31. انگوٹھی پہننے کا بیان
انگوٹھی بنانے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول الله کندہ کرایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٧ (٥٨٦٨) ، ٥٠ (٥٨٧٢) ، ٥٢ (٥٨٧٥) ، ٥٤ (٥٨٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣، ١١٨٥، ١٢٥٦، ١٣٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩٢) ، سنن الترمذی/اللباس ١٤ (١٧٣٩) ، الشمائل ١١ (٩٢) ، الاستئذان (٢٧١٨) ، سنن النسائی/الزینة سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٤١) ، ٤١ (٣٦٤٥) ، مسند احمد (٣/١٦١، ١٧٠، ١٨١، ١٩٨، ٢٠٩، ٢٢٣) (صحیح )
انگوٹھی بنانے کا بیان
اس سند سے بھی انس سے عیسیٰ بن یونس کی روایت کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ پھر یہ انگوٹھی آپ ﷺ کی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی پھر ابوبکر صدیق (رض) کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی، پھر عمر (رض) کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ بھی وفات پا گئے، پھر عثمان (رض) کے ہاتھ میں رہی وہ ایک کنویں کے پاس تھے کہ اسی دوران انگوٹھی کنویں میں گرگئی، انہوں نے حکم دیا تو اس کا سارا پانی نکالا گیا لیکن وہ اسے پا نہیں سکے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٨٥) (صحیح الإسناد )
انگوٹھی بنانے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی، اس کا نگینہ حبشی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ اللباس ٤٧ (٥٨٦٨) ، صحیح مسلم/ اللباس ١٢ (٢٠١٢) ، سنن الترمذی/ اللباس ١٤ (١٧٣٩) ، سنن النسائی/ الزینة ٤٥ (٥١٩٩) ، سنن ابن ماجہ/ اللباس ٣٩ (٣٦٤١) ، ٤١ (٣٦٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠٩، ٢٢٥) (صحیح )
انگوٹھی بنانے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی پوری انگوٹھی چاندی کی تھی، اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١٥ (١٧٤٠) ، الشمائل ١١ (٨٤) ، سنن النسائی/الزینة ٤٥ (٥٢٠٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٨ (٥٨٧٠) (صحیح )
انگوٹھی بنانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنائی، اس کے نگینہ کو اپنی ہتھیلی کے پیٹ کی جانب رکھا اور اس میں محمد رسول الله کندہ کرایا، تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں، جب آپ نے انہیں سونے کی انگوٹھیاں پہنے دیکھا تو اسے پھینک دیا، اور فرمایا : اب میں کبھی اسے نہیں پہنوں گا پھر آپ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول الله کندہ کرایا، پھر آپ کے بعد وہی انگوٹھی ابوبکر (رض) نے پہنی، پھر ابوبکر (رض) کے بعد عمر (رض) نے پھر ان کے بعد عثمان (رض) نے پہنی یہاں تک کہ وہ بئراریس میں گر پڑی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان سے لوگوں کا اختلاف اس وقت تک نہیں ہوا جب تک انگوٹھی ان کے ہاتھ میں رہی (جب وہ گرگئی تو پھر اختلافات اور فتنے رونما ہونے شروع ہوگئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٥ (٥٨٦٦) ، الأیمان والنذور ٦ (٦٦٥١) ، الاعتصام ٤ (٧٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩٢) ، سنن الترمذی/الشمائل ١١ (٨٤) ، اللباس ١٦ (١٧٤١) ، سنن النسائی/الزینة ٤٥ (٥١٩٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٣٩) (صحیح )
انگوٹھی بنانے کا بیان
اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اس روایت میں مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے محمد رسول الله کندہ کرایا، اور فرمایا : کوئی میری اس انگوٹھی کے طرز پر کندہ نہ کرائے پھر راوی نے آگے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ اللباس ١٢ (٢٠٩١) ، سنن الترمذی/ الشمائل (١٠١) ، سنن النسائی/ الزینة من المجتبی ٢٦ (٥٢٩٠) ، سنن ابن ماجہ/ اللباس ٣٩ (٣٦٣٩) ، ٤١ (٣٦٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٩٩) (صحیح )
انگوٹھی بنانے کا بیان
اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے مرفوعاً یہی حدیث مروی ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ لوگوں نے اسے ڈھونڈا لیکن وہ ملی نہیں، تو عثمان (رض) نے ایک دوسری انگوٹھی بنوائی، اور اس میں محمد رسول الله کندہ کرایا۔ راوی کہتے ہیں : وہ اسی سے مہر لگایا کرتے تھے، یا کہا : اسے پہنا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٥١ (٥٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٦ (٥٨٦٦) ، صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٥٤٧٦) ، حم (٢/٢٢) (ضعیف الإسناد ومنکر المتن )
انگوٹھی بلا ضرورت نہیں پہننا چاہیے
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چاندی کی ایک انگوٹھی دیکھی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں اور پہننے لگے، پھر نبی اکرم ﷺ نے انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی پھینک دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے زیاد بن سعد، شعیب اور ابن مسافر نے زہری سے روایت کیا ہے، اور سبھوں نے من ورق کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٦ (٥٨٦٨) ، صحیح مسلم/اللباس والزینة من المجتبی ٢٧ (٥٢٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٠، ٢٢٣، ٢٢٥) (صحیح )
سونے کی انگوٹھی کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے تھے کہ اللہ کے نبی کریم ﷺ دس خصلتیں ناپسند فرماتے تھے، زردی یعنی خلوق کو، سفید بالوں کے تبدیل کرنے کو ١ ؎، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کو، سونے کی انگوٹھی پہننے کو، بےموقع و محل اجنبیوں کے سامنے عورتوں کے زیب و زینت کے ساتھ اور بن ٹھن کر نکلنے کو، شطرنج کھیلنے کو، معوذات کے علاوہ سے جھاڑ پھونک کرنے کو، تعویذ اور گنڈے لٹکانے کو اور ناجائز جگہ منی ڈالنے کو، اور بچے کے فساد کو یعنی اسے کمزور کرنے کو اس طرح پر کہ ایام رضاعت میں اس کی ماں سے صحبت کرے البتہ اسے حرام نہیں ٹھہراتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اہل بصرہ اس حدیث کی سند میں منفرد ہیں، واللہ اعلم تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ١٧ (٥١٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٠، ٣٩٧، ٤٣٩) (منکر) (اس کے رواة قاسم اور عبدالرحمن دونوں لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہیں اکھیڑنے یا ان میں کالا خضاب لگانے کو۔
لوہے کی انگوٹھی پہننا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا، وہ پتیل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا بات ہے، میں تجھ سے بتوں کی بدبو محسوس کر رہا ہوں ؟ تو اس نے اپنی انگوٹھی پھینک دی، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے، میں تجھے جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے دیکھتا ہوں ؟ تو اس نے پھر اپنی انگوٹھی پھینک دی، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! پھر کس چیز کی انگوٹھی بنواؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چاندی کی بنواؤ اور اسے ایک مثقال سے کم رکھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٤٣ (١٧٨٥) ، سنن النسائی/الزینة ٤٤ (٥١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٩) (ضعیف) (ابوطیبہ عبداللہ بن مسلم کثیرالوہم راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے اگر اس کے برابر ہوگی تو بھاری اور بد وضع ہوگی یا مردوں کے لئے اس سے زیادہ چاندی کا استعمال درست نہیں۔
لوہے کی انگوٹھی پہننا
معیقیب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی لوہے کی تھی اس پر چاندی کی پالش تھی کبھی کبھی وہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں ہوتی۔ ٍ راوی کہتے ہیں : اور نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی کے امین معیقیب تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤٧ (٥٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٦) (ضعیف )
لوہے کی انگوٹھی پہننا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کہو : اے اللہ ! مجھے ہدایت دے، اور درستگی پر قائم رکھ، اور ہدایت سے سیدھی راہ پر چلنے کی نیت رکھو، درستگی سے تیر کی طرح سیدھا رہنے یعنی سیدھی راہ پر جمے رہنے کی نیت کرو اور آپ ﷺ نے مجھے منع فرمایا کہ انگوٹھی اس انگلی یا اس انگلی میں رکھوں انگشت شہادت یعنی کلمہ کی یا درمیانی انگلی میں (عاصم جو حدیث کے راوی ہیں نے شک کیا ہے) اور مجھے قسیہ اور میثرہ سے منع فرمایا۔ ابوبردہ (رض) کہتے ہیں : تو ہم نے علی (رض) سے پوچھا : قسیہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ایک قسم کے کپڑے ہیں جو شام یا مصر سے آتے تھے، ان کی دھاریوں میں ترنج (چکوترہ) بنے ہوئے ہوتے تھے اور میثرہ وہ بچھونا (بستر) ہے جسے عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے بنایا کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٦ (٢٠٨٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٤٤ (١٧٨٦) ، سنن النسائی/الزینة ٥٠ (٥٢١٤) ، الزینة من المجتبی ٢٥ (٥٢٨٨، ٥٢٨٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٣ (٣٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٨٨، ١٣٤، ١٣٨) (صحیح )
انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے یا بائیں ہاتھ میں؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بھی بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ انگوٹھی اپنے داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ١٢ (٩٠) ، سنن النسائی/الزینة ٤٦ (٥٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٠) (صحیح )
انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے یا بائیں ہاتھ میں؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ انگوٹھی اپنے بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے اور اس کا نگینہ آپ کی ہتھیلی کے نچلے حصہ کی طرف ہوتا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن اسحاق اور اسامہ نے یعنی ابن زید نے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٦) (شاذ) (محفوظ اور صحیح دائیں ہاتھ میں پہننا ہے )
انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے یا بائیں ہاتھ میں؟
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) انگوٹھی اپنے بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٦) (صحیح الإسناد )
انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے یا بائیں ہاتھ میں؟
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے صلت بن عبداللہ بن نوفل بن عبدالمطلب کو اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلی میں انگوٹھی پہنے دیکھا تو کہا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے ابن عباس (رض) کو اسی طرح اپنی انگوٹھی پہنے اور اس کے نگینہ کو اپنی ہتھیلی کی پشت کی طرف کئے دیکھا، اور کہا : یہ مت سمجھنا کہ صرف ابن عباس (رض) ہی ایسا کرتے تھے، بلکہ وہ ذکر کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اپنی انگوٹھی ایسا ہی پہنی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١٦ (١٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨٦) (حسن صحیح )
گھنگرو پہننے کا بیان
عامر بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ان کی ایک لونڈی زبیر کی ایک بچی کو عمر بن خطاب (رض) کے پاس لے کرگئی، اس بچی کے پاؤں میں گھنٹیاں تھیں یعنی گھونگھرو تھے تو عمر (رض) نے اسے کاٹ دیا، اور کہنے لگے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ہر گھنٹی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨١) (ضعیف )
گھنگرو پہننے کا بیان
عبدالرحمٰن بن حسان کی لونڈی بنانہ کہتی ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس تھیں کہ اسی دوران ایک لڑکی آپ کے پاس آئی، اس کے پاؤں میں گھونگھرو بج رہے تھے تو آپ نے کہا : اسے میرے پاس نہ آنے دو جب تک تم انہیں کاٹ نہ دو ، اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٤٢، ٢٤٣) (حسن )
دانتوں کو سونے سے باندھنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ کے دادا عرفجہ بن اسعد کی ناک جنگ کلاب ١ ؎ کے دن کاٹ لی گئی، تو انہوں نے چاندی کی ایک ناک بنوائی، انہیں اس کی بدبو محسوس ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا، تو انہوں نے سونے کی ناک بنوا لی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٣١ (١٧٧٠) ، سنن النسائی/الزینة ٤١ (٥١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٢، ٥/٢٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : بصرہ اور کوفہ کے مابین ایک چشمہ کا نام ہے، زمانہ جاہلیت میں یہاں ایک جنگ ہوئی تھی (النہا یۃ لا بن الا ثیر) ٢ ؎ : اگرچہ حدیث میں دانت بندھوانے کا ذکر نہیں ہے، مگر مصنف نے دانت کو ناک پر قیاس کیا کہ جب ناک جو ایک عضو ہے سونے کی بنوانی جائز ہے تو سونے سے دانتوں کا بندھوانا بھی جائز ہوگا، اسی لئے دانت بندھوانے کا باب باندھا۔
دانتوں کو سونے سے باندھنے کا بیان
اس سند سے بھی عرفجہ بن اسعد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، یزید کہتے ہیں میں نے ابواشہب سے پوچھا : عبدالرحمٰن بن طرفہ نے اپنے دادا عرفجہ کا زمانہ پایا ہے، تو انہوں نے کہا : ہاں (پایا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٥) (حسن )
دانتوں کو سونے سے باندھنے کا بیان
اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٥) (حسن )
عورتوں کے لئے سونا پہننا جائز ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس نجاشی کی طرف سے کچھ زیور ہدیہ میں آئے اس میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی جس میں یمنی نگینہ جڑا ہوا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک لکڑی سے بغیر اس کی طرف التفات کئے پکڑا، یا اپنی بعض انگلیوں سے پکڑا، پھر اپنی نواسی زینب کی بیٹی امامہ بنت ابی العاص کو بلایا اور فرمایا : بیٹی ! اسے تو پہن لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٠ (٣٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠١، ١١٩) (حسن الإسناد )
عورتوں کے لئے سونا پہننا جائز ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے محبوب کو آگ کا بالا پہنانا چاہے تو وہ اسے سونے کی بالی پہنا دے، اور جو اپنے محبوب کو آگ کا طوق ١ ؎ پہنانا چاہے تو اسے سونے کا طوق پہنا دے اور جو اپنے محبوب کو آگ کا کنگن پہنانا چاہے وہ اسے سونے کا کنگن پہنا دے، البتہ سونے کے بجائے چاندی تمہارے لیے جائز ہے، لہٰذا تم اسی کو ناک یا کان میں استعمال کرو اور اس سے کھیلو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٦٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٣٤، ٣٧٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : طوق گلے میں پہننے کا زیور، اسے گلوبند اور ہنسلی بھی کہتے ہیں۔
عورتوں کے لئے سونا پہننا جائز ہے
حذیفہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! کیا زیور بنانے کے لیے تمہیں چاندی نہیں ملتی، سنو ! تم میں جو عورت بھی سونے کا زیور پہنے گی تو اسے قیامت کے دن اسی سے عذاب دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٣٩ (٥١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٣، ١٨٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٥، ٣٥٧، ٣٥٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٧ (٢٦٨٧) (ضعیف) (ربعی کی اہلیہ مبہم ہیں، حذیفہ (رض) کی بہن اگر صحابیہ ہیں تو کوئی حرج نہیں ورنہ تابعیہ ہونے کی صورت میں وہ بھی مبہم ہوئیں )
عورتوں کے لئے سونا پہننا جائز ہے
اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس عورت نے سونے کا ہار پہنا تو قیامت کے دن اس کے گلے میں آگ کا ہار پہنایا جائے گا، اور جس عورت نے اپنے کان میں سونے کی بالی پہنی تو قیامت کے دن اس کے کان میں اسی کے ہم مثل آگ کی بالی پہنائی جائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٣٩ (٥١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٥، ٤٥٧، ٤٦٠) (ضعیف )
عورتوں کے لئے سونا پہننا جائز ہے
معاویہ بن ابی سفیان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چیتوں کی کھال پر سواری کرنے اور سونا پہننے سے منع فرمایا ہے مگر جب مقطّع یعنی تھوڑا اور معمولی ہو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوقلابہ کی ملاقات معاویہ (رض) سے نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزینة ٤٠ (٥١٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٢، ٩٣، ٩٥، ٩٨، ٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ رخصت عورتوں کے لئے ہے مردوں کے لئے سونا مطلقا حرام ہے چاہے کم ہو یا زیادہ ، عورتوں کے لئے جنس سونا حرام نہیں، سونے کی اتنی مقدار جس میں زکاۃ واجب نہیں وہ اپنے استعمال میں لاسکتی ہیں، البتہ اس سے زائد مقدار ان کے لئے بھی درست نہیں کیونکہ بسا اوقات بخل کے سبب وہ زکاۃ سے گریز کرنے لگتی ہیں جو ان کے گناہ اور حرج میں پڑجانے کا سبب بن جاتا ہے۔