20. خرید وفروخت کا بیان
تجارت میں جھوٹ سچ بہت ہوتا ہے
قیس بن ابی غرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سماسرہ ١ ؎ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے سوداگروں کی جماعت ! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہوجاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤ (١٢٠٨) ، سنن النسائی/الأیمان ٢١ (٣٨٢٨) ، البیوع ٧ (٤٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣ (٢١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦، ٢٨٠) ( حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سماسرہ : سمسار کی جمع ہے، عجمی لفظ ہے چونکہ عرب میں اس وقت زیادہ تر عجمی لوگ خریدو فروخت کیا کرتے تھے، اس لئے ان کے لئے یہی لفظ رائج تھا، آپ ﷺ نے ان کے لئے تجار کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے، سمسار اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کرتا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کرلیا کرو۔
تجارت میں جھوٹ سچ بہت ہوتا ہے
اس سند سے بھی قیس بن ابی غرزہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں يحضره اللغو والحلف کے بجائے : يحضره الکذب والحلف ہے عبداللہ الزہری کی روایت میں : اللغو والکذب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٣) (صحیح )
کان سے کوئی چیز نکالنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے قرض دار کے ساتھ لگا رہا جس کے ذمہ اس کے دس دینار تھے اس نے کہا : میں تجھ سے جدا نہ ہوں گا جب تک کہ تو قرض نہ ادا کر دے، یا ضامن نہ لے آ، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے قرض دار کی ضمانت لے لی، پھر وہ اپنے وعدے کے مطابق لے کر آیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : یہ سونا تجھے کہاں سے ملا ؟ اس نے کہا : میں نے کان سے نکالا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے (لے جاؤ) اس میں بھلائی نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف سے (قرض کو) خود ادا کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٩ (٢٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٧٨) (صحیح )
شبہات سے بچنابہتر ہے !
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں (جن کی حلت و حرمت میں شک ہے) اور کبھی یہ کہا کہ ان کے درمیان مشتبہ چیز ہے اور میں تمہیں یہ بات ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، اللہ نے (اپنے لیے) محفوظ جگہ (چراگاہ) بنائی ہے، اور اللہ کی محفوظ جگہ اس کے محارم ہیں (یعنی ایسے امور جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے) اور جو شخص محفوظ چراگاہ کے گرد اپنے جانور چرائے گا، تو عین ممکن ہے کہ اس کے اندر داخل ہوجائے اور جو شخص مشتبہ چیزوں کے قریب جائے گا تو عین ممکن ہے کہ اسے حلال کر بیٹھنے کی جسارت کر ڈالے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٩ (٥٢) ، والبیوع ٢ (٢٠٥١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٠ (١٥٩٩) ، سنن الترمذی/البیوع ١ (١٢٠٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢ (٤٤٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٤ (٣٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٥) ، سنن الدارمی/البیوع ١ (٢٥٧٣) (صحیح ) نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے : ان دونوں کے درمیان کچھ شبہ کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٤) (صحیح )
None
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے: ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا ۔
شبہات سے بچنابہتر ہے !
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں سود کھانے سے کوئی بچ نہ سکے گا اور اگر نہ کھائے گا تو اس کی بھاپ کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی ١ ؎۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں أصابه من بخاره کی جگہ أصابه من غباره ہے، یعنی اس کی گرد کچھ نہ کچھ اس پر پڑ کر ہی رہے گی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٢ (٤٤٦٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٨) ، مسند احمد (٢/٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٣، ١٢٢٤١) (ضعیف) (اس کے راوی سعید لین الحدیث ہیں، نیز حسن بصری کا ابوہریرہ (رض) سے سماع ثابت نہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا کچھ نہ کچھ اثر اس پر ظاہر ہو کر رہے گا۔
شبہات سے بچنابہتر ہے !
ایک انصاری کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ ﷺ قبر پر تھے قبر کھودنے والے کو بتا رہے تھے : پیروں کی جانب سے (قبر) کشادہ کرو اور سر کی جانب سے چوڑی کرو پھر جب آپ ﷺ (وہاں سے فراغت پا کر) لوٹے تو ایک عورت کی جانب سے کھانے کی دعوت دینے والا آپ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ (اس کے یہاں) آئے اور کھانا لایا گیا، آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ رکھا (کھانا شروع کیا) پھر دوسرے لوگوں نے رکھا اور سب نے کھانا شروع کردیا تو ہمارے بزرگوں نے رسول ﷺ کو دیکھا، آپ ایک ہی لقمہ منہ میں لیے گھما پھرا رہے ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے لگتا ہے یہ ایسی بکری کا گوشت ہے جسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر کے پکا لیا گیا ہے پھر عورت نے کہلا بھیجا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنا ایک آدمی بقیع کی طرف بکری خرید کر لانے کے لیے بھیجا تو اسے بکری نہیں ملی پھر میں نے اپنے ہمسایہ کو، جس نے ایک بکری خرید رکھی تھی کہلا بھیجا کہ تم نے جس قیمت میں بکری خرید رکھی ہے اسی قیمت میں مجھے دے دو (اتفاق سے) وہ ہمسایہ (گھر پر) نہ ملا تو میں نے اس کی بیوی سے کہلا بھیجا تو اس نے بکری میرے پاس بھیج دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ گوشت قیدیوں کو کھلا دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٣، ٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : چونکہ بکری ، صاحب بکری کی اجازت کے بغیر ذبح کر ڈالی گئی اس لئے یہ مشتبہ گوشت ٹھہرا اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے اپنے آپ کو اس مشتبہ چیز کے کھانے سے بچایا۔
سود لینے اور دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کے لیے گواہ بننے والے اور اس کے کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقات ١٩ (١٥٩٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٢ (١٢٠٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الطلاق ١٣ (٣٤٤٥) ، مسند احمد (١/٣٩٢، ٣٩٤، ٤٠٢، ٤٥٣) (صحیح )
سود معاف کردینے کا بیان
عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں سنا : آپ فرما رہے تھے : سنو ! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سود لو نہ تم سے کوئی سود لے) سن لو ! زمانہ جاہلیت کے خون کالعدم کر دئیے گئے ہیں، اور زمانہ جاہلیت کے سارے خونوں میں سے میں سب سے پہلے جسے معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب ١ ؎ کا خون ہے وہ ایک شیر خوار بچہ تھے جو بنی لیث میں پرورش پا رہے تھے کہ ان کو ہذیل کے لوگوں نے مار ڈالا تھا۔ راوی کہتے ہیں : آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ لوگوں نے تین بار کہا : ہاں (آپ نے پہنچا دیا) آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : اے اللہ ! تو گواہ رہ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ١ (١٢٥٩) ، تفسیرالقرآن ١٠ (٣٠٨٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٦ (٣٠٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٤٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حارث بن عبدالمطلب (رض) نبی اکرم ﷺ کے چچا تھے۔
سود معاف کردینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : (جھوٹی) قسم (قسم کھانے والے کے خیال میں) سامان کو رائج کردیتی ہے، لیکن برکت کو ختم کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٢٦ (٢٠٨٧) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٧ (١٦٠٦) ، سنن النسائی/البیوع ٥ (٤٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٤٢، ٤١٣) (صحیح )
قول میں جھکتا ہوا تولنا اور مزدوری لے کر مال تولنا
سوید بن قیس کہتے ہیں میں نے اور مخرمہ عبدی نے ہجر ١ ؎ سے کپڑا لیا اور اسے (بیچنے کے لیے) مکہ لے کر آئے تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس پیدل آئے، اور ہم سے پائجامہ کے کپڑے کے لیے بھاؤ تاؤ کیا تو ہم نے اسے بیچ دیا اور وہاں ایک شخص تھا جو معاوضہ لے کر وزن کیا کرتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : تولو اور جھکا ہوا تولو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٦ (١٣٠٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥٢ (٤٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٤ (٢٢٢٠) ، اللباس ١٢ (٣٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٧ (٢٦٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
قول میں جھکتا ہوا تولنا اور مزدوری لے کر مال تولنا
ابوصفوان بن عمیرۃ (یعنی سوید) (رض) کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کی ہجرت سے پہلے مکہ آیا، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی لیکن اجرت لے کر وزن کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے قیس نے بھی سفیان کی طرح بیان کیا ہے اور لائق اعتماد بات تو سفیان کی بات ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٠) (صحیح )
قول میں جھکتا ہوا تولنا اور مزدوری لے کر مال تولنا
ابورزمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شعبہ سے کہا : سفیان نے روایت میں آپ کی مخالفت کی ہے، آپ نے کہا : تم نے تو میرا دماغ چاٹ لیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے یحییٰ بن معین کی یہ بات پہنچی ہے کہ جس شخص نے بھی سفیان کی مخالفت کی تو لائق اعتماد بات سفیان کی بات ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صحابی کا نام سوید بن قیس (جیسا کہ سفیان نے کہا ہے) زیادہ قابل اعتماد ہے بنسبت ابو صفوان بن عمیرۃ کے، لیکن اصحاب التراجم کا فیصلہ ہے کہ دونوں نام ایک ہی آدمی کے ہیں۔
قول میں جھکتا ہوا تولنا اور مزدوری لے کر مال تولنا
شعبہ کہتے ہیں سفیان کا حافظہ مجھ سے زیادہ قوی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٨٠٨) (صحیح )
ناپ میں مدینہ والوں کا ناپ معتبر ہے اور تول میں مکہ والوں کا تول
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تول میں مکے والوں کی تول معتبر ہے اور ناپ میں مدینہ والوں کی ناپ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : فریابی اور ابواحمد نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے اور انہوں نے متن میں ان دونوں کی موافقت کی ہے اور ابواحمد نے ابن عمر (رض) کی جگہ عن ابن عباس کہا ہے اور اسے ولید بن مسلم نے حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ وزن (باٹ) مدینہ کا اور پیمانہ مکہ کا معتبر ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مالک بن دینار کی حدیث جسے انہوں نے عطاء سے عطاء نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ متن میں اختلاف واقع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٤٤ (٢٥٢١) ، البیوع ٥٤ (٤٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٧١٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤٥) (صحیح )
قرض کی مذمت اور اس کی ادائیگی کی تاکید
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبے میں فرمایا : کیا یہاں بنی فلاں کا کوئی شخص ہے ؟ تو کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر پوچھا : کیا یہاں بنی فلاں کا کوئی شخص ہے ؟ تو پھر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ ﷺ نے پھر پوچھا : کیا یہاں بنی فلاں کا کوئی شخص ہے ؟ تو ایک شخص کھڑے ہو کر کہا : میں ہوں، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : پہلے دو بار پوچھنے پر تم کو میرا جواب دینے سے کس چیز نے روکا تھا ؟ میں تو تمہیں بھلائی ہی کی خاطر پکار رہا تھا تمہارا ساتھی اپنے قرض کے سبب قید ہے ١ ؎۔ سمرہ (رض) کہتے ہیں : میں نے اسے دیکھا کہ اس شخص نے اس کا قرض ادا کردیا یہاں تک کہ کوئی اس سے اپنا قرضہ مانگنے والا نہ بچا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٩٦ (٤٦٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١١، ١٣، ٢٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قرض کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ جنت میں جا نہیں سکتا۔
قرض کی مذمت اور اس کی ادائیگی کی تاکید
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک ان کبائر کے بعد جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی مرے اور اس پر قرض ہو اور وہ کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جس سے اس کا قرض ادا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٢) (ضعیف) (اس کے راوی ابوعبد اللہ قرشی لین الحدیث ہیں )
قرض کی مذمت اور اس کی ادائیگی کی تاکید
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو اس حال میں مرتا کہ اس پر قرض ہوتا، چناچہ آپ ﷺ کے پاس ایک جنازہ (میت) لایا گیا، آپ نے پوچھا : کیا اس پر قرض ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، اس کے ذمہ دو دینار ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو ١ ؎، تو ابوقتادہ انصاری (رض) نے کہا : میں ان کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتا ہوں اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر جب اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو فتوحات اور اموال غنیمت سے نوازا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں ہر مومن سے اس کی جان سے زیادہ قریب تر ہوں پس جو کوئی قرض دار مرجائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہوگی اور جو کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے ورثاء کا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجنائز ٦٧ (١٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اتنا سخت رویہ آپ ﷺ نے اس لئے اپنایا تاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہونے پائیں۔
قرض کی مذمت اور اس کی ادائیگی کی تاکید
عکرمہ سے روایت ہے انہوں نے اسے مرفوع کیا ہے اور عثمان کی سند یوں ہے : حدثنا وكيع، عن شريك، عن سماک، عن عکرمة، ۔ عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم اور متن اسی کے ہم مثل ہے اس میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے ایک قافلہ سے ایک تبیع ١ ؎ خریدا، اور آپ ﷺ کے پاس اس کی قیمت نہیں تھی، تو آپ کو اس میں نفع دیا گیا، آپ ﷺ نے اسے بیچ دیا اور جو نفع ہوا اسے بنو عبدالمطلب کی بیواؤں کو صدقہ کردیا اور فرمایا : آئندہ جب تک چیز کی قیمت اپنے پاس نہ ہوگی کوئی چیز نہ خریدوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١١٣، ١٩١١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٣٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی شریک حافظہ کے کمزور ہیں، نیز عکرمہ سے سماک کی روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : تبیع خادم کو کہتے ہیں اور گائے کے اس بچے کو بھی جو پہلے سال میں ہو۔
قرض ادا کرنے میں تاخیر کی مذمت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے (چاہے وہ قرض ہو یا کسی کا کوئی حق) اور اگر تم میں سے کوئی مالدار شخص کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحوالة ١ (٢٢٨٨) ، ٢ (٢٢٨٩) ، والاستقراض ١٢(٢٤٠٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ٧ (١٥٦٤) ، سنن النسائی/البیوع ٩٩ (٤٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٩٣، ١٣٨٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٨ (١٣٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٨ (٢٤٠٣) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٠ (٨٤) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٤، ٢٦٠، ٣١٥، ٣٧٧، ٣٨٠، ٤٦٣، ٤٦٤، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٨ (٢٦٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید عمرو کا مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کرلے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنا چاہیے۔
اچھی طرح ادائیگی کا بیان
ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹا اونٹ بطور قرض لیا پھر آپ کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ ویسا ہی اونٹ آدمی کو لوٹا دوں، میں نے (آ کر) عرض کیا : مجھے کوئی ایسا اونٹ نہیں ملا سبھی اچھے، بڑے اور چھ برس کے ہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے اسی کو دے دو ، لوگوں میں اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی اچھی کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٤٣ (١٦٠٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٥ (١٣١٨) ، سنن النسائی/البیوع ٦٢ (٤٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٢ (٢٢٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٣ (٨٩) ، مسند احمد (٦/٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٣١ (٢٦٠٧) (صحیح )
اچھی طرح ادائیگی کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میرا کچھ قرض نبی اکرم ﷺ پر تھا، تو آپ نے مجھے ادا کیا اور زیادہ کر کے دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٩ (٤٤٣) ، والوکالة ٨ (٢٣٠٩) ، والاستقراض ٧ (٢٣٩٤) ، والھبة ٣٢ (٣٦٠٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١١ (٧١٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥١ (٤٥٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٢، ٣١٩، ٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر قرضدار اپنی خوشی سے بغیر کسی شرط کے زیادہ دے تو اس کے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
بیع صرف کا بیان
عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا چاندی کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، گیہوں گیہوں کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور کھجور کھجور کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور جو جو کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو (نقدا نقد ہونے کی صورت میں ان چیزوں میں سود نہیں ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ برابر بھی ہوں) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٤) ، ٧٤ (٢١٧٠) ، ٧٦ (٢١٧٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٣٧ (١٥٨٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٣٩ (٤٥٦٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٠ (٢٢٦٠، ٢٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٧ (٣٨) ، مسند احمد (١/٢٤، ٢٥، ٤٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٦٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سونا چاندی کو سونا چاندی کے بدلے میں نقدا بیچنا یہی بیع صرف ہے ، اس میں نقدا نقد ہونا ضروری ہے، ادھار درست نہیں۔
بیع صرف کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا سونے کے بدلے برابر برابر بیچو، ڈلی ہو یا سکہ، اور چاندی چاندی کے بدلے میں برابر برابر بیچو ڈلی ہو یا سکہ، اور گیہوں گیہوں کے بدلے برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، جو جو کے بدلے میں برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، اسی طرح کھجور کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، نمک نمک کے بدلے میں برابر برابر بیچو، ایک مد ایک مد کے بدلے میں، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود دیا، سود لیا، سونے کو چاندی سے کمی و بیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ادھار درست نہیں، اور گیہوں کو جو سے کمی و بیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ادھار بیچنا صحیح نہیں ٢ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے قتادہ سے انہوں نے مسلم بن یسار سے اسی سند سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (١٥٨٧) ، سنن الترمذی/ البیوع (١٢٤٠) ، سنن النسائی/البیوع ٤٢ (٤٥٦٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٨ (٢٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٤، ٣٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مد : شام اور مصر کا ایک پیمانہ ہے، جو پندرہ مکوک کا ہوتا ہے، اور مکوک ڈیڑھ صاع کا ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : حاصل یہ ہے کہ جب جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد ہونا ضروری ہے، ادھار درست نہیں۔
بیع صرف کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث کچھ کمی و بیشی کے ساتھ روایت کی ہے، اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے کہ جب صنف بدل جائے (قسم مختلف ہوجائے) تو جس طرح چاہو بیچو (مثلا سونا چاندی کے بدلہ میں گیہوں جو کے بدلہ میں) جب کہ وہ نقدا نقد ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٨٩) (صحیح )
تلوار کا قبضہ جو چاندی کا ہو اسے دراہم (روپوں) کے بدلہ میں بیچنا
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں خیبر کے سال نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہار لایا گیا جس میں سونے اور پتھر کے نگ (جڑے ہوئے) تھے ابوبکر اور ابن منیع کہتے ہیں : اس میں پتھر کے دانے سونے سے آویزاں کئے گئے تھے، ایک شخص نے اسے نو یا سات دینار دے کر خریدا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں (یہ خریداری درست نہیں) یہاں تک کہ تم ان دونوں کو الگ الگ کر دو اس شخص نے کہا : میرا ارادہ پتھر کے دانے (نگ) لینے کا تھا (یعنی میں نے پتھر کے دانے کے دام دئیے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، یہ خریداری درست نہیں جب تک کہ تم دونوں کو علیحدہ نہ کر دو یہ سن کر اس نے ہار واپس کردیا، یہاں تک کہ سونا نگوں سے جدا کردیا گیا ١ ؎۔ ابن عیسیٰ نے أردت التجارة کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ان کی کتاب میں الحجارة ہی تھا مگر انہوں نے اسے بدل کر التجارة کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٧ (١٥٩١) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٢ (١٢٥٥) ، سنن النسائی/ البیوع ٤٦ (٤٥٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٩، ٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس بیع سے آپ نے اس لئے منع فرمایا کیونکہ سونے کے عوض جو دینار دئے گئے اس میں سونے کے بالمقابل دینار میں کمی بیشی کا خدشہ تھا۔
تلوار کا قبضہ جو چاندی کا ہو اسے دراہم (روپوں) کے بدلہ میں بیچنا
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں میں نے خیبر کی لڑائی کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا جو سونے اور نگینے کا تھا میں نے سونا اور نگ الگ کئے تو اس میں مجھے سونا (١٢) دینار سے زیادہ کا ملا، پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : دونوں کو الگ الگ کئے بغیر بیچنا درست نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٧) (صحیح )
تلوار کا قبضہ جو چاندی کا ہو اسے دراہم (روپوں) کے بدلہ میں بیچنا
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ ہم خیبر کی لڑائی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم یہود سے سونے کا اوقیہ دینار کے بدلے بیچتے خریدتے تھے (قتیبہ کے علاوہ دوسرے راویوں نے دو دینار اور تین دینار بھی کہے ہیں، پھر آگے کی بات میں دونوں راوی ایک ہوگئے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونے کو سونے سے نہ بیچو جب تک کہ دونوں طرف وزن برابر نہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٧) (صحیح )
چاندی کے بدلہ میں سونا لینا درست نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں میں بقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا، تو میں (اسے) دینار سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے درہم لیتا تھا اور درہم سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں اسے اس کے بدلے میں اور اسے اس کے بدلے میں الٹ پلٹ کرلیتا دیتا تھا، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ ام المؤمنین حفصہ (رض) کے یہاں تھے، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ذرا سا میری عرض سن لیجئے : میں آپ سے پوچھتا ہوں : میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینار سے بیچتا ہوں اور اس کے بدلے درہم لیتا ہوں اور درہم سے بیچتا ہوں اور دینار لیتا ہوں، یہ اس کے بدلے لے لیتا ہوں اور یہ اس کے بدلے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس دن کے بھاؤ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جب تک تم دونوں جدا نہ ہوجاؤ اور حال یہ ہو کہ تم دونوں کے درمیان کوئی معاملہ باقی رہ گیا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٤ (١٢٤٢) ، سنن النسائی/البیوع ٤٨ (٤٥٨٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥١ (٢٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣، ٥٩، ٨٩، ١٠١، ١٣٩) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٣ (٢٦٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی سماک مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کرلیتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر (رض) پر ہی موقوف کردیا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تم دونوں میں سے ایک کا دوسرے کے ذمہ کچھ باقی ہو، بلکہ جدا ہونے سے پیشتر معاملہ صاف ہوجانا چاہیے۔
چاندی کے بدلہ میں سونا لینا درست نہیں
اس سند سے بھی سماک سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے لیکن پہلی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں اس دن کے بھاؤ کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٣) (ضعیف )
ایک جانور کو دوسرے جانور کے بدلہ میں ادھار بیچنا منع ہے
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جانور کے بدلے جانور ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢١ (١٢٣٧) ، سنن النسائی/البیوع ٦٣ (٤٦٢٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٦ (٢٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ٢١، ٢٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٠ (٢٦٠٦) (صحیح) حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء ٢٤١٦ )
اسکے جواز کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا، تو اونٹ کم پڑگئے تو آپ نے صدقہ کے جوان اونٹ کے بدلے اونٹ (ادھار) لینے کا حکم دیا تو وہ صدقہ کے اونٹ آنے تک کی شرط پر دو اونٹ کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧١، ٢١٦) (ضعیف) (اس کے رواة مسلم، ابو سفیان اور عمرو سب مجہول ہیں )
ایک جانور کو دوسرے جانور کے بدلہ میں نقدبیچنا درست ہے
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک غلام دو غلام کے بدلے خریدا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٣ (١٦٠٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٢ (١٢٣٩) ، السیر ٣٦ (١٥٩٦) ، سنن النسائی/البیعة ٢١ (٤١٨٩) ، البیوع ٦٤ (٤٦٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٤١ (٢٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٩، ٣٧٢) (صحیح )
کھجور کو کھجور کے بدلہ میں بیچنا
عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ زید ابوعیاش نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے پوچھا کہ گیہوں کو سلت (بغیر چھلکے کے جو) سے بیچنا کیسا ہے ؟ سعد (رض) نے پوچھا : ان دونوں میں سے کون زیادہ اچھا ہوتا ہے ؟ زید نے کہا : گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع کیا اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے (جب) سوکھی کھجور کچی کھجور کے بدلے خریدنے کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا جا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تر کھجور جب سوکھ جائے تو کم ہوجاتی ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس سے منع فرما دیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسماعیل بن امیہ نے اسے مالک کی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ١٤ (١٢٢٥) ، سنن النسائی/البیوع ٣٤ (٤٥٥٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٣ (٢٢٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٢ (٢٢) ، مسند احمد (١/١٧٥، ١٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور علماء کا یہی مذہب ہے، مگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک برابر برابر بیچنا درست ہے۔
کھجور کو کھجور کے بدلہ میں بیچنا
ابوعیاش نے خبر دی کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے تر کھجور سوکھی کھجور کے عوض ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عمران بن انس نے مولی بنی مخزوم سے انہوں نے سعد (رض) سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٤) (شاذ) ( اصل حدیث (٣٣٥٨) کے مطابق ہے لیکن نسیئة کا لفظ ثابت نہیں ہے، یہ یحییٰ بن ابی کثیر کا اضافہ ہے، جس پر کسی ثقہ نے موافقت نہیں کی ہے) ملاحظہ ہو : ارواء الغلیل (٥ ؍٢٠٠ ) قال أبو داود رواه عمران بن أبي أنس عن مولى لبني مخزوم عن سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه (صحیح) (اس میں نسیئتہ کا ذکر نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : پہلی حدیث کی رو سے اگر نقد ہو تو بھی منع ہے، لیکن امام ابوحنیفہ نے اسے ادھار پر محمول کیا ہے۔
مزابنہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٣، ٨١٣١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٢ (٢١٨٥) ، سنن النسائی/البیوع ٣٠ (٤٥٣٧) ، ٣٧ (٤٥٥٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٤ (٢٢٦٥) ، موطا امام مالک/البیوع ٨ (١٠) ، مسند احمد (٢/٧، ١٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : درخت پر لگے ہوے پھل کا اندازہ کر کے اسے اسی قدر توڑے ہوے پھل کے بدلے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔
عرایا کا بیان
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خشک سے تر کھجور کی بیع کو عرایا میں اجازت دی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٣١ (٤٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٢٣، ٣٧٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٥ (٢١٧٣) ، ٨٢ (٢١٨٤) ، ٨٤ (٢١٨٨) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٣٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٣ (١٣٠٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٥ (٢٢٦٨) ، موطا امام مالک/البیوع ٩ (١٤) ، مسند احمد (٥/١٨١، ١٨٢، ١٨٨، ١٩٢) ، سنن الدارمی/ البیوع ٢٤ (٢٦٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دو ایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دے دے، لیکن دینے کے بعد باربار اس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے تو کہے بھائی اس کا اندازہ لگا کر خشک یا تر کھجوریں ہم سے لے لو، ہرچند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن اس میں مسکینوں کا فائدہ ہے اس لئے اسے مزابنہ سے مستثنیٰ کر کے جائز رکھا گیا ہے، اور اسی کو بیع عرایا یعنی عاریت والی بیع کہتے ہیں۔
عرایا کا بیان
سہل بن ابی حثمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (درخت پر پھلے) کھجور کو (سوکھے) کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن عرایا میں اس کو تمر (سوکھی کھجور) کے بدلے میں اندازہ کر کے بیچنے کی اجازت دی ہے تاکہ لینے والا تازہ پھل کھا سکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٩١) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٤ (١٣٠٣) ، سنن النسائی/البیوع ٣٣ (٤٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً عرایا والے کسی شخص کے پاس سوکھی کھجور تھی لیکن رطب یعنی تر کھجور اس کے پاس کھانے کو نہ تھی، اس کو باغ والے نے ایک درخت کی تر کھجوریں اندازہ کر کے سوکھی کھجور سے فروخت کردیں۔
عرایا کی بیع کس مقدار تک درست ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک عرایا کے بیچنے کی رخصت دی ہے (یہ شک داود بن حصین کو ہوا ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جابر کی حدیث میں چار وسق تک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٩٠) ، والمساقاة ١٧ (٢٣٨٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٤ (١٥٤١) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٣ (١٣٠١) ، سنن النسائی/البیوع ٣٣ (٤٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٧) (صحیح )
عرایا کی تفسیر (یعنی اس کے معنی)
عبدربہ بن سعید انصاری کہتے ہیں عرایا یہ ہے کہ ایک آدمی ایک شخص کو کھجور کا ایک درخت دیدے یا اپنے باغ میں سے دو ایک درخت اپنے کھانے کے لیے الگ کرلے پھر اسے سوکھی کھجور سے بیچ دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٥١) (صحیح الإسناد )
عرایا کی تفسیر (یعنی اس کے معنی)
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عرایا یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کو چند درختوں کے پھل (کھانے کے لیے) ہبہ کر دے پھر اسے اس کا وہاں رہنا سہنا ناگوار گزرے تو اس کا تخمینہ لگا کر مالک کے ہاتھ تر یا سوکھے کھجور کے عوض بیچ دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٨٥) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : عریہ کی مختلف تعریفات ہیں : (١) جو حدیث نمبر (٣٣٦٢) کے تحت گزری۔ (٢، ٣) عبدربہ کی دو تعریفیں جو نمبر (٣٣٦٥) میں مذکور ہوئیں۔ (٤) ابن اسحاق کی یہ تعریف، پہلی تعریف امام مالک نیز دیگر بہت سے ائمہ سے منقول ہے۔
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کو ان کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے، خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں کو منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٨ (١٤٨٦) ، البیوع ٨٢ (٢١٨٣) ، ٨٥ (٢١٩٤) ، ٨٧ (٢١٩٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٤) ، سنن الترمذی/البیوع ١٥ (١٢٢٦) ، سنن النسائی/البیوع ٢٦ (٤٥٢٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٠٢، ٨٣٥٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٨ (١٠) ، مسند احمد (٢/٧، ٨، ١٦، ٤٦، ٥٦، ٥٩، ٦١، ٨٠، ١٢٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٢١ (٢٥٩٧) (صحیح )
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھجور کو پکنے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے اور بالی کو بھی یہاں تک کہ وہ سوکھ جائے اور آفت سے مامون ہوجائے بیچنے والے، اور خریدنے والے دونوں کو منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٥) ، سنن الترمذی/البیوع ١٥ (١٢٢٧) ، سنن النسائی/البیوع ٣٨ (٤٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥) (صحیح )
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ تقسیم نہ کردیا جائے اور کھجور کے بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ ہر آفت سے مامون نہ ہوجائے، اور بغیر کمر بند کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے (کہ کہیں ستر کھل نہ جائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٧، ٤٥٨، ٤٧٢) (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں مولی لقریش ایک مبہم آدمی ہے )
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اشقاح سے پہلے پھل بیچنے سے منع فرمایا ہے، پوچھا گیا : اشقاح کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اشقاح یہ ہے کہ پھل سرخی مائل یا زردی مائل ہوجائیں اور انہیں کھایا جانے لگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٥ (٢١٩٦) ، ٨٧ (٢١٩٨) ، ٩٣ (٢٢٠٨) ، صحیح مسلم/البیوع ١٣ (١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٩، ٣٦١) (صحیح )
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انگور کو جب تک کہ وہ پختہ نہ ہوجائے اور غلہ کو جب تک کہ وہ سخت نہ ہوجائے بیچنے سے منع فرمایا ہے (ان کا کچے پن میں بیچنا درست نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢١ (١٢٢٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٧) ، (تحفة الأشراف : ٦١٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٨ (١١) ، مسند احمد (٣/١١٥، ٢٢١، ٢٥٠) (صحیح )
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
یونس کہتے ہیں کہ میں نے ابوالزناد سے پھل کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اسے بیچنے اور جو اس بارے میں ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : عروہ بن زبیر سہل بن ابو حثمہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ زید بن ثابت (رض) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : لوگ پھلوں کو ان کی پختگی و بہتری معلوم ہونے سے پہلے بیچا اور خریدا کرتے تھے، پھر جب لوگ پھل پالیتے اور تقاضے یعنی پیسہ کی وصولی کا وقت آتا تو خریدار کہتا : پھل کو دمان ہوگیا، قشام ہوگیا، مراض ١ ؎ ہوگیا، یہ بیماریاں ہیں جن کے ذریعہ (وہ قیمت کم کرانے یا قیمت نہ دینے کے لیے) حجت بازی کرتے جب اس قسم کے جھگڑے نبی اکرم ﷺ کے پاس بڑھ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے باہمی جھگڑوں اور اختلاف کی کثرت کی وجہ سے بطور مشورہ فرمایا : پھر تم ایسا نہ کرو، جب تک پھلوں کی درستگی ظاہر نہ ہوجائے ان کی خریدو فروخت نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٥ (٢١٩٢) تعلیقاً (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دمان، قشام اور مراض کھجور کو لگنے والی بیماریوں کے نام ہیں۔
درخت پر پھل پک جانے سے پہلے فروخت کرنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے میوہ کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا ہے اور فرمایا ہے : پھل (میوہ) درہم و دینار (روپیہ پیسہ) ہی سے بیچا جائے سوائے عرایا کے (عرایا میں پکا پھل کچے پھل سے بیچا جاسکتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المساقاة ١٦(٢٣٨٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٢ (٢٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/البیوع ٢٦ (٤٥٢٧) ، مسند احمد (٣/٣٦٠، ٣٨١، ٣٩٢) (صحیح )
کئی سال کے لئے پھل بیچنا درست نہیں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کئی سالوں کے لیے پھل بیچنے سے روکا ہے، اور آفات سے پہنچنے والے نقصانات کا خاتمہ کردیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ سے ثلث کے سلسلے میں کوئی صحیح چیز ثابت نہیں ہے اور یہ اہل مدینہ کی رائے ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، سنن النسائی/البیوع ٢٩ (٤٥٣٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٣ (٢٢١٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٩) ، ٢٩ (٤٥٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کہ یہ بیع معدوم اور غیر موجود کی بیع ہے، اور آفات سے پہنچے نقصانات کا معاوضہ کیا ہے۔ ٢ ؎ : مطلب یہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر آفت ثلث اور اس سے زیادہ مال پر آئی ہے تو یہ نقصان بیچنے والے کے ذمہ ہوگا اور اگر ثلث سے کم ہے تو مشتری یعنی خرید ار خود اس کا ذمہ دار ہوگا تو ثلث کی قید کے ساتھ کوئی چیز رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
کئی سال کے لئے پھل بیچنا درست نہیں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے معاومہ (کئی سالوں کے لیے درخت کا پھل بیچنے) سے روکا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ان میں سے ایک (یعنی ابو الزبیر) نے (معاومہ کی جگہ) بيع السنين کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، سنن ابن ماجہ/ التجارات ٤٥ (٢٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٦١) (صحیح )
دھوکہ والی بیع کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دھوکہ کی بیع سے روکا ہے۔ عثمان راوی نے اس حدیث میں والحصاة کا لفظ بڑھایا ہے یعنی کنکری پھینک کر بھی بیع کرنے سے روکا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢ (١٥١٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٩٧ (١٢٣٠) ، سنن النسائی/البیوع ٢٥ (٤٥٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٣ (٢١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٣٧٦، ٤٣٦، ٤٣٩، ٤٩٦) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٠ (٢٥٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بائع مشتری سے یا مشتری بائع سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکریاں پھینک دوں تو بیع لازم ہوجائے گی یا بکریوں کے گلے میں جس بکری پر کنکری پڑے وہ میں دے دوں گا یا لے لوں گا۔
دھوکہ والی بیع کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو طرح کی بیع سے اور دو قسم کے پہناؤں سے روکا ہے، رہے دو بیع تو وہ ملامسہ ١ ؎ اور منابذہ ٢ ؎ ہیں، اور رہے دونوں پہناوے تو ایک اشتمال صماء ٣ ؎ ہے اور دوسرا احتباء ہے، اور احتباء یہ ہے کہ ایک کپڑا اوڑھ کے گوٹ مار کر اس طرح سے بیٹھے کہ شرمگاہ کھلی رہے، یا شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠ (٣٦٧) ، البیوع ٦٢ (٢١٤٤) ، ٦٣ (٢١٤٧) ، اللباس ٢٠ (٥٨٢٠) ، ٢١ (٥٨٢٢) ، الاستئذان ٤٢ (٦٢٨٤) ، سنن النسائی/البیوع ٢٤ (٤٥١٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٢ (٢١٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٤، ٤٥٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥١٢) ، مسند احمد (٣/٦، ٥٩، ٦٦، ٦٨، ٧١، ٩٥) ، دی/ البیوع ٢٨ (٢٦٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ملامسہ یہ ہے کہ آدمی کپڑا چھو کر کھولے اور اندر سے دیکھے بغیر خرید لے، اور بعضوں نے کہا کہ ملامسہ یہ ہے کہ بائع اور مشتری آپس میں یہ طے کرلیں کہ جب اس کا کپڑا وہ چھو لے تو بیع لازم ہوجائے گی۔ ٢ ؎ : منابذہ : یہ ہے کہ بائع اپنا کپڑا بلا سوچے سمجھے مشتری کی طرف پھینک دے اور مشتری اپنا کپڑا بائع کی طرف اور یہی پھینکنا لزوم بیع قرار پائے۔ ٣ ؎ : اشتمال صمّاء سے مراد ہے کہ بدن پر ایک ہی کپڑا سر سے پیر تک لپیٹ لے۔
دھوکہ والی بیع کا بیان
اس سند سے بھی بواسطہ ابو سعید خدری (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے بائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے، اور منابذہ یہ ہے کہ بائع یہ کہے کہ جب میں یہ کپڑا تیری طرف پھینک دوں تو بیع لازم ہوجائے گی، اور ملامسہ یہ ہے کہ ہاتھ سے چھو لے نہ اسے کھولے اور نہ الٹ پلٹ کر دیکھے تو جب اس نے چھو لیا تو بیع لازم ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٤) (صحیح )
دھوکہ والی بیع کا بیان
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے خبر دی ہے کہ ابو سعید خدری (رض) نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، آگے سفیان و عبدالرزاق کی حدیث کے ہم معنی حدیث مذکور ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ البیوع ٦٢ (٢١٤٤) ، صحیح مسلم/ البیوع ١ (١٥١٢) ، سنن النسائی/ البیوع ٢٢ (٤٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٩٥) (صحیح )
دھوکہ والی بیع کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حبل الحبلة (بچے کے بچہ) کی بیع سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦١ (٢١٤٣) ، السلم ٧ (٢٢٥٦) ، مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٤٣) ، سنن النسائی/البیوع ٦٦ (٤٦٢٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٤ (٢١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ٣ (١٥١٤) ، سنن الترمذی/البیوع ١٦ (١٢٢٩) ، موطا امام مالک/البیوع ٢٦ (٦٢) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ بیع ایام جاہلیت میں مروج تھی، آدمی اس شرط پر اونٹ خریدتا تھا کہ جب اونٹنی بچہ جنے گی پھر بچے کا بچہ ہوگا تب وہ اس اونٹ کے پیسے دے گا تو ایسی بیع سے روک دیا گیا ہے، اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اس حاملہ اونٹنی کی بچی حاملہ ہو کر جو بچہ جنے اس بچہ کو ابھی خریدتا ہوں “ تو یہ بیع بھی دھوکہ والے بیع میں داخل ہے کیوں کہ ابھی وہ بچہ معدوم ہے یہ اہل لغت کی تفسیر ہے، پہلی تفسیر راوی ابن عمر (رض) کی ہے اس لئے وہی زیادہ معتبر ہے۔
دھوکہ والی بیع کا بیان
اس سند سے بھی ابن عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے حبل الحبلة یہ ہے کہ اونٹنی اپنے پیٹ کا بچہ جنے پھر بچہ جو پیدا ہوا تھا حاملہ ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٤٣) ، صحیح مسلم/ البیوع ٣ (١٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٩) (صحیح )
مجبوری کی بیع
بنو تمیم کے ایک شیخ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابوطالب (رض) نے ہمیں خطبہ دیا، یا فرمایا : عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جو کاٹ کھانے والا ہوگا، مالدار اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے رہے گا (کسی کو نہ دے گا) حالانکہ اسے ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ولا تنسوا الفضل بينكم اللہ کے فضل بخشش و انعام کو نہ بھولو یعنی مال کو خرچ کرو (سورۃ البقرہ : ٢٣٨) مجبور و پریشاں حال اپنا مال بیچیں گے حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے لاچار و مجبور کا مال خریدنے سے اور دھوکے کی بیع سے روکا ہے، اور پھل کے پکنے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١٦) (ضعیف) (اس کے راوی شیخ من بنی تمیم مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ضرورت مند کے مال کو سستا خریدنے سے یا زبردستی کسی کا مال خریدنے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پختگی سے پہلے پھل بیچنے سے منع کیا ہے۔
شرکت کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں دو شریکوں کا تیسرا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرے، اور جب کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٩) (ضعیف) (ابو حیان تیمی مجہول ہیں، ابن الزبرقان نے ابوہریرہ رضی+اللہ+عنہ کا ذکر کیا ہے، دار قطنی (٣٠٣) میں اور جریر نے ابوہریرہ رضی+اللہ+عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ملاحظہ ہو : التلخیص الحبیر، و الارواء ١٤٦٨ )
وکیل کا ایسا تصرف کرنا جس سے موئکل کا فائدہ ہو
عروہ بن ابی الجعد بارقی (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے انہیں قربانی کا جانور یا بکری خریدنے کے لیے ایک دینار دیا تو انہوں نے دو بکریاں خریدیں، پھر ایک بکری ایک دینار میں بیچ دی، اور ایک دینار اور ایک بکری لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان کی خریدو فروخت میں برکت کی دعا فرمائی (اس دعا کے بعد) ان کا حال یہ ہوگیا تھا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تو اس میں بھی نفع کما لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٨ (٣٦٤٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٤ (١٢٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الاحکام ٧ (٢٤٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٥، ٣٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مضاربت ایسے معاملے کو کہتے ہیں جس میں ایک آدمی کا پیسہ ہو اور دوسرے کی محنت، پیسے والے کو مضارب اور محنت والے کو مضارب کہتے ہیں۔
وکیل کا ایسا تصرف کرنا جس سے موئکل کا فائدہ ہو
اس سند سے بھی عروہ بارقی سے یہی حدیث مروی ہے اور اس کے الفاظ مختلف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٨) (صحیح )
وکیل کا ایسا تصرف کرنا جس سے موئکل کا فائدہ ہو
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک دینار دے کر بھیجا کہ وہ آپ کے لیے ایک قربانی کا جانور خرید لیں، انہوں نے قربانی کا جانور ایک دینار میں خریدا اور اسے دو دینار میں بیچ دیا پھر لوٹ کر قربانی کا ایک جانور ایک دینار میں خریدا اور ایک دینار بچا کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لے آئے تو آپ ﷺ نے اسے صدقہ کردیا اور ان کے لیے ان کی تجارت میں برکت کی دعا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٣٤ (١٢٥٧) (ضعیف) (اس کے ایک راوی شیخ من أہل المدینہ مبہم ہیں )
اگر کوئی شخص دوسرے کے مال سے بغیر پوچھے تجارت کرے اور اس کا فائدہ مقصود ہو تو جائز ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص ایک فرق ١ ؎ چاول والے کے مثل ہو سکے تو ہوجائے لوگوں نے پوچھا : ایک فرق چاول والا کون ہے ؟ اللہ کے رسول ! تو آپ ﷺ نے غار کی حدیث بیان کی جب ان پر چٹان گر پڑی تھی تو ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنے اپنے اچھے کاموں کا ذکر کر کے اللہ سے چٹان ہٹنے کی دعا کرنے کی بات کہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : تیسرے شخص نے کہا : اے اللہ ! تو جانتا ہے میں نے ایک مزدور کو ایک فرق چاول کے بدلے مزدوری پر رکھا، شام ہوئی میں نے اسے اس کی مزدوری پیش کی تو اس نے نہ لی، اور چلا گیا، تو میں نے اسے اس کے لیے پھل دار بنایا، (بویا اور بڑھایا) یہاں تک کہ اس سے میں نے گائیں اور ان کے چرواہے بڑھا لیے، پھر وہ مجھے ملا اور کہا : مجھے میرا حق (مزدوری) دے دو ، میں نے اس سے کہا : ان گایوں بیلوں اور ان کے چرواہوں کو لے جاؤ تو وہ گیا اور انہیں ہانک لے گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٧٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإجارة ١٢ (٢٢٧٢) ، المزارعة ١٣ (٢٣٣٣) ، أحادیث الأنبیاء ٥٣ (٣٤٦٥) ، الأدب ٨٣ (٦١٣٣) ، صحیح مسلم/الذکر ٢٧ (٢٧٤٣) ، مسند احمد (٢/١١٦) (اصل حدیث صحیحین میں مفصلا ہے مذکور، اس حدیث کا ابتدائی فقرہ من استطاع .... یا رسول اللہ منکر ہے ) وضاحت : ١ ؎ : فرق : سولہ (١٦) رطل کا ایک پیمانہ ہے۔
لاگت لگائے بغیر شرکت کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں میں، عمار اور سعد تینوں نے بدر کے دن حاصل ہونے والے مال غنیمت میں حصے کا معاملہ کیا تو سعد دو قیدی لے کر آئے اور میں اور عمار کچھ نہ لائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الأیمان والنذور ٤٧ (٣٩٦٩) ، البیوع ١٠٣ (٤٧٠١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٣ (٢٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٦) (ضعیف) (ابوعبیدہ کا اپنے والد عبدا للہ بن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
عمرو بن دینار کہتے ہیں میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ ہم مزارعت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، میں نے طاؤس سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے نہیں روکا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی کسی کو اپنی زمین یونہی بغیر کسی معاوضہ کے دیدے تو یہ کوئی متعین محصول (لگان) لگا کردینے سے بہتر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحرث والمزارعة ١٠ (٢٣٣٠) ، الہبة ٣٥ (٢٦٣٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٢١ (١٥٤٧) ، سنن النسائی/ المزارعة ٢ (٣٩٢٧، ٣٩٢٨) سنن ابن ماجہ/الرھون ٧ (٢٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٥، ٣٥٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٢/١١، ٤٦٣، ٤٦٥، ٤/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ ان دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے پیسے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس کی حدیث نمبر (٣٣٩٢) میں مذکور ہے۔
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے کہا : اللہ رافع بن خدیج (رض) کو معاف فرمائے قسم اللہ کی میں اس حدیث کو ان سے زیادہ جانتا ہوں (واقعہ یہ ہے کہ) آپ ﷺ کے پاس انصار کے دو آدمی آئے، پھر وہ دونوں جھگڑ بیٹھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو ۔ مسدد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رافع بن خدیج (رض) نے آپ کی اتنی ہی بات سنی کہ زمین بٹائی پر نہ دیا کرو (موقع و محل اور انداز گفتگو پر دھیان نہیں دیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ المزارعة ٣ (٣٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٠ (٢٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٧) (ضعیف) ( اس کے راوی ابوعبیدہ اور ولید بن ابی الولید لین الحدیث ہیں) وضاحت : ابن ماجہ کی حدیث پر صحیح کا حکم ہے تفصیل مذکورہ حدیث نمبر پر ملاحظہ فرمائیں
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
سعد (رض) کہتے ہیں ہم زمین کو کرایہ پر کھیتی کی نالیوں اور سہولت سے پانی پہنچنے والی جگہوں کی پیداوار کے بدلے دیا کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا اور سونے چاندی (سکوں) کے بدلے میں دینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ المزارعة ٢ (٣٩٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٨، ١٨٢) ، دی/ البیوع ٧٥ (٢٦٦٠) (حسن )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں میں نے رافع بن خدیج (رض) سے سونے چاندی کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اجرت پر لینے دینے کا معاملہ کرتے تھے پانی کی نالیوں، نالوں کے سروں اور کھیتی کی جگہوں کے بدلے (یعنی ان جگہوں کی پیداوار میں لوں گا) تو کبھی یہ برباد ہوجاتا اور وہ محفوظ رہتا اور کبھی یہ محفوظ رہتا اور وہ برباد ہوجاتا، اس کے سوا کرایہ کا اور کوئی طریقہ رائج نہ تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا، اور رہی محفوظ اور مامون صورت تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابراہیم کی حدیث مکمل ہے اور قتیبہ نے عن حنظلة عن رافع کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید کی روایت جسے انہوں نے حنظلہ سے روایت کیا ہے اسی طرح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٧ (٢٣٢٧) ، ١٣ (٢٣٣٣) ، ١٩ (٢٣٤٦) ، الشروط ٧ (٢٧٢٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٩ (١٥٤٧) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٣٠، ٣٩٣١، ٣٩٣٢، ٣٩٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ٩ (٢٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الأرض ١ (١) ، مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤/١٤٠، ١٤٢) (صحیح )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ انہوں نے رافع بن خدیج (رض) سے زمین کو کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے زمین کرایہ پر (کھیتی کے لیے) دینے سے منع فرمایا ہے، تو میں نے پوچھا : سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ کی بات ہو تو ؟ تو انہوں نے کہا : رہی بات سونے اور چاندی سے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٣) (صحیح )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
سالم بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی کہ ابن عمر (رض) اپنی زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ رافع بن خدیج انصاری (رض) نے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ زمین کو بٹائی پر دینے سے روکتے تھے، تو عبداللہ بن عمر (رض) ان سے ملے، اور کہنے لگے : ابن خدیج ! زمین کو بٹائی پر دینے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے آپ کیا حدیث بیان کرتے ہیں ؟ رافع (رض) نے عبداللہ بن عمر سے کہا : میں نے اپنے دونوں چچاؤں سے سنا ہے اور وہ دونوں جنگ بدر میں شریک تھے، وہ گھر والوں سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو بٹائی پر دینے سے منع فرمایا ہے، عبداللہ بن عمر نے کہا : قسم اللہ کی ! میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہی جانتا تھا کہ زمین بٹائی پر دی جاتی تھی، پھر عبداللہ کو خدشہ ہوا کہ اس دوران رسول اللہ ﷺ نے اس باب میں کوئی نیا حکم نہ صادر فرما دیا ہو اور ان کو پتہ نہ چل پایا ہو، تو انہوں نے زمین کو بٹائی پر دینا چھوڑ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ اسے ایوب، عبیداللہ، کثیر بن فرقد اور مالک نے نافع سے انہوں نے رافع (رض) سے اور رافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور اسے اوزاعی نے حفص بن عنان حنفی سے اور انہوں نے نافع سے اور نافع نے رافع (رض) سے روایت کیا ہے، رافع کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ اور اسی طرح اسے زید بن ابی انیسہ نے حکم سے انہوں نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ وہ رافع (رض) کے پاس آئے اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں۔ ایسے ہی عکرمہ بن عمار نے ابونجاشی سے اور انہوں نے رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے۔ اور اسے اوزاعی نے ابونجاشی سے، انہوں نے رافع بن خدیج (رض) سے، رافع نے اپنے چچا ظہیر بن رافع سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابونجاشی سے مراد عطاء بن صہیب ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤٥) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٧) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٩، ٥٥٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٥، ٤/١٤٠) (صحیح )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (بٹائی پر) کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا : وہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس کے پاس زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ خود کاشت کرے، یا (اگر خود کاشت نہ کرسکتا ہو تو) اپنے کسی بھائی کو کاشت کروا دے اور اسے تہائی یا چوتھائی یا کسی معین مقدار کے غلہ پر بٹائی نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ البیوع ١٨ (١٥٤٨) ، سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٠٤، ٣٩٠٥، ٣٩٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٩، ١٥٥٧٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/کراء الأرض ١ (١) ، مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤٦٦) (صحیح )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
ایوب کہتے ہیں : یعلیٰ بن حکیم نے مجھے لکھا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے عبیداللہ کی سند اور ان کی حدیث کے ہم معنی حدیث سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٩، ١٥٥٧٠) (صحیح )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں ہمارے پاس ابورافع (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس سے آئے اور کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس کام سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے سود مند تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی فرماں برداری ہمارے لیے اس سے بھی زیادہ سود مند ہے، آپ ﷺ نے ہمیں زراعت کرنے سے روک دیا ہے مگر ایسی زمین میں جس کے رقبہ و حدود کے ہم خود مالک ہوں یا جسے کوئی ہمیں (بلامعاوضہ و شرط) دیدے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٣) (حسن) ( اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے ورنہ اس کے راوی ابن رافع مجہول ہیں )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
اسید بن ظہیر کہتے ہیں ہمارے پاس رافع بن خدیج (رض) آئے اور کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ تم کو ایک ایسے کام سے منع فرما رہے ہیں جس میں تمہارا فائدہ تھا، لیکن اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ سود مند ہے، رسول اللہ ﷺ تم کو حقل سے یعنی مزارعت سے روکتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنی زمین سے بےنیاز ہو یعنی جوتنے بونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی زمین اپنے کسی بھائی کو (مفت) دیدے یا اسے یوں ہی چھوڑے رکھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح سے شعبہ اور مفضل بن مہلہل نے منصور سے روایت کیا ہے شعبہ کہتے ہیں : اسید رافع بن خدیج (رض) کے بھتیجے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٨٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٠ (٢٤٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ کر اء الأرض ١ (١) ، مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤٦٦) (صحیح )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
ابوجعفر خطمی کہتے ہیں میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا، تو ہم نے ان سے کہا : مزارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا : عبداللہ بن عمر (رض) مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج (رض) کی حدیث پہنچی تو وہ (براہ راست) ان کے پاس معلوم کرنے پہنچ گئے، رافع (رض) نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ بنو حارثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا : (ماشاء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے لوگوں نے کہا : یہ ظہیر کی نہیں ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا یہ زمین ظہیر کی نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں زمین تو ظہیر کی ہے لیکن کھیتی فلاں کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا کھیت لے لو اور کھیتی کرنے والے کو اس کے اخراجات اور مزدوری دے دو رافع (رض) کہتے ہیں : (یہ سن کر) ہم نے اپنا کھیت لے لیا اور جس نے جوتا بویا تھا اس کا نفقہ (اخراجات و محنتانہ) اسے دے دیا۔ سعید بن مسیب نے کہا : (اب دو صورتیں ہیں) یا تو اپنے بھائی کو زمین زراعت کے لیے عاریۃً دے دو (اس سے پیداوار کا کوئی حصہ وغیرہ نہ مانگو) یا پھر درہم کے عوض زمین کو کرایہ پر دو (یعنی نقد روپیہ اس سے طے کرلو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المزارعة ٢ (٣٩٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٨) (صحیح الإسناد )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع کیا ہے ١ ؎ اور فرمایا : زراعت تین طرح کے لوگ کرتے ہیں (١) ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، (٢) دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے، (٣) تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ المزارعة ٢ (٣٩٢١) ، التجارات ٥٤ (٢٦٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ٧ (٢٤٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ کر اء الأرض ١ (١) مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محاقلہ سے مراد یہاں مزارعہ ( بٹائی) پر دینا ہے اور مزابنہ سے مراد یہ ہے کہ درخت پر لگے کھجور یا انگور کا اندازہ کر کے اسے خشک کھجور یا انگور کے بدلے بیچنا۔
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
عثمان بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں میں رافع بن خدیج (رض) کے زیر پرورش ایک یتیم تھا، میں نے ان کے ساتھ حج کیا تو میرے بھائی عمران بن سہل ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : ہم نے اپنی زمین دو سو درہم کے بدلے فلاں شخص کو کرایہ پر دی ہے، تو انہوں نے (رافع نے) کہا : اسے چھوڑ دو (یعنی یہ معاملہ ختم کرلو) کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المزارعة ٣ (٣٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٩) (شاذ) (اس کے راوی عثمان ( جن کا صحیح نام عیسیٰ ہے) لین الحدیث ہیں، اس میں شذوذ یہ ہے کہ اس میں مطلق زمین کرایہ پر دینے کی بات ہے، حالانکہ ابو رافع سے سونا چاندی اور درہم و دینار کے بدلے کرایہ پر دینے کی اجازت مروی ہے )
مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا بیان
ابن ابی نعم سے روایت ہے کہ مجھ سے رافع بن خدیج (رض) نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک زمین میں کھیتی کی تو نبی اکرم ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا اور وہ اس میں پانی دے رہے تھے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی ؟ تو انہوں کہا : میری کھیتی میرے بیج سے ہے اور محنت بھی میری ہے نصف پیداوار مجھے ملے گی اور نصف پیداوار فلاں شخص کو (جو زمین کا مالک ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں نے ربا کیا (یعنی یہ عقد ناجائز ہے) زمین اس کے مالک کو لوٹا دو ، اور تم اپنے خرچ اور اپنی محنت کی اجرت لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی بکیر بن عامر ضعیف ہیں )
مالک کی اجازت کے بغیر زراعت کرنے کا حکم
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دوسرے لوگوں کی زمین میں بغیر ان کی اجازت کے کاشت کی تو اسے کاشت میں سے کچھ نہیں ملے گا صرف اس کا خرچ ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢٩ (١٣٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٣ (٢٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٥، ٤/١٤١) (صحیح )
مخابرہ کے بیان میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ ١ ؎ مزابنہ ٢ ؎ مخابرہ اور معاومہ ٣ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ مسدد کی روایت میں عن حماد ہے اور ابوزبیر اور سعید بن میناء دونوں میں سے ایک نے معاومہ کہا اور دوسرے نے بيع السنين کہا ہے پھر دونوں راوی متفق ہیں اور استثناء کرنے ٤ ؎ سے منع فرمایا ہے، اور عرایا ٥ ؎ کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٥ (١٢٩٠) ، ٧٢ (١٣١٣) ، سنن النسائی/الأیمان ٤٥ (٣٨٨٦) ، البیوع ٧٢ (٤٦٣٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٤ (٢٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المساقاة ١٧ (٢٣٨٠) ، مسند احمد (٣/٣١٣، ٣٥٦، ٣٦٠، ٣٦٤، ٣٦، ٣٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلہ سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک پھل سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ ٣ ؎ : معاومہ اور بیع سنین ایک ہی معنی میں ہے یعنی کئی سال تک کا میوہ بیچنا۔ ٤ ؎ : سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینے اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینے سے منع کیا ہے۔ ٥ ؎ : عرایا یہ ہے کہ مالک باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین کو کھانے کے لئے مفت دے دے اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین سے خریدلے اور اس کے بدلے تر یا خشک میوہ اس کے حوالے کر دے۔
مخابرہ کے بیان میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزابنہ (درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک پھل سے بیچنے) سے اور محاقلہ (کھیت میں لگی ہوئی فصل کو غلہ سے اندازہ کر کے بیچنے) سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء سے روکا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ البیوع ٥٥ (١٢٩٠) ، سنن النسائی/ المزارعة ٢ (٣٩١١) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٥) (صحیح )
مخابرہ کے بیان میں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو مخابرہ نہ چھوڑے تو اسے چاہیئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان کر دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٧٧٥) (ضعیف) ( اس کے راوی ابو الزبیر مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
مخابرہ کے بیان میں
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مخابرہ سے روکا ہے، میں نے پوچھا : مخابرہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : مخابرہ یہ ہے کہ تم زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد بٹائی کی وہ صورتیں ہیں جن میں فریقین کے اندر اختلاف پیدا ہونے کے اسباب ہوتے ہیں کیوں کہ بٹائی آپ سے صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔
مساقات
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اہل خیبر کو زمین کے کام پر اس شرط پہ لگایا کہ کھجور یا غلہ کی جو بھی پیداوار ہوگی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا تمہیں دیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٨ (٢٣٢٩) ، صحیح مسلم/المساقاة ١ (١٥٥١) ، سنن الترمذی/الأحکام ٤١ (١٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٤ (٢٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧، ٢٢، ٣٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٧١ (٢٦٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مساقاۃ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کو کسی ایسے شخص کے حوالہ کر دے جو اس کی پوری نگہداشت کرے پھر اس سے حاصل ہونے والے پھل میں دونوں برابر کے شریک ہوں، مساقاۃ مزارعت ہی کی ایک شکل ہے فرق یہ ہے کہ مساقاۃ کا تعلق درختوں سے ہے جب کہ مزارعت کا تعلق کھیتی سے ہے۔
مساقات
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کے کھجور کے درخت اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ ان میں اپنی پونجی لگا کر کام کریں گے اور جو پیداوار ہوگی، اس کا نصف رسول اللہ ﷺ کے لیے ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢٤) (صحیح )
مساقات
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا، اور یہ شرط لگا دی (واضح کردیا) کہ اب زمین ان کی ہے اور جو بھی سونا چاندی نکلے وہ بھی ان کا ہے، تب خیبر والے کہنے لگے : ہم زمین کے کام کاج کو آپ لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں تو آپ ہمیں زمین اس شرط پہ دے دیجئیے کہ نصف پیداوار آپ کو دیں گے اور نصف ہم لیں گے۔ تو آپ ﷺ نے اسی شرط پر انہیں زمین دے دی، پھر جب کھجور کے توڑنے کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ (رض) کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے جا کر کھجور کا اندازہ لگایا (اسی کو اہل مدینہ خرص (آنکنا) کہتے ہیں) تو انہوں نے کہا : اس باغ میں اتنی کھجوریں نکلیں گی اور اس باغ میں اتنی (ان کا نصف ہمیں دے دو ) وہ کہنے لگے : اے ابن رواحہ ! تم نے تو ہم پر (بوجھ ڈالنے کے لیے) زیادہ تخمینہ لگا دیا ہے، تو ابن رواحہ (رض) نے کہا (اگر یہ زیادہ ہے) تو ہم اسے توڑ لیں گے اور جو میں نے کہا ہے اس کا آدھا تمہیں دے دیں گے، یہ سن کر انہوں نے کہا یہی صحیح بات ہے، اور اسی انصاف اور سچائی کی بنا پر ہی زمین و آسمان اپنی جگہ پر قائم اور ٹھہرے ہوئے ہیں، ہم راضی ہیں تمہارے آنکنے کے مطابق ہی ہم لے لیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٨ (١٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٤) (حسن صحیح )
مساقات
جعفر بن برقان سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے اس میں لفظ فحزر ہے اور وكل صفراء وبيضاء کی تفسیر سونے چاندی سے کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٤) (صحیح الإسناد )
مساقات
مقسم سے (مرسلاً ) روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس وقت خیبر فتح کیا، پھر آگے انہوں نے زید کی حدیث (پچھلی حدیث) کی طرح حدیث ذکر کی اس میں ہے پھر عبداللہ بن رواحہ (رض) نے کھجور کا اندازہ لگایا، (اور جب یہودیوں نے اعتراض کیا) تو آپ نے کہا : اچھا کھجوروں کے پھل میں خود توڑ لوں گا، اور جو اندازہ میں نے لگایا ہے، اس کا نصف تمہیں دے دوں گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٤١٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٤) (صحیح الإسناد) ( اگلی دونوں روایتوں سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ خود یہ مرسل روایت ہے )
مساقات
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں نبی اکرم ﷺ عبداللہ بن رواحہ (رض) کو (خیبر) بھیجتے تھے، تو وہ کھجوروں کا اٹکل اندازہ لگاتے تھے جس وقت وہ پکنے کے قریب ہوجاتا کھائے جانے کے قابل ہونے سے پہلے پھر یہود کو اختیار دیتے کہ یا تو وہ اس اندازے کے مطابق نصف لے لیں یا آپ کو دے دیں تاکہ وہ زکوٰۃ کے حساب و کتاب میں آجائیں، اس سے پہلے کہ پھل کھائے جائیں اور ادھر ادھر بٹ جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣١، ١٦٧٥٢) (ضعیف الإسناد )
درختوں پر پھلوں کا اندازہ کرنے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں اللہ نے اپنے رسول کو خیبر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے خیبر والوں کو ان کی جگہوں پر رہنے دیا جیسے وہ پہلے تھے اور خیبر کی زمین کو (آدھے آدھے کے اصول پر) انہیں بٹائی پردے دیا اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کو (تخمینہ لگا کر تقسیم کے لیے) بھیجا تو انہوں نے جا کر اندازہ کیا (اور اسی اندازے کا نصف ان سے لے لیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٧) (صحیح )
درختوں پر پھلوں کا اندازہ کرنے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ابن رواحہ (رض) نے چالیس ہزار وسق (کھجور) کا اندازہ لگایا (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے) اور ان کا خیال ہے کہ عبداللہ بن رواحہ (رض) نے جب یہود کو اختیار دیا (کہ وہ ہمیں اس کا نصف دے دیں، یا ہم سے اس کا نصف لے لیں) تو انہوں نے پھل اپنے پاس رکھا اور انہیں بیس ہزار وسق (کٹائی کے بعد) رسول اللہ ﷺ کو دینا پڑا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٨٦٩) (صحیح الإسناد )
اجارہ کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک نے مجھے ایک کمان ہدیتہً دی، میں نے (جی میں) کہا یہ کوئی مال تو ہے نہیں، اس سے میں فی سبیل اللہ تیر اندازی کا کام لوں گا (پھر بھی) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤں گا اور آپ سے اس بارے میں پوچھوں گا، تو میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں جن لوگوں کو قرآن پڑھنا لکھنا سکھا رہا تھا، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ہدیہ میں ایک کمان دی ہے، اور اس کی کچھ مالیت تو ہے نہیں، میں اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں پسند ہو کہ تمہیں آگ کا طوق پہنایا جائے تو اس کمان کو قبول کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٨ (٢١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٥) (صحیح) (اس کے راوی سعود مجہول ہیں اور مغیرہ سے وہم ہوجاتا تھا، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٢٥٦، والارواء ١٤٩٣ ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری میں کتاب اللہ کے سلسلہ میں اجرت لینے سے متعلق ابن عباس (رض) کی روایت اور سورة فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق بوسعید خدری (رض) کی روایت موجود ہے ، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد (رض) کی حدیث جس میں مذکور ہے کہ آپ نے ایک شخص کا نکاح کیا اور قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا ، ان روایات کی روشنی میں جمہور علماء کا کہنا ہے کہ تعلیم قرآن ، امامت ، قضاء اور اذان وغیرہ کی اجرت لی جاسکتی ہے ، کیونکہ مذکورہ تینوں روایات سے عبادہ بن صامت (رض) کی اس روایت کا کوئی مقابلہ نہیں (کیوں کہ اس کی دونوں سندوں میں متکلم فیہ راوی ہیں )
اجارہ کا بیان
اس سند سے بھی عبادہ بن صامت (رض) سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٩) (صحیح) (اس کی سند میں بقیہ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (٥ ؍ ٣٢٤) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٢٥٦ ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباس (رض) کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔
طبیب کی کمائی کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی ایک جماعت ایک سفر پر نکلی اور عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے پاس وہ لوگ جا کر ٹھہرے اور ان سے مہمان نوازی طلب کی تو انہوں نے مہمان نوازی سے انکار کردیا وہ پھر اس قبیلے کے سردار کو سانپ یا بچھو نے کاٹ (ڈنک مار دیا) کھایا، انہوں نے ہر چیز سے علاج کیا لیکن اسے کسی چیز سے فائدہ نہیں ہو رہا تھا، تب ان میں سے ایک نے کہا : اگر تم ان لوگوں کے پاس آتے جو تمہارے یہاں آ کر قیام پذیر ہیں، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو جو تمہارے ساتھی کو فائدہ پہنچائے (وہ آئے) اور ان میں سے ایک نے کہا : ہمارا سردار ڈس لیا گیا ہے ہم نے اس کی شفایابی کے لیے ہر طرح کی دوا دارو کرلی لیکن کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے رہی ہے، تو کیا تم میں سے کسی کے پاس جھاڑ پھونک قسم کی کوئی چیز ہے جو ہمارے (ساتھی کو شفاء دے) ؟ تو اس جماعت میں سے ایک شخص نے کہا : ہاں، میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن بھائی بات یہ ہے کہ ہم نے چاہا کہ تم ہمیں اپنا مہمان بنا لو لیکن تم نے ہمیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کردیا، تو اب جب تک اس کا معاوضہ طے نہ کر دو میں جھاڑ پھونک کرنے والا نہیں، انہوں نے بکریوں کا ایک گلہ دینے کا وعدہ کیا تو وہ (صحابی) سردار کے پاس آئے اور سورة فاتحہ پڑھ کر تھوتھو کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شفایاب ہوگیا، گویا وہ رسی کی گرہ سے آزاد ہوگیا، تو ان لوگوں نے جو اجرت ٹھہرائی تھی وہ پوری پوری دے دی، تو صحابہ نے کہا : لاؤ اسے تقسیم کرلیں، تو اس شخص نے جس نے منتر پڑھا تھا کہا : نہیں ابھی نہ کرو یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے پوچھ لیں تو وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے پورا واقعہ ذکر کیا، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : تم نے کیسے جانا کہ یہ جھاڑ پھونک ہے ؟ تم نے اچھا کیا، اپنے ساتھ تم میرا بھی ایک حصہ لگانا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الإجارة ١٦ (٢٢٧٦) ، الطب ٣٣ (٥٧٣٦) ، صحیح مسلم/ السلام ٢٣ (٢٢٠١) ، سنن الترمذی/ الطب ٢٠ (٢٠٦٣) ، سنن ابن ماجہ/ التجارات ٧ (٢١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢، ٤٤) ویأتی ہذا الحدیث فی الطب (٣٩٠٠) (صحیح )
طبیب کی کمائی کا بیان
اس سند سے بھی ابو سعید خدری (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ فضائل القرآن (٥٠٠٧) ، صحیح مسلم/ الطب ٢٣ (٢٢٠١) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨٣) (صحیح )
طبیب کی کمائی کا بیان
خارجہ بن صلت کے چچا علاقہ بن صحار تمیمی (رض) سے روایت ہے کہ ان کا گزر ایک قوم کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ آدمی (یعنی نبی اکرم ﷺ ) کے پاس سے بھلائی لے کر آئے ہیں، تو ہمارے اس آدمی کو ذرا جھاڑ پھونک دیں، پھر وہ لوگ رسیوں میں بندھے ہوئے ایک پاگل لے کر آئے، تو انہوں نے اس پر تین دن تک صبح و شام سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جب وہ اسے ختم کرتے تو (منہ میں) تھوک جمع کرتے پھر تھو تھو کرتے، پھر وہ شخص ایسا ہوگیا، گویا اس کی گرہیں کھل گئیں، ان لوگوں نے ان کو کچھ دیا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : (بےدھڑک) کھاؤ، قسم ہے (یعنی اس ذات کی جس کے اختیار میں میری زندگی ہے) لوگ تو جھوٹا منتر پڑھ کر کھاتے ہیں، آپ تو سچا منتر پڑھ کر کھا رہے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٠١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١١) ویأتی ہذا الحدیث فی الطب (٣٨٩٦، ٣٩٠١) (صحیح )
پچھنے لگوانے کی اجرت کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سینگی (پچھنا) لگانے والے کی کمائی بری (غیر شریفانہ) ہے ١ ؎ کتے کی قیمت ناپاک ہے اور زانیہ عورت کی کمائی ناپاک (یعنی حرام) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٩ (١٥٦٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٦ (١٢٧٥) ، سنن النسائی/الذبائح ١٥ (٤٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤/١٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : كسب الحجام خبيث میں خبيث کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہونے کے معنی میں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے آنے والی حدیث نمبر : (٣٤٢٢) میں محیصہ (رض) کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ ، نیز آپ ﷺ نے بذات خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی ، پس پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق خبيث کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ثوم وبصل (لہسن ، پیاز) کو خبيث کہا باوجود یہ کہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے ، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیر شریفانہ ہے۔
پچھنے لگوانے کی اجرت کا بیان
محیصہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سینگی لگا کر اجرت لینے کی اجازت مانگی تو آپ نے انہیں اس کے لینے سے منع فرمایا، وہ برابر آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے ان سے کہہ دیا کہ اس سے اپنے اونٹ اور اپنے غلام کو چارہ کھلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٧ (١٢٧٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٠ (٢١٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ١٠ (٢٨) ، مسند احمد (٥/٤٣٥، ٤٣٦) (صحیح )
پچھنے لگوانے کی اجرت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگی لگوائی، اور سینگی لگانے والے کو اس کی مزدوری دی، اگر آپ اسے حرام جانتے تو اسے مزدوری نہ دیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٩ (٢١٠٣) ، الإجارة ١٨ (٢٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، مسند احمد (١/٣٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) اور انس بن مالک (رض) کی یہ دونوں حدیثیں سینگی لگانے کی اجرت کے مباح ہونے پر دال ہیں اور یہی جمہور کا مسلک ہے، رہی ابن خدیج والی روایت تو اسے یا تو مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے یا اسے منسوخ مانا جائے۔
پچھنے لگوانے کی اجرت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں ابوطیبہ نے رسول اللہ ﷺ کو سینگی لگائی تو آپ نے اسے ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا اور اس کے مالکان سے کہا کہ اس کے خراج میں کچھ کمی کردیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٩ (٢١٠٢) ، ٩٥ (٢٢١٠) ، الإجارة ١٩ (٢٢٧٧) ، الطب ١٣ (٥٦٩٦) ، المساقاة ١١ (٢٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٨ (١٢٧٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٠ (٢١٦٤) ، مسند احمد ٣/١٠٧، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٩ (٢٦٦٤) (صحیح )
باندیوں کی اجرت لینے کا بیان
ابوحازم نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے لونڈیوں کی کمائی لینے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢٠ (٢٢٨٣) ، الطلاق ٥١ (٥٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٧، ٣٤٧، ٣٨٢، ٤٣٧، ٤٥٤، ٤٨٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٧ (٢٦٦٢) (صحیح )
باندیوں کی اجرت لینے کا بیان
طارق بن عبدالرحمٰن قرشی کہتے ہیں رافع بن رفاعہ (رض) انصار کی ایک مجلس میں آئے اور کہنے لگے کہ آج اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں منع فرمایا ہے، پھر انہوں نے کچھ چیزوں کا ذکر کیا اور کہا : آپ ﷺ نے لونڈی کی کمائی (زنا کی کمائی) سے منع فرمایا سوائے اس کمائی کے جو اس نے ہاتھ سے محنت کر کے کمائی ہو، پھر آپ ﷺ نے انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا، مثلاً روٹی پکانا، چرخہ کاتنا، روئی دھننا، جیسے کام۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤١) (حسن )
باندیوں کی اجرت لینے کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لونڈی کی کمائی سے منع فرمایا ہے جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس نے کہاں سے حاصل کیا ہے ١ ؎؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤١) (حسن) بما قبلہ وضاحت : ١ ؎ : جب تک معلوم نہ ہوجائے کہ لونڈی نے کہاں سے کمایا ہے ، حلال طریقے سے یا حرام اس کی کمائی لینا صحیح نہیں ہے ، علماء کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لونڈیوں کی کمائی سے اس واسطے منع کیا ہے کہ لوگ ان پر محصول مقرر کرتے تھے ، اور وہ جہاں سے بھی ہوتا اسے لا کر اپنے مالک کو دیتی ، اگر کام نہ پاتیں تو زنا کی کمائی سے لا کر دیتیں اس واسطے ان کی کمائی سے اس وقت تک منع فرمایا جب تک کہ اس بات کی تحقیق نہ ہوجائے کہ اس کی کمائی حلال طریقے سے ہے ، بعض لوگوں کے نزدیک کمائی سے مراد زنا کاری کی کمائی ہے۔
باندیوں کی اجرت لینے کا بیان
ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت ١ ؎، زانیہ عورت کی کمائی ٢ ؎، اور کاہن کی اجرت ٣ ؎ لینے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٣ (٢٢٣٧) ، الإجارة ٢٠ (٢٢٨٢) ، الطلاق ٥١ (٥٣٤٦) ، الطب ٤٦ (٥٧٦١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٩ (١٥٦٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٦ (١٢٧٦) ، النکاح ٣٧ (١١٣٣) ، الطب ٢٣ (٢٠٧١) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١٥ (٤٢٩٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٩ (٢١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٢٩(٦٨) ، مسند احمد (٤/١١٨، ١٢٠، ١٤٠، ١٤١) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٤ (٢٦١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کتا نجس ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی ، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے ، اسی سبب سے کتے کی خریدو فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر ، جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لئے ہو۔ ٢ ؎ : چونکہ زنا گناہ کبیرہ ہے اور فحش امور میں سے ہے اس لئے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ٣ ؎ : علم غیب رب العالمین کے لئے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
نرجانور کو مادہ جانور پر چڑھانے کی اجرت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢١ (٢٢٨٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٥ (١٢٧٣) ، سنن النسائی/البیوع ٩٢ (٤٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ مادہ کے حاملہ اور غیر حاملہ ہونے دونوں کا شبہ ہے اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔
سنار کا بیان
ابوماجدہ کہتے ہیں میں نے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، یا میرا کان کاٹ لیا گیا، (یہ شک راوی کو ہوا ہے) ابوبکر (رض) ہمارے یہاں حج کے ارادے سے آئے، ہم سب ان کے پاس جمع ہوگئے، تو انہوں نے ہمیں عمر بن خطاب (رض) کے پاس بھیج دیا، عمر (رض) نے کہا : یہ معاملہ تو قصاص تک پہنچ گیا ہے، کسی حجام (پچھنا لگانے والے) کو میرے پاس بلا کر لاؤ تاکہ وہ اس سے (جس نے کان کاٹا ہے) قصاص لے، پھر جب حجام (پچھنا لگانے والا) بلا کر لایا گیا، تو عمر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام ہبہ کیا اور میں نے امید کی کہ انہیں اس غلام سے برکت ہوگی تو میں نے ان سے کہا کہ اس غلام کو کسی حجام (سینگی لگانے والے) ، سنار اور قصاب کے حوالے نہ کردینا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالاعلی نے اسے ابن اسحاق سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ابن ماجدہ بنو سہم کے ایک فرد ہیں اور انہوں نے عمر بن خطاب (رض) سے روایت کیا ہے (عمر (رض) سے ان کی روایت مرسل ہے ) تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧) (ضعیف) (اس کے راوی ابو ماجدہ مجہول ہیں نیز عمر (رض) سے ان کا سماع نہیں ہے )
سنار کا بیان
اس سند سے بھی ابن ماجدہ سہمی عمر بن خطاب (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٣) (ضعیف) (دیکھئے حدیث سابق )
سنار کا بیان
ابن ماجدہ سہمی نے عمر بن خطاب (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٣) (ضعیف) (عمر (رض) سے ابو ماجدہ کی روایت مرسل ہے نیز وہ مجہول ہیں )
جو مالدار غلام فروخت کیا جائے اس کا بیان کہ مال کس کی ملکیت ہوگا؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی غلام کو بیچا اور اس کے پاس مال ہو، تو اس کا مال بائع لے گا، الا یہ کہتے ہیں کہ خریدار پہلے سے اس مال کی شرط لگالے ١ ؎، (ایسے ہی) جس نے تابیر (اصلاح) کئے ہوئے (گابھا دئیے ہوئے کھجور کا درخت بیچا تو پھل بائع کا ہوگا الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگالے (کہ پھل میں لوں گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٠ (٢٢٠٣) ، ٩٢ (٢٢٠٦) ، المساقاة ١٧ (٢٣٧٩) ، الشروط ٢ (٢٧١٦) ، صحیح مسلم/البیوع ١٥ (١٥٤٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٥ (١٢٤٤) ، سنن النسائی/البیوع ٧٤ (٤٦٤٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٩، ٨٣٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٧ (١٠) ، مسند احمد (٢/٦) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٧ (٢٦٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ شرط لگائے کہ غلام کے پاس جو مال ہوگا ، وہ میرا ہوگا ، تو پھر وہ خریدار کو ملے گا۔
جو مالدار غلام فروخت کیا جائے اس کا بیان کہ مال کس کی ملکیت ہوگا؟
عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے غلام کا واقعہ روایت کیا ہے، اور نافع نے ابن عمر (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کھجور کے درخت کے واقعہ کی روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زہری اور نافع نے چار حدیثوں میں اختلاف کیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٠، ١١٥٥٨) (صحیح )
جو مالدار غلام فروخت کیا جائے اس کا بیان کہ مال کس کی ملکیت ہوگا؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی ایسا غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو مال بیچنے والے کو ملے گا، الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگالے (کہ مال میں لوں گا تو پھر خریدار ہی پائے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣١٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠١) (صحیح )
تاجروں سے شہر سے باہر ہی سودا کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے ١ ؎ اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٧١ (٢١٦٨) ، صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٧) ، سنن النسائی/البیوع ١٨ (٤٥٠٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات (٢١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٩، ٨٠٥٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ البیوع ٤٥ (٩٥) ، مسند احمد (٢/٧، ٢٢، ٦٣، ٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک کے خریدار کو دوسرا نہ بلائے ، یا اس کے گاہک کو نہ توڑے ، مثلا ، یہ کہے کہ یہ اتنے میں دے رہا ہے، تو چل میرے ساتھ میں تجھے یہی مال اس سے اتنے کم میں دے دوں گا۔ ٢ ؎ : چونکہ تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہوسکتا ہے، اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہوگا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔
تاجروں سے شہر سے باہر ہی سودا کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کرلینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے) ۔ ابوعلی کہتے ہیں : میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے پاس اس سے بہتر مال دس روپے میں مل جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع (١٢٢١، ١٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ٥ (١٥١٩) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٥٠٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٦ (٢١٧٩) ، مسند احمد (٢/٢٨٤، ٤٠٣، ٤٨٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٢ (٢٦٠٨) (صحیح )
بولی بڑھانے کے لئے قیمت لگانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نجش نہ کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٨ (٢١٤٠) ، صحیح مسلم/النکاح ٦ (١٤١٣) ، والبیوع ٤ (١٥٢٠) ، سنن الترمذی/البیوع ٦٥ (١٣٠٤) ، سنن النسائی/البیوع ١٢ (٤٤٩٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات (٢١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٦) ، مسند احمد (٤/٣٣٨، ٣٥٤، ٣٩٤، ٤٠٢، ٤١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نجش یہ ہے کہ بیچی جانے والی چیز کی تعریف کر کے بائع کی موافقت کی جائے، یا خریداری کا ارادہ نہ ہو لیکن دوسرے کو پھنسانے کے لئے بیچنے والے کے سامان کی قیمت بڑھا دی جائے۔
شہری کے لئے دیہاتی کا سامان بیچنے کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کی چیز بیچے، میں (طاؤس) نے کہا : شہری دیہاتی کی چیز نہ بیچے اس کا کیا مطلب ہے ؟ تو ابن عباس نے فرمایا : (اس کا مطلب یہ ہے کہ) وہ اس کی دلالی نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٨ (٢١٥٨) ، ٧١ (٢١٦٣) ، الإجارة ١٤ (٢٢٧٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢١) ، سنن النسائی/البیوع ١٦ (٤٥٠٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بستی والا باہر سے آئے ہوئے تاجر کا دلال بن کر نہ تو اس کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی چیز خریدے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں بستی والوں کا خسارہ ہے، جب کہ باہر سے آنے والا اگر خود خریدو فروخت کرتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت سے خریدو فروخت کرے گا۔
شہری کے لئے دیہاتی کا سامان بیچنے کی ممانعت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے اگرچہ وہ اس کا بھائی یا باپ ہی کیوں نہ ہو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے حفص بن عمر کو کہتے ہوئے سنا : مجھ سے ابوہلال نے بیان کیا وہ کہتے ہیں : مجھ سے محمد نے بیان کیا انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : لوگ کہا کرتے تھے کہ شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے، یہ ایک جامع کلمہ ہے (مفہوم یہ ہے کہ) نہ اس کے واسطے کوئی چیز بیچے اور نہ اس کے لیے کوئی چیز خریدے (یہ ممانعت دونوں کو عام ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ١٥ (٤٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥، ١٤٥٤) ، حدیث حفص بن عمر قد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٧٠ (٢١٦١) ، صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢٣) ، وحدیث زہیر بن حرب قد أخرجہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بلکہ اسے خود بیچنے دے کیونکہ رعایت سے بیچے گا اور خریداروں کو اس سے فائدہ ہوگا۔
شہری کے لئے دیہاتی کا سامان بیچنے کی ممانعت کا بیان
سالم مکی سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے ان سے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اپنی ایک دودھاری اونٹنی لے کر آیا، یا اپنا بیچنے کا سامان لے کر آیا، اور طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے پاس قیام کیا، تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے شہری کو دیہاتی کا سامان کو بیچنے سے روکا ہے (اس لیے میں تمہارے ساتھ تمہارا دلال بن کر تو نہ جاؤں گا) لیکن تم بازار جاؤ اور دیکھو کون کون تم سے خریدو فروخت کرنا چاہتا ہے پھر تم مجھ سے مشورہ کرنا تو میں تمہیں بتاؤں گا کہ دے دو یا نہ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠١٩) (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں ایک راوی اعرابی مبہم ہے )
شہری کے لئے دیہاتی کا سامان بیچنے کی ممانعت کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی شہری کسی دیہاتی کی چیز نہ بیچے، لوگوں کو چھوڑ دو (انہیں خود سے لین دین کرنے دو ) اللہ بعض کو بعض کے ذریعہ روزی دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٦ (١٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٢١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ١٣ (١٢٢٣) ، سنن النسائی/البیوع ١٥ (٤٥٠٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٥ (٢١٧٧) ، مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤٦٥) (صحیح )
جس بکری کے تھن میں کی روز کا دودھ جمع ہو اگر اسے کسی نے خریدنے کے بعد ناپسند کیا تو کیا حکم ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تجارتی قافلوں سے آگے بڑھ کر نہ ملو ١ ؎، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اور اونٹ و بکری کا تصریہ ٢ ؎ نہ کرو جس نے کوئی ایسی بکری یا اونٹنی خریدی تو اسے دودھ دوہنے کے بعد اختیار ہے، چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو پسند کر کے اسے واپس کر دے، اور ساتھ میں ایک صاع کھجور دیدے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٥٠) ، صحیح مسلم/البیوع ٤ (١٥١٥) ، سنن النسائی/ البیوع ١٥ (٤٥٠١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٣ (٢١٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ١٣ (١٢٢٣) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٦) ، مسند احمد (٢/٣٧٩، ٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مال بازار میں پہنچنے سے پہلے راستہ میں مالکان سے مل کر سودا نہ طے کرلو۔ ٢ ؎ : تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو تصریہ کہتے ہیں تاکہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ٣ ؎ : کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جاسکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراو ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جارہی ہے اس لئے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے ، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل وقال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے۔
جس بکری کے تھن میں کی روز کا دودھ جمع ہو اگر اسے کسی نے خریدنے کے بعد ناپسند کیا تو کیا حکم ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تصریہ کی ہوئی بکری خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے چاہے تو اسے لوٹا دے، اور ساتھ میں ایک صاع غلہ (جو غلہ بھی میسر ہو) دیدے، گیہوں دینا ضروری نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٤٣١، ١٤٥٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٤ (٢١٤٩) ، ٦٥ (٢١٥١) ، صحیح مسلم/البیوع ٧ (١٥٢٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٩ (١٢٥٢) ، سنن النسائی/البیوع ١٤ (٤٤٩٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٢ (٢٢٣٩) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٥ (٩٦) ، مسند احمد (٢/٢٤٨، ٣٩٤، ٤٦٠، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/البیوع ١٩ (٢٥٩٥) (صحیح )
جس بکری کے تھن میں کی روز کا دودھ جمع ہو اگر اسے کسی نے خریدنے کے بعد ناپسند کیا تو کیا حکم ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے تھن میں دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدی اسے دوہا، تو اگر اسے پسند ہو تو روک لے اور اگر ناپسند ہو تو دوہنے کے عوض ایک صاع کھجور دے کر اسے واپس پھیر دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٦٥ (٢١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ٧ (١٥٢٤) (صحیح )
جس بکری کے تھن میں کی روز کا دودھ جمع ہو اگر اسے کسی نے خریدنے کے بعد ناپسند کیا تو کیا حکم ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی تھن میں دودھ جمع کی ہوئی (مادہ) خریدے تو تین دن تک اسے اختیار ہے (چاہے تو رکھ لے تو کوئی بات نہیں) اور اگر واپس کرتا ہے، تو اس کے ساتھ اس کے دودھ کے برابر یا اس دودھ کے دو گنا گیہوں بھی دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٢ (٢٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧٥) (ضعیف) (اس کا راوی جمیع ضعیف اور رافضی ہے ، اور یہ صحیح احادیث کے خلاف بھی ہے )
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کا بیان
بنو عدی بن کعب کے ایک فرد معمر بن ابی معمر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بھاؤ بڑھانے کے لیے احتکار (ذخیرہ اندوزی) وہی کرتا ہے جو خطاکار ہو ۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں : میں نے سعید بن مسیب سے کہا : آپ تو احتکار کرتے ہیں، انہوں نے کہا : معمر بھی احتکار کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے امام احمد سے پوچھا : حکرہ کیا ہے ؟ (یعنی احتکار کا اطلاق کس چیز پر ہوگا) انہوں نے کہا : جس پر لوگوں کی زندگی موقوف ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اوزاعی کہتے ہیں : احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا وہ ہے جو بازار کے آڑے آئے یعنی اس کے لیے رکاوٹ بنے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٦ (١٦٠٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٠ (١٢٦٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦ (٢١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٤٥٣، ٦/٤٠٠) ، سنن الدارمی/البیوع ١٢ (٢٥٨٥) (صحیح )
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت کا بیان
قتادہ کہتے ہیں کھجور میں احتکار (ذخیرہ اندودزی) نہیں ہے۔ ابن مثنی کی روایت میں یحییٰ بن فیاض نے یوں کہا حدثنا همام عن قتادة عن الحسن محمد بن مثنی کہتے ہیں تو ہم نے ان سے کہا : عن قتادة کے بعد عن الحسن نہ کہیے (کیونکہ یہ قول حسن بصری کا نہیں ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ہمارے نزدیک باطل ہے۔ سعید بن مسیب کھجور کی گٹھلی، جانوروں کے چارے اور بیجوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ اور میں نے احمد بن یونس کو کہتے سنا کہ میں نے سفیان (ابن سعید ثوری) سے جانوروں کے چاروں کے روک لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : لوگ احتکار (ذخیرہ اندوزی) کو ناپسند کرتے تھے۔ اور میں نے ابوبکر بن عیاش سے پوچھا تو انہوں نے کہا : روک لو (کوئی حرج نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٦٥) (صحیح )
سکہ توڑنے کے بیان میں
عبداللہ (مزنی) (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے رائج سکے کو توڑنے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ کسی کو ضرورت ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٢ (٢٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٩) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن فضاء ضعیف ہیں )
سکہ توڑنے کے بیان میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! نرخ مقرر فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : (میں نرخ مقرر تو نہیں کروں گا) البتہ دعا کروں گا (کہ غلہ سستا ہوجائے) ، پھر ایک اور شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے بھی کہا : اللہ کے رسول ! نرخ متعین فرما دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ ہی نرخ گراتا اور اٹھاتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ سے اس طرح ملوں کہ کسی کی طرف سے مجھ پر زیادتی کا الزام نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٠٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٧، ٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بھاؤ مقرر کردینے میں کسی کا فائدہ اور کسی کا گھاٹا ہوسکتا ہے تو گھاٹے والا میرا دامن گیر ہوسکتا ہے کہ میری وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
سکہ توڑنے کے بیان میں
انس (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٧٣ (١٣١٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٧ (٢٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨، ١١٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٦) ، دی/ البیوع ١٣ (٢٥٨٧) (صحیح )
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا آپ نے اس سے پوچھا : کیسے بیچتے ہو ؟ تو اس نے آپ کو بتایا، اسی دوران آپ ﷺ کو وحی کے ذریعہ حکم ملا کہ اس کے غلہ (کے ڈھیر) میں ہاتھ ڈال کر دیکھئیے، آپ ﷺ نے غلہ کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا تو وہ اندر سے تر (گیلا) تھا تو آپ نے فرمایا : جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی دھوکہ دہی ہم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٣ (١٠٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٤ (١٣١٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٦ (٢٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٢٢) ، وقد أخرجہ : حم (٢/٢٤٢) (صحیح )
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
یحییٰ کہتے ہیں سفیان ليس منا کی تفسیر ليس مثلنا (ہماری طرح نہیں ہے) سے کرنا ناپسند کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٧٦٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ ڈرانے و دھمکانے کا موقع ہے جس میں تغلیظ و تشدید مطلوب ہے، اور اس تفسیر میں یہ بات نہیں ہے۔
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوجائیں ١ ؎ مگر جب بیع خیار ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٢ (٢١٠٧) ، ٤٣ (٢١٠٩) ، ٤٤ (٢١١١) ، ٤٥ (٢١١٢) ، ٤٦ (٢١١٣) ، صحیح مسلم/البیوع ١٠ (١٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤١، ٨٢٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٤٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٧ (٢١٨١) ، موطا امام مالک/البیوع ٣٨ (٧٩) ، مسند احمد (٢/٤، ٩، ٥٢، ٥٤، ٧٣، ١١٩، ١٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع اور مشتری دونوں جسمانی طور پر جدا ہوگئے تو بیع لازم ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ ٢ ؎ : یعنی خیار کی شرط کرلی ہو تو مجلس علیحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں یوں ہے : یا ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے کہے اختر یعنی لینا ہے تو لے لو، یا دینا ہے تو دے دو (پھر وہ کہے : لے لیا، یا کہے دے دیا، تو جدا ہونے سے پہلے ہی اختیار جاتا رہے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ البیوع ٤٣ (٢١٠٩) ، صحیح مسلم/ البیوع ١٠ (١٥٣١) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤، ٧٣) (صحیح )
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریدو فروخت کرنے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کردینے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر جب بیع خیار ہو، (تو جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) بائع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٤٧) ، سنن النسائی/البیوع ٩ (٤٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٣) (حسن )
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
ابوالوضی کہتے ہیں ہم نے ایک جنگ لڑی ایک جگہ قیام کیا تو ہمارے ایک ساتھی نے غلام کے بدلے ایک گھوڑا بیچا، اور معاملہ کے وقت سے لے کر پورا دن اور پوری رات دونوں وہیں رہے، پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی اور کوچ کا وقت آیا، تو وہ (بیچنے والا) اٹھا اور (اپنے) گھوڑے پر زین کسنے لگا اسے بیچنے پر شرمندگی ہوئی (زین کس کر اس نے واپس لے لینے کا ارادہ کرلیا) وہ مشتری کے پاس آیا اور اسے بیع کو فسخ کرنے کے لیے پکڑا تو خریدنے والے نے گھوڑا لوٹانے سے انکار کردیا، پھر اس نے کہا : میرے اور تمہارے درمیان رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابوبرزہ (رض) موجود ہیں (وہ جو فیصلہ کردیں ہم مان لیں گے) وہ دونوں ابوبرزہ (رض) کے پاس آئے، اس وقت ابوبرزہ لشکر کے ایک جانب (پڑاؤ) میں تھے، ان دونوں نے ان سے یہ واقعہ بیان کیا تو انہوں نے ان دونوں سے کہا : کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں تمہارے درمیان رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کر دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : دونوں خریدو فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک بیع فسخ کردینے کا اختیار ہے، جب تک کہ وہ دونوں (ایک مجلس سے) جدا ہو کر ادھر ادھر نہ ہوجائیں ۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ جمیل نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ تم دونوں جدا نہیں ہوئے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ١٧ (٢١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ یہ دونوں اسی جگہ ٹھہرے رہے جہاں آپس میں خریدو فروخت کا معاملہ ہوا تھا اور ایجاب و قبول کے بعد دونوں جسمانی طور پر جدا نہیں ہوئے بلکہ ابوبرزہ (رض) کی خدمت میں اپنا معاملہ بھی ایک ساتھ ہو کر لائے اسی لئے انہوں نے بیچنے والے کے حق میں فیصلہ دیا ، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابی رسول ﷺ آپ کے قول ما لم يتفرقا کو تفرق بالأبدان پر مجہول کرتے تھے نہ کہ تفرق بالا قوال پر۔
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
یحییٰ بن ایوب کہتے ہیں ابوزرعہ جب کسی آدمی سے خریدو فروخت کرتے تو اسے اختیار دیتے اور پھر اس سے کہتے : تم بھی مجھے اختیار دے دو اور کہتے : میں نے ابوہریرہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو آدمی جب ایک ساتھ ہوں تو وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوں مگر ایک دوسرے سے راضی ہو کر ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٧ (١٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٣٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چاہے وہ کلاس کے دو ساتھی ہوں یا ٹرین و بس کے دو ہم سفر، یا بائع و مشتری ہوں یا کوئی اور انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ اس طرح ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے خوش ہوں۔
ملاوٹ کی ممانعت کا بیان
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کردینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کردیں تو دونوں کے اس خریدو فروخت میں برکت ہوگی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کردی جائے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دونوں جدا نہ ہوں، یا دونوں تین مرتبہ اختیار کی شرط نہ کرلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٩ (٢٠٧٩) ، ٢٢ (٢٠٨٢) ، ٤٢ (٢١٠٨) ، ٤٤ (٢١١٠) ، ٤٦ (٢١١٤) ، صحیح مسلم/البیوع ١ (١٥٣٢) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٤٦) ، سنن النسائی/البیوع ٤ (٤٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٠٣، ٤٣٤) (صحیح )
کسی کو نقصان سے بچانے کے لئے بیع ختم کرنے کی فضیلت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے فروخت کا معاملہ فسخ کرلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف کر دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٦ (٢١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی تشریح یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی سے کوئی سامان خریدا ، مگر اس کو اس سامان کی ضرورت ختم ہوگئی یا کسی وجہ سے اس خرید پر اس کو پچھتاوا ہوگیا ، اور خریدا ہوا سامان واپس کردینا چاہا تو بائع نے سامان واپس کرلیا ، تو گویا اس نے ایک مسلمان پر احسان کیا ، اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اس پر احسان کرے گا۔
ایک بیع میں دو بیع کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک معاملہ میں دو طرح کی بیع کی تو جو کم والی ہوگی وہی لاگو ہوگی (اور دوسری ٹھکرا دی جائے گی) کیونکہ وہ سود ہوجائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥١٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ١٨ (١٢٣١) ، سنن النسائی/البیوع ٧٣ (٧/٤٦٣٦) ، موطا امام مالک/البیوع ٣٣ (٧٣) ، مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٧٥، ٥٠٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : بيعتين في بيعة ایک چیز کے بیچنے میں دو طرح کی بیع کرنا جیسے بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ یہ کپڑا ایک دینار کا ہے اور یہ دو دینار کا اور خریدنے والے کو دونوں میں سے ایک لینا پڑے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے کہے کہ میں نے تمہارے ہاتھ یہ کپڑا نقد دس روپیہ میں اور ادھار پندرہ میں بیچا، بعضوں نے کہا : بیچنے والا خریدار سے کہے کہ میں نے اپنا باغ تمہارے ہاتھ اس شرط سے بیچا کہ تم اپنا گھر میرے ہاتھ بیچو، مگر دوسری صورت اس حدیث کے مضمون سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ ایک چیز کی دو بیع میں دو قیمتیں کم اور زیادہ ہیں ، اور اگر کم کو اختیار نہ کرے تو سود لازم ہوگا، ایک بیع میں دو بیع کی تشریح ابن القیم نے اس طرح کی ہے : بیچنے والا خریدنے والے کے ہاتھ کوئی سامان سو روپے ادھار پر بیچے، پھر خریدار سے اسی سامان کو اسی روپے نقد پر خرید لے، چونکہ یہ بیع سود تک پہنچانے والی ہے اس لئے ناجائز ہے۔
بیع عینیہ کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب تم بیع عینہ ١ ؎ کرنے لگو گے گایوں بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : روایت جعفر کی ہے اور یہ انہیں کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٢٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢) (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں اسحاق الخراسانی اور عطاء الخراسانی دونوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے عمرو کے ہاتھ ایک تھان کپڑا ایک ہزار روپے میں ایک مہینہ کے ادھار پر بیچا، پھر آٹھ سو روپیہ نقد دے کر وہ تھان اس نے عمرو سے خرید لیا، یہ بیع سود خوروں نے ایجاد کی ہے۔
بیع سلم کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے اس وقت لوگ پھلوں میں سال سال، دو دو سال، تین تین سال کی بیع سلف کرتے تھے (یعنی مشتری بائع کو قیمت نقد دے دیتا اور بائع سال و دو سال تین سال کی جو بھی مدت متعین ہوتی مقررہ وقت تک پھل دیتا رہتا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کھجور کی پیشگی قیمت دینے کا معاملہ کرے اسے چاہیئے کہ معاملہ کرتے وقت پیمانہ وزن اور مدت سب کچھ معلوم و متعین کرلے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ١ (٢٢٣٩) ، ٢ (٢٢٤٠) ، ٧ (٢٢٥٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٥ (١٦٠٤) ، سنن الترمذی/البیوع ٧٠ (١٣١١) ، سنن النسائی/البیوع ٦١ (٤٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٩ (٢٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٢٢، ٢٨٢، ٣٥٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٥ (٢٦٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سلف یا سلم یہ ہے کہ خریدار بیچنے والے کو سامان کی قیمت پیشگی دے دے اور سامان کی ادائیگی کے لئے ایک میعاد مقرر کرلے، ساتھ ہی سامان کا وزن، وصف اور نوعیت وغیرہ متعین ہو ایسا جائز ہے۔ ٢ ؎ : تاکہ جھگڑے اور اختلاف پیدا ہونے والی بات نہ رہ جائے اگر مدت مجہول ہو اور وزن اور ناپ متعین نہ ہو تو بیع سلف درست نہ ہوگی۔
بیع سلم کا بیان
محمد یا عبداللہ بن مجالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ (رض) میں بیع سلف کے سلسلہ میں اختلاف ہوا تو لوگوں نے ابن ابی اوفی (رض) کے پاس مجھے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) کے زمانہ میں گیہوں، جو، کھجور اور انگور خریدنے میں سلف کیا کرتے تھے، اور ان لوگوں سے (کرتے تھے) جن کے پاس یہ میوے نہ ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السلم ٢ (٢٢٤٢) ، سنن النسائی/البیوع ٥٩ (٤٦١٨) ، ٦٠ (٤٦١٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٩ (٢٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧١) ، وقد أخرجہ : حم (٤/٣٥٤، ٣٨٠) (صحیح )
بیع سلم کا بیان
عبداللہ بن ابی مجالد (اور عبدالرحمٰن نے ابن ابی مجالد کہا ہے) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ ایسے لوگوں سے سلم کرتے تھے، جن کے پاس (بروقت) یہ مال نہ ہوتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن ابی مجالد صحیح ہے، اور شعبہ سے اس میں غلطی ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥١١٧) (صحیح )
بیع سلم کا بیان
عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شام میں جہاد کیا تو شام کے کاشتکاروں میں سے بہت سے کاشتکار ہمارے پاس آتے، تو ہم ان سے بھاؤ اور مدت معلوم و متعین کر کے گیہوں اور تیل کا سلف کرتے (یعنی پہلے رقم دے دیتے پھر متعینہ بھاؤ سے مقررہ مدت پر مال لے لیتے تھے) ان سے کہا گیا : آپ ایسے لوگوں سے سلم کرتے رہے ہوں گے جن کے پاس یہ مال موجود رہتا ہوگا، انہوں نے کہا : ہم یہ سب ان سے نہیں پوچھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/السلم ٣ (٢٢٤١) ، ٧ (٢٢٥٣) (صحیح )
معین درخت کے پھل میں سلم کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک شخص سے کھجور کے ایک خاص درخت کے پھل کی بیع سلف کی، تو اس سال اس درخت میں کچھ بھی پھل نہ آیا تو وہ دونوں اپنا جھگڑا لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے، تو رسول اللہ ﷺ نے بیچنے والے سے فرمایا : تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرنے پر تلے ہوئے ہو ؟ اس کا مال اسے لوٹا دو پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کھجوروں میں جب تک وہ قابل استعمال نہ ہوجائیں سلف نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦١ (٢٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٩٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٢١ (٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٥، ٤٩، ٥١، ٥٨، ١٤٤) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی رجل نجرانی مبہم ہیں )
بیع سلم میں مسلم فیہ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی پہلے قیمت دے کر کوئی چیز خریدے تو وہ چیز کسی اور چیز سے نہ بدلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٠ (٢٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٠٤) (ضعیف) (اس کے راوی عطیہ عوفی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً بیع سلم گیہوں لینے پر کی ہو اور لینے سے پہلے اس کے بدلہ میں چاول ٹھہرا لے تو یہ درست نہیں۔
کھیت یا باغ پر آنے والی کسی آفت کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آگئی چناچہ اس پر بہت سارا قرض ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے خیرات دو تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی کہ جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا : جو پا گئے وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ١ ؎ (یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٤ (١٥٥٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٤ (٦٥٥) ، سنن النسائی/البیوع ٢٨ (٤٥٣٤) ، ٩٣ (٤٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٥، (٢٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٦، ٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جب حاکم موجودہ مال کو قرض خواہوں کے مابین بقدر حصہ تقسیم کر دے پھر بھی اس شخص کے ذمہ قرض خواہوں کا قرض باقی رہ جائے تو ایسی صورت میں قرض خواہ اسے تنگ کرنے ، قید کرنے اور قرض کی ادائیگی پر مزید اصرار کرنے کے بجائے اسے مال کی فراہمی تک مہلت دے، حدیث کا مفہوم یہی ہے اور قرآن کی اس آیت : وإن کان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة کے مطابق بھی ہے کیونکہ کسی کے مفلس ہوجانے سے قرض خواہوں کے حقوق ضائع نہیں ہوتے۔
کھیت یا باغ پر آنے والی کسی آفت کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اپنے کسی بھائی کے ہاتھ (باغ کا) پھل بیچو پھر اس پھل پر کوئی آفت آجائے (اور وہ تباہ و برباد ہوجائے) تو تمہارے لیے مشتری سے کچھ لینا جائز نہیں تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس وجہ سے لو گے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٣ (١٥٥٤) ، سنن النسائی/البیوع ٢٨ (٤٥٣١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٣ (٢٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٢٢ (٢٥٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور اگر کچھ پھل بچ گیا اور کچھ نقصان ہوگیا تو نقصان کا خیال کر کے قیمت میں کچھ تخفیف کر دینی چاہیے۔
جائحہ (آفت) کی تفسیر کا بیان
عطاء کہتے ہیں جائحہ ہر وہ آفت و مصیبت ہے جو بالکل کھلی ہوئی اور واضح ہو جس کا کوئی انکار نہ کرسکے، جیسے بارش بہت زیادہ ہوگئی ہو، پالا پڑگیا ہو، ٹڈیاں آ کر صاف کرگئی ہوں، آندھی آگئی ہو، یا آگ لگ گئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٠٦٤) (حسن )
جائحہ (آفت) کی تفسیر کا بیان
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں راس المال کے ایک تہائی سے کم مال پر آفت آئے تو اسے آفت نہیں کہیں گے۔ یحییٰ کہتے ہیں : مسلمانوں میں یہی طریقہ مروج ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٥٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ایک تہائی سے کم نقصان ہو تو قیمت میں مشتری کے ساتھ رعایت نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ تھوڑا بہت تو نقصان ہوا ہی کرتا ہے۔
پانی روکنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فاضل پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے ذریعہ سے گھاس سے روک دیا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٣٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المساقاة ٢ (٢٣٥٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٨ (١٥٦٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٥ (١٢٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٩ (٢٤٢٨) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٢٥ (٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ سوچ کر دوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکا جائے کہ جب جانوروں کو پلانے کے لیے لوگ پانی نہ پائیں گے تو جانور ادھر نہ لائیں گے، اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لئے بچی رہے گی، یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں ہے۔
پانی روکنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا : ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام (و سربراہ) سے (وفاداری کی) بیعت کرے پھر اگر امام اسے (دنیاوی مال و جاہ) سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٣٥ (١٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الشھادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، الأحکام ٤٨ (٧٢١٢) ، المساقاة ١٠ (٢٣٦٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٨) ، سنن النسائی/البیوع ٦ (٤٤٦٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٧) ، الجھاد ٤٢ (٢٨٧٠) ، مسند احمد (٢/٢٥٣، ٤٨٠) (صحیح )
پانی روکنے کا بیان
اس سند سے بھی اعمش سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : ان کو گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا اور سامان کے سلسلہ میں یوں کہے : قسم اللہ کی اس مال کے تو اتنے اتنے روپے مل رہے تھے، یہ سن کر خریدار اس کی بات کو سچ سمجھ لے اور اسے (منہ مانگا پیسہ دے کر) لے لے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الشہادات ٢٢ (٢٦٧٢) ، صحیح مسلم/ الإیمان ٤٦ (١٠٨) ، سنن النسائی/ البیوع ٦ (٤٤٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٣٨) (صحیح )
پانی روکنے کا بیان
بہیسہ نامی خاتون اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میرے والد نے نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی، (اجازت ملی) پہنچ کر آپ ﷺ کا کرتہ اٹھا کر آپ کو بوسہ دینے اور آپ سے لپٹنے لگے پھر پوچھا : اللہ کے نبی ! وہ کون سی چیز ہے جس کے دینے سے انکار کرنا جائز نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی پھر پوچھا : اللہ کے نبی ! (اور) کون سی چیز ہے جس کا روکنا درست نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نمک پھر پوچھا : اللہ کے نبی ! (اور) کون سی چیز ہے جس کا روکنا درست نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جتنی بھی تو نیکی کرے (یعنی جو چیزیں بھی دے سکتا ہے دے) تیرے لیے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٦٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٧) (ضعیف) (اس کے راوی ، اس کے رواة سیار اور ان کے والد منظور لین الحدیث ہیں اور بہیسہ مجہول ہیں )
پانی روکنے کا بیان
نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک مہاجر کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تین بار جہاد کیا ہے، میں آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنتا تھا : مسلمان تین چیزوں میں برابر برابر کے شریک ہیں (یعنی ان سے سبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں) : (ا) پانی (نہر و چشمے وغیرہ کا جو کسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو) ، (٢) گھاس (جو لاوارث زمین میں ہو) اور (٣) آگ (جو چقماق وغیرہ سے نکلتی ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (٥/٣١٤) (صحیح )
بچے ہوئے پانی کو فروخت کرنے کا بیان
ایاس بن عبد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فاضل (پینے کے) پانی کے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٤ (١٢٧١) ، سنن النسائی/البیوع ٨٦ (٤٦٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الرھون ١٨ (٢٤٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٨، ٤١٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٩ (٢٦٥٤) (صحیح )
بلے یا بلی کی قیمت لینے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت (لینے) سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٠٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ٩ (١٥٦٧) ، سنن النسائی/الذبائح ١٦ (٤٣٠٠) ، البیوع ٩٠ (٤٦٧٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٩ (٢١٦١) ، مسند احمد (٣/٣٣٩) (صحیح )
بلے یا بلی کی قیمت لینے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلی کی قیمت (لینے) سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢٠ (٣٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٤) ویأتی ہذا الحدیث فی الأطعمة (٣٨٠٧) (صحیح) سند میں عمر بن زید ضعیف ہیں اس لئے ترمذی نے حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے، لیکن البانی صاحب نے سنن ابی داود میں صحیح کہا ہے، اور سنن ابن ماجہ میں ضعیف (٣٢٥٠) جبکہ الإرواء (٢٤٨٧) میں اس کی تضعیف کی ہے واضح رہے کہ ابوداود میں احادیث البیوع کا حوالہ دیا ہے تو سند کے اعتبار سے اس میں ضعف ہے لیکن سابقہ حدیث کی وجہ سے یہ صحیح ہے
کتوں کی قیمت لینے کا بیان
ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کی کمائی سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٠٧، ١٠٠١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کتے کی قیمت، زانیہ عورت کی کمائی اور کاہن کی کمائی سے متعلق ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر (٣٤٢٨) کے حواشی۔
کتوں کی قیمت لینے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے، اور اگر کوئی کتے کی قیمت مانگنے آئے، تو اس کی مٹھی میں مٹی بھر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٥، ٢٧٨، ٢٨٩، ٣٥٠، ٣٥٦) (صحیح الإسناد )
کتوں کی قیمت لینے کا بیان
ابوحجیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٣ (٢٢٣٧) (صحیح )
کتوں کی قیمت لینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کتے کی قیمت حلال نہیں ہے، نہ کاہن کی کمائی حلال ہے اور نہ فاحشہ کی کمائی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید والذبائح ١٥ (٤٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٠) (صحیح )
شراب اور مردار کی قیمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے، مردار اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے، سور اور اس کی قیمت کو حرام قرار دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٢) (صحیح )
شراب اور مردار کی قیمت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا (آپ مکہ میں تھے) : اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کے خریدنے اور بیچنے کو حرام کیا ہے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! مردار کی چربی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ (اس سے تو بہت سے کام لیے جاتے ہیں) اس سے کشتیوں پر روغن آمیزی کی جاتی ہے، اس سے کھال نرمائی جاتی ہے، لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں (ان سب کے باوجود بھی) وہ حرام ہے پھر آپ ﷺ نے اسی موقع پر فرمایا : اللہ تعالیٰ یہود کو تباہ و برباد کرے، اللہ نے ان پر جانوروں کی چربی جب حرام کی تو انہوں نے اسے پگھلایا پھر اسے بیچا اور اس کے دام کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٢ (٢٢٣٦) ، المغازي ٥١ (٤٢٩٦) ، تفسیر سورة الأنعام ٦ (٤٦٣٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٣ (١٥٨١) ، سنن الترمذی/البیوع ٦١ (١٢٩٧) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٧ (٤٢٦١) ، البیوع ٩١ (٤٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١١ (٢١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٤، ٣٢٦، ٣٧٠) (صحیح )
شراب اور مردار کی قیمت
اس سند سے بھی جابر (رض) سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے مگر اس میں انہوں نے هو حرام نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٤) (صحیح )
شراب اور مردار کی قیمت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رکن (حجر اسود) کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا، آپ نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں پھر ہنسے اور تین بار فرمایا : اللہ یہود پر لعنت فرمائے، اللہ نے ان پر جانوروں کی چربی حرام کی (تو انہوں نے چربی تو نہ کھائی) لیکن چربی بیچ کر اس کے پیسے کھائے، اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کیا ہے، تو اس قوم پر اس کی قیمت لینے کو بھی حرام کردیا ہے ۔ خالد بن عبداللہ (خالد بن عبداللہ طحان) کی حدیث میں دیکھنے کا ذکر نہیں ہے اور اس میں : لعن الله اليهود کے بجائے : قال قاتل الله اليهود ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٧، ٢٩٣، ٣٢٢) (صحیح )
شراب اور مردار کی قیمت
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شراب بیچے اسے سور کا گوشت بھی کاٹنا (اور بیچنا) چاہیئے (اس لیے کہ دونوں ہی چیزیں حرمت میں برابر ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٣) ، سنن الدارمی/الأشربة ٩ (٢١٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی عمر بن بیان لین الحدیث ہیں )
شراب اور مردار کی قیمت
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ سورة البقرہ کی آخری آیتیں : يسألونک عن الخمر والميسر ... اتریں، تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور آپ نے یہ آیتیں ہم پر پڑھیں اور فرمایا : شراب کی تجارت حرام کردی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٣ (٤٥٩) ، والبیوع ٢٥ (٢٠٨٤) ، ١٠٥ (٢٢٢٦) ، و تفسیر آل عمران ٤٩ (٤٥٤٠) ، ٥٢ (٤٥٤٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٢ (١٥٨٠) ، سنن النسائی/البیوع ٨٩ (٤٦٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٧ (٣٣٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦، ١٠٠، ١٢٧، ١٨٦، ١٩٠، ٢٨٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٣٥ (٢٦١٢) (صحیح )
شراب اور مردار کی قیمت
اعمش سے بھی اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں الآيات الأواخر من سورة البقرہ کے بجائے الآيات الأواخر في الربا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٦) (صحیح )
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کھانے کا غلہ خریدے وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے پورے طور سے اپنے قبضہ میں نہ لے لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥١ (٢١٢٦) ، ٥٤ (٢١٣٣) ، ٥٥ (٢١٣٦) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٦) ، سنن النسائی/البیوع ٥٣ (٤٥٩٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٧ (٢٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤٠) ، مسند احمد (١/٥٦، ٦٣، ٢/٢٣، ٤٦، ٥٩، ٦٤، ٧٣، ٧٩، ١٠٨، ١١١، ١١٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٦ (٢٦٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور علماء کا کہنا ہے کہ یہ حکم ہر بیچی جانے والی شے کے لئے عام ہے لہٰذا خریدی گئی چیز میں اس وقت تک کسی طرح کا تصرف جائز نہیں جب تک کہ اسے پورے طور سے قبضہ میں نہ لے لیا جائے یا جہاں خریدا ہے وہاں سے اسے منتقل نہ کرلیا جائے۔
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں غلہ خریدتے تھے، تو آپ ہمارے پاس (کسی شخص کو) بھیجتے وہ ہمیں اس بات کا حکم دیتا کہ غلہ اس جگہ سے اٹھا لیا جائے جہاں سے ہم نے اسے خریدا ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے بیچیں یعنی اندازے سے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٧) ، سنن النسائی/البیوع ٥٥ (٤٦٠٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣١ (٢٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣١) ، ٥٦ (٢١٣٧) ، ٧٢ (٢١٦٦) ، موطا امام مالک/البیوع ١٩ (٤٢) ، مسند احمد (١/٥٦، ١١٢، ٢/٧، ١٥، ٢١، ٤٠، ٥٣، ١٤٢، ١٥٠، ١٥٧) (صحیح )
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کرلیں (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہوجائے پھر بیچے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ البیوع ٧٢ (٢١٦٧) ، سنن النسائی/ البیوع ٥٥ (٤٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥، ٢١) (صحیح )
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غلہ کو جسے کسی نے ناپ تول کر خریدا ہو، جب تک اسے اپنے قبضہ و تحویل میں پوری طرح نہ لے لے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ البیوع ٥٤ (٤٦٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١١) (صحیح )
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص گیہوں خریدے تو وہ اسے تولے بغیر فروخت نہ کرے ۔ ابوبکر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : کیوں ؟ تو انہوں نے کہا : کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ لوگ اشرفیوں سے گیہوں خریدتے بیچتے ہیں حالانکہ گیہوں بعد میں تاخیر سے ملنے والا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٢) ، ٥٥ (٢١٣٥) ، صحیح مسلم/البیوع ٨ (١٥٢٥) ، سنن النسائی/البیوع ٥٣ (٤٦٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٥١، ٢٧٠، ٢٨٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦٨، ٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلا : ایک آدمی نے سو روپیہ کسی کو غلہ کے لئے دیئے اور غلہ اپنے قبضہ میں نہیں لیا، پھر اس کو کسی اور سے ایک سو بیس روپیہ میں بیچ دیا جبکہ غلہ ابھی کسان یا فروخت کرنے والے کے ہاتھ ہی میں ہے ، تو گویا اس نے سو روپیہ کو ایک سو بیس روپیہ میں بیچا اور یہ سود ہے۔
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی گیہوں خریدے تو جب تک اسے اپنے قبضہ میں نہ کرلے، نہ بیچے ۔ سلیمان بن حرب نے اپنی روایت میں ( حتى يقبضه کے بجائے) حتى يستوفيه روایت کیا ہے۔ مسدد نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ گیہوں کی طرح ہر چیز کا حکم ہے (جو چیز بھی کوئی خریدے جب تک اس پر قبضہ نہ کرلے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ البیوع ٥٥ (٢١٣٥) ، صحیح مسلم/ البیوع ٨ (١٥٢٥) ، سنن الترمذی/ البیوع ٥٦ (١٢٩١) ، سنن النسائی/ البیوع ٥٣ (٤٦٠٢) ، سنن ابن ماجہ/ التجارات ٣٧ (٢٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٧٠، ٢٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کی اگلی مرفوع حدیث نمبر (٣٤٩٩) اسی عموم پر دلالت کرتی ہے۔
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، میں نے لوگوں کو مار کھاتے ہوئے دیکھا ہے ١ ؎ جب وہ گیہوں کے ڈھیر بغیر تولے اندازے سے خریدتے اور اپنے مکانوں پر لے جانے سے پہلے بیچ ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المحاربین ٢٩ (٦٨٥٢) ، صحیح مسلم/ البیوع ٨ (١٥٢٧) ، سنن النسائی/ البیوع ٥٥ (٤٦١٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧، ١٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ وہ قبضہ میں لے کر بیچنے کے حکم کی خلاف ورزی کرتے تھے۔
استیفاء طعام سے قبل اس کی فروخت جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں میں نے بازار میں تیل خریدا، تو جب اس بیع کو میں نے مکمل کرلیا، تو مجھے ایک شخص ملا، وہ مجھے اس کا اچھا نفع دینے لگا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سے سودا پکا کرلوں اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت (رض) تھے، انہوں نے کہا : جب تک کہ تم اسے جہاں سے خریدے ہو وہاں سے اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر نہ لے آؤ نہ بیچنا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے، جس جگہ خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار سامان تجارت کو اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو دواد، (تحفة الأشراف : ٢٧٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩١) (حسن )
بیع کے وقت جو یہ کہے کہ اسمیں دھوکہ نہیں اس کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ خریدو فروخت میں اسے دھوکا دے دیا جاتا ہے (تو وہ کیا کرے) رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : جب تم خریدو فروخت کرو، تو کہہ دیا کرو لا خلابة (دھوکا دھڑی کا اعتبار نہ ہوگا) تو وہ آدمی جب کوئی چیز بیچتا تو لا خلابة کہہ دیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٨ (٢١١٧) ، الاستقراض ١٩ (٢٤٠٧) ، الخصومات ٣ (٢٤١٤) ، الحیل ٧ (٦٩٦٤) ، سنن النسائی/البیوع ١٠ (٤٤٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البیوع ١٢ (١٥٣٣) ، موطا امام مالک/البیوع ٤٦ (٩٨) ، مسند احمد (٢/٨٠، ١١٦، ١٢٩، ١٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خریدار کے ایسا کہہ دینے سے اسے اختیار حاصل ہوجاتا ہے اور اگر بعد میں اسے پتہ چل جائے کہ اس کے ساتھ چالبازی کی گئی ہے تو وہ بیع فسخ کرسکتا ہے۔
بیع کے وقت جو یہ کہے کہ اسمیں دھوکہ نہیں اس کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خریدو فروخت کرتا تھا، لیکن اس کی گرہ (معاملہ کی پختگی میں) کمی و کمزوری ہوتی تھی تو اس کے گھر والے اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! فلاں (کے خریدو فروخت) پر روک لگا دیجئیے، کیونکہ وہ سودا کرتا ہے لیکن اس کی سودا بازی کمزور ہوتی ہے (جس سے نقصان پہنچتا ہے) تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بلایا اور اسے خریدو فروخت کرنے سے منع فرما دیا، اس نے کہا : اللہ کے نبی ! مجھ سے خریدو فروخت کئے بغیر رہا نہیں جاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اچھا اگر تم خریدو فروخت چھوڑ نہیں سکتے تو خریدو فروخت کرتے وقت کہا کرو : نقدا نقدا ہو، لیکن اس میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی ١ ؎۔ اور ابوثور کی روایت میں ( أخبرنا سعيد کے بجائے) عن سعيد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٢٨ (١٢٥٠) ، سنن النسائی/البیوع ١٠ (٤٤٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٤ (٢٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پس اگر کسی نے دھوکہ اور فریب کیا ، تو بیع فسخ ہوجائے گی اور لیا دیا واپس ہوجائے گا۔
بیع عربان کے بیان میں
عبداللہ بن عمر و (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک کہتے ہیں : جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً ) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہوجائے گا (اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٢ (٢١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٢٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ البیوع ١ (١) ، مسند احمد (٢/١٨٣) (ضعیف) (اس کی سند میں انقطاع ہے ، یہ امام مالک کی بلاغات میں سے ہے )
اپنے پاس غیر موجود چیز کی فروخت کا بیان
حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کرلوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ١٩ (١٢٣٢) ، سنن النسائی/البیوع ٥٨ (٤٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٠ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٣٤) (صحیح )
اپنے پاس غیر موجود چیز کی فروخت کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ١ ؎ اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ٢ ؎ اور نہ اس چیز کا نفع لینا درست ہے، جس کا وہ ابھی ضامن نہ ہوا ہو، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہیں ٣ ؎ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہوسکتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ١٩ (١٢٣٤) ، سنن النسائی/البیوع ٦٠ (٤٦٢٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٠ (٢١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٤، ١٧٨، ٢٠٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ بائع خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپیے کے عوض اس شرط پر بیچے کہ بائع خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا، اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ٢ ؎ : مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تم سے ایک ہزار نقد یا دو ہزار ادھار میں بیچا یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطوں پر مشتمل ہے یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ٣ ؎ : بائع کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس میں دھوکا دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوے غلام یا اونٹ کی بیع کرے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بائع نہیں دے سکتا، البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے مشتری کے لئے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی شے بائع کے پاس فی الوقت موجود نہیں ہوتی۔
بیع میں شرط لگانے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اسے (یعنی اپنا) اونٹ نبی اکرم ﷺ سے بیچا اور اپنے سامان سمیت سوار ہو کر اپنے اہل تک پہنچنے کی شرط لگا لی، اور اخیر میں آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم سمجھتے ہو کہ میں قیمت کم کرا رہا ہوں تاکہ کم ہی پیسے میں تمہارے اونٹ ہڑپ کرلے جاؤں، جاؤ تم اپنا اونٹ بھی لے جاؤ اور اونٹ کی قیمت بھی، یہ دونوں چیزیں تمہاری ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٤ (٢٠٩٧) ، الاستقراض ١ (٢٣٨٥) ، ١٨ (٢٤٠٦) ، المظالم ٢٦ (٢٤٧٠) ، الشروط ٤ (٢٧١٨) ، الجھاد ٤٩ (٢٨٦١) ، ١١٣ (٢٩٦٧) ، صحیح مسلم/البیوع ٤٢ (٧١٥) ، الرضاع ١٦ (٧١٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٠ (١٢٥٣) ، سنن النسائی/البیوع ٧٥ (٤٦٤١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٩ (٢٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٩٢) (صحیح )
غلام کی خریداری کا بیان
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (بایع پر) غلام و لونڈی کے عیب کی جواب دہی کی مدت تین دن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٤ (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٣، ١٥٠، ١٥٢) ، سنن الدارمی/البیوع ١٨ (٢٥٩٤) (ضعیف) (حسن بصری کا سماع عقبہ (رض) سے نہیں ہے )
غلام کی خریداری کا بیان
اس سند سے بھی قتادہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ اگر تین دن کے اندر ہی اس میں کوئی عیب پائے تو وہ اسے بغیر کسی گواہ کے لوٹا دے گا، اور اگر تین دن بعد اس میں کوئی عیب نکلے تو اس سے اس بات پر بینہ (گواہ) طلب کیا جائے گا، کہ جب اس نے اسے خریدا تھا تو اس میں یہ بیماری اور یہ عیب موجود تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ تفسیر قتادہ کے کلام کا ایک حصہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٧) (ضعیف) وسندہ إلی قتادة صحیح (حسن بصری کا سماع عقبہ (رض) سے نہیں ہے )
غلام خریدنے کے بعد اسے کسی کام پر لگا دیا پھر کوئی عیب پایا گیا تو کیا کیا جائے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خراج ضمان سے جڑا ہوا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٣ (١٢٨٥) ، سنن النسائی/ البیوع ١٣ (٤٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٤٣ (٢٢٤٢، ٢٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٨، ٢٣٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً خریدار نے ایک غلام خریدا اسی دوران غلام نے کچھ کمائی کی تو اس کا حق دار مشتری ہوگا بائع نہیں کیونکہ غلام کے کھو جانے یا بھاگ جانے کی صورت میں مشتری ہی اس کا ضامن ہے۔
غلام خریدنے کے بعد اسے کسی کام پر لگا دیا پھر کوئی عیب پایا گیا تو کیا کیا جائے ؟
( مخلد بن خفاف) غفاری کہتے ہیں میرے اور چند لوگوں کے درمیان ایک غلام مشترک تھا، میں نے اس غلام سے کچھ کام لینا شروع کیا اور ہمارا ایک حصہ دار موجود نہیں تھا اس غلام نے کچھ غلہ کما کر ہمیں دیا تو میرا شریک جو غائب تھا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور معاملہ ایک قاضی کے پاس لے گیا، اس قاضی نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے حصہ کا غلہ اسے دے دوں، پھر میں عروہ بن زبیر (رض) کے پاس آیا اور ان سے اسے بیان کیا، تو عروہ (رض) ان کے پاس آئے اور ان سے وہ حدیث بیان کی جو انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اور عائشہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی تھی آپ نے فرمایا : منافع اس کا ہوگا جو ضامن ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : عروہ نے اس حصہ دار سے یہ حدیث اس لئے بیان کی تاکہ وہ مخلد سے غلہ نہ لے کیونکہ غلام اس وقت مخلد کے ضمان میں تھا اس لئے اس کی کمائی کے مستحق بھی تنہا وہی ہوئے۔
غلام خریدنے کے بعد اسے کسی کام پر لگا دیا پھر کوئی عیب پایا گیا تو کیا کیا جائے ؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ غلام جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے پاس رہا، پھر اس نے اس میں کوئی عیب پایا تو اس کا مقدمہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کیا، رسول اللہ ﷺ نے غلام بائع کو واپس کرا دیا، تو بائع کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اس نے میرے غلام کے ذریعہ کمائی کی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خراج (منافع) اس شخص کا حق ہے جو ضامن ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ سند ویسی (قوی) نہیں ہے (جیسی سندوں سے کوئی حدیث ثابت ہوتی ہے ) تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ التجارات ٤٣ (٢٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٠، ١١٦) (حسن) بما قبلہ (مسلم زنجی حافظہ کے کمزور راوی ہیں )
بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور مبیع موجود ہو
محمد بن اشعث کہتے ہیں اشعث نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے خمس کے غلاموں میں سے چند غلام بیس ہزار میں خریدے، عبداللہ بن مسعود (رض) نے اشعث سے ان کی قیمت منگا بھیجی تو انہوں نے کہا کہ میں نے دس ہزار میں خریدے ہیں تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : کسی شخص کو چن لو جو ہمارے اور تمہارے درمیان معاملے کا فیصلہ کر دے، اشعث نے کہا : آپ ہی میرے اور اپنے معاملے میں فیصلہ فرما دیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب بائع اور مشتری (بیچنے اور خریدنے والے) دونوں کے درمیان (قیمت میں) اختلاف ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو صاحب مال و سامان جو بات کہے وہی مانی جائے گی، یا پھر دونوں بیع کو فسخ کردیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٣ (١٢٧٠) ، سنن النسائی/البیوع ٨٠ (٤٦٥٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١٩ (٢١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٨، ٩٥٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : خریدار اور بیچنے والے کے مابین قیمت کی تعیین و تحدید میں اگر اختلاف ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں بیچنے والا قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے اس سامان کو اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں بیچا ہے، اب خریدار اس کی قسم اور قیمت کی تعیین پر راضی ہے تو بہتر ورنہ خریدار بھی قسم کھا کر یہ کہے کہ میں نے یہ سامان اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں خریدا ہے، پھر بیع فسخ کردی جائے گی۔
بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور مبیع موجود ہو
قاسم بن عبدالرحمٰن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) نے ایک غلام اشعث بن قیس (رض) کے ہاتھ بیچا، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث الفاظ کی کچھ کمی و بیشی کے ساتھ بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ التجارات ١٩ (٢١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٦٦) (صحیح )
شفعہ کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شفعہ ١ ؎ ہر مشترک چیز میں ہے، خواہ گھر ہو یا باغ کی چہار دیواری، کسی شریک کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے شریک کو آگاہ کئے بغیر بیچ دے، اور اگر بغیر آگاہ کئے بیچ دیا تو شریک اس کے لینے کا زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ اسے دوسرے کے ہاتھ بیچنے کی اجازت دیدے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٨ (١٦٠٨) ، سنن النسائی/البیوع ٧٨ (٤٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١٢، ٣١٦، ٣٥٧، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٨٣ (٢٦٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کرسکے۔ ٢ ؎ : اگر شریک لینے کا خواہش مند ہے تو مشتری نے جتنی قیمت دی ہے ، وہ قیمت دے کرلے لے ، مشتری کے پیسے واپس ہوجائیں گے، لیکن اگر اس نے آگاہ کردیا ، اور شریک لینے کا خواہش مند نہیں ہے ، تو جس کے ہاتھ بھی چاہے بیچے حق شفغہ باقی نہ رہے گا۔
شفعہ کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شفعہ ہر اس چیز میں رکھا ہے، جو تقسیم نہ ہوئی ہو، لیکن جب حد بندیاں ہوگئی ہوں، اور راستے الگ الگ نکال دئیے گئے ہوں تو اس میں شفعہ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٦ (٢٢١٣) ، ٩٧ (٢٢١٤) ، الشفعة ١ (٢٢٥٧) ، الشرکة ٨ (٢٤٩٥) ، الحیل ١٤ (٦٩٧٦) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٣ (١٣٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الشفعة ٣ (٢٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٧٢، ٣٩٩) (صحیح )
شفعہ کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب زمین کا بٹوارہ ہوچکا ہو اور ہر ایک کی حد بندی کردی گئی ہو تو پھر اس میں شفعہ نہیں رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٢١٣، ١٣٢٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٤٩٧) (صحیح )
شفعہ کا بیان
ابورافع (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : پڑوسی اپنے سے لگے ہوئے مکان یا زمین کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشفعة ٢ (٢٢٥٨) ، الحیل ١٤ (٦٩٧٧) ، ١٥ (٦٩٧٨) ، سنن النسائی/البیوع ١٠٧ (٤٧٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٨٧ (٢٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٩، ٣٩٠، ٦/١٠) (صحیح )
شفعہ کا بیان
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : گھر کا پڑوسی پڑوسی کے گھر اور زمین کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣١ (١٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ١٣، ١٨) (صحیح )
شفعہ کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، اگر وہ موجود نہ ہوگا تو شفعہ میں اس کا انتظار کیا جائے گا، جب دونوں ہمسایوں کے آنے جانے کا راستہ ایک ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣٢ (١٣٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الشفعة ٢ (٢٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٣) ، سنن الدارمی/ البیوع ٨٣ (٢٦٦٩) (صحیح )
مفلس کے پاس کوئی شخص اپنی چیز دیکھے تو کیا کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی مفلس ہوجائے، پھر کوئی آدمی اپنا مال اس کے پاس ہو بہو پائے تو وہ (دوسرے قرض خواہوں کے مقابل میں) اسے واپس لے لینے کا زیادہ مستحق ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستقراض ١٤ (٢٤٠٢) ، صحیح مسلم/المساقاة ٥ (١٥٥٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٦ (١٢٦٢) ، سنن النسائی/البیوع ٩٣ (٤٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٦ (٤٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/البیوع ٤٢ (٨٨) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٤٧، ٤٩، ٢٥٨، ٤١٠، ٤٦٨، ٤٧٤، ٥٠٨) ، دی/ البیوع ٥١ (٢٦٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس باب کی احادیث کی روشنی میں علماء نے کچھ شرائط کے ساتھ ایسے شخص کو اپنے سامان کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے جو یہ سامان کسی ایسے شخص کے پاس بعینہٖ پائے جس کا دیوالیہ ہوگیا ہو ، وہ شرائط یہ ہیں : (الف) سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو، (ب) یا پا جانے والا سامان اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہ ہو ، (ج) سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی نہ لیا گیا ہو ، (د) کوئی ایسی رکاوٹ حائل نہ ہو جس سے وہ سامان لوٹایا ہی نہ جاسکے۔
مفلس کے پاس کوئی شخص اپنی چیز دیکھے تو کیا کرے
ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس آدمی نے اپنا سامان بیچا اور خریدار مفلس ہوگیا، اور بیچنے والے نے اپنے مال کی کوئی قیمت نہ پائی ہو، اور اس کا سامان خریدار کے پاس بعینہٖ موجود ہو تو وہ اپنا سامان واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہے، اور اگر خریدار مرگیا ہو تو سامان والا دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے ، پچھلی سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے )
مفلس کے پاس کوئی شخص اپنی چیز دیکھے تو کیا کرے
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے : اگر بائع نے اس کی قیمت میں سے کچھ پا لیا ہے تو باقی قرض کے سلسلہ میں وہ دیگر قرض خواہوں کی طرح ہوگا، اور جو شخص مرگیا اور اس کے پاس کسی شخص کی بعینہٖ کوئی چیز نکلی تو اس میں سے اس نے کچھ وصول کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہر حال میں وہ دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مالک کی روایت (بہ نسبت زبیدی کی روایت کے) زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) (صحیح )
مفلس کے پاس کوئی شخص اپنی چیز دیکھے تو کیا کرے
یونس، ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔ پھر آگے انہوں نے مالک کی حدیث جیسی روایت ذکر کی، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر مشتری اس مال کی کسی قدر قیمت دے چکا ہے، تو وہ مال والا دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦١) (صحیح) (یہ بھی مرسل ہے اور حدیث نمبر (٣٥١٩) سے تقویت پاکر یہ بھی صحیح ہے )
مفلس کے پاس کوئی شخص اپنی چیز دیکھے تو کیا کرے
عمر بن خلدہ کہتے ہیں ہم اپنے ایک ساتھی کے مقدمہ میں جو مفلس ہوگیا تھا ابوہریرہ (رض) کے پاس آئے، انہوں نے کہا : میں تمہارا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا ہے : جو مفلس ہوگیا، یا مرگیا، اور بائع نے اپنا مال اس کے پاس بعینہ موجود پایا تو وہ بہ نسبت اور قرض خواہوں کے اپنا مال واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٦ (٢٣٦٠) ، انظر حدیث رقم : (٣٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی ابو المعتمر بن عمرو بن رافع مجہول ہیں )
جو کسی مریل جانور کو زندہ کرے (کھلا پلا کر)
عامر شعبی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی ایسا جانور پائے جسے اس کے مالک نے ناکارہ و بوڑھا سمجھ کر دانا و چارہ سے آزاد کردیا ہو، وہ اسے (کھلا پلا کر، اور علاج معالجہ کر کے) تندرست کرلے تو وہ جانور اسی کا ہوجائے گا ۔ عبیداللہ بن حمید بن عبدالرحمٰن حمیری نے کہا : تو میں نے عامر شعبی سے پوچھا : یہ حدیث آپ نے کس سے سنی ؟ انہوں نے کہا : میں نے (ایک نہیں) نبی اکرم ﷺ کے کئی صحابہ سے سنی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حماد کی حدیث ہے، اور یہ زیادہ واضح اور مکمل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠١، ١٨٨٦٣) (حسن )
جو کسی مریل جانور کو زندہ کرے (کھلا پلا کر)
شعبی سے روایت ہے، وہ اس حدیث کو نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص کوئی جانور مر کھپ جانے کے لیے چھوڑ دے اور اسے کوئی دوسرا شخص (کھلا پلا کر) تندرست کرلے، تو وہ اسی کا ہوگا جس نے اسے (کھلا پلا کر) صحت مند بنایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠١، ١٨٨٦٣) (حسن )
رہن (گروی) کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دودھ والا جانور جب گروی رکھا ہوا ہو تو اسے کھلانے پلانے کے بقدر دوہا جائے گا، اور سواری والا جانور رہن رکھا ہوا ہو تو کھلانے پلانے کے بقدر اس پر سواری کی جائے گی، اور جو سواری کرے اور دوہے اس پر اسے کھلانے پلانے کی ذمہ داری ہوگی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرھن ٤ (٢٥١١) ، سنن الترمذی/البیوع ٣١ (١٢٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٢ (٢٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٨، ٤٧٢) (صحیح )
رہن (گروی) کا بیان
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو انبیاء و شہداء تو نہیں ہوں گے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو مرتبہ انہیں ملے گا اس پر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ایسے لوگ ہوں گے جن میں آپس میں خونی رشتہ تو نہ ہوگا اور نہ مالی لین دین اور کاروبار ہوگا لیکن وہ اللہ کی ذات کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں گے، قسم اللہ کی، ان کے چہرے (مجسم) نور ہوں گے، وہ خود پرنور ہوں گے انہیں کوئی ڈر نہ ہوگا جب کہ لوگ ڈر رہے ہوں گے، انہیں کوئی رنج و غم نہ ہوگا جب کہ لوگ رنجیدہ و غمگین ہوں گے اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (سورۃ یونس : ٦٢) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث نُسَّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگئی ہے، اس باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ، اور ابن داسہ کی روایت میں ہے ، لولوی کی روایت میں نہیں ہے۔
جو باپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بیٹے کا مال کھائے اس کا بیان
عمارہ بن عمیر کی پھوپھی سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا : میری گود میں ایک یتیم ہے، کیا میں اس کے مال میں سے کچھ کھا سکتی ہوں ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : آدمی کی پاکیزہ خوراک اس کی اپنی کمائی کی ہے، اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢٢ (١٣٥٨) ، سنن النسائی/البیوع ١ (٤٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١ (٢١٣٧) ، ٦٤ (٢٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٦١، ١٧٩٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣١، ٤٢، ١٢٧، ١٦٢، ١٩٣، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٦ (٢٥٧٩) (صحیح )
جو باپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بیٹے کا مال کھائے اس کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے بلکہ بہترین کمائی ہے، تو ان کے مال میں سے کھاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن ابی سلیمان نے اس میں اضافہ کیا ہے کہ جب تم اس کے حاجت مند ہو (تو بقدر ضرورت لے لو) لیکن یہ زیادتی منکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٢) (حسن صحیح )
جو باپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بیٹے کا مال کھائے اس کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس مال ہے اور والد بھی ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے ١ ؎ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے (یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٧٠، ٨٦٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٤ (٢٢٩٢) ، مسند احمد (٢/١٧٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض نسخوں میں يحتاج ہے، یعنی : ان کے اخراجات میرے مال کو ختم کردیں گے۔
کوئی آدمی اپنا مال بعینیہ کسی کے پاس پائے
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٩٤ (٤٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٣، ١٨) (ضعیف) (اس کے راوة قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مثلا کسی نے غصب کیا ہو یا چوری کا مال خرید لیا ہو اور مال والا اپنا مال ہوبہو پائے تو وہی اس مال کا حقدار ہوگا اور خریدار بیچنے والے سے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے گا۔
کوئی آدمی اپنا مال بعینیہ کسی کے پاس پائے
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ معاویہ (رض) کی والدہ ہند (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) کہا : ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے خرچ کے لیے اتنا نہیں دیتے جو میرے اور میرے بیٹوں کے لیے کافی ہو، تو کیا ان کے مال میں سے میرے کچھ لے لینے میں کوئی گناہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عام دستور کے مطابق بس اتنا لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہارے بیٹوں کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٢٦١، ١٦٩٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٩٥ (٢٢١١) ، المظالم ١٨ (٢٤٦٠) ، النفقات ٥ (٥٣٥٩) ، ٩ (٥٣٦٤) ، ١٤ (٥٣٧٠) ، الأیمان ٣ (٦٦٤١) ، الأحکام ١٤ (٧١٦١) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٤ (١٧١٤) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٠ (٥٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٥ (٢٢٩٣) ، مسند احمد (٦/٣٩، ٥٠، ٦٠٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٥٤ (٢٣٠٥) (صحیح )
کوئی آدمی اپنا مال بعینیہ کسی کے پاس پائے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں ہند (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوسفیان کنجوس آدمی ہیں، اگر ان کے مال میں سے ان سے اجازت لیے بغیر ان کی اولاد کے کھانے پینے پر کچھ خرچ کر دوں تو کیا میرے لیے کوئی حرج (نقصان و گناہ) ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : معروف (عام دستور) کے مطابق خرچ کرنے میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الأقضیة ٤ (١٧١٤، سنن النسائی/ آداب القضاة ٣٠ (٥٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢٥) (صحیح )
کوئی آدمی اپنا مال بعینیہ کسی کے پاس پائے
یوسف بن ماہک مکی کہتے ہیں میں فلاں شخص کا کچھ یتیم بچوں کے خرچ کا جن کا وہ والی تھا حساب لکھا کرتا تھا، ان بچوں نے (بڑے ہونے پر) اس پر ایک ہزار درہم کی غلطی نکالی، اس نے انہیں ایک ہزار درہم دے دئیے (میں نے حساب کیا تو) مجھے ان کا مال دوگنا ملا، میں نے اس شخص سے کہا (جس نے مجھے حساب لکھنے کے کام پر رکھا تھا) کہ وہ ایک ہزار درہم واپس لے لوں جو انہوں نے مغالطہٰ دے کر آپ سے اینٹھ لیے ہیں ؟ اس نے کہا : نہیں (میں واپس نہ لوں گا) مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے اس کی امانت پوری کی پوری لوٹا دو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٤) (صحیح) (اس کا راوی فلاں مبہم تابعی ہے ، لیکن اگلی حدیث اور دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٤٢٣ )
کوئی آدمی اپنا مال بعینیہ کسی کے پاس پائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تمہارے پاس امانت رکھی اسے امانت (جب وہ مانگے) لوٹا دو اور جس نے تمہارے ساتھ خیانت (دھوکے بازی) کی ہو تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٣٨ (١٢٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٣٦، ١٨٦٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/البیوع ٥٧ (٢٦٣٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر اس حدیث اور ہند (رض) کی حدیث کے مابین اختلاف ہے، لیکن درحقیقت ان دونوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ خائن وہ ہے جو ناحق کسی دوسرے کا مال ظلم و زیادتی کے ساتھ لے، رہا وہ شخص جسے اپنا حق لینے کی شرعاً اجازت ہو وہ خائن نہیں ہے، جیسا کہ ہند (رض) کو نبی اکرم ﷺ نے اپنے شوہر ابوسفیان (رض) کے مال سے عام دستور کے مطابق لینے کی اجازت دی۔
تحائف قبول کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے، اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ١١ (٢٥٨٥) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٣٤ (١٩٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٠) (صحیح )
تحائف قبول کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! میں آج کے بعد سے مہاجر، قریشی، انصاری، دوسی اور ثقفی کے سوا کسی اور کا ہدیہ قبول نہ کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٧٤ (٣٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کی وجہ ابوہریرہ (رض) ہی سے مروی سنن ترمذی کی کتاب المناقب کی آخری حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کو ایک اونٹ تحفہ میں دیا تو آپ نے اس کے بدلے میں اسے چھ اونٹ دئیے، پھر بھی وہ ناراض رہا، اس کا منہ پھولا رہا، جب رسول ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو اس وقت آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور اس حدیث کو بیان فرمایا۔
ہدیہ دے کر دوبارہ لے لینا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے لینے والا قے کر کے اسے پیٹ میں واپس لوٹا لینے والے کے مانند ہے ۔ ہمام کہتے ہیں : اور قتادہ نے (یہ بھی) کہا : ہم قے کو حرام ہی سمجھتے ہیں (تو گویا ہدیہ دے کر واپس لے لینا بھی حرام ہی ہوا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ١٤ (٢٥٨٨) ، صحیح مسلم/الھبة ٢ (١٦٢٢) ، سنن النسائی/الھبة ٢ (٣٦٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٥ (٢٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٢، (١٢٩٩) ، مسند احمد (١/٢٥٠، ٢٨٠، ٢٨٩، ٢٩١، ٣٣٩، ٣٤٢، ٣٤٥، ٣٤٩) (صحیح )
ہدیہ دے کر دوبارہ لے لینا
عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ دے، یا کسی کو کوئی چیز ہبہ کرے اور پھر اسے واپس لوٹا لے، سوائے والد کے کہ وہ بیٹے کو دے کر اس سے لے سکتا ہے ١ ؎، اس شخص کی مثال جو عطیہ دے کر (یا ہبہ کر کے) واپس لے لیتا ہے کتے کی مثال ہے، کتا پیٹ بھر کر کھا لیتا ہے، پھر قے کرتا ہے، اور اپنے قے کئے ہوئے کو دوبارہ کھا لیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٦٢ (١٢٩٩) ، الولاء والبراء ٧ (٢١٣٢) ، سنن النسائی/الھبة ٢ (٣٧٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الھبات ١ (٢٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٣، ٧٠٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧، ٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ باپ اور بیٹے کا مال ایک ہی ہے اور اس میں دونوں حقدار ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اپنا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دے اس لئے واپس لینے میں کوئی قباحت نہیں۔
ہدیہ دے کر دوبارہ لے لینا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہدیہ دے کر واپس لے لینے والے کی مثال کتے کی ہے جو قے کر کے اپنی قے کھا لیتا ہے، تو جب ہدیہ دینے والا واپس مانگے تو پانے والے کو ٹھہر کر پوچھنا چاہیئے کہ وہ واپس کیوں مانگ رہا ہے، (اگر بدل نہ ملنا سبب ہو تو بدل دیدے یا اور کوئی وجہ ہو تو) پھر اس کا دیا ہوا اسے لوٹا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الھبات ٢ (٢٣٧٨) ، سنن النسائی/الہبة ٢ (٣٧١٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٢، ٨٦٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧٥) (حسن صحیح )
کسی کا کویئی کام کرنے پر ہدیہ دینے کا بیان
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور کی اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کرلیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ کسی کے حق میں اچھی سفارش یہ مندوب اور مستحسن چیز ہے، اور بسا اوقات سفارش ضروری اور لازمی ہوجاتی ہے ایسی صورت میں اس کا بدل لینا مستحسن چیز کو ضائع کردینے کے مترادف ہے جس طرح سود سے حلال چیز ضائع ہوجاتی ہے۔
باپ اپنے بیٹوں میں سے بعض کو ہدیہ دینے میں ترجیح دے دوسروں پر اس کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ (رض) نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس بات کا گواہ بنا لوں (اس لیے میں آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ہوں) آپ نے ان سے پوچھا : کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے اور کوئی لڑکا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے سب کو اسی جیسی چیز دی ہے جو نعمان کو دی ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ظلم ہے اور بعض کی روایت میں ہے : یہ جانب داری ہے، جاؤ تم میرے سوا کسی اور کو اس کا گواہ بنا لو (میں ایسے کاموں کی شہادت نہیں دیتا) ۔ مغیرہ کی روایت میں ہے : کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ تمہارے سارے لڑکے تمہارے ساتھ بھلائی اور لطف و عنایت کرنے میں برابر ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہاں (مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو (مجھے یہ امتیاز اور ناانصافی پسند نہیں) ۔ اور مجالد نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے : ان (بیٹوں) کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم ان سب کے درمیان عدل و انصاف کرو جیسا کہ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : زہری کی روایت میں ١ ؎ بعض نے : أكل بنيك کے الفاظ روایت کئے ہیں اور بعض نے بنيك کے بجائے ولدک کہا ہے، اور ابن ابی خالد نے شعبی کے واسطہ سے ألک بنون سواه اور ابوالضحٰی نے نعمان بن بشیر (رض) کے واسطہ سے ألک ولد غيره روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ١٢ (٢٥٨٧) ، الشھادات ٩ (٢٦٥٠) ، صحیح مسلم/الھبات ٣ (١٦٢٣) ، سنن النسائی/النحل ١ (٣٧٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الھبات ١ (٢٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧٣، ٢٧٦) (صحیح) إلا زیادة مجالد مجالد نے حدیث میں جو زیادتی ذکر کی ہے ، وہ صحیح نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ لفظ ولد مذکر اور مؤنث دونوں کو شامل ہے اور لفظ بنین اگر وہ سب مذکر تھے تو وہ اپنے ظاہر پر ہے اور اگر ان میں مذکر اور مؤنث دونوں تھے تو یہ علی سبیل التغلیب استعمال ہوا ہے۔
باپ اپنے بیٹوں میں سے بعض کو ہدیہ دینے میں ترجیح دے دوسروں پر اس کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : یہ کیسا غلام ہے ؟ انہوں نے کہا : میرا غلام ہے، اسے مجھے میرے والد نے دیا ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : جیسے تمہیں دیا ہے کیا تمہارے سب بھائیوں کو دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسے لوٹا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الھبات ٣ (١٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الھبة ١٢ (٥٢٨٦) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٠ (١٣٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الھبات ١ (٢٣٧٥) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٣٣ (٣٩) ، مسند احمد (٤/٢٦٨) (صحیح )
باپ اپنے بیٹوں میں سے بعض کو ہدیہ دینے میں ترجیح دے دوسروں پر اس کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/النحل (٣٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧٥، ٢٧٨) (صحیح )
باپ اپنے بیٹوں میں سے بعض کو ہدیہ دینے میں ترجیح دے دوسروں پر اس کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں بشیر (رض) کی بیوی نے (بشیر (رض) سے) کہا : اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہ ﷺ کو اس بات پر میرے لیے گواہ بنادیں، تو بشیر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی) نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہ ﷺ کو گواہ بنا لوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے اور بھی بھائی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی دیا ہے جیسے اسے دیا ہے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ درست نہیں، اور میں تو صرف حق بات ہی کی گواہی دے سکتا ہوں (اس لیے اس ناحق بات کے لیے گواہ نہ بنوں گا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الھبات ٣ (١٦٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے واضح ہوا کہ اولاد کے مابین عدل و انصاف واجب ہے اور بلا کسی شرعی عذر کے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دینا یا خاص کرنا حرام و ناجائز ہے۔
عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر ہدیہ دے تو کیا حکم ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے نکاح میں رہتے ہوئے جو اس کی عصمت کا مالک ہے اپنا مال اس کی اجازت کے بغیر خرچ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٥٨ (٢٥٤١) ، العمری (٣٧٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الھبات ٧ (٢٣٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٧٩، ٨٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢١) (حسن صحیح )
عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر ہدیہ دے تو کیا حکم ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جائز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الدیات ٣ (١٣٩٠) ، سنن النسائی/ الزکاة ٥٨ (٢٥٤١) ، العمری ١ (٣٧٨٧، ٣٧٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٠، ٨٦٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٩، ١٨٠، ٢٠٧، ٢١٢) ، دی/ الدیات ١٦ (٢٤١٧) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٥٦٦) (حسن صحیح )
عمرٰی کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمر بھر کے لے عطیہ دینا جائز ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٣٢ (٢٦٢٦) ، صحیح مسلم/الھبات ٤ (١٦٢٦) ، سنن النسائی/العمری ٤ (٣٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٧، ٤٢٩، ٤٦٨، ٤٨٩، ٣/٣١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمرى ہبہ ہی کی ایک قسم ہے اس میں ہبہ کرنے والا ہبہ کی جانے والی چیز کو جسے ہبہ کر رہا ہے اس کی زندگی بھر کے لئے ہبہ کردیتا ہے۔
عمرٰی کا بیان
سمرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٥ (١٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨، ١٣، ٢٢) (صحیح )
عمرٰی کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ فرماتے تھے : زندگی بھر کے لیے دی ہوئی چیز کا وہی مالک ہے جس کو چیز دے دی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٣٢ (٢٦٢٥) ، صحیح مسلم/الھبات ٤ (١٦٢٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٥ (١٣٥٠) ، سنن النسائی/العمری ٢ (٣٧٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الھبات ٣ (٢٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٤، ٣٦٠، ٣٩٣، ٣٩٩) (صحیح )
عمرٰی کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جسے عمر بھر کے لیے کوئی چیز دی گئی تو وہ اس کی ہوگی اور اس کے مرنے کے بعد اس کے اولاد کی ہوگی ١ ؎، اس کی اولاد میں سے جو اس کے وارث ہوں گے وہی اس چیز کے بھی وارث ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ العمری (٣٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٤، ٣٦٠، ٣٩٣، ٣٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام مالک کے نزدیک موہوب لہ کے مرنے کے بعد موہوب واہب کے پاس واپس آجائے گی اس لئے کہ اس نے منفعت کا اختیار دیا تھا نہ کہ اس چیز کا مالک بنادیا تھا۔
عمرٰی کا بیان
اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے لیث بن سعد نے زہری سے زہری نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے جابر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٨) (صحیح )
جس شخص نے عمری کرتے وقت ورثاء کا بھی تذکرہ کیا اس کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز دے دی گئی اور اس کے بعد اس کے آنے والوں کے لیے بھی کہہ دی گئی ہو تو وہ عمریٰ اس کے اور اس کی اولاد کے لیے ہے، جس نے دیا ہے اسے واپس نہ ہوگی، اس لیے کہ دینے والے نے اس انداز سے دیا ہے جس میں وراثت شروع ہوگئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمری کرنے والے کو اب واپس لینے کا کوئی حق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا کوئی عذر مقبول ہوگا۔
جس شخص نے عمری کرتے وقت ورثاء کا بھی تذکرہ کیا اس کا بیان
ابن شہاب زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے عقیل اور یزید ابن حبیب نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے، اور اوزاعی پر اختلاف کیا گیا ہے کہ کبھی انہوں نے ابن شہاب سے ولعقبه کے الفاظ کی روایت کی ہے اور کبھی نہیں اور اسے فلیح بن سلیمان نے بھی مالک کی حدیث کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٥٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٨) (صحیح )
جس شخص نے عمری کرتے وقت ورثاء کا بھی تذکرہ کیا اس کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں جس عمریٰ کی رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی ہے وہ ہے کہ دینے والا کہے کہ یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی ہے (تو اس میں وراثت جاری ہوگی اور دینے والے کی ملکیت ختم ہوجائے گی) لیکن اگر دینے والا کہے کہ یہ تمہارے لیے ہے جب تک تم زندہ رہو (تو اس سے استفادہ کرو) تو وہ چیز (اس کے مرنے کے بعد) اس کے دینے والے کو لوٹا دی جائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الھبات ٤ (١٦٢٦) ، مسند احمد (٣/٢٩٦) (صحیح )
جس شخص نے عمری کرتے وقت ورثاء کا بھی تذکرہ کیا اس کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیا گیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہوجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/العمري (٣٧٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رقبیٰ یہ ہے کہ کسی مکان وغیرہ کو یہ کہہ کر دے کہ اگر میں پہلے مرگیا تو یہ مکان تمہارا ہوجائے گا اور اگر تم پہلے مرگئے تو میں واپس لے لوں گا اور عمری بھی قریب قریب یہی ہے کہ کسی کو مکان ، زمین وغیرہ عمر بھر کے لئے دے، یہ روکنا غالباً دینے والوں اور ورثاء کے درمیان فتنے اور لڑائی کے ڈر سے ہے۔
جس شخص نے عمری کرتے وقت ورثاء کا بھی تذکرہ کیا اس کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی ایک عورت کے سلسلہ میں فیصلہ کیا جسے اس کے بیٹے نے کھجور کا ایک باغ دیا تھا پھر وہ مرگئی تو اس کے بیٹے نے کہا کہ یہ میں نے اسے اس کی زندگی تک کے لیے دیا تھا اور اس کے اور بھائی بھی تھے (جو اپنا حق مانگ رہے تھے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ باغ زندگی اور موت دونوں میں اسی عورت کا ہے پھر وہ کہنے لگا : میں نے یہ باغ اسے صدقہ میں دیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو یہ (واپسی) تمہارے لیے اور بھی ناممکن بات ہے (کہیں صدقہ بھی واپس لیا جاتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٢٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٩) (ضعیف) (حبیب مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور حمید کے بارے میں بھی بعض کلام ہے، ملاحظہ ہو : الارواء ٦ ؍٥١ )
رقبیٰ کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمریٰ جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہوجاتا ہے، اور رقبیٰ ١ ؎ (بھی) اسی کے اہل کا حق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٦ (١٣٥١) ، سنن النسائی/العمری (٣٧٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الھبات ٤ (٢٣٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الھبات ٤ (١٦٢٦) ، مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٣، ٣١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ کہنا کہ میں پہلے مرا تو یہ چیز تیری ہوگی اور تو پہلے مرا تو یہ میری ہوگی، ایسی شرط بیکار ہوجائے گی۔
رقبیٰ کا بیان
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی چیز کسی کو عمر بھر کے لیے دی تو وہ چیز اسی کی ہوگئی جسے دی گئی اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد بھی ۔ اور فرمایا : رقبی نہ کرو جس نے رقبیٰ کیا تو وہ میراث کے طریق پر جاری ہوگی (یعنی اس کے ورثاء کی مانی جائے گی دینے والے کو واپس نہ ملے گی) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الرقبی ١ (٣٧٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الہبات ٣ (٢٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٠) (حسن صحیح الإسناد )
رقبیٰ کا بیان
مجاہد کہتے ہیں : عمری یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے کہ یہ چیز تمہاری ہے جب تک تم زندہ رہے، تو جب اس نے ایسا کہہ دیا تو وہ چیز اس کی ہوگئی اور اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ہوگی، اور رقبی یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کسی کو دے کر کہے کہ ہم دونوں میں سے جو آخر میں زندہ رہے یہ چیز اس کی ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٢٧١) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : میں پہلے مرگیا تو یہ تم پاس ہے اور رہے گی اور تم پہلے مرگئے اور میں بچا تو وہ چیز میرے پاس واپس آجائے گی۔
مستعار چیز کے ضمان کے بیان میں
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لینے والے ہاتھ کی ذمہ داری ہے کہ جو لیا ہے اسے واپس کرے پھر حسن بھول گئے اور یہ کہنے لگے کہ جس کو تو مانگنے پر چیز دے تو وہ تمہاری طرف سے اس چیز کا امین ہے (اگر وہ چیز خود سے ضائع ہوجائے تو اس پر کوئی تاوان (معاوضہ و بدلہ) نہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٣٩ (١٢٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٥ (٢٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢، ١٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٦ (٢٦٣٨) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
مستعار چیز کے ضمان کے بیان میں
صفوان بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کی لڑائی کے دن ان سے کچھ زرہیں عاریۃً لیں تو وہ کہنے لگے : اے محمد ! کیا آپ زبردستی لے رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں عاریت کے طور پر لے رہا ہوں، جس کی واپسی کی ذمہ داری میرے اوپر ہوگی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ یزید کی بغداد کی روایت ہے اور واسط ١ ؎ میں ان کی جو روایت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠١، ٦/٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : واسط عراق کا ایک مشہور شہر ہے۔
مستعار چیز کے ضمان کے بیان میں
عبداللہ بن صفوان کے خاندان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے صفوان ! کیا تیرے پاس کچھ ہتھیار ہیں ؟ انہوں نے کہا : عاریۃً چاہتے ہیں یا زبردستی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : زبردستی نہیں عاریۃً چناچہ اس نے آپ کو بطور عاریۃً تیس سے چالیس کے درمیان زرہیں دیں اور رسول اللہ ﷺ نے حنین کی لڑائی لڑی، پھر جب مشرکین ہار گئے اور صفوان (رض) کی زرہیں اکٹھا کی گئیں تو ان میں سے کچھ زرہیں کھو گئی تھیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صفوان ! تمہاری زرہوں میں سے ہم نے کچھ زرہیں کھو دی ہیں، تو کیا ہم تمہیں ان کا تاوان دے دیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، اللہ کے رسول ! آج میرے دل میں جو بات ہے (جو میں دیکھ رہا اور سوچ رہا ہوں) وہ بات اس وقت نہ تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انہوں نے اسلام لانے سے پہلے نبی اکرم ﷺ کو وہ زرہیں عاریۃً دی تھیں پھر اسلام لے آئے (تو اسلام لے آنے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے کون تاوان لیتا ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٥) (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواة ہیں )
مستعار چیز کے ضمان کے بیان میں
اس سند سے بھی آل صفوان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ زرہیں عاریۃً لیں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٥) (صحیح) ( روایت نمبر ٣٥٦٢ سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواة ہیں )
مستعار چیز کے ضمان کے بیان میں
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے تو اب وارث کے واسطے وصیت نہیں ہے، اور عورت اپنے گھر میں شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کھانا بھی نہ دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ہم مردوں کا بہترین مال ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : عاریۃً دی ہوئی چیز کی واپسی ہوگی (اگر چیز موجود ہے تو چیز، ورنہ اس کی قیمت دی جائے گی) دودھ استعمال کرنے کے لیے دیا جانے والا جانور (دودھ ختم ہوجانے کے بعد) واپس کردیا جائے گا، قرض کی ادائیگی کی جائے گی اور کفیل ضامن ہے (یعنی جس قرض کا ذمہ لیا ہے اس کا ادا کرنا اس کے لیے ضروری ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٤ (١٢٦٥) ، الوصایا ٥ (٢١٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٦ (٢٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٦٧) (صحیح )
مستعار چیز کے ضمان کے بیان میں
یعلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تمہارے پاس میرے فرستادہ پہنچیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا میں نے کہا : کیا اس عاریت کے طور پر دوں جس کا ضمان لازم آتا ہے یا اس عاریت کے طور پر جو مالک کو واپس دلائی جاتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مالک کو واپس دلائی جانے والی عاریت کے طور پر ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حبان ہلال الرائی کے ماموں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : أعارية مضمونة یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع ہوجائے گی تو اس کی قیمت ادا کی جائے گی ، اور أعارية مؤداة یہ ہے کہ اگر چیز بعینہٖ موجود ہے تو اسے واپس دینا ہوگا، اور اگر وہ چیز ضائع ہوگئی تو قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری نہ ہوگی۔
جس نے کسی کی کوئی چیز ضائع کردی تو اسی کے مثل بطور تاوان ادا کرے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تھے، امہات المؤمنین میں سے ایک نے اپنے خادم کے ہاتھ آپ کے پاس ایک پیالے میں کھانا رکھ کر بھیجا، تو اس بیوی نے (جس کے گھر میں آپ تھے) ہاتھ مار کر پیالہ توڑ دیا (وہ دو ٹکڑے ہوگیا) ، ابن مثنیٰ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا لیا اور ایک کو دوسرے سے ملا کر پیالے کی شکل دے لی، اور اس میں کھانا اٹھا کر رکھنے لگے اور فرمانے لگے : تمہاری ماں کو غیرت آگئی ابن مثنیٰ نے اضافہ کیا ہے (کہ آپ نے فرمایا : کھاؤ تو لوگ کھانے لگے، یہاں تک کہ جس گھر میں آپ موجود تھے اس گھر سے کھانے کا پیالہ آیا (اب ہم پھر مسدد کی حدیث کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ اور خادم کو (جو کھانا لے کر آیا تھا) اور پیالے کو روکے رکھا، یہاں تک کہ لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے صحیح و سالم پیالہ قاصد کو پکڑا دیا (کہ یہ لے کر جاؤ اور دے دو ) اور ٹوٹا ہوا پیالہ اپنے اس گھر میں روک لیا (جس میں آپ قیام فرما تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣٤ (٢٤٨١) ، والنکاح ١٠٧ (٥٢٢٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٣ (١٣٥٩) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٤ (٣٤٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٤ (٢٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣، ٨٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٥، ٢٦٣) ، سنن الدارمی/البیوع ٥٨ (٢٦٤٠) (صحیح )
جس نے کسی کی کوئی چیز ضائع کردی تو اسی کے مثل بطور تاوان ادا کرے
جسرہ بنت دجاجہ کہتی ہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے صفیہ (رض) جیسا (اچھا) کھانا پکاتے کسی کو نہیں دیکھا، ایک دن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کھانا پکا کر آپ کے پاس بھیجا (اس وقت آپ میرے یہاں تھے) میں غصہ سے کانپنے لگی (کہ آپ میرے یہاں ہوں اور کھانا کہیں اور سے پک کر آئے) تو میں نے (وہ) برتن توڑ دیا (جس میں کھانا آیا تھا) ، پھر میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھ سے جو حرکت سرزد ہوگئی ہے اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : برتن کے بدلے ویسا ہی برتن اور کھانے کے بدلے ویسا ہی دوسرا کھانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/عشرة النساء ٤ (٣٤٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٨، ٢٧٧) (ضعیف) اس کی روایہ جسرة لین الحدیث ہیں ، صحیح یہ ہے کہ کھانا بھیجنے والی ام سلمہ (رض) تھیں جیسا کہ نسائی کی ایک صحیح روایت (نمبر ٣٤٠٨) میں ہے )
ان جانوروں کا بیان جو کسی قوم کی کھیتی برباد کردیں
محیصہ (رض) کہتے ہیں کہ براء بن عازب (رض) کی اونٹنی ایک شخص کے باغ میں گھس گئی اور اسے تباہ و برباد کردیا، آپ ﷺ نے اس کا فیصلہ کیا کہ دن میں مال والوں پر مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور رات میں جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری جانوروں کے مالکان پر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٣ (٢٣٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣، ٢٣٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٦) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٢٨(٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اگر اونٹنی نے رات میں باغ کو نقصان پہنچایا ہے تو اونٹنی کا مالک اس نقصان کو پورا کرے گا، اور اگر دن میں نقصان پہنچائے تو باغ کا مالک اس نقصان کو برداشت کرے، کیونکہ باغ کی حفاظت خود اسی کی اپنی ذمہ داری تھی۔
ان جانوروں کا بیان جو کسی قوم کی کھیتی برباد کردیں
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں میرے پاس ایک ہر ہٹ اونٹنی تھی، وہ ایک باغ میں گھس گئی اور اسے برباد کردیا، اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے بات کی گئی تو آپ نے فیصلہ فرمایا : دن میں باغ کی حفاظت کی ذمہ داری باغ کے مالک پر ہے، اور رات میں جانور کی حفاظت کی ذمہ داری جانور کے مالک پر ہے ۔ (اگر جانور کے مالک نے رات میں جانور کو آزاد چھوڑ دیا) اور اس نے کسی کا باغ یا کھیت چر لیا تو نقصان کا معاوضہ جانور کے مالک سے لیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣) (صحیح )