27. حروف اور قرات کا بیان
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى اور مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لو۔۔۔ (سورۃ البقرہ : ١٢٤) (امر کے صیغہ کے ساتھ بکسر خاء) پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الحج ٣٣ (٨٥٦) ، سنن النسائی/ الحج ١٦٣ (٢٩٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٦ (١٠٠٨) ، انظر حدیث رقم : (١٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٥) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رات میں قیام کیا اور (نماز میں) بلند آواز سے قرآت کی، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ فلاں پر رحم کرے کتنی آیتیں جنہیں میں بھول چلا تھا ١ ؎ اس نے آج رات مجھے یاد دلا دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ میرے ذہن سے نکل چکی تھیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ان آیتوں کا بالکل بھلا دینا منظور نہ تھا، اس لیے اس نے اس آدمی کو قرات کے ذریعہ مجھے پھر یاد دلا دیں۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
مقسم مولیٰ ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ آیت : وما کان لنبي أن يغل نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خیانت کرے۔۔۔ (سورۃ آل عمران : ١٦١) ایک سرخ چادر کے متعلق نازل ہوئی جو بدر کے دن گم ہوگئی تھی تو کچھ لوگوں نے کہا : شاید رسول اللہ ﷺ نے اسے لے لیا ہو تب اللہ تعالیٰ نے : وما کان لنبي أن يغل نازل کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : يغل یا کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة آل عمران ١٧ (٣٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٨٧) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخیلی اور بڑھاپے سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٣، ١١٧) ، انظر حدیث رقم : (١٥٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایسی ضعیفی سے جس میں ہوش و حواس باقی نہ رہیں نہ عبادت کی طاقت رہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں میں بنی منتفق کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تھا، یا بنی منتفق کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تھا پھر انہوں نے حدیث بیان کی کہ آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے لا تحسبن (سین کے زیر کے ساتھ) پڑھا اور لا تحسبن (سین کو زبر کے ساتھ) نہیں پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں مسلمان ایک شخص سے ملے جو اپنی بکریوں کے چھوٹے سے ریوڑ میں تھا اس نے السلام علیکم کہا پھر بھی مسلمانوں نے اسے قتل کردیا اور وہ ریوڑ لے لیا تو یہ آیت کریمہ : ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا تبتغون عرض الحياة الدنيا جو شخص تمہیں سلام کہے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے تم لوگ دنیاوی زندگی کا ساز و سامان یعنی ان بکریوں کو چاہتے ہو (سورۃ النساء : ٩٤) نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النساء ١٧ (٤٥٩١) ، صحیح مسلم/التفسیر (٣٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن النساء ٥ (٣٠٣٠) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
زید بن ثابت انصاری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ لا يستوي القاعدون من المؤمنين کے بعد غير أولي الضرر پڑھتے تھے۔ اور سعید بن منصور نے اپنی روایت میں كان يقرأ نہیں کہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پہلے صرف لا يستوي القاعدون من المؤمنين نازل ہوئی تھی پھر جب لوگوں کو پریشانی ہوئی تو اللہ نے غير أولي الضرر نازل فرما کر آسانی کردی۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے : والعين بالعين (رفع کے ساتھ) پڑھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات ١ (٢٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٥) (ضعیف) (ابوعلی بن یزید مجہول راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : جیسا کہ کسائی کی قرات ہے اور اکثر کے نزدیک نصب کے ساتھ ہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وکتبنا عليهم فيها أن النفس بالنفس والعين بالعين اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ہے (سورۃ المائدہ : ٤٥) (عین کے رفع کے ساتھ) پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٢) (ضعیف )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عطیہ بن سعد عوفی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے : الله الذي خلقکم من ضعف اللہ وہی ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا (سورۃ الروم : ٥٤) (ضاد کے زبر کے ساتھ) پڑھا تو انہوں نے کہا مِنْ ضُعْفٍ (ضاد کے پیش کے ساتھ) ہے میں نے بھی اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے پڑھا تھا جیسے تم نے پڑھا ہے تو آپ ﷺ نے میری گرفت فرمائی جیسے میں نے تمہاری گرفت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة الروم ٤ (٢٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٨) (حسن )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابو سعید خدری (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے مِنْ ضُعْفٍ روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢١١) (حسن )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عبدالرحمٰن بن ابزی کہتے ہیں کہ ابی بن کعب (رض) نے بفضل الله وبرحمته فبذلک فلتفرحوا لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیئے (سورۃ یونس : ٥٨) پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : (تاء کے ساتھ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٣) (حسن صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بفضل الله وبرحمته فبذلک فليفرحواء هو خير مما تجمعون پڑھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں جگہ تاء کے ساتھ پڑھا۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو إنه عمل غير صالح (بصیغہ ماضی) یعنی : اس نے ناسائشہ کام کیا (سورۃ ہود : ٤٦) پڑھتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة ھود ٢ (٢٩٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٤، ٣٢٢، ٤٥٤، ٤٥٩، ٤٦٠) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
شہر بن حوشب کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ آیت کریمہ إنه عمل غير صالح کیسے پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ اسے إنه عمل غير صالح (فعل ماضی کے ساتھ) پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نیز اسے ہارون نحوی اور موسیٰ بن خلف نے ثابت سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے عبدالعزیز نے کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة ھود ٢ (٢٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٨) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب دعا فرماتے تو پہلے اپنی ذات سے شروعات کرتے یوں کہتے : اللہ کی رحمت ہو ہم پر اور موسیٰ پر اگر وہ صبر کرتے تو اپنے ساتھی (خضر) کی طرف سے عجیب عجیب چیزیں دیکھتے، لیکن انہوں نے تو کہہ دیا إن سألتک عن شىء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني اگر اب اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا یقیناً آپ میری طرف سے حد عذر کو پہنچ چکے (سورۃ الکہف : ٧٦) ۔ حمزہ نے لدنی کے نون کو کھینچ کر بتایا کہ آپ یوں پڑھا کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة الکھف ٣ (٢٩٣٣) ، الدعوات ٩ (٣٣٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٤٤ (١٢٢) ، أحادیث الأنبیاء ٢٧ (٣٤٠٠) ، تفسیر القرآن ٢ (٤٧٢٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٦ (٢٣٨٠) (صحیح) دون قولہ : ولکنہ قال …
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قد بلغت من لدني (نون کی تشدید کے ساتھ پڑھا) اور انہوں نے اسے مشدّد پڑھ کے بتایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٢) (ضعیف )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
مصدع ابویحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے سنا وہ کہہ رہے تھے مجھے ابی ابن کعب (رض) نے في عين حمئة دلدل کے چشمہ میں (سورۃ الکہف : ٨٦) تخفیف کے ساتھ پڑھایا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے انہیں مخفف پڑھایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة الکھف ٣ (٢٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٣) (ضعیف )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علیین والوں میں سے ایک شخص جنتیوں کو جھانکے گا تو جنت اس کے چہرے کی وجہ سے چمک اٹھے گی گویا وہ موتی سا جھلملاتا ہوا ستارہ ہے ۔ راوی کہتے ہیں : اسی طرح دري دال کے پیش اور یا کی تشدید کے ساتھ حدیث وارد ہے دال کے زیر اور ہمزہ کے ساتھ نہیں اور آپ نے فرمایا ابوبکرو عمر (رض) بھی انہیں میں سے ہیں بلکہ وہ دونوں ان سے بھی بہتر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/المناقب ١٤ (٣٦٥٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (٩٦) ، مسند احمد (3/٥٠، ٦١) (ضعیف) (دوسرے الفاظ سے یہ صحیح ہے )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
فروہ بن مسیک غطیفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے تو ہم میں ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! سبا کے متعلق مجھے بتائیے کہ وہ کیا ہے ؟ کسی کا نام ہے یا کوئی عورت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ نہ کوئی سر زمین ہے نہ عورت ہے بلکہ ایک شخص کا نام ہے جس کے دس عرب لڑکے ہوئے جس میں سے چھ نے یمن میں رہائش اختیار کرلی اور چار نے شام میں ١ ؎۔ عثمان نے غطیفی کے بجائے غطفانی کہا ہے اور حدثني الحسن بن الحکم النخعي کے بجائے حدثنا الحسن بن الحکم النخعي کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة سبأ ١ (٣٢٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس طرح رفتہ رفتہ ان کی اولاد بڑھی اور وہ ایک قوم بن گئی پھر وہ قوم جس ملک میں رہتی تھی اسے بھی لوگ سبا کہنے لگے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
اس سند سے ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے وحی کی حدیث ١ ؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے قول حتى إذا فزع عن قلوبهم یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے (سورۃ سبا : ٢٣) ٢ ؎ سے یہی مراد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الحجر ١ (٤٧٠١) ، التوحید ٣٢ (٧٤٨١) ، سنن الترمذی/التفسیر ٣٥ (٣٢٢٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری کی کتاب التوحید کا سیاق یہ ہے : إذا قضی اللہ الأمر في السماء ضربت الملائکة بإجنحتہا خضعانا لقولہ کأنہ سلسلة علی صفوان۔ قال علي بن المدیني : وقال غیرہ : صفوان ینفذہم ذلک ۔ فإذا فزع عن قلوبہم قالوا : ماذا قال ربکم ؟ قالوا : الحق وہو العلي الکبیر ۔ ٢ ؎ : فُزِّع قراء کے نزدیک راء معجمہ اور عین مہملہ کے ساتھ ہے لیکن ابوہریرہ (رض) اسے راء مہملہ اور عین معجمہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی قرآت بلى قد جاء تک آياتي فکذبت بها واستکبرت وکنت من الکافرين ہاں بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچ چکی تھیں جنہیں تو نے جھٹلایا اور غرور و تکبر کیا اور تو تھا ہی کافروں میں سے (سورۃ الزمر : ٥٩) ١ ؎ (واحد مونث حاضر کے صیغہ کے ساتھ) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرسل ہے، ربیع نے ام سلمہ (رض) کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٥٠) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : وضاحت ١ ؎ : جمہور کی قرات واحد مذکر حاضر کے صیغہ کے ساتھ ہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فروح وريحان تو عیش و آرام ہے (سورۃ الواقعہ : ٨٩) ١ ؎ (راء کے پیش کے ساتھ) پڑھتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة الواقعة ٦ (٢٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٤، ٢١٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : جمہور کی قرات راء کے زبر کے ساتھ ہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
یعلیٰ بن امیہ۔ منیہ۔ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر ونادوا يا مالک اور پکار پکار کہیں گے اے مالک ! (سورۃ الزخرف : ٧٧) پڑھتے سنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی بغیر ترخیم کے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٣٠) ، و تفسیر القرآن ١ (٣٢٦٦) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧١) ، سنن الترمذی/الجمعة ١٣ (٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٣) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے إني أنا الرزاق ذو القوة المتين ١ ؎ پڑھایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة الذاریات ٨ (٢٩٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٤، ٣٩٧، ٤١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قرات إن الله هو الرزاق ذو القوة المتين ہے یعنی اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں ، توانائی والا اور زور آور ہے (سورۃ الذاریات : ٥٨ )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فهل من مدکر تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا (سورۃ الذاریات : ٥٨) (یعنی دال کو مشدد) پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مُدَّكِّرٍ میم کے ضمہ دال کے فتحہ اور کاف کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٣ (٣٣٤١) ، و تفسیر القرآن ٢ (٤٨٧٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٠ (٨٢٣) ، سنن الترمذی/القراء ات سورة القمر ٥ ( ٢٩٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٥، ٤٠٦، ٤١٣، ٤٣١، ٤٣٧، ٤٦١) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
جابر (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو يحسب أن ماله أخلده ١ ؎ پڑھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٦) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قر a ت بغیر ہمزہ استفہام کے ہے یعنی کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا (سورۃ الہمزۃ : ٣ )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابوقلابہ ایک ایسے شخص سے جس کو رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا ہے روایت کرتے ہیں (کہ یہ آیت کریمہ اس طرح ہے) فيومئذ لا يعذب عذابه أحد * ولا يوثق وثاقه أحد ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کچھ لوگوں نے خالد اور ابوقلابہ کے درمیان ایک مزید واسطہ داخل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧١) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ جب کہ مشہور قرات دونوں میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابوقلابہ کہتے ہیں : مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جسے نبی اکرم ﷺ نے پڑھایا ہے یا جسے ایک ایسے شخص نے پڑھایا ہے جسے نبی اکرم ﷺ نے پڑھا یا ہے کہ فيومئذ لا يعذب (مجہول کے صیغہ کے ساتھ) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عاصم، اعمش، طلحہ بن مصرف، ابوجعفر یزید بن قعقاع، شیبہ بن نصاح، نافع بن عبدالرحمٰن، عبداللہ بن کثیر داری، ابوعمرو بن علاء، حمزہ زیات، عبدالرحمٰن اعرج، قتادہ، حسن بصری، مجاہد، حمید اعرج، عبداللہ بن عباس اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے لا يعذب ولا يوثق صیغہ معروف کے ساتھ پڑھا ہے مگر مرفوع روایت میں يعذب (ذال کے فتحہ کے ساتھ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٨) (ضعیف الإسناد )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث بیان فرمائی جس میں جبرائیل و میکال کا ذکر تھا تو آپ ﷺ نے جبرائل و میکائل پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : خلف کا بیان ہے میں چالیس سال سے برابر لکھ رہا ہوں لیکن جبرائل و میکائل لکھنے میں مجھے جتنی دشواری ہوئی ہے کسی اور چیز میں نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩) (ضعیف الإسناد )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس فرشتہ کا ذکر کیا جو صور لیے کھڑا ہے تو فرمایا : اس کے داہنی جانب جبرائل ہیں اور بائیں جانب میکائل ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٠٥) (ضعیف )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عبدالرزاق کہتے ہیں ہمیں معمر نے زہری کے واسطہ سے خبر دی ہے اور معمر نے کبھی کبھی زہری کے بجائے ابن مسیب کا ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ ابوبکر و عمر اور عثمان مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے تھے اور مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ سب سے پہلے مروان نے پڑھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرسل سند زہری کی حدیث سے جو انس (رض) سے مروی ہے نیز زہری کی اس حدیث سے جو سالم سے مروی ہے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا یا اس کے علاوہ راوی نے کوئی اور کلمہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرآت یوں ہوتی بسم الله الرحمن الرحيم * الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين آپ ہر ہر آیت الگ الگ پڑھتے تھے (ایک آیت کو دوسری آیت میں ملاتے نہیں تھے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد کو کہتے سنا ہے کہ پرانی قرآت مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/القراء ات سورة الفاتحة ١ (٢٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٢، ٣٢٣) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : فإنها تغرب في عين حامية یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے (سورۃ الکہف : ٨٦) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٤ (٣١٩٩) ، و تفسیر القرآن ٣٦ (٤٨٠٣) ، والتوحید ٢٢ (٧٤٢٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٢ (١٥٩) ، سنن الترمذی/الفتن ٢٢ (٢١٨٦) ، تفسیر القرآن سورة یٰسن ٣٧ (٣٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٥، ١٥٢، ١٥٨ ع ١٦٥، ١٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مشہور قرات حَمِئَةٍ ہے یعنی کالی مٹی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
واثلہ بن الاسقع بکری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس مہاجرین کے صفے میں آئے تو آپ سے ایک شخص نے پوچھا : قرآن کی سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : الله لا إله إلا هو الحى القيوم لا تأخذه سنة ولا نوم اللہ ہی معبود برحق ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے اور سب کو تھامنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند (سورۃ البقرہ : ٢٥٥) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٦) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے هَيْتَ لَكَ ١ ؎ پڑھا تو ابو وائل شقیق بن سلمہ نے عرض کیا : ہم تو اسے هِئْتُ لَكَ پڑھتے ہیں تو ابن مسعود (رض) نے کہا : جیسے مجھے سکھایا گیا ہے اسی طرح پڑھنا مجھے زیادہ محبوب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٤ (٤٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معنی ہے آجاؤ (سورۃ یوسف : ٣) اور هئتُ کے معنیٰ ہے میں تیار ہوں۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود (رض) سے کہا گیا کہ کچھ لوگ اس آیت کو وَقَالَتْ هِيتَ لَكَ پڑھتے ہیں تو انہوں نے کہا : جیسے مجھے سکھایا گیا ہے ویسے ہی پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦٥) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل سے فرمایا : ادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة تغفر لکم خطاياكم اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو و اور زبان سے حطة کہو تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے (سورۃ البقرہ : ٥٨) ١ ؎ (بصیغہ واحد مونث غائب مضارع مجہول) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١٨٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تُغْفَرُ بصیغہ واحد مؤنث غائب مضارع مجہول مشہور قرات جمع متکلم مضارع معروف کے صیغے کے ساتھ ہے۔
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
اس سند سے بھی ہشام بن سعد سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١٨٠) (حسن صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے۔
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی اتری تو آپ نے ہمیں سورة أنزلناها وفرضناها یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے (سورۃ النور : ١) پڑھ کر سنایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی مخفف پڑھا ١ ؎ یہاں تک کہ ان آیات پر آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٨) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : مراد فرضناها کی راء ہے، جمہور کی قرات تخفیف راء کے ساتھ ہے، اور ابوعمرو اور ابن کثیر نے اسے تشدید راء کے ساتھ پڑھا ہے۔