21. فیصلوں کا بیان
عہدہ قضاء طلب کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو قاضی بنادیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢ (١٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٨) ، مسند احمد (٢/٣٦٥) (صحیح )
عہدہ قضاء طلب کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنادیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٥) (صحیح )
قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک جنتی اور دو جہنمی، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے ۔ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ یعنی ابن بریدہ کی تین قاضیوں والی حدیث اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٣٢٢) (صحیح )
قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان
عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے، اور جب قاضی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر ہے ١ ؎۔ راوی کہتے ہیں : میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : مجھ سے اسی طرح ابوسلمہ نے ابوہریرہ (رض) کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢١(٧٣٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٦ (١٧١٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣ (٢٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٧، ١٠٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٨، ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جب حاکم یا قاضی نے فیصلہ کرنے میں غور و خوض کر کے قرآن و حدیث اور اجماع سے اس کا حکم نکالا تو اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کے لیے دوگنا اجر و ثواب ہے، اور اگر فیصلہ غلط ہے تب بھی اس پر اس کو ایک ثواب ہے، اور کوشش کے بعد غلطی اور چوک ہونے پر وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے، اسی طرح وہ مسئلہ جو قرآن و حدیث اور اجماع امت میں صاف مذکور نہیں اگر اس کو کسی مجتہد عالم نے قرآن اور حدیث میں غور کر کے نکالا اور حکم صحیح ہوا تو وہ دوگنے اجر کا مستحق ہوگا، اور اگر مسئلہ میں غلطی ہوئی تو ایک اجر کا مستحق ہوا، لیکن شرط یہ ہے کہ اس عالم میں زیر نظر مسئلہ میں اجتہاد کی اہلیت و استعداد ہو۔
قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مسلمانوں کے منصب قضاء کی درخواست کرے یہاں تک کہ وہ اسے پالے پھر اس کے ظلم پر اس کا عدل غالب آجائے تو اس کے لیے جنت ہے، اور جس کا ظلم اس کے عدل پر غالب آجائے تو اس کے لیے جہنم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٤٥) (ضعیف) ( اس کے راوی موسیٰ بن نجدہ مجہول ہیں )
قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں آیت کریمہ ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الکافرون جو اللہ کے حکم کے موافق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں اللہ تعالیٰ کے قول الفاسقون سورة المائدة : (٤٤، ٤٥، ٤٧) تک، یہ تینوں آیتیں یہودیوں کے متعلق اور بطور خاص بنی قریظہ اور بنی نضیر کی شان میں نازل ہوئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٨، ٢٧١) (حسن، صحیح الإسناد )
قاضی اگر فیصلہ میں غلطی کردے تو اس کا بیان
عبدالرحمٰن بن بشر انصاری ازرق کہتے ہیں کہ کندہ کے دروازوں سے دو شخص جھگڑتے ہوئے آئے اور ابومسعود انصاری (رض) ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے، تو ان دونوں نے کہا : کوئی ہے جو ہمارے درمیان فیصلہ کر دے ! حلقے میں سے ایک شخص بول پڑا : ہاں، میں فیصلہ کر دوں گا، ابومسعود (رض) نے ایک مٹھی کنکری لے کر اس کو مارا اور کہا : ٹھہر (عہد نبوی میں) قضاء میں جلد بازی کو مکروہ سمجھا جاتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٧) (ضعیف الإسناد) (اس کے رواة رجاء اور عبدالرحمن دونوں لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ جلد بازی میں اکثر غلطی ہوجاتی ہے۔
قضا طلب کرنے اور اس میں جلدی کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا : جو شخص منصب قضاء کا طالب ہوا اور اس (عہدے) کے لیے مدد چاہی ١ ؎ وہ اس کے سپرد کردیا گیا ٢ ؎، جو شخص اس عہدے کا خواستگار نہیں ہوا اور اس کے لیے مدد نہیں چاہی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ نازل فرماتا ہے جو اسے راہ صواب پر رکھتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٣٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ٢٢٠) (ضعیف) (اس کے راوی بلال لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سفارشیں کرائے گا۔ ٢ ؎ : یعنی اللہ کی مدد اس کے شامل حال نہ ہوگی۔
قضا طلب کرنے اور اس میں جلدی کرنے کا بیان
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الإجارة ١ (٢٦٦١) ، المرتدین ٢ (٦٩٢٣) ، صحیح مسلم/ الإمارة ٣ (١٧٣٣) ، سنن النسائی/ الطہارة ٤ (٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٩) ، وأعادہ المؤلف فی الحدود (٤٣٥٤) (صحیح )
رشوت کی برائی کے بیان میں
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے، اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٩ (١٣٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢ (٢٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٩٠، ١٩٤، ٢١٢) (صحیح )
عمال حکومت اور قاضیوں کو ملنے والے ہدایا کا بیان
عدی بن عمیرہ کندی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! تم میں سے جو شخص کسی کام پر ہمارا عامل مقرر کیا گیا، پھر اس نے ہم سے ان (محاصل) میں سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپائی تو وہ چوری ہے، اور وہ قیامت کے دن اس چرائی ہوئی چیز کے ساتھ آئے گا اتنے میں انصار کا ایک کالے رنگ کا آدمی کھڑا ہوا، گویا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا : آپ کو میں نے ایسے ایسے فرماتے سنا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : میں تو یہ کہہ ہی رہا ہوں کہ ہم نے جس شخص کو کسی کام پر عامل مقرر کیا تو (محاصل) تھوڑا ہو یا زیادہ اسے حاضر کرے اور جو اس میں سے اسے دیا جائے اسے لے لے، اور جس سے منع کردیا جائے اس سے رکا رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٧ (١٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٢) (صحیح )
فیصلہ کس طرح کیا جائے
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے (قاضی) بنا کر بھیج رہے ہیں جب کہ میں کم عمر ہوں اور قضاء (فیصلہ کرنے) کا علم بھی مجھے نہیں ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا، جب تم فیصلہ کرنے بیٹھو اور تمہارے سامنے دونوں فریق موجود ہوں تو جب تک تم دوسرے کا بیان اسی طرح نہ سن لو جس طرح پہلے کا سنا ہے فیصلہ نہ کرو کیونکہ اس سے معاملے کی حقیقت واشگاف ہو کر سامنے آجائے گی وہ کہتے ہیں : تو میں برابر فیصلہ دیتا رہا، کہا : پھر مجھے اس کے بعد کسی فیصلے میں شک نہیں ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٥ (١٣٣١) ، مسند احمد (١/١١١) و عبداللہ بن أحمد فی زوائدی الأحد (١/١٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١ (٢٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨١، ١٠١١٣ ) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٣) والحاکم (٣/١٣٥) بسند آفریة انقطاع (حسن )
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں انسان ہی ہوں ١ ؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٥٨) ، الشھادات ٢٧ (٢٦٨٠) ، الحیل ١٠ (٦٩٦٧) ، الأحکام ٢٠ (٧١٦٩) ، ٢٩ (٧١٨١) ، ٣١ (٧١٨٥) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ١١ (١٣٣٩) ، سنن النسائی/ القضاة ١٢(٥٤٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٥ (٢٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ١ (١) ، مسند احمد (٦/٣٠٧، ٣٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہوگا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے، آپ ﷺ کے فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے اور لوگوں کو غیب کا حال معلوم نہیں ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کو بھی غیب کی ہر بات معلوم نہیں، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو شخص اپنے میراث کے مسئلے میں جھگڑتے ہوئے آئے اور ان دونوں کے پاس بجز دعویٰ کے کوئی دلیل نہیں تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔۔۔ (پھر راوی نے اسی کے مثل حدیث ذکر کی) تو دونوں رو پڑے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا : میں نے اپنا حق تجھے دے دیا، آپ ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا : جب تم ایسا کر رہے ہو تو حق کو پیش نظر رکھ کر (مال) کو تقسیم کرلو، پھر قرعہ اندازی کرلو اور ایک دوسرے کو معاف کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢٠) (صحیح) (سیاق حدیث میں زائد چیزیں ہیں، اس لئے شیخ البانی نے اسامة بن زید لیثی کے حفظ پر نقد کرتے ہوئے اس حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے) (الصحیحة : ٤٥٥ )
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہوچکی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٨١٧٤) (صحیح) (سابقہ حدیث کا نوٹ ملاحظہ ہو )
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
ابن شہاب کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے منبر پر فرمایا : لوگو ! رائے تو صرف رسول اللہ ﷺ کی درست تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو سجھاتا تھا، اور ہماری رائے محض ایک گمان اور تکلف ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٠٦) (ضعیف) (زہری کی عمر (رض) سے ملاقات نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہم معاملہ کو سمجھ کر اور غور و فکر کرکے کوئی رائے قائم کرتے ہیں پھر اس پر بھی اطمینان نہیں کہ وہ درست ہو۔
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
معاذ بن معاذ کہتے ہیں ابوعثمان شامی نے مجھے خبر دی اور میری نظر میں ان سے (یعنی حریز بن عثمان سے) کوئی شامی افضل نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ناسخین کی غلطی سے کسی دوسری حدیث کی سند کی بابت یہ کلام یہاں درج ہوگیا ہے، یا اس سند سے مروی حدیث درج ہونے سے رہ گئی ہے۔
قاضی کے فیصلہ میں خطا کا بیان
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں حاکم کے سامنے بیٹھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٢٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی مصعب لین الحدیث ہیں )
غصہ کی حالت میں قاضی کے فیصلہ کا بیان
ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے اپنے بیٹے کے پاس لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : غصے کی حالت میں قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ١٣(٧١٥٨) ، صحیح مسلم/الأقضیة ٧ (١٧١٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٧ (١٣٣٤) ، سنن النسائی/آداب القضاة ١٧ (٥٤٠٨) ، ٣١ (٥٤٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٤ (٢٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٣٨، ٤٦، ٥٢) (صحیح )
ذمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں آیت کریمہ فإن جاءوک فاحکم بينهم أو أعرض عنهم جب کافر آپ کے پاس آئیں تو آپ چاہیں تو فیصلہ کریں یا فیصلہ سے اعراض کریں (سورۃ المائدہ : ٤٢) منسوخ ہے، اور اب یہ ارشاد ہے فاحکم بينهم بما أنزل الله تو ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ کیجئے (سورۃ المائدہ : ٤٨) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٣) (حسن الإسناد )
ذمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں جب یہ آیت فإن جاءوک فاحکم بينهم أو أعرض عنهم جب کافر آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کا فیصلہ کریں یا نہ کریں (سورۃ المائدہ : ٤٢) وإن حکمت فاحکم بينهم بالقسط اور اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو (سورۃ المائدہ : ٤٢) نازل ہوئی تو دستور یہ تھا کہ جب بنو نضیر کے لوگ قریظہ کے کسی شخص کو قتل کردیتے تو وہ آدھی دیت دیتے، اور جب بنو قریظہ کے لوگ بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کردیتے تو وہ پوری دیت دیتے، تو اس آیت کے نازل ہوتے ہی رسول اللہ ﷺ نے دیت برابر کردی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٥ (٤٧٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٣) (حسن )
قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان
معاذ بن جبل (رض) کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا : جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟ معاذ (رض) نے عرض کیا : اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو ؟ تو معاذ (رض) نے عرض کیا : رسول اللہ ﷺ کی سنت کے موافق، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا : پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٣ (١٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٦، ٢٤٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٢٠ (١٧٠) (ضعیف) (اس کی سند میں حارث اور حمص کے کچھ لوگ مبہم ہیں )
قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا۔۔۔ ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٣) (ضعیف) (اس سند میں بھی حارث اور معاذ (رض) کے کچھ تلامذہ مبہم ہیں )
صلح کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کے درمیان مصالحت جائز ہے ۔ احمد بن عبدالواحد نے اتنا اضافہ کیا ہے : سوائے اس صلح کے جو کسی حرام شے کو حلال یا کسی حلال شے کو حرام کر دے ۔ اور سلیمان بن داود نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان اپنی شرطوں پر قائم رہیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لیکن ایسی شرط سے بچیں جو شریعت میں ناجائز ہے، اور جس سے آئندہ خرابی واقع ہوگی۔
صلح کا بیان
کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ ﷺ ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ ﷺ نے کعب بن مالک (رض) کو پکارا اور کہا : اے کعب ! تو انہوں نے کہا : حاضر ہوں، اللہ کے رسول ! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو ، کعب نے کہا : میں نے معاف کردیا اللہ کے رسول ! تب نبی کریم ﷺ نے (ابن حدرد) سے فرمایا : اٹھو اور اسے ادا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧١ (٤٥٧) ، ٨٣ (٤٧١) ، والخصومات ٤ (٢٤١٨) ، ٩ (٢٤٢٤) ، والصلح ١٠ (٢٧٠٦) ، ١٤ (٢٧١٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ٤ (١٥٥٨) ، سنن النسائی/القضاة ٢١ (٥٤١٠) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٨ (٢٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٤٥٤، ٤٦٠، ٦/٣٨٦، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/البیوع ٤٩ (٢٦٢٩) (صحیح )
گواہیوں کا بیان
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں سب سے بہتر گواہ نہ بتاؤں ؟ جو اپنی گواہی لے کر حاضر ہو یا فرمایا : اپنی گواہی پیش کرے قبل اس کے کہ اس سے پوچھا جائے ١ ؎۔ عبداللہ بن ابی بکر نے شک ظاہر کیا ہے کہ آپ ﷺ نے الذي يأتي بشهادته فرمایا، یا يخبر بشهادته کے الفاظ فرمائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مالک کہتے ہیں : ایسا گواہ مراد ہے جو اپنی شہادت پیش کر دے اور اسے یہ علم نہ ہو کہ کس کے حق میں مفید ہے اور کس کے حق میں غیر مفید۔ ہمدانی کی روایت میں ہے : اسے بادشاہ کے پاس لے جائے، اور ابن السرح کی روایت میں ہے : اسے امام کے پاس لائے۔ لفظ اخبار ہمدانی کی روایت میں ہے۔ ابن سرح نے اپنی روایت میں صرف ابن ابی عمر ۃ کہا ہے، عبدالرحمٰن نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٩ (١٧١٩) ، سنن الترمذی/الشھادات ١ (٢٢٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٨ (٢٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢(٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حقوق اللہ جیسے طلاق، عتق (غلام کی آزادی) اور وقف وغیرہ میں، یا جب مدعی سچا اور برحق ہو اور اسے گواہ نہ ملتا ہو اور کسی شخص کو اس کے حق کا حال معلوم ہو تو وہ شخص خود بخود جا کر حاکم اور قاضی کے پاس گواہی دے تاکہ صاحب معاملہ کی حق تلفی نہ ہو، اس قسم کی گواہی باعث اجر و ثواب ہے، زیر نظر حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو پوچھے جانے سے پہلے گواہی دے گی کیونکہ اس سے مراد جھوٹی گواہی ہے۔
گواہیوں کا بیان
یحییٰ بن راشد کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر (رض) کے انتظار میں بیٹھے تھے، وہ ہمارے پاس آ کر بیٹھے پھر کہنے لگے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہوئے کسی باطل امر کے لیے جھگڑے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبردار ہوجائے، اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنائے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے توبہ کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٥٦٢) ، وقد أخرجہ : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی (٤٣٧) ، مسند احمد (٢/٧٠، ٨٢، ٢/٧٠) (صحیح )
گواہیوں کا بیان
اس سند سے بھی ابن عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے آپ نے فرمایا : اور جو شخص کسی مقدمے کی ناحق پیروی کرے گا، وہ اللہ کا غیظ و غضب لے کر واپس ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٦ (٢٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٥) (حسن) (اس کے راوی مثنیٰ مجہول، اور مطر ضعیف ہیں ، لیکن حدیث متابعات کی وجہ سے حسن ہے، الإرواء ٧/٣٥٠، سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٤٣٧، ١٠٢١ )
جھوٹی گواہی دینے کا بیان
خریم بن فاتک (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا : جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے یہ جملہ آپ ﷺ نے تین بار دہرایا پھر یہ آیت پڑھی :فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور * حنفاء لله غير مشرکين به بتوں کی گندگی اور جھوٹی باتوں سے بچتے رہو خالص اللہ کی طرف ایک ہو کر اس کے ساتھ شرک کرنے والوں میں سے ہوئے بغیر (سورۃ الحج : ٣٠) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣٢ (٢٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الشھادات ٣ (٢٢٩٩) ، مسند احمد (٤/٢٣١) (ضعیف) (اس کے راواة سفیان کے والد اور حبیب دونوں مجہول ہیں )
جس شخص کی گواہی رد کردی جائے اس کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیانت کرنے والے مرد، خیانت کرنے والی عورت اور اپنے بھائی سے بغض و کینہ رکھنے والے شخص کی شہادت رد فرما دی ہے، اور خادم کی گواہی کو جو اس کے گھر والوں (مالکوں) کے حق میں ہو رد کردیا ہے اور دوسروں کے لیے جائز رکھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : غمر کے معنیٰ : کینہ اور بغض کے ہیں، اور قانع سے مراد پرانا ملازم مثلاً خادم خاص ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٧١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨١، ٢٠٣، ٢٠٤، ٢٢٥) (حسن )
جس شخص کی گواہی رد کردی جائے اس کا بیان
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت کی، زانی مرد اور زانیہ عورت کی اور اپنے بھائی سے کینہ رکھنے والے شخص کی گواہی جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٧١١) (حسن )
دیہاتی کی گواہی شہر والوں پر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : دیہاتی کی گواہی بستی اور شہر میں رہنے والے شخص کے خلاف جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣٠ (٢٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٣١) (صحیح )
رضاعت پر گواہی کا بیان
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں : میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی : میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ١ ؎، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے چہرہ پھیرلیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کیا معلوم ؟ اسے جو کہنا تھا اس نے کہہ دیا، تم اسے اپنے سے علیحدہ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : خ العلم ٢٦ (٨٨) ، البیوع ٣ (٢٠٥٢) ، الشھادات ٤ (٢٦٤٠) ، ١٣ (٢٦٥٩) ، ١٤ (٢٦٦٠) ، النکاح ٢٣ (٥١٠٤) ، سنن الترمذی/الرضاع ٤ (١١٥١) ، سنن النسائی/النکاح ٥٧ (٣٣٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٧، ٨، ٣٨٤) ، سنن الدارمی/النکاح ٥١ (٢٣٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ (دودھ پلانے والی) کی گواہی کافی ہے۔
رضاعت پر گواہی کا بیان
اس سند سے بھی ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ عبید بن ابی مریم سے روایت کرتے ہیں اور وہ عقبہ بن حارث سے، ابن ابی ملیکہ کا کہنا ہے کہ میں نے اسے براہ راست عقبہ سے بھی سنا ہے لیکن عبید کی روایت مجھے زیادہ اچھی طرح یاد ہے، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن زید نے حارث بن عمیر کو دیکھا تو انہوں نے کہا : یہ ایوب کے ثقہ تلامذہ میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٥) (صحیح )
سفر کے دوران وصیت پر کافر ذمی کی گواہی کا بیان
شعبی کہتے ہیں کہ ایک مسلمان شخص مقام دقوقاء میں مرنے کے قریب ہوگیا اور اسے کوئی مسلمان نہیں مل سکا جسے وہ اپنی وصیت پر گواہ بنائے تو اس نے اہل کتاب کے دو شخصوں کو گواہ بنایا، وہ دونوں کوفہ آئے اور ابوموسیٰ (رض) سے اسے بیان کیا اور اس کا ترکہ بھی لے کر آئے اور وصیت بھی بیان کی، تو اشعری (رض) نے کہا : یہ تو ایسا معاملہ ہے جو عہد نبوی ﷺ میں صرف ایک مرتبہ ہوا اور اس کے بعد ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، پھر ابوموسیٰ (رض) نے ان دونوں کو عصر کے بعد قسم دلائی کہ : قسم اللہ کی، ہم نے نہ خیانت کی ہے اور نہ جھوٹ کہا ہے، اور نہ ہی کوئی بات بدلی ہے نہ کوئی بات چھپائی ہے اور نہ ہی کوئی ہیرا پھیری کی، اور بیشک اس شخص کی یہی وصیت تھی اور یہی ترکہ تھا۔ پھر ابوموسیٰ (رض) نے ان دونوں کی شہادتیں قبول کرلیں (اور اسی کے مطابق فیصلہ کردیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٠١٣) (صحیح الإسناد )
سفر کے دوران وصیت پر کافر ذمی کی گواہی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ بنو سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ نکلا تو سہمی ایک ایسی سر زمین میں مرگیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا، جب وہ دونوں اس کا ترکہ لے کر آئے تو لوگوں نے اس میں چاندی کا وہ گلاس نہیں پایا جس پر سونے کا پتر چڑھا ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو قسم دلائی، پھر وہ گلاس مکہ میں ملا تو ان لوگوں نے کہا : ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے تو اس سہمی کے اولیاء میں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور ان دونوں نے قسم کھا کر کہا کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اور گلاس ان کے ساتھی کا ہے۔ راوی کہتے ہیں : یہ آیت : يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدکم الموت سورة المائدة : (١٠٦) انہی کی شان میں اتری ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣٥ (٢٧٨٠) ، سنن الترمذی/التفسیر ٢٠ (٣٠٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ دونوں اس واقعہ کے وقت نصرانی تھے، یہی باب سے مطابقت ہے۔
جب حاکم کو کسی آدمی کی گواہی کے صحیح ہونے اور سچے ہونے کا یقین ہو تو اس پر فیصلہ کرسکتا ہے
عمارہ بن خزیمہ کہتے ہیں : ان کے چچا نے ان سے بیان کیا اور وہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا، آپ اسے اپنے ساتھ لے آئے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا کردیں، آپ ﷺ جلدی جلدی چلنے لگے، دیہاتی نے تاخیر کردی، پس کچھ لوگ دیہاتی کے پاس آنا شروع ہوئے اور گھوڑے کا مول بھاؤ کرنے لگے اور وہ لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ نبی اکرم ﷺ نے اسے خرید لیا ہے، چناچہ دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ کو پکارا اور کہا : اگر آپ اسے خریدتے ہیں تو خرید لیجئے ورنہ میں نے اسے بیچ دیا، دیہاتی کی آواز سن کر نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوگئے اور فرمایا : کیا میں تجھ سے اس گھوڑے کو خرید نہیں چکا ؟ دیہاتی نے کہا : نہیں، قسم اللہ کی، میں نے اسے آپ سے فروخت نہیں کیا ہے، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ میں اسے تم سے خرید چکا ہوں پھر دیہاتی یہ کہنے لگا کہ گواہ پیش کیجئے، تو خزیمہ بن ثابت (رض) بول پڑے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے نبی اکرم ﷺ کو فروخت کرچکے ہو، نبی اکرم ﷺ خزیمہ (رض) کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم کیسے گواہی دے رہے ہو ؟ خزیمہ بن ثابت (رض) نے کہا : آپ کی تصدیق کی وجہ سے، اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے خزیمہ (رض) کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٧٩ (٤٦٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٥) (صحیح )
ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک حلف اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأقضیة ٢ (١٧١٢) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣١ (٢٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٨، ٣١٥، ٣٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مدعی کے پاس ایک ہی گواہ تھا، نبی کریم ﷺ نے مدعی سے حلف لیا، اور یہ حلف ایک گواہ کے قائم مقام مان لیا گیا۔
ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کرنے کا بیان
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے سلمہ نے اپنی حدیث میں یوں کہا کہ : عمرو نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ حقوق میں تھا (نہ کہ حدود میں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٩٩) (صحیح )
ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ربیع بن سلیمان مؤذن نے مجھ سے اس حدیث میں قال : أخبرني الشافعي عن عبدالعزيز کا اضافہ کیا عبدالعزیز دراوردی کہتے ہیں : میں نے اسے سہیل سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا : مجھے ربیعہ نے خبر دی ہے اور وہ میرے نزدیک ثقہ ہیں کہ میں نے یہ حدیث ان سے بیان کی ہے لیکن مجھے یاد نہیں۔ عبدالعزیز دراوردی کہتے ہیں : سہیل کو ایسا مرض ہوگیا تھا جس سے ان کی عقل میں کچھ فتور آگیا تھا اور وہ کچھ احادیث بھول گئے تھے، تو سہیل بعد میں اسے عن ربیعہ عن أبیہ کے واسطے سے روایت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ١٣ (١٣٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٣١ (٢٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٤٠) (صحیح )
ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کرنے کا بیان
ابومصعب ہی کی سند سے ربیعہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ سلیمان کہتے ہیں میں نے سہیل سے ملاقات کی اور اس حدیث کے متعلق ان سے پوچھا : تو انہوں نے کہا : میں اسے نہیں جانتا تو میں نے ان سے کہا : ربیعہ نے مجھے آپ کے واسطہ سے اس حدیث کی خبر دی ہے تو انہوں نے کہا : اگر ربیعہ نے تمہیں میرے واسطہ سے خبر دی ہے تو تم اسے بواسطہ ربیعہ مجھ سے روایت کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٤٠) (صحیح )
ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کرنے کا بیان
زبیب عنبری کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے بنی عنبر کی طرف ایک لشکر بھیجا، تو لشکر کے لوگوں نے انہیں مقام رکبہ ١ ؎ میں گرفتار کرلیا، اور انہیں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پکڑ لائے، میں سوار ہو کر ان سے آگے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہا : السلام علیک یا نبی اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا لشکر ہمارے پاس آیا اور ہمیں گرفتار کرلیا، حالانکہ ہم مسلمان ہوچکے تھے اور ہم نے جانوروں کے کان کاٹ ڈالے تھے ٢ ؎، جب بنو عنبر کے لوگ آئے تو مجھ سے اللہ کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس اس بات کی گواہی ہے کہ تم گرفتار ہونے سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے ؟ میں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : کون تمہارا گواہ ہے ؟ میں نے کہا : بنی عنبر کا سمرہ نامی شخص اور ایک دوسرا آدمی جس کا انہوں نے نام لیا، تو اس شخص نے گواہی دی اور سمرہ نے گواہی دینے سے انکار کردیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سمرہ نے تو گواہی دینے سے انکار کردیا، تم اپنے ایک گواہ کے ساتھ قسم کھاؤ گے ؟ میں نے کہا : ہاں، چناچہ آپ ﷺ نے مجھے قسم دلائی، پس میں نے اللہ کی قسم کھائی کہ بیشک ہم لوگ فلاں اور فلاں روز مسلمان ہوچکے تھے اور جانوروں کے کان چیر دیئے تھے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جاؤ اور ان کا آدھا مال تقسیم کرلو اور ان کی اولاد کو ہاتھ نہ لگانا، اگر اللہ تعالیٰ مجاہدین کی کوششیں بیکار ہونا برا نہ جانتا تو ہم تمہارے مال سے ایک رسی بھی نہ لیتے ۔ زبیب کہتے ہیں : مجھے میری والدہ نے بلایا اور کہا : اس شخص نے تو میرا تو شک چھین لیا ہے میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا اور آپ سے (صورت حال) بیان کی، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اسے پکڑ لاؤ میں نے اسے اس کے گلے میں کپڑا ڈال کر پکڑا اور اس کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا، پھر نبی کریم ﷺ نے ہم دونوں کو کھڑا دیکھ کر فرمایا : تم اپنے قیدی سے کیا چاہتے ہو ؟ تو میں نے اسے چھوڑ دیا، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور اس آدمی سے فرمایا : تو اس کی والدہ کا تو شک واپس کرو جسے تم نے اس سے لے لیا ہے اس شخص نے کہا : اللہ کے نبی ! وہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے، وہ کہتے ہیں : تو اللہ کے نبی نے اس آدمی کی تلوار لے لی اور مجھے دے دی اور اس آدمی سے کہا : جاؤ اور اس تلوار کے علاوہ کھانے کی چیزوں سے چند صاع اور اسے دے دو وہ کہتے ہیں : اس نے مجھے (تلوار کے علاوہ) جو کے چند صاع مزید دئیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٦١٩) (ضعیف) (اس کے رواة ” عمار “ اور ” شعیث “ دونوں لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ” ركبة “: طائف کے نواح میں ایک جگہ ہے۔ ٢ ؎ : خطابی کہتے ہیں : شاید پہلے زمانہ میں مسلمانوں کے جانوروں کی یہ علامت رہی ہوگی کہ ان کے کان پھٹے ہوں۔
دو آدمی کسی چیز کا دعوی کریں لیکن گواہ کسی کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے ایک اونٹ یا چوپائے کا رسول اللہ ﷺ کے پاس دعویٰ کیا اور ان دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا تو نبی اکرم ﷺ نے اس چوپائے کو ان کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/آداب القضاة ٣٤ (٥٤٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١١ (٢٣٣٠) ، (تحفة الأشراف والإرواء : ٢٦٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٢) (ضعیف) (قتادة سے مروی ان احادیث میں روایت ابو موسیٰ اشعری سے ہے، اور بعض رواة اسے سعید بن ابی بردہ عن ابیہ مرسلاً روایت کیا ہے، اور بعض حفاظ نے اسے حرب سے مرسلاً صحیح مانا ہے )
دو آدمی کسی چیز کا دعوی کریں لیکن گواہ کسی کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے
اس سند سے بھی سعید (ابن ابی عروبۃ) سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٨) (ضعیف )
دو آدمی کسی چیز کا دعوی کریں لیکن گواہ کسی کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے
اس سند سے بھی قتادہ سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو آدمیوں نے کسی ایک اونٹ کا دعویٰ کیا، اور دونوں نے دو دو گواہ پیش کئے، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦١٣، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٨) (ضعیف )
دو آدمی کسی چیز کا دعوی کریں لیکن گواہ کسی کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی ایک سامان کے متعلق نبی اکرم ﷺ کے پاس جھگڑا لے کر گئے اور دونوں میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں قسم پر قرعہ اندازی کرو ١ ؎ خواہ تم اسے پسند کرو یا ناپسند ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأحکام ١١ (٢٣٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٨٩، ٥٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قسم (حلف) پر قرعہ اندازی کا مطلب یہ ہے کہ جس کے نام قرعہ نکلے وہ قسم کھا کر سامان لے لے۔
دو آدمی کسی چیز کا دعوی کریں لیکن گواہ کسی کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دونوں آدمی قسم کھانے کو برا جانیں، یا دونوں قسم کھانا چاہیں تو قسم کھانے پر قرعہ اندازی کریں (اور جس کے نام قرعہ نکلے وہ قسم کھا کر اس چیز کو لے لے) ۔ سلمہ کہتے ہیں : عبدالرزاق کی روایت میں حدثنا معمر کے بجائے أخبرنا معمر اور إذا كَرِهَ الاثنان اليمين کے بجائے إذا أكره الاثنان على اليمين ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الشہادات ٢٤ (٢٦٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٦٠٠١) (صحیح )
دو آدمی کسی چیز کا دعوی کریں لیکن گواہ کسی کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے
سعید بن ابی عروبہ سے ابن منہال کی سند سے اسی کے مثل مروی ہے اس میں في متاع کے بجائے في دابة کے الفاظ ہیں یعنی دو شخصوں نے ایک چوپائے کے سلسلہ میں جھگڑا کیا اور ان کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں قسم پر قرعہ اندازی کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٢) (صحیح) بما قبلہ
قسم اٹھانا مدعی علیہ کے ذمہ ہے
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے میرے پاس لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدعی علیہ پر قسم کا فیصلہ کیا ہے (یعنی جب وہ منکر ہو اور مدعی کے پاس گواہ نہ ہو تو وہ قسم کھائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرھن ٦ (٢٥١٤) ، الشھادات ٢٠ (٢٦٦٨) ، تفسیر آل عمران ٣ (٤٥٥٢) ، صحیح مسلم/الأقضیة ١ (١٧١١) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٢ (١٣٤٢) ، سنن النسائی/آداب القضاة ٣٥ (٥٤٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٧ (٢٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٢، ٥٧٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٤٢، ٣٥١، ٣٥٦، ٣٦٣) (صحیح )
حلف کا طریقہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے قسم کھلائی تو یوں فرمایا : اس اللہ کی قسم کھاؤ جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں کہ تیرے پاس اس (یعنی مدعی کی) کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابویحییٰ کا نام زیاد کوفی ہے اور وہ ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٤٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ١/٢٨٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی عطاء اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے )
اگر مدعا علیہ ذمی ہو تو کیا اس سے حلف لیا جائے گا
اشعث (رض) کہتے ہیں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ (مشترک) زمین تھی، یہودی نے میرے حصہ کا انکار کیا، میں اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لے گیا تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے یہودی سے فرمایا : تم قسم کھاؤ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! تب تو یہ قسم کھا کر میرا مال ہڑپ لے گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم جو لوگ اللہ کا عہد و پیمان دے کر اور اپنی قسمیں کھا کر تھوڑا مال خریدتے ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں (سورة آل عمران : ٧٧) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المساقاة ٤ (٢٣٥٦) ، الرہن ٦ (٢٥١٥، ٢٥١٦) ، الشہادات ١٩ (٢٢٦٦، ٢٢٦٧) ، التفسیر ٣ (٤٥٤٩) ، الأیمان ١١ (٦٦٥٩، ٦٦٦٠) ، الأحکام ٣٠ (٧١٨٣، ٧١٨٤) ، صحیح مسلم/ الإیمان ٦١ (١٣٨) ، سنن الترمذی/ البیوع ٤٢ (١٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٧ (٢٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨، ٩٢٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١١) (صحیح )
کسی ایسے امر پر قسم کھانا جو اس کی غیر موجودگی میں ہوا ہو اور اسے صرف علم ہو
اشعث بن قیس (رض) کہتے ہیں ایک کندی اور ایک حضرمی یمن کی ایک زمین کے سلسلے میں جھگڑتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، حضرمی نے کہا : اللہ کے رسول ! اس (کندی) کے باپ نے مجھ سے میری زمین غصب کرلی ہے اور وہ زمین اس کے قبضے میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے حضرمی نے کہا : نہیں لیکن میں اس کو اس بات پر قسم دلاؤں گا کہ وہ نہیں جانتا کہ میری زمین کو اس کے باپ نے مجھ سے غصب کرلیا ہے ؟ تو وہ کندی قسم کے لیے آمادہ ہوگیا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی (جو گزر چکی نمبر : ٣٢٤٤) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩) (صحیح )
کسی ایسے امر پر قسم کھانا جو اس کی غیر موجودگی میں ہوا ہو اور اسے صرف علم ہو
وائل بن حجر حضرمی (رض) کہتے ہیں ایک حضرمی اور ایک کندی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو حضرمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس شخص نے میرے والد کی زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا : یہ تو میری زمین ہے میں اسے جوتتا ہوں اس میں اس کا حق نہیں ہے، نبی اکرم ﷺ نے حضرمی سے فرمایا : کیا تیرے پاس کوئی گواہ ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، تب آپ ﷺ نے (کندی سے) فرمایا : تو تیرے لیے قسم ہے تو حضرمی نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ تو ایک فاجر شخص ہے اسے قسم کی کیا پرواہ ؟ وہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا، آپ ﷺ نے فرمایا : سوائے اس کے اس پر تیرا کوئی حق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٨) (صحیح )
ذمی سے حلف کیسے لیا جائے گا؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں سے فرمایا : میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی کہ تم لوگ زانی کے متعلق تورات میں کیا حکم پاتے ہو ۔ اور راوی نے واقعہ رجم سے متعلق پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٢) (ضعیف) (اس کا راوی رجل من مزینة مبہم ہے )
ذمی سے حلف کیسے لیا جائے گا؟
اس سند سے بھی زہری سے یہی حدیث اسی طریق سے مروی ہے اس میں ہے کہ مجھ سے مزینہ کے ایک آدمی نے جو علم کا شیدائی تھا اور اسے یاد رکھتا تھا بیان کیا ہے وہ سعید بن مسیب سے بیان کر رہا تھا، پھر راوی نے پوری حدیث اسی مفہوم کی ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٢) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی وہی مجہول راوی ہے )
ذمی سے حلف کیسے لیا جائے گا؟
عکرمہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے یعنی ابن صوریا ١ ؎ سے فرمایا : میں تمہیں اس اللہ کی یاد دلاتا ہوں جس نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی، تمہارے لیے سمندر میں راستہ بنایا، تمہارے اوپر ابر کا سایہ کیا، اور تمہارے اوپر من وسلوی نازل کیا، اور تمہاری کتاب تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا، کیا تمہاری کتاب میں رجم (زانی کو پتھر مارنے) کا حکم ہے ؟ ابن صوریا نے کہا : آپ نے بہت بڑی چیز کا ذکر کیا ہے لہٰذا میرے لیے آپ سے جھوٹ بولنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفر بہ أبو داود (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ خود یہ مرسل ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ایک یہودی عالم کا نام ہے۔
آدمی کو اپنے حق پر قسم کھانی چاہیے
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے دو شخصوں کے درمیان فیصلہ کیا، تو جس کے خلاف فیصلہ دیا گیا واپس ہوتے ہوئے کہنے لگا : مجھے بس اللہ کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بیوقوفی پر ملامت کرتا ہے لہٰذا زیر کی و دانائی کو لازم پکڑو، پھر جب تم مغلوب ہوجاؤ تو کہو : میرے لیے بس اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٥) (ضعیف) (اس کے راوی بقیہ ضعیف ہیں )
آدمی کو اپنے حق پر قسم کھانی چاہیے
شرید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا اس کی ہتک عزتی اور سزا کو جائز کردیتا ہے ۔ ابن مبارک کہتے ہیں : ہتک عزتی سے مراد اسے سخت سست کہنا ہے، اور سزا سے مراد اسے قید کرنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/البیوع ٩٨ (٤٦٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٨ (٢٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٣٨٨، ٣٨٩) (حسن )
آدمی کو اپنے حق پر قسم کھانی چاہیے
حبیب تمیمی عنبری سے روایت ہے کہ ان کے والد نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے ایک قرض دار کو لایا تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اس کو پکڑے رہو پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے بنو تمیم کے بھائی تم اپنے قیدی کو کیا کرنا چاہتے ہو ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٨ (٢٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی ہر م اس اور حبیب دونوں مجہول ہیں )
آدمی کو اپنے حق پر قسم کھانی چاہیے
معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ایک الزام میں ایک شخص کو قید میں رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٢١ (١٤١٧) ، سنن النسائی/قطع السارق ٢ (٤٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢، ٤، ٤/٤٤٧) (حسن )
آدمی کو اپنے حق پر قسم کھانی چاہیے
معاویہ بن حیدہ (رض) روایت کرتے ہیں ابن قدامہ کی روایت میں ہے کہ ان کے بھائی یا ان کے چچا اور مومل کی روایت میں ہے وہ خود نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑے ہوئے اور آپ خطبہ دے رہے تھے تو یہ کہنے لگے : کس وجہ سے میرے پڑوسیوں کو پکڑ لیا گیا ہے ؟ تو آپ نے ان سے دو مرتبہ منہ پھیرلیا پھر انہوں نے کچھ ذکر کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو اور مومل نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ خطبہ دے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٩) (حسن الإسناد )
وکالت کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جانب نکلنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا پھر میں نے عرض کیا : میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میرے وکیل کے پاس جانا تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٣١) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : شاید یہی نشانی آپ ﷺ نے اپنے وکیل کو بتائی ہو۔
قضاء کے بعض امور کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم کسی راستہ کے متعلق جھگڑو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٢٠ (١٣٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٦ (٢٣٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٩ (٢٤٧٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٣١ (١٦١٣) ، مسند احمد (٢/٤٦٦، ٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ راہ چلنے والوں اور جانوروں کے لئے اتنا کافی ہے۔
قضاء کے بعض امور کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے یہ سن کر لوگوں نے سر جھکا لیا تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : کیا بات ہے جو میں تمہیں اس حدیث سے اعراض کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں تو اسے تمہارے شانوں کے درمیان ڈال ہی کر رہوں گا (یعنی اسے تم سے بیان کر کے ہی چھوڑوں گا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن ابی خلف کی حدیث ہے اور زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٠ (٢٤٦٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ٢٩ (١٦٠٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ١٨ (١٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٥ (٢٣٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٢٦ (٣٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٧٤، ٣٩٦، ٤٦٣) (صحیح )
قضاء کے بعض امور کا بیان
ابوصرمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے تکلیف پہنچائے گا، اور جس نے کسی سے دشمنی کی تو اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٢٧ (١٩٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ١٧ (٢٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٣) (حسن )
قضاء کے بعض امور کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ ایک انصاری کے باغ میں ان کے کھجور کے کچھ چھوٹے چھوٹے درخت تھے، اور اس شخص کے ساتھ اس کے اہل و عیال بھی رہتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ سمرہ (رض) جب اپنے درختوں کے لیے جاتے تو انصاری کو تکلیف ہوتی اور ان پر شاق گزرتا اس لیے انصاری نے ان سے اسے فروخت کردینے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا، پھر اس نے ان سے یہ گزارش کی کہ وہ درخت کا تبادلہ کرلیں وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا، تو آپ نے بھی ان سے فرمایا : اسے بیچ ڈالو پھر بھی وہ نہ مانے تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے درخت کے تبادلہ کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تم اسے ہبہ کر دو ، اس کے عوض فلاں فلاں چیزیں لے لو بہت رغبت دلائی مگر وہ نہ مانے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم مضار یعنی ایذا دینے والے ہو تب رسول اللہ ﷺ نے انصاری سے فرمایا : جاؤ ان کے درختوں کو اکھیڑ ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٣٣) (ضعیف) (محمد بن علی باقر نے سمرة (رض) کو نہیں پایا ہے )
قضاء کے بعض امور کا بیان
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر (رض) سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر (رض) سے کہا : پانی کو بہنے دو ، لیکن زبیر (رض) نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے زبیر (رض) سے فرمایا : تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آگیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا ؟ تو رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر (رض) سے فرمایا : تم اپنے کھیت سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ کھیت کے مینڈھوں تک بھر جائے ۔ زبیر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں سمجھتا ہوں یہ آیت فلا وربک لا يؤمنون حتى يحكموك قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ کو اپنا فیصل نہ مان لیں (سورة النساء : ٦٥) اسی بابت اتری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المساقاة ٦ (٢٣٦٠) ، ٨ (٢٣٦٢) ، الصلح ١٢ (٢٧٠٨) ، تفسیر سورة النساء ١٢ (٤٥٨٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٦ (٢٣٥٧) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٦ (١٣٦٣) ، تفسیر النساء (٣٢٠٧) ، سنن النسائی/القضاة ٢٦ (٥٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢ (١٥) ، الرھون ٢٠ (٢٤٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٥) (صحیح )
قضاء کے بعض امور کا بیان
ثعلبہ بن ابی مالک قرظی کہتے ہیں انہوں نے اپنے بزرگوں سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ قریش کے ایک آدمی نے جو بنو قریظہ کے ساتھ (پانی میں) شریک تھا رسول اللہ ﷺ کے پاس مہزور کے نالے کے متعلق جھگڑا لے کر آیا جس کا پانی سب تقسیم کرلیتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ جب تک پانی ٹخنوں تک نہ پہنچ جائے اوپر والا نیچے والے کے لیے نہ روکے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الرہون ٢٠ (٢٤٨١) (صحیح )
قضاء کے بعض امور کا بیان
عبداللہ بن عمر و (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ ٹخنے کے برابر نہ پہنچ جائے، پھر اوپر والا نیچے والے کے لیے چھوڑ دے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الرہون ٢٠(٢٤٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٣٥) (حسن صحیح )
قضاء کے بعض امور کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ دو شخص ایک کھجور کے درخت کی حد کے سلسلے میں جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ایک روایت میں ہے آپ نے اس کے ناپنے کا حکم دیا جب ناپا گیا تو وہ سات ہاتھ نکلا، اور دوسری روایت میں ہے وہ پانچ ہاتھ نکلا تو آپ نے اسی کا فیصلہ فرما دیا۔ عبدالعزیز کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اسی درخت کی ایک ٹہنی سے پیمائش کرنے کے لیے کہا تو پیمائش کی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٨) (صحیح )