34. لڑائی اور جنگ وجدل کا بیان

【1】

ہرصدی کی تکمیل پر مجدد دین ہونے کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥١) (صحیح )

【2】

رومیوں کی لڑائیوں اور معرکہ کا بیان

حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا : خالد بن معدان کی طرف چلے، میں بھی ان کے ساتھ چلا تو انہوں نے ہم سے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے صلح کے متعلق بیان کیا، جبیر نے کہا : ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ذی مخبر نامی ایک شخص کے پاس چلو چناچہ ہم ان کے پاس آئے، جبیر نے ان سے صلح کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : عنقریب تم رومیوں سے ایک پر امن صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑو گے جو تمہارے پیچھے ہے، اس پر فتح پاؤ گے، اور غنیمت کا مال لے کر صحیح سالم واپس ہو گے یہاں تک کہ ایک میدان میں اترو گے جو ٹیلوں والا ہوگا، پھر نصرانیوں میں سے ایک شخص صلیب اٹھائے گا اور کہے گا : صلیب غالب آئی، یہ سن کر مسلمانوں میں سے ایک شخص غصہ میں آئے گا اور اس کو مارے گا، اس وقت اہل روم عہد شکنی کریں گے اور لڑائی کے لیے اپنے لوگوں کو جمع کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٧) (صحیح )

【3】

رومیوں کی لڑائیوں اور معرکہ کا بیان

اس سند سے بھی حسان بن عطیہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے : پھر جلدی سے مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف بڑھیں گے، اور لڑنے لگیں گے، تو اللہ تعالیٰ اس جماعت کو شہادت سے نوازے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٧) (صحیح )

【4】

احادیث میں جن لڑائیوں کی علامات بیان کی گئی ہیں ان کا بیان

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیت المقدس کی آبادی مدینہ کی ویرانی ہوگی، مدینہ کی ویرانی لڑائیوں اور فتنوں کا ظہور ہوگا، فتنوں کا ظہور قسطنطنیہ کی فتح ہوگی، اور قسطنطنیہ کی فتح دجال کا ظہور ہوگا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس شخص یعنی معاذ بن جبل کی ران یا مونڈھے پر مارا جن سے آپ یہ بیان فرما رہے تھے، پھر فرمایا : یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٦١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٨ (٢٢٣٩) ، مسند احمد (٥/٢٣٢، ٢٤٥) (حسن )

【5】

پے درپے معرکوں کا بیان

معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑی جنگ، قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کا نکلنا تینوں چیزیں سات مہینے کے اندر ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٥٨ (٢٢٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٥ (٤٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٤) (ضعیف) (ابوبکر بن ابی مریم اور ولید بن سفیان ضعیف اور یزید سکونی لین الحدیث ہیں )

【6】

پے درپے معرکوں کا بیان

عبداللہ بن بسر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑی جنگ اور فتح قسطنطنیہ کے درمیان چھ سال کی مدت ہوگی اور ساتویں سال میں مسیح دجال کا ظہور ہوگا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ عیسیٰ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٥ (٥١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥١٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/١٨٩) (ضعیف) (سند میں بقیہ بن ولید ضعیف اور ابن ابی بلال لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اوپر والی حدیث کی معارض ہے، اور دونوں ضعیف ہیں، دونوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ بڑی جنگ کی ابتداء و انتہاء کے درمیان چھ سال کا وقفہ ہوگا، اور بڑی جنگ کا اختتام اور قسطنطنیہ کی فتح اور مسیح دجال کا ظہور یہ تینوں قریب قریب واقع ہوں گے، یعنی سات مہینے کے عرصہ میں واقع ہوجائیں گے ، ایک دوسرا جواب وہ ہے جو ابوداود نے دیا ہے کہ دوسری حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے لہٰذا پہلی حدیث اس کے معارض نہیں ہوسکتی کیونکہ تعارض کے لئے یکساں وجوہ ضروری ہے۔

【7】

مسلمانوں پر اقوم عالم کا چڑھ آنا

ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو ایک کہنے والے نے کہا : کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا تو ایک کہنے والے نے کہا : اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٠٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٢٧٨) (صحیح )

【8】

جنگوں میں مسلمان کہاں ہوں گے؟

ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دجال سے) جنگ کے روز مسلمانوں کا جماؤ غوطہٰ میں ہوگا، جو اس شہر کے ایک جانب میں ہے جسے دمشق کہا جاتا ہے، جو شام کے بہترین شہروں میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/١٩٧) (صحیح ) عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ مسلمان مدینہ میں محصور کردیئے جائیں یہاں تک کہ ان کی عملداری صرف مقام سلاح تک رہ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٨١٨) (صحیح )

【9】

None

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ مسلمان مدینہ میں محصور کر دیئے جائیں یہاں تک کہ ان کی عملداری صرف مقام سلاح تک رہ جائے ۔

【10】

جنگوں میں مسلمان کہاں ہوں گے؟

زہری کہتے ہیں سلاح خیبر کے قریب (ایک جگہ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٥١ (صحیح )

【11】

جنگوں سے فتنوں کے ابھرنے کا بیان

عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت پر دو تلواریں (بلائیں) اکٹھی نہیں کرے گا کہ ایک تلوار تو خود اسی کی ہو، اور ایک تلوار اس کے دشمن کی ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فتنہ سے مراد خود مسلمانوں کی آپس کی جنگ ہے۔ ٢ ؎ : یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ ایک ہی وقت میں وہ آپس میں بھی لڑیں، اور اپنے دشمن سے بھی لڑیں، جب دوسری قومیں ان پر حملہ آور ہوں گی تو اللہ ان کی آپسی اختلافات کو ختم کر دے گا، اور اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے سارے مسلمان مل کر اپنے دشمن سے لڑیں گے۔

【12】

ترکوں اور اہل حبشہ کو بلاوجہ بھڑکانے کی ممانعت

ایک صحابی رسول (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حبشہ کے کافروں کو اس وقت تک چھوڑے رہو جب تک کہ وہ تم سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں، اور ترکوں کو بھی چھوڑے رہو جب تک کہ وہ تم سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجہاد ٤٢ (٣١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک جنگی تدبیر تھی جو نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو بتلائی کہ یہ کافر اقوام جب تک مسلمانوں کے خلاف اقدام نہ کریں ، مسلمانوں کو بھی ان سے جنگ میں ابتداء نہ کرنی چاہیے۔

【13】

ترک کفار سے لڑائی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان ترکوں سے نہ لڑیں جو ایک ایسی قوم ہوگی جن کے چہرے تہ بہ تہ جمی ہوئی ڈھالوں کے مانند ہونگے، اور وہ بالوں کے لباس پہنتے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩١٢) ، سنن النسائی/الجہاد ٤٢ (٣١٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٦ (٤٠٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٥ (٢٩٢٨) ، ٩٦ (٢٩٢٩) ، المناقب ٢٥ (٣٥٩٠) ، مسند احمد ( ٢ /٢٣٩، ٢٧١، ٣٠٠، ٣١٩، ٣٣٨، ٤٧٥، ٤٩٣، ٥٣٠) (صحیح )

【14】

ترک کفار سے لڑائی کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے لڑو گے جن کی جوتیاں بالوں کی ہوں گی، اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے لڑو گے جن کی آنکھیں چھوٹی اور ناک چپٹی ہوں گی، اور ان کے چہرے اس طرح ہوں گے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجہاد ٩٦ (٢٩٢٩) ، صحیح مسلم/ الإمارة ١٢ (٢٩١٢) ، سنن الترمذی/ الفتن ٤٠ (٢٢١٥) ، سنن ابن ماجہ/ الفتن ٣٦ (٤٠٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٩) (صحیح )

【15】

ترک کفار سے لڑائی کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں : تم سے ایک ایسی قوم لڑے گی جس کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی یعنی ترک، پھر فرمایا : تم انہیں تین بار پیچھے کھدیڑ دو گے، یہاں تک کہ تم انہیں جزیرہ عرب سے ملا دو گے، تو پہلی بار میں ان میں سے جو بھاگ گیا وہ نجات پا جائے گا، اور دوسری بار میں کچھ بچ جائیں گے، اور کچھ ہلاک ہوجائیں گے، اور تیسری بار میں ان کا بالکل خاتمہ ہی کردیا جائے گا أو کماقال (جیسا آپ ﷺ نے فرمایا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٣٤٨) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : یہی روایت امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کی ہے جس کا سیاق ابوداود کی اس حدیث کے سیاق کے مخالف ہے، اس میں ہے بریدہ (رض) کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا تھا، میں نے آپ کو کہتے سنا کہ میری امت کو ایک ایسی قوم تین بار کھدیڑے گی جس کے چہرے چوڑے، اور آنکھیں چھوٹیں ہوں گی، گویا ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال ہوں گے، یہاں تک کہ وہ انہیں جزیرہ عرب سے ملا دیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھدیڑنے والے ترک ہوں گے، وہ مسلمانوں کو کھدیڑیں گے، اس اختلاف کے ذکر کے بعد صاحب عون لکھتے ہیں : وعندي أن الصواب هي رواية أحمد وأما رواية أبي داود فالظاهر أنه وقع الوهم فيه من بعض الرواة ، اور اپنے اس نقطہ نظر کی تائید میں انہوں نے مزید شواہد بھی ذکر کئے ہیں (ملاحظہ ہو عون المعبود، ٤ ؍ ١٨٧) ، علی کل حال بریدہ (رض) کی حدیث ضعیف ہے۔

【16】

بصرہ کا بیان

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے کچھ لوگ دجلہ نامی ایک نہر کے قریب کے ایک نشیبی زمین پر اتریں گے جسے وہ لوگ بصرہ کہتے ہوں گے، اس پر ایک پل ہوگا، وہاں کے لوگ (تعداد میں) دیگر شہروں کے بالمقابل زیادہ ہوں گے، اور وہ مہاجرین کے شہروں میں سے ہوگا (ابومعمر کی روایت میں ہے کہ وہ مسلمانوں کے شہروں میں سے ہوگا) ، پھر جب آخری زمانہ ہوگا تو وہاں قنطورہ ١ ؎ کی اولاد (اہل بصرہ کے قتل کے لیے) آئیگی جن کے چہرے چوڑے، اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی، یہاں تک کہ وہ نہر کے کنارے اتریں گے، پھر تین گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک گروہ تو بیل کی دم، اور صحرا کو اختیار کر کے ہلاک ہوجائے گا، اور ایک گروہ اپنی جانوں کو بچا کر کافر ہوجانے کو قبول کرلے گا، اور ایک گروہ اپنی اولاد کو اپنے پیچھے چھوڑ کر نکل کھڑا ہوگا، اور ان سے لڑے گا یہی لوگ شہداء ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٧٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٤٠، ٤٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ترکوں کے جد اعلیٰ کا نام ہے۔

【17】

بصرہ کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ لوگ شہر بسائیں گے انہیں شہروں میں سے ایک شہر ہوگا جسے بصرہ یا بصیرہ کہا جاتا ہوگا، اگر تم اس سے گزرنا یا اس میں داخل ہونا تو اس کی سب شور زمین اس کی کلاء ١ ؎ اس کے بازار اور اس کے امراء کے دروازوں سے اپنے آپ کو بچانا، اور اپنے آپ کو اس کے اطراف ہی میں رکھنا، کیونکہ اس میں خسف (زمینوں کا دھنسنا) قذف (پتھر برسنا) اور رجف (زلزلہ) ہوگا، اور کچھ لوگ رات صحیح سالم ہو کر گزاریں گے، اور صبح کو بندر اور سور ہو کر اٹھیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بصرہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔

【18】

بصرہ کا بیان

صالح بن درہم کہتے ہیں کہ ہم حج کے ارادہ سے چلے تو اچانک ہمیں ایک شخص ملا ١ ؎ جس نے ہم سے پوچھا : کیا تمہارے قریب میں کوئی ایسی بستی ہے جسے ابلّہ کہا جاتا ہو ؟ ہم نے کہا : ہاں، ہے، پھر اس نے کہا : تم میں سے کون اس بات کی ضمانت لیتا ہے کہ وہ وہاں مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعت نماز پڑھے ؟ اور کہے : اس کا ثواب ابوہریرہ کو ملے کیونکہ میں نے اپنے خلیل ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ قیامت کے دن مسجد عشّار سے ایسے شہداء اٹھائے گا جن کے علاوہ کوئی اور شہداء بدر کے ہم پلہ نہ ہوں گے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مسجد نہر ٢ ؎ کے متصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٠١) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد ابوہریرہ (رض) ہیں۔ ٢ ؎ : اس سے مراد نہر فرات ہے۔

【19】

حبشہ کے بیان میں

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اہل حبشہ کو چھوڑے رہو جب تک وہ تمہیں چھوڑے ہوئے ہیں ١ ؎، کیونکہ کعبہ کے خزانے کو سوائے ایک باریک پنڈلیوں والے حبشی کے کوئی اور نہیں نکالے گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٨٦٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/٣٧١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان سے چھیڑ خوانی میں پہل نہ کرو۔ ٢ ؎ : ایسا قیامت کے قریب عیسیٰ (علیہ السلام) کے ظہور کے وقت ہوگا۔

【20】

حبشہ کے بیان میں

ابوزرعہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ مروان کے پاس مدینہ آئے تو وہاں اسے (قیامت کی) نشانیوں کے متعلق بیان کرتے سنا کہ سب سے پہلی نشانی ظہور دجال کی ہوگی، تو میں عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس گیا، اور ان سے اسے بیان کیا، تو عبداللہ نے صرف اتنا کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ پہلی نشانی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا ہے، یا بوقت چاشت لوگوں کے درمیان دابہ (چوپایہ) کا ظہور ہے، ان دونوں میں سے جو نشانی بھی پہلے واقع ہو دوسری بالکل اس سے متصل ہوگی، اور عبداللہ بن عمرو جن کے زیر مطالعہ آسمانی کتابیں رہا کرتی تھیں کہتے ہیں : میرا خیال ہے ان دونوں میں پہلے سورج کا پچھم سے نکلنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٣ (٢٩٤١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٢ (٤٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ٢٠١) (صحیح )

【21】

حبشہ کے بیان میں

حذیفہ بن اسید غفاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے کمرے کے زیر سایہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، ہم نے قیامت کا ذکر کیا تو ہماری آوازیں بلند ہوگئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک نہیں ہوگی، یا قائم نہیں ہوگی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں : سورج کا پچھم سے طلوع ہونا، دابہ (چوپایہ) کا ظہور، یاجوج و ماجوج کا خروج، ظہور دجال، ظہور عیسیٰ بن مریم، ظہور دخان (دھواں) اور تین جگہوں : مغرب، مشرق اور جزیرہ عرب میں خسف (دھنسنا) اور سب سے آخر میں یمن کی طرف سے عدن کے گہرائی میں سے ایک آگ ظاہر ہوگی وہ ہانک کر لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٣ (٢٩٠١) ، سنن الترمذی/الفتن ٢١ (٢١٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٨ (٤٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٧) (صحیح )

【22】

حبشہ کے بیان میں

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج پچھم سے نہ نکل آئے، تو جب سورج نکلے گا اور لوگ اس کو دیکھ لیں گے تو جو بھی روئے زمین پر ہوگا ایمان لے آئے گا، لیکن یہی وہ وقت ہوگا جب کسی کو بھی جو اس سے پہلے ایمان نہ لے آیا ہو اور اپنے ایمان میں خیر نہ کما لیا ہو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر القرآن ٧ (٤٦٣٥) ، الرقاق ٤٠ (٦٥٠٦) ، الفتن ٢٥ (٧١٢١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٢ (١٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣١ (٤٠٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/التفسیر ٧ (٣٠٧٢) ، مسند احمد ( ٢/٢٣١، ٣١٣، ٣٥٠، ٣٧٢، ٥٣٠) (صحیح )

【23】

دریائے فرات کا خزانہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ فرات کے اندر سونے کا خزانہ نکلے تو جو کوئی وہاں موجود ہو اس میں سے کچھ نہ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٤ (٧١١٩) ، صحیح مسلم/الفتن ٨ (٢٨٩٤) ، سنن الترمذی/صفة الجنة ٢٦ (٢٥٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٥ (٤٠٤٦) ، مسند احمد ( ٢/٢٦١، ٣٣٢، ٣٦٠) (صحیح )

【24】

دریائے فرات کا خزانہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے مگر اس میں ہے کہ سونے کا پہاڑ ظاہر ہوجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پانی خشک ہوجائے گا اور سونے کا پہاڑ نظر آنے لگے گا۔

【25】

دجال کے نکلنے کا بیان

ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ حذیفہ (رض) اور ابن مسعود (رض) اکٹھا ہوئے تو حذیفہ نے کہا : دجال کے ساتھ جو چیز ہوگی میں اسے خوب جانتا ہوں، اس کے ساتھ ایک نہر پانی کی ہوگی اور ایک آگ کی، جس کو تم آگ سمجھتے ہو گے وہ پانی ہوگا، اور جس کو پانی سمجھتے ہو گے وہ آگ ہوگی، تو جو تم میں سے اسے پائے اور پانی پینا چاہے تو چاہیئے کہ وہ اس میں سے پئے جسے وہ آگ سمجھ رہا ہے کیونکہ وہ اسے پانی پائے گا۔ ابومسعود بدری (رض) کہتے ہیں : اسی طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٥٠) والفتن ٢٦ (٧١٣٠) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٩٥، ٣٩٩) (صحیح )

【26】

دجال کے نکلنے کا بیان

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا گیا جس نے اپنی امت کو کانے اور جھوٹے دجال سے ڈرایا نہ ہو، تو خوب سن لو کہ وہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے، اور اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ یعنی پیشانی پر کافر لکھا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢٦ (٧١٣١) التوحید ١٧ (٧٤٠٨) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢٩٣٣) ، سنن الترمذی/الفتن ٦٢ (٢٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٣، ١٧٣، ٢٧٦، ٢٩٠) (صحیح )

【27】

دجال کے نکلنے کا بیان

شعبہ سے ک ف ر مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٤١ )

【28】

دجال کے نکلنے کا بیان

انس بن مالک (رض) نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے : اسے ہر مسلمان پڑھ لے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الفتن ٢٠ (٢٩٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١١، ٢٤٩) (صحیح )

【29】

دجال کے نکلنے کا بیان

عمران بن حصین (رض) کو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو دجال کے متعلق سنے کہ وہ ظاہر ہوچکا ہے تو وہ اس سے دور ہی رہے کیونکہ قسم ہے اللہ کی ! آدمی اس کے پاس آئے گا تو یہی سمجھے گا کہ وہ مومن ہے، اور وہ اس کا ان مشتبہ چیزوں کی وجہ سے جن کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہوگا تابع ہوجائے گا راوی کو شک ہے کہ مما یبعث بہ کہا ہے یا لما یبعث بہ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٤٣١، ٤٤١) (صحیح )

【30】

دجال کے نکلنے کا بیان

عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں دجال کے متعلق تمہیں اتنی باتیں بتاچکا ہوں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم اسے یاد نہ رکھ سکو گے (تو یاد رکھو) مسیح دجال پستہ قد ہوگا، چلنے میں اس کے دونوں پاؤں کے بیچ فاصلہ رہے گا، اس کے بال گھونگھریالے ہوں گے، کانا ہوگا، آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، نہ ابھری ہوئی اور نہ اندر گھسی ہوئی، پھر اس پر بھی اگر تمہیں اشتباہ ہوجائے تو یاد رکھو تمہارا رب کانا نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٢٤) (صحیح )

【31】

دجال کے نکلنے کا بیان

نواس بن سمعان کلابی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا : اگر وہ ظاہر ہوا اور میں تم میں موجود رہا تو تمہارے بجائے میں اس سے جھگڑوں گا، اور اگر وہ ظاہر ہوا اور میں تم میں نہیں رہا تو آدمی خود اس سے نپٹے گا، اور اللہ ہی ہر مسلمان کے لیے میرا خلیفہ ہے، پس تم میں سے جو اس کو پائے تو اس پر سورة الکہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے کیونکہ یہ تمہیں اس کے فتنے سے بچائیں گی ۔ ہم نے عرض کیا : وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چالیس دن تک، اس کا ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا، اور ایک دن ایک مہینہ کے، اور ایک دن ایک ہفتہ کے، اور باقی دن تمہارے اور دنوں کی طرح ہوں گے ۔ تو ہم نے پوچھا : اللہ کے رسول ! جو دن ایک سال کے برابر ہوگا، کیا اس میں ایک دن اور رات کی نماز ہمارے لیے کافی ہوں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، تم اس دن اندازہ کرلینا، اور اسی حساب سے نماز پڑھنا، پھر عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے، اور اسے (یعنی دجال کو) باب لد ١ ؎ کے پاس پائیں گے اور وہیں اسے قتل کردیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٠ (٢٩٣٧) ، سنن الترمذی/الفتن ٥٩ (٢٢٤٠) ، سنن ابن ماجہ/ الفتن (٤٠٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/١٨١، ١٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بیت المقدس کے پاس ایک شہر کا نام ہے۔

【32】

دجال کے نکلنے کا بیان

ابوامامہ (رض) نے بھی اسی طرح کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور نمازوں کا ذکر سابقہ حدیث کی طرح کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٣ (٤٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٩٦) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے )

【33】

دجال کے نکلنے کا بیان

ابوالدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورة الکہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ہشام دستوائی نے قتادہ سے روایت کیا ہے مگر اس میں ہے : جس نے سورة الکہف کی آخری آیتیں یاد کیں ، شعبہ نے بھی قتادہ سے کہف کے آخر سے کے الفاظ روایت کئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٤ (٨٠٩) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٦ (٢٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٣) (صحیح )

【34】

دجال کے نکلنے کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اور ان یعنی عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، یقیناً وہ اتریں گے، جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا، وہ ایک درمیانی قد و قامت کے شخص ہوں گے، ان کا رنگ سرخ و سفید ہوگا، ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے، ایسا لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے، تو وہ لوگوں سے اسلام کے لیے جہاد کریں گے، صلیب توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف کردیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں سوائے اسلام کے سارے مذاہب کو ختم کر دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، پھر اس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کی وفات ہوگی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٦، ٤٣٧) (صحیح )

【35】

جساسہ کے بیان میں

فاطمہ بنت قیس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات عشاء پڑھنے میں دیر کی، پھر نکلے تو فرمایا : مجھے ایک بات نے روک لیا، جسے تمیم داری ایک آدمی کے متعلق بیان کر رہے تھے، تو میں سمندر کے جزیروں میں سے ایک جزیرے میں تھا، تمیم کہتے ہیں کہ ناگاہ میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے بال کھینچ رہی ہے، تو میں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ وہ بولی : میں جساسہ ١ ؎ ہوں، تم اس محل کی طرف جاؤ، تو میں اس محل میں آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک شخص ہے جو اپنے بال کھینچ رہا ہے، وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے، اور آسمان و زمین کے درمیان میں اچھلتا ہے، میں نے اس سے پوچھا : تم کون ہو ؟ تو اس نے کہا : میں دجال ہوں، کیا امیوں کے نبی کا ظہور ہوگیا ؟ میں نے کہا : ہاں (وہ ظاہر ہوچکے ہیں) اس نے پوچھا : لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے یا نافرمانی ؟ میں نے کہا : نہیں، بلکہ لوگوں نے ان کی اطاعت کی ہے، تو اس نے کہا : یہ بہتر ہے ان کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جساسہ ایک عورت ہے اور اس کے بعد والی روایت میں ہے کہ وہ ایک دابہ ہے بظاہر دونوں روایتیں متعارض ہیں اس تعارض کو حسب ذیل طریقے سے دفع کیا جاتا ہے : ١۔ ہوسکتا ہے کہ دجال کے پاس دو جساسہ ہوں ایک دابہ ہو اور دوسری عورت ہو، ٢۔ یا وہ شیطانہ ہو جو کبھی دابہ کی شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہو اور کبھی عورت کی شکل میں کیونکہ شیطان جو شکل چاہے اپنا سکتا ہے، ٣۔ یا اسے مجازاً دابہ کہا گیا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وما من دابّ ۃ فی الارض إلا علی اللہ رزقھا میں ہے، اگلی روایت کے الفاظ فرقنا منھا ان تکون شیطان ۃ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

【36】

جساسہ کے بیان میں

فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے منادی کو پکارتے سنا : لوگو ! نماز کے لیے جمع ہوجاؤ ، تو میں نکلی اور جا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ہنستے ہوئے منبر پر جا بیٹھے، اور فرمایا : ہر شخص اپنی جگہ پر بیٹھا رہے پھر فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں جہنم سے ڈرانے اور جنت کا شوق دلانے کے لیے نہیں اکٹھا کیا ہے، بلکہ میں نے تمہیں یہ بتلانے کے لیے اکٹھا کیا ہے کہ تمیم داری نے جو نصرانی شخص تھے آ کر مجھ سے بیعت کی ہے، اور اسلام لے آئے ہیں، انہوں نے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا ہے جو اس بات کے مطابق ہے جو میں نے تمہیں دجال کے متعلق بتائی ہے، انہوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سمندری کشتی پر سوار ہوئے، ان کے ہمراہ قبیلہ لخم اور جذام کے تیس آدمی بھی تھے، تو پورے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں ان کے ساتھ کھیلتی رہیں پھر سورج ڈوبتے وقت وہ ایک جزیرہ کے پاس جا لگے، وہاں سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے، وہاں انہیں ایک لمبی دم اور زیادہ بالوں والا ایک دابہ (جانور) ملا، لوگوں نے اس سے کہا : کم بخت تو کیا چیز ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں جساسہ ہوں، تم اس شخص کے پاس جاؤ جو اس گھر میں ہے، وہ تمہاری خبروں کا بہت مشتاق ہے، جب ہم سے اس نے اس شخص کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں یہ شیطان نہ ہو، پھر وہاں سے جلدی سے بھاگے اور اس گھر میں جا پہنچے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عظیم الجثہ اور انتہائی طاقتور انسان ہے کہ اس جیسا انسان ہم نے کبھی نہیں دیکھا، جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے اور اس کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی ١ ؎ اور ان سے بیسان ٢ ؎ کے کھجوروں، اور زعر ٣ ؎ کے چشموں کا حال پوچھا، اور نبی امی کے متعلق دریافت کیا، پھر اس نے اپنے متعلق بتایا کہ میں مسیح دجال ہوں، اور قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، (پھر آپ نے کہا :) نہیں، بلکہ مشرق کی سمت میں ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دو بار مشرق کی جانب اشارہ کیا۔ فاطمہ کہتی ہیں : یہ حدیث میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر یاد کی ہے، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢٤ (٢٩٤٢) ، سنن الترمذی/الفتن ٦٦ (٢٢٥٣) ، ق /الفتن ٣٣ (٤٠٧٤) (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/٣٧٤، ٤١١، ٤١٢، ٤١٣، ٤١٥، ٤١٦، ٤١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جس میں ہے کہ اس نے ان سے رسول اللہ ﷺ اور عربوں کا حال پوچھا جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔ ٢ ؎ : بیسان : شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ٣ ؎ : زعر : یہ بھی شام میں ایک جگہ کا نام ہے۔

【37】

جساسہ کے بیان میں

فاطمہ بنت قیس (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر آپ منبر پر چڑھے، اس سے پہلے آپ صرف جمعہ ہی کو منبر پر چڑھتے تھے، پھر راوی نے اسی قصہ کا ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٤) (ضعیف) (اس سند میں مجالد ضعیف ہیں )

【38】

جساسہ کے بیان میں

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن منبر پر فرمایا : کچھ لوگ سمندر میں سفر کر رہے تھے کہ اسی دوران ان کا کھانا ختم ہوگیا تو ان کو ایک جزیرہ نظر آیا اور وہ روٹی کی تلاش میں نکلے، ان کی ملاقات جساسہ سے ہوئی ولید بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے ابوسلمہ سے پوچھا : جساسہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایک عورت تھی جو اپنی کھال اور سر کے بال کھینچ رہی تھی، اس جساسہ نے کہا : اس محل میں (چلو) پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے اور دجال نے بیسان کے کھجور کے درختوں، اور زغر کے چشموں کے متعلق دریافت کیا، اس میں ہے یہی مسیح ہے ۔ ولید بن عبداللہ کہتے ہیں : اس پر ابن ابی سلمہ نے مجھ سے کہا : اس حدیث میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو مجھے یاد نہیں ہیں۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں : جابر نے پورے وثوق سے کہا : یہی ابن صیاد ١ ؎ ہے، تو میں نے کہا : وہ تو مرچکا ہے، اس پر انہوں نے کہا : مرجانے دو ، میں نے کہا : وہ تو مسلمان ہوگیا تھا، کہا : ہوجانے دو ، میں نے کہا : وہ مدینہ میں آیا تھا، کہا : آنے دو ، اس سے کیا ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٦١) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے بعض حضرات یہ سمجھتے تھے کہ ابن صیاد ہی وہ مسیح دجال ہے جس کے قیامت کے قریب ظہور کا وعدہ کیا گیا ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس (رض) کی روایت کی بنا پر اس بات میں کوئی قطعیت نہیں ، وہ تو بس ایک چھوٹا دجال ہے، نیز امام بیہقی کہتے ہیں : فاطمہ (رض) کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ دجال اکبر ابن صیاد نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان جھوٹے دجالوں میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی، اور جن میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے، جن لوگوں نے ابن صیاد کو وثوق کے ساتھ مسیح دجال قرار دیا ہے انہوں نے تمیم داری (رض) والا واقعہ نہیں سنا ہے، کیونکہ دونوں باتیں ایک پر فٹ نہیں ہوسکتیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص نبی اکرم ﷺ کے عہد نبوت میں ایک قریب البلوغ لڑکا ہو، آپ سے مل چکا ہو اور آپ سے سوال و جواب کرچکا ہو، وہ آپ کے آخری عمر میں بوڑھا ہوگیا، اور سمندر کے ایک جزیرہ میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا پڑا ہو، اور نبی اکرم ﷺ کے متعلق پوچھ رہا ہو کہ آپ کا ظہور ہوا کہ نہیں ؟۔

【39】

ابن صیاد کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، وہ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ ایک کمسن لڑکا تھا تو اسے رسول اللہ ﷺ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہوسکا جب تک آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پشت پر مار نہ دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ تو ابن صیاد نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا، اور بولا : ہاں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ تو آپ نے اس سے فرمایا : میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا پھر آپ ﷺ نے اس سے کہا : تیرے پاس کیا چیز آتی ہے ؟ وہ بولا : سچی اور جھوٹی باتیں آتی ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو معاملہ تیرے اوپر مشتبہ ہوگیا ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تیرے لیے ایک بات چھپائی ہے اور آپ نے اپنے دل میں يوم تأتي السماء بدخان مبين (سورۃ الدخان : ١٠) والی آیت چھپالی، تو ابن صیاد نے کہا : وہ چھپی ہوئی چیز دُخ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہٹ جا، تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا ، اس پر عمر (رض) بولے : اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس کی گردن مار دوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر یہ (دجال) ہے تو تم اس پر قادر نہ ہو سکو گے، اور اگر وہ نہیں ہے تو پھر اس کے قتل میں کوئی بھلائی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٩ (١٣٥٤) ، الجہاد ١٧٨ (٣٠٥٥) ، الأدب ٩٧ (٦٦١٨) ، صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٣٠) ، سنن الترمذی/الفتن ٦٣ (٢٢٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/١٤٨، ١٤٩) وأعادہ المؤلف فی السنة (٤٧٥٧) (صحیح )

【40】

ابن صیاد کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) کہتے تھے : قسم اللہ کی مجھے اس میں شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف :) (صحیح الإسناد )

【41】

ابن صیاد کا بیان

محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے کہا : آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں ؟ تو بولے : میں نے عمر (رض) کو اس بات پر رسول اللہ ﷺ کے پاس قسم کھاتے سنا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس پر ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢٣ (٧٣٥٥) ، صحیح مسلم/الفتن ١٩ (٢٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٠١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ تمیم داری (رض) والے واقعہ کے رسول اللہ ﷺ کے علم میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔

【42】

ابن صیاد کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ابن صیاد ہم کو یوم حرہ ١ ؎ کو غائب ملا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود (صحیح الإسناد) ( راجع الفتح/ الاعتصام : ٢٣، و تحفة الأحوذي : ٦/٤٢٦ ) وضاحت : ١ ؎ : حرہ وہ واقعہ ہے جو مدینہ منورہ میں یزید کے لشکر کے ہاتھوں پیش آیا۔

【43】

ابن صیاد کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس دجال ظاہر نہ ہوجائیں، وہ سب یہی کہیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/٤٥٠، ٤٥٧) (صحیح )

【44】

ابن صیاد کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تیس جھوٹے دجال ظاہر نہ ہوجائیں، اور ان میں سے ہر ایک اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥١٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٥٠، ٥٢٧) (حسن الإسناد )

【45】

ابن صیاد کا بیان

ابراہیم کہتے ہیں : عبیدہ سلمانی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی تو میں نے ان سے پوچھا : کیا آپ اسے یعنی مختار (ابن ابی عبید ثقفی) کو بھی انہیں دجالوں میں سے ایک سمجھتے ہیں تو عبیدہ کہنے لگے : وہ تو ان کا سردار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٩٩) (ضعیف )

【46】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر رہے ہو اس سے باز آجاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے درست نہیں ہے، پھر دوسرے دن اس سے ملتا تو اس کے ساتھ کھانے پینے اور اس کی ہم نشینی اختیار کرنے سے یہ چیزیں (غلط کاریاں) اس کے لیے مانع نہ ہوتیں، تو جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا پھر آپ نے آیت کریمہ لعن الذين کفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم سے لے کر۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے قول فاسقون بنی اسرائیل کے کافروں پر داود (علیہ السلام) اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی (سورۃ المائدہ : ٧٨) تک کی تلاوت کی، پھر فرمایا : ہرگز ایسا نہیں، قسم اللہ کی ! تم ضرور اچھی باتوں کا حکم دو گے، بری باتوں سے روکو گے، ظالم کے ہاتھ پکڑو گے، اور اسے حق کی طرف موڑے رکھو گے اور حق و انصاف ہی پر اسے قائم رکھو گے یعنی زبردستی اسے اس پر مجبور کرتے رہو گے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٦ (٣٠٤٧، ٣٠٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩١) (ضعیف) (ابوعبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہیں )

【47】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں یہ اضافہ ہے : اللہ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے ملا دے گا، پھر تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان پر لعنت کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٤) (ضعیف )

【48】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : لوگو ! تم آیت کریمہ عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم اے ایمان والو اپنی فکر کرو جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا (سورۃ المائدہ : ١٠٥) پڑھتے ہو اور اسے اس کے اصل معنی سے پھیر کر دوسرے معنی پر محمول کردیتے ہو۔ وھب کی روایت جسے انہوں نے خالد سے روایت کیا ہے، میں ہے : ہم نے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے : لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں، اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لے ۔ اور عمرو کی حدیث میں جسے انہوں نے ہشیم سے روایت کی ہے مذکور ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس قوم میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں، پھر وہ اسے روکنے پر قادر ہو اور نہ روکے تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب میں گرفتار کرلے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے ابواسامہ اور ایک جماعت نے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے خالد نے کیا ہے۔ شعبہ کہتے ہیں : اس میں یہ بات بھی ہے کہ ایسی کوئی قوم نہیں جس میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں اور زیادہ تر افراد گناہ کے کام میں ملوث ہوں اور ان پر عذاب نہ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٨ (٢١٦٨) ، تفسیر القرآن سورة المائدة ١٩ (٣٠٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٦١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٢، ٥، ٧ ، ٩) (صحیح )

【49】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو آدمی کسی ایسی قوم میں ہو جس میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں اور وہ اسے روکنے پر قدرت رکھتا ہو اور نہ روکے تو اللہ اسے مرنے سے پہلے ضرور کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٢٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠٠٩) (حسن )

【50】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو کوئی منکر دیکھے، اور اپنے ہاتھ سے اسے روک سکتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر وہ ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اپنی زبان سے بھی نہ روک سکے تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم :(١١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٥) (صحیح )

【51】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی (رض) سے پوچھا : ابوثعلبہ ! آپ آیت کریمہ عليكم أنفسکم کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! تم نے اس کے متعلق ایک جانکار شخص سے سوال کیا ہے، میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا (کہ کیا اس آیت کی رو سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ضرورت باقی نہیں رہی ؟ ) تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ تم بھلی بات کا حکم دو ، اور بری بات سے روکو، یہاں تک کہ تم یہ نہ دیکھ لو کہ بخیلی کی تابعداری ہو رہی ہو اور خواہش نفس کی پیروی کی جاتی ہو اور دنیا کو ترجیح دیا جاتا ہو اور ہر صاحب رائے کا اپنی رائے میں مگن ہونا دیکھ لو، تو اس وقت تم اپنی ذات کو لازم پکڑنا اور عوام کو چھوڑ دینا کیونکہ اس کے بعد صبر کے دن ہوں گے ان میں صبر کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے چنگاری ہاتھ میں لینا، ان دنوں میں عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کے برابر جو اسی جیسا عمل کرتے ہوں ثواب ملے گا اور ان کے علاوہ نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ ثواب ایسے پچاس شخصوں کا ہوگا جو انہیں میں سے ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ تم میں سے پچاس شخصوں کا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة المائدة ١٨ (٣٠٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢١ (٤٠١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨١) (ضعیف )

【52】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہوگا ؟ یا آپ نے یوں فرمایا : عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ چھن اٹھیں گے، اچھے لوگ سب مرجائیں گے، اور کوڑا کرکٹ یعنی برے لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کے عہد و پیمان اور ان کی امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہوگا (یعنی لوگ بدعہدی اور امانتوں میں خیانت کریں گے) آپس میں اختلاف کریں گے اور اس طرح ہوجائیں گے آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت ہم کیا کریں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو بات تمہیں بھلی لگے اسے اختیار کرو، اور جو بری لگے اسے چھوڑ دو ، اور خاص کر اپنی فکر کرو، عام لوگوں کی فکر چھوڑ دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح عبداللہ بن عمرو (رض) سے مرفوعاً اس سند کے علاوہ سے بھی مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٠ (٣٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٠) ، مسند احمد (٢/٢١٢) (صحیح )

【53】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فتنہ کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کے عہد فاسد ہوگئے ہوں، اور ان سے امانتداریاں کم ہوگئیں ہوں اور آپ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر بتایا کہ ان کا حال اس طرح ہوگیا ہو عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں : یہ سن کر میں آپ کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا، اور میں نے عرض کیا : اللہ مجھے آپ پر قربان فرمائے ! ایسے وقت میں میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھر کو لازم پکڑنا، اور اپنی زبان پر قابو رکھنا، اور جو چیز بھلی لگے اسے اختیار کرنا، اور جو بری ہو اسے چھوڑ دینا، اور صرف اپنی فکر کرنا عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٢) (حسن صحیح )

【54】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم حاکم کے پاس انصاف کی بات کہنی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ١٢ (٢١٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٢٠ (٤٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٣٤) (صحیح )

【55】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

عرس بن عمیرہ کندی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب زمین پر گناہ کے کام کئے جاتے ہوں تو جو شخص وہاں حاضر رہا اور اسے ناپسند کیا یا برا جانا اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جس نے اسے دیکھا ہی نہ ہو، اور جو شخص وہاں حاضر نہ تھا لیکن اسے پسند کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وہاں حاضر تھا (یعنی اسے بھی گناہ سے رضا مندی کے باعث گناہ ملے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٤) (حسن )

【56】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

عدی بن عدی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا : جس نے اس کو دیکھا اور ناپسند کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اسے دیکھا ہی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٤، ١٩٠٠٦) (حسن )

【57】

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بیان

ابوالبختری کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے، اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہوں گے جب تک ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے یا وہ خود اپنا عذر زائل نہ کرلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٢٦٠، ٥/٢٩٣) (صحیح )

【58】

قیامت قائم ہونے کا بیان

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا : تمہیں پتا ہے، آج کی رات کے سو سال بعد اس وقت جتنے آدمی اس روئے زمین پر ہیں ان میں سے کوئی بھی (زندہ) باقی نہیں رہے گا ابن عمر (رض) کہتے ہیں : لوگ رسول اللہ ﷺ کی سو سال کے بعد کے متعلق احادیث بیان کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ سو برس بعد قیامت آجائے گی، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ آج روئے زمین پر جتنے لوگ زندہ ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئی زندہ نہ رہے گا مطلب یہ تھا کہ یہ نسل ختم ہوجائے گی، اور دوسری نسل آجائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٥٣ (٢٥٣٧) ، سنن الترمذی/الفتن ٦٤ (٢٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٦) ، مواقیت الصلاة ٢٠ (٦٠١) (صحیح )

【59】

قیامت قائم ہونے کا بیان

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اس امت کو قیامت کے دن کے آدھے دن سے کم باقی نہیں رکھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ امت کم سے کم پانچ سو سال تک باقی رہے گی۔

【60】

قیامت قائم ہونے کا بیان

سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں امید رکھتا ہوں کہ میری امت اتنی تو عاجز نہ ہوگی کہ اللہ اس کو آدھے دن کی مہلت نہ دے ۔ سعد (رض) سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے کہا : پانچ سو سال۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/١٧٠) (صحیح )