29. لباس کا بیان
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو قمیص یا عمامہ (کہہ کر) اس کپڑے کا نام لیتے پھر فرماتے : اللهم لک الحمد أنت کسوتنيه أسألک من خيره وخير ما صنع له وأعوذ بک من شره وشر ما صنع له اے اللہ ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں تو نے ہی مجھے پہنایا ہے، میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ ابونضرہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اس سے کہا جاتا : تو اسے پرانا کرے اور اللہ تجھے اس کی جگہ دوسرا کپڑا عطا کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٩ (١٧٦٧) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠، ٥٠) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے
اس سند سے بھی جریری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٦) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے
اس سند سے بھی جریری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالوہاب ثقفی نے اس میں ابوسعید کا ذکر نہیں کیا ہے اور حماد بنطسلمہ نے جریری سے جریری نے ابوالعلاء سے ابوالعلاء نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد بن سلمہ اور ثقفی دونوں کا سماع ایک ہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٠٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٦) (صحیح )
اس میں کوئی عنوان نہیں ہے
معاذ بن انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کھانا کھایا پھر یہ دعا پڑھی الحمد لله الذي أطعمني هذا الطعام ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیر میری طاقت و قوت کے مجھے یہ عنایت فرمایا تو اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ نیز فرمایا : اور جس نے (نیا کپڑا) پہنا پھر یہ دعا پڑھی : الحمد لله الذي کساني هذا الثوب ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے یہ عنایت فرمایا تو اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٥٦ (٣٤٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١٦ (٣٢٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٥ (٢٧٣٢) (حسن) دون زیادة : ” وما تأخر “ في الموضعین
جو نیا کپڑا پہنے تو اسے کیا دعا دی جائے؟
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو ؟ تو لوگ خاموش رہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ام خالد کو میرے پاس لاؤ چناچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دو بار فرمایا : پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے : اے ام خالد ! سناه سناه اچھا ہے اچھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٨٨ (٣٠٧١) ، المناقب ٣٧ (٣٨٧٤) ، اللباس ٢٢ (٥٨٢٣) ، الأدب ١٧ (٥٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سناہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔
قمیص کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ قمیص پسند تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٨ (١٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٨ (٣٥٧٥) ، مسند احمد (٣٠٦، ٣١٧، ٣١٨، ٣٢١) (صحیح )
قمیص کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ کو قمیص سے زیادہ کوئی اور کپڑا پسند نہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٨١٦٩) (صحیح )
قمیص کا بیان
اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ کے قمیص (کرتے) کی آستین پہنچوں تک تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٨ (١٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٥) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب حافظہ کے کمزور راوی ہیں )
قبا پہننے کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے کچھ ق بائیں تقسیم کیں اور مخرمہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ (رض) نے کہا : بیٹے ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلو چناچہ میں ان کے ساتھ چلا (جب وہاں پہنچے) تو انہوں نے مجھ سے کہا : اندر جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کو میرے لیے بلا لاؤ، تو میں نے آپ کو بلایا، آپ باہر نکلے، آپ انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے (مخرمہ (رض) سے) فرمایا : میں نے اسے تمہارے لیے چھپا کر رکھ لیا تھا تو مخرمہ (رض) نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا آپ نے فرمایا : مخرمہ خوش ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١٩ (٢٥٩٩) ، الشہادات ١١ (٢١٢٧) ، الخمس ١١ (٣١٢٧) ، اللباس ١٢ (٥٨٠٠) ، ٤٢ (٥٨٦٢) ، الأدب ٨٢ (٦١٣٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٤ (١٠٥٨) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٣ (٢٨١٨) ، سنن النسائی/الزینة ٤٥ (٥٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٨) (صحیح )
شہرت ونام ونمود کے لئے پہننے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جس نے شہرت اور ناموری کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اسی طرح کا لباس پہنائے گا۔ شریک کی روایت میں ہے ابن عمر (رض) اسے مرفوع کرتے ہیں یعنی اپنے قول کے بجائے نبی اکرم ﷺ کا قول قرار دیتے ہیں نیز ابوعوانہ سے یہ اضافہ مروی ہے کہ پھر اس کپڑے میں آگ لگا دی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٤ (٣٦٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩٢، ١٣٩) (حسن )
شہرت ونام ونمود کے لئے پہننے کا بیان
مسدد کا بیان ہے کہ ابوعوانہ نے ہم سے بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا کپڑا پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٤٦٤) (حسن )
شہرت ونام ونمود کے لئے پہننے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٠، ٩٢) (حسن صحیح )
اون اور بالوں کا پہننا کیسا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نکلے، آپ پر ایک سیاہ بالوں کی چادر تھی جس میں (کجاوہ) کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ عتبہ بن عبد سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پہننے کے لیے کپڑا مانگا، آپ نے مجھے کتان کے دو کپڑے پہنائے تو میں اپنے کو دیکھتا تو اپنے آپ کو اپنے اور ساتھیوں کے بالمقابل اچھے لباس والا محسوس کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٩ (٢٠٨١) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٩ (٢٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٣، ١٧٨٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٥، ٦/١٦٢) (صحیح )
اون اور بالوں کا پہننا کیسا ہے؟
ابوبردہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے کہا : بیٹے ! اگر تم ہمیں دیکھتے اور ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہوتے اور بارش ہوئی ہوتی تو تم ہم میں بھیڑوں کی بو محسوس کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٣٨ (٢٤٧٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤ (٣٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٧، ٤١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ہمارے کپڑے کھالوں اور بالوں کے ہوتے تھے بھیگنے کی وجہ سے ان سے بھیڑ بکریوں کی بو آتی۔
اون اور بالوں کا پہننا کیسا ہے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ شاہ ذی یزن ١ ؎ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک جوڑا ہدیہ میں بھیجا جسے اس نے (٣٣) اونٹ یا اونٹنیاں دے کرلیا تھا تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٢١) ، سنن الدارمی/السیر ٥٣ (٢٥٣٦) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : ذی یزن حمیری بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا نام تھا۔
اون اور بالوں کا پہننا کیسا ہے؟
اسحاق بن عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جوڑا بیس سے کچھ زائد اونٹنیاں دے کر خریدا پھر آپ نے اسے بادشاہ ذی یزن کو ہدیے میں بھیجا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٣٤) (ضعیف )
اون اور بالوں کا پہننا کیسا ہے؟
ابوبردہ (رض) کہتے ہیں میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے یمن کا بنا ہوا ایک موٹا تہبند اور ایک کمبل جسے ملبدة کہا جاتا تھا نکال کر دکھایا پھر وہ قسم کھا کر کہنے لگیں کہ انہیں دونوں کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٥ (٣١٠٨) ، اللباس ١٩ (٥٨١٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٠) ، سنن الترمذی/اللباس ١٠ (١٧٣٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١ (٣٥٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢، ١٣١) (صحیح )
اون اور بالوں کا پہننا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب خوارج نکلے تو میں علی (رض) کے پاس آیا تو آپ نے کہا : تم ان لوگوں کے پاس جاؤ تو میں یمن کا سب سے عمدہ جوڑا پہن کر ان کے پاس گیا۔ ابوزمیل کہتے ہیں : ابن عباس (رض) ایک خوبصورت اور وجیہ آدمی تھے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : تو میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا : خوش آمدید اے ابن عباس ! اور پوچھا : یہ کیا پہنے ہو ؟ ابن عباس نے کہا : تم مجھ میں کیا عیب نکالتے ہو میں نے رسول اللہ ﷺ کو اچھے سے اچھا جوڑا پہنے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٧٦) (حسن الإسناد )
خز (جو ایک ریشمی کپڑا ہے) کا بیان
سعد بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو بخارا میں ایک سفید خچر پر سوار دیکھا وہ سیاہ خز ١ ؎ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے اس نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے پہنایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة الحاقة ٦٧ (٣٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٨) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : خز : ایک قسم کا ریشمی اونی کپڑا ہے۔
خز (جو ایک ریشمی کپڑا ہے) کا بیان
عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں مجھ سے ابوعامر یا ابو مالک نے بیان کیا اور اللہ کی قسم انہوں نے جھوٹ نہیں کہا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ میری امت میں کچھ لوگ ہوں گے جو خز اور حریر (ریشم) کو حلال کرلیں گے پھر کچھ اور ذکر کیا، فرمایا : ان میں سے کچھ قیامت تک کے لیے بندر بنا دیئے جائیں گے اور کچھ سور ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بیس یا اس سے زیادہ لوگوں نے خز پہنا ہے ان میں سے انس اور براء بن عازب (رض) بھی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، خ تعلیقًا/ الأشربة ٦ (٥٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦١) (صحیح )
ریشم پہننے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک دھاری دار ریشمی جوڑا بکتا ہوا دیکھا تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ اس کو خرید لیتے اور جمعہ کے روز اور وفود سے ملاقات کے وقت اسے زیب تن فرماتے (تو اچھا ہوتا) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر انہیں میں سے کچھ جوڑے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے آپ نے اس میں سے ایک جوڑا عمر بن خطاب کو دیا، تو عمر کہنے لگے : اللہ کے رسول ! یہ آپ مجھے پہنا رہے ہیں حالانکہ آپ عطارد کے جوڑوں کے سلسلہ میں ایسا ایسا فرما چکے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم (خود) پہنو تو عمر بن خطاب (رض) نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی (عثمان بن حکیم) کو دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٠٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٥) (صحیح )
ریشم پہننے کا بیان
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر (رض) سے یہی واقعہ مروی ہے لیکن اس میں دھاری دار ریشمی جوڑے کے بجائے موٹے ریشم کا جوڑا ہے نیز اس میں ہے : پھر آپ نے انہیں دیباج ایک جوڑا بھیجا، اور فرمایا : اسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٩٥) (صحیح )
ریشم پہننے کا بیان
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے عتبہ بن فرقد کو لکھا کہ نبی اکرم ﷺ نے ریشم سے منع فرمایا مگر جو اتنا اور اتنا ہو یعنی دو ، تین اور چار انگلی کے بقدر ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٢٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، سنن النسائی/الزینة ٣٨ (٥٣١٤) ، سنن ابن ماجہ/ الجہاد ٢١ (٣٥٩٣) (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٥، ٣٦، ٤٣) (صحیح )
ریشم پہننے کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک ریشمی دھاری دار جوڑا ہدیہ دیا گیا تو آپ نے اسے میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر آپ ﷺ کی خدمت میں آیا، تو میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناراضگی دیکھی آپ نے فرمایا : میں نے اسے اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم اسے (خود) پہنو آپ نے مجھے حکم دیا، تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٧١) ، سنن النسائی/الزینة ٣٠ (٥٣٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٠ (٥٨٤٠) ، مسند احمد (١/٩٠، ١٣٩، ١٥٣) (صحیح )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قسی (ایک ریشمی کپڑا) اور معصفر (کسم میں رنگا ہوا کپڑا) اور سونے کی انگوٹھی کے پہننے سے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٨٠) ، اللباس ٤ (٢٠٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٠ (٢٦٤) واللباس ٥ (١٧٢٥) ، ١٣ (١٧٣٧) ، سنن النسائی/التطبیق ٧ (١٠٤١) ، والزینة ٤٣ (٥١٨٠) ، الزینة من المجتبی ٢٣ (٥٢٦٩، ٥٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢١ (٣٦٠٢) ، ٤٠ (٣٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٢٨) ، مسند احمد (١/٨٠، ٨١، ٩٢، ١٠٤، ١٠٥، ١١٤، ١١٩، ١٢١، ١٢٣، ١٢٦، ١٢٧، ١٣٢، ١٣٣، ١٣٤، ١٣٧، ١٣٨، ١٤٦) (صحیح )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
اس سند سے بھی بواسطہ علی بن ابی طالب (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں رکوع اور سجدے دونوں میں قرآت کی ممانعت کی بات ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٩) (صحیح )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
اس سند سے بھی ابراہیم بن عبداللہ سے یہی روایت مروی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں منع فرمایا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٠٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٩) (حسن صحیح )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ روم کے بادشاہ نے نبی اکرم ﷺ کو سندس (ایک باریک ریشمی کپڑا) کا ایک چوغہ ہدیہ میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے زیب تن فرمایا۔ گویا میں آپ ﷺ کے ہاتھوں کو اس وقت دیکھ رہا ہوں آپ اسے مل رہے ہیں، پھر آپ نے اسے جعفر (رض) کو بھیج دیا تو اسے پہن کر وہ آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو انہوں نے کہا : پھر میں اسے کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے بھائی نجاشی کو بھیج دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١١، ٢٢٩، ٢٥١) (ضعیف الإسناد )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں سرخ گدوں (زین پوشوں) پر سوار نہیں ہوتا اور نہ کسم کے رنگے کپڑے پہنتا ہوں، اور نہ ایسی قمیص پہنتا ہوں جس پر ریشمی بیل بوٹے بنے ہوں ۔ راوی کہتے ہیں : حسن نے اپنی قمیص کے گریبان کی طرف اشارہ کیا وہ کہتے ہیں۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : سنو ! مردوں کی خوشبو وہ ہے جس میں بو ہو رنگ نہ ہو، سنو ! اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس میں رنگ ہو بو نہ ہو ۔ سعید کہتے ہیں : میرا خیال ہے قتادہ نے کہا : علماء نے عورتوں کے سلسلہ میں آپ کے اس قول کو اس صورت پر محمول کیا ہے جب وہ باہر نکلیں لیکن جب وہ اپنے خاوند کے پاس ہوں تو وہ جیسی بھی خوشبو چاہیں لگائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٣٦ (٢٧٨٩) ، مسند احمد (٤/٤٤٢) (صحیح )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
ابوالحصین ہیثم بن شفی کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی جس کی کنیت ابوعامر تھی اور وہ قبیلہ معافر کے تھے دونوں بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے لیے نکلے، بیت المقدس میں لوگوں کے واعظ و خطیب قبیلہ ازد کے ابوریحانہ نامی ایک صحابی تھے۔ میرے ساتھی مسجد میں مجھ سے پہلے پہنچے پھر ان کے پیچھے میں آیا اور آ کر ان کے بغل میں بیٹھ گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے ابوریحانہ کا کچھ وعظ سنا ؟ میں نے کہا : نہیں، وہ بولے : میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس باتوں سے منع فرمایا ہے : دانت باریک کرنے سے، گودنا گودنے سے، بال اکھیڑنے سے، اور دو مردوں کے ایک ساتھ ایک کپڑے میں سونے سے، اور دو عورتوں کے ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں سونے سے، اور مرد کے اپنے کپڑوں کے نیچے عجمیوں کی طرح ریشمی کپڑا لگانے سے، یا عجمیوں کی طرح اپنے مونڈھوں پر ریشم لگانے سے، اور دوسروں کے مال لوٹنے سے اور درندوں کی کھالوں پر سوار ہونے سے، اور انگوٹھی پہننے سے سوائے بادشاہ کے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث میں انگوٹھی کا ذکر منفرد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٢٠ (٥٠٩٤) ، ٢٧ (٥١١٣، ٥١١٤، ٥١١٥) ، سنن ابن ماجہ/ اللباس ٤٧ (٣٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٤، ١٣٥) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٠ (٢٦٩٠) (ضعیف )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں سرخ گدوں (زین پوشوں) سے منع کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢١) (صحیح )
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی سے اور قسی ١ ؎ پہننے سے اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الأدب ٤٥ (٢٨٠٨) ، سنن النسائی/ الزینة ٤٣ (٥١٦٨) ، سنن ابن ماجہ/ اللباس ٤٦ (٣٦٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٣، ١٠٤، ١٢٧، ١٣٢، ١٣٣، ١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک ریشمی کپڑا جو مصر میں تیار ہوتا تھا۔
ریشمی کپڑے کی ممانعت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی تو آپ کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا : میری یہ چادر ابوجہم کو لے جا کر دے آؤ کیونکہ اس نے ابھی مجھے نماز سے غافل کردیا (یعنی میرا خیال اس کے بیل بوٹوں میں بٹ گیا) اور اس کی جگہ مجھے ایک سادہ چادر لا کر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوجہم بن حذیفہ بنو عدی بن کعب بن غانم میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٩١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠٣) (صحیح ) اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٤) (صحیح )
None
اسی جیسی حدیث مروی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔
منقش اور ریشم کی سلائی والے کپڑوں کی اجازت
عبداللہ ابوعمر مولی اسماء بنت ابی بکر کا بیان ہے میں نے ابن عمر (رض) کو بازار میں ایک شامی کپڑا خریدتے دیکھا انہوں نے اس میں ایک سرخ دھاگہ دیکھا تو اسے واپس کردیا تو میں اسماء (رض) کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو وہ (اپنی خادمہ سے) بولیں بیٹی ! رسول اللہ ﷺ کا جبہ مجھے لا دے، تو وہ نکال کر لائیں وہ ایک طیالسی ١ ؎ جبہ تھا جس کے گریبان اور دونوں آستینوں اور آگے اور پیچھے ریشم ٹکا ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٢١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ١٨ (٣٥٩٤) ، مسند احمد (٦/٣٤٨، ٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک اونی منقش کپڑا۔
منقش اور ریشم کی سلائی والے کپڑوں کی اجازت
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے کپڑے سے جو خالص ریشمی ہو منع فرمایا ہے، رہا ریشمی بوٹا اور ریشمی کپڑے کا تانا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٣، ٣٢١) (صحیح) دون قولہ : فأما العلم …
کسی عذر کی وجہ سے ریشم پہننا جائز ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام (رض) کو کجھلی کی وجہ سے جو انہیں ہوئی تھی سفر میں ریشمی قمیص پہننے کی رخصت دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٩١ (٢٩١٩) ، واللباس ٢٩ (٥٨٣٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٣ (٢٠٧٦) ، سنن النسائی/الزینة من المجتمع ٣٨ (٥٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٧ (٣٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٢ (١٧٢٢) ، مسند احمد (٣/١٢٧، ١٨٠، ٢١٥، ٢٥٥، ٢٧٣) (صحیح )
عورتوں کے لئے ریشم پہننے کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ریشم لے کر اسے اپنے داہنے ہاتھ میں رکھا اور سونا لے کر اسے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا : یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤٠ (٥١٤٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٩ (٣٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٦، ١١٥) (صحیح )
عورتوں کے لئے ریشم پہننے کا بیان
انس بن مالک (رض) کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ام کلثوم (رض) کو ریشمی دھاری دار چادر پہنے دیکھا۔ راوی کہتے ہیں : سیراء کے معنی ریشمی دھاری دار کپڑے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٠ (٥٨٤٢ تعلیقًا) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٣٠ (٥٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ١٩(٣٥٩٨) (صحیح )
عورتوں کے لئے ریشم پہننے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم ریشمی کپڑوں کو لڑکوں سے چھین لیتے تھے اور لڑکیوں کو (اسے پہنے دیکھتے تو انہیں) چھوڑ دیتے تھے۔ مسعر کہتے ہیں : میں نے عمرو بن دینار سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٥٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی مسعر نے جب یہ حدیث عبدالملک بن میسرہ زراد کوفی سے عمرو بن دینار کے واسطہ سے روایت کرتے سنی تو انہوں نے براہ راست عمرو بن دینار سے اس کے بارے میں پوچھا تو عمرو نے لاعلمی کا اظہار کیا ممکن ہے انہیں یہ حدیث یاد نہ رہی ہو وہ بھول گئے ہوں، واللہ اعلم۔
یمنی چادر کے بیان میں
قتادہ کہتے ہیں ہم نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کو کون سا لباس زیادہ محبوب یا زیادہ پسند تھا ؟ تو انہوں نے کہا : دھاری دار یمنی چادر ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ١٨ (٥٨١٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٥ (٢٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٤٥ (١٧٨٧) ، الشمائل ٨ (٦٠) ، مسند احمد (٣/١٣٤، ١٨٤، ٢٥١، ٢٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حبرہ : یمن کے اچھے کپڑوں کو کہتے تھے ، اور یہاں اس سے یمن کی لال رنگ کی خط دار چادر جو سوت یا کتان کی ہوتی تھی مراد ہے ، اور اس کا شمار عرب کے بہترین کپڑوں میں تھا۔
سفید کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ وہ تمہارے بہتر کپڑوں میں سے ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفناؤ اور تمہارے سرموں میں بہترین سرمہ اثمد ہے کیونکہ وہ نگاہ کو تیز کرتا اور (پلکوں کے) بال اگاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٤) (صحیح )
پرانے کپڑوں کا دھونا اور صاف ستھرا رہنا ضروری ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے آپ نے ایک پراگندہ سر شخص کو جس کے بال بکھرے ہوئے تھے دیکھا تو فرمایا : کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے یہ اپنا بال ٹھیک کرلے ؟ اور ایک دوسرے شخص کو دیکھا جو میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو فرمایا : کیا اسے پانی نہیں ملتا جس سے اپنے کپڑے دھو لے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٦ (٥٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٧) (صحیح )
پرانے کپڑوں کا دھونا اور صاف ستھرا رہنا ضروری ہے
مالک بن نضلۃ الجشمی (رض) کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا : کیا تم مالدار ہو ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کس قسم کا مال ہے ؟ تو انہوں نے کہا : اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٥٢ (٥٢٢٥) ، الزینة من المجتبی ٢٨ (٥٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/ ٤٧٣، ٤/١٣٧) (صحیح الإسناد )
زرد رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے کا بیان
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) اپنی داڑھی زرد (زعفرانی) رنگ سے رنگتے تھے یہاں تک کہ ان کے کپڑے زردی سے بھر جاتے تھے، ان سے پوچھا گیا : آپ زرد رنگ سے کیوں رنگتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس سے رنگتے دیکھا ہے آپ کو اس سے زیادہ کوئی اور چیز پسند نہ تھی آپ اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ عمامہ کو بھی اسی سے رنگتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٧ (٥٨٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، سنن النسائی/الزینة ١٧ (٥٠٨٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٤ (٣٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٨) (صحیح الإسناد )
سبز رنگ کا بیان
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ پر دو سبز رنگ کی چادریں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٤٨ (٢٨١٣) ، سنن النسائی/العیدین ١٥ (١٥٧٣) ، الزینة من المجتبی ٤٢ (٥٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٦، ٢٢٧، ٢٢٨) (صحیح )
سرخ رنگ کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گھاٹی سے اترے، آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے، اس وقت میں کسم میں رنگی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھا آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تم نے کیسی اوڑھ رکھی ہے ؟ میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کو ناپسند لگی ہے، تو میں اپنے اہل خانہ کے پاس آیا وہ اپنا ایک تنور سلگا رہے تھے تو میں نے اسے اس میں ڈال دیا پھر میں دوسرے دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے پوچھا : عبداللہ ! وہ چادر کیا ہوئی ؟ تو میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے اسے تنور میں ڈال دیا) تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے اسے اپنے گھر کی کسی عورت کو کیوں نہیں پہنا دیا کیونکہ عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٢١ (٣٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٨١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٩٦) (حسن )
سرخ رنگ کا بیان
ہشام بن غاز کہتے ہیں کہ وہ مضرجہ (چادر) ہوتی ہے جو درمیانی رنگ کی ہو نہ بہت زیادہ لال ہو اور نہ بالکل گلابی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨١١) (صحیح )
سرخ رنگ کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا، اس وقت میں گلابی کسم سے رنگا ہوا کپڑا پہنے تھا آپ نے (ناگواری کے انداز میں) فرمایا : یہ کیا ہے ؟ تو میں نے جا کر اسے جلا دیا پھر نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے پوچھا : تم نے اپنے کپڑے کے ساتھ کیا کیا ؟ تو میں نے عرض کیا : میں نے اسے جلا دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی کسی گھر والی کو کیوں نہیں پہنا دیا ؟ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ثور نے خالد سے مورد (گلابی رنگ میں رنگا ہوا کپڑا) اور طاؤس نے معصفر (کسم میں رنگا ہوا کپڑا) روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٢٤) (ضعیف )
سرخ رنگ کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے ایک شخص گزرا جس کے جسم پر دو سرخ کپڑے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اسے جواب نہیں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٤٥ (٢٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٩١٨) (ضعیف) (سند میں ابویحیی القتات لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں )
سرخ رنگ کا بیان
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے آپ نے ہمارے کجاؤں (پالانوں) پر اور اونٹوں پر ایسے زین پوش دیکھے جس میں سرخ اون کی دھاریاں تھیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نہیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سرخی تم پر غالب ہونے لگی ہے (ابھی تو زین پوش سرخ کئے ہو آہستہ آہستہ اور لباس بھی سرخ پہننے لگو گے) تو رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سن کر ہم اتنی تیزی سے اٹھے کہ ہمارے کچھ اونٹ بدک کر بھاگے اور ہم نے ان زین پوشوں کو کھینچ کر ان سے اتار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٦٣) (ضعیف الإسناد )
سرخ رنگ کا بیان
حریث بن ابح سلیحی کہتے ہیں کہ بنی اسد کی ایک عورت کہتی ہے : میں ایک دن ام المؤمنین زینب (رض) کے پاس تھی اور ہم آپ کے کپڑے گیروے میں رنگ رہے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، جب آپ کی نظر گیروے رنگ پر پڑی تو واپس لوٹ گئے، جب زینب (رض) نے یہ دیکھا تو وہ سمجھ گئیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ ناگوار لگا ہے، چناچہ انہوں نے ان کپڑوں کو دھو دیا اور ساری سرخی چھپا دی پھر رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے اور دیکھا جب کوئی چیز نظر نہیں آئی تو اندر تشریف لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٩) (ضعیف الإسناد )
سرخ رنگ کی اجازت کا بیان
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ کو ایک سرخ جوڑے میں دیکھا اس سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥١) ، اللباس ٣٥ (٥٨٤٨) ، ٦٨ (٥٩٠١) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٥ (٢٣٣٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٤ (١٧٢٤) ، الأدب ٤٧ (٢٨١١) ، المناقب ٨ (٣٦٣٥) ، الشمائل ١ (٦٢) ، ٣ (٦٤) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٥ (٥٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٠ (٣٥٩٩) ، مسند احمد (٤/٢٨١، ٢٩٥) ، وأعاد المؤلف بعضہ فی الترجل (٤٢٨٤) (صحیح )
سرخ رنگ کی اجازت کا بیان
عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں ایک خچر پر خطبہ دیتے دیکھا، آپ پر لال چادر تھی اور علی (رض) آپ کے آگے آپ کی آواز دوسروں تک پہنچا رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٠٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آپ جو کہتے ہیں اسے بلند آواز سے پکار کر کہہ دیتے تاکہ آپ کی باتیں لوگوں کو پہنچ جائیں۔
سیاہ رنگ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک سیاہ چادر رنگی تو آپ نے اس کو پہنا پھر جب اس میں پسینہ لگا اور اون کی بو محسوس کی تو اس کو اتار دیا، آپ کو خوشبو پسند تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٢، ١٤٤، ٢١٩، ٢٤٩) (صحیح )
کپڑوں کے دامن کا ذکر
جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ بحالت احتباء ایک چادر میں لپٹے بیٹھے تھے اور اس کی جھالر آپ کے دونوں پیروں پر تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٣) (ضعیف )
عمامہ کا بیان
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ ایک کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١١ (١٧٣٥) ، سنن النسائی/الحج ١٠٧ (٢٨٧٢) ، الزینة ٥٥ (٥٣٤٦، ٥٣٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٢ (٢٨٢٢) ، اللباس ١٤ (٣٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٨) ، مسند احمد (٣/٣٦٣، ٣٨٧) (صحیح )
عمامہ کا بیان
حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر دیکھا، آپ کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے جس کا کنارہ آپ نے اپنے کندھوں پر لٹکا رکھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٦ (١٠٨) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٥٦ (٥٣٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢٢ (٢٨٢١) ، اللباس ١٥ (٣٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٨ (١٩٨٢) (صحیح )
عمامہ کا بیان
محمد بن علی بن رکانہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے کشتی لڑی تو آپ نے رکانہ کو پچھاڑ دیا۔ رکانہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر پگڑی باندھنے کا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٤٢ (١٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٤) (ضعیف) (سند میں ابوجعفر مجہول راوی ہیں ، اور محمد علی اور ان کے دادا یعنی رکانہ کے درمیان انقطاع ہے )
عمامہ کا بیان
اہل مدینہ کے ایک شیخ کہتے ہیں میں نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے عمامہ باندھا تو اس کا شملہ میرے آگے اور پیچھے دونوں جانب لٹکایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٧٣١) (ضعیف) (شیخ مدینہ مبہم ہے )
صماء کی طرح کپڑا لپیٹنے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے ایک یہ کہ آدمی اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کی شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی ہو اس پر کوئی کپڑا نہ ہو، دوسرے یہ کہ اپنا کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ایک طرف کا حصہ کھلا ہو، اور کپڑا اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٣٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣١٩، ٣٨٠، ٣٩١) (صحیح الإسناد )
صماء کی طرح کپڑا لپیٹنے کی ممانعت
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں صماء ١ ؎ اور احتباء ٢ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢١ (٢٩٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٢٠ (٢٧٦٧) ، سنن النسائی/الزینة ٥٣ (٥٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٣، ٢٩٧، ٣٢٢، ٣٣١، ٣٤٤، ٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صمّاء یہ ہے کہ کپڑا اس طرح جسم پر لپیٹے کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں۔ ٢ ؎ : احتباء : یہ ہے کہ آدمی سرین اور پنڈلیاں کھڑی رکھے اور اوپر سے ایک کپڑا ڈال لے۔
گریبان کھلا رکھنے کا بیان
قرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں قبیلہ مزینہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا پھر ہم نے آپ سے بیعت کی، آپ کچھ قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے، میں نے آپ سے بیعت کی پھر اپنا ہاتھ آپ کی قمیص کے گریبان میں داخل کیا اور مہر نبوت کو چھوا۔ عروہ کہتے ہیں : میں نے معاویہ اور ان کے بیٹے کی قمیص کے بٹن جاڑا ہو یا گرمی ہمیشہ کھلے دیکھے، یہ دونوں کبھی بٹن لگاتے ہی نہیں تھے اپنے گریبان ہمیشہ کھلے رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الشمائل (٥٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١١ (٣٥٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٤، ٤/١٩، ٥/٣٥) (صحیح )
سر ڈھانپنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں ہم اپنے گھر میں گرمی میں عین دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک کہنے والے نے ابوبکر (رض) سے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ سر ڈھانپے ایک ایسے وقت میں تشریف لا رہے ہیں جس میں آپ نہیں آیا کرتے ہیں چناچہ آپ آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی ابوبکر (رض) نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر تشریف لائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ١٦ (٥٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٥٣، ١٦٦٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٩٨) (صحیح )
تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا بیان
ابوجری جابر بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی بات کہتا ہے لوگ اسی کو تسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا : یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، میں نے دو مرتبہ کہا : عليك السلام يا رسول الله آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول آپ ﷺ نے فرمایا : عليك السلام نہ کہو، یہ مردوں کا سلام ہے اس کے بجائے السلام عليك کہو۔ میں اس اللہ کا بھیجا رسول ہوں، جس کو تمہیں کوئی ضرر لاحق ہو تو پکارو وہ تم سے اس ضرر کو دور فرما دے گا، جب تم پر کوئی قحط سالی آئے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہارے لیے غلہ اگا دے گا، اور جب تم کسی چٹیل زمین میں ہو یا میدان پھر تمہاری اونٹنی گم ہوجائے تو اگر تم اس اللہ سے دعا کرو تو وہ اسے لے آئے گا میں نے کہا : مجھے نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا : کسی کو بھی گالی نہ دو ۔ اس کے بعد سے میں نے کسی کو گالی نہیں دی، نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو، نہ بکری کو، اور آپ ﷺ نے فرمایا : کسی بھی بھلائی کے کام کو معمولی نہ سمجھو، اور اگر تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے بات کرو گے تو یہ بھی بھلے کام میں داخل ہے، اور اپنا تہ بند نصف ساق (پنڈلی) تک اونچی رکھو، اور اگر اتنا نہ ہو سکے تو ٹخنوں تک رکھو، اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا، اور اگر تمہیں کوئی گالی دے اور تمہارے اس عیب سے تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم اسے اس کے اس عیب سے عار نہ دلاؤ جسے تم جانتے ہو کیونکہ اس کا وبال اسی پر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢١٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٢٨ (٢٧٢٢) ، سنن النسائی/ الکبری (٩٦٩١) ، مسند احمد (٣/٤٨٢، ٥/٦٣) (صحیح )
تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی غرور اور تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا تو اللہ اسے قیامت کے دن نہیں دیکھے گا یہ سنا تو ابوبکر (رض) نے عرض کیا : میرے تہبند کا ایک کنارہ لٹکتا رہتا ہے جب کہ میں اس کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو جو غرور سے یہ کام کیا کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٥) ، اللباس ١ (٥٧٨٣) ، ٢ (٥٧٨٤) ، ٥ (٥٧٩١) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٥٠ (٥٣٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٩ (٢٠٨٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٨ (١٧٣٠) ، ٩ (١٧٣١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٦ (٣٥٧١) ، ٩ (٣٥٧٦) ، موطا امام مالک/اللباس ٥ (٩) ، مسند احمد (٢/٥، ١٠، ٣٢، ٤٢، ٤٤، ٤٦، ٥٥، ٥٦، ٦٠، ٦٥، ٦٧، ٦٩، ٧٤، ٧٦، ٨١) (صحیح )
تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنا تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : جا وضو کر کے آؤ وہ گیا اور وضو کر کے دوبارہ آیا، پھر آپ نے فرمایا : جاؤ اور وضو کر کے آؤ تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اس کو وضو کا حکم دیتے ہیں پھر چپ ہو رہتے ہیں آخر کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جو اپنا تہ بند ٹخنے کے نیچے لٹکائے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم (٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٤١) (ضعیف )
تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ انہیں رحمت کی نظر سے دیکھے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا میں نے پوچھا : وہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ کے رسول ! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، پھر آپ نے یہی بات تین بار دہرائی، میں نے عرض کیا : وہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ کے رسول ! جو نامراد ہوئے اور گھاٹے اور خسارے میں رہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ٹخنہ سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، اور احسان جتانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٥ (١٢١١) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٩ (٢٥٦٤) ، البیوع ٥ (٤٤٦٣) ، الزینة من المجتبی ٥٠ (٥٣٣٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٨، ١٦٢، ١٦٨، ١٧٨) ، دی/ البیوع ٦٣ (٢٦٤٧) (صحیح )
تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا بیان
اس سند سے بھی ابوذر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے راوی کہتے ہیں : منان وہ ہے جو بغیر احسان جتائے کچھ نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) (صحیح )
تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا بیان
قیس بن بشر تغلبی کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور وہ ابوالدرداء (رض) کے ساتھی تھے، وہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص دمشق میں تھے جنہیں ابن حنظلیہ کہا جاتا تھا، وہ خلوت پسند آدمی تھے، لوگوں میں کم بیٹھتے تھے، اکثر اوقات نماز ہی میں رہتے تھے جب نماز سے فارغ ہوتے تو جب تک گھر نہ چلے جاتے تسبیح و تکبیر ہی میں لگے رہتے۔ ایک روز وہ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم ابو الدرداء کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو ان سے ابوالدرداء نے کہا : کوئی ایسی بات کہئیے جس سے ہمیں فائدہ ہو، اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو تو وہ کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ جہاد کے لیے بھیجا، جب وہ سریہ لوٹ کر واپس آیا تو اس میں کا ایک شخص آیا اور جہاں رسول اللہ ﷺ بیٹھا کرتے تھے وہاں آ کر بیٹھ گیا، پھر وہ اپنے بغل کے ایک شخص سے کہنے لگا : کاش تم نے ہمیں دیکھا ہوتا جب ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی تھی، فلاں نے نیزہ اٹھا کر دشمن پر وار کیا اور وار کرتے ہوئے یوں گویا ہوا لے میرا یہ وار اور میں قبیلہ غفار کا فرزند ہوں بتاؤ تم اس کے اس کہنے کو کیسا سمجھتے ہو ؟ وہ بولا : میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کا ثواب جاتا رہا، ایک اور شخص نے اسے سنا تو بولا : اس میں کوئی مضائقہ نہیں، چناچہ وہ دونوں جھگڑنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے سنا تو فرمایا : سبحان اللہ ! کیا قباحت ہے اگر اس کو ثواب بھی ملے اور لوگ اس کی تعریف بھی کریں ۔ بشر تغلبی کہتے ہیں : میں نے ابوالدرداء کو دیکھا وہ اسے سن کر خوش ہوئے اور اپنا سر ان کی طرف اٹھا کر پوچھنے لگے کہ آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ فرمایا : ہاں، پھر وہ باربار یہی سوال دہرانے لگے یہاں تک کہ میں سمجھا کہ وہ ان کے گھٹنوں پر بیٹھ جائیں گے۔ پھر ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے تو ان سے ابو الدرداء نے کہا : مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس سے ہمیں فائدہ ہو اور آپ کو اس سے کوئی نقصان نہ ہو، تو انہوں نے کہا : ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (جہاد کی نیت سے) گھوڑوں کی پرورش پر صرف کرنے والا اس شخص کے مانند ہے جو اپنا ہاتھ پھیلا کے صدقہ کر رہا ہو کبھی انہیں سمیٹتا نہ ہو ۔ پھر ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے پھر ابوالدرداء نے ان سے کہا : ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو ہمیں فائدہ پہنچائے، تو انہوں نے کہا ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خریم اسدی کیا ہی اچھے آدمی ہیں اگر ان کے سر کے بال بڑھے ہوئے نہ ہوتے، اور تہ بند ٹخنے سے نیچے نہ لٹکتا یہ بات خریم کو معلوم ہوئی تو انہوں نے چھری لے کر اپنے بالوں کو کاٹ کر کانوں کے برابر کرلیا، اور تہ بند کو نصف ساق (پنڈلی) تک اونچا کرلیا۔ پھر دوبارہ ایک اور دن ہمارے پاس سے ان کا گزر ہوا تو ابوالدرداء نے ان سے کہا : ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو ہمیں فائدہ پہنچائے اور جس سے آپ کو کوئی نقصان نہ ہو، تو وہ بولے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اب تم اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہو (یعنی سفر سے واپس گھر پہنچنے والے ہو) تو اپنی سواریاں اور اپنے لباس درست کرلو تاکہ تم اس طرح ہوجاؤ گویا تم تل ہو لوگوں میں یعنی ہر شخص تمہیں دیکھ کر پہچان لے، کیونکہ اللہ فحش گوئی کو، اور قدرت کے باوجود خستہ حالت (پھٹے پرانے کپڑے) میں رہنے کو پسند نہیں کرتا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح ابونعیم نے ہشام سے روایت کیا ہے اس میں حتى تکونوا كأنكم شامة في الناس کے بجائے حتى تکونوا کا لشامة في الناس ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٩، ١٨٠) (ضعیف )
تکبر کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل کا فرمان ہے : بڑائی (کبریائی) میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند، تو جو کوئی ان دونوں چیزوں میں کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٣٨ (٢٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٦ (٤١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٨، ٣٧٦، ٤١٤، ٤٢٧، ٤٤٢) (صحیح )
تکبر کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس کے دل میں رائی کے برابر کبر و غرور ہو اور وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوسکتا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٩ (٩١) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٦١ (١٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٧، ٤١٢، ٤١٦، ٢/١٦٤، ٣/١٢، ١٧) (صحیح )
تکبر کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، وہ ایک خوبصورت آدمی تھا اس نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے خوبصورتی پسند ہے، اور مجھے خوبصورتی دی بھی گئی ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ میں نہیں چاہتا کہ خوبصورتی اور زیب و زینت میں مجھ سے کوئی میری جوتی کے تسمہ کے برابر بھی بڑھنے پائے، کیا یہ کبر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ کبر یہ ہے کہ حق بات کی تغلیط کرے، اور لوگوں کو کمتر سمجھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٤٠) (صحیح الإسناد )
ازار کہاں تک لٹکانا جائز ہے
عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری (رض) سے تہ بند کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے : اچھے جانکار سے تم نے پوچھا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کا تہ بند آدھی پنڈلی تک رہتا ہے، تہ بند پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان میں ہو تو بھی کوئی حرج یا کوئی مضائقہ نہیں، اور جو حصہ ٹخنے سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں رہے گا اور جو اپنا تہ بند غرور و تکبر سے گھسیٹے گا تو اللہ اسے رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٦ (٣٥٧٣) ، (تحفةالأشراف : ٤١٣٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/اللباس ٥ (١٢) ، مسند احمد (٣/٥، ٣١، ٤٤، ٥٢، ٩٧) (صحیح )
ازار کہاں تک لٹکانا جائز ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسبال : تہ بند (لنگی) ، قمیص (کرتے) اور عمامہ (پگڑی) میں ہے، جو ان میں سے کسی چیز کو تکبر اور گھمنڈ سے گھسیٹے گا اللہ اسے قیامت کے روز رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٩ (٣٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٩٧٢٠) (صحیح )
ازار کہاں تک لٹکانا جائز ہے
یزید بن ابی سمیہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بات ازار (تہ بندں، لنگی) کے سلسلہ میں فرمائی ہے وہی قمیص (کرتہ) کے متعلق بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٥٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٠، ١٣٧) (صحیح الإسناد )
ازار کہاں تک لٹکانا جائز ہے
عکرمہ کا بیان ہے کہ انہوں نے ابن عباس (رض) کو دیکھا کہ وہ تہ بند باندھتے ہیں تو اپنے تہ بند کے آگے کے کنارے کو اپنے دونوں قدموں کی پشت پر رکھتے ہیں اور اس کے پیچھے کے حصہ کو اونچا رکھتے ہیں، میں نے ان سے پوچھا : آپ تہ بند ایسا کیوں باندھتے ہیں ؟ تو وہ بولے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی باندھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢١٥) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٩٦٨١) (صحیح الإسناد )
عورتوں کے لباس کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦١ (٥٨٨٥) ، الحدود ٣٣ (٦٨٣٤) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٤ (٢٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٢ (١٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥١، ٢٥٤، ٣٣٠، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢١ (٢٦٩١) (صحیح )
عورتوں کے لباس کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس مرد پر جو عورتوں کا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہے لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٥) (صحیح )
عورتوں کے لباس کا بیان
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) سے پوچھا گیا کہ عورت جوتا پہنتی ہے (جو مردوں کے لیے مخصوص تھا) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مرد بننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٥١) (صحیح )
اللہ تعالیٰ کا فرمان عورتیں اپنی چادریں تھوڑا نیچے لٹکائیں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ انہوں نے انصار کی عورتوں کا ذکر کیا تو ان کی تعریف کی اور ان کا ذکر اچھے انداز میں کیا اور کہا کہ جب سورة النور نازل ہوئی تو وہ پردوں یا تہ بندوں کی طرف بڑھیں اور انہیں پھاڑ کر اوڑھنی اور دوپٹہ بنا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن (النور) ١٢ (٤٧٥٨، ٤٧٥٩) ، مسند احمد (٦/١٨٨) (صحیح الإسناد )
اللہ تعالیٰ کا فرمان عورتیں اپنی چادریں تھوڑا نیچے لٹکائیں کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ جب آیت کریمہ يدنين عليهن من جلابيبهن وہ اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب : ٥٩) نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں نکلتیں تو سیاہ چادروں کی وجہ سے ایسا لگتا گویا ان کے سروں پر کوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨١) (صحیح )
اللہ تعالیٰ کے فرمان چاہیے کہ وہ عورتیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیں ( کا بیان)
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابتدائے اسلام میں ہجرت کرنے والی عورتوں پر رحم فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ وليضربن بخمرهن على جيوبهن اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں (سورۃ النور : ٣١) نازل فرمائی تو انہوں نے اپنے پردوں کو پھاڑ کر اپنی اوڑھنیاں اور دوپٹے بنا ڈالے۔ ابن صالح نے أكنف کے بجائے أكثف کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر رقم حدیث : (٤١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٦٧، ١٦٥٧٧) (صحیح )
اللہ تعالیٰ کے فرمان چاہیے کہ وہ عورتیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیں ( کا بیان)
ابن سرح کہتے ہیں میں نے اپنے ماموں کی کتاب میں عقيل عن ابن شهاب کے طریق سے اسی مفہوم کی روایت دیکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم :( ٤١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٦٧، ١٦٥٧٧) (صحیح )
عورت اپنی زینت کے کن اعضاء کو کھلا رکھ سکتی ہے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، وہ باریک کپڑا پہنے ہوئے تھیں آپ ﷺ نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا : اسماء ! جب عورت بالغ ہوجائے تو درست نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے آپ ﷺ نے اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ روایت مرسل ہے خالد بن دریک نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو نہیں پایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٢) (صحیح )
جو غلام اپنی مالکہ کے بال دیکھے اس کا کیا حکم ہے؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے سینگی لگوانے کی اجازت مانگی تو آپ نے ابوطیبہ کو انہیں سینگی لگانے کا حکم دیا۔ ابوالزبیر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ جابر (رض) نے کہا کہ ابوطیبہ ان کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ بچے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٢٦ (٢٢٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٢٠ (٣٤٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٠) (صحیح )
جو غلام اپنی مالکہ کے بال دیکھے اس کا کیا حکم ہے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فاطمہ (رض) کے پاس ایک غلام لے کر آئے جس کو آپ نے انہیں ہبہ کیا تھا، اس وقت فاطمہ (رض) ایک ایسا کپڑا پہنے تھیں کہ جب اس سے سر ڈھانکتیں تو پاؤں کھل جاتا اور جب پاؤں ڈھانکتیں تو سر کھل جاتا، فاطمہ (رض) جن صورت حال سے دو چار تھیں اسے نبی اکرم ﷺ نے دیکھا تو فرمایا : تم پر کوئی مضائقہ نہیں، یہاں صرف تمہارے والد ہیں یا تمہارا غلام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٩) (صحیح )
اللہ تعالیٰ کا فرمان غیر اولی الایة کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس ایک مخنث (ہجڑا) آتا جاتا تھا اسے لوگ اس صنف میں شمار کرتے تھے جنہیں عورتوں کی خواہش نہیں ہوتی تو ایک دن نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے وہ مخنث آپ کی ایک بیوی کے پاس تھا، اور ایک عورت کی تعریف کر رہا تھا کہ جب وہ آتی ہے تو اس کے پیٹ میں چار سلوٹیں پڑی ہوتی ہیں اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں پڑجاتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! میں سمجھتا ہوں کہ یہ عورتوں کی باتیں جانتا ہے، اب یہ تمہارے پاس ہرگز نہ آیا کرے، تو وہ سب اس سے پردہ کرنے لگیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٣ (٢١٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣٤، ١٧٢٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٩٢٣٧) ، مسند احمد (٦/١٥٢) (صحیح )
اللہ تعالیٰ کا فرمان غیر اولی الایة کا بیان
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی مفہوم کی (حدیث) مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣٤) (صحیح ) اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے : آپ ﷺ نے اسے نکال دیا، اور وہ بیداء میں رہنے لگا، ہر جمعہ کو وہ کھانا مانگنے آیا کرتا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ٤١٠٧، (تحفة الأشراف : ١٦٧٤١) (صحیح )
None
اور اس میں اتنا اضافہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکال دیا، اور وہ بیداء میں رہنے لگا، ہر جمعہ کو وہ کھانا مانگنے آیا کرتا تھا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان غیر اولی الایة کا بیان
اوزاعی سے اس واقعہ کے سلسلہ میں مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! تب تو وہ بھوک سے مرجائے گا تو آپ نے اسے ہفتہ میں دو بار آنے کی اجازت دے دی، وہ آتا اور کھانا مانگ کرلے جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم :( ٤١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٨) (صحیح )
مومن عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دینے والے فرمان الہی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آیت کریمہ وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (سورۃ النور : ٣١) کے حکم سے والقواعد من النساء اللاتي لا يرجون نکاحا بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید نہ رہی ہو (سورۃ النور : ٦٠) کو منسوخ و مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٦) (حسن الإسناد )
مومن عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دینے والے فرمان الہی کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھی، آپ کے پاس ام المؤمنین میمونہ (رض) بھی تھیں کہ اتنے میں ابن ام مکتوم آئے، یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم دونوں ان سے پردہ کرو تو ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں ؟ نہ تو وہ ہم کو دیکھ سکتے ہیں، نہ پہچان سکتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اندھی ہو ؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتی ہو ؟ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے لیے خاص تھا، کیا تمہارے سامنے ابن ام مکتوم (رض) کے پاس فاطمہ بنت قیس (رض) کے عدت گزارنے کا واقعہ نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ بنت قیس (رض) سے فرمایا تھا : تم ابن ام مکتوم کے پاس عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں اپنے کپڑے تم ان کے پاس اتار سکتی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٢٩ (٢٧٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٦) (ضعیف) (سند میں نبہان مولی ام سلمہ مجہول ہیں )
مومن عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دینے والے فرمان الہی کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے غلام کی اپنی لونڈی سے شادی کر دے تو پھر اس کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٢) (حسن )
مومن عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دینے والے فرمان الہی کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنی لونڈی کی اپنے غلام یا مزدور سے شادی کر دے تو پھر وہ اس کے اس حصہ کو نہ دیکھے جو ناف کے نیچے اور گھٹنے کے اوپر ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : صحیح سوار بن داود مزنی صیرفی ہے وکیع کو ان کے نام میں وہم ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٧) (حسن )
دوپٹہ اوڑھنے کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور وہ اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : بس ایک ہی پیچ رکھو دو پیچ نہ کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لية لا ليتين کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی طرح پگڑی نہ باندھو کہ اس کے ایک یا دو پیچ کو دہرا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٣، ٢٩٤، ٢٩٦، ٢٩٧، ٣٠٧) (ضعیف )
مصری کپڑے (جو باریک ہوتے ہیں) عورتوں کا انہیں پہننے کا کیا حکم ہے؟
دحیہ بن خلیفہ کلبی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ سفید اور باریک مصری کپڑے لائے گئے تو ان میں سے آپ نے مجھے بھی ایک باریک کپڑا دیا، اور فرمایا : اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کرلو ان میں ایک کا کرتہ بنا لو اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دو وہ اس کی اوڑھنی بنا لے پھر جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی بیوی سے کہو اس کے نیچے ایک اور کپڑا کرلے تاکہ اس کا بدن ظاہر نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٨) (ضعیف )
دامن کا بیان
صفیہ بنت ابی عبید خبر دیتی ہیں کہ ام المؤمنین ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے جس وقت آپ نے تہبند کا ذکر کیا عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور عورت (کتنا دامن لٹکائے) آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ایک بالشت لٹکائے ام سلمہ نے کہا : تب تو ستر کھل جا یا کرے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر وہ ایک ہاتھ لٹکائے اس سے زیادہ نہ بڑھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٥١ (٥٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٩ (١٧٣١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٣ (٣٥٨٠) ، موطا امام مالک/اللباس ٦ (١٣) ، مسند احمد (٦/٢٩٣، ٢٩٦، ٣٠٩، ٣١٥) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٦ (٢٦٨٦) (صحیح )
دامن کا بیان
اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الزینة من المجتبی ٥١ (٥٣٤١) ، سنن ابن ماجہ/ اللباس ١٣ (٣٥٨٠) ، سنن النسائی/ اللباس ١٣ (٣٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٩، ١٨٢٨٢) ، وانظر ما قبلہ (صحیح )
دامن کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چناچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ اللباس ١٣ (٣٥٨١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٦١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٩ (١٧٣١) ، مسند احمد (٢/١٨، ٩٠) (صحیح )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ میری ایک لونڈی جسے میں نے آزاد کردیا تھا کو صدقہ کی ایک بکری ہدیہ میں ملی تو وہ مرگئی، نبی اکرم ﷺ اس کے پاس سے گزرے تو فرمایا : تم اس کی کھال کو دباغت دے کر اسے اپنے کام میں کیوں نہیں لاتے ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ تو مردار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : صرف اس کا کھانا حرام ہے (نہ کہ اس کی کھال سے نفع اٹھانا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦١ (١٤٩٢) والبیوع ١٠١ (٢٢٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٤، ٣٦٥) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٣ (٤٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٦، ٥٨٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦١٠) ، موطا امام مالک/الصید ٦ (١٦) ، مسند احمد (١/٢٦١، ٣٢٧، ٣٢٩، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٣١) (صحیح )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
اس سند سے بھی زہری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں انہوں نے ام المؤمنین میمونہ (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے، زہری کہتے ہیں : اس پر آپ نے فرمایا : تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا ؟ پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، اور دباغت کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٩) (صحیح )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
معمر کہتے ہیں زہری دباغت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے : اس سے ہر حال میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اوزاعی، یونس اور عقیل نے زہری کی روایت میں دباغت کا ذکر نہیں کیا ہے اور زبیدی، سعید بن عبدالعزیز اور حفص بن ولید نے اس کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف :) (صحیح الإسناد )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب چمڑہ دباغت دے دیا جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٦) ، سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٨) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٣ (٤٢٤٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٢٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصید ٦ (١٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٣٧، ٢٧٩، ٢٨٠، ٣٤٣) ، سنن الدارمی/الأضاحی ٢٠ (٢٠٢٩) (صحیح )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مردار کی کھال سے جب وہ دباغت دے دی جائے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٥ (٤٢٥٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصید ٦ (١٨) ، مسند احمد (٦ /٧٣، ١٠٤، ١٤٨، ١٥٣) ، دي /الأضاحي ٢٠ (٢٠٣٠) (صحیح لغیرہ) (سند میں ام محمد بن عبدالرحمن مجہول ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناپر صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : صحیح موارد الظمآن : ١٢٢، غایة المرام : ٢٦ )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
سلمہ بن محبق (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک میں ایک گھر میں تشریف لائے تو وہاں ایک مشک لٹک رہی تھی آپ نے پانی مانگا تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ مردار کے کھال کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : دباغت سے پاک ہوگئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٣ (٤٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٦، ٥/٦، ٧) (صحیح )
مردہ جانور کی کھال کا بیان
عالیہ بنت سبیع کہتی ہیں کہ میری کچھ بکریاں احد پہاڑ پر تھیں وہ مرنے لگیں تو میں ام المؤمنین میمونہ (رض) کے پاس آئی اور ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے مجھ سے کہا : اگر تم ان کی کھالوں سے فائدہ اٹھاتیں ! تو میں بولی : کیا یہ درست ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، رسول اللہ ﷺ کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹتے ہوئے گزرے، تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم نے اس کی کھال لے لی ہوتی لوگوں نے عرض کیا : وہ تو مری ہوئی ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی اور بیر کی پتی اس کو پاک کر دے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٣ (٤٢٥١، ٤٢٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٤) (صحیح )
جن حضرات کے نزدیک مردار کی کھال پاک نہیں ہوتی ان کی دلیل
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کا مکتوب جہینہ کی سر زمین میں ہمیں پڑھ کر سنایا گیا اس وقت میں نوجوان تھا، اس میں تھا : مرے ہوئے جانور سے نفع نہ اٹھاؤ، نہ اس کی کھال سے، اور نہ پٹھوں سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٩) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٤ (٤٢٥٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٦ (٣٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٠، ٣١١) (صحیح )
جن حضرات کے نزدیک مردار کی کھال پاک نہیں ہوتی ان کی دلیل
حکم بن عتیبہ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ عبداللہ بن عکیم کے پاس جو قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تھے گئے، اندر چلے گئے، میں دروازے ہی پر بیٹھا رہا، پھر وہ لوگ باہر آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ عبداللہ بن عکیم نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے ایک ماہ پیشتر جہینہ کے لوگوں کو لکھا : مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نضر بن شمیل کہتے ہیں : اہاب ایسی کھال کو کہا جاتا ہے جس کی دباغت نہ ہوئی ہو، اور جب دباغت دے دی جائے تو اسے اہاب نہیں کہتے بلکہ اسے شنّ یا قرب ۃ کہا جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حلال مردہ جانوروں کے چمڑوں سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
چیتوں کی کھالوں کا بیان
امیر المؤمنین معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ریشمی زینوں پر اور چیتوں کی کھال پر سواری نہ کرو ۔ ابن سیرین کہتے ہیں : معاویہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے حدیث کی روایت میں متہم نہ تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٧ (٣٦٥٦) ، مسند احمد (٤/٩٣، ٩٤) (صحیح )
چیتوں کی کھالوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں رہتے جن کے ساتھ چیتے کی کھال ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٨) (حسن )
چیتوں کی کھالوں کا بیان
خالد کہتے ہیں مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان (رض) کے پاس آئے، تو معاویہ (رض) نے مقدام سے کہا : کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی (رض) کا انتقال ہوگیا ؟ مقدام نے یہ سن کر انا لله وانا اليه راجعون پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا : کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا : یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا : ایک انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا : آج میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے، اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا، پھر انہوں نے کہا : معاویہ ! اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں، اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹلا دیں، معاویہ بولے : میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے ؟ معاویہ نے کہا : ہاں۔ پھر کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے ؟ کہا : ہاں معلوم ہے، پھر کہا : میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے ؟ کہا : ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا : معاویہ ! قسم اللہ کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں ؟ تو معاویہ نے کہا : مقدام ! مجھے معلوم تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں : پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو سو والوں میں مقرر کیا، مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا، اسدی نے اپنے مال میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا : مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٦ (٤٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١١، ١١٥٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح )
چیتوں کی کھالوں کا بیان
اسامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے درندوں کی کھالوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٣٢ (١٧٧١) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ٦ (٤٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧٤، ٧٥) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ نے فرمایا : جوتے خوب پہنا کرو کیونکہ جب تک آدمی جوتے پہنے رہتا ہے برابر سوار رہتا ہے (یعنی پاؤں اذیت سے محفوظ رہتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٩٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ١٨ (٢٠٩٦) ، مسند احمد (٣/٣٣٧) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ہر جوتے میں دو تسمے (فیتے) لگے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٥ (٣١٠٧) ، اللباس ٤١ (٥٨٥٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٣ (١٧٧٣) ، الشمائل ١٠ (٧١) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٦٢ (٥٣٦٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٧ (٣٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣ /١٢٢، ٢٠٣، ٢٤٥، ٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایک فیتہ انگوٹھے اور اس کے پاس والی انگلی میں لگاتے تھے، جب کہ دوسرا فیتہ بیچ کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی میں لگاتے تھے۔
جوتا پہننے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٩) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلا کرے، دونوں پہنے رکھے یا دونوں اتا r دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٠ (٥٨٥٥) ، صحیح مسلم/اللباس ١٩ (٢٠٩٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٧ (١٧٧٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٩ (١٦١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/اللباس ٧ (١٤) ، مسند احمد (٢ /٢٤٥، ٢٥٣، ٣١٤، ٤٢٤، ٤٤٣، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٢٨) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے ایک جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو جب تک اس کا تسمہ درست نہ کرلے ایک ہی پہن کر نہ چلے، اور نہ ایک موزہ پہن کر چلے، اور نہ بائیں ہاتھ سے کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٠ (٢٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٧١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٣، ٣٢٧) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے کہ جب آدمی بیٹھے تو اپنے جوتے اتار کر اپنے پہلو میں رکھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٧١) (ضعیف الإسناد )
جوتا پہننے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی جوتا پہنے تو پہلے داہنے پاؤں سے شروع کرے، اور جب نکالے تو پہلے بائیں پاؤں سے نکالے، داہنا پاؤں پہنتے وقت شروع میں رہے اور اتارتے وقت اخیر میں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٩ (٥٨٥٤) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٧ (١٧٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ١٩ (٢٠٩٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٨ (٣٦١٦) ، موطا امام مالک/اللباس ٧ (١٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٦٥، ٢٨٣، ٤٣٠، ٤٧٧) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ طاقت بھر اپنے تمام کاموں میں، وضو کرنے میں، کنگھی کرنے میں اور جوتا پہننے میں داہنے سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ مسلم بن ابراہیم کی روایت میں وسواکه بھی ہے یعنی مسواک کرنے میں اور انہوں نے في شأنه كله کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے معاذ نے شعبہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے مسواک کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٨) ، الصلاة ٤٧ (٤٢٦) ، الأطعمة ٥ (٥٣٨٠) ، اللباس ٣٨ (٥٨٥٤) ، ٧٧ (٥٩٢٦) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٩ (٢٦٨) ، اللباس ٤٤ (٢٠٩٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣١٦ (٦٠٨) ، الشمائل ١٠ (٨٠) ، سنن النسائی/الطھارة ٩٠ (١١٢) ، الغسل ١٧ (٤٢١) ، الزینة ٨ (٥٠٦٢) ، الزینة من المجتبی ٩ (٥٢٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٢ (٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٤، ١٣٠، ١٤٧، ١٨٨، ٢٠٢، ٢١٠) (صحیح )
جوتا پہننے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم کپڑے پہنو اور جب وضو کرو تو اپنے داہنے سے شروع کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٢ (٤٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٨ (١٧٦٦) ، مسند احمد (٢/٣٥٤) (صحیح )
بستروں کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بستروں اور بچھونوں کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : ایک بستر تو آدمی کو چاہیئے، ایک اس کی بیوی کو چاہیئے اور ایک مہمان کے لیے اور چوتھا بستر شیطان کے لیے ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٨ (٢٠٨٤) ، سنن النسائی/النکاح ٨٢ (٣٣٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٣، ٣٢٤) (صحیح )
بستروں کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے گھر میں داخل ہوا تو آپ کو ایک تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔ ابن الجراح نے على يساره کا اضافہ کیا ہے یعنی آپ اپنے بائیں پہلو پر ٹیک لگائے تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسحاق بن منصور نے اسے اسرائیل سے روایت کیا ہے اس میں بھی على يساره کا لفظ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٢٨ (٢٧٢٢، ٢٧٢٣) ، الأدب ٢٣ (٢٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ٢١٣٨) (صحیح )
بستروں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اہل یمن کے سفر کے چند ساتھیوں کو دیکھا ان کے بچھونے چمڑوں کے تھے، تو انہوں نے کہا : جسے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے رفقاء کو دیکھنا پسند ہو تو وہ انہیں دیکھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٠) (صحیح الإسناد )
بستروں کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے تو شک اور گدے بنا لیے ؟ میں نے عرض کیا : ہمیں گدے کہاں میسر ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عنقریب تمہارے پاس گدے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٣١) ، النکاح ٦٢ (٥١٦١) ، صحیح مسلم/اللباس ٧ (٢٠٨٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٢٦ (٢٧٧٤) ، سنن النسائی/النکاح ٨٣ (٣٣٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٩) (صحیح )
بستروں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا تکیہ، جس پر آپ رات کو سوتے تھے، ایسے چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٦ (٢٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢٠٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٦ (٦٤٥٦) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٧ (١٧٦١) ، وصفة القیامة ٣٢ (١٧٢٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١١ (٤١٥١) ، مسند احمد (٦ /٤٨، ٥٦، ٧٣، ١٠٨، ٢٠٧، ٢١٢) (صحیح )
بستروں کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گدا چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الزہد ١١ (٤١٥١) ، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٦٩٥١) (صحیح )
بستروں کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ان کا بسترا رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ کے سامنے رہتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤٠ (٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٢٢) (صحیح )
پردے لٹکانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فاطمہ (رض) کے پاس تشریف لائے اور ان کے دروازے پر ایک پردہ لٹکتے دیکھا تو آپ اندر داخل نہیں ہوئے بہت کم ایسا ہو تاکہ آپ اندر جائیں اور پہلے فاطمہ (رض) سے نہ ملیں، اتنے میں علی (رض) آگئے تو فاطمہ (رض) کو غمگین دیکھا تو پوچھا : کیا بات ہے ؟ فاطمہ (رض) نے کہا : نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تھے لیکن اندر نہیں آئے، علی (رض) یہ سن کر آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ فاطمہ (رض) پر یہ بات بڑی گراں گزری ہے کہ آپ ان کے پاس تشریف لائے اور اندر نہیں آئے، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے دنیا سے کیا سروکار، مجھے نقش و نگار سے کیا واسطہ ؟ یہ سن کر وہ واپس فاطمہ (رض) کے پاس آئے، اور آپ نے جو فرمایا تھا انہیں بتایا، اس پر فاطمہ (رض) نے کہا : جا کر رسول اللہ ﷺ سے پوچھیے کہ اس پردے کے متعلق آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس سے کہو : اسے وہ بنی فلاں کو بھیج دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة وفضلھا ٢٧ (٢٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١) (صحیح )
پردے لٹکانے کا بیان
فضیل سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ وہ ایک منقش پردہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٢٥٢) (صحیح )
جس کپڑے میں صلیب بنی ہو اس کا کیا حکم ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کسی ایسی چیز کو جس میں صلیب کی تصویر بنی ہوتی بغیر کاٹے یا توڑے نہیں چھوڑتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٩٠ (٥٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٥٢، ٢٣٧، ٢٥٢) (صحیح )
تصاویر کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر، کتا، یا جنبی (ناپاک شخص) ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩١) (صحیح )
تصاویر کا بیان
ابوطلحہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا مجسمہ ہو ۔ زید بن خالد نے جو اس حدیث کے راوی ہیں سعید بن یسار سے کہا : میرے ساتھ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس چلو ہم ان سے اس بارے میں پوچھیں گے چناچہ ہم گئے اور جا کر پوچھا : ام المؤمنین ! ابوطلحہ نے ہم سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ایسا ایسا فرمایا ہے تو کیا آپ نے بھی نبی اکرم ﷺ کو اس کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ آپ نے کہا : نہیں، لیکن میں نے جو کچھ آپ کو کرتے دیکھا ہے وہ میں تم سے بیان کرتی ہوں، رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ میں نکلے، میں آپ کی واپسی کی منتظر تھی، میں نے ایک پردہ لیا جو میرے پاس تھا اور اسے دروازے کی پڑی لکڑی پر لٹکا دیا، پھر جب آئے تو میں نے آپ کا استقبال کیا اور کہا : سلامتی ہو آپ پر اے اللہ کے رسول ! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، شکر ہے اس اللہ کا جس نے آپ کو عزت بخشی اور اپنے فضل و کرم سے نوازا، آپ ﷺ نے گھر پر نظر ڈالی، تو آپ کی نگاہ پردے پر گئی تو آپ نے میرے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا، میں نے آپ کے چہرہ پر ناگواری دیکھی، پھر آپ ﷺ پردے کے پاس آئے اور اسے اتار دیا اور فرمایا : اللہ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا ہے کہ ہم اس کی عطا کی ہوئی چیزوں میں سے پتھر اور اینٹ کو کپڑے پہنائیں پھر میں نے کاٹ کر اس کے دو تکیے بنا لیے، اور ان میں کھجور کی چھال کا بھراؤ کیا، تو آپ ﷺ نے میرے اس کام پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٢٥) ، ١٧ (٣٣٢٢) ، المغازي ١٢ (٤٠٠٢) ، اللباس ٨٨ (٥٩٤٩) ، ٩٢ (٥٩٥٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٤ (٢٨٠٤) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ١١ (٤٢٨٧) ، الزینة من المجتبی ٥٧ (٥٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٤ (٣٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٩، ٣٧٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاستئذان ٣ (٦) ، مسند احمد (٤/٢٨، ٢٩، ٣٠) (صحیح )
تصاویر کا بیان
اس سند سے بھی سہیل سے اسی طرح مروی ہے اس میں فقلنا يا أم المؤمنين إن أبا طلحة حدثنا عن رسول الله ﷺ کے بجائے فقلت يا أمه إن هذا حدثني أن النبي ﷺ قال ہے نیز اس میں سعيد بن يسار الأنصاري کے بجائے سعيد بن يسار مولى بني النجار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٩) (صحیح الإسناد )
تصاویر کا بیان
زید بن خالد (رض) ابوطلحہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے ہیں جس میں تصویر ہو ۔ بسر جو حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں : پھر زید بن خالد بیمار ہوئے تو ہم ان کی عیادت کرنے کے لیے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے دروازے پر ایک پردہ لٹک رہا ہے جس میں تصویر ہے تو میں نے ام المؤمنین میمونہ کے ربیب (پروردہ) عبیداللہ خولانی سے کہا : کیا زید نے ہمیں تصویر کی ممانعت کے سلسلہ میں اس سے پہلے حدیث نہیں سنائی تھی (پھر یہ کیا ہوا ؟ ) تو عبیداللہ نے کہا : کیا آپ نے ان سے نہیں سنا تھا انہوں نے یہ بھی تو کہا تھا سوائے اس نقش و نگار کے جو کپڑے پر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٥) (صحیح )
تصاویر کا بیان
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے وقت جب آپ بطحاء میں تھے عمر بن خطاب (رض) کو حکم دیا کہ وہ کعبہ میں جائیں اور جتنی تصویریں ہوں سب کو مٹا ڈالیں، آپ اس وقت تک کعبہ کے اندر تشریف نہیں لے گئے جب تک سبھی تصویریں مٹا نہ دی گئیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣١٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٣٥، ٣٣٦، ٣٨٣، ٣٨٥، ٣٩٦) (حسن صحیح )
تصاویر کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین میمونہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) نے آج رات مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ مجھ سے نہیں ملے پھر آپ کو خیال آیا کہ ہماری چارپائی کے نیچے کتے کا پلا ہے، چناچہ آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ نکالا گیا، پھر اپنے ہاتھ میں پانی لے کر آپ نے وہاں چھڑکاؤ کیا تو جبرائیل آپ سے ملے اور کہنے لگے : ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو پھر صبح ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ چھوٹے باغوں کے کتوں کو بھی مار ڈالنے کا حکم دے رہے تھے صرف آپ بڑے باغوں کے کتوں کو چھوڑ رہے تھے (کیونکہ بغیر کتوں کے ان کی دیکھ ریکھ دشوار ہوتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٥) ، سنن النسائی/الصید ٩ (٢٤٨١) ، ١١ (٤٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٠) (صحیح )
تصاویر کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) نے آ کر کہا : میں کل رات آپ کے پاس آیا تھا لیکن اندر نہ آنے کی وجہ صرف وہ تصویریں رہیں جو آپ کے دروازے پر تھیں اور آپ کے گھر میں (دروازے پر) ایک منقش پردہ تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور گھر میں کتا بھی تھا تو آپ کہہ دیں کہ گھر میں جو تصویریں ہوں ان کا سر کاٹ دیں تاکہ وہ درخت کی شکل کی ہوجائیں، اور پردے کو پھاڑ کر اس کے دو غالیچے بنالیں تاکہ وہ بچھا کر پیروں سے روندے جائیں اور حکم دیں کہ کتے کو باہر نکال دیا جائے ، تو رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا، اسی دوران حسن یا حسین (رض) کا کتا ان کے تخت کے نیچے بیٹھا نظر آیا، آپ نے حکم دیا تو وہ بھی باہر نکال دیا گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نضد چارپائی کی شکل کی ایک چیز ہے جس پر کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٤٤ (٢٨٠٦) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٦٠ (٥٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٥، ٣٠٨، ٤٧٨) (صحیح )