24. کھانے پینے کا بیان

【1】

دعوت قبول کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی ولیمہ کی دعوت میں مدعو کیا جائے تو اسے چاہیئے کہ اس میں آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٧١ (٥١٧٣) ، صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٩، ٧٩٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٥ (١٩١٤) ، موطا امام مالک/النکاح ٢١(٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٤٠ (٢١٢٧) ، النکاح ٢٣ (٢٢٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ کی دعوت کو قبول کرنا واجب ہے، إلا یہ کہ وہاں کوئی خلاف شرع بات پائی جائے۔

【2】

دعوت قبول کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اسی مفہوم کی حدیث بیان فرمائی اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اگر روزے سے نہ ہو تو کھالے، اور اگر روزے سے ہو تو (کھانے اور کھلانے والوں کے لیے بخشش و برکت کی) دعا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٨٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧) (صحیح )

【3】

دعوت قبول کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی اپنے بھائی کو ولیمے کی یا اسی طرح کی کوئی دعوت دے تو وہ اسے قبول کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ النکاح ١٦ (١٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٨، ١٠١، ١٢٧، ١٤٦) (صحیح )

【4】

دعوت قبول کرنے کا بیان

اس سند سے بھی نافع سے ایوب کی روایت جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ النکاح ١٦ (١٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٤٢ )

【5】

دعوت قبول کرنے کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو دعوت دی جائے اسے دعوت قبول کرنی چاہیئے پھر اگر چاہے تو کھائے اور چاہے تو نہ کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٧ (١٧٥١) ، مسند احمد (٣/٣٩٢) (صحیح )

【6】

دعوت قبول کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے دعوت دی گئی اور اس نے قبول نہیں کیا تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، اور جو بغیر دعوت کے گیا تو وہ چور بن کر داخل ہوا اور لوٹ مار کر نکلا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابان بن طارق مجہول راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٤٦٩) (ضعیف) (اس کے راوی درست ضعیف، اور ابان مجہول ہیں، لیکن پہلا ٹکڑا ابوہریرہ کی اگلی حدیث سے صحیح ہے )

【7】

دعوت قبول کرنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے تھے سب سے برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں صرف مالدار بلائے جائیں اور غریب و مسکین چھوڑ دیئے جائیں، اور جو (ولیمہ کی) دعوت میں نہیں آیا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ النکاح ٧٣ (٥١٧٧) ، صحیح مسلم/النکاح ١٦ (١٤٣٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٥ (١٩١٣) ، (٢١١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨(٢١١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جو ولیمہ ایسا ہو جس میں صرف مالدار اور باحیثیت لوگ ہی بلائے جائیں، اور محتاج و فقیر نہ آنے پائیں وہ برا ہے، نہ یہ کہ خود ولیمہ برا ہے۔

【8】

نکاح کے بعد ولیمہ کرنا مستحب ہے

ثابت کہتے ہیں : انس بن مالک (رض) کے پاس ام المؤمنین زینب بنت جحش (رض) کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں میں سے کسی کے نکاح میں زینب کے نکاح کی طرح ولیمہ کرتے نہیں دیکھا، آپ نے ان کے نکاح میں ایک بکری کا ولیمہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٦٨ (٥١٦٨) ، صحیح مسلم/النکاح ١٣ (١٤٢٨) ، سنن النسائی/الکبری ٤ (٦٦٠٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٢٧) (صحیح )

【9】

نکاح کے بعد ولیمہ کرنا مستحب ہے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین صفیہ (رض) کے نکاح میں ستو اور کھجور کا ولیمہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ١٠ (١٠٩٥) ، سنن النسائی/النکاح ٧٩ (٣٣٨٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٤ (١٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ١٤ (١٣٦٥) ، الجہاد ٤٣ (١٣٦٥) (صحیح )

【10】

سفر سے واپسی پر کھانا کھلانا

جابر (رض) کہتے ہیں جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک اونٹ یا ایک گائے ذبح کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٩٩، ٣٠٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣٠٢، ٣١٩، ٣٦٣) (صحیح الإسنادِ )

【11】

مہمانداری کا بیان

ابوشریح کعبی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیئے، اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور ضیافت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے، اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنے عرصے تک قیام کرے کہ وہ اسے مشقت اور تنگی میں ڈال دے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : امام مالک سے نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان جائزته يوم وليلة کے متعلق پوچھا گیا : تو انہوں نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ میزبان ایک دن اور ایک رات تک اس کی عزت و اکرام کرے، تحفہ و تحائف سے نوازے، اور اس کی حفاظت کرے اور تین دن تک ضیافت کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣١ (٦٠١٩) ، ٨٥ (٦١٣٥) ، الرقاق ٢٣ (٦٤٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (٤٨) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٤٣ (١٩٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ ١٠ (٢٢) مسند احمد (٤/٣١، ٦/٣٨٤، ٣٨٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١١ (٢٠٧٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پہلے دن اپنی حیثیت کے مطابق خصوصی اہتمام کرے اور باقی دو دنوں میں بغیر تکلف و اہتمام کے ماحضر پیش کرے۔

【12】

مہمانداری کا بیان

بوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مہمانداری تین روز تک ہے، اور جو اس کے علاوہ ہو وہ صدقہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٨٠٨) ، وقد أخرجہ : حم (٢/٣٥٤) (حسن، صحیح الإسناد)

【13】

کتنے ایام تک ولیمہ کرنا مستحب ہے

عبداللہ بن عثمان ثقفی بنو ثقیف کے ایک کانے شخص سے روایت کرتے ہیں (جسے اس کی بھلائیوں کی وجہ سے معروف کہا جاتا تھا، یعنی خیر کے پیش نظر اس کی تعریف کی جاتی تھی، اگر اس کا نام زہیر بن عثمان نہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ اس کا کیا نام تھا) کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ولیمہ پہلے روز حق ہے، دوسرے روز بہتر ہے، اور تیسرے روز شہرت و ریاکاری ہے ۔ قتادہ کہتے ہیں : مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب کو پہلے دن دعوت دی گئی تو انہوں نے قبول کیا اور دوسرے روز بھی دعوت دی گئی تو اسے بھی قبول کیا اور تیسرے روز دعوت دی گئی تو قبول نہیں کیا اور کہا : (دعوت دینے والے) نام و نمود والے اور ریا کار لوگ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الدارمی/الأطعمة ٢٨ (٢١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥١، ١٨٧١٩) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے )

【14】

کتنے ایام تک ولیمہ کرنا مستحب ہے

اس سند سے بھی سعید بن مسیب سے یہی واقعہ مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے روز انہوں نے دعوت قبول کرلی پھر جب تیسرے روز انہیں دعوت دی گئی تو قبول نہیں کیا اور قاصد کو کنکری ماری۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٦٥١، ١٨٧١٩) (ضعیف) (اس کے راوی قتادہ مدلس اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں ) ا

【15】

ضیافت سے متعلق

ابوکریمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان پر مہمان کی ایک رات کی ضیافت حق ہے، جو کسی مسلمان کے گھر میں رات گزارے تو ایک دن کی مہمانی اس پر قرض ہے، چاہے تو اسے وصول کرلے اور چاہے تو چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٨) (صحیح )

【16】

ضیافت سے متعلق

ابوکریمہ مقدام بن معدیکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی قوم کے پاس بطور مہمان آئے اور صبح تک ویسے ہی محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد لازم ہے یہاں تک کہ وہ ایک رات کی مہمانی اس کی زراعت اور مال سے لے لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣١، ١٣٣) ، دی/ الأطعمة ١١ (٢٠٨٠) (ضعیف) (اس کے راوی سعید بن ابی المہاجر مجہول ہیں )

【17】

ضیافت سے متعلق

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں (جہاد یا کسی دوسرے کام کے لیے) بھیجتے ہیں تو (بسا اوقات) ہم کسی قوم میں اترتے ہیں اور وہ لوگ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : اگر تم کسی قوم میں جاؤ اور وہ لوگ تمہارے لیے ان چیزوں کا انتظام کردیں جو مہمان کے لیے چاہیئے تو اسے تم قبول کرو اور اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جو ان کے حسب حال ہو لے لو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ اس شخص کے لیے دلیل ہے جس کا حق کسی کے ذمہ ہو تو وہ اپنا حق لے سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ١٨ (٢٤٦١) ، الأدب ٨٥ (٦١٣٧) ، صحیح مسلم/اللقطة ٣ (١٧٢٧) ، سنن الترمذی/السیر ٣٢ (١٥٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥ (٣٦٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ نے جب کافروں سے صلح کی تھی تو اس صلح میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ اگر مسلمان تمہارے ملک میں آئیں جائیں تو ان کی ضیافت لازمی ہے، اس حدیث میں وہی لوگ مراد ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافر مسلمانوں کو اپنی مہمان نوازی پر مجبور کرے، یہ اور بات ہے کہ مہمان نوازی اور ضیافت مسنون و مستحب ہے۔

【18】

دوسرے کے مال میں سے نہ کھانے میں جو حرج تھا اس کے منسوخ ہونے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ : لا تأکلوا أموالکم بينكم بالباطل إلا أن تکون تجارة عن تراض منکم (سورۃ النساء : ٢٩) کے نازل ہونے کے بعد لوگ ایک دوسرے کے یہاں کھانا کھانے میں گناہ محسوس کرنے لگے تو یہ آیت سورة النور کی آیت : ليس عليكم جناح أن تأکلوا من بيوتکم ..... ‏أشتاتا ( سورة النساء : ٦١) سے منسوخ ہوگئی، جب کوئی مالدار شخص اپنے اہل و عیال میں سے کسی کو دعوت دیتا تو وہ کہتا : میں اس کھانے کو گناہ سمجھتا ہوں اس کا تو مجھ سے زیادہ حقدار مسکین ہے چناچہ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک دوسرے کا کھانا جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حلال کردیا گیا ہے اور اہل کتاب کا کھانا بھی حلال کردیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٤) (حسن الإسناد )

【19】

ریاکاری اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کھانے کھلانے والوں کے کھانے کا حکم

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے دو باہم فخر کرنے والوں کی دعوت کھانے سے منع فرمایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جریر سے روایت کرنے والوں میں سے اکثر لوگ اس روایت میں ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کرتے ہیں نیز ہارون نحوی نے بھی اس میں ابن عباس کا ذکر کیا ہے اور حماد بن زید نے ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٠٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں میں سے ہر ایک یہ چاہے کہ میں دوسرے سے بڑھ جاؤں اور اسے مغلوب کر دوں، ایسے لوگوں کی دعوت کو قبول کرنا منع ہے، کیوں کہ یہ اللہ کی رضا کے واسطے نہیں ہے۔

【20】

دعوت دینے والوں کے ہاں کوئی ناجائز کام ہو تو کیا حکم ہے

سفینہ ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے علی (رض) کی دعوت کی اور ان کے لیے کھانا بنایا (اور بھیج دیا) تو فاطمہ (رض) نے کہا : کاش ہم رسول اللہ ﷺ کو بلا لیتے آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا تناول فرما لیتے چناچہ انہوں نے آپ کو بلوایا، آپ ﷺ تشریف لائے اور اپنا ہاتھ دروازے کے دونوں پٹ پر رکھا، تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر کے ایک کونے میں ایک منقش پردہ لگا ہوا ہے، (یہ دیکھ کر) آپ لوٹ گئے تو فاطمہ (رض) نے علی (رض) سے کہا : جا کر ملئیے اور دیکھئیے آپ کیوں لوٹے جا رہے ہیں ؟ (علی (رض) کہتے ہیں) میں نے آپ ﷺ کا پیچھا کیا اور پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کیوں واپس جا رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے یا کسی نبی کے لیے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی آرائش و زیبائش والے گھر میں داخل ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٥٦ (٣٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٠، ٢٢١، ٢٢٢) (حسن )

【21】

جب دو داعی جمع ہوجائیں تو کون زیادہ حقدار ہے؟

ایک صحابی رسول سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو دعوت دینے والے ایک ساتھ دعوت دیں تو ان میں سے جس کا مکان قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو، کیونکہ جس کا مکان زیادہ قریب ہوگا وہ ہمسائیگی میں قریب تر ہوگا، اور اگر ان میں سے کوئی پہل کر جائے تو اس کی قبول کرو جس نے پہل کی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداو، (تحفة الأشراف : ١٥٥٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠٨) (ضعیف) (اس کے راوی ابو خالد دالانی مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں نیز بہت غلطیاں کرتے ہیں )

【22】

جب رات کا کھانا اور نماز عشاء دونوں تیار ہوں تو کیا کیا جائے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے لیے رات کا کھانا چن دیا جائے اور نماز کے لیے اقامت بھی کہہ دی جائے تو (نماز کے لیے) نہ کھڑا ہو یہاں تک کہ (کھانے سے) فارغ ہو لے ۔ مسدد نے اتنا اضافہ کیا : جب عبداللہ بن عمر (رض) کا کھانا چن دیا جاتا یا ان کا کھانا موجود ہوتا تو اس وقت تک نماز کے لیے نہیں کھڑے ہوتے جب تک کہ کھانے سے فارغ نہ ہو لیتے اگرچہ اقامت اور امام کی قرآت کی آواز کان میں آرہی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٢١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٢ (٦٧٣) ، الأطعمة (٥٤٦٣) ، صحیح مسلم/المساجد ١٦ (٥٥٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٥(٣٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٤ (٩٣٤) ، مسند احمد (٢/٢٠، ١٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث نمبر (٣٧٥٩) کی روشنی میں اس سے وہ کھانا مراد ہے جو بہت مختصر اور تھوڑا ہو، اور جماعت میں سے کچھ مل جانے کی امید ہو۔

【23】

جب رات کا کھانا اور نماز عشاء دونوں تیار ہوں تو کیا کیا جائے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھانے یا کسی اور کام کی وجہ سے نماز مؤخر نہ کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٨) (ضعیف )

【24】

جب رات کا کھانا اور نماز عشاء دونوں تیار ہوں تو کیا کیا جائے

عبداللہ بن عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں ابن زبیر (رض) کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ عبداللہ بن عمر (رض) کے پہلو میں تھا کہ عباد بن عبداللہ بن زبیر نے کہا : ہم نے سنا ہے کہ عشاء کی نماز سے پہلے شام کا کھانا شروع کردیا جاتا تھا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : افسوس ہے تم پر، ان کا شام کا کھانا ہی کیا تھا ؟ کیا تم اسے اپنے والد کے کھانے کی طرح سمجھتے ہو ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٢٨١) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کا کھانا بہت مختصر ہوتا تھا، تمہارے والد عبداللہ بن زبیر کے کھانے کی طرح پرتکلف اور نواع و اقسام کا نہیں ہوتا تھا کہ جس کے کھانے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور جماعت چھوٹ جاتی ہے۔

【25】

کھانے کے وقت دونوں ہاتھ دھونے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء سے نکلے، تو آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، لوگوں نے عرض کیا : کیا ہم آپ کے پاس وضو کا پانی نہ لائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے وضو کرنے کا حکم صرف اس وقت دیا گیا ہے جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٠ (١٨٤٧) ، سنن النسائی/الطہارة ١٠١ (١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٣١ (٣٧٤) ، مسند احمد (١/٢٨٢، ٣٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے شرعی وضو کے وجوب کی نفی کی، نہ کہ مطلق وضو یعنی ہاتھ دھونے کی، اور اگر ہاتھ بھی نہ دھویا تو یہ صرف بیان جواز کے لئے تھا۔

【26】

کھانے سے قبل ہاتھ دھونے کا بیان

سلمان (رض) کہتے ہیں میں نے تورات میں پڑھا کہ کھانے کی برکت کھانے سے پہلے وضو کرنا ہے۔ میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : کھانے کی برکت کھانے سے پہلے وضو کرنا ہے اور کھانے کے بعد بھی ۔ سفیان کھانے سے پہلے وضو کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ضعیف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٣٩ (١٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤١) (ضعیف) (اس کے راوی قیس بن ربیع ضعیف ہیں )

【27】

جلدی میں کھانے کے وقت ہاتھ دھونے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک پہاڑ کی گھاٹی سے قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے اس وقت ہمارے سامنے ڈھال پر کچھ کھجوریں رکھیں تھیں، ہم نے آپ ﷺ کو بلایا تو آپ نے ہمارے ساتھ کھایا اور پانی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٩٧) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابوالزبیر مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں لیکن یہ حدیث صرف سنداً ضعیف ہے، اس کا معنی صحیح ہے )

【28】

کھانے کی برائی کرنا مکروہ ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر رغبت ہوتی تو کھالیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٦٣) ، صحیح مسلم/الأشربة ٣٥ (٢٠٦٤) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٨٤ (٢٠٣١) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤ (٣٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٧٤، ٤٧٩، ٤٨١) (صحیح )

【29】

کھانے پر اجتماع کرنے کا بیان

وحشی بن حرب حبشی حمصی (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن پیٹ نہیں بھرتا تو آپ ﷺ نے فرمایا : شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ مل کر اور بسم اللہ کر کے (اللہ کا نام لے کر) کھاؤ، تمہارے کھانے میں برکت ہوگی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جب تم کسی ولیمہ میں ہو اور کھانا رکھ دیا جائے تو گھر کے مالک (میزبان) کی اجازت کے بغیر کھانا نہ کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٧ (٣٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠١) (حسن) اس کے راوی وحشی بن حرب مستور ہیں

【30】

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے اور کھانا شروع کرتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان (اپنے چیلوں سے) کہتا ہے : نہ یہاں تمہارے لیے سونے کی کوئی جگہ رہی، اور نہ کھانے کی کوئی چیز رہی، اور جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے : چلو تمہیں سونے کا ٹھکانہ مل گیا، اور جب کھانا شروع کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے : تمہیں سونے کی جگہ اور کھانا دونوں مل گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠١٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٩ (٣٨٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٦، ٣٨٣) (صحیح )

【31】

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانے میں موجود ہوتے تو آپ کے شروع کرنے سے پہلے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، ایک مرتبہ ہم لوگ آپ ﷺ کے ساتھ کھانے میں موجود تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی (دیہاتی) آیا گویا کہ وہ دھکیل کر لایا جا رہا ہو، تو وہ کھانے میں ہاتھ ڈالنے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پھر ایک لڑکی آئی گویا وہ دھکیل کر لائی جا رہی ہو، تو وہ بھی اپنا ہاتھ کھانے میں ڈالنے چلی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا، اور فرمایا : شیطان اس کھانے میں شریک یا داخل ہوجاتا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اور بلاشبہ اس اعرابی کو شیطان لے کر آیا تاکہ اس کے ذریعہ کھانے میں شریک ہوجائے، اس لیے میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور اس لڑکی کو بھی شیطان لے کر آیا تاکہ اس کے ذریعہ، اس لیے میں نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھوں کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٣، ٣٨٣، ٣٨٨، ٣٩٧) (صحیح )

【32】

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھائے تو اللہ کا نام لے، اگر شروع میں (اللہ کا نام) بسم اللہ بھول جائے تو اسے یوں کہنا چاہیئے بسم الله أوله وآخره (اس کی ابتداء و انتہاء دونوں اللہ کے نام سے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٧ (١٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٧ (٣٢٦٤) ، مسند احمد (٦/١٤٣، ٢٠٧، ٢٤٦، ٢٦٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١ (٢٠٦٣) (صحیح )

【33】

کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا

مثنی بن عبدالرحمٰن خزاعی اپنے چچا امیہ بن مخشی (رض) سے روایت کرتے ہیں (وہ صحابی رسول ﷺ تھے) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص کھانا کھا رہا تھا اس نے بسم اللہ نہیں کیا یہاں تک کہ اس کا کھانا صرف ایک لقمہ رہ گیا تھا جب اس نے لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو کہا : اس کی ابتداء اور انتہاء اللہ کے نام سے یہ سن کر نبی اکرم ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا : شیطان اس کے ساتھ برابر کھاتا رہا جب اس نے اللہ کا نام لیا تو جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا اس نے قے کردی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٦) (ضعیف) (اس کے راوی مثنیٰ مجہول الحال ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : قے کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو برکت اس کے شریک ہونے سے جاتی رہی تھی پھر لوٹ آئی، گویا وہ برکت شیطان نے اپنے پیٹ میں رکھ لی تھی۔

【34】

ٹیک لگا کر کھانے کا بیان

ابوحجیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا (کیونکہ یہ متکبرین کا طریقہ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٣ (٥٣٩٨) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢٨ (١٨٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٦ (٣٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٨، ٣٠٩) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣١ (٢١١٥) (صحیح )

【35】

ٹیک لگا کر کھانے کا بیان

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی ٹیک لگا کر کھاتے ہوئے نہیں دیکھے گئے، اور نہ ہی آپ کے پیچھے دو آدمیوں کو چلتے دیکھا گیا (بلکہ آپ ﷺ بیچ میں یا سب سے پیچھے چلا کرتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٢١ (٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٥، ١٦٧) (صحیح )

【36】

ٹیک لگا کر کھانے کا بیان

مصعب بن سلیم کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) کو کہتے سنا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے (کہیں) بھیجا جب میں لوٹ کر آپ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ کو پایا کہ آپ کھجوریں کھا رہے ہیں، سرین پر بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں پاؤں کھڑا کئے ہوئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٢٤ (٢٠٤٤) ، سنن الترمذی/الشمائل (١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٠، ٢٠٣) ، دی/ الأطعمة ٢٦ (٢١٠٦) (صحیح )

【37】

پلیٹ کے درمیان سے کھانے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو پلیٹ کے اوپری حصے سے نہ کھائے بلکہ اس کے نچلے حصہ سے کھائے اس لیے کہ برکت اس کے اوپر والے حصہ میں نازل ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١٣ (١٨٠٥، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٢ (٣٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٠، ٣٠٠، ٣٤٣، ٣٤٥، ٣٦٤) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٦ (٢٠٩٠) (صحیح )

【38】

پلیٹ کے درمیان سے کھانے کا بیان

عبداللہ بن بسر (رض) کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک لگن جسے غراء کہا جاتا تھا، اور جسے چار آدمی اٹھاتے تھے، جب اشراق کا وقت ہوا اور لوگوں نے اشراق کی نماز پڑھ لی تو وہ لگن لایا گیا، مطلب یہ ہے اس میں ثرید ١ ؎ بھرا ہوا تھا تو سب اس کے اردگرد اکٹھا ہوگئے، جب لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو رسول اللہ ﷺ گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئے ٢ ؎ ایک اعرابی کہنے لگا : بھلا یہ بیٹھنے کا کون سا طریقہ ہے ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے نیک (متواضع) بندہ بنایا ہے، مجھے جبار و سرکش نہیں بنایا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے کناروں سے کھاؤ اور اوپر کا حصہ چھوڑ دو کیونکہ اس میں برکت دی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٦ (٣٢٦٣) ، ١٢ (٣٢٧٥) ،(تحفة الأشراف : ٥١٩٩ ) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأطعمة ١٦ (٢٠٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک قسم کا کھانا ہے جو روٹی اور شوربے سے تیار کیا جاتا ہے۔ ٢ ؎ : تاکہ اور لوگوں کو بھی جگہ مل جائے اور لوگ آسانی سے بیٹھ سکیں۔

【39】

ایسے دستر خوان پر بیٹھنا جس پر حرام اشیاء بھی ہوں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو جگہ کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے : ایک تو اس دستر خوان پر بیٹھ کر جس پر شراب پی جا رہی ہو اور دوسری وہ جگہ جہاں آدمی اوندھے منہ لیٹ کر کھائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے، جعفر کا سماع زہری سے ثابت نہیں ہے (اس کی دلیل اگلی سند ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٨٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٦١٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٦٢ (٣٣٣٠) (حسن) (مؤلف نے منکر کہا ہے لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٣٣٩٤ )

【40】

دائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کا بیان

اس سند سے بھی زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٨٠٩) (حسن لغیرہ )

【41】

دائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اسے چاہیئے کہ داہنے ہاتھ سے کھائے، اور جب پانی پیے تو داہنے ہاتھ سے پیئے اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠٢٠) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٩ (١٧٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبی ٤ (٦) ، مسند احمد (٢/٨، ٣٣، ١٠٦، ١٤٦) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٩ (٢٠٧٣) (صحیح )

【42】

دائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کا بیان

عمر بن ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے بیٹے ! قریب آجاؤ اور اللہ کا نام (بسم اللہ کہو) لو داہنے ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے سامنے سے کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢ (٥٣٧٦) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٣ (٢٠٢٢) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٧ (١٨٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٧ (٣٢٦٧) ، موطا امام مالک/صفة النبي ١٠ (٣٢) ، مسند احمد (٤/٢٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١ (٢٠٦٢) (صحیح )

【43】

گوشت کھانے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گوشت چھری سے کاٹ کر مت کھاؤ، کیونکہ یہ اہل عجم کا طریقہ ہے بلکہ اسے دانت سے نوچ کر کھاؤ کیونکہ اس طرح زیادہ لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٢٥١) (ضعیف) (اس کے راوی ابو معشر سندھی ضعیف ہیں )

【44】

گوشت کھانے کا بیان

صفوان بن امیہ (رض) کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور اپنے ہاتھ سے گوشت کو ہڈی سے جدا کر رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ہڈی اپنے منہ کے قریب کرو (اور گوشت دانت سے نوچ کر کھاؤ) کیونکہ یہ زیادہ لذیذ اور زود ہضم ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان نے صفوان سے نہیں سنا ہے اور یہ مرسل (یعنی : منقطع) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٣٢ (١٨٣٥) ، مسند احمد (٣/٤٠١، ٦/٤٦٦) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٣٠ (٢١١٤) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے )

【45】

گوشت کھانے کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو عراق (نلی) ١ ؎ میں سب سے زیادہ پسند بکری کی عراق (نلی) تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٢٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عُراق : ایسی ہڈی جس سے گوشت کا زیادہ تر حصہ اتار لیا جائے۔

【46】

گوشت کھانے کا بیان

اسی سند سے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا، (ایک بار) دست کے گوشت میں زہر ملا دیا گیا، آپ کا خیال تھا کہ یہودیوں نے زہر ملایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٣٣) (صحیح )

【47】

لوکی کھانے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کے کھانے کی دعوت کی جسے اس نے تیار کیا، تو میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھانے گیا، آپ کی خدمت میں جو کی روٹی اور شوربہ جس میں کدو اور گوشت کے ٹکڑے تھے پیش کی گئی، میں نے آپ ﷺ کو رکابی کے کناروں سے کدو ڈھونڈھتے ہوئے دیکھا، اس دن کے بعد سے میں بھی برابر کدو پسند کرنے لگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣٠ (٢٠٩٢) ، الأطعمة ٤ (٥٣٧٩) ، ٢٥ (٥٤٢٠) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢١ (٢٠٤١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٤٢ (١٨٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٢٦ (٣٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/النکاح ٢١ (٥١) ، مسند احمد (٣/١٥٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٩ (٢٠٩٤) (صحیح )

【48】

ثرید کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھانا روٹی کا ثرید اور حیس کا ثرید تھا (جسے پنیر اور گھی سے تیار کیا جاتا تھا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ضعیف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٢) (ضعیف) ( اس کی سند میں ایک راوی رجل من اہل البصرة مبہم ہے )

【49】

کھانے کو گندا کہنا

ہلب طائی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور آپ سے ایک شخص نے پوچھا : کھانے کی چیزوں میں بعض ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جن کے کھانے میں میں حرج محسوس کرتا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے دل میں کوئی شبہ نہ آنے دو (اگر اس کے سلسلہ میں تم نے شک کیا اور اپنے اوپر سختی کی تو) تم نے اس میں نصرانیت کے مشابہت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ١٦ (١٥٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٦ (٢٨٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٦) (حسن )

【50】

گندگی کھانے والے جانور اور اس کے دودھ کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاست خور جانور کے گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢٤ (١٨٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١١ (٣١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٧) (صحیح )

【51】

گندگی کھانے والے جانور اور اس کے دودھ کا حکم

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نجاست خور جانور کا دودھ (پینے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ٤٣ (٤٤٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٦١٩١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢٤ (١٨٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢٠ (٣٤٢٠) ، حم ١/٢٢٦، ٢٤١، ٣٣٩) ، وانظر ایضًا رقم : (٣٧١٩) (صحیح )

【52】

گندگی کھانے والے جانور اور اس کے دودھ کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غلاظت کھانے والے اونٹ کی سواری کرنے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٩) (حسن صحیح )

【53】

گھوڑے کے گوشت کھانے کا حکم

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کی ہمیں اجازت دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٩) ، الصید ٢٧ (٥٥٢٠) ، ٢٨ (٥٥٢٤) ، صحیح مسلم/الصید ٦ (١٩٤١) ، سنن النسائی/الصید ٢٩ (٤٣٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٢ (٣١٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٠، ٢٦٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٥ (١٧٩٣) ، مسند احمد (٣/٣٢٢، ٣٥٦، ٣٦١، ٣٦٢، ٣٨٥) ، دی/ الصید ٦ (٢٠٥٥) (صحیح )

【54】

گھوڑے کے گوشت کھانے کا حکم

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کے دن گھوڑے، خچر اور گدھے ذبح کئے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خچر اور گدھوں سے منع فرما دیا، اور گھوڑے سے ہمیں نہیں روکا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٦٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٦، ٣٦٢) (صحیح )

【55】

گھوڑے کے گوشت کھانے کا حکم

خالد بن الولید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے، خچر اور گدھوں کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ حیوۃ نے ہر دانت سے پھاڑ کر کھانے والے درندے کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مالک کا قول ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : گھوڑے کے گوشت میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث منسوخ ہے، خود صحابہ کی ایک جماعت نے گھوڑے کا گوشت کھایا جس میں عبداللہ بن زبیر، فضالہ بن عبید، انس بن مالک، اسماء بنت ابوبکر، سوید بن غفلہ، علقمہ شامل ہیں اور قریش عہد نبوی میں گھوڑے ذبح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٣٠ (٤٣٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٤ (٣١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٩، ٩٠) (ضعیف) (اس کے راوی صالح ضعیف، اور یحییٰ مجہول ہیں، اور یہ جابر کی صحیح روایت کے خلاف ہے )

【56】

خرگوش کھانے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک قریب البلوغ لڑکا تھا، میں نے ایک خرگوش کا شکار کیا اور اسے بھونا پھر ابوطلحہ (رض) نے اس کا پچھلا دھڑ مجھ کو دے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا میں اسے لے کر آیا تو آپ نے اسے قبول کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٥ (٢٥٧٢) ، الصید ١٠ (٥٤٨٩) ، ٣٢ (٥٥٣٥) ، صحیح مسلم/الصید ٩ (١٩٥٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢ (١٧٩٠) ، سنن النسائی/الصید ٢٥ (٤٣١٧) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٧ (٣٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١٧١، ٢٩١) ، سنن الدارمی/الصید ٧ (٢٠٥٦) (صحیح )

【57】

خرگوش کھانے کا بیان

محمد بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد خالد بن حویرث کو کہتے سنا کہ عبداللہ بن عمرو (رض) صفاح میں تھے (محمد (محمد بن خالد) کہتے ہیں : وہ مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے) ایک شخص ان کے پاس خرگوش شکار کر کے لایا، اور کہنے لگا : عبداللہ بن عمرو ! آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی اس کے کھانے سے منع فرمایا، اور آپ ﷺ کا یہ خیال تھا کہ اسے حیض آتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦٢١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی خالد لین الحدیث ہیں )

【58】

گوہ کھانے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان کی خالہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گھی، گوہ اور پنیر بھیجا، آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور گوہ کو گھن محسوس کرتے ہوئے چھوڑ دیا، اور آپ کے دستر خوان پر اسے کھایا گیا، اگر وہ حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کے دستر خوان پر نہیں کھایا جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٧ (٢٥٧٥) ، الأطعمة ٨ (٥٧٨٩) ، ١٦ (٥٤٠٢) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٨) ، صحیح مسلم/الذبائح ٧ (١٩٤٧) ، سنن النسائی/الصید ٢٦ (٤٣٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٥، ٢٨٤، ٣٢٢، ٣٢٩، ٣٤٠، ٢٤٧) (صحیح )

【59】

گوہ کھانے کا بیان

خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ (رض) کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی خدمت میں بھنا ہوا گوہ لایا گیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو میمونہ (رض) کے گھر میں موجود بعض عورتوں نے کہا : نبی کریم ﷺ کو اس چیز کی خبر کر دو جسے آپ کھانا چاہتے ہیں، تو لوگوں نے عرض کیا : (اللہ کے رسول ! ) یہ گوہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ خالد (رض) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے مجھے اس سے گھن محسوس ہوتی ہے ۔ (یہ سن کر) میں اسے کھینچ کر کھانے لگا، رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٠ (٥٣٩١) ، ١٤ (٥٤٠٠) ، الذبائح ٣٣ (٥٥٣٧) ، صحیح مسلم/الذبائح ٧ (١٩٤٦) ، سنن النسائی/الصید ٢٦ (٤٣٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٦ (٣٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٨، ٨٩) ، دی/الصید ٨ (٢٠٦٠) (صحیح )

【60】

گوہ کھانے کا بیان

ثابت بن ودیعہ (رض) کہتے ہیں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں تھے کہ ہم نے کئی گوہ پکڑے، میں نے ان میں سے ایک کو بھونا اور اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے رکھا، آپ ﷺ نے ایک لکڑی لی اور اس سے اس کی انگلیاں شمار کیں پھر فرمایا : بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ کر کے زمین میں چوپایا بنادیا گیا لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کون سا جانور ہے پھر آپ ﷺ نے نہ تو کھایا اور نہ ہی اس سے منع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصید ٢٦ (٤٣٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٦ (٣٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٠) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٥٩) (صحیح )

【61】

گوہ کھانے کا بیان

عبدالرحمٰن بن شبل اوسی انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٧٠٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ ﷺ کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم ﷺ کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے ، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہ زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر ( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے : ۔ ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے ، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈا زرعی اور پانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتا ہے۔ ۔ نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے ، اور خوب پانی پیتا ہے۔ ۔ نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے ، جلد شکار ہوجاتا ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ ۔ نجدی ضب ( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے ، ترقی یافتہ دور سے پہلے مشہو رہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیر کے ساتھ جاکر مضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اور چوری کرتے ، جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی۔ ۔ ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے ، جب کہ نجدی ضب ( گوہ) ایسا نہیں کرتی۔ ۔ ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانور ہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے ، جب کہ نجدی ضب ( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے ، اور کیڑے مکوڑے بھی ، نجدی ضب ( گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے ، لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجود نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو معمولی اور کبھی کبھار ، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کو بھی وہ کھاتا ہے۔ ۔ نجدی ضب ( گوہ) کی کھال کو پکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے ، جس کو ضبة کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ ۔ نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں) میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجود ہے ، اور یہ نبی اکرم ﷺ کی کمال باریک بینی اور کمال بلاغت پر دال ہے ، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی ، حتی کہ اگر سابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی ، اسی کو نبی اکرم ﷺ نے اس طرح بیان کیا کہ اگر سابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیار کریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے ، اور صحراء نجد کے واقف کار خاص کر ضب ( گوہ) کا شکار کرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں ، اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہرآجاتی ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے ؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانورکو وَرَل کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے ، جو ضب کی خلقت پر ہے ، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے ، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے ، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے ، ازہری کہتے ہیں : وَرَل عمدہ قامت اور لمبی دم والاجانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے ، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے ، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری ، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے ، دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتا ہے ، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے ، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتا ہے ، اور یہ صرف ٹڈی ، چھوٹے کیڑے اور سبزگھاس کھاتی ہے ، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی ، اور ورل بچھو ، سانپ ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے ، تریاق ہے ، بہت تیز موٹا کرتا ہے ، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے ، اور اس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو : تاج العروس : مادہ ورل ، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب ( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں ، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت و حرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیے ، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے ، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کا کھانا منع ہے ، اس کو اصطلاح میں جلالہ کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں ، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کردی : نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے ، اور ورل نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے ، ضب گھاس کھاتا ہے ، اور ورل گوشت کھاتا ہے ، ضب چیرپھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے ، جب کہ ورل چیرپھاڑ کرنے والا جانور ہے ، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے ، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے ، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے ، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے ، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے ، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے ، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے ، ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے ، اور ورل نرم ہوتا ہے ، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے ، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا ، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے ، ضب تیز جانور ہے ، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے ، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے ، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے ، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے ، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے ، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے ، اور وَرل میں کچلی دانت ہے ، ضب حلال ہے ، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب ، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آجائے ، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے ، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے ، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیے ، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیے۔ گوہ کی کئی قسمیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں : نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے ، دم سخت اور چھوٹی ، قد بلی کے برابرہوتا ہے ، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے ، رنگ زرد سیاہی مائل ، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ... اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات : ٤٢٧) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں : مشہورجانور ہے ، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے ، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے ، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت ، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ٢٧٥ )

【62】

حباری کھانے کے بیان میں

سفینہ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (پانی کی چڑیا) سرخاب کا گوشت کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٢٦ (١٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٢) (ضعیف) (اس کے راوی بریہ مجہول الحال ہیں )

【63】

حشرات الارض کے کھانے کا بیان

تلب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں رہا لیکن میں نے کیڑے مکوڑوں کی حرمت کے متعلق نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٠٥١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ملقام مجہول الحال ہیں )

【64】

حشرات الارض کے کھانے کا بیان

نمیلہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پاس تھا آپ سے سیہی ١ ؎ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی : قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما اے نبی ! آپ کہہ دیجئیے میں اسے اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا ان کے پاس موجود ایک بوڑھے شخص نے کہا : میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ ناپاک جانوروں میں سے ایک ناپاک جانور ہے ۔ تو ابن عمر (رض) نے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے تو بیشک وہ ایسا ہی ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨١) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی شیخ مبہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : بڑے چوہے کی مانند ایک جانور جس کے پورے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں۔

【65】

None

زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھاتے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلال کر دی وہ حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ: «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما» آپ کہہ دیجئیے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا اخیر تک پڑھی۔

【66】

بجو کھانے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے لکڑبگھا (لگڑ بگڑ) ١ ؎ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : وہ شکار ہے اور جب محرم اس کا شکار کرے تو اسے ایک دنبے کا دم دینا پڑے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٢٨ (٨٥١) ، الأطعمة ٤ (١٧٩٢) ، سنن النسائی/الحج ٨٩ (٢٨٣٩) ، الصید ٢٧ (٤٣٢٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٠ (٣٠٨٥) ، الصید ١٥ (٣٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣١٨، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٩٠ (١٩٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ضبع : ایک درندہ ہے ، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع اضبع ہے (المعجم الوسیط : ٥٣٣-٥٣٤) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے ، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے ، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے ، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے ، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے ، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے ، اکثر رات میں نکلتا ہے ، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے ، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں ، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں ، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے ، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں ، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے ، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے ، یہ جانور مردہ کھاتا ہے ، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے ، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے ، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے ، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں ، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں ، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے ضبع کا ترجمہ بجو سے کیا ہے ، فرماتے ہیں : فارسی زبان میں اسے کفتار اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے ، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے ، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑبگھا ہے ، بجو نہیں ، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجو سے کی گئی ہے ، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے ، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں : ” اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے ، امام شافعی کا یہی قول ہے ، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے ، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا ، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے “ سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے ، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے ، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے ، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے ، جیسے : کتا ، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے : شیر ، بھیڑیا ، چیتا، تیندوا ، لومڑی ، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے ، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے ، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر (رض) کی حدیث ہے ، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر ٤/١٥٢) ، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے ، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربک غفور رحيم ( سورة الأنعام : 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو : الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ٥/١٣٣-١ ٣٤ )

【67】

درندوں کے کھانے کا بیان

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پھاڑ کھانے والے جانوروں میں سے ہر دانت والے جانور کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٩ (٥٥٣٠) ، الطب ٥٧ (٥٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٢) ، الأطعمة ٣٣ (١٩٣٢) ، سنن الترمذی/الصید ١١ (١٤٧٧) ، سنن النسائی/الصید ٢٨ (٤٣٣٠) ، ٣٠ (٤٣٤٨) سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ، سنن الدارمی/ الأضاحی ١٨ (٢٠٢٣) (صحیح )

【68】

درندوں کے کھانے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہر دانت والے درندے، اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصید ٣٣ (٤٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٤) ، مسند احمد (١/٢٤٤، ٢٨٩، ٣٠٢، ٣٢٧، ٣٣٢، ٣٣٩، ٣٧٣) ، دی/ الأضاحی ١٨ (٢٠٢٥) (صحیح )

【69】

درندوں کے کھانے کا بیان

مقدام بن معدیکرب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! دانت والا درندہ حلال نہیں، اور نہ گھریلو گدھا، اور نہ کافر ذمی کا پڑا ہوا مال حلال ہے، سوائے اس مال کے جس سے وہ مستغنی اور بےنیاز ہو، اور جو شخص کسی قوم کے یہاں مہمان بن کر جائے اور وہ لوگ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اسے یہ حق ہے کہ اس کے عوض وہ اپنی مہمانی کے بقدر ان سے وصول کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٥٧١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/العلم ١٠ (٢٦٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٣٤) ، مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح )

【70】

درندوں کے کھانے کا بیان

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرما دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الصید ٣٣ (٤٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/ الصید ١٣ (٣٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٩) (صحیح )

【71】

درندوں کے کھانے کا بیان

خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میں نے خیبر کا غزوہ کیا، تو یہود آ کر شکایت کرنے لگے کہ لوگوں نے ان کے باڑوں کی طرف بہت جلدی کی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! جو کافر تم سے عہد کرلیں ان کے اموال تمہارے لیے جائز نہیں ہیں سوائے ان کے جو جائز طریقے سے ہوں اور تمہارے لیے گھریلو گدھے، گھوڑے، خچر، ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے حرام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ٣٧٩٠، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٩) (ضعیف منکر) (اس کے راوی صالح ضعیف، اور یحییٰ مجہول ہیں، نیز خالد (رض) غزوہ خیبر تک مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے تو اس میں شریک کیسے ہوئے )

【72】

درندوں کے کھانے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلی کی قیمت سے منع فرمایا۔ ابن عبدالملک کی روایت میں بلی کھانے سے اور اس کی قیمت کھانے سے کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٤٩ (١٢٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢٠ (٣٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٤) (ضعیف) (اس کے راوی عمر ضعیف ہیں )

【73】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا، اور ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ عمرو کہتے ہیں: ابوالشعثاء کو میں نے اس حدیث سے باخبر کیا تو انہوں نے کہا: حکم غفاری بھی ہم سے یہی کہتے تھے اور اس «بحر» ( عالم ) نے اس حدیث کا انکار کیا ہے ان کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی ۱؎۔

【74】

آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان

غالب بن ابجر کہتے ہیں ہمیں قحط سالی لاحق ہوئی اور ہمارے پاس گدھوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا جسے ہم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے اور رسول اللہ ﷺ گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام کرچکے تھے، چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کو قحط سالی نے آپکڑا ہے اور ہمارے پاس سوائے موٹے گدھوں کے کوئی مال نہیں جسے ہم اپنے اہل و عیال کو کھلا سکیں اور آپ گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام کرچکے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے اہل و عیال کو اپنے موٹے گدھے کھلاؤ میں نے انہیں گاؤں گاؤں گھومنے کی وجہ سے حرام کیا ہے یعنی نجاست خور گدھوں کو حرام کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرحمٰن سے مراد ابن معقل ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو شعبہ نے عبیدابوالحسن سے، عبید نے عبدالرحمٰن بن معقل سے عبدالرحمٰن بن معقل نے عبدالرحمٰن بن بشر سے انہوں نے مزینہ کے چند لوگوں سے روایت کیا کہ مزینہ کے سردار ابجر یا ابن ابجر نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠١٨) (ضعیف الإسناد/ مضطرب) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے )

【75】

آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا، اور ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ عمرو کہتے ہیں : ابوالشعثاء کو میں نے اس حدیث سے باخبر کیا تو انہوں نے کہا : حکم غفاری بھی ہم سے یہی کہتے تھے اور اس بحر (عالم) نے اس حدیث کا انکار کیا ہے ان کی مراد ابن عباس (رض) سے تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصید ٢٨ (٥٥٢٩) ، انظر حدیث رقم : ٣٧٨٨، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤١٣) (صحیح) (اس سند میں رجل سے مراد محمد بن علی باقر ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ابن عباس (رض) گھریلو گدھا کے کھانے کو جائز مانتے تھے، ہوسکتا ہے کہ انہیں حرمت والی حدیث نہ پہنچی ہو، آیت کریمہ : قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما سے ان کا اس پر استدلال اس لئے صحیح نہیں ہے کہ یہ آیت مکی ہے، اور حرمت مدینہ میں ہوئی تھی۔

【76】

آبادی کے گدھوں کا گوشت کھانے کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے اور نجاست خور جانور کی سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الضحایا ٤٢ (٤٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٩) (حسن صحیح )

【77】

ٹڈی کھانے کا بیان

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ کے بہت سے لشکر ہیں، نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام کرتا ہوں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے معتمر نے اپنے والد سلیمان سے، سلیمان نے ابوعثمان سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، انہوں نے سلمان (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ٩ (٣٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن زبر قان حافظہ کے کمزور ہیں اس لئے ان کی مرفوع روایت معتمر کی مرسل روایت کے بالمقابل مرجوح ہے صحیح سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے )

【78】

ٹڈی کھانے کا بیان

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ایسے ہی فرمایا : اللہ کے بہت سے لشکر ہیں ۔ علی کہتے ہیں : ان کا یعنی ابوالعوام کا نام فائد ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حماد بن سلمہ نے ابوالعوام سے ابوالعوام نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا اور سلمان (رض) کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٥) (ضعیف) ( زکریا کے بالمقابل حماد کی روایت صحیح ہے، اور حماد کی روایت سے یہ روایت مرسل ہے )

【79】

پانی پر تیرتی ہوئی مردہ حالت میں مچھلی کا حکم

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمندر جس مچھلی کو باہر ڈال دے یا جس سے سمندر کا پانی سکڑ جائے تو اسے کھاؤ، اور جو اس میں مر کر اوپر آجائے تو اسے مت کھاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو سفیان ثوری، ایوب اور حماد نے ابو الزبیر سے روایت کیا ہے، اور اسے جابر پر موقوف قرار دیا ہے اور یہ حدیث ایک ضعیف سند سے بھی مروی ہے جو اس طرح ہے : عن ابن أبي ذئب عن أبي الزبير عن جابر عن النبي ﷺ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ١٨ (٣٢٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥٧) (ضعیف) (اس کے راوی یحییٰ حافظہ کے کمزور، اور ابو الزبیر مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )

【80】

پانی پر تیرتی ہوئی مردہ حالت میں مچھلی کا حکم

【81】

جومردار کھانے پر مجبور ہوجائے

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ حرہ میں قیام کیا، تو ایک شخص نے اس سے کہا : میری ایک اونٹنی کھو گئی ہے اگر تم اسے پانا تو اپنے پاس رکھ لینا، اس نے اسے پا لیا لیکن اس کے مالک کو نہیں پاس کا پھر وہ بیمار ہوگئی، تو اس کی بیوی نے کہا : اسے ذبح کر ڈالو، لیکن اس نے انکار کیا، پھر اونٹنی مرگئی تو اس کی بیوی نے کہا : اس کی کھال نکال لو تاکہ ہم اس کی چربی اور گوشت سکھا کر کھا سکیں، اس نے کہا : جب تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہیں لیتا ایسا نہیں کرسکتا چناچہ وہ آپ کے پاس آیا اور اس کے متعلق آپ سے دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تیرے پاس کوئی اور چیز ہے جو تجھے (مردار کھانے سے) بےنیاز کرے اس شخص نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تم کھاؤ ۔ راوی کہتے ہیں : اتنے میں اس کا مالک آگیا، تو اس نے اسے سارا واقعہ بتایا تو اس نے کہا : تو نے اسے کیوں نہیں ذبح کرلیا ؟ اس نے کہا : میں نے تم سے شرم محسوس کی (اور بغیر اجازت ایسا کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢١٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٧، ٨٨، ٨٩، ٩٧، ١٠٤) (حسن الإسناد )

【82】

جومردار کھانے پر مجبور ہوجائے

فجیع عامری (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا : مردار میں سے ہمارے لیے کیا حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کھانا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم شام کو دودھ پیتے ہیں اور صبح کو دودھ پیتے ہیں۔ ابونعیم کہتے ہیں : عقبہ نے مجھ سے اس کی تفسیر یہ کی کہ صبح کو ایک پیالہ پیتے ہیں اور شام کو ایک پیالہ پیتے ہیں میرا کل یہی کھانا ہے قسم ہے میرے والد کی میں بھوکا رہتا ہوں، تو آپ ﷺ نے ایسی صورت حال میں ان کے لیے مردار کو حلال کردیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : غبوق کے معنی دن کے آخری حصہ کے ہیں اور صبوح کے معنی دن کے شروع حصہ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٢١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی عقبہ عامری لین الحدیث ہیں )

【83】

دوطرح کے کھانے ایک وقت میں جمع کرنے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے گندمی رنگ کے گیہوں کی سفید روٹی جو گھی اور دودھ میں چپڑی ہوئی ہو بہت محبوب ہے تو قوم میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اسے بنا کر آپ کی خدمت میں لایا آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کس برتن میں تھا ؟ اس نے کہا : سانڈا (سوسمار) کی کھال کے بنے ہوئے ایک برتن میں تھا آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو اسے اٹھا لے جاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اس حدیث میں وارد ایوب، ایوب سختیانی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٧ (٣٣٤١) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٥١) (ضعیف) (اس کے راوی ایوب بن خوط متروک الحدیث ہیں )

【84】

پنیر کھانے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں نبی اکرم ﷺ کے پاس پنیر لائی گئی آپ نے چھری منگائی اور بسم الله پڑھ کر اسے کاٹا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧١١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الأشربة ٤٠ (٣٠٥٢) ، ٢٠ (٣٨٢٧) (حسن الإسناد )

【85】

سرکہ کا بیان

جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٣٥ (١٨٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٣٣ (٣٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأشربة ٤٠ (٣٠٥٢) ، سنن النسائی/الأیمان ٢٠ (٣٨٢٧) مسند احمد (٣/٣٠٤، ٣٧١، ٣٨٩، ٣٩٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٨ (٢٠٩٢) (صحیح )

【86】

سرکہ کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الأطعمة ٣٠ (٢٠٥٢) ، سنن النسائی/ الأیمان ٢٠ (٣٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٨) (صحیح )

【87】

لہسن کھانے کا بیان

عطا بن ابی رباح کا بیان ہے کہ جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے الگ رہے یا آپ نے فرمایا : ہماری مسجد سے الگ رہے، اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور آپ ﷺ کی خدمت میں ایک طبق لایا گیا جس میں کچھ سبزیاں تھیں، آپ نے اس میں بو محسوس کی تو پوچھا : کس چیز کی سبزی ہے ؟ تو اس میں جس چیز کی سبزی تھی آپ کو بتایا گیا، تو اسے آپ ﷺ نے اپنے بعض ساتھیوں کے پاس لے جانے کو کہا جو آپ کے ساتھ تھے تو جب دیکھا کہ یہ لوگ بھی اسے کھانا ناپسند کر رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم کھاؤ کیونکہ میں ایسی ذات سے سرگوشی کرتا ہوں جس سے تم نہیں کرتے ۔ احمد بن صالح کہتے ہیں : ابن وہب نے بدر کی تفسیر طبق سے کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٠ (٨٥٤) ، الأطعمة ٤٩ (ز ٥٤٥) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١٣ (١٨٠٦) ، سنن النسائی/المساجد ١٦ (٧٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٥٩ (٣٣٦٣) ، مسند احمد (٣/ ٣٧٤، ٣٨٧، ٤٠٠) (صحیح )

【88】

لہسن کھانے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لہسن اور پیاز کا ذکر کیا گیا اور عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ان میں سب سے زیادہ سخت لہسن ہے کیا آپ اسے حرام کرتے ہیں ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے کھاؤ اور جو شخص اسے کھائے وہ اس مسجد (مسجد نبوی) میں اس وقت تک نہ آئے جب تک اس کی بو نہ جاتی رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ٤٤٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٦) ، مسند احمد (٤/٢٥٢) (صحیح )

【89】

لہسن کھانے کا بیان

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قبلہ کی جانب تھوکا تو اس کا تھوک قیامت کے دن اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لگا ہوا آئے گا، اور جس نے ان گندی سبزیوں کو کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے یہ آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٣٢٦) (صحیح )

【90】

لہسن کھانے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اس درخت (لہسن) سے کھائے وہ مسجدوں کے قریب نہ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٠ (٨٥٣) ، صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥٨ (١٠١٦) ، مسند احمد (٢/٢٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢١ (٢٠٩٧) (صحیح )

【91】

لہسن کھانے کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں میں لہسن کھا کر نبی اکرم ﷺ کی مسجد آیا میری ایک رکعت چھوٹ گئی تھی، جب میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے لہسن کی بو محسوس کی، تو جب رسول اللہ ﷺ اپنی نماز پوری کرچکے تو فرمایا : جو شخص اس درخت (لہسن) سے کھائے وہ ہمارے قریب نہ آئے یہاں تک کہ اس کی بو جاتی رہے ۔ راوی کو شک ہے آپ نے ريحها کہا یا ريحه کہا، تو جب میں نے نماز پوری کرلی تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی آپ اپنا ہاتھ مجھے دیجئیے، وہ کہتے ہیں : میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کرتے کے آستین میں داخل کیا اور سینہ تک لے گیا، تو میرا سینہ بندھا ہوا نکلا آپ نے فرمایا : بلاشبہ تو معذور ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٩، ٢٥٢) (صحیح) (اس کے راوی ابو ہلال متکلم فیہ ہیں مگر صحیح ابن خزیمہ میں ان کی صحیح متابعت موجود ہے، نمبر ١٦٧٢ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بھوک کی شدت کی وجہ سے انہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ لیا تھا جس کا بندھن سینے تک تھا، اور انہیں کھانے کے لئے لہسن کے سوا کچھ نہیں ملا تھا جسے کھا کر وہ مسجد آئے تھے۔

【92】

لہسن کھانے کا بیان

قرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان دو درختوں سے منع کیا، اور فرمایا : جو شخص انہیں کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور فرمایا : اگر تمہیں کھانا ضروری ہی ہو تو انہیں پکا کر مار دو ۔ راوی کہتے ہیں : آپ کی مراد پیاز اور لہسن سے تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف : ١١٨٠) ، و قد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٦٦٨١) ، مسند احمد (٤/١٩) (صحیح )

【93】

لہسن کھانے کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں لہسن کھانے سے منع فرمایا گیا ہے مگر یہ کہ پکا ہوا ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شریک (جن کا ذکر سند میں آیا ہے) وہ شریک بن حنبل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١٤ (١٨٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٧) (صحیح )

【94】

لہسن کھانے کا بیان

ابوزیاد خیار بن سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پیاز کے متعلق پوچھا کیا تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جو آخری کھانا تناول کیا اس میں پیاز تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٨٩) (ضعیف) (اس کے راوی خیار بن سلمہ لین الحدیث ہیں )

【95】

کھجور کا بیان

یوسف بن عبداللہ بن سلام کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا آپ نے جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور رکھا اور فرمایا : یہ اس کا سالن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : (٣٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٤) (ضعیف) (اس کے راوی یزیدا لاعور مجہول ہیں )

【96】

کھجور کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس گھر میں کھجور نہ ہو اس گھر کے لوگ فاقہ سے ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ٢٦ (٢٠٤٦) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٧ (١٨١٥) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٣٨ (٣٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الأطعمة ٢٦ (٢١٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ اس وقت کھجور ہی عربوں کی اصل خوراک تھی، اگر گھر اس سے خالی ہو تو ظاہر ہے گھر والوں کو بھوکا رہنا پڑے گا۔ طیبی کہتے ہیں : شاید اس سے مقصود قنات کی ترغیب ہے یعنی جو اس پر قناعت کرلے وہ بھوکا نہیں رہ سکتا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مقصود کھجور کی فضیلت ظاہر کرنی ہے، نئی تحقیقات سے کھجور کی افادیت اور اہمیت واضح ہے۔

【97】

کھجور کھاتے وقت اسے دیکھ کر کھانا چاہیے

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس کچھ پرانے کھجور لائے گئے تو آپ اس میں سے چن چن کر کیڑے (سرسریاں) نکالنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٢ (٣٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١٥) (صحیح )

【98】

کھجور کھاتے وقت اسے دیکھ کر کھانا چاہیے

اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس کھجور لایا جاتا جس میں کیڑے (سرسریاں) ہوتے، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢١٥) (صحیح) (یہ مرسل ہے ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے )

【99】

ایک دفعہ میں کئی کئی کھجوریں ملا کر کھانا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا الا یہ کہ تم اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٤ (٢٤٩٠) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢٥ (٢٠٤٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٦ (١٨١٤) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤١ (٣٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧، ٤٤، ٤٦، ٦٠، ٧٤، ٨١، ١٠٣، ١٣١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٥ (٢١٠٣) (صحیح )

【100】

دو طرح کے کھانوں کو ملا کر کھانے کا بیان

عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ککڑی پکی ہوئی تازی کھجور کے ساتھ کھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٣٩ (٥٤٤٠) ، صحیح مسلم/الأشربة ٢٣ (٢٠٤٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٣٧ (١٨٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٣٧ (٣٣٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٣) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٤ (٢١٠٢) (صحیح )

【101】

دو طرح کے کھانوں کو ملا کر کھانے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تربوز یا خربوزہ پکی ہوئی تازہ کھجور کے ساتھ کھاتے تھے اور فرماتے تھے : ہم اس (کھجور) کی گرمی کو اس (تربوز) کی ٹھنڈک سے اور اس (تربوز) کی ٹھنڈک کو اس (کھجور) کی گرمی سے توڑتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٣٦ (١٨٤٣) (حسن )

【102】

دو طرح کے کھانوں کو ملا کر کھانے کا بیان

بسر سلمی کے لڑکے عبداللہ و عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے آپ کی خدمت میں مکھن اور کھجور پیش کیا، آپ مکھن اور کھجور پسند کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٤٣ (٣٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥١٩٢) (صحیح )

【103】

اہل کتاب کے برتن استعمال کرنے کا حکم

جابر (رض) کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ کرتے تھے تو ہم مشرکین کے برتن اور مشکیزے پاتے تو انہیں کام میں لاتے تو آپ اس کی وجہ سے ہم پر کوئی نکیر نہیں فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٧، ٣٤٣، ٣٧٩، ٣٨٩) (صحیح )

【104】

اہل کتاب کے برتن استعمال کرنے کا حکم

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہا : ہم اہل کتاب کے پڑوس میں رہتے، وہ اپنی ہانڈیوں میں سور کا گوشت پکاتے ہیں اور اپنے برتنوں میں شراب پیتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہیں ان کے علاوہ برتن مل جائیں تو ان میں کھاؤ پیئو، اور اگر ان کے علاوہ برتن نہ ملیں تو انہیں پانی سے دھو ڈالو پھر ان میں کھاؤ اور پیو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصید ٤ (٥٤٧٨) ، ١٠ (٥٤٨٨) ، ١٤ (٥٤٩٦) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٣٠) ، سنن الترمذی/الصید ١ (١٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٣ (٣٢٠٧) (صحیح )

【105】

سمندری جانوروں کے کھانے کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح (رض) کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ابوعبیدہ (رض) ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہوجاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ایک چیز ظاہر ہوئی، جب ہم لوگ اس کے قریب آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک مچھلی ہے جسے عنبر کہتے ہیں۔ ابوعبیدہ (رض) نے کہا : یہ مردار ہے اور ہمارے لیے جائز نہیں۔ پھر وہ کہنے لگے : نہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور تم مجبور ہوچکے ہو لہٰذا اسے کھاؤ، ہم وہاں ایک مہینہ تک ٹھہرے رہے اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم (کھا کھا کر) موٹے تازے ہوگئے، جب ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا : وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے اسے کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٤ (١٩٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٢٤، ٥٠٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١١، ٣٧٨) (صحیح )

【106】

چوہا اگر گھی میں گر جائے تو کیا حکم ہے

ام المؤمنین میمونہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گرگئی تو نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر دی گئی، آپ نے فرمایا : (جس جگہ گری ہے) اس کے آس پاس کا گھی نکال کر پھینک دو اور (باقی) کھاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٧ (٢٣٥) ، والذبائح ٣٤ (٥٥٣٨) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٨ (١٧٩٨) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٩ (٤٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ٧ (٢٠) ، مسند احمد (٦/٣٢٩، ٣٣٠، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٠ (٧٦٥) ( صحیح )

【107】

چوہا اگر گھی میں گر جائے تو کیا حکم ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب چوہیا گھی میں گرجائے تو اگر گھی جما ہو تو چوہیا اور اس کے اردگرد کا حصہ پھینک دو (اور باقی کھالو) اور اگر گھی پتلا ہو تو اس کے قریب مت جاؤ ۔ حسن کہتے ہیں : عبدالرزاق نے کہا : اس روایت کو بسا اوقات معمر نے : عن الزهري عن عبيدالله بن عبدالله عن ابن عباس عن ميمونة عن النبي ﷺ کے طریق سے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٣٠٣، ١٨٠٦٥) (شاذ) ط (کیوں کہ معمر کے سوا زہری کے اکثر تلامذہ اس کو میمونہ کی حدیث سے اور بغیر تفصیل کے روایت کرتے ہیں )

【108】

چوہا اگر گھی میں گر جائے تو کیا حکم ہے

اس سند سے بھی ام المؤمنین میمونہ (رض) سے زہری کی حدیث کے مثل روایت ہے جسے انہوں نے ابن مسیب کے واسطہ سے (ابوہریرہ (رض) سے) روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، أي بھذا السیاق، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٥) (شاذ) (کیوں کہ معمر کے سوا زہری کے دیگر تلامذہ میمونہ کی حدیث سے بھی بغیر تفصیل روایت کرتے ہیں )

【109】

مکھی کھانے میں گر جائے تو کیا حکم ہے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گرجائے تو اسے برتن میں ڈبو دو کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء، اور وہ اپنے اس بازو کو برتن کی طرف آگے بڑھا کر اپنا بچاؤ کرتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے، اس کے پوری مکھی کو ڈبو دینا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفر دبہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٠) ، الطب ٥٨ (٥٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣١ (٣٥٠٥) ، سنن الدارمی/الأطعمة ١٢ (٢٠٨١) (صحیح )

【110】

جو نوالہ گر جائے اس کا کیا حکم ہے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیاں چاٹتے اور فرماتے : جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرجائے تو اسے چاہیئے کہ لقمہ صاف کر کے کھالے اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے نیز آپ ﷺ نے ہمیں پلیٹ صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصہ میں اس کے لیے برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٨ (٢٠٣٤) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١١ (١٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٣١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٧، ٢٩٠) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٨ (٧٠٧١) (صحیح )

【111】

نوکر کو اپنے ساتھ کھلانا چاہیے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کسی کے لیے اس کا خادم کھانا بنائے پھر اسے اس کے پاس لے کر آئے اور اس نے اس کے بنانے میں گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے تو چاہیئے کہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ بٹھائے تاکہ وہ بھی کھائے، اور یہ معلوم ہے کہ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس کے ہاتھ پر ایک یا دو لقمہ ہی رکھ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ١٠ (١٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٤ (١٨٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٧٧، ٢٨٣) (صحیح )

【112】

کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ صاف کرنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک رومال سے نہ پونچھے جب تک کہ اسے خود چاٹ نہ لے یا کسی کو چٹا نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٨ (٢٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٢ (٥٤٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٩ (٣٢٦٩) ، مسند احمد (١/٢٩٣، ٣٤٦، ٣٧٠، ٣/٣٠١) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٦ (٢٠٦٩) (صحیح )

【113】

کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ صاف کرنا

کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور اپنا ہاتھ جب تک چاٹ نہ لیتے پونچھتے نہیں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٨ (٢٠٣٢) ، سنن الترمذی/الشمائل (١٣٧، ١٤١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٤، ٦/٣٨٦) ، دی/ الأطعمة ١٠ (٢٠٧٦) (صحیح )

【114】

کھانے کے بعد کیا کہے

ابوامامہ (رض) کہتے ہیں جب دستر خوان اٹھایا جاتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھتے الحمد لله كثيرا طيبا مبارکا فيه غير مكفي ولا مودع ولا مستغنى عنه ربنا اللہ تعالیٰ کے لیے بہت سارا صاف ستھرا بابرکت شکر ہے، ایسا شکر نہیں جو ایک بار کفایت کرے اور چھوڑ دیا جائے اور اس کی حاجت نہ رہے اے ہمارے رب تو حمد کے لائق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٤ (٥٤٥٨) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٦ (٣٤٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٦ (٣٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٦، ٢٦١، ٢٦٧) سنن الدارمی/الأطعمة ٣ (٢٠٦٦) (صحیح )

【115】

کھانے کے بعد کیا کہے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنے کھانے سے فارغ ہوتے تو یہ کہتے : الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمين تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور مسلمان بنایا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل (١٩١) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٢٨٩، ٢٩٠) (تحفة الأشراف : ٤٠٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥، ٣٢، ٩٨) (ضعیف) (اس سند میں سخت اختلاف ہے، نیز اسماعیل مجہول راوی ہیں )

【116】

کھانے کے بعد کیا کہے

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کھاتے یا پیتے تو کہتے : الحمد لله الذي أطعم وسقى، وسوغه، وجعل له مخرجا ہر طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، اسے خوشگوار بنایا اور اس کے نکلنے کی راہ بنائی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٦٨٩٤) ، الیوم واللیلة (٢٨٥) (صحیح )

【117】

کھانے سے فارغ ہو کر ہاتھ دھونا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سو جائے اور اس کے ہاتھ میں گندگی اور چکنائی ہو اور وہ اسے نہ دھوئے پھر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٤٨ (١٨٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ٢٢ (٣٢٩٦) ، مسند احمد (٢/٢٦٣، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الأطعمة ٢٧ (٢١٠٧) (صحیح )

【118】

دعوت کرنے والے کے لئے دعا کرنا

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں ابوالہیثم بن تیہان نے نبی اکرم ﷺ کے لیے کھانا بنایا پھر آپ کو اور صحابہ کرام کو بلایا، جب یہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا : تم لوگ اپنے بھائی کا بدلہ چکاؤ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کا کیا بدلہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص کسی کے گھر جائے اور وہاں اسے کھلایا اور پلایا جائے اور وہ اس کے لیے دعا کرے تو یہی اس کا بدلہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٧٠) (ضعیف) (اس کی سند میں رجل ایک مبہم راوی ہے )

【119】

دعوت کرنے والے کے لئے دعا کرنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سعد بن عبادہ (رض) کے پاس آئے تو وہ آپ کی خدمت میں روٹی اور تیل لے کر آئے، آپ ﷺ نے اسے کھایا پھر آپ نے یہ دعا پڑھی : أفطر عندکم الصائمون وأكل طعامکم الأبرار وصلت عليكم الملائكة تمہارے پاس روزے دار افطار کیا کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور تمہارے لیے دعائیں کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٨، ١٣٨، ٢٠١) ، سنن الدارمی/الصوم ٥١ (١٨١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ابن ماجہ (١٧٤٧) میں ہے، لیکن اس میں البانی صاحب قرعۃ میں (صحیح دون الفطر عند سعد )

【120】

جن جانوروں کی حرمت کا ذکر قرآن میں آیا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھاتے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا، اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلال کردی وہ حلال ہے اور جو چیز حرام کردی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ : قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما آپ کہہ دیجئیے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا اخیر تک پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٨٦) (صحیح الإسناد)

【121】

جن جانوروں کی حرمت کا ذکر قرآن میں آیا

【122】

جن جانوروں کی حرمت کا ذکر قرآن میں آیا