30. کنگھی کرنے کا بیان
کنگھی کرنے کا بیان
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (پابندی سے) کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے البتہ ناغہ کے ساتھ ہو (تو جائز ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٢ (١٧٥٦) ، سنن النسائی/الزینة ٧ (٥٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٦) (صحیح )
کنگھی کرنے کا بیان
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول (رض) فضالہ بن عبید (رض) کے پاس مصر گئے، جب وہاں پہنچے تو عرض کیا : میں یہاں آپ سے ملاقات کے لیے نہیں آیا ہوں، ہم نے اور آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے متعلق آپ کو کچھ (مزید) علم ہو، انہوں نے پوچھا : وہ کون سی حدیث ہے ؟ فرمایا : وہ اس اس طرح ہے، پھر انہوں نے فضالہ سے کہا : کیا بات ہے میں آپ کو پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس سر زمین کے حاکم ہیں ؟ تو ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں زیادہ عیش عشرت سے منع فرماتے تھے، پھر انہوں نے پوچھا : آپ کے پیر میں جوتیاں کیوں نظر نہیں آتیں ؟ تو وہ بولے : نبی اکرم ﷺ ہمیں کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کا بھی حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢) (صحیح )
کنگھی کرنے کا بیان
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ نے ایک روز آپ کے پاس دنیا کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : کیا تم سن نہیں رہے ہو ؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو ؟ بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے، بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے اس سے مراد ترک زینت و آرائش اور خستہ حالی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وہ ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزھد ٤ (٤١١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥) (صحیح )
خوشبو کا استعمال مستحب ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس خوشبو کی ایک ڈبیہ تھی جس سے آپ خوشبو لگایا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، سنن الترمذی/الشمائل (٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١١) (صحیح )
بالوں کو درست رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس بال ہوں تو اسے چاہیئے کہ وہ انہیں اچھی طرح رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩١) (حسن صحیح )
عورتوں کو مہندی لگانا کیسا ہے
کریمہ بنت ہمام کا بیان ہے کہ ایک عورت ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئی اور ان سے مہندی کے خضاب کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا : اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن میں اسے ناپسند کرتی ہوں، میرے محبوب رسول اللہ ﷺ اس کی بو ناپسند فرماتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مراد سر کے بال کا خضاب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١٩ (٥٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٧، ٢١٠) (ضعیف )
عورتوں کو مہندی لگانا کیسا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ (رض) نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! مجھ سے بیعت لے لیجئیے، تو آپ نے فرمایا : جب تک تم اپنی دونوں ہتھیلیوں کا رنگ نہیں بدلو گی میں تم سے بیعت نہیں لوں گا، گویا وہ دونوں کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩٤) (ضعیف )
عورتوں کو مہندی لگانا کیسا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے اشارہ کیا، اس کے ہاتھ میں رسول اللہ ﷺ کے نام کا ایک خط تھا، آپ نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا، اور فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا تو اس نے عرض کیا : نہیں، بلکہ یہ عورت کا ہاتھ ہے، تو آپ نے فرمایا : اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخن کے رنگ بدلے ہوتی یعنی مہندی سے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١٨ (٥٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٦٢) (حسن )
دوسرے کے بالوں کو اپنے سر میں لگانا ناجائز ہے
حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے جس سال حج کیا میں نے آپ کو منبر پر کہتے سنا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا جو ایک پہرے دار کے ہاتھ میں تھا لے کر کہا : مدینہ والو ! تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان جیسی چیزوں سے منع کرتے سنا ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : بنی اسرائیل ہلاک ہوگئے جس وقت ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٤ (٣٤٦٨) ، واللباس ٨٣ (٥٩٣٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٢ (٢٧٨١) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ١٣ (٥٢٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٠٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الشعر ١ (٢) ، مسند احمد (٤/٩٥، ٩٧، ٩٨) (صحیح )
دوسرے کے بالوں کو اپنے سر میں لگانا ناجائز ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی اس عورت پر جو دوسری عورت کے بال میں بال کو جوڑے، اور اس عورت پر اپنے بالوں میں اور بال جڑوائے، اور اس عورت پر دوسری عورت کا بدن گودے، اور نیل بھرے، اور اس عورت پر جو اپنا بدن گودوائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٣٧) ، ٨٥ (٥٩٤٠) ، ٨٧ (٥٩٤٧) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٤) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٥ (١٧٥٩) ، الأدب ٣٣ (٢٧٨٣) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ١٧ (٥٢٥٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں میں اور بال ملا کر لمبے کرنا اور اپنا بدن گودوانا اور اس میں نیل بھرنا حرام ہے ، اور جس کے بال جوڑے جائیں اور جو عورت بال جوڑے اور جو عورت اپنا بدن گودوائے اور نیل بھروائے اور جو عورت گودے اور نیل بھرے ان پر لعنت پڑتی ہے ، اس لیے عورتوں کو ایسے کام کرنے اور کرانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
دوسرے کے بالوں کو اپنے سر میں لگانا ناجائز ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ اللہ نے جسم میں گودنے لگانے والیوں اور گودنے لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے، (محمد کی روایت میں ہے) اور بال جوڑنے والیوں پر، (اور عثمان کی روایت میں ہے) اور اپنے بال اکھیڑنے والیوں پر، جو زیب و زینت کے واسطہ منہ کے روئیں اکھیڑتی ہیں، اور خوبصورتی کے لیے اپنے دانتوں میں کشادگی کرانے والیوں، اور اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنے والیوں پر۔ تو یہ خبر قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت (ام یعقوب نامی) کو پہنچی جو قرآن پڑھا کرتی تھی، تو وہ عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور کہنے لگی : مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر اور بال جوڑنے والیوں اور بال اکھیڑنے والیوں پر اور دانتوں کے درمیان کشادگی کرانے والیوں پر خوبصورتی کے لیے جو اللہ کی بنائی ہوئی شکل تبدیل کردیتی ہیں پر لعنت کی ہے ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : میں ان پر کیوں نہ لعنت کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہو اور وہ اللہ کی کتاب کی رو سے بھی ملعون ہوں ؟ تو اس عورت نے کہا : میں تو پورا قرآن پڑھ چکی ہوں لیکن یہ مسئلہ مجھے اس میں کہیں نہیں ملا ؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر تم نے اسے پڑھا ہوتا تو یہ مسئلہ ضرور پاتی پھر آپ نے آیت کریمہ وما آتاکم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا اور تمہیں جو کچھ رسول دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں رک جاؤ (الحشر : ٧) پڑھی تو وہ بولی : میں نے تو اس میں سے بعض چیزیں آپ کی بیوی کو بھی کرتے دیکھا ہے، آپ نے کہا : اچھا اندر جاؤ اور دیکھو تو وہ اندر گئیں پھر باہر آئیں تو آپ نے پوچھا : تم نے کیا دیکھا ہے ؟ تو اس عورت نے کہا : مجھے کوئی چیز نظر نہیں آئی تو آپ نے فرمایا : اگر وہ ایسا کرتی تو پھر میرے ساتھ نہ رہتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الحشر ٤ (٤٨٨٦) ، اللباس ٨٢ (٥٩٣١) ، ٨٤ (٥٩٣٩) ، ٨٥ (٥٩٤٣) ، ٨٦ (٥٩٤٤) ، ٨٧ (٥٩٤٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٥) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٣ (٢٧٨٢) ، سنن النسائی/الزینة ٢٤ (٥١٠٢) ، ٢٦ (٥١١٠، ٥١١١) ، الزینة من المجتبی ١٨ (٥٢٥٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٩٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٩، ٤١٥، ٤٣٤، ٤٤٨، ٤٥٤، ٤٦٢، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/الاشتذان ١٩ (٢٦٨٩) (صحیح )
دوسرے کے بالوں کو اپنے سر میں لگانا ناجائز ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ملعون قرار دی گئی ہے بال جوڑنے والی، اور جڑوانے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی، اور بغیر کسی بیماری کے گودنے لگانے والی اور گودنے لگوانے والی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : واصلة اس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کے بال میں بال جوڑے، اور مستوصلة اسے کہتے ہیں جو ایسا کروائے، اور نامصة وہ عورت ہے جو ابرو کے بال اکھیڑ کر باریک کرے، اور متنمصة وہ ہے جو ایسا کروائے، اور واشمة وہ عورت ہے جو چہرہ میں سرمہ یا سیاہی سے خال (تل) بنائے، اور مستوشمة وہ ہے جو ایسا کروائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٣٧٨) (صحیح )
دوسرے کے بالوں کو اپنے سر میں لگانا ناجائز ہے
سعید بن جبیر کہتے ہیں بالوں کی چوٹیاں بنا کر کسی چیز سے باندھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : گویا وہ اس بات کی طرف جا رہے ہیں کہ جس سے منع کیا گیا ہے وہ دوسری عورت کے بال اپنے بال میں جوڑنا ہے نہ کہ اپنے بالوں کی چوٹی باندھنی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : احمد کہتے تھے : چوٹی باندھنے میں کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٦٧٩) (ضعیف منکر )
خوشبو کو واپس نہ کرے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے خوشبو کا (تحفہ) پیش کیا جائے تو وہ اسے لوٹائے نہیں کیونکہ وہ خوشبودار ہے اور اٹھانے میں ہلکا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٥ (٢٢٥٣) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٢٠ (٥٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے رکھنے اور اٹھانے میں کسی پریشانی اور زحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
باہر نکلنے کے لئے عورت کا خوشبو لگانے کا بیان
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب عورت عطر لگائے پھر وہ لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی اور ایسی ہے آپ نے (ایسی عورت کے متعلق) بڑی سخت بات کہی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٣٥ (٢٧٨٦) ، سنن النسائی/الزینة ٣٥ (٥١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤١٤، ٤١٨) (حسن )
باہر نکلنے کے لئے عورت کا خوشبو لگانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ان سے ایک عورت ملی جس سے آپ نے خوشبو پھوٹتے محسوس کیا، اور اس کے کپڑے ہوا سے اڑ رہے تھے تو آپ نے کہا : جبار کی بندی ! تم مسجد سے آئی ہو ؟ وہ بولی : ہاں، انہوں نے کہا : تم نے مسجد جانے کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے ؟ بولی : ہاں، آپ نے کہا : میں نے اپنے حبیب ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے، جب تک واپس لوٹ کر جنابت کا غسل نہ کرلے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اعصار غبار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٩ (٤٠٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٦، ٢٩٧، ٣٦٥، ٤٤٤، ٤٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ ہوا جو مٹی و غبار کے ساتھ گولائی میں ستون کے مانند اوپر اٹھتی ہے، جسے بگولہ کہا جاتا ہے۔
باہر نکلنے کے لئے عورت کا خوشبو لگانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے خوشبو کی دھونی لے رکھی ہو تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کے لیے (مسجد میں) نہ آئے (بلکہ وہ گھر ہی میں پڑھ لے) ۔ ابن نفیل کی روایت میں العشاء کے بجائے عشاء الآخرة ہے (یعنی عشاء کی صلاۃ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٤) ، سنن النسائی/الزینة ٣٧ (٥١٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٤) (صحیح )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس رات کو آیا، میرے دونوں ہاتھ پھٹے ہوئے تھے تو ان لوگوں نے اس میں زعفران کا خلوق (ایک مرکب خوشبو ہے) لگا دیا، پھر میں صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا تو آپ نے نہ میرے سلام کا جواب دیا اور نہ خوش آمدید کہا اور فرمایا : جا کر اسے دھو ڈالو میں نے جا کر اسے دھو دیا، پھر آیا، اور میرے ہاتھ پر خلوق کا اثر (دھبہ) باقی رہ گیا تھا، میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور نہ خوش آمدید کہا اور فرمایا : جا کر اسے دھو ڈالو میں گیا اور میں نے اسے دھویا، پھر آ کر سلام کیا تو آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہا، اور فرمایا : فرشتے کافر کے جنازہ میں کوئی خیر لے کر نہیں آتے، اور نہ اس شخص کے جو زعفران ملے ہو، نہ جنبی کے اور آپ ﷺ نے جنبی کو رخصت دی کہ وہ سونے، کھانے، یا پینے کے وقت وضو کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢٠) وأعاد المؤلف بعضہ فی السنة (٤٦٠١) (حسن )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں میں خلوق ملا، پہلی روایت زیادہ کامل ہے اس میں دھونے کا ذکر ہے ۔ ابن جریج کہتے ہیں : میں نے عمر بن عطاء سے پوچھا : وہ لوگ محرم تھے ؟ کہا : نہیں، بلکہ سب مقیم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٦) (حسن )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے بدن میں کچھ بھی خلوق (زعفران سے مرکب خوشبو) لگی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٩١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٣) (ضعیف )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو زعفران لگانے سے منع فرمایا ہے۔ اور اسماعیل کی روایت میں عن التزعفر للرجال کے بجائے أن يتزعفرالرجل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٣ (٢١٠١) ، سنن الترمذی/الأدب ٥١ (٢٨١٥) ، سنن النسائی/الحج ٤٣ (٢٧٠٧) ، الزینة من المجتبی ١٩ (٥٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠١١، ٩٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٣ (٥٨٤٦) (صحیح )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین آدمی ایسے ہیں کہ فرشتے ان کے قریب نہیں جاتے : ایک کافر کی لاش کے پاس، دوسرے جو زعفران میں لت پت ہو اور تیسرے جنبی (ناپاک) إلا یہ کہ وہ وضو کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٧) (حسن )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
ولید بن عقبہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے مکہ فتح کیا تو ابن مکہ اپنے بچوں کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے، آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، مجھے بھی آپ کی خدمت میں لایا گیا، لیکن مجھے خلوق لگا ہوا تھا اسی لیے آپ ﷺ نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٧٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٢) (منکر )
مردوں کے لئے خلوق کا استعمال کیسا ہے؟
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اس پر (زعفران کی) زردی کا نشان تھا، اور نبی اکرم ﷺ بہت کم کسی ایسے شخص کا سامنا فرماتے جس کے چہرہ پہ کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند فرماتے، چناچہ جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کاش تم لوگ اسے حکم دیتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/ الشمائل ٣٤٦) ، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (٢٣٥) ، وأعادہ المؤلف فی الأدب (٤٧٨٩) ، مسند احمد (٣/١٣٣، ١٥٤، ١٦٠) (ضعیف )
بال رکھنے کا بیان
براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جو کان کی لو سے نیچے بال رکھے ہو اور سرخ جوڑے میں ملبوس ہو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا (محمد بن سلیمان کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ کے بال دونوں شانوں سے لگ رہے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اسے اسرائیل نے ابواسحاق سے روایت کیا ہے کہ وہ بال آپ کے دونوں شانوں سے لگ رہے تھے اور شعبہ کہتے ہیں : وہ آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچ رہے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٥ (٢٣٣٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٤ (١٧٢٤) ، الأدب ٤٧ (٢٨١١) ، المناقب ٨ (٣٦٣٥) ، الشمائل ١ (٣) ، ٣ (٢٥) ، سنن النسائی/الزینة ٩ (٥٠٦٣) ، الزینة من المجتبی ٥ (٥٢٣٥) ، ٣٩ (٥٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٣٣ (٣٥٥١) ، واللباس ٣٥ (٥٨٤٨) ، ٦٨ (٥٩٠٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٠ (٣٥٩٩) ، مسند احمد (٤/٢٨١، ٢٩٥) (صحیح )
بال رکھنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ٣ (٢٩) ، سنن النسائی/الزینة ٩ (٥٠٦٤) ، الزینة من المجتبی ٥ (٥٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٩، ١٨٩٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٨ (٥٩٠٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣٤) ، مسند احمد (٣/١١٣، ١٦٥) (صحیح )
بال رکھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال آپ کے آدھے کانوں تک رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الفضائل ٢٦ (٢٣٣٨) ، سنن الترمذی/ الشمائل (٢٤) ، سنن النسائی/ الزینة من المجتبی ٥ (٥٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤٢، ٢٤٩) (صحیح )
بال رکھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال وفرہ ١ ؎ سے بڑے اور جمہ ٢ ؎ سے چھوٹے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢١ (١٧٥٥) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠١٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کان تک کے بال کو وفرہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : اور شانہ تک کے بال کو جمہ کہتے ہیں۔
بال رکھنے کا بیان
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٠٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٦٩) (صحیح )
مانگ نکالنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا سدل کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٨) ، ومناقب الأنصار ٥٢ (٣٩٤٤) ، واللباس ٧٠ (٥٩١٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٤ (٢٣٣٦) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣ (٢٩) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٧ (٥٢٤٠) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٦، ٢٦١، ٢٨٧، ٣٢٠) (صحیح )
مانگ نکالنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کے سر میں مانگ نکالنی چاہتی تو سر کے بیچ سے نکالتی، اور پیشانی کے بالوں کو دونوں آنکھوں کے بیچ کی سیدھ سے آدھا ایک طرف اور آدھا دوسری طرف لٹکا دیا کرتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٠، ٢٧٥) (حسن )
لمبے بال (زلفیں) رکھنے کا بیان
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میرے بال لمبے تھے تو جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : نحوست ہے، نحوست تو میں واپس لوٹ گیا اور جا کر اسے کاٹ ڈالا، پھر دوسرے دن آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا : میں نے تیرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی، یہ اچھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٦ (٥٠٥٥) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٧ (٣٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٢) (صحیح )
مرد کے لئے بالوں کو گوندھ کر جوڑا بنانے کا حکم
ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ آئے اور (اس وقت) آپ کی چار چوٹیاں تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٣٩ (١٧٨١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤١، ٤٢٥) (صحیح )
سر منڈا نے کا بیان
عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جعفر کے گھر والوں کو تین دن کی مہلت دی پھر آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : آج کے بعد میرے بھائی پر تم نہ رونا ١ ؎ پھر فرمایا : میرے پاس میرے بھتیجوں کو بلاؤ تو ہمیں آپ کی خدمت میں لایا گیا، ایسا لگ رہا تھا گویا ہم چوزے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : حجام کو بلاؤ اور آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے ہمارے سر مونڈے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٣ (٥٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے پتہ چلا کہ چیخ و پکار اور سینہ کو بی کے بغیر میت پر تین دن تک رونا اور اظہار غم کرنا جائز ہے۔
بچوں کو دراز گیسو رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے، اور قزع یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کے کچھ بال چھوڑ دئیے جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٢ (٥٩٢١) ، صحیح مسلم/اللباس ٣١ (٢١٢٠) ، سنن النسائی/الزینة ٥ (٥٠٥٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٨ (٣٦٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢ /٤، ٣٩، ٥٥، ٦٧، ٨٢، ٨٣، ١٠١، ١٠٦، ١١٨، ١٣٧، ١٤٣، ١٥٤) (صحیح )
بچوں کو دراز گیسو رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قزع سے منع فرمایا ہے، اور قزع یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کی چوٹی چھوڑ دی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠١، ١٤٣، ١٥٤) (صحیح )
بچوں کو دراز گیسو رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے کچھ بال منڈے ہوئے تھے اور کچھ چھوڑ دئیے گئے تھے تو آپ نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا : یا تو پورا مونڈ دو ، یا پورا چھوڑے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٣ (٥٠٥١) ، مسند احمد (٢/٨٨) وانظر رقم : (٤١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٣١ (٢١٢٠) (صحیح )
بچوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میرے ایک چوٹی تھی، میری ماں نے مجھ سے کہا : میں اس کو نہیں کاٹوں گی، رسول اللہ ﷺ (ازراہ شفقت) اسے پکڑ کر کھینچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٢٦) (ضعیف الإسناد )
بچوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت کا بیان
حجاج بن حسان کا بیان ہے ہم انس بن مالک (رض) کے پاس آئے، مجھ سے میری بہن مغیرہ نے بیان کیا : تو اس وقت لڑکا تھا اور تیرے سر پر دو چوٹیاں یا دو لٹیں تھیں تو انہوں نے تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا کی اور کہا : ان دونوں کو مونڈوا ڈالو، یا انہیں کاٹ ڈالو کیونکہ یہ یہود کا طریقہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٢) (ضعیف الإسناد )
بچوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا : پانچ چیزیں فطرت ہیں یا فطرت میں سے ہیں : ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کا بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھ کاٹنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٣ (٥٨٨٩) ، ٦٤ (٥٨٩١) الاستئذان ٥١ (٦٢٩٧) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٥٧) ، سنن النسائی/الطھارة ٩ (٩) ، الزینة من المجتبی ١ (٥٢٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٦) ، موطا امام مالک/صفة النبی ٣ (٣ موقوفاً ) مسند احمد (٢/٢٣٩) (صحیح )
بچوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مونچھوں کے خوب کترنے، اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٥٩) ، سنن الترمذی/الأدب ١٨ (٢٧٦٤) ، سنن النسائی/الطھارة ١٥ (١٥) ، الزینة ٥٤ (٥٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٤ (٥٨٩٢) ، ٦٥ (٥٨٩٣) ، الزینة من السنن ٢ (٥٠٤٩) ، الزینة من المجتبی ٢ (٥٢٢٨) ، موطا امام مالک/الشعر ١ (١) ، مسند احمد (٢/٥٢) (صحیح )
بچوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زیر ناف کے بال مونڈنے، ناخن کاٹنے، مونچھیں تراشنے اور بغل کے بال اکھاڑنے کی چالیس دن میں ایک بار کی تحدید فرما دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے جعفر بن سلیمان نے ابوعمران سے اور انہوں نے انس سے روایت کیا ہے اور نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں وقَّتَ لنا کے بجائے وُقِّتَ لنا بصیغہ مجہول ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٥٨) ، سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٨) ، سنن النسائی/الطھارة ١٤ (١٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٢٢، ٢٠٣، ٢٥٥) (صحیح )
بچوں کو لمبے بال رکھنے کی اجازت کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم حج و عمرہ کے سوا ہمیشہ داڑھیوں کو لٹکتا رہنے دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : استحداد کے معنی زیر ناف مونڈنے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٧٨٩) (ضعیف الإسناد )
سفید بال اکھاڑنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفید بال نہ اکھیڑو، اس لیے کہ جس مسلمان کا کوئی بال حالت اسلام میں سفید ہوا ہو (سفیان کی روایت میں ہے) تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا (اور یحییٰ کی روایت میں ہے) اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا اور اس سے ایک گناہ مٹا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٣، ٨٨٠١ ) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٥٩ (٢٨٢١) ، سنن النسائی/الزینة ١٣ (٥٠٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٥ (٣٧٢١) ، مسند احمد (٢/٢٠٦، ٢٠٧، ٢١٢) (حسن صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ اپنی داڑھیاں نہیں رنگتے ہیں، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو ، یعنی انہیں خضاب سے رنگا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦٢) واللباس ٦٧ (٥٨٩٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٥ (٢١٠٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٠ (١٧٥٢) ، سنن النسائی/الزینة ١٤ (٥٠٧٥) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٣ (٣٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٠، ١٥١٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٦٠، ٣٠٩، ٤٠١) (صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن (ابوبکر (رض) کے والد) ابوقحافہ کو لایا گیا، ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ (نامی سفید رنگ کے پودے) کے مانند سفید تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے کسی چیز سے بدل دو اور سیاہی سے بچو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٤ (٢١٠٢) ، سنن النسائی/الزینة ١٥، (٥٢٤٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٣ (٣٦٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٧، ٥٠٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٦، ٣٢٢، ٣٣٨) (صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے اچھی چیز جس سے اس بڑھاپے (بال کی سفیدی) کو بدلا جائے حناء (مہندی) اور کتم (وسمہ) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٢٠ (١٧٥٣) ، سنن النسائی/الزینة ١٦ (٥٠٨١، ٥٠٨٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٢ (٣٦٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٧، ١٨٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٧، ١٥٠، ١٥٤، ١٥٦، ١٦٩) (صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں گیا تو دیکھا کہ آپ کے سر کے بال کان کی لو تک ہیں، ان میں مہندی لگی ہوئی ہے، اور آپ کے جسم مبارک پر سبز رنگ کی دو چادریں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٦) (صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
اس سند سے ابورمثہ (رض) سے اس حدیث میں مروی ہے کہ میرے والد نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے آپ اپنی وہ چیز دکھائیں جو آپ کی پشت پر ہے کیونکہ میں طبیب ہوں، آپ نے فرمایا : طبیب تو اللہ ہے، بلکہ تو رفیق ہے (مریض کو تسکین اور دلا سے دیتا ہے) طبیب تو وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٦) (صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے آپ نے ایک شخص سے یا میرے والد سے پوچھا : یہ کون ہے ؟ وہ بولے : میرا بیٹا ہے، آپ نے فرمایا : یہ تمہارا بوجھ نہیں اٹھائے گا، تم جو کرو گے اس کی باز پرس تم سے ہوگی، آپ نے اپنی داڑھی میں مہندی لگا رکھی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الشمائل (٤٣، ٤٥) ، سنن النسائی/القسامة ٣٥ (٤٨٣٦) ، ویأتی برقم (٤٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٣) (صحیح )
خضاب لگانے کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے خضاب کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے تو خضاب لگایا ہی نہیں، ہاں ابوبکر و عمر (رض) نے لگایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٠) ، اللباس ٦٦ (٥٨٩٥) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٩ (٢٣٤١) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزینة ١٧ (٥٠٩٠) ، مسند احمد (٣/٢١٦) (صحیح )
زرد رنگ کے خضاب کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کھال کی سبتی جوتیاں پہنتے تھے جس پر بال نہیں ہوتے تھے، اور اپنی داڑھی ورس ١ ؎ اور زعفران سے رنگتے تھے، اور ابن عمر (رض) بھی ایسا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة من المجتبی ١٢ (٥٢٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ورس ایک قسم کی گھاس ہے جس سے رنگتے ہیں۔
زرد رنگ کے خضاب کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے ایک شخص گزرا جس نے مہندی کا خضاب لگا رکھا تھا، تو آپ نے فرمایا : یہ کتنا اچھا ہے پھر ایک اور شخص گزرا جس نے مہندی اور کتم کا خضاب لگا رکھا تھا، تو آپ نے فرمایا : یہ اس سے بھی اچھا ہے اتنے میں ایک تیسرا شخص زرد خضاب لگا کے گزرا تو آپ نے فرمایا : یہ ان سب سے اچھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٤ (٣٦٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٢٠) (ضعیف )
سیاہ خضاب کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آخر زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی بو تک نہ پائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١٥ (٥٠٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٧٣) (صحیح )
ہاتھی دانت سے فائدہ اٹھانا جائز ہے
ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنے گھر والوں میں سب سے اخیر میں فاطمہ (رض) سے ملتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے فاطمہ (رض) سے ملاقات کرتے، چناچہ آپ ﷺ ایک غزوہ سے تشریف لائے، فاطمہ (رض) نے اپنے دروازے پر ایک ٹاٹ یا پردہ لٹکا رکھا تھا اور حسن و حسین (رض) دونوں کو چاندی کے دو کنگن پہنا رکھے تھے، آپ ﷺ تشریف لائے تو گھر میں داخل نہیں ہوئے تو وہ سمجھ گئیں کہ آپ کے اندر آنے سے یہی چیز مانع رہی ہے جو آپ نے دیکھا ہے، تو انہوں نے دروازے سے پردہ اتار دیا، پھر دونوں صاحبزادوں کے کنگن کو اتار لیا، اور کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا، تو وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس روتے ہوئے آئے، آپ نے ان سے کٹے ہوئے ٹکڑے لے کر فرمایا : ثوبان ! اسے مدینہ میں فلاں گھر والوں کو جا کر دے آؤ پھر فرمایا : یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں مجھے یہ ناپسند ہے کہ یہ اپنے مزے دنیا ہی میں لوٹ لیں، اے ثوبان ! فاطمہ کے لیے مونگوں والا ایک ہار اور ہاتھی دانت کے دو کنگن خرید کرلے آؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٩) (ضعیف الإسناد منکر )