3. دعاؤں کا بیان
دعا کا بیان
سعد (رض) کے ایک بیٹے سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : میرے والد نے مجھے کہتے سنا : اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا اور اس کی نعمتوں، لذتوں اور فلاں فلاں چیزوں کا سوال کرتا ہوں اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم سے، اس کی زنجیروں سے، اس کے طوقوں سے اور فلاں فلاں بلاؤں سے، تو انہوں نے مجھ سے کہا : میرے بیٹے ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : عنقریب کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعاؤں میں مبالغہ اور حد سے تجاوز کریں گے، لہٰذا تم بچو کہ کہیں تم بھی ان میں سے نہ ہوجاؤ جب تمہیں جنت ملے گی تو اس کی ساری نعمتیں خود ہی مل جائیں گی اور اگر تم جہنم سے بچا لیے گئے تو اس کی تمام بلاؤں سے خودبخود بچا لئے جاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٩٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٢، ١٨٣) (حسن صحیح )
دعا کا بیان
صحابی رسول فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ پر درود (نماز) بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا ، پھر اسے بلایا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم ﷺ پر درود (نماز) بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٦٥ (٣٤٧٧) ، سنن النسائی/السہو ٤٨ (١٢٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨) (صحیح )
دعا کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جامع دعائیں ١ ؎ پسند فرماتے اور جو دعا جامع نہ ہوتی اسے چھوڑ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٨، ١٨٨، ١٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جامع دعائیں یعنی جن کے الفاظ مختصر اور معانی زیادہ ہوں، یا جو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کی جامع ہو، جیسے : ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار وغیرہ دعائیں۔
دعا کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اس طرح دعا نہ مانگے : اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر، بلکہ جزم کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٢١ (٦٣٣٩) ، والتوحید ٣١ (٧٤٧٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٨ (٣٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٧٢، ١٣٨١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکر والدعا ٣ (٢٦٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٨ (٣٨٥٤) ، موطا امام مالک/ القرآن ٨ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٤٣، ٤٥٧، ٢٨٦) (صحیح )
دعا کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور یہ کہنے نہیں لگتا کہ میں نے تو دعا مانگی لیکن میری دعا قبول ہی نہیں ہوئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٢٢ (٦٣٤٠) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٥ (٢٧٣٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٢ (٣٣٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٨ (٣٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القرآن ٨ (٢٩) ، مسند احمد (٢/٤٨٧، ٣٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : دعا میں جلد بازی بےادبی ہے، اور اس کا نتیجہ محرومی ہے۔
دعا کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اور یہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١٩ (٣٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٨) (ضعیف) (عبداللہ بن یعقوب کے شیخ مبہم ہیں )
دعا کا بیان
مالک بن یسار سکونی عوفی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اللہ سے مانگو تو اپنی سیدھی ہتھیلیوں سے مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سلیمان بن عبدالحمید نے کہا : ہمارے نزدیک انہیں یعنی مالک بن یسار کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٩) (حسن صحیح )
دعا کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں طرح سے دعا مانگتے دیکھا اپنی دونوں ہتھیلیاں سیدھی کر کے بھی اور ان کی پشت اوپر کر کے بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عام حالات میں ہتھیلیوں کا اندرونی حصہ چہرہ کی طرف اور استسقاء میں اندرونی حصہ زمین کی طرف اور پشت چہرہ کی طرف کر کے۔
دعا کا بیان
سلمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا رب بہت باحیاء اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٥ (٣٥٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٣ (٣٨٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٨) (صحیح )
دعا کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مانگنا یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے بالمقابل یا ان کے قریب اٹھاؤ، اور استغفار یہ ہے کہ تم صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو اور ابتہال (عاجزی و گریہ وزاری سے دعا مانگنا) یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھ پوری طرح پھیلا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٦) (صحیح )
دعا کا بیان
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : ابتہال اس طرح ہے اور انہوں نے دونوں ہاتھ اتنے بلند کئے کہ ہتھیلیوں کی پشت اپنے چہرے کے قریب کردی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٦) (صحیح )
دعا کا بیان
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٦، ١٨٨٨٠) (صحیح )
دعا کا بیان
یزید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب دعا مانگتے تو اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے اور انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢١) (ضعیف) (اس کے راوی ابن لھیعہ ضعیف ہیں اور حفص بن ہاشم مجہول ہیں )
دعا کا بیان
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہتے سنا : اللهم إني أسألك أني أشهد أنك أنت الله لا إله إلا أنت، الأحد، الصمد، الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ : میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں، تو تنہا اور ایسا بےنیاز ہے جس نے نہ تو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : تو نے اللہ سے اس کا وہ نام لے کر مانگا ہے کہ جب اس سے کوئی یہ نام لے کر مانگتا ہے تو عطا کرتا ہے اور جب کوئی دعا کرتا ہے تو قبول فرماتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٦٤ (٣٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٩ (٣٨٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٩، ٣٥٠، ٣٦٠) (صحیح )
دعا کا بیان
اس سند سے بھی بریدہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : لقد سألت الله عزوجل باسمه الأعظم تو نے اللہ سے اس کے اسم اعظم (عظیم نام) کا حوالہ دے کر سوال کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٩٩٨) (صحیح )
دعا کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا، (نماز سے فارغ ہو کر) اس نے دعا مانگی : اللهم إني أسألک بأن لک الحمد لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض يا ذا الجلال والإکرام يا حى يا قيوم اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ : ساری و حمد تیرے لیے ہے، تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں، تو ہی احسان کرنے والا اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، اے جلال اور عطاء و بخشش والے، اے زندہ جاوید، اے آسمانوں اور زمینوں کو تھامنے والے ! یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم (عظیم نام) کے حوالے سے دعا مانگی ہے کہ جب اس کے حوالے سے دعا مانگی جاتی ہے تو وہ دعا قبول فرماتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٥٨ (١٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٠ (٣٥٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٩ (٣٨٥٨) ، مسند احمد (٣/١٢٠، ١٥٨، ٢٤٥) (صحیح )
دعا کا بیان
اسماء بنت یزید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا اسم اعظم (عظیم نام) ان دونوں آیتوں وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم ١ ؎ اور سورة آل عمران کی ابتدائی آیت الله لا إله إلا هو الحي القيوم ٢ ؎ میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٦٥ (٣٤٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٩ (٣٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦١) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی عبیداللہ القدَّاح ضعیف ہیں ، نیز شہر بن حوشب میں بھی کلام ہے ، ترمذی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اس کی شاہد ابو امامة کی حدیث ہے، جس سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہوئی) (ملاحظہ ہو : سلسلة ا لاحادیث الصحیحة : ٧٤٦ و صحیح ابی داود : ٥ ؍ ٢٣٤ ) وضاحت : وضاحت : سورة البقرة : (١٦٣) وضاحت : سورة آل عمران : (١، ٢ )
دعا کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ان کا ایک لحاف چرا لیا گیا تو وہ اس کے چور پر بد دعا کرنے لگیں تو رسول اللہ ﷺ فرمانے لگے : تم اس کے گناہ میں کمی نہ کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لا تسبخي کا مطلب ہے لا تخففي عنه یعنی اس کے گناہ میں تخفیف نہ کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥، ١٣٦) ، ویأتي برقم (٤٩٠٩) (حسن) (ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ٢/٩٠، والصحیحة : ٣٤١٣ )
دعا کا بیان
عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی، جس کی آپ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا : میرے بھائی ! مجھے اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا ، آپ نے یہ ایسی بات کہی جس سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اگر ساری دنیا اس کے بدلے مجھے مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (راوی حدیث) شعبہ کہتے ہیں : پھر میں اس کے بعد عاصم سے مدینہ میں ملا۔ انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی اور اس وقت لا تنسنا يا أخى من دعائك کے بجائے أشرکنا يا أخى في دعائك کے الفاظ کہے اے میرے بھائی ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١١٠ (٣٥٦٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥ (٢٨٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩) (ضعیف) (اس کے راوی عاصم ضعیف ہیں )
دعا کا بیان
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے، میں اس وقت اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے دعا مانگ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک انگلی سے کرو، ایک انگلی سے کرو اور آپ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/السہو ٣٧ (١٢٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات (٣٥٥٢) (صحیح )
کنکریوں سے تسبیح کو شمار کرنا
سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک عورت ١ ؎ کے پاس گئے، اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن سے وہ تسبیح گنتی تھی ٢ ؎، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے یا اس سے افضل ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اس طرح کہا کرو : سبحان الله عدد ما خلق في السماء و سبحان الله عدد ما خلق في الأرض و سبحان الله عدد ما خلق بين ذلک و سبحان الله عدد ما هو خالق والله أكبر مثل ذلک والحمد لله مثل ذلک . ولا إله إلا الله مثل ذلک . ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١١٤ (٣٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٥٤) (ضعیف) (اس کے راوی خزیمہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : وہ ام المومنین صفیہ (رض) ، یا ام المومنین جویریہ (رض) تھیں۔ ٢ ؎ : مروجہ تسبیح جس میں سو دانے ہوتے ہیں، اور ان میں ایک امام ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، انگلیوں پر تسبیح مسنون ہے ، ملاحظہ ہو اگلی حدیث نمبر (١٥٠١) ۔
کنکریوں سے تسبیح کو شمار کرنا
یسیرہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ تکبیر، تقدیس اور تہلیل کا اہتمام کیا کریں اور اس بات کا کہ وہ انگلیوں کے پوروں سے گنا کریں اس لیے کہ انگلیوں سے (قیامت کے روز) سوال کیا جائے گا اور وہ بولیں گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٢١ (٣٥٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٧٠، ٣٧١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : يوم تشهد عليهم ألسنتهم وأيديهم وأرجلهم بما کانوا يعملون ( سورة النور 24) ” جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے “ ، تو جس طرح ہاتھ اور پاؤں وغیرہ اعضاء برے اعمال کی گواہی دیں گے اسی طرح اچھے اعمال کی بھی گواہی دیں گے۔
کنکریوں سے تسبیح کو شمار کرنا
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تسبیح گنتے دیکھا (ابن قدامہ کی روایت میں ہے) : اپنے دائیں ہاتھ پر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٥ (٣٤١١) ، ٧٢ (٣٤٨٦) ، سنن النسائی/السہو ٩٧ (١٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٧) (صحیح )
کنکریوں سے تسبیح کو شمار کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جویریہ (رض) کے پاس سے نکلے (پہلے ان کا نام برہ تھا ١ ؎ آپ نے اسے بدل دیا) ، جب آپ ﷺ نکل کر آئے تب بھی وہ اپنے مصلیٰ پر تھیں اور جب واپس اندر گئے تب بھی وہ مصلیٰ پر تھیں، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم جب سے اپنے اسی مصلیٰ پر بیٹھی ہو ؟ ، انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہارے پاس سے نکل کر تین مرتبہ چار کلمات کہے ہیں، اگر ان کا وزن ان کلمات سے کیا جائے جو تم نے (اتنی دیر میں) کہے ہیں تو وہ ان پر بھاری ہوں گے : سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد کلماته میں پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی اور اس کی تعریف کرتا ہوں اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اس کی مرضی کے مطابق، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٩ (٢١٤٠ و ٢٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/افتتاح ٩٤ (١٣٥٣) ، سنن الترمذی/الدعاء ١٠٤(٣٥٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٦ (٢٨٠٨) ، مسند احمد (١/٢٥٨، ٣١٦، ٣٢٦، ٣٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی طرح زینب بنت ابی سلمہ (رض) کا نام بھی برہ تھا، اس کو بدل کر آپ ﷺ نے زینب رکھ دیا، اس لئے کہ معلوم نہیں کہ اللہ کے نزدیک کون برہ (نیکوکار) ہے اور کون فاجرہ (بدکار) ہے، انسان کو آپ اپنی تعریف و تقدیس مناسب نہیں۔
کنکریوں سے تسبیح کو شمار کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوذر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! مال والے تو ثواب لے گئے، وہ نماز پڑھتے ہیں، جس طرح ہم پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں، البتہ ان کے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہے، جو وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہمارے پاس مال نہیں ہے کہ ہم صدقہ کریں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوذر ! کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں ادا کر کے تم ان لوگوں کے برابر پہنچ سکتے ہو، جو تم پر (ثواب میں) بازی لے گئے ہیں، اور جو (ثواب میں) تمہارے پیچھے ہیں تمہارے برابر نہیں ہوسکتے، سوائے اس شخص کے جو تمہارے جیسا عمل کرے ، انہوں نے کہا : ضرور، اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : ہر نماز کے بعد (٣٣) بار الله اکبر (٣٣) بار الحمد الله (٣٣) بار سبحان الله کہا کرو، اور آخر میں لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير پڑھا کرو جو ایسا کرے گا) اس کے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٢ (٩٢٦) ، موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ٩٠ (١٣٩٣) (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ معاویہ (رض) نے انہیں لکھا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے سلام پھیرتے تو کیا پڑھتے تھے ؟ اس پر مغیرہ نے معاویہ کو لکھوا کے بھیجا، اس میں تھا : رسول اللہ ﷺ : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منک الجد کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اسی کے لیے حمد ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! جو تو دے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک دے، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور مالدار کو اس کی مال داری نفع نہیں دے سکتی پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٥ (٨٤٤) ، والزکاة ٥٣ (١٤٧٧) ، والدعوات ١٨ (٦٣٣٠) ، والرقاق ٢٢ (٦٤٧٣) ، و القدر ١٢ (٦٦١٥) ، والاعتصام ٣ (٧٢٩٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٣) ، سنن النسائی/السہو ٨٥ (١٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤٥، ٢٤٧، ٢٥٠، ٢٥١، ٢٥٤، ٢٥٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٩) (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو منبر پر کہتے سنا : نبی اکرم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو کہتے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله مخلصين له الدين ولو کره الکافرون أهل النعمة والفضل والثناء الحسن، لا إله إلا الله مخلصين له الدين ولو کره الکافرون اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اسی کے لیے حمد ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، ہم خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں اگرچہ کافر برا سمجھیں، وہ احسان، فضل اور اچھی تعریف کا مستحق ہے۔ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، ہم خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں، اگرچہ کافر برا سمجھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٤) ، سنن النسائی/السہو ٨٣ (١٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤) ، (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر (رض) ہر نماز کے بعد لا إله إلا الله *** کہا کرتے تھے پھر انہوں نے اس جیسی دعا کا ذکر کیا، البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا : ولا حول ولا قوة إلا بالله لا إله إلا الله لا نعبد إلا إياه له النعمة *** اور پھر آگے بقیہ حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٤) ، سنن النسائی/السہو ٨٤ (١٣٤١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٨٥) (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا۔ (سلیمان کی روایت میں اس طرح ہے : رسول اللہ ﷺ اپنی نماز کے بعد فرماتے تھے) : اللهم ربنا ورب کل شىء أنا شهيد أنك أنت الرب وحدک لا شريك لك، اللهم ربنا ورب کل شىء أنا شهيد أن محمدا عبدک ورسولک، اللهم ربنا ورب کل شىء، أن العباد کلهم إخوة، اللهم ربنا ورب کل شىء، اجعلني مخلصا لک وأهلي في كل ساعة في الدنيا والآخرة يا ذا الجلال والإکرام اسمع واستجب [ الله أكبر الأكبر ] اللهم نور السموات والأرض، الله أكبر الأكبر، حسبي الله ونعم الوکيل الله أكبر الأكبر اے اللہ ! ہمارا رب اور ہر چیز کا رب، میں گواہ ہوں کہ تو اکیلا رب ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، اے اللہ ! ہمارے رب ! اور اے ہر چیز کے رب ! میں گواہ ہوں کہ محمد ( ﷺ ) تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں، اے اللہ ! ہمارے رب ! اور ہر چیز کے رب ! میں گواہ ہوں کہ تمام بندے بھائی بھائی ہیں، اے اللہ ! ہمارے رب ! اور ہر چیز کے رب ! مجھے اور میرے گھر والوں کو اپنا مخلص بنا لے دنیا و آخرت کی ہر ساعت میں، اے جلال، بزرگی اور عزت والے ! سن لے اور قبول فرما لے، اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے، اے اللہ ! تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے (سلیمان بن داود کی روایت میں نور کے بجائے رب کا لفظ ہے) اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے، اللہ میرے لیے کافی ہے اور بہت بہتر وکیل ہے، اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٩) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (١٠١) (ضعیف) (اس کے راوی ” داود طفاوی “ لین الحدیث ہیں )
نماز کے بعد کی دعائیں
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز سے سلام پھیرتے تو کہتے : اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، وما أسرفت، وما أنت أعلم به مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت اے اللہ ! میرے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے اور وہ تمام گناہ جنہیں میں نے چھپ کر اور کھلم کھلا کیا ہو، اور جو زیادتی کی ہو اسے اور اس گناہ کو جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، بخش دے۔ تو جسے چاہے آگے کرے، جسے چاہے پیچھے کرے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : ٧٦٠، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا مانگتے تھے : رب أعني ولا تعن علي، وانصرني ولا تنصر علي، وامکر لي ولا تمکر علي، واهدني ويسر هداي إلي، وانصرني على من بغى علي، اللهم اجعلني لک شاکرا لك، ذاکرا لك، راهبا لك، مطواعا إليك مخبتا أو منيبا، رب تقبل توبتي، واغسل حوبتي، وأجب دعوتي، وثبت حجتي، واهد قلبي، وسدد لساني، واسلل سخيمة قلبي اے میرے رب ! میری مدد کر، میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر، میری تائید کر، میرے خلاف کسی کی تائید نہ کر، ایسی چال چل جو میرے حق میں ہو، نہ کہ ایسی جو میرے خلاف ہو، مجھے ہدایت دے اور جو ہدایت مجھے ملنے والی ہے، اسے مجھ تک آسانی سے پہنچا دے، اس شخص کے مقابلے میں میری مدد کر، جو مجھ پر زیادتی کرے، اے اللہ ! مجھے تو اپنا شکر گزار، اپنا یاد کرنے والا اور اپنے سے ڈرنے والا بنا، اپنا اطاعت گزار، اپنی طرف گڑگڑانے والا، یا دل لگانے والا بنا، اے میرے پروردگار ! میری توبہ قبول کر، میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول فرما، میری دلیل مضبوط کر، میرے دل کو سیدھی راہ دکھا، میری زبان کو درست کر اور میرے دل سے حسد اور کینہ نکال دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٣ (٣٥٥١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣٠) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٦٠٧، ٦٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٧) (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن مرہ سے اسی سند سے اسی مفہوم کی روایت سنی ہے، اس میں يسر هداي إلي کے بجائے يسر الهدى إلي ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٥) (صحیح )
نماز کے بعد کی دعائیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سلام پھیرتے تو فرماتے : اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت يا ذا الجلال والإکرام ١ ؎ اے اللہ تو ہی سلام ہے، تیری ہی طرف سے سلام ہے، تو بڑی برکت والا ہے، اے جلال اور بزرگی والے ۔ امام ابوداؤد (رح) کہتے ہیں : سفیان کا سماع عمرو بن مرہ سے ہے، لوگوں نے کہا ہے : انہوں نے عمرو بن مرہ سے اٹھارہ حدیثیں سنی ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٢٩٨) ، سنن النسائی/السہو ٨٢ (١٣٣٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٢ (٩٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٢، ١٨٤، ٢٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح روایات سے یہ دعا صرف اتنی ہی ثابت ہے جن روایتوں میں وإليك يرجع السلام وأدخلنا دار السلام، تبارک ربنا وتعاليت يا ذا الجلال والإکرام کی زیادتی آئی ہے وہ کمزور اور ضعیف ہیں۔ ٢ ؎ : مولف کا یہ کلام حدیث نمبر (١٥١١) سے متعلق ہے۔
نماز کے بعد کی دعائیں
ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے، اس کے بعد اللهم کہتے، پھر راوی نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کی اوپر والی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٣٠٠) ، سنن النسائی/السہو ٨١ (١٣٣٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٣٢ (٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٨) (صحیح )