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٠٣٤ أ) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سورة مائدہ ، انعام اور اعراف پڑھنے والی حدیث، اگر منسوخ کے بجائے یہ کہا جائے کہ ” وہ بیان جواز کے لئے ہے “ تو زیادہ بہتر ہے۔
مغرب کی نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں مفصل ١ ؎ کی چھوٹی بڑی کوئی سورت ایسی نہیں جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے فرض نماز میں لوگوں کی امامت کرتے ہوئے نہ سنا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٨) (ضعیف) (ابن اسحاق مدلس ہیں اور یہاں انہوں نے عنعنہ سے روایت کیا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح قول کی رو سے سورة ” ق “ سے اخیر قرآن تک کی سورتیں ” مفصل “ کہلاتی ہیں۔
مغرب کی نماز میں چھوٹی سورتیں پڑھنے کا بیان
ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسعود (رض) کے پیچھے مغرب پڑھی تو انہوں نے قل هو الله أحد پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٠) (ضعیف) (اس کے راوی النزال لین الحدیث ہیں )
دو رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنے کا بیان
معاذ بن عبداللہ جہنی کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فجر کی دونوں رکعتوں میں إذا زلزلت الأرض پڑھتے ہوئے سنا، لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ بھول گئے تھے یا آپ نے عمداً اسے پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٧٣) (حسن )
نماز فجر میں قرأت کا بیان
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں گویا میں نبی اکرم ﷺ کی آواز سن رہا ہوں، آپ فجر میں فلا أقسم بالخنس * الجوار الکنس پڑھ رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ٥ (٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٦) ، مسند احمد (٤/٣٠٦، ٣٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٦) (صحیح )
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں نماز میں سورة فاتحہ اور جو سورة آسان ہو اسے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٣٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥، ٩٧) (صحیح )
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم جاؤ اور مدینہ میں اعلان کر دو کہ نماز بغیر قرآن کے نہیں ہوتی، اگرچہ سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور ہی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٦١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٨) (منکر) ( جعفر بن میمون ضعیف راوی ہیں، نیز ثقات کی مخالفت کی ہے )
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ سورة فاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھے بغیر نماز نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٦١٩) (صحیح) (صحیح مسلم میں مروی عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بھی جعفر بن میمون ہیں )
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ۔ راوی ابوسائب کہتے ہیں :
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
اس پر میں نے کہا : ابوہریرہ ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں ! ) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا : اے فارسی ! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے نماز ١ ؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردی ہے، اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ بھی ہے جو وہ مانگے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑھو : بندہ الحمد لله رب العالمين کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے نے میری توصیف کی، بندہ مالک يوم الدين کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ إياک نعبد وإياک نستعين کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے : یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے : یہ سب میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥) ، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ٢ (٢٩٥٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٣ (٩١٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١ (٨٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٥، ١٤٠٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نماز سے مراد سورة فاتحہ ہے ، تعظیماً کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ٢ ؎ : جو لوگ بسم اللہ کو سورة فاتحہ کا جزء نہیں مانتے ہیں اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بسم اللہ کے سورة فاتحہ کے جزء ہونے کی صورت میں اس حدیث میں اس کا بھی ذکر ہونا چاہیے جیسے اور ساری آیتوں کا ذکر ہے۔ عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی ١ ؎۔ سفیان کہتے ہیں : یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٤ (٩١١) (وقد ورد بدون قولہ :” فصاعداً “ عند : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٦) ، سنن الترمذی/ الصلاة ٦٩ (٢٤٧) ، ١١٦ (٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١ (٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢١، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٦ (١٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ سورة فاتحہ سے کم پر نماز جائز نہیں ہوگی، سورة فاتحہ سے زائد قرات کے وجوب کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ ٢ ؎ : خطابی کا کہنا ہے کہ یہ عام ہے بغیر کسی دلیل کے اس کی تخصیص جائز نہیں۔
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہوگئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا : شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ؟ ، ہم نے کہا : ہاں، اللہ کے رسول ! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : سورة فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی الصلاة ١١٥ (٣١١) ، (تحفة الأشراف : ٥١١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٣، ٣١٦، ٣٢٢) ، (حسن) (ابن خزیمة نے اسے صحیح کہا ہے (٣ ؍ ٣٦- ٣٧) ترمذی ، دارقطنی اور بیہقی نے بھی حسن کہا ہے (٢ ؍ ١٦٤) ابن حجر نے نتائج الافکار میں حسن کہا ہے ) ، ملاحظہ ہو : امام الکلام تالیف مولانا عبدالحی لکھنوی (٢٧٧- ٢٧٨ ) وضاحت : ١ ؎ : جب اسے هَذَّ يَهُذُّ کا مصدر هَذًّا مانا جائے تو اس کے معنی پڑھنے والے کا ساتھ پکڑنے کے لئے جلدی جلدی پڑھنے کے ہوں گے، اور اگر هذا کو اسم اشارہ مانا جائے تو ترجمہ یوں کریں گے ” ایسا ہی ہے “۔
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
نافع بن محمود بن ربیع انصاری کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت (رض) نے فجر میں تاخیر کی تو ابونعیم مؤذن نے تکبیر کہہ کر خود لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کردی، اتنے میں عبادہ آئے ان کے ساتھ میں بھی تھا، ہم لوگوں نے بھی ابونعیم کے پیچھے صف باندھ لی، ابونعیم بلند آواز سے قرآت کر رہے تھے، عبادہ سورة فاتحہ پڑھنے لگے، جب ابونعیم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عبادہ (رض) سے کہا : میں نے آپ کو (نماز میں) سورة فاتحہ پڑھتے ہوئے سنا، حالانکہ ابونعیم بلند آواز سے قرآت کر رہے تھے، انہوں نے کہا : ہاں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک جہری نماز پڑھائی جس میں آپ زور سے قرآت کر رہے تھے، آپ کو قرآت میں التباس ہوگیا، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا : جب میں بلند آواز سے قرآت کرتا ہوں تو کیا تم لوگ بھی قرآت کرتے ہو ؟ ، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا : ہاں، ہم ایسا کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اب ایسا مت کرنا، جبھی میں کہتا تھا کہ کیا بات ہے کہ قرآن مجھ سے کوئی چھینے لیتا ہے تو جب میں بلند آواز سے قرآت کروں تو تم سوائے سورة فاتحہ کے قرآن میں سے کچھ نہ پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٢٩ (٩٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٦) (صحیح) (اہل علم نے اس حدیث کے بارے میں لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں، ملاحظہ ہو : تحقيق الکلام في وجوب القرائة خلف الإمام للعلامة عبدالرحمن المبارکفوري، وإمام الکلام للشيخ عبدالحي اللکهنوي، و ضعيف أبي داود (9/ 318 )
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
اس طریق سے بھی عبادہ (رض) سے ربیع بن سلیمان کی حدیث کی طرح روایت مروی ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ مکحول مغرب، عشاء اور فجر میں ہر رکعت میں سورة فاتحہ آہستہ سے پڑھتے تھے، مکحول کا بیان ہے : جب امام جہری نماز میں سورة فاتحہ پڑھ کر سکتہ کرے، اس وقت آہستہ سے سورة فاتحہ پڑھ لیا کرو اور اگر سکتہ نہ کرے تو اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا اس کے بعد پڑھ لیا کرو، کسی حال میں بھی ترک نہ کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥١١٤) (ضعیف) (مکحول نے عبادہ (رض) کو نہیں پایا ہے )
جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک نماز سے جس میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی تھی پلٹے تو فرمایا : کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی ابھی قرآت کی ہے ؟ ، تو ایک آدمی نے عرض کیا : ہاں، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : تبھی تو میں (دل میں) کہہ رہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ کشمکش کی جا رہی ہے ۔ زہری کہتے ہیں : جس وقت لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا تو جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے تھے، اس میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قرآت کرنے سے رک گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن اکیمہ کی اس حدیث کو معمر، یونس اور اسامہ بن زید نے زہری سے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ (٣١٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٨ (٩٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣ (٨٤٨، ٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٠(٤٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٣٠٢، ٤٨٧) (صحیح )
جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہیں کرنی چاہیے
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، ہمارا گمان ہے کہ وہ نماز فجر تھی، پھر اسی مفہوم کی حدیث ما لي أنازع القرآن تک بیان کی۔ مسدد کی روایت میں ہے کہ معمر نے کہا : تو لوگ اس نماز میں قرآت سے رک گئے جن میں رسول اللہ ﷺ جہری قرآت کرتے تھے، اور ابن سرح کی روایت میں ہے کہ معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا : فانتهى الناس یعنی لوگ (قرآت سے) رک گئے، عبداللہ بن محمد زہری کہتے ہیں کہ سفیان نے کہا کہ زہری نے کوئی بات کہی، جسے میں سن نہ سکا تو معمر نے کہا وہ یہی فانتهى الناس کا کلمہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان کی روایت آپ ﷺ کے قول ما لي أنازع القرآن پر ختم ہے اور اسے اوزاعی نے بھی زہری سے روایت کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ زہری نے کہا : اس سے مسلمانوں نے نصیحت حاصل کی، چناچہ جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے، آپ کے ساتھ قرآت نہیں کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے محمد بن یحییٰ بن فارس کو کہتے ہوے سنا ہے کہ فانتهى الناس زہری کا کلام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ فانتهى الناس کے جملہ کو معمر کبھی ابوہریرہ (رض) کا کلام قرار دیتے ہیں، اور کبھی زہری کا، لیکن زہری کے دوسرے تلامذہ سفیان ، عبدالرحمن بن اسحاق، اوزاعی اور محمد بن یحییٰ بن فارس نے اسے زہری کا کلام قرار دیا ہے۔
غیر جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت کا بیان
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھی تو ایک شخص آیا اور اس نے آپ کے پیچھے سبح اسم ربک الأعلى کی قرآت کی، جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے پوچھا : تم میں کس نے قرآت کی ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : ایک شخص نے، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا محسوس ہوا کہ تم میں سے کسی نے مجھے اشتباہ میں ڈال دیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالولید نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ شعبہ نے کہا تو میں نے قتادہ سے پوچھا : کیا سعید کا یہ کہنا نہیں ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو تم خاموش رہو ؟ انہوں نے کہا : یہ حکم اس وقت ہے، جب قرآت جہر سے ہو۔ ابن کثیر نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ شعبہ نے کہا : میں نے قتادہ سے کہا : گویا آپ نے اسے ناپسند کیا تو انہوں نے کہا : اگر آپ کو یہ ناپسند ہوتا، تو آپ اس سے منع فرما دیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٢ (٤٩٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٧ (٩١٦، ٩١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٣٣، ٥٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نبی اکرم ﷺ نے صرف (زور سے پڑھنے) کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلجان قلب کو ناپسند کیا، سورة کی قرأت پر صاد کیا، تو سورة فاتحہ کی قرأت پر بدرجہ اولیٰ پسندیدگی پائی گئی۔
غیر جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت کا بیان
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں ظہر پڑھائی، تو جب آپ پلٹے تو فرمایا : تم میں سے کس نے (ہمارے پیچھے) سورة سبح اسم ربک الأعلى پڑھی ہے ؟ ، تو ایک آدمی نے کہا : میں نے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے محسوس ہوا کہ تم میں سے کسی نے میرے دل میں خلجان ڈال دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٥) (صحیح )
امی اور عجمی کے لئے کتنی قرأت کافی ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں بدوی بھی تھے اور عجمی بھی، آپ ﷺ نے فرمایا : پڑھو سب ٹھیک ہے عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (یعنی قرآن کے الفاظ و کلمات کو) اسی طرح درست کریں گے جیسے تیر درست کیا جاتا ہے (یعنی تجوید و قرآت میں مبالغہ کریں گے) اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے بجائے جلدی جلدی پڑھیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٠١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٧، ٣٩٧) (صحیح )
امی اور عجمی کے لئے کتنی قرأت کافی ہے
سہل بن سعد ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : الحمداللہ ! اللہ کی کتاب ایک ہے اور تم لوگوں میں اس کی تلاوت کرنے والے سرخ، سفید، سیاہ سب طرح کے لوگ ہیں، تم اسے پڑھو قبل اس کے کہ ایسے لوگ آ کر اسے پڑھیں، جو اسے اسی طرح درست کریں گے، جس طرح تیر کو درست کیا جاتا ہے، اس کا بدلہ (ثواب) دنیا ہی میں لے لیا جائے گا اور اسے آخرت کے لیے نہیں رکھا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود : ٥(٣٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٧) (حسن صحیح )
امی اور عجمی کے لئے کتنی قرأت کافی ہے
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھ سکتا، اس لیے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو اس کے بدلے مجھے کفایت کرے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله کہا کرو ، اس نے پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو اللہ کی تعریف ہوئی، میرے لیے کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم کہا کرو اللهم ارحمني وارزقني وعافني واهدني اے پروردگار ! مجھ پر رحم فرما، مجھے روزی دے، مجھے عافیت دے اور مجھ کو ہدایت دے ، جب وہ شخص کھڑا ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا ١ ؎ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس نے تو اپنا ہاتھ خیر سے بھر لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ افتتاح ٣٢ (٩٢٥) (تحفة الأشراف : ٥١٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٦، ٣٨٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں ہاتھوں کو سمیٹا جس سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس نے ان باتوں کو محفوظ کرلیا ہے جن کا رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا ہے جس طرح کوئی عمدہ چیز سمیٹ کر آدمی اسے محفوظ کرتا ہے۔
امی اور عجمی کے لئے کتنی قرأت کافی ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں ہم نفل نماز پڑھتے تو قیام و قعود کی حالت میں دعا کرتے اور رکوع و سجود کی حالت میں تسبیح پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٢٢٠) (ضعیف) (حسن بصری نے جابر (رض) سے نہیں سنا ہے )
امی اور عجمی کے لئے کتنی قرأت کافی ہے
حمید سے اسی کے مثل مروی ہے، اس میں راوی نے نفل کا ذکر نہیں کیا ہے، اس میں ہے کہ حسن بصری ظہر اور عصر میں خواہ وہ امام ہوں یا امام کے پیچھے ہوں، سورة فاتحہ پڑھتے تھے اور سورة ق اور سورة ذاریات پڑھنے کے بقدر (وقت میں) تسبیح و تکبیر اور تہلیل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٢٢٠، ١٨٥١٣) (ضعیف مقطوع ولکن فعلہ صحیح وثابت) (جابر (رض) کا اثر ضعیف ہے، اور حسن بصری کا فعل صحیح ہے، قرأت پر قادر آدمی کے لئے قرأت فرض ہے )
نماز میں تکبیرات کی تکمیل کا بیان
مطرف کہتے ہیں میں نے اور عمران بن حصین (رض) نے علی بن ابی طالب (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو الله اکبر کہتے، جب رکوع کرتے تو الله اکبر کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لیے اٹھتے تو الله اکبر کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران (رض) نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا : ابھی انہوں نے ایسی نماز پڑھی ہے (راوی کو شک ہے) یا ابھی ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے، جیسے محمد ﷺ کی نماز ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٦ (٧٨٦) ، ١٤٤ (٨٢٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٠ (٣٩٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٢٤ (١٠٨٣) ، والسھو ١ (١١٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٤٢٩، ٤٣٢، ٤٠٠، ٤٤٤) (صحیح )
نماز میں تکبیرات کی تکمیل کا بیان
زہری کہتے ہیں : مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ نے خبر دی ہے کہ ابوہریرہ (رض) فرض ہو یا نفل ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے خواہ فرض ہو یا نفل، نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت تکبیر الله اکبر (تکبیر تحریمہ) کہتے، پھر رکوع کرتے وقت تکبیر الله اکبر کہتے، پھر سمع الله لمن حمده کہتے، اس کے بعد سجدہ کرنے سے پہلے ربنا ولک الحمد کہتے، پھر جب سجدے میں جانے لگتے تو الله اکبر کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھاتے تو الله اکبر کہتے، پھر جب (دوسرے) سجدے میں جاتے تو الله اکبر کہتے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو الله اکبر کہتے، پھر جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو الله اکبر کہتے، ایسے ہی ہر رکعت میں نماز سے فارغ ہونے تک (تکبیر) کہتے ١ ؎، پھر جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو کہتے : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم میں سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں رسول اللہ ﷺ کی نماز سے، اسی طرح آپ کی نماز تھی یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس کے آخری ٹکڑے یعنی إن کانت هذه لصلاته حتى فارق الدنيا کو مالک اور زبیدی وغیرہ زہری کے واسطہ سے علی بن حسین سے مرسلاً نقل کرتے ہیں اور عبدالاعلی نے بواسطہ معمر زہری کے دونوں شیوخ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ذکر کرنے میں شعیب بن ابی حمزہ کی موافقت کی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٥ (٧٨٥) ، ١٢٨ (٨٠٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٤ (١٠٢٤) ، والتطبیق ٩٤ (١١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٠، ٣٠٠، ٣١٩، ٤٥٢، ٤٩٧، ٥٠٢، ٥٢٧، ٥٣٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٠ (١٢٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس طرح دو رکعت والی نماز میں کل گیارہ تکبیریں اور چار رکعت کی نماز میں ٢٢ تکبیریں ہوئیں اور پانچوں فرض نماز میں کل (٩٤) تکبیریں ہوئیں جس میں سے صرف تکبیر تحریمہ فرض ہے اور باقی سبھی سنت ہیں اگر وہ کسی سے چھوٹ جائیں تو نماز ہوجائے گی البتہ فضیلت اور سنت کی موافقت اس سے فوت ہوجائے گی ۔ ٢ ؎ : جب کہ عقیل نے ابن شہاب سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے صرف أخبرني أبو بکر بن عبدالرحمن کہا ہے ابوسلمہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور مالک نے ابن شہاب سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے صرف عن أبي سلمة بن عبدالرحمن کہا ہے ابوبکر بن عبدالرحمن کا ذکر نہیں کیا ہے اس کے برخلاف ابن شہاب کے تلامذہ میں سے شعیب بن ابی حمزہ نے ابن شہاب کے دونوں شیوخ کا ذکر کیا ہے اسی طرح عبدالاعلیٰ نے بواسطہ معمر عن زہری دونوں کا ذکر کیا ہے۔
نماز میں تکبیرات کی تکمیل کا بیان
عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ تکبیر مکمل نہیں کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے اور جب سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے اور جب سجدے سے کھڑے ہوتے تو تکبیر نہیں کہتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٧) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بن عمران لین الحدیث ہیں، نیز حدیث میں اضطراب ہے ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح روایتوں سے سوائے رکوع سے سر اٹھانے کے باقی سبھی حرکات میں اللہ اکبر کہنا ثابت ہے۔
سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے گھٹنوں کو رکھے یا ہاتھوں کو
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے ١ ؎ اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الصلاة ٨٤ (٢٦٨) ، سنن النسائی/الإفتتاح ١٢٨ (١٠٩٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩(٨٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٠) (ضعیف) (شریک جب متفرد ہوں تو ان کی روایت مقبول نہیں ) وضاحت : ١ ؎ : امام دارقطنی کہتے ہیں : اس حدیث کو عاصم سے شریک کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور شریک تفرد کی صورت میں قوی نہیں ہیں، علامہ البانی کہتے ہیں : اس حدیث کے متن کو عاصم بن کلیب سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی نماز کا طریقہ شریک کی نسبت زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے باوجود ان لوگوں نے سجدہ میں جانے اور اٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث میں شریک کو وہم ہوا ہے۔
سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے گھٹنوں کو رکھے یا ہاتھوں کو
اس سند سے وائل بن حجر (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی نماز کی کیفیت مروی ہے، اس میں ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ ﷺ کے گھٹنے ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑتے۔ ہمام کہتے ہیں : مجھ سے شقیق نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں : مجھ سے عاصم بن کلیب نے اور عاصم نے اپنے والد سے کلیب نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے اور ان دونوں میں سے کسی کی حدیث میں اور میرا غالب گمان یہی ہے کہ محمد بن جحادہ کی حدیث میں یہ ہے : جب آپ ﷺ اٹھتے تو اپنی ران پر ٹیک لگا کر اپنے دونوں گھٹنوں کے بل اٹھتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٢) (ضعیف) قد تقدم ہذا الحدیث برقم (٧٣٦) (عبدالجبار کا اپنے والد وائل سے سماع ثابت نہیں ہے )
سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے گھٹنوں کو رکھے یا ہاتھوں کو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٨٨ (٢٦٩) ، سنن النسائی/التطبیق ٣٨ (١٠٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٤ (١٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علامہ ابن القیم نے ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کو مقلوب کہا ہے اور کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے وليضع رکبتيه قبل يديه (یعنی وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھے) لیکن محدث عبدالرحمن مبارک پوری ، علامہ احمد شاکر، شیخ البانی وغیرہ نے ابن القیم کے اس خیال کی تردید کی ہے اور ابن خزیمہ کا کہنا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت كنا نضع اليدين قبل الرکبتين فأمرنا بالرکبتين قبل اليدين (پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا) انتہائی ضعیف ہے قطعاً قابل استدلال نہیں۔
سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے گھٹنوں کو رکھے یا ہاتھوں کو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا ١ ؎ تم میں سے ایک شخص اپنی نماز میں بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس طرح بیٹھتا ہے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں لفظ یعمد سے پہلے ہمزۂ استفہام مقدر ہے اسی وجہ سے ترجمہ میں ” کیا “ کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ اس طرح نہ بیٹھا کرو۔
پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابوسلیمان مالک بن حویرث (رض) ہماری مسجد میں آئے تو انہوں نے کہا : قسم اللہ کی میں تمہیں نماز پڑھاؤں گا، میرے پیش نظر نماز پڑھانا نہیں بلکہ میں تم لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں : میں نے ابوقلابہ سے پوچھا : انہوں نے کس طرح نماز پڑھی ؟ تو ابوقلابہ نے کہا : ہمارے اس شیخ۔ یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، جو ان کے امام تھے اور ابوقلابہ نے ذکر کیا کہ ابوقلابہ نے مالک بن حویرث (رض) جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو (تھوڑی دیر) بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٧ (٨٠٢) ، ١٤٢ (٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠١ (٢٨٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٨١ (١١٥٢) ، مسند احمد (٣/٤٣٦، ٥/٥٣) (صحیح ) وضاحت : وضاحت : اس بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں، جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ موٹاپے اور کبر سنی کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے ایسا کیا تھا، لیکن یہ تاویل بلا دلیل ہے، شیخ البانی (رح) کہتے ہیں : جلسہ استراحت کو اس امر پر محمول کرنا کہ یہ حاجت کی بنا پر تھا عبادت کی غرض سے نہیں ؛ لہٰذا یہ مشروع نہیں ہے۔ جیسا کہ احناف وغیرہ کا قول ہے۔ باطل ہے اور اس کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ دس صحابہ رضی اللہ عنھم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ نماز میں داخل کرنے کو تسلیم کیا ہے، اگر انہیں یہ علم ہوتا کہ آپ ﷺ نے اسے ضرورت کی بنا پر کیا ہے تو وہ آپ ﷺ کے طریقہ نماز میں اسے داخل کرنے پر خاموشی اختیار نہ کرتے۔
پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابو سلیمان مالک بن حویرث (رض) ہماری مسجد میں آئے، انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! میں نماز پڑھوں گا مگر میرے پیش نظر نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ؟ ابوقلابہ کہتے ہیں : پھر وہ پہلی رکعت میں بیٹھے جس وقت انہوں نے اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٥) (صحیح )
پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوتے جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٤٢، (تحفة الأشراف : ١١١٨٣) (صحیح )
دو سجدوں کے بیچ میں اقعاء کرنے کا بیان
طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : دونوں سجدوں کے بیچ میں دونوں قدموں پر اقعاء ١ ؎ (سرین کو ایڑیوں پر رکھ کر پنجے کو کھڑا کر کے بیٹھنا) کیسا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یہ سنت ہے۔ طاؤس کہتے ہیں : ہم نے کہا : ہم تو اسے آدمی کے ساتھ زیادتی سمجھتے تھے تو ابن عباس (رض) نے کہا : یہ تیرے نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٦ (٥٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٨ (٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اقعاء کی مسنون صورت ہے جو دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک کے ساتھ مخصوص ہے، رہی اقعاء کی ممنوع صورت جس سے حدیث میں روکا گیا ہے، تو وہ کتے کی طرح چوتڑ اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں پنڈلیوں اور رانوں کو کھڑا کرکے بیٹھنا ہے یا تشہد کی حالت میں دونوں قدموں کو گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے۔
آدمی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تھے تو سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لک الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد کہتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سفیان ثوری اور شعبہ بن حجاج نے اس حدیث کو عبید بن لحسن ابوالحسن سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں بعد الرکوع نہیں ہے، سفیان کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کے بعد شیخ عبید ابوالحسن سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی اس حدیث میں بعد الرکوع کے الفاظ نہیں کہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے شعبہ نے ابوعصمہ سے، ابوعصمہ نے اعمش سے اور اعمش نے عبید سے روایت کیا ہے، اس میں بعد الرکوع کے الفاظ موجود ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٠ (٤٧٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨ (٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٦، ٣٨١) (صحیح )
آدمی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سمع الله لمن حمده کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم ربنا لک الحمد ملء السماء اور مومل کے الفاظ ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وکلنا لک عبد لا مانع لما أعطيت ، محمود نے اپنی روایت میں : ولا معطي لما منعت کا اضافہ کیا ہے، پھر :ولا ينفع ذا الجد منک الجد میں سب متفق ہیں، بشر نے اپنی روایت میں : ربنا لک الحمد کہا اللهم نہیں کہا، اور محمود نے اللهم نہیں کہا، اور ربنا لک الحمد کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٠ (٤٧٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ١١٥ (١٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٨١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨ (٨٧٧) ، مسند احمد (٣/٨٧) ، سنن الدارمی/ الصلاة ٧١ (١٣٥٢) (صحیح )
آدمی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا لک الحمد کہو، کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوجائے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٤ (٧٩٥) ، ١٢٥ (٧٩٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤٠٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٦ (٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ١١٣ (١٠٦٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨ (٨٧٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٢٧٠، ٣٠٠، ٣١٩، ٤٥٢، ٤٩٧، ٥٠٢، ٥٢٧، ٥٣٣) (صحیح )
آدمی جب رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے
عامر شعبی کہتے ہیں : لوگ امام کے پیچھے : سمع الله لمن حمده نہ کہیں، بلکہ ربنا لک الحمد کہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : نماز کی تعلیم سے متعلق مسئ صلا ۃ کی حدیث میں رسول اکرم ﷺ رکوع سے پیٹھ اوپر کرتے ہوئے :سمع الله لمن حمده پڑھتے تھے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے : کسی آدمی کی نماز پوری نہیں ہوتی حتی کہ وہ یہ اور یہ کرے، اس حدیث میں کہ پھر رکوع کرے پھر : سمع الله لمن حمده کہے حتی کہ اچھی طرح کھڑا ہوجائے (ابوداود) ۔ اس کے بعد آپ ﷺ حالت قیام میں ربنا ولک الحمد پڑھتے، آپ ﷺ نے اس کا حکم امام اور مقتدی سب کو یہ فرما کردیا کہ : صلوا کما رأيتموني أصلي۔ آپ ﷺ فرماتے تھے : امام کو اس کی اقتداء ہی کے لئے بنایا گیا ہے، فرمایا : اور جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو اللہم ربنا ولک الحمد کہو، اور اس کی تعلیل ایک دوسری حدیث میں یوں کی ہے کہ جس آدمی کا قول ملائکہ کے قول کے موافق ہوگیا تو اس کے ماضی کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اس تفصیل کے مطابق امام اور مقتدی سب کو دونوں دعا پڑھنی چاہیے، بعض ائمہ جیسے شعبی کا مذہب ہے کہ مقتدی سمع الله لمن حمده نہ کہیں صرف ربنا ولک الحمد پر اکتفا کریں۔
دو سجدوں کا درمیان کی دعا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان اللهم اغفر لي وارحمني وعافني واهدني وارزقني یعنی اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق دے کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٩٥ (٢٨٤، ٢٨٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٤ (٨٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٥، ٣٧١) (حسن )
عورتیں جب جماعت میں شامل ہوں تو مردوں کے بعد سجدہ سے سر اٹھائیں
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم میں سے جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، وہ اپنا سر (سجدے سے) اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک کہ مرد نہ اٹھا لیں، اس اندیشہ سے کہ ان کی نظر کہیں مردوں کے ستر پر نہ پڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٨، ٣٤٩) (صحیح) (عروہ نے اسماء کے مولی کی متابعت کی ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ابتداء اسلام میں لوگ بڑی تنگدستی اور محتاجی میں تھے، اکثر کو ایک تہبند یا چادر کے علاوہ دوسرا کپڑا میسر نہ ہوتا تھا، جسے وہ اپنی گردن پر باندھ لیتے تھے، جو بیک وقت کرتے اور تہبند کا کام دیتا تھا، کپڑوں کی تنگی کے باعث سجدہ میں ستر کے کھل جانے کا اندیشہ رہتا تھا، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو مردوں کے بعد سر اٹھانے کا حکم دیا۔
رکوع کے بعد اور سجدوں کے درمیان وقفہ کی مدت
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا رکوع، سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا سب قریب قریب برابر ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢١ (٧٩٢) ، ١٢٧ (٨٠١) ، ١٤٠ (٨٢٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٨ (٤٧٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٢ (٢٧٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ١١٤ (١٠٦٦) ، ٤٩ (١١٤٩) ، والسھو ٧٧ (١٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٨، سنن الدارمی/الصلاة ٨٠ (١٣٧٢) (صحیح )
رکوع کے بعد اور سجدوں کے درمیان وقفہ کی مدت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز کسی کے پیچھے نہیں پڑھی، رسول اللہ ﷺ جب سمع الله لمن حمده کہتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ ﷺ کو وہم ہوگیا ہے، پھر آپ اللہ اکبر کہتے اور سجدہ کرتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ ﷺ کو وہم ہوگیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٢، ٦٢١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٤ (٧٠٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٨ (٩٨٥) ، مسند احمد (٣/٢٠٣، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/ الصلاة ٤٦ (١٢٩٥) (صحیح )
رکوع کے بعد اور سجدوں کے درمیان وقفہ کی مدت
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے محمد ﷺ کو (اور ابوکامل کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو) حالت نماز میں بغور دیکھا، تو میں نے آپ ﷺ کے قیام کو آپ کے رکوع اور سجدے کی طرح، اور رکوع سے آپ کے سیدھے ہونے کو آپ کے سجدے کی طرح، اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ کے بیٹھنے کو، اور سلام پھیرنے اور نمازیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنے کو، پھر دوسرے سجدہ سے قریب قریب برابر پایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور مسدد کی روایت میں ہے، آپ ﷺ کا رکوع اور دونوں رکعتوں کے درمیان آپ کا اعتدال پھر آپ کا سجدہ پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور پھر دوسرا سجدہ پھر آپ کا سلام پھیرنے اور لوگوں کی طرف چہرہ کرنے کے درمیان بیٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٥٢، (تحفة الأشراف : ١٧٨١) (صحیح )
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
ابومسعود بدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی نماز درست نہیں، جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٨٤ (٢٦٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٨ (١٠٢٨) والتطبیق ١٤٤ (١١١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٦ (٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٩، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٠) (صحیح )
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص اس نے نماز پڑھی پھر آ کر رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : واپس جاؤ، پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، وہ شخص واپس گیا اور پھر سے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، پھر آ کر سلام کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اور تم پر بھی سلامتی ہو، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے ، یہاں تک کہ تین بار ایسا ہوا، پھر اس شخص نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں اس سے اچھی نماز پڑھنا نہیں جانتا تو آپ مجھے سکھا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو (پہلے) تکبیر کہو، پھر جتنا قرآن بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھو، اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ، اس کے بعد اطمینان سے سجدہ کرو، پھر اطمینان سے قعدہ میں بیٹھو، اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو ۔ قعنبی نے عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة کہا ہے اور اس کے اخیر میں یوں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نے ایسا کرلیا تو تمہاری نماز مکمل ہوگئی، اور اگر تم نے اس میں کچھ کم کیا تو اپنی نماز میں کم کیا ، اور اس میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو کامل وضو کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٧) ، ١٢٢ (٧٩٣) ، والأیمان والنذور ١٥ (٦٢٥١) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٤ (٣٠٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧ (٨٨٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٢ (١٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨٣، ١٤٣٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے تعدیل ارکان کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
علی بن یحییٰ بن خلاد اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، پھر راوی نے گذشتہ حدیث کے مانند روایت ذکر کی، اس میں کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کی نماز مکمل نہیں ہوتی، جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرے، پھر الله أكبر کہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے اور قرآن سے جتنا آسان ہو پڑھے پھر الله أكبر کہے پھر اطمینان و سکون کے ساتھ اس طرح رکوع کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں، پھر سمع الله لمن حمده کہے اور سیدھا کھڑا ہوجائے، پھر الله أكبر کہے، پھر اطمینان سے اس طرح سجدہ کرے کہ اس کے جسم کے سارے جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں، پھر الله أكبر کہے اور اپنا سر سجدے سے اٹھائے یہاں تک کہ سیدھا بیٹھ جائے پھر الله أكبر کہے پھر (دوسرا) سجدہ اطمینان سے اس طرح کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور الله أكبر کہے، جب اس نے ایسا کرلیا تو اس کی نماز پوری ہوگئی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٤ (٣٠٢) ، سنن النسائی/الأذان ٢٨ (٦٦٨) ، الافتتاح ١٦٧ (١١٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٧ (٤٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤ مسند رفاعة بن رافع الأنصاري) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ١٠٠، ١٠٢، ٤/٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٨) (صحیح )
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
رفاعہ بن رافع (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کی نماز پوری (مکمل) نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ اچھی طرح وضو کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے، (یعنی) وہ اپنا منہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر الله اکبر کہے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر قرآن میں سے جو آسان ہو اسے پڑھے ، پھر راوی نے حماد کی حدیث کے مانند ذکر کیا اور کہا : پھر وہ الله اکبر کہے اور سجدہ کرے تو اپنا چہرہ زمین پر ٹکا دے ۔ ہمام کہتے ہیں : اسحاق بن عبداللہ نے کبھی یوں کہا : اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دے یہاں تک کہ اس کے جوڑ آرام پالیں اور ڈھیلے ہوجائیں، پھر الله اکبر کہے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر سیدھا بیٹھ جائے اور اپنی پیٹھ سیدھی کرلے پھر نماز کی چاروں رکعتوں کی کیفیت فارغ ہونے تک اسی طرح بیان کی (پھر فرمایا) : تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ایسا نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) (صحیح )
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع (رض) سے یہی قصہ مروی ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو اور اپنا رخ (چہرہ) قبلہ کی طرف کرلو تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہو، پھر سورة فاتحہ پڑھو اور قرآن مجید میں سے جس کی اللہ توفیق دے پڑھو، پھر جب رکوع میں جاؤ تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی پیٹھ برابر رکھو ، اور فرمایا : جب تم سجدہ میں جاؤ تو اپنے سجدوں میں (پیشانی کو) ٹکائے رکھو اور جب سجدے سے سر اٹھاؤ تو اپنی بائیں ران پر بیٹھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٥٧، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) (حسن )
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہی قصہ روایت کرتے ہیں، اس میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو (پہلے) الله اکبر کہو، پھر قرآن مجید میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو پڑھو ، اور اس میں ہے : جب تم نماز کے بیچ میں بیٹھو تو اطمینان و سکون سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران کو بچھا لو، پھر تشہد پڑھو، پھر جب کھڑے ہو تو ایسا ہی کرو یہاں تک کہ تم اپنی نماز سے فارغ ہوجاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٥٧، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) (حسن )
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (فرمایا) ، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی اس میں ہے : پھر وضو کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے، پھر تشہد پڑھو ١ ؎، پھر اقامت کہو، پھر الله اکبر کہو، پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو، ورنہ الحمد لله، الله أكبر، لا إله إلا الله کہو ، اور اس میں ہے کہ : اگر تم نے اس میں سے کچھ کم کیا تو اپنی نماز میں سے کم کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٥٧، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تشہد سے مراد وضو کے بعد کی دعا ہے۔
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
عبدالرحمٰن بن شبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوے کی طرح چونچ مارنے ١ ؎، درندے کی طرح بازو بچھانے ٢ ؎، اور اونٹ کے مانند آدمی کے مسجد میں اپنے لیے ایک جگہ متعین کرلینے سے (جیسے اونٹ متعین کرلیتا ہے) منع فرمایا ہے (یہ قتیبہ کے الفاظ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ١٤٥ (١١١٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٤ (١٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٨، ٤٤٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کوے کی طرح چونچ مارنے سے مراد ارکان نماز کی ادائیگی جلدی جلدی کرنا ہے۔ ٢ ؎ : درندے کی طرح بازو بچھانے سے مراد سجدے میں دونوں ہاتھ کو زمین سے لگانا اور پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھنا ہے۔
جو شخص اچھی طرح رکوع و سجود ادا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
سالم براد کہتے ہیں کہ ہم ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری (رض) کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق بتائیے تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے الله اکبر کہا، پھر جب وہ رکوع میں گئے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے اور اپنی انگلیاں اس سے نیچے رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر ایک عضو اپنے اپنے مقام پر جم گیا، پھر انہوں نے سمع الله لمن حمده کہا اور کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر آ کر ٹھہر گیا، پھر الله اکبر کہہ کر سجدہ کیا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور بیٹھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر دوبارہ ایسا ہی کیا، پھر چاروں رکعتیں اسی کی طرح پڑھیں (اس طرح) انہوں نے اپنی نماز پوری کی پھر کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٩٣ (١٠٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٩، ١٢٠، ٥/٢٤٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٨(١٣٤٣) (صحیح )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان کہ فرائض کا نقصان نوافل سے پورا کرلیا جائے گا
انس بن حکیم ضبی کہتے ہیں کہ وہ زیاد یا ابن زیاد سے ڈر کر مدینہ آئے تو ان کی ملاقات ابوہریرہ (رض) سے ہوئی، انس کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) نے اپنا نسب مجھ سے جوڑا تو میں ان سے جڑ گیا، پھر وہ کہنے لگے : اے نوجوان ! کیا میں تم سے ایک حدیث نہ بیان کروں ؟ انس کہتے ہیں : میں نے کہا : کیوں نہیں ! ضرور بیان کیجئے، اللہ آپ پر رحم فرمائے، یونس کہتے ہیں : میں یہی سمجھتا ہوں کہ ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھ تاچھ کی جائے گی وہ نماز ہوگی، ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے میرے بندے کی نماز کو دیکھو وہ پوری ہے یا اس میں کوئی کمی ہے ؟ اگر پوری ہوگی تو پورا ثواب لکھا جائے گا اور اگر کمی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا : دیکھو، میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے ؟ اگر نفل ہوگی تو فرمائے گا : میرے بندے کے فرض کو اس کی نفلوں سے پورا کرو، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٢ (١٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٠، ١٥٥٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٩ (٤١٣) ، سنن النسائی/الصلاة ٩ (٤٦٤) ، مسند احمد (٢/٤٢٥، ٢/٩٠، ٤/١٠٣) (صحیح )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان کہ فرائض کا نقصان نوافل سے پورا کرلیا جائے گا
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے گذشتہ حدیث کے ہم معنی حدیث مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٠) (صحیح) (پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی رجل من بنی سلیط ہے )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان کہ فرائض کا نقصان نوافل سے پورا کرلیا جائے گا
تمیم داری (رض) نے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً روایت کی ہے اس میں ہے : پھر زکاۃ کا یہی حال ہوگا، پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح سے ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٢ (١٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٣) (صحیح )
رکوع و سجود کے احکام اور رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کا بیان
مصعب بن سعد کہتے ہیں میں نے اپنے والد کے بغل میں نماز پڑھی تو میں نے (رکوع میں) اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں کرلیے تو انہوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا، پھر میں نے دوبارہ ایسے ہی کیا تو انہوں نے کہا : تم ایسا نہ کیا کرو کیونکہ پہلے ہم بھی ایسا ہی کرتے تھے، پھر ہم کو ایسا کرنے سے روک دیا گیا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٨ (٧٩٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٠ (٢٥٩) ، سنن النسائی/الافتتاح ٩١(١٠٣٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧ (٨٧٣) ، تحفة الأشراف (٣٩٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ١٨١، ١٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٨ (١٣٤١) (صحیح )
رکوع و سجود کے احکام اور رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اپنے دونوں بازؤوں کو اپنی رانوں پر بچھا لے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تطبیق کرے ١ ؎، گویا میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے اختلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤) ، سنن النسائی/المساجد ٢٧ ( ٧٢٠) ، والإمامة ١٨ (٨٠٠) ، والتطبیق ١ (١٠٣٠، ١٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر انہیں دونوں رانوں کے بیچ میں رکھنے کو تطبیق کہتے ہیں ، یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا، ممکن ہے عبداللہ بن مسعود (رض) کو اس کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہوا ہو۔
رکوع اور سجدہ کی تسبیح
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں جب آیت کریمہ : فسبح باسم ربک العظيم اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو (سورۃ الواقعۃ : ٧٤) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے رکوع میں کرلو ، پھر جب سبح اسم ربک الأعلى اپنے بہت ہی بلند رب کے نام پاکیزگی بیان کرو (سورۃ الاعلی : ١) اتری تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے سجدے میں کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠ (٨٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩ (١٣٤٤) (ضعیف) ( عمّہ سے مراد ایاس بن عامر ہیں جو غیر معروف ہیں، اور جن کی توثیق صرف عجلی اور ابن حبان نے کی ہے، اور یہ دونوں متساہل ہیں، ابن حجر نے ان کو صدوق لکھا ہے، حالانکہ موسیٰ کے علاوہ ان سے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے، امام ذھبی کہتے ہیں کہ (ليس بالقوي) یہ قوی نہیں ہیں ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ( ٩ ؍ ٣٣٧)
رکوع اور سجدہ کی تسبیح
اس طریق سے بھی عقبہ بن عامر (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں راوی نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع کرتے تو تین بار سبحان ربي العظيم وبحمده کہتے، اور جب سجدہ کرتے تو تین بار سبحان ربي الأعلى وبحمده کہتے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ وبحمده کا یہ اضافہ محفوظ نہ ہو ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ربیع اور احمد بن یونس کی ان دونوں حدیثوں کی اسناد کے سلسلے میں اہل مصر منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٩) (ضعیف) (اس کی سند میں رجل من قومه مبہم راوی ایاس ابن عامر ہیں، جو مجہول ہیں، صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ رکوع و سجود میں سبحانک اللهم ربنا وبحمدک پڑھا کرتے تھے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں تسبیح تین بار پڑہنے کی بات ہے، مسند احمد، ابن ماجہ، دارقطنی، طحاوی، بزار، ابن خزیمہ ، (٦٠٤) ، طبرانی (کبیر) میں سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تین تسبیح وارد ہے (ملاحظہ ہو : صفة صلاة النبي للألباني : 132) وضاحت : مسند احمد، طبرانی ، دارقطنی، بیہقی میں سبحان ربي العظيم وبحمده تین بار وارد ہے (ملاحظہ ہو : صفة صلاة النبي للألباني : 133 )
رکوع اور سجدہ کی تسبیح
شعبہ کہتے ہیں : میں نے سلیمان سے کہا کہ جب میں نماز میں خوف دلانے والی آیت سے گزروں تو کیا میں دعا مانگوں ؟ تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، جسے انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، سعید نے مستورد سے، مستورد نے صلہ بن زفر سے اور صلہ بن زفر نے حذیفہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ حذیفہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ ﷺ رکوع میں سبحان ربي العظيم کہتے تھے، اور اپنے سجدوں میں سبحان ربي الأعلى کہتے تھے، اور رحمت کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں، اور اللہ سے سوال نہ کیا ہو، اور عذاب کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں اور عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٧ (٧٧٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٢ (٢٦٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٧ (١٠٠٧) ، والتطبیق ٧٤ (١١٣٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠ (٨٩٧) ، ١٧٩(١٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٤، ٣٩٤، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩(١٣٤٥) (صحیح )
رکوع اور سجدہ کی تسبیح
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں سبوح قدوس رب الملائكة والروح کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٧) ، سنن النسائی/التطبیق ١١ (١٠٤٩) ، ٧٥ (١١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦ /٣٥، ٩٤، ١١٥، ١٤٨، ١٤٩، ١٧٦، ١٩٢، ٢٠٠، ٢٤٤، ٢٦٦) (صحیح )
رکوع اور سجدہ کی تسبیح
عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا ہوا، آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے سورة البقرہ پڑھی، آپ ﷺ کسی رحمت والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور سوال کرتے، اور کسی عذاب والی آیت سے نہیں گزرتے مگر وہاں ٹھہرتے اور اس سے پناہ مانگتے، پھر آپ ﷺ نے اپنے قیام کے بقدر لمبا رکوع کیا، اور آپ ﷺ نے رکوع میں : سبحان ذي الجبروت والملکوت والکبرياء والعظمة پڑھا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے قیام کے بقدر لمبا سجدہ کیا، سجدے میں بھی آپ نے وہی دعا پڑھی، جو رکوع میں پڑھی تھی پھر اس کے بعد کھڑے ہوئے اور سورة آل عمران پڑھی، پھر (بقیہ رکعتوں میں) ایک ایک سورة پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٧٣ (١١٣٨) ، سنن الترمذی/الشمائل (٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٤) (صحیح )
رکوع اور سجدہ کی تسبیح
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ تین بار الله اکبر ، اور (ایک بار) ذو الملکوت والجبروت والکبرياء والعظمة کہہ رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے قرآت شروع کی تو سورة البقرہ کی قرآت کی، پھر رکوع کیا تو آپ ﷺ کا رکوع قریب قریب آپ کے قیام کے برابر رہا اور آپ اپنے رکوع میں سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم کہہ رہے تھے، پھر رکوع سے سر اٹھایا (اور کھڑے رہے) آپ ﷺ کا قیام آپ کے رکوع کے قریب قریب رہا اور آپ اس درمیان لربي الحمد کہہ رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو آپ کا سجدہ آپ کے قیام کے برابر رہا، اور آپ سجدہ میں سبحان ربي الأعلى کہہ رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے اپنا سر اٹھایا اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھے رہے جتنی دیر تک سجدے میں رہے تھے، اور اس درمیان رب اغفر لي رب اغفر لي کہہ رہے تھے، اس طرح آپ ﷺ نے چار رکعتیں ادا کیں اور ان میں بقرہ، آل عمران، نساء اور مائدہ یا انعام پڑھی۔ یہ شک شعبہ کو ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی /الشمائل ٣٩ (٢٧٥) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٥ (١٠٧٠) ، ٨٦ (١١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٥) (صحیح) (حدیث نمبر ( ٨٧١) سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی رجل بن بنی عبس ہیں )
رکوع اور سجدہ میں دعا کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، تو (سجدے میں) تم بکثرت دعائیں کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٨ (١١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤١) (صحیح )
رکوع اور سجدہ میں دعا کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (مرض الموت میں اپنے کمرہ کا) پردہ اٹھایا، (دیکھا کہ) لوگ ابوبکر (رض) کے پیچھے صف باندھے ہوئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! نبوت کی بشارتوں (خوشخبری دینے والی چیزوں) میں سے اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے سچے خواب کے جسے مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے سلسلہ میں کوئی دوسرا دیکھتا ہے، مجھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے، رہا رکوع تو اس میں تم اپنے رب کی بڑائی بیان کیا کرو، اور رہا سجدہ تو اس میں تم دعا میں کوشاں رہو کیونکہ یہ تمہاری دعا کی مقبولیت کے لیے زیادہ موزوں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٧٩) ، سنن النسائی/التطبیق ٨ (١٠٤٦) ، ٦٢ (١١٢١) ، سنن ابن ماجہ/تعبیر الرؤیا ١ (٣٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٩) ، (١٩٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٧ (١٣٦٤) (صحیح )
رکوع اور سجدہ میں دعا کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدوں میں کثرت سے سبحانک اللهم ربنا وبحمدک اللهم اغفر لي کہتے تھے اور قرآن کی آیت فسبح بحمد ربک واستغفره (سورة النصر : ٣) کی عملی تفسیر کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٣ (٧٩٤) ، ١٣٩ (٨١٧) والمغازي ٥١ (٤٢٩٣) ، و تفسیر سورة النصر ١ (٤٩٦٧) ، ٢ (٤٩٦٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٤) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠ (١٠٤٨) ، ٦٤ (١١٢٣) ، ٦٥ (١١٢٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠ (٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٤٩، ١٩٠) (صحیح )
رکوع اور سجدہ میں دعا کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم اغفر لي ذنبي كله دقه وجله وأوله وآخره یعنی اے اللہ ! تو میرے تمام چھوٹے بڑے اور اگلے پچھلے گناہ بخش دے ۔ ابن السرح نے اپنی روایت میں علانيته وسره کی زیادتی کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٦) (صحیح )
رکوع اور سجدہ میں دعا کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک رات (اپنے پاس بستر پر) نہیں پایا تو میں نے آپ کو نماز پڑھنے کی جگہ میں ٹٹولا تو کیا دیکھا کہ آپ ﷺ سجدہ میں ہیں اور آپ کے دونوں پاؤں کھڑے ہیں اور آپ یہ دعا کر رہے ہیں : أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک یعنی اے اللہ ! میں تیرے غصے سے تیری رضا مندی کی پناہ مانگتا ہوں اور تیرے عذاب سے تیری بخشش کی پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٦) ، سنن النسائی/الطھارة ١١٩، باب ١٢٠(١٦٩) ، والتطبیق ٤٧ (١١٠١) ، ٧١ (١١٣١) ، والاستعاذة ٦٢ (٥٥٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ القرآن ٨ (٣١) ، مسند احمد (٦/٥٨، ٢٠١) (صحیح )
نماز میں دعا مانگنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بک من المأثم والمغرم یعنی اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح (کانے) دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور قرض سے تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا : ( اللہ کے رسول ! ) آپ قرض سے کس قدر پناہ مانگتے ہیں ؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : آدمی جب قرض دار ہوتا ہے، بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو اس کے خلاف کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٩ (٨٣٢) ، الاستقراض ١٠ (٢٣٩٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٨٩) ، سنن النسائی/السہو ٦٤ (١٣١٠) ، الاستعاذة ٩ (٥٤٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٧٧ (٣٤٩٥) ، مسند احمد (٦/٨٨، ٨٩، ٢٤٤) (صحیح )
نماز میں دعا مانگنے کا بیان
ابولیلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بغل میں ایک نفل نماز پڑھی تو میں نے آپ کو أعوذ بالله من النار ويل لأهل النار میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور جہنم والوں کے لیے خرابی ہے کہتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ١٧٩(١٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٧) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن أبی لیلی ضعیف راوی ہیں )
نماز میں دعا مانگنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک دیہاتی نے نماز میں کہا : اللهم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا اے اللہ ! تو مجھ پر اور محمد ﷺ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو اس دیہاتی سے فرمایا : تم نے ایک وسیع چیز کو تنگ کردیا ، اس سے آپ ﷺ اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم (٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٤٣) (صحیح )
نماز میں دعا مانگنے کا بیان
حدیث نمبر : 883 اس حدیث میں وکیع کی مخالفت کی گئی اور اسے ابو وکیع اور شعبہ نے ابواسحاق سے ابوسحاق نے سعید بن جبیر سے اور سعید نے ابن عباس (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢، ٣٧١) (صحیح )
نماز میں دعا مانگنے کا بیان
موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں ایک صاحب اپنی چھت پر نماز پڑھا کرتے تھے، جب وہ آیت کریمہ أليس ذلک بقادر على أن يحيي الموتى (سورة القيامة : ٤٠) پر پہنچتے تو سبحانک کہتے پھر روتے، لوگوں نے اس سے ان کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : احمد نے کہا : مجھے بھلا لگتا ہے کہ آدمی فرض نماز میں وہ دعا کرے جو قرآن میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٠) (صحیح ) وضاحت : وضاحت : سورة القيامة : (٤٠ )
رکوع اور سجود میں قیام کی مقدار
سعدی کے والد یا چچا کہتے ہیں کہ میں نے نماز میں نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ رکوع اور سجدہ میں اتنی دیر تک رہتے جتنی دیر میں تین بار : سبحان الله وبحمده کہہ سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٨، ١٦١، ١٧٦، ٢٥٣، ٢٧١، ٥/٦) (صحیح )
رکوع اور سجود میں قیام کی مقدار
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو اسے چاہیئے کہ تین بار : سبحان ربي العظيم کہے، اور یہ کم سے کم مقدار ہے، اور جب سجدہ کرے تو کم سے کم تین بار : سبحان ربي الأعلى کہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرسل ہے، عون نے عبداللہ (رض) کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٨٢ (٢٦١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠ (٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٣٠) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کردیا ہے، یعنی عون کی ملاقات عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں ہوئی )
رکوع اور سجود میں قیام کی مقدار
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص سورة والتين والزيتون پڑھے اسے چاہیئے کہ جب اس کی آخری آیت والتين والزيتون پر پہنچے تو : بلى وأنا على ذلک من الشاهدين کہے، اور جو سورة لا أقسم بيوم القيامة پڑھے اور أليس ذلک بقادر على أن يحيي الموتى پر پہنچے تو بلى کہے، اور جو سورة والمرسلات پڑھے اور آیت فبأى حديث بعده يؤمنون پر پہنچے تو آمنا بالله کہے۔ اسماعیل کہتے ہیں : (میں نے یہ حدیث ایک اعرابی سے سنی) ، پھر دوبارہ اس کے پاس گیا تاکہ یہ حدیث پھر سے سنوں اور دیکھوں شاید ؟ (وہ نہ سنا سکے) تو اس اعرابی نے کہا : میرے بھتیجے ! تم سمجھتے ہو کہ مجھے یہ یاد نہیں ؟ میں نے ساٹھ حج کئے ہیں اور ہر حج میں جس اونٹ پر میں چڑھا تھا اسے پہچانتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/التفسیر ٨٣ (٣٣٤٧) ، مسند احمد ٢/٢٤٩، (تحفة الأشراف : ١٥٥٠) (ضعیف) (اس کا راوی اعرابی مبہم شخص ہے )
رکوع اور سجود میں قیام کی مقدار
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں انس بن مالک (رض) کو یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو اس نوجوان یعنی عمر بن عبدالعزیز کی نماز سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہو سعید بن جبیر کہتے ہیں : تو ہم نے ان کے رکوع اور سجدہ میں دس دس مرتبہ تسبیح کہنے کا اندازہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : احمد بن صالح کا بیان ہے : میں نے عبداللہ بن ابراہیم بن عمر بن کیسان سے پوچھا : (وہب کے والد کا نام) مانوس ہے یا مابوس ؟ تو انہوں نے کہا : عبدالرزاق تو مابوس کہتے تھے لیکن مجھے مانوس یاد ہے، یہ ابن رافع کے الفاظ ہیں اور احمد نے (اسے سمعت کے بجائے عن سے یعنی : عن سعيد بن جبير عن أنس بن مالک روایت کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٧٦ (١١٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٢-١٦٣) (ضعیف) (اس کی سند میں وہب بن مانوس مجہول الحال راوی ہیں )
جب امام کو سجدہ کی حالت میں پائے تو کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے نماز پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو اود، (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٩ (٥٨٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٩ (٥٥٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩١ (١١٢٣) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٣(١٥) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٨٠، ٣٧٥، ٣٧٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٦) (حسن) ( اس حدیث کو ابن خزیمہ (١٦٢٢) نے اپنی صحیح میں تخریج کیا ہے، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، ان کی موافقت ذھبی نے کی ہے (١ ؍ ٢١٦) لیکن اس کے راوی یحییٰ بن ابی سلیمان لیَّن الحدیث ہیں، ابن حبان اور حاکم کی توثیق کافی نہیں ہے، لیکن حدیث مرفوع اور موقوف شواہد کی بناء پر حسن ہے ، ملاحظہ ہو : (صحیح ابی داود ٤ ؍ ٤٧۔ ٤٨) ، نیز حدیث کا دوسرا ٹکڑا ومن ادرک الخ صحیح ومتفق علیہ ہے )
سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حماد بن زید کی روایت میں ہے : تمہارے نبی اکرم ﷺ کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور یہ کہ آپ نہ بال سمیٹیں اور نہ کپڑا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٣ (٨٠٩) ، ١٣٤ (٨١٠) ، ١٣٧ (٨١٦) ، ١٣٨ (٨١٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩١ (٢٧٣) ، سنن النسائی/التطبیق ٤٠ (١٠٩٤) ، ٤٣ (١٠٩٧) ، ٤٥ (١٠٩٩) ، ٥٦ (١١١٦) ، ٥٨ (١١١٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩ (٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٥، ٣٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٣ (١٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نماز میں بالوں کو پگڑی وغیرہ میں سمیٹنا یا جوڑا باندھنا مکروہ ہے اسی طرح مٹی وغیرہ سے بچانے کے لئے کپڑوں کا سمیٹنا بھی درست نہیں۔
سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اور کبھی راوی نے کہا : تمہارے نبی اکرم ﷺ کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) (صحیح )
سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے
عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء : چہرہ ١ ؎، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدم سجدہ کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩١ (٢٧٢) ، سنن النسائی/التطبیق ٤١ (١٠٩٥) ، ٤٦ (١١٠٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩ (٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چہرہ میں پیشانی اور ناک دونوں داخل ہیں سجدے میں پیشانی کا زمین پر لگنا ضروری ہے اس کے بغیر سجدے کا مفہوم پورے طور سے ادا نہیں ہوتا۔
سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے
عبداللہ بن عمر (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک دونوں ہاتھ سجدہ کرتے ہیں جیسے چہرہ سجدہ کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی اپنا چہرہ زمین پر رکھے تو چاہیئے کہ دونوں ہاتھ بھی رکھے اور جب چہرہ اٹھائے تو چاہیئے کہ انہیں بھی اٹھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٣٩ (١٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦) (صحیح )
ناک اور پیشانی پر سجدہ کرنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر (شب قدر میں) اس نماز کی وجہ سے جو آپ نے لوگوں کو پڑھائی، مٹی کا اثر دیکھا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤١ (٦٦٩) ، ١٣٥ (٨١٣) ، ١٥١ (٨٣٦) ، ولیلة القدر ٢ (٢٠١٦) ، ٣ (٢٠١٨) ، والاعتکاف ١ (٢٠٢٧) ، ٩ (٢٠٣٦) ، ١٣ (٢٠٤) ، صحیح مسلم/الصوم ٤٠ (١١٦٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٤٢ (١٠٩٦) ، والسھو ٩٨ (١٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاعتکاف ٦ (٩) ، مسند احمد (٣/٩٤) ، ویأتي برقم : (١٣٨٢) (صحیح )
ناک اور پیشانی پر سجدہ کرنے کا بیان
اس سند سے بھی معمر سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩ )
سجدہ کا طریقہ
ابواسحاق کہتے ہیں کہ براء بن عازب (رض) نے ہمیں سجدہ کرنے کا طریقہ بتایا تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور اپنے دونوں گھٹنوں پر ٹیک لگائی اور اپنی سرین کو بلند کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ اسی طرح سجدہ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٥١ (١١٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی شریک ضعیف ہیں )
سجدہ کا طریقہ
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سجدے میں اعتدال کرو ١ ؎ اور تم میں سے کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٨ (٥٣٢) ، والأذان ١٤١ (٨٢٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٥ (٤٩٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٣ (٢٧٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٩ (١٠٢٩) ، والتطبیق ٥٠ (١١٠٤) ، ٥٣ (١١١١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢١ (٨٩٢) ، مسند احمد (٣/١٠٩، ١١٥، ١٧٧، ١٧٩، ١٩١، ٢٠٢، ٢١٤، ٢٣١، ٢٧٤، ٢٧٩، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنی ہیئت درمیانی رکھو اس طرح کہ پیٹ ہموار ہو اور دونوں کہنیاں زمین سے اٹھی ہوئی اور پہلووں سے جدا ہوں اور پیٹ ران سے جدا ہو۔
سجدہ کا طریقہ
ام المؤمنین میمونہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ (بغل سے) جدا رکھتے یہاں تک کہ اگر کوئی بکری کا بچہ آپ کے دونوں ہاتھوں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٢٣٨) ، سنن النسائی/التطبیق ٥٢ (١١١٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩ (٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣١، ٣٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧٩ (١٣٧٠) (صحیح )
سجدہ کا طریقہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آپ کے پیچھے سے آیا (اور آپ سجدے میں تھے) تو میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپ ﷺ اس طرح سجدہ کئے ہوئے تھے کہ اپنے دونوں بازو پسلیوں سے جدا کئے ہوئے تھے اور اپنا پیٹ زمین سے اٹھائے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ١/٢٩٢، ٣٠٢، ٣٠٥، ٣١٦، ٣١٧، ٣٣٩، ٣٤٣، ٣٥٤، ٣٦٢، ٣٦٥) (صحیح )
سجدہ کا طریقہ
احمر بن جزء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں بازو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھتے یہاں تک کہ ہمیں (آپ کی تکلیف و مشقت پر) رحم آجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩ (٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠، ٤/٣٤٢، ٥/٣١) (حسن صحیح )
سجدہ کا طریقہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے اور چاہیئے کہ اپنی دونوں رانوں کو ملا کر رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٩٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٨٥ (٢٦٩) ، سنن النسائی/التطبیق ٣٨ (١٠٩٢) ، مسند احمد (٢/٣٨١) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٨٣٧/٢ )
سجدہ میں کہنیوں کو زمین پر لگانے کی اجازت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے شکایت کی کہ جب لوگ پھیل کر سجدہ کرتے ہیں تو سجدے میں ہمیں تکلیف ہوتی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : زانو (گھٹنے) سے مدد لے لیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٠ (٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٩، ٤١٧) (ضعیف) ( محمد بن عجلان کی اس حدیث کو سمی سے ان سے زیادہ ثقہ، اور معتبر رواة نے مرسلا ذکر کیا ہے، اور ابوہریرہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٩ ؍ ٨٣٢ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کہنیوں کو گھٹنوں پر ٹیک دیا کرو۔
نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا
زیاد بن صبیح حنفی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کے بغل میں نماز پڑھی، اور اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ لیے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو کہا : یہ (کمر پر ہاتھ رکھنا) نماز میں صلیب (سولی) کی شکل ہے ١ ؎، اس سے رسول اللہ ﷺ منع فرماتے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ١٢ (٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٤) ، وقد أخرجہ : حم (٢/٣٠، ١٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ جسے سولی دی جاتی ہے اس کے ہاتھ سولی دیتے وقت اسی طرح رکھے جاتے ہیں۔ ٢ ؎ : مؤلف نے ترجمۃ الباب میں الاقعاء کا ذکر کیا ہے لیکن اس سے متعلق کوئی روایت یہاں درج نہیں کی ہے، ابن عباس (رض) کی إقعاء والی روایت اس سے پہلے الإقعاء بين السجدتين باب (١٤٣) کے تحت گزری۔
نماز میں رونے کا بیان
عبداللہ بن شخیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے چکی کی آواز کے مانند آواز آتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ٤٤ (٣٠٥) ، سنن النسائی/السھو ١٨ (١٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥، ٢٦) (صحیح )
نماز میں وساوس اور خیالات آنے کی کراہت
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے ان میں وہ بھولے نہیں ١ ؎ تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھتا ہے دنیاوی خیالات اور نماز سے غیر متعلق امور ذہن میں نہیں لاتا۔
نماز میں وساوس اور خیالات آنے کی کراہت
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے اور اپنے دل اور چہرے کو پوری طرح سے متوجہ کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٦ (٢٣٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١١١ (١٥١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٦، ١٥١، ١٥٣) ، سنن الدارمی/الطھارة ٤٣ (٧٤٣) (صحیح )
امام لقمہ دینے کا بیان
مسور بن یزید مالکی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں قرآت کر رہے تھے، (یحییٰ کی روایت میں ہے کبھی مسور نے یوں کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں قرآت کر رہے تھے) تو آپ ﷺ نے کچھ آیتیں چھوڑ دیں، انہیں نہیں پڑھا (نماز کے بعد) ایک شخص نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں فلاں آیتیں چھوڑ دی ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے مجھے یاد کیوں نہیں دلایا ؟ ۔ سلیمان نے اپنی روایت میں کہا کہ : میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ منسوخ ہوگئی ہیں ۔ سلیمان کی روایت میں ہے کہ مجھ سے یحییٰ بن کثیر ازدی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں : ہم سے مسور بن یزید اسدی مالکی نے بیان کیا۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھی، اس میں قرآت کی تو آپ کو شبہ ہوگیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابی بن کعب (رض) سے پوچھا : کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے ؟ ، ابی نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں (لقمہ دینے سے) کس چیز نے روک دیا ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٦، ١١٢٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧٤) (حسن )
امام لقمہ دینے کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی ! تم نماز میں امام کو لقمہ مت دیا کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابواسحاق نے حارث سے صرف چار حدیثیں سنی ہیں اور حدیث ان میں سے نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤٦) (ضعیف) (اس کی سند میں حارث اعور نہایت ضعیف راوی ہے ، نیز یہ حدیث ابواسحاق نے حارث سے نہیں سنی )
نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا
ابوذر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ حالت نماز میں بندے پر اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک کہ وہ ادھر ادھر نہیں دیکھتا ہے، پھر جب وہ ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے منہ پھیر لیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السھو ١٠ (١١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٧٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٤ (١٤٦٣) (حسن) (اس کے راوی ابو الأحوص لین الحدیث ہیں ، بعض لوگوں کے نزدیک مجہول ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٨٤٣/م، و صحیح الترغیب : ٥٥٢-٥٥٤ )
نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آدمی کے نماز کے ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بندے کی نماز سے شیطان کا اچک لینا ہے (یعنی اس کے ثواب میں سے ایک حصہ اڑا لیتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٣ (٧٥١) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٩١) ، سنن النسائی/السھو ١٠ (١١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦١ (٥٩٠) ، مسند احمد (٦/٧، ١٠٦) (صحیح )
ناک پر سجدہ کرنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جس سے آپ کی پیشانی اور ناک پر مٹی کے نشانات دیکھے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٤، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩) (صحیح )
نماز میں کسی طرف دیکھنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ اس سے باز آجائیں ورنہ (ہو سکتا ہے کہ) ان کی نگاہیں ان کی طرف واپس نہ لوٹیں یعنی بینائی جاتی رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٦ (٤٣٠) ، سنن النسائی/ السہو ٥ (١١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٨ (١٠٤٥) ، مسند احمد (٥/١٠٨) (صحیح )
نماز میں کسی طرف دیکھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ؟ ، پھر اس سلسلہ میں آپ نے بڑی سخت بات کہی، اور فرمایا : لوگ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٢ (٧٥٠) ، سنن النسائی/السھو ٩ (١١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٨ (١٠٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٩، ١١٢، ١١٥، ١١٦، ١٤٠، ٢٥٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٦٧ (١٣٣٩) (صحیح )
نماز میں کسی طرف دیکھنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اس چادر کے نقش و نگار نے نماز سے غافل کردیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ (ابوجہم ہی نے وہ چادر آپ کو تحفہ میں دی تھی) اور ان سے میرے لیے ان کی انبجانی چادر لے آؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٤ (٣٧٣) ، والأذان ٩٣ (٧٥٢) ، واللباس ١٩ (٥٨١٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٥ (٥٥٦) ، سنن النسائی/القبلة ٢٠ (٧٧٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١ (٣٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٨(٦٧) ، مسند احمد (٦/٣٧، ٤٦، ١٧٧، ١٩٩، ٢٠٨) ، ویأتي ہذا الحدیث فی اللباس (٤٠٥٣) (صحیح )
نماز میں کسی طرف دیکھنا
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے ابوجہم کی کردی چادر لے لی، تو آپ سے کہا گیا : اللہ کے رسول ! وہ (باریک نقش و نگار والی) چادر اس (کر دی چادر) سے اچھی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠٣، ١٧٠٢٣) ، ویاٹی ہذا الحدیث في اللباس (٤٠٥٢) ، (حسن )
نماز میں اِدھر ادھر دیکھنے کی اجازت
سہل بن حنظلیہ (رض) کہتے ہیں نماز یعنی فجر کے لیے تکبیر کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے اور آپ گھاٹی کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے جاتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : آپ نے رات میں نگرانی کے لیے ایک گھڑ سوار گھاٹی کی طرف بھیج رکھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٥١) (صحیح )
نماز میں کوئی کام کرنا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ ﷺ سجدے میں جاتے تو انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠٦ (٥١٦) ، والأدب ١٨ (٥٩٩٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٩ (٥٤٣) ، سنن النسائی/المساجد ١٩ (٧١٢) ، والإمامة ٣٧ (٨٢٨) ، والسھو ١٣ (١٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٤(٨١) ، مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٤، ٣١٠، ٣١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٣ (١٣٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر لڑکا یا لڑکی تنگ کرے اور نماز نہ پڑھنے دے تو اس کو گود میں اٹھا کر یا کندھے پر بٹھا کر نماز پڑھنی درست ہے۔
نماز میں کوئی کام کرنا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ امامہ بنت ابوالعاص بن ربیع کو اپنے کندھے اٹھائے ہوئے تھے، امامہ کی والدہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی زینب (رض) تھیں، امامہ ابھی چھوٹی بچی تھیں، وہ آپ ﷺ کے کندھے پر تھیں، جب آپ رکوع کرتے تو انہیں اتار دیتے پھر جب کھڑے ہوتے تو انہیں دوبارہ اٹھا لیتے، اسی طرح کرتے ہوئے آپ نے اپنی پوری نماز ادا کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٤) (صحیح )
نماز میں کوئی کام کرنا
ابوقتادہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا اور آپ کی نواسی امامہ بنت ابوالعاص (رض) آپ کی گردن پر سوار تھیں، جب آپ ﷺ سجدہ میں جاتے تو انہیں اتار دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٤) (صحیح )
نماز میں کوئی کام کرنا
صحابی رسول ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں ہم لوگ ظہر یا عصر میں نماز کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے اور بلال (رض) آپ کو نماز کے لیے بلا چکے تھے، اتنے میں آپ ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے اور اس حال میں کہ (آپ کی نواسی) امامہ بنت ابوالعاص (رض) جو آپ کی صاحبزادی زینب (رض) کی بیٹی تھیں آپ کی گردن پر سوار تھیں تو آپ اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور ہم لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور وہ اپنی جگہ پر اسی طرح بیٹھی رہیں، جیسے بیٹھی تھیں، ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ نے الله أكبر کہا تو ہم لوگوں نے بھی الله أكبر کہا یہاں تک کہ جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں اتار کر نیچے بٹھا دیا، پھر رکوع اور سجدہ کیا، یہاں تک کہ جب آپ سجدے سے فارغ ہوئے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے تو انہیں اٹھا کر (اپنی گردن پر) اسی جگہ بٹھا لیا، جہاں وہ پہلے بیٹھی تھیں، رسول اللہ ﷺ برابر ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد أبو داود بھذا السیاق، وانظر أصلہ في رقم (٩١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٤) (ضعیف) (اس حدیث میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور انہوں نے روایت عنعنہ سے کی ہے، حدیث میں ظہر یا عصر کی تعیین ہے، نیز بلال (رض) کا ذکر ہے ان کے بغیر اصل حدیث صحیح ہے، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا )
نماز میں کوئی کام کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز میں دونوں کالوں (یعنی) سانپ اور بچھو کو (اگر دیکھو تو) قتل کر ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٩٠) ، سنن النسائی/السھو ١٢ (١٢٠٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٦ (١٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٥٥، ٢٧٣، ٢٧٥، ٢٨٤، ٤٩٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٨ (١٥٤٥) (صحیح )
نماز میں کوئی کام کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے ١ ؎۔ اور عروہ نے ذکر کیا کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٤ (الجمعة ٦٨) ، (٦٠١) سنن النسائی/السھو ١٤ (١٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ١٨٣، ٢٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ان حدیثوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے واسطے چلنا یا دروازہ کھولنا یا لاٹھی اٹھا کر سانپ بچھو مارنا، یا بچے کو گود میں اٹھا لینا پھر بٹھا دینا، ان سب اعمال سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
نماز میں سلام کا جواب دینا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ ﷺ ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا : نماز (خود) ایک شغل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٣ (١٢٠١) ، ١٥ (١٢١٦) ، مناقب الأنصار ٣٧ (٣٨٧٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٨) ، ن الکبری / السھو ٩٩ (٥٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٤١٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٩ (١٠١٩) ، مسند احمد (١/ ١٧٦، ١٧٧، ٤٠٩، ٤١٥، ٤٣٥، ٤٦٢) (صحیح )
نماز میں سلام کا جواب دینا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ (پہلے) ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور کام کاج کی باتیں کرلیتے تھے، تو (ایک بار) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا تو مجھے پرانی اور نئی باتوں کی فکر دامن گیر ہوگئی ١ ؎، جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، نیا حکم نازل کرتا ہے، اب اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ نماز میں باتیں نہ کرو ، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : ن / الکبری/ السہو ١١٣ (٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٧) ، ٤٣٥، ٤٦٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہوئی ہے جس سے رسول اللہ ﷺ ناراض ہوگئے ہوں۔
نماز میں سلام کا جواب دینا
صہیب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا اس حال میں آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ نابل کہتے ہیں : مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے إشارة بأصبعه کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ ﷺ نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٩ (٣٦٧) ، سنن النسائی/السھو ٦ (١١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٩ (١٠١٩) ، مسند احمد (٤/٣٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٤ (١٤٠١) (صحیح )
نماز میں سلام کا جواب دینا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے بنی مصطلق کے پاس بھیجا، میں (وہاں سے) لوٹ کر آپ کے پاس آیا تو آپ ﷺ اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ سے بات کی، آپ ﷺ نے مجھے ہاتھ سے اس طرح سے اشارہ کیا، میں نے پھر آپ سے بات کی تو آپ ﷺ نے مجھے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا یعنی خاموش رہنے کا حکم دیا، میں آپ ﷺ کو قرآت کرتے سن رہا تھا اور آپ اپنے سر سے اشارہ فرما رہے تھے، پھر جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا : میں نے تم کو جس کام کے لیے بھیجا تھا اس سلسلے میں تم نے کیا کیا ؟ ، میں نے تم سے بات اس لیے نہیں کی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/السھو ٦ (١١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٩ (١٠١٨) ، مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٣٤، ٣٣٨، ٣٨٠، ٢٩٦) ، ویأتي برقم : (١٢٢٧) (صحیح )
نماز میں سلام کا جواب دینا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں : تو میں نے بلال (رض) سے پوچھا : جب انصار نے رسول اللہ ﷺ کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ ﷺ کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا ؟ بلال (رض) کہا : آپ ﷺ اس طرح کر رہے تھے، اور بلال (رض) نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الصلاة ١٥٥ (٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٨، ٨٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢) (حسن صحیح )
نماز میں سلام کا جواب دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز میں نقصان اور کمی نہیں ہے اور نہ سلام میں ہے ١ ؎، احمد کہتے ہیں : جہاں تک میں سمجھتا ہوں مطلب یہ ہے کہ (نماز میں) نہ تو تم کسی کو سلام کرو اور نہ تمہیں کوئی سلام کرے اور نماز میں نقصان یہ ہے کہ آدمی نماز سے اس حال میں پلٹے کہ وہ اس میں شک کرنے والا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٤٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سلام میں نقص نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ تم سلام کا مکمل جواب دو اس میں کوئی کمی نہ کرو یعنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ہی پر اکتفا نہ کرو بلکہ ” وبرکاتہ “ بھی کہو، ایسے ہی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے جواب میں صرف وعلیکم السلام ہی نہ کہو بلکہ ورحمۃ اللہ بھی کہو، اور نماز میں نقص کا ایک مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے پورے طور سے ادا نہ کئے جائیں، دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز میں اگر شک ہوجائے کہ تین رکعت ہوئی یا چار تو تین کو جو یقین ہے چھوڑ کر چار کو اختیار نہ کیا جائے۔
نماز میں سلام کا جواب دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ سلام میں نقص ہے اور نہ نماز میں ۔ معاویہ بن ہشام کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ سفیان نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ابن فضیل نے ابن مہدی کی طرح لا غرار في تسليم ولا صلاة کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کو مرفوع نہیں کہا ہے (بلکہ ابوہریرہ (رض) کا قول بتایا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٤٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٦١) (صحیح )
نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ہے
معاویہ بن حکم سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، قوم میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے (حالت نماز میں) يرحمک الله کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے (اپنے دل میں) کہا : تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو ؟ اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپتھپانا شروع کردیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا، میرے ماں باپ رسول اللہ ﷺ پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا : نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے ، یا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں (ابھی) نیا نیا مسلمان ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہم کو (جاہلیت اور کفر سے نجات دے کر) دین اسلام سے مشرف فرمایا ہے، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان کے پاس مت جاؤ ۔ میں نے کہا : ہم میں سے بعض لوگ بد شگونی لیتے ہیں ؟ ! آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ان کے دلوں کا وہم ہے، یہ انہیں ان کے کاموں سے نہ روکے ۔ پھر میں نے کہا : ہم میں سے کچھ لوگ لکیر (خط) کھینچتے ہیں ؟ ! آپ ﷺ نے فرمایا : نبیوں میں سے ایک نبی خط (لکیریں) کھینچا کرتے تھے، اب جس کسی کا خط ان کے خط کے موافق ہوا، وہ صحیح ہے ۔ میں نے کہا : میرے پاس ایک لونڈی ہے، جو احد اور جوانیہ کے پاس بکریاں چراتی تھی، ایک بار میں (اچانک) پہنچا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے کر چلا گیا ہے، میں بھی انسان ہوں، مجھے افسوس ہوا جیسے اور لوگوں کو افسوس ہوتا ہے تو میں نے اسے ایک زور کا طمانچہ رسید کردیا تو یہ بات رسول اللہ ﷺ پر گراں گزری، میں نے عرض کیا : کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے میرے پاس لے کر آؤ ، میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ ﷺ نے (اس لونڈی سے) پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ ، اس نے کہا : آسمان کے اوپر ہے، پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : میں کون ہوں ؟ ، اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٧) ، والسلام ٣٥ (٥٣٧) ، سنن النسائی/السھو ٢٠ (١٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العتق ٦ (٨) مسند احمد (٥/٤٤٧، ٤٤٨، ٤٤٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٧ (١٥٤٣) ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (٣٢٨٢) ، وفی الطب (٣٩٠٩) (صحیح )
نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ہے
معاویہ بن حکم سلمی (رض) کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو مجھے اسلام کی کچھ باتیں معلوم ہوئیں چناچہ جو باتیں مجھے معلوم ہوئیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جب تمہیں چھینک آئے تو الحمد الله کہو اور کوئی دوسرا چھینکے اور الحمد الله کہے تو تم يرحمک الله کہو۔ معاویہ (رض) کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی اس نے الحمد الله کہا تو میں نے يرحمک الله بلند آواز سے کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آگیا، میں نے کہا : تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو ؟ تو ان لوگوں نے سبحان الله کہا، پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : (دوران نماز) کس نے بات کی تھی ؟ ، لوگوں نے کہا : اس اعرابی نے، آپ ﷺ نے مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمایا : نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے، تو جب تم نماز میں رہو تو تمہارا یہی کام ہونا چاہیئے ۔ معاویہ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر شفیق اور مہربان کبھی کسی معلم کو نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٩) (ضعیف) (فلیح بن سلیمان میں سوء حفظ ہے، انہوں نے اس حدیث میں آدمی کے چھینکنے کے بعد الحمد للہ کہنے کا تذکرہ کیا ہے، معاویہ سلمی کا قول : فكان فيما علمت ... فقل : يرحمک الله نیز یحییٰ بن ابی کثیر کی سابقہ حدیث یہ دونوں باتیں مذکور نہیں ہیں، اور اس کا سیاق فلیح کے سیاق سے زیادہ کامل ہے، فی الجملہ فلیح کی روایت اوپر کی روایت کے ہم معنی ہے، لیکن زائد اقوال میں فلیح قابل استناد نہیں ہیں، خود ابوداود نے ان کے بارے میں کہا ہے :صدوق لا يحتج به واضح رہے کہ فلیح بخاری و مسلم کے روای ہیں ( ھدی الساری : ٤٣٥) ابن معین، ابو حاتم اور نسائی نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن حجر نے صدوق کثير الخطا کہا ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٩ ؍ ٣٥٣- ٣٥٤ )
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب ولا الضالين پڑھتے تو آمین کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٧٢ (٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٤ (٨٨٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤ (٨٥٥) ، مسند احمد (٤/٣١٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٩ (١٢٨٣) (صحیح )
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے زور سے آمین کہی اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کے گال کی سفیدی دیکھ لی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٨) (حسن صحیح )
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کی تلاوت فرماتے تو آمین کہتے یہاں تک کہ پہلی صف میں سے جو لوگ آپ سے نزدیک ہوتے اسے سن لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤ (٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی ابن عم ابوہریرة لین الحدیث ہیں )
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہوجائے گا اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨٠) ، ١١٣ (٧٨٢) ، و تفسیر الفاتحة ٣ (٤٤٧٥) ، والدعوات ٦٣ (٦٤٠٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٤ (٩٣٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١(٤٥) ، مسند احمد (٢/٢٣٨، ٤٥٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٣ (٢٥٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤ (٨٥١) (صحیح )
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگی اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ آمین کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٠، ١٥٤٢) (صحیح )
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
بلال (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢) (ضعیف) (ابوعثمان نہدی کی ملاقات بلال (رض) سے نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اتنی مہلت دیا کیجئے کہ میں سورة فاتحہ سے فارغ ہوجاؤں تاکہ آپ کی اور میری آمین ساتھ ہوا کرے ابوہریرہ (رض) یہ بات مروان سے کہا کرتے تھے۔
امام کے پیچھے مقتدیوں کا آمین کہنا
ابومصبح مقرائی کہتے ہیں کہ ہم ابوزہیر نمیری (رض) کے پاس بیٹھا کرتے تھے، وہ صحابی رسول تھے، وہ (ہم سے) ا چھی اچھی حدیثیں بیان کرتے تھے، جب ہم میں سے کوئی دعا کرتا تو وہ کہتے : اسے آمین پر ختم کرو، کیونکہ آمین کتاب پر لگی ہوئی مہر کی طرح ہے۔ ابوزہیر نے کہا : میں تمہیں اس کے بارے میں بتاؤں ؟ ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہم لوگ ایک شخص کے پاس پہنچے جو نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا تھا، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر سننے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے (اپنی دعا پر) مہر لگا لی تو اس کی دعا قبول ہوگئی ، اس پر ایک شخص نے پوچھا : کس چیز سے وہ مہر لگائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : آمین سے، اگر اس نے آمین سے ختم کیا تو اس کی دعا قبول ہوگئی ۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سن کر وہ شخص (جس نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تھا) اس آدمی کے پاس آیا جو دعا کر رہا تھا اور اس سے کہا : اے فلاں ! تم اپنی دعا پر آمین کی مہر لگا لو اور خوش ہوجاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٢) (ضعیف) (اس کے راوی صبیح بن محرز لین الحدیث ہیں )
نماز میں تالی بجانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز میں مردوں کو سبحان الله کہنا چاہیئے اور عورتوں کو تالی بجانی چاہیئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٥ (١٢٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢٢) ، سنن النسائی/السھو ١٥ (١٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٥ (١٠٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦٠ (٣٦٩) ، مسند احمد (٢/٢٦١، ٣١٧، ٣٧٦، ٤٣٢، ٤٤٠، ٤٧٣، ٤٧٩، ٤٩٢، ٥٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دوران نماز امام سے کچھ بھول چوک ہوجائے تو اس کو اس کی غلطی بتانے کے لیے مرد ” سبحان اللہ “ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔
نماز میں تالی بجانا
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، اور نماز کا وقت ہوگیا، مؤذن نے ابوبکر (رض) کے پاس آ کر پوچھا : کیا آپ نماز پڑھائیں گے، میں تکبیر کہوں ؟ ابوبکر (رض) نے کہا : ہاں (تکبیر کہو میں نماز پڑھاتا ہوں) ، تو ابوبکر (رض) نماز پڑھانے لگے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ آگئے اور لوگ نماز میں تھے، آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہوگئے تو لوگ تالی بجانے لگے ١ ؎ اور ابوبکر (رض) کا حال یہ تھا کہ وہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، لوگوں نے جب زیادہ تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ پر نگاہ پڑی، آپ ﷺ نے ان سے اشارہ سے فرمایا : تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو ، تو ابوبکر (رض) نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اس بات پر جس کا رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا، اللہ کا شکر ادا کیا، پھر پیچھے آ کر صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے، پھر جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : جب میں نے تمہیں حکم دے دیا تھا تو اپنی جگہ پر قائم رہنے سے تمہیں کس چیز نے روک دیا ؟ ، ابوبکر (رض) نے عرض کیا : ابوقحافہ ٢ ؎ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھائے، پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : کیا بات تھی ؟ تم اتنی زیادہ کیوں تالیاں بجا رہے تھے ؟ جب کسی کو نماز میں کوئی معاملہ پیش آجائے تو وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب وہ سبحان الله کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور تالی بجانا صرف عورتوں کے لیے ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ فرض نماز کا واقعہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٥ (١٢٠٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٢ (٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الإمامة ٧ (٧٨٥) ، ١٥(٧٩٤) ، السہو ٤ (١١٨٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٥ (١٠٣٤) ، موطا امام مالک/قصة الصلاة ٢٠ (٦١) ، مسند احمد (٥/٣٣٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ ابوبکر (رض) کو رسول اللہ ﷺ کی آمد کا علم ہوجائے۔ ٢ ؎ : ابوقحافہ ابوبکر (رض) کے والد کی کنیت ہے۔
نماز میں تالی بجانا
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہوئی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی، تو آپ ظہر کے بعد مصالحت کرانے کی غرض سے ان کے پاس آئے اور بلال (رض) سے کہہ آئے کہ اگر عصر کا وقت آجائے اور میں واپس نہ آسکوں تو تم ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، چناچہ جب عصر کا وقت ہوا تو بلال نے اذان دی پھر تکبیر کہی اور ابوبکر (رض) کو نماز پڑھانے کے لیے کہا تو آپ آگے بڑھ گئے، اس کے اخیر میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : جب تمہیں نماز میں کوئی حادثہ پیش آجائے تو مرد سبحان الله کہیں اور عورتیں دستک دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٣٦ (٧١٩٠) ، سنن النسائی/الإمامة ١٥ (٧٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٣٢، ٣٣٦) ، دی/الصلاة ٩٥(١٤٠٤) (صحیح )
نماز میں تالی بجانا
عیسیٰ بن ایوب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد التصفيح للنساء سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ کی دونوں انگلیاں اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر ماریں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١٨٨) (صحیح )
نماز میں اشارہ کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز میں اشارہ کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے بوقت ضرورت نماز میں اشارے کا جواز ثابت ہوتا ہے جیسے اشارے سے سلام کا جواب دینا وغیرہ۔
نماز میں اشارہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سبحان الله کہنا مردوں کے لیے ہے یعنی نماز میں اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہیں، جس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا اشارہ کیا کہ جسے سمجھا جاسکے تو وہ اس کی وجہ سے اسے لوٹائے یعنی اپنی نماز کو۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث وہم ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٥) (ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز یونس سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ یہاں انہیں سے غلطی ہوئی ہو ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ام سلمہ (رض) کی روایت جس میں عصر کے بعد دو رکعتوں کے پڑھنے کا ذکر ہے اور ام المومنین عائشہ و جابر (رض) کی روایتیں جن میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ایک بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھائی تو لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے تو آپ ﷺ نے اشارہ سے انہیں بیٹھ جانے کے لئے کہا دونوں روایتیں اس کے مخالف ہیں۔
دوران نماز کنکریاں ہٹانا
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت اس کا سامنا کرتی ہے، لہٰذا وہ کنکریوں پر ہاتھ نہ پھیرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٧٩) ، سنن النسائی/السھو ٧ (١١٩٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٣ (١٠٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٠، ١٦٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٨) (ضعیف) (ابوالأحوص لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کنکریوں پر ہاتھ پھیرنے سے مراد انہیں برابر کرنا ہے تاکہ ان پر سجدہ کیا جاسکے۔
دوران نماز کنکریاں ہٹانا
معیقیب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نماز پڑھنے کی حالت میں (کنکریوں پر) ہاتھ نہ پھیرو، یعنی انہیں برابر نہ کرو، اگر کرنا ضروری ہو تو ایک دفعہ برابر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٨ (١٢٠٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٢ (٥٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٧ (٣٨٠) ، سنن النسائی/السھو ٨ (١١٩٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٢ (١٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٥/٤٢٥، ٤٢٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٧) (صحیح )
کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں الاختصار سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں :الاختصار کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ اپنی کمر پر رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ١٧ (١٢٢٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١١ (٥٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٩ (٣٨٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ١٢ (٨٨٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٩٠، ٢٩٥، ٣٣١، ٣٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٨ (١٤٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ یہودیوں کا فعل ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ابلیس کو زمین پر اسی ہیئت میں اتارا گیا تھا۔
لکڑی سے ٹیک لگا کر نماز پڑھنے کا بیان
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ میں رقہ ١ ؎ آیا تو میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا : کیا تمہیں کسی صحابی سے ملنے کی خواہش ہے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ (ملاقات ہوجائے تو) غنیمت ہے، تو ہم وابصہ (رض) کے پاس گئے، میں نے اپنے ساتھی سے کہا : پہلے ہم ان کی وضع دیکھیں، میں نے دیکھا کہ وہ ایک ٹوپی سر سے چپکی ہوئی دو کانوں والی پہنے ہوئے تھے اور خز ریشم کا خاکی رنگ کا برنس ٢ ؎ اوڑھے ہوئے تھے، اور کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نماز میں ایک لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر ہم نے سلام کرنے کے بعد ان سے (نماز میں لکڑی پر ٹیک لگانے کی وجہ) پوچھی تو انہوں نے کہا : مجھ سے ام قیس بنت محصن نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عمر جب زیادہ ہوگئی اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو آپ ﷺ نے اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون بنا لیا جس پر آپ ٹیک لگاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک شہر کا نام ہے جو شام میں دریائے فرات پر واقع ہے۔ ٢ ؎ : ایک قسم کا لباس جس میں ٹوپی اسی سے بنی ہوتی ہے۔
نماز میں گفتگو کی ممانعت
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو چاہتا نماز میں اپنے بغل والے سے باتیں کرتا تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی وقوموا لله قانتين اللہ کے لیے چپ چاپ کھڑے رہو (سورۃ البقرہ : ٢٣٨) تو ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ٢ (١٢٠٠) ، و تفسیر البقرة ٤٢ (٤٥٣٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٥ (٤٠٥) ، و تفسیر البقرة (٢٩٨٦) ، سنن النسائی/السھو ٢٠ (١٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٨) (صحیح )
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بیٹھ کر پڑھنے والے شخص کی نماز آدھی نماز ہے ، میں آپ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے (تعجب سے) اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا، آپ ﷺ نے پوچھا : عبداللہ بن عمرو ! کیا بات ہے ؟ ، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے : بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو نصف ثواب ملتا ہے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں سچ ہے، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٨ (١٦٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤١ (١٢٢٩) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ٦ (١٩) ، مسند احمد (٢/١٦٢، ١٩٢، ٢٠١، ٢٠٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٨ (١٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میرا معاملہ تمہارے جیسا نہیں ہے مجھے بیٹھ کر پڑھنے میں بھی پورا ثواب ملتا ہے۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : آدمی کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا بیٹھ کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کھڑے ہو کر پڑھنے کے مقابلہ میں نصف ثواب ہے ١ ؎ اور لیٹ کر پڑھنے میں بیٹھ کر پڑھنے کے مقابلہ میں نصف ثواب ملتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٧ (١١١٥) ، ١٨ (١١١٦) ، ١٩ (١١١٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٢ (٣٧١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٩ (١٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤١ (١٢٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٣، ٤٣٥، ٤٤٢، ٤٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے تندرست آدمی نہیں بلکہ مریض مراد ہے کیونکہ انس (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے آدھا ہے “۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ مجھے ناسور تھا ١ ؎، میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر کھڑے ہو کر پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر بیٹھ کر پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو (لیٹ کر) پہلو کے بل پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الصلاة ١٥٧ (٣٧٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٩ (١٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : باء اور نون دونوں کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے باسور مقعد کے اندرونی حصہ میں ورم کی بیماری کا نام ہے اور ناسور ایک ایسا خراب زخم ہے کہ جب تک اس میں فاسد مادہ موجود رہے تب تک وہ اچھا نہیں ہوتا۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ عمر رسیدہ ہوگئے تو اس میں بیٹھ کر قرآت کرتے تھے پھر جب تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر سجدہ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ٢٠ (١١١٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٧٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٥٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٠ (١٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٠٣، ١٦٨٦٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ٧ (٢٣) ، مسند احمد (٦/٤٦، ٨٣، ١٢٧، ٢٣١) (صحیح )
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے تو بیٹھ کر قرآت کرتے تھے، پھر جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرآت رہ جاتی تو کھڑے ہوجاتے، پھر انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے، پھر رکوع کرتے اور سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں (بھی) اسی طرح کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث علقمہ بن وقاص نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ تقصیر الصلاة ٢٠ (١١١٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٧٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٠٩، ١٧٧٣٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٧ (٢٣) ، مسند احمد (٦/١٧٨) (صحیح )
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں کبھی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور کبھی دیر تک بیٹھ کر، جب کھڑے ہو کر پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٦ (١٦٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠١، ١٦٢٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٠، ٢٢٧، ٢٦١، ٢٦٥) (صحیح )
بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ پوری سورت ایک رکعت میں پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : (ہاں) مفصل کی، پھر میں نے پوچھا : کیا آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : جس وقت لوگوں (کے کثرت معاملات) نے آپ ﷺ کو شکستہ (یعنی بوڑھا) کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٧١، ٢٠٤) (صحیح) الشطر الثاني منہ
تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں ضرور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں ؟ چناچہ آپ ﷺ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے تو قبلہ کا استقبال کیا پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں پھر اسی طرح اٹھایا، (رفع یدین کیا) وہ کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب کی انگلی) بند کرلی اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے اور اس کے علاوہ جتنی حدیثیں اس سلسلے میں آئی ہیں، ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع ہی سے آپ اسی طرح (انگلی کے) اشارہ کی شکل پر بیٹھتے ہی تھے نہ یہ کہ جب أشہدان لاإلہ إلاللہ پڑھتے تب انگلی سے اشارہ کرتے۔
تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نماز کی سنت یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پیر کھڑا رکھو اور بایاں پیر موڑ کر رکھو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٥ (٨٢٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٩٦ (١١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٢(٥١) (صحیح )
تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں نماز کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنا بایاں پیر بچھائے رکھو اور داہنا پیر کھڑا رکھو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٩) (صحیح ) اس طریق سے بھی یحییٰ سے اسی سند سے اسی کے مثل مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن زید نے یحییٰ سے من السنة کا لفظ روایت کیا ہے جیسے جریر نے کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٩) (صحیح ) اس طریق سے بھی یحییٰ سے اسی سند سے اسی کے مثل مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن زید نے یحییٰ سے من السنة کا لفظ روایت کیا ہے جیسے جریر نے کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٩) (صحیح ) یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے (اپنے ساتھیوں کو) تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت دکھائی پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٩، ١٩١٢٠٤) (صحیح )
None
ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن زید نے یحییٰ سے «من السنة» کا لفظ روایت کیا ہے جیسے جریر نے کہا ہے۔
None
قاسم بن محمد نے ( اپنے ساتھیوں کو ) تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت دکھائی پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں (تشہد کے لیے) بیٹھتے تو اپنا بایاں پیر بچھاتے یہاں تک کہ آپ کے قدم کی پشت سیاہ ہوگئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٩، ١٨٤٠٤) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے ، ابراہیم نخعی کی اکثر روایتیں تابعین سے ہوتی ہیں )
چوتھی رکعت میں تورک کا بیان
محمد بن عمرو کہتے کہ میں نے ابو حمید ساعدی (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے دس اصحاب کی موجودگی میں سنا، اور احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دس اصحاب کی موجودگی میں، جن میں ابوقتادہ بھی تھے، ابوحمید کو یہ کہتا سنا کہ میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ نماز کو جانتا ہوں، لوگوں نے کہا : تو آپ پیش کیجئے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو پاؤں کی انگلیاں کھلی رکھتے پھر الله أكبر کہتے اور سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑتے اور اس پر بیٹھتے پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کرتے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ اس (آخری) سجدے سے فارغ ہوتے جس کے بعد سلام پھیرنا رہتا ہے تو بایاں پاؤں ایک طرف نکال لیتے اور بائیں سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے۔ احمد نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے : پھر لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے سچ کہا، آپ اسی طرح نماز پڑھتے تھے، لیکن ان دونوں نے یہ نہیں ذکر کیا کہ دو رکعت پڑھ کر آپ ﷺ کس طرح بیٹھے تھے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٣٠، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان دونوں نے پہلے تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔
چوتھی رکعت میں تورک کا بیان
محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ (ایک مجلس میں) بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے یہی مذکورہ حدیث بیان کی، اور ابوقتادہ کا ذکر نہیں کیا کہا : جب آپ ﷺ دو رکعت کے بعد (تشہد کے لیے) بیٹھتے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھتے اور جب اخیر رکعت کے بعد بیٹھتے تو اپنا بایاں پیر (دائیں جانب) آگے نکال لیتے اور اپنے سرین پر بیٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٣٠، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) (صحیح )
چوتھی رکعت میں تورک کا بیان
محمد بن عمرو عامری کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی جس میں ہے کہ جب آپ ﷺ دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو اپنے بائیں قدم کے تلوے پر بیٹھتے اور اپنا داہنا پیر کھڑا رکھتے پھر جب چوتھی رکعت ہوتی تو اپنی بائیں سرین کو زمین سے لگاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک طرف نکال لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٣٣، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) (صحیح )
چوتھی رکعت میں تورک کا بیان
عباس بن سہل یا عیاش بن سہل ساعدی سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے، جس میں ان کے والد سہل ساعدی (رض) بھی موجود تھے تو اس مجلس میں انہوں نے ذکر کیا کہ آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں پر اور اپنے دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے سروں پر سہارا کیا، اور جب آپ ﷺ (سجدے سے سر اٹھا کر) بیٹھے تو تورک کیا یعنی سرین پر بیٹھے اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا پھر الله أكبر کہا اور سجدہ کیا، پھر الله أكبر کہہ کر کھڑے ہوئے اور تورک نہیں کیا، پھر آپ ﷺ لوٹے اور دوسری رکعت پڑھی تو اسی طرح الله أكبر کہا، پھر دو رکعت کے بعد بیٹھے یہاں تک کہ جب قیام کے لیے اٹھنے کا ارادہ کرنے لگے تو الله أكبر کہہ کر اٹھے، پھر آخری دونوں رکعتیں پڑھیں، پھر جب سلام پھیرا تو اپنی دائیں جانب اور بائیں جانب پھیرا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عیسیٰ بن عبداللہ نے اپنی روایت میں تورک اور دو رکعت پڑھ کر اٹھتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا ہے، جس کا ذکر عبدالحمید نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : ٧٣٣، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) (ضعیف) (اس کے راوی عیسیٰ لین الحدیث ہیں اور ان کی یہ روایت سابقہ صحیح روایت کے خلاف ہے )
چوتھی رکعت میں تورک کا بیان
فلیح کہتے ہیں : عباس بن سہل نے مجھے خبر دی ہے کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ اکٹھا ہوئے، پھر انہوں نے یہی حدیث ذکر کی اور دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی بیٹھنے کا، وہ کہتے ہیں : یہاں تک کہ آپ ﷺ فارغ ہوگئے پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پیر بچھایا اور اپنے داہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی جانب کیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٣٣، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٢) (صحیح )
تشہد کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں بیٹھتے تو یہ کہتے تھے السلام على الله قبل عباده السلام على فلان وفلان یعنی اللہ پر سلام ہو اس کے بندوں پر سلام سے پہلے یا اس کے بندوں کی طرف سے اور فلاں فلاں شخص پر سلام ہو تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ایسا مت کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود سلام ہے، بلکہ جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو یہ کہے التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين آداب، بندگیاں، صلاتیں اور پاکیزہ خیرات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر کیونکہ جب تم یہ کہو گے تو ہر نیک بندے کو خواہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو یا دونوں کے بیچ میں ہو اس (دعا کے پڑھنے) کا ثواب پہنچے گا (پھر یہ کہو) : أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں پھر تم میں سے جس کو جو دعا زیادہ پسند ہو، وہ اس کے ذریعہ دعا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٨ (٨٣١) ، ١٥٠ (٨٣٥) ، والعمل فی الصلاة ٤ (١٢٠٢) ، والاستئذان ٣ (٦٢٣٠) ، ٢٨ (٦٢٦٥) ، والدعوات ١٧ (٦٣٢٨) والتوحید ٥ (٧٣٨١) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٢) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٠ (١١٦٣، ١١٦١) ، والسھو ٤١ (١٢٧٨) ، ٤٣ (١٢٨٠) ، ٥٦ (١٢٩٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٤ (٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٣ (٢٨٩) ، والنکاح ١٧ (١١٠٥) ، مسند احمد (١/٣٧٦، ٣٨٢، ٤٠٨، ٤١٣، ٤١٤، ٤٢٢، ٤٢٣، ٤٢٨، ٤٣١، ٤٣٧، ٤٣٩، ٤٤٠، ٤٥٠، ٤٥٩، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٤ (١٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : وضاحت : السلام عليك أيها النبي بصیغۂ خطاب آپ ﷺ کی حیات میں کہا جاتا تھا لیکن آپ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام بصیغۂ غائب کہتے تھے جیسا کہ صحیح سند سے مروی ہے : أن الصحابة کانوا يقولون والنبي ﷺ حي : ” السلام عليك أيها النبي “ فلما مات قالوا : ” السلام على النبي “ ” نبی اکرم ﷺ جب باحیات تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ” السلام علیک ایہا النبی “ کہتے تھے اور جب آپ کی وفات ہوگئی تو السلام علی النبی کہنے لگے، اسی معنی کی ایک اور حدیث عبداللہ بن مسعود (رض) سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے نیز ام المؤمنین عائشہ (رض) لوگوں کو السلام علی النبی کہنے کی تعلیم دیتی تھیں (مسندالسراج : ٩/١-٢، والفوائد : ١١/٥٤ بسندین صحیحین عنہا) ، (ملاحظہ ہو : صفۃ صلاۃ النبی للألبانی ١٦١-١٦٢ )
تشہد کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ جب ہم نماز میں بیٹھیں تو کیا کہیں، پھر رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ شریک کہتے ہیں : ہم سے جامع یعنی ابن شداد نے بیان کیا کہ انہوں نے ابو وائل سے اور ابو وائل نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی کے مثل روایت کی ہے اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ آپ ﷺ ہمیں چند کلمات سکھاتے تھے اور انہیں اس طرح نہیں سکھاتے تھے جیسے تشہد سکھاتے تھے اور وہ یہ ہیں : اللهم ألف بين قلوبنا وأصلح ذات بيننا واهدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات إلى النور وجنبنا الفواحش ما ظهر منها وما بطن و بارک لنا في أسماعنا وأبصارنا وقلوبنا وأزواجنا وذرياتنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم واجعلنا شاکرين لنعمتک مثنين بها قابليها وأتمها علينا اے اللہ ! تو ہمارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دے، اور ہماری حالتوں کو درست فرما دے، اور راہ سلامتی کی جانب ہماری رہنمائی کر دے اور ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنی عطا کر دے، آنکھوں، دلوں اور ہماری بیوی بچوں میں برکت عطا کر دے، اور ہماری توبہ قبول فرما لے تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے، اور ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزارو ثنا خواں اور اسے قبول کرنے والا بنا دے، اور اے اللہ ! ان نعمتوں کو ہمارے اوپر کامل کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف) (شریک کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے )
تشہد کا بیان
قاسم بن مخیمرہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ان کا ہاتھ پکڑا (اور انہیں نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے) اور رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن مسعود (رض) کا ہاتھ پکڑا اور ان کو نماز میں تشہد کے کلمات سکھائے، پھر راوی نے اعمش کی حدیث کی دعا کے مثل ذکر کیا، اس میں (اتنا اضافہ) ہے کہ جب تم نے یہ دعا پڑھ لی یا پوری کرلی تو تمہاری نماز پوری ہوگئی، اگر کھڑے ہونا چاہو تو کھڑے ہوجاؤ اور اگر بیٹھے رہنا چاہو تو بیٹھے رہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٤٧٤) ، وانظر رقم (٩٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢٢) (شاذ) (إذا قلت ... الخ کا اضافہ شاذ ہے صحیح بات یہ ہے کہ یہ ٹکڑا ابن مسعود کا اپنا قول ہے )
تشہد کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) تشہد کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ تشہد یہ ہے : التحيات لله الصلوات الطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته آداب بندگیاں، اور پاکیزہ صلاتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : اس تشہد میں وبرکاته اور وحده لا شريك له کا اضافہ میں نے کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وراجع : موطا امام مالک/الصلاة ١٣(٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تشہد میں یہ دونوں اضافے نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ ابن عمر (رض) نے اپنی طرف سے ان کا اضافہ خود کردیا ہو بلکہ آپ نے اپنے اس تشہد میں ان کا اضافہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر کیا ہے جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے انہیں روایت کیا ہے۔
تشہد کا بیان
حطان بن عبداللہ رقاشی کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ اخیر نماز میں بیٹھنے لگے تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : نماز نیکی اور پاکی کے ساتھ مقرر کی گئی ہے تو جب ابوموسیٰ اشعری نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا (ابھی) تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے ؟ راوی کہتے ہیں : تو لوگ خاموش رہے، پھر انہوں نے پوچھا : تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے ؟ راوی کہتے ہیں : لوگ پھر خاموش رہے تو ابوموسیٰ اشعری نے کہا : حطان ! شاید تم نے یہ بات کہی ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے نہیں کہی ہے اور میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ مجھے ہی سزا نہ دے ڈالیں۔ راوی کہتے ہیں : پھر ایک دوسرے شخص نے کہا : میں نے کہی ہے اور میری نیت خیر ہی کی تھی، اس پر ابوموسیٰ (رض) نے کہا : کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ تم اپنی نماز میں کیا کہو ؟ بیشک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور ہم کو سکھایا اور ہمیں ہمارا طریقہ بتایا اور ہمیں ہماری نماز سکھائی اور فرمایا : جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو، تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی شخص تمہاری امامت کرے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا ١ ؎ اور جب وہ الله أكبر کہے اور رکوع کرے تو تم بھی الله أكبر کہو اور رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو یہ اس کے برابر ہوگیا ٢ ؎ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا لک الحمد کہو، اللہ تمہاری سنے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی ارشاد فرمایا ہے سمع الله لمن حمده یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اور جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو یہ اس کے برابر ہوجائے گا، پھر جب تم میں سے کوئی قعدہ میں بیٹھے تو اس کی سب سے پہلی بات یہ کہے : التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله آداب، بندگیاں، پاکیزہ خیرات، اور صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ احمد نے اپنی روایت میں : وبرکاته کا لفظ نہیں کہا ہے اور نہ ہی أشهد کہا بلکہ وأن محمدا کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٤) ، سنن النسائی/الإمامة ٣٨ (٨٣١) ، والتطبیق ٢٣ (١٠٦٥) ، ١٠١ (١١٧٣) ، والسھو ٤٤ (١٢٨١) ، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ٢٤ (٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠١، ٤٠٥، ٤٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مسلم کی روایت میں يجبكم ہے یعنی : اللہ تمہاری دعا قبول کرلے گا۔ ٢ ؎ : یعنی امام تم سے جتنا پہلے رکوع میں گیا اتنا ہی پہلے وہ رکوع سے اٹھ گیا اس طرح تمہاری اور امام کی نماز برابر ہوگئی۔
تشہد کا بیان
اس سند سے بھی ابوموسیٰ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں (سلیمان تیمی) نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو، اور انہوں نے تشہد میں أشهد أن لا إله إلا الله کے بعد وحده لا شريك له کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : آپ کا قول : فأنصتوا محفوظ نہیں ہے، اس حدیث کے اندر یہ لفظ صرف سلیمان تیمی نے نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٧) (صحیح )
تشہد کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن سکھاتے تھے، آپ کہا کرتے تھے : التحيات المبارکات الصلوات الطيبات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبرکاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله آداب، بندگیاں، پاکیزہ صلاۃ و دعائیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٤ (٢٩٠) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٣ (١١٧٥) ، والسھو ٤٢ (١٢٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٢) (صحیح )
تشہد کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے، انہوں نے اما بعد کے بعد کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم نماز کے بیچ میں یا اخیر میں بیٹھو تو سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھو : التحيات الطيبات والصلوات والملک لله پھر دائیں جانب سلام پھیرو، پھر اپنے قاری پر اور خود اپنے اوپر سلام کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ صحیفہ (جسے سمرہ نے اپنے بیٹے کے پاس لکھ کر بھیجا تھا) یہ بتارہا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے سنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦١٧) (ضعیف) (اس کے راوی سلیمان بن موسیٰ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس جملے کا باب سے تعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ جنہیں سلیمان بن سمرہ نے اپنے والد سمرہ (رض) سے روایت کیا ہے اس صحیفہ کے الفاظ ہیں جنہیں سمرہ نے املا کرایا تھا اور جنہیں ان سے ان کے بیٹے سلیمان نے روایت کیا ہے، ابوداود کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سلیمان بن سمرہ کا سماع اپنے والد سمرہ سے ثابت ہے اسی طرح حسن بصری کا سماع بھی ثابت ہے کیونکہ یہ دونوں طبقہ ثالثہ کے راوی ہیں تو جب سلیمان اپنے والد سمرہ سے سن سکتے ہیں تو حسن بصری کے سماع کے لئے بھی کوئی چیز مانع نہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے صرف عقیقہ والی حدیث سنی ہے اور باقی حدیثیں جو سمرہ سے وہ روایت کرتے ہیں وہ اسی صحیفہ میں لکھی ہوئی حدیثیں ہیں سمرہ سے ان کی سنی ہوئی نہیں ہیں ابو داود نے اسی خیال کی تردید کی ہے۔
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے یا لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ پر درود وسلام بھیجا کریں، آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کہو : اللهم صل على محمد وآل محمد کما صليت على إبراهيم و بارک على محمد وآل محمد کما بارکت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد یعنی اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر درود بھیج ١ ؎ جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے اور محمد اور آل محمد پر اپنی برکت ٢ ؎ نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہے، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٧٠) ، و تفسیر الأحزاب ١٠ (٤٧٩٧) ، والدعوات ٣٢ (٦٣٥٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٤ (٤٨٣) ، سنن النسائی/السھو ٥١ (١٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٥ (٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤١، ٢٤٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٥ (١٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کی وضاحت ابوالعالیہ نے اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مطلب نبی اکرم ﷺ کی مدح و ستائش اور تعظیم کرنا اور فرشتوں وغیرہ کے درود بھیجنے کا مطلب اللہ تعالیٰ سے اس مدح و ستائش اور تعظیم میں طلب زیادتی ہے، ابوالعالیہ کے اس قول کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کرنے کے بعد اس مشہور قول کی تردید کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے درود کا معنیٰ رحمت بتایا گیا ہے۔ ٢ ؎ : برکت کے معنیٰ بالیدگی و بڑھوتری کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ جو بھلائیاں تو نے آل ابراہیم کو عطا کی ہیں وہ سب نبی اکرم ﷺ کو عطا فرما اور انہیں قائم و دائم رکھ اور انہیں بڑھا کر کئی گنا کر دے۔
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
اس سند سے بھی شعبہ نے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں یوں ہے : صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنی رحمت نازل فرمائی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١١١٣) (صحیح )
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
اس طریق سے بھی حکم سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یوں ہے : اللهم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم إنک حميد مجيد اللهم بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنی رحمت نازل فرمائی، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے، اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اپنی برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنی برکت نازل فرمائی، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے زبیر بن عدی نے ابن ابی لیلیٰ سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مسعر نے کیا ہے، مگر اس میں یہ ہے : كما صليت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد و بارک على محمد اور آگے انہوں نے اسی کے مثل بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٧٦، (تحفة الأشراف : ١١١١٣) (صحیح )
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
عمرو بن سلیم زرقی انصاری کہتے ہیں کہ مجھے ابو حمید ساعدی (رض) نے خبر دی ہے کہ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ کہو : اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته كما صليت على آل إبراهيم و بارک على محمد وأزواجه وذريته كما بارکت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے اپنی رحمت آل ابراہیم پر نازل فرمائی، اور محمد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر اپنی برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٩) ، والدعوات ٣٣ (٦٣٦٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٧) ، سنن النسائی/السھو ٥٥ (١٢٩٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٥ (٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٢ (٦٦) ، مسند احمد (٥/٤٢٤) (صحیح )
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سعد بن عبادہ (رض) کی مجلس میں تشریف لائے تو بشیر بن سعد (رض) نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے ہم کو آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کاش انہوں نے نہ پوچھا ہوتا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ کہو ۔ پھر راوی نے کعب بن عجرہ (رض) کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی اور اس کے اخیر میں في العالمين إنک حميد مجيد کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٥) ، سنن الترمذی/تفسیر الأحزاب (٣٢٢٠) ، سنن النسائی/السہو ٤٩ (١٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٢ (٦٧) ، مسند احمد (٤/١١٨، ١١٩، ٥/ ٢٧٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٥ (١٣٨٢) (صحیح )
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
اس سند سے بھی عقبہ بن عمرو (ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : یوں کہو اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آل محمد اے اللہ ! نبی امی محمد اور آپ کی آل پر اپنی رحمت نازل فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٧) (حسن )
تشہد کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے یہ بات خوش کرتی ہو کہ اسے پورا پیمانہ بھر کردیا جائے تو وہ ہم اہل بیت پر جب درود بھیجے تو کہے : اللهم صل على محمد النبي وأزواجه أمهات المؤمنين وذريته وأهل بيته كما صليت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٥) (ضعیف) (اس کے راوی حبان الکلابی میں کلام ہے )
تشہد کے بعد کیا دعا پڑھے
ابوہریرہ (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگے : جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے شر سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٨٨) ، سنن النسائی/السھو ٦٤ (١٣١١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٦(٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٧ (١٣٧٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٦ (١٣٨٣) (صحیح )
تشہد کے بعد کیا دعا پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ تشہد کے بعد یہ کہتے تھے : اللهم إني أعوذ بک من عذاب جهنم وأعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة الدجال وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات یعنی اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے، تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے، تیری پناہ چاہتا ہوں دجال کے فتنہ سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٨٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٧ (٣٤٩٤) ، سنن النسائی/الجنائز ١١٥ (٢٠٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٢١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٨(٣٣) ، مسند احمد (١/٢٤٢، ٢٥٨، ٢٩٨، ٣١١) ، ویأتي برقم (١٥٤٢) (حسن صحیح )
تشہد کے بعد کیا دعا پڑھے
محجن بن ادرع (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص نے اپنی نماز پوری کرلی، اور تشہد میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے : اللهم إني أسألك يا الله الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد أن تغفر لي ذنوبي إنك أنت الغفور الرحيم اے تنہا و اکیلا، باپ بیٹا سے بےنیاز، بےمقابل ولا مثیل اللہ ! میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو میری گناہوں کو بخش دے، بیشک تو بہت بخشش کرنے والا مہربان ہے یہ سن کر آپ نے تین مرتبہ یہ فرمایا : اسے بخش دیا گیا، اسے بخش دیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السھو ٥٨ (١٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٢١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٨) (صحیح )
تشہد آہستہ پڑھنا چاہیے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ تشہد آہستہ پڑھی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٤ (٢٩١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٢) (صحیح )
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے اس سے منع کیا اور کہا : تم نماز میں اسی طرح کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، میں نے عرض کیا : رسول اللہ ﷺ کیسے کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : جب آپ ﷺ نماز میں بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیاں سمیٹ لیتے اور شہادت کی انگلی جو انگوٹھے سے متصل ہوتی ہے، اشارہ کرتے ١ ؎ اور اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٨٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٩٨ (١١٦١) ، والسھو ٣٢ (١٢٦٧) ٣٣ (١٢٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١١(٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٣ (١٣٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے سلام پھیرنے تک برابر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے، اشارہ کرنے کے بعد انگلی کے گرا لینے یا لا إله پر اٹھانے اور إلا الله پر گرا لینے کی کوئی دلیل حدیث میں نہیں ہے۔
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا
عبداللہ بن زبیر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں داہنی ران اور پنڈلی کے نیچے کرتے اور داہنا پاؤں بچھا دیتے اور بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے، عبدالواحد نے ہمیں شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے دکھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٧٩) ، سنن النسائی/التطبیق ٩٩ (١١٦٢) ، والسھو ٣٥ (١٢٧١) ، ٣٩ (١٢٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣) (صحیح )
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارے کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے ١ ؎۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے یہ اضافہ کیا ہے کہ مجھے عامر نے اپنے والد کے واسطہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اسی طرح تشہد پڑھتے دیکھا ہے اور نبی اکرم ﷺ اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٣٥ (١٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣) (شاذ) ( ولا يحركها کے جملہ کے ساتھ شاذ ہے) قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزَادَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ : قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرٌ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يَدْعُو كَذَلِكَ ، وَيَتَحَامَلُ النَّبِيُّ ﷺ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے کا جملہ شاذ ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی انگلی کو اٹھانے کے بعد اسے حرکت دے دے کر دعا کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا
اس طریق سے بھی عبداللہ بن زبیر (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ کی نظر اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی اور حجاج کی حدیث (یعنی پچھلی حدیث) زیادہ مکمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٤) (حسن صحیح )
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا
نمیر خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنا داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھے ہوئے اور شہادت کی انگلی کو اٹھائے ہوئے دیکھا، آپ نے اسے تھوڑا سا جھکا رکھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السھو ٣٦ (١٢٧٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٧ (٩١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧١) (ضعیف) (اس کے راوی مالک لین الحدیث ہیں )
نماز میں ہاتھ ٹیکنے کی کراہت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے : آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے ، اور ابن شبویہ کی روایت میں ہے : آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے ، اور ابن رافع کی روایت میں ہے : آدمی کو اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ، اور انہوں نے اسے باب الرفع من السجود میں ذکر کیا ہے، اور ابن عبدالملک کی روایت میں ہے کہ آدمی کو نماز میں اٹھتے وقت اپنے دونوں ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٠٤) ، وقد أخرجہ : حم (٢/١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عبدالرزاق کے تلامذہ نے اسے چار وجوہ پر روایت کیا ہے جس میں دوسری اور تیسری وجہ پہلی وجہ کے مخالف نہیں البتہ چوتھی پہلی کے صریح مخالف ہے اور ترجیح پہلی وجہ کو حاصل ہے کیونکہ اس کے روایت کرنے والے احمد بن حنبل ہیں جو حفظ وضبط اور اتقان میں مشہور ائمہ میں سے ہیں اس کے برخلاف ابن عبدالملک کو اگرچہ نسائی وغیرہ نے ثقہ کہا ہے لیکن مسلم نے انہیں ثقہ کثیر الخطا کہا ہے ایسی صورت میں ثقہ کی مخالفت سے ان کی روایت منکر ہوگی اسی وجہ سے تخریج میں ابن عبدالملک کی روایت کو منکر کہا گیا ہے، رہی وہ حدیث جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیر کی مانند اٹھتے تھے تو وہ من گھڑت اور موضوع ہے، سجدے سے دونوں ہاتھ ٹیک کر اٹھنے کے مسنون ہونے کی دلیل صحیح بخاری میں مالک بن حویرث (رض) کی روایت ہے جس میں ہے : وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية واعتمد على الأرض ثم قام یعنی رسول اللہ ﷺ جب دوسرے سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔
نماز میں ہاتھ ٹیکنے کی کراہت کا بیان
اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں میں نے نافع سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو نماز پڑھ رہا ہو اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کئے ہوئے ہو، تو انہوں نے کہا : ابن عمر (رض) کا کہنا ہے کہ یہ غضب کی شکار مغضوب عليهم قوم یہود کی نماز ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٠٤) (صحیح )
نماز میں ہاتھ ٹیکنے کی کراہت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے نماز میں بیٹھے ہوئے دیکھا (ہارون بن زید نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ بائیں پہلو پر پڑا ہوا دیکھا پھر (آگے) دونوں (الفاظ میں) متفق ہیں تو انہوں نے اس سے کہا : اس طرح نہ بیٹھو کیونکہ اس طرح وہ لوگ بیٹھتے ہیں جو عذاب دیئے جائیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥١٣) ، وقد أخرجہ : حم (٢/١١٦) (حسن )
قعدہ اولی میں تخفیف کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پہلی دو رکعتوں میں یعنی پہلے تشہد میں اس طرح ہوتے تھے گویا کہ گرم پتھر پر (بیٹھے) ہیں۔ شعبہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا : کھڑے ہونے تک ؟ تو سعد بن ابراہیم نے کہا : کھڑے ہونے تک ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٦٦) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٥ (١١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٦، ٤١٠، ٤٢٨، ٤٣٦، ٤٦٠) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ آخری قعدہ کی بہ نسبت پہلے قعدہ میں آپ جلدی کھڑے ہوجاتے۔
نماز میں سلام پھیرنے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دائیں اور بائیں السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کی گال کی سفیدی دکھائی دیتی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ سفیان کی روایت کے الفاظ ہیں اور اسرائیل کی حدیث سفیان کی حدیث کی مفسر نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے زہیر نے ابواسحاق سے اور یحییٰ بن آدم نے اسرائیل سے، اسرائیل نے ابواسحاق سے، ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن اسود سے، انہوں نے اپنے والد اسود اور علقمہ سے روایت کیا ہے، اور ان دونوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعبہ ابواسحاق کی اس حدیث کے مرفوع ہونے کے منکر تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٢٩٥) ، سنن النسائی/السھو ٧١ (١٣٢٣، ١٣٢٤، ١٣٢٥، ١٣٢٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٨ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٨٢، ٩٥٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٠، ٤٠٦، ٤٠٩، ٤١٤، ٤٤٤، ٤٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٧ (١٣٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب علقمہ کا عطف عن أبيه پر ہو اور اگر علقمہ کا عطف عن عبدالرحمن پر ہو تو ترجمہ یہ ہوگا کہ ابواسحاق نے اسے عبدالرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور اسی طرح ابواسحاق نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔
نماز میں سلام پھیرنے کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ اپنے دائیں جانب السلام عليكم ورحمة الله وبرکاته اور اپنے بائیں جانب السلام عليكم ورحمة الله وبرکاته کہتے ہوئے سلام پھیر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٦) (صحیح )
نماز میں سلام پھیرنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کوئی سلام پھیرتا تو اپنے ہاتھ سے اپنے دائیں اور بائیں اشارے کرتا، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : تم لوگوں کا کیا حال ہے کہ تم میں سے کوئی (نماز میں) اپنے ہاتھ سے اشارے کرتا ہے، گویا اس کا ہاتھ شریر گھوڑے کی دم ہے، تم میں سے ہر ایک کو بس اتنا کافی ہے (یا یہ کہا : کیا تم میں سے ہر ایک کو اس طرح کرنا کافی نہیں ؟ ) ، اور آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا کہ دائیں اور بائیں طرف کے اپنے بھائی کو سلام کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣١) ، سنن النسائی/السھو ٥ (١١٨٦) ، ٦٩ (١٣١٩) ، ٧٢ (١٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ٩٣، ١٠١، ١٠٢، ١٠٧) (صحیح )
نماز میں سلام پھیرنے کا بیان
اس طریق سے بھی مسعر سے اس مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کسی کو یا ان میں سے کسی کو کافی نہیں ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر اپنے دائیں اور بائیں اپنے بھائی کو سلام کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٢٠٧) (صحیح )
نماز میں سلام پھیرنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا : مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھ رہا ہوں، گویا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں ؟ نماز میں سکون سے رہا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الصلاة ٢٧ (٤٣٠) ، سنن النسائی/السہو ٥ (١١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ٩٣، ١٠١، ١٠٢، ١٠٧) (صحیح )
امام کو سلام کا جواب دینا
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں امام کے سلام کا جواب دینے اور آپس میں دوستی رکھنے اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٠ (٩٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٧) (ضعیف) (اس کے روای سعید شامی ضعیف ہیں اور قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں نیز : حسن بصری کا سمرة سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں )
نماز کے بعد تکبیر کہنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے ختم ہونے کو تکبیر سے جانا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٥ (٨٤٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٣ (٥٨٣) ، سنن النسائی/السھو ٧٩ (١٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٢) (صحیح )
نماز کے بعد تکبیر کہنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ذکر کے لیے آواز اس وقت بلند کی جاتی تھی جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تھے، رسول اللہ ﷺ کے عہد میں یہی دستور تھا، ابن عباس کہتے ہیں : جب لوگ نماز سے پلٹتے تو مجھے اسی سے اس کا علم ہوتا اور میں اسے سنتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٥ (٨٤١) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٣ (٥٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٧) (صحیح )
سلام مختصر کرنے بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلام کو کھینچ کر لمبا نہ کرنا سنت ہے ۔ عیسیٰ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے مجھے اس حدیث کو مرفوع کرنے سے منع کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے ابوعمیر عیسیٰ بن یونس فاخری رملی سے سنا ہے انہوں نے کہا ہے کہ جب فریابی مکہ مکرمہ سے واپس آئے تو انہوں نے اس حدیث کو مرفوع کہنا ترک کردیا اور کہا : احمد بن حنبل نے انہیں اس حدیث کو مرفوع روایت کرنے سے منع کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١١ (٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٣٢) (ضعیف) (اس کے راوی ” قرة “ کی ثقاہت میں کلام ہے )
نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرے
علی بن طلق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دوران نماز بغیر آواز کے ہوا خارج ہو تو وہ (نماز) چھوڑ کر چلا جائے اور وضو کرے اور نماز دہرائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٥، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی عیسیٰ اور مسلم دونوں لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : علی بن طلق (رض) کی یہ روایت صحت کے اعتبار سے ام المومنین عائشہ (رض) کی اس روایت سے زیادہ راجح ہے جو کتاب الطہارۃ میں آئی ہے اور جس میں ہے : من أصابه قيء في صلواته أو رعاف فإنه ينصرف ويبني على صلاته کیونکہ اگرچہ علی بن طلق اور عائشہ (رض) دونوں کی روایتوں میں کلام ہے لیکن علی بن طلق (رض) کی روایت کو ابن حبان نے صحیح کہا ہے اور عائشہ (رض) کی روایت کو کسی نے صحیح نہیں کہا ہے۔
جس جگہ فرض پڑھے ہوں اس جگہ نفل نہ پڑھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی شخص عاجز ہے ۔ عبدالوارث کی روایت میں ہے : آگے بڑھ جانے سے یا پیچھے ہٹ جانے سے یا دائیں یا بائیں چلے جانے سے۔ حماد کی روایت میں في الصلاة کا اضافہ ہے یعنی نفل نماز پڑھنے کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٧ (٨٤٨ تعلیقاً ) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٣ (١٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٥) (صحیح )
جس جگہ فرض پڑھے ہوں اس جگہ نفل نہ پڑھے
ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ایک امام نے جن کی کنیت ابورمثہ ہے نماز پڑھائی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے کہا : یہی نماز یا ایسی ہی نماز میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پڑھی ہے، وہ کہتے ہیں : اور ابوبکر و عمر (رض) اگلی صف میں آپ کے دائیں طرف کھڑے ہوتے تھے، اور ایک اور شخص بھی تھا جو تکبیر اولیٰ میں موجود تھا، اللہ کے نبی کریم ﷺ نماز پڑھا چکے تو آپ نے دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرا، یہاں تک کہ ہم نے آپ ﷺ کے گالوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ پلٹے ایسے ہی جیسے ابورمثہ یعنی وہ خود پلٹے، پھر وہ شخص جس نے آپ ﷺ کے ساتھ تکبیر اولیٰ پائی تھی اٹھ کر دو رکعت پڑھنے لگا تو اٹھ کر عمر (رض) تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھے اور اس کا کندھا پکڑ کر زور سے جھنجوڑ کر کہا بیٹھ جاؤ، کیونکہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کو صرف اسی چیز نے ہلاک کیا ہے کہ ان کی نمازوں میں فصل نہیں ہوتا تھا، اتنے میں نبی اکرم ﷺ نے نظر اٹھائی (اور یہ صورت حال دیکھی) تو فرمایا : خطاب کے بیٹے ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹھیک اور درست بات کہنے کی توفیق دی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤١، ١٢٠٣٧) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی اشعث اور منہال دونوں ضعیف ہیں ’ لیکن دونوں کی متابعت کے ملنے سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحيحة : 3173، وتراجع الألباني : 9 )
سجدہ سہو کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں شام کی دونوں یعنی ظہر اور عصر میں سے کوئی نماز پڑھائی مگر صرف دو رکعتیں پڑھا کر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر مسجد کے اگلے حصہ میں لگی ہوئی ایک لکڑی کے پاس اٹھ کر گئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر لکڑی پر رکھا، آپ ﷺ کے چہرے پر غصہ کا اثر ظاہر ہو رہا تھا، پھر جلد باز لوگ یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم کردی گئی ہے، نماز کم کردی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر (رض) بھی موجود تھے لیکن وہ دونوں آپ سے (اس سلسلہ میں) بات کرنے سے ڈرے، پھر ایک شخص کھڑا ہوا جسے رسول اللہ ﷺ ذوالیدین کہا کرتے تھے، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ میں بھولا ہوں، نہ ہی نماز کم کی گئی ہے ، اس شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ بھول گئے ہیں، پھر آپ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا : کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ ، لوگوں نے اشارہ سے کہا : ہاں ایسا ہی ہے، پھر آپ ﷺ اپنی جگہ پر واپس آئے اور باقی دونوں رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، اس کے بعد الله أكبر کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا سجدہ کیا، پھر الله أكبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھایا پھر الله أكبر کہہ کر اپنے اور سجدوں کی طرح یا ان سے کچھ لمبا دوسرا سجدہ کیا پھر الله أكبر کہہ کر اٹھے۔ راوی کہتے ہیں : تو محمد سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ﷺ نے سجدہ سہو کے بعد پھر سلام پھیرا ؟ انہوں نے کہا : ابوہریرہ (رض) سے مجھے یہ یاد نہیں، لیکن مجھے خبر ملی ہے کہ عمران بن حصین (رض) نے کہا ہے : آپ نے پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٢) ، والأذان ٦٩ (٧١٤) ، والسھو ٣ (١٢٢٧) ، ٤ (١٢٢٨) ، ٨٥ (١٣٦٧) ، والأدب ٤٥ (٦٠٥١) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٠ (٣٩٩) ، سنن النسائی/السھو ٢٢ (١٢٢٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٤ (١٢١٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، ٢٨٤) (صحیح )
سجدہ سہو کا بیان
اس طریق سے بھی محمد بن سیرین سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اور حماد کی روایت زیادہ کامل ہے مالک نے صلى رسول الله ﷺ کہا ہے صلى بنا رسول الله ﷺ نہیں کہا ہے اور نہ ہی انہوں نے فأومئوا کہا ہے (جیسا کہ حماد نے کہا ہے بلکہ اس کی جگہ) انہوں نے فقال الناس نعم کہا ہے، اور مالک نے ثم رفع کہا ہے، وكبر نہیں کہا ہے جیسا کہ حماد نے کہا ہے، یعنی مالک نے رفع وکبر کہنے کے بجائے صرف رفع پر اکتفا کیا ہے اور مالک نے ثم کبر وسجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع کہا ہے جیسا کہ حماد نے کہا ہے اور مالک کی حدیث یہاں پوری ہوگئی ہے اس کے بعد جو کچھ ہے مالک نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی لوگوں کے اشارے کا انہوں نے ذکر کیا ہے صرف حماد بن زید نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث جتنے لوگوں نے بھی روایت کی ہے کسی نے بھی لفظ فكبر. نہیں کہا ہے اور نہ ہی رجع . کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٩ (٧١٤) ، السہو ٤(١٢٢٨) ، أخبار الآحاد ١(٧٢٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٦ (٣٩٩) ، سنن النسائی/السہو ٢٢ (١٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٥ (٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٤٢٣) (صحیح )
سجدہ سہو کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر راوی نے پورے طور سے حماد کی روایت کے ہم معنی روایت ان کے قول : نبئت أن عمران بن حصين قال ثم سلم تک ذکر کی۔ سلمہ بن علقمہ کہتے ہیں : میں نے ان سے (یعنی محمد بن سیرین سے) پوچھا کہ آپ نے تشہد پڑھا یا نہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے تشہد کے سلسلے میں کچھ نہیں سنا ہے لیکن میرے نزدیک تشہد پڑھنا بہتر ہے، لیکن اس روایت میں آپ انہیں ذوالیدین کہتے تھے کا ذکر نہیں ہے اور نہ لوگوں کے اشارہ کرنے کا اور نہ ہی ناراضگی کا ذکر ہے، حماد کی حدیث جو انہوں نے ایوب سے روایت کی ہے زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السہو ٤ (١٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٦٨٩) (صحیح )
سجدہ سہو کا بیان
ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے ذوالیدین کے قصہ میں روایت کی ہے کہ آپ نے الله أكبر کہا اور سجدہ کیا، ہشام بن حسان کی روایت میں ہے کہ آپ نے الله أكبر کہا پھر الله أكبر کہا اور سجدہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حبیب بن شہید، حمید، یونس اور عاصم احول نے بھی محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی اس چیز کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا حماد بن زید نے بواسطہ ہشام کیا ہے کہ آپ ﷺ نے الله أكبر کہا، پھر الله أكبر کہا اور سجدہ کیا، حماد بن سلمہ اور ابوبکر بن عیاش نے بھی اس حدیث کو بواسطہ ہشام روایت کیا ہے مگر ان دونوں نے بھی ان کے واسطہ سے اس کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا حماد بن زید نے ذکر کیا ہے کہ آپ نے الله أكبر کہا پھر الله أكبر کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤١٥، ١٤٤٦٩) (شاذ) (ہشام بن حسان نے متعدد لوگوں کے برخلاف روایت کی ہے )
سجدہ سہو کا بیان
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے یہی واقعہ مروی ہے اس میں ہے : اور آپ ﷺ نے سجدہ سہو نہیں کیا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اس کا کامل یقین دلا دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣١٩٢، ١٥٢٠٥، ١٤١١٥) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن کثیر مصیصی کثیر الغلط ہیں )
سجدہ سہو کا بیان
ابن شہاب سے روایت ہے کہ ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ نے انہیں خبر دی کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں سجدوں کو جو شک کی وجہ سے کئے جاتے ہیں نہیں کیا یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو ان کی یاددہانی کرائی۔ ابن شہاب کہتے ہیں : اس حدیث کی خبر مجھے سعید بن مسیب نے ابوہریرہ کے واسطے سے دی ہے، نیز مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن، ابوبکر بن حارث بن ہشام اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بھی خبر دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے یحییٰ بن ابوکثیر اور عمران بن ابوانس نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے اور علاء بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد سے روایت کیا ہے اور ان سبھوں نے اس واقعہ کو ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے لیکن اس میں انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آپ نے دو سجدے کئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے زبیدی نے زہری سے، زہری نے ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے اور ابوبکر بن سلیمان نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ نے سہو کے دونوں سجدے نہیں کئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٢٢ (١٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٨٠، ١٥١٩٢) (صحیح) (صحیح مرفوع احادیث سے تقویت پاکر یہ مرسل حدیث بھی صحیح ہے )
سجدہ سہو کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھی تو دو ہی رکعت پڑھنے کے بعد سلام پھیر دیا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے نماز کم کردی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے دو رکعتیں اور پڑھیں پھر (سہو کے) دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٩ (٧١٥) ، السہو ٣ (١٢٢٧) ، سنن النسائی/ السہو (٢٢ (١٢٢٨) (تحفة الأشراف : ١٤٩٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٦، ٤٦٨) (صحیح )
سجدہ سہو کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرض نماز کی دو ہی رکعتیں پڑھ کر پلٹ گئے تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں سے کوئی بات میں نے نہیں کی ہے ، تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیا ہے، تو آپ ﷺ نے بعد والی دونوں رکعتیں پڑھیں، پھر پلٹے اور سہو کے دونوں سجدے نہیں کئے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے داود بن حصین نے ابوسفیان مولی بن ابی احمد سے، ابوسفیان نے ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی قصہ کے ساتھ روایت کیا ہے، اس میں ہے : پھر آپ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٠٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ثم انصرف ولم يسجد سجدتي السهو ( پھر آپ پلٹے اور سہو کے دونوں سجدے نہیں کئے) کا ٹکڑا ” شاذ “ ہے۔
سجدہ سہو کا بیان
ضمضم بن جوس ہفانی کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوہریرہ (رض) نے یہی حدیث بیان کی ہے اس میں ہے : پھر آپ نے سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٢٢ (١٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٤) ، وقد أخرجہ مسند احمد (٢/٤٢٣) (حسن صحیح )
سجدہ سہو کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تو دو ہی رکعت میں آپ نے سلام پھیر دیا، پھر انہوں نے محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح جسے انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے ذکر کیا، اس میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے سلام پھیرا اور سہو کے دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٤ (١٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٨) (صحیح )
جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا، پھر اندر چلے گئے۔ مسدد نے مسلمہ سے نقل کیا ہے کہ پھر آپ ﷺ حجرے میں چلے گئے تو ایک شخص جس کا نام خرباق تھا اور جس کے دونوں ہاتھ لمبے تھے اٹھ کر آپ کے پاس گیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے ؟ (یہ سن کر) آپ ﷺ اپنی چادر کھینچتے ہوئے غصے کی حالت میں باہر نکلے اور لوگوں سے پوچھا : کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟ ، لوگوں نے کہا : ہاں، تو آپ ﷺ نے وہ رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرا، پھر سہو کے دونوں سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٤) ، سنن النسائی/السھو ٢٣ (١٢٣٧، ١٢٣٨) ، ٧٥ (١٣٣٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٤ (١٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٧، ٤٢٩، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٤٠، ٤٤١) (صحیح )
جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھیں تو آپ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز بڑھا دی گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کیا ہے ؟ ، تو لوگوں نے عرض کیا : آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، (یہ سن کر) آپ ﷺ نے دو سجدے کئے اس کے بعد کہ آپ سلام پھیر چکے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣١ (٤٠١) ، ٣٢ (٤٠٤) ، والسھو ٢ (١٢٢٦) ، والأیمان ١٥ (٦٦٧١) ، وأخبار الآحاد ١ (٧٢٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٧ (٣٩٢) ، سنن النسائی/السھو ٢٦ (١٢٥٥، ١٢٥٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٩ (١٢٠٣) ، ١٣٠ (١٢٠٥) ، ١٣٣ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ٩٤١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٦، ٣٧٩، ٤٢٩، ٤٤٣، ٤٣٨، ٤٥٥، ٤٦٥) سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥(١٥٣٩) (صحیح )
جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی (ابراہیم کی روایت میں ہے : تو میں نہیں جان سکا کہ آپ ﷺ نے اس میں زیادتی کی یا کمی) ، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز میں کوئی نئی چیز ہوئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کیا ؟ ، لوگوں نے کہا : آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے اپنا پیر موڑا اور قبلہ رخ ہوئے، پھر لوگوں کے ساتھ دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : اگر نماز میں کوئی نئی بات ہوئی ہوتی تو میں تم کو اس سے باخبر کرتا، لیکن انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم لوگ بھول جاتے ہو، لہٰذا جب میں بھول جایا کروں تو تم لوگ مجھے یاد دلا دیا کرو ، اور فرمایا : جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک پیدا ہوجائے تو سوچے کہ ٹھیک کیا ہے، پھر اسی حساب سے نماز پوری کرے، اس کے بعد سلام پھیرے پھر (سہو کے) دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣١ (٤٠١) ، الإیمان ١٥ (٦٦٧١) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن النسائی/السہو ٢٥ (١٢٤٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٣ (١٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٩، ٤١٩، ٤٣٨، ٤٥٥) (صحیح )
جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص (نماز میں) بھول جائے تو دو سجدے کرے ، پھر آپ ﷺ پلٹے اور سہو کے دو سجدے کئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حصین نے اعمش کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩(٥٧٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٩٥ (١٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢٤) (صحیح )
جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پانچ رکعتیں پڑھائیں، پھر جب آپ مڑے تو لوگوں نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کردیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز زیادہ ہوگئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ، لوگوں نے کہا : آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، تو آپ ﷺ مڑے اور سہو کے دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا اور فرمایا : میں انسان ہی تو ہوں، جیسے تم لوگ بھولتے ہو ویسے میں بھی بھولتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن النسائی/السہو ٢٦ (١٢٥٧، ١٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٣٨، ٤٤٨) (صحیح )
جب چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟
معاویہ بن حدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی تو سلام پھیر دیا حالانکہ ایک رکعت نماز باقی رہ گئی تھی، ایک شخص نے آپ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : آپ نماز میں ایک رکعت بھول گئے ہیں، تو آپ ﷺ لوٹے، مسجد کے اندر آئے اور بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے پوچھا : کیا تم اس شخص کو جانتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، البتہ اگر میں دیکھوں (تو پہچان لوں گا) ، پھر وہی شخص میرے سامنے سے گزرا تو میں نے کہا : یہی وہ شخص تھا، لوگوں نے کہا : یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان ٢٤ (٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠١) (صحیح )
شک چھوڑنے اور یقین پر عمل کرنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) تو شک دور کرے اور یقین کو بنیاد بنائے، پھر جب اسے نماز پوری ہوجانے کا یقین ہوجائے تو دو سجدے کرے، اگر اس کی نماز (درحقیقت) پوری ہوچکی تھی تو یہ رکعت اور دونوں سجدے نفل ہوجائیں گے، اور اگر پوری نہیں ہوئی تھی تو اس رکعت سے پوری ہوجائے گی اور یہ دونوں سجدے شیطان کو ذلیل و خوار کرنے والے ہوں گے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہشام بن سعد اور محمد بن مطرف نے زید سے، زید نے عطاء بن یسار سے، عطاء نے ابو سعید خدری (رض) سے، اور ابوسعید نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور ابوخالد کی حدیث زیادہ مکمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧١) ، سنن النسائی/السھو ٢٤ (١٢٣٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٢ (١٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٣، ١٩٠٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٦(٦٢ مرسلاً ) ، مسند احمد (٣/٣٧، ٥١، ٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٤ (١٥٣٦) (حسن صحیح )
شک چھوڑنے اور یقین پر عمل کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ سہو کا نام مرغمتين (شیطان کو ذلیل و خوار کرنے والی دو چیزیں) رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٤٤) (صحیح )
شک چھوڑنے اور یقین پر عمل کرنے کا بیان
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے، پھر اسے یاد نہ رہے کہ میں نے تین پڑھی ہے یا چار تو ایک رکعت اور پڑھ لے اور سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے، اب اگر جو رکعت اس نے پڑھی ہے وہ پانچویں تھی تو ان دونوں (سجدوں) کے ذریعہ اسے جفت کرے گا یعنی وہ چھ رکعتیں ہوجائیں گی اور اگر چوتھی تھی تو یہ دونوں سجدے شیطان کے لیے ذلت و خواری کا ذریعہ ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ( ١٠٢٤ ) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٣ ، ١٩٠٩١ ) (صحیح) (یہ حدیث بھی حدیث نمبر : (١٠٢٤) کی طرح مرفوع اور متصل ہے، اس میں امام مالک نے ابو سعید خدری (رض) کو جان بوجھ کر حذف کردیا ہے جیسا کہ ان کا طریقہ ہے)
شک چھوڑنے اور یقین پر عمل کرنے کا بیان
اس طریق سے بھی زید بن اسلم سے مالک ہی کی سند سے مروی ہے، زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہوجائے تو اگر اسے یقین ہو کہ میں نے تین ہی رکعت پڑھی ہے تو کھڑا ہو اور ایک رکعت اس کے سجدوں کے ساتھ پڑھ کر اسے پوری کرے پھر بیٹھے اور تشہد پڑھے، پھر جب ان سب کاموں سے فارغ ہوجائے اور صرف سلام پھیرنا باقی رہے تو سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے ۔ پھر راوی نے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے ابن وہب نے مالک، حفص بن میسرہ، داود بن قیس اور ہشام بن سعد سے روایت کیا ہے، مگر ہشام نے اسے ابو سعید خدری تک پہنچایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٠٢٤، ١٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٣) (صحیح )
شک کی صورت میں غلبہ ظن پر عمل کرے
عبداللہ بن مسعود (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب تم نماز میں رہو اور تمہیں تین یا چار میں شک ہوجائے اور تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ چار رکعت ہی پڑھی ہے تو تشہد پڑھو، پھر سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کرو، پھر تشہد پڑھو اور پھر سلام پھیر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالواحد نے خصیف سے روایت کیا ہے اور مرفوع نہیں کیا ہے۔ نیز سفیان، شریک اور اسرائیل نے عبدالواحد کی موافقت کی ہے اور ان لوگوں نے متن حدیث میں اختلاف کیا ہے اور اسے مسند نہیں کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : ن الکبری / السہو ١٢٦ (٦٠٥) ، وانظر رقم : (١٠١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٢٨، ٤٢٩ موقوفاً ) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ابوعبیدہ نے ابن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے۔
شک کی صورت میں غلبہ ظن پر عمل کرے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ زیادہ پڑھی ہے یا کم تو بیٹھ کر دو سجدے کرلے ١ ؎ پھر اگر اس کے پاس شیطان آئے اور اس سے کہے (یعنی دل میں وسوسہ ڈالے) کہ تو نے حدث کرلیا ہے تو اس سے کہے : تو جھوٹا ہے مگر یہ کہ وہ اپنی ناک سے بو سونگھ لے یا اپنے کان سے آواز سن لے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٩ (٣٩٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٩ (١٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧١) ، سنن النسائی/السہو ٢٤ (١٢٤٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٦ (٦٢) ، مسند احمد (٣/١٢، ٣٧، ٥٠، ٥١، ٥٣، ٥٤) ، دی/الصلاة ١٧٤ (١٥٣٦) (ضعیف) (ہلال بن عیاض مجہول راوی ہیں، مگر ابوہریرہ کی حدیث (١٠٣٠) نیز دیگر صحیح احادیث سے اسے تقویت ہو رہی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ابو سعید خدری (رض) کی یہ حدیث اور ابوہریرہ (رض) کی اگلی حدیث دونوں مجمل ہیں، انہیں کی دیگر روایات سے یہ ثابت ہے کہ تلاش و تحری کر کے یقینی پہلو پر بنا کرے، یا ہر حال میں کم پر ہی بنا کرے باقی رکعت پوری کر کے سجدہ سہو کرے ، خالی سجدہ سہو کافی نہیں ہے ، بعض سلف نے کہا ہے : یہ اس کے لئے ہے جس کو ہمیشہ شک ہوجاتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اسے یقین ہوجائے کہ حدث ہوگیا ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
شک کی صورت میں غلبہ ظن پر عمل کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور اسے شبہ میں ڈال دیتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہ جاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ؟ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو ایسا محسوس ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے ابن عیینہ، معمر اور لیث نے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤ (٦٠٨) ، والعمل فی الصلاة ١٨ (١٢٢٢) ، والسھو ٦ (١٢٣١) ، ٧ (١٢٣٢) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٨٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٣٨٩) ، والمساجد ١٩ (٥٧٠) ، سنن النسائی/الأذان ٣٠ (٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٩ (٣٩٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٥ (١٢١٦) ، موطا امام مالک/السہو ١(١) ، مسند احمد (٢/٣١٣، ٣٩٨، ٤١١، ٤٦٠، ٥٠٣، ٥٢٢، ٥٣١) وتقدم برقم (٥١٦) (صحیح )
شک کی صورت میں غلبہ ظن پر عمل کرے
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ سلام سے پہلے بیٹھے (دو سجدے کرے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٥٢٥٦) (حسن صحیح )
شک کی صورت میں غلبہ ظن پر عمل کرے
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ پھر وہ سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے پھر سلام پھیرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٥ (١٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٥٢) (حسن صحیح )
سجدہ سہو سلام کے بعد ہے
عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو اپنی نماز میں شک ہوجائے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٢٥ (١٢٤٩، ١٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٤، ٢٠٥، ٢٠٦) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی مصعب “ اور عتبہ ضعیف ہیں، لیکن دوسری حدیث کی تقویت سے حسن ہے ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٤/١٩٠ )
دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر اٹھ جانا
عبداللہ بن بحینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو دو رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہوگئے اور قعدہ (تشھد) نہیں کیا تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کرلی اور ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں رہے تو آپ ﷺ نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے الله أكبر کہہ کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٦ (٨٢٩) ، ١٤٧ (٨٣٠) ، والسھو ١ (١٢٢٤) ، ٥ (١٢٣٠) ، والأیمان ١٥ (٦٦٧٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٢ (٣٩١) ، سنن النسائی/التطبیق ١٠٦ (١١٧٨، ١١٧٩) ، والسھو ٢٨ (١٢٦٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣١ (١٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١٧(٦٥) ، مسند احمد (٥/٣٤٥، ٣٤٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٠) (صحیح )
دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر اٹھ جانا
اس طریق سے بھی زہری سے اسی سند سے اسی کے ہم معنی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ہم میں سے بعض نے کھڑے کھڑے تشہد پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ابن زبیر (رض) نے بھی جب وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوگئے تھے، سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے اور یہی زہری کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٤) (صحیح )
جو شخص قعدہ اولیٰ بھول جائے وہ کیا کرے؟
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام دو رکعت پڑھ کر کھڑا ہوجائے پھر اگر اس کو سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ جائے، اگر سیدھا کھڑا ہوجائے تو نہ بیٹھے اور سہو کے دو سجدے کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میری کتاب میں جابر جعفی سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٧ (٣٦٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣١ (١٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٣، ٢٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦(١٥٤٢) (صحیح) (جابر جعفی کی کئی ایک متابعت کرنے والے پائے جاتے ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ جابر ضعیف راوی ہیں، دیکھئے : ارواء الغلیل : ٣٨٨ و صحیح سنن أبی داود ٩٤٩ )
جو شخص قعدہ اولیٰ بھول جائے وہ کیا کرے؟
زیاد بن علاقہ کہتے ہیں مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی، وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوگئے، ہم نے سبحان الله کہا، انہوں نے بھی سبحان الله کہا اور (واپس نہیں ہوئے) نماز پڑھتے رہے، پھر جب انہوں نے اپنی نماز پوری کرلی اور سلام پھیر دیا تو سہو کے دو سجدے کئے، پھر جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے، جیسے میں نے کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے ابن ابی لیلیٰ نے شعبی سے، شعبی نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع قرار دیا ہے، نیز اسے ابو عمیس نے ثابت بن عبید سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر راوی نے زیاد بن علاقہ کی حدیث کے مثل روایت ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابو عمیس مسعودی کے بھائی ہیں اور سعد بن ابی وقاص (رض) نے ویسے ہی کیا جیسے مغیرہ، عمران بن حصین، ضحاک بن قیس اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے کیا، اور ابن عباس (رض) اور عمر بن عبدالعزیز نے اسی کا فتوی دیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو دو رکعتیں پڑھ کر بغیر قعدہ اور تشہد کے اٹھ کھڑے ہوں، انہیں چاہیئے کہ سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٢ (٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٧، ٢٥٣، ٢٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦(١٥٤٢) (صحیح) (مسعودی مختلط راوی ہیں، لیکن ان کے کئی متابعت کرنے والے پائے جاتے ہیں )
جو شخص قعدہ اولیٰ بھول جائے وہ کیا کرے؟
ثوبان (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : ہر سہو کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں ، عمرو کے سوا کسی نے بھی (اس سند میں) عن أبيه کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٦ (١٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٠) (حسن )
سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھ پھر سلام پھیرے
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ بھول گئے تو آپ نے دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٨ (٣٩٥) ، سنن النسائی/السہو ٢٣ (١٢٣٧) ، والکبری/ صفة الصلاة ٥٨ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٥) (شاذ) (اشعث حمرانی کے سوا کسی کی روایت میں تشھد کا تذکرہ نہیں ہے )
نماز سے فراغت کے بعد پہلے عورتوں کو مسجد سے جانا چاہیے
ام المؤمنین ام سلمی (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب (نماز سے) سلام پھیرتے تو تھوڑی دیر ٹھہر جاتے، لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اس وجہ سے ہے تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے چلی جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٢ (٨٣٧) ، ١٥٧ (٨٤٩) ، ١٦٣ (٨٦٦) ، ١٦٧ (٨٧٠) ، سنن النسائی/السھو ٧٧ (١٣٣٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٣ (٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٦، ٣١٠، ٣١٦) (صحیح) ( وکانوا یرون أن ذلک ... مدرج اور زہری کا قول ہے )
نماز سے فارغ ہو کر کس طرف اٹھنا چاہیے
ہلب طائی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، آپ ﷺ (نماز سے فارغ ہو کر) اپنے دونوں جانب سے پلٹتے تھے (کبھی دائیں طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٣ (٣٠١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٣ (٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٦) (حسن صحیح) (اگلی حدیث نمبر : ( ١٠٤٢ ) سے تقویت پا کر یہ حسن صحیح ہے)
نماز سے فارغ ہو کر کس طرف اٹھنا چاہیے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم ﷺ کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٩ (٨٥٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٧ (٧٠٧) ، سنن النسائی/السھو ١٠٠ (١٣٦١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٣ (٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٧) ، و قد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٣، ٤٢٩، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٩ (١٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ کے حجرے آپ کے مصلیٰ سے (بحالت نماز) بائیں جانب پڑتے تھے ، آپ ﷺ کبھی بائیں جانب مڑتے اور اٹھ کر اپنے حجروں میں تشریف لے جاتے تھے۔
نفل نماز گھر میں پڑھنا بہتر ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنی بعض نمازیں اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٢ (٤٣٢) ، والتھجد ٣٧ (١١٨٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٧٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٤ (٤٥١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٦ (١٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٥٩٩) ، مسند احمد (٢/٦، ١٦، ١٢٣) ویأتي برقم : (١٤٤٨) (صحیح )
نفل نماز گھر میں پڑھنا بہتر ہے
زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی نماز اس کے اپنے گھر میں اس کی میری اس مسجد میں نماز سے افضل ہے سوائے فرض نماز کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨١ (٧٣١) ، والأدب ٧٥ (٦١١٣) ، والاعتصام ٣ (٧٢٩٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٨١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٩ (٤٥٠) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ١ (٤) ، مسند احمد (٥/ ١٨٢، ١٨٤، ١٨٦، ١٨٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٦ (١٤٠٦) ویأتی ہذا الحدیث برقم (١٤٤٧) (صحیح )
اگر کوئی شخص (شبہ یا غلط فہمی کی بنا پر) قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت میں نماز پڑھ رہا ہو اور اسی دوران اس کو قبلہ کا علم ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، جب آیت کریمہ : فول وجهك شطر المسجدالحرام وحيث ما کنتم فولوا وجوهكم شطره یعنی اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں (سورۃ البقرہ : ١٥٠) نازل ہوئی تو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص لوگوں کے پاس سے ہو کر گزرا اس حال میں کہ وہ لوگ نماز فجر میں رکوع میں تھے اور بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے تھے تو اس نے انہیں دو بار آواز دی : لوگو ! آگاہ ہوجاؤ، قبلہ کعبہ کی طرف بدل دیا گیا ہے (یہ حکم سنتے ہی) لوگ حالت رکوع ہی میں کعبہ کی طرف پھرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٤) (صحیح )
جمعہ کے احکام
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا لیے گئے، اسی دن وہ زمین پر اتارے گئے، اسی دن ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی دن ان کا انتقال ہوا، اور اسی دن قیامت برپا ہوگی، انس و جن کے علاوہ سبھی جاندار جمعہ کے دن قیامت برپا ہونے کے ڈر سے صبح سے سورج نکلنے تک کان لگائے رہتے ہیں، اس میں ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ نماز پڑھتے ہوئے اس گھڑی کو پالے، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی کسی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ اس کو (ضرور) دے گا ۔ کعب الاحبار نے کہا : یہ ساعت (گھڑی) ہر سال میں کسی ایک دن ہوتی ہے تو میں نے کہا : نہیں بلکہ ہر جمعہ میں ہوتی ہے پھر کعب نے تورات پڑھی اور کہا : نبی اکرم ﷺ نے سچ فرمایا، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : پھر میں عبداللہ بن سلام (رض) سے ملا، اور کعب کے ساتھ اپنی اس مجلس کے متعلق انہیں بتایا تو آپ نے کہا : وہ کون سی ساعت ہے ؟ مجھے معلوم ہے، میں نے ان سے کہا : اسے مجھے بھی بتائیے تو عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت (گھڑی) ہے، میں نے عرض کیا : وہ جمعہ کے دن کی آخری ساعت (گھڑی) کیسے ہوسکتی ہے ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : کوئی مسلمان بندہ اس وقت کو اس حال میں پائے کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو ، اور اس وقت میں نماز تو نہیں پڑھی جاتی ہے تو اس پر عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا : جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے، وہ حکماً نماز ہی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھ لے ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : کیوں نہیں، رسول اللہ ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے، انہوں نے کہا : تو اس سے مراد یہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجمعة ٢ (٤٩١) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٤ (١٤٣١) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٥، ١٥٠٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٧ (٩٣٥) ، والطلاق ٢٤ (٥٢٩٤) ، والدعوات ٦١ (٦٤٠٠) ، (في جمیع المواضع مقتصراً علی قولہ : فیہ الساعة … ) صحیح مسلم/الجمعة ٤ (٨٥٢) ، ٥ (٨٥٤ ببعضہ) ، سنن النسائی/الجمعة ٤ (١٣٧٤) ، ٤٥ (١٤٣١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٩ (١١٣٧) ، موطا امام مالک/صلاة الجمعة ٧ (١٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٥٥، ٢٥٧، ٢٧٢، ٢٨٠، ٢٨٤، ٤٠١، ٤٠٣، ٤٥٧، ٤٦٩، ٤٨١، ٤٨٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٤ (١٦١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نماز پڑھتے ہوئے سے یہ مراد نہیں کہ وہ فی الواقع نماز پڑھ رہا ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ جو نماز کا انتظار کر رہا ہو وہ بھی اس شخص کے مثل ہے جو نماز کی حالت میں ہو۔ اس ساعت (گھڑی) کے سلسلہ میں علماء کے درمیان بہت اختلاف ہے، راجح عبداللہ بن سلام (رض) کا قول ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ گھڑی امام کے خطبہ کے کئے منبر پر بیٹھے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک ہے، اس گھڑی کو پوشیدہ رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ آدمی اس گھڑی کی تلاش میں پورے دن عبادت و دعا میں مشغول و منہمک رہے۔
جمعہ کے احکام
اوس بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اسی دن چیخ ہوگی ١ ؎ اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اوس بن اوس کہتے ہیں : لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ (مر کر) بوسیدہ ہوچکے ہوں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن کو حرام کردیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٥ (١٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (١٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٦ (١٦١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جس کی ہولناکی سے سارے لوگ مرجائیں گے۔
جمعہ کے دن قبو لیت کی گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کا دن بارہ ساعت (گھڑی) کا ہے، اس میں ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس ساعت کو پا کر اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور دیتا ہے، لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری ساعت (گھڑی) میں تلاش کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ١٤ (١٣٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٧) (صحیح )
جمعہ کے دن قبو لیت کی گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟
ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے مجھ سے پوچھا : کیا تم نے اپنے والد سے جمعہ کے معاملہ میں یعنی قبولیت دعا والی گھڑی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہوئے کچھ سنا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، میں نے سنا ہے، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ وہ (ساعت) امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز کے ختم ہونے کے درمیان ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی منبر پر (بیٹھنے سے لے کر) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٤ (٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٧٨) (صحیح) (بعض حفاظ نے اس کو ابوبردہ کا قول بتایا ہے، اور بعض نے اس کو مرفوع حدیث کے مخالف گردانا ہے، جس میں صراحت ہے کہ یہ عصر کے بعد کی گھڑی ہے، (جبکہ ابوہریرہ و جابر (رض) کی حدیث میں آیا ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے یہاں یہ ساعت (گھڑی) دن کی آخری گھڑی ہے، ملاحظہ ہو : فتح الباری )
نماز جمعہ کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر جمعہ کے لیے آئے اور غور سے خطبہ سنے اور خاموش رہے تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے گناہ ١ ؎ بخش دئیے جائیں گے اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغو حرکت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٨ (٨٥٧) ، سنن الترمذی/الجمعة ٥ (٤٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦٢ (١٠٢٥) ، ٨١ (١٠٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد گناہ صغیرہ ہیں۔
نماز جمعہ کی فضیلت
عطاء خراسانی اپنی بیوی ام عثمان کے غلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے کوفہ کے منبر پر علی (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو شیطان اپنے جھنڈے لے کر بازاروں میں جاتے ہیں اور لوگوں کو ضرورتوں و حاجتوں کی یاد دلا کر ان کو جمعہ میں آنے سے روکتے ہیں اور فرشتے صبح سویرے مسجد کے دروازے پر آ کر بیٹھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ کون پہلی ساعت (گھڑی) میں آیا، اور کون دوسری ساعت (گھڑی) میں آیا، یہاں تک کہ امام (خطبہ جمعہ کے لیے) نکلتا ہے، پھر جب آدمی ایسی جگہ بیٹھتا ہے، جہاں سے وہ خطبہ سن سکتا ہے اور امام کو دیکھ سکتا ہے اور (دوران خطبہ) چپ رہتا ہے، کوئی لغو حرکت نہیں کرتا تو اس کو دوہرا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی شخص دور بیٹھتا ہے جہاں سے خطبہ سنائی نہیں دیتا، لیکن خاموش رہتا ہے اور کوئی بیہودہ بات نہیں کرتا تو ایسے شخص کو ثواب کا ایک حصہ ملتا ہے اور اگر کوئی ایسی جگہ بیٹھا، جہاں سے خطبہ سن سکتا ہے اور امام کو دیکھ سکتا ہے لیکن (دوران خطبہ) بیہودہ باتیں کرتا رہا اور خاموش نہ رہا تو اس پر گناہ کا ایک حصہ لاد دیا جاتا ہے اور جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے (بغل کے) ساتھی سے کہا : چپ رہو، تو اس نے لغو حرکت کی اور جس شخص نے لغو حرکت کی تو اسے اس جمعہ کا ثواب کچھ نہ ملے گا، پھر وہ اس روایت کے اخیر میں کہتے ہیں : میں نے اسے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ولید بن مسلم نے ابن جابر سے روایت کیا ہے۔ اس میں بغیر شک کے ربائث ہے، نیز اس میں مولى امرأته أم عثمان بن عطاء ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٣) (ضعیف) (اس کے راوی عطاء خراسانی ضعیف ، اور مولی امرأتہ مجہول ہیں )
نماز جمعہ کے ترک پروعید
ابوجعد ضمری (رض) سے روایت ہے (انہیں شرف صحبت حاصل تھا) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سستی سے تین جمعہ چھوڑ دے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الصلاة ٢٤٢ (الجمعة ٧) (٥٠٠) ، سنن النسائی/الجمعة ٢ (١٣٧٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٣ (١١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٩ (٢٠) ، مسند احمد (٣/٤٢٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٥ (١٦١٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس مہر کے لگ جانے سے خیر اور ہدایت کی چیز اس کے دل میں داخل نہیں ہو سکے گی۔
نماز جمعہ قضا ہوجانے کا کفارہ
سمرہ بن جندب (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص بغیر عذر کے جمعہ چھوڑ دے تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر اسے ایک دینار میسر نہ ہو تو نصف دینار کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے خالد بن قیس نے اسی طرح روایت کیا ہے، اور سند میں ان کی مخالفت کی ہے اور متن میں موافقت۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٣ (١٣٧٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٣ (١١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٣١، ١٩٢٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨، ١٤) (ضعیف) ( قدامہ مجہول راوی ہیں، نیز سمرہ “ (رض) سے ان کا سماع ثابت نہیں )
نماز جمعہ قضا ہوجانے کا کفارہ
قدامہ بن وبرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے بغیر عذر کے جمعہ چھوٹ جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ ایک درہم یا نصف درہم یا ایک صاع گیہوں یا نصف صاع گیہوں صدقہ دے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے سعید بن بشیر نے قتادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے مگر انہوں نے اپنی روایت میں مد یا نصف مد کہا ہے نیز عن سمرة کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل سے سنا ان سے اس حدیث کے اختلاف کے متعلق پوچھا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا : میرے نزدیک ہمام ایوب ابو العلاء سے زیادہ حفظ میں قوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٣١، ١٩٢٣١) (ضعیف) (قدامہ مجہول ہیں ، نیز سند میں ان کے درمیان اور نبی کریم ﷺ کے درمیان دو آدمیوں کا انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : صاع ڈھائی کلو گرام کا، درھم : چاندی کا سکہ تین گرام کے سے کچھ کم (٩٧٥, ٢) ۔
جمعہ کن لوگوں پر واجب ہوتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے اپنے گھروں سے اور عوالی ١ ؎ سے باربار آتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٥ (٩٠٢) ، والبیوع ١٥ (٢٠١٧) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجمعة ٩ (١٣٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عوالی مدینہ منورہ میں قباء سے متصل علاقہ ہے۔
جمعہ کن لوگوں پر واجب ہوتا ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ ہر اس شخص پر ہے جس نے جمعہ کی اذان سنی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو ایک جماعت نے سفیان سے روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو (رض) پر موقوف کیا ہے اور صرف قبیصہ نے اسے مسند (یعنی مرفوع روایت) کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٥) (حسن لغیرہ) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٠٥٦، وارواء الغلیل : ٥٩٣ )
بارش کے دن جمعہ کو جانے کا بیان
ابوملیح کے والد اسامہ بن عمیر ھزلی (رض) سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے روز بارش ہو رہی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے منادی کو حکم دیا کہ (وہ اعلان کر دے کہ) لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٥١ (٨٥٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٥ (٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٤، ٧٤، ٧٥) (صحیح )
بارش کے دن جمعہ کو جانے کا بیان
ابوملیح سے روایت ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣) (صحیح )
بارش کے دن جمعہ کو جانے کا بیان
ابوملیح اپنے والد اسامہ بن عمیر ہزلی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس صلح حدیبیہ کے موقع پر جمعہ کے روز حاضر ہوئے وہاں ایسی بارش ہوئی تھی کہ ان کے جوتوں کے تلے بھی نہیں بھیگے تھے تو آپ نے انہیں اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٣) (صحیح )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) وادی ضجنان میں ایک سرد رات میں اترے اور منادی کو حکم دیا اور اس نے آواز لگائی : لوگو ! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، ایوب کہتے ہیں : اور ہم سے نافع نے عبداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سردی یا بارش کی رات ہوتی تو منادی کو حکم دیتے تو وہ الصلاة في الرحال لوگو ! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو کا اعلان کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٥ (٩٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٧ (٦٣٢) ، ٤٠ (٦٦٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٧) ، سنن النسائی/الأذان ١٩ (٦٥٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ٢(١٠) ، مسند احمد (٢/٤، ١٠، ٥٣، ٦٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ٥٥ (١٣١١) (صحیح )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
نافع کہتے ہیں ابن عمر (رض) نے وادی ضجنان میں نماز کے لیے اذان دی، پھر اعلان کیا کہ لوگو ! تم لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، اس میں ہے کہ پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث نقل کی کہ آپ سفر میں سردی یا بارش کی رات میں منادی کو حکم فرماتے تو وہ نماز کے لیے اذان دیتا پھر وہ اعلان کرتا کہ لوگو ! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن سلمہ نے ایوب اور عبیداللہ سے روایت کیا ہے اس میں في الليلة الباردة وفي الليلة المطيرة في السفر کے بجائے في السفر في الليلة القرة أو المطيرة کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٥٥٠) (صحیح )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے مقام ضجنان میں سرد اور آندھی والی ایک رات میں اذان دی تو اپنی اذان کے آخر میں کہا : لوگو ! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، لوگو ! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، پھر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ سفر کے اندر سردی یا بارش کی رات میں مؤذن کو حکم فرماتے تھے کہ اعلان کر دو : لوگو ! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٤) (صحیح )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے سرد اور آندھی والی ایک رات میں نماز کے لیے اذان دی تو کہا : لوگو ! ڈیروں میں نماز پڑھ لو، پھر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ سردی یا بارش والی رات ہوتی تو مؤذن کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیتے : لوگو ! ڈیروں میں نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٠ (٦٦٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٧) ، سنن النسائی/الأذان ١٧ (٦٥٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ٢(١٠) ، مسند احمد (٢/٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٢) (صحیح )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے مدینہ کے اندر بارش کی رات یا سردی کی صبح میں ایسی ہی ندا کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو یحییٰ بن سعید انصاری نے قاسم سے، قاسم نے ابن عمر (رض) سے، ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور اس میں في السفر کے الفاظ بھی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٤١٣) (منکر )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو چاہے وہ اپنے ڈیرے میں نماز پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٩ (٤٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٢٧، ٣٩٧) (صحیح )
سر درا توں میں جماعت معاف ہونے کا بیان
محمد بن سیرین کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا : جب تم أشهد أن محمدا رسول الله کہنا تو اس کے بعد حي على الصلاة نہ کہنا بلکہ اس کی جگہ صلوا في بيوتكم لوگو ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو کہنا، لوگوں نے اسے برا جانا تو انہوں نے کہا : ایسا اس ذات نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھی (یعنی رسول اللہ ﷺ نے) ، بیشک جمعہ واجب ہے، لیکن مجھے یہ بات گوارہ نہ ہوئی کہ میں تم کو کیچڑ اور پانی میں (جمعہ کے لیے) آنے کی زحمت دوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠ (٦١٦) ، ٤١(٦٦٨) ، والجمعة ١٤ (٩٠١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٥ (٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٧) (صحیح )
عورت اور غلام پر جمعہ واجب نہیں
طارق بن شہاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کی نماز جماعت سے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے چار لوگوں : غلام، عورت، نابالغ بچہ، اور بیمار کے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : طارق بن شہاب نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے مگر انہوں نے آپ سے کچھ سنا نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٩٨١) (صحیح )
گاؤں میں جمعہ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے کہتے ہیں اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جو اثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین ١ ؎ کا ایک گاؤں ہے، عثمان کہتے ہیں : وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گاؤں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١١ (٨٩٢) ، والمغازي ٦٩ (٤٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں بحرین سے مراد سعودی عرب کا مشرقی علاقہ ہے، ” جواثی “ منطقہ احساء کے ہفوف نامی شہر کے ایک گاؤں میں واقع ہے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے اور اس کے بعد والی حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ گاؤں میں پڑھنا درست ہے، اس لئے کہ جواثی اور ہزم النبیت دونوں گاؤں ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ قریہ کا اطلاق عربی میں گاؤں اور شہر دونوں پر ہوتا ہے، اس لئے یہ استدلال تام نہیں، جب کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جواثی بحرین کا ایک شہر ہے اور ہزم النبیت مدینہ ہی کا ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں بہتر طریق استدلال یہ ہے کہ جمعہ کی فرضیت آیت اور حدیث سے مطلق ثابت ہے اس میں شہر کی قید نہیں، لہذا اس قید کا اضافہ کرنا کتاب اللہ پر زیادتی ہے، جو حنفیہ کے نزدیک حدیث مشہور ہی سے جائز ہے، اس سلسلہ میں علی (رض) کی جو روایت : لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع پیش کی جاتی ہے وہ دراصل موقوف روایت ہے، امام احمد نے اس کے مرفوع ہونے کی تضعیف کی ہے اس لئے اس سے خود حنفیہ کے اصول کے مطابق کتاب اللہ پر زیادتی جائز نہیں کیوں کہ وہ استدلال کے قابل نہیں۔ ابن ابی شیبہ نے عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے بحرین والوں کو لکھا کہ تم لوگ جمعہ پڑھو جہاں بھی رہو ان کا یہ حکم شہر اور گاؤں دونوں کو عام ہے، اسی طرح بیہقی نے بھی عمر (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جمعہ واجب ہے ہر گاؤں پر اگرچہ اس میں صرف چار ہی آدمی ہوں، اور ابن مسعود (رض) سے اور دیگر صحابہ سے شہر اور صحراء دونوں جگہ میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے۔
گاؤں میں جمعہ پڑھنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک اپنے والد کعب بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی بصارت چلی جانے کے بعد وہ ان کے راہبر تھے، وہ کہتے ہیں کہ کعب بن مالک (رض) جب جمعہ کے دن اذان سنتے تو اسعد بن زرارہ (رض) کے لیے رحمت کی دعا کرتے، عبدالرحمٰن بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ جب آپ اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ (رض) کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : میں ان کے لیے رحمت کی دعا اس لیے کرتا ہوں کہ یہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں قبیلہ بنو بیاضہ کے حرہ نقیع الخضمات میں واقع (بستی، گاؤں) ھزم النبیت ١ ؎ میں جمعہ کی نماز پڑھائی، میں نے پوچھا : اس دن آپ لوگ کتنے تھے ؟ کہا : ہم چالیس تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٨ (١٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام ہزم النبیت تھا۔
جب جمعہ اور عید ایک دن پڑ جائیں
ایاس بن ابی رملۃ شامی کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابوسفیان (رض) کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم (رض) سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، معاویہ نے پوچھا : پھر آپ نے کس طرح کیا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا : جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العیدین ٣١ (١٥٩٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٦٦ (١٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢٥ (١٦٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر مسلمان کو اختیار ہے کہ عید کی نماز کے بعد چاہے تو جمعہ نہ پڑھ کر صرف ظہر پڑھ لے اسی طرح جس مسجد میں جمعہ نہیں قائم ہوتا اس میں لوگ ظہر پڑہ لیں، لیکن جس مسجد میں جمعہ قائم ہوتا ہو وہاں جمعہ قائم ہوگا، کیوں کہ نبی اکرم ﷺ نیز عثمان (رض) نے عام لوگوں کو جمعہ کی چھوٹ دے کر فرمایا : ” ہم تو جمعہ پڑھیں گے “۔
جب جمعہ اور عید ایک دن پڑ جائیں
عطاء بن ابورباح کہتے ہیں عبداللہ بن زبیر (رض) نے ہمیں جمعہ کے دن صبح سویرے عید کی نماز پڑھائی، پھر جب ہم نماز جمعہ کے لیے چلے تو وہ ہماری طرف نکلے ہی نہیں، بالآخر ہم نے تنہا تنہا نماز پڑھی ١ ؎ ابن عباس (رض) اس وقت طائف میں تھے، جب وہ آئے تو ہم نے ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے کہا : انہوں (ابن زبیر رضی اللہ عنہ) نے سنت پر عمل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صلاة العیدین (٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ظہر پڑھی کیونکہ جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے اس کے بغیر جمعہ صحیح نہیں۔
جب جمعہ اور عید ایک دن پڑ جائیں
عطاء کہتے ہیں عبداللہ بن زبیر (رض) کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہوگئے تو آپ نے کہا : ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہوگئی ہیں، پھر آپ نے دونوں کو ملا کر صبح کے وقت صرف دو رکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصر پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دراصل عبداللہ بن زبیر (رض) گھر سے نکلے ہی نہیں (جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے) اس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے ظہر بھی نہیں پڑھی، حالانکہ ایسی بات نہیں، آپ نے گھر میں ظہر پڑھ لی تھی، کیونکہ عید کے دن جمعہ معاف ہے ظہر نہیں۔ یہ اسلام کا عام قاعدہ ہے کہ جس سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہے اس کے لئے ظہر پڑھنی ضروری ہے۔
جب جمعہ اور عید ایک دن پڑ جائیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھا ہوگئی ہیں، لہٰذا رخصت ہے، جو چاہے عید اسے جمعہ سے کافی ہوگی اور ہم تو جمعہ پڑھیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٦٦ (١٣١١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٧) (صحیح )
جمعہ کے دن صبح کی نماز میں کون سی سورت پڑھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن فجر میں سورة السجدة اور هل أتى على الإنسان حين من الدهر پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٧ (٨٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٨ (٥٢٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٧ (٩٥٦، ٩٥٧) ، والجمعة ٣٨ (١٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٦ (٨٢١) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٣٠٧، ٣١٦، ٣٢٨، ٣٣٤، ٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٣) (صحیح )
جمعہ کے دن صبح کی نماز میں کون سی سورت پڑھے
اس طریق سے بھی مخول سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ جمعہ میں سورة الجمعہ اور إذا جاءک المنافقون پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٣) (صحیح )
جمعہ کے کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش ! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر (رض) کو دیا تو عمر نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے ؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو ، چناچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٧ (٨٨٦) ، والعیدین ١ (٩٤٨) ، والھبة ٢٧ (٢٦١٢) ، ٢٩ (٢٦١٩) ، والجھاد ١٧٧ (٣٠٥٤) ، واللباس ٣٠ (٥٨٤١) ، والأدب ٩ (٥٩٨١) ، ٦٦ (٦٠٨١) ، صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٨) ، سنن النسائی/الجمعة ١١ (١٣٨٣) ، والعیدین ٤ (١٥٦١) ، والزینة ٨٣ (٥٢٩٧) ، ٨٥ (٥٣٠١) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٢٣، ٨٣٣٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ١٦ (٣٥٨٩) ، مسند احمد (٢/٢٠، ٣٩، ٤٩) ویأتی ہذا الحدیث فی اللباس (٤٠٤) (صحیح )
جمعہ کے کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں عمر بن خطاب (رض) نے بازار میں ایک موٹے ریشم کا جوڑا بکتا ہوا پایا تو اسے لے کر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : آپ اسے خرید لیجئیے اور عید میں یا وفود سے ملتے وقت آپ اسے پہنا کیجئے۔ پھر راوی نے پوری حدیث اخیر تک بیان کی اور پہلی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٨) ، سنن النسائی/العیدین ٤ (١٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٩٥) (صحیح )
جمعہ کے کپڑوں کا بیان
محمد بن یحییٰ بن حبان نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میسر ہو سکے تو تمہارے لیے کوئی حرج کی بات نہیں کہ تم میں سے ہر ایک اپنے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے جمعہ کے لیے بنا رکھے ١ ؎۔ عمرو کہتے ہیں : مجھے ابن ابوحبیب نے خبر دی ہے، انہوں نے موسیٰ بن سعد سے، موسیٰ بن سعد نے ابن حبان سے، ابن حبان نے ابن سلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے منبر پر فرماتے سنا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے وہب بن جریر نے اپنے والد سے، انہوں نے یحییٰ بن ایوب سے، یحییٰ نے یزید بن ابوحبیب سے، انہوں نے موسیٰ بن سعد سے، موسیٰ بن سعد نے یوسف بن عبداللہ بن سلام (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ٨٣ (١٠٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٣٤، ١١٨٥٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٨ (١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے لئے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ الگ کپڑے رکھنا بہتر ہے۔
نماز جمعہ سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں خریدو فروخت کرنے، کوئی گمشدہ چیز تلاش کرنے، شعر پڑھنے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٢٤ (٣٢٢) ، سنن النسائی/المساجد ٢٣ (٧١٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ٥ (٧٤٩) ، مسند احمد (٢/١٧٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کہ جمعہ کے دن خطبہ سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے، اور جب لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھیں گے تو خواہ مخواہ باتیں کریں گے اس لئے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ جمعہ سے پہلے کسی وقت بھی حلقہ باندھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔
منبر بنانے کا بیان
ابوحازم بن دینار بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی (رض) کے پاس آئے، وہ لوگ منبر کے سلسلے میں جھگڑ رہے تھے کہ کس لکڑی کا تھا ؟ تو انہوں نے سہل بن سعد سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا : قسم اللہ کی ! میں جانتا ہوں کہ وہ کس لکڑی کا تھا اور میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا جب وہ رکھا گیا اور جب اس پر رسول اللہ ﷺ بیٹھے، آپ ﷺ نے ایک عورت کے پاس۔ جس کا سہل نے نام لیا۔ یہ پیغام بھیجا کہ تم اپنے نوجوان بڑھئی کو حکم دو کہ وہ میرے لیے چند لکڑیاں ایسی بنا دے جن پر بیٹھ کر میں لوگوں کو خطبہ دیا کروں، تو اس عورت نے اسے منبر کے بنانے کا حکم دیا، اس بڑھئی نے غابہ کے جھاؤ سے منبر بنایا پھر اسے لے کر وہ عورت کے پاس آیا تو اس عورت نے اسے آپ ﷺ کے پاس بھیج دیا، آپ ﷺ نے اسے (ایک جگہ) رکھنے کا حکم دیا، چناچہ وہ منبر اسی جگہ رکھا گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور تکبیر کہی پھر اسی پر رکوع بھی کیا، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا، پھر منبر پر واپس چلے گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا : لوگو ! میں نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری پیروی کرو اور میری نماز کو جان سکو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٧) ، والجمعة ٢٦ (٩١٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٠ (٥٤٤) ، سنن النسائی/المساجد ٤٥ (٧٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٩ (١٤١٦) ، مسند احمد (٥/٣٣٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٥ (١٢٩٣) (صحیح )
منبر بنانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا جسم (بڑھاپے کی وجہ سے) جب بھاری ہوگیا تو تمیم داری (رض) نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ تیار کر دوں جو آپ کی ہڈیوں کو مجتمع رکھے یا اٹھائے رکھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، کیوں نہیں !، چناچہ انہوں نے آپ ﷺ کے لیے دو زینوں والا ایک منبر بنادیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٥) (صحیح )
منبر رکھنے کی جگہ کا بیان
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے منبر اور (قبلہ والی) دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے بقدر جگہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلا ة ٩١ (٤٩٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٩ (٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٦، ٥٤) (صحیح )
زوال سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھنا
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ٹھیک دوپہر کے وقت نماز پڑھنے کو ناپسند کیا ہے سوائے جمعہ کے دن کے اور آپ نے فرمایا : جہنم سوائے جمعہ کے دن کے ہر روز بھڑکائی جاتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث مرسل (منقطع) ہے، مجاہد عمر میں ابوالخلیل سے بڑے ہیں اور ابوالخلیل کا ابوقتادہ (رض) سے سماع نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٣) (ضعیف )
جمعہ کے وقت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٦(٩٠٤) ، سنن الترمذی/الجمعة ٩ (٥٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٨، ١٥٠، ٢٢٨) (صحیح )
جمعہ کے وقت کا بیان
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے پھر نماز سے فارغ ہو کر واپس آتے تھے اور دیواروں کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٢٥ (٤١٦٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ٩ (٨٦٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١٤ (١٣٩٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٤ (١١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٦، ٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤(١٥٨٧) (صحیح )
جمعہ کے وقت کا بیان
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے بعد قیلولہ کرتے تھے اور دوپہر کا کھانا کھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : والاستئذان ٣٩ (٦٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ٩ (٨٥٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦١ (الجمعة ٢٦) (٥٢٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٤ (١٠٩٩) (صحیح )
جمعہ کی اذان کا بیان
سائب بن یزید (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر جب عثمان (رض) کی خلافت ہوئی، اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو جمعہ کے دن انہوں نے تیسری اذان کا حکم دیا، چناچہ زوراء ١ ؎ پر اذان دی گئی پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢١ (٩١٢) ، ٢٢ (٩١٣) ، ٢٤ (٩١٥) ، ٢٥ (٩١٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٥ (الجمعة ٢٠) (٥١٦) ، سنن النسائی/الجمعة ١٥ (١٣٩٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٧ (١١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٠٤٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام۔ ٢ ؎ : تکبیر کو شامل کرکے یہ تیسری اذان ہوئی ، یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان (رض) کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہوگی جب امام خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان تکبیر ہے اگر کوئی صرف اذان اور تکبیر پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر (رض) کی سنت کی اتباع کی۔
جمعہ کی اذان کا بیان
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں جمعہ کے روز جب رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اسی طرح ابوبکر و عمر (رض) کے دور میں بھی مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی۔ پھر راوی نے یونس کی حدیث کی طرح روایت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) (منکر) (زہری سے اس حدیث کو سات آدمیوں نے روایت کی ہے مگر کسی کے یہاں بین یدی کا لفظ نہیں ہے )
جمعہ کی اذان کا بیان
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس سوائے ایک مؤذن بلال (رض) کے کوئی اور مؤذن نہیں تھا ١ ؎۔ پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٨٧، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کے پاس بلال، ابن ام مکتوم، ابومحذورہ اور سعد القرط رضی اللہ عنھم پر مشتمل مؤذنین کی ایک جماعت تھی، پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہے کہ آپ ﷺ کے پاس بلال (رض) کے علاوہ کوئی اور مؤذن نہیں تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسجد نبوی میں جمعہ کی نماز کے لئے آپ ﷺ کے پاس بلال (رض) کے علاوہ کوئی اور مؤذن نہیں تھا، کیونکہ ابن ام مکتوم (رض) کے سلسلے میں یہ منقول نہیں ہے کہ وہ جمعہ کی اذان دیتے تھے، اور ابومحذورہ (رض) مکہ مکرمہ کے مؤذن تھے اور سعد القرط (رض) قبا کے۔
جمعہ کی اذان کا بیان
سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مؤذن کے علاوہ اور کوئی مؤذن نہیں تھا۔ اور راوی نے یہی حدیث بیان کی لیکن پوری نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٨٧، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) (صحیح )
امام خطبہ کے دوران گفتگو کرسکتا ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن جب منبر پر اچھی طرح سے بیٹھ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : بیٹھ جاؤ ، تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے (جو اس وقت مسجد کے دروازے پر تھے) اسے سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے، تو انہیں رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو فرمایا : عبداللہ بن مسعود ! تم آجاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث مرسلاً معروف ہے کیونکہ اسے لوگوں نے عطاء سے، عطاء نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور مخلد شیخ ہیں، (یعنی مراتب تعدیل کے پانچویں درجہ پر ہیں جن کی روایتیں حسن سے نیچے ہی ہوتی ہیں، الا یہ کہ ان کا کوئی متابع موافق ہو ) تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٦٤) (صحیح )
امام کا منبر پر بیٹھنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (جمعہ کے دن) دو خطبہ دیتے تھے وہ اس طرح کہ آپ منبر پر چڑھنے کے بعد بیٹھتے تھے یہاں تک کہ مؤذن فارغ ہوجاتا، پھر آپ ﷺ کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے، پھر (تھوڑی دیر) خاموش بیٹھتے پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٧٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٠ (٩٢٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٦ (الجمعة ١١) (٥٠٦) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٣ (١٤١٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٥ (١١٠٣) ، مسند احمد ٢/٩٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٠ (١٥٩٩) (صحیح )
کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (جمعہ کے دن) کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر (تھوڑی دیر) بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، لہٰذا جو تم سے یہ بیان کرے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو ہے، پھر انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھ چکا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الجمعة ٣٢ (١٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٥ (١١٠٥) ، مسند احمد (٥/٨٩، ٩٠، ٩١، ٩٢، ٩٣، ٩٤، ٩٥، ٩٧، ٩٨، ٩٩، ١٠٠، ١٠١، ١٠٢، ١٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٩(١٥٩٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان میں (٥٠) جمعے بھی میں نے آپ ﷺ کے ساتھ پڑھے ہیں، یہ مراد نہیں کہ میں نے دو ہزار جمعے آپ ﷺ کے ساتھ پڑھے ہیں، کیونکہ دو ہزار جمعے آپ ﷺ کی نبوت کے وقت سے لے کر وفات تک بھی نہیں ہوتے۔
کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں (جمعہ کے دن) رسول اللہ ﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے، ان دونوں خطبوں کے درمیان آپ (تھوڑی دیر) بیٹھتے تھے، (خطبہ میں) آپ قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٩) (حسن )
کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا پھر آپ تھوڑی دیر خاموش بیٹھتے تھے، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی الکبری/ الصلاة العیدین ٢٣ (١٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٩٧) (حسن )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
شہاب بن خراش کہتے ہیں کہ شعیب بن زریق طائفی نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ میں ایک شخص کے پاس (جسے رسول اللہ ﷺ سے شرف صحبت حاصل تھا، اور جسے حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا) بیٹھا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگا کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، میں اس وفد کا ساتواں یا نواں آدمی تھا، ہم آپ ﷺ کے پاس آئے تو ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کی زیارت کی ہے تو آپ ہمارے لیے خیر و بہتری کی دعا فرما دیجئیے، تو آپ ﷺ نے کچھ کھجوریں ہم کو دینے کا حکم دیا اور حالت اس وقت ناگفتہ بہ تھی، پھر ہم وہاں کچھ روز ٹھہرے رہے، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ میں بھی حاضر رہے، آپ ایک عصا یا کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے چند ہلکے، پاکیزہ اور مبارک کلمات کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : لوگو ! تم سارے احکام کو جن کا تمہیں حکم دیا جائے بجا لانے کی ہرگز طاقت نہیں رکھتے یا تم نہیں بجا لاسکتے، لیکن درستی پر قائم رہو اور خوش ہوجاؤ ۔ ابوعلی کہتے ہیں کہ میں نے ابوداؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے بعض ساتھیوں نے کچھ کلمات مجھے ایسے لکھوائے جو کاغذ سے کٹ گئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ٣٤١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢١٢) (حسن )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ پڑھتے تو کہتے : الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، أرسله بالحق بشيرا ونذيرا بين يدي الساعة، من يطع الله ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما فإنه لا يضر إلا نفسه ولا يضر الله شيئا ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے ہے، ہم اسی سے مدد ما نگتے ہیں اور اسی سے مغفرت چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں برحق رسول بنا کر قیامت آنے سے پہلے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ سیدھی راہ پر ہے، اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٦) ویأتی ہذا الحدیث فی النکاح (٢١١٩) (ضعیف) (اس کے راوی عبدربہ مجہول ہیں )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
یونس سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن شہاب (زہری) سے جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے خطبہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی اور اس میں اتنا اضافہ کیا : ومن يعصهما فقد غوى . ونسأل الله ربنا أن يجعلنا ممن يطيعه ويطيع رسوله ويتبع رضوانه ويجتنب سخطه فإنما نحن به وله جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوگیا، ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا رب ہے یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی رضا مندی ڈھونڈھنے والوں اور اس کے غصے سے پرہیز کرنے والوں میں سے بنا لے کیونکہ ہم اسی کی وجہ سے ہیں اور اسی کے لیے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٠٧، ١٩٣٥٤) (ضعیف) (یہ حدیث مرسل ہے )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں ایک خطیب نے خطبہ دیا اور یوں کہا : من يطع الله ورسوله ومن يعصهما تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم یہاں سے اٹھ جاؤ یا چلے جاؤ تم برے خطیب ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧٠) ، سنن النسائی/النکاح ٤٠ (٣٢٨١) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٦، ٣٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے بئس الخطيب أنت اس لئے فرمایا کہ ومن يعصهما ( جو ان دونوں کی نافرمانی کرے) کے الفاظ آپ کو ناگوار لگے ، کیوں کہ خطیب نے ایک ہی ضمیر میں اللہ اور رسول دونوں کو یکجا کردیا، جس سے دونوں کے درمیان برابری ظاہر ہو رہی تھی، خطیب کو چاہیے تھا کہ وہ اللہ اور رسول دونوں کو الگ الگ ذکر کرے بالخصوص خطبہ میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ خطبہ تفصیل اور وضاحت کا مقام ہے۔
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
( ام ہشام) بنت حارث (حارثہ بن نعمان) بن نعمان (رض) کہتی ہیں میں نے سورة ق رسول اللہ ﷺ کی زبان (مبارک) سے سنتے ہی سنتے یاد کی ہے، آپ اسے ہر جمعہ کو خطبہ میں پڑھا کرتے تھے، وہ کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کا اور ہمارا ایک ہی چولہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٨ (١٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٤٣٢، ٤٣٦، ٤٦٣) (صحیح )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز درمیانی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانی ہوتا تھا، آپ ﷺ قرآن کی چند آیتیں پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٣٥ (١٤١٩) ، صلاة العیدین ٢٥ (١٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٥ (١١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ٩٣، ٩٨، ١٠٢، ١٠٦، ١٠٧) (حسن )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
عبدالرحمٰن کی بہن عمرۃ بنت ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان (رض) وہ کہتی ہیں کہ میں نے سورة ق کو رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سن سن کر یاد کیا آپ ہر جمعہ میں اسے پڑھا کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے یحییٰ بن ایوب، اور ابن ابی الرجال نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے عمرہ سے، عمرہ نے ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان عنہا سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٠٠، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٣) (صحیح )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ پڑھنا
عمرہ بنت عبدالرحمٰن اپنی بہن ام ہشام (رض) سے جو عمر میں ان سے بڑی تھیں، اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٠٠، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٣) (صحیح )
دوران خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھانا بُرا ہے
حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو جمعہ کے دن (منبر پر دونوں ہاتھ اٹھا کر) دعا مانگتے ہوئے دیکھا تو عمارہ نے کہا : اللہ ان دونوں ہاتھوں کو برباد کرے۔ زائدہ کہتے ہیں کہ حصین نے کہا : مجھ سے عمارہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا ہے، آپ اس سے (یعنی شہادت کی انگلی کے ذریعہ اشارہ کرنے سے (جو انگوٹھے کے قریب ہوتی ہے) زیادہ کچھ نہ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٤ (الجمعة ١٩) (٥١٥) ، سنن النسائی/الجمعة ٢٩ (١٤١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٥، ١٣٦، ٢٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠١ (١٦٠١) (صحیح )
دوران خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھانا بُرا ہے
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنے منبر پر دعا مانگتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ غیر منبر پر، بلکہ میں نے آپ کو اس طرح کرتے دیکھا اور انہوں نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور بیچ کی انگلی کا انگوٹھے سے حلقہ بنایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی عبد الرحمن بن اسحاق اور عبد الرحمن بن معاویہ پر کلام ہے )
مختصرخطبہ دینے کا بیان
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبوں میں اختصار کرنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٠) (صحیح )
مختصرخطبہ دینے کا بیان
جابر بن سمرہ سوائی (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن خطبے کو طول نہیں دیتے تھے، وہ بس چند ہی کلمات ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٩٢) (حسن )
خطبہ کے وقت امام کے قریب بیٹھنا
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خطبہ میں حاضر رہا کرو اور امام سے قریب رہو کیونکہ آدمی برابر دور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں بھی پیچھے کردیا جاتا ہے گرچہ وہ اس میں داخل ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠، ١١) (حسن )
اگر کوئی واقعہ پیش آجائے تو امام خطبہ موقوف کرسکتا ہے
بریدہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں حسن اور حسین (رض) دونوں لال قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے آئے آپ ﷺ منبر پر سے اتر پڑے، انہیں اٹھا لیا اور لے کر منبر پر چڑھ گئے پھر فرمایا : اللہ نے سچ فرمایا ہے : إنما أموالکم وأولادکم فتنة (التغابن : ١٥) تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں میں نے ان دونوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کرسکا ، پھر آپ نے دوبارہ خطبہ دینا شروع کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٣١ (٣٧٧٤) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٠ (١٤١٤) ، والعیدین ٢٧ (١٥٨٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٠ (٣٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٤) (صحیح )
خطبہ کے دوران گو ٹھ مار کر بیٹھنا
معاذ بن انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ دینے کی حالت میں حبوہ ١ ؎ (گوٹ مار کر بیٹھنے سے) منع فرمایا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٣ (الجمعة ١٨) (٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حبوۃ (گوٹ مار کر بیٹھنے) کی صورت یہ ہے کہ دونوں پاؤں کھڑا رکھے، اور انہیں پیٹ سے ملائے رکھے، اور دونوں سرین پر بیٹھے، اور کپڑے سے دونوں پاؤں اور پیٹ باندھ لے یا ہاتھوں سے حلقہ بنا لے۔ ٢ ؎ : اس سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیند زیادہ آتی ہے، اور ہوا خارج ہونے کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے، بسا اوقات وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور آدمی کو اس کی خبر نہیں ہو پاتی ہے۔
خطبہ کے دوران گو ٹھ مار کر بیٹھنا
یعلیٰ بن شداد بن اوس کہتے ہیں میں معاویہ (رض) کے ساتھ بیت المقدس میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی تو میں نے دیکھا کہ مسجد میں زیادہ تر لوگ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب ہیں اور میں نے انہیں امام کے خطبہ دینے کی حالت میں گوٹ مار کر بیٹھے دیکھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر (رض) بھی امام کے خطبہ دینے کی حالت میں گوٹ مار کر بیٹھتے تھے اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ، شریح، صعصہ بن صوحان، سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، مکحول، اسماعیل بن محمد بن سعد اور نعیم بن سلامہ نے کہا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میری معلومات کی حد تک عبادہ بن نسی کے علاوہ کسی اور نے اس کو مکروہ نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف) (اس کے راوی سلیمان ضعیف ہیں )
خطبہ کے وقت گفتگو ممنوع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نے امام کے خطبہ دینے کی حالت میں (کسی سے) کہا : چپ رہو، تو تم نے لغو کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٢٢ (١٤٠٢، ١٤٠٣) ، والعیدین ٢١ (١٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٦ (٣٩٤) ، صحیح مسلم/الجمعة ٣ (٨٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥١ (الجمعة ١٦) (٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٦ (١١١٠) ، موطا امام مالک/الجمعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٢٧٢، ٢٨٠، ٣٩٣، ٣٩٦، ٤٨٥، ٥١٨، ٥٣٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٥ (١٥٨٩) (صحیح )
خطبہ کے وقت گفتگو ممنوع ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ میں تین طرح کے لوگ حاضر ہوتے ہیں : ایک آدمی وہ جو جمعہ میں حاضر ہو کر لغو و بیہودہ گفتگو کرے، اس میں سے اس کا حصہ یہی ہے ١ ؎، دوسرا آدمی وہ ہے جو اس میں حاضر ہو کر اللہ سے دعا کرے تو وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے اللہ سے دعا کی ہے اگر وہ چاہے تو اسے دے اور چاہے تو نہ دے، تیسرا وہ آدمی ہے جو حاضر ہو کر خاموشی سے خطبہ سنے، نہ کسی مسلمان کی گردن پھاندے، نہ کسی کو تکلیف دے، تو یہ اس کے لیے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن تک کے گناہوں کا کفارہ ہوگا کیونکہ اللہ فرماتا ہے : جو نیکی کرے گا تو اسے اس کا دس گنا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨١، ٢١٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا۔
مقتدی اپنا وضو ٹوٹنے کی اطلاع امام کو کس طرح دے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حالت نماز میں تم میں سے کسی شخص کو حدث ہوجائے تو وہ اپنی ناک پکڑ کر چلا جائے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن سلمہ اور ابواسامہ نے ہشام سے ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، ان دونوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٠٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٣٨ (١٢٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ناک پکڑنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سے لوگ سمجھیں گے کہ اس کی نکسیر پھوٹ گئی ہے کیوں کہ شرم کی بات (ہوا خارج ہوجانے کی بات) کو چھپانا ہی بہتر ہے۔
اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران مسجد میں آئے تو وہ تحیة المسجد کی نماز پڑھے یا نہیں؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن (مسجد میں) آیا اور نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا : اے فلاں ! کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ ، اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اٹھ کر نماز پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٥ (١١٦٦) ، والجمعة ٣٢ (٩٣٠) ، ٣٣ (٩٣١) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٠ (الجمعة ١٥) (٥١٠) ، سنن النسائی/الجمعة ١٦ (١٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٥١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٧ (١١١٣) ، مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣٠٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٦ (١٤٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ سلیک غطفانی تھے جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام کے خطبہ دینے کی حالت میں مسجد میں آئے تو وہ دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے۔
اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران مسجد میں آئے تو وہ تحیة المسجد کی نماز پڑھے یا نہیں؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں سلیک غطفانی (رض) (مسجد میں) آئے اور رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے ان سے فرمایا : کیا تم نے کچھ پڑھا ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٧ (١١١٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٤، ١٢٣٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٦) (صحیح )
اگر کوئی شخص خطبہ کے دوران مسجد میں آئے تو وہ تحیة المسجد کی نماز پڑھے یا نہیں؟
جابر بن عبداللہ (رض) کا بیان ہے کہ سلیک (رض) آئے، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی اور اتنا اضافہ کیا کہ پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو دو ہلکی رکعتیں پڑھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٩) ، مسند احمد (٣/٢٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس ٹکڑے سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم سلیک غطفانی (رض) کے ساتھ خاص تھا نبی اکرم ﷺ نے انہیں یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ لوگ ان کی خستہ حالت دیکھ کر ان کا تعاون کریں۔
جمعہ کے دن لوگوں کی گردن نہ پھاندے
ابوزاہریہ کہتے ہیں ہم نبی اکرم ﷺ کے صحابی عبداللہ بن بسر (رض) کے ساتھ جمعہ کے دن (مسجد میں) تھے، اتنے میں ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا آیا تو عبداللہ بن بسر نے کہا : ایک شخص (اسی طرح) جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندتا ہوا آیا اور نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اس شخص سے فرمایا : بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٢٠ (١٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥١٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٨، ١٩٠) (صحیح )
خطبہ کے دوران کسی کو اونگھ آنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کسی کو مسجد میں بیٹھے بیٹھے اونگھ آنے لگے تو وہ اپنی جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ بیٹھ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٢ (الجمعة ٢٧) (٥٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢، ٣٢، ١٣٥) (صحیح )
امام منبر سے اتر نے کے بعد گفتگو کرسکتا ہے
انس (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ (خطبہ دے کر) منبر سے اترتے تو آدمی کوئی ضرورت آپ کے سامنے رکھتا تو آپ اس کے ساتھ کھڑے باتیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت پوری کرلیتا، یعنی اپنی گفتگو مکمل کرلیتا، پھر آپ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ثابت سے معروف نہیں ہے، یہ جریر بن حازم کے تفردات میں سے ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٦ (الجمعة ٢١) (٥١٧) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٦ (١٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٨٩ (١١١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٢٧) (ضعیف) (والصحیح ہو الحدیث رقم : ٢٠١) (جریر بن حازم سے وہم ہوا ہے ، اصل واقعہ عشاء کا ہے نہ کہ جمعہ کا ، جیسا کہ حدیث نمبر : ٢٠١ میں ہے )
جمعہ کی ایک رکعت پالینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٩ (٥٨٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٠ (٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٤٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٣ (١٥) ، دی/الصلاة ٢٢(١٢٥٦، ١٢٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سنن ابن ماجہ میں باب ماجاء فیمن أدرک من الجمع ۃ رکع ۃ کے تحت تین حدیثیں ہیں ، پہلی بسند ابن ابی ذئب عن الزہری عن ابی سلمہ و سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ ۃ عن النبی ﷺ کا لفظ یہ ہے : من أدرک من الجمعة ركعة فليصل إليها أخرى اور دوسری حدیث بطریق ابن عیینہ عن الزہری عن ابی سلم ۃ عن ابی ہریرہ ۃ عن النبی ﷺ مثل سیاق ابی داود مروی ہے، اور تیسری روایت بسند یونس بن یزید الأیلی عن الزہری عن سالم عن ابن عمرعن النبی ﷺ ہے اور اس کا سیاق یہ ہے : من أدرک ركعة من صلاة الجمعة أو غيرها فقد أدرک الصلاة اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ایک رکعت سے کم پائے گا تو اس کی جمعہ کی نماز فوت ہوجائے گی، یعنی وہ جمعہ کے بدلے ظہر کی چار رکعتیں پڑھے گا، یہی جمہور کا مذہب ہے، اور ابوداود اور ابن ماجہ کی تبویب سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر پوری ایک رکعت نہ پائے، مثلاً : دوسری رکعت کے سجدے میں شریک ہو، یا قعدہ (تشہد) میں تو جمعہ نہیں ملا ، اب وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھے، بعض اہل علم کا یہی مذہب ہے ، اور بعض کے نزدیک جمعہ میں شامل ہونے والا اگر ایک رکعت سے کم پائے یعنی جیسے رکوع کے بعد سے سلام پھیرنے کے وقت کی مدت تو وہ جمعہ دو رکعت ادا کرے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے :ما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا ( کہ امام کے ساتھ جو ملے وہ پڑھو اور جو نہ ملے اس کو پوری کرلو) تو جمعہ میں شریک ہونے والا نماز جمعہ ہی پڑھے گا ، اور یہ دو رکعت ہی ہے، امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے ، اور اس کی تائید مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے کی ہے۔ ( ملاحظہ ہو : تحفۃ الأحوذی علی سنن الترمذی حدیث رقم : ٥٢٤ )
نماز جمعہ میں کون سی سورتیں پڑھنی چاہئیں
نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین میں اور جمعہ کے روز سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے اور بسا اوقات عید اور جمعہ دونوں ایک ہی دن پڑجاتا تو (بھی) انہیں دونوں کو پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٨ (الجمعة ٣٣) (٥٣٣) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٩ (١٤٢٥) ، والعیدین ٣١ (١٥٩١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٠ (١١٢٠) ، ١٥٧ (١٢٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٩ (١٩) ، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٣، ٢٧٦، ٢٧٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٣ (١٤٢٥) (صحیح )
نماز جمعہ میں کون سی سورتیں پڑھنی چاہئیں
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن سورة الجمعہ پڑھنے کے بعد کون سی سورت پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن النسائی/الجمعة ٣٩ (١٤٢٤) سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٠ (١١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجمعة ٩ (١٩) ، مسند احمد (٤/٢٧٠، ٢٧٧) ، دی/الصلاة ٢٠٣ (١٦٠٧، ١٦٠٨) (صحیح )
نماز جمعہ میں کون سی سورتیں پڑھنی چاہئیں
ابن ابی رافع کہتے ہیں ابوہریرہ (رض) نے نماز جمعہ پڑھائی تو (پہلی رکعت میں) سورة الجمعہ اور دوسری میں إذا جاءک المنافقون پڑھی، ابن ابی رافع کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں ان سے ملا اور کہا کہ آپ نے (نماز جمعہ میں) ایسی دو سورتیں پڑھی ہیں جنہیں علی (رض) کوفہ میں پڑھا کرتے تھے۔ اس پر ابوہریرہ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کے دن انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٧ (الجمعة ٢٢) (٥١٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٠ (١١١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٩) (صحیح )
نماز جمعہ میں کون سی سورتیں پڑھنی چاہئیں
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ میں سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٣٩ (١٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧، ١٣، ١٤، ١٩) (صحیح )
اگر مقتدی اور امام کے بیچ میں دیوار حائل ہو تو اقتداء درست ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے اندر نماز پڑھی اور لوگ حجرے کے پیچھے سے آپ کی اقتداء کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٠ (٧٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠) (صحیح )
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے جمعہ کے دن ایک شخص کو اپنی اسی جگہ پر دو رکعت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، (جہاں اس نے جمعہ کی نماز ادا کی تھی) تو انہوں نے اس شخص کو اس کی جگہ سے ہٹا دیا اور کہا : کیا تم جمعہ چار رکعت پڑھتے ہو ؟ اور عبداللہ بن عمر جمعہ کے دن دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھا کرتے تھے اور کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ نے ایسے ہی کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٤٣ (١٤٣٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٠ (١١١٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٩ (٩٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٥ (٧٢٨) ، والجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٩ (الجمعة ٢٤) (٥٢٢) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٣(٦٩) ، مسند احمد (٢/٤٤٩، ٤٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤(١٤٧٧) (صحیح )
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
نافع کہتے ہیں ابن عمر (رض) جمعہ سے پہلے نماز لمبی کرتے اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ ﷺ اسے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٨) (صحیح )
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن عطاء بن ابی الخوار نے خبر دی ہے کہ نافع بن جبیر نے انہیں ایک چیز کے متعلق، جسے معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے نماز میں انہیں کرتے ہوئے دیکھا تھا، سائب بن یزید کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے بتایا کہ میں نے معاویہ کے ساتھ مسجد کے کمرہ میں نماز جمعہ ادا کی، جب میں نے سلام پھیرا تو اپنی اسی جگہ پر اٹھ کر پھر نماز پڑھی تو جب وہ گھر تشریف لائے تو مجھے بلوایا اور کہا : جو تم نے کیا ہے، اسے پھر دوبارہ نہ کرنا، جب تم جمعہ پڑھ چکو تو اس کے ساتھ دوسری نماز نہ ملاؤ، جب تک کہ بات نہ کرلو یا نکل نہ جاؤ، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے اسی کا حکم دیا ہے کہ کوئی نماز کسی نماز سے ملائی نہ جائے جب تک کہ بات نہ کرلی جائے یا باہر نکل نہ لیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٥، ٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے بعد سنت گھر آ کر پڑھی جائے، اگر مسجد میں پڑھی جائے تو دوسری جگہ ہٹ کر پڑھے، یا درمیان میں کسی سے کچھ باتیں کرلے، یا کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرے جس سے لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ فرض اور سنت میں فرق و امتیاز ہوگیا ہے۔
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
عطاء سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) جب مکہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھنے کے بعد آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے پھر آگے بڑھتے اور چار رکعتیں پڑھتے اور جب مدینے میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کر اپنے گھر واپس آتے اور (گھر میں) دو رکعتیں ادا کرتے، مسجد میں نہ پڑھتے، ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٩ (٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٩) (صحیح )
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (محمد بن صباح کی روایت میں ہے) جو شخص جمعہ کے بعد پڑھنا چاہے تو وہ چار رکعتیں پڑھے، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ اور احمد بن یونس کی روایت میں یہ ہے کہ جب تم نماز جمعہ پڑھ چکو تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھو۔ سہیل کہتے ہیں : میرے والد ابوصالح نے مجھ سے کہا : میرے بیٹے ! اگر تم نے مسجد میں دو رکعت پڑھ لی ہے پھر گھر آئے ہو تو (گھر پر) دو رکعت اور پڑھو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٠، ١٢٦٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨١) ، سنن الترمذی/الجمعة ٢٤ (٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٩٥ (١١٣٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٩، ٤٤٢، ٤٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٧ (١٦١٥) (صحیح )
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور عبداللہ بن دینار نے بھی اسے ابن عمر سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٢٧، (تحفة الأشراف : ٦٩٤٨) (صحیح )
جمعہ کے بعد نفل نماز پڑھنے کا بیان
ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے بعد نفل پڑھتے تو اپنی اس جگہ سے جہاں انہوں نے جمعہ پڑھا تھا، تھوڑا سا ہٹ جاتے زیادہ نہیں، پھر دو رکعتیں پڑھتے پھر پہلے سے کچھ اور دور چل کر چار رکعتیں پڑھتے۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا : آپ نے ابن عمر کو کتنی بار ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : بارہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالملک بن ابی سلیمان نے نامکمل طریقہ پر روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الجمعة ٤٢ (١٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٩) (صحیح )
عیدین کی نماز کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا : یہ دو دن کیسے ہیں ؟ ، تو ان لوگوں نے کہا : جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں : ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العیدین (١٥٥٧) ، مسند احمد (٣/١٠٣، ١٧٨، ٢٣٥، ٢٥٠) (صحیح )
عید کی نماز کا وقت
یزید بن خمیر رحبی سے روایت ہے کہ صحابی رسول عبداللہ بن بسر (رض) لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلے، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو ناپسند کیا اور کہا : ہم تو اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہوجاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٠ (١٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٠٦) (صحیح )
عورتوں کا نماز عیدین کے لئے جانا
ام عطیہ (رض) کہتی ہیں : ہم کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم پردہ نشین عورتوں کو عید کے دن (عید گاہ) لے جائیں، آپ سے پوچھا گیا : حائضہ عورتوں کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں چاہیئے کہ وہ بھی حاضر رہیں ، ایک خاتون نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر ان میں سے کسی کے پاس کپڑا نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا : اس کی سہیلی اپنے کپڑے کا کچھ حصہ اسے اڑھا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٣ (٣٢٤) ، والصلاة ٢ (٣٥١) ، والعیدین ١٥ (٩٧٤) ، ٢٠ (٩٨٠) ، ٢١ (٩٨١) ، والحج ٨١ (١٦٥٢) ، صحیح مسلم/العیدین ١ (٨٩٠) ، والجھاد ٤٨ (١٨١٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧١ (٥٣٩) ، سنن النسائی/الحیض والاستحاضہ ٢٢ (٣٩٠) ، والعیدین ٢ (١٥٥٩) ، ٣ (١٥٦٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٦٥ (١٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : (١٨٠٩٥، ١٨١٠١، ١٨١١٠، ١٨١١٢، ١٨١١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٤، ٨٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢٣ (١٦٥٠) (صحیح )
عورتوں کا نماز عیدین کے لئے جانا
اس سند سے بھی ام عطیہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : حائضہ عورتیں مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں، محمد بن عبید نے اپنی روایت میں کپڑے کا ذکر نہیں کیا ہے، وہ کہتے ہیں : حماد نے ایوب سے ایوب نے حفصہ سے، حفصہ نے ایک عورت سے اور اس عورت نے ایک دوسری عورت سے روایت کی ہے کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ، پھر محمد بن عبید نے کپڑے کے سلسلے میں موسیٰ بن اسماعیل کے ہم معنیٰ حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٥) (صحیح )
عورتوں کا نماز عیدین کے لئے جانا
اس طریق سے بھی ام عطیہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ انہوں نے کہا : ہمیں حکم دیا جاتا تھا، پھر یہی حدیث بیان کی، پھر آگے اس میں ہے کہ : انہوں نے بتایا : حائضہ عورتیں لوگوں کے پیچھے ہوتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ تکبیریں کہتی تھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٣٦، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٥، ١٨١١٤، ١٨١٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عیدین میں عورتوں کو لے جانا سنت ہے۔
عورتوں کا نماز عیدین کے لئے جانا
ام عطیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا اور عمر بن خطاب (رض) کو ہمارے پاس بھیجا تو وہ (آ کر) دروازے پر کھڑے ہوئے اور ہم عورتوں کو سلام کیا، ہم نے ان کے سلام کا جواب دیا، پھر انہوں نے کہا : میں تمہارے پاس رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم عیدین میں حائضہ عورتوں اور کنواری لڑکیوں کو لے جائیں اور یہ کہ ہم عورتوں پر جمعہ نہیں ہے، نیز آپ نے ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٠) ، وقد أخرجہ : (٥/٨٥، ٦/٤٠٨) (ضعیف )
عید کے دن خطبہ پڑھنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ مروان عید کے روز منبر لے کر گئے اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کردیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا : مروان ! آپ نے خلاف سنت کام کیا ہے، ایک تو آپ عید کے روز منبر لے کر گئے حالانکہ اس دن منبر نہیں لے جایا جاتا تھا، دوسرے آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کردیا، تو ابو سعید خدری (رض) نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : فلاں بن فلاں ہے اس پر انہوں نے کہا : اس شخص نے اپنا حق ادا کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو تم میں سے کوئی منکر دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹا سکے تو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے مٹائے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٠ (٤٩) ، سنن الترمذی/الفتن ١١ (٢١٧٢) ، سنن النسائی/الإیمان ١٧ (٥٠١١، ٥٠١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٥ (١٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠، ٢٠، ٤٩، ٥٢، ٥٣، ٥٤، ٩٢) ، وأعادہ المصنف فی الملاحم (٤٣٤٠) (صحیح )
عید کے دن خطبہ پڑھنے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید الفطر کے دن کھڑے ہوئے تو خطبہ سے پہلے نماز ادا کی، پھر لوگوں کو خطبہ دیا تو جب اللہ کے نبی اکرم ﷺ فارغ ہو کر اترے تو عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور آپ بلال (رض) کے ہاتھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور بلال (رض) اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے، جس میں عورتیں صدقہ ڈالتی جاتی تھیں، کوئی اپنا چھلا ڈالتی تھی اور کوئی کچھ ڈالتی اور کوئی کچھ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٧ (٩٦١) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/العیدین ٦ (١٥٦٣) ، ١٩ (١٥٧٦) ، مسند احمد (٣/٣١٤، ٣١٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٨ (١٦٤٤) (صحیح )
عید کے دن خطبہ پڑھنے کا بیان
عطاء کہتے ہیں : میں ابن عباس (رض) کے بارے میں گواہی دیتا ہوں اور ابن عباس نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق گواہی دی ہے کہ آپ عید الفطر کے دن نکلے، پھر نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا، پھر آپ عورتوں کے پاس آئے اور بلال (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے۔ ابن کثیر کہتے ہیں : شعبہ کا غالب گمان یہ ہے کہ (اس میں یہ بھی ہے کہ) آپ نے انہیں صدقہ کا حکم دیا تو وہ (اپنے زیورات وغیرہ بلال کے کپڑے میں) ڈالنے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٦٣) ، والعیدین ١٦ (٩٧٥) ، ١٨ (٩٧٧) ، والزکاة ٣٣ (١٤٤٩) ، والنکاح ١٢٥ (٥٢٤٩) ، واللباس ٥٦ (٥٨٨٠) ، والاعتصام ١٦ (٧٣٢٥) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٤) ، سنن النسائی/العیدین ١٣ (١٥٧٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٥ (١٢٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٠، ٢٢٦، ٢٤٣، ٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٧، ٣٦٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٨ (١٦٤٤) ، و انظر ما یأتي برقم (١١٥٩) (صحیح )
عید کے دن خطبہ پڑھنے کا بیان
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں یہ ہے : آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ آپ عورتوں کو نہیں سنا سکے ہیں تو آپ ﷺ ان کی طرف چلے اور بلال (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ نے انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ کا حکم دیا، تو عورتیں بالی اور انگوٹھی بلال کے کپڑے میں ڈال رہی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٣) (صحیح )
عید کے دن خطبہ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی اسی حدیث میں ہے عورتیں بالی اور انگوٹھی (صدقہ میں) دینے لگیں اور بلال (رض) انہیں اپنی چادر میں رکھتے جاتے تھے وہ کہتے ہیں، پھر نبی اکرم ﷺ نے اسے مسلمان فقراء کے درمیان تقسیم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٤٢، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٣) (صحیح )
کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینا
براء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو عید کے دن ایک کمان دی گئی تو آپ ﷺ نے اس پر (ٹیک لگا کر) خطبہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٢، ٣٠٤) (حسن )
عید کی نماز کے لئے اذان نہیں ہے
عبدالرحمٰن بن عابس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز عید میں حاضر رہے ہیں ؟ آپ نے کہا : ہاں اور اگر رسول اللہ ﷺ کے نزدیک میری قدر و منزلت نہ ہوتی تو میں کمسنی کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہ ہو پاتا ١ ؎، رسول اللہ ﷺ اس نشان کے پاس تشریف لائے جو کثیر بن صلت کے گھر کے پاس تھا تو آپ نے نماز پڑھی، پھر خطبہ دیا اور اذان اور اقامت کا انہوں نے ذکر نہیں کیا، پھر آپ ﷺ نے ہمیں صدقے کا حکم دیا، تو عورتیں اپنے کانوں اور گلوں (یعنی بالیوں اور ہاروں) کی طرف اشارے کرنے لگیں، وہ کہتے ہیں : تو آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا چناچہ وہ ان کے پاس آئے پھر (صدقہ لے کر) نبی اکرم ﷺ کے پاس واپس لوٹ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٦٣) ، العیدین ١٦ (٩٧٥) ، ٨١ (٩٧٧) ، النکاح ١٢٥ (٥٢٤٩) ، الاعتصام ١٢٥ (٥٢٤٩) ، سنن النسائی/العیدین ١٨ (١٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٨١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے قرابت کا شرف حاصل تھا اس لئے مجھے آپ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع ملا ورنہ میری کمسنی کی وجہ سے لوگ مجھے آپ ﷺ کے ساتھ کھڑا نہ ہونے دیتے۔
عید کی نماز کے لئے اذان نہیں ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی اور ابوبکر اور عمر یا عثمان (رض) عنہم نے بھی، یہ شک یحییٰ قطان کو ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٢) ، ١٩ (٩٧٨) ، التفسیر ٣ (٤٨٩٥) ، صحیح مسلم/العیدین ٨ (٨٨٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٥ (١٢٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٨) (صحیح )
عید کی نماز کے لئے اذان نہیں ہے
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک دو بار نہیں (بارہا) عیدین کی نماز بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العیدین (٨٨٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٧ (الجمعة ٣٢) (٥٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٩٤، ١٠٧) (حسن صحیح )
عیدین کی تکبیرات کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥٦ (١٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٥، ٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی سارے محدثین ، امام مالک، امام احمد اور امام شافعی کا مذہب ہے، لیکن امام مالک اور امام احمد کے نزدیک پہلی رکعت میں سات تکبیریں تکبیر تحریمہ ملا کر ہیں، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قیام کے علاوہ، اور امام شافعی کے نزدیک پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ زائد سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قیام کی تکبیر کے علاوہ زائد پانچ تکبیرات (اور سبھی کے نزدیک یہ تکبیریں دونوں رکعتوں میں قرأت سے پہلے کہی جائیں گی) ، امام ابوحنیفہ کے نزدیک پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے تکبیر تحریمہ کے علاوہ تین تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تکبیر رکوع کے علاوہ تین تکبیریں ہیں، لیکن اس کے لئے کوئی مرفوع صحیح حدیث نہیں ہے۔
عیدین کی تکبیرات کا بیان
اس طریق سے بھی ابن شہاب سے اسی سند سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے ، اس میں ہے (یہ تکبیریں) رکوع کی دونوں تکبیروں کے علاوہ ہوتیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٢٥) (صحیح )
عیدین کی تکبیرات کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اور دونوں میں قرأت تکبیر (زوائد) کے بعد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٦ (١٢٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠) (حسن )
عیدین کی تکبیرات کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے پھر قرأت کرتے پھر الله أكبر کہتے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو چار تکبیریں کہتے پھر قرأت کرتے پھر رکوع کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے وکیع اور ابن مبارک نے بھی روایت کیا ہے، ان دونوں نے سات اور پانچ تکبیریں نقل کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٥١، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٨) (حسن صحیح) (لیکن أربعاً کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ خمساً ہے )
عیدین کی تکبیرات کا بیان
مکحول کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) کے ہم نشیں ابوعائشہ نے مجھے خبر دی ہے کہ سعید بن العاص نے ابوموسیٰ اشعری اور حذیفہ بن یمان (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں کیسے تکبیریں کہتے تھے ؟ تو ابوموسیٰ نے کہا : چار تکبیریں کہتے تھے جنازہ کی چاروں تکبیروں کی طرح، یہ سن کر حذیفہ نے کہا : انہوں نے سچ کہا، اس پر ابوموسیٰ نے کہا : میں اتنی ہی تکبیریں بصرہ میں کہا کرتا تھا، جہاں پر میں حاکم تھا، ابوعائشہ کہتے ہیں : اس (گفتگو کے وقت) میں سعید بن العاص کے پاس موجود تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٦) (حسن) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ١٠٤٦/م )
عیدین کی نماز میں کون سی سورتیں پڑھی جائیں
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے ابو واقد الیثی (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں کون سی سورت پڑھتے تھے ؟ آپ نے کہا : آپ ﷺ ان میں ق والقرآن المجيد اور اقتربت الساعة وانشق القمر پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العیدین ٣ (٨٩١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٨ (الجمعة ٣٣) ، (٥٣٤، ٥٣٥) ، سنن النسائی/العیدین ١١ (١٥٦٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥٧ (١٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥١٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ العیدین ٤ (٨) ، مسند احمد (٥/٢١٧، ٢١٨، ٢١٩) (صحیح )
خطبہ سننے کے لئے لوگوں کا بیٹھے رہنا
عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا : ہم خطبہ دیں گے تو جو شخص خطبہ سننے کے لیے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جو جانا چاہے جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرسل ہے، عطا نے اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العیدین ١٤ (١٥٧٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥٩ (١٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٥) (صحیح )
عید گاہ کی آمدورفت کے لئے الگ الگ راستے اختیار کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن ایک راستے سے گئے پھر دوسرے راستے سے واپس آئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٦٢ (١٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠٩) (صحیح )
اگر امام کسی عذر کی بناء پر عید کے دن نماز نہ پڑھا سکے تو دوسرے دن پڑھائے
ابو عمیر بن انس کے ایک چچا سے جو نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں، روایت ہے کہ کچھ سوار نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے وہ گواہی دے رہے تھے کہ کل انہوں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ نے انہیں افطار کرنے اور دوسرے دن صبح ہوتے ہی اپنی عید گاہ جانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العیدین ١ (١٥٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦ (١٦٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٧، ٥٨) (صحیح )
اگر امام کسی عذر کی بناء پر عید کے دن نماز نہ پڑھا سکے تو دوسرے دن پڑھائے
بکر بن مبشر انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں عید الفطر اور عید الاضحی کے دن رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے ساتھ عید گاہ جاتا تھا تو ہم وادی بطحان سے ہو کر جاتے یہاں تک کہ عید گاہ پہنچتے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے پھر اسی وادی بطحان سے ہی اپنے گھر واپس آتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٦) (ضعیف) (اسحاق بن سالم مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ایک تو یہ حدیث ضعیف ہے دوسرے اس کا تعلق پچھلے باب سے ہے ، سنن ابوداود کے بعض نسخوں میں پچھلے ہی باب میں ہے۔
عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن نکلے تو آپ نے دو رکعت پڑھی، نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بلال (رض) بھی تھے، آپ نے انہیں صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنی بالیاں اور اپنے ہار (بلال (رض) کے کپڑے میں نکال نکال کر) ڈالنے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ٨ (٩٦٤) ، ٢٦ (٩٨٩) ، الزکاة ٢١ (١٤٣١) ، اللباس ٥٧ (٥٨٨١) ، ٥٩ (٥٨٨٣) ، صحیح مسلم/العیدین (٨٨٤) ، سنن الترمذی/الجمعة ٣٥ (٥٣٧) ، سنن النسائی/العیدین ٢٩ (١٥٨٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٦٠ (١٢٩١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٩ (١٦٤٦) ، وانظر أیضاحدیث رقم : ١١٤٢) (صحیح )
بارش کے دن عید کی نماز مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ (ایک بار) عید کے دن بارش ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٦٧ (١٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٢٠) (ضعیف) (عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول راوی ہیں )
صلوة استسقاء کے احکام
عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ساتھ نماز استسقا کے لیے نکلے، تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھائی، جن میں بلند آواز سے قرأت کی اور اپنی چادر پلٹی اور قبلہ رخ ہو کر بارش کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ١ (١٠٠٥) ، ٤ (١٠١٢) ، ١٥ (١٠٢٣) ، والدعوات ٢٥ (٦٣٤٣) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٦) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٢ (١٥٠٤) ، ٣ (١٥٠٦) ، ٥ (١٥٠٨) ، ٦ (١٥٠٩) ، ٧ (١٥١٠) ، ٨ (١٥١١) ، ١٢ (١٥١٩) ، ١٤ (١٥٢١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٣ (١٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة الاستسقاء ١(١) ، مسند احمد (٤/٣٨، ٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٨ (١٥٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی چادر کو اس طرح پلٹا کہ اوپر کا حصہ نیچے ہوگیا اور نیچے کا اوپر ، اور داہنا کنارہ بائیں طرف ہوگیا اور بایاں کنارہ داہنی طرف، اس کا طریقہ یہ ہے کہ داہنے ہاتھ سے چادر کا نیچے کا بایاں کونہ اور بائیں ہاتھ سے نیچے کا داہنا کونہ پکڑ کر پیٹھ کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھرا دے اس طرح سے کہ جو کونہ داہنے ہاتھ سے پکڑا ہے وہ داہنے کندھے پر آجائے، اور جو بائیں ہاتھ سے پکڑا ہے وہ بائیں کندھے پر آجائے۔
صلوة استسقاء کے احکام
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے عباد بن تمیم مازنی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے اپنے چچا (عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ) سے (جو صحابی رسول تھے) سنا کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ لوگوں کو ساتھ لے کر نماز استسقا کے لیے نکلے اور لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ کر کے اللہ عزوجل سے دعا کرتے رہے۔ سلیمان بن داود کی روایت میں ہے کہ آپ نے قبلہ کا استقبال کیا اور اپنی چادر پلٹی پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور ابن ابی ذئب کی روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں میں قرآت کی۔ ابن سرح نے یہ اضافہ کیا ہے کہ قرآت سے ان کی مراد جہری قرآت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) (صحیح )
صلوة استسقاء کے احکام
اس طریق سے بھی محمد بن مسلم (ابن شہاب زہری) سے سابقہ سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں راوی نے نماز کا ذکر نہیں کیا ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے اپنی چادر پلٹی تو چادر کا داہنا کنارہ اپنے بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ اپنے داہنے کندھے پر کرلیا، پھر اللہ عزوجل سے دعا کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١١٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) (صحیح )
صلوة استسقاء کے احکام
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز استسقا پڑھی، آپ ﷺ کے اوپر ایک سیاہ چادر تھی تو آپ نے اس کے نچلے کنارے کو پکڑنے اور پلٹ کر اسے اوپر کرنے کا ارادہ کیا جب وہ بھاری لگی تو اسے اپنے کندھے ہی پر پلٹ لیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١١٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) (صحیح )
صلوة استسقاء کے احکام
عبداللہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف بارش طلب کرنے کی غرض سے نکلے، جب آپ نے دعا کرنے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہوئے پھر اپنی چادر پلٹی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١١٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) (صحیح )
صلوة استسقاء کے احکام
عبداللہ بن زید مازنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف نکلے، اور (اللہ تعالیٰ سے) بارش طلب کی، اور جس وقت قبلہ رخ ہوئے، اپنی چادر پلٹی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١١٦١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٧) (صحیح )
صلوة استسقاء کے احکام
ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے ولید بن عتبہ نے (عثمان کی روایت میں ولید بن عقبہ ہے، جو مدینہ کے حاکم تھے) ابن عباس (رض) کے پاس بھیجا کہ میں جا کر ان سے رسول اللہ ﷺ کی نماز استسقا کے بارے پوچھوں تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کے ساتھ گریہ وزاری کرتے ہوئے عید گاہ تک تشریف لائے، عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ منبر پر چڑھے، آگے دونوں راوی روایت میں متفق ہیں : آپ نے تمہارے ان خطبوں کی طرح خطبہ نہیں دیا، بلکہ آپ برابر دعا، گریہ وزاری اور تکبیر میں لگے رہے، پھر دو رکعتیں پڑھیں جیسے عید میں دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : روایت نفیلی کی ہے اور صحیح ولید بن عقبہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (٥٥٨) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٣ (١٥٠٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥٣ (١٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٦٩، ٣٥٥) (حسن )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
عمیر مولیٰ آبی اللحم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو زوراء کے قریب احجار زیت کے پاس کھڑے ہو کر (اللہ تعالیٰ سے) بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے بارش کے لیے دعا کر رہے تھے اور انہیں اپنے سر سے اوپر نہیں ہونے دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجمعة ٤٣ (٥٥٧) ، مسند احمد (٥/٢٢٣) (صحیح )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس (بارش نہ ہونے کی شکایت لے کر) روتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے یوں دعا کی : اللهم اسقنا غيثا مغيثا مريئا نافعا غير ضار عاجلا غير آجل یعنی اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما، ایسی بارش سے جو ہماری فریاد رسی کرنے والی ہو، اچھے انجام والی ہو، سبزہ اگانے والی ہو، نفع بخش ہو، مضرت رساں نہ ہو، جلد آنے والی ہو، تاخیر سے نہ آنے والی ہو ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : یہ کہتے ہی ان پر بادل چھا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٤١) (صحیح )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
انس (رض) وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جاسکتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٢٢ (١٠٣١) ، والمناقب ٢٣ (٣٥٦٥) ، والدعوات ٢٣ (٦٣٤١) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٥) ، سنن النسائی/الاستسقاء ٩ (١٥١٢) ، و قیام اللیل ٥٢ (١٧٤٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١١٨ (١١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨١، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٩ (١٥٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت ان بہت سی روایتوں کے معارض ہے جن سے استسقا کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر دعا میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ انس (رض) کی اس روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ آپ نے جو نفی کی ہے وہ اپنے علم کی حد تک کی ہے، جس سے دوسروں کے علم کی نفی لازم نہیں آتی، یا یہ کہا جائے کہ اس میں ہاتھ زیادہ اٹھانے (رفع بلیغ) کی نفی ہے، یعنی دوسری دعاؤں میں آپ ہاتھ اتنا اونچا نہیں اٹھاتے تھے جتنا استسقا میں اٹھاتے تھے حتى رأيت بياض إبطيه کے ٹکڑے سے اس قول کی تائید ہو رہی ہے۔
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣) ، وقد أخرجہ : (٣/١٥٣، ٢٤١) (صحیح )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
محمد بن ابراہیم (تیمی) کہتے ہیں مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ احجار زیت کے پاس اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلائے دعا فرما رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠٠) (صحیح )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے منبر (رکھنے) کا حکم دیا تو وہ آپ کے لیے عید گاہ میں لا کر رکھا گیا، آپ ﷺ نے لوگوں سے ایک دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا وعدہ لیا، تو رسول اللہ ﷺ (حجرہ سے) اس وقت نکلے جب کہ آفتاب کا کنارہ ظاہر ہوگیا، آپ ﷺ منبر پر بیٹھے، اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تحمید کی پھر فرمایا : تم لوگوں نے بارش میں تاخیر کی وجہ سے اپنی آبادیوں میں قحط سالی کی شکایت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اور اس نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ (اگر تم اسے پکارو گے) تو وہ تمہاری دعا قبول کرے گا ، اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی : الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين ، لا إله إلا الله يفعل ما يريد اللهم أنت الله لا إله إلا أنت الغني ونحن الفقراء أنزل علينا الغيث واجعل ما أنزلت لنا قوة وبلاغا إلى حين یعنی تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو رحمن و رحیم ہے اور روز جزا کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے، اے اللہ ! تو ہی معبود حقیقی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، تو ہم پر باران رحمت نازل فرما اور جو تو نازل فرما اسے ہمارے لیے قوت (رزق) بنا دے اور ایک مدت تک اس سے فائدہ پہنچا ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی، پھر حاضرین کی طرف پشت کر کے اپنی چادر کو پلٹا، آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اتر کر دو رکعت پڑھی، اسی وقت (اللہ کے حکم سے) آسمان سے بادل اٹھے، جن میں گرج اور چمک تھی، پھر اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ابھی آپ ﷺ اپنی مسجد نہیں آسکے تھے کہ بارش کی کثرت سے نالے بہنے لگے، جب آپ نے لوگوں کو سائبانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند جید (عمدہ) ہے، اہل مدینہ ملك يوم الدين پڑھتے ہیں اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٤٠) (حسن )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! گھوڑے مرگئے، بکریاں ہلاک ہوگئیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چناچہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔ انس (رض) کہتے ہیں : اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہوگئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (نماز پڑھ کر) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گھر گرگئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، (یہ سن کر) آپ ﷺ مسکرائے پھر فرمایا : اے اللہ ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما ۔ انس (رض) کہتے ہیں : تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٤ (٩٣٢) ، الاستسقاء ٦ (١٠١٣) ، ٧ (١٠١٤) ، ٨ (١٠١٥) ، ٩ (١٠١٦) ، ١٠ (١٠١٧) ، ١١ (١٠١٨) ، ١٢ (١٠١٩) ، ١٤ (١٠٢١) ، ٢١ (١٠٢٩) ، ٢٤ (١٠٣٣) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣) ، وقد أخرجہ : الاستسقاء ١ (٨٩٧) ، ٢ (٨٩٧) ، سنن النسائی/الاستسقاء ١ (١٥٠٣) ١٠، مسند احمد (٣/١٠٤، ١٨٢، ١٩٤، ٢٤٥، ٢٦١، ٢٧١) (صحیح )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے روایت ہے کہ انہوں نے انس (رض) کو کہتے ہوئے سنا، پھر راوی نے عبدالعزیز کی روایت کی طرح ذکر کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرہ کے بالمقابل اٹھایا اور یہ دعا کی اللهم اسقنا اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما اور آگے انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستسقاء ٦ (١٠١٣) ، ٧ (١٠١٤) ، ٩ (١٠١٦) ، ١٠ (١٠١٧) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٧) ، سنن النسائی/الاستسقاء ١ (١٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٦) (صحیح )
نماز استسقاء میں رفع یدین کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش کے لیے دعا مانگتے تو فرماتے : اللهم اسق عبادک وبهائمك، وانشر رحمتک، وأحي بلدک الميت اے اللہ ! تو اپنے بندوں اور چوپایوں کو سیراب کر، اور اپنی رحمت عام کر دے، اور اپنے مردہ شہر کو زندگی عطا فرما (یہ مالک کی روایت کے الفاظ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨١٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستسقاء عن عمرو بن شعیب مرسلاً ٢ (٣) (حسن )
نماز کسوف کا بیان
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس کو میں سچا جانتا ہوں (عطا کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد عائشہ (رض) ہیں) کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے لمبا قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے، پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے اس طرح آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں آپ نے تین تین رکوع کیا ١ ؎ آپ ﷺ تیسرا رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے یہاں تک کہ آپ کے لمبے قیام کے باعث اس دن کچھ لوگوں کو (کھڑے کھڑے) غشی طاری ہوگئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالے گئے، جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو الله أكبر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب ان دونوں میں گرہن لگے تو تم نماز کی طرف دوڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن النسائی/الکسوف ١٠ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٦) (صحیح) (لیکن تین رکوع والی بات صحیح نہیں ہے ، صحیح دو رکوع ہے ، جیسا کہ حدیث نمبر : ( ١١٨٠ ) میں آ رہا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : تین رکوع والی روایت شاذ ہے، صحیح روایت ” دو ، دو رکوع “ کی ہے جیسا کہ حدیث نمبر ( ١١٨٠) میں آرہا ہے۔
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز (کسوف) پڑھائی، چار سجدوں میں چھ رکوع کیا ١ ؎، اللہ اکبر کہا، پھر قرآت کی اور دیر تک قرآت کرتے رہے، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور پہلی قرآت کی بہ نسبت مختصر قرآت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر تیسری قرآت کی جو دوسری قرآت کے بہ نسبت مختصر تھی اور اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اس کے بعد سجدے کے لیے جھکے اور دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیے، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نماز میں پیچھے ہٹے تو صفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج (صاف ہو کر) نکل چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی انسان کے مرنے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو نماز میں مشغول ہوجاؤ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہوجائے ، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٣ (٩٠٤) ، سنن النسائی/الکسوف ١٢ (١٤٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٧٤، ٣٨٢) (صحیح) (چھ رکوع والی بات شاذ ہے، صحیح ” چار رکوع “ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ی ہ روایت بھی شاذ ہے ، صحیح روایت دو رکوع کی ہے ، جیسا کہ خود جابر (رض) کی اگلی روایت میں ہے۔
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سخت گرمی کے دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز کسوف پڑھائی، (اس میں) آپ نے لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا (رکوع) کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا (قیام) کیا، پھر دو سجدے کئے پھر (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے تو ویسے ہی کیا، اس طرح (دو رکعت میں) چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٣ (٩٠٤) ، سنن النسائی/الکسوف ١٢ (١٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٧٦) ، وقد أخرجہ : (٣/٣٧٤، ٣٨٢، ٣٣٥، ٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے دلیل ہے جو ہر رکعت میں دو رکوع کے قائل ہیں، اور یہ دوسری روایت ہی باب سے مطابقت رکھتی ہے لیکن چونکہ جابر بن عبداللہ (رض) کے دونوں شاگرد عطاء اور ابوالزبیر نے اختلاف کیا ہے، عطا نے جابر (رض) سے چھ رکوع کی روایت کی ہے اور ابوالزبیر نے ان سے چار رکوع کی روایت کی ہے، اسی لئے مصنف نے صرف دوسری روایت کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے عطا کی روایت بھی ذکر کردی اگرچہ وہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ امام بخاری اور دوسرے ائمہ نے کہا ہے کہ کسوف (سورج گرہن) کی ان احادیث کو بیان جواز پر محمول کرنا درست نہیں جب تک کہ نماز استسقا میں تعدد واقعہ نہ ہو اور اس میں تعدد واقعہ نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ ان تمام روایات کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی سورج گرہن کی اس نماز سے ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کے دن پڑھی تھی، ایسی صورت میں دو رکوع والی روایتوں کی ترجیح واجب ہے کیونکہ وہ زیادہ صحیح اور مشہور ہیں، اس کے برخلاف ائمہ فقہ و حدیث کی ایک جماعت نے تعدد واقعہ قرار دے کر ان روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسوف کی مدت لمبی ہوجائے تو رکوع کی تعداد تین سے لے کر پانچ تک بڑھا دینا جائز ہے، امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اسے قوی کہا ہے۔
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، آپ ﷺ نے الله أكبر کہا اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ ﷺ نے لمبی قرات کی پھر الله أكبر کہہ کر لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سمع الله لمن حمده ربنا ولک الحمد کہا، پھر کھڑے رہے اور لمبی قرآت کی، اور یہ پہلی قرآت سے کچھ مختصر تھی، پھر آپ ﷺ نے الله أكبر کہہ کر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، (پھر رکوع سے سر اٹھایا) اور سمع الله لمن حمده ربنا ولک الحمد کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا اس طرح (دو رکعت میں) آپ نے پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے، اور آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے سورج روشن ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٤٦) ، ٥ (١٠٤٧) ، ١٣ (١٠٥٨) ، والعمل في الصلاة ١١ (١٢١٢) ، وبدء الخلق ٤ (٣١٩٩) ، صحیح مسلم/ الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن النسائی/ الکسوف ١١ (١٤٧٦) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ١٥٢ (١٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ الصلاة ٢٧٩ (الجمعة ٤٤) (٥٦١) ، موطا امام مالک/صلاة الکسوف ١ (١) ، مسند احمد (٦/٧٦، ٧٨، ١٦٤، ١٦٨) ، سنن الدارمی/ الصلاة ١٨٧ (١٥٦٨) (صحیح )
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی، جیسے عروہ ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اور ام المؤمنین عائشہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے دو رکعت پڑھی اور ہر رکعت میں دو رکوع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٥٢) ، صحیح مسلم/ الکسوف ١ (٩٠٧) ، سنن النسائی/ الکسوف ٩ (١٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٥) (صحیح )
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں (دو رکعت) پڑھائی تو آپ نے لمبی سورتوں میں سے ایک سورة کی قرآت کی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو اس میں بھی لمبی سورتوں میں سے ایک سورت کی قرآت فرمائی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے، پھر قبلہ رخ بیٹھے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گرہن چھٹ گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣٤) (ضعیف) (بلکہ منکر ہے کیوں کہ ابو جعفر رازی ضعیف ہیں اور ثقات کی مخالفت کئے ہوئے ہیں )
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے سورج گرہن کی نماز پڑھی تو قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اور دوسری (رکعت) بھی اسی طرح پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٤ (٩٠٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٩ (الجمعة ٤٤) (٥٦٠) ، سنن النسائی/الکسوف ٨ (١٤٦٨-١٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٢١٦، ٢٢٥، ٢٩٨، ٣٤٦، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/ الصلاة ١٨٧(١٥٣٤) (تین طریق سے ابن عباس (رض) کی روایت میں دو رکوع ، اور دو سجدہ کا تذکرہ ہے، اس لئے علماء کے قول کے مطابق حبیب نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اور یہ مدلس ہیں، اور ان کی روایت عنعنہ سے ہے) (ملاحظہ ہو : ضعیف سنن ابی داود ٢ ؍ ٢٠ )
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
اسود بن قیس کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن عباد عبدی (جو اہل بصرہ میں سے ہیں) نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب (رض) کے خطبہ میں حاضر رہے، سمرہ (رض) نے (خطبہ میں) کہا : میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو نیزہ یا تین نیزہ کے برابر رہ گیا تو اسی دوران وہ دفعۃً سیاہ ہوگیا پھر گویا وہ تنومہ ١ ؎ ہوگیا، تو ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : تم ہمارے ساتھ مسجد چلو کیونکہ اللہ کی قسم سورج کا یہ حال ہونا رسول اللہ ﷺ کی امت میں کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، تو ہم چلے تو دیکھتے ہیں کہ مسجد بھری ٢ ؎ ہے پھر نبی اکرم ﷺ آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی، اور ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی نماز میں اتنا لمبا قیام نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ اتنا لمبا رکوع کیا کہ اتنا لمبا رکوع کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ٣ ؎ پھر آپ ﷺ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی بھی کسی نماز میں ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ ﷺ نے دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا۔ سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں : دوسری رکعت پڑھ کر آپ ﷺ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج روشن ہوگیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور گواہی دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، پھر احمد بن یونس نے نبی اکرم ﷺ کا پورا خطبہ بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٠ (الجمعة ٤٥) (٥٦٢) ، سنن النسائی/الکسوف ١٥ (١٤٨٥) ، ١٩ (١٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٢ (١٢٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤، ١٦، ١٧، ١٩، ٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی ثعلبہ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک قسم کا پودا ہے جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : فإذا هو بَارِزٌ میں غلطی ہوئی ہے، صحیح فإذا هو بأُزُزٍ ہے، أُزُزْ جس کے معنی بھیڑ اور بڑے مجمع کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ لوگ مسجد میں جمع ہیں اور وہ بھری ہوئی ہے۔ ٣ ؎ : ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کو قرات کی آواز دور ہونے کے سبب سنائی نہ دے رہی ہو ، ویسے یہ حدیث ضعیف ہے صحیح روایات میں جہری قرات کا تذکرہ موجود ہے۔
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
قبیصہ بن مخارق ہلالی (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے نکلے اس دن میں آپ کے ساتھ مدینہ ہی میں تھا، آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی اور ان میں لمبا قیام فرمایا، پھر نماز سے فارغ ہوئے اور سورج روشن ہوگیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : بیشک یہ نشانیاں ہیں، جن کے ذریعہ اللہ (بندوں کو) ڈراتا ہے لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو جیسے تم نے قریب کی فرض نماز پڑھی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکسوف ١٦ (١٤٨٧، ١٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابو قلابہ مدلس ہیں، اور یہاں عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، نیز سند و متن میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، کبھی تو قبیصہ کا نام لیتے ہیں، کبھی نعمان بن بشیر (رض) کا جیسا کہ حدیث نمبر (١١٩٣) میں آ رہا ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے إرواء الغليل للألباني، نمبر : ٦٦٢ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کسوف اپنے سے پہلے فرض نماز کے مطابق ہوگی، لیکن صاحب منتقی الأخبار امام عبدالسلام ابن تیمیہ نے ان احادیث کو ترجیح دی ہے جن میں تکرار رکوع کے ساتھ دو رکعتوں کا ذکر ہے کیونکہ وہ روایتیں صحیحین کی ہیں اور متعدد طرق سے مروی ہیں جب کہ یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے۔
نماز کسوف میں چار رکوع کا بیان
ہلال بن عامر سے روایت ہے کہ قبیصہ ہلالی نے ان سے بیان کیا ہے کہ سورج میں گرہن لگا، پھر انہوں نے موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی، اس میں ہے : یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦٥) (ضعیف )
صلوٰة کسوف میں قرأت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ ﷺ نے قیام کیا تو میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو مجھے لگا کہ آپ نے سورة البقرہ کی قرآت کی ہے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے : پھر آپ ﷺ نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی، میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورة آل عمران کی قرآت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٤٥، ١٦٣٥٢، ١٧١٨٥) ، وقد أخرجہ : (حم ٦/٣٢) (حسن) صححه الحاکم (1/ 333 )
صلوٰة کسوف میں قرأت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لمبی قرآت کی اور اس میں جہر کیا یعنی نماز کسوف میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کسوف (گرہن) کی نماز میں قرات جہری ہونی چاہیے، یہی جمہور محدثین کا مذہب ہے۔
صلوٰة کسوف میں قرأت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے گرہن کی نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی، آپ ﷺ نے سورة البقرہ کی قرآت کے برابر طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصلاة ٥١ (٤٣١) ، الکسوف ٩ (١٠٥٢) ، صحیح مسلم/الکسوف ٣ (٩٠٧) ، سنن النسائی/الکسوف ١٧ (١٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٨، ٣٥٨) (صحیح )
صلوٰة کسوف میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز (کسوف) جماعت سے ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف (١٠٦٥) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن النسائی/الکسوف ١٨ (١٤٩٥) ، ٢١ (١٤٩٨) (تحفة الأشراف : ١٦٥٢٨) (صحیح )
سورج گہن ہو تو صدقہ دیا جائے
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند میں گرہن کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں لگتا ہے، جب تم اسے دیکھو تو اللہ عزوجل سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور صدقہ و خیرات کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧١٤٨، ١٧١٧٣) (صحیح )
گہن لگنے پر غلام آزاد کرنا
اسماء (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز کسوف میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١١ (١٠٥٤) ، والعتق ٣ (٢٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٣٩) (صحیح )
حالت کسوف میں دو رکعت پڑھنے کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ دو دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے متعلق پوچھتے جاتے یہاں تک کہ وہ صاف ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکسوف ١٦ (١٤٨٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٢ (١٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧١، ٢٧٧) (منکر) (دیکھئے حدیث نمبر : ١١٨٥ )
حالت کسوف میں دو رکعت پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا، تو آپ نماز کسوف کے لیے کھڑے ہوئے تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ رکوع ہی نہیں کریں گے، پھر رکوع کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ رکوع سے سر اٹھائیں گے ہی نہیں، پھر سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر سجدے سے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھایا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، پھر اخیر سجدے میں آپ ﷺ نے پھونک ماری اور اف اف کہا : پھر فرمایا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں رہوں گا ؟ کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے ؟ ، پھر رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور حال یہ تھا کہ سورج بالکل صاف ہوگیا تھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکسوف ١٤ (١٤٨٣) ، ٢٠ (١٤٩٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٤ (٣٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الکسوف ٣ (١٠٤٥) ، ٨ (١٠٥٨) ، صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١٠) ، مسند احمد (٢/١٧٥) (صحیح) (ہر رکعت میں دو رکوع کے ذکر کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے، جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے )
حالت کسوف میں دو رکعت پڑھنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تیر اندازی کی مشق کر رہا تھا کہ اسی دوران سورج گرہن لگا تو میں نے انہیں پھینک دیا اور کہا کہ میں ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ سورج گرہن آج کیا نیا واقعہ رونما کرے گا، تو میں آپ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے اللہ کی تسبیح، تحمید اور تہلیل اور دعا کر رہے تھے یہاں تک کہ سورج سے گرہن چھٹ گیا، اس وقت آپ نے (نماز کسوف کی دونوں رکعتوں) میں دو سورتیں پڑھیں اور دو رکوع کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١٣) ، سنن النسائی/ السکوف ٢ (١٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/ ٦١، ٦٢) (صحیح )
تاریکی وغیرہ کے موقع پر نماز پڑھنا
نضر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ انس بن مالک (رض) کے زمانہ میں تاریکی چھا گئی، تو میں آپ کے پاس آیا اور کہا : ابوحمزہ ! کیا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی آپ لوگوں پر اس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی ؟ انہوں نے کہا : اللہ کی پناہ، اگر ہوا ذرا زور سے چلنے لگتی تو ہم قیامت کے خوف سے بھاگ کر مسجد آجاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٥) (ضعیف) (اس کے راوی نضر بن عبداللہ قیسی مجہول ہیں )
کوئی بڑا حادثہ رونما ہونے پر سجدہ کرنا
عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے کہا گیا کہ نبی اکرم ﷺ کی فلاں بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، تو وہ یہ سن کر سجدے میں گرپڑے، ان سے کہا گیا : کیا اس وقت آپ سجدہ کر رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم کوئی نشانی (یعنی بڑا حادثہ) دیکھو تو سجدہ کرو اور رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی موت سے بڑھ کر کون سی نشانی ہوسکتی ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ المنا قب ٦٤ (٣٨٩١) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٧) (حسن )
مسافر کی نماز کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سفر اور حضر دونوں میں دو دو رکعت نماز فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی نماز (حسب معمول) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١ (٣٥٠) ، وتقصیر الصلاة ٥ (١٠٩٠) ، فضائل الصحابة ٧٦ (٣٧٢٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٥) ، سنن النسائی/الصلاة ٣ (٤٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ١ (٩) ، مسند احمد (٦/٢٣٤، ٢٤١، ٢٦٥، ٢٧٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩(١٥٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اضافہ صرف چار رکعت والی نماز ظہر، عصر اور عشاء میں کیا گیا، مغرب کی حیثیت دن کے وتر کی ہے، اور فجر میں لمبی قرات مسنون ہے اس لئے ان دونوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ بعض علماء کے نزدیک سفر میں قصر واجب ہے اور بعض کے نزدیک رخصت ہے چاہے تو پوری پڑھے اور چاہے تو قصر کرے مگر قصر افضل ہے۔
مسافر کی نماز کا بیان
یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے کہا : مجھے بتائیے کہ (سفر میں) لوگوں کے نماز قصر کرنے کا کیا مسئلہ ہے اللہ تعالیٰ تو فرما رہا ہے : اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں مبتلا کردیں گے ، تو اب تو وہ دن گزر چکا ہے تو آپ نے کہا : جس بات پر تمہیں تعجب ہوا ہے اس پر مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیا ہے لہٰذا تم اس کے صدقے کو قبول کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٦) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء ٥ (٣٠٣٤) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٣ (١٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥، ٣٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قصر نماز حالت خوف کے ساتھ خاص نہیں بلکہ امت کی آسانی کے لئے اسے سفر میں مشروع قرار دیا گیا خواہ سفر پر امن ہی کیوں نہ ہو۔
مسافر کی نماز کا بیان
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی عمار کو بیان کرتے ہوئے سنا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو ابوعاصم اور حماد بن مسعدہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے اسے ابن بکر نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٩) (صحیح )
قصر کی مسافت
یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے نماز قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧١) ، وقد أخرجہ : حم (٣/ ١٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قصر کے لئے مسافت کی تحدید میں رسول اکرم ﷺ کا کوئی صریح قول نہیں ہے، فعلی احادیث میں سب سے صحیح یہی حدیث ہے ، اس کے مطابق (اکثر مسافت تین فرسخ کے مطابق) نو میل کی مسافت سے قصر کی جاسکتی ہے ، جو کیلو میٹر کے حساب سے ساڑھے چودہ کیلو میٹر ہوتی ہے۔
قصر کی مسافت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینے میں ظہر چار رکعت پڑھی اور ذو الحلیفہ میں عصر دو رکعت ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٥ (١٠٨٩) ، والحج ٢٤ (١٥٤٦) ، ٢٥ (١٥٤٨) ، ١١٩ (١٧١٤) ، والجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٤ (٥٤٦) ، سنن النسائی/الصلاة ١١ (٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦، ١٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ١١٠، ١١١، ١٧٧، ١٨٦، ٢٣٧، ٢٦٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٨) ، ویأتي في الحج برقم ١٧٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تو اس کے لئے قصر کرنا جائز ہوجاتا ہے، ذوالحلیفہ مدینہ سے (مکہ کے راستے میں) تیرہ کیلو میٹر کی دوری پر ہے ، جو اہل مدینہ کی میقات ہے ، اس وقت یہ ” ابیار علی “ سے بھی مشہور ہے۔
سفر میں اذان دینے کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تمہارا رب بکری کے اس چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی میں رہ کر نماز کے لیے اذان دیتا ١ ؎ اور نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأذان (٢٦/٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٥، ١٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں تنہا آدمی کے لیے بھی اذان مشروع ہے۔
مسافر کو شک کہ نماز کا وقت ہوا یا نہیں پھر نماز پڑھے تو درست ہے
مسحاج بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے کہا : ہم سے آپ کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو، انہوں نے کہا : جب ہم لوگ سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتے تو ہم کہتے : سورج ڈھل گیا یا نہیں ١ ؎ تو آپ ظہر پڑھتے پھر کوچ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٥ (١١١١) ، ١٦ (١١١٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٤١ (٥٨٧) ، مسند احمد (٣/ ١١٣، ٢٤٧، ٢٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر امام کو وقت ہوجانے کا یقین ہے تو مقتدیوں کے شک کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔
مسافر کو شک کہ نماز کا وقت ہوا یا نہیں پھر نماز پڑھے تو درست ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مقام پر قیام فرماتے تو ظہر پڑھ کر ہی کوچ فرماتے، تو ایک شخص نے ان سے کہا : گرچہ نصف النہار ہوتا ؟ انہوں نے کہا : اگرچہ نصف النہار ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٢ (٤٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٠، ١٢٩) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
معاذ بن جبل (رض) نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے، ایک دن آپ ﷺ نے نماز مؤخر کی پھر نکلے اور ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی ٢ ؎ پھر اندر (قیام گاہ میں) ٣ ؎ چلے گئے، پھر نکلے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٦) ، والفضائل ٣ (٧٠٦/١٠) ، سنن النسائی/المواقیت ٤١ (٥٨٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٤ (١٠٧٠) ، وانظر مایأتي برقم : ١٢٢٠ ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجمعة ٤٢ (٥٥٣) ، موطا امام مالک/قصرالصلاة ١(٢) ، مسند احمد (٥/٢٢٩، ٢٣٠، ٢٣٣، ٢٣٦، ٢٣٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢(١٥٥٦) (صحیح ) وضاحت : : جمع کی دو قسمیں ہیں : ایک صوری، دوسری حقیقی، پہلی نماز کو آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اول وقت میں پڑھنے کو جمع صوری کہتے ہیں، اور ایک نماز کو دوسری کے وقت میں جمع کر کے پڑھنے کو جمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دو صورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر، جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے یہ دونوں جمع رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لئے ہوئی ہے، اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے، کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا مشکل ہے۔ ٢ ؎ : اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین (دو نماز کو ایک وقت میں ادا کرنے) کی رخصت ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بھی دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے۔ ٣ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) کو صفیہ ١ ؎ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے (اور چلتے رہے) یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے نظر آنے لگے، تو عرض کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کرتے، پھر وہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے ٹھہر کر دونوں کو ایک ساتھ ادا کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( (تحفة الأشراف : ٧٥٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٦ (١٠٩١) ، والعمرة ٢٠ (١٨٠٥) ، والجہاد ١٣٦ (٣٠٠٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٧ (٥٥٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٣ (٥٩٦) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ١(٣) ، مسند احمد (٢/٥١، ٨٠، ١٠٢، ١٠٦، ١٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢(١٥٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صفیہ ، ابن عمر (رض) کی بیوی تھیں، مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک یہ ہے کہ ” حالت نزع کی خبر دی گئی “ ، نسائی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ صفیہ نے خود خط لکھا کہ میں حالت نزع میں ہوں جلدی ملیں۔
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفر سے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ ﷺ عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کردیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لیے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا تو عشاء کو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کردیتے یہاں تک کہ عشاء کے لیے قیام کرتے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے، کریب نے ابن عباس (رض) سے، ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٠٦، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٠) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں ایک بار کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ادا نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ایوب عن نافع عن ابن عمر سے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمر (رض) کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کرتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٣) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلا کسی خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کیا ١ ؎۔ مالک کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ایسا بارش میں ہوا ہوگا ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن سلمہ نے مالک ہی کی طرح ابوالزبیر سے روایت کیا ہے، نیز اسے قرہ بن خالد نے بھی ابوالزبیر سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ یہ ایک سفر میں ہوا تھا جو ہم نے تبوک کی جانب کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٥) سنن النسائی/المواقیت ٤٦ (٦٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٢ (٥٤٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١ (١٨٧) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ١(٤) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٣، ٢٨٣، ٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے ثابت ہوا کہ حالت حضر (قیام کی حالت) میں بھی ضرورت کے وقت دو نماز کو ایک ساتھ جمع کیا جاسکتا ہے، البتہ اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔ ٢ ؎ : لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت میں من غير خوف ولا مطر (یعنی بغیر کسی خوف اور بارش) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں بلا کسی خوف اور بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا : اس سے آپ کا کیا مقصد تھا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٥) سنن الترمذی/ الصلاة ١ (١٨٧) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٦ (٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس (رض) سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو دو نماز کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوگیا “ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہوسکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ ﷺ نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ یہ ابن عباس (رض) کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
نافع اور عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) کے مؤذن نے کہا : نماز (پڑھ لی جائے) (تو) ابن عمر نے کہا : چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیا ہے، چناچہ انہوں نے اس دن اور رات میں تین دن کی مسافت طے کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جابر نے بھی نافع سے اسی سند سے اسی کی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٠ ) (صحیح) (لیکن اس حدیث میں وارد لفظ قبل غیوب الشفق شفق غائب ہونے سے قبل شاذ ہے، صحیح لفظ حتی غاب الشفق شفق غائب ہونے کے بعد ہے جیسا کہ حدیث نمبر : ١٢٠٧ میں ہے )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
اس طریق سے بھی ابن جابر سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور عبداللہ بن علاء نے نافع سے یہ حدیث روایت کی ہے : اس میں ہے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہونے کا وقت ہوا تو وہ اترے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ المواقیت ٤٤ (٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٩) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں ہمارے ساتھ ظہر و عصر ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء ملا کر سات رکعتیں پڑھیں۔ سلیمان اور مسدد کی روایت میں بنا یعنی ہمارے ساتھ کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے صالح مولیٰ توامہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، اس میں بغير مطر بغیر بارش کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢١٠، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٧) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے کہ سورج ڈوب گیا تو آپ نے مقام سرف میں دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٤٤ (٥٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣٨٠) (ضعیف) (اس کے راوی یحییٰ بن محمد الجاری کے بارے میں کلام ہے )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
ہشام بن سعد کہتے ہیں کہ دونوں یعنی مکہ اور سرف کے درمیان دس میل کا فاصلہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٠٩) (مقطوع )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، اس وقت میں عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس تھا، پھر ہم چلے، جب دیکھا کہ رات آگئی ہے تو ہم نے کہا : نماز (ادا کرلیں) لیکن آپ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی اور تارے پوری طرح جگمگا نے لگے، پھر آپ اترے، اور دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کیں، پھر کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چلتے رہنا ہوتا تو میری اس نماز کی طرح آپ بھی نماز ادا کرتے یعنی دونوں کو رات ہوجانے پر ایک ساتھ پڑھتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث عاصم بن محمد نے اپنے بھائی سے اور انہوں نے سالم سے روایت کی ہے، اور ابن ابی نجیح نے اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن ذویب سے روایت کی ہے کہ ان دونوں نمازوں کو ابن عمر (رض) نے شفق غائب ہونے کے بعد جمع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧١٤٩) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کردیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کو جمع کرتے، اور اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مفضل مصر کے قاضی اور مستجاب لدعوات تھے، وہ فضالہ کے لڑکے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ تقصیر الصلاة ١٥ (١١١١) ، ١٦ (١١١٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٤١ (٥٨٧) ،(تحفة الأشراف : ١٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٤٧، ٢٦٥) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سند سے منقول ہے البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہوجاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥١٥) (صحیح )
دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کردیتے یہاں تک کہ اسے عصر سے ملا دیتے، اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کرتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے، اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرتے، اور اگر مغرب کے بعد کوچ کرتے تو عشاء میں جلدی فرماتے اور اسے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث سوائے قتیبہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٧ (٥٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢١) ، وقد أخرجہ : حم (٥/٢٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس سند اور متن میں قتیبہ منفرد ہیں ، دونوں سندوں اور متنوں میں فرق کے لئے دیکھئے حدیث نمبر : (١٢٠٦ ) ۔
سفر میں نماز کی قرأت میں اختصار کا بیان
براء (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی اور دونوں رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں والتين والزيتون پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٧) ، ١٠٢ (٧٦٩) ، و تفسیر التین ١ (٤٩٥٢) ، والتوحید ٥٢ (٧٥٤٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٥ (٣١٠) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٣ (١٠٠٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠ (٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٧) ، مسند احمد (٤/٢٨٤، ٢٨٦، ٢٩١، ٣٠٢، ٣٠٣) (صحیح )
سفر میں نفل نماز پڑھنے کا بیان
براء بن عازب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ سفروں میں رہا، لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے آپ نے دو رکعتیں ترک کی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٦ (الجمعة ٤١) (٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٢، ٢٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابو بسرة غفاری لین الحدیث ہیں )
سفر میں نفل نماز پڑھنے کا بیان
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر (رض) کے ساتھ رہا تو آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی پھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ (نماز کی حالت میں) کھڑے ہیں، پوچھا : یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ نفل پڑھ رہے ہیں، تو آپ نے کہا : بھتیجے ! اگر مجھے نفل ١ ؎ پڑھنی ہوتی تو میں اپنی نماز ہی پوری پڑھتا، میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا لیکن آپ نے دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر (رض) کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور عمر (رض) کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، مجھے (سفر میں) عثمان (رض) کی رفاقت بھی ملی لیکن انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور اللہ عزوجل فرما چکا ہے : لقد کان لکم في رسول الله أسوة حسنة تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١١ (١١٠١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٩) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٤ (١٤٥٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٥ (١٠٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٤ (الجمعة ٣٩) (٥٤٤) ، مسند احمد (٢/٢٤، ٥٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٧ (١٩١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نفل کی دو قسمیں ہیں : راتب سنتیں اور غیر راتب سنتیں، راتب سنتیں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں، اور غیر راتب عام نفلی نماز کو کہا جاتا ہے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسافر عام نفلی نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ سنن رواتب میں اختلاف ہے اور اس حدیث سے راتب سنتیں ہی مراد ہیں، اس سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ سفر میں سنن رواتب کا نہ پڑھنا افضل ہے۔
اونٹ پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل پڑھتے تھے، خواہ آپ کسی بھی طرف متوجہ ہوتے اور اسی پر وتر پڑھتے، البتہ اس پر فرض نماز نہیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٧ (١٠٩٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٣ (٤٩١) ، والمساجد ٤٦ (٧٤٠) ، والقبلة ٢ (٧٤٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٣ (١٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٨ (٤٧٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣١ (١٦٨٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٧(١٢٠٠) ، موطا امام مالک/ قصر الصلاة ٣ (١٥) ، مسند احمد (٢/٥٧، ١٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے ثابت ہوا کہ فرض کے سوا نفلی نماز اور وتر بھی سواری پر ادا کی جاسکتی ہے، ان کے لئے قبلہ رخ ہونے کی شرط نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالت سفر میں عام نفل پڑھ سکتے ہیں ، اور وتر اور فجر کی سنت سفر اور حضر دونوں میں تاکیداً پڑھنی چاہیے۔
اونٹ پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی قبلہ رخ کرلیتے اور تکبیر کہتے پھر نماز پڑھتے رہتے خواہ آپ کی سواری کا رخ کسی بھی طرف ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٠ (١١٠٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن النسائی/المساجد ٤٦ (٧٤٢) ، موطا امام مالک/ قصر الصلاة ٧ (٢٦) ، مسند احمد (٣/٢٠٣) (حسن )
اونٹ پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ کا رخ خیبر کی جانب تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن النسائی/الصلاة ٢٣ (٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٧ (٢٥) ، مسند احمد (٢/٧، ٤٩، ٥٢، ٥٧، ٧٥، ٨٣، ١٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خیبر مدینہ منورہ سے اتری سمت کا علاقہ ہے۔
اونٹ پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا، میں (واپس) آیا تو دیکھا کہ آپ اپنی سواری پر مشرق کی جانب رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں (آپ کا) سجدہ رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھک کر ہوتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٣ (٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣ ٣٣٢، ٣٧٩، ٣٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رکوع اور سجدہ دونوں اشارے سے کرتے اور دونوں میں جھکتے تھے، لیکن سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے۔
عذر کی بنا پر اونٹ پر بیٹھ کر فرض نماز پڑھنا
عطا بن ابی رباح کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا عورتوں کو چوپایوں پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے ؟ آپ نے کہا : مشکل میں ہوں یا سہولت میں، انہیں کسی حالت میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ محمد بن شعیب کہتے ہیں : یہ بات فرض نماز کے سلسلے میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٤) (صحیح )
مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ کیا اور فتح مکہ میں آپ کے ساتھ موجود رہا، آپ نے مکہ میں اٹھارہ شب قیام فرمایا، آپ ﷺ صرف دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے اور فرماتے : اے مکہ والو ! تم چار پڑھو، کیونکہ ہم تو مسافر ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٤ (الجمعة ٣٩) (٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٠، ٤٣١، ٤٣٢، ٤٤٠) (ضعیف) (اس کے راوی علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس قسم کی ضعیف حدیثوں سے قصر کی مدت کی تحدید درست نہیں کیونکہ ان میں اس طرح کا چنداں اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اللہ کے رسول اگر مزید ٹھہرنے کا ارادہ کرتے تو نماز پوری پڑھتے اس بات کے لئے واضح ثبوت غزوہ تبوک کا وہ سفر ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے بیس دن تک قیام کیا اور برابر قصر کرتے رہے، اور غزوہ حنین میں چالیس روز تک قصر فرماتے رہے، نیز غازی کی مثال ایسے مسافر کی ہے جس کو اپنے سفر یا قیام کے بارے میں کوئی واضح بات نہ معلوم ہو۔
مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سترہ دن مکہ میں مقیم رہے، اور نماز قصر کرتے رہے، تو جو شخص سترہ دن قیام کرے وہ قصر کرے، اور جو اس سے زیادہ قیام کرے وہ اتمام کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عباد بن منصور نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے، اس میں ہے : آپ ﷺ انیس دن تک مقیم رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨٠) ، المغازي ٥٢ (٤٢٩٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٥ (الجمعة ٤٠) (٥٤٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٦ (١٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٣) (شاذ) ( اس کے راوی حفص بن غیاث گرچہ ثقات میں سے ہیں، مگر اخیر عمر میں ذرا مختلط ہوگئے تھے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ عاصم الأحول کے تمام تلامذہ کے برخلاف سترہ دن کی روایت کر بیٹھے ہیں )
مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فتح کے سال مکہ میں پندرہ روز قیام فرمایا، آپ ﷺ نماز قصر کرتے رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث عبدہ بن سلیمان، احمد بن خالد وہبی اور سلمہ بن فضل نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ٧٦ (١٠٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٤٩) (ضعیف منکر) (کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے اور اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں سترہ دن تک مقیم رہے اور دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣٠٢١، ٣١٥) (ضعیف منکر) (کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، اور اس کے راوی شریک حافظہ کے کمزور ہیں )
مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ (اس سفر میں) دو رکعتیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم لوگوں نے پوچھا : کیا آپ لوگ مکہ میں کچھ ٹھہرے ؟ انہوں نے جواب دیا : مکہ میں ہمارا قیام دس دن رہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١ (١٠٨١) ، والمغازي ٥٢ (٤٢٩٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٥ (الجمعة ٤٠) (٥٤٨) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ١ (١٤٣٧) ، ٤ (١٤٥١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٦ (١٠٧٧) ، مسند احمد (٣/١٨٧، ١٩٠، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠ (١٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث حجۃ الوداع کے سفر کے بارے میں ہے ، اور ابن عباس (رض) کی حدیث فتح مکہ کے بارے میں ہے۔
مسافر نماز کو کب پورا پڑھے؟
عمر بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ علی (رض) جب سفر کرتے تو سورج ڈوبنے کے بعد بھی چلتے رہتے یہاں تک کہ اندھیرا چھا جانے کے قریب ہوجاتا، پھر آپ اترتے اور مغرب پڑھتے۔ پھر شام کا کھانا طلب کرتے اور کھا کر عشاء ادا کرتے۔ پھر کوچ فرماتے اور کہا کرتے تھے : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ عثمان کی روایت میں أخبرني عبدالله بن محمد بن عمر بن علي کے بجائے عن عبدالله بن محمد بن عمر بن علي ہے۔ (ابوعلی لولؤی کہتے ہیں) میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ اسامہ بن زید نے حفص بن عبیداللہ (بن انس بن مالک) سے روایت کی ہے کہ انس (رض) جب شفق غائب ہوجاتی تو دونوں (مغرب اور عشاء) کو جمع کرتے اور کہتے : نبی کریم ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ زہری نے انس (رض) سے انس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، سنن النسائی/المواقیت ٤٤ (٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٠) (صحیح لغیرہ) ( اس کے راوی عبداللہ بن محمد بن عمر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ، جن میں سے ایک انس کی اگلی حدیث بھی ہے) وحدیث أنس أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٤ (١١١١، ١١١٢) (مقتصرا علی الظہر والعصر فقط) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٢ (٥٩٥) ، (مقتصرا علی الشق الأول مثل البخاری) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٤٧، ٢٦٥) (صحیح )
جب دشمن کے ملک میں ٹھہرا ہوا ہو تو قصر ہی کرتا رہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور نماز قصر کرتے رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : معمر کے علاوہ سبھی اسے مرسل روایت کرتے ہیں، کوئی اسے مسند روایت نہیں کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٥٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٥) (صحیح )
صلوہ خوف (حالت جنگ میں پڑھی جانے والی نماز)
ابوعیاش زرقی (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مقام عسفان میں تھے، اس وقت مشرکوں کے سردار خالد بن ولید تھے، ہم نے ظہر پڑھی تو مشرکین کہنے لگے : ہم سے چوک ہوگئی، ہم غفلت کا شکار ہوگئے، کاش ! ہم نے دوران نماز ان پر حملہ کردیا ہوتا، چناچہ ظہر اور عصر کے درمیان قصر کی آیت نازل ہوئی ١ ؎ پھر جب عصر کا وقت ہوا تو رسول اللہ ﷺ قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوئے، مشرکین آپ کے سامنے تھے، لوگوں نے آپ کے پیچھے ایک صف بنائی اور اس صف کے پیچھے ایک دوسری صف بنائی تو آپ ﷺ نے ان سب کے ساتھ بیک وقت رکوع کیا، لیکن سجدہ آپ نے اور صرف اس صف کے لوگوں نے کیا جو آپ سے قریب تر تھے اور باقی (پچھلی صف کے) لوگ کھڑے نگرانی کرتے رہے، پھر جب یہ لوگ سجدہ کر کے کھڑے ہوگئے تو باقی دوسرے لوگوں نے جو ان کے پیچھے تھے، سجدے کئے، پھر قریب والی صف پیچھے ہٹ کر دوسری صف کی جگہ پر چلی گئی، اور دوسری صف آگے بڑھ کر پہلی صف کی جگہ پر آگئی، پھر سب نے مل کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رکوع کیا، اس کے بعد سجدہ صرف آپ اور آپ سے قریب والی صف نے کیا اور بقیہ لوگ کھڑے نگرانی کرتے رہے، جب رسول اللہ ﷺ اور قریب والی صف کے لوگ بیٹھ گئے تو بقیہ دوسروں نے سجدہ کیا، پھر سب ایک ساتھ بیٹھے اور ایک ساتھ سلام پھیرا، آپ نے عسفان میں اسی طرح نماز پڑھی اور بنی سلیم سے جنگ کے روز بھی اسی طرح نماز پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ایوب اور ہشام نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جابر سے اسی مفہوم کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ اسی طرح یہ حدیث داود بن حصین نے عکرمہ سے، عکرمہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ اسی طرح یہ حدیث عبدالملک نے عطا سے، عطاء نے جابر سے روایت کی ہے۔ اسی طرح قتادہ نے حسن سے، حسن نے حطان سے، حطان نے ابوموسیٰ (رض) سے یہی عمل نقل کیا ہے۔ اسی طرح عکرمہ بن خالد نے مجاہد سے مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ اسی طرح ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور یہی ثوری کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/صلاة الخوف (١٥٥٠، ١٥٥١ ) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٥٩، ٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نسائی کی روایت میں ہے فنزلت، يعني صلاة الخوف دونوں روایتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ آیت قصر ہی آیت خوف ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک صف امام کے ساتھ قائم ہو اور دوسری صف دشمن کے مقابلہ میں ہو پس امام اپنے ساتھ والوں کو ایک رکعت پڑھائے اور امام کھڑا رہے یہاں تک کہ یہ سب لوگ دوسری رکعت پڑھ لیں پھر یہ دشمن کے مقابلہ میں چلے جائیں اور دوسری جماعت آکر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور امام بیٹھا رہے یہاں تک کہ جماعت ثانیہ پہلی رکعت پوری کرے اس کے بعد امام سب کے ساتھ سلام پھیرے
سہل بن ابی حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ حالت خوف میں نماز ادا کی تو اپنے پیچھے دو صفیں بنائیں پھر جو آپ سے قریب تھے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر کھڑے ہوگئے اور برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے جو پہلی صف کے پیچھے تھے، ایک رکعت ادا کی، پھر وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور جو لوگ دشمن کے سامنے تھے، آپ کے پیچھے آگئے، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر آپ بیٹھے رہے یہاں تک کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے ایک رکعت اور پڑھی پھر آپ نے سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٢ (٤١٣١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٤١ و ٨٤٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨١ (الجمعة ٤٦) (٥٦٦) ، سنن النسائی/صلاة الخوف (١٥٣٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥١ (١٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد (٣/٤٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٥(١٥٦٣) (صحیح )
تیسری صورت بعضوں نے کہا کہ امام جب ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے تو امام کھڑا رہے اور باقی لوگ تنہا مزید ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر فارغ ہو کر دشمن کے سامنے چلے جائیں اور سلام میں اختلاف ہے
صالح بن خوات ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ذات الرقاع کے غزوہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف ادا کی وہ کہتے ہیں : ایک جماعت آپ کے ساتھ صف میں کھڑی ہوئی اور دوسری دشمن کے سامنے، آپ ﷺ نے اپنے ساتھ والی جماعت کے ساتھ ایک رکعت ادا کی پھر کھڑے رہے اور ان لوگوں نے (اس دوران میں) اپنی نماز پوری کرلی (یعنی دوسری رکعت بھی پڑھ ل ی) پھر وہ واپس دشمن کے سامنے صف بستہ ہوگئے اور دوسری جماعت آئی تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ اپنی رکعت ادا کی پھر بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے اپنی دوسری رکعت پوری کی، پھر آپ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ مالک کہتے ہیں : یزید بن رومان کی حدیث میری مسموعات میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٥) (صحیح )
تیسری صورت بعضوں نے کہا کہ امام جب ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے تو امام کھڑا رہے اور باقی لوگ تنہا مزید ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر فارغ ہو کر دشمن کے سامنے چلے جائیں اور سلام میں اختلاف ہے
صالح بن خوات انصاری کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ انصاری (رض) نے ان سے بیان کیا ہے کہ نماز خوف اس طرح ہوگی کہ امام (نماز کے لیے) کھڑا ہوگا اور اس کے ساتھیوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہوگی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی ہوگی، امام اور جو اس کے ساتھ ہوں گے رکوع اور سجدہ کریں گے پھر امام کھڑا ہوگا، جب پورے طور سے سیدھا کھڑا ہوجائے گا تو یونہی کھڑا رہے گا یہاں تک کہ لوگ اپنی باقی (دوسری) رکعت بھی ادا کرلیں گے، پھر وہ لوگ سلام پھیر کر واپس چلے جائیں گے اور امام کھڑا رہے گا، اب یہ دشمن کے سامنے ہوں گے اور جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، وہ آئیں گے اور امام کے پیچھے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہیں گے پھر وہ ان کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر کے اپنی دوسری رکعت پوری کرے گا پھر سلام پھیر دے گا، اس کے بعد یہ لوگ کھڑے ہو کر اپنی باقی رکعت ادا کریں گے پھر سلام پھیریں گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : رہی قاسم سے مروی یحییٰ بن سعید کی روایت تو وہ یزید بن رومان کی روایت ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ انہوں نے سلام میں اختلاف کیا ہے اور عبیداللہ کی روایت یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح ہے اس میں ہے کہ (امام) کھڑا رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٥) (صحیح) (یہ حدیث موقوف ہے اور اس سے پہلے والی مرفوع ہے، پہلی میں جو صورت مذکور ہے وہی زیادہ صحیح ہے، یعنی دوسری جماعت کا امام کے ساتھ سلام پھیرنا )
چو تھی صورت بعضوں نے کہا کہ سب لوگ ایک ساتھ تکبیر تحر یمہ کہہ لیں اگرچہ پشت قبلہ کی طرف ہو پھیر ایک گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور وہ دشمن کے سامنے چلا جائے پس دوسرا گروہ آکر پہلے تنہا ایک رکعت پڑھے اور امام کے ساتھ شریک ہوجائے پھیر اممام ان کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے اور اس کے بعد وہ ھروہ آئے جو پہلے ایک رکعت پڑھ چکا تھا اور باقی ماندہ ایک رکعت ادا کرے امام بیٹھا رہے پھیر سب کے ساتھ اکٹھا سلام پھیرے
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے ؟ ابوہریرہ نے جواب دیا : ہاں، مروان نے پوچھا : کب ؟ ابوہریرہ نے کہا : جس سال غزوہ نجد پیش آیا، رسول اللہ ﷺ عصر کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے تھی اور ان کی پیٹھیں قبلہ کی طرف تھیں، رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی تو آپ کے ساتھ والے لوگوں نے اور ان لوگوں نے بھی جو دشمن کے سامنے کھڑے تھے (سبھوں نے) تکبیر تحریمہ کہی، پھر رسول اللہ ﷺ نے رکوع کیا اور آپ کے ساتھ کھڑی جماعت نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے قریب والی جماعت نے بھی سجدہ کیا، اور دوسرے لوگ دشمن کے بالمقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ ﷺ اٹھے اور وہ جماعت بھی اٹھی جو آپ کے ساتھ تھی اور جا کر دشمن کے سامنے کھڑی ہوگئی، پھر وہ جماعت، جو دشمن کے سامنے کھڑی تھی (امام کے پیچھے) آگئی اور اس نے رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ ﷺ اسی طرح کھڑے رہے جیسے تھے، پھر جب وہ جماعت (سجدہ سے) اٹھ کھڑی ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی، اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا پھر جو جماعت دشمن کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی آگئی اور اس نے رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ ﷺ اور وہ لوگ جو پہلے سے آپ کے ساتھ موجود تھے بیٹھے رہے، پھر سلام پھیرا گیا تو رسول اللہ ﷺ اور سبھی لوگوں نے مل کر سلام پھیرا اس طرح رسول اللہ ﷺ کی دو رکعتیں ہوئیں اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک کی ایک ایک رکعت۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الخوف ١٨(١٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٠) (صحیح )
چو تھی صورت بعضوں نے کہا کہ سب لوگ ایک ساتھ تکبیر تحر یمہ کہہ لیں اگرچہ پشت قبلہ کی طرف ہو پھیر ایک گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور وہ دشمن کے سامنے چلا جائے پس دوسرا گروہ آکر پہلے تنہا ایک رکعت پڑھے اور امام کے ساتھ شریک ہوجائے پھیر اممام ان کے ساتھ ایک رکعت ادا کرے اور اس کے بعد وہ ھروہ آئے جو پہلے ایک رکعت پڑھ چکا تھا اور باقی ماندہ ایک رکعت ادا کرے امام بیٹھا رہے پھیر سب کے ساتھ اکٹھا سلام پھیرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نجد کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب ہم ذات الرقاع میں تھے تو غطفان کے کچھ لوگ ملے، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی لیکن اس کے الفاظ حیوۃ کے الفاظ سے مختلف ہیں اس میں حين رکع بمن معه وسجد کے الفاظ ہیں، نیز اس میں ہے فلما قاموا مشوا القهقرى إلى مصاف أصحابهم یعنی جب وہ اٹھے تو الٹے پاؤں پھرے اور اپنے ساتھیوں کی صف میں آ کھڑے ہوئے ، اس میں انہوں نے استدبار قبلہ (قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے) کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤١٦٤) (صحیح ) عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سے یہی واقعہ بیان کیا اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے تکبیر تحریمہ کہی اور اس جماعت نے بھی جو آپ کے ساتھ صف میں کھڑی تھی تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا تو ان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی اٹھایا، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے اور وہ لوگ دوسرا سجدہ خود سے کر کے کھڑے ہوئے اور ایٹریوں کے بل پیچھے چلتے ہوئے الٹے پاؤں لوٹے، یہاں تک کہ ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے، اور دوسری جماعت آ کر کھڑی ہوئی، اس نے تکبیر کہی پھر خود سے رکوع کیا اب رسول اللہ ﷺ نے اپنا دوسرا سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے اپنا دوسرا سجدہ کیا، پھر دونوں جماعتیں ایک ساتھ کھڑی ہوئیں اور دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا (ان سب نے بھی رکوع کیا) ، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان سب نے بھی ایک ساتھ سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسرا سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی سجدہ کیا، اور جلدی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی، پھر رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، اور لوگوں نے بھی سلام پھیرا، پھر آپ نماز سے فارغ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اس طرح لوگوں نے پوری نماز میں آپ کے ساتھ شرکت کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧٥) (حسن )
None
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی واقعہ بیان کیا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی اور اس جماعت نے بھی جو آپ کے ساتھ صف میں کھڑی تھی تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا تو ان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو انہوں نے بھی اٹھایا، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے اور وہ لوگ دوسرا سجدہ خود سے کر کے کھڑے ہوئے اور ایٹریوں کے بل پیچھے چلتے ہوئے الٹے پاؤں لوٹے، یہاں تک کہ ان کے پیچھے جا کھڑے ہوئے، اور دوسری جماعت آ کر کھڑی ہوئی، اس نے تکبیر کہی پھر خود سے رکوع کیا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دوسرا سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اٹھ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے اپنا دوسرا سجدہ کیا، پھر دونوں جماعتیں ایک ساتھ کھڑی ہوئیں اور دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا ( ان سب نے بھی رکوع کیا ) ، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان سب نے بھی ایک ساتھ سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسرا سجدہ کیا اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی سجدہ کیا، اور جلدی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور لوگوں نے بھی سلام پھیرا، پھر آپ نماز سے فارغ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اس طرح لوگوں نے پوری نماز میں آپ کے ساتھ شرکت کر لی۔
پانچویں صورت بعضوں نے کہا امام ہر گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے پھر سلام پھیر دے اور وہ لوگ اپنی ایک رکعت پوری کرلیں،،
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہوگئی اور وہ جماعت (نبی اکرم ﷺ کے پیچھے) آگئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر (رض) سے ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخوف ١ (٩٤٢) ، المغازي ٣١ (٤١٣٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٧ (٨٣٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨١ (الجمعة ٤٦) (٥٦٤) ، سنن النسائی/الخوف ١٨ (١٥٣٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥١ (١٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٧) (صحیح )
چھٹی صورت بعضوں نے کہا ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے پھر سلام پھیر دے اسکے بعد جو ان کے پیچھے ہیں وہ کھڑے ہوجائیں اور ایک رکعت پڑھ لیں پھر پچھلے ان کی جگہ پر آجائیں اور ایک رکعت نماز پڑھ لیں،،
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز خوف پڑھائی تو ایک صف رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اور دوسری صف دشمن کے مقابل کھڑی ہوئی، آپ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی پھر دوسری جماعت آئی اور ان کی جگہ کھڑی ہوئی اور یہ جماعت دشمن کے سامنے چلی گئی، اب نبی اکرم ﷺ نے ان کو ایک رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیر دیا، پھر یہ جماعت کھڑی ہوئی، اس نے دوسری رکعت ادا کر کے سلام پھیرا اور جا کر ان کی جگہ کھڑی ہوگئی، جو دشمن کے سامنے تھے، اب وہ لوگ ان کی جگہ آگئے اور انہوں نے اپنی دوسری رکعت ادا کی پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٥، ٣٧٦، ٤٠٩) (ضعیف) ( ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے )
چھٹی صورت بعضوں نے کہا ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے پھر سلام پھیر دے اسکے بعد جو ان کے پیچھے ہیں وہ کھڑے ہوجائیں اور ایک رکعت پڑھ لیں پھر پچھلے ان کی جگہ پر آجائیں اور ایک رکعت نماز پڑھ لیں،،
اس طریق سے بھی خصیف سے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہی اور دونوں صف کے سارے لوگوں نے بھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ثوری نے بھی خصیف سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اور عبدالرحمٰن بن سمرہ نے اسی طرح یہ نماز ادا کی، البتہ اتنا فرق ضرور تھا کہ وہ گروہ جس کے ساتھ آپ نے ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر دیا، اپنے ساتھیوں کی جگہ واپس چلا گیا اور ان لوگوں نے آ کر خود سے ایک رکعت پوری کی۔ پھر وہ ان کی جگہ واپس چلے گئے اور اس گروہ نے آ کر اپنی باقی ماندہ رکعت خود سے ادا کی۔ ١٢٤٥/م۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم سے یہ حدیث مسلم بن ابراہیم نے بیان کی، مسلم کہتے ہیں : ہم سے عبدالصمد بن حبیب نے بیان کی، عبدالصمد کہتے ہیں : میرے والد نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے عبدالرحمٰن بن سمرہ کے ساتھ کابل کا جہاد کیا تو انہوں نے ہمیں نماز خوف پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٧) (ضعیف) (عبد الصمد اور ان کے والد حبیب دونوں مجہول راوی ہیں )
ساتویں صورت بعضوں نے کہا کہ ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ لے تو پھر دوسری رکعت پڑھنے کی ضرورت نہیں
ثعلبہ بن زہدم کہتے ہیں کہ ہم لوگ سعید بن عاص کے ساتھ طبرستان میں تھے، وہ کھڑے ہوئے اور پوچھا : تم میں کس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز خوف ادا کی ہے ؟ تو حذیفہ (رض) نے کہا : میں نے (پھر حذیفہ نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی، اور دوسرے کو ایک رکعت) اور ان لوگوں نے (دوسری رکعت کی) قضاء نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح اسے عبیداللہ بن عبداللہ اور مجاہد نے ابن عباس (رض) سے ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے اور عبداللہ بن شفیق نے ابوہریرہ (رض) سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے، اور یزید فقیر اور ابوموسیٰ نے جابر (رض) سے اور جابر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوموسیٰ تابعی ہیں، ابوموسیٰ اشعری نہیں ہیں۔ یزید الفقیر کی روایت میں بعض راویوں نے شعبہ سے یوں روایت کی ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت قضاء کی تھی۔ اسی طرح اسے سماک حنفی نے ابن عمر (رض) سے اور ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ نیز اسی طرح اسے زید بن ثابت (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اس میں ہے : لوگوں کی ایک ایک رکعت ہوئی اور نبی اکرم ﷺ کی دو رکعتیں ہوئیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/صلاة الخوف (١٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٥، ٣٩٩) (ضعیف )
ساتویں صورت بعضوں نے کہا کہ ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ لے تو پھر دوسری رکعت پڑھنے کی ضرورت نہیں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ کی زبان سے تم پر حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٧) ، سنن النسائی/الصلاة ٣ (٤٥٧) ، وتقصیر الصلاة ١ (٢٥٤، ٣٥٥) ، والخوف ١ (١٥٣٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٣ (١٠٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٧، ٢٤٣) (صحیح )
آٹھویں صورت بعضوں نے کہا ہر گروہ کے ساتھ امام دو رکعتیں پڑھے
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خوف کی حالت میں ظہر ادا کی تو بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی اور بعض دشمن کے سامنے رہے، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، تو جو لوگ آپ کے ساتھ نماز میں تھے، وہ اپنے ساتھیوں کی جگہ جا کر کھڑے ہوگئے اور وہ لوگ یہاں آگئے پھر آپ کے پیچھے انہوں نے نماز پڑھی تو آپ نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیرا، اس طرح رسول اللہ ﷺ کی چار رکعتیں اور صحابہ کرام کی دو دو رکعتیں ہوئیں، اور حسن بصری اسی کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح مغرب میں امام کی چھ، اور دیگر لوگوں کی تین تین رکعتیں ہوں گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے جابر (رض) سے اور جابر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح سلیمان یشکری نے عن جابر عن النبي ﷺ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الخوف ١٨ (١٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩، ٤٩) (صحیح )
دشمن کو تلاش کرنے والے کی نماز
عبداللہ بن انیس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے خالد بن سفیان ہذلی کی طرف بھیجا اور وہ عرنہ و عرفات کی جانب تھا تو فرمایا : جاؤ اور اسے قتل کر دو ، عبداللہ کہتے ہیں : میں نے اسے دیکھ لیا عصر کا وقت ہوگیا تھا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا اگر میں رک کر نماز میں لگتا ہوں تو اس کے اور میرے درمیان فاصلہ ہوجائے گا، چناچہ میں اشاروں سے نماز پڑھتے ہوئے مسلسل اس کی جانب چلتا رہا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : عرب کا ایک شخص، مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس شخص (یعنی محمد ﷺ سے مقابلے) کے لیے تم (لوگوں کو) جمع کر رہے ہو ١ ؎ تو میں اسی سلسلے میں تمہارے پاس آیا ہوں، اس نے کہا : ہاں میں اسی کوشش میں ہوں، چناچہ میں تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلتا رہا، جب مجھے مناسب موقع مل گیا تو میں نے اس پر تلوار سے وار کردیا اور وہ ٹھنڈا ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٦) (حسن) (اس کے راوی ابن عبد اللہ بن انیس لین الحدیث ہیں، لیکن اس حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ (٩٨٢) اور ابن حبان (٥٩١) نے کی ہے، اور ابن حجر نے حسن کہا ہے (فتح الباری ٢/٤٣٧) ، البانی نے بھی اسے صحیح ابی داود میں رکھا ہے (١١٣٥/م) نیز ملاحظہ ہو : (الصحیحة ٣٢٩٣ ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ذومعنی کلام ہے لیکن اللہ کا دشمن خالد بن سفیان ہذلی، عبداللہ بن انیس (رض) کے اس توریہ کو سمجھ نہیں سکا۔
سنت و نفل نمازوں کے احکام اور ان کی رکعات
ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص ایک دن میں بارہ رکعتیں نفل پڑھے گا تو اس کے بدلے اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٥ (٧٢٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٧ (١٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٣ (٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٠ (١١٤١) ، مسند احمد (٦/٤٢٦، ٣٢٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤ (١٤٧٨) (صحیح )
سنت و نفل نمازوں کے احکام اور ان کی رکعات
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نفل نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ظہر سے پہلے میرے گھر میں چار رکعتیں پڑھتے، پھر نکل کر لوگوں کو نماز پڑھاتے، پھر واپس آ کر میرے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے، اور مغرب لوگوں کے ساتھ ادا کرتے اور واپس آ کر میرے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے، پھر آپ انہیں عشاء پڑھاتے پھر میرے گھر میں آتے اور دو رکعتیں پڑھتے اور رات میں آپ نو رکعتیں پڑھتے، ان میں وتر بھی ہوتی، اور رات میں آپ کبھی تو دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور کبھی دیر تک بیٹھ کر اور جب کھڑے ہو کر قرآت فرماتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر قرآت کرتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر کرتے اور جب فجر طلوع ہوجاتی تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر نکل کر لوگوں کو فجر پڑھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٧٥) ، ٤١٠ (٤٣٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٨ (١٦٤٧، ١٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٠ (١٢٢٨) ، مسند احمد (٦/٣٠، ٢١٦) (صحیح )
سنت و نفل نمازوں کے احکام اور ان کی رکعات
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور اس کے بعد دو رکعتیں، مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور جمعہ کے بعد کچھ نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ فارغ ہو کر گھر واپس آجاتے پھر دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٩ (٩٣٧) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن النسائی/الجمعة ٤٢ (١٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٣ (٦٩) ، مسند احمد (٢/٣٤) (صحیح )
سنت و نفل نمازوں کے احکام اور ان کی رکعات
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ظہر (کی فرض نماز) سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی (فرض نماز) سے پہلے دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٣٤ (١١٨٢) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤٧ (١٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٦٣، ١٤٨) (صحیح )
فجر کی سنتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی اور نفل کا اتنا خیال نہیں رکھتے تھے جتنا صبح سے پہلے کی دونوں کی رکعتوں کا رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/صلاة اللیل ٢٧ (١١٦٩) ، صحیح مسلم/السافرین ١٤(٧٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٥٤، ١٧٠) (صحیح )
فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فجر سے پہلے کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھتے تھے، یہاں تک کہ میں کہتی : کیا آپ نے ان میں سورة فاتحہ پڑھی ہے ؟ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٨ (١١٧١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٠ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠، ٤٩، ١٠٠، ١٦٥، ١٨٣، ١٨٦، ٢٣٥) (صحیح )
فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فجر کی دونوں رکعتوں میں قل يا أيها الکافرون اور قل هو الله أحد پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٩ (٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٢ (١١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٨) (صحیح )
فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان
عبیداللہ بن زیاد الکندی کہتے ہیں کہ بلال (رض) نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ آپ کو نماز فجر کی خبر دیں، تو ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انہیں کسی بات میں مشغول کرلیا، وہ ان سے اس کے بارے میں پوچھ رہی تھیں، یہاں تک کہ صبح خوب نمودار اور پوری طرح روشن ہوگئی، پھر بلال اٹھے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی اور مسلسل دیتے رہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نہیں نکلے، پھر جب نکلے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور بلال نے آپ کو بتایا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ایک معاملے میں کچھ پوچھ کر کے مجھے باتوں میں لگا لیا یہاں تک کہ صبح خوب نمودار ہوگئی، اور آپ نے نکلنے میں دیر کی، آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس وقت فجر کی دو رکعتیں پڑھ رہا تھا ، بلال نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو کافی صبح کردی، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : جتنی دیر میں نے کی، اگر اس سے بھی زیادہ دیر ہوجاتی تو بھی میں ان دونوں رکعتوں کو ادا کرتا اور انہیں اچھی طرح اور خوبصورتی سے ادا کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤) (صحیح )
فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان دونوں رکعتوں کو مت چھوڑا کرو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابن سیلان لین الحدیث ہیں )
فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں رسول اللہ ﷺ اکثر جس آیت کی تلاوت کرتے تھے وہ آمنا بالله وما أنزل إلينا ١ ؎ والی آیت ہوتی، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : اسے پہلی رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں آمنا بالله واشهد بأنا مسلمون ٢ ؎ پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤(٧٢٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٨ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٣١) (صحیح ) وضاحت : وضاحت : سورة البقرة : (١٣٦) وضاحت : سورة آل عمران : (٥٢ )
فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فجر کی دونوں رکعتوں میں قرآت کرتے سنا، پہلی رکعت میں آپ قل آمنا بالله وما أنزل علينا ١ ؎ اور دوسری رکعت میں ربنا آمنا بما أنزلت واتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاهدين ٢ ؎ یا إنا أرسلناک بالحق بشيرا ونذيرا ولا تسأل عن أصحاب الجحيم ٣ ؎ پڑھ رہے تھے اس میں دراوردی کو شک ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٩٢٦) (حسن ) وضاحت : وضاحت : سورة آل عمران : (٨٤) وضاحت : سورة آل عمران : (٥٣) وضاحت : سورة البقرة : (١١٩ )
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹ جائے ، اس پر ان سے مروان بن حکم نے کہا : کیا کسی کے لیے مسجد تک چل کر جانا کافی نہیں کہ وہ دائیں کروٹ لیٹے ؟ عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے جواب دیا : نہیں، تو پھر یہ خبر ابن عمر (رض) کو پہنچی تو انہوں نے کہا : ابوہریرہ نے (کثرت سے روایت کر کے) خود پر زیادتی کی ہے (اگر ان سے اس میں سہو یا غلطی ہو تو اس کا بار ان پر ہوگا) ، وہ کہتے ہیں : ابن عمر سے پوچھا گیا : جو ابوہریرہ کہتے ہیں، اس میں سے کسی بات سے آپ کو انکار ہے ؟ تو ابن عمر نے جواب دیا : نہیں، البتہ ابوہریرہ (رض) (روایت کثرت سے بیان کرنے میں) دلیر ہیں اور ہم کم ہمت ہیں، جب یہ بات ابوہریرہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا : اگر مجھے یاد ہے اور وہ لوگ بھول گئے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٥ (٤٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ترمذی، ابن حبان (٢٤٥٩) اور عبدالحق اشبیلی وغیرہ نے اسے صحیح کہا ہے، بعض روایات سے نبی اکرم ﷺ کا فعل ثابت ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق یوں ممکن ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے رسول اکرم ﷺ کا قول وفعل دونوں نقل کیا ہے، جبکہ ابو صالح سمان راوی نے آپ سے قول نقل کیا ، اور اعمش نے ابو صالح سے امر (قول) یاد رکھا، اور ابن اسحاق نے فعل، اور ہر راوی نے جو بات یاد تھی روایت کی، اس طرح سے سبھوں نے صحیح نقل کیا ہے، اس طرح سے ابوہریرہ سے امر والی روایت کے محفوظ رکھنے اور عائشہ (رض) سے فعل نبوی کے محفوظ ہونے کی بات میں تطبیق ہوجائے گی، ابوہریرہ کے بیان میں حدیث قولی کا مرفوع ہونا ثابت ہے، بعض اہل علم نے فعل رسول کو راجح قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو : اعلام اہل العصر بأحکام رکعتی الفجر، للمحدث شمس الحق العظیم آبادی، وشیخ الاسلام ابن تیمیۃ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ، للفریوائی، و صحیح ابی داود للألبانی ٤ ؍ ٤٢٩ )
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٤ (١١٦١) ، ٢٥ (١١٦٢) ، ٢٦ (١١٦٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٧ (٤١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥) ، وانظر ما یأتي برقم (١٣٣٥) (صحیح) (فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے یا بات کرنے والی روایت شاذ ہے، صحیح روایت یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد بات کرتے یا لیٹ جاتے، جیسا کہ صحیحین کی روایتوں میں ہے )
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان
ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فجر کی دو رکعتیں پڑھ چکتے اور میں سو رہی ہوتی تو لیٹ جاتے اور اگر میں جاگ رہی ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٣) ، وفیہ ” زیادہ بن سعد عن ابن أبي عتاب “ بلا شک (تحفة الأشراف : ١٧٧٠٧، ١٧٧٣٢) (صحیح لغیرہ) ( حدیث نمبر ١٣٣٦ سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں ایک راوی مجہول اور ایک مہبم ہے )
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فجر کے لیے نکلا، تو آپ جس آدمی کے پاس سے بھی گزرتے اسے نماز کے لیے آواز دیتے یا پیر سے جگاتے جاتے تھے۔ زیاد کی روایت میں حدثنا أبو الفضل کے بجائے حدثنا أبو الفضيل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی ابو الفضل انصاری مجہول ہیں )
اگر فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو اس وقت سنتیں نہ پڑھے
عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور نبی اکرم ﷺ فجر پڑھا رہے تھے تو اس نے دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو فرمایا : اے فلاں ! تمہاری کون سی نماز تھی ؟ آیا وہ جو تو نے تنہا پڑھی یا وہ جو ہمارے ساتھ پڑھی ١ ؎؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١٢) ، سنن النسائی/الإمامة ٦١ (٨٦٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٣ (١١٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہونے کے بعد اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ امام کو جس حالت میں بھی پائے اس کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائے اور اس وقت سنت نہ پڑھے خواہ وہ فجر ہی کی سنت کیوں نہ ہو، اور سنت کی دو رکعت فرض کی نماز کے بعد پڑھ لے۔
اگر فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو اس وقت سنتیں نہ پڑھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کھڑی ہوجائے تو سوائے فرض کے کوئی نماز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٦ (٤٢١) ، سنن النسائی/الإمامة ٦٠ (٨٦٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٣ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣١، ٣٥٢، ٤٥٥، ٥١٧، ٥٣١) ، دي /الصلاة ١٤٩ (١٤٨٨، ١٤٩١) (صحیح )
اگر فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو ان کو کب ادا کیا جائے
قیس بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز فجر ختم ہوجانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : فجر دو ہی رکعت ہے ، اس شخص نے جواب دیا : میں نے پہلے کی دونوں رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب پڑھی ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ خاموش رہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٧ (٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٤(١١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤٧) (صحیح )
اگر فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو ان کو کب ادا کیا جائے
اس طریق سے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے اسی سند سے مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : سعید کے دونوں بیٹے عبدربہ اور یحییٰ نے یہ حدیث مرسلاً روایت کی ہے کہ ان کے دادا زید نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تھی اور انہیں کے ساتھ یہ واقعہ ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٢) (صحیح) (پچھلی حدیثوں سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے، لیکن زید کی بجائے، صحیح نام قیس ہے )
ظہر کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین ام حبیبہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں اور بعد کی چار رکعتوں کی پابندی کرے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجائے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے علاء بن حارث اور سلیمان بن موسیٰ نے مکحول سے اسی سند سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٥٧ (١٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١ ٢٠ (٤٢٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٨ (١١٦٠) ، مسند احمد (٦/٣٢٦) (صحیح )
ظہر کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے کا بیان
ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ظہر کے پہلے کی چار رکعتیں، جن کے درمیان سلام نہیں ہے، ایسی ہیں کہ ان کے واسطے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے یحییٰ بن سعید قطان کی یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے کہا : اگر میں عبیدہ سے کچھ روایت کرتا تو ان سے یہی حدیث روایت کرتا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لیکن عبیدہ ضعیف ہیں، اور ابن منجاب کا نام سہم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٥ (١١٥٧) ، سنن الترمذی/ الشمائل (٢٩٣، ٢٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٦، ٤١٧، ٤٢٠) (ضعیف) (اس کے راوی عبیدہ بن متعب ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : تراجع الألباني 125 ).
عصر سے پہلے نفل پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢ ٢٠ (٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہ عام نفل نماز میں سے ہے، اس کا شمار سنن رواتب میں نہیں۔
عصر سے پہلے نفل پڑھنے کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠١٤٠) (حسن) (لكن بلفظ : ” أربع رکعات “ كما عند الترمذي في الصلاة 202 ) وضاحت : ١ ؎ : ترمذی کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ عصر سے پہلے چار رکعتیں نفل پڑھتے تھے، لیکن تشہد کے ذریعہ فصل کرتے تھے اور سلام ایک ہی ہوتا تھا۔
عصر کے بعد نفل پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس، عبدالرحمٰن بن ازہر (رض) اور مسور بن مخرمہ (رض) تینوں نے انہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس بھیجا اور کہا : ان سے ہم سب کا سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت نفل کے بارے میں پوچھنا اور کہنا : ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں، حالانکہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے منع فرمایا ہے، چناچہ میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گیا اور انہیں ان لوگوں کا پیغام پہنچا دیا، آپ نے کہا : ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے پوچھو ! میں ان لوگوں کے پاس آیا اور ان کی بات انہیں بتادی، تو ان سب نے مجھے ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس اسی پیغام کے ساتھ بھیجا، جس کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس بھیجا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا، پھر دیکھا کہ آپ انہیں پڑھ رہے ہیں، ایک روز آپ نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے یہ دونوں رکعتیں پڑھنا شروع کیں تو میں نے ایک لڑکی کو آپ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ تو جا کر آپ کے بغل میں کھڑی ہوجا اور آپ سے کہہ : اللہ کے رسول ! ام سلمہ کہہ رہی ہیں : میں نے تو آپ کو ان دونوں رکعتوں کو پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور اب آپ ہی انہیں پڑھ رہے ہیں، اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا، اس لڑکی نے ایسا ہی کیا، آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ پیچھے ہٹ گئی، جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا : اے ابوامیہ کی بیٹی ! تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے، دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کرلیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السھو ٨ (١٢٣٣) ، المغازي ٦٩ (٤٣٧٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٤ (٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧١، ١٨٢٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/المواقیت ٣٥ (٥٨٠) ، مسند احمد (٦/٣٠٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٣ (١٤٧٦) (صحیح )
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، سوائے اس کے کہ سورج بلند ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المواقیت ٣٦ (٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٠) ، وقد أخرجہ : (١/٨٠، ٨١) (صحیح )
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے سوائے فجر اور عصر کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٤) (ضعیف) (ابو اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ نے فجر اور عصر کے بعد مسجد میں کوئی نماز سد باب کے لئے نہیں پڑھی، البتہ ظہر کے بعد کی سنت کی قضا آپ نے گھر میں کی ہے جیسا کہ حدیث گزر چکی ہے، علی (رض) سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہے، حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع کیا ہے، الا یہ کہ سورج اونچا ہو (یعنی زرد نہ ہوا ہو) ۔
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ہے، جن میں عمر بن خطاب (رض) بھی تھے اور میرے نزدیک عمران میں سب سے پسندیدہ شخص تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز نہیں، اور نہ عصر کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی نماز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠ (١٨٣) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٢ (٥٦٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٧ (١٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ١٨، ٢٠، ٢١، ٣٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٣) (صحیح )
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
عمرو بن عبسہ سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! رات کے کس حصے میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : رات کے آخری حصے میں، اس وقت جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ ان میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور فجر پڑھنے تک (ثواب) لکھے جاتے ہیں، اس کے بعد سورج نکلنے تک رک جاؤ یہاں تک کہ وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہوجائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور کافر (سورج کے پجاری) اس وقت اس کی پوجا کرتے ہیں، پھر تم جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ اس نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور (ثواب) لکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے برابر ہوجائے تو ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پھر جب سورج ڈھل جائے تو تم جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ اس وقت بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر پڑھ لو تو سورج ڈوبنے تک ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے بیچ ڈوبتا ہے، اور کافر اس کی پوجا کرتے ہیں ، انہوں نے ایک لمبی حدیث بیان کی۔ عباس کہتے ہیں : ابوسلام نے اسی طرح مجھ سے ابوامامہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے، البتہ نادانستہ مجھ سے جو بھول ہوگئی ہو تو اس کے لیے میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع ہوتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١١٩ (٣٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٢ (٨٣٢) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٩ (٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٢ (١٣٦٤) ، مسند احمد (٤/١١١، ١١٤) (صحیح) دون قوله : ” جوف الليل “ ( جوف اللیل کا لفظ ثابت نہیں ہے )
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کے غلام یسار کہتے ہیں کہ مجھے ابن عمر (رض) نے فجر طلوع ہونے کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا : یسار ! رسول اللہ ﷺ باہر نکل کر آئے، اور ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے موجود لوگ غیر حاضر لوگوں کو بتادیں کہ فجر (طلوع) ہونے کے بعد فجر کی دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی نماز نہ پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٤ (٤١٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٨(٢٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣، ٥٧، ١٠٤) (صحیح )
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم ﷺ عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٣ (٥٩٣) ، والحج ٧٤ (١٦٣٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٤ (٨٣٥) ، سنن النسائی/المواقیت ٣٥ (٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٦، ١٦٠٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٤، ١٧٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٣ (١٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ وہی دو رکعتیں ہیں جن کا بیان حدیث نمبر (١٢٧٣) میں گزرا ، اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے ان کا پڑھنا اپنا معمول بنا لیا تھا، یہ صرف آپ ﷺ کی خصوصیت تھی۔
جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کے غلام ذکوان سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (خود تو) عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے اور (دوسروں کو) اس سے منع فرماتے، اور پے در پے روزے بھی رکھتے تھے اور (دوسروں کو) مسلسل روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٧٩) (ضعیف) (ابن اسحاق مدلس ہیں اور یہاں عنعنہ سے روایت ہے )
مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان
عبداللہ مزنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو ، پھر فرمایا : مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو جس کا جی چاہے ، یہ اس اندیشے سے فرمایا کہ لوگ اس کو (راتب) سنت نہ بنالیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٣٥ (١١٨٣) ، والاعتصام ٢٧ (٧٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا مسنون ہے ، یہی راجح اور قوی قول ہے۔
مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔ مختار بن فلفل کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو یہ نماز پڑھتے دیکھا تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ نے ہم کو دیکھا تو نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے منع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٥ (٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦) (صحیح )
مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں ١ ؎ کے درمیان نماز ہے، اس شخص کے لیے جو چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤ (٦٢٤) ، ١٦ (٦٢٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٦ (٨٣٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢ (١٨٥) ، سنن النسائی/الأذان ٣٩ (٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٠ (١١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٥٤، ٥٦، ٥٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٥(١٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دونوں اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہے۔
مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان
طاؤس کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے مغرب کے پہلے دو رکعت سنت پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ نماز پڑھتے کسی کو نہیں دیکھا، البتہ آپ نے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کی رخصت دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے سنا ہے کہ (ابوشعیب کے بجائے) وہ شعیب ہے یعنی شعبہ کو ان کے نام میں وہم ہوگیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧١٠٤) (ضعیف) (صحیحین میں وارد پچھلی حدیث کا معارضہ شعیب یا ابو شعیب جیسے مختلف فیہ راوی کی حدیث سے نہیں کیا جاسکتا )
چاشت کی نماز کا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی (بطور شکرانے کے) ایک صدقہ ہوتا ہے، اب اگر وہ کسی ملنے والے کو سلام کرے تو یہ ایک صدقہ ہے، کسی کو بھلائی کا حکم دے تو یہ بھی صدقہ ہے، برائی سے روکے یہ بھی صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی سے صحبت کرے تو یہ بھی صدقہ ہے البتہ ان سب کے بجائے اگر دو رکعت نماز چاشت کے وقت پڑھ لے تو یہ ان سب کی طرف سے کافی ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عباد کی روایت زیادہ کامل ہے اور مسدد نے امر و نہی کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ فلاں اور فلاں چیز بھی صدقہ ہے اور ابن منیع کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے ایک شخص اپنی (بیوی سے) شہوت پوری کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : (کیوں نہیں) اگر وہ کسی حرام جگہ میں شہوت پوری کرتا تو کیا وہ گنہگار نہ ہوتا ٢ ؎؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٦٧، ١٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نماز الضحیٰ کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں روایتوں میں اختلاف ہے، دو ، چار، آٹھ اور بارہ تک کا ذکر ہے اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ روایتوں کے اختلاف کو گنجائش پر محمول کیا جائے، اور جتنی جس کو توفیق ملے پڑھے، اس فرق کے ساتھ کہ آٹھ رکعت تک کا ذکر فعلی حدیثوں میں ہے اور بارہ کا ذکر قولی حدیث میں ہے، بعض نے اسے بدعت کہا ہے، لیکن بدعت کہنا غلط ہے، متعدد احادیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ ٢/٤٠٥) اکثر علما کے نزدیک چاشت اور اشراق کی نماز ایک ہی ہے، جو سورج کے ایک یا دو نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنے پر پڑھی جاتی ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ چاشت کی نماز اشراق کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی جب حرام جگہ سے شہوت پوری کرنے پر گنہگار ہوگا تو حلال جگہ سے پوری کرنے پر اجر و ثواب کا مستحق کیوں نہ ہوگا۔
چاشت کی نماز کا بیان
ابوالاسود الدولی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابوذر (رض) کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ نے کہا : ہر روز صبح ہوتے ہی تم میں سے ہر شخص کے جوڑ پر ایک صدقہ ہے، تو اس کے لیے ہر نماز کے بدلہ ایک صدقہ (کا ثواب) ہے، ہر روزہ کے بدلہ ایک صدقہ (کا ثواب) ہے، ہر حج ایک صدقہ ہے، اور ہر تسبیح ایک صدقہ ہے، ہر تکبیر ایک صدقہ ہے، اور ہر تحمید ایک صدقہ ہے، اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان نیک اعمال کا شمار کیا پھر فرمایا : ان سب سے تمہیں بس چاشت کی دو رکعتیں کافی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٨) (صحیح )
چاشت کی نماز کا بیان
معاذ بن انس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فجر کے بعد چاشت کے وقت تک اسی جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے پھر چاشت کی دو رکعتیں پڑھے اس دوران سوائے خیر کے کوئی اور بات زبان سے نہ نکالے تو اس کی تمام خطائیں معاف کردی جائیں گی وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٩) (ضعیف) (اس کے راوی زبَّان ضعیف ہیں )
چاشت کی نماز کا بیان
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی ادائیگی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی بیہودہ اور فضول کام نہ کرنا ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٩٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٣) (حسن )
چاشت کی نماز کا بیان
نعیم بن ہمار (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم ! اپنے دن کے شروع کی چار رکعتیں ١ ؎ ترک نہ کر کہ میں دن کے آخر تک تجھ کو کافی ہوں گا یعنی تیرا محافظ رہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، سنن النسائی/ الکبری الصلاة ٦٠ (٤٦٦، ٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٦، ٢٨٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٠ (١٤٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علماء نے ان رکعتوں کو نماز الضحیٰ پر محمول کیا ہے۔
چاشت کی نماز کا بیان
ام ہانی بنت ابی طالب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٢ (١٣٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٠) (ضعیف) (اس کے راوی عیاض ضعیف ہیں، لیکن دوسری سندوں سے ام ہانی کی صلاة الضحیٰ کی حدیث صحیح ہے ، دیکھئے اگلی حدیث )
چاشت کی نماز کا بیان
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے سوائے ام ہانی (رض) کے، انہوں نے یہ بات ذکر کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے روز ان کے گھر میں غسل فرمایا اور آٹھ رکعتیں ادا کیں، پھر اس کے بعد کسی نے آپ کو یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٢ (١١٠٣) ، والتھجد ٣١ (١١٧٦) ، والجزیة ٩ (٣١٧١) ، والغازي ٥٠ (٤٢٩٢) ، والآدب ٩٤ (٦١٥١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٣٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥ (٤٧٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٤٣ (٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٠٧) ، وقد أخرجہ : الحیض ١٦ (٣٣٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٧ (١٣٢٣) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٨ (٢٨) ، مسند احمد (٦/٣٤١، ٣٤٢، ٣٤٣، ٤٢٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٣) (صحیح )
چاشت کی نماز کا بیان
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ چاشت کی نماز پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا : کیا رسول اللہ ﷺ دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے ؟ آپ نے کہا : مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧١٧) ، سنن النسائی/الصیام ١٩ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٧١، ٢٠٤ ، ٢١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” سورة الحجرات “ سے ” سورة الناس “ تک کی سورتیں مفصل کہلاتی ہیں۔
چاشت کی نماز کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی، لیکن میں اسے پڑھتی ہوں، رسول اللہ ﷺ بسا اوقات ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی اسے محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٥ (١١٢٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/قصر الصلاة ٨ (٢٩) ، مسند احمد (٦/٨٥، ٨٦، ١٦٧، ١٦٩، ٢٢٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٢ (١٤٩) (صحیح )
چاشت کی نماز کا بیان
سماک کہتے ہیں میں نے جابر بن سمرہ (رض) سے پوچھا : کیا آپ رسول اللہ ﷺ کی مجالست (ہم نشینی) کرتے تھے ؟ آپ نے کہا : ہاں اکثر (آپ کی مجلسوں میں رہتا تھا) ، آپ ﷺ جس جگہ نماز فجر ادا کرتے، وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک سورج نکل نہ آتا، جب سورج نکل آتا تو آپ (نماز اشراق کے لیے) کھڑے ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٢ (٦٧٠) ، والفضائل ١٧ (٢٣٢٢) ، سنن النسائی/السھو ٩٩ (١٣٥٩، ١٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٥ (٥٨٥) ، مسند احمد (٥/٩١، ٩٧، ١٠٠، ٠١ ١، ١٠٥، ١٠٧) (صحیح )
دن کی نماز کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٠١ (٥٩٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٤ (١٦٦٧) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ١٧٢ (١٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦، ٥١) ، سنن الدارمی/ الصلاة ١٥٥(١٥٠٠) (صحیح )
دن کی نماز کا بیان
مطلب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو : اے اللہ ! اے اللہ ! ، جس نے ایسا نہیں کیا یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے ۔ ابوداؤد سے رات کی نماز دو دو رکعت ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : چاہو تو دو دو پڑھو اور چاہو تو چار چار۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٢ (١٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٧) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن نافع مجہول ہیں )
صلوٰةالتسبیح کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس بن عبدالمطلب (رض) سے فرمایا : اے عباس ! اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو عطا نہ کروں ؟ کیا میں آپ کو بھلائی نہ پہنچاؤں ؟ کیا میں آپ کو نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو دس ایسی باتیں نہ بتاؤں جب آپ ان پر عمل کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے، نئے پرانے، جانے انجانے، چھوٹے بڑے، چھپے اور کھلے، سارے گناہ معاف کر دے گا، وہ دس باتیں یہ ہیں : آپ چار رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور کوئی ایک سورة پڑھیں، جب پہلی رکعت کی قرآت کرلیں تو حالت قیام ہی میں پندرہ مرتبہ سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر کہیں، پھر رکوع کریں تو یہی کلمات حالت رکوع میں دس بار کہیں، پھر جب رکوع سے سر اٹھائیں تو یہی کلمات دس بار کہیں، پھر جب سجدہ میں جائیں تو حالت سجدہ میں دس بار یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے سر اٹھائیں تو یہی کلمات دس بار کہیں، پھر (دوسرا) سجدہ کریں تو دس بار کہیں اور پھر جب (دوسرے) سجدے سے سر اٹھائیں تو دس بار کہیں، تو اس طرح یہ ہر رکعت میں پچہتر بار ہوا، یہ عمل آپ چاروں رکعتوں میں کریں، اگر پڑھ سکیں تو ہر روز ایک مرتبہ اسے پڑھیں، اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھ لیں، ایسا بھی نہ کرسکیں تو ہر مہینے میں ایک بار، یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک بار اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر عمر بھر میں ایک بار پڑھ لیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٠ (١٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٣٨) (صحیح )
صلوٰةالتسبیح کا بیان
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے جسے شرف صحبت حاصل تھا حدیث بیان کی ہے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عبداللہ بن عمرو (رض) تھے، انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کل تم میرے پاس آنا، میں تمہیں دوں گا، عنایت کروں گا اور نوازوں گا ، میں سمجھا کہ آپ مجھے کوئی عطیہ عنایت فرمائیں گے (جب میں کل پہنچا تو) آپ ﷺ نے فرمایا : جب سورج ڈھل جائے تو کھڑے ہوجاؤ اور چار رکعت نماز ادا کرو ، پھر ویسے ہی بیان کیا جیسے اوپر والی حدیث میں گزرا ہے، البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ : پھر تم سر اٹھاؤ یعنی دوسرے سجدے سے تو اچھی طرح بیٹھ جاؤ اور کھڑے مت ہو یہاں تک کہ دس دس بار تسبیح و تحمید اور تکبیر و تہلیل کرلو پھر یہ عمل چاروں رکعتوں میں کرو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اہل زمین میں سب سے بڑے گنہگار ہو گے تو بھی اس عمل سے تمہارے گناہوں کی بخشش ہوجائے گی ، میں نے عرض کیا : اگر میں اس وقت یہ نماز ادا نہ کرسکوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو رات یا دن میں کسی وقت ادا کرلو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حبان بن ہلال : ہلال الرای کے ماموں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے مستمر بن ریان نے ابوالجوزاء سے انہوں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کیا ہے۔ نیز اسے روح بن مسیب اور جعفر بن سلیمان نے عمرو بن مالک نکری سے، عمرو نے ابوالجوزاء سے ابوالجوزاء نے ابن عباس (رض) سے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، البتہ راوی نے روح کی روایت میں فقال حديث عن النبي ﷺ (تو ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کی) کے جملے کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٦) (حسن صحیح )
صلوٰةالتسبیح کا بیان
عروہ بن رویم کہتے ہیں کہ مجھ سے انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جعفر سے یہی حدیث بیان فرمائی، پھر انہوں نے انہی لوگوں کی طرح ذکر کیا، البتہ اس میں ہے : پہلی رکعت کے دوسرے سجدہ میں بھی یہی کہا جیسے مہدی بن میمون کی حدیث میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٩٤، ١٥٦٣٦) (صحیح )
مغرب کے بعد دو رکعت کہاں پڑھنا چاہیے
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بنو عبدالاشہل کی مسجد میں آئے اور اس میں مغرب ادا کی، جب لوگ نماز پڑھ چکے تو آپ نے ان کو دیکھا کہ نفل پڑھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو گھروں کی نماز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٧ (الجمعة ٧١) (٦٠٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١ (١٦٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٧) (حسن )
مغرب کے بعد دو رکعت کہاں پڑھنا چاہیے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کے بعد کی دونوں رکعتوں میں لمبی قرآت فرماتے یہاں تک کہ مسجد کے لوگ متفرق ہوجاتے (یعنی سنتیں پڑھ پڑھ کر چلے جاتے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نصر مجدر نے یعقوب قمی سے اسی کے مثل روایت کی ہے اور اسے مسند قرار دیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم سے اسے محمد بن عیسیٰ بن طباع نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ہم سے نصر مجدر نے بیان کیا ہے وہ یعقوب سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٤٦٨، ١٨٦٧٧) (ضعیف) (اس کے راوی یعقوب بن عبد اللہ قمی اور جعفر دونوں میں کلام ہے ، نیز ان کی یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے )
مغرب کے بعد دو رکعت کہاں پڑھنا چاہیے
اس طریق سے بھی سعید بن جبیر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث مرسلاً روایت کی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے محمد بن حمید کو کہتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے : میں نے یعقوب کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ تمام روایتیں جن کو میں نے تم لوگوں سے جعفر عن سعيد بن جبير عن النبي ﷺ کے طریق سے بیان کیا ہے، وہ مسند ہیں، سعید نے یہ روایتیں ابن عباس (رض) سے، اور ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٦٨، ١٨٦٧٧) (ضعیف )
عشاء کی سنتوں کا بیان
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ عشاء پڑھنے کے بعد جب بھی میرے پاس آئے تو آپ نے چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھیں، ایک بار رات کو بارش ہوئی تو ہم نے آپ کے لیے ایک چمڑا بچھا دیا، گویا میں اس میں (اب بھی) وہ سوراخ دیکھ رہی ہوں جس سے پانی نکل کر اوپر آ رہا تھا لیکن میں نے آپ کو مٹی سے اپنے کپڑے بچاتے بالکل نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٨) (ضعیف) (اس کے راوی مقاتل لین الحدیث ہیں )
تہجد کی فرضیت کا منسوخ ہونا اور اس میں سہولت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں سورة مزمل کی آیت قم الليل إلا قليلا، نصفه ١ ؎ رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی رات یعنی آدھی رات کو دوسری آیت علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرء وا ما تيسر من القرآن ٢ ؎ اسے معلوم ہے کہ تم اس کو پورا نہ کرسکو گے لہٰذا اس نے تم پر مہربانی کی، لہٰذا اب تم جتنی آسانی سے ممکن ہو (نماز میں) قرآن پڑھا کرو نے منسوخ کردیا ہے،ناشئة الليل کے معنی شروع رات کے ہیں، چناچہ صحابہ کی نماز شروع رات میں ہوتی تھی، اس لیے کہ رات میں جو قیام اللہ نے تم پر فرض کیا تھا اس کی ادائیگی اس وقت آسان اور مناسب ہے کیونکہ انسان سو جائے تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کب جاگے گا اور أقوم قيلا سے مراد یہ ہے رات کا وقت قرآن سمجھنے کے لیے بہت اچھا وقت ہے اور اس کے قول إن لک في النهار سبحا طويلا ٣ ؎ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے کام کاج کے واسطے دن کو بہت فرصت ہوتی ہے (لہٰذا رات کا وقت عبادت میں صرف کیا کرو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : سورة المزمل : (٢، ٣) ٢ ؎ : سورة المزمل : (٢٠) ٣ ؎ : سورة المزمل : ( ٧ )
تہجد کی فرضیت کا منسوخ ہونا اور اس میں سہولت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب سورة مزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو لوگ رات کو (نماز میں) کھڑے رہتے جتنا کہ رمضان میں کھڑے رہتے ہیں، یہاں تک کہ سورة کا آخری حصہ نازل ہوا، ان دونوں کے درمیان ایک سال کا وقفہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٧٨) (صحیح )
تہجد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شیطان تم میں سے ہر ایک کی گدی پر رات کو سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر تھپکی دے کر کہتا ہے : ابھی لمبی رات پڑی ہے، سو جاؤ، اب اگر وہ جاگ جائے اور اللہ کا ذکر کرے تو اس کی ایک گرہ کھل جاتی ہے، اور اگر وہ وضو کرلے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، اور اگر نماز پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے، اب وہ صبح اٹھتا ہے تو چستی اور خوش دلی کے ساتھ اٹھتا ہے ورنہ سستی اور بددلی کے ساتھ صبح کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٢ (١١٤٢) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦٠٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٤ (١٣٢٩) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٥ (٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٢٥٣، ٢٥٩) (صحیح )
تہجد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں تہجد (قیام اللیل) نہ چھوڑو کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں چھوڑتے تھے، جب آپ بیمار یا سست ہوتے تو بیٹھ کر پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٦، ٢٤٩) (صحیح )
تہجد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦١١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٥ (١٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦) (حسن صحیح) ویأتی ہذا الحدیث برقم (١٤٥٠ ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ پانی چھڑکنے سے وہ جاگ جائے گا اور نماز ادا کرے گا تو وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی۔
تہجد کا بیان
ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی کو رات میں جگائے اور وہ دونوں نماز پڑھیں تو وہ دونوں ذاکرین اور ذاکرات میں لکھے جاتے ہیں ۔ ابن کثیر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور نہ اس میں ابوہریرہ (رض) کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے اسے ابوسعید (رض) کا کلام قرار دیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن مہدی نے سفیان سے روایت کیا ہے اور میرا گمان ہے کہ اس میں انہوں نے ابوہریرہ (رض) کا بھی ذکر کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سفیان کی حدیث موقوف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٥ (١٣٣٥) ویأتی ہذا الحدیث برقم (١٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری / التفسیر (١١٤٠٦) (صحیح )
نماز میں نیند آنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند چلی جائے، کیونکہ اگر وہ اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو شاید وہ استغفار کرنے چلے لیکن خود کو وہ بد دعا کر بیٹھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٣ (٢١٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٤٦ (٣٥٥) ، سنن النسائی/الطھارة ١١٧ (١٦٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٤ (١٣٧٠) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ١ (٣) ، مسند احمد (٦/٥٦، ٢٠٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٧(١٤٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلا اللهم اغفر کے بجائے اس کی زبان سے اللهم اعفر نکلے۔
نماز میں نیند آنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی رات میں (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑا ہو اور قرآن اس کی زبان پر لڑکھڑانے لگے اور وہ نہ سمجھ پائے کہ کیا کہہ رہا ہے تو اسے چاہیئے کہ سو جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٢١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٤ (١٣٧٢) ، مسند احمد (٢/٢١٨) (صحیح )
نماز میں نیند آنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی ہے، پوچھا : یہ رسی کیسی بندھی ہے ؟ ، عرض کیا گیا : یہ حمنہ بنت حجش (رض) کی ہے، وہ نماز پڑھتی ہیں اور جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جتنی طاقت ہو اتنی ہی نماز پڑھا کریں، اور جب تھک جائیں تو بیٹھ جائیں ۔ زیاد کی روایت میں یوں ہے : آپ نے پوچھا یہ رسی کیسی ہے ؟ لوگوں نے کہا : زینب (رض) کی ہے، وہ نماز پڑھا کرتی ہیں، جب سست ہوجاتی ہیں یا تھک جاتی ہیں تو اس کو تھام لیتی ہیں، آپ نے فرمایا : اسے کھول دو ، تم میں سے ہر ایک کو اسی وقت تک نماز پڑھنا چاہیئے جب تک نشاط رہے، جب سستی آنے لگے یا تھک جائے تو بیٹھ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التھجد ١٨ (١١٥٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٤ (١٣٧١) ، مسند احمد (٣/١٠١، ١٨٤، ٢٠٤، ٢٠٥) (صحیح) دون ذکر حمنة
جس شخص کا وظیفہ ناغہ ہوجائے تو وہ کیا کرے
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے سنا، وہ کہہ رہے تھے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص اپنا پورا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو جائے پھر اسے صبح اٹھ کر فجر اور ظہر کے درمیان میں پڑھ لے تو اسے اسی طرح لکھا جائے گا گویا اس نے اسے رات ہی کو پڑھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩١ (الجمعة ٥٦) (٥٨١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٥٦ (١٧٩١، ١٧٩٢، ١٧٩٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٧ (١٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٣ (٣) ، مسند احمد (١/٣٢، ٥٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٧ (١٥١٨) (صحیح )
جس نے رات کو تہجد کے لئے اٹھنے کی نیت کی اور پھر نہ اٹھ سکا
سعید بن جبیر نے ایک ایسے شخص سے جو ان کے نزدیک پسندیدہ ہے روایت کی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شخص جو رات کو تہجد پڑھتا ہو اور کسی رات اس پر نیند غالب آجائے (اور وہ نہ اٹھ سکے) تو اس کے لیے نماز کا ثواب لکھا جائے گا، اس کی نیند اس پر صدقہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٥٢ (١٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ صلاة اللیل ١ (١) ، مسند احمد (٦/٦٣، ٧٢، ١٨٠) (صحیح )
عبادت کے لئے رات کا کون سا حصہ افضل ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارا رب ہر رات جس وقت رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا پر اترتا ہے ١ ؎، پھر فرماتا ہے : کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں ؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٤ (١١٤٥) ، والدعوات ١٤ (٦٣٢١) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٤ (٧٥٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٢ (٤٤٦) ، والدعوات ٧٩ (٣٤٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٢ (١٣٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٣، (صحیح) ١٥٢٤١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ القرآن ٨ (٣٠) ، مسند احمد (٢/٢٦٤، ٢٦٧، ٢٨٣، ٤١٩، ٤٨٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٨ (١٥١٩) ، ویأتي برقم (٤٧٣٣ ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے اللہ رب العزت کے لئے نزول کی صفت ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول سے اس سلسلے میں ثابت ہے اس پر ہم صدق دل سے ایمان لے آئیں اور ان صفات کا نہ تو انکار کریں، اور نہ ان کے حقیقی معانی کو معطل کریں، اور نہ ہی کسی صفت کو کسی مخلوق کی صفت کے مشابہ قرار دیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ليس کمثله شيئ وهو السميع البصير۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا حکم اترتا ہے، لیکن یہ سراسر غلط ہے، یہ تاویل کسی طور سے بھی حدیث کے الفاظ کے ساتھ میل نہیں کھاتی ، کیوں کہ اگر رحمت اترتی یا حکم اترتا تو وہ یہ کیسے کہتا کہ ” جو مجھ سے دعا کرے گا میں اسے قبول کروں گا، جو مانگے گا میں دوں گا، جو استغفار کرے گا میں اس کی مغفرت کروں گا “ ، یہ تو خاص شان کبریائی ہے ، دوسرے یہ کہ اللہ کی رحمت ہر جگہ موجود ہے ورحمتي وسعت کل شيئ تو خاص تہائی رات میں نزول (اترنے) کے کیا معنیٰ ؟ ! تیسرے یہ کہ رحمت اتر کر آسمان دنیا ہی پر رہ گئی تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوا ! اگر ہم تک آتی تو ہمیں فائدہ پہنچتا، اس لئے بہتر طریقہ وہی ہے جو محققین اہل سنت و اہل حدیث کا ہے کہ اس قسم کی حدیثیں یا آیتیں جن میں اللہ جل جلالہ کی صفات مذکور ہیں جیسے : اترنا، چڑھنا، ہنسنا، تعجب کرنا، دیکھنا، سننا، عرش کے اوپر ہونا، وغیرہ وغیرہ، ان سب صفات و افعال باری تعالیٰ کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، لیکن یہ مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ رات کو جگا دیتا پھر صبح نہ ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ اپنے معمول سے فارغ ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٧٩٢) (حسن )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا : میں نے ان سے کہا : آپ کس وقت نماز پڑھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : جب آپ مرغ کی بانگ سنتے تو اٹھ کر کھڑے ہوجاتے اور نماز شروع کردیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٧ (١١٣٢) ، والرقاق ١٨ (٦٤٦١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٨ (١٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٠، ١٤٧، ٢٠٣، ٢٧٩) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں صبح ہوتی تو آپ یعنی نبی اکرم ﷺ میرے پاس سوئے ہوئے ہی ملتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٧ (١١٣٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٦ (١١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧٠) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ نماز پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ نماز کی برکت سے وہ پریشانی دور ہوجائے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات گزارتا تھا، آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کردیتا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مانگو مجھ سے ، میں نے عرض کیا : میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے علاوہ اور کچھ ؟ ، میں نے کہا : بس یہی، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے (یعنی نماز پڑھ کر) میری مدد کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٦ (٣٤١٦) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٩ (١١٣٩) ، و قیام اللیل ٩ (١٦١٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٤١٦، ٣٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٥٧) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے تتجا فى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون ان کے پہلو بچھونوں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈر اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں (سورۃ السجدۃ : ١٦) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان جاگتے اور نماز پڑھتے ہیں۔ حسن کہتے ہیں : اس سے مراد تہجد پڑھنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٢١٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٣٣ (٣١٩٦) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کے لئے رات میں کس وقت اٹھتے تھے
انس (رض) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کانوا قليلا من الليل ما يهجعون وہ رات کو بہت تھوڑا سویا کرتے تھے (سورۃ الذاریات : ١٧) کے بارے میں روایت ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے تھے۔ یحییٰ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ تتجافى جنوبهم سے بھی یہی مراد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣) (صحیح )
رات کی نماز میں اولاً دو رکعت پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی رات کو اٹھے تو دو ہلکی رکعتیں پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٨) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٧٩، ٣٩٩) (صحیح) (آگے کے ابوداود کے تبصرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرفوع قولی کی جگہ ابوہریرہ (رض) پر وقف زیادہ صحیح ہے، نیز صحیح مسلم وغیرہ میں رسول ﷺ کے فعل سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود : ٢ ؍ ٥٩- ٦٠ ) وضاحت : ١ ؎ : غالبا ً اس سے تحیۃ الوضو مراد ہے، یعنی پہلے یہ دونوں رکعتیں پڑھ لے ، پھر تہجد شروع کرے، یا یہ تہجد ہی کی نماز ہے، مگر ابتداء ہلکی سے شروع کرے، دوسری روایت میں ہے ثم ليطول بعد ما شاء یعنی پھر اس کے بعد جتنی چاہے لمبی کرے۔
رات کی نماز میں اولاً دو رکعت پڑھنے کا بیان
اس طریق سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے : پھر اس کے بعد جتنا چاہے طویل کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حماد بن سلمہ، زہیر بن معاویہ اور ایک جماعت نے ہشام سے انہوں نے محمد سے روایت کیا ہے اور اسے لوگوں نے ابوہریرہ (رض) پر موقوف قرار دیا ہے، اور اسی طرح اسے ایوب اور ابن عون نے روایت کیا ہے اور ابوہریرہ (رض) پر موقوف قرار دیا ہے، نیز اسے ابن عون نے محمد سے روایت کیا ہے اس میں ہے : ان دونوں رکعتوں میں تخفیف کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٤٥٧٦) (صحیح) (ابوہریرہ (رض) کا موقوف قول صحیح ہے )
رات کی نماز میں اولاً دو رکعت پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن حبشی خثعمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (نماز میں) دیر تک کھڑے رہنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٤٩ (٢٥٢٧) ، والإیمان وشرا ئعہ ١ (٤٩٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٥ (١٤٦٤) ، ویأتي برقم : (١٤٤٩) (صحیح) بلفظ أي الصلاة وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک لمبی نماز پڑھنی زیادہ رکعتیں پڑھنے سے افضل اور بہتر ہے، قیام کو لمبا کرنا کثرت سجود سے افضل اور بہتر ہے۔
رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، جب تم میں سے کسی کو یہ ڈر ہو کہ صبح ہوجائے گی تو ایک رکعت اور پڑھ لے، یہ اس کی ساری رکعتوں کو جو اس نے پڑھی ہیں طاق (وتر) کر دے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٤ (٤٧٣) ، والوتر ١ (٩٩٠) ، والتہجد ١٠ (١١٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠(٧٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٠ (٤٣٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧١ (١٣٢٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٦ (١٦٦٨) ، ٣٥ (١٦٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥، ٩، ١٠، ٤٩، ٥٤، ٦٦) ، وانظر ایضًا رقم : (١٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلہ میں اختلاف ہے کہ نفل نماز کیسے پڑھی جائے، امام شافعی کی رائے صحیح ہے کہ نفل نماز دو دو کر کے پڑھنا افضل ہے، خواہ دن کی نماز ہو یا رات کی، ان کی دلیل صلا ۃ اللیل والنہار مثنی مثنی والی حدیث ہے جو صحیح ہے، دو دو رکعت کرکے پڑھنے میں بہت سے فوائد ہیں، اس میں دعا ، درود وسلام کی زیادتی ہے، نیز جماعت میں شامل ہونے کے لئے نماز درمیان سے چھوڑنی نہیں پڑتی وغیرہ وغیرہ، ایسے چار چار کرکے پڑھنا بھی جائز ہے۔
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ کی قرآت اتنی اونچی آواز سے ہوتی کہ آنگن میں رہنے والے کو سنائی دیتی اور حال یہ ہوتا کہ آپ اپنے گھر میں (نماز پڑھ رہے) ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل (٣٢١) ، مسند احمد ١/٢٧١، (تحفة الأشراف : ٦١٧٧) (حسن صحیح )
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رات میں نبی اکرم ﷺ کی قرآت کبھی بلند آواز سے ہوتی تھی اور کبھی دھیمی آواز سے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٢) (حسن )
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک رات باہر نکلے تو دیکھا کہ ابوبکر (رض) نماز پڑھ رہے ہیں اور پست آواز سے قرآت کر رہے ہیں، پھر آپ ﷺ عمر کے پاس سے گزرے اور وہ بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے، جب دونوں (ابوبکر و عمر) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! میں تمہارے پاس سے گزرا اور دیکھا کہ تم دھیمی آواز سے نماز پڑھ رہے ہو ، آپ نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! میں نے اس کو (یعنی اللہ تعالیٰ کو) سنا دیا ہے، جس سے میں سرگوشی کر رہا تھا، اور آپ ﷺ نے عمر (رض) سے کہا : میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے ، تو انہوں نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ حسن بن الصباح کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کرلو ، اور عمر (رض) سے کہا : تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٣ (٤٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤٦٥، ١٢٠٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها وابتغ بين ذلک سبيلا (سورۃ الاسراء : ١١٠) ” نہ بلند آواز سے اور نہ ہی چپکے چپکے پڑھ بلکہ بیچ کی راہ تلاش کر “۔
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
ابوہریرہ (رض) سے بھی یہی واقعہ مرفوعاً مروی ہے اس میں فقال لأبي بكر : ارفع من صوتک شيئًا ولعمر اخفض شيئًا کے جملہ کا ذکر نہیں اور یہ اضافہ ہے : اے بلال ! میں نے تم کو سنا ہے کہ تم تھوڑا اس سورة سے پڑھتے ہو اور تھوڑا اس سورة سے ، بلال (رض) نے کہا : ایک پاکیزہ کلام ہے، اللہ بعض کو بعض کے ساتھ ملاتا ہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم سب نے ٹھیک کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٠٤) (حسن )
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رات کی نماز (تہجد) کے لیے اٹھا، اس نے قرآت کی، قرآت میں اپنی آواز بلند کی تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ فلاں شخص پر رحم فرمائے، کتنی ایسی آیتیں تھیں جنہیں میں بھول چلا تھا، اس نے انہیں آج رات مجھے یاد دلا دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ہارون نحوی نے حماد بن سلمہ سے سورة آل عمران کے سلسلہ میں روایت کی ہے کہ اللہ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے مجھے اس سورة کے بعض ایسے الفاظ یاد دلا دیے جنہیں میں بھول چکا تھا اور وہ وكأين من نبي (آل عمران : ١٤٦) والی آیت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل ٢٧ (٥٠٤٢) ، والدعوات ١٩ (٦٣٣٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٣، ( فضائل القرآن) (٧٨٨) ویأتی ہذا الحدیث برقم (٣٩٧٠) (صحیح )
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا، آپ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآت کرتے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا : لوگو ! سنو، تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو کوئی کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور نہ قرآت میں (یا کہا نماز) میں اپنی آواز کو دوسرے کی آواز سے بلند کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩٤) (صحیح )
رات کی نماز جہراً قرأت کرنا
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے اعلانیہ طور سے خیرات کرنے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے چپکے سے خیرات کرنے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٠ (٢٩١٩) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٢ (١٦٦٢) ، والزکاة ٦٨ (٢٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥١، ١٥٨، ٢٠١) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٠ (١١٤٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) سنن النسائی/قیام اللیل ٣٣ (١٦٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤٨) ، مسند احمد (٤/١٥١، ١٥٨، ٢٠١) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، جب آپ اس سے فارغ ہوجاتے تو داہنی کروٹ لیٹتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧(٧٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٣ (٤٤٠، ٤٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوتر والتھجد ٣ (١١٢٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٥ (١٦٩٧) ، ٤٤ (١٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة ١٨١ (١٣٥٨) ، حم (٦/ ٣٤، ٣٥، ٨٣، ١٤٣، ١٦٧، ١٦٨، ١٨٢، ٢١٥، ٢٢٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٥(١٥١٤) (صحیح) ( اضطجاع یعنی دائیں کروٹ پر صلاة وتر سے فارغ ہو کر لیٹنے کا ٹکڑا شاذ ہے ) ۔
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے فارغ ہو کر فجر کی پو پھوٹنے تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر کی پڑھتے، اپنے سجدوں میں اتنا ٹھہرتے کہ تم میں سے کوئی اتنی دیر میں سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، جب مؤذن فجر کی پہلی اذان کہہ کر خاموش ہوتا تو آپ کھڑے ہوتے اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن (بلانے کے لے) آتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الأذان ٤١ (٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨١ (١٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٥، ١٦٦١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٢٦) ، والوتر ٩٩٤) ، والتہجد ٣ (١١٢٣) ، و ٢٣ (١١٦٠) ، والدعوات ٥ (٦٣١٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٦) ، سنن ابن ماجہ/اقامة الصلاة ١٢٦ (١١٩٨) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٧٤، ٨٣، ١٤٣، ١٦٧، ٢١٥، ٢٤٨، ٢٥٤) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٧ (١٤٨٦) ، ١٦٥ (١٥١٤، ١٥١٥) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اس طریق سے بھی ابن شہاب زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھتے اور اتنی دیر تک سجدہ کرتے جتنی دیر میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں (رکوع سے) سر اٹھانے سے پہلے پڑھ لے، پھر جب مؤذن فجر کی اذان کہہ کر خاموش ہوتا اور فجر ظاہر ہوجاتی، آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی البتہ بعض کی روایتوں میں بعض پر کچھ اضافہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٦) ، سنن النسائی/الأذان ٤١ (٦٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٣، ١٦٧٠٤، ١٦٦١٨) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو میں تیرہ رکعتیں پڑھتے اور انہیں پانچ رکعتوں سے طاق بنا دیتے، ان پانچ رکعتوں میں سوائے قعدہ اخیرہ کے کوئی قعدہ نہیں ہوتا پھر سلام پھیر دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن نمیر نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٢٩٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/لمسافرین ١٧ (٧٣٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٩ (١٧١٨) ، مسند احمد (٦/ ١٢٣، ١٦١، ٢٠٥) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے پھر جب فجر کی اذان سنتے تو ہلکی سی دو رکعتیں اور پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٧ (١١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٤ (١٦٠٥) ، مسند احمد (٦/ ١٧٧) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے (پہلے) آٹھ رکعتیں پڑھتے (پھر) ایک رکعت سے وتر کرتے، مسلم بن ابراہیم کی روایت میں بعد الوتر وتر کے بعد کے الفاظ بھی ہیں (پھر موسیٰ اور مسلم ابن ابراہیم دونوں متفق ہیں کہ) دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے پھر رکوع کرتے اور دو رکعتیں فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) ، وانظر ایضا رقم : (١٣٣٨، ١٣٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٨١) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز (تہجد) کیسے ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ١ ؎، آپ چار رکعتیں پڑھتے، ان رکعتوں کی خوبی اور لمبائی کو نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں پڑھتے، ان کے بھی حسن اور لمبائی کو نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں پڑھتے، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٦(١١٤٧) ، والتراویح ١ (٢٠١٣) ، والمناقب ٢٤ (٣٥٦٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٩ (٤٣٩) ، موطا امام مالک/صلاٰة اللیل ٢(٩) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٧٣، ١٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آٹھ رکعتیں تہجد یا تراویح کی اور تین وتر کی۔ ٢ ؎ : یعنی میرا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اس وجہ سے سونے سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا ، میرا وضو اس سے نہیں ٹوٹتا، یہ بات آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے تھی۔
تہجد کی رکعتوں کا بیان
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر میں مدینہ آیا تاکہ اپنی ایک زمین بیچ دوں اور اس سے ہتھیار خرید لوں اور جہاد کروں، تو میری ملاقات نبی اکرم ﷺ کے چند صحابہ سے ہوئی، ان لوگوں نے کہا : ہم میں سے چھ افراد نے ایسا ہی کرنے کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا : تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ، تو میں ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا، آپ نے کہا : میں ایک ایسی ذات کی جانب تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والی ہے، تم ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس جاؤ۔ چناچہ میں ان کے پاس چلا اور حکیم بن افلح سے بھی ساتھ چلنے کو کہا، انہوں نے انکار کیا تو میں نے ان کو قسم دلائی، چناچہ وہ میرے ساتھ ہو لیے (پھر ہم دونوں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے گھر پہنچے) ، ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہوں نے پوچھا : کون ہو ؟ کہا : حکیم بن افلح، انہوں نے پوچھا : تمہارے ساتھ کون ہے ؟ کہا : سعد بن ہشام، پوچھا : عامر کے بیٹے ہشام جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے ؟ میں نے عرض کیا : ہاں، وہ کہنے لگیں : عامر کیا ہی اچھے آدمی تھے، میں نے عرض کیا : ام المؤمنین مجھ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کا حال بیان کیجئے، انہوں نے کہا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ رسول اللہ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا، میں نے عرض کیا : آپ کی رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں کچھ بیان کیجئیے، انہوں نے کہا : کیا تم سورة يا أيها المزمل نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا : جب اس سورة کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کے پیروں میں ورم آگیا اور سورة کی آخری آیات آسمان میں بارہ ماہ تک رکی رہیں پھر نازل ہوئیں تو رات کی نماز نفل ہوگئی جب کہ وہ پہلے فرض تھی، وہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں بیان کیجئیے، انہوں نے کہا : آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اور آٹھویں رکعت کے بعد پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے، اس طرح آپ آٹھویں اور نویں رکعت ہی میں بیٹھتے اور آپ نویں رکعت کے بعد ہی سلام پھیرتے اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، اس طرح یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، میرے بیٹے ! پھر جب آپ ﷺ سن رسیدہ ہوگئے اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعتوں سے وتر کرنے لگے، اب صرف چھٹی اور ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور ساتویں میں سلام پھیرتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کرتے، اس طرح یہ کل نو رکعتیں ہوتیں، میرے بیٹے ! اور رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی رات کو (لگاتار) صبح تک قیام ١ ؎ نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی ایک رات میں قرآن ختم کیا، اور نہ ہی رمضان کے علاوہ کبھی مہینہ بھر مکمل روزے رکھے، اور جب بھی آپ ﷺ کوئی نماز پڑھتے تو اس پر مداومت فرماتے، اور جب رات کو آنکھوں میں نیند غالب آجاتی تو دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں : میں ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! حدیث یہی ہے، اگر میں ان سے بات کرتا تو میں ان کے پاس جا کر خود ان کے ہی منہ سے بالمشافہہ یہ حدیث سنتا، میں نے ان سے کہا : اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان سے بات نہیں کرتے ہیں تو میں آپ سے یہ حدیث بیان ہی نہیں کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٦) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ٢ (١٦٠٢) ، ١٧ (١٦٤٢) ، ١٨ (١٦٥٢) ، ٤٢ (١٧٢١) ، ٤٣ (١٧٢٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٦ (٤٤٥ مختصراً ) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٣ (١١٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٣، ٩٤، ١٠٩، ١٦٣، ١٦٨، ٢٣٨، ٢٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی رات بھر عبادت نہیں کی بلکہ درمیان میں آرام بھی فرماتے تھے۔
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اس طریق سے بھی قتادہ سے سابقہ سند سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ آٹھ رکعت پڑھتے تھے اور صرف آٹھویں رکعت ہی میں بیٹھتے تھے اور جب بیٹھتے تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے پھر دعا مانگتے پھر سلام ایسے پھیرتے کہ ہمیں بھی سنا دیتے، سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے، اے میرے بیٹے ! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوئیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ بوڑھے ہوگئے اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے اور سلام پھیرنے کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر ادا کرتے ، پھر اسی مفہوم کی روایت لفظ مشافهة تک ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٤) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اس سند سے بھی سعید نے یہی حدیث بیان کی ہے اس میں ہے : آپ اپنا سلام ہمیں سناتے جیسا کہ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٤) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اس سند سے بھی سعید نے یہی حدیث روایت کی ہے ابن بشار نے یحییٰ بن سعید کی طرح حدیث نقل کی مگر اس میں ويسلم تسليمة يسمعنا کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٤) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
زرارہ بن اوفی سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز (تہجد) کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ عشاء جماعت کے ساتھ پڑھتے پھر اپنے گھر والوں کے پاس واپس آتے اور چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر جاتے اور سو جاتے، آپ ﷺ کے سرہانے آپ کے وضو کا پانی ڈھکا رکھا ہوتا اور مسواک رکھی ہوتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا آپ کو اٹھا دیتا تو آپ (اٹھ کر) مسواک کرتے اور پوری طرح سے وضو کرتے، پھر اپنی جائے نماز پر کھڑے ہوتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، ان میں سے ہر رکعت میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ قرآن کی کوئی سورة اور جو اللہ کو منظور ہوتا پڑھتے اور کسی رکعت کے بعد نہیں بیٹھتے یہاں تک کہ جب آٹھویں رکعت ہوجاتی تو قعدہ کرتے اور سلام نہیں پھیرتے بلکہ نویں رکعت پڑھتے پھر قعدہ کرتے، اور اللہ جو دعا آپ سے کروانا چاہتا، کرتے اور اس سے سوال کرتے اور اس کی طرف متوجہ ہوتے اور ایک سلام پھیرتے اس قدر بلند آواز سے کہ قریب ہوتا کہ گھر کے لوگ جاگ جائیں، پھر بیٹھ کر سورة فاتحہ کی قرآت کرتے اور رکوع بھی بیٹھ کر کرتے، پھر دوسری رکعت پڑھتے اور بیٹھے بیٹھے رکوع اور سجدہ کرتے، پھر اللہ جتنی دعا آپ سے کروانا چاہتا کرتے پھر سلام پھیرتے اور نماز سے فارغ ہوجاتے، رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کا معمول یہی رہا، یہاں تک کہ آپ موٹے ہوگئے تو آپ نے نو میں سے دو رکعتیں کم کردیں اور اسے چھ اور سات رکعتیں کرلیں اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، وفات تک آپ کا یہی معمول رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣٦) (صحیح) (پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں بظاہر زرارہ اور عائشہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے ، دراصل دونوں کے درمیان سعد بن ہشام کے ذریعہ یہ سند بھی متصل ہے )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
یزید بن ہارون کہتے ہیں : ہمیں بہز بن حکیم نے خبر دی ہے پھر انہوں نے یہی حدیث اسی سند سے ذکر کی، اس میں ہے : آپ عشاء پڑھتے پھر اپنے بستر پر آتے، انہوں نے چار رکعت کا ذکر نہیں کیا ، آگے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے : پھر آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اور ان میں قرآت، رکوع اور سجدہ میں برابری کرتے اور ان میں سے کسی میں نہیں بیٹھتے سوائے آٹھویں کے، اس میں بیٹھتے تھے پھر کھڑے ہوجاتے اور ان میں سلام نہیں پھیرتے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کو طاق کردیتے پھر سلام پھیرتے اس میں اپنی آواز بلند کرتے یہاں تک کہ ہمیں بیدار کردیتے ، پھر راوی نے اسی مفہوم کو بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٦) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : آپ لوگوں کو عشاء پڑھاتے پھر اپنے گھر والوں کے پاس آ کر چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آتے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں انہوں نے قرآت اور رکوع و سجدہ میں برابری کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ یہ ذکر کیا ہے کہ آپ اتنی بلند آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم بیدار ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣٤٦، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٦) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اس طریق سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے لیکن سند کے اعتبار سے یہ ان کی جید احادیث میں سے نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٦، ١٦١١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ابن ابی عدی، یزید بن ہارون اور مروان بن معاویہ سبھی نے اسے بہز بن حکیم سے، انہوں نے زرارہ سے زرارۃ نے عائشہ (رض) سے بغیر سعد کے واسطہ کے روایت کیا ہے، صرف حماد بن سلمہ ہی نے زرارہ اور عائشہ (رض) کے درمیان سعد بن ہشام کا واسطہ بڑھایا ہے، اور یہ واسطہ ہی صحیح ہے کیوں کہ زرارہ کے عائشہ (رض) سے سماع میں اختلاف ہے، صحیح بات یہی ہے کہ سماع ثابت نہیں ہے۔
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے، نو رکعتیں وتر کی ہوتیں، یا کچھ اسی طرح کہا اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے اور اذان و اقامت کے درمیان فجر کی دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١١٠، ١٦١١١، ١٧٧٥٥) (حسن صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نو رکعتیں وتر کی پڑھتے، پھر سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔ ان میں قرآت کرتے، جب رکوع کرنا ہوتا تو کھڑے ہوجاتے، پھر رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ دونوں حدیثیں خالد بن عبداللہ واسطی نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کی ہیں، اس میں ہے : کہ علقمہ بن وقاص نے کہا : اماں جان ! آپ ﷺ دو رکعتیں کیسے پڑھتے تھے ؟ پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤١١) ، وقدأخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٨) (حسن صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا اور ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گیا اور کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز (تہجد) کے بارے میں بتائیے، وہ بولیں : رسول اللہ ﷺ لوگوں کو عشاء پڑھاتے، پھر بستر پر آ کر سو جاتے، جب آدھی رات ہوجاتی تو قضائے حاجت اور وضو کے لیے اٹھتے اور وضو کر کے مصلیٰ پر تشریف لے جاتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، میرے خیال میں آپ ﷺ ہر رکعت میں قرآت، رکوع اور سجدہ برابر برابر کرتے، پھر ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا دیتے، پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے پھر اپنا پہلو (زمین پر) رکھتے، کبھی ایسا ہوتا کہ بلال (رض) آ کر نماز کی خبر دیتے پھر آپ ﷺ ہلکی نیند سوتے، بسا اوقات میں شبہ میں پڑجاتی کہ آپ سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، یہی آپ کی نماز (تہجد) ہے یہاں تک کہ آپ بوڑھے اور موٹے ہوگئے، پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے گوشت بڑھ جانے کا حال جو اللہ نے چاہا ذکر کیا پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/ ٩١، ٩٧، ١٦٨، ٢١٦، ٢٢٧، ٢٣٥) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سوئے تو دیکھا کہ آپ بیدار ہوئے، تو مسواک اور وضو کیا اور آیت کریمہ إن في خلق السموات والأرض ١ ؎ اخیر سورة تک پڑھی، پھر کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں قیام، رکوع اور سجدہ لمبا کیا، پھر آپ ﷺ فارغ ہوئے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، پھر آپ ﷺ نے چھ رکعتوں میں تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار مسواک کرتے اور وضو کرتے اور انہیں آیتوں کو پڑھتے تھے پھر آپ ﷺ نے وتر پڑھی۔ عثمان کی روایت میں ہے کہ وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔ پھر مؤذن آیا تو آپ نماز کے لیے نکلے۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے : پھر آپ نے وتر پڑھی، پھر آپ کے پاس بلال (رض) آئے اور جس وقت فجر طلوع ہوئی آپ کو نماز کی خبر دی تو آپ نے فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) پڑھیں۔ اس کے بعد نماز کے لیے نکلے۔ آگے دونوں کی روایتیں ایک جیسی ہیں۔ آپ (اس وقت) فرما رہے تھے : اللهم اجعل في قلبي نورا، واجعل في لساني نورا، واجعل في سمعي نورا، واجعل في بصري نورا، واجعل خلفي نورا، وأمامي نورا، واجعل من فوقي نورا، ومن تحتي نورا، اللهم وأعظم لي نورا اے اللہ ! تو نور پیدا فرما میرے دل میں، میری زبان میں، میرے کان میں، میری نگاہ میں، میرے پیچھے، میرے آگے، میرے اوپر اور میرے نیچے۔ اور اے اللہ ! میرے لیے نور کو بڑا بنا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٧) ( صحیح ) وضاحت : وضاحت : سورة آل عمران : (١٩٠) ۔
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اس طریق سے بھی حصین سے اسی جیسی روایت مروی ہے اس میں وأعظم لي نورا کا جملہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ابوخالد دالانی نے اس حدیث میں عن حبيبٍ کہا ہے اور سلمہ بن کہیل نے عن أبي رشدين عن ابن عباس کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٧) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
حدیث نمبر : 1355 فضل بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک رات گزاری تاکہ دیکھوں کہ آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں، تو آپ اٹھے اور وضو کیا، پھر دو رکعتیں پڑھیں، آپ ﷺ کا قیام آپ کے رکوع کے برابر اور رکوع سجدے کے برابر تھا، پھر آپ ﷺ سوئے رہے، پھر جاگے تو وضو اور مسواک کیا، پھر سورة آل عمران کی یہ پانچ آیتیں إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار (آل عمران : ١٩٠) اخیر تک پڑھیں اور پھر اسی طرح آپ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے دس رکعتیں ادا کیں، پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت پڑھی اور اس سے وتر (طاق) کرلیا، اس وقت مؤذن نے اذان دی، مؤذن خاموش ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ اٹھے اور ہلکی سی دو رکعتیں ادا کیں پھر بیٹھے رہے یہاں تک کہ فجر پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن بشار کی روایت کا بعض حصہ مجھ پر مخفی رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٩) (ضعیف) (اس کے راوی شریک اور زہیر میں کچھ کلام ہے )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ کے پاس رہا، شام ہوجانے کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور پوچھا : کیا بچے نے نماز پڑھ لی ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، پھر آپ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ جب رات اس قدر گزر گئی جتنی اللہ کو منظور تھی تو آپ اٹھے اور وضو کر کے سات یا پانچ رکعتیں وتر کی پڑھیں اور صرف آخر میں سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٧) ، الأذان ٥٧ (٦٩٧) ، سنن النسائی/الإمامة ٢٢ (٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٤١، ٣٥٤) ، دی/الطہارة ٣ (٦٨٤) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث (رض) کے گھر رات گزاری تو نبی اکرم ﷺ نے عشاء پڑھی پھر (گھر) تشریف لائے تو چار رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں آپ ﷺ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا آپ نے مجھے گھما کر اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا، پھر پانچ رکعتیں پڑھیں اور سو گئے یہاں تک کہ مجھے آپ ﷺ کے خراٹوں کی آواز سنائی دینے لگی، پھر آپ ﷺ اٹھے اور دو رکعتیں پڑھیں پھر نکلے اور جا کر فجر پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٤٩٦) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) نے یہ قصہ ان سے بیان کیا ہے، اس میں ہے : آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور دو دو کر کے آٹھ رکعتیں پڑھیں، پھر پانچ رکعتیں وتر کی پڑھیں اور ان کے بیچ میں بیٹھے نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٢٢ (٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٤٤) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں کو لے کر تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے : دو دو کر کے چھ رکعتیں پڑھتے اور وتر کی پانچ رکعتیں پڑھتے اور صرف ان کے آخر میں قعدہ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧٥) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے انہیں خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ رات کو فجر کی سنتوں کو لے کر کل تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : م /المسافرین ١٧ (٧٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٧١) ، مسند احمد (٦/٢٢٢) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی پھر کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں فجر کی دونوں اذانوں کے درمیان پڑھیں، انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ جعفر بن مسافر کی روایت میں ہے : اور دو رکعتیں دونوں اذانوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھیں۔ انہوں نے جالسا (بیٹھ کر) کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٢ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٥) ، وانظر حدیث رقم : (١٣٤٢) (صحیح)ورکعتين جالساً بين الأذانين خطا ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ وتر کے بعد کی دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھیں (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٥ ؍ ١٠٣- ١٠٤ )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ وتر کتنی رکعتیں پڑھتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : کبھی چار اور تین، کبھی چھ اور تین، کبھی آٹھ اور تین اور کبھی دس اور تین، کبھی بھی آپ وتر میں سات سے کم اور تیرہ سے زائد رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : احمد بن صالح نے اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ فجر سے پہلے کی رکعتوں کو وتر نہیں کرتے تھے، میں نے پوچھا : انہیں وتر کرنے کا کیا مطلب ؟ تو وہ بولیں : انہیں نہیں چھوڑتے تھے اور احمد نے چھ اور تین کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٧) ، مختصراً سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٣ (١٦٢٨٢) ، مسند احمد (٦/١٤٩) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
اسود بن یزید سے روایت ہے کہ وہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رات کو آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر گیارہ رکعتیں پڑھنے لگے اور دو رکعتیں چھوڑ دیں، پھر وفات کے وقت آپ نو رکعتیں پڑھنے لگے تھے اور آپ کی رات کی آخری نماز وتر ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٤) ( ضعیف) (اس کے راوی منصور کے حافظہ میں کچھ کمزوری ہے، نیز ابو اسحاق مختلط ہیں اور منصور کی ان سے روایت کے بارے میں پتہ نہیں کہ اختلاط سے پہلے ہے یا بعد میں )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز (تہجد) کیسے ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : ایک رات میں آپ کے پاس رہا، آپ ﷺ ام المؤمنین میمونہ کے پاس تھے، آپ سو گئے، جب ایک تہائی یا آدھی رات گزر گئی تو بیدار ہوئے اور اٹھ کر مشکیزے کے پاس گئے، جس میں پانی رکھا تھا، وضو فرمایا، میں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ وضو کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں آپ ﷺ کے بائیں پہلو میں کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کرلیا، پھر اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا جیسے آپ میرے کان مل رہے ہوں گویا مجھے بیدار کرنا چاہتے ہوں، پھر آپ ﷺ نے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں ان میں سے ہر رکعت میں آپ نے سورة فاتحہ پڑھی، پھر سلام پھیر دیا، پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ مع وتر گیارہ رکعتیں ادا کیں، پھر سو گئے، اس کے بعد بلال (رض) آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! نماز، تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارة ٣٧ (١٨٣) ، الأذان ٥٨ (٦٩٨) ، الوتر ١ (٩٩٢) ، التفسیر ١٨ (٤٥٧٠) ، ١٩ (٤٥٧١) ، ٢٠ (٤٥٧٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن الترمذی/الشمائل (٢٦٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨١ (١٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صلاة اللیل ٢ (١١) ، مسند احمد ١ (٢٢٢، ٣٥٨) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے پاس ایک رات گزاری تو نبی اکرم ﷺ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، آپ نے تیرہ رکعتیں پڑھیں، ان میں فجر کی دونوں رکعتیں بھی شامل تھیں، میرا اندازہ ہے کہ آپ ﷺ کا قیام ہر رکعت میں سورة مزمل کے بقدر ہوتا تھا ، نوح کی روایت میں یہ نہیں ہے : اس میں فجر کی دونوں رکعتیں بھی شامل تھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الإمامة ٢٢ (٨٠٧) ، والکبری/ الوتر ٥٩ (١٤٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٤) ( صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ آج رات میں رسول اللہ ﷺ کی نماز (تہجد) ضرور دیکھ کر رہوں گا، چناچہ میں آپ کی چوکھٹ یا دروازے پر ٹیک لگا کر سوئے رہا، رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں لمبی، بہت لمبی بلکہ بہت زیادہ لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں ان سے کچھ ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی کچھ ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی ہلکی پڑھیں، پھر وتر پڑھی، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٥) ، سنن الترمذی/الشمائل (٢٦٩) ، سنن النسائی/الکبری/قیام اللیل ٢٦ (١٣٣٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨١ (١٣٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٢ (١٢) ، مسند احمد (٥/١٩٢) (صحیح )
تہجد کی رکعتوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ایک رات ام المؤمنین میمونہ (رض) کے ہاں گزاری، وہ آپ کی خالہ تھیں، وہ کہتے ہیں : میں تکیے کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ اس کے طول میں لیٹیں، پھر نبی اکرم ﷺ سو گئے، جب آدھی رات یا کچھ کم و بیش گزری تو رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے منہ پر ہاتھ مل کر نیند دور کی، پھر سورة آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد اٹھے اور لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور وضو کیا اور اچھی طرح سے کیا، پھر نماز پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ ﷺ ہی کی طرح سارا کام کیا، پھر آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں اور پھر دو رکعتیں، قعنبی کی روایت میں یوں ہے : دو دو رکعتیں چھ مرتبہ پڑھیں، پھر وتر پڑھی، پھر لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن آیا تو آپ ﷺ اٹھے اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں پھر نکلے اور فجر پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٦٢) (صحیح )
نماز میں میانہ روی اختیار کرے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمل کرتے رہو جتنا تم سے ہو سکے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے) تھک جاؤ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو پابندی کے ساتھ کیا جائے اگرچہ وہ کم ہو ، چناچہ آپ ﷺ جب کوئی کام شروع کرتے تو اس پر جمے رہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٢ (٤٣) ، الأذان ٨١ (٧٣٠) ، والتھجد ١٨ (١١٥٢) ، واللباس ٤٣ (٥٨٦١) ، والرقاق ١٨ (٦٤٦٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٠ (٧٨٢) ، سنن النسائی/القبلة ١٣ (٧٦٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٦ (٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠، ٥١، ٦١، ٢٤١) (صحیح )
نماز میں میانہ روی اختیار کرے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عثمان بن مظعون (رض) کو بلا بھیجا، تو وہ آپ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : عثمان ! کیا تم نے میرے طریقے سے بےرغبتی کی ہے ؟ ، انہوں نے جواب دیا : نہیں اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم، ایسی بات نہیں، میں تو آپ ہی کی سنت کا طالب رہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تو سوتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، عثمان ! تم اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا حق ہے، لہٰذا کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو، اسی طرح نماز پڑھو اور سویا بھی کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧١٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٦، ٢٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی بہتر ہے اور بال بچوں سے کنارہ کشی اور رہبانیت اسلام کے خلاف ہے۔
آٹھویں صورت بعضوں نے کہا ہر گروہ کے ساتھ امام دو رکعتیں پڑھے
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کے عمل کا حال کیسا تھا ؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کرلیتے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ ﷺ رکھتے تھے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٨ (٦٤٦٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٠ (٧٨٣) ، سنن الترمذی/الشمائل (٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣، ٥٥، ١٧٤، ١٨٩، ٢٧٨) (صحیح )
تراویح کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے : جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ، رسول اللہ ﷺ کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر (رض) کی خلافت اور عمر (رض) کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح عقیل، یونس اور ابواویس نے من قام رمضان کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور عقیل کی روایت میں من صام رمضان وقامه ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٣) ، ٨٣ (٨٠٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣ (١٦٠٤) ، والصوم ٣٩ (٢٠٠٢) ، والإیمان ٢٢ (٢١٩٦) ، ٢٢ (٥٠٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٧، ١٥٢٧٠، ١٥٢٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، والصوم ٦ (١٩٠١) ، والتراویح ١ (٢٠٠٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٣ (١٣٢٦) ، موطا امام مالک/ الصلاة فی رمضان ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣٢، ٢٤١، ٣٨٥، ٤٧٣، ٥٠٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پھر عمر (رض) نے لوگوں کو مسجد میں ایک امام کے پیچھے جمع کردیا، اسی وجہ سے اکثر علماء نے باجماعت تراویح کو افضل کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ گھر میں اکیلے پڑھنا افضل ہے۔
تراویح کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے روزے رمضان ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے، اور جس نے شب قدر میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے بھی پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے اور محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ١ (٢٠١٤) ، سنن النسائی/الصیام ٢٢ (٢٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤١) (صحیح )
تراویح کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ ﷺ نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا : میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کردی جائے ١ ؎ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٠ (٧٢٩) ، والجمعة ٢٩(٩٢٤) ، والتہجد ٥ (١١٢٩) ، والتراویح ١ (٢٠١١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦١) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ٤ (١٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة في رمضان ١(١) ، مسند احمد (٦/١٦٩، ١٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد اب یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لئے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں تو دیگر (صحیح) روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے ان راتوں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں، اور رکعات وتر کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے، اور یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں۔
تراویح کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ لوگ رمضان میں مسجد کے اندر الگ الگ نماز پڑھا کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا، میں نے آپ کے لیے چٹائی بچھائی تو آپ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی، پھر آگے انہوں نے یہی واقعہ ذکر کیا، اس میں ہے : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اللہ کی قسم ! میں نے بحمد اللہ یہ رات غفلت میں نہیں گذاری اور نہ ہی مجھ پر تمہارا یہاں ہونا مخفی رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦٧) (حسن صحیح )
تراویح کا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے مہینے کی کسی رات میں بھی ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا یہاں تک کہ (مہینے کی) سات راتیں رہ گئیں، پھر آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یعنی تیئیسویں (٢٣) یا چوبیسویں (٢٤) رات کو یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی اور جب چھ راتیں رہ گئیں یعنی (٢٤) ویں یا (٢٥) ویں رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، اس کے بعد (٢٥) ویں یا (٢٦) ویں رات کو جب کہ پانچ راتیں باقی رہ گئیں آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس رات کاش آپ اور زیادہ قیام فرماتے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے ، پھر چھبیسویں (٢٦) یا ستائیسویں (٢٧) رات کو جب کہ چار راتیں باقی رہ گئیں آپ ﷺ نے پھر قیام نہیں کیا، پھر ستائیسویں (٢٧) یا اٹھائیسویں (٢٨) رات کو جب کہ تین راتیں باقی رہ گئیں آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ ہمیں خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا : فلاح کیا ہے ؟ ابوذر نے کہا : سحر کا کھانا، پھر آپ ﷺ نے مہینے کی بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا ١ ؎۔۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٨١ (٨٠٦) ، سنن النسائی/السہو ١٠٣ (١٣٦٥) ، قیام اللیل ٤ (١٦٠٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٣ (١٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٩، ١٦٣) ، سنن الدارمی/ الصوم ٥٤ (١٨١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر مہینہ تیس دن کا شمار کیا جائے تو سات راتیں چوبیس سے رہتی ہیں، اور اگر انتیس دن کا مانا جائے تو تیئسویں سے سات راتیں رہتی ہیں، اس حساب سے نبی اکرم ﷺ نے تیئسویں، پچسویں اور ستائسویں رات میں قیام کیا، یہ راتیں طاق بھی ہیں اور متبرک بھی، غالب یہی ہے کہ شب قدر بھی انہیں راتوں میں ہے۔
تراویح کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی اکرم ﷺ راتوں کو جاگتے اور (عبادت کے لیے) کمربستہ ہوجاتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابویعفور کا نام عبدالرحمٰن بن عبید بن نسطاس ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ٥ (٢٠٢٤) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٣ (١١٧٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٧٣ (٧٩٥) ، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥٧ (١٧٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠، ٤١) (صحیح )
تراویح کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ رمضان میں مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن یاد نہیں ہے، لہٰذا ابی بن کعب (رض) کے پیچھے یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : انہوں نے ٹھیک کیا اور ایک بہتر کام کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے اس لیے کہ مسلم بن خالد ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٠٩٤) (ضعیف) ( اس کے راوی مسلم متکلم فیہ ہیں ، مولف نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے )
شب قدر کا بیان
زر کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب (رض) سے کہا : ابومنذر ! مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے ؟ اس لیے کہ ہمارے شیخ یعنی عبداللہ بن مسعود (رض) سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : جو پورے سال قیام کرے اسے پالے گا، ابی ابن کعب (رض) نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم فرمائے، اللہ کی قسم ! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں ہے (مسدد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے لیکن انہیں یہ ناپسند تھا کہ لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں یا ان کی خواہش تھی کہ لوگ بھروسہ نہ کرلیں، (آگے سلیمان بن حرب اور مسدد دونوں کی روایتوں میں اتفاق ہے) اللہ کی قسم ! یہ رات رمضان میں ہے اور ستائیسویں رات ہے، اس سے باہر نہیں، میں نے پوچھا : اے ابومنذر ! آپ کو یہ کیوں کر معلوم ہوا ؟ انہوں نے جواب دیا : اس علامت سے جو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو بتائی تھی۔ (عاصم کہتے ہیں میں نے زر سے پوچھا : وہ علامت کیا تھی ؟ جواب دیا : اس رات (کے بعد جو صبح ہوتی ہے اس میں) سورج طشت کی طرح نکلتا ہے، جب تک بلندی کو نہ پہنچ جائے، اس میں کرنیں نہیں ہوتیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦٢) ، سنن الترمذی/الصوم ٧٣ (٧٩٣) ، سنن النسائی/الاعتکاف (٣٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣٠، ١٣١) (حسن صحیح )
شب قدر کا بیان
عبداللہ بن انیس (رض) کہتے ہیں کہ میں بنی سلمہ کی مجلس میں تھا، اور ان میں سب سے چھوٹا تھا، لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ سے ہمارے لیے شب قدر کے بارے میں کون پوچھے گا ؟ یہ رمضان کی اکیسویں صبح کی بات ہے، تو میں نکلا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب پڑھی، پھر آپ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوگیا، تو آپ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور فرمایا : اندر آجاؤ ، میں اندر داخل ہوگیا، آپ کا شام کا کھانا آیا تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں کھانا تھوڑا ہونے کی وجہ سے کم کم کھا رہا ہوں، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا : مجھے میرا جوتا دو ، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : لگتا ہے تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے ؟ ، میں نے کہا : جی ہاں، مجھے قبیلہ بنی سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ شب قدر کے سلسلے میں پوچھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : آج کون سی رات ہے ؟ ، میں نے کہا : بائیسویں رات، آپ ﷺ نے فرمایا : یہی شب قدر ہے ، پھر لوٹے اور فرمایا : یا کل کی رات ہوگی آپ کی مراد تیئسویں رات تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ الاعتکاف (٣٤٠١، ٣٤٠٢) ، مسند احمد (٣/٤٩٥) (حسن صحیح )
شب قدر کا بیان
عبداللہ بن انیس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایک غیر آباد جگہ پر میرا گھر ہے میں اسی میں رہتا ہوں اور بحمداللہ وہیں نماز پڑھتا ہوں، آپ مجھے کوئی ایسی رات بتا دیجئیے کہ میں اس میں اس مسجد میں آیا کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : تیئسویں شب کو آیا کرو ۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں : میں نے عبداللہ بن انیس (رض) کے بیٹے سے پوچھا : تمہارے والد کیسے کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : جب عصر پڑھنی ہوتی تو مسجد میں داخل ہوئے پھر کسی کام سے باہر نہیں نکلتے یہاں تک کہ فجر پڑھ لیتے، پھر جب فجر پڑھ لیتے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر پاتے اور اس پر بیٹھ کر اپنے بادیہ کو واپس آجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٤٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاعتکاف ٦ (١٢) ، (کلاھما نحوہ) (حسن صحیح )
شب قدر کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اسے (یعنی شب قدر کو) رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو جب نو راتیں باقی رہ جائیں (یعنی اکیسویں شب کو) اور جب سات راتیں باقی رہ جائیں (یعنی تئیسویں شب کو) اور جب پانچ راتیں باقی رہ جائیں (یعنی پچیسویں شب کو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ٣ (٢٠٢١) ٣ (٢٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣١، ٢٧٩، ٣٦٠، ٣٦٥) (صحیح )
شب قدر کا اکیسویں شب میں ہونا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے (دہے) میں اعتکاف فرماتے تھے، ایک سال آپ ﷺ نے اعتکاف فرمایا یہاں تک کہ جب اکیسویں رات آئی جس میں آپ اعتکاف سے نکل آتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے اب وہ آخر کے دس دن بھی اعتکاف کریں، میں نے یہ (قدر کی) رات دیکھ لی تھی پھر مجھے بھلا دی گئی اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کو کیچڑ اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں، لہٰذا تم یہ رات آخری عشرے میں تلاش کرو اور وہ بھی طاق راتوں میں ۔ ابوسعید (رض) کہتے ہیں : پھر اسی رات یعنی اکیسویں کی رات میں بارش ہوئی چونکہ مسجد چھپر کی تھی، اس لیے ٹپکی۔ ابوسعید (رض) کہتے ہیں : میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر اکیسویں رات کی صبح کو پانی اور کیچڑ کا نشان تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٤، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩) (صحیح )
شب قدر کا اکیسویں شب میں ہونا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اسے نویں، ساتویں اور پانچویں شب میں ڈھونڈو ۔ ابونضرہ کہتے ہیں : میں نے کہا : اے ابوسعید ! آپ ہم میں سے سب سے زیادہ اعداد و شمار جانتے ہیں، انہوں نے کہا : ہاں، میں نے کہا : نویں، ساتویں اور پانچویں رات سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : جب (٢١) دن گزر جائیں تو اس کے بعد والی رات نویں ہے، اور جب (٢٣) دن گزر جائیں تو اس کے بعد والی رات ساتویں ہے، اور جب (٢٥) دن گزر جائیں تو اس کے بعد والی رات پانچویں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم اس میں سے کچھ مجھ پر مخفی رہ گیا ہے یا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٩٨ (١٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ٢ (٢٠١٦) ، ٣ (٢٠٢٢) ، والاعتکاف ١ (٢٠٢٦) ، ٩ (٢٠٣٦) ، ١٣ (٢٠٤٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٤٠ (١١٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٦ (١٧٦٦) ، موطا امام مالک/الاعتکاف ٦ (٩) ، مسند احمد (٣/٩٤) (صحیح )
شب قدر کا سترہویں شب میں ہونا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : شب قدر کو رمضان کی سترہویں، اکیسویں اور تئیسویں رات میں تلاش کرو ، پھر چپ ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١٧٦) (ضعیف) (اس کے راوی حکیم میں کلام ہے ، نیز ابواسحاق مختلط ہوگئے تھے ، اور یہ معلوم نہیں کہ زید نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے یا بعد میں )
شب قدر کا اخیر کی سات راتوں میں ہونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شب قدر کو اخیر کی سات راتوں میں تلاش کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٤٠ (١١٦٥) ، سنن النسائی/الکبری/ الاعتکاف (٣٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاعتکاف ٦(١١) ، مسند احمد (٢/٣٧، ٦٢، ٧٤، ١١٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٦ (١٨٢٤) (صحیح )
شب قدر کا ستائیسویں رات میں ہو نا
معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے شب قدر کے متعلق فرمایا : شب قدر ستائیسویں رات ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٠) (صحیح )
شب قدر کا سارے رمضان میں ہو نا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے شب قدر کے متعلق پوچھا گیا اور میں (اس گفتگو کو) سن رہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ پورے رمضان میں کسی بھی رات ہوسکتی ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سفیان اور شعبہ نے یہ حدیث ابواسحاق کے واسطے سے عبداللہ بن عمر (رض) پر موقوفًا روایت کی ہے اور ان دونوں نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً نہیں نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٠٦٥) (ضعیف) والصحیح موقوف (اس کے راوی أبواسحاق مختلط ہوگئے تھے اور یہ معلوم نہیں کہ موسیٰ نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے یا بعد میں ) وضاحت : ١ ؎ : کثرت احادیث کی بناء پر شب قدر کے سلسلہ میں علماء میں زبردست اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ رمضان میں ہے، پھر راجح یہ ہے کہ وہ رمضان کے اخیر عشرہ میں ہے ، پھر ظن غالب یہ ہے کہ وہ طاق راتوں میں ہے ، پھر لائق اعتماد قول یہ ہے کہ یہ ستائیسویں رات میں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
قرآن پاک کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کرنا چاہیئے
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : قرآن مجید ایک مہینے میں پڑھا کرو ، انہوں نے عرض کیا : مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو بیس دن میں پڑھا کرو ، عرض کیا : مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پندرہ دن میں پڑھا کرو ، عرض کیا : مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو دس دن میں پڑھا کرو ، عرض کیا : مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : سات دن میں پڑھا کرو، اور اس پر ہرگز زیادتی نہ کرنا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسلم (مسلم بن ابراہیم) کی روایت زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ فضائل القرآن ٣٤ (٥٠٥٣، ٥٠٥٤) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/القراء ات ١٣ (٢٩٤٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٨(١٣٤٦) ، مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٢ (٣٥١٤) (صحیح )
قرآن پاک کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کرنا چاہیئے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو اور قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کرو ، پھر میرے اور آپ کے درمیان کم و زیادہ کرنے کی بات ہوئی ١ ؎ آخر کار آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا تو ایک دن روزہ رکھا کرو اور ایک دن افطار کیا کرو ۔ عطا کہتے ہیں : ہم نے اپنے والد سے روایت میں اختلاف کیا ہے، ہم میں سے بعض نے سات دن اور بعض نے پانچ دن کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٢، ٢١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی نبی اکرم ﷺ ختم قرآن کی مدت بڑھانا اور روزے رکھنے کی مدت کم کرنا چاہتے تھے، جب کہ عبداللہ بن عمرو (رض) ختم قرآن کی مدت کم اور روزے رکھنے کی مدت بڑھانا چاہتے تھے، اور ایک نسخے میں فناقضني وناقضته ضاد معجمہ کے ساتھ ہے، یعنی آپ ﷺ میری بات کاٹتے تھے، اور میں اپنے بات پر اصرار کرتا تھا۔
قرآن پاک کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کرنا چاہیئے
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں قرآن کتنے دنوں میں ختم کروں ؟ فرمایا : ایک ماہ میں ، کہا : میں اس سے زیادہ کی قدرت رکھتا ہوں (ابوموسیٰ یعنی محمد بن مثنیٰ اس بات کو باربار دہراتے رہے) آپ اسے کم کرتے گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے سات دن میں ختم کیا کرو ، کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا : وہ قرآن نہیں سمجھتا جو اسے تین دن سے کم میں پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٩٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا صحیح نہیں، بہتر یہ ہے کہ سات دن میں ختم کیا جائے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں شبینہ وغیرہ کا جو اہتمام کیا جاتا ہے وہ درست نہیں۔
قرآن پاک کم سے کم کتنے دنوں میں ختم کرنا چاہیئے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : قرآن ایک مہینے میں پڑھا کرو ، انہوں نے کہا : مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تین دن میں پڑھا کرو ۔ ابوعلی کہتے ہیں : میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ احمد بن حنبل کہتے تھے : عیسیٰ بن شاذان سمجھدار آدمی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٢٣) (حسن صحیح )
قرآن کے حصے کرنا
ابن الہاد کہتے ہیں کہ مجھ سے نافع بن جبیر بن مطعم نے پوچھا : تم کتنے دنوں میں قرآن پڑھتے ہو ؟ تو میں نے کہا : میں اس کے حصے نہیں کرتا، یہ سن کر مجھ سے نافع نے کہا : ایسا نہ کہو کہ میں اس کے حصے نہیں کرتا، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھا ١ ؎۔ ابن الہاد کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ بن شعبہ سے نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے قرآن مجید کو تیس حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے تیس پارے بنا لینے کا جواز ثابت ہوا، اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قرآن کے اس طرح سے تیس پارے نہیں تھے، جس طرح اس وقت رائج ہیں۔
قرآن کے حصے کرنا
اوس بن حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ثقیف کے ایک وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، وفد کے وہ لوگ جن سے معاہدہ ہوا تھا، مغیرہ بن شعبہ (رض) کے پاس ٹھہرے اور بنی مالک کا قیام رسول اللہ ﷺ نے اپنے خیمے میں کرایا، (مسدد کہتے ہیں : اوس بھی اس وفد میں شامل تھے، جو ثقیف کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تھا) اوس کہتے ہیں : تو ہر رات آپ ﷺ عشاء کے بعد ہمارے پاس آتے اور ہم سے گفتگو کرتے۔ ابو سعید خدری (رض) کی روایت میں اضافہ ہے کہ (آپ گفتگو) کھڑے کھڑے کرتے اور دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپ کبھی ایک پیر پر اور کبھی دوسرے پیر پر بوجھ ڈالتے اور زیادہ تر ان واقعات کا تذکرہ کرتے، جو آپ ﷺ کو اپنی قوم قریش کی جانب سے پیش آئے تھے، پھر فرماتے : ہم اور وہ برابر نہ تھے، ہم مکہ میں کمزور اور ناتواں تھے، پھر جب ہم نکل کر مدینہ آگئے تو جنگ کا ڈول ہمارے اور ان کے بیچ رہتا، کبھی ہم ان پر غالب آتے اور کبھی وہ ہم پر ۔ ایک رات آپ ﷺ کو حسب معمول وقت پر آنے میں تاخیر ہوگئی تو ہم نے آپ سے پوچھا : آج رات آپ نے آنے میں تاخیر کردی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : آج قرآن مجید کا میرا ایک حصہ تلاوت سے رہ گیا تھا، مجھے اسے پورا کئے بغیر آنا اچھا نہ لگا ۔ اوس کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے پوچھا کہ وہ لوگ کیسے حصے مقرر کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : پہلا حزب (حصہ) تین سورتوں کا، دوسرا حزب (حصہ) پانچ سورتوں کا، تیسرا سات سورتوں کا، چوتھا نو سورتوں کا، پانچواں گیارہ اور چھٹا تیرہ سورتوں کا اور ساتواں پورے مفصل کا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوسعید (عبداللہ بن سعید الاشیخ) کی روایت کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٨ (١٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی عثمان لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : پہلا حزب : بقرہ، آل عمران اور نساء نامی سورتیں، دوسرا حزب : مائدہ، انعام، اعراف، انفال اور توبہ نامی سورتیں، تیسرا حزب : یونس، ھود، یوسف، رعد، ابراہیم، حجر اور نحل نامی سورتیں، چوتھا حزب : اسرائیل، کہف، مریم، طٰہٰ ، انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان نامی سورتیں، پانچواں حزب : شعراء، نمل، قصص، عنکبوت، روم، لقمان، الم تنزیل السجدۃ، احزاب، سبا، فاطر اور یٰسین نامی سورتیں، چھٹواں حزب : صافات، ص، زمر، مومن، حم سجدہ، شوریٰ ، زخرف، دخان، جاثیہ، احقاف، محمد، فتح اور حجرات نامی سورتیں، ساتواں حزب : سورة (ق) سے لے کر اخیر قرآن تک کی سورتیں۔
قرآن کے حصے کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھتا ہے سمجھتا نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات ١٣ (٢٩٤٩) ، ن الکبری/ فضائل القرآن (٨٠٦٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٨ (١٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٦٥، ١٨٩، ١٩٥) ، دی/ فضائل القرآن ٣٢ (٣٥١٤) (صحیح )
قرآن کے حصے کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چالیس دن میں ، پھر فرمایا : ایک ماہ میں ، پھر فرمایا : بیس دن میں ، پھر فرمایا : پندرہ دن میں ، پھر فرمایا : دس دن میں ، پھر فرمایا : سات دن میں ، آپ ﷺ سات سے نیچے نہیں اترے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ القراء ات ١٣ (٢٩٤٧) ، ن الکبری/ فضائل القرآن (٨٠٦٨، ٨٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٤) (صحیح) (اِس روایت میں وارد لفظ لم ینزل من سبع شاذ ہے جو خود ان کی روایت (نمبر ١٣٩١) کے برخلاف ہے جس میں تین دن بھی وارد ہوا ہے )
قرآن کے حصے کرنا
علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میں ایک رکعت میں مفصل پڑھ لیتا ہوں، انہوں نے کہا : کیا تم اس طرح پڑھتے ہو جیسے شعر جلدی جلدی پڑھا جاتا ہے یا جیسے سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں ؟ لیکن نبی اکرم ﷺ دو ہم مثل سورتوں کو جیسے نجم اور رحمن ایک رکعت میں، اقتربت اور الحاقة ایک رکعت میں، والطور اور الذاريات ایک رکعت میں، إذا وقعت اور نون ایک رکعت میں، سأل سائل اور النازعات ایک رکعت میں، ويل للمطففين اور عبس ایک رکعت میں، المدثر اور المزمل ایک رکعت میں، هل أتى اور لا أقسم بيوم القيامة ایک رکعت میں، عم يتسائلون اور المرسلات ایک رکعت میں، اور اسی طرح الدخان اور إذا الشمس کورت ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن مسعود کی ترتیب ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩١٨٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٥) ، و فضائل القرآن ٦ (٤٩٩٦) ، ٢٨ (٥٠٤٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٩ (٧٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٥ (الجمعة ٦٩) (٦٠٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٧٥ (١٠٠٧) ، مسند احمد (١/٣٨٠، ٤١٧، ٤٢٧، ٤٣٦، ٤٥٥) (صحیح) (مگر سورتوں کی یہ فہرست ثابت نہیں ہے، اور مؤلف کے سوا کسی کے یہاں یہ فہرست ہے بھی نہیں )
قرآن کے حصے کرنا
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابو مسعود (رض) سے پوچھا آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : جس نے کسی رات میں سورة البقرہ کے آخر کی دو آیتیں پڑھیں تو یہ اس کے لیے کافی ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٠ (٥٠٠٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٣ (٨٠٧) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٤ (٢٨٨١) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٧٢١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٣ (١٣٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٨، ١٢١، ١٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٠ (١٥٢٨) ، و فضائل القرآن ١٤ (٣٤٣١) (صحیح )
قرآن کے حصے کرنا
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص دس آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا، اور جو ایک ہزار آیتوں ( کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ بےانتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن حجیرہ الاصغر سے مراد عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن حجیرہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٧٤) (صحیح )
قرآن کے حصے کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے قرآن مجید پڑھائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : ان تین سورتوں کو پڑھو جن کے شروع میں الر ہے ١ ؎، اس نے کہا : میں عمر رسیدہ ہوچکا ہوں، میرا دل سخت اور زبان موٹی ہوگئی ہے (اس لیے اس قدر نہیں پڑھ سکتا) ، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر حم والی تینوں سورتیں پڑھا کرو ، اس شخص نے پھر وہی پہلی بات دہرائی، آپ ﷺ نے فرمایا : تو مسبحات میں سے تین سورتیں پڑھا کرو ، اس شخص نے پھر پہلی بات دہرا دی اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے ایک جامع سورة سکھا دیجئیے، رسول اللہ ﷺ نے اس کو إذا زلزلت الأرض سکھائی، جب آپ ﷺ اس سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا، میں کبھی اس پر زیادہ نہیں کروں گا، جب آدمی واپس چلا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے دو مرتبہ فرمایا : أفلح الرويجل (بوڑھا کامیاب ہوگیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ٢٠٤ (٩٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٩) (ضعیف) (اس میں عیسیٰ بن ہلال صدفی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سورة یونس، سورة ہود اور سورة یوسف۔
آیتوں کی گنتی
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قرآن کی ایک سورة جو تیس آیتوں والی ہے اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہوجائے اور وہ تبارک الذي بيده الملک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ٩ (٢٨٩١) ، ن الکبری /التفسیر (١١٦١٢) ، الیوم واللیلة (٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٣ (٣٤٥٢) (حسن )
سجدہ ہائے تلاوت اور انکی تعداد کا بیان
عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قرآن مجید میں (١٥) سجدے ١ ؎ پڑھائے : ان میں سے تین مفصل میں ٢ ؎ اور دو سورة الحج میں ٣ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالدرداء (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے گیارہ سجدے نقل کئے ہیں، لیکن اس کی سند کمزور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧١ (١٠٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٣٥) (ضعیف) (اس کے راوی حارث لین الحدیث ، اور عبد اللہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : امام احمد اور جمہور اہل حدیث کے یہاں قرآن مجید میں پندرہ سجدے تلاوت کے ہیں، امام مالک کے نزدیک صرف گیارہ سجدے ہیں، مفصل اور سورة ص میں ان کے نزدیک سجدہ نہیں ہے، امام شافعی کے نزدیک کل چودہ سجدے ہیں، سورة ص میں ان کے نزدیک بھی سجدہ نہیں ، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھی کل چودہ سجدے ہیں ، وہ سورة حج میں ایک ہی سجدہ مانتے ہیں، سجدہ تلاوت جمہور کے نزدیک سنت ہے لیکن امام ابوحنیفہ اسے واجب کہتے ہیں، ائمہ اربعہ اور اکثر علماء کے نزدیک اس میں وضو شرط ہے، امام ابن تیمیہ کے نزدیک شرط نہیں ہے۔ ٢ ؎ : سورة نجم، سورة انشقت اور اقرأ میں۔ ٣ ؎ : یہ کل پانچ سجدے ہوئے اور دس ان کے علاوہ باقی سورتوں : اعراف، رعد، نحل، بنی اسرائیل، مریم، فرقان، نمل، الم تنزیل السجدہ، ص اور فصلت میں، اس طرح کل پندرہ سجدے ہوئے۔
سجدہ ہائے تلاوت اور انکی تعداد کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا سورة الحج میں دو سجدے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٩ (الجمعة ٥٤) (٥٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥١، ١٥٥) (حسن) ( مشرح کے بارے میں کلام ہے، لیکن دوسری خالد بن حمدان کی مرسل حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن کے درجہ کو پہنچی) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٥ ؍ ١٤٦ )
مفصل میں سجدہ نہ ہونے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ آجانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مفصل (سورتوں) میں سے کسی سورة میں سجدہ نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٢١٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابوقدامہ حارث بن عبید اور مطر وراق حافظہ کے بہت کمزور راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث امام مالک کی دلیل ہے، لیکن یہ ضعیف ہے، جیسا کہ تخریج سے واضح ہے، اور ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث (١٤٠٧) جو آگے آرہی ہے کے معارض ہے، اور ابوہریرہ (رض) متاخر الاسلام ہیں، انہوں نے ساتویں ہجری میں اسلام قبول کیا ہے، نیز ان کی حدیث صحیحین میں ہے۔
مفصل میں سجدہ نہ ہونے کا بیان
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سورة النجم پڑھ کر سنائی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٦ (١٠٧٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٧) ، ت الجمعة ٥٢ (٥٧٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٠ (٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٣، ١٨٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٤ (١٥١٣) (صحیح )
مفصل میں سجدہ نہ ہونے کا بیان
اس سند سے بھی زید بن ثابت (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً آئی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زید امام تھے لیکن انہوں نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٧) (صحیح )
سورہء نجم میں سجدہ کرنے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھایا اور کہنے لگا : میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ١ (١٠٧٢) ، ٤ (١٠٧٣) ، ومناقب الأنصار ٢٩ (٣٨٥٣) ، والمغازي ٨ (٣٩٧٢) ، و تفسیر النجم ٤ (٤٨٦٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٩ (٩٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٩١٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٠١، ٤٤٣، ٤٦٢) دي /الصلاة ١٦٠ (١٥٠٦) (صحیح )
اذا السماء النشقت اور اقرا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سورة إذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربک الذي خلق میں سجدہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوہریرہ چھ ہجری میں غزوہ خیبر کے سال اسلام لائے اور رسول اللہ ﷺ کے یہ سجدے آپ کے آخری فعل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٥ (الجمعة ٥٠) (٥٧٣ و ٥٧٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٢ (٩٦٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧١ (١٠٥٨ و ١٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠(٧٦٦) ، موطا امام مالک/القرآن ٥ (١٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٩، ٤٦١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٣ (١٥١٢) (صحیح )
اذا السماء النشقت اور اقرا
ابورافع نفیع الصائغ بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کے ساتھ عشاء پڑھی، آپ نے إذا السماء انشقت کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، میں نے کہا : یہ سجدہ کیسا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : میں نے یہ سجدہ ابوالقاسم ﷺ کے پیچھے (نماز پڑھتے ہوئے) کیا ہے اور میں برابر اسے کرتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ سے جا ملوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠(٧٦٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٨) ، سنن النسائی/الافتتاح ٥٣ (٩٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٥٦، ٢٦٦) (صحیح )
سورہء صآ میں سجدہ کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ سورة ص کا سجدہ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٣ (١٠٦٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٨ (الجمعة ٥٣) (٥٧٧) ، سنن النسائی/الافتتاح ٤٨ (٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ١٦١ (١٥٠٨) (صحیح )
سورہء صآ میں سجدہ کرنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة ص پڑھی، آپ منبر پر تھے جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر ایک دن کی بات ہے کہ آپ نے اس سورة کی تلاوت کی، جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہوگئے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ سجدہ دراصل ایک نبی ١ ؎ کی توبہ تھی، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو رہے ہو ، چناچہ آپ اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داو د، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ١٦١ (١٥٠٧) (صحیح ) وضاحت : وضاحت : اس سے مراد داود (علیہ السلام) ہیں۔
سواری کی حالت میں آیت سجدہ سنے تو کیا کرے؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال سجدے والی آیت پڑھی تو تمام لوگوں نے سجدہ کیا، کچھ ان میں سوار تھے اور کچھ زمین پر سجدہ کرنے والے تھے حتیٰ کہ سوار اپنے ہاتھ پر سجدہ کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی مصعب لین الحدیث ہیں مگر صحیحین میں یہی روایت قدرے مختصر سیاق میں موجود ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے )
سواری کی حالت میں آیت سجدہ سنے تو کیا کرے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں سورة پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) نماز کے علاوہ میں (آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیر سیاق حدیث میں متفق ہیں) ، پھر آپ ﷺ (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٨ (١٠٧٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٠٨، ٨٠١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦١ (١٥٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایسی صورت میں وہ اپنے ہاتھ، یا ران، یا دوسرے کی پشت پر سجدہ کرلیتے تھے۔
سواری کی حالت میں آیت سجدہ سنے تو کیا کرے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو قرآن سناتے، جب کسی سجدے کی آیت سے گزرتے تو الله أكبر کہتے اور سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں : یہ حدیث ثوری کو اچھی لگتی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انہیں یہ اس لیے پسند تھی کہ اس میں الله أكبر کا ذکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٧٢٦) (منکر) (سجدہ کے لئے تکبیر کا تذکرہ منکر ہے ، نافع سے روایت کرنے والے عبداللہ العمری ضعیف ہیں، بغیر تکبیر کے تذکرے کے یہ حدیث ثابت ہے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے، البتہ دوسروے دلائل سے تکبیر ثابت ہے )
سجدہ تلاوت کی دعا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں قرآن کے سجدوں میں کئی بار سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته یعنی میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی قوت و طاقت سے اسے پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھ بنائے کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٠ (الجمعة ٥٥) (٥٨٠) ، والدعوات ٣٣ (٣٤٢٥) ، سنن النسائی/التطبیق ٧٠ (١١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠، ٢١٧) (صحیح) ( ترمذی اور نسائی کے یہاں سند میں عن رجل (مجہول راوی) نہیں ہے ، اور خالد الخداء کی روایت ابوالعالیہ سے ثابت ہے اس لئے اس حدیث کی صحت میں کوئی کلام نہیں )
جو شخص صبح کی نماز کے بعد آیت سجدہ تلاوت کرے تو وہ سجدہ کب کرے؟
ابوتمیمہ طریف بن مجالد ہجیمی کہتے ہیں کہ جب ہم قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے تو میں فجر کے بعد وعظ کہا کرتا تھا، اور (سجدہ کی آیت پڑھنے کے بعد) سجدہ کرتا تھا تو مجھے ابن عمر (رض) نے اس سے تین مرتبہ منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا، آپ نے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧١١٠) ، وقد أخرجہ : (حم (٢/٢٤، ١٠٦) (ضعیف) ( اس کے راوی ابوبحر عبدالرحمن بن عثمان ضعیف ہیں )
وتر (طاق) پڑھنا سنت ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے قرآن والو ! ١ ؎ وتر پڑھا کرو اس لیے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٦، (٤٥٣) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٥ (١٦٧٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٤ (١١٦٩) ،(تحفة الأشراف : ١٠١٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٦، ٩٨، ١٠٠، ١٠٧، ١١٠، ١١٥، ١٢٠، ١٤٣، ١٤٤، ١٤٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٩ (١٦٢١) (صحیح) (ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے ، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں اہل قرآن سے مراد قرّاء و حفاظ کی جماعت ہے نہ کہ عام مسلمان، اس سے علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں، اگر وتر واجب ہوتی تو یہ حکم عام ہوتا، اہل قرآن (یعنی قراء و حفاظ و علماء) کے ساتھ خاص نہ ہوتا، نیز آپ ﷺ نے اعرابی سے ليس لک ولا لأصحابک جو فرمایا وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، امام طیبی کے نزدیک وتر سے مراد تہجد ہے اسی لئے قراء سے خطاب فرمایا ہے۔
وتر (طاق) پڑھنا سنت ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں اتنا مزید ہے : ایک اعرابی نے کہا : آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : یہ حکم تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٤ (١١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٢٧) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے )
وتر (طاق) پڑھنا سنت ہے
خارجہ بن حذافہ عدوی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اللہ نے ایک ایسی نماز کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے جو سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور وہ وتر ہے، اس کا وقت اس نے تمہارے لیے عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٥، الوتر ١ (٤٥٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٤ (١١٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٧) (صحیح) (لیکن هي خير لکم من حمر النعم کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ اس ٹکڑے کے متابعات اور شواہد موجود نہیں ہیں ، یعنی یہ حدیث خود ضعیف ہے ، اس کے راوی عبد اللہ بن راشد مجہول ہیں لیکن متابعات اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے )
تارک وتر کے بارے میں وعید
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : وتر حق ہے ١ ؎ جو اسے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٧) (ضعیف) (اس کے راوی عبیداللہ العتکی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ضعیف ہے، اگر صحیح ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وتر کا پڑھنا ثابت ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کی تخریج ابن المنذر نے ان الفاظ میں کی ہے الوتر حق وليس بواجب یعنی وتر ایک ثابت شدہ امر ہے لیکن واجب نہیں۔
تارک وتر کے بارے میں وعید
ابن محیریز کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا : وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا : میں یہ سن کر عبادہ بن صامت (رض) کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا : ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہوگا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہوگی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہوگا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصلاة ٦ (٤٦٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٤ (١٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٣ (١٤) ، مسند احمد (٥/٣١٥، ٣١٩، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے وتر کا ذکر نہیں کیا ہے، اگر یہ واجب ہوتی تو آپ ﷺ اسے بھی ضرور بیان فرماتے۔
وتر میں رکعات کی تعداد
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ دیہات کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے تہجد کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اس طرح دو دو رکعتیں ہیں اور آخر رات میں وتر ایک رکعت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن النسائی/ قیام اللیل ٣٢ (١٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠، ٥٨، ٧١، ٧٦، ٧٩، ٨١، ١٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وتر کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں متعدد روایتیں آئی ہیں جن میں ایک رکعت سے لے کر تیرہ رکعت تک کا ذکر ہے ان روایات کو صحیح مان کر انہیں اختلاف احوال پر محمول کرنا مناسب ہوگا، اور یہ واضح رہے کہ وتر کا مطلب دن بھر کی سنن و نوافل اور تہجد ( اگر پڑھتا ہے تو) کو طاق بنادینا ہے، اب چاہے اخیر میں ایک رکعت پڑھ کر طاق بنا دے یا تین یا پانچ ، اور اسی طرح طاق رکعتیں ایک ساتھ پڑھ کر، اور یہ سب صورتیں اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہیں ، نیز یہ بھی واضح رہے کہ وتر کا لفظ تہجد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، پانچ، سات، نو، یا تیرہ رکعت وتر کا یہی مطلب ہے ، نہ کہ تہجد کے علاوہ مزید پانچ تا تیرہ وتر الگ ہے۔
وتر میں رکعات کی تعداد
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ پڑھنا چاہے پانچ پڑھے، جو تین پڑھنا چاہے تین پڑھے اور جو ایک پڑھنا چاہے ایک پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٧١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٣ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٥/٤١٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٠(١٦٢٦) (صحیح )
وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھی جائیں
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سبح اسم ربک الأعلى اور قل للذين کفروا (یعنی قل ياأيها الکافرون ) اور الله الواحد الصمد (یعنی قل هو الله أحد ) پڑھا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٣٤ (١٧٠٠، ١٧٠١، ١٧٠٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٥ (١١٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ مستحب ہے اگر کوئی شخص ان رکعتوں میں مذکورہ سورتوں کے علاوہ دوسری سورتیں پڑھے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔
وتر میں کون کونسی سورتیں پڑھی جائیں
عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ وتر میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے ؟ پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی، اور کہا تیسری رکعت میں آپ قل هو الله أحد اور معوذتین (یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ) پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٣ (الوتر ٩) (٤٦٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٥ (١١٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٧) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ عبدالعزیز ابن جریج کی ملاقات عائشہ (رض) سے ثابت نہیں )
وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان
حسن بن علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چند کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں کہا کرتا ہوں (ابن جو اس کی روایت میں ہے جنہیں میں وتر کے قنوت میں کہا کروں ) وہ کلمات یہ ہیں : اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، و بارک لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت إنک تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تبارکت ربنا وتعاليت ١ ؎۔ اے اللہ ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے ہدایت دی ہے اور مجھے عافیت دے ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کو تو نے عافیت دی ہے اور میری کارسازی فرما ان لوگوں میں (داخل کر کے) جن کی تو نے کارسازی کی ہے اور مجھے میرے لیے اس چیز میں برکت دے جو تو نے عطا کی ہے اور مجھے اس چیز کی برائی سے بچا جو تو نے مقدر کی ہے، تو فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ جسے تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا، اے ہمارے رب تو بابرکت اور بلند و بالا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٤ (الوتر ٩) (٤٦٤) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤٢ (١٧٤٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٧ (١١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٩، ٢٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٤ (١٦٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حافظ ابن حجر نے بلوغ المرام میں نسائی کے حوالہ سے وصلى الله على النبي محمد کا اضافہ کیا ہے مگر اس کی سند ضعیف ہے، علامہ عزالدین بن عبدالسلام نے فتاویٰ (١/٦٦) میں لکھا ہے کہ قنوت وتر میں نبی اکرم ﷺ پر درود (صلاۃ) بھیجنا ثابت نہیں ہے اور آپ ﷺ کی نماز میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ کرنا مناسب نہیں، علامہ البانی لکھتے ہیں کہ صحیح ابن خزیمہ (١٠٩٧) میں ابی بن کعب (رض) کی ماہ رمضان میں امامت والی حدیث میں ہے کہ وہ عمر (رض) کے عہد خلافت میں قنوت وتر کے آخر میں نبی اکرم ﷺ پر درود (صلاۃ) بھیجتے تھے نیز اسی طرح اسماعیل قاضی کی فضل صلاۃ النبی ﷺ (١٠٧) وغیرہ میں ابو سلمہ معاذ بن حارث انصاری سے عمر (رض) کے زمانہ خلافت میں تراویح کی امامت میں قنوت وتر میں رسول اللہ ﷺ پر درود (صلاۃ) بھیجنا ثابت ہے۔
وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان
اس طریق سے بھی ابواسحاق سے اسی سند کے ساتھ اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے لیکن اس کے آخر میں ہے کہ اسے وہ وتر کی قنوت میں کہتے تھے اور أقولهن في الوتر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالحوراء کا نام ربیعہ بن شیبان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٤) (صحیح )
وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم إني أعوذ برضاک من سخطک، وبمعافاتک من عقوبتک، وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک اے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی، تیری سزا سے تیری معافی کی اور تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں، میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا، تو اسی طرح ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہشام حماد کے سب سے پہلے استاذ ہیں اور مجھے یحییٰ بن معین کے واسطہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں کہا ہے کہ ہشام سے سوائے حماد بن سلمہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے، سعید نے قتادہ سے، قتادہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور ابن ابزی نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عیسیٰ بن یونس نے اس حدیث کو فطر بن خلیفہ سے بھی روایت کیا ہے اور فطر نے زبید سے، زبید نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے، ابن ابزی نے ابی بن کعب (رض) سے اور ابی نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ نیز حفص بن غیاث سے مروی ہے، انہوں نے مسعر سے، مسعر نے زبید سے، زبید نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن سے اور عبدالرحمٰن نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر میں رکوع سے قبل قنوت پڑھی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سعید کی حدیث قتادہ سے مروی ہے، اسے یزید بن زریع نے سعید سے، سعید نے قتادہ سے، قتادہ نے عزرہ سے، عزرہ نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی سے، سعید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور ابن ابزی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اس میں قنوت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ابی بن کعب (رض) کا۔ اور اسی طرح اسے عبدالاعلی اور محمد بن بشر العبدی نے روایت کیا ہے، اور ان کا سماع کوفہ میں عیسیٰ بن یونس کے ساتھ ہے، انہوں نے بھی قنوت کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ نیز اسے ہشام دستوائی اور شعبہ نے قتادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ زبید کی روایت کو سلیمان اعمش، شعبہ، عبدالملک بن ابی سلیمان اور جریر بن حازم سبھی نے روایت کیا ہے، ان میں سے کسی ایک نے بھی قنوت کا ذکر نہیں کیا ہے، سوائے حفص بن غیاث کی روایت کے جسے انہوں نے مسعر کے واسطے سے زبید سے نقل کیا ہے، اس میں رکوع سے پہلے قنوت کا ذکر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حفص کی یہ حدیث مشہور نہیں ہے، ہم کو اندیشہ ہے کہ حفص نے مسعر کے علاوہ کسی اور سے روایت کی ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ بھی مروی ہے کہ ابی بن کعب قنوت رمضان کے نصف میں پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تخريج : سنن الترمذی/الدعوات ١١٣ (٣٥٦٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤٢ (١٧٤٨) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٤١ (١٧٣٩) سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٧ (١١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٧) ، وقد أخرجہ : حم (١/٩٦، ١١٨، ١٥٠) (صحیح )
وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان
محمد بن سیرین اپنے بعض اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ابی بن کعب (رض) نے رمضان میں ان کی امامت کی اور وہ رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٩) (ضعیف) (ابی بن کعب (رض) سے روایت کرنے والے بعض اصحاب مجہول ہیں )
وتر میں قنوت پڑھنے کا بیان
حسن بصری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے لوگوں کو ابی بن کعب (رض) کی امامت پر جمع کردیا، وہ لوگوں کو بیس راتوں تک نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے اور انہیں قنوت نصف اخیر ہی میں پڑھاتے تھے اور جب آخری عشرہ ہوتا تو مسجد نہیں آتے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھا کرتے، لوگ کہتے کہ ابی بھاگ گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قنوت کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا وہ غیر معتبر ہے اور یہ دونوں حدیثیں ابی بن کعب (رض) کی اس حدیث کے ضعف پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر میں قنوت پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠) (ضعیف) (حسن بصری اور عمر بن خطاب (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : جب یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں تو ان سے استدلال درست نہیں ہے، جب کہ وتر میں قنوت والی حدیث سندا صحیح ہے۔
وتر کے بعد کی دعا
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب وتر میں سلام پھیرتے تو سبحان الملک القدوس کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٤٨ (١٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٥) (صحیح )
وتر کے بعد کی دعا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے اسے پڑھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٥ (الوتر ٩) (٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٢ (١١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١، ٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں، جیسا کہ بعض روایتوں میں رات کے وظیفہ کے بارے میں آیا ہے کہ اگر رات کو نہ پڑھ سکے تو دن میں قضا کرے۔
سونے سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (یار، صادق، محمد) ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، جن کو میں سفر اور حضر کہیں بھی نہیں چھوڑتا : چاشت کی دو رکعتیں، ہر ماہ تین دن کے روزے اور وتر پڑھے بغیر نہ سونے کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التہجد ٣٣ (١١٧٨) ، والصیام ٦٠ (١٩٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧٢١) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٦ (١٦٧٨) ، والصیام ٧٠ (٢٣٧١) ، ٨١ (٢٤٠٧) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٣، ٢٥٤، ٢٥٨، ٢٦٠، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٧٧، ٣٢٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٥) ، والصوم ٣٨ (١٧٨٦) (صحیح) دون قولہ : ” في سفر ولاحضر “ وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے ابوہریرہ (رض) کو یہ نصیحت اس وجہ سے فرمائی کہ وہ بڑی رات تک حدیثوں کے سننے میں مشغول رہتے تھے اس لئے آپ ﷺ کو اندیشہ ہوا کہ سو جانے کے بعد ان کی وتر قضا نہ ہوجایا کرے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے انہیں سو جانے سے پہلے وتر پڑھ لینے کی نصیحت کی۔
سونے سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (محمد) ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، میں انہیں کسی صورت میں نہیں چھوڑتا، ایک تو مجھے ہر ماہ تین دن روزے رکھنے کی وصیت کی دوسرے وتر پڑھے بغیر نہ سونے کی اور تیسرے حضر ہو کہ سفر، چاشت کی نماز پڑھنے کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣(٧٢٢) ، مسند احمد (٦/٤٤٠، ٤٥١) (صحیح) (مگر حضر و سفر کا لفظ صحیح نہیں ہے ، اور یہ مسلم میں موجود نہیں ہے )
سونے سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر (رض) سے پوچھا : تم وتر کب پڑھتے ہو ؟ ، انہوں نے عرض کیا : میں اول شب میں وتر پڑھتا ہوں، پھر آپ ﷺ نے عمر (رض) سے پوچھا : تم کب پڑھتے ہو ؟ ، انہوں نے عرض کیا : آخر شب میں، آپ ﷺ نے ابوبکر سے فرمایا کہ انہوں نے احتیاط پر عمل کیا، اور عمر سے فرمایا کہ انہوں نے مشکل کام اختیار کیا جو طاقت و قوت کا متقاضی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جس کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ اخیر رات میں جاگ جائے گا اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اخیر رات میں وتر پڑھے، لیکن جسے اخیر رات میں جاگنے پر بھروسہ نہ ہو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لے۔
وتر کا وقت
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ وتر کب پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : سبھی وقتوں میں آپ نے پڑھا ہے، شروع رات میں بھی پڑھا ہے، درمیان رات میں بھی اور آخری رات میں بھی لیکن جس وقت آپ کی وفات ہوئی آپ کی وتر صبح ہو چکنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٢(٩٩٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٨ (الوتر ٤) (٤٥٧) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٣٠ (١٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢١(١١٨٦) ، مسند احمد (٦/ ٤٦، ١٠٠، ١٠٧، ١٢٩، ٢٠٥، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٨) (صحیح )
وتر کا وقت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٦ (٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٠) ، مسند احمد ١(٢/٣٧، ٣٨) (صحیح )
وتر کا وقت
عبداللہ بن ابو قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا : انہوں نے کہا : کبھی شروع رات میں وتر پڑھتے اور کبھی آخری رات میں، میں نے پوچھا : آپ کی قرآت کیسی ہوتی تھی ؟ کیا سری قرآت کرتے تھے یا جہری ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ دونوں طرح سے پڑھتے تھے، کبھی قرآت سری کرتے اور کبھی جہری، کبھی غسل کر کے سوتے اور کبھی وضو کر کے سو جاتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قتیبہ کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے کہ غسل سے عائشہ (رض) کی مراد غسل جنابت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٢ (٤٤٩) ، فضائل القران ٢٣ (٢٩٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٢١ (١٦٦٣) ، مسند احمد (٦/٧٣، ١٤٩، ١٦٧) (صحیح )
وتر کا وقت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بنایا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٥ (٩٩٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥١) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠، ١٠٢، ١٤٣) (صحیح )
وتر دو مرتبہ نہیں پڑھے جا سکتے
قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی (رض) رمضان میں ایک دن ہمارے پاس آئے، شام تک رہے روزہ افطار کیا، پھر اس رات انہوں نے ہمارے ساتھ قیام اللیل کیا، ہمیں وتر پڑھائی پھر اپنی مسجد میں گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ جب صرف وتر باقی رہ گئی تو ایک شخص کو آگے بڑھایا اور کہا : اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٧ (الوتر ١٣) (٤٧٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٢٧ (١٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣) (صحیح )
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم سے ابوہریرہ (رض) نے بیان کرتے ہوئے کہا : اللہ کی قسم ! میں تم لوگوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی نماز سے قریب ترین نماز پڑھوں گا، چناچہ ابوہریرہ (رض) ظہر کی آخری رکعت میں اور عشاء اور فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور مومنوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت بھیجتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٢٧٦) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٨ (١٠٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٤(١٩) ، مسند احمد (٢/٢٥٥، ٣٣٧، ٤٧٠) (صحیح )
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
براء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فجر میں قنوت پڑھتے تھے۔ ابن معاذ نے صلاة المغرب (نماز مغرب میں بھی) کا بھی اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٨ (٤٠١) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٩ (١٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٨٠، ٢٨٥، ٢٩٩، ٣٠٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٨) (صحیح )
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ماہ تک عشاء میں دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں دعا فرماتے :اللهم نج الوليد بن الوليد اللهم نج سلمة بن هشام اللهم نج المستضعفين من المؤمنين اللهم اشدد وطأتک على مضر اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ ! کمزور مومنوں کو نجات دے، اے اللہ ! مضر پر اپنا عذاب سخت کر اور ان پر ایسا قحط ڈال دے جیسا یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں پڑا تھا) ۔ ابوہریرہ کہتے ہیں : ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فجر میں ان لوگوں کے لیے دعا نہیں کی، تو میں نے اس کا ذکر آپ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے نہیں دیکھا کہ یہ لوگ (اب کافروں کی قید سے نکل کر مدینہ) آ چکے ہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین (٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٨ (٨٠٤) ، والاستسقاء ٢ (١٠٠٦) ، والجہاد ٩٨ (٢٩٣٢) ، والأنبیاء ١٩ (٣٣٨٦) ، و تفسیر آل عمران ٩ (٤٥٦٠) ، و تفسیر النساء ٢١ (٤٥٩٨) ، والدعوات ٥٨ (٦٣٩٣) ، والإکراہ ١ (٦٩٤٠) ، والأدب ١١٠ (٦٢٠٠) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٧ (١٠٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الاقامة ١٤٥ (١٢٤٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٥٥، ٢٧١، ٤١٨، ٤٧٠ ، ٥٠٧، ٥٢١) (صحیح) دون قولہ : ” فذکرت “
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر میں ہر نماز کے بعد ایک ماہ تک مسلسل قنوت پڑھی، جب آخری رکعت میں سمع الله لمن حمده کہتے تو آپ ﷺ بنی سلیم کے قبائل : رعل، ذکوان اور عصیہ کے حق میں بد دعا کرتے اور جو لوگ آپ کے پیچھے ہوتے آمین کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٢٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠١) (حسن )
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے ان سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ نے فجر میں دعائے قنوت پڑھی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، پھر ان سے پوچھا گیا : رکوع سے پہلے یا بعد میں ؟ تو انہوں نے کہا : رکوع کے بعد میں ١ ؎۔ مسدد کی روایت میں ہے کہ تھوڑی مدت تک ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٧ (١٠٠١) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٢٧ (١٠٧٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٢٠ (١١٨٢ و ١١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٧) ، مسند احمد (٣/١١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قنوت کی دو قسمیں ہیں : قنوت نازلہ اور قنوت وتر یہاں حدیث میں قنوت نازلہ مراد ہے اور یہ رکوع کے بعد فرض نماز میں دشمنان اسلام کے لئے بددعا کے طور پر پڑھی جاتی ہے۔ ٢ ؎ : یہ مدت ایک مہینہ پر مشتمل تھی۔
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت پڑھی پھر اسے ترک کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٤، ٢٤٩) (صحیح )
نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا بیان
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فجر پڑھی کہ جب آپ دوسری رکعت سے سر اٹھاتے تو تھوڑی دیر کھڑے رہتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/التطبیق ٢٧ (١٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٦٧) (صحیح )
گھر میں نفل پڑھنے کی فضلیت
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کے ایک حصہ کو چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا، آپ رات کو نکلتے اور اس میں نماز پڑھتے تھے، کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کردی وہ ہر رات آپ کے پاس آنے لگے یہاں تک کہ ایک رات آپ ﷺ ان کی طرف نہیں نکلے، لوگ کھنکھارنے اور آوازیں بلند کرنے لگے، اور آپ کے دروازے پر کنکر مارنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ غصے میں ان کی طرف نکلے اور فرمایا : لوگو ! تم مسلسل ایسا کئے جا رہے تھے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ کہیں تم پر یہ فرض نہ کردی جائے، لہٰذا اب تم کو چاہیئے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو اس لیے کہ آدمی کی سب سے بہتر نماز وہ ہے جسے وہ اپنے گھر میں پڑھے ١ ؎ سوائے فرض نماز کے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم (١٠٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم تمام نفلی نماز کو شامل ہے البتہ اس حکم سے وہ نماز مستثنیٰ ہے جس کا شمار شعائر اسلام میں سے ہے مثلاً عیدین، استسقا اور کسوف و خسوف (چاند اور سورج گرہن) کی نماز۔
گھر میں نفل پڑھنے کی فضلیت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی نماز میں سے کچھ گھروں میں پڑھا کرو، اور انہیں قبرستان نہ بناؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٢) (صحیح )
خالی ہے
عبداللہ بن حبشی خثعمی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نماز میں دیر تک کھڑے رہنا ، پھر پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کم مال والا محنت کی کمائی میں سے جو صدقہ دے ، پھر پوچھا گیا : کون سی ہجرت افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی ہجرت جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جنہیں اللہ نے اس پر حرام کیا ہے ، پھر پوچھا گیا : کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان و مال کے ساتھ مشرکین سے جہاد کیا ہو ، پھر پوچھا گیا : کون سا قتل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جس کا خون بہایا گیا ہو اور جس کے گھوڑے کے ہاتھ پاؤں کاٹ لیے گئے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : (١٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٤١) (صحیح) بلفظ : ” أي الصلاة “
شب بیداری اور تہجد کی فضلیت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے، پھر نماز پڑھے اپنی بیوی کو بھی جگائے تو وہ بھی نماز پڑھے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ رحم فرمائے اس عورت پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اپنے شوہر کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/قیام اللیل ٥ (١٦١١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٥ (١٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٣٦) (حسن صحیح )
شب بیداری اور تہجد کی فضلیت
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو رات کو بیدار ہو اور اپنی بیوی کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعتیں پڑھیں تو وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں میں لکھے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٥ (١٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٥) ، وقد أخرجہ : ن الکبری/ التفسیر (١١٤٠٦) (صحیح )
قرآن پڑھنے کا ثواب
عثمان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢١ (٢٩٠٧) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٥ (٢٩٠٧، ٢٩٠٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦ (٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٨١٣) ، وقد أخرجہ : ن الکبری/فضائل القرآن (٨٠٣٧) ، مسند احمد (١/٥٧، ٥٨، ٦٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢ (٣٣٤١) (صحیح )
قرآن پڑھنے کا ثواب
معاذ جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہوگی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٤) ، وقد أخرجہ : (حم (٣/٤٤٠) (ضعیف) (اس کے راوی زبُّان اور سہل ضعیف ہیں )
قرآن پڑھنے کا ثواب
ام المؤمنین عائشہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص قرآن پڑھتا ہو اور اس میں ماہر ہو تو وہ بڑی عزت والے فرشتوں اور پیغمبروں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص اٹک اٹک کر پریشانی کے ساتھ پڑھے تو اسے دہرا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٧٩ (٤٩٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٨ (٧٩٨) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٣ (٢٩٠٤) ، ن الکبری / فضائل القرآن (٨٠٤٥، ٨٠٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٨، ٩٤، ٩٨، ١١٠، ١٧٠، ١٩٢، ٢٣٩، ٢٦٦) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ١١ (٣٤١١) (صحیح )
قرآن پڑھنے کا ثواب
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو بھی قوم (جماعت) اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں سے کسی گھر یعنی مسجد میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتی اور باہم اسے پڑھتی پڑھاتی ہے اس پر سکینت نازل ہوتی ہے، اسے اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے، جو اس کے پاس رہتے ہیں یعنی مقربین ملائکہ میں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١١ (٢٦٩٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحدود ٣ (١٤٢٥) ، والبر والصلة ١٩ (١٩٣٠) ، والعلم ٢ (٢٦٤٦) ، والقرائات ١٢ (٢٩٤٦) ، مسند احمد (٢/٢٥٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٦٨) (صحیح )
قرآن پڑھنے کا ثواب
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے ہم صفہ (چبوترے) پر تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کون یہ پسند کرتا ہے کہ صبح کو بطحان یا عقیق جائے، پھر بڑی کوہان والے موٹے تازے دو اونٹ بغیر کوئی گناہ یا قطع رحمی کئے لے کر آئے ؟ ، صحابہ نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے سبھوں کی یہ خواہش ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم میں سے کوئی اگر روزانہ صبح کو مسجد جائے اور قرآن مجید کی دو آیتیں سیکھے تو یہ اس کے لیے ان دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور اسی طرح سے تین آیات سیکھے تو تین اونٹنیوں سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤١ (٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٤) (صحیح )
سورت فاتحہ کی فضلیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : الحمد لله رب العالمين ام القرآن اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ١ ؎ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٣ (٤٧٠٤) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١ (٢٨٢٥) ، و تفسیر القرآن ١٦ (٣١٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠١٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الافتتاح ٢٦ (٩١٥) ، مسند احمد (٢/٤٤٨) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ١٢ (٣٤١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سبع اس لئے کہ اس میں سات آیتیں ہیں اور مثانی اس لئے کہ وہ ہر نماز میں دہرائی جاتی ہیں۔
سورت فاتحہ کی فضلیت کا بیان
ابوسعید بن معلی (رض) سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا وہ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں بلایا، میں (نماز پڑھ کر) آپ کے پاس آیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے مجھے جواب کیوں نہیں دیا ؟ ، عرض کیا : میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : اے مومنو ! جواب دو اللہ اور اس کے رسول کو، جب رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلائیں، جس میں تمہاری زندگی ہے میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورة سکھاؤں گا اس سے پہلے کہ میں مسجد سے نکلوں ، (جب آپ ﷺ مسجد سے نکلنے لگے) تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابھی آپ نے کیا فرمایا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سورة الحمد لله رب العالمين ہے اور یہی سبع مثانی ہے جو مجھے دی گئی ہے اور قرآن عظیم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة ١ (٤٤٧٤) ، و تفسیر الأنفال ٣ (٤٦٤٨) ، و تفسیر الحجر ٣ (٤٧٠٣) ، و فضائل القرآن ٩ (٥٠٠٦) ، سنن النسائی/الافتتاح ٢٦ (٩١٤) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٧ (٣٧) ، مسند احمد (٣/٤٥٠، ٤/٢١١) ، سنن الدارمی/الصلاةٔ ١٧٢ (١٥٣٣) ، و فضائل القرآن ١٢ (٣٤١٤) (صحیح )
سورت فاتحہ کا لمبی سورتوں میں سے ہو نا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو سات لمبی سورتیں دی گئیں ہیں ١ ؎ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو چھ دی گئی تھیں، جب انہوں نے تختیاں (جن پر تورات لکھی ہوئی تھی) زمین پر ڈال دیں تو دو آیتیں اٹھا لی گئیں اور چار باقی رہ گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٢٦ (٩١٦، ٩١٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معنی کے اعتبار سے لمبی ہیں ورنہ ان کے الفاظ مختصر ہیں۔
آیت لکرسی کی فضیلت
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے ابومنذر ! ١ ؎ کتاب اللہ کی کون سی آیت تمہارے نزدیک سب سے باعظمت ٢ ؎ ہے ؟ ، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : ابومنذر ! کتاب اللہ کی کون سی آیت تمہارے نزدیک سب سے بڑی ہے ؟ ، میں نے عرض کیا : الله لا إله إلا هو الحي القيوم ، تو آپ ﷺ نے میرے سینے کو تھپتھپایا اور فرمایا : اے ابومنذر ! تمہیں علم مبارک ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٤ (٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابی بن کعب (رض) کی کنیت ہے۔ ٢ ؎ : باعظمت سے مراد الفاظ کی کثرت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے معانی کی عظمت مراد ہے یعنی اس آیت کے معنی بہت عظیم ہیں نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے درجہ کی بڑائی مراد ہے یعنی اس آیت کا درجہ بڑا ہے کیونکہ اس میں اللہ کی عظمت، اس کی وحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کا ذکر ہے۔
سورت اخلاص کی فضلیت کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو قل هو الله أحد باربار پڑھتے سنا، جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا، گویا وہ اس سورت کو کمتر سمجھ رہا تھا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ (سورۃ) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٣ (٥٠١٣) ، والأیمان والنذور ٣ (٦٦٤٣) ، والتوحید ١ (٧٣٧٤) ، سنن النسائی/الافتتاح ٦٩ (٩٩٦) ، وعمل الیوم واللیلة ٢٠٤ (٦٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٦ (١٧) ، مسند احمد (٣/٣٥، ٤٣) (صحیح )
قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبر الناس کی فضلیت کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، آپ نے فرمایا : عقبہ ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں ؟ ، پھر آپ ﷺ نے مجھے قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس سکھائیں، لیکن آپ ﷺ نے مجھے ان دونوں (کے سیکھنے) سے بہت زیادہ خوش ہوتے نہ پایا، چناچہ جب آپ ﷺ فجر کے لیے (سواری سے) اترے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور یہی دونوں سورتیں پڑھیں، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : عقبہ ! تم نے انہیں کیا سمجھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٦ (٨١٤) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٢ (٢٩٠٢) ، قیام اللیل (١٣٣٧) ، ن الکبری/الاستعاذة (٧٨٤٨) ، مسند احمد (٤/١٤٤، ١٤٩، ١٥١، ١٥٣) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٤ (٣٤٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انہیں معمولی اور حقیر سمجھ رہے ہو، حالانکہ یہ بڑے کام کی ہیں، نبی اکرم ﷺ بلاؤں اور جادو سے نجات پانے کے لئے یہ سورتیں پڑھتے تھے۔
قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذبر الناس کی فضلیت کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں حجفہ اور ابواء کے درمیان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ہمیں تیز آندھی اور شدید تاریکی نے ڈھانپ لیا تو رسول اللہ ﷺ قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھنے لگے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : اے عقبہ ! تم بھی ان دونوں کو پڑھ کر پناہ مانگو، اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کے ذریعہ پناہ مانگنے والے کی طرح کسی پناہ مانگنے والے نے پناہ نہیں مانگی ۔ عقبہ کہتے ہیں : میں نے آپ ﷺ کو سنا آپ انہیں دونوں کے ذریعہ ہماری امامت فرما رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٢) (صحیح )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا : پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٨ (٢٩١٤) ، ن الکبری / فضائل القرآن (٨٠٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩٢) (حسن صحیح ) وضاحت : وضاحت : قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ایک آیت پڑھ کر ایک درجہ طے کرو گے پھر دوسری آیت سے دوسرا درجہ، اسی طرح جتنی آیتیں پڑھتے جاؤ گے اتنے درجے اور مراتب اوپر اٹھتے چلے جاؤ گے جہاں آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہارا مقام ہوگا۔
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے نبی اکرم ﷺ کی قرآت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ مد کو کھینچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٩ (٥٠٤٥) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٢ (١٠١٥) ، سنن الترمذی/الشمائل (٣١٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٩ (١٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٩، ١٢٧، ١٣١، ١٩٢، ١٩٨، ٢٨٩) (صحیح )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام سلمہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی قرآت اور نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : تم کہاں اور آپ ﷺ کی نماز کہاں ؟ آپ نماز پڑھتے اور جتنی دیر پڑھتے اتنا ہی سوتے، پھر جتنا سو لیتے اتنی دیر نماز پڑھتے، پھر جتنی دیر نماز پڑھتے اتنی دیر سوتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی، پھر ام سلمہ نے آپ ﷺ کی قرآت بیان کی تو دیکھا کہ وہ ایک ایک حرف الگ الگ پڑھ رہی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٣ (٢٩٢٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٣(١٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٤، ٢٩٧، ٣٠٠، ٣٠٨) (ضعیف) (اس کے راوی یعلی لین الحدیث ہیں )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورة الفتح پڑھ رہے تھے اور (ایک ایک آیت) کئی بار دہرا رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٤٨ (٤٢٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٥ (٧٩٤) ، ت الشمائل (٣٩١) ، ن الکبری/فضائل القرآن (٨٠٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٥) (صحیح )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الافتتاح ٨٣ (١٠١٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٧٦ (١٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٥٢، تعلیقاً ، مسند احمد (٤/٢٨٣، ٢٨٥، ٢٩٦، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٤ (٣٥٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خطابی وغیرہ نے اس کا ایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو زینت دو ، یعنی اپنی آوازوں کو قرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں زينوا أصواتکم بالقرآن کے الفاظ ہیں۔
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قرآن خوش الحانی سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٥، ١٨٦٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٢، ١٧٥، ١٧٩) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٤ (٣٥٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام خطابی نے اس کے تین معانی بیان کئے ہیں : ایک یہی ترتیل اور حسن آواز، دوسرے : قرآن کے ذریعہ دیگر کتب سے استغناء (دیکھئے نمبر : ١٤٧٢) ، تیسرے : عربوں میں رائج سواری پر حدی خوانی کے بدلے قرآن کی تلاوت۔
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
اس سند سے بھی سعد (رض) سے اسی کے مثل حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٥، ١٨٦٩٠) (صحیح )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں ہمارے پاس سے ابولبابہ (رض) کا گزر ہوا تو ہم ان کے پیچھے ہو لیے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کے اندر داخل ہوگئے تو ہم بھی داخل ہوگئے تو دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے۔ بوسیدہ سا گھر ہے اور وہ بھی خستہ حال ہے، میں نے سنا : وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے : جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ عبدالجبار کہتے ہیں : میں نے ابن ابی ملیکہ سے کہا : اے ابو محمد ! اگر کسی کی آواز اچھی نہ ہو تو کیا کرے ؟ انہوں نے جواب دیا : جہاں تک ہو سکے اسے اچھی بنائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٥) (حسن صحیح )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
محمد بن سلیمان انباری کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں وکیع اور ابن عیینہ نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ (دیگر کتب یا ادیان سے) بےنیاز ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٥) (صحیح )
قرائت میں کس طرح سے ترتیل کرنا مستحب ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٩ (٥٠٢٤) ، والتوحید ٣٢ (٧٤٨٢) ، ٥٢ (٧٥٤٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٤ (٧٩٢) ، سنن النسائی/الافتتاح ٨٣ (١٠١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧١، ٢٨٥، ٤٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧١ (١٥٢٩) ، و فضائل القرآن ٣٣ (٣٥٤٠) (صحیح )
قرآن حفظ کرنے کے بعد اس کو بھلا دینے پر وعید
سعد بن عبادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی آدمی قرآن پڑھتا ہو پھر اسے بھول جائے تو قیامت کے دن وہ اللہ سے مجذوم ١ ؎ ہو کر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٤، ٢٨٥، ٣٢٣) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣ (٣٣٨٣) (ضعیف) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں ، نیز : عیسیٰ نے اسے براہ راست سعد بن عبادہ (رض) سے نہیں سنا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : کوڑھ کے سبب جس کے ہاتھ کٹ کر گرگئے ہوں۔
قرآن مجید سات طرح پر نازل ہونے کا بیان
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام (رض) کو سورة الفرقان پڑھتے سنا، وہ اس طریقے سے ہٹ کر پڑھ رہے تھے جس طرح میں پڑھتا تھا حالانکہ مجھے خود رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا تھا تو قریب تھا کہ میں ان پر جلدی کر بیٹھوں ١ ؎ لیکن میں نے انہیں مہلت دی اور پڑھنے دیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوگئے تو میں نے ان کی چادر پکڑ کر انہیں گھسیٹا اور انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے انہیں سورة الفرقان اس کے برعکس پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے سکھائی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ہشام سے فرمایا : تم پڑھو ، انہوں نے ویسے ہی پڑھا جیسے میں نے پڑھتے سنا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے ، پھر مجھ سے فرمایا : تم پڑھو ، میں نے بھی پڑھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اسی طرح نازل ہوئی ہے ، پھر فرمایا : قرآن مجید سات حرفوں ٢ ؎ پر نازل ہوا ہے، لہٰذا جس طرح آسان لگے پڑھ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخصومات ٤ (٢٤١٩) ، و فضائل القرآن ٥ (٤٩٩٢) ، ٢٧ (٥٠٤١) ، والمرتدین ٩ (٦٩٣٦) ، والتوحید ٥٣ (٧٥٥٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٨ (٨١٨) ، سنن الترمذی/القراء ات ١١ (٢٩٤٣) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٣٨، ٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ القرآن ٤ (٥) ، مسند احمد (١/ ٤٠، ٤٢، ٤٣، ٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہیں قرات سے روک دوں۔ ٢ ؎ : علامہ سیوطی نے ” الاتقان “ میں اس کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں مثلاً سات حرفوں سے مراد سات لغات ہیں یا سات لہجے ہیں جو عرب کے مختلف قبائل میں مروج تھے یا سات قراتیں ہیں جنہیں قرات سبعہ کہا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
قرآن مجید سات طرح پر نازل ہونے کا بیان
زہری کہتے ہیں کہ یہ حروف (اگرچہ بظاہر مختلف ہوں) ایک ہی معاملہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں حلال و حرام میں اختلاف نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح )
قرآن مجید سات طرح پر نازل ہونے کا بیان
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابی ! مجھے قرآن پڑھایا گیا، پھر مجھ سے پوچھا گیا : ایک حرف پر یا دو حرف پر ؟ میرے ساتھ جو فرشتہ تھا، اس نے کہا : کہو : دو حرف پر، میں نے کہا : دو حرف پر، پھر مجھ سے پوچھا گیا : دو حرف پر یا تین حرف پر ؟ اس فرشتے نے جو میرے ساتھ تھا، کہا : کہو : تین حرف پر، چناچہ میں نے کہا : تین حرف پر، اسی طرح معاملہ سات حروف تک پہنچا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں سے ہر ایک حرف شافی اور کافی ہے، چا ہے تم سميعا عليما کہو یا عزيزا حكيما جب تک تم عذاب کی آیت کو رحمت پر اور رحمت کی آیت کو عذاب پر ختم نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابوداود ، (تحفة الأشراف : ٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥ /١٢٤، ١٢٧، ١٢٨) (صحیح )
قرآن مجید سات طرح پر نازل ہونے کا بیان
ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ بنی غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا : اللہ عزوجل آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ سے اس کی بخشش اور مغفرت مانگتا ہوں، میری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی ہے ، پھر دوبارہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور اسی طرح سے کہا، یہاں تک کہ معاملہ سات حرفوں تک پہنچ گیا، تو انہوں نے کہا : اللہ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو سات حرفوں پر پڑھائیں، لہٰذا اب وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے وہ صحیح ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٨ (٨٢١) ، سنن النسائی/الافتتاح ٣٧ (٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٧) (صحیح )
دعا کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دعا عبادت ہے ١ ؎، تمہارا رب فرماتا ہے : مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا (سورۃ غافر : ٦٠) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر البقرة ٣ (٢٩٦٩) ، تفسیر المؤمن ٤١ (٣٢٤٧) ، الدعوات ١ (٣٣٧٢) ، ن الکبری/ التفسیر (١١٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١ (٣٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧١، ٢٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دعا جب عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ہوگا، کیونکہ عبادت و بندگی کی جملہ قسمیں اللہ ہی کو زیب دیتی ہیں۔