36. دیت کا بیان
جان کے بدلہ جان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قریظہ اور نضیر دو (یہودی) قبیلے تھے، نضیر قریظہ سے زیادہ باعزت تھے، جب قریظہ کا کوئی آدمی نضیر کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو اسے اس کے بدلے قتل کردیا جاتا، اور جب نضیر کا کوئی آدمی قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کردیتا تو سو وسق کھجور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا جاتا، جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو نضیر کے ایک آدمی نے قریظہ کے ایک آدمی کو قتل کردیا، تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسے ہمارے حوالے کرو، ہم اسے قتل کریں گے، نضیر نے کہا : ہمارے اور تمہارے درمیان نبی اکرم ﷺ فیصلہ کریں گے، چناچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آیت وإن حکمت فاحکم بينهم بالقسط اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو اتری، اور انصاف کی بات یہ تھی کہ جان کے بدلے جان لی جائے، پھر آیت أفحکم الجاهلية يبغون کیا یہ لوگ جاہلیت کے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں ؟ نازل ہوئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قریظہ اور نضیر دونوں ہارون (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٤(٤٧٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٩) (صحیح )
باپ یا بھائی کے جرم میں بیٹے کو یا بھائی کو نہیں پکڑا جائے گا
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، آپ نے میرے والد سے پوچھا : یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ میرے والد نے کہا : ہاں رب کعبہ کی قسم ! آپ ﷺ نے فرمایا : سچ مچ ؟ انہوں نے کہا : میں اس کی گواہی دیتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ مسکرائے، کیونکہ میں اپنے والد کے مشابہ تھا، اور میرے والد نے قسم کھائی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : سنو ! نہ یہ تمہارے جرم میں پکڑا جائے گا، اور نہ تم اس کے جرم میں اور پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی ولا تزر وازرة وزر أخرى کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی (الانعام : ١٦٤، الاسراء : ١٥، الفاطر : ١٨) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٤٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٧) (صحیح )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
ابوشریح خزاعی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو (اپنے کسی رشتہ دار کے) قتل ہونے، یا زخمی ہونے کی تکلیف پہنچی ہو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہوگا : یا تو قصاص لے لے، یا معاف کر دے، یا دیت لے لے، اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو، اور جس نے ان (اختیارات) میں زیادتی کی تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٣ (٢٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٣١) ، سنن الدارمی/الدیات ١ (٢٣٩٦) (ضعیف )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب بھی نبی اکرم ﷺ کے پاس کوئی ایسا مقدمہ لایا جاتا جس میں قصاص لازم ہوتا تو میں نے آپ کو یہی دیکھا کہ (پہلے) آپ اس میں معاف کردینے کا حکم دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٣ (٤٧٨٧، ٤٧٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٥ (٢٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٣، ٢٥٢) (صحیح )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص قتل کردیا گیا تو یہ مقدمہ نبی اکرم ﷺ کی عدالت میں پیش کیا گیا، آپ نے اس (قاتل) کو مقتول کے وارث کے حوالے کردیا، قاتل کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے وارث سے فرمایا : سنو ! اگر یہ سچا ہے اور تم نے اسے قتل کردیا، تو تم جہنم میں جاؤ گے یہ سن کر اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، اس کے دونوں ہاتھ ایک تسمے سے بندھے ہوئے تھے، وہ اپنا تسمہ گھسیٹتا ہوا نکلا، تو اس کا نام ذوالنسعۃ یعنی تسمہ والا پڑگیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١٣ (١٤٠٧) ، سنن النسائی/القسامة ٣ (٤٧٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣٤ (٢٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٧) (صحیح )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا : کیا تم معاف کرو گے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو کیا دیت لو گے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو کیا تم قتل کرو گے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا لے جاؤ اسے چناچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : کیا تم اسے معاف کرو گے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم دیت لو گے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم قتل کرو گے ؟ اس نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے لے جاؤ چوتھی بار میں آپ ﷺ نے فرمایا : سنو ! اگر تم اسے معاف کر دو گے تو یہ اپنا اور مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر پر اٹھائے گا یہ سن کر اس نے اسے معاف کردیا۔ وائل کہتے ہیں : میں نے اسے دیکھا وہ اپنے گلے میں پڑا تسمہ گھسیٹ رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة ١٠ (١٦٨٠) ، سنن النسائی/القسامة ٣ (٤٧٢٨) ، القضاء ٢٥ (٥٤١٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الدیات ٨ (٢٤٠٤) (صحیح )
ابن صیاد کا بیان
اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٩ )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک حبشی کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا : اس نے میرے بھتیجے کو قتل کیا ہے، آپ نے اس سے پوچھا : تم نے اسے کیسے قتل کردیا ؟ وہ بولا : میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری اور وہ مرگیا، میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا، آپ نے پوچھا : کیا تمہارے پاس مال ہے کہ تم اس کی دیت ادا کرسکو اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : بتاؤ اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم لوگوں سے مانگ کر اس کی دیت اکٹھی کرسکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے مالکان اس کی دیت ادا کردیں گے ؟ اس نے کہا : نہیں، تب آپ نے اس شخص (مقتول کے وارث) سے فرمایا : اسے لے جاؤ جب وہ اسے قتل کرنے کے لیے لے کر چلا تو آپ نے فرمایا : اگر یہ اس کو قتل کر دے گا تو اسی کی طرح ہوجائے گا وہ آپ کی بات سن رہا تھا جب اس کے کان میں یہ بات پہنچی تو اس نے کہا : وہ یہ ہے، آپ جو چاہیں اس کے سلسلے میں حکم فرمائیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، وہ اپنا اور تمہارے بھتیجے کا گناہ لے کر لوٹے گا اور جہنمیوں میں سے ہوگا چناچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٤٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٩) (صحیح )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان (رض) کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہوجاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے : ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا : امیر المؤمنین ! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا : آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں : ایک یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور تیسرے یہ کہ ناحق کسی کو قتل کر دے تو اللہ کی قسم ! میں نے نہ تو جاہلیت میں، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی زنا کیا، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے ؟۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عثمان اور ابوبکر (رض) نے تو جاہلیت میں بھی شراب سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ١ (٢١٥٨) ، سنن النسائی/المحاربة ٦ (٤٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦١، ٦٢، ٦٥، ٧٠) ، دی/ الحدود ٢ (٢٣٤٣) (صحیح )
حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
زبیر بن عوام اور ان والد عوام (رض) (یہ دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے) سے روایت ہے کہ محلم بن جثامہ لیثی نے اسلام کے زمانے میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کردیا، اور یہی پہلی دیت ہے جس کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ نے کیا، تو عیینہ نے اشجعی کے قتل کے متعلق گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ عطفان سے تھا، اور اقرع بن حابس نے محلم کی جانب سے گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ خندف سے تھا تو آوازیں بلند ہوئیں، اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عیینہ ! کیا تم دیت قبول نہیں کرسکتے ؟ عیینہ نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم، اس وقت تک نہیں جب تک میں اس کی عورتوں کو وہی رنج و غم نہ پہنچا دوں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچایا ہے، پھر آوازیں بلند ہوئیں اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عیینہ ! کیا تم دیت قبول نہیں کرسکتے ؟ عیینہ نے پھر اسی طرح کی بات کہی یہاں تک کہ بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے مکیتل کہا جاتا تھا، وہ ہتھیار باندھے تھا اور ہاتھ میں سپر لیے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! شروع اسلام میں اس نے جو غلطی کی ہے، اسے میں یوں سمجھتا ہوں جیسے چند بکریاں چشمے پر آئیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو پہلے پہل آنے والیوں کو تیر لگے، اور پچھلی انہیں دیکھ کر ہی بھاگ جائیں، آج ایک طریقہ نکالئے اور کل اسے بدل دیجئیے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پچاس اونٹ ابھی فوراً دے دو ، اور پچاس مدینے لوٹ کردینا ۔ اور یہ واقعہ ایک سفر کے دوران پیش آیا تھا، محلم لمبا گندمی رنگ کا ایک شخص تھا، وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا، آخر کار جب وہ چھوٹ گیا تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ بیٹھا، اور اس کی آنکھیں اشک بار تھیں اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے گناہ کیا ہے جس کی خبر آپ کو پہنچی ہے، اب میں توبہ کرتا ہوں، آپ اللہ سے میری مغفرت کی دعا فرمائیے، اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے بہ آواز بلند فرمایا : کیا تم نے اسے ابتداء اسلام میں اپنے ہتھیار سے قتل کیا ہے، اے اللہ ! محلم کو نہ بخشنا ابوسلمہ نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ سن کر محلم کھڑا ہوا، وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں : محلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نضر بن شمیل کا کہنا ہے کہ غير کے معنی دیت کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٤ (٢٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/١١٢، ٦/١٠) (ضعیف )
قتل عمد میں وارث مقتول دیت لے سکتا ہے
ابوشریح کعبی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو خزاعہ کے لوگو ! تم نے ہذیل کے اس شخص کو قتل کیا ہے، اور میں اس کی دیت دلاؤں گا، میری اس گفتگو کے بعد کوئی قتل کیا گیا تو مقتول کے لوگوں کو دو باتوں کا اختیار ہوگا یا وہ دیت لے لیں یا قتل کر ڈالیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١٣ (١٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٤/٣١) (صحیح )
قتل عمد میں وارث مقتول دیت لے سکتا ہے
ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا : جس کا کوئی قتل کیا گیا تو اسے اختیار ہے یا تو دیت لے لے، یا قصاص میں قتل کرے یہ سن کر یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے ابوشاہ کہا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے یہ لکھ دیجئیے (عباس بن ولید کی روایت اکتب لی کے بجائے اکتبوا لی یہ صیغۂ جمع ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابو شاہ کے لیے لکھ دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اکتبوا لی سے مراد نبی اکرم ﷺ کا خطبہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٣، ١٥٣٦٥) (صحیح )
قتل عمد میں وارث مقتول دیت لے سکتا ہے
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کردیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ القسامة ٢٧ (٤٨٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٦ (٢٦٣٠) ، ویأتی برقم (٤٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٩) (حسن صحیح )
قاتل سے دیت سے لے کر پھر اسے قتل کردیا تو کیا حکم ہے؟
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اسے ہرگز نہیں معاف کروں گا ١ ؎ جو دیت لینے کے بعد بھی (قاتل کو) قتل کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٢٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٣٦٣) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس سے قصاص لے کر رہوں گا۔
جو کسی کو زہر کھلائے یا پلائے اور وہ مرجائے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک زہر آلود بکری لے کر آئی، آپ نے اس میں سے کچھ کھالیا، تو اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سلسلے میں اس سے پوچھا، تو اس نے کہا : میرا ارادہ آپ کو مار ڈالنے کا تھا، آپ نے فرمایا : اللہ تجھے کبھی مجھ پر مسلط نہیں کرے گا صحابہ نے عرض کیا : کیا ہم اسے قتل نہ کردیں، آپ نے فرمایا : نہیں چناچہ میں اس کا اثر برابر رسول اللہ ﷺ کے مسوڑھوں میں دیکھا کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٢٨ (٢٦١٧) ، صحیح مسلم/السلام ١٨ (٢١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨١) (صحیح )
جو کسی کو زہر کھلائے یا پلائے اور وہ مرجائے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک زہر آلود بکری بھیجی، لیکن آپ نے اس عورت سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ مرحب کی ایک یہودی بہن تھی جس نے نبی اکرم ﷺ کو زہر دیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٠، ١٣١٢٢، ١٥١٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجزیة ٧ (٣١٦٩) ، المغازي ٤١ (٤٢٤٩) ، الطب ٥٥ (٥٧٧٧) (صحیح) ( سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری میں ہے )
جو کسی کو زہر کھلائے یا پلائے اور وہ مرجائے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟
جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا، پھر اسے رسول اللہ ﷺ کو تحفہ میں بھیجا، آپ نے دست کا گوشت لے کر اس میں سے کچھ کھایا، آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی کھایا، پھر ان سے آپ نے فرمایا : اپنے ہاتھ روک لو اور آپ نے اس یہودیہ کو بلا بھیجا، اور اس سے سوال کیا : کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ یہودیہ بولی : آپ کو کس نے بتایا ؟ آپ نے فرمایا : دست کے اسی گوشت نے مجھے بتایا جو میرے ہاتھ میں ہے وہ بولی : ہاں (میں نے ملایا تھا) ، آپ نے پوچھا : اس سے تیرا کیا ارادہ تھا ؟ وہ بولی : میں نے سوچا : اگر نبی ہوں گے تو زہر نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اگر نہیں ہوں گے تو ہم کو ان سے نجات مل جائے گی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے معاف کردیا، کوئی سزا نہیں دی، اور آپ کے بعض صحابہ جنہوں نے بکری کا گوشت کھایا تھا انتقال کر گئے، رسول اللہ ﷺ نے بکری کے گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے شانوں کے درمیان پچھنے لگوائے، جسے ابوہند نے آپ کو سینگ اور چھری سے لگایا، ابوہند انصار کے قبیلہ بنی بیاضہ کے غلام تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٠٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المقدمة ١١ (٦٩) (ضعیف )
جو کسی کو زہر کھلائے یا پلائے اور وہ مرجائے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟
ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے رسول اللہ ﷺ کو بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی، پھر راوی نے ویسے ہی بیان کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے، ابوسلمہ کہتے ہیں : پھر بشر بن براء بن معرور انصاری فوت ہوگئے، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا : تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا ؟ پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلسلہ میں حکم دیا : تو وہ قتل کردی گئی، اور انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٤٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٢) (حسن صحیح) (ابوسلمہ نے اس حدیث میں ابوہریرہ (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن اس سے پہلے اور بعد کی حدیثوں میں صراحت ہے ملاحظہ ہو نمبر : ٤٥٠٩ اور ٤٥١٢ ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے پہلی والی حدیث میں معاف کردیئے جانے کا ذکر ہے، جبکہ اس حدیث میں قتل کئے جانے کا ذکر ہے، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ شروع میں جب زہر کھلانے کا علم ہوا، اور کہا گیا کہ اسے قتل کردیا جائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، لیکن جب اس زہر کی وجہ سے بشر بن البراء بن معرور انتقال کرگئے تب آپ نے اس یہودیہ کو ان کے ورثہ کے حوالے کردیا، پھر وہ بطور قصاص قتل کی گئی۔ (عون المعبود ١٢ ؍ ١٤٩ ) ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے، اور صدقہ نہیں کھاتے تھے، نیز اسی سند سے ایک اور مقام پر ابوہریرہ کے ذکر کے بغیر صرف ابوسلمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور صدقہ نہیں کھاتے تھے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ کو خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی جس میں اس نے زہر ملا رکھا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس میں سے کھایا اور لوگوں نے بھی کھایا، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا : اپنے ہاتھ روک لو، اس (گوشت) نے مجھے بتایا ہے کہ وہ زہر آلود ہے چناچہ بشر بن براء بن معرور انصاری مرگئے، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا کر فرمایا : ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا ؟ وہ بولی : اگر آپ نبی ہیں تو جو میں نے کیا ہے وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور اگر آپ بادشاہ ہیں تو میں نے لوگوں کو آپ سے نجات دلا دی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو وہ قتل کردی گئی، پھر آپ نے اپنی اس تکلیف کے بارے میں فرمایا : جس میں آپ نے وفات پائی کہ میں برابر خیبر کے اس کھانے کے اثر کو محسوس کرتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت آگیا کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٩) (حسن صحیح )
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے، اور صدقہ نہیں کھاتے تھے، نیز اسی سند سے ایک اور مقام پر ابوہریرہ کے ذکر کے بغیر صرف ابوسلمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور صدقہ نہیں کھاتے تھے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ کو خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی جس میں اس نے زہر ملا رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا اور لوگوں نے بھی کھایا، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: اپنے ہاتھ روک لو، اس ( گوشت ) نے مجھے بتایا ہے کہ وہ زہر آلود ہے چنانچہ بشر بن براء بن معرور انصاری مر گئے، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا کر فرمایا: ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ وہ بولی: اگر آپ نبی ہیں تو جو میں نے کیا ہے وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور اگر آپ بادشاہ ہیں تو میں نے لوگوں کو آپ سے نجات دلا دی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ قتل کر دی گئی، پھر آپ نے اپنی اس تکلیف کے بارے میں فرمایا: جس میں آپ نے وفات پائی کہ میں برابر خیبر کے اس کھانے کے اثر کو محسوس کرتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت آ گیا کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی۔
جو کسی کو زہر کھلائے یا پلائے اور وہ مرجائے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟
کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ام مبشر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اس مرض میں جس میں آپ نے وفات پائی کہا : اللہ کے رسول ! آپ کا شک کس چیز پر ہے ؟ میرے بیٹے کے سلسلہ میں میرا شک تو اس زہر آلود بکری پر ہے جو اس نے آپ کے ساتھ خیبر میں کھائی تھی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے سلسلہ میں بھی میرا شک اسی پر ہے، اور اب یہ وقت آچکا ہے کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرزاق نے کبھی اس حدیث کو معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور کبھی معمر نے اسے زہری سے اور، زہری نے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔ اور عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے کہ معمر اس حدیث کو ان سے کبھی مرسلاً روایت کرتے تو وہ اسے لکھ لیتے اور کبھی مسنداً روایت کرتے تو بھی وہ اسے بھی لکھ لیتے، اور ہمارے نزدیک دونوں صحیح ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں : جب ابن مبارک معمر کے پاس آئے تو معمر نے وہ تمام حدیثیں جنہیں وہ موقوفاً روایت کرتے تھے ان سے متصلًا روایت کیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١١٣٩، ١٩٨١٥، ١٨٣٥٨، ١٨٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٦/١٨) (صحیح ) ام مبشر (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں پھر راوی نے مخلد بن خالد کی حدیث کا مفہوم اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی روایت میں ہے، اس میں ہے کہ بشر بن براء بن معرور مرگئے، تو آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور پوچھا : یہ تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا ؟ پھر راوی نے وہی باتیں ذکر کیں جو جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور وہ قتل کردی گئی لیکن انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٩، ١٨٣٥٨) (صحیح )
None
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں پھر راوی نے مخلد بن خالد کی حدیث کا مفہوم اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی روایت میں ہے، اس میں ہے کہ بشر بن براء بن معرور مر گئے، تو آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور پوچھا: یہ تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ پھر راوی نے وہی باتیں ذکر کیں جو جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ قتل کر دی گئی لیکن انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا۔
جس نے اپنے غلام کو قتل کردیا یا مثلہ کردیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں ؟
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے، اور جو اس کے اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١٨ (١٤١٤) ، سنن النسائی/القسامة ٦ (٤٧٤٠) ، ٧ (٤٧٤٣) ، ١٢ (٤٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٣ (٢٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٥/١٠، ١١، ١٢، ١٨) ، دی/ الدیات ٧ (٢٤٠٣) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں ، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حسن بصری نے عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ سے دوسری احادیث نہیں سنی ہے )
جس نے اپنے غلام کو قتل کردیا یا مثلہ کردیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں ؟
اس سند سے بھی قتادہ سے بھی اسی کے مثل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کریں گے اس کے بعد راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے شعبہ اور حماد کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوداؤد طیالسی نے ہشام سے معاذ کی حدیث کی طرح نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٦) (ضعیف )
جس نے اپنے غلام کو قتل کردیا یا مثلہ کردیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں ؟
اس سند سے بھی قتادہ سے شعبہ کی سند والی روایت کے مثل مروی ہے اس میں اضافہ ہے کہ پھر حسن (راوی حدیث) اس حدیث کو بھول گئے چناچہ وہ کہتے تھے : آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر حدیث رقم : (٤٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٦) (صحیح )
ابن صیاد کا بیان
حسن بصری کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٣٦) (صحیح )
جس نے اپنے غلام کو قتل کردیا یا مثلہ کردیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں ؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص چیختا چلاتا نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اس کی ایک لونڈی تھی، آپ نے فرمایا : ستیاناس ہو تمہارا، بتاؤ کیا ہوا ؟ اس نے کہا : برا ہوا، میرے آقا کی ایک لونڈی تھی اسے میں نے دیکھ لیا، تو اسے غیرت آئی، اس نے میرا ذکر کٹوا دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کو میرے پاس لاؤ تو اسے بلایا گیا، مگر کوئی اسے نہ لاسکا تب آپ نے (اس غلام سے) فرمایا : جاؤ تم آزاد ہو اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میری مدد کون کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہر مومن پر یا کہا : ہر مسلمان پر تیری مدد لازم ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جو آزاد ہوا اس کا نام روح بن دینار تھا، اور جس نے ذکر کاٹا تھا وہ زنباع تھا، یہ زنباع ابوروح ہیں جو غلام کے آقا تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٩ (٢٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٦، ٤٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٢، ٢٢٥) (حسن )
قسامت کا بیان
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کردیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑوں کا لحاظ کرو (اور انہیں گفتگو کا موقع دو ) یا یوں فرمایا : بڑے کو پہلے بولنے دو چناچہ ان دونوں (حویصہ اور محیصہ) نے اپنے عزیز کے سلسلے میں گفتگو کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے پچاس آدمی یہودیوں کے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو اسے رسی سے باندھ کر تمہارے حوالے کردیا جائے ان لوگوں نے کہا : یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے، پھر ہم کیسے قسم کھا لیں ؟ آپ نے فرمایا : پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسم کے ذریعہ خود کو تم سے بچا لیں گے وہ بولے : اللہ کے رسول ! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار ؟ ) چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی طرف سے دیت دے دی، سہل کہتے ہیں : ایک دن میں ان کے شتر خانے میں گیا، تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی، حماد نے یہی کہا یا اس جیسی کوئی بات کہی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے بشر بن مفضل اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے : کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے ساتھی کے خون، یا اپنے قاتل کے مستحق ہوتے ہو ؟ البتہ بشر نے لفظ دم یعنی خون کا ذکر نہیں کیا ہے، اور عبدہ نے یحییٰ سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے حماد نے کی ہے، اور اسے ابن عیینہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے، تو انہوں نے ابتداء تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون سے کی ہے اور استحقاق کا ذکر انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ابن عیینہ کا وہم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٧ (٢٧٠٢) ، الجزیة ١٢ (٣١٧٣) ، الأدب ٨٩ (٦١٤٣) ، الدیات ٢٢ (٦٨٩٨) ، الأحکام ٣٨ (٧١٩٢) ، صحیح مسلم/القسامة ١ (١٦٦٩) ، سنن الترمذی/الدیات ٢٣ (١٤٤٢) ، سنن النسائی/القسامة ٢ (٤٧١٤) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٨ (٢٦٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٤، ١٥٥٣٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/القسامة ١ (١) ، مسند احمد ( ٤/٢، ٣) ، سنن الدارمی/الدیات ٢ (٢٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قسامہ یہ ہے کہ جب مقتول کی نعش کسی بستی یا محلہ میں ملے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو تو مقتول کے ورثہ کا جس پر گمان ہو اس پر پچاس قسمیں کھائیں کہ اس نے قتل کیا ہے اگر مقتول کے ورثہ قسم کھانے سے انکار کریں تو اہل محلہ میں سے جنہیں وہ اختیار کریں ان سے قسم لی جائے گی، اگر قسم کھا لیں تو ان پر کچھ مواخذہ نہیں ، اور قسم نہ کھانے کی صورت میں وہ دیت دیں، اور اگر نہ مقتول کے ولی قسم کھائیں، اور نہ ہی بستی یا محلہ والے تو سرکاری خزانہ سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائے گی، جیسا کہ آپ ﷺ نے ادا کیا۔
قسامت کا بیان
سہل بن ابی حثمہ انصاری (رض) اور ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ (رض) کسی پریشانی کی وجہ سے جس سے وہ دو چار ہوئے خیبر کی طرف نکلے پھر کسی نے آ کر محیصہ کو خبر دی کہ عبداللہ بن سہل مار ڈالے گئے اور انہیں کسی کنویں یا چشمے میں ڈال دیا گیا، وہ (محیصہ) یہود کے پاس آئے اور کہنے لگے : قسم اللہ کی ! تم نے ہی انہیں قتل کیا ہے، وہ بولے : اللہ کی قسم ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل تینوں (رسول اللہ ﷺ کے پاس) آئے، محیصہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کیونکہ وہی خیبر میں ساتھ تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑوں کو بڑائی دو آپ کی مراد عمر میں بڑائی سے تھی چناچہ حویصہ نے گفتگو کی، پھر محیصہ نے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یا تو یہ لوگ تمہارے آدمی کی دیت دیں، یا لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں پھر آپ نے اس سلسلے میں انہیں خط لکھا تو انہوں نے اس کا جواب لکھا کہ اللہ کی قسم ! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، تو آپ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن سے پوچھا : کیا تم قسم کھاؤ گے کہ اپنے بھائی کے خون کا مستحق بن سکو ؟ انہوں نے کہا : نہیں، اس پر آپ نے فرمایا : تو پھر یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے اس پر وہ کہنے لگے : وہ تو مسلمان نہیں ہیں، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کردی، اور سو اونٹ بھیج دیے گئے یہاں تک کہ وہ ان کے مکان میں داخل کردیے گئے، سہل کہتے ہیں : انہیں میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٦، ٤٦٤٤، ١٥٥٩٢) (صحیح )
قسامت کا بیان
عمرو بن شعیب رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے قسامہ سے بنی نصر بن مالک کے ایک آدمی کو بحرۃ الرغاء ١ ؎ میں لیۃ البحرہ ٢ ؎ کے کنارے پر قتل کیا، راوی کہتے ہیں : قاتل اور مقتول دونوں بنی نصر کے تھے، ببحرة الرغاء على شطر لية البحر کے یہ الفاظ محمود کے ہیں اور محمود اس حدیث کے سلسلہ میں سب سے زیادہ درست آدمی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٧٣) (ضعیف) (اس سند میں عمرو بن شعیب نے رسول اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم سے روایت کی ہے، عموماً وہ اپنے والد اور ان کے والد عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کرتے ہیں، اس لئے سند میں اعضال ہیں یعنی مسلسل دو راوی ایک جگہ سے ساقط ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎ : ایک وادی کا نام ہے۔
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری ان سے بیان کیا کہ ان کی قوم کے چند آدمی خیبر گئے، وہاں پہنچ کر وہ جدا ہوگئے، پھر اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا تو جن کے پاس اسے پایا ان سے ان لوگوں نے کہا : تم لوگوں نے ہی ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے، وہ کہنے لگے : ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمیں قاتل کا پتا ہے چناچہ ہم لوگ اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے، تو آپ نے ان سے فرمایا : تم اس پر گواہ لے کر آؤ کہ کس نے اسے مارا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہمارے پاس گواہ نہیں ہے، اس پر آپ نے فرمایا : پھر وہ یعنی یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے وہ کہنے لگے : ہم یہودیوں کی قسموں پر راضی نہیں ہوں گے، پھر آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اس کا خون ضائع ہوجائے چناچہ آپ نے اس کی دیت زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ خود دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٤٥٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٤، ١٥٥٣٦، ١٥٥٩٢) (صحیح )
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی خیبر میں قتل کردیا گیا، تو اس کے وارثین نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے پوچھا : کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے ساتھی کے مقتول ہوجانے کی گواہی دیں ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہاں پر تو مسلمانوں میں سے کوئی نہیں تھا، وہ تو سب کے سب یہودی ہیں اور وہ اس سے بڑے جرم کی بھی جرات کرلیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو ان میں پچاس افراد منتخب کر کے ان سے قسم لے لو لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٤) (صحیح )
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
عبدالرحمٰن بن بجید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم، سہل کو اس حدیث میں وہم ہوگیا ہے، واقعہ یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کو لکھا کہ تمہارے بیچ ایک مقتول ملا ہے تو تم اس کی دیت ادا کرو، تو انہوں نے جواب میں لکھا : ہم اللہ کی پچاس قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا پتا ہے، وہ کہتے ہیں : اس پر اس کی دیت رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے سو اونٹ (خود) ادا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٥٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٦) (منکر )
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
انصار کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پہلے یہود سے کہا : تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں تو انہوں نے انکار کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے انصار سے کہا : تم اپنا حق ثابت کرو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم ایسی بات پر قسم کھائیں جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے ؟ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت یہود سے دلوائی اس لیے کہ وہ انہیں کے درمیان پایا گیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٨٨، ١٥٦٩١) (شاذ )
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ملی جس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا تھا، اس سے پوچھا گیا : کس نے تیرے ساتھ یہ کیا ہے ؟ کیا فلاں نے ؟ کیا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا : ہاں، اس پر اس یہودی کو پکڑا گیا، تو اس نے اعتراف کیا، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٥ (٢٧٤٦) ، والطلاق ٢٤ (تعلیقاً ) ، الدیات ٤ (٦٨٧٦) ، ٥ (٦٨٧٧) ، ١٢ (٦٨٨٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٣ (١٦٧٢) ، سنن الترمذی/الدیات ٦ (١٣٩٤) ، سنن النسائی/المحاربة ٧ (٤٠٤٩) ، القسامة ٨ (٤٧٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٤ (٢٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/١٦٣، ١٨٣، ٢٠٣، ٢٦٧) ، سنن الدارمی/الدیات ٤ (٢٤٠٠) (صحیح )
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی کو اس کے زیور کی وجہ سے قتل کردیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں ڈال کر اس کا سر پتھر سے کچل دیا، تو اسے پکڑ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے تو اسے رجم کردیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جریج نے ایوب سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحدود ٣ (١٦٧٢) ، سنن النسائی/ المحاربة ٧ (٤٠٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٣) (صحیح )
قسامت میں قصاص ترک کردیا جائے گا
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے، ابھی اس میں جان باقی تھی، آپ نے اس سے پوچھا : تجھے کس نے قتل کیا ہے ؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے ؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے پھر پوچھا : تجھے کس نے قتل کیا ؟ فلاں نے قتل کیا ہے ؟ اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے پھر پوچھا : کیا فلاں نے کیا ہے ؟ اس نے سر کے اشارہ سے کہا : ہاں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا، تو اسے دو پتھروں کے درمیان (کچل کر) مار ڈالا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣١) (صحیح )
کافر کے بدلہ میں مسلمان کو قتل کرنے کا حکم
قیس بن عباد سے کہتے ہیں کہ میں اور اشتر دونوں علی (رض) کے پاس آئے اور ہم نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو عام لوگوں کو نہ بتائی ہو ؟ وہ بولے : نہیں، سوائے اس چیز کے جو میری اس کتاب میں ہے۔ مسدد کہتے ہیں : پھر انہوں نے ایک کتاب نکالی، احمد کے الفاظ یوں ہیں اپنی تلوار کے غلاف سے ایک کتاب (نکالی) اس میں یہ لکھا تھا : سب مسلمانوں کا خون برابر ہے اور وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں) گویا ایک ہاتھ ہیں، اور ان میں کا ایک ادنی بھی ان کے امان کا پاس و لحاظ رکھے گا ١ ؎، آگاہ رہو ! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا، اور جو شخص کوئی نئی بات نکالے گا تو اس کی ذمے داری اسی کے اوپر ہوگی، اور جو نئی بات نکالے گا، یا نئی بات نکالنے والے کسی شخص (بدعتی) کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ مسدد کہتے ہیں : ابن ابی عروبہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک کتاب نکالی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٥ (٤٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دے دے تو کوئی مسلمان اسے توڑ نہیں سکتا۔
کافر کے بدلہ میں مسلمان کو قتل کرنے کا حکم
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : … پھر راوی نے علی (رض) کی حدیث کی طرح ذکر کیا البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ان کا ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور مال غنیمت میں عمدہ جانور اور کمزور جانور والے دونوں برابر ہیں، جو لشکر سے باہر نکلے اور لڑے اور وہ جو لشکر میں بیٹھا رے دونوں برابر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وقد مضی بتمامہ ٢٧٥١، (تحفة الأشراف : ٨٨١٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٣١ (٢٦٨٥) (حسن صحیح )
جو شخص اپنی بیوی کے پاس کسی غیر مرد کو پائے تو کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں سعد نے کہا : کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ عزت دی (میں تو اسے قتل کر دوں گا) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سنو ! جو تمہارے سردار کہہ رہے ہیں (عبدالوہاب کے الفاظ ہیں، (سنو) جو سعد کہہ رہے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٤ (٢٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٩٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ١٩ (١٧) ، الحدود ١(٧) ، مسند احمد (٢/٤٦٥) (صحیح )
جو شخص اپنی بیوی کے پاس کسی غیر مرد کو پائے تو کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : بتائیے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٣٧) (صحیح )
زکوة وصول کرنے والے کے ہاتھ سے غلطی سے کسی کو اگر تکلیف پہنچ جائے تو کیا حکم ہے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں نبی اکرم ﷺ نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کرلیا، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہوگیا، تو لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! قصاص دلوائیے، اس پر آپ نے ان سے فرمایا : تم اتنا اور اتنا لے لو لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے فرمایا : اچھا اتنا اور اتنا لے لو وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا : اچھا اتنا اور اتنا لے لو اس پر وہ رضامند ہوگئے پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آج شام کو میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی خبر دوں گا لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا، اور فرمایا : قبیلہ لیث کے یہ لوگ قصاص کے ارادے سے میرے پاس آئے ہیں تو میں نے ان کو اتنا اور اتنا مال پیش کیا اس پر یہ راضی ہوگئے ہیں (پھر آپ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا :) بتاؤ کیا تم لوگ راضی ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں، تو مہاجرین ان پر جھپٹے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں ان سے باز رہنے کا حکم دیا، چناچہ وہ رک گئے، پھر آپ نے انہیں بلایا، اور کچھ اضافہ کیا پھر پوچھا : کیا اب تم راضی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : میں لوگوں کو خطاب کروں گا، اور انہیں تمہاری رضا مندی کے بارے میں بتاؤں گا لوگوں نے کہا : ٹھیک ہے، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے خطاب کیا، اور پوچھا : کیا تم راضی ہو ؟ وہ بولے : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٠ (٤٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٣ (٢٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣٢) (صحیح )
زکوة وصول کرنے والے کے ہاتھ سے غلطی سے کسی کو اگر تکلیف پہنچ جائے تو کیا حکم ہے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک لڑکی ملی جس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا تھا، اس سے پوچھا گیا : تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ؟ کیا فلاں نے ؟ کیا فلاں نے ؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا گیا، تو اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا : ہاں، چناچہ اس یہودی کو پکڑا گیا، اس نے اقبال جرم کرلیا تو نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھر سے کچل دیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٥٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩١) (صحیح )
مار پیٹ کے قصاص اور حاکم کی ذات سے قصاص لینے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور آپ کے اوپر جھک گیا تو اس کے چہرے پر خراش آگئی تو آپ نے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی اسے چبھو دی، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : آؤ قصاص لے لو ١ ؎ وہ بولا : اللہ کے رسول ! میں نے معاف کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ١٦ (٤٧٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤١٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٣/٢٨) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : سبحان اللہ ! رسول اکرم ﷺ کس قدر عادل تھے کہ جو تکلیف کسی کو غلطی سے پہنچ جاتی اس سے بھی قصاص لینے کو کہتے اور اپنی عظمت کا خیال نہ کرتے۔
مار پیٹ کے قصاص اور حاکم کی ذات سے قصاص لینے کا بیان
ابوفراس کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ہم سے خطاب کیا اور کہا : میں نے اپنے گورنر اس لیے نہیں بھیجے کہ وہ تمہاری کھالوں پہ ماریں، اور نہ اس لیے کہ وہ تمہارے مال لیں، لہٰذا اگر کسی کے ساتھ ایسا سلوک ہو تو وہ اسے مجھ تک پہنچائے، میں اس سے اسے قصاص دلواؤں گا عمرو بن العاص (رض) نے کہا : اگر کوئی شخص اپنی رعیت کو تادیباً سزا دے تو اس پر بھی آپ اس سے قصاص لیں گے، وہ بولے : ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں اس سے قصاص لوں گا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی ذات سے قصاص دلایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ١٩ (٤٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٤١) (ضعیف )
عورتوں کا قصاص معاف کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑنے والوں پر لازم ہے کہ وہ قصاص لینے سے باز رہیں، پہلے جو سب سے قریبی ہے وہ معاف کرے، پھر اس کے بعد والے خواہ وہ عورت ہی ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ عورتوں کا قتل کے سلسلے میں قصاص معاف کردینا جائز ہے جب وہ مقتول کے اولیاء میں سے ہوں، اور مجھے ابو عبید کے واسطے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کے قول ينحجزوا کے معنی قصاص سے باز رہنے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٥ (٤٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٠٦) (ضعیف )
ابن صیاد کا بیان
طاؤس کہتے ہیں کہ جو مارا جائے، اور ابن عبید کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی کسی لڑائی یا دنگے میں جو لوگوں میں چھڑ گئی ہو غیر معروف پتھر، کوڑے، یا لاٹھی سے مارا جائے ١ ؎ تو وہ قتل خطا ہے، اور اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی، اور جو قصداً مارا جائے تو اس میں قصاص ہے (البتہ ابن عبید کی روایت میں ہے کہ) اس میں ہاتھ کا قصاص ہے، ٢ ؎ (پھر دونوں کی روایت ایک ہے کہ) جو کوئی اس کے بیچ بچاؤ میں پڑے ٣ ؎ تو اس پر اللہ کی لعنت، اور اس کا غضب ہو، اس کی نہ توبہ قبول ہوگی اور نہ فدیہ، یا اس کے فرض قبول ہوں گے نہ نفل اور سفیان کی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٦ (٤٧٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٨ (٢٦٣٥) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (٤٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٩ ١٨٨٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکے۔ ٢ ؎ : یعنی جان کا قصاص ہے جان کی تعبیر ہاتھ سے کی گئی ہے۔ ٣ ؎ : یعنی قصاص نہ لینے دے۔
عورتوں کا قصاص معاف کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، آگے راوی نے سفیان کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٩، ١٨٨٢٨) (صحیح )
دیت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا : جو غلطی سے مارا گیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے تیس بنت مخاض ١ ؎ تیس بنت لبون ٢ ؎ تیس حقے ٣ ؎ اور دس نر اونٹ جو دو برس کے ہوچکے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/االدیات ١ (١٣٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٤ (٢٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٣، ١٨٤، ١٨٥، ١٨٦، ٢١٧، ٢٢٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ایسی اونٹنی جو ایک برس کی ہوچکی ہو۔ ٢ ؎ : ایسی اونٹنی جو دو برس کی ہوچکی ہو۔ ٣ ؎ : ایسی اونٹنی جو تین برس کی ہوچکی ہو۔
دیت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دیت کی قیمت ١ ؎ آٹھ سو دینار، یا آٹھ ہزار درہم تھی، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا، یہاں تک کہ عمر (رض) خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا : سنو، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو عمر (رض) نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار (درہم) دیت ٹھہرائی، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی، ان کی دیت میں (مسلمانوں کی دیت کی طرح) اضافہ نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دیت کے اونٹوں کی قیمت۔
دیت کی مقدار کا بیان
عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت کے سلسلے میں فیصلہ فرمایا کہ اونٹ والوں پر سو اونٹ، گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑے کپڑے، اور گیہوں والوں پر بھی کچھ مقرر کیا جو محمد (محمد بن اسحاق) کو یاد نہیں رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٢) (ضعیف ) جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مقرر کیا پھر راوی نے ایسے ہی ذکر کیا جیسے موسیٰ کی روایت میں ہے البتہ اس میں اس طرح ہے کہ طعام والوں پر کچھ مقرر کیا جو کہ مجھ کو یاد نہیں رہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٢) (ضعیف )
None
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا پھر راوی نے ایسے ہی ذکر کیا جیسے موسیٰ کی روایت میں ہے البتہ اس میں اس طرح ہے کہ طَعام والوں پر کچھ مقرر کیا جو کہ مجھ کو یاد نہیں رہا۔
دیت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قتل خطا کی دیت میں بیس حقے، بیس جزعے، بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون اور بیس ابن مخاض ہیں اور یہی عبداللہ بن مسعود کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ١ (١٣٨٦) ، سنن النسائی/القسامة ٢٨ (٤٨٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٦ (٢٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٤، ٤٥٠) ، دی/ الدیات ١٣ (٢٤١٢) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة مدلس اور کثیر الخطاء راوی ہیں اور خشف طائی مجہول )
دیت کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بنی عدی کے ایک شخص کو قتل کردیا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت بارہ ہزار ٹھہرائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن عیینہ نے عمرو سے، عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٢ (١٣٨٨) ، سنن النسائی/القسامة ٢٩ (٤٨٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٦ (٢٦٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الدیات ١١ (٢٤٠٨) (ضعیف) امام ابو داود نے واضح فرما دیا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (مسدد کی روایت کے مطابق) فتح مکہ کے دن مکہ میں خطبہ دیا، آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا، پھر فرمایا : لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا لشکروں کو شکست دی (یہاں تک کہ حدیث مجھ سے صرف مسدد نے بیان کی ہے صرف انہیں کے واسطہ سے میں نے اسے یاد کیا ہے اور اس کے بعد سے اخیر حدیث تک سلیمان اور مسدد دونوں نے مجھ سے بیان کیا ہے آگے یوں ہے) سنو ! وہ تمام فضیلتیں جو جاہلیت میں بیان کی جاتی تھیں اور خون یا مال کے جتنے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے پاؤں تلے ہیں (یعنی لغو اور باطل ہیں) سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے (یہ اب بھی ان کے ہی سپرد رہے گی جن کے سپرد پہلے تھی پھر فرمایا : سنو ! قتل خطا یعنی قتل شبہ عمد کوڑے یا لاٹھی سے ہونے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں (اور مسدد والی روایت زیادہ کامل ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٧ (٤٧٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٥ (٢٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٩) (حسن ) اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٩)
None
اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے : رسول اللہ ﷺ نے فتح کے دن یا فتح مکہ کے دن بیت اللہ یا کعبہ کی سیڑھی پر خطبہ دیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن عیینہ نے بھی اسی طرح علی بن زید سے، علی بن زید نے قاسم بن ربیعہ سے، قاسم نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اور اسے ایوب سختیانی نے قاسم بن ربیعہ سے، قاسم نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے خالد کی حدیث کے مثل روایت کی ہے۔ نیز اسے حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے، علی بن زید نے یعقوب سدوسی سے، سدوسی نے عبداللہ بن عمرو سے، اور عبداللہ بن عمرو نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور زید اور ابوموسیٰ کا قول نبی اکرم ﷺ کی حدیث اور عمر (رض) کی حدیث کے مثل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الدیات ٥ (٢٦٢٨) ، وانظر حدیث رقم : (٤٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٢) (ضعیف) (علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
مجاہد کہتے ہیں عمر نے قتل شبہ عمد میں تیس حقہ، تیس جزعہ، چالیس گابھن اونٹنیوں (جو چھ برس سے نو برس تک کی ہوں) کی دیت کا فیصلہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
علی (رض) کہتے ہیں شبہ عمد کی دیت میں تین قسم کے اونٹ ہوں گے، تینتیس حقہ، تینتیس جذعہ اور چونتیس ایسی اونٹنیاں جو چھ برس سے لے کر نو برس تک کی ہوں اور سب گابھن ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں شبہ عمد کی دیت پچیس حقہ، پچیس جزعہ، پچیس بنت لبون، اور پچیس بنت مخاض ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد ) عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں شبہ عمد کی دیت پچیس حقہ، پچیس جزعہ، پچیس بنت لبون، اور پچیس بنت مخاض ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
علی (رض) کہتے ہیں قتل خطا کی دیت میں چار قسم کے اونٹ ہوں گے : پچیس حقہ، پچیس جزعہ، پچیس بنت لبون، اور پچیس بنت مخاض۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
عثمان بن عفان اور زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ دیت مغلظہ یعنی شبہ عمد میں چالیس گابھن جزعہ، تیس حقہ اور تیس بنت لبون ہیں، اور دیت خطا میں تیس حقہ، تیس بنت لبون، بیس ابن لبون، اور بیس بنت مخاض ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح )
قتل خطا اور قتل شبہ عمد کی دیت ایک ہے
زید بن ثابت سے دیت مغلظہ یعنی شبہ عمد میں مروی ہے پھر راوی نے ہو بہو اسی کے مثل ذکر کیا جیسے اوپر گزرا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد ) ابوداؤد کہتے ہیں ابو عبید اور دوسرے بہت سے لوگوں نے کہا : اونٹ جب چوتھے سال میں داخل ہوجائے تو نر کو حق اور مادہ کو حقة کہتے ہیں، اس لیے کہ اب وہ اس لائق ہوجاتا ہے کہ اس پر بار لادا جائے، اور سواری کی جائے اور جب وہ پانچویں سال میں داخل ہوجائے تو نر کو جذع اور مادہ کو جذعة کہتے ہیں، اور جب چھٹے سال میں داخل ہوجائے، اور سامنے کے دانت نکال دے تو نر کو ثني اور مادہ کو ثنية کہتے ہیں، اور جب ساتویں سال میں داخل ہوجائے تو نر کو رباع اور مادہ کو رباعية کہتے ہیں، اور جب آٹھویں سال میں داخل ہوجائے، اور وہ دانت نکال دے جو رباعية کے بعد ہے تو نر کو سديس اور مادہ کو سدس کہتے ہیں : اور جب نویں سال میں داخل ہوجائے اور اس کی کچلیاں نکل آئیں تو اسے بازل کہتے ہیں، اور جب دسویں سال میں داخل ہوجائے تو وہ مخلف ہے، اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں ہوتا، البتہ یوں کہا جاتا ہے ایک سال کا ب بازل ، دو سال کا بازل ایک سال کا مخلف ، دو سال کا مخلف اسی طرح جتنا بڑھتا جائے۔ نضر بن شمیل کہتے ہیں : ایک سال کی بنت مخاض ہے، دو سال کی بنت لبون ، تین سال کی حقة ، چار سال کی جذعة پانچ سال کا ثني چھ سال کا رباع ، سات سال کا سديس ، آٹھ سال کا بازل ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوحاتم اور اصمعی نے کہا : جذوعة ایک وقت ہے ناکہ کسی مخصوص سن کا نام۔ ابوحاتم کہتے ہیں : جب اونٹ اپنے رباعیہ ڈال دے تو وہ رباع اور جب ثنیہ ڈال دے تو ثني ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں : جب وہ حاملہ ہوجائے تو اسے خلفہ کہتے ہیں اور وہ دس ماہ تک خلفة کہلاتا ہے، جب دس ماہ کا ہوجائے تو اسے عشراء کہتے ہیں۔ ابوحاتم نے کہا : جب وہ ثنیہ ڈال دے تو ثني ہے اور رباعیہ ڈال دے تو رباع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد )
اعضاء کی دیت کا بیان
ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انگلیاں سب برابر ہیں، ان کی دیت دس دس اونٹ ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٨ (٢٦٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٧، ٣٩٨، ٤٠٤) ، دی/ الدیات ١٥ (٢٤١٤) (صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انگلیاں تمام برابر ہیں میں نے عرض کیا، کیا ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٠) (صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اور یہ برابر ہیں یعنی انگوٹھا اور چھنگلی (کانی انگلی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٠ (٦٨٩٥) ، سنن الترمذی/الدیات ٤ (١٣٩٢) ، سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٥١) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٨ (٢٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٣٣٩) ، سنن الدارمی/الدیات ١٥ (٢٤١٥) (صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انگلیاں سب برابر ہیں، دانت سب برابر ہیں، سامنے کے دانت ہوں، یا ڈاڑھ کے سب برابر ہیں، یہ بھی برابر اور وہ بھی برابر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ١٧ (٢٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٦١٩٣) (صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دانت سب برابر ہیں اور انگلیاں سب برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٤ (١٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٩) (صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کی انگلیوں کو برابر قرار دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٩) (صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے خطبے میں جبکہ آپ اپنی پیٹھ کعبہ سے ٹیکے ہوئے تھے فرمایا : انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ١٨ (٢٦٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٠٧) (حسن صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کرم ﷺ نے فرمایا : دانتوں میں پانچ پانچ (اونٹ) ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٨ (٤٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٩ (٢٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٥) (حسن صحیح )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گاؤں والوں پر قتل خطا کی دیت کی قیمت چار سو دینار، یا اس کے برابر چاندی سے لگایا کرتے تھے، اور اس کی قیمت اونٹوں کی قیمتوں پر لگاتے، جب وہ مہنگے ہوجاتے تو آپ اس کی قیمت میں بھی اضافہ کردیتے، اور جب وہ سستے ہوتے تو آپ اس کی قیمت بھی گھٹا دیتے، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک پہنچی، اور اسی کے برابر چاندی سے (دیت کی قیمت) آٹھ ہزار درہم پہنچی، اور رسول اللہ ﷺ نے گائے بیل والوں پر (دیت میں) دو سو گایوں کا فیصلہ کیا، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریوں کا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہوگا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ناک کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاٹ دی جائے تو پوری دیت لازم ہوگی۔ اور اگر اس کا بانسہ (دونوں نتھنوں کے بیچ کی ہڈی) کاٹا گیا ہو تو آدھی دیت لازم ہوگی، یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی، یا سو گائیں، یا ایک ہزار بکریاں۔ اور ہاتھ جب کاٹا گیا ہو تو اس میں آدھی لازم ہوگی، پیر میں بھی آدھی دیت ہوگی۔ اور مامومہ ١ ؎ میں ایک تہائی دیت ہوگی، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، گائے یا بکری اور جائفہ ٢ ؎ میں بھی یہی دیت ہے۔ اور انگلیوں میں ہر انگلی میں دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ کی دیت ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا : عورت کی جنایت کی دیت اس کے عصبات میں تقسیم ہوگی (یعنی عورت اگر کوئی جنایت کرے تو اس کے عصبات کو دینا پڑے گا) یعنی ان لوگوں کو جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لے لیتے ہیں (جیسے بیٹا، چچا، باپ، بھائی وغیرہ) اور اگر وہ قتل کردی گئی ہو تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگی (نہ کہ عصبات میں) اور وہی اپنے قاتل کو قتل کریں گے (اگر قصاص لینا ہو) ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہوگا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٢٧ (٤٨٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٦ (٢٦٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/١٨٣، ٢١٧، ٢٢٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مامومہ : سر کے ایسے زخم کو کہتے ہیں جو دماغ تک پہنچ جائے۔ ٢ ؎ : جائفہ : وہ زخم ہے جو سر، پیٹ یا پیٹھ کے اندر تک پہنچ جائے اور اگر وہ زخم دوسری طرف بھی پار کر جائے تو اس میں دو تہائی دیت دینی ہوگی۔
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : شبہ عمد کی دیت عمد کی دیت کی طرح سخت ہے، البتہ اس کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ خلیل کی محمد بن راشد سے روایت میں یہ اضافہ ہے یہ (قتل شبہ عمد) لوگوں کے درمیان ایک شیطانی فساد ہے کہ بلا کسی کینے اور بغیر ہتھیار اٹھائے خون ہوجاتا ہے اور قاتل کا پتا نہیں چلتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٧١٣) (حسن )
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مواضح ١ ؎ میں دیت پانچ اونٹ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٣٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٠، ٨٦٨٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مواضح ایسے زخم کو کہتے ہیں جس سے ہڈی دکھائی دینے لگے۔
اعضاء کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی آنکھ میں جو اپنی جگہ باقی رہے لیکن بینائی جاتی رہے، تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٦ (٤٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٧٠) (حسن) (یہ سند حسن کے مرتبہ تک پہنچنے کے لائق ہے )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو قتل کردیا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا : ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ رویا، نہ کھایا، نہ پیا، اور نہ ہی چلایا، (اس نے یہ بات مقفّٰی عبارت میں کہی) آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم دیہاتیوں کی طرح مقفّی و مسجّع عبارت بولتے ہو ؟ تو آپ ﷺ نے اس میں ایک غرہ (لونڈی یا غلام) کی دیت کا فیصلہ کیا، اور اسے عورت کے عاقلہ (وارثین) کے ذمہ ٹھہرایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة ١ (١٦٨٢) ، سنن الترمذی/الدیات ١٥ (١٤١١) ، سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٧ (٢٦٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٥ (٦٩٠٥-٦٩٠٨) ، الاعتصام ١٣ (٧٣١٧) ، مسند احمد ( ٤ /٢٢٤، ٢٤٥، ٢٤٦، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الدیات ٢٠ (٢٤٢٥) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
اس سند سے منصور سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مقتول عورت کی دیت قاتل عورت کے عصبات پر ٹھہرائی، اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک غرہ (غلام یا لونڈی) ٹھہرایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اسی طرح حکم نے مجاہد سے مجاہد نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٠) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے عورت کے املاص کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا تو مغیرہ بن شعبہ (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے، تو عمر نے کہا : میرے پاس اپنے ساتھ اس شخص کو لاؤ جو اس کی گواہی دے، تو وہ محمد بن مسلمہ (رض) کو لے کر ان کے پاس آئے۔ ہارون کی روایت میں اتنا اضافہ ہے تو انہوں نے اس کی گواہی دی یعنی اس بات کی کہ کوئی آدمی عورت کے پیٹ میں مارے جو اسقاط حمل کا سبب بن جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے ابو عبید سے معلوم ہوا اسقاط حمل کو املاص اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ازلاق یعنی پھسلانے کے ہیں گویا عورت ولادت سے قبل ہی مار کی وجہ سے حمل کو پھسلا دیتی ہے اسی طرح ہاتھ یا کسی اور چیز سے جو چیز پھسل کر گرجائے تو اس کی تعبیر مَلِصَ سے کی جاتی ہے یعنی وہ پھسل گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ القسامة ٢ (١٦٨٩) ، سنن ابن ماجہ/ الدیات ١١ (٢٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٣، ١١٥٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٥٣) (صحیح) (ہارون کی زیادتی صحیح نہیں ہے )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
عمر (رض) سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حماد بن زید اور حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے، عروہ نے اپنے باپ زبیر سے روایت کیا ہے کہ عمر نے کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الدیات ٢٥ (٦٩٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١١) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو حمل بن مالک بن نابغہ کھڑے ہوئے، اور بولے : میں دونوں عورتوں کے بیچ میں تھا، ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مارا تو وہ مرگئی اور اس کا جنین بھی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے جنین کے سلسلے میں ایک غلام یا لونڈی کی دیت کا، اور قاتلہ کو قتل کردیئے جانے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نضر بن شمیل نے کہا : مسطح چوپ یعنی (روٹی پکانے کی لکڑی) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابو عبید نے کہا :مسطح خیمہ کی لکڑیوں میں سے ایک لکڑی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٧٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١١ (٢٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٤، ٤/ ٧٩) ، سنن الدارمی/الدیات ٢١ (٢٤٢٧) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
طاؤس کہتے ہیں کہ عمر (رض) منبر پر کھڑے ہوئے، آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی البتہ اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ قتل کی جائے، اور انہوں نے بغرة عبد أو أمة کا اضافہ کیا ہے، راوی کہتے ہیں : اس پر عمر (رض) نے کہا : اللہ اکبر ! اگر ہم یہ حکم نہ سنے ہوتے تو اس کے خلاف فیصلہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٤) (ضعیف الإسناد )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے حمل بن مالک کے قصے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں تو اس نے بچہ کو جسے بال اگے ہوئے تھے ساقط کردیا، وہ مرا ہوا تھا اور عورت بھی مرگئی، تو آپ نے وارثوں پر دیت کا فیصلہ کیا، اس پر اس کے چچا نے کہا : اللہ کے نبی ! اس نے تو ایک ایسا بچہ ساقط کیا ہے جس کے بال اگ آئے تھے، تو قاتل عورت کے باپ نے کہا : یہ جھوٹا ہے، اللہ کی قسم ! نہ تو وہ چیخا، نہ پیا، اور نہ کھایا، اس جیسے کا خون تو معاف (رائیگاں) قرار دے دیا جاتا ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا جاہلیت جیسی مسجع عبارت بولتے ہو جیسے کاہن بولتے ہیں، بچے کی دیت ایک غلام یا لونڈی کی دینی ہوگی ۔ ابن عباس کہتے ہیں : ان میں سے ایک کا نام ملیکہ اور دوسری کا ام غطیف تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٦٨، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٤) (ضعیف )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کردیا، ان میں سے ہر ایک کے شوہر بھی تھا، اور اولاد بھی، تو رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر ٹھہرائی اور اس کے شوہر اور اولاد سے کوئی مواخذہ نہیں کیا، مقتولہ کے عصبات نے کہا : کیا اس کی میراث ہمیں ملے گی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں، اس کی میراث تو اس کے شوہر اور اولاد کی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٥ (٢٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٧) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں جھگڑا ہوا، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا تو اسے قتل ہی کر ڈالا، تو لوگ مقدمہ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا : جنین کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے، اور عورت کی دیت کا فیصلہ کیا کہ یہ اس کے عصبہ پر ہوگی اور اس دیت کا وارث مقتولہ کی اولاد کو اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو قرار دیا۔ حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا : اللہ کے رسول ! میں ایسی جان کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا، اور نہ چیخا، ایسے کا خون تو لغو قرار دے دیا جاتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے آپ نے یہ بات اس کی اس سجع تعبیر کی وجہ سے کہی جو اس نے کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٤٦ (٥٧٥٨) ، الفرائض ١١ (٥٧٥٩) ، الدیات ٢٥ (٦٩٠٩) ، ٢٦ (٦٩١٠) ، صحیح مسلم/القسامة ١١(١٦٨١) ، سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٢٠، ١٥٣٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدیات ١٥ (١٤١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١١ (٢٦٣٩) ، موطا امام مالک/العقول ٧ (٥) ، مسند احمد ( ٢/٢٣٦، ٢٧٤، ٤٣٨، ٤٩٨، ٥٣٥، ٥٣٩) ، دی/الدیات ٢١ (٢٤٢٧) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے اس قصے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں پھر وہ عورت، جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے لونڈی یا غلام کا فیصلہ کیا تھا، مرگئی، تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں کی ہے، اور دیت قاتلہ کے عصبہ پر ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الفرائض (٦٧٤٠) ، الدیات ٢٥ (٦٩٠٩) ، صحیح مسلم/ الحدود ١١ (١٦٨١) ، سنن الترمذی/ الدیات ١٥ (١٤١٠) ، الفرائض ١٩ (٢١١١) ، سنن النسائی/ القسامة ٣٣ (٤٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العقول ٧ (٥) (صحیح )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر مارا تو اس کا حمل گرگیا ، یہ مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے اس بچہ کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی، اور لوگوں کو پتھر مارنے سے اسی دن سے منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : روایت اسی طرح ہے پانچ سو بکریوں کی لیکن صحیح سو بکریاں ہے، اسی طرح عباس نے کہا ہے حالانکہ یہ وہم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٦) (ضعیف) وضاحت : الحکم علی حدیث النسائی : صحیح الإسناد (٤٨١٧ )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیٹ کے بچے میں ایک غلام یا ایک لونڈی یا ایک گھوڑے یا ایک خچر کی دیت کا فیصلہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حماد بن سلمہ اور خالد بن عبداللہ نے محمد بن عمرو سے روایت کیا ہے البتہ ان دونوں نے أو فرس أو بغل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٨، ٤٩٨) (شاذ )
پیٹ کے بچہ کی دیت کا بیان
شعبی کہتے ہیں کہ غرہ (غلام یا لونڈی) کی قیمت پانچ سو درہم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ربیعہ نے کہا : غرہ (غلام یا لونڈی) پچاس دینار کا ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٠٣) (ضعیف الإسناد )
مکاتب کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکاتب غلام جسے قتل کردیا جائے کی دیت میں فیصلہ فرمایا کہ قتل کے وقت جس قدر وہ بدل کتابت ادا کرچکا ہے اتنے حصہ کی دیت آزاد کی دیت کے مثل ہوگی اور جس قدر ادائیگی باقی ہے اتنے حصے کی دیت غلام کی دیت کے مثل ہوگی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٢ (٤٨١٢، ٤٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ١/٢٢٢، ٢٢٦، ٢٦٠، ٢٩٢، ٣٦٣) (صحیح )
مکاتب کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مکاتب کوئی حد کا کام کرے یا ترکے کا وارث ہو تو جس قدر آزاد ہوا ہے وہ اسی قدر وارث ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے وہیب نے ایوب سے، ایوب نے عکرمہ سے، عکرمہ نے علی (رض) سے اور علی نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور حماد بن زید اور اسماعیل نے ایوب سے، ایوب نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور اسماعیل بن علیہ نے اسے عکرمہ کا قول قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ البیوع ٣٥ (١٢٥٩) ، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٩) (صحیح )
ذمی کی دیت کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ذمی معاہد کی دیت آزاد کی دیت کی آدھی ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اسامہ بن زید لیثی اور عبدالرحمٰن بن حارث نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدیات ١٧ (١٤١٣) ، سنن النسائی/القسامة ٣١ (٤٨١٠) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٣ (٢٦٤٤) ، مسند احمد ( ٢/١٨٣، ٢١٧، ٢٢٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جو کافر دارالاسلام میں معاہدہ کی رو سے رہتا ہے اس کی دیت مسلمان کی دیت کی آدھی ہے۔
ایک شخص اگر دوسرے سے لڑائی میں اپنے دفاع میں کسی کو مار دے تو کیا حکم ہے؟
یعلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو کردیا، اور فرمایا : کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر (رض) نے اسے لغو قرار دیا اور کہا : (اللہ کرے) اس کا دانت نہ رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٩ (١٨٤٧) ، الإجارة ٥ (٢٢٦٥) ، الجھاد ١٢٠ (٢٩٧٣) ، المغازي ٧٨ (٤٤١٧) ، الدیات ١٨ (٦٨٩٣) ، صحیح مسلم/الحدود ٤ (١٦٧٣) ، سنن النسائی/القسامة ١٥ (٤٧٧٤، ٤٧٧٥، ٤٧٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٠ (٢٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٧، ٦٦٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٢٢٣، ٢٢٤) (صحیح )
ایک شخص اگر دوسرے سے لڑائی میں اپنے دفاع میں کسی کو مار دے تو کیا حکم ہے؟
اس سند سے بھی یعلیٰ بن امیہ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اتنا اضافہ ہے پھر آپ نے (یعنی نبی اکرم ﷺ نے) دانت کاٹنے والے سے فرمایا : اگر تم چاہو تو یہ ہوسکتا ہے کہ تم بھی اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے دو وہ اسے کاٹے پھر تم اسے اس کے منہ سے کھینچ لو اور اس کے دانتوں کی دیت باطل قرار دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١١٨٤٦) (صحیح الإسناد )
علم طب نہ جانے والا اپنے آپ کو طبیب ظاہر کر کے کسی کو نقصان پہنچائے تو کیا سزا ہے؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ (مریض کا) ضامن ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ولید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا، ہمیں نہیں معلوم یہ صحیح ہے یا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ٣٤ (٤٨٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١٦ (٣٤٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٤٦) (حسن )
علم طب نہ جانے والا اپنے آپ کو طبیب ظاہر کر کے کسی کو نقصان پہنچائے تو کیا سزا ہے؟
عبدالعزیزبن عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں میرے والد کے پاس آنے والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی قوم میں طبیب بن بیٹھے، حالانکہ اس سے پہلے اس کی طب دانی معروف نہ ہو اور مریض کا مرض بگڑ جائے اور اس کو نقصان لاحق ہوجائے تو وہ اس کا ضامن ہوگا ۔ عبدالعزیز کہتے ہیں : اعنت نعت سے نہیں (بلکہ عنت سے ہے جس کے معنی) رگ کاٹنے، زخم چیرنے یا داغنے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٣١) (حسن )
علم طب نہ جانے والا اپنے آپ کو طبیب ظاہر کر کے کسی کو نقصان پہنچائے تو کیا سزا ہے؟
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا آپ نے فرمایا : سنو ! جاہلیت کے خون یا مال کی جتنی فضیلتیں بھی تھیں جن کا ذکر کیا جاتا تھا یا جن کے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے قدموں تلے ہیں، سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی دیکھ ریکھ کے پھر فرمایا : سنو ! قتل خطا جو کوڑے یا لاٹھی سے ہوا ہو شبہ عمد ہے، اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس سے پہلے حدیث نمبر (٤٥٤٧) کے تحت بھی گزر چکا ہے۔ اس سند سے بھی خالد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٩ )
None
سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
جو آگ بھڑک کر پھیل جائے اس کا بیان
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ فقیر لوگوں کے ایک غلام نے کچھ مالدار لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، تو جس غلام نے کان کاٹا تھا اس کے مالکان نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! ہم فقیر لوگ ہیں، تو آپ نے ان پر کوئی دیت نہیں ٹھہرائی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ١٥، ١٦ (٤٧٥٥) ، سنن الدارمی/الدیات ٣ (٢٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٦٣) (صحیح )
جو لوگوں کے درمیان اندھا دھند مارا جائے اس کا حکم
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اندھا دھند مارا جائے یا کسی دنگے فساد میں جو ان میں چھڑ گیا ہو، یا کسی پتھر یا کوڑے سے مارا جائے تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی، اور جو جان بوجھ کر عمداً کسی کو قتل کرے تو وہ موجب قصاص ہے، اب اگر کوئی ان دونوں کے بیچ میں پڑ کر (قاتل کو بچانا چاہے) تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤٥٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٨٢٨، ٥٧٣٩) (صحیح )
جو جانور کسی کو لات مار کر (یا کسی بھی طرح) نقصان پہنچا دے تو کیا حکم ہے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (جانور کا) پاؤں باطل و رائیگاں ہے اس کی کوئی دیت نہیں ہوگی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جانور پیر سے مار دے جب کہ وہ اس پہ سوار ہو تو اس کی کوئی دیت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٠) (ضعیف )
جو جانور کسی کو لات مار کر (یا کسی بھی طرح) نقصان پہنچا دے تو کیا حکم ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہر جانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہر جانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہوجانے والے کا ہر جانہ نہیں ہے ١ ؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٨، ١٥١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے یا کان اور کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہوجائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہوگی۔
جو آگ بھڑک کر پھیل جائے اس کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ باطل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٧٩٦، ١٤٦٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٧ (٢٦٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی کسی نے اپنی زمین پر آگ جلائی اور وہ وہاں سے اڑ کر کسی کے گھر یا سامان میں لگ گئی تو جلا نے والے پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔
علم طب نہ جانے والا اپنے آپ کو طبیب ظاہر کر کے کسی کو نقصان پہنچائے تو کیا سزا ہے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ انس بن نضر (رض) کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا، تو انس بن نضر نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے انس ! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہوگئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرم ﷺ کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا : اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم پوری کردیتا ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ان سے پوچھا گیا تھا کہ دانت کا قصاص کیسے لیا جائے ؟ تو انہوں نے کہا : وہ ریتی سے رگڑا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلح ٨ (٢٧٠٣) ، تفسیر سورة البقرة ٢٣ (٤٤٩٩) ، المائدة ٦ (٤٦١١) ، الدیات ١٩ (٦٨٩٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٥ (١٦٧٥) ، سنن النسائی/القسامة ١٢ (٤٧٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١٦ (٢٦٤٩) ، مسند احمد ( ٣/١٢٨ ، ١٦٧، ٢٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : انس بن نضر (رض) نے غصے میں اللہ کے بھروسے پر قسم کھالی تھی کہ میری بہن کا دانت نہیں توڑا جائے گا، چناچہ اللہ نے ان کے لئے ایسا ہی سامان قانونی طور پر کردیا۔