38. ادب کا بیان
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم اور اخلاق کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا : قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چناچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نے آپ ﷺ کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے ننھے انس ! جاؤ جہاں میں نے تمہیں حکم دیا ہے میں نے عرض کیا : ٹھیک ہے، میں جا رہا ہوں، اللہ کے رسول، انس کہتے ہیں : اللہ کی قسم، میں نے سات سال یا نو سال آپ ﷺ کی خدمت کی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کبھی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں کیا ؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں نہیں کیا ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١٣ (٢٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٥ (٢٧٦٨) ، الأدب ٣٩ (٦٠٣٨) ، الدیات ٢٧ (٦٩١١) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٦٩ (٢٠١٥) (حسن )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم اور اخلاق کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دس سال مدینہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کی، میں ایک کمسن بچہ تھا، میرا ہر کام اس طرح نہ ہوتا تھا جیسے میرے آقا کی مرضی ہوتی تھی، لیکن آپ ﷺ نے کبھی بھی مجھ سے اف تک نہیں کہا اور نہ مجھ سے یہ کہا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ یا تم نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٩٥) (صحیح )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم اور اخلاق کا بیان
ہلال بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے ہم سے بیان کرتے ہوئے کہا : نبی اکرم ﷺ ہمارے ساتھ مجلس میں بیٹھا کرتے تھے، آپ ﷺ ہم سے باتیں کرتے تھے تو جب آپ اٹھ کھڑے ہوتے تو ہم بھی اٹھ کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہم آپ ﷺ کو دیکھتے کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کے گھر میں داخل ہوگئے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے ہم سے ایک دن گفتگو کی، تو جب آپ ﷺ کھڑے ہوئے ہم بھی کھڑے ہوگئے، تو ہم نے ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر اور آپ کے اوپر چادر ڈال کر آپ کو کھینچ رہا ہے، آپ ﷺ کی گردن لال ہوگئی ہے، ابوہریرہ کہتے ہیں : وہ ایک کھردری چادر تھی، آپ ﷺ اس کی طرف مڑے تو اعرابی نے آپ سے کہا : میرے لیے میرے ان دونوں اونٹوں کو (غلے سے) لاد دو ، اس لیے کہ نہ تو تم اپنے مال سے لادو گے اور نہ اپنے باپ کے مال سے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں ١ ؎ اور میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، نہیں اور میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، نہیں اور میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ٢ ؎ میں تمہیں نہیں دوں گا یہاں تک کہ تم مجھے اپنے اس کھینچنے کا بدلہ نہ دے دو لیکن اعرابی ہر بار یہی کہتا رہا : اللہ کی قسم میں تمہیں اس کا بدلہ نہ دوں گا۔ پھر راوی نے حدیث ذکر کی، اور کہا : آپ ﷺ نے ایک شخص کو بلایا اور اس سے فرمایا : اس کے لیے اس کے دونوں اونٹوں پر لاد دو : ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور پھر آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : واپس جاؤ اللہ کی برکت پر بھروسہ کر کے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القسامة ١٨ (٤٧٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ جو میں تمہیں دوں گا وہ یقیناً میرا اپنا مال نہیں ہوگا۔ ٢ ؎ : اگر معاملہ اس طرح نہ ہو۔ ٣ ؎ : اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کے کمال اخلاق و حلم کا بیان ہے۔
وقار اور سنجیدگی سے رہنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : راست روی، خوش خلقی اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں حصہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٤٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ یہ خصلتیں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو عطا کی ہیں، لہٰذا انہیں اپنانے میں ان کی پیروی کرو، یہ معنیٰ نہیں کہ نبوت کوئی ذو اجزاء چیز ہے، اور جس میں یہ خصلتیں پائی جائیں گی اس کے اندر نبوّت کے کچھ حصے پائے جائیں گے کیونکہ نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ایک اعزاز ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس اعزاز سے نوازتا ہے۔
غصہ پی جانے کا بیان
معاذ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنا غصہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سب لوگوں کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ وہ بڑی آنکھ والی حوروں میں سے جسے چاہے چن لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٧٤ (٢٠٢١) ، صفة القیامة ٤٨ (٣٤٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٨ (٤١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٨، ٤٤٠) (حسن )
غصہ پی جانے کا بیان
نبی اکرم ﷺ کے اصحاب کے فرزندوں میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا، آپ نے فرمایا : اللہ اسے امن اور ایمان سے بھر دے گا اور اس میں یہ واقعہ مذکور نہیں کہ اللہ اسے بلائے گا، البتہ اتنا اضافہ ہے، اور جو خوب (تواضع و فروتنی میں) صورتی کا لباس پہننا ترک کر دے، حالانکہ وہ اس کی قدرت رکھتا ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے عزت کا جوڑا پہنائے گا، اور جو اللہ کی خاطر شادی کرائے گا ١ ؎ تو اللہ اسے بادشاہت کا تاج پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٤) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : من زوج لله میں مفعول محذوف ہے، اصل عبارت یوں ہے من زوج من يحتاج إلى الزواج یعنی جو کسی ایسے شخص کی شادی کرائے گا جو شادی کا ضرورت مند ہو، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس کا مفعول كريمته ہے یعنی جو اپنی بیٹی کی شادی کرے گا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ من زوَّج کے معنی من أعطى لله اثنين من الأشياء کے ہیں، یعنی جس نے اللہ کی خاطر کسی کو دو چیز دی۔
غصہ پی جانے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ پہلوان کس کو شمار کرتے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا : اس کو جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں، آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٣٠ (٢٦٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٩١٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٢) (صحیح )
غصہ کے وقت پڑھنے کی مسنون دعائیں
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کو بہت شدید غصہ آیا یہاں تک کہ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ مارے غصے کے اس کی ناک پھٹ جائے گی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جو غصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہوجائے گا عرض کیا : کیا ہے وہ ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : وہ کہے اللهم إني أعوذ بک من الشيطان الرجيم اے اللہ ! میں شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتا ہوں تو معاذ اسے اس کا حکم دینے لگے، لیکن اس نے انکار کیا، اور لڑنے لگا، اس کا غصہ مزید شدید ہوتا چلا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٥٢ (٣٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٤٢) ، وقد أ خرجہ : مسند احمد (٥/٢٤٠، ٢٤٤) (ضعیف )
غصہ کے وقت پڑھنے کی مسنون دعائیں
سلیمان بن صرد کہتے ہیں کہ دو شخصوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس گالی گلوج کی تو ان میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہوگئیں، اور رگیں پھول گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر وہ اسے کہہ دے تو جو غصہ وہ اپنے اندر پا رہا ہے دور ہوجائے گا، وہ کلمہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ، تو اس آدمی نے کہا : کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے جنون ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٨٢) ، الأدب ٤٤ (٦٠٥٠) ، ٧٥ (٦١١٥) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٠ (٢٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : غالباً اس نے یہ سمجھا کہ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھنا جنون ہی کے ساتھ مخصوص ہے، یا ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی منافق یا غیر مہذب اور غیر مہذب بدوی رہا ہو۔
غصہ کے وقت پڑھنے کی مسنون دعائیں
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چاہیئے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہوجائے (تو بہتر ہے) ورنہ پھر لیٹ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٢) (صحیح )
غصہ کے وقت پڑھنے کی مسنون دعائیں
بکر سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوذر کو بھیجا آگے یہی حدیث مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : دونوں حدیثوں میں یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠١، ١٨٤٥٩) (صحیح )
غصہ کے وقت پڑھنے کی مسنون دعائیں
ابو وائل قاص کہتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد بن سعدی کے پاس داخل ہوئے، ان سے ایک شخص نے گفتگو کی تو انہیں غصہ کردیا، وہ کھڑے ہوئے اور وضو کیا، پھر لوٹے اور وہ وضو کئے ہوئے تھے، اور بولے : میرے والد نے مجھ سے بیان کیا وہ میرے دادا عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غصہ شیطان کے سبب ہوتا ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وضو کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٦) (ضعیف) (عروة بن محمد لین الحدیث ہیں )
درگذر کرنے اور نظر انداز کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے بدلہ لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٦٠) ، والأدب ٨٠ (٦١٢٦) ، والحدود ١٠ (٦٨٥٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٠ (٢٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الجامع ١ (٢) ، مسند احمد (٦/١١٦، ١٨٢، ٢٠٩، ٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً زنا میں رجم کرتے یا کوڑے لگاتے اور چوری میں ہاتھ کاٹتے۔
درگذر کرنے اور نظر انداز کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا، اور نہ کبھی کسی عورت کو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف : ١٦٦٦٤، ١٧٢٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٠ (٢٣٢٨) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥١ (١٩٨٤) ، مسند احمد (٦/٢٠٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٤ (٢٢٦٤) (صحیح )
درگذر کرنے اور نظر انداز کرنے کا بیان
عبداللہ بن زبیر (رض) سے اللہ کے فرمان خذ العفو عفو کو اختیار کرو کی تفسیر کے سلسلے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے عفو کو اختیار کریں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الأعرف ٥ (٤٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٧٧) (صحیح )
حسن معاشرت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کسی شخص کے بارے میں کوئی بری بات پہنچتی تو آپ یوں نہ فرماتے : فلاں کو کیا ہوا کہ وہ ایسا کہتا ہے ؟ بلکہ یوں فرماتے : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسا اور ایسا کہتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٦٤٠) (صحیح )
حسن معاشرت کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اس پر زردی کا نشان تھا، رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا کہ آپ بہت کم کسی ایسے شخص کے روبرو ہوتے، جس کے چہرے پر کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند کرتے تو جب وہ نکل گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کاش تم لوگ اس سے کہتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سلم علوی (یعنی اولاد علی میں سے) نہیں تھا بلکہ وہ ستارے دیکھا کرتا تھا ١ ؎ اور اس نے عدی بن ارطاۃ کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی دی تو انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٤١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٧) (ضعیف) (اس میں سلم العلوی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی علو (بلندی) کی طرف دیکھتا تھا کیونکہ ستارے بلندی ہی میں ہوتے ہیں، اسی وجہ سے علو کی طرف نسبت کر کے اسے علوی کہا جاتا تھا۔
حسن معاشرت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٤١ (١٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٤) (حسن )
حسن معاشرت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا : اپنے خاندان کا لڑکا یا خاندان کا آدمی برا شخص ہے پھر فرمایا : اسے اجازت دے دو ، جب وہ اندر آگیا تو آپ نے اس سے نرمی سے گفتگو کی، اس پر عائشہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس سے نرم گفتگو کی حالانکہ آپ اس کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہہ چکے تھے، آپ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے برا شخص اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہوگا جس سے لوگوں نے اس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرلی ہو یا اسے چھوڑ دیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣٨ (٦٠٣٢) ، ٤٨ (٦٠٥٤) ، ٨٢ (٦١٣١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٢٢ (٢٥٩١) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٥٩ (١٩٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨) (صحیح )
حسن معاشرت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا : اپنے کنبے کا برا شخص ہے جب وہ اندر آگیا، تو رسول اللہ ﷺ اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا : اپنے کنبے کا برا شخص ہے، اور جب وہ اندر آگیا تو آپ اس سے کشادہ دلی سے ملے آپ نے فرمایا : عائشہ ! اللہ تعالیٰ کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥٥) (حسن صحیح ) اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی واقعہ مروی ہے، وہ کہتی ہیں آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ ! لوگوں میں سب سے بدترین لوگ وہ ہیں وہ جن کا احترام و تکریم ان کی زبانوں سے بچنے کے لیے کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١١) (ضعیف الإسناد )
None
آپ نے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! لوگوں میں سب سے بدترین لوگ وہ ہیں وہ جن کا احترام و تکریم ان کی زبانوں سے بچنے کے لیے کیا جائے ۔
حسن معاشرت کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے رسول اللہ ﷺ کے کان پر منہ رکھا ہو (کچھ کہنے کے لیے) تو آپ نے اپنا سر ہٹا لیا ہو یہاں تک کہ خود وہی شخص نہ ہٹا لے، اور میں نے ایسا بھی کوئی شخص نہیں دیکھا، جس نے آپ کا ہاتھ پکڑا ہو، تو آپ نے اس سے ہاتھ چھڑا لیا ہو، یہاں تک کہ خود اس شخص نے آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٣) (حسن )
شرم وحیا کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ انصار کے ایک شخص پر سے گزرے، وہ اپنے بھائی کو شرم و حیاء کرنے پر ڈانٹ رہا تھا (اور سمجھا رہا تھا کہ زیادہ شرم کرنا اچھی بات نہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ، شرم تو ایمان کا ایک حصہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٦ (٢٤) ، سنن النسائی/الإیمان ٢٧ (٥٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٩١٣) وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الإیمان ١٢ (٣٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٧ (٢٦١٨) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٨) ، موطا امام مالک/حسن الخلق ٢ (١٠) ، مسند احمد (٢/٥٦، ١٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگرچہ وہ ایک طبعی خصلت ہے لیکن قانون شرع کے مطابق اس کا استعمال قصد اکتساب اور علم کا محتاج ہے۔
شرم وحیا کا بیان
ابوقتادہ کہتے ہیں ہم عمران بن حصین (رض) کے ساتھ تھے اور وہاں بشیر بن کعب بھی تھے تو عمران بن حصین (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : حیاء خیر ہے پورا کا پورا، یا کہا حیاء پورا کا پورا خیر ہے، ، اس پر بشیر بن کعب نے کہا : ہم بعض کتابوں میں لکھا پاتے ہیں کہ حیاء میں سے کچھ تو سکینہ اور وقار ہے، اور کچھ ضعف و ناتوانی، یہ سن کر عمران نے حدیث دہرائی تو بشیر نے پھر اپنی بات دہرائی تو عمران (رض) غصہ ہوگئے یہاں تک کہ ان کی آنکھیں سرخ ہوگئیں، اور بولے : میں تم سے حدیث رسول اللہ بیان کر رہا ہوں، اور تم اپنی کتابوں کے بارے میں مجھ سے بیان کرتے ہو۔ ابوقتادہ کہتے ہیں : ہم نے کہا : اے ابونجید (عمران کی کنیت ہے) چھوڑئیے جانے دیجئیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٧ (٦١١٧) ، مسند احمد (٤/٤٢٧) (صحیح )
شرم وحیا کا بیان
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سابقہ نبوتوں کے کلام میں سے باقی ماندہ چیزیں جو لوگوں کو ملی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨٣) ، الأدب ٧٨ (٦١٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٧ (٤١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢١، ١٢٢، ٥/٢٧٣) (صحیح )
خوش اخلاقی کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مومن اپنی خوش اخلاقی سے روزے دار اور رات کو قیام کرنے والے کا درجہ پا لیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٤، ٩٠، ١٣٣، ١٨٧) (صحیح )
خوش اخلاقی کا بیان
ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) میزان میں خوش خلقی سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٦٢ (٢٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤٦، ٤٤٨) (صحیح )
خوش اخلاقی کا بیان
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٨٧٦) (حسن )
خوش اخلاقی کا بیان
حارثہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جواظ جنت میں نہ داخل ہوگا اور نہ جعظری جنت میں داخل ہوگا ١ ؎۔ راوی کہتے ہیں جواظ کے معنی بدخلق اور سخت دل کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٢٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ دونوں لفظ کثیرالمعانی ہیں ، حافظ ابن الاثیرجواظ کی شرح میں فرماتے ہیں : مال جوڑنے والا اور خرچ نہ کرنے والا، یا لحیم شحیم اپنی چال میں اترنے والا ، یا چھوٹا بڑے پیٹ والا، مصباح اللغات میں جواظ کے معنی میں فرمایا : تکبر سے چلنے والا، اجڈ بہت کھانے والا، ابن الاثیر جعظری کے بارے میں فرماتے ہیں : بھدا موٹا اور متکبر، یا ایسا شخص جو ڈینگیں مارے، اور اس کے پاس کچھ نہ ہو، اور چھوٹا ناٹا ہو، مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی نے ان لفظوں کے ترجمہ میں فرمایا : فریبی یا مال جوڑنے والا ، اور دمڑی خرچ نہ کرنے والا ، یا موٹا غلیظ ، یا بیہودہ چلانے والا بدخلق سرکش (یہ سب جواظ کے معنی تھے) اور مغرور سخت گویا موٹا بھدا بہت کھانے والا (یہ جب ہے کہ حرام کے مال سے موٹا ہوا ہو) (ابوداود ٣/٥٨١ )
مختلف باتوں میں بڑائی اور بڑھکیں مارنے کی کراہت
انس (رض) کہتے ہیں کہ (نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی) عضباء مقابلے میں کبھی پیچھے نہیں رہی تھی (ایک بار) ایک اعرابی اپنے ایک نوعمر اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اس نے اس سے مقابلہ کیا تو اعرابی اس سے آگے نکل گیا تو ایسا لگا کہ یہ چیز رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر گراں گزری ہے تو آپ نے فرمایا : اللہ کا یہ دستور ہے کہ جو چیز بھی اوپر اٹھے اسے نیچا کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ٥٩ (٢٨٧٢ تعلیقًا) ، سنن النسائی/الخیل ١٥ (٣٦٢٢) ، مسند احمد (٣/٢٥٣) (صحیح )
مختلف باتوں میں بڑائی اور بڑھکیں مارنے کی کراہت
اس سند سے بھی انس (رض) سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ دنیا کی جو بھی چیز بہت اوپر اٹھے تو اسے نیچا کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٥٩ (٢٨٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣) (صحیح )
چاپلوسی وخوشامد کی برائی کا بیان
ہمام کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور عثمان (رض) کی تعریف انہی کے سامنے کرنے لگا، تو مقداد بن اسود (رض) نے مٹی لی اور اس کے چہرے پہ ڈال دی اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم تعریف کرنے والوں سے ملو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزھد ١٤ (٣٠٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزھد ٥٤ (٢٣٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٦ (٣٧٤٢) ، مسند احمد (٦/٥) (صحیح )
چاپلوسی وخوشامد کی برائی کا بیان
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص کی تعریف کی، تو آپ نے اس سے فرمایا : تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی اسے آپ نے تین بار کہا، پھر فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اپنے ساتھی کی مدح و تعریف کرنی ہی پڑجائے تو یوں کہے : میں اسے ایسے ہی سمجھ رہا ہوں، لیکن میں اللہ کے بالمقابل اس کا تزکیہ نہیں کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩٥ (٦١٦٢) ، صحیح مسلم/الزھد ١٤ (٣٠٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٦ (٣٧٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١، ٤٥، ٤٦، ٤٧، ٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ میں اس کا ظاہر دیکھ کر ایسا کہہ رہا ہوں رہا اس کا باطن تو اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔
چاپلوسی وخوشامد کی برائی کا بیان
مطرف کے والد عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا، تو ہم نے عرض کیا : آپ ہمارے سید، آپ نے فرمایا : سید تو اللہ تعالیٰ ہے ١ ؎ ہم نے عرض کیا : اور آپ ہم سب میں درجے میں افضل ہیں اور دوستوں کو نوازنے اور دشمنوں پر فائق ہونے میں سب سے عظیم ہیں، آپ نے فرمایا : جو کہتے ہو کہو، یا اس میں سے کچھ کہو، (البتہ) شیطان تمہیں میرے سلسلے میں جری نہ کر دے (کہ تم ایسے کلمات کہہ بیٹھو جو میرے لیے زیبا نہ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤، ٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ وہی اس لفظ کا حقیقی مستحق ہے، اور حقیقی معنیٰ میں سید اللہ ہی ہے، اور یہ مجازی اضافی سیادت جو افراد انسانی کے ساتھ مخصوص ہے منافی نہیں، حدیث میں ہے أنا سيد ولد آدم ولا فخر۔
نرمی کا بیان
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ رفیق ہے، رفق اور نرمی پسند کرتا ہے، اور اس پر وہ دیتا ہے، جو سختی پر نہیں دیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی وہ اپنے بندوں کے ساتھ نرمی کرنے والا ہے، اس کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ لطف و مہربانی کا ہوتا ہے ، وہ ان پر آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں اور انہیں ایسی چیزوں کا مکلف نہیں بناتا جوان کے بس میں نہیں۔
نرمی کا بیان
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے دیہات (بادیہ) جانے، وہاں قیام کرنے کے بارے میں پوچھا (کہ کیسا ہے) آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ ان نالوں کی طرف دیہات (بادیہ) جایا کرتے تھے، ایک بار آپ نے باہر دیہات (بادیہ) جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی بھیجی، جس پر سواری نہیں کی گئی تھی، اور مجھ سے فرمایا : اے عائشہ ! نرمی کرو، اس لیے کہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے، اسے زینت دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نکل جاتی ہے، اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ ابن الصباح اپنی حدیث میں کہتے ہیں : محرم ۃ سے مراد وہ اونٹنی ہے جس پر سواری نہ کی گئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٤٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٠) (صحیح )
نرمی کا بیان
جریر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو رفق (نرمی) سے محروم کردیا جاتا ہے وہ تمام خیر سے محروم کردیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٢٣ (٢٥٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٩ (٣٦٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٢، ٣٦٦) (صحیح )
نرمی کا بیان
سعد (رض) کہتے ہیں کہ تاخیر اور آہستگی ہر چیز میں (بہتر) ہے، سوائے آخرت کے عمل کے ١ ؎۔ اعمش کہتے ہیں میں یہی جانتا ہوں کہ یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے یعنی مرفوع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ نیک کاموں میں تاخیر اور التواء سارعوا إلى مغفرة من ربکم کے منافی ہے۔
نیکی کا شکر ادا کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ کا (بھی) شکر ادا نہیں کرتا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٣٥ (١٩٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٥، ٤٦١، ٣٠٣، ٥/٢١١، ٢١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جس کی عادت و طبیعت میں بندوں کی ناشکری ہو وہ اللہ کے احسانات کی بھی ناشکری کرتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسے بندوں کا شکر قبول نہیں فرماتا جو لوگوں کے احسانات کا شکریہ ادا نہ کرتے ہوں۔
نیکی کا شکر ادا کرنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا : اللہ کے رسول ! سارا اجر تو انصار لے گئے، آپ نے فرمایا : نہیں (ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اجر سے محروم رہو) جب تک تم اللہ سے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے اور ان کی تعریف کرتے رہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی في الیوم واللیلة (١٨١) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠٠، ٢٠١) (صحیح )
نیکی کا شکر ادا کرنے کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو کوئی چیز دی جائے پھر وہ بھی (دینے کے لیے کچھ) پا جائے تو چاہیئے کہ اس کا بدلہ دے، اور اگر بدلہ کے لیے کچھ نہ پائے تو اس کی تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے اس کی تعریف کی تو گویا اس نے اس کا شکر ادا کردیا، اور جس نے چھپایا (احسان کو) تو اس نے اس کی ناشکری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے یحییٰ بن ایوب نے عمارہ بن غزیہ سے، انہوں نے شرحبیل سے اور انہوں نے جابر سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سند میں رجل من قومی سے مراد شرحبیل ہیں، گویا وہ انہیں ناپسند کرتے تھے، اس لیے ان کا نام نہیں لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٧) (حسن )
نیکی کا شکر ادا کرنے کا بیان
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو کوئی چیز ملے اور وہ اس کا تذکرہ کرے تو اس نے اس کا شکر ادا کردیا اور جس نے اسے چھپایا تو اس نے ناشکری کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں أبلى بلائً جو من أعطى عطائًا کے معنیٰ میں ہے بلاء کا لفظ خیر اور شر دونوں معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
راستوں میں بیٹھنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ راستوں میں بیٹھنے سے بچو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمیں اپنی مجالس سے مفر نہیں ہم ان میں (ضروری امور پر) گفتگو کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : پھر اگر تم نہیں مانتے تو راستے کا حق ادا کرو لوگوں نے عرض کیا : راستے کا حق کیا ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : نگاہ نیچی رکھنا، ایذاء نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٢٢ (٢٤٦٥) ، الاستئذان ٢ (٦٢٢٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٢ (٢١٢١) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦، ٤٧) (صحیح )
راستوں میں بیٹھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے اس میں یہ بھی ہے آپ نے فرمایا : اور (بھولے بھٹکوں کو) راستہ بتانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٥) (حسن صحیح )
راستوں میں بیٹھنے کا بیان
ابن حجیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے اس قصے میں عمر بن خطاب (رض) کو نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا : اور تم آفت زدہ لوگوں کی مدد کرو اور بھٹکے ہووں کو راستہ بتاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٦٧٣) (صحیح )
راستوں میں بیٹھنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور بولی : اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، آپ نے اس سے فرمایا : اے فلاں کی ماں ! جہاں چاہو گلی کے کسی کونے میں بیٹھ جاؤ، یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آ کر ملوں چناچہ وہ بیٹھ گئی، پھر نبی اکرم ﷺ اس سے آ کر ملے، یہاں تک کہ اس نے آپ سے اپنی ضرورت کی بات کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٤) (صحیح )
راستوں میں بیٹھنے کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل میں کچھ فتور تھا پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الفضائل ٢٣ (٢٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٥) (صحیح )
مجلس میں کشادہ ہو کر بیٹھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : مجالس میں بہتر وہ ہے جو زیادہ کشادہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ، أبودواد، (تحفة الأشراف : ٤١٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨، ٦٩) (صحیح )
مجلس میں کشادہ ہو کر بیٹھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی دھوپ میں ہو (مخلد کی روایت) سایہ میں ہو، پھر سایہ اس سے سمٹ گیا ہو اس طرح کہ اس کا کچھ حصہ دھوپ میں آجائے اور کچھ سایہ میں رہے تو چاہیئے کہ وہ اٹھ جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ اس سے ضرر کا اندیشہ ہے، جیسے بیک وقت گرم و سرد چیز کا استعمال مضر ہوتا ہے۔
مجلس میں کشادہ ہو کر بیٹھنے کا بیان
ابوحازم البجلی (رض) کہتے ہیں کہ وہ آئے اور رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو وہ دھوپ میں کھڑے ہوگئے، اس کے بعد (آپ نے انہیں سایہ میں آنے کے لیے کہا) تو وہ سائے میں آگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٤٢٧، ٤/٢٦٢) (صحیح )
حلقے بنا کر بیٹھنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے اور لوگ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں تم لوگوں کو الگ الگ گروہوں میں دیکھ رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٩٣، ١٠١، ١٠٧) (صحیح )
حلقے بنا کر بیٹھنا
اعمش سے بھی یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے گویا کہ آپ اجتماعیت کو پسند فرماتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٩) (صحیح )
حلقے بنا کر بیٹھنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے، تو ہم میں سے جس کو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٢٩ (٢٧٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٩١، ١٠٧) (صحیح )
حلقہ کے درمیان میں بیٹھنا
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر لعنت فرمائی جو حلقہ کے بیچ میں جا کر بیٹھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ١٢ (٢٧٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٤، ٣٩٨، ٤٠١) (ضعیف )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
سعید بن ابوالحسن کہتے ہیں کہ ابوبکرہ (رض) ایک گواہی کے سلسلے میں ہمارے ہاں آئے، تو ان کے لیے ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، تو انہوں نے وہاں بیٹھنے سے انکار کیا، اور کہا : نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنا ہاتھ کسی ایسے شخص کے کپڑے سے پونچھے جسے اس نے کپڑا نہ پہنایا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٤، ٤٨) (ضعیف )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو ایک شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ وہاں بیٹھنے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے روک دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٠ (٩١١) ، الاستئذان ٣١ (٦٢٦٩) ، صحیح مسلم/السلام ١١ (٢١٧٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٩ (٢٧٥٠) ، مسند احمد (٢/١٤٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٤ (٢٦٩٥) (حسن )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسے مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس نارنگی کی سی ہے جس کی بو بھی اچھی ہے اور جس کا ذائقہ بھی اچھا ہے اور ایسے مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ اچھا ہوتا ہے لیکن اس میں بو نہیں ہوتی، اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، گلدستے کی طرح ہے جس کی بو عمدہ ہوتی ہے اور اس کا مزا کڑوا ہوتا ہے، اور فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، ایلوے کے مانند ہے، جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی، اور صالح دوست کی مثال مشک والے کی طرح ہے، کہ اگر تمہیں اس سے کچھ بھی نہ ملے تو اس کی خوشبو تو ضرور پہنچ کر رہے گی، اور برے دوست کی مثال اس دھونکنی (لوہے کی بٹھی) والے کی سی ہے، کہ وہ اگر اس کی سیاہی سے بچ بھی جائے تو اس کا دھواں تو لگ ہی کر رہے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٨) (صحیح )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
اس سند سے بھی ابوموسیٰ (رض) سے شروع سے طعمها مر (اس کا مزا کڑوا ہے) تک اسی طرح مرفوعاً مروی ہے، اور ابن معاذ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انس (رض) نے کہا : اور ہم آپس میں کہتے تھے کہ اچھے ہم نشین کی مثال، پھر راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل القرآں ١٧ (٥٠٢٠) ، ٣٦ (٥٠٥٩) ، والأطعمة ٣٠ (٥٤٢٧) ، والتوحید ٥٧ (٧٥٦٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٧ (٧٩٧) ، سنن الترمذی/الأمثال ٤ (٢٨٦٥) ، سنن النسائی/الإیمان ٣٢ (٥٠٤١) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦(٢١٤) ، مسند احمد (٤/٣٩٧، ٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨١) (صحیح )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اچھے ہم نشین کی مثال ... پھر راوی نے اس جیسی روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٠٥) (صحیح )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کے سوا کسی کو ساتھی نہ بناؤ ١ ؎، اور تمہارا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی اور نہ کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ٥٥ (٢٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس میں کفار و منافقین کی مصاحبت سے ممانعت ہے کیونکہ ان کی مصاحبت دین کے لئے ضرر رساں ہے۔
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ٤٥ (٢٣٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٣، ٣٣٤) (حسن )
کسی کے لئے اپنی جگہ سے اٹھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : روحیں (عالم ارواح میں) الگ الگ جھنڈوں میں ہوتی ہیں یعنی (بدن کے پیدا ہونے سے پہلے روحوں کے جھنڈ الگ الگ ہوتے ہیں) تو ان میں سے جن میں آپس میں (عالم ارواح میں) جان پہچان تھی وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں اور جن میں اجنبیت تھی وہ دنیا میں بھی الگ الگ رہتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤٩ (٣٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩٥، ٥٢٧، ٥٣٩) (صحیح )
جھگڑا کرنے کی ممانعت کا بیان
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے، خوشخبری دینا، نفرت مت دلانا، آسانی اور نرمی کرنا، دشواری اور مشکل میں نہ ڈالنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجھاد ٣ (١٧٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٩، ٤٠٧) (صحیح )
جھگڑا کرنے کی ممانعت کا بیان
سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو لوگ میری تعریف اور میرا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ان کو تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں میں نے عرض کیا : سچ کہا آپ نے میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں، آپ میرے شریک تھے، تو آپ ایک بہترین شریک تھے، نہ آپ لڑتے تھے اور نہ جھگڑتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٣ (٢٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٥) (صحیح )
راست کلام کرنا
عبداللہ بن سلام (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب گفتگو کرنے بیٹھتے تو آپ اکثر اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٣٣٥) (ضعیف )
راست کلام کرنا
مسعر کہتے ہیں کہ میں نے مسجد میں ایک بزرگ کو کہتے سنا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے سنا : رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں ترتیل یا ترسیل ہوتی تھی یعنی آپ ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف گفتگو کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٧٢) (صحیح )
راست کلام کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کا ہر لفظ الگ الگ اور واضح ہوتا تھا، جو بھی اسے سنتا سمجھ لیتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٩ (٣٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٨، ٢٥٧) (حسن )
راست کلام کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر وہ کلام جس کی ابتداء الحمدللہ (اللہ کی تعریف) سے نہ ہو تو وہ ناقص و ناتمام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے یونس، عقیل، شعیب، اور سعید بن عبدالعزیز نے زہری سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٩) (ضعیف )
خطبہ کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر وہ خطبہ جس میں تشہد نہ ہو تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کی طرح ہے (یعنی وہ ناتمام اور ناقص ہے) یا اس ہاتھ کی طرح ہے جس میں جذام ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ١٦ (١١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٣) (صحیح )
لوگوں سے ان کے مرتبہ کے مطابق برتاؤ کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ان کے پاس سے ایک بھکاری گزرا تو انہوں نے اس کو روٹی کا ایک ٹکڑا دے دیا، پھر ایک شخص کپڑوں میں ملبوس اور معقول صورت میں گزرا تو انہوں نے اسے بٹھایا اور (اسے کھانا پیش کیا) اور اس نے کھایا، لوگوں نے ان سے اس (امتیاز) کی بابت پوچھا تو وہ بولیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہر شخص کو اس کے مرتبے پر رکھو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یحییٰ کی حدیث مختصر ہے، اور میمون نے عائشہ (رض) کو نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٩) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آؤ جیسا کہ ان کے منصب کے شایان شان ہو۔
لوگوں سے ان کے مرتبہ کے مطابق برتاؤ کرنا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معمر اور سن رسیدہ مسلمان کی اور حافظ قرآن کی جو نہ اس میں غلو کرنے والا ہو ١ ؎ اور نہ اس سے دور پڑجانے والا ہو، اور عادل بادشاہ کی عزت و تکریم دراصل اللہ کے اجلال و تکریم ہی کا ایک حصہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١٥٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : غلو کرنے والے سے مراد ایسا شخص ہے جو قرآن مجید پر عمل کرنے ، اس کے متشابہات کے معانیٰ میں کھوج کرنے نیز اس کی قرات اور اس کے حروف کو مخارج سے ادائیگی میں حد سے تجاوز کرنے والا ہو۔
دو افراد کی گفتگو میں بغیر اجازت شریک ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو آدمیوں کے درمیان گھس کر ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٧٢٣) (حسن )
دو افراد کی گفتگو میں بغیر اجازت شریک ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گھس کر دونوں میں جدائی ڈال دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ١٢ (١٧٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢١٣) (حسن صحیح )
انداز نشست کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بیٹھتے تھے تو اپنے ہاتھ سے احتباء کرتے تھے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ بن ابراہیم ایک ایسے شیخ ہیں جو منکر الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سرین زمین پر لگا کر دونوں پاؤں کھڑے کر کے اور دونوں ہاتھوں سے پاؤں پر حلقہ بنا کر بیٹھنے کو احتباء کہتے ہیں۔
انداز نشست کا بیان
قیلہ بنت مخرمہ (رض) نے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ دونوں ہاتھ سے احتباء کرنے والے کی طرح بیٹھے ہوئے تھے تو جب میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیٹھنے میں مختشع اور موسیٰ کی روایت میں ہے متخشع ١ ؎ دیکھا تو میں خوف سے لرز گئی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإشتذان ٥٠ (٢٨١٤) ، الشمائل (٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں لفظوں میں سے پہلا باب افتعال، اور دوسرا باب تفعل سے ہے، دونوں کے معنیٰ عاجزی اور گریہ وزاری کرنے والا ہے۔ ٢ ؎ : یہ نور الٰہی کا اجلال تھا کہ عاجزی کے باوجود رسول اللہ ﷺ کا رعب دل میں اتنا زیادہ سما گیا۔
ناپسندیدہ انداز نشست کا بیان
شرید بن سوید (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس سے رسول اللہ ﷺ گزرے اور میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھ چھوڑا تھا اور اپنے ایک ہاتھ کی ہتھیلی پر ٹیک لگائے ہوئے تھا، آپ نے فرمایا : کیا تم ان لوگوں کی طرح بیٹھتے ہو جن پر غضب نازل ہوا ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٨٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٨) (صحیح )
عشاء کے بعد گفتگو (قصے کہانیاں) کرنے کا بیان
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے پہلے سونے ١ ؎ اور اس کے بعد بات کرنے ٢ ؎ سے منع فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المواقیت ٢٣ (٥٦٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١ (١٦٨) ، سنن ابن ماجہ/ الصلاة ١٢٥ (٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٥، ١١٦٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس میں عشاء چھوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ٢ ؎ : اور اس صورت میں قیام اللیل (تہجد) اور فجر کے چھوٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔
آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کا بیان
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز فجر پڑھ لیتے تو چارزانو (آلتی پالتی) ہو کر بیٹھتے یہاں تک کہ سورج خوب اچھی طرح نکل آتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٢ (٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠٠، ١٠١، ١٠٧) (صحیح )
دو سے زائد افراد کی موجودگی میں سرگوشی کرنے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں، کیونکہ یہ چیز اسے رنجیدہ کر دے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ١٥ (٢١٨٤) ، سنن الترمذی/الأدب ٥٩ (٢٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٠ (٣٧٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٥ (٦٢٨٨) ، ٤٧ (٦٢٩٠) ، موطا امام مالک/الکلام ٦ (١٤) ، مسند احمد (١/٤٢٥، ٤٦٢، ٤٦٤) ، دی/ الاستئذان ٢٨ (٢٦٩٩) (صحیح )
دو سے زائد افراد کی موجودگی میں سرگوشی کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی کے مثل فرمایا، ابوصالح کہتے ہیں : میں نے ابن عمر سے کہا : اگر چار آدمی ہوں تو ؟ وہ بولے (تو کوئی حرج نہیں) اس لیے کہ یہ چیز تم کو ایذاء نہ دے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٧١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨، ٤٣، ١٤١) (صحیح )
مجلس سے اٹھ کر لوٹ آنے والا اسی جگہ پر بیٹھنے کا مستحق ہے
سہیل بن ابی صالح کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان کے پاس ایک لڑکا تھا، وہ اٹھ کر گیا پھر واپس آیا، تو میرے والد نے بیان کیا کہ ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب آدمی ایک جگہ سے اٹھ کر جائے پھر وہاں لوٹ کر آئے تو وہی اس (اس جگہ بیٹھنے) کا زیادہ مستحق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/السلام ١٢ (٢١٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٢ (٣٧١٧) ، مسند احمد (٢/٣٤٢، ٥٢٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٥ (٢٦٩٦) (صحیح )
مجلس سے اٹھ کر لوٹ آنے والا اسی جگہ پر بیٹھنے کا مستحق ہے
کعب الایادی کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء کے پاس آتا جاتا تھا تو ابو الدرداء نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے تو آپ (کسی کام سے جانے کے لیے) کھڑے ہوتے اور لوٹنے کا ارادہ ہوتا تو اپنی جوتیاں اتار کر رکھ جاتے یا اور کوئی چیز رکھ جاتے جو آپ کے پاس ہوتی، اس سے آپ کے اصحاب سمجھ لیتے تو وہ ٹھہرے رہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٠) (ضعیف )
آدمی کا کسی مجلس سے بغیر اللہ کا ذکر کیے اٹھ جانا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ بھی بغیر اللہ کو یاد کئے کسی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے ہوں تو وہ ایسی مجلس سے اٹھے ہوتے ہیں جو بدبو میں مرے ہوئے گدھے کی لاش کی طرح ہوتی ہے، اور وہ مجلس ان کے لیے (قیامت کے روز) باعث حسرت ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥١٥، ٥٢٧) (صحیح )
آدمی کا کسی مجلس سے بغیر اللہ کا ذکر کیے اٹھ جانا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جگہ بیٹھے اور اس میں وہ اللہ کا ذکر نہ کرے، تو یہ بیٹھک اللہ کی طرف سے اس کے لیے باعث حسرت و نقصان ہوگی اور جو کسی جگہ لیٹے اور اس میں اللہ کو یاد نہ کرے تو یہ لیٹنا اس کے لیے اللہ کی طرف سے باعث حسرت و نقصان ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٨ (٣٣٨٠) ، مسند احمد (٢/٤٣٢، ٤٥٢، ٤٨١، ٤٨٤) (حسن صحیح )
مجلس میں کیے ہوئے صغارہ کا کفارہ
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ تین کلمے ایسے ہیں جنہیں کوئی بھی مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ پڑھے تو یہ اس کے لیے (ان گناہوں کا جو اس مجلس میں اس سے ہوئے) کفارہ بن جاتے ہیں، اور اگر انہیں نیکی یا ذکر الٰہی کی مجلس میں کہے گا تو وہ مانند مہر کے ہوں گے جیسے کسی تحریر یا دستاویز پر اخیر میں مہر ہوتی ہے اور وہ کلمات یہ ہیں سبحانک اللهم وبحمدک لا إله إلا أنت أستغفرک وأتوب إليك اے اللہ ! تو پاک ہے، اور تو اپنی ساری تعریفوں کے ساتھ ہے، نہیں ہے معبود برحق مگر تو ہی اور میں تجھی سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٩ (٣٤٢٩) ، مسند احمد (٢/٤٩٤) (صحیح) دون قولہ : ثلاث مرات
مجلس میں کیے ہوئے صغارہ کا کفارہ
ابوہریرہ (رض) بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٨١) (صحیح )
مجلس میں کیے ہوئے صغارہ کا کفارہ
ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مجلس سے اٹھنے کا ارادہ کرتے، تو آخر میں فرماتے : سبحانک اللهم وبحمدک أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرک وأتوب إليك تو ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اب ایک ایسا کلمہ کہتے ہیں جو پہلے نہیں کہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا : یہ کفارہ ہے ان (لغزشوں) کا جو مجلس میں ہوجاتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٥) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٩ (٢٧٠٠) (حسن صحیح )
مجلس کی کوئی بات آگے بڑھانا منع ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی شکایت مجھ تک نہ پہنچائے، اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں (گھر سے) نکل کر تمہاری طرف آؤں، تو میرا سینہ صاف ہو (یعنی کسی کی طرف سے میرے دل کوئی میں کدورت نہ ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٦٤ (٣٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٦) (ضعیف) (زید بن زائد یا زائدہ لین الحدیث ہیں )
لوگوں کے شر سے بچتے رہنے کا بیان
عمرو بن فغواء خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بلایا، آپ مجھے کچھ مال دے کر ابوسفیان کے پاس بھیجنا چاہتے تھے، جو آپ فتح مکہ کے بعد قریش میں تقسیم فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا : کوئی اور ساتھی تلاش کرلو ، تو میرے پاس عمرو بن امیہ ضمری آئے، اور کہنے لگے : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا ارادہ نکلنے کا ہے اور تمہیں ایک ساتھی کی تلاش ہے، میں نے کہا : ہاں، تو انہوں نے کہا : میں تمہارا ساتھی بنتا ہوں چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا، مجھے ایک ساتھی مل گیا ہے، آپ نے فرمایا : کون ؟ میں نے کہا : عمرو بن امیہ ضمری، آپ نے فرمایا : جب تم اس کی قوم کے ملک میں پہنچو تو اس سے بچ کے رہنا اس لیے کہ کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہارا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو اس سے مامون نہ رہو ، چناچہ ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم ابواء میں پہنچے تو اس نے کہا : میں ودان میں اپنی قوم کے پاس ایک ضرورت کے تحت جانا چاہتا ہوں لہٰذا تم میرے لیے تھوڑی دیر ٹھہرو، میں نے کہا : جاؤ راستہ نہ بھولنا، جب وہ چلا گیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ کی بات یاد آئی، تو میں نے زور سے اپنے اونٹ کو بھگایا، اور تیزی سے دوڑاتا وہاں سے نکلا، یہاں تک کہ جب مقام اصافر میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مجھے روکنے آ رہا ہے میں نے اونٹ کو اور تیز کردیا، اور میں اس سے بہت آگے نکل گیا، جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں اسے بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں، تو وہ لوگ لوٹ گئے، اور وہ میرے پاس آیا اور بولا، مجھے اپنی قوم میں ایک کام تھا، میں نے کہا : ٹھیک ہے اور ہم چلتے رہے یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے تو میں نے وہ مال ابوسفیان کو دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٩) (ضعیف )
لوگوں کے شر سے بچتے رہنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٨٣ (٦١٣٣) ، صحیح مسلم/الزہد ١٢ (٢٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٣٩٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧٩) ، سنن الدارمی/الرقاق ٦٥ (٢٨٢٣) (صحیح )
آدمی کی چال چلن کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب چلتے تو ایسا لگتا گویا آپ آگے کی جانب جھکے ہوئے ہیں (جیسے کوئی اونچے سے نیچے کی طرف اتر رہا ہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٦) (صحیح الإسناد )
آدمی کی چال چلن کا بیان
سعید جریری کی روایت ہے کہ ابوالطفیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، سعید کہتے ہیں کہ میں نے کہا : آپ کو کیسا دیکھا ؟ وہ کہا : آپ گورے خوبصورت تھے جب چلتے تو ایسا لگتا گویا آپ نیچی جگہ میں اتر رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٨ (٢٣٤٠) ، سنن الترمذی/الشمائل (١٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥٤) (صحیح )
لیٹتے وقت ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھنا ممنوع ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ آدمی اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے۔ قتیبہ کی روایت میں أن يضع کے بجائے أن يرفع کے الفاظ ہیں، اور قتیبہ کی روایت میں یہ بھی زیادہ ہے اور وہ اپنی پیٹھ کے بل چت لیٹا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٠ (٢٠٩٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٢٠ (٢٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٩٢، ٢٩٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٢، ٣٦٧) (صحیح )
لیٹتے وقت ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھنا ممنوع ہے
عباد بن تمیم اپنے چچا (عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں ایک پیر کو دوسرے پیر پر رکھے ہوئے چت لیٹے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : خ /الصلاة ٨٥ (٤٧٥) ، اللباس ١٠٣ (٥٩٦٩) ، الاستئذان ٤٤ (٦٢٨٧) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٢ (٢١٠٠) ، سنن الترمذی/الأدب ١٩ (٢٧٦٥) ، سنن النسائی/المساجد ٢٨ (٧٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/السفر ٢٤ (٨٧) ، مسند احمد (٤/٣٩، ٤٠) ، دی/الاستئذان ٢٧(٢٦٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں اور اس سے پہلے والی حدیث میں بظاہر تعارض ہے ، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب لنگی ( ازار) تنگ ہو ، اور ایسا کرنے سے ستر کھلنے کا اندیشہ ہو ، اور اگر ازار کشادہ ہو ، اور ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو درست ہے ، یا دونوں پیر پھیلا کر ایسا کرنا درست ہے ، کیونکہ اس صورت میں ستر کھلنے کا اندیشہ نہیں رہتا ، البتہ ایک پیر کو کھڑا کر کے دوسرے کو کھڑے پر رکھنا درست نہیں کیونکہ اس میں ستر کھلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
لیٹتے وقت ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھنا ممنوع ہے
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان (رض) بھی اسے کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٨) (صحیح الإسناد عن عثمان )
(راز کی) بات کو آگے بیان کرنا منع ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی شخص کوئی بات کرے، پھر ادھر ادھر مڑ مڑ کر دیکھے تو وہ امانت ہے (اسے افشاء نہیں کرنا چاہیئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٣٩ (١٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٤، ٣٥٢، ٣٧٩، ٣٩٤) (حسن )
(راز کی) بات کو آگے بیان کرنا منع ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجلسیں امانت داری کے ساتھ ہیں (یعنی ایک مجلس کی بات دوسری جگہ جا کر بیان نہیں کرنی چاہیئے) سوائے تین مجلسوں کے، ایک جس میں ناحق خون بہایا جائے، دوسری جس میں بدکاری کی جائے اور تیسری جس میں ناحق کسی کا مال لوٹا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٢) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : ان تینوں صورتوں میں سننے والے کے لئے اس کا چھپانا جائز نہیں، بلکہ اس کا افشاء برائی کے دفعیہ کے لیے ضروری ہے۔
(راز کی) بات کو آگے بیان کرنا منع ہے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے خلوت میں ملے اور وہ (بیوی) اس سے ملے پھر وہ (مرد) اس کا راز فاش کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٢١ (١٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٦٩) (ضعیف )
چغل خور کا بیان
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٥٠ (٦٠٥٦) ، م /الإیمان ٤٥ (١٥٠) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٧٩ (٢٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٨٩، ٣٩٧، ٤٠٣، ٤٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سب سے پہلے اس گناہ کی سزا میں پہلے داخل جہنم ہوگا، اور سزا بھگت کر موحد ہونے کی صورت میں جنت کا مستحق ہوگا۔
چغل خور کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں برا وہ شخص ہے جو دورخا ہو، ان کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہو اور ان کے پاس دوسرا منہ لے کرجاتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٧١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ١ (٣٤٩٤) ، والأدب ٥٢ (٧١٧٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٤٨ (٢٥٢٦) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٧٨ (٢٠٢٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٤٥٥) (صحیح )
چغل خور کا بیان
عمار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے دنیا میں دو رخ ہوں گے قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی دو زبانیں ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الرقاق ٥١ (٢٨٠٦) (صحیح )
غیبت کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! غیبت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ اسے ناگوار ہو عرض کیا گیا : اور اگر میرے بھائی میں وہ چیز پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ چیز اس کے اندر ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر جو تم کہہ رہے ہو اس کے اندر نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان باندھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٢٣ (١٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٢٠ (٢٥٨٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٤٥٨) ، سنن الدارمی/الرقاق ٦ (٢٧٥٦) (صحیح )
غیبت کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : آپ کے لیے تو صفیہ (رض) کا یہ اور یہ عیب ہی کافی ہے، یعنی پستہ قد ہونا تو آپ نے فرمایا : تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آجائے اور میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال) ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٥١ (٢٥٠٢، ٢٥٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٨، ١٣٦، ١٨٩، ٢٠٦) (صحیح )
غیبت کا بیان
سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ آدمی ناحق کسی مسلمان کی بےعزتی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٤٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩٠) (صحیح )
غیبت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی ناحق کسی مسلمان کی بےعزتی میں زبان دراز کرے، اور یہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دی جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٠٢٠) (ضعیف )
غیبت کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی، تو میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا : جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا : یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی بےعزتی کرتے تھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم سے اسے یحییٰ بن عثمان نے بیان کیا ہے اور بقیہ سے روایت کر رہے تھے، اس میں انس موجود نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٢٤) (صحیح ) ابومغیرہ سے بھی اسی طرح مروی ہے جیسا کہ ابن مصفیٰ نے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبله، (تحفة الأشراف : ٨٢٨ )
None
جیسا کہ ابن مصفیٰ نے روایت کیا ہے۔
غیبت کا بیان
ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٢٠، ٤٢١) (حسن صحیح )
غیبت کا بیان
مستورد (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کا عیب بیان کر کے ایک نوالا کھائے گا تو اس کو اللہ اتنا ہی جہنم سے کھلائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب بیان کر کے ایک کپڑا پہنے گا تو اللہ اسے اسی جیسا لباس جہنم میں پہنائے گا، اور جو شخص کسی شخص کو شہرت اور ریا کے مقام پر پہنچائے گا تو قیامت کے دن اللہ اسے خوب شہرت اور ریا کے مقام پر پہنچا دے گا (یعنی اس کی ایسی رسوائی ہوگی کہ سارے لوگوں میں اس کا چرچا ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٢٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٩) (صحیح )
غیبت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کی ہر چیز اس کا مال، اس کی عزت اور اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اور آدمی میں اتنی سی برائی ہونا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ١٨ (١٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٠ (٢٥٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٣ (٤٢١٣) (صحیح )
غیبت کا بیان
معاذ بن انس جہنی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی مومن کی عزت و آبرو کی کسی منافق سے حفاظت کرے گا تو اللہ ایک فرشتہ بھیجے گا جو قیامت کے دن اس کے گوشت کو جہنم کی آگ سے بچائے گا اور جو شخص کسی مسلمان پر تہمت لگائے گا، اس سے اس کا مقصد اسے مطعون کرنا ہو تو اللہ اسے جہنم کے پل پر روکے رکھے گا یہاں تک کہ جو اس نے جو کچھ کہا ہے اس سے نکل جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٢٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤١) (حسن )
غیبت کا بیان
جابربن عبداللہ اور ابوطلحہ بن سہل انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی مسلمان شخص کو کسی ایسی جگہ میں ذلیل کرے گا، جہاں اس کی بےعزتی کی جائے اس کی عزت میں کمی آئے تو اللہ اسے ایسی جگہ ذلیل کرے گا، جہاں وہ اس کی مدد چاہے گا، اور جو کسی مسلمان کی ایسی جگہ میں مدد کرے گا جہاں اس کی عزت میں کمی آرہی ہو اور اس کی آبرو جا رہی ہو تو اللہ اس کی ایسی جگہ پر مدد کرے گا، جہاں پر اس کو اللہ کی مدد محبوب ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٢١٤، ٣٧٦٩، ١٩١٠١، ١٨٩٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠) (ضعیف) ( آخری ٹکڑا فقال رسول+اللہ+صلی+اللہ+علیہ+وسلم سے آخر تک ضعیف ہے ، بقیہ حدیث صحیح ہے ، ابوہریرہ رضی+اللہ+عنہ کی اس معنی کی ( ٣٨٠) نمبر کی حدیث گزر چکی ہے ) ۔
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
ابوعبداللہ جشمی کہتے ہیں کہ ہم سے جندب (رض) نے بیان کیا کہ ایک اعرابی آیا اس نے اپنی سواری بٹھائی پھر اسے باندھا، اس کے بعد وہ مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے سلام پھیرا تو وہ اپنی سواری کے پاس آیا، اسے اس نے کھولا پھر اس پر سوار ہوا اور پکار کر کہا : اے اللہ ! مجھ پر اور محمد پر رحم فرما اور ہمارے اس رحم میں کسی اور کو شامل نہ کر (یعنی کسی اور پر رحم نہ فرما) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ یہ زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ ؟ کیا تم نے وہ نہیں سنا جو اس نے کہا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ضرور سنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٢٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٢) (ضعیف )
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
قتادہ کہتے ہیں کیا تم میں سے کوئی شخص ابوضیغم یا ضمضم کی طرح ہونے سے عاجز ہے، وہ جب صبح کرتے تو کہتے : اے اللہ میں نے اپنی عزت و آبرو کو تیرے بندوں پر صدقہ کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٧) (صحیح )
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
عبدالرحمٰن بن عجلان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ابوضمضم کی طرح ہو لوگوں نے عرض کیا : ابوضمضم کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص تھا پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی، البتہ اس میں ( عرضي على عبادک ) کے بجائے ( عرضي لمن شتمني ) (میری آبرو اس شخص کے لیے صدقہ ہے جو مجھے برا بھلا کہے) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہاشم بن قاسم نے روایت کیا وہ اسے محمد بن عبداللہ العمی سے، اور وہ ثابت سے روایت کرتے ہیں، ثابت کہتے ہیں : ہم سے انس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٦٧، ١٩٢١٥) (ضعیف) (اس کے ضعیف ہونے کی وجہ ارسال ہے، تابعی یعنی ابن عجلان نے واسطہ ذکر نہیں کیا، اور وہ خود مجہول الحال ہیں )
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑو گے، تو تم ان میں بگاڑ پیدا کر دو گے، یا قریب ہے کہ ان میں اور بگاڑ پیدا کر دو ١ ؎۔ ابو الدرداء کہتے ہیں : یہ وہ کلمہ ہے جسے معاویہ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور اللہ نے انہیں اس سے فائدہ پہنچایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ راز فاش ہوجانے کی صورت میں ان کی جھجھک ختم ہوجائے گی، اور وہ کھلم کھلا گناہ کرنے لگیں گے۔
ابن صیاد کا بیان
جبیر بن نفیر، کثیر بن مرہ، عمرو بن اسود، مقدام بن معد یکرب اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حاکم جب لوگوں کے معاملات میں بدگمانی اور تہمت پر عمل کرے گا تو انہیں بگاڑ دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٨٨٦، ١٨٤٧٢، ١٩١٥٨، ١٩٢٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤) (صحیح لغیرہ) (اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح ہے )
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
زید بن وہب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس کسی آدمی کو لایا گیا اور کہا گیا : یہ فلاں شخص ہے جس کی داڑھی سے شراب ٹپکتی ہے تو عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) نے کہا : ہمیں ٹوہ میں پڑنے سے روکا گیا ہے، ہاں البتہ اگر کوئی چیز ہمارے سامنے کھل کر آئے تو ہم اسے پکڑیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٢٣٠) (صحیح الإسناد )
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی کا کوئی عیب دیکھے پھر اس کی پردہ پوشی کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے کسی زندہ دفنائی گئی لڑکی کو نئی زندگی بخشی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٤٧) (ضعیف )
کسی شخص کی غیبت، غیبت نہیں کہلاتی
عقبہ بن عامر (رض) کے منشی (سکریٹری) دخین کہتے ہیں کہ ہمارے کچھ پڑوسی شراب پیتے تھے، میں نے انہیں منع کیا تو وہ باز نہیں آئے، چناچہ میں نے عقبہ بن عامر سے کہا کہ ہمارے یہ پڑوسی شراب پیتے ہیں، ہم نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہیں آئے، لہٰذا اب میں ان کے لیے پولیس کو بلاؤں گا، تو انہوں نے کہا : انہیں چھوڑ دو ، پھر میں دوبارہ عقبہ کے پاس لوٹ کر آیا اور میں نے ان سے کہا : میرے پڑوسیوں نے شراب پینے سے باز آنے سے انکار کردیا ہے، اور اب میں ان کے لیے پولیس بلانے والا ہوں، انہوں نے کہا : تمہارا برا ہو، انہیں چھوڑ دو ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے ... پھر انہوں نے مسلم جیسی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہاشم بن قاسم نے کہا کہ اس حدیث میں لیث سے اس طرح روایت ہے کہ عقبہ بن عامر (رض) کہا : ایسا نہ کرو بلکہ انہیں نصیحت کرو اور انہیں دھمکاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (٤/١٥٣، ١٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٢٤) (ضعیف )
بھائی چارہ اور اخوت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ (خود) اس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ اسے (کسی ظالم) کے حوالہ کرتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کوئی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کی تکمیل میں لگا رہتا ہے، اور جو کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کرے گا، تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مصائب و مشکلات میں سے اس سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا، اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المظالم ٣ (٢٤٤٢) ، الإکراہ ٧ (٦٩٥١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ١٥(٢٥٨٠) ، سنن الترمذی/الحدود ٣ (١٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩١) (صحیح )
گالم گلوچ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : باہم گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ کہتے ہیں اس کا گناہ اس شخص پر ہوگا جس نے ابتداء کی ہوگی جب تک کہ مظلوم اس سے تجاوز نہ کرے (اگر وہ تجاوز کر جائے تو زیادتی و تجاوز کا گناہ اس پر ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٥١ (١٩٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١٨ (٢٥٨٧) (صحیح )
تواضع اور انکساری کا بیان
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے مجھ کو وحی کی ہے کہ تم لوگ تواضع اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر فخر کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزہد ١٦ (٤١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٠١٦) (صحیح )
تواضع اور انکساری کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص ابوبکر (رض) سے الجھ پڑا اور آپ کو ایذاء پہنچائی تو آپ اس پر خاموش رہے، اس نے دوسری بار ایذاء دی، ابوبکر (رض) اس بار بھی چپ رہے پھر اس نے تیسری بار بھی ایذاء دی تو ابوبکر (رض) نے اس سے بدلہ لے، جب ابوبکر (رض) بدلہ لینے لگے تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے، ابوبکر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہوگئے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا تھا، وہ ان باتوں میں اس کے قول کی تکذیب کر رہا تھا، لیکن جب تم نے بدلہ لے لیا تو شیطان آپڑا پھر جب شیطان آپڑا ہو تو میں بیٹھنے والا نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٥٩٧، ١٣٠٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٦) (حسن لغیرہ) (سعید بن المسیب تابعی ہیں ، اس لئے یہ سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن یہ حدیث آنے والی حدیث سے تقویت پاکر حسن ہے )
تواضع اور انکساری کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص ابوبکر (رض) کو گالی دے رہا تھا، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح اسے صفوان بن عیسیٰ نے ابن عجلان سے روایت کیا ہے جیسا کہ سفیان نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤٢) (ضعیف )
تواضع اور انکساری کا بیان
ابن عون کہتے ہیں آیت کریمہ ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل اور جو لوگ اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لیں تو ایسے لوگوں پر الزام کا کوئی راستہ نہیں (سورۃ الشوریٰ : ٤١) میں بدلہ لینے کا جو ذکر ہے اس کے متعلق میں پوچھ رہا تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان نے بیان کیا، وہ اپنی سوتیلی ماں ام محمد سے روایت کر رہے تھے، (ابن عون کہتے ہیں : لوگ کہتے ہیں کہ وہ (ام محمد) ام المؤمنین ١ ؎ کے پاس جایا کرتی تھیں) ام محمد کہتی ہیں : ام المؤمنین نے کہا : میرے پاس رسول اللہ ﷺ آئے، ہمارے پاس زینب بنت حجش (رض) تھیں آپ اپنے ہاتھ سے مجھے کچھ چھیڑنے لگے (جیسے میاں بیوی میں ہوتا ہے) تو میں نے ہاتھ کے اشارہ سے آپ کو بتادیا کہ زینب بنت حجش بیٹھی ہوئی ہیں، تو آپ رک گئے اتنے میں زینب آ کر ام المؤمنین عائشہ (رض) سے الجھ گئیں اور انہیں برا بھلا کہنے لگیں، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا لیکن وہ نہ مانیں، تو آپ نے ام المؤمنین عائشہ سے فرمایا : تم بھی انہیں کہو ، تو انہوں نے بھی کہا اور وہ ان پر غالب آگئیں، تو ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا، علی (رض) کے پاس گئیں، اور ان سے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے تمہیں یعنی بنو ہاشم کو گالیاں دیں ہیں (کیونکہ ام زینب ہاشمیہ تھیں) پھر فاطمہ (رض) (نبی اکرم ﷺ کے پاس ام المؤمنین عائشہ (رض) کی شکایت کرنے) آئیں تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : قسم ہے کعبہ کے رب کی وہ (یعنی عائشہ) تمہارے والد کی چہیتی ہیں تو وہ لوٹ گئیں اور بنو ہاشم کے لوگوں سے جا کر انہوں نے کہا : میں نے آپ سے ایسا اور ایسا کہا تو آپ نے مجھے ایسا اور ایسا فرمایا، اور علی (رض) بھی نبی اکرم ﷺ کے پاس آپ سے اس سلسلے میں گفتگو کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٠) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد ام المومنین عائشہ (رض) ہیں۔
مردہ لوگوں کو برابھلا کہنے کی ممانعت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارا ساتھی (یعنی مسلمان جس کے ساتھ تم رہتے سہتے ہو) مرجائے تو اسے چھوڑ دو ١ ؎ اس کے عیوب نہ بیان کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٢) ، وقد أخرجہ : الرقاق ٤٢ (٦٥١٦) ، سنن النسائی/الجنائز ٥٢ (١٩٣٨) ، مسند احمد (٦/١٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے سلسلہ میں کوئی ایسی بات نہ کہو جس سے اگر وہ زندہ ہوتا تو اسے تکلیف ہوتی۔
مردہ لوگوں کو برابھلا کہنے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے باز رہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٤ (١٠١٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٨) (ضعیف) (عمران بن انس ضعیف راوی ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر اگر اس لیے کیا جائے تاکہ لوگ اس سے بچیں اور عبرت حاصل کریں تو جائز ہے ، اسی طرح سے ضعیف اور مجروح رواۃ حدیث پر جرح و تنفید بھی باتفاق علماء جائز ہے ، خواہ وہ مردہ ہو یا زندہ ، اس لیے کہ اس کا مقصد عقیدہ ، علم ، اور حدیث کی خدمت و حفاظت ہے۔
برائی اور تکبر کی ممانعت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بنی اسرائیل میں دو شخص برابر کے تھے، ان میں سے ایک تو گناہ کے کاموں میں لگا رہتا تھا اور دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا، عبادت گزار دوسرے کو برابر گناہ میں لگا رہتا دیکھتا تو اس سے کہتا : باز رہ، ایک دفعہ اس نے اسے گناہ کرتے پایا تو اس سے کہا : باز رہ اس نے کہا : قسم ہے میرے رب کی تو مجھے چھوڑ دے (اپنا کام کرو) کیا تم میرا نگہبان بنا کر بھیجے گئے ہو ؟ تو اس نے کہا : اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں بخشے گا یا تمہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا، پھر ان کی روحیں قبض کرلی گئیں تو وہ دونوں رب العالمین کے پاس اکٹھا ہوئے، اللہ نے اس عبادت گزار سے کہا : تو مجھے جانتا تھا، یا تو اس پر قادر تھا، جو میرے دست قدرت میں ہے ؟ اور گنہگار سے کہا : جا اور میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجا، اور دوسرے کے متعلق کہا : اسے جہنم میں لے جاؤ۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی بات کہی جس نے اس کی دنیا اور آخرت خراب کردی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٣) (صحیح )
برائی اور تکبر کی ممانعت کا بیان
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظلم و بغاوت اور قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) جیسا کوئی اور گناہ نہیں ہے، جو اس لائق ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو اسی دنیا میں سزا دے باوجود اس کے کہ اس کی سزا اس نے آخرت میں رکھ چھوڑی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٧ (١٥١١) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٢٣ (٤٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بغی سے مراد باغی کا ظلم یا سلطان کے خلاف بغاوت یا کبر و غرور ہے۔
حسد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ حسد سے بچو، اس لیے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا لیتا ہے، جیسے آگ ایندھن کو کھا لیتی ہے یا کہا گھاس کو (کھا لیتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٨) (ضعیف )
حسد کا بیان
سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس (رض) کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا : یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کرلیتا ہوں، پھر کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ٢ ؎ کہ تم پر سختی کی جائے ٣ ؎ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کردی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا : کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا : ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہوچکے تھے، اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا : کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو ؟ میں نے کہا : مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا ؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا : یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کردیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کردیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٩٩) (حسن) (اس میں سعید بن عبدالرحمن لین الحدیث ہیں، شواہد وطرق کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٣١٢٤ وتراجع الألباني ١٣ ) وضاحت : ١ ؎ : دشوار اور شاق عمل کر کے جیسے صوم دہر، پوری پوری رات شب بیداری اور عورتوں سے مکمل علیحدگی وغیرہ اعمال۔ ٢ ؎ : یعنی یہ اعمال تم پر فرض قرار دے دئیے جائیں۔
لعنت کا بیان
ام الدرداء (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ابو الدرداء کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے، تو یہ لعنت آسمان پر چڑھتی ہے، تو آسمان کے دروازے اس کے سامنے بند ہوجاتے ہیں پھر وہ اتر کر زمین پر آتی ہے، تو اس کے دروازے بھی بند ہوجاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں گھومتی ہے، پھر جب اسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ اس کی طرف پلٹ آتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی، اب اگر وہ اس کا مستحق ہوتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ کہنے والے کی طرف ہی پلٹ آتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٠) (حسن )
لعنت کا بیان
سمرہ بن جندب (رض) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کی لعنت یا اللہ کا غضب یا جہنم کی لعنت کسی پر نہ کیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٤٨ (١٩٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٩٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یوں نہ کہو : تجھ پر اللہ کی لعنت ہو، یا اللہ کا غضب ہو، یا اللہ تجھے جہنم میں داخل کرے، یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے کہ آدمی کسی معین شخص پر لعنت بھیجے، اور اگر کسی وصف عام یا وصف خاص کے ساتھ لعنت بھیج رہا ہو مثلاً یوں کہے لعنة الله على الکافرين ، یا لعنة الله على اليهود ، یا کسی ایسے متعین کافر پر لعنت بھیج رہا ہو جس کا کفر کی حالت میں مرنا معلوم ہو تو یہ جائز ہے جیسے لعنة الله على الکافرين ، یا لعنة الله على أبي جهل کہنا۔
لعنت کا بیان
ام الدرداء (رض) کہتی ہیں کہ میں نے ابوالدرداء کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : لعنت کرنے والے نہ سفارشی ہوسکتے ہیں اور نہ گواہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البروالصلة ٢٤ (٢٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امت کے فرد نہیں ہوسکتے، کیونکہ آپ کی امت قیامت کے روز دوسری امتوں پر سفارشی اور گواہ ہوگی۔
لعنت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ہوا پر لعنت کی (مسلم کی روایت میں اس طرح ہے) نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہوا نے ایک شخص کی چادر اڑا دی، تو اس نے اس پر لعنت کی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر لعنت نہ کرو، اس لیے کہ وہ تابعدار ہے، اور اس لیے کہ جو کوئی ایسی چیز کی لعنت کرے جس کا وہ اہل نہ ہو تو وہ لعنت اسی کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٤٨ (١٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٦، ١٨٦٤١) (صحیح )
ظالم کے لئے بدعا کرنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ان کی کوئی چیز چوری ہوگئی، تو وہ اس پر بد دعا کرنے لگیں، تو ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس (چور) سے عذاب کو ہلکا نہ کر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، مسند احمد (٦/٤٥، ١٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧٧) (ضعیف) نوٹ : یہی حدیث ١٤٩٧ میں گزری ہے اس پر حسن کا حکم ہے
مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤ (یعنی ملاقات ترک نہ کرو) اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو، اور کسی مسلمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ملنا جلنا چھوڑے رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٥٧ (٦٠٦٥) ، ٦٢ (٦٠٧٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٧ (٢٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٢٤ (١٩٣٥) ، مسند احمد (٣/١٩٩) ، موطا امام مالک/ حسن الخلق ٤ (١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حکم ایسی ناراضگی سے متعلق ہے جو مسلمانوں کے درمیان باہمی معاشرتی حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے ہوئی ہو ، اور اگر دینی امور میں کوتاہی کی وجہ سے ہو تو یہ جائز ہے، بلکہ بدعتیوں اور ہوا پرستوں سے میل جول نہ رکھنا واجب ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلیں، اور حق کی طرف پلٹ نہ آئیں۔
مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑنے کا بیان
ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٢ (٦٠٧٧) ، الاستئذان ٩ (٦٢٣٧) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٨ (٢٥٦٠) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٢١ (١٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/حسن الخلق ٤ (١٣) ، مسند احمد (٤١٦٥، ٤٢١، ٤٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس کا پہل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں تواضع اور خاکساری زیادہ ہے۔
مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی مومن کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے، اگر اس پر تین دن گزر جائیں تو وہ اس سے ملے اور اس کو سلام کرے، اب اگر وہ سلام کا جواب دیتا ہے، تو وہ دونوں اجر میں شریک ہیں اور اگر وہ جواب نہیں دیتا تو وہ گنہگار ہوا، اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٨ (٢٥٦١) ، مسند احمد (٢/٣٩٢، ٤٥٦) (ضعیف ) q
ابن صیاد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے تو جب وہ (تین دن کے بعد) اس سے ملے اسے تین مرتبہ سلام کرے، اور وہ ایک بار بھی سلام کا جواب نہ دے تو وہ اپنا گناہ لے کر لوٹے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٩٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٢ (٦٠٧٧) ، مسند احمد (٤/٣٢٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اگر إثمه کی ضمیر سلام کا جواب نہ دینے والے لا يرد عليه کی طرف لوٹتی ہو تو مفہوم یہ ہوگا کہ سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے بری ہوگیا، اور سلام کا جواب نہ دینے والا اپنے قطع تعلق کا گناہ لے کر لوٹا، اور اگر إثمه کی ضمیر سلام کرنے والے کی طرف لوٹتی ہو تو مفہوم یہ ہوگا کہ وہ اپنا اور سلام کرنے والے دونوں کا گناہ لے کر لوٹے گا۔
مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے، لہٰذا جو تین سے زیادہ چھوڑے رکھے پھر وہ (بغیر توبہ کے اسی حال میں) مرجائے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٢، ٤٥٦) (صحیح )
مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑنے کا بیان
ابو خراش سلمی (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے اپنے بھائی سے ایک سال تک قطع تعلق رکھا تو یہ اس کے خون بہانے کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٠) (صحیح )
مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر دوشنبہ اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ان دنوں میں ہر اس بندے کی مغفرت کی جاتی ہے، جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا البتہ اس بندے کی نہیں جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور رقابت ہو، پھر کہا جاتا ہے : ان دونوں (کی مغفرت) کو ابھی رہنے دو جب تک کہ یہ صلح نہ کرلیں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے اپنی بعض ازواج مطہرات کو چالیس دن تک چھوڑے رکھا، اور ابن عمر (رض) نے اپنے ایک بیٹے سے بات چیت بند رکھی یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ قطع کلامی اگر اللہ کے لیے ہو ١ ؎ تو اس میں کوئی حرج نہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٧٩٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/البر والصلة ١١ (٢٥٦٥) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٧٦ (٢٠٢٤) ، مسند احمد (٢/٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ کے حقوق میں کسی سے کسی حق کی پاسداری کے لئے ہو تو یہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔
بدگمانی کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/النکاح ٤٥(٥١٤٣) ، الأدب ٥٧ (٦٠٦٦) ، الفرائض ٢ (٦٧٧٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٩ (٢٥٦٣) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٥٦ (١٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/حسن الخلق ٤ (١٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٣١٢، ٣٤٢، ٤٦٥، ٤٧٠، ٤٨٢) (صحیح )
مسلمان کی خیرخواہی کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن مومن کا آئینہ ہے، اور مومن مومن کا بھائی ہے، وہ اس کی جائیداد کی نگرانی کرتا اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ١٨ (١٩٢٩) (حسن )
جھگڑے والوں میں صلح کرانا
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکاۃ سے بڑھ کر ہے ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : آپس میں میل جول کرا دینا، اور آپس کی لڑائی اور پھوٹ تو سر مونڈنے والی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٦ (٢٥٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤٤) (صحیح )
جھگڑے والوں میں صلح کرانا
ام حمید بن عبدالرحمٰن (ام کلثوم) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس نے جھوٹ نہیں بولا جس نے دو آدمیوں میں صلح کرانے کے لیے کوئی بات خود سے بنا کر کہی۔ احمد بن محمد اور مسدد کی روایت میں ہے، وہ جھوٹا نہیں ہے : جس نے لوگوں میں صلح کرائی اور کوئی اچھی بات کہی یا کوئی اچھی بات پہنچائی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٢ (٢٦٩٢) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٧ (٢٦٠٥) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٢٦ (١٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٣، ٢٠١٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مثلاً یوں کہے کہ آپ کو تو فلاں نے سلام کہا ہے یا فلاں آپ سے محبت رکھتا ہے یا فلاں آپ کی تعریف کرتا ہے۔
جھگڑے والوں میں صلح کرانا
ام کلثوم بنت عقبہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٣) (صحیح )
گانے باجے کا بیان
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس صبح آئے، جس رات میرا شب زفاف ہوا تھا تو آپ میرے بستر پر ایسے بیٹھ گئے جیسے تم (خالد بن ذکوان) بیٹھے ہو، پھر (انصار کی) کچھ بچیاں اپنے دف بجانے لگیں اور اپنے غزوہ بدر کی شہید ہونے والے آباء و اجداد کا اوصاف ذکر کرنے لگیں یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا : اور ہمارے بیچ ایک ایسا نبی ہے جو کل ہونے والی باتوں کو بھی جانتا ہے، تو آپ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو اور وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٢ (٤٠٠١) ، سنن الترمذی/النکاح ٦ (١٠٩٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢١ (١٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح )
گانے باجے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے آئے تو حبشی آپ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦١) (صحیح الإسناد )
گانے اور موسیقی کی ممانعت
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہوگئے اور مجھ سے کہا : اے نافع ! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے میں نے کہا : نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا : میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔ ابوعلی لؤلؤی کہتے ہیں : میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا : یہ حدیث منکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٦٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٨، ٣٨) (صحیح )
None
میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے سوار تھا، کہ ان کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا جو بانسری بجا رہا تھا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔
None
میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو آپ نے ایک بانسری بجانے والے کی آواز سنی پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ان احادیث میں سب سے زیادہ منکر ہے ۱؎۔
گانے اور موسیقی کی ممانعت
سلام بن مسکین ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں جو ابو وائل کے ساتھ ایک ولیمہ میں موجود تھے تو لوگ کھیل کود اور گانے بجانے میں لگے گئے، تو ابو وائل نے اپنا حبوہ ١ ؎ کھولا اور بولے : میں نے عبداللہ بن مسعود کو کہتے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : گانا بجانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٣١٥) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : بیٹھنے کی ایک مخصوص ہیئت کا نام ہے جس میں آدمی سرین کے بل پاؤں کھڑا کر کے بیٹھتا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنے باندھ لیتا ہے۔
ہیجڑوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہجڑا لایا گیا جس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگا رکھی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کا کیا حال ہے ؟ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! یہ عورتوں جیسا بنتا ہے، آپ نے حکم دیا تو اسے نقیع کی طرف نکال دیا گیا، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ ، آپ نے فرمایا : مجھے نماز پڑھنے والوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے نقیع مدینے کے نواح میں ایک جگہ ہے اس سے مراد بقیع (مدینہ کا قبرستان) نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٤) (صحیح )
ہیجڑوں کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے ان کے پاس ایک ہجڑا بیٹھا ہوا تھا اور وہ ان کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا : اگر کل اللہ طائف کو فتح کرا دے تو میں تمہیں ایک عورت بتاؤں گا، کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو چار سلوٹیں لے کر آتی ہے، اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر جاتی ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : تقبل بأربع کا مطلب ہے عورت کے پیٹ میں چار سلوٹیں ہوتی ہیں یعنی پیٹ میں چربی چھا جانے کی وجہ سے خوب موٹی اور تیار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٦ (٤٣٢٤) ، اللباس ٦٢ (٥٨٧) ، النکاح ١١٣ (٥٢٣٥) ، صحیح مسلم/السلام ١٣ (٢١٨٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٢٢ (١٩٠٢) ، الحدود ٣٨ (٢٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیوں کہ وہ عورتوں کی خوبی و خرابی کا شعور رکھتے ہیں گو جماع پر قادر نہیں ہیں۔
ہیجڑوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے زنانے مردوں اور مردانی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا : انہیں اپنے گھروں سے نکال دو اور فلاں فلاں کو نکال دو یعنی ہجڑوں کو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ اللباس ٦١ (٥٨٨٦) ، الحدود ٣٣ (٦٨٣٤) ، سنن الترمذی/ الأدب ٣٤ (٢٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٥) (صحیح )
گڑیوں سے کھیلنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ میرے پاس آتے، میرے پاس لڑکیاں ہوتیں، تو جب آپ اندر آتے تو وہ باہر نکل جاتیں اور جب آپ باہر نکل جاتے تو وہ اندر آ جاتیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٨١ (٦١٣٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ١٣ (٢٤٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٠ (١٩٨٢) (صحیح )
گڑیوں سے کھیلنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک یا خیبر سے آئے، اور ان کے گھر کے طاق پر پردہ پڑا تھا، اچانک ہوا چلی، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیا، اور عائشہ (رض) کی گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے فرمایا : عائشہ ! یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : میری گڑیاں ہیں، آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا : یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں ؟ وہ بولیں : گھوڑا، آپ نے فرمایا : اور یہ کیا ہے جو اس پر ہے ؟ وہ بولیں : دو بازو، آپ نے فرمایا : گھوڑے کے بھی بازو ہوتے ہیں ؟ وہ بولیں : کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا ایک گھوڑا تھا جس کے بازو تھے، یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٧٤٢) (صحیح )
گڑیوں سے کھیلنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی، میں سات سال کی تھی، پھر جب ہم مدینہ آئے، تو کچھ عورتیں آئیں، بشر کی روایت میں ہے : پھر میرے پاس (میری والدہ) ام رومان آئیں، اس وقت میں ایک جھولہ پر تھی، وہ مجھے لے گئیں اور مجھے سنوارا سجایا پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئیں، تو آپ نے میرے ساتھ رات گزاری، اس وقت میں نو سال کی تھی وہ مجھے لے کر دروازے پر کھڑی ہوئیں، میں نے کہا : هيه هيه۔ (ابوداؤد کہتے ہیں : هيه هيه کا مطلب ہے کہ انہوں نے زور زور سے سانس کھینچی) ، عائشہ کہتی ہیں : پھر میں ایک کمرے میں لائی گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں انصار کی کچھ عورتیں (پہلے سے بیٹھی ہوئی) ہیں، انہوں نے على الخير والبرکة کہہ کر مجھے دعا دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٥، ١٦٨٨١) (صحیح ) ابواسامہ سے اسی کے ہم مثل مروی ہے اس میں ہے (ان عورتوں نے کہا) اچھا نصیبہ ہے پھر میری ماں نے مجھے ان عورتوں کے سپرد کردیا، انہوں نے میرا سر دھویا اور مجھے سجایا سنوارا (میں جان نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے) کہ چاشت کے وقت رسول اللہ ﷺ نے ہی آ کر مجھے حیرانی میں ڈال دیا تو ان عورتوں نے مجھے آپ کے حوالہ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٥) (صحیح )
None
اس میں ہے ( ان عورتوں نے کہا ) اچھا نصیبہ ہے پھر میری ماں نے مجھے ان عورتوں کے سپرد کر دیا، انہوں نے میرا سر دھویا اور مجھے سجایا سنوارا ( میں جان نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے ) کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آ کر مجھے حیرانی میں ڈال دیا تو ان عورتوں نے مجھے آپ کے حوالہ کر دیا۔
جھولاجھولنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب ہم مدینہ آئے، تو میرے پاس کچھ عورتیں آئیں، اس وقت میں جھولے پر کھیل رہی تھی، اور میرے بال چھوٹے چھوٹے تھے، وہ مجھے لے گئیں، مجھے بنایا سنوارا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئیں، آپ نے میرے ساتھ رات گزاری کی، اس وقت میں نو سال کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٨١) (صحیح الإسناد )
ابن صیاد کا بیان
ہشام بن عروہ سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : میں جھولے پر تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں، وہ مجھے ایک کوٹھری میں لے گئیں تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں انصار کی کچھ عورتیں ہیں انہوں نے مجھے خیر و برکت کی دعائیں دیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٥) (صحیح )
جھولاجھولنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج میں اترے، قسم اللہ کی میں دو شاخوں کے درمیان ڈلے ہوئے جھولے پر جھولا جھول رہی تھی کہ میری ماں آئیں اور مجھے جھولے سے اتارا، میرے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢١٠) (حسن صحیح )
چوسر کھیلنے کی ممانعت
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے چوسر کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٣ (٣٧٦٢) ، موطا امام مالک/الرؤیا ٢ (٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٤، ٣٩٧، ٤٠٠) (حسن )
چوسر کھیلنے کی ممانعت
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نردشیر (چوسر) کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الشعر ١ (٢٢٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٣ (٣٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح )
کبوتر بازی کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کبوتری کا (اپنی نظروں سے) پیچھا کر رہا ہے (یعنی اڑا رہا ہے) تو آپ نے فرمایا : ایک شیطان ایک شیطانہ کا پیچھا کر رہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٤ (٣٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٤٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں شیطان ہیں، کبوتر اڑانے والا اس لئے شیطان ہے کہ وہ اللہ سے غافل اور بےپرواہ ہے، اور کبوتر اس لئے شیطان ہے کہ وہ اڑانے والے کی غفلت کا سبب بنا ہے۔
رحمت وہمدردی کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ١٦ ( ١٩٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ٨٩٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ( ٢/١٦٠) ( صحیح )
رحمت وہمدردی کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے صادق و مصدوق ابوالقاسم ﷺ کو جو اس کمرے میں رہتے تھے ١ ؎ فرماتے سنا ہے : رحمت (مہربانی و شفقت) صرف بدبخت ہی سے چھینی جاتی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ١٦ (١٩٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠١، ٤٤٢، ٤٦١، ٥٣٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اشارہ ہے عائشہ (رض) کے حجرہ کی جانب جس میں نبی اکرم ﷺ رہتے تھے۔ ٢ ؎ : یعنی بدبخت اپنی سخت دلی کے باعث دوسروں پر شفقت و مہربانی نہیں کرتا جب کہ نیک بخت کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے یعنی وہ بےرحم نہیں ہوتا۔
رحمت وہمدردی کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہنچانے (اس کا ادب و احترام نہ کرے) تو وہ ہم میں سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٢٢) (صحیح )
نصیحت کا بیان
تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً ، دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کن کے لیے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٥) ، سنن النسائی/البیعة ٣١ (٤٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٢، ١٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اللہ کے لئے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کے لئے ہو، کتاب اللہ کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے، رسول کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ رسول کی نبوت کی تصدیق کرنے کے ساتھ وہ جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، مسلمانوں کے حاکموں کے لئے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور حقیقی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے، اور عام مسلمانوں کے لئے خیرخواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔
نصیحت کا بیان
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سمع و طاعت پر بیعت کی، اور یہ کہ میں ہر مسلمان کا خیرخواہ ہوں گا، راوی کہتے ہیں : وہ (یعنی جریر) جب کوئی چیز بیچتے یا خریدتے تو فرما دیتے : ہم جو چیز تم سے لے رہے ہیں، وہ ہمیں زیادہ محبوب و پسند ہے اس چیز کے مقابلے میں جو ہم تمہیں دے رہے ہیں، اب تم چاہو بیچو یا نہ بیچو، خریدو یا نہ خریدو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ البیعة ٦ (٤١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٢(٥٧) ، مواقیت الصلاة ٣ (٥٢٤) ، الزکاة ٢ (١٤٠١) ، البیوع ٦٨ (٢١٥٧) ، الشروط ١ (٢٧٠٥) ، الأحکام ٤٣ (٧٢٠٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٣ (٥٦) ، سنن الترمذی/البر ١٧ (١٩٢٥) ، مسند احمد (٤/ ٣٥٨، ٣٦١، ٣٦٤، ٣٦٥) (صحیح الإسناد )
مسلمان کی مدد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کر دے، تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرمائے گا، اور جس نے کسی نادار و تنگ دست کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسانی کا رویہ اپنائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے، جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحدود ٣ (١٤٢٥) ، البر والصلة ١٩ (١٩٣٠) ، القراء ات ١٢ (٢٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٥٩، ١٢٥١٠، ١٢٨٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١١ (٢٦٩٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٧ (٢٢٥) ، مسند احمد (٢/٢٥٢، ٣٢٥، ٥٠٠، ٥٢٢) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٢ (٣٦٠) (صحیح )
مسلمان کی مدد کا بیان
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ تمہارے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر بھلی بات صدقہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٦ (١٠٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٣، ٣٩٧، ٣٩٨، ٤٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ہر اچھی بات میں ایک صدقہ کا ثواب ہوتا ہے۔
ناموں کو بدلنے کا بیان
ابوالدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، تو اپنے نام اچھے رکھا کرو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن ابی زکریا نے ابودرداء کا زمانہ نہیں پایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٩ (٢٧٣٦) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ اگر کسی کا نام اچھا نہ ہو تو وہ بدل کر اپنا اچھا نام رکھ لے، اور سب سے بہتر نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔
ناموں کو بدلنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأداب ١ (٢١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٦٤ (٢٨٣٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٠ (٢٧٣٧) (صحیح )
ناموں کو بدلنے کا بیان
ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ، انہیں شرف صحبت حاصل ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انبیاء کے نام رکھا کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب و پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں، اور سب سے سچے نام حارث و ہمام ہیں ١ ؎، اور سب سے ناپسندیدہ و قبیح نام حرب و مرہ ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الخیل ٢ (٣٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٥) (صحیح) (اس میں تسموا باسماء الأنبیاء کا ٹکڑاصحیح نہیں ہے) (الصحیحة ١٠٤٠، ٩٠٤، والارواء ١١٧٨ وتراجع الالبانی ٤٦ ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ یہ دونوں اپنے مشتق منہ سے معنوی طور پر مطابقت رکھتے ہیں چناچہ حارث کے معنی ہیں کمانے والا ، اور ہمام کے معنی قصد و ارادہ رکھنے والے کے ہیں ، اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو قصد و ارادہ سے خالی ہو ، یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں نام سچے ہیں۔ ٢ ؎ : ان دونوں ناموں میں ان کے ذاتی وصف کے اعتبار سے جو قباحت ہے وہ بالکل واضح ہے۔
ناموں کو بدلنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی طلحہ کی پیدائش پر میں ان کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ اس وقت عبا پہنے ہوئے تھے، اور اپنے ایک اونٹ کو دوا لگا رہے تھے، آپ نے پوچھا : کیا تمہارے پاس کھجور ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، پھر میں نے آپ ﷺ کو کئی کھجوریں پکڑائیں، آپ نے ان کو اپنے منہ میں ڈالا اور چبا کر بچے کا منہ کھولا اور اس کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ منہ چلا کر چوسنے لگا، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انصار کی پسندیدہ چیز کھجور ہے اور آپ نے اس لڑکے کا نام عبداللہ رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٥ (٢١٤٤) ، انظر حدیث رقم : (٢٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٧٥، ٢١٢، ٢٨٧، ٢٨٨) (صحیح )
برے نام کو بدلنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاصیہ کا نام بدل دیا ١ ؎، اور فرمایا : تو جمیلہ ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٣ (٢١٣٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٦ (٢٨٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٥، ٧٨٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٢ (٣٧٣٣) ، مسند احمد (٢/١٨) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٢ (٢٧٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عاصیہ عمر کی بیٹی تھی جس کے معنی گنہگارو نافرمان کے ہیں۔ ٢ ؎ : یعنی آج سے تیرا نام جمیلہ (خوبصورت اچھے اخلاق و کردار والی) ہے۔
برے نام کو بدلنا
محمد بن عمرو بن عطا سے روایت ہے کہ زینب بنت ابوسلمہ نے ان سے پوچھا : تم نے اپنی بیٹی کا نام کیا رکھا ہے ؟ کہا : میں نے اس کا نام برہ رکھا ہے، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس نام سے منع کیا ہے، میرا نام پہلے برہ رکھا گیا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : خود سے پاکباز نہ بنو، اللہ خوب جانتا ہے، تم میں پاکباز کون ہے، پھر (میرے گھر والوں میں سے) کسی نے پوچھا : تو ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ آپ نے فرمایا : زینب رکھ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأداب ٣ (٢١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٤) (حسن صحیح )
برے نام کو بدلنا
اسامہ بن اخدری تمیمی (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی جسے اصرم (بہت زیادہ کاٹنے والا) کہا جاتا تھا، اس گروہ میں تھا جو رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تھا تو آپ نے اس سے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : میں اصرم ہوں، آپ نے فرمایا : نہیں تم اصرم نہیں بلکہ زرعہ (کھیتی لگانے والے) ہو، (یعنی آج سے تمہارا نام زرعہ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٣) (صحیح )
برے نام کو بدلنا
ابوشریح ہانی کندی (رض) سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابوالحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے، آپ نے انہیں بلایا، اور فرمایا : حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے ؟ انہوں نے کہا : میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر راضی ہوجاتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ تو اچھی بات ہے، تو کیا تمہارے کچھ لڑکے بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا : شریح، مسلم اور عبداللہ میرے بیٹے ہیں آپ نے پوچھا : ان میں بڑا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا : شریح آپ نے فرمایا : تو تم ابوشریح ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شریح ہی وہ شخص ہیں جس نے زنجیر توڑی تھی اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تستر میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کی شریح نے ہی تستر کا دروازہ توڑا تھا اور وہی نالے کے راستے سے اس میں داخل ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/آداب القضاة ٧ (٥٣٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٢٥) (صحیح )
برے نام کو بدلنا
سعید بن مسیب کے دادا (حزن رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟ کہا : حزن ١ ؎ آپ نے فرمایا : تم سہل ہو، انہوں نے کہا : نہیں، سہل روندا جانا اور ذلیل کیا جانا ہے، سعید کہتے ہیں : تو میں نے جانا کہ اس کے بعد ہم لوگوں کو دشواری پیش آئے گی (اس لیے کہ میرے دادا نے رسول اللہ ﷺ کا بتایا ہوا نام ناپسند کیا تھا) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے عاص (گنہگار) عزیز (اللہ کا نام ہے) ، عتلہ (سختی) شیطان، حکم (اللہ کی صفت ہے) ، غراب (کوے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی دوری اور غربت کے ہیں) ، حباب (شیطان کا نام) اور شہاب (شیطان کو بھگانے والا ایک شعلہ ہے) کے نام بدل دیئے اور شہاب کا نام ہشام رکھ دیا، اور حرب (جنگ) کے بدلے سلم (امن) رکھا، مضطجع (لیٹنے والا) کے بدلے منبعث (اٹھنے والا) رکھا، اور جس زمین کا نام عفرۃ (بنجر اور غیر آباد) تھا، اس کا خضرہ (سرسبز و شاداب) رکھا، شعب الضلالۃ (گمراہی کی گھاٹی) کا نام شعب الہدی (ہدایت کی گھاٹی) رکھا، اور بنو زنیہ کا نام بنو رشدہ اور بنو مغویہ کا نام بنو رشدہ رکھ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے اختصار کی غرض سے ان سب کی سندیں چھوڑ دی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأداب ١٠٧ (٦١٩٠) ، ١٠٨ (٦١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حزن کے معنی سخت اور دشوار گزار زمین کے ہیں اور سہل کے معنی : نرم اور عمدہ زمین کے ہیں حزن کی ضد۔
برے نام کو بدلنا
مسروق کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) سے ملا تو انہوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : مسروق بن اجدع، تو آپ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اجدع تو شیطان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٣١ (٣٧٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١) (ضعیف )
برے نام کو بدلنا
سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے بچے یا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح اور افلح ہرگز نہ رکھو، اس لیے کہ تم پوچھو گے : کیا وہاں ہے وہ ؟ تو جواب دینے والا کہے گا : نہیں (تو تم اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھو گے) (سمرہ نے کہا) یہ تو بس چار ہیں اور تم اس سے زیادہ مجھ سے نہ نقل کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأداب ٢ (٢١٣٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٥ (٢٨٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣١ (٣٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٧، ١٠، ١٢، ٢١) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦١ (٢٧٣٨) (صحیح )
برے نام کو بدلنا
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ ہم افلح، یسار، نافع اور رباح ان چار ناموں میں سے کوئی اپنے غلاموں یا بچوں کا رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٢) (صحیح )
برے نام کو بدلنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اللہ نے چاہا اور میں زندہ رہا تو میں اپنی امت کو نافع، افلح اور برکت نام رکھنے سے منع کر دوں گا، (اعمش کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم انہوں (سفیان) نے نافع کا ذکر کیا یا نہیں) اس لیے کہ آدمی جب آئے گا تو پوچھے گا : کیا برکت ہے ؟ تو لوگ کہیں گے : نہیں، (تو لوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھیں گے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوزبیر نے جابر سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں برکت کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٣٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٨٨) (صحیح )
برے نام کو بدلنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے ذلیل نام والا اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جسے لوگ شہنشاہ کہتے ہوں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعیب بن ابی حمزہ نے اسے ابوالزناد سے، اسی سند سے روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے أخنع اسم کے بجائے أخنى اسم کہا ہے، (جس کے معنیٰ سب سے فحش اور قبیح نام کے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١١٤ (٦٢٠٦) ، صحیح مسلم/الأداب ٤ (٢١٤٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٥ (٢٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٤) (صحیح )
القاب کا بیان
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے یعنی بنو سلمہ کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی ولا تنابزوا بالألقاب بئس الاسم الفسوق بعد الإيمان ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو، ایمان کے بعد برے نام سے پکارنا برا ہے (الحجرات : ١١) ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آئے اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے دو یا تین نام نہ ہوں، تو آپ نے پکارنا شروع کیا : اے فلاں، تو لوگ کہتے : اللہ کے رسول ! اس نام سے نہ پکاریئے، وہ اس نام سے چڑھتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی ولا تنابزوا بالألقاب۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ تفسیر القرآن ٤٩ (٣٢٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٥ (٣٧٤١) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦٩، ٢٦٠، ٥/٣٨٠) (صحیح )
ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کا بیان
اسلم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے اپنے ایک بیٹے کو مارا جس نے اپنی کنیت ابوعیسیٰ رکھی تھی اور مغیرہ بن شعبہ (رض) نے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھی تھی، تو عمر (رض) نے ان سے کہا : کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ تم ابوعبداللہ کنیت اختیار کرو ؟ ١ ؎ وہ بولے : میری یہ کنیت رسول اللہ ﷺ نے ہی رکھی ہے، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے گئے تھے، اور ہم تو اپنی ہی طرح کے چند لوگوں میں سے ایک ہیں ٢ ؎ چناچہ وہ ہمیشہ ابوعبداللہ کی کنیت سے پکارے جاتے رہے، یہاں تک کہ انتقال فرما گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عمر (رض) نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے سے اس وجہ سے منع کیا کہ اس بات کا خدشہ تھا کہ لوگ اس وہم میں نہ مبتلا ہوجائیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی کوئی باپ تھا ، یہی وجہ ہے کہ عمر (رض) نے کہا کہ یہ کنیت رکھنا آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ ٢ ؎ : مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ عام مسلمان ہیں، اور یہ نہیں معلوم کہ ہمارا انجام کیا ہوگا۔
غیر کے بیٹے کو اے میرے بیٹے کہہ کر پکارنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا : اے میرے بیٹے !۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأدب ٦ (٢١٥١) ، سنن الترمذی/الأدب ٦٢ (٢٨٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٣) (صحیح )
ابوقاسم کنیت رکھنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوصالح نے ابوہریرہ سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسی طرح ابوسفیان، سالم بن ابی الجعد، سلیمان یشکری اور ابن منکدر وغیرہ کی روایتیں بھی ہیں جو جابر (رض) سے مروی ہیں، اور انس بن مالک (رض) کی روایت بھی اسی طرح ہے (یعنی اس میں بھی یہی ہے کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١١٠) ، المناقب ٢٠ (٣٥٣٩) ، الأدب ١٠٦ (٦١٨٨) ، صحیح مسلم/الأداب ١ (٢١٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٣ (٣٧٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٨، ٢٦٠، ٢٧٠) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٨ (٢٧٣٥) (صحیح )
ابوقاسم کنیت رکھنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو میرا نام رکھے، وہ میری کنیت نہ رکھے، اور جو میری کنیت رکھے، وہ میرا نام نہ رکھے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی مفہوم کی حدیث ابن عجلان نے اپنے والد سے، اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، اور ابوزرعہ کی روایت ابوہریرہ (رض) سے ان دونوں روایتوں سے مختلف روایت کی گئی ہے، اور اسی طرح عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کی روایت جسے انہوں نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے اس میں بھی کچھ اختلاف ہے، اسے ثوری اور ابن جریج نے ابو الزبیر کی طرح روایت کیا ہے، اور اسے معقل بن عبیداللہ نے ابن سیرین کی طرح روایت کیا ہے، اور جسے موسیٰ بن یسار نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے اس میں بھی اختلاف کیا گیا ہے، حماد بن خالد اور ابن ابی فدیک کے دو مختلف قول ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٩٨٣، ١٣٦١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٣) (منکر) (ابوالزبیر مدلس راوی ہیں ، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، صحیح بخاری میں سالم بن ابی الجعد نے جابر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے فرمایا : سمو ا بأسمی ولا تکنوا بکنیتي الأدب ٦١٨٧ ) وضاحت : ١ ؎ : خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے دونوں لفظوں کے ساتھ آئی ہے : اس طرح بھی جیسے محمد بن سیرین نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، جو یہ ہے تسموا باسمي ولا تکتنوا بكنيتي میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو اور اس طرح بھی جیسے ابوالزبیر نے جابر (رض) سے روایت کی ہے، دونوں روایتوں میں فرق یہ ہے کہ بطریق ابوالزبیر عن جابر میں نبی اکرم ﷺ کا نام اور کنیت الگ الگ رکھنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے ، اور بطریق ابن سیرین ابوہریرہ کی روایت سے نام رکھنے کا جواز اور کنیت رکھنے کا عدم جواز ثابت ہو رہا ہے ، صحیح بخاری کی حدیث بطریق سالم بن ابی الجعد عن جابر (رض) : ابن سیرین کی ابوہریرہ سے حدیث کی طرح ہے۔
نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنیکی اجازت ہے
محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ کے بعد میرے بیٹا پیدا ہو تو میں اس کا نام اور اس کی کنیت آپ کے نام اور آپ کی کنیت پر رکھوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٦٨ (٢٨٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٥) (صحیح )
نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنیکی اجازت ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی : اللہ کے رسول ! میرے ایک لڑکا پیدا ہوا ہے، میں نے اس کا نام محمد اور اس کی کنیت ابوالقاسم رکھ دی ہے، تو مجھے بتایا گیا کہ آپ اسے ناپسند کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا سبب ہے کہ میرا نام رکھنا درست ہے اور کنیت رکھنا نا درست یا یوں فرمایا : کیا سبب ہے کہ میری کنیت رکھنا نا درست ہے اور نام رکھنا درست ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٥، ٢٠٩) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ ممانعت کا تعلق آپ ﷺ کی حیات مبارکہ تک ہے، اس کے بعد اگر کوئی آپ کا نام مع کنیت رکھتا ہے تو کچھ قباحت نہیں، بعض نے کہا کہ نام اور کنیت ایک ساتھ رکھنا منع ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے۔
بغیر لڑکے کے کنیت رکھنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں آتے تھے، اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی، اس کے پاس ایک چڑیا تھی، وہ اس سے کھیلتا تھا، وہ مرگئی، پھر ایک دن اچانک نبی اکرم ﷺ اس کے پاس آئے تو اسے رنجیدہ و غمگین دیکھ کر فرمایا : کیا بات ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اس کی چڑیا مرگئی، تو آپ نے فرمایا : اے ابوعمیر ! کیا ہوا نغیر (چڑیا) کو ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٧٨) ، وقد أخرجہ : خ /الأدب ٨١ (٦١٢٩) ، صحیح مسلم/الأداب ٥ (٢١٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣١ (٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٤ (٣٧٢٠) ، ٣٤، مسند احمد (٣ /١١٥، ١١٩، ١٧١، ١٩٠، ٢٠١، ٢٢٣، ٢٧٨) (صحیح )
عورت کے لئے کنیت اختیار کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں، آپ نے فرمایا : تو تم اپنے بیٹے یعنی اپنے بھانجے عبداللہ کے ساتھ کنیت رکھ لو مسدد کی روایت میں (عبداللہ کے بجائے) عبداللہ بن زبیر ہے، عروہ کہتے ہیں : چناچہ ان کی کنیت ام عبداللہ تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : قران بن تمام اور معمر دونوں نے ہشام سے اسی طرح روایت کی ہے، اور ابواسامہ نے ہشام سے اور ہشام نے عباد بن حمزہ سے اسے روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے حماد بن سلمہ اور مسلمہ بن قعنب نے ہشام سے روایت کیا ہے جیسا کہ ابواسامہ نے کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠٧، ١٥١، ١٨٦، ٢٦٠) (صحیح )
معنی خیز کلام کرنے کا بیان
سفیان بن اسید حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جسے وہ تو سچ جانے اور تم خود اس سے جھوٹ کہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٧٥) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : تعریض یا توریہ ایسے لفظ کے اطلاق کا نام ہے جس کا ایک ظاہری معنی ہوا، اور متکلم اس ظاہری معنیٰ کے خلاف ایک دوسرا معنی مراد لے رہا ہو جس کا وہ لفظ محتمل ہو، یہ ایک طرح سے مخاطب کو دھوکہ میں ڈالنا ہے اسی وجہ سے جب تک کوئی شرعی مصلحت یا کوئی ایسی حاجت نہ ہو کہ اس کے بغیر کوئی اور چارہ کار نہ ہو ایسا کرنا صحیح نہیں۔
کلام میں زعمو کہنے کا بیان
ابومسعود (رض) نے ابوعبداللہ (حذیفہ) (رض) سے یا ابوعبداللہ نے ابومسعود سے کہا تم نے زعموا کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو کیا فرماتے سنا ؟ وہ بولے : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : زعموا (لوگوں نے گمان کیا) آدمی کی بہت بری سواری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٣٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٩، ٥/٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ زعموا کا تعلق ایسے قول اور ایسی بات سے ہے جو غیر یقینی ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لئے آپ ﷺ نے اس لفظ و اپنے مقصد کے لئے سواری بنانے اور اس کی آڑ لے کر کوئی ایسی بات کہنے سے منع کیا ہے جو غیر محقق ہو اور جو پایہ ثبوت کو نہ پہنچتی ہو۔
خطبہ میں اما بعد کہنے کا بیان
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں خطبہ دیا تو أما بعد کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٦٨٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/فضائل علي ٤ (٢٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : أما بعد کا کلمہ حمد و صلاۃ کے بعد کہا جاتا ہے، آپ ﷺ اس کلمہ کا استعمال کرتے تھے ، اس سے متعلق روایت تقریباً بارہ صحابہ سے مروی ہے۔
کرم اور زبان کو پیچ وار گفتگو سے بچانے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی (انگور اور اس کے باغ کو) كرم نہ کہے ١ ؎، اس لیے کہ كرم مسلمان مرد کو کہتے ہیں ٢ ؎، بلکہ اسے انگور کے باغ کہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٦٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ١٠١ (٦١٨٢) ، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٢ (٢٢٤٩) ، مسند احمد (٢/٢٧٢، ٤٦٤، ٤٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ كرم یعنی انگور سے جو شراب بنائی جاتی ہے اسے لوگ عمدہ اور بہتر سمجھتے ہیں اس لیے انگور کا نام كرم رکھنے سے آپ ﷺ نے منع فرما دیا تاکہ کبھی بھی شراب کی بہتری خیال میں نہ آئے۔ ٢ ؎ : عرب رَجُلٌ کَرْمٌ اور قَوْمٌ کَرْمٌ کہتے ہیں رَجُلٌ کَرِیْمٌ اور قَوْمٌ کِرَامٌ کے معنی میں۔
آقا کو غلام اے میرے رب کہہ کر نہ پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی (اپنے غلام یا لونڈی کو) عبدي (میرا بندہ) اور أمتي (میری بندی) نہ کہے اور نہ کوئی غلام یا لونڈی (اپنے آقا کو) ربي (میرے مالک) اور ربتي (میری مالکن) کہے بلکہ مالک یوں کہے : میرے جوان ! یا میری جوان ! اور غلام اور لونڈی یوں کہیں : سيدي (میرے آقا) اور سيدتي (میری مالکن) اس لیے کہ تم سب مملوک ہو اور رب صرف اللہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٤٢٩، ١٤٤٥٩، ١٤٥٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العتق ١٧ (٢٥٥٢) ، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٣ (٢٢٤٩) ، مسند احمد (٢/٤٢٣، ٤٦٣، ٤٨٤، ٤٩١، ٥٠٨) (صحیح )
آقا کو غلام اے میرے رب کہہ کر نہ پکارے
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں یہ ہے فرمایا : اور چاہیئے کہ وہ سيدي (میرے آقا) اور مولاى (میرے مولی) کہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٢) (صحیح )
آقا کو غلام اے میرے رب کہہ کر نہ پکارے
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ منافق کو سید نہ کہو اس لیے کہ اگر وہ سید ہے (یعنی قوم کا سردار ہے یا غلام و لونڈی اور مال والا ہے) تو تم نے اپنے رب کو ناراض کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الیوم واللیة (٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٤٦، ٣٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ تم نے اسے سید کہہ کر اس کی تعظیم کی حالانکہ وہ تعظیم کا مستحق نہیں اور اگر وہ ان معانی میں سے کسی بھی اعتبار سے سید نہیں ہے تو تمہارا اسے سید کہنا کذب و نفاق ہوگا۔
اپنے نفس کی طرف خباثت منسوب کرنا صحیح نہیں
سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی میرا نفس خبیث ہوگیا نہ کہے، بلکہ یوں کہے میرا جی پریشان ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٠٠ (٦١٨٠) ، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٤ (٢٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٦) (صحیح )
اپنے نفس کی طرف خباثت منسوب کرنا صحیح نہیں
ام المؤمنین عائشہ (رض) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی یہ نہ کہے : میرے دل نے جوش مارا بلکہ یوں کہے : میرا جی پریشان ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ١٠٠ (٦١٨٠) ، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ٤ (٢٢٥٠) ، مسند احمد (٦/٥١، ٢٠٩، ٢٨١) (صحیح )
سابقہ کا اضافہ
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم یوں نہ کہو : جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ١ ؎ بلکہ یوں کہو : جو اللہ چاہے پھر فلاں چاہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٣٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٤، ٣٩٤، ٣٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس جملہ میں اللہ کی مشیت کے ساتھ دوسرے کی مشیت شامل ہے جب کہ اللہ چاہے پھر فلاں چاہے میں ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ اللہ کے چاہنے کے بعد پھر دوسرے کے چاہنے میں کوئی قباحت نہیں۔
سابقہ کا اضافہ
عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ ایک خطیب نے نبی اکرم ﷺ کے پاس خطبہ دیا، تو اس نے (خطبہ میں) کہا :من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے، وہ راہ راست پر ہے اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے ... (ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ) آپ نے فرمایا : کھڑے ہوجاؤ یا یوں فرمایا : چلے جاؤ تم بہت برے خطیب ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس خطیب کو اس لئے برا کہا کہ اس نے من يعصهما کہہ کر اللہ اور رسول دونوں کو ایک ہی ضمیر میں جمع کردیا تھا، خطبہ میں باتوں کو تفصیل سے کہنے کا موقع ہوتا ہے، اور سامعین میں ہر سطح کے لوگ ہوتے ہیں، مقام کا تقاضا تفصیل کا تھا یعنی : من یعص اللہ ویعص رسولہ کہنے کا ، تاکہ کسی طرح کا التباس نہ رہ جاتا۔
سابقہ کا اضافہ
ابوالملیح ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سوار تھا، کہ آپ کی سواری پھسل گئی، میں نے کہا : شیطان مرے، تو آپ نے فرمایا : یوں نہ کہو کہ شیطان مرے اس لیے کہ جب تم ایسا کہو گے تو وہ پھول کر گھر کے برابر ہوجائے گا، اور کہے گا : میرے زور و قوت کا اس نے اعتراف کرلیا، بلکہ یوں کہو : اللہ کے نام سے اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو وہ پچک کر اتنا چھوٹا ہوجائے گا جیسے مکھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٥٩، ٧١) (صحیح )
سابقہ کا اضافہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم سنو ! (اور موسیٰ کی روایت میں یوں ہے، کہ جب آدمی کہے) کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو وہی ان میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مالک نے کہا : جب وہ یہ بات دینی معاملات میں لوگوں کی روش دیکھ کر رنج سے کہے تو میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا، اور جب یہ بات وہ خود پر ناز کر کے اور لوگوں کو حقیر سمجھ کر کہے تو یہی وہ مکروہ و ناپسندیدہ چیز ہے، جس سے روکا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤١ (٢٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٢٣، ١٢٧٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٧، ٣٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کی عیب جوئی اور برائیاں برابر بیان کرتا رہے، اور اپنی زبان سے لوگوں کے فساد میں مبتلا ہونے اور ان کی ہلاکت و تباہی کا ذکر کرتا رہے گا تو ایسا شخص بسبب اس گناہ کے جو اسے اپنے اس کرتوت کی وجہ سے لاحق ہو رہا ہے سب سے زیادہ ہلاکت و بربادی کا مستحق ہے، اور بسا اوقات وہ خود پسندی کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔
عشاء کی نماز کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم پر أعراب (دیہاتی لوگ) تمہاری نماز کے نام کے سلسلے میں ہرگز غالب نہ آجائیں، سنو ! اس کا نام عشاء ہے ١ ؎ اور وہ لوگ تو اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کے لیے تاخیر اور اندھیرا کرتے ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٤) ، سنن النسائی/المواقیت ٢٢ (٥٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٣ (٧٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٠، ١٨، ٤٩، ١٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اسے اپنے قول ومن بعد صلاة العشاء میں عشاء سے تعبیر کیا ہے اس لئے اس کا ترک مناسب نہیں۔ ٢ ؎ : اور اس نماز کو مؤخر کرتے ہیں اسی وجہ سے اسے صلاة العتمة کہتے ہیں۔
عشاء کی نماز کا بیان
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : کاش میں نماز پڑھ لیتا تو مجھے سکون مل جاتا، مسعر کہتے ہیں : میرا خیال ہے یہ بنو خزاعہ کا کوئی آدمی تھا، تو لوگوں نے اس پر نکیر کی کہ یہ نماز کو تکلیف کی چیز سمجھتا ہے تو اس نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے، آپ فرما رہے تھے : اے بلال نماز کے لیے اقامت کہو اور ہمیں اس سے آرام و سکون پہنچاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦٤) (صحیح )
عشاء کی نماز کا بیان
عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کہتے ہیں میں اور میرے والد انصار میں سے اپنے ایک سسرالی رشتہ دار کے پاس اس کی (عیادت) بیمار پرسی کرنے کے لیے گئے، تو نماز کا وقت ہوگیا، تو اس نے اپنے گھر کی کسی لڑکی سے کہا : اے لڑکی ! میرے لیے وضو کا پانی لے آتا کہ میں نماز پڑھ کر راحت پا لوں تو اس پر ہم نے ان کی نکیر کی، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے اے بلال اٹھو اور ہمیں نماز سے آرام پہنچاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٧١) (صحیح )
عشاء کی نماز کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دین کے علاوہ کسی اور معاملے کی طرف کسی کی نسبت کرتے نہیں دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٨) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : امام منذری کہتے ہیں کہ شاید ابوداود نے اس باب میں اس حدیث کو اس لیے داخل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کو صرف دین کی طرف منسوب کرتے تھے، تاکہ اس حدیث کے ذریعہ سے لوگوں کو اس بات کی طرف رہنمائی کریں کہ کتاب وسنت میں وارد الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے ، اور لوگوں کو جاہلی الفاظ و عبارات کے استعمال سے روکیں جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے لفظ عتمہ کی جگہ عشاء کا استعمال کیا اور یہ حدیث منقطع ہے ، زید بن اسلم نے عائشہ (رض) سے نہیں سنا ہے۔ (عون المعبود ١٣/٢٢٧ )
اس سلسلہ میں بعض مواقع پر اجازت کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بار (دشمن کا) خوف ہوا، رسول اللہ ﷺ ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے، (واپس آئے تو) فرمایا : ہم نے تو کوئی چیز نہیں دیکھی، یا ہم نے کوئی خوف نہیں دیکھا اور ہم نے اسے (گھوڑے کو) سمندر (سبک رفتار) پایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٣٣ (٢٦٢٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ١١ (٢٣٠٧) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٤ (١٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ٩ (٢٧٧٢) ، مسند احمد (٣، ١٧٠، ١٨٠، ٢٧٤، ٢٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گویا کسی چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، اگرچہ ان دونوں میں کلی طور پر اشتراک نہ ہو صرف جزوی اشتراک ہو، جیسا کہ آپ ﷺ نے گھوڑے کو محض سبک رفتاری میں اشتراک کی وجہ سے بحر (سمندر) سے تشبیہ دی ، اسی طرح نماز عشاء کو عتمہ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے ، کیونکہ یہ عتمہ یعنی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے، اس استدلال سے محض تکلف ظاہر ہوتا ہے، اس باب میں زیادہ موزوں اور واضح استدلال ابوہریرہ (رض) کی وہ روایت ہے جس کی تخریج بخاری، مسلم اور ترمذی نے کی ہے، اور جس میں یہ الفاظ وارد ہیں : ولو يعلمون ما في العتمة والصبح لأتوهما ولو حبوا۔
جھوٹ کی شدت کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور سچ بولنے کو لازم کرلو اس لیے کہ سچ بھلائی اور نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے، آدمی سچ بولتا ہے اور سچ بولنے ہی میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البروالصلة ٢٩ (٢٦٠٧) ، القدر ١ (٢٦٤٣) ، سنن الترمذی/البر ٤٦ (١٩٧١) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٩ (٦٠٩٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٧ (٤٦) ، موطا امام مالک/الکلام ٧ (١٦) ، مسند احمد ١(٣٨٤، ٤٠٥) ، سنن الدارمی/الرقاق ٧ (٢٧٥٧) (صحیح )
جھوٹ کی شدت کا بیان
معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ١٠ (٢٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢، ٥، ٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٦ (٢٧٤٤) (حسن )
جھوٹ کی شدت کا بیان
عبداللہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میری ماں نے مجھے بلایا اور رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر بیٹھے ہوئے تھے، وہ بولیں : سنو یہاں آؤ، میں تمہیں کچھ دوں گی، رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا : تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ وہ بولیں، میں اسے کھجور دوں گی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : سنو، اگر تم اسے کوئی چیز نہیں دیتی، تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ جب ماں کے لئے بچہ کو اپنی کسی ضرورت کے لئے جھوٹ بول کر پکارنا صحیح نہیں تو بھلا کسی بڑے کے ساتھ جھوٹی بات کیونکر کی جاسکتی ہے، گویا ازراہ ہنسی ہی کیوں نہ ہو وہ حرام ہے۔
جھوٹ کی شدت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق) بیان کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حفص نے ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا، ابوداؤد کہتے ہیں : اسے صرف اسی شیخ یعنی علی بن حفص المدائنی نے ہی مسند کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المقدمة ٣ (٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٨، ١٨٥٨٠) (صحیح )
مسلمانوں کے ساتھ خوش گمانی رکھنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٤، ٤٠٧، ٤٩١) (ضعیف )
مسلمانوں کے ساتھ خوش گمانی رکھنے کا بیان
ام المؤمنین صفیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسامہ بن زید (رض) کے گھر میں رہتی تھیں، اتنے میں انصار کے دو آدمی گزرے انہوں نے جب نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے، آپ نے فرمایا : تم دونوں ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے کہا : سبحان اللہ، اللہ کے رسول ! (یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بدگمانی کرسکتے ہیں) آپ نے فرمایا : شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہے، جیسے خون (رگوں میں) پھرتا ہے، تو مجھے اندیشہ ہوا کہ تمہارے دل میں کچھ ڈال نہ دے، یا یوں کہا : کوئی بری بات نہ ڈال دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں میری نسبت سے ان دونوں کے دل میں کوئی بات ایسی پیدا ہوگئی جو ان کے کفر و ارتداد کا سبب بن گئی تو یہ دونوں تباہ و برباد ہوجائیں گے، اس لئے ان پر شفقت کرتے ہوئے آپ نے ظن و شک والے امر کی وضاحت کردی تاکہ یہ دونوں صحیح و سلامت رہیں کیونکہ آپ کو اپنی ذات کے بارے میں کوئی خوف نہیں تھا۔
وعدہ وفا کرنا شیوہ مسلم ہے
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اسے پورا کرے گا، پھر وہ اسے پورا نہ کرسکے اور وعدے پر نہ آسکے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ١٤ (٢٦٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٣) (ضعیف) (سند میں ابو وقاص مجہول راوی ہیں )
وعدہ وفا کرنا شیوہ مسلم ہے
عبداللہ بن ابو حمساء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے نبی اکرم ﷺ سے ایک چیز خریدی اور اس کی کچھ قیمت میرے ذمے رہ گئی تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ اسے لا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا، پھر مجھے تین (دن) کے بعد یاد آیا تو میں آیا، دیکھا کہ آپ اسی جگہ موجود ہیں، آپ نے فرمایا : اے جوان ! تو نے مجھے زحمت میں ڈال دیا، اسی جگہ تین دن سے میں تیرا انتظار کر رہا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٥) (ضعیف الإسناد )
غیر موجود چیزوں پر جو اپنے پاس نہ ہوں فخر کرنا
اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا : اللہ کے رسول ! میری ایک پڑوسن یعنی سوکن ہے، تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا اگر میں اسے جلانے کے لیے کہوں کہ میرے شوہر نے مجھے یہ یہ چیزیں دی ہیں جو اس نے نہیں دی ہیں، آپ نے فرمایا : جلانے کے لیے ایسی چیزوں کا ذکر کرنے والا جو اسے نہیں دی گئیں اسی طرح ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو لبادے پہن لیے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ١٠٧ (٥٢١٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٥ (٢١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) (صحیح )
مذاق ومزاح کرنے کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے سواری عطا فرما دیجئیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم تو تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کرائیں گے وہ بولا : میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آخر ہر اونٹ اونٹنی ہی کا بچہ تو ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٥٧ (١٩٩١) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٦٧) (صحیح )
مذاق ومزاح کرنے کا بیان
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو سنا کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) اونچی آواز میں بول رہی ہیں، تو وہ جب اندر آئے تو انہوں نے انہیں طمانچہ مارنے کے لیے پکڑا اور بولے : سنو ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی آواز رسول اللہ ﷺ پر بلند کرتی ہو، تو نبی اکرم ﷺ انہیں روکنے لگے اور ابوبکر غصے میں باہر نکل گئے، تو جب ابوبکر باہر چلے گئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دیکھا تو نے میں نے تجھے اس شخص سے کیسے بچایا پھر ابوبکر کچھ دنوں تک رکے رہے (یعنی ان کے گھر نہیں گئے) اس کے بعد ایک بار پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کی تو ان دونوں کو پایا کہ دونوں میں صلح ہوگئی ہے، تو وہ دونوں سے بولے : آپ لوگ مجھے اپنی صلح میں بھی شامل کرلیجئے جس طرح مجھے اپنی لڑائی میں شامل کیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم نے شریک کیا، ہم نے شریک کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٧٢، ٢٧٥) (ضعیف الإسناد )
مذاق ومزاح کرنے کا بیان
عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ چمڑے کے ایک خیمے میں قیام پذیر تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا، اور فرمایا : اندر آجاؤ تو میں نے کہا کہ پورے طور سے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : پورے طور سے چناچہ میں اندر چلا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجزیة ١٥ (٣١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٤٢ (٤٠٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٩٠٠٣، ١٠٩١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٢) (صحیح )
مذاق ومزاح کرنے کا بیان
عثمان بن ابی العات کہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو یہ پوچھا کہ کیا پورے طور پر اندر آجاؤں تو اس وجہ سے کہ خیمہ چھوٹا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٨، ١٩٠٠٣) (ضعیف الإسناد )
مذاق ومزاح کرنے کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے دو کانوں والے !۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٤٦ (١٩٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٧، ١٢٧، ٢٤٢، ٢٦٠) (صحیح )
مذاق سے کسی کی چیز لینا
یزید بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا سامان (بلا اجازت) نہ لے نہ ہنسی میں اور نہ ہی حقیقت میں ١ ؎۔ سلیمان کی روایت میں ( لاعبا ولا جادا کے بجائے) لعبا ولا جدا ہے، اور جو کوئی اپنے بھائی کی لاٹھی لے تو چاہیئے کہ (ضرورت پوری کر کے) اسے لوٹا دے۔ ابن بشار نے صرف عبداللہ بن سائب کہا ہے ابن یزید کا اضافہ نہیں کیا ہے اور (رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا، کہنے کے بجائے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٣ (٢١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : حقیقت میں لینے کی ممانعت کی وجہ تو ظاہر ہے کہ یہ چوری ہے اور ہنسی میں لینے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ کبھی کبھی یہ چیز سامان والے کی ناراضگی اور اس کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتی ہے۔
مذاق سے کسی کی چیز لینا
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ ہم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے، ان میں سے ایک صاحب سو گئے، کچھ لوگ اس رسی کے پاس گئے، جو اس کے پاس تھی اور اسے لے لیا تو وہ ڈر گیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بطور مذاق بھی ایسا کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس میں ایذا رسانی ہے۔
گفتگو میں منہ بگاڑنا برا ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے تڑتڑ بولنے والے ایسے لوگوں سے جو اپنی زبان کو ایسے پھراتے ہیں جیسے گائے (گھاس کھانے میں) چپڑ چپڑ کرتی ہے، یعنی بےسوچے سمجھے جو جی میں آتا ہے بکے جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٧٢ (٢٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٥، ١٨٧) (صحیح )
گفتگو میں منہ بگاڑنا برا ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی باتوں کو گھمانا اس لیے سیکھے کہ اس سے آدمیوں یا لوگوں کے دلوں کو حق بات سے پھیر کر اپنی طرف مائل کرلے، تو اللہ قیامت کے دن اس کی نہ نفل (عبادت) قبول کرے گا اور نہ فرض ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٠) (ضعیف) ( سند میں عبداللہ بن مسیب لین الحدیث ہیں )
گفتگو میں منہ بگاڑنا برا ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ دو آدمی ١ ؎ پورب سے آئے تو ان دونوں نے خطبہ دیا، لوگ حیرت میں پڑگئے، یعنی ان کے عمدہ بیان سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ٢ ؎ یعنی سحر کی سی تاثیر رکھتی ہیں راوی کو شک ہے کہ إن من البيان لسحرا کہا یا إن بعض البيان لسحر کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٤٧ (٥١٤٦) ، الطب ٥١ (٥٧٦٧) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٨١ (٢٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦، ٥٩، ٦٢، ٩٤، ٤/٢٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں آدمیوں کے نام زبرقان بن بدر اور عمرو بن اہتم تھے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس ان کی آمد کا و واقعہ ٩ ھ کا ہے۔ ٢ ؎ : یہ خوبی اگر حق کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو ممدوح ہوتی ہے اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لئے ہو تو مذموم۔
گفتگو میں منہ بگاڑنا برا ہے
ابوظبیہ کا بیان ہے کہ عمرو بن العاص نے ایک دن کہا اور (اس سے پہلے) ایک شخص کھڑے ہو کر بےتحاشہ بولے جا رہا تھا، اس پر عمرو نے کہا : اگر وہ بات میں درمیانی روش اپناتا تو اس کے لیے بہتر ہوتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے یا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں گفتگو میں اختصار سے کام یعنی جتنی بات کافی ہو اسی پر اکتفا کروں اس لیے کہ اختصار ہی بہتر روش ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٧) (حسن الإسناد )
شعرگوئی کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کے لیے اپنا پیٹ پیپ سے بھر لینا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ شعر سے بھرے، ابوعلی کہتے ہیں : مجھے ابو عبید سے یہ بات پہنچی کہ انہوں نے کہا : اس کی شکل (شعر سے پیٹ بھرنے کی) یہ ہے کہ اس کا دل بھر جائے یہاں تک کہ وہ اسے قرآن، اور اللہ کے ذکر سے غافل کر دے اور جب قرآن اور علم اس پر چھایا ہوا ہو تو اس کا پیٹ ہمارے نزدیک شعر سے بھرا ہوا نہیں ہے (اور آپ نے فرمایا) بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی ان میں سحر کی سی تاثیر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں : اس کے معنی گویا یہ ہیں کہ وہ اپنی تقریر میں اس مقام کو پہنچ جائے کہ وہ انسان کی تعریف کرے اور سچی بات (تعریف میں) کہے یہاں تک کہ دلوں کو اپنی بات کی طرف موڑ لے پھر اس کی مذمت کرے اور اس میں بھی سچی بات کہے، یہاں تک کہ دلوں کو اپنی دوسری بات جو پہلی بات کے مخالف ہو کی طرف موڑ دے، تو گویا اس نے سامعین کو اس کے ذریعہ سے مسحور کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩٢ (٦١٥٥) ، صحیح مسلم/الشعر ح ٧ (٢٢٥٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٧١ (٢٨٥١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١ (٣٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٨، ٣٣١، ٣٥٥، ٣٩١، ٤٨٠) (صحیح )
شعرگوئی کا بیان
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بعض اشعار دانائی پر مبنی ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٩ (٦١٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤١ (٣٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٥، ١٢٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٦٨ (٢٧٤٦) (صحیح )
شعرگوئی کا بیان
ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور باتیں کرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بعض بیان جادو ہوتے ہیں اور بعض اشعار حكم ١ ؎ (یعنی حکمت) پر مبنی ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٦٩ (٢٨٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤١ (٣٧٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٩، ٣٠٩، ٣١٣، ٣٢٧، ٣٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں حُکْم ، حِکْمَتْ کے معنی میں ہے جیسا کہ آیت کریمہ وآتیناہ الحُکْمَ صبیّاً میں ہے۔
شعرگوئی کا بیان
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : بعض بیان یعنی گفتگو، خطبہ اور تقریر جادو ہوتی ہیں (یعنی ان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے) ، بعض علم جہالت ہوتے ہیں، بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں، اور بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں ۔ تو صعصہ بن صوحان بولے : اللہ کے نبی نے سچ کہا، رہا آپ کا فرمانا بعض بیان جادو ہوتے ہیں، تو وہ یہ کہ آدمی پر دوسرے کا حق ہوتا ہے، لیکن وہ دلائل (پیش کرنے) میں صاحب حق سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے، چناچہ وہ اپنی دلیل بہتر طور سے پیش کر کے اس کے حق کو مار لے جاتا ہے۔ اور رہا آپ کا قول بعض علم جہل ہوتا ہے تو وہ اس طرح کہ عالم بعض ایسی باتیں بھی اپنے علم میں ملانے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کے علم میں نہیں چناچہ یہ چیز اسے جاہل بنا دیتی ہے۔ اور رہا آپ کا قول بعض اشعار حکمت ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسی نصیحتیں اور مثالیں ہوتی ہیں، جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں، رہا آپ کا قول کہ بعض باتیں بوجھ ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بات یا اپنی گفتگو ایسے شخص پر پیش کرو جو اس کا اہل نہ ہو یا وہ اس کا خواہاں نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٧٩، ١٨٨١٧) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن ثابت ابوجعفر مجہول اور صخر بن عبداللہ لین الحدیث ہیں )
شعرگوئی کا بیان
سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ عمر (رض) حسان (رض) کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو عمر (رض) نے انہیں گھور کر دیکھا، تو انہوں نے کہا : میں شعر پڑھتا تھا حالانکہ اس (مسجد) میں آپ سے بہتر شخص (نبی اکرم ﷺ ) موجود ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢١٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابہ ٣٤ (٢٤٨٥) ، سنن النسائی/المساجد ٢٤ (٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٢٢) (صحیح )
شعرگوئی کا بیان
اس سند سے ابوہریرہ (رض) سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے تو وہ (عمر رضی اللہ عنہ) ڈرے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اجازت کو بطور دلیل پیش نہ کردیں چناچہ انہوں نے انہیں (مسجد میں شعر پڑھنے کی) اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٢) (صحیح )
شعرگوئی کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حسان (رض) کے لیے مسجد میں منبر رکھتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کی ہجو کرتے جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں بےادبی کرتے تھے، تو (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً روح القدس (جبرائیل) حسان کے ساتھ ہوتے ہیں جب تک وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دفاع کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٦٩ (٢٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٢٠، ١٦٣٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/فضائل الصحابہ ٣٤ (٢٤٨٥) ، مسند احمد (٦/٧٢) (حسن )
شعرگوئی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت کریمہ والشعراء يتبعهم الغاو ون شاعروں کی پیروی وہ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے ہوں (الشعراء : ٢٢٤) میں سے وہ لوگ مخصوص و مستثنیٰ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وذکروا الله كثيرا سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا (الشعراء : ٢٢٧) میں بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٦٨) (حسن الإسناد )
خوابوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز فجر سے (سلام پھیر کر) پلٹتے تو پوچھتے : کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اور فرماتے : میرے بعد نیک خواب کے سوا نبوت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٠، ١٣٥٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الرؤیا ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٣٢٥) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی میری موت کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوجائے گا اور مستقبل کی جو باتیں وحی سے معلوم ہوتی تھیں اب صرف سچے خواب ہی کے ذریعہ جانی جاسکتی ہیں۔
خوابوں کا بیان
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ التعبیر ٢ (٦٩٨٧) ، صحیح مسلم/ الرؤیا ٢ (٢٢٦٤) ، سنن الترمذی/ الرؤیا ١ (٢٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٨٥، ٥/٣١٦، ٣١٩) ، دی/ الرؤیا ١ (٢١٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مومن کا خواب صحیح اور سچ ہوتا ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ کی نبوت کی کامل مدت کل تیئس سال ہے اس میں سے شروع کے چھ مہینے جو مکہ کا ابتدائی دور ہے اس میں آپ کے پاس وحی (بحالت خواب نازل ہوتی تھی اور یہ مدت کل نبوی مدت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے گویا سچا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔
خوابوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب زمانہ قریب ہوجائے گا، تو مومن کا خواب جھوٹا نہ ہوگا، اور ان میں سب سے زیادہ سچا خواب اسی کا ہوگا، جو ان میں گفتگو میں سب سے سچا ہوگا، خواب تین طرح کے ہوتے ہیں : بہتر اور اچھے خواب اللہ کی جانب سے خوشخبری ہوتے ہیں اور کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں، اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں لہٰذا جب تم میں سے کوئی (خواب میں) ناپسندیدہ بات دیکھے تو چاہیئے کہ اٹھ کر نماز پڑھ لے اور اسے لوگوں سے بیان نہ کرے، فرمایا : میں قید (پیر میں بیڑی پہننے) کو (خواب میں) پسند کرتا ہوں اور غل (گردن میں طوق) کو ناپسند کرتا ہوں ١ ؎ اور قید (پیر میں بیڑی ہونے) کا مطلب دین میں ثابت قدم ہونا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جب زمانہ قریب ہوجائے گا کا مطلب یہ ہے کہ جب رات اور دن قریب قریب یعنی برابر ہوجائیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرؤیا (٢٢٦٣) ، سنن الترمذی/الرؤیا ١ (٢٢٧٠) ، سنن الدارمی/الرؤیا ٦ (٢١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التعبیر ٢٦ (٧٠٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ اس میں قرض دار رہنے یا کسی کے مظالم کا شکار بننے اور محکوم علیہ ہونے کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔
خوابوں کا بیان
ابورزین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خواب پرندے کے پیر پر ہوتا ہے ١ ؎ جب تک اس کی تعبیر نہ بیان کردی جائے، اور جب اس کی تعبیر بیان کردی جاتی ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے ۔ میرا خیال ہے آپ نے فرمایا اور اسے اپنے دوست یا کسی صاحب عقل کے سوا کسی اور سے بیان نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الرؤیا ٦ (٢٢٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٦ (٣٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠، ١١، ١٢، ١٣) سنن الدارمی/الرؤیا ١١ (٢١٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی تعبیر بیان کئے جانے تک اس خواب کے لئے جائے قرار اور ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔
خوابوں کا بیان
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خیالات شیطان کی طرف سے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی (خواب میں) ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے، تو اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے، پھر اس کے شر سے پناہ طلب کرے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الطب ٣٩ (٥٧٤٧) ، التعبیر ٣ (٦٩٨٤) ، ١٠ (٦٩٩٥) ، ١٤ (٧٠٠٥) ، ٤٦ (٧٠٤٤) ، صحیح مسلم/الرؤیا ح ١ (٢٦٦١) ، سنن الترمذی/الرؤیا ٥ (٢٢٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٣ (٣٩٠٩) ، موطا امام مالک/الرؤیا ١ (٤) ، مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٤، ٣٠٥، ٣٠٩) ، سنن الدارمی/الرؤیا ٥ (٢١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣٥) (صحیح )
خوابوں کا بیان
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو اپنی بائیں جانب تین بار تھوکے تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے، اور اپنے اس پہلو کو بدل دے جس پر وہ تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرؤیا ح ٢ (٢٢٦٢) ، سنن ابن ماجہ/تعبیرالرؤیا ٤ (٢٩٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٠) (صحیح )
خوابوں کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو وہ مجھے جاگتے ہوئے بھی عنقریب دیکھے گا، یا یوں کہا کہ گویا اس نے مجھے جاگتے ہوئے دیکھا، اور شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٨ (١١٠) ، الأدب ١٠٩ (٦١٩٧) ، التعبیر ١٠ (٦٩٩٣) ، صحیح مسلم/الرؤیا ١ (٢٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/تعبیر الرؤیا ٢ (٣٩٠١) ، مسند احمد (١ /٢٣١، ٣٤٢، ٤١٠، ٤١١، ٤٢٥، ٤٦٣) (صحیح )
خوابوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی تصویر بنائے گا، اس کی وجہ سے اسے (اللہ) قیامت کے دن عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ اس میں جان ڈال دے، اور وہ اس میں جان نہیں ڈال سکتا، اور جو جھوٹا خواب بنا کر بیان کرے گا اسے قیامت کے دن مکلف کیا جائے گا کہ وہ جَو میں گرہ لگائے ١ ؎ اور جو ایسے لوگوں کی بات سنے گا جو اسے سنانا نہیں چاہتے ہیں، تو اس کے کان میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤٥ (٧٠٤٢) ، سنن الترمذی/اللباس ١٩ (١٧٥١) ، الرؤیا ٨ (٢٢٨٣) ، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ٥٩ (٥٣٦١) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ٨ (٣٩١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٦، ٢٤١، ١٤٦، ٣٥٠ ، ٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور وہ یہ نہیں کرسکے گا کیونکہ جَو میں گرہ لگانا ممکن نہیں۔
خوابوں کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے آج رات دیکھا جیسے ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہوں، اور ہمارے پاس ابن طاب ١ ؎ کی رطب تازہ (کھجوریں) لائی گئیں، تو میں نے یہ تعبیر کی کہ دنیا میں بلندی ہمارے واسطے ہے اور آخرت کی عاقبت ٢ ؎ بھی اور ہمارا دین سب سے عمدہ اور اچھا ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرؤیا ٤ (٢٢٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابن طاب ایک قسم کی کھجو رہے ، اس سے دین کی عمدگی اور پاکی نکلی رافع کے لفظ سے دنیا میں رفعت اور بلندی۔ ٢ ؎ : اور عقبہ عاقبت کی بھلائی۔
جمائی لینے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنے منہ کو بند کرلے، اس لیے کہ شیطان (منہ میں) داخل ہوجاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١، ٣٧، ٩٣، ٩٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٦ (١٤٢٢) (صحیح )
جمائی لینے کا بیان
سہیل سے بھی اسی طرح مروی ہے اس میں یہ ہے (جب جمائی) نماز میں ہو تو جہاں تک ہو سکے منہ بند رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤١١٩) (صحیح )
جمائی لینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے، تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے رہے، اور ہاہ ہاہ نہ کہے، اس لیے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے، وہ اس پر ہنستا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٨٩) ، الأدب ١٢٥ (٦٢٢٣) ، ١٢٦ (٦٢٦٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦ ١٥ (٣٧٠) ، الأدب ٧ (٢٧٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزہد والرقاق ٩ (٢٩٩٥) ، مسند احمد (٢ /٢٦٥، ٤٢٨، ٥١٧) (صحیح )
چھینک کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور آہستہ آواز سے چھینکتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٦ (٢٧٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٨١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣٩) (حسن صحیح )
چھینک کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں ہر مسلمان پر اپنے بھائی کے لیے واجب ہیں، سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کا جواب دینا، دعوت قبول کرنا، مریض کی عیادت کرنا اور جنازے کے ساتھ جانا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢ (١٢٤٠ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/السلام ٣ (٢١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢١، ٣٧٢، ٤١٢، ٥٤٠) (صحیح )
چھینک کا جواب کیسے دے
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سالم بن عبید کے ساتھ تھے کہ ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا السلام عليكم (تم پر سلامتی ہو) تو سالم نے کہا : عليك وعلى أمك (تم پر بھی اور تمہاری ماں پر بھی) پھر تھوڑی دیر کے بعد بولے : شاید جو بات میں نے تم سے کہی تمہیں ناگوار لگی، اس نے کہا : میری خواہش تھی کہ آپ میری ماں کا ذکر نہ کرتے، نہ خیر کے ساتھ نہ شر کے ساتھ، وہ بولے، میں نے تم سے اسی طرح کہا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کہا، اسی دوران کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اچانک لوگوں میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا : السلام عليكم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عليك وعلى أمك ، پھر آپ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد الله کہے اللہ کی تعریف کرے پھر آپ نے حمد کے بعض کلمات کا تذکرہ کیا (جو چھینک آنے والا کہے) اور چاہیئے کہ وہ جو اس کے پاس ہو يرحمک الله (اللہ تم پر رحم کرے) کہے، اور چاہیئے کہ وہ (چھینکنے والا) ان کو پھر جواب دے، يغفر الله لنا ولکم (اللہ ہماری اور آپ کی مغفرت فرمائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٣ (٢٧٤٠) ، النسائی في الکبری ١٠٠٥٣، وعمل الیوم واللیلة ٨٦ (٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧) (ضعیف) (سند میں ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان ایک راوی ساقط ہے ، اور عمل الیوم واللیلة (٢٢٩) سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو راوی ساقط ہیں اور دونوں مبہم ہیں، مؤلف کی آگے آنے والی روایت (٥٠٣٢) سے ایک راوی خالد بن عرفجہ کا ساقط ہونا ظاہر ہوتا ہے ، انہی اختلافات کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے )
چھینک کا جواب کیسے دے
اس سند سے سالم بن عبید اشجعی سے یہی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٦) (ضعیف )
چھینک کا جواب کیسے دے
ابوہریرہ (رض) کہتے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو چاہیئے کہ وہ کہے : الحمد لله على كل حال (ہر حالت میں تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) اور چاہیئے کہ اس کا بھائی یا اس کا ساتھی کہے : يرحمک الله (اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اب وہ پھر کہے : يهديكم الله ويصلح بالکم (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہیں ٹھیک رکھے، اور تمہاری حالت درست فرما دے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٢٦ (٦٢٢٤) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٣) (صحیح )
کتنی بار چھینک کا جواب دینا چاہیے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں تین بار اپنے بھائی کی چھینک کا جواب دو اور جو اس سے زیادہ ہو تو وہ زکام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٥١) (حسن )
کتنی بار چھینک کا جواب دینا چاہیے؟
سعید بن ابی سعید ابوہریرہ (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث کو مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابونعیم نے موسیٰ بن قیس سے، موسیٰ نے محمد بن عجلان سے، ابن عجلان نے سعید سے، سعید نے ابوہریرہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٥١) (حسن )
کتنی بار چھینک کا جواب دینا چاہیے؟
عبید بن رفاعہ زرقی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھینکنے والے کا جواب تین بار دو اس کے بعد اگر جواب دینا چاہو تو دو ، اور نہ دینا چاہو تو نہ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٥ (٢٧٤٤) (ضعیف) (سند میں راوی یزید بن عبدالرحمن کثیر الخطاء اور حمیدہ یا عبیدہ بنت عبید مجہول راوی ہیں )
کتنی بار چھینک کا جواب دینا چاہیے؟
سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص کو نبی اکرم ﷺ کے پاس چھینک آئی تو آپ نے اس سے فرمایا :يرحمک الله اللہ تم پر رحم فرمائے اسے پھر چھینک آئی تو آپ نے فرمایا : آدمی کو زکام ہوا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٥ (٢٧٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٠ (٣٧١٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الاستئذان ٣٢ (٢٧٠٣) (صحیح )
ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیا جائے
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس یہود جان بوجھ کر اس امید میں چھینکا کرتے کہ آپ ان کے لئے يرحمکم الله تم پر اللہ کی رحمت ہو کہہ دیں، لیکن آپ فرماتے : يهديكم الله ويصلح بالکم اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٣ (٢٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤١١) (صحیح )
ذمی کافر کو چھینک کا جواب کیسے دیا جائے
انس (رض) کہتے ہیں کہ دو لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کے پاس چھینک آئی تو آپ نے ان میں سے ایک کی چھینک کا جواب دیا اور دوسرے کو نہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! دو لوگوں کو چھینک آئی، تو آپ نے ان میں سے ایک کو جواب دیا ؟۔ احمد کی روایت میں اس طرح ہے : کیا آپ نے ان دونوں میں سے ایک کو جواب دیا، دوسرے کو نہیں دیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : دراصل اس نے الحمد الله کہا تھا اور اس نے الحمد الله نہیں کہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٢٣(٦٢٢١) ، صحیح مسلم/الزہد ٩ (٢٩٩١) ، سنن الترمذی/الأدب ٤ (٢٧٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٠ (٣٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٧، ١٧٦) (صحیح )
پیٹ کے بل لیٹنے والے شخص کا حکم
یعیش بن طخفہ بن قیس غفاری کہتے ہیں کہ میرے والد اصحاب صفہ میں سے تھے تو (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے ساتھ عائشہ (رض) کے گھر چلو تو ہم گئے، آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! ہمیں کھانا کھلاؤ وہ دلیا لے کر آئیں تو ہم نے کھایا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! ہمیں کھانا کھلاؤ تو وہ تھوڑا سا حیس ١ ؎ لے کر آئیں، قطاۃ پرند کے برابر، تو (اسے بھی) ہم نے کھایا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! ہم کو پلاؤ تو وہ دودھ کا ایک بڑا پیالہ لے کر آئیں، تو ہم نے پیا، پھر آپ ﷺ نے (ہم لوگوں سے) فرمایا : تم لوگ چاہو (ادھر ہی) سو جاؤ، اور چاہو تو مسجد چلے جاؤ وہ کہتے ہیں : تو میں (مسجد میں) صبح کے قریب اوندھا (پیٹ کے بل) لیٹا ہوا تھا کہ یکایک کوئی مجھے اپنے پیر سے ہلا کر جگانے لگا، اس نے کہا : اس طرح لیٹنے کو اللہ ناپسند کرتا ہے، میں نے (آنکھ کھول کر) دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ المساجد ٦ (٧٥٢) ، الأدب ٢٧ (٣٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٩) (ضعیف) (سند میں سخت اضطراب ہے، طخفة بن قیس (ف) سے یا طھفہ (ہ) سے، اس کو قیس بن طخفة نیز یعیش بن طخفة ابو تغفة کہتے ہیں، حتی کہ یہ بھی کہا گیا کہ وہ نہیں بلکہ ان کے والد صحابی تھے، لیکن پیٹ کے بل لیٹنے کی ممانعت ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎ : حیس ایک عربی کھانا ہے جو کھجور، ستو، پنیر اور گھی سے بنتا ہے۔
بغیر رکاوٹ والی چھت پر سونا صحیح نہیں ہے
علی بن شیبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پتھر (کی مڈیر) نہ ہو (یعنی کوئی چہار دیواری نہ ہو تو اس سے (حفاظت کا) ذمہ اٹھ گی (گرے یا بچے وہ جانے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٢٠) (صحیح )
پاک ہو کر (باوضو) سونا باعث فضیلت ہے
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہوا باوضو سوتا ہے پھر رات میں (کسی بھی وقت) چونک کر اٹھتا ہے اور اللہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دیتا ہے ۔ ثابت بنانی کہتے ہیں : ہمارے پاس ابوظبیہ آئے تو انہوں نے ہم سے معاذ بن جبل کی یہ حدیث بیان کی، جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ ثابت بنانی کہتے ہیں : فلاں شخص نے کہا ١ ؎ کہ میں نے اپنی نیند سے بیدار ہوتے وقت کئی بار اس کلمہ کے ٢ ؎ ادا کرنے کی کوشش کی مگر کہہ نہ سکا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦(٣٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٣٥، ٢٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ثابت بنانی نے کسی وجہ سے کہنے والے کا نام ظاہر نہیں کیا۔ ٢ ؎ : اس سے مراد دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ سے خیر کا سوال ہے۔ ٣ ؎ : شاید ایسا نسیان یا دنیاوی امور میں مشغولیت کے سبب ہوا ہو۔ واللہ اعلم
پاک ہو کر (باوضو) سونا باعث فضیلت ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں بیدار ہوئے پھر اپنی ضرورت سے فارغ ہوئے، پھر اپنا ہاتھ منہ دھویا، پھر سو گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اپنی ضرورت سے فارغ ہونے کا مطلب ہے پیشاب کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٠ (٦٣١٦) ، صحیح مسلم/الحیض ٥ (٧٦٣) ، سنن النسائی/التطبیق ٦٣ (١١٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧١ (٥٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٤، ٢٨٣، ٢٨٤، ٣٤٣) (صحیح )
سوتے وقت کس طرف منہ رکھے؟
ام سلمہ کی اولاد میں سے ایک شخص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بستر اس طرح بچھایا جاتا جس طرح انسان اپنی قبر میں لٹایا جاتا ہے، اور مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ یا مسجد نبوی) آپ کے سرہانے ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، معلوم نہیں صحابی ہے یا تابعی )
سونے کی دعا کا بیان
ام المؤمنین حفصہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھتے، پھر تین مرتبہ اللهم قني عذابک يوم تبعث عبادک اے اللہ جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے اس دن مجھے اپنے عذاب سے بچا لے کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٧) (صحیح) (لیکن تین بار لفظ صحیح نہیں ہے )
سونے کی دعا کا بیان
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم اپنی خواب گاہ میں آؤ (یعنی سونے چلو) تو وضو کرو جیسے اپنے نماز کے لیے وضو کرتے ہو، پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹو، اور کہو اللهم أسلمت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رهبة ورغبة إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بکتابک الذي أنزلت وبنبيك الذي أرسلت اے اللہ میں نے اپنی ذات کو تیری تابعداری میں دے دیا، میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا، میں نے امید وبیم کے ساتھ تیری ذات پر بھروسہ کیا، تجھ سے بھاگ کر تیرے سوا کہیں اور جائے پناہ نہیں، میں ایمان لایا اس کتاب پر جو تو نے نازل فرمائی ہے، اور میں ایمان لایا تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم (یہ دعا پڑھ کر) انتقال کر گئے تو فطرت (یعنی دین اسلام) پر انتقال ہوا اور اس دعا کو اپنی دیگر دعاؤں کے آخر میں پڑھو براء کہتے ہیں : اس پر میں نے کہا کہ میں انہیں یاد کرلوں گا، تو میں نے (یاد کرتے ہوئے) کہا وبرسولک الذي أرسلت تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہیں بلکہ وبنبيك الذي أرسلت (جیسا دعا میں ہے ویسے ہی کہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٥ (٢٤٧) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ١١٧ (٣٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٦) ، مسند احمد (٤/٢٩٠، ٢٩٢، ٢٩٣، ٢٩٦، ٣٠٠) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥١ (٢٧٢٥) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم پاک و صاف (باوضو) ہو کر اپنے بستر پر (سونے کے لیے) آؤ تو اپنے داہنے ہاتھ کا تکیہ بناؤ پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
اس سند سے بھی براء (رض) سے یہی حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً مروی ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں : ایک راوی نے إذا أتيت فراشک طاهرا جب تم باوضو اپنے بستر پر آؤ کہا اور دوسرے نے توضأ وضوءک للصلاة تم جب نماز جیسا وضو کرلو کہا اور آگے راوی نے معتمر جیسی روایت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے وقت فرماتے : اللهم باسمک أحيا وأموت اے اللہ میں تیرے ہی نام پر جیتا اور مرتا ہوں اور جب بیدار ہوتے تو فرماتے الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں زندگی بخشی (ایک طرح سے) موت طاری کردینے کے بعد اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٧ (٦٣١٢) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٤) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٨ (٣٤١٧) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٥، ٣٨٧، ٣٩٧، ٣٩٩، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٨) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر سونے کے لیے آئے تو اپنے ازار کے کونے سے اسے جھاڑے کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کی جگہ اس کی عدم موجودگی میں کون آ بسا ہے، پھر وہ اپنے داہنے پہلو پر لیٹے، پھر کہے باسمک ربي وضعت جنبي وبك أرفعه إن أمسکت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادک الصالحين تیرے نام پر میں اپنا پہلو ڈال کر لیٹتا ہوں اور تیرے ہی نام سے اسے اٹھاتا ہوں، اگر تو میری جان کو روک لے تو تو اس پر رحم فرما اور اگر چھوڑ دے تو اس کی اسی طرح حفاظت فرما جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٣ (٦٣٢٠) ، والتوحید ١٣ (٧٣٩٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٠ (٣٤٠١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٤) ، مسند احمد (٢/٤٢٢، ٤٣٢) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥١ (٢٧٢٦) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے تو فرماتے : اللهم رب السموات ورب الأرض ورب کل شىء فالق الحب والنوى منزل التوراة والإنجيل والقرآن أعوذ بک من شر کل ذي شر أنت آخذ بناصيته أنت الأول فليس قبلک شىء وأنت الآخر فليس بعدک شىء وأنت الظاهر فليس فوقک شىء وأنت الباطن فليس دونک شىء اقض عني الدين وأغنني من الفقر اے اللہ ! آسمانوں و زمین کے مالک ! اے ہر چیز کے پالنہار ! اے دانے اگانے والے ! اے بیج سے درخت پیدا کرنے والے ! اے توراۃ، انجیل اور قرآن اتارنے والے ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں، ہر شر والے کے شر سے جس کی پیشانی تیرے قبضے میں ہے، تو سب سے پہلے ہے، تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں، تو سب سے آخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں، تو سب سے ظاہر (اوپر) ہے، تجھ سے اوپر کوئی نہیں، تو چھپا ہوا ہے، تجھ سے زیادہ چھپا ہوا کوئی نہیں وہب نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ : تو میرا قرض اتار دے اور تنگ دستی سے نکال کر مجھے مالدار بنا دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٩ (٣٤٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٣) ، مسند احمد (٢/٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٣١) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی خواب گاہ میں جاتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے : اللهم إني أعوذ بوجهك الكريم وکلماتک التامة من شر ما أنت آخذ بناصيته اللهم أنت تکشف المغرم والمأثم اللهم لا يهزم جندک ولا يخلف وعدک ولا ينفع ذا الجد منک الجد سبحانک وبحمدک اے اللہ ! میں تیری بزرگ ذات اور تیرے مکمل کلموں کے ذریعہ اس شر سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے قبضے میں ہے، اے اللہ تو ہی قرض اتارتا، اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے، اے اللہ ! تیرے لشکر کو شکست نہیں دی جاسکتی، تیرا وعدہ ٹل نہیں سکتا، مالدار کی مالداری تیرے سامنے کام نہ آئے گی، پاک ہے تیری ذات، میں تیری حمد و ثنا بیان کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٨) (ضعیف) (ابواسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
سونے کی دعا کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر آتے تو یہ دعا پڑھتے الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وکفانا وآوانا فکم ممن لا کا في له ولا مئوي تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا اور پلایا، دشمن کے شر سے بچایا، ہم کو پناہ دی، کتنے بندے تو ایسے ہیں جنہیں نہ کوئی بچانے والا ہے، اور نہ کوئی پناہ دینے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٧ (٢٧١٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٦ (٣٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٣، ١٦٧، ٢٣٥) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
ابوالازہر انماری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں جب اپنی خواب گاہ پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے : بسم الله وضعت جنبي اللهم اغفر لي ذنبي وأخسئ شيطاني وفک رهاني واجعلني في الندي الأعلى اللہ کے نام پر میں نے اپنے پہلو کو ڈال دیا (یعنی لیٹ گیا) اے اللہ میرے گناہ بخش دے، میرے شیطان کو دھتکار دے، مجھے گروی سے آزاد کر دے اور مجھے اونچی مجلس میں کر دے، (یعنی ملائکہ، انبیاء و صلحاء کی مجلس میں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٨٥٩) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
نوفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا : قل يا أيها الکافرون پڑھو (یعنی پوری سورۃ) اور پھر اسے ختم کر کے سو جاؤ، کیونکہ یہ سورة شرک سے براءت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٢ (٣٤٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥٦) ، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٢ (٣٤٧٠) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر رات جب اپنے بچھونے پر سونے آتے تو اپنی ہتھیلیوں کو ملاتے پھر ان میں پھونکتے اور ان میں قل هو الله أحد قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھتے، پھر ان کو جہاں تک وہ پہنچ سکتیں اپنے بدن پر پھیرتے، اپنے سر، چہرے اور جسم کے اگلے حصے سے پھیرنا شروع کرتے، ایسا آپ تین بار کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٢ (٦٣١٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢١ (٣٤٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٥ (٣٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١١٦، ١٥٤) (صحیح )
سونے کی دعا کا بیان
عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سونے سے پہلے المسبحات ١ ؎ پڑھتے تھے، اور فرماتے تھے : ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٢ (٣٤٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٨) (ضعیف) (اس کے رواة بقیہ اور ابن ابی بلال ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : مسبحات وہ سورتیں ہیں جو لفظ یُسَبِّحُ یا سَبَّحَ سے شروع ہوتی ہیں۔
سونے کی دعا کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی خواب گاہ میں آتے تو کہتے : الحمد لله الذي کفاني وآواني وأطعمني وسقاني والذي من على فأفضل والذي أعطاني فأجزل الحمد لله على كل حال اللهم رب کل شىء ومليكه وإله كل شىء أعوذ بک من النار تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ہر آفت سے بچایا اور ٹھکانا عطا کیا، اور جس نے مجھے کھلایا، اور پلایا اور جس نے مجھ پر احسان کیا اور بڑا احسان کیا، اور جس نے مجھے دیا، اور بہت دیا، اللہ کے لیے ہر حال میں حمد و شکر ہے، اے اللہ ! اے ہر چیز کو پالنے والے اور ہر چیز کے مالک ! اے ہر چیز کے حقیقی معبود ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں آگ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧١١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٧) (صحیح الإسناد )
سونے کی دعا کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی جگہ لیٹے اور اس میں اللہ کو یاد نہ کرے تو قیامت کے دن اسے حسرت و ندامت ہوگی، اور جو شخص ایسی جگہ بیٹھے جس میں اللہ کو یاد نہ کرے تو قیامت کے دن اسے حسرت و ندامت ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٤٤) (حسن )
رات میں آنکھ کھلنے پر یہ دعا پڑھے
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نیند سے بیدار ہوا اور بیدار ہوتے ہی اس نے لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله کہا پھر دعا کی رب اغفر لي کہ اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے (ولید کی روایت میں ہے، اور دعا کی) تو اس کی دعا قبول کی جائے گی، اور اگر وہ اٹھا اور وضو کیا، پھر نماز پڑھی تو اس کی نماز مقبول ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٢١ (١١٥٤) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٦ (٣٤١٤) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣١٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٣ (٢٧٢٩) (صحیح )
رات میں آنکھ کھلنے پر یہ دعا پڑھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کی نیند سے جب بیدار ہوتے یہ دعا پڑھتے : لا إله إلا أنت سبحانک اللهم أستغفرک لذنبي وأسألک رحمتک اللهم زدني علما ولا تزغ قلبي بعد إذ هديتني وهب لي من لدنک رحمة إنك أنت الوهاب تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، پاک و برتر ہے تیری ذات، اے پروردگار ! میں تجھ سے اپنے گناہ کی معافی چاہتا ہوں، تیری رحمت کا خواستگار ہوں، اے اللہ ! میرے علم میں اضافہ فرما، اور ہدایت مل جانے کے بعد میرے دل کو کجی سے محفوظ رکھ، مجھے اپنی رحمت سے نواز، بیشک تو بڑا نواز نے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١١٨) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن ولید مصری لین الحدیث ہیں )
سوتے وقت سبحان اللہ کی فضیلت
علی (رض) کہتے ہیں کہ فاطمہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس چکی پیسنے سے اپنے ہاتھ میں پہنچنے والی تکلیف کی شکایت لے کر گئیں، اسی دوران رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے تو وہ آپ کے پاس لونڈی مانگنے آئیں، لیکن آپ نہ ملے تو ام المؤمنین عائشہ (رض) کو بتا کر چلی آئیں، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو عائشہ (رض) نے آپ کو بتایا (کہ فاطمہ آئی تھیں ایک خادمہ مانگ رہی تھیں) یہ سن کر آپ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا : اپنی اپنی جگہ پر رہو (اٹھنا ضروری نہیں) چناچہ آپ آ کر ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی، آپ نے فرمایا : کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں جو تم نے مانگی ہے، جب تم سونے چلو تو (٣٣) بار سبحان اللہ کہو، (٣٣) بار الحمدللہ کہو، اور (٣٤) بار اللہ اکبر کہو، یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فرض الخمس ٦ (٣١١٣) ، المناقب ٩ (٣٧٠٥) ، النفقات ٦ (٥٣٦١) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٩ (٢٧٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢١٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٤ (٣٤٠٨) ، مسند احمد (١/١٤٦) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٢ (٢٧٢٧) (صحیح )
سوتے وقت سبحان اللہ کی فضیلت
ابوسلورد بن ثمامہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے ابن اعبد سے کہا : کیا میں تم سے اپنے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ (رض) سے متعلق واقعہ نہ بیان کروں، فاطمہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں اور میری زوجیت میں تھیں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان پڑگئے، مشکیں بھرتے بھرتے ان کے سینے میں نشان پڑگئے، گھر کی صفائی کرتے کرتے ان کے کپڑے گرد آلود ہوگئے، کھانا پکاتے پکاتے کپڑے کالے ہوگئے، اس سے انہیں نقصان پہنچا (صحت متاثر ہوئی) پھر ہم نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس غلام اور لونڈیاں لائی گئی ہیں، تو میں نے فاطمہ سے کہا : اگر تم اپنے والد کے پاس جاتیں اور ان سے خادم مانگتیں تو تمہاری ضرورت پوری ہوجاتی، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، لیکن وہاں لوگوں کو آپ کے پاس بیٹھے باتیں کرتے ہوئے پایا تو شرم سے بات نہ کہہ سکیں اور لوٹ آئیں، دوسرے دن صبح آپ خود ہمارے پاس تشریف لے آئے (اس وقت) ہم اپنے لحافوں میں تھے، آپ فاطمہ کے سر کے پاس بیٹھ گئے، فاطمہ نے والد سے شرم کھا کر اپنا سر لحاف میں چھپالیا، آپ نے پوچھا : کل تم محمد کے اہل و عیال کے پاس کس ضرورت سے آئی تھیں ؟ فاطمہ دو بار سن کر چپ رہیں تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو بتاتا ہوں : انہوں نے میرے یہاں رہ کر اتنا چکی پیسی کہ ان کے ہاتھ میں گھٹا پڑگیا، مشک ڈھو ڈھو کر لاتی رہیں یہاں تک کہ سینے پر اس کے نشان پڑگئے، انہوں نے گھر کے جھاڑو دیئے یہاں تک کہ ان کے کپڑے گرد آلود ہوگئے، ہانڈیاں پکائیں، یہاں تک کہ کپڑے کالے ہوگئے، اور مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے پاس غلام اور لونڈیاں آئیں ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جا کر اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیں، پھر راوی نے حکم والی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی اور پوری ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں، لیکن اصل واقعہ صحیح ہے )
سوتے وقت سبحان اللہ کی فضیلت
اس سند سے بھی علی (رض) کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے میں نے یہ تسبیح جب سے رسول اللہ ﷺ سے سنی پڑھنے میں کبھی ناغہ نہیں کیا سوائے جنگ صفین والی رات کے، مجھے اخیر رات میں یاد آئی تو میں نے اسے اسی وقت پڑھ لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٢) (ضعیف) (شبث کی وجہ سے یہ روایت سنداً ضعیف ہے ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے )
سوتے وقت سبحان اللہ کی فضیلت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دو خصلتیں یا دو عادتیں ایسی ہیں جو کوئی مسلم بندہ پابندی سے انہیں (برابر) کرتا رہے گا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، یہ دونوں آسان ہیں اور ان پر عمل کرنے والے لوگ تھوڑے ہیں (١) ہر نماز کے بعد دس بار سبحان الله اور دس بار الحمد الله اور دس بار الله اکبر کہنا، اس طرح یہ زبان سے دن اور رات میں ایک سو پچاس بار ہوئے، اور قیامت میں میزان میں ایک ہزار پانچ سو بار ہوں گے، (کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے) اور سونے کے وقت چونتیس بار الله اکبر ، تینتیس بار الحمد الله ، تینتیس بار سبحان الله کہنا، اس طرح یہ زبان سے کہنے میں سو بار ہوئے اور میزان میں یہ ہزار بار ہوں گے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہاتھ (کی انگلیوں) میں اسے شمار کرتے ہوئے دیکھا ہے، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں کام تو آسان ہیں، پھر ان پر عمل کرنے والے تھوڑے کیسے ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا : (اس طرح کہ) تم میں ہر ایک کے پاس شیطان اس کی نیند میں آئے گا، اور ان کلمات کے کہنے سے پہلے ہی اسے سلا دے گا، ایسے ہی شیطان تمہارے نماز پڑھنے والے کے پاس نماز کی حالت میں آئے گا، اور ان کلمات کے ادا کرنے سے پہلے اسے اس کا کوئی (ضروری) کام یاد دلا دے گا، (اور وہ ان تسبیحات کو ادا کئے بغیر اٹھ کر چل دے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٥ (٣٤١٠) ، سنن النسائی/السہو ٩١ (١٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٠، ٢٠٥) (صحیح )
سوتے وقت سبحان اللہ کی فضیلت
زبیر کی بیٹیوں ام الحکم یا ضباعہ میں سے کسی ایک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں، میری بہن اور نبی اکرم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم جس محنت و مشقت سے دو چار تھے اسے ہم نے بطور شکایت آپ کے سامنے پیش کیا، ہم نے آپ سے درخواست کی کہ ہمیں قیدی دیئے جانے کا آپ حکم فرمائیں، تو آپ نے فرمایا : بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں، (وہ پہلے آئیں اور پا گئیں اب قیدی نہیں بچے) پھر آپ نے تسبیح کے واقعہ کا ذکر کیا اس میں في كل دبر صلاة کے بجائے على أثر کل صلاة کہا اور سونے کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٢، ١٨٣١٤) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کچھ ایسے کلمات بتائیے جنہیں میں جب صبح کروں اور جب شام کروں تو کہہ لیا کروں، آپ نے فرمایا : کہو اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة رب کل شىء ومليكه أشهد أن لا إله إلا أنت أعوذ بک من شر نفسي وشر الشيطان وشرکه اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، پوشیدہ اور موجود ہر چیز کے جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، میں تیری ذات کے ذریعہ اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر سے، اور اس کے شرک سے پناہ مانگتا ہوں آپ نے فرمایا : جب صبح کرو اور جب شام کرو اور جب سونے چلو تب اس دعا کو پڑھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٤ (٣٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٩، ١٠، ٢٩٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٥٤ (٢٧٣١) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب صبح کرتے تو فرماتے : اللهم بك أصبحنا وبک أمسينا وبک نحيا وبک نموت وإليك النشور اے اللہ ہم نے صبح کی تیرے نام پر اور شام کی تیرے نام پر، جیتے ہیں تیرے نام پر، مرتے ہیں تیرے نام پر، اور مر کر تیرے ہی پاس ہمیں پلٹ کر جانا ہے اور جب شام کرتے تو فرماتے : اللهم بك أمسينا وبک نحيا وبک نموت وإليك النشور اے اللہ ! ہم نے تیرے ہی نام پر شام کی، اور تیرے ہی نام پر ہم جیتے ہیں، تیرے ہی نام پر مرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٧٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٣ (٣٣٩١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٦٨) ، مسند احمد (٢/٣٥٤، ٥٢٢) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت یہ دعا پڑھے اللهم إني أصبحت أشهدک وأشهد حملة عرشک وملائكتک وجميع خلقک أنك أنت الله لا إله إلا أنت وأن محمدا عبدک ورسولک اے اللہ ! میں نے صبح کی، میں تجھے اور تیرے عرش کے اٹھانے والوں کو تیرے فرشتوں کو اور تیری ساری مخلوقات کو گواہ بناتا ہوں کہ : تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، محمد ﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک چوتھائی حصہ جہنم سے آزاد کر دے گا، پھر جو دو مرتبہ کہے گا اللہ اس کا نصف حصہ آزاد کر دے گا، اور جو تین بار کہے گا تو اللہ اس کے تین چوتھائی حصے کو آزاد کر دے گا، اور اگر وہ چار بار کہے گا تو اللہ اسے پورے طور پر جہنم سے نجات دیدے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمان بن عبدالمجید مجہول ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت کہے : اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدک وأنا على عهدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت أبوء بنعمتک وأبوء بذنبي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت اے اللہ ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے، میں تیرا بندہ ہوں، میں تیرے ساتھ اپنے اقرار پر قائم ہوں اور تیرے وعدے پر مضبوطی سے طاقت بھر جما ہوا ہوں، اس شر سے جو مجھ سے سرزد ہوئے ہوں تیری پناہ چاہتا ہوں، تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں تو مجھے معاف کر دے، تیرے سوا کوئی اور گناہ معاف نہیں کرسکتا اور اسی دن یا اسی رات میں مرجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٦) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب شام کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : أمسينا وأمسى الملک لله والحمد لله لا إله إلا الله وحده لا شريك له ہم نے شام کی، اور ملک نے شام کی جو اللہ تعالیٰ کا ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے۔ جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : زبید کہتے تھے کہ ابراہیم بن سوید کی روایت میں ہے لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير رب أسألک خير ما في هذه الليلة وخير ما بعدها وأعوذ بک من شر ما في هذه الليلة وشر ما بعدها رب أعوذ بک من الکسل ومن سوء الکبر أو الکفر رب أعوذ بک من عذاب في النار و عذاب في القبر اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے ملک ہے، اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے رب ! اس رات اور اس کے بعد کی رات کی بھلائی کا طلب گار ہوں، اور اس رات اور اس کے بعد کی رات کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں سستی اور کاہلی سے، اور بڑھاپے، یا کفر سے یا غرور کی برائی سے، اے رب میں پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے اور جب صبح ہوتی تو بھی یہی کہتے فرق صرف یہ ہوتا کہ أمسينا وأمسى الملک لله کے بجائے أصبحنا وأصبح الملک لله ہم نے صبح کی اور ملک نے صبح کی جو اللہ تعالیٰ کا ہے کہتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے شعبہ نے سلمہ بن کہل سے، سلمہ نے ابراہیم بن سوید سے روایت کیا ہے اس میں من سوء الکبر ہے انہوں نے من سوء الکفر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٨ (٢٧٢٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٣ (٣٣٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤٠ مرفوعًا) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابو سلام کہتے ہیں کہ وہ حمص کی مسجد میں تھے کہ ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا، لوگوں نے کہا، یہ نبی اکرم ﷺ کے خادم رہے ہیں، راوی کہتے ہیں : تو ابو سلام اٹھ کر ان کے پاس گئے، اور ان سے عرض کیا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی کوئی ایسی حدیث ہم سے بیان فرمائیے، جس میں آپ کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان کسی اور شخص کا واسطہ نہ ہو، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے جب صبح کے وقت اور شام کے وقت یہ دعا پڑھی رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے سے راضی و خوش ہیں تو اللہ پر اس کا یہ حق بن گیا کہ وہ بھی اس سے راضی و خوش ہوجائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٧ (٣٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٠، ١٥٦٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٧، ٥/٣٦٧) (ضعیف) (اس کے راوی سابق بن ناجیہ لین الحدیث ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عبداللہ بن غنام بیاضی انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے صبح کے وقت یہ دعا پڑھی اللهم ما أصبح بي من نعمة فمنک وحدک لا شريك لک فلک الحمد ولک الشکر اے اللہ ! صبح کو جو نعمتیں میرے پاس ہیں وہ تیری ہی دی ہوئی ہیں، تو اکیلا ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے، تو ہی ہر طرح کی تعریف کا مستحق ہے، اور میں تیرا ہی شکر گزار ہوں تو اس نے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جس نے شام کے وقت ایسا ہی کہا تو اس نے اس رات کا شکر ادا کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٩٧٦) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن عنبسہ لین الحدیث ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح اور شام کرتے تو ان دعاؤں کا پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے اللهم إني أسألک العافية في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألک العفو والعافية في ديني ودنياى وأهلي ومالي اللهم استر عورتي (عثمان کی روایت میں عوراتي ہے) عوراتي وآمن روعاتي اللهم احفظني من بين يدى ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بعظمتک أن أغتال من تحتي اے للہ ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طالب ہوں، اے اللہ ! میں تجھ سے عفو و درگزر کی، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال، مال میں بہتری و درستگی کی درخواست کرتا ہوں، اے اللہ ! ہماری ستر پوشی فرما۔ اے اللہ ! ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما، اور ہمیں خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ، اے اللہ ! تو ہماری حفاظت فرما آگے سے، اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : وکیع کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الاستعاذة ٥٩ (٥٥٣١) ، عمل الیوم واللیلة ١٨١ (٥٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
بنی ہاشم کے غلام عبدالحمید بیان کرتے ہیں کہ ان کی ماں نے جو رسول اللہ ﷺ کی کسی بیٹی کی خدمت میں رہا کرتی تھیں انہیں بتایا کہ ان کی صاحبزادی نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں سکھاتے تھے کہ جب تم صبح کرو تو کہو سبحان الله وبحمده لا قوة إلا بالله ما شاء الله کان وما لم يشأ لم يكن أعلم أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بکل شىء علما میں اللہ کی پاکی بیان کرتا، اور اس کی تعریف کرتا ہوں، کسی میں طاقت نہیں سوائے اللہ کے، جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا، اور جو وہ نہیں چاہے وہ نہیں ہوگا، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ اپنے علم سے ہر چیز کو محیط ہے جو شخص ان کلمات کو صبح کے وقت کہے گا اس کی (اللہ کی طرف سے) شام تک حفاظت کی جائے گی، اور جو شام کے وقت کہے گا اس کی صبح تک۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٣٨٨) (ضعیف) ( عبدالحمید اور ان کی ماں مجہول ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون، وله الحمد في السموات والأرض وعشيا وحين تظهرون سے لے کر وكذلک تخرجون تک کہے تو اس دن کے ثواب میں جو کمی رہ گئی ہوگی اس کی تلافی ہوجائے گی، اور جو شخص شام کو ان کلمات کو کہے تو اس رات میں اس کی نیکیوں و بھلائیوں میں جو کمی رہ گئی ہوگی اس کی تلافی ہوجائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٨١٣) (ضعیف جدّاً ) (اس کے راوی محمد بن عبدالرحمن البیلمانی ضعیف ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوعیاش (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير کہے تو اسے اولاد اسماعیل میں سے ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اس کے دس درجے بلند کر دئیے جائیں گے، اور وہ شام تک شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا، اور اگر شام کے وقت کہے تو صبح تک اس کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔ حماد کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو (خواب میں) دیکھا جیسے سونے والا دیکھتا ہے تو اس نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوعیاش آپ سے ایسی ایسی حدیث روایت کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ابوعیاش صحیح کہہ رہے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے اسماعیل بن جعفر، موسیٰ زمعی اور عبداللہ بن جعفر نے سہیل بن أبی صالح سے سہیل نے اپنے والد سے اور ابوصالح نے ابن عائش سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦٠) (صحیح )
None
میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کے وقت «اللهم إني أصبحت أشهدك وأشهد حملة عرشك وملائكتك وجميع خلقك أنك أنت الله لا إله إلا أنت وحدك لا شريك لك وأن محمدا عبدك ورسولك» اے اللہ! میں نے صبح کی میں تجھے اور تیرے عرش کے اٹھانے والوں کو تیرے فرشتوں کو اور تیری تمام مخلوقات کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں کہا تو اس دن اس سے جتنے بھی گناہ سرزد ہوئے ہوں گے، سب معاف کر دیے جائیں گے، اور جس کسی نے ان کلمات کو شام کے وقت کہا تو اس رات میں اس سے جتنے گناہ سرزد ہوئے ہوں گے سب معاف کر دئیے جائیں گے۔
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
مسلم بن حارث تمیمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چپکے سے ان سے کہا : جب تم مغرب سے فارغ ہوجاؤ تو سات مرتبہ کہو اللهم أجرني من النار اے اللہ مجھے جہنم سے بچا لے اگر تم نے یہ دعا پڑھ لی اور اسی رات میں تمہارا انتقال ہوگیا، تو تمہارے لیے جہنم سے پناہ لکھ دی جائے گی، اور جب تم فجر پڑھ کر فارغ ہو اور ایسے ہی (یعنی سات مرتبہ اللهم أجرني من النار ) کہو اور پھر اسی دن میں تمہارا انتقال ہوجائے تو تمہارے لیے جہنم سے پناہ لکھ دی جائے گی۔ محمد بن شعیب کہتے ہیں کہ مجھے ابوسعید نے بتایا وہ حارث سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات مجھے چپکے سے بتائی ہے، اس لیے ہم اسے اپنے خاص بھائیوں ہی سے بیان کرتے ہیں (ہر شخص سے نہیں کہتے، یا ہم اس دعا کو اپنے خاندان والوں کے لیے خاص سمجھتے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٢٨١) (ضعیف) (الحارث بن مسلم (صحابی کے لڑکے) مجہول ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
None
جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت سات مرتبہ «حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم» کافی ہے مجھے اللہ، صرف وہی معبود برحق ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، وہی عرش عظیم کا رب ہے کہے تو اللہ اس کی پریشانیوں سے اسے کافی ہو گا چاہے ان کے کہنے میں وہ سچا ہو یا جھوٹا۔
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عبداللہ بن خبیب (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو بارش کی ایک سخت اندھیری رات میں نماز پڑھانے کے لیے تلاش کرنے نکلے، تو ہم نے آپ کو پا لیا، آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ نے فرمایا : کچھ کہو اس پر بھی ہم نے کچھ نہیں کہا، آپ نے پھر فرمایا : کچھ کہو (پھر بھی) ہم نے کچھ نہیں کہا، پھر آپ نے فرمایا : کچھ تو کہو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا کہوں ؟ آپ نے فرمایا : قل هو الله أحد اور معوذتین تین مرتبہ صبح کے وقت، اور تین مرتبہ شام کے وقت کہہ لیا کرو تو یہ تمہیں (ہر طرح کی پریشانیوں سے بچاؤ کے لیے) کافی ہوں گی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١١٧ (٣٥٧٥) ، سنن النسائی/الاستعاذة (٥٤٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥٠) (حسن )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابو مالک (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمیں کوئی ایسی (جامع) بات بتائیے، جسے ہم صبح و شام اور لیٹتے وقت کہا کریں، تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ کہا کریں : اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت رب کل شىء والملائكة يشهدون أنک لا إله إلا أنت فإنا نعوذ بک من شر أنفسنا ومن شر الشيطان الرجيم وشرکه وأن نقترف سوءا على أنفسنا أو نجره إلى مسلم اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے، تو ہر چیز کا رب ہے، فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ تیرے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ہے، ہم تیری پناہ مانگتے ہیں، اپنے نفسوں کے شر سے، اور دھتکارے ہوئے شیطان کے شر، اور اس کے شرک سے، اور گناہ کی بات خود کرنے سے، یا کسی مسلمان سے گناہ کی بات کرانے سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن اسماعیل ضعیف ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوداؤد کہتے ہیں کہ اسی اسناد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی صبح کرے تو یہ کہے أصبحنا وأصبح الملک لله رب العالمين اللهم إني أسألک خير هذا اليوم فتحه ونصره ونوره وبرکته وهداه وأعوذ بک من شر ما فيه وشر ما بعده ہم نے صبح کی اور ملک (پوری کائنات) نے صبح کی جو اللہ رب العالمین کا ہے، اے اللہ ! میں تجھ سے اس دن کی بھلائی، اس دن کی فتح و نصرت، نور و برکت اور ہدایت کا طالب ہوں، اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس دن کی اور اس کے بعد کے دنوں کی برائی سے اور جب شام کرے تو بھی اسی طرح کہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٧) (ضعیف) (اس کی سند میں بھی محمد بن اسماعیل ضعیف ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
شریق ہوزنی کہتے ہیں : میں ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گیا، اور ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں نیند سے جاگتے تو پہلے کیا کرتے ؟ تو انہوں نے کہا : تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی، جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی ہے، آپ جب رات میں نیند سے جاگتے تو دس بار، الله اکبر کہتے، دس بار الحمد الله کہتے، دس بار سبحان الله وبحمده کہتے، دس بار سبحان الملک القدوس کہتے، اور دس بار استغفر الله کہتے، اور دس بار لا إله إلا الله کہتے، پھر دس بار اللهم إني أعوذ بک من ضيق الدنيا وضيق يوم القيامة اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی تنگی سے اور قیامت کے دن کی تنگی سے کہتے، پھر نماز شروع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر ما تقدم عند المؤلف برقم : ٧٦٦، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الاقامة ١٨٠ (١٣٥٦) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٩ (١٦١٦) ، عمل الیوم واللیلة ٢٥٤ (٥٥٥٠) ، مسند احمد (٦/١٤٣) (حسن صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بقیہ اور عمر بن جعثم ضعیف ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر میں ہوتے اور سحر میں اٹھتے تو کہتے سمع سامع بحمد الله ونعمته وحسن بلائه علينا اللهم صاحبنا فأفضل علينا عائذا بالله من النار سننے والے نے اللہ کی حمد، اس کی نعمتوں کی شکر گزاری اور اپنے امتحان میں ہماری حسن کارکردگی کو (دیکھ اور) سن لیا، اے اللہ ! تو ہمارے ساتھ رہ، اور ہمیں اپنے فضل سے نواز، اور میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٨ (٢٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٦٩) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوذر (رض) کہتے تھے جو شخص صبح کرتے وقت کہے اللهم ما حلفت من حلف أو قلت من قول أو نذرت من نذر فمشيئتک بين يدى ذلك كله ما شئت کان وما لم تشأ لم يكن اللهم اغفر لي و تجاوز لي عنه اللهم فمن صليت عليه فعليه صلاتي ومن لعنت فعليه لعنتي اے اللہ ! میں جو بھی قسم کھاؤں یا جو بھی بات کہوں یا جو بھی نذر مانوں ان تمام میں تیری مشیت ہی میری نظروں میں مقدم ہے، جو تو، چاہے گا ہوگا، جو تو نہیں چاہے گا نہیں ہوگا، اے اللہ ! تو مجھے بخش دے، اور مجھ سے درگزر فرما، اے اللہ ! جس پر تیری رحمت ہو تو اسے میری دعا بھی شامل حال رہے اور جس پر تو لعنت فرمائے اس پر میری طرف سے بھی لعنت ہو ۔ تو وہ اس دن کے (فتنوں) سے محفوظ و مستثنٰی رہے گا، راوی کو شک ہے يومه ذلك کہا یا ذلک اليوم کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد) (قاسم بن عبدالرحمن المسعودی کی ابوذر سے روایت میں انقطاع ہے، کیونکہ دونوں میں لقاء و سماع نہیں ہے )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص تین بار بسم الله الذي لا يضر مع اسمه شىء في الأرض ولا في السماء وهو السميع العليم اللہ کے نام سے کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے کہے تو اسے صبح تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی، اور جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت اسے کہے تو اسے شام تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی، راوی حدیث ابومودود کہتے ہیں : پھر راوی حدیث ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ شخص جس نے ان سے یہ حدیث سنی تھی انہیں دیکھنے لگا، تو ابان نے اس سے کہا : مجھے کیا دیکھتے ہو، قسم اللہ کی ! نہ میں نے عثمان (رض) کی طرف جھوٹی بات منسوب کی ہے اور نہ ہی عثمان نے رسول اللہ ﷺ کی طرف، لیکن (بات یہ ہے کہ) جس دن مجھے یہ بیماری لاحق ہوئی اس دن مجھ پر غصہ سوار تھا (اور غصے میں) اس دعا کو پڑھنا بھول گیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٣ (٣٣٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٤ (٣٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٦٢، ٧٢) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عثمان (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے لیکن اس میں فالج کا قصہ مذکور نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٨) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے کہا ابو جان ! میں آپ کو ہر صبح یہ دعا پڑھتے ہوئے سنتا ہوں اللهم عافني في بدني اللهم عافني في سمعي اللهم عافني في بصري لا إله إلا أنت اے اللہ ! تو میرے جسم کو عافیت نصیب کر، اے اللہ ! تو میرے کان کو عافیت عطا کر، اے اللہ ! تو میری نگاہ کو عافیت سے نواز دے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں آپ اسے تین مرتبہ دہراتے ہیں جب صبح کرتے ہیں اور تین مرتبہ جب شام کرتے ہیں ؟ ، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہی دعا کرتے ہوئے سنا ہے، اور مجھے پسند ہے کہ میں آپ کا مسنون طریقہ اپناؤں۔ عباس بن عبدالعظیم کی روایت میں اتنا مزید ہے کہ آپ کہتے اللهم إني أعوذ بک من الکفر والفقر اللهم إني أعوذ بک من عذاب القبر لا إله إلا أنت اے اللہ ! میں کفر و محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، تو ہی معبود برحق ہے تین مرتبہ اسے صبح دہراتے اور تین مرتبہ اسے شام میں، ان کے ذریعہ آپ دعا کرتے تو میں پسند کرتا ہوں کہ آپ کی سنت کا طریقہ اپناؤں، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مصیبت زدہ و پریشان حال کے لیے یہ دعا ہے اللهم رحمتک أرجو فلا تکلني إلى نفسي طرفة عين وأصلح لي شأني كله لا إله إلا أنت اے اللہ ! میں تیری ہی رحمت چاہتا ہوں، تو مجھے ایک لمحہ بھی نظر انداز نہ کر، اور میرے تمام کام درست فرما دے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے بعض راوی الفاظ میں کچھ اضافہ کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٦٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٢) (حسن الإسناد )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سبحان الله العظيم وبحمده سو مرتبہ صبح پڑھے اور اسی طرح شام کو بھی سو مرتبہ پڑھے تو اس کے برابر مخلوق میں کسی کا درجہ نہیں ہوسکتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ١٠ (٢٦٩٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٩ (٣٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٧١) (صحیح )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
قتادہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو فرماتے : هلال خير ورشد هلال خير ورشد هلال خير ورشد آمنت بالذي خلقک یہ خیر و رشد کا چاند ہے، یہ خیر و رشد کا چاند ہے، یہ خیر و رشد کا چاند ہے، میں ایمان لایا اس پر جس نے تجھے پیدا کیا ہے یہ تین مرتبہ فرماتے، پھر فرماتے : شکر ہے، اس اللہ کا جو فلاں مہینہ لے گیا اور فلاں مہینہ لے آیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود (ضعیف الإسناد) (سند میں قتادہ تابعی اور نبی اکرم صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے درمیان انقطاع ہے، معلوم نہیں کہ تابعی کو ساقط کیا ہے یا صحابی کو، جب کہ قتادہ مدلس بھی ہیں )
صبح و شام کا اذکار وادعیہ مسنونہ
قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نیا چاند دیکھتے تو آپ اس سے اپنا منہ پھیر لیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کوئی صحیح مسند حدیث نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد) (یہ روایت مرسل ہے، نیز قتادہ مدلس ہیں )
گھر سے نکلتے وقت کی دعا
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب بھی میرے گھر سے نکلتے تو اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے پھر فرماتے : اللهم إني أعوذ بك أن أضل أو أضل أو أزل أو أزل أو أظلم أو أظلم أو أجهل أو يجهل على اے اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں گمراہ کروں، یا گمراہ کیا جاؤں، میں خود پھسلوں یا پھسلایا جاؤں، میں خود ظلم کروں یا کسی کے ظلم کا شکار بنایا جاؤں، میں خود جہالت کروں، یا مجھ سے جہالت کی جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٥ (٣٤٢٧) ، سنن النسائی/الاستعاذة ٢٩ (٥٤٨٨) ، ٦٤ (٥٥٤١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٨ (٣٨٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠٦، ٣١٨، ٣٢٢) (صحیح) حدیث میں رفع طرفہ إلی السماء (آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی) کا جملہ صحیح نہیں ہے، نیز صحیحین وغیرہ میں نماز میں نگاہ اٹھانے کی ممانعت آئی ہے، آسمان کی طرف نماز یا نماز سے باہر دونوں صورتوں میں نگاہ اٹھانا ممنوع ہے ملاحظہ ہو : (الصحیحة ٣١٦٣ وتراجع الالبانی ١٣٦ )
گھر سے نکلتے وقت کی دعا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنے گھر سے نکلے پھر کہے بسم الله توکلت على الله لا حول ولا قوة إلا بالله اللہ کے نام سے نکل رہا ہوں، میرا پورا پورا توکل اللہ ہی پر ہے، تمام طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے تو آپ نے فرمایا : اس وقت کہا جاتا ہے (یعنی فرشتے کہتے ہیں) : اب تجھے ہدایت دے دی گئی، تیری طرف سے کفایت کردی گئی، اور تو بچا لیا گیا، (یہ سن کر) شیطان اس سے جدا ہوجاتا ہے، تو اس سے دوسرا شیطان کہتا ہے : تیرے ہاتھ سے آدمی کیسے نکل گیا کہ اسے ہدایت دے دی گئی، اس کی جانب سے کفایت کردی گئی اور وہ (تیری گرفت اور تیرے چنگل سے) بچا لیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٣٤ (٣٤٢٦) ، سنن النسائی/في الیوم واللیلة (٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩) (صحیح )
گھر میں داخل ہوتے وقت کی دعا
ابو مالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تو کہے اللهم إني أسألک خير المولج وخير المخرج بسم الله ولجنا وبسم الله خرجنا وعلى الله ربنا توکلنا اے اللہ ! ہم تجھ سے اندر جانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں، ہم اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر باہر نکلتے ہیں اور اللہ ہی پر جو ہمارا رب ہے بھروسہ کرتے ہیں پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٨) (ضعیف) (تراجع الألباني ١٤٤ )
جب تیز ہوا چلے تو کیا پڑھے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ریح (ہوا) اللہ کی رحمت میں سے ہے (سلمہ کی روایت میں من روح الله ہے) ، کبھی وہ رحمت لے کر آتی ہے، اور کبھی عذاب لے کر آتی ہے، تو جب تم اسے دیکھو تو اسے برا مت کہو، اللہ سے اس کی بھلائی مانگو، اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ چاہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٩ (٣٧٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥٠، ٢٦٧، ٤٠٩، ٤٣٦، ٥١٨) (صحیح )
جب تیز ہوا چلے تو کیا پڑھے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے (ہلکا سا مسکراتے) تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا (آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہوجاتے) تو (ایک بار) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری (گھبراہٹ اور پریشانی) جھلکتی ہے (اس کی وجہ کیا ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ ایک قوم (قوم عاد) ہوا کے عذاب سے دو چار ہوچکی ہے، اور ایک قوم نے (بدلی کا) عذاب دیکھا، تو وہ کہنے لگی هذا عارض ممطرنا ١ ؎: یہ بادل تو ہم پر برسے گا (وہ برسا تو لیکن، بارش پتھروں کی ہوئی، سب ہلاک کردیے گئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٥ (٣٢٠٦) ، تفسیر سورة الأحقاف (٤٨٢٩) ، الأدب ٦٨ (٦٠٩٣) ، صحیح مسلم/الاستسقاء ٣ (٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن ٤٦ (٤٨٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢١ (٦٠٩٢) ، مسند احمد (٦/١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قوم ثمود کی طرف اشارہ ہے، مدائن صالح (سعودی عرب) میں اس قوم کے آثار موجود ہیں۔
جب تیز ہوا چلے تو کیا پڑھے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب آسمان کے گوشے سے بدلی اٹھتے دیکھتے تو کام (دھام) سب چھوڑ دیتے یہاں تک کہ نماز میں ہوتے تو اسے بھی چھوڑ دیتے، اور یوں دعا فرماتے : اللهم إني أعوذ بک من شرها اے اللہ ! میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں پھر اگر بارش ہونے لگتی، تو آپ فرماتے : اللهم صيبا هنيئا اے اللہ ! اس بارش کو زوردار اور خوشگوار و بابرکت بنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢١ (٣٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الاستسقاء ١٥ (١٥٢٢) (صحیح )
بارش کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ بارش ہونے لگی، آپ باہر نکلے اور اپنے کپڑے اتار لیے یہاں تک کہ بارش کے قطرات آپ کے بدن پر پڑنے لگے، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا : اس لیے کہ یہ ابھی ابھی اپنے رب کے پاس سے آرہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صلاة الأستسقاء ٢ (٨٩٨) ، سنن النسائی/الکبري (١٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٣٣، ٢٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے رب عزوجل کا بلندی پر ہونا ثابت ہے جب کہ قرآن و احادیث اور عقائد سلف صالحین سے قطعیت کے ساتھ معلوم ہے، اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدن پر بارش کا گرنا برکت کا باعث ہے۔
مرغ اور جانوروں کا بیان
زید بن خالد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مرغ کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ وہ نماز فجر کے لیے جگاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٧٥٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤ /١١٥، ٥/١٩٣) (صحیح )
مرغ اور جانوروں کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ وہ فرشتہ دیکھ کر آواز لگاتا ہے اور جب تم گدھے کو ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٣) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٢٠ (٢٧٢٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٥٧ (٣٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٦، ٣٢١، ٣٦٤) (صحیح )
مرغ اور جانوروں کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم رات میں کتوں کا بھونکنا اور گدھوں کا رینکنا سنو تو اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں تم نہیں دیکھتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٦) (صحیح )
مرغ اور جانوروں کا بیان
علی بن عمر بن حسین بن علی اور ان کے علاوہ ایک اور شخص سے روایت ہے، وہ دونوں (مرسلاً ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رات میں) آمدورفت بند ہوجانے (اور سناٹا چھا جانے) کے بعد گھر سے کم نکلا کرو، کیونکہ اللہ کے کچھ چوپائے ہیں جنہیں اللہ چھوڑ دیتا ہے، (وہ رات میں آزاد پھرتے ہیں اور نقصان پہنچا سکتے ہیں) (ابن مروان کی روایت میں في تلک الساعة کے الفاظ ہیں اور اس میں فإن لله تعالى دواب کے بجائے فإن لله خلقا ہے) ، پھر راوی نے کتے کے بھونکنے اور گدھے کے رینکنے کا اسی طرح ذکر کیا ہے، اور اپنی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ ابن الہاد کہتے ہیں : مجھ سے شرحبیل بن حاجب نے بیان کیا ہے انہوں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے اور جابر نے رسول اللہ ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٣٨، ٢٢٥٥، ٢٢٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٥) (صحیح )
نومولود بچہ کے کان میں اذان دینے کا بیان
ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ (رض) نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأضاحی ١٧ (١٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩، ٣٩١، ٣٩٢) (ضعیف) (اس کے راوی عاصم ضعیف ہیں )
نومولود بچہ کے کان میں اذان دینے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے تھے، (یوسف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ ان کی تحنیک فرماتے یعنی کھجور چبا کر ان کے منہ میں دیتے تھے، البتہ انہوں نے برکت کی دعا فرمانے کا ذکر نہیں کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٤، ١٧٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تبرک کے لئے ضروری ہے کہ شخصیت متبرک ہو، رسول معصوم سے تحنیک کا فائدہ برکت کے یقینی طور پر حصول کی توقع تھی، بعد میں دوسری شخصیات سے تبرک اور تبریک کی بات خوش خیالی ہے، تحنیک کے اس واقعہ سے استدلال صحیح نہیں ہے، لیکن اگر تحنیک کا عمل حصول تبرک کے علاوہ دوسرے فوائد کے لئے کیا جائے تو اور بات ہے ایک تو یہی کہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت کی اتباع کے جذبہ سے، دوسرے طب و صحت کے قواعد و ضوابط کے نقطہ نظر سے وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
نومولود بچہ کے کان میں اذان دینے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کیا تم میں مغربون دیکھے گئے ہیں آپ نے دیکھے گئے ہیں کہا یا اسی طرح کا کوئی اور لفظ کہا، میں نے پوچھا : مغربون کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ لوگ جن میں جنوں کی شرکت ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٨) (ضعیف الإسناد) (اس کی راویہ ام حمید مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ شرکت چاہے اللہ کی یاد سے غفلت اور شیطان کی اتباع کی وجہ سے ہو یا زنا کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہو، یا شیاطین کی صحبت سے پیدا ہوئے ہوں۔
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے اسے پناہ دو ، اور جو شخص لوجہ اللہ (اللہ کی رضا و خوشنودی کا حوالہ دے کر) سوال کرے تو اس کو دو ۔ عبیداللہ کی روایت میں من سألكم لوجه الله کے بجائے من سألكم بالله ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٥٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٩، ٢٥٠) (حسن صحیح )
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تم سے اللہ کے واسطے سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دو ، اور جو شخص تم سے اللہ کے نام پر سوال کرے تو اسے دو ، جو تمہیں مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کرو، جو شخص تم پر احسان کرے تو تم اس کے احسان کا بدلہ چکاؤ، اور اگر بدلہ چکانے کی کوئی چیز نہ پا سکو تو اس کے لیے اتنی دعا کرو جس سے تم یہ سمجھو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٦٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٩١) (صحیح )
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
ابوزمیل کہتے ہیں میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : میرے دل میں کیسی کھٹک ہو رہی ہے ؟ انہوں نے کہا : کیا ہوا ؟ میں نے کہا : قسم اللہ کی ! میں اس کے متعلق کچھ نہ کہوں گا، تو انہوں نے مجھ سے کہا : کیا کوئی شک کی چیز ہے، یہ کہہ کر ہنسے اور بولے : اس سے تو کوئی نہیں بچا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی فإن كنت في شک مما أنزلنا إليك فاسأل الذين يقرءون الکتاب اگر تجھے اس کلام میں شک ہے جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تم سے پہلے اتاری ہوئی کتاب (توراۃ و انجیل) پڑھتے ہیں (یونس : ٩٤) ، پھر انہوں نے مجھ سے کہا : جب تم اپنے دل میں اس قسم کا وسوسہ پاؤ تو هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بکل شىء عليم وہی اول ہے اور وہی آخر وہی ظاہر ہے اور وہی باطن اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔ (الحدید : ٣) ، پڑھ لیا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٦٧٧) (حسن الإسناد )
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے، اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر ایسے وسوسے پیدا ہوں اور ہم ان کو بیان کریں، آپ نے فرمایا : کیا تمہیں ایسے وسوسے ہوتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : یہ تو عین ایمان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٦٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٦٠ (١٣٢) ، مسند احمد (٢/٤٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عین ایمان یہی ہے جو تمہیں ان باتوں کو قبول کرنے اور ان کی تصدیق کرنے سے روک رہا ہے جنہیں شیطان تمہارے دلوں میں ڈالتا ہے یہاں تک کہ وہ وسوسہ ہوجاتا ہے اور تمہارے دلوں میں جم نہیں پاتا، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خود یہ وسوسہ ہی عین ایمان ہے۔ وسوسہ تو شیطان کی وجہ سے وجود میں آتا ہے پھر یہ ایمان صریح کیسے ہوسکتا ہے۔
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے دل میں ایسا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس کو بیان کرنے سے راکھ ہوجانا یا جل کر کوئلہ ہوجانا بہتر معلوم ہوتا ہے، آپ نے فرمایا : اللہ اکبر، اللہ اکبر، شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ بنادیا (اور وسوسہ مومن کو نقصان نہیں پہنچاتا) ۔ ابن قدامہ نے اپنی روایت میں رد كيده کی جگہ رد أمره کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٧٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٢، ٣٤٠) (صحیح )
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
سعد بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے محمد ﷺ سے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، آپ نے فرمایا : جو شخص جان بوجھ کر، اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو جنت اس پر حرام ہے ۔ عثمان کہتے ہیں : میں سعد (رض) سے یہ حدیث سن کر ابوبکرہ (رض) سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا، تو انہوں نے بھی کہا : میرے کانوں نے محمد ﷺ سے سنا، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا، عاصم کہتے ہیں : اس پر میں نے کہا : ابوعثمان تمہارے پاس دو آدمیوں نے اس بات کی گواہی دی، لیکن یہ دونوں صاحب کون ہیں ؟ ان کی صفات و خصوصیات کیا ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : ایک وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں یا اسلام میں سب سے پہلے تیر چلایا یعنی سعد بن مالک (رض) اور دوسرے وہ ہیں جو طائف سے بیس سے زائد آدمیوں کے ساتھ پیدل چل کر آئے پھر ان کی فضیلت بیان کی۔ نفیلی نے یہ حدیث بیان کی تو کہا : قسم اللہ کی ! یہ حدیث میرے لیے شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے، یعنی ان کا حدثنا وحدثني کہنا (مجھے بہت پسند ہے) ۔ ابوعلی کہتے ہیں : میں نے ابوداؤد سے سنا ہے، وہ کہتے تھے : میں نے احمد کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل کوفہ کی حدیث میں کوئی نور نہیں ہوتا (کیونکہ وہ اسانید کو صحیح طریقہ پر بیان نہیں کرتے، اور اخبار و تحدیث کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے) اور کہا : میں نے اہل بصرہ جیسے اچھے لوگ بھی نہیں دیکھے انہوں نے شعبہ سے حدیث حاصل کی (اور شعبہ کا طریقہ اسناد کو اچھی طرح بتادینے کا تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٦ (٤٣٢٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٧ (٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٣٦ (٢٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٩، ١٧٤، ١٧٩، ٥/٣٨، ٤٦) ، سنن الدارمی/السیر ٨٣ (٢٥٧٢) ، الفرائض ٢ (٢٩٠٢) (صحیح )
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے مولیٰ (آقا) کی اجازت ١ ؎ کے بغیر کسی قوم کو اپنا مولیٰ (آقا) بنائے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام ہی لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن نہ اس کا کوئی فرض قبول ہوگا اور نہ ہی کوئی نفل قبول ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٤ (١٥٠٨) ، الحج ٨٥ (١٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٩٨، ٤١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : من غير إذن مواليه کی قید زیادہ تقبیح کے لئے ہے اگر موالی اس کی اجازت دیں تو بھی غیر کو اپنا مولیٰ بنانا حرام ہے۔
آدمی کا کسی آدمی سے پناہ مانگنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اپنے کو اپنے والد کے سوا کسی اور کا بیٹا بتائے یا اپنے مولیٰ (آقا) کے بجائے کسی اور کو اپنا آقا بنائے تو اس پر پیہم قیامت تک اللہ کی لعنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٦١) (صحیح )
حسب ونسب پر تفاخر جائز نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت و غرور کو ختم کردیا اور باپ دادا کا نام لے کر فخر کرنے سے روک دیا، (اب دو قسم کے لوگ ہیں) ایک متقی و پرہیزگار مومن، دوسرا بدبخت فاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں ١ ؎، لوگوں کو اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ ان کے آباء جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں (اس لیے کہ وہ کافر تھے، اور کوئلے پر فخر کرنے کے کیا معنی) اگر انہوں نے اپنے آباء پر فخر کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کے نزدیک اس گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے، جو اپنی ناک سے گندگی کو ڈھکیل کرلے جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٧٥ (٣٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٣٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اصلاً تم سب ایک ہو پھر ایک دوسرے پر فخر کرنا کیسا۔
عصبیت بالکل حرام ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنوئیں میں گرا دیا گیا ہو اور پھر دم پکڑ کر نکالا جا رہا ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تو جس طرح دم پکڑ کر اونٹ کا نکالنا ممکن نہیں ہے ایسے ہی متعصب شخص کا جہنم سے نکلنا بھی ناممکن ہوگا۔
عصبیت بالکل حرام ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا آپ چمڑے کے ایک خیمے میں تھے، آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٣) (صحیح )
عصبیت بالکل حرام ہے
واثلہ بن اسقع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اللہ کے رسول : عصبیت کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : عصبیت یہ ہے کہ تم اپنی قوم کا ظلم و زیادتی میں ساتھ دو ، اور ان کی مدد کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٧ (٣٩٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠٧) (ضعیف) (اس کی راویہ بنت واثلہ مجہول اور سلمہ لین الحدیث ہیں )
عصبیت بالکل حرام ہے
سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا تو کہا : تم میں بہتر وہ شخص ہے، جو اپنے خاندان کا دفاع کرے، جب تک کہ وہ (اس دفاع سے) کسی گناہ کا ارتکاب نہ کر رہا ہو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ایوب بن سوید ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٨١٧) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کردیا کہ ایوب بن سوید ضعیف ہیں )
عصبیت بالکل حرام ہے
جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عصبیت کی طرف بلائے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیاد پر لڑائی لڑے، اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو تعصب کا تصور لیے ہوئے مرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣١٨٨) (ضعیف) (عبداللہ بن ابی سلیمان کا سماع جبیر بن مطعم سے نہیں ہے )
عصبیت بالکل حرام ہے
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قوم کی بہن کا لڑکا یعنی بھانجا اسی قوم کا ایک فرد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٩١٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٦) (صحیح )
عصبیت بالکل حرام ہے
ابوعقبہ (رض) سے روایت ہے وہ فارس کے رہنے والے اور عرب کے غلام تھے، وہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھا میں نے ایک مشرک شخص کو مارا اور بول اٹھا : یہ لے میرا وار، میں ایک فارسی جوان ہوں ١ ؎ (میری آواز سن کر) رسول اللہ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے، آپ نے فرمایا : ایسا کیوں نہ کہا ؟ یہ لے میرا وار، میں انصاری جوان ہوں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٣ (٢٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٥) (ضعیف) اس کے راوی عبدالرحمن لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ جملہ انہوں نے اظہار شجاعت کے لئے کہا۔ ٢ ؎ : کیونکہ قوم کا مولیٰ (آزاد کردہ غلام) اسی قوم ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔
محبت کرنے والے کا محبوب سے کہنا کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں
مقدام بن معد یکرب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنے بھائی سے محبت رکھے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے بتادے کہ وہ اس سے محبت رکھتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الزہد ٥٣ (٢٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٠) (صحیح )
محبت کرنے والے کا محبوب سے کہنا کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا، اتنے میں ایک شخص اس کے سامنے سے گزرا تو اس شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : تم نے اسے یہ بات بتادی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اسے بتادو یہ سن کر وہ شخص اٹھا اور اس شخص سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ میں تم سے اللہ واسطے کی محبت رکھتا ہوں، اس نے کہا : تم سے وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم نے مجھ سے محبت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٤١) (حسن )
کسی کو نیکی کرتے دیکھ کر اس سے محبت کرنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ایک شخص ایک قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسا عمل نہیں کر پاتا ؟ آپ نے فرمایا : اے ابوذر ! تو اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو تو انہوں نے کہا : میں تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، تو آپ نے فرمایا : تم اسی کے ساتھ ہو گے، جس سے تم محبت رکھتے ہو ابوذر نے پھر یہی کہا : تو رسول اللہ ﷺ نے پھر وہی دہرایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٩٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٦، ١٦٦، ١٧٤، ١٧٥) ، دی/ الرقاق ٧١ (٢٨٢٩) (صحیح الإسناد )
کسی کو نیکی کرتے دیکھ کر اس سے محبت کرنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو کسی چیز سے اتنا خوش ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا جتنا وہ اس بات سے خوش ہوئے کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! آدمی ایک آدمی سے اس کے بھلے اعمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور وہ خود اس جیسا عمل نہیں کر پاتا، تو آپ نے فرمایا : آدمی اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے اس نے محبت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٦ (٣٦٨٨) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٧) ، ٩٦ (٦١٧١) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٥٠ (٢٦٣٩) ، سنن الترمذی/الزھد ٥٠ (٣٢٨٦) ، مسند احمد (٣ /١٠٤، ١١٠، ١٦٥، ١٦٨، ١٧٢، ١٧٣، ١٧٨، ٢٠٠، ٢٢١، ٢٢٨، ٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : جنت میں اس نیک آدمی کے ساتھ ہوگا، اس لئے نیک لوگوں سے محبت رکھنی چاہیے۔
کسی کو نیکی کرتے دیکھ کر اس سے محبت کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس سے مشورہ طلب کیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٥٧ (٢٨٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٣٧ (٣٧٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨٩) (صحیح )
نیکی کی رہنمائی کرنا بجائے خود نیکی ہے
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری سواری تھک گئی ہے مجھے کوئی سواری دے دیجئیے، آپ نے فرمایا : میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر تجھے سوار کرا سکوں لیکن تم فلاں شخص کے پاس جاؤ شاید وہ تمہیں سواری دیدے تو وہ شخص اس شخص کے پاس گیا، اس نے اسے سواری دے دی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا : جس نے کسی بھلائی کی طرف کسی کی رہنمائی کی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس کام کے کرنے والے کو ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٣) ، سنن الترمذی/العلم ١٤ (٢٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٠، ٥/٢٧٢، ٢٧٣، ٢٧٤) (صحیح )
خواہشات نفسانیہ کا بیان
ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارا کسی چیز سے محبت کرنا تمہیں اندھا بہرہ بنا دیتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٤، ٦/٤٥٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابوبکر بن ابی مریم ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی محب کو محبوب کے عیوب نظر نہیں آتے، اور نہ ہی اس کی ناگوار باتیں اسے ناگوار لگتی ہیں۔ ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارا کسی چیز سے محبت کرنا تمہیں اندھا بہرہ بنا دیتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٤، ٦/٤٥٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابوبکر بن ابی مریم ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی محب کو محبوب کے عیوب نظر نہیں آتے، اور نہ ہی اس کی ناگوار باتیں اسے ناگوار لگتی ہیں۔
سفارش کا بیان
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے سفارش کرو تاکہ تم کو (سفارش کا) ثواب ملے، اور فیصلہ اللہ اپنے نبی کی زبان سے کرے گا جو اسے منظور ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٢) ، الأدب ٣٦ (٦٠٢٧) ، ٣٧ (٦٠٢٨) ، التوحید ٣١ (٧٤٧٦) ، صحیح مسلم/البر ٤٤ (٢٦٢٧) ، سنن الترمذی/العلم ١٤ (٢٦٧٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٥ (٢٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤٠٩، ٤١٣) (صحیح )
سفارش کا بیان
معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ سفارش کرو، اجر پاؤ گے، میں کسی معاملے کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں، تو اسے مؤخر کردیتا ہوں، تاکہ تم سفارش کر کے اجر کے مستحق بن جاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : سفارش کرو تم اجر پاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٦٥ (٢٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٧) (صحیح )
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔
خط میں اپنا نام پہلے لکھنا چاہیے
علاء کے کسی بیٹے سے روایت ہے کہ علاء بن حضرمی نبی اکرم ﷺ کی طرف سے بحرین (علاقہ احساء) کے گورنر تھے، وہ جب آپ کو کوئی تحریر لکھ کر بھیجتے تو اپنے نام سے شروع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٩) (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے )
خط میں اپنا نام پہلے لکھنا چاہیے
علاء یعنی ابن حضرمی سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو لکھا تو پہلے اپنا نام لکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٩) (ضعیف) (اس کے راوی ابن العلاء مبہم ہے )
ذمی (کافر) کو کیسے خط لکھا جائے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہرقل کے نام خط لکھا : اللہ کے رسول محمد کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام، سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ محمد بن یحییٰ کی روایت میں ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوسفیان نے ان سے کہا کہ ہم ہرقل کے پاس گئے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا، پھر رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا تو اس میں لکھا تھا : بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى أما بعد۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ١ (٧) ، الجھاد ١٠٢ (٢٩٧٨) ، تفسیر سورة آل عمران ٤ (٤٥٥٣) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٧ (١٧٧٣) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٢٤ (٢٧١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٥٠، ٥٨٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٢، ٢٦٣) (صحیح )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیٹا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے غلام پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٦ (١٥١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٨ (١٩٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١ (٣٦٥٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٣٧٦، ٤٤٥) (صحیح )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر (رض) کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو ، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسے طلاق دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ١٣ (١١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٦ (٢٠٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠، ٤٢، ٥٣، ١٧٥) (صحیح )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
معاویہ بن حیدہ قشیری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنی ماں کے ساتھ، پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھر جو قریبی رشتہ دار ہوں ان کے ساتھ، پھر جو اس کے بعد قریب ہوں ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے غلام سے وہ مال مانگے، جو اس کی حاجت سے زیادہ ہو اور وہ اسے نہ دے تو قیامت کے دن اس کا وہ فاضل مال جس کے دینے سے اس نے انکار کیا ایک گنجے سانپ کی صورت میں اس کے سامنے لایا جائے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : أقرع سے وہ سانپ مراد ہے جس کے سر کے بال زہر کی تیزی کے سبب جھڑ گئے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ١ (١٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣، ٥) (حسن صحیح )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
بکر بن حارث (کلیب کے دادا) (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں کس کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں، اور اپنے باپ، اور اپنی بہن اور اپنے بھائی کے ساتھ، اور ان کے بعد اپنے غلام کے ساتھ، یہ ایک واجب حق ہے، اور ایک جوڑنے والی (رحم) قرابت داری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٦٥) (ضعیف) (اس کی سند میں کلیب کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور ابن حجر نے مقبول لکھا ہے، اصل حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، چاہے اس حدیث کی سند پر ضعف کا حکم ہی لگا دیا جائے، جیسا کہ شیخ ناصر نے کیا ہے) ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود، الارواء (٨٣٧ )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (بڑے گناہوں) میں سے ایک بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت بھیجے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیج سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک شخص کسی شخص کے باپ پر لعنت بھیجتا ہے، تو وہ شخص (جواب میں) اس کے باپ پر لعنت بھیجتا ہے، یا ایک شخص کسی شخص کی ماں پر لعنت بھیجتا ہے تو وہ اس کے جواب میں اس کی ماں پر لعنت بھیجتا ہے (اس طرح وہ گویا خود ہی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٤ (٥٩٧٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٩٠) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٤ (١٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦١٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٩٥، ٢١٤، ٢١٦) (صحیح )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
ابواسید مالک بن ربیعہ ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ کے مرجانے کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ہے، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت و اقرار کو نافذ کرنا، جو رشتے انہیں کی وجہ سے جڑتے ہیں، انہیں جوڑے رکھنا، ان کے دوستوں کی خاطر مدارات کرنا (ان حسن سلوک کی یہ مختلف صورتیں ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٢ (٣٦٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٧) (ضعیف) (اس کے راوی علی بن عبید لین الحدیث ہیں )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤ (٢٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٥ (١٩٠٣) (صحیح )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
ابوالطفیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جعرانہ میں گوشت تقسیم کرتے دیکھا، ان دنوں میں لڑکا تھا، اور اونٹ کی ہڈیاں ڈھو رہا تھا، کہ اتنے میں ایک عورت آئی، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے قریب ہوگئی، آپ نے اس کے لیے اپنی چادر بچھا دی، جس پر وہ بیٹھ گئی، ابوطفیل کہتے ہیں : میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے کہا : یہ آپ کی رضاعی ماں ہیں، جنہوں نے آپ کو دودھ پلایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٠٥٣) (ضعیف الإسناد) (اس میں راوی جعفر لین الحدیث، اور عمارہ مجہول الحال ہیں )
والدین سے حسن سلوک کا بیان
عمر بن سائب کا بیان ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں آپ کے رضاعی باپ آئے، آپ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا ایک کونہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئے، پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں آپ نے ان کے لیے اپنے کپڑے کا دوسرا کنارہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئیں، پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے سامنے بٹھایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٤١) (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں اخیر سے کم سے کم دو راوی ساقط ہیں، عمر بن سائب تبع تابعی ہیں )
یتیموں کی کفالت کی فضیلت کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس کوئی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اسے کمتر جانے، نہ لڑکے کو اس پر فوقیت دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ ابن عباس کہتے ہیں : ولده سے مراد جنس ذکور ہے، لیکن عثمان (راوی) نے ذکور کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٣) (ضعیف) (اس کے راوی ابن حدیر مجہول الحال ہیں )
یتیموں کی کفالت کی فضیلت کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے تین بچیوں کی کفالت کی، انہیں ادب، تمیز و تہذیب سکھائی (حسن معاشرت کی تعلیم دی) ان کی شادیاں کردیں، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا، تو اس کے لیے جنت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ١٣ (١٩١٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢، ٩٧) (ضعیف) (اس کے راوی سعید الأعشی لین الحدیث ہیں )
یتیموں کی کفالت کی فضیلت کا بیان
سہل سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ تین بہنیں ہوں، یا تین بیٹیاں، یا دو بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٩) (ضعیف) (سعید الأعشی کے سبب یہ روایت بھی ضعیف ہے )
یتیموں کی کفالت کی فضیلت کا بیان
عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور بیوہ عورت جس کے چہرے کی رنگت زیب و زینت سے محرومی کے باعث بدل گئی ہو دونوں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے (یزید نے کلمے کی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا) عورت جو اپنے شوہر سے محروم ہوگئی ہو، منصب اور جمال والی ہو اور اپنے بچوں کی حفاظت و پرورش کی خاطر دوسری شادی نہ کرے یہاں تک کہ وہ بڑے ہوجائیں یا وفات پاجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٩١١) ، وقد أخرجہ : حم (٦/٢٦، ٢٩) (ضعیف) ( اس کے راوی نھ اس ضعیف ہیں )
کسی یتیم کی پرورش کا ضامن ہونا باعث فضیلت ہے
سہل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے آپ نے بیچ کی، اور انگوٹھے سے قریب کی انگلی، کو ملا کر دکھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢٥ (٥٣٠٣) ، الأدب ٢٤ (٦٠٠٥) ، سنن الترمذی/ البر والصلة ١٤ (١٩١٨) ، تحفة الأشراف : ٤٧١٠) ، مسند احمد (٥/٣٣٣) (صحیح )
پڑوسی کے حقوق کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جبرائیل مجھے برابر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں (دل میں) کہنے لگا کہ وہ ضرور اسے وارث بنادیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٢٨ (٦٠١٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٢ (٢٦٢٤) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٢٨ (١٩٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤ (٣٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩١، ١٢٥، ٢٣٨) (صحیح )
پڑوسی کے حقوق کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو (گھر والوں) سے کہا : کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو ہدیہ بھیجا (نہ بھیجا ہو تو بھیج دو ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے : جبرائیل مجھے برابر پڑوسی، کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان گزرا کہ وہ اسے وارث بنادیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٢٩ (١٩٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٠) (صحیح )
پڑوسی کے حقوق کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کی شکایت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا : جاؤ صبر کرو پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا : جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کر دو تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا، لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑوسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ (سن کر) اس پر لعنت کرنے اور اسے بد دعا دینے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا : اب آپ (گھر میں) واپس آجائے آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے جو آپ کو ناپسند ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤١٤١) (حسن صحیح )
پڑوسی کے حقوق کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ اور یوم آخرت (قیامت) پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٨٥ (٦١٣٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٩ (٤٧) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٥٠ (٢٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧١) ، مسند احمد (٢/٢٦٧، ٢٦٩، ٤٣٣، ٤٦٣) (صحیح )
پڑوسی کے حقوق کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے پہلے کس کے ساتھ احسان کروں ؟ آپ نے فرمایا : ان دونوں میں سے جس کا دروازہ قریب ہو اس کے ساتھ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشفعة ٣ (٢٢٥٩) ، الھبة ١٦ (٢٥٩٥) ، الأدب ٣٢ (٦٠٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٦/١٧٥، ١٩٣، ٢٣٩) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری بات (انتقال کے موقع پر) یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا، نماز کا خیال رکھنا، اور جو تمہاری ملکیت میں (غلام اور لونڈی) ہیں ان کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الوصایا ١ (٢٦٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٨) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر کو ربذہ (مدینہ کے قریب ایک گاؤں) میں دیکھا وہ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے غلام کے بھی (جسم پر) اسی جیسی چادر تھی، معرور بن سوید کہتے ہیں : تو لوگوں نے کہا : ابوذر ! اگر تم وہ (چادر) لے لیتے جو غلام کے جسم پر ہے اور اپنی چادر سے ملا لیتے تو پورا جوڑا بن جاتا اور غلام کو اس چادر کے بدلے کوئی اور کپڑا پہننے کو دے دیتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) اس پر ابوذر نے کہا : میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اس کی ماں کے غیر عربی ہونے کا اسے طعنہ دیا، اس نے میری شکایت رسول اللہ ﷺ سے کردی، تو آپ نے فرمایا : ابوذر ! تم میں ابھی جاہلیت (کی بو باقی) ہے وہ (غلام، لونڈی) تمہارے بھائی بہن، ہیں (کیونکہ سب آدم کی اولاد ہیں) ، اللہ نے تم کو ان پر فضیلت دی ہے، (تم کو حاکم اور ان کو محکوم بنادیا ہے) تو جو تمہارے موافق نہ ہو اسے بیچ دو ، اور اللہ کی مخلوق کو تکلیف نہ دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٢ (٣٠) ، العتق ١٥ (٢٥٤٥) ، الأدب ٤٤ (٦٠٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ١٠ (١٦٦١) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٢٩ (١٩٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٠ (٣٦٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٥٨، ١٦١، ١٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : لہٰذا میں اپنے اس عمل سے اسے تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے ناراض رہے۔
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
معرور بن سوید کہتے ہیں کہ ہم ابوذر (رض) کے پاس ربذہ میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے جسم پر ایک چادر ہے اور ان کے غلام پر بھی اسی جیسی چادر ہے، تو ہم نے کہا : ابوذر ! اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیتے، تو آپ کا پورا جوڑا ہوجاتا، اور آپ اسے کوئی اور کپڑا دے دیتے۔ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : یہ (غلام اور لونڈی) تمہارے بھائی (اور بہن) ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت کیا ہے، تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو تو اس کو وہی کھلائے جو خود کھائے اور وہی پہنائے جو خود پہنے، اور اسے ایسے کام کرنے کے لیے نہ کہے جسے وہ انجام نہ دے سکے، اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بنائے جو اس کے بس کا نہ ہو تو خود بھی اس کام میں لگ کر اس کا ہاتھ بٹائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن نمیر نے اعمش سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٠) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا اتنے میں میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی : اے ابومسعود ! جان لو، اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت و اختیار رکھتا ہے جتنا تم اس (غلام) پر رکھتے ہو، یہ آواز دو مرتبہ سنائی پڑی، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ نبی اکرم ﷺ تھے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے، آپ نے فرمایا : اگر تم اسے (آزاد) نہ کرتے تو آگ تمہیں لپٹ جاتی یا آگ تمہیں چھو لیتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٨ (١٦٥٩) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٣٠ (١٩٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٠، ٥/٢٧٣، ٢٧٤) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
اس سند سے بھی اعمش سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طرح مروی ہے، اس میں یہ ہے کہ میں اپنے ایک کالے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا، اور انہوں نے آزاد کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٩) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو تمہارے موافق ہوں تو انہیں وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اور جو تمہارے موافق نہ ہوں، انہیں بیچ دو ، اللہ کی مخلوق کو ستاؤ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٦٨، ١٧٣) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
رافع بن مکیث (رض) سے روایت ہے (یہ ان صحابہ میں سے تھے جو صلح حدیبیہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شریک تھے) وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : غلام و لونڈی کے ساتھ اچھے ڈھنگ سے پیش آنا برکت ہے اور بدخلقی، نحوست ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٩، ١٨٤٨٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠٢) (ضعیف) (اس کے رواة عثمان جھنی اور بعض بنی رافع دونوں مجہول ہیں )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
رافع بن مکیث سے روایت ہے، اور رافع قبیلہ جہنیہ سے تعلق رکھتے تھے اور صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غلام و لونڈی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا برکت اور بدخلقی نحوست ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٩، ١٨٤٨٠) (ضعیف) (بقیہ ضعیف، عثمان، محمد اور حارث سب مجہول الحال ہیں )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں، آپ (سن کر) چپ رہے، پھر اس نے اپنی بات دھرائی، آپ پھر خاموش رہے، تیسری بار جب اس نے اپنی بات دھرائی تو آپ نے فرمایا : ہر دن ستر بار اسے معاف کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٣١ (١٩٤٩) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی توبہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائی اور وہ اس الزام سے بری ہے، تو قیامت کے دن اس پر حد قذف لگائی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحدود ٤٥ (٦٨٥٨) ، صحیح مسلم/الأیمان ٩ (١٦٦٠) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٣٠ (١٩٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٣١، ٤٩٩) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ ہم سوید بن مقرن (رض) کے گھر اترے، ہمارے ساتھ ایک تیز مزاج بوڑھا تھا اور اس کے ساتھ اس کی ایک لونڈی تھی، اس نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا تو میں نے سوید کو جتنا سخت غصہ ہوتے ہوئے دیکھا اتنا کبھی نہیں دیکھا تھا، انہوں نے کہا : تیرے پاس اسے آزاد کردینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، تو نے ہمیں دیکھا ہے کہ ہم مقرن کے سات بیٹوں میں سے ساتویں ہیں، ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا، سب سے چھوٹے بھائی نے (ایک بار) اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا تو نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس کے آزاد کردینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٨ (١٦٥٨) ، سنن الترمذی/النذور ١٤ (١٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٨، ٥/٤٤٨) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
معاویہ بن سوید بن مقرن کہتے ہیں میں نے اپنے ایک غلام کو طمانچہ مار دیا تو ہمارے والد نے ہم دونوں کو بلایا اور اس سے کہا کہ اس سے قصاص (بدلہ) لو، ہم مقرن کی اولاد نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں سات نفر تھے اور ہمارے پاس صرف ایک خادم تھا، ہم میں سے ایک نے اسے طمانچہ مار دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے آزاد کر دو لوگوں نے عرض کیا : اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی خادم نہیں ہے، آپ نے فرمایا : اچھا جب تک یہ لوگ غنی نہ ہوجائیں تم ان کی خدمت کرتے رہو، اور جب یہ لوگ غنی ہوجائیں تو وہ لوگ اسے آزاد کردیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦٧١٧) (صحیح )
غلام وباندی کے حقوق کا بیان
زاذان کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پاس آیا، آپ نے اپنا ایک غلام آزاد کیا تھا، آپ نے زمین سے ایک لکڑی یا کوئی (معمولی) چیز لی اور کہا : اس میں مجھے اس لکڑی بھر بھی ثواب نہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو تھپڑ لگائے یا اسے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأیمان ٨ (١٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٧١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥، ٤٥، ٦١) (صحیح )
غلام اگر اپنے مالک سے خیرخواہی کرے تو اسے بڑا اجر ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرے تو اسے دہرا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ١٦ (٢٥٤٦) ، ١٧ (٢٥٥٠) ، صحیح مسلم/الأیمان ١١ (١٦٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠، ١٠٢، ١٤٢) (صحیح )
غلام کو آقا کے خلاف بھڑکانے والا سخت گناہ گار ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی کی بیوی یا غلام و لونڈی کو (اس کے شوہر یا مالک کے خلاف) ورغلائے تو وہ ہم میں سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (٢١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨١٧) (صحیح )
اجازت لینے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے کسی ایک کمرے سے جھانکا تو آپ تیر کا ایک یا کئی پھل لے کر اس کی طرف بڑھے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کی آپ اس کی طرف اس طرح بڑھ رہے ہیں کہ وہ جان نہ پائے تاکہ اسے گھونپ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١١ (٦٢٤٢) ، الدیات ١٥ (٦٩٠٠) ، ٢٣ (٦٩٢٥) ، صحیح مسلم/الآداب ٩ (٢١٥٧) ، سنن النسائی/القسامة ٤٠ (٤٨٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ١٧ (٢٧٠٨) ، مسند احمد (٣ /١٠٨، ١٤٠، ٢٣٩، ٢٤٢) (صحیح )
اجازت لینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو کسی قوم کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکے اور وہ لوگ اس کی آنکھ پھوڑ دیں تو اس کی آنکھ رائیگاں گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الآداب ٩ (٢٥٦٣) ، سنن النسائی/القسامة ٤١ (٤٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٦، ٤١٤، ٥٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اسے کوئی تاوان یا بدل نہیں دینا پڑے گا۔ بعضوں نے کہا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب اس نے اسے روکا ہو اور وہ نہ رکا ہو اور بعض علماء نے کہا ہے کہ تاوان دینا پڑے گا کیونکہ کسی کے گھر میں جھانکنا اس میں بلا اجازت داخل ہونے سے بڑا گناہ نہیں اور بلا اجازت داخل ہونے سے جب آنکھ نہیں پھوڑی جاسکتی تو صرف جھانکنے سے بدرجہ اولیٰ نہیں پھوڑی جاسکتی ان لوگوں نے حدیث کو مبالغة في الزجر پر محمول کیا ہے۔
اجازت لینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نگاہ اندر پہنچ گئی تو پھر اجازت کا کوئی مطلب ہی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤٨٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٦) (ضعیف) (اس کے راوی کثیر بن زید ضعیف ہیں )
اجازت لینے کا بیان
ہزیل کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، (عثمان کی روایت میں ہے کہ وہ سعد بن ابی وقاص تھے) تو وہ نبی اکرم ﷺ کے دروازے پر اجازت طلب کرنے کے لیے رکے اور دروازے پر یا دروازے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئے، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : تمہیں اس طرح کھڑا ہونا چاہیئے یا اس طرح ؟ (یعنی دروازہ سے ہٹ کر) کیونکہ اجازت کا مقصود نظر ہی کی اجازت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٩٤٦) (صحیح ) سعد (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٤٦) (صحیح )
None
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
اجازت لینے کا بیان
کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ صفوان بن امیہ (رض) نے انہیں دودھ، ہرن کا بچہ اور چھوٹی چھوٹی ککڑیاں دے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، اس وقت آپ مکہ کے اونچائی والے حصہ میں تھے، میں آپ کے پاس گیا، اور آپ کو سلام نہیں کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوٹ کر (باہر) جاؤ اور (پھر سے آ کر) السلام علیکم کہو، یہ واقعہ صفوان بن امیہ کے اسلام قبول کرلینے کے بعد کا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ١٨ (٢٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٤) (صحیح )
None
اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی آپ گھر میں تھے تو کہا: «ألج» ( کیا میں اندر آ جاؤں ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم سے فرمایا: تم اس شخص کے پاس جاؤ اور اسے اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ اور اس سے کہو السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ اس آدمی نے یہ بات سن لی اور کہا: السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اور وہ اندر آ گیا۔
اجازت لینے کا بیان
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ بنی عامر کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے اجازت مانگی، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح ہم سے مسدد نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ہے انہوں نے منصور سے اور منصور نے ربعی سے روایت کیا ہے، انہوں نے عن رجل من بني عامر نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٢، ١٨٦٣٠) (صحیح )
اجازت لینے کا بیان
بنو عامر کے ایک شخص سے روایت ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ سے اجازت طلب کی، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، اس میں ہے : میں نے اسے سن لیا تو میں نے کہا : السلام علیکم کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٢، ١٨٦٣٠) (صحیح )
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ (رض) گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا : کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : مجھے عمر (رض) نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دوبارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا : تم میرے پاس کیوں نہیں آئے ؟ میں نے کہا : میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی تین بار اندر آنے کی اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے تو وہ لوٹ جائے (یہ سن کر) عمر (رض) نے کہا : تم اس بات کے لیے گواہ پیش کرو، اس پر ابوسعید نے کہا : (اس کی گواہی کے لیے تو) تمہارے ساتھ قوم کا ایک معمولی شخص ہی جاسکتا ہے، پھر ابوسعید ہی اٹھ کر ابوموسیٰ کے ساتھ گئے اور گواہی دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٩ (٢٠٦٢) ، الاستئذان ١٣ (٦٢٤٥) ، صحیح مسلم/الآداب ٧ (٢١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٣ (٢٦٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٧ (٣٧٠٦) ، موطا امام مالک/الاستئذان ١ (٣) ، مسند احمد (٤/٣٩٨) ، دي /الاستئذان ١ (٢٦٧١) (صحیح )
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ وہ عمر (رض) کے پاس آئے، اور ان سے اندر آنے کی اجازت تین مرتبہ مانگی : ابوموسیٰ اجازت کا طلب گار ہے، اشعری اجازت مانگ رہا ہے، عبداللہ بن قیس اجازت مانگ رہا ہے ١ ؎ انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، تو عمر (رض) نے بلانے کے لیے بھیجا (جب وہ آئے) تو پوچھا : لوٹ کیوں گئے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : تم میں سے ہر کوئی تین بار اجازت مانگے، اگر اسے اجازت دے دی جائے (تو اندر چلا جائے) اور اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جائے، عمر (رض) نے کہا : اس بات کے لیے گواہ پیش کرو، وہ گئے اور (ابی بن کعب (رض) کو لے کر) واپس آئے اور کہا یہ ابی (گواہ) ہیں ٢ ؎، ابی نے کہا : اے عمر ! رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے لیے باعث عذاب نہ بنو تو عمر نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے لیے باعث اذیت نہیں ہوسکتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الآداب ٧ (٢١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٨) (حسن الإسناد) (اس کے راوی طلحہ سے غلطی ہوجایا کرتی تھی، ویسے پچھلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ابوموسیٰ اشعری کا نام عبداللہ بن قیس ہے، آپ نے نام سے، کنیت سے، قبیلہ کی طرف نسبت سے، تینوں طریقوں سے اجازت مانگی۔ ٢ ؎ : اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ شاہد ابوسعید تھے اور اس میں ہے ابی بن کعب تھے دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ ابوسعید خدری نے پہلے گواہی دی اس کے بعد ابی بن کعب آئے اور انہوں نے بھی گواہی دی۔
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ (رض) نے عمر (رض) سے اجازت مانگی، پھر راوی نے یہی قصہ بیان کیا، اس میں ہے یہاں تک کہ ابوموسیٰ ابو سعید خدری (رض) کو لے کر آئے، اور انہوں نے گواہی دی، عمر (رض) نے کہا رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مجھ سے پوشیدہ رہ گئی، بازاروں کی خریدو فروخت اور تجارت کے معاملات نے اس حدیث کی آگاہی سے مجھے غافل و محروم کردیا، (اب تمہارے لیے اجازت ہے) سلام جتنی بار چاہو کرو، اندر آنے کے لیے اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٤٦) (صحیح) (لیکن آخری ٹکڑا جتنی بار چاہو ... صحیح نہیں ہے، اور یہ صحیحین میں ہے بھی نہیں )
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
اس سند سے بھی ابوموسیٰ (رض) سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ عمر (رض) نے ابوموسیٰ سے کہا : میں تم پر (جھوٹی حدیث بیان کرنے کا) اتہام نہیں لگاتا، لیکن رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے کا معاملہ سخت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٥١٨١) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٤) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : حدیث کو روایت کرنے میں بڑی احتیاط اور ہوشیاری لازم ہے، ایسا نہ ہو کہ بھول چوک ہوجائے یا غلط فہمی سے الفاظ بدلنے میں مطلب کچھ کا کچھ ہوجائے۔
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن اور دوسرے بہت سے علماء سے اس سلسلہ میں مروی ہے عمر (رض) نے ابوموسیٰ اشعری (رض) سے کہا : میں نے تمہیں جھوٹا نہیں سمجھا لیکن میں ڈرا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر کے جھوٹی حدیثیں نہ بیان کرنے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٠) (صحیح الإسناد )
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
قیس بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر ملاقات کے لیے تشریف لائے (باہر رک کر) السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، سعد (رض) نے دھیرے سے سلام کا جواب دیا، قیس کہتے ہیں : میں نے (سعد سے) کہا : آپ رسول اللہ ﷺ کو اندر تشریف لانے کی اجازت کیوں نہیں دیتے ؟ سعد نے کہا چھوڑو (جلدی نہ کرو) ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ کو سلامتی کی دعا زیادہ کرلینے دو ، رسول اللہ ﷺ نے پھر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، سعد نے پھر دھیرے سے سلام کا جواب دیا، پھر تیسری بار رسول اللہ ﷺ نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ (اور جواب نہ سن کر) لوٹ پڑے، تو سعد نے لپک کر آپ کا پیچھا کیا اور آپ کو پا لیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ کا سلام سنتے تھے، اور دھیرے سے آپ کے سلام کا جواب دیتے تھے، خواہش یہ تھی کہ اس طرح آپ کی سلامتی کی دعا ہمیں زیادہ حاصل ہوجائے تب رسول اللہ ﷺ سعد کے ساتھ لوٹ آئے، اور اپنے گھر والوں کو رسول اللہ ﷺ کے غسل کے لیے (پانی وغیرہ کی فراہمی و تیاری) کا حکم دیا، تو آپ نے غسل فرمایا، پھر سعد نے رسول اللہ ﷺ کو زعفران یا ورس میں رنگی ہوئی ایک چادر دی جسے آپ نے لپیٹ لیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، آپ دعا فرما رہے تھے : اے اللہ ! سعد بن عبادہ کی اولاد پر اپنی برکت و رحمت نازل فرما پھر آپ نے کھانا کھایا، اور جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو سعد نے ایک گدھا پیش کیا جس پر چادر ڈال دی گئی تھی، رسول اللہ ﷺ اس پر سوار ہوگئے، تو سعد نے کہا : اے قیس ! تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا، قیس کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم بھی سوار ہوجاؤ تو میں نے انکار کیا، آپ نے فرمایا : سوار ہوجاؤ ورنہ واپس جاؤ ۔ قیس کہتے ہیں : میں لوٹ آیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عمر بن عبدالواحد اور ابن سماعۃ نے اوزاعی سے مرسلاً روایت کیا ہے اور ان دونوں نے اس میں قیس بن سعد کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٠٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٩ (٤٦٦) ، اللباس ٢٢ (٣٦٠٤) ، مسند احمد (٣/٤٢١، ٦/٧) (ضعیف الإسناد )
اجازت لیتے وقت کتنی بار السلام علیکم کہنا چاہیے
عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کے دروازے پر آتے تو دروازہ کے سامنے منہ کر کے نہ کھڑے ہوتے بلکہ دروازے کے چوکھٹ کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، اور کہتے : السلام علیکم، السلام علیکم یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں دروازوں پر پردے نہیں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٥٢٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٩) (صحیح )
اجازت لیتے وقت دروازہ کھٹکھٹانے کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے قرضے کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آپ نے پوچھا : کون ہے ؟ میں نے کہا : میں ہوں آپ نے فرمایا : میں، میں (کیا ؟ ) گویا کہ آپ نے (اس طرح غیر واضح جواب دینے) کو برا جانا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٧ (٦٢٥٠) ، صحیح مسلم/الآداب ٨ (٢١٥٥) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١٨ (٢٧١١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٧ (٣٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٨، ٣٢٠، ٣٦٣) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٢ (٢٦٧٢) (صحیح )
اجازت لیتے وقت دروازہ کھٹکھٹانے کا بیان
نافع بن عبدالحارث (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ ایک (باغ کی) چہار دیواری میں داخل ہوا، آپ نے مجھ سے فرمایا : دروازہ بند کئے رہنا پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے پوچھا : کون ہے ؟ اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی ابوموسیٰ اشعری کی حدیث بیان کی ١ ؎ اس میں ضرب الباب کے بجائے فدق الباب کے الفاظ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مؤلف کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جسے مسلم نے اپنی صحیح میں عثمان (رض) کے فضائل میں روایت کیا ہے (آپ ﷺ ایک باغ میں گئے، ابوموسیٰ (رض) کو دربان بنایا، ابوبکر (رض) آئے، عمر (رض) آئے پھر عثمان آئے، پھر بیئر اریس نامی کنویں پر آپ بیٹھ گئے الی آخرہ )
جس شخص کو بلایا جائے کیا بلاواہی اس کی اجازت ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی آدمی کو بلا بھیجنا، ہی اس کی جانب سے اس کے لیے اجازت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٤٦٢) (صحیح )
جس شخص کو بلایا جائے کیا بلاواہی اس کی اجازت ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی آدمی کھانے کے لیے بلایا جائے اور وہ بلانے والا آنے والے کے ساتھ ہی آجائے تو یہ اس کے لیے اجازت ہے (پھر اسے اجازت لینے کی ضرورت نہیں) ۔ ابوعلی لؤلؤی کہتے ہیں : میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا : کہ قتادہ نے ابورافع سے کچھ نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٦٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٣٣) (صحیح لغیرہ )
تین پوشیدہ اوقات میں استیذان کا حکم
عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ آیت استیذان پر اکثر لوگوں نے عمل نہیں کیا، لیکن میں نے تو اپنی لونڈی کو بھی حکم دے رکھا ہے کہ اسے بھی میرے پاس آنا ہو تو مجھ سے اجازت طلب کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح عطاء نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ اس کا (استیذان کا) حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٩) (صحیح الإسناد )
تین پوشیدہ اوقات میں استیذان کا حکم
عکرمہ سے روایت ہے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے کہا : ابن عباس ! اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس میں ہمیں حکم دیا گیا جو حکم دیا گیا لیکن اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، یعنی اللہ تعالیٰ کے قول يا أيها الذين آمنوا ليستأذنکم الذين ملکت أيمانکم والذين لم يبلغوا الحلم منکم ثلاث مرات من قبل صلاة الفجر وحين تضعون ثيابکم من الظهيرة ومن بعد صلاة العشاء ثلاث عورات لکم ليس عليكم ولا عليهم جناح بعدهن طوافون عليكم اے ایمان والو ! تمہارے غلاموں اور لونڈیوں کو اور تمہارے سیانے لیکن نابالغ بچوں کو تین اوقات میں تمہارے پاس اجازت لے کر ہی آنا چاہیئے نماز فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب تم کپڑے اتار کر آرام کے لیے لیٹتے ہو، بعد نماز عشاء یہ تینوں وقت پردہ پوشی کے ہیں ان تینوں اوقات کے علاوہ اوقات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ، اور وہ تمہارے پاس آئیں۔ (النور : ٥٨) قعنبی نے آیت عليم حكيم تک پڑھی۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : اللہ تعالیٰ حلیم (بردبار) ہے اور مسلمانوں پر رحیم (مہربان) ہے، وہ پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے، (یہ آیت جب نازل ہوئی ہے تو) لوگوں کے گھروں پر نہ پردے تھے، اور نہ ہی چلمن (سرکیاں) ، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی خدمت گار کوئی لڑکا یا کوئی یتیم بچی ایسے وقت میں آجاتی جب آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پردے دیے اور خیر (مال) سے نوازا، اس وقت سے میں نے کسی کو اس آیت پر عمل کرتے نہیں دیکھا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبیداللہ اور عطاء کی حدیث (جن کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے) اس حدیث کی تضعیف کرتی ہے۔ ٣ ؎ یعنی یہ حدیث ان دونوں احادیث کی ضد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١٨٠) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : پردے ڈال لینے اور دروازہ بند کرلینے کے بعد بالعموم اس کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور کوئی ایسے اوقات میں دوسروں کے خلوت کدوں میں جاتا نہ تھا۔ ٣ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) کی ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ اذن (اجازت) لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ نہ ہو اور عدم اذن اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ ہو۔
سلام کی کثرت کا حکم
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے : تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور تم (کامل) مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرنے لگو گے تو تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو : آپس میں سلام کو عام کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٣٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٢ (٥٤) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١ (٢٦٨٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٨) ، مسند احمد (١/١٦٥، ٢/٣٩١) (صحیح )
سلام کی کثرت کا حکم
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اسلام کا کون سا طریقہ بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : کھانا کھلانا اور ہر ایک کو سلام کرنا، تم چاہے اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٦ (١٢) ، ٢٠ (٢٨) ، والاستئذان ٩ (٦٢٣٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٣٩) ، سنن النسائی/الإیمان ١٢ (٥٠٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ١ (٣٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٢٧) ، وقد أخرجہ : حم (٢/١٦٩) (صحیح )
سلام کا صحیح طریقہ، الفاظ سلام کا بیان
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے السلام علیکم کہا، آپ نے اسے سلام کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کو دس نیکیاں ملیں پھر ایک اور شخص آیا، اس نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر وہ شخص بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا : اس کو بیس نیکیاں ملیں پھر ایک اور شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا، آپ نے اسے بھی جواب دیا، پھر وہ بھی بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا : اسے تیس نیکیاں ملیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٣ (٢٦٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٩، ٤٤٠) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٢ (٢٦٨٢) (صحیح )
سلام کا صحیح طریقہ، الفاظ سلام کا بیان
معاذ بن انس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں اتنا مزید ہے کہ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ تو آپ نے فرمایا : اسے چالیس نیکیاں ملیں گی، اور اسی طرح (اور کلمات کے اضافے پر) نیکیاں بڑھتی جائیں گی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٣٠٠) (ضعیف الإسناد) (راوی ابن ابی مریم نے نافع سے سماع میں شک کا اظہار کیا )
سلام میں پہل کرنے کی فضیلت
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے بہتر شخص وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٩٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٦ (٢٦٩٤) ، مسند احمد (٥/٢٥٤، ٢٦١، ٢٦٤) (صحیح )
کس کو سلام میں پہل کرنا چاہیے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھوٹا بڑے کو سلام کرے گا، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٧٩٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤ (٦٢٣١) ، صحیح مسلم/السلام ١ (٢١٦٠) ، سنن الترمذی/الاستئذان ١٤ (٢٧٠٣) ، مسند احمد (٢/٣١٤) (صحیح )
کس کو سلام میں پہل کرنا چاہیے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے گا پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الاستئذان ٥ (٦٢٣٢) ، ٦ (٦٢٣٣) ، صحیح مسلم/ السلام ١ (٢١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٢٥، ٥١٠) (صحیح )
ایک شخص دوسرے سے ذرا سی جدائی کے بعد پھر سلام کرنا چاہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے، پھر اگر ان دونوں کے درمیان درخت، دیوار یا پتھر حائل ہوجائے اور وہ اس سے ملے (ان کا آمنا سامنا ہو) تو وہ پھر اسے سلام کرے۔ معاویہ کہتے ہیں : مجھ سے عبدالوہاب بن بخت نے بیان کیا ہے انہوں نے ابوالزناد سے، ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے ہو بہو اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٣، ١٥٤٦٠) (صحیح )
ایک شخص دوسرے سے ذرا سی جدائی کے بعد پھر سلام کرنا چاہے
عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا : اللہ کے رسول ! السلام عليكم کیا عمر اندر آسکتا ہے ١ ؎؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی باب سے مناسبت واضح نہیں ہے ممکن ہے کہ اس کی توجیہ اس طرح کی جائے کہ مؤلف اس باب کے ذریعہ تسلیم کی چار صورتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے ملے اور سلام کرے پھر دونوں جدا ہوجائیں اور پھر دوبارہ ملیں تو کیا کریں، اس سلسلہ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ وہ جب بھی ملیں تو سلام کریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے ملے اور اسے سلام کرے پھر وہ اس سے جدا ہوجائے، پھر وہ اس کے گھر پر اس سے ملنے آئے تو اس کے لئے مناسب ہے کہ دوبارہ اسے سلام کرے یہ سلام سلام لقاء نہیں سلام استیٔذان ہوگا۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے اس کے گھر ملنے آیا اور اس نے اسے سلام استیٔذان کیا لیکن اسے اجازت نہیں ملی اور وہ لوٹ گیا، پھر وہ کچھ دیر کے بعد دوبارہ گھر پر ملنے آیا تو مناسب ہے کہ وہ دوبارہ سلام استیٔذان کرے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی آدمی سے اس کے گھر پر ملنے آیا اور سلام استیٔذان کیا لیکن اسے اجازت نہیں ملی اور وہ لوٹ گیا پھر دوبارہ آیا اور سلام استیٔذان کیا اور اسے اجازت مل گئی تو اندر جا کر وہ پھر سلام کرے اور یہ سلام سلام لقاء ہوگا، دوسری، تیسری اور چوتھی صورت پر مؤلف نے عمر (رض) کی اسی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ابوداود نے اسے مختصراً ذکر کیا ہے اور امام بخاری نے اسے کتاب انکاح اور کتاب المظالم میں مطوّلاً ذکر کیا ہے جس سے اس روایت کی باب سے مناسبت واضح ہوجاتی ہے۔
ایک شخص دوسرے سے ذرا سی جدائی کے بعد پھر سلام کرنا چاہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کچھ ایسے بچوں کے پاس آئے جو کھیل رہے تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤١١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ١٥ (٦٢٤٧) ، صحیح مسلم/السلام ٥ (٢١٦٨) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٨ (٢٦٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٤ (٣٧٠٠) ، مسند احمد (٣/١٦٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٨ (٢٦٧٨) (صحیح )
ایک شخص دوسرے سے ذرا سی جدائی کے بعد پھر سلام کرنا چاہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور میں ابھی ایک بچہ تھا، آپ نے ہمیں سلام کیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی کسی ضرورت سے مجھے بھیجا اور میرے لوٹ کر آنے تک ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے رہے، یا کہا : ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٣٩) (صحیح )
عورتوں کو سلام کرنے کا بیان
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ انہیں اسماء بنت یزید (رض) نے خبر دی ہے کہ ہم عورتوں کے پاس سے نبی اکرم ﷺ گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٩ (٢٦٩٧) ، سنن ابن ماجہ/ الآداب ١٤ (٣٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٥٢، ٤٥٧) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٩ (٢٦٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر عورتوں کی جماعت ہے تو انہیں سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن عورت اگر اکیلی ہے اور سلام کرنے والا اس کے لئے محرم نہیں ہے تو (فتنہ کے خدشہ نہ ہونے کی صورت میں) سلام نہ کرنا بہتر ہے، تاکہ فتنہ وغیرہ سے محفوظ رہے۔
ذمی کافروں کو سلام کرنے کا بیان
سہیل بن ابوصالح کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ شام گیا تو وہاں لوگوں (یعنی قافلے والوں) کا گزر نصاریٰ کے گرجا گھروں کے پاس سے ہونے لگا تو لوگ انہیں (اور ان کے پجاریوں کو) سلام کرنے لگے تو میرے والد نے کہا : تم انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ ابوہریرہ (رض) نے ہم سے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے، آپ نے فرمایا ہے : انہیں (یعنی یہود و نصاریٰ کو) سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو (یعنی ان پر اپنا دباؤ ڈالے رکھو وہ کونے کنارے سے ہو کر چلیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الاستئذان ١٢ (٢٧٠٠) ، مسند احمد (٢/٣٤٦، ٤٥٩) (صحیح )
ذمی کافروں کو سلام کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے اور وہ السام عليكم (تمہارے لیے ہلاکت ہو) کہے تو تم اس کے جواب میں وعليكم کہہ دیا کرو (یعنی تمہارے اوپر موت و ہلاکت آئے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے مالک نے عبداللہ بن دینار سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور ثوری نے بھی عبداللہ بن دینار سے وعليكم ہی کا لفظ روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٢٣ (٢٦٥٧) ، واستتابة المرتدین ٤ (٦٩٢٨) ، صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٤) ، سنن الترمذی/السیر ٤١ (١٦٠٣) ، موطا امام مالک/السلام ٢ (٣) ، مسند احمد (٢/١٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٧ (٢٦٧٧) (صحیح )
ذمی کافروں کو سلام کرنے کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب نے آپ سے عرض کیا : اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) ہم کو سلام کرتے ہیں ہم انہیں کس طرح جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا : تم لوگ وعليكم کہہ دیا کرو ابوداؤد کہتے ہیں : ایسے ہی عائشہ، ابوعبدالرحمٰن جہنی اور ابوبصرہ غفاری کی روایتیں بھی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٤ (٢١٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٢٢ (٦٢٥٧) ، استتابة المرتدین ٤ (٦٩٢٦) ، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ٥٨ (٣٣٠١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٣ (٣٦٩٧) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٣٨٦، ٣٨٧) ، مسند احمد (٣ /٩٩، ٢١٢، ٢١٨، ٢٢٢، ٢٧٣، ٢٧٧، ٣٠٩) (صحیح )
مجلس سے اٹھتے وقت سلام کرنا چاہیے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، اور پھر جب اٹھ کر جانے لگے تو بھی سلام کرے، کیونکہ پہلا دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں ہے (بلکہ دونوں کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ١٥ (٢٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٠، ٤٣٩) (حسن )
السلام علیک کے بجائے علیک السلام کہنا ناپسندیدہ ہے
ابوجری ہجیمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا : عليك السلام يا رسول الله آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا : عليك السلام مت کہو کیونکہ عليك السلام مردوں کا سلام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٢٨ (٢٧٢١) ، سنن النسائی/الیوم اللیلة (٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٦٣) (صحیح )
سب کی طرف سے ایک ہی آدمی جواب دے سکتا ہے
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے (ابوداؤد کہتے ہیں : حسن بن علی نے اسے مرفوع کیا ہے) ، وہ کہتے ہیں اگر جماعت گزر رہی ہو (لوگ چل رہے ہوں) تو ان میں سے کسی ایک کا سلام کرلینا سب کی طرف سے سلام کے لیے کافی ہوگا، ایسے ہی لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک سلام کا جواب دیدے تو وہ سب کی طرف سے کفایت کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٢٣١) (صحیح) (الإرواء : ٧٧٨، الصحیحة : ١١٤٨، ١٤١٢ ) وضاحت : ١ ؎ : اور اگر سبھی جواب دیں تو یہ افضل ہے۔
مصافحہ کرنے کا بیان
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان آپس میں ملیں پھر دونوں مصافحہ کریں ١ ؎، دونوں اللہ عزوجل کی تعریف کریں اور دونوں اللہ سے مغفرت کے طالب ہوں تو ان دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٩٣) (حسن لغیرہ) (اس کے راوی زید لین الحدیث ہیں، لیکن اگلی سند سے یہ روایت حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎ : مصافحہ صرف ملاقات کے وقت مسنون ہے، سلام کے بعد اور نماز کے بعد، مصافحہ کرنے کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے، یہ بدعت ہے۔
مصافحہ کرنے کا بیان
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان آپس میں ملتے اور دونوں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : سنن الترمذی/ الاستئذان ٣١ (٢٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٥ (٣٧٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٢٨٩، ٣٠٣) (حسن )
مصافحہ کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب یمن کے لوگ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس یمن کے لوگ آئے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مصافحہ کرنا شروع کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢١٢، ٢٥١) (صحیح) ( وهم أول من ... کا جملہ انس کا اپنا قول مدرج ہے )
گلے ملنے کا بیان
قبیلہ عنزہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ اس نے ابوذر (رض) سے جب وہ شام سے واپس لائے گئے کہا : میں آپ سے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پوچھنا چاہتا ہوں، انہوں نے کہا : اگر راز کی بات نہ ہوئی تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا، میں نے کہا : وہ راز کی بات نہیں ہے (پوچھنا یہ ہے) کہ جب آپ لوگ رسول اللہ ﷺ سے ملتے تھے تو کیا وہ آپ سے مصافحہ کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا : میری تو جب بھی رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے مصافحہ ہی فرمایا، اور ایک دن تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلا بھیجا، میں گھر پر موجود نہ تھا، پھر جب میں آیا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلا بھیجا تھا تو میں آپ کے پاس آیا اس وقت آپ اپنی چارپائی پر تشریف فرما تھے، تو آپ نے مجھے چمٹا لیا، یہ بہت اچھا اور بہت عمدہ (طریقہ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٦٣، ١٦٧) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے )
تعظیما کسی کے لئے کھڑے ہونا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جب قریظہ کے لوگ سعد کے حکم (فیصلہ) پر اترے تو نبی اکرم ﷺ نے سعد (رض) کو بلا بھیجا، وہ ایک سفید گدھے پر سوار ہو کر آئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنے سردار یا اپنے بہتر شخص کی طرف بڑھو پھر وہ آئے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٦٨ (٣٠٤٣) ، المناقب ١٢ (٣٨٠٤) ، المغازي ٣١ (٤١٢١) ، الاستئذان ٢٥ (٦٢٦٢) ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٢ (١٧٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٢) (صحیح )
تعظیما کسی کے لئے کھڑے ہونا
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : جب وہ مسجد سے قریب ہوئے تو آپ نے انصار سے فرمایا : اپنے سردار کی طرف بڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے قیام تعظیم کی بابت استدلال درست نہیں کیونکہ ترمذی میں انس (رض) کی یہ روایت موجود ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے پھر بھی لوگ آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ آپ کو یہ چیز پسند نہیں۔ دوسری جانب مسند احمد میں قوموا إلى سيدكم کے بعد فأنزلوه کا اضافہ ہے جو صحیح ہے اور اس امر میں صریح ہے کہ لوگوں کو سعد بن معاذ (رض) کے لئے کھڑے ہونے کا جو حکم ملا یہ کھڑا ہونا دراصل سعد (رض) کو اس زخم کی وجہ سے بڑھ کر اتارنے کے لئے تھا جو تیر کے لگنے سے ہوگیا تھا، نہ کہ یہ قیام تعظیم تھا۔
تعظیما کسی کے لئے کھڑے ہونا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے طور طریق اور چال ڈھال میں فاطمہ (رض) سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا (حسن کی روایت میں بات چیت میں کے الفاظ ہیں، اور حسن نے سمتا وهديا ودلا (طور طریق اور چال ڈھال) کا ذکر نہیں کیا ہے) وہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہو کر ان کی طرف لپکتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے، ان کو بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے، اور رسول اللہ ﷺ جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں، آپ کا ہاتھ تھام لیتیں، آپ کو بوسہ دیتیں، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ٦١ (٣٨٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٣، ١٨٠٤٠) (صحیح )
باپ کا اولاد کو (محبت میں) بوسہ دینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو حسین (حسین بن علی رضی اللہ عنہما) کو بوسہ لیتے دیکھا تو کہنے لگے : میرے دس لڑکے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی سے بھی ایسا نہیں کیا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی پر رحم نہیں کیا تو اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا (پیار و شفقت رحم ہی تو ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ١٥ (٢٣١٨) ، سنن الترمذی/البر والصلة ١٢ (١٩١١) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ١٧ (٥٩٩٣) ، مسند احمد (٢/٢٢٨، ٢٤١، ٢٦٩، ٥١٣) (صحیح )
باپ کا اولاد کو (محبت میں) بوسہ دینا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! خوش ہوجاؤ اللہ نے کلام پاک میں تیرے عذر سے متعلق آیت نازل فرما دی ہے اور پھر آپ نے قرآن پاک کی وہ آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں، تو اس وقت میرے والدین نے کہا : اٹھو اور رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک کو چوم لو، میں نے کہا : میں تو اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتی ہوں (کہ اس نے میری پاکدامنی کے متعلق آیتیں اتاریں) نہ کہ آپ دونوں کا (کیونکہ آپ دونوں کو بھی تو مجھ پر شبہ ہونے لگا تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة النور ٦ (٤٧٥٠) ، صحیح مسلم/التوبة ١٠ (٢٧٧٠) ، مسند احمد (٦/٥٩) (صحیح )
دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی) پر بوسہ دینے کا بیان
شعبی سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جعفر بن ابی طالب (رض) سے ملے تو انہیں چمٹا لیا (معانقہ کیا) اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٨٥٣) (ضعیف) (شعبی تابعی ہیں، اس لئے یہ روایت مرسل ہے )
رخسار پر بوسہ دینے کا بیان
ایاس بن دغفل کہتے ہیں کہ میں نے ابونضرہ کو دیکھا انہوں نے حسن بن علی (رض) کے گال پر بوسہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٩٣) (صحیح الإسناد )
رخسار پر بوسہ دینے کا بیان
براء (رض) کہتے ہیں کہ میں ابوبکر (رض) کے ساتھ آیا، پہلے پہل جب وہ مدینہ آئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی بیٹی عائشہ (رض) لیٹی ہوئی ہیں اور انہیں بخار چڑھا ہوا ہے تو ابوبکر (رض) ان کے پاس آئے، ان سے کہا : کیا حال ہے بیٹی ؟ اور ان کے رخسار کو چوما۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٥٨٨) (صحیح )
ہاتھ پر بوسہ دینے کا بیان
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے ان سے بیان کیا اور راوی نے ایک واقعہ ذکر کیا، اس میں ہے : تو ہم نبی اکرم ﷺ سے قریب ہوئے اور ہم نے آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٦٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٩٨) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں )
جسم کے کسی اور حصہ پر بوسہ دینا
اسید بن حضیر انصاری (رض) کہتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے اور وہ مسخرے والے آدمی تھے لوگوں کو ہنسا رہے تھے کہ اسی دوران نبی اکرم ﷺ نے ان کی کوکھ میں لکڑی سے ایک کو نچہ دیا، تو وہ بولے : اللہ کے رسول ! مجھے اس کا بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا : بدلہ لے لو تو انہوں نے کہا : آپ تو قمیص پہنے ہوئے ہیں میں تو ننگا تھا، اس پر نبی اکرم ﷺ نے اپنی قمیص اٹھا دی، تو وہ آپ سے چمٹ گئے، اور آپ کے پہلو کے بوسے لینے لگے، اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! میرا منشأ یہی تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥١) (صحیح الإسناد )
ٹانگ پر بوسہ دینے کا بیان
زارع سے روایت ہے، وہ وفد عبدالقیس میں تھے وہ کہتے ہیں جب ہم مدینہ پہنچے تو اپنے اونٹوں سے جلدی جلدی اترنے لگے اور نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں اور پیروں کا بوسہ لینے لگے، اور منذر اشج انتظار میں رہے یہاں تک کہ وہ اپنے کپڑے کے صندوق کے پاس آئے اور دو کپڑے نکال کر پہن لیے، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا : تم میں دو خصلتیں ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں : ایک بردباری اور دوسری وقار و متانت انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا یہ دونوں خصلتیں جو مجھ میں ہیں میں نے اختیار کیا ہے ؟ (کسبی ہیں) (یا وہبی) اللہ نے مجھ میں پیدائش سے یہ خصلتیں رکھی ہیں، آپ نے فرمایا : بلکہ اللہ نے پیدائش سے ہی تم میں یہ خصلتیں رکھی ہیں، اس پر انہوں نے کہا : اللہ تیرا شکر ہے جس نے مجھے دو ایسی خصلتوں کے ساتھ پیدا کیا جن دونوں کو اللہ اور اس کے رسول پسند فرماتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٦١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٠٦) (صحیح) (البانی صاحب نے پہلے فقرے کی تحسین کی ہے، اور ہاتھ اور پاؤں چومنے کو ضعیف کہا ہے، بقیہ بعد کی حدیث کی تصحیح کی ہے، یعنی شواہد کے بناء پر، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٣ ؍ ٢٨٢ )
ٹانگ پر بوسہ دینے کا بیان
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ کو پکارا : اے ابوذر ! میں نے کہا : میں حاضر ہوں حکم فرمائیے اللہ کے رسول ! میں آپ پر فدا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٩١٧) (حسن صحیح )
کسی کو یہ دعا دینا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رکھے
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں کہا کرتے تھے : أنعم الله بک عينا وأنعم صباحا اللہ تمہاری آنکھ ٹھنڈی رکھے اور صبح خوشگوار بنائے لیکن جب اسلام آیا تو ہمیں اس طرح کہنے سے روک دیا گیا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ معمر کہتے ہیں :أنعم الله بک عينا کہنا مکروہ ہے اور أنعم الله عينك کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣٦) (ضعیف الإسناد) (قتادہ مدلس ہیں اور أنَّ سے روایت کئے ہیں نیز معمر نے شک سے روایت کیا ہے، قتادہ یا کسی اور سے )
کوئی کسی کو یہ دعا دے اللہ تیری حفاظت کرے تو صحیح ہے
عبداللہ بن رباح انصاری کہتے ہیں کہ ابوقتادہ (رض) نے ہم سے بیان کیا کہ : نبی اکرم ﷺ اپنے ایک سفر میں تھے، لوگ پیاسے ہوئے تو جلدباز لوگ آگے نکل گئے، لیکن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی اس رات رہا (آپ کو چھوڑ کر نہ گیا) تو آپ نے فرمایا : اللہ تیری حفاظت فرمائے جس طرح تو نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩١) (صحیح )
کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونے کا بیان
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) ابن زبیر اور ابن عامر (رض) کے پاس آئے، تو ابن عامر کھڑے ہوگئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، معاویہ نے ابن عامر سے کہا : بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے سامنے (با ادب) کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ١٣ (٢٧٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩١، ٩٣، ١٠٠) (صحیح )
کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونے کا بیان
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس ایک چھڑی کا سہارا لیے ہوئے تشریف لائے تو ہم سب کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا : عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے نہ ہوا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٥٣، ٢٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابوالدبس مجہول، اور ابومرزوق لین الحدیث ہیں لیکن بیٹھے ہوئے آدمی کے لئے باادب کھڑے رہنے کی ممانعت جابر (رض) کی حدیث سے صحیح مسلم میں مروی ہے )
کسی کا سلام پہنچانا
غالب کہتے ہیں کہ ہم حسن کے دروازے پر بیٹھے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میرے باپ نے میرے دادا سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : مجھے میرے والد نے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا اور کہا : آپ کے پاس جاؤ اور آپ کو میرا سلام کہو میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا : میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ نے فرمایا : تم پر اور تمہارے والد پر بھی سلام ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (٢٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٦٦) (ضعیف) (اس کی سند میں کئی مجاہیل ہیں، البانی نے اسے حسن کہا ہے، صحیح ابی داود، ٣ ؍ ٤٨٢، جبکہ (٢٩٣٤) نمبر کی سابقہ حدیث (جو اس سند سے مفصل ہے) پر ضعف کا حکم لگایا ہے )
کسی کا سلام پہنچانا
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عائشہ (رض) نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : جبرائیل تجھے سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا : وعليه السلام ورحمة الله ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢١٧) ، و فضائل الصحابة ٣٠ (٣٧٦٨) ، والأدب ١١١ (٦٢٠١) ، الاستئذان ١٦ (٦٢٤٩) ، ١٩ (٦٢٥٣) ، صحیح مسلم/الآداب ٧ (٢٤٤٧) ، سنن الترمذی/الاستئذان ٥ (٢٦٩٣) ، سنن النسائی/عشرة النساء ٣ (٣٤٠٥) ، سنن ابن ماجہ/ الآداب ١٢ (٣٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٦، ١٥٠، ٢٠٨، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٠ (٢٦٨٠) (صحیح )
کسی کی پکار پر لبیک کہنا صحیح ہے
ابوعبدالرحمٰن فہری کہتے ہیں کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھا، ہم سخت گرمی کے دن میں چلے، پھر ایک درخت کے سایہ میں اترے، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنی زرہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اس وقت آپ اپنے خیمہ میں تھے، میں نے کہا : السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبرکاته کوچ کا وقت ہوچکا ہے، آپ نے فرمایا : ہاں، پھر آپ نے فرمایا : اے بلال ! اٹھو، یہ سنتے ہی بلال ایک درخت کے نیچے سے اچھل کر نکلے ان کا سایہ گویا چڑے کے سایہ جیسا تھا ١ ؎ انہوں نے کہا : لبيك وسعديك وأنا فداؤك میں حاضر ہوں، حکم فرمائیے، میں آپ پر فدا ہوں آپ نے فرمایا : میرے گھوڑے پر زین کس دو تو انہوں نے زین اٹھایا جس کے دونوں کنارے خرما کے پوست کے تھے، نہ ان میں تکبر کی کوئی بات تھی نہ غرور کی ٢ ؎ پھر آپ سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوئے (اور چل پڑے) پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرحمٰن فہری سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور یہ ایک عمدہ اور قابل قدر حدیث ہے جسے حماد بن سلمہ نے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٢٠٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٦) ، سنن الدارمی/السیر ١٦ (٢٤٩٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اشارہ ہے ان کے ضعف اور ان کی لاغری کی طرف۔ ٢ ؎ : جیسے دنیا داروں کی زین میں ہوتا ہے۔
کوئی یہ کہے کہ اللہ تجھے ہنستا رکھے
مرداس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہنسے تو ابوبکر (رض) یا عمر (رض) نے آپ سے أضحک الله سنك اللہ آپ کو ہمیشہ ہنستا رکھے کہا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٦ (٣٠١٣) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥) (ضعیف) (اس کے راوی ابن کنانہ اور خود کنانہ بن عباس مجہول ہیں )
مکان تعمیر کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے، میں اور میری ماں اپنی ایک دیوار پر مٹی پوت رہے تھے، آپ نے فرمایا : عبداللہ ! یہ کیا ہو رہا ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کچھ مرمت (سرمت) کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا : معاملہ تو اس سے بھی زیادہ تیزی پر ہے (یعنی موت اس سے بھی قریب آتی جا رہی ہے، اعمال میں جو کمیاں ہیں ان کی اصلاح و درستگی کی بھی فکر کرو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزھد ٢٥ (٢٣٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٣ (٤١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦١) (صحیح )
مکان تعمیر کرنے کا بیان
اس سند سے بھی اعمش سے (ان کی سابقہ سند سے) یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے ہم اپنے جھونپڑے کو درست کر رہے تھے جو گرنے کے قریب ہوگیا تھا، آپ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا : ہمارا یک بوسیدہ جھونپڑا ہے ہم اس کو درست کر رہے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مگر میں تو معاملہ (موت) کو اس سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتا دیکھ رہا ہوں (زندگی میں جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرو) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٠) (صحیح )
مکان تعمیر کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے (راہ میں) ایک اونچا قبہ دیکھا تو فرمایا : یہ کیا ہے ؟ تو آپ کے اصحاب نے بتایا کہ یہ فلاں انصاری کا مکان ہے، آپ یہ سن کر چپ ہو رہے اور بات دل میں رکھ لی، پھر جب صاحب مکان رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور لوگوں کی موجودگی میں آپ کو سلام کیا تو آپ نے اس سے اعراض کیا (نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے نہ اسے جواب دیا) ایسا کئی بار ہوا، یہاں تک کہ اسے معلوم ہوگیا کہ آپ اس سے ناراض ہیں اور اس سے اعراض فرما رہے ہیں تو اس نے اپنے دوستوں سے اس بات کی شکایت کی اور کہا : قسم اللہ کی ! میں اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی محبت و برتاؤ میں تبدیلی محسوس کرتا ہوں، تو لوگوں نے بتایا کہ : آپ ایک روز باہر نکلے تھے اور تیرا قبہ (مکان) دیکھا تھا (شاید اسی مکان کو دیکھ کر آپ ناراض ہوئے ہوں) یہ سن کر وہ واپس اپنے مکان پر آیا، اور اسے ڈھا دیا، حتیٰ کہ اسے (توڑ تاڑ کر) زمین کے برابر کردیا، پھر ایک روز رسول اللہ ﷺ نکلے اور اس مکان کو نہ دیکھا تو فرمایا : وہ مکان کیا ہوا، لوگوں نے عرض کیا : مالک مکان نے ہم سے آپ کی اس سے بےالتفاتی کی شکایت کی، ہم نے اسے بتادیا، تو اس نے اسے گرا دیا، آپ نے فرمایا : سن لو ہر مکان اپنے مالک کے لیے وبال ہے، سوائے اس مکان کے جس کے بغیر چارہ و گزارہ نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزھد ١٣ (٤١٦١) ، مسند احمد (٣/٢٢٠) (حسن) (الصحیحة ٢٨٣٠ )
بالاخانے بنانے کا بیان
دکین بن سعید مزنی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے غلہ مانگا تو آپ نے فرمایا : عمر ! جاؤ اور انہیں دے دو ، تو وہ ہمیں ایک بالاخانے پر لے کر چڑھے، پھر اپنے کمرے سے چابی لی اور اسے کھولا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٧٤) (صحیح الإسناد )
یڑی کاٹنے کا بیان
عبداللہ بن حبشی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا ١ ؎ اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا ۔ ابوداؤد سے اس حدیث کا معنی و مفہوم پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ : یہ حدیث مختصر ہے، پوری حدیث اس طرح ہے کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : طبرانی کی ایک روایت میں من سدر الحرم (حرم کے بیر کے درخت) کے الفاظ وارد ہیں جس سے مراد کی وضاحت ہوجاتی ہے اور اشکال رفع ہوجاتا ہے۔
یڑی کاٹنے کا بیان
عروہ بن زبیر نے اس حدیث کو نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٢، ١٩٠٤٤) (ضعیف) (عروہ تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے )
یڑی کاٹنے کا بیان
حسان بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ہشام بن عروہ سے جو عروہ کے محل سے ٹیک لگائے ہوئے تھے بیر کے درخت کاٹنے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : کیا تم ان دروازوں اور چوکھٹوں کو دیکھ رہے ہو، یہ سب عروہ کے بیر کے درختوں کے بنے ہوئے ہیں، عروہ انہیں اپنی زمین سے کاٹ کر لائے تھے، اور کہا : ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حمید نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ہشام نے کہا : اے عراقی (بھائی) یہی بدعت تم لے کر آئے ہو، میں نے کہا کہ یہ بدعت تو آپ لوگوں ہی کی طرف کی ہے، میں نے مکہ میں کسی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیر کا درخت کاٹنے والے پر لعنت بھیجی ہے، پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (حسن) (الصحیحة ٦١٥ )
راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا چاہیے
بریدہ (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور انسان کو چاہیئے کہ ہر جوڑ کی طرف سے کچھ نہ کچھ صدقہ دے، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! اتنی طاقت کس کو ہے ؟ آپ نے فرمایا : مسجد میں تھوک اور رینٹ کو چھپا دینا اور (موذی) چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے، اور اگر ایسا اتفاق نہ ہو تو چاشت کی دو رکعتیں ہی تمہارے لیے کافی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٩٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٥٤، ٣٥٩) (صحیح )
راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا چاہیے
ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی صدقہ عائد ہوجاتا ہے، تو اس کا اپنے ملاقاتی سے سلام کرلینا بھی صدقہ ہے، اس کا معروف (اچھی بات) کا حکم کرنا بھی صدقہ ہے اور منکر (بری بات) سے روکنا بھی صدقہ ہے، اس کا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے، اور اس کا اپنی بیوی سے ہمبستری بھی صدقہ ہے لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ تو اس سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے، پھر بھی صدقہ ہوگا ؟ (یعنی اس پر اسے ثواب کیونکر ہوگا) تو آپ نے فرمایا : کیا خیال ہے تمہارا اگر وہ اپنی خواہش (بیوی کے بجائے) کسی اور کے ساتھ پوری کرتا تو گنہگار ہوتا یا نہیں ؟ (جب وہ غلط کاری کرنے پر گنہگار ہوتا تو صحیح جگہ استعمال کرنے پر اسے ثواب بھی ہوگا) اس کے بعد آپ نے فرمایا : اشراق کی دو رکعتیں ان تمام کی طرف سے کافی ہوجائیں گی (یعنی صدقہ بن جائیں گی) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حماد نے اپنی روایت میں امر و نہی (کے صدقہ ہونے) کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٦٧، ١٧٨) (صحیح )
راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا چاہیے
ابوالاسود الدیلی نے ابوذر سے یہی حدیث روایت کی ہے اور نبی اکرم ﷺ کا ذکر اس کے وسط میں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٨) (صحیح )
راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا چاہیے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا تھا کانٹے کی ایک ڈالی راستے پر سے ہٹا دی، یا تو وہ ڈالی درخت پر (جھکی ہوئی) تھی (آنے جانے والوں کے سروں سے ٹکراتی تھی) اس نے اسے کاٹ کر الگ ڈال دیا، یا اسے کسی نے راستے پر ڈال دیا تھا اور اس نے اسے ہٹا دیا تو اللہ اس کے اس کام سے خوش ہوا اور اسے جنت میں داخل کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢٣٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٢ (٦٥٢) ، المظالم ٢٨ (٢٤٧٢) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٣٦ (١٩١٤) ، الإمارة ٥١ (١٩١٤) ، سنن الترمذی/البر والصلة ٣٨ (١٩٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٧ (٣٦٨٢) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٢ (٦) ، مسند احمد (٢/٣٤١) (حسن صحیح )
رات کو سوتے وقت آگ یا چراغ بجھا کر سونا چاہیے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے وہ کبھی اسے موقوفاً روایت کرتے ہیں اور کبھی اسے نبی اکرم ﷺ تک پہنچاتے ہیں کہ جب سونے لگو تو آگ گھر میں موجود نہ رہنے دو (بجھا کر سوؤ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤٩ (٦٢٩٣) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٢ (٢٠١٥) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٥(١٨١٣) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٤٦ (٣٧٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٧، ٤٤) (صحیح )
رات کو سوتے وقت آگ یا چراغ بجھا کر سونا چاہیے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک چوہیا آئی اور چراغ کی بتی کو پکڑ کر کھینچتی ہوئی لائی اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس چٹائی پر ڈال دیا جس پر آپ بیٹھے تھے اور درہم کے برابر جگہ جلا دی، (یہ دیکھ کر) آپ نے فرمایا : جب سونے لگو تو اپنے چراغوں کو بجھا دیا کرو، کیونکہ شیطان چوہیا جیسی چیزوں کو ایسی باتیں سجھاتا ہے تو وہ تم کو جلا دیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦١١٤) (صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب سے ہماری سانپوں سے لڑائی شروع ہوئی ہے ہم نے کبھی ان سے صلح نہیں کی (سانپ ہمیشہ سے انسان کا دشمن رہا ہے، اس کا پالنا اور پوسنا کبھی درست نہیں) جو شخص کسی بھی سانپ کو ڈر کر مارنے سے چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٤١٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٧، ٤٣٢، ٥٢٠) (حسن صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سانپ کوئی بھی ہو اسے مار ڈالو اور جو کوئی ان کے انتقام کے ڈر سے نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجھاد ٤٨ (٣١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٧) (صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سانپوں کو ان کے انتقام کے ڈر سے چھوڑ دے یعنی انہیں نہ مارے وہ ہم میں سے نہیں ہے، جب سے ہماری ان سے لڑائی چھڑی ہے ہم نے ان سے کبھی بھی صلح نہیں کی ہے (وہ ہمیشہ سے موذی رہے ہیں اور موذی کا قتل ضروری ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦٢٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٠) (صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : ہم زمزم کے آس پاس کی جگہ کو (جھاڑو دے کر) صاف ستھرا کردینا چاہتے ہیں وہاں ان چھوٹے سانپوں میں سے کچھ رہتے ہیں ؟ تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں مار ڈالنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥١٣٣) (صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاریوں والوں کو بھی اور دم کٹے سانپوں کو بھی، کیونکہ یہ دونوں بینائی کو زائل کردیتے اور حمل کو گرا دیتے ہیں (زہر کی شدت سے) ، سالم کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر (رض) جس سانپ کو بھی پاتے مار ڈالتے، ایک بار ابولبابہ یا زید بن الخطاب نے ان کو ایک سانپ پر حملہ آور دیکھا تو کہا : رسول اللہ ﷺ نے گھریلو سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٤ (٣٢٩٧) ، صحیح مسلم/السلام ٣٧ (٢٢٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٤٢ (٣٥٣٥) ، موطا امام مالک/الاستئذان ١٢ (٣٢) ، مسند احمد (٣/٤٣٠، ٤٥٢، ٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ وہ جن و شیاطین بھی ہوسکتے ہیں، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہوجانے یا اپنی شکل تبدیل کرلینے کی تین بار آگاہی دے دینی چاہیے اگر وہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تو دوسری روایات کی روشنی میں مار سکتا ہے۔
سانپوں کے قتل کا بیان
ابولبابہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سانپوں کو مارنے سے روکا ہے جو گھروں میں ہوتے ہیں مگر یہ کہ دو منہ والا ہو، یا دم کٹا ہو (یہ دونوں بہت خطرناک ہیں) کیونکہ یہ دونوں نگاہ کو اچک لیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ میں جو (بچہ) ہوتا ہے اسے گرا دیتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٧) (صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) نے لبابہ (رض) کی حدیث سننے کے بعد ایک سانپ اپنے گھر میں پایا، تو اسے (باہر کرنے کا) حکم دیا تو وہ بقیع کی طرف بھگا دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٧) (صحیح الإسناد )
سانپوں کے قتل کا بیان
اسامہ نے نافع سے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے نافع نے کہا : پھر اس کے بعد میں نے اسے ان کے گھر میں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٤٧) (صحیح الإسناد )
سانپوں کے قتل کا بیان
محمد بن ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے ایک ساتھی دونوں ابو سعید خدری (رض) کی عیادت کے لیے گئے پھر وہاں سے واپس ہوئے تو اپنے ایک اور ساتھی سے ملے، وہ بھی ان کے پاس جانا چاہتے تھے (وہ ان کے پاس چلے گئے) اور ہم آ کر مسجد میں بیٹھ گئے پھر وہ ہمارے پاس (مسجد) میں آگئے اور ہمیں بتایا کہ انہوں نے ابو سعید خدری (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض سانپ جن ہوتے ہیں جو اپنے گھر میں بعض زہریلے کیڑے (سانپ وغیرہ) دیکھے تو اسے تین مرتبہ تنبیہ کرے (کہ دیکھ تو پھر نظر نہ آ، ورنہ تنگی و پریشانی سے دو چار ہوگا، اس تنبیہ کے بعد بھی) پھر نظر آئے تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے (جیسے شیطان شرارت سے باز نہیں آتا، ایسے ہی یہ بھی سمجھانے کا اثر نہیں لیتا، ایسی صورت میں اسے مار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٤٤٤) (صحیح) (اس کے رواة میں ایک راوی مجہول ہے، ہاں اگلی سند سے یہ واقعہ صحیح ہے )
سانپوں کے قتل کا بیان
ابوسائب کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری (رض) کے پاس آیا، اسی دوران کہ میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کی چارپائی کے نیچے مجھے کسی چیز کی سر سراہٹ محسوس ہوئی، میں نے (جھانک کر) دیکھا تو (وہاں) سانپ موجود تھا، میں اٹھ کھڑا ہوا، ابوسعید (رض) نے کہا : کیا ہوا تمہیں ؟ (کیوں کھڑے ہوگئے) میں نے کہا : یہاں ایک سانپ ہے، انہوں نے کہا : تمہارا ارادہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : میں اسے ماروں گا، تو انہوں نے اپنے گھر میں ایک کوٹھری کی طرف اشارہ کیا اور کہا : میرا ایک چچا زاد بھائی اس گھر میں رہتا تھا، غزوہ احزاب کے موقع پر اس نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے اہل کے پاس جانے کی اجازت مانگی، اس کی ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے اسے اجازت دے دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار کے ساتھ جائے، وہ اپنے گھر آیا تو اپنی بیوی کو کمرے کے دروازے پر کھڑا پایا، تو اس کی طرف نیزہ لہرایا (چلو اندر چلو، یہاں کیسے کھڑی ہو) بیوی نے کہا، جلدی نہ کرو، پہلے یہ دیکھو کہ کس چیز نے مجھے باہر آنے پر مجبور کیا، وہ کمرے میں داخل ہوا تو ایک خوفناک سانپ دیکھا تو اسے نیزہ گھونپ دیا، اور نیزے میں چبھوئے ہوئے اسے لے کر باہر آیا، وہ تڑپ رہا تھا، ابوسعید کہتے ہیں، تو میں نہیں جان سکا کہ کون پہلے مرا آدمی یا سانپ ؟ (گویا چبھو کر باہر لانے کے دوران سانپ نے اسے ڈس لیا تھا، یا وہ سانپ جن تھا اور جنوں نے انتقاماً اس کا گلا گھونٹ دیا تھا) تو اس کی قوم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ ہمارے آدمی (ساتھی) کو لوٹا دے، (زندہ کر دے) آپ نے فرمایا : اپنے آدمی کے لیے مغفرت کی دعا کرو (اب زندگی ملنے سے رہی) پھر آپ نے فرمایا : مدینہ میں جنوں کی ایک جماعت مسلمان ہوئی ہے، تم ان میں سے جب کسی کو دیکھو (سانپ وغیرہ موذی جانوروں کی صورت میں) تو انہیں تین مرتبہ ڈراؤ کہ اب نہ نکلنا ورنہ مارے جاؤ گے، اس تنبیہ کے باوجود اگر وہ غائب نہ ہو اور تمہیں اس کا مار ڈالنا ہی مناسب معلوم ہو تو تین بار کی تنبیہ کے بعد اسے مار ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٧ (٢٢٣٦) ، سنن الترمذی/الصید ١٥ (١٤٨٤) ، موطا امام مالک/الاستئذان ١٢ (٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١) (حسن صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
اس سند سے ابن عجلان سے یہی حدیث مختصراً مروی ہے، اس میں ہے کہ اسے (سانپ کو) تین بار آگاہ کر دو ، (اگر جن وغیرہ ہو تو چلے جاؤ) پھر اس کے بعد اگر وہ تمہیں نظر آئے تو اسے مار ڈالو کیونکہ وہ شیطان ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٣) (حسن صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
ہشام بن زہرہ کے غلام ابوسائب نے خبر دی ہے کہ وہ ابو سعید خدری (رض) کے پاس آئے، پھر راوی نے اسی جیسی اور اس سے زیادہ کامل حدیث ذکر کی اس میں ہے : اسے تین دن تک آگاہ کرو اگر اس کے بعد بھی وہ تمہیں نظر آئے تو اسے مار ڈالو کیونکہ وہ شیطان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٥٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٣) (صحیح )
سانپوں کے قتل کا بیان
ابولیلیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے گھروں میں نکلنے والے سانپوں کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپ نے فرمایا : جب تم ان میں سے کسی کو اپنے گھر میں دیکھو تو کہو : میں تمہیں وہ عہد یاد دلاتا ہوں جو تم سے نوح (علیہ السلام) نے لیا تھا، وہ عہد یاد دلاتا ہوں جو تم سے سلیمان (علیہ السلام) نے لیا تھا کہ تم ہمیں تکلیف نہیں پہنچاؤ گے اس یاددہانی کے باوجود اگر وہ دوبارہ ظاہر ہوں تو ان کو مار ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ١٥ (١٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٥٢) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلی ضعیف ہیں )
سانپوں کے قتل کا بیان
ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ سبھی سانپوں کو مارو سوائے اس سانپ کے جو سفید ہوتا ہے چاندی کی چھڑی کی طرح (یعنی سفید سانپ کو نہ مارو) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : تو ایک آدمی نے مجھ سے کہا : جن اپنی چال میں مڑتا نہیں اگر وہ سیدھا چل رہا ہو تو یہی اس کی پہچان ہے، إن شاء اللہ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٩١٥٩) (صحیح )
گرگٹ مارنے کا بیان۔
سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے، اور اسے فويسق (چھوٹا فاسق) کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٨ (٢٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧٧، ١٧٩) (صحیح )
گرگٹ مارنے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے چھپکلی کو پہلے ہی وار میں قتل کردیا اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے دوسرے وار میں اسے قتل کیا اسے اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، پہلے سے کم، اور جس نے تیسرے وار میں اسے ہلاک کیا اسے اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی دوسرے وار سے کم ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٨ (٢٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٣١، ١٢٥٨٨، ١٥٤٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأحکام ١ (١٤٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٢ (٣٢٢٨) ، مسند احمد (٢/٣٥٥) (صحیح )
گرگٹ مارنے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پہلے وار میں ستر نیکیاں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٨٨) (صحیح )
چینو نٹی کو بلا وجہ نہیں مارنا چاہیے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نبیوں میں سے ایک نبی ایک درخت کے نیچے اترے تو انہیں ایک چھوٹی چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے (غصے میں آ کر) سامان ہٹا لینے کا حکم دیا تو وہ اس کے نیچے سے ہٹا لیا گیا، پھر اس درخت میں آگ لگوا دی (جس سے سب چیونٹیاں جل گئیں) تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ تنبیہ فرمائی : تم نے ایک ہی چیونٹی کو (جس نے تمہیں کاٹا تھا) کیوں نہ سزا دی (سب کو کیوں مار ڈالا ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٩ (٢٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣١٩، ١٥٣٠٧، ١٣٨٧٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجھاد ١٥٣(٣٠١٩) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٩) ، سنن النسائی/الصید ٣٨ (٤٣٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٠ (٣٢٢٥) ، مسند احمد (٢/٤٠٣) (صحیح )
چینو نٹی کو بلا وجہ نہیں مارنا چاہیے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انبیاء میں سے ایک نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کی پوری بستی کو جلا ڈالنے کا حکم دے دیا، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انہیں تنبیہ فرمائی کہ ایک چیونٹی کے تجھے کاٹ لینے کے بدلے میں تو نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والی پوری ایک جماعت کو ہلاک کر ڈالا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الجہاد ١٥٣ (٣٠١٩) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٩) ، صحیح مسلم/ السلام ٣٩ (٢٢٤١) ، سنن النسائی/ الصید ٣٨ (٤٣٦٣) ، سنن ابن ماجہ/ الصید ١٠ (٣٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣١٩، ١٥٣٠٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٠٣) (صحیح )
چینو نٹی کو بلا وجہ نہیں مارنا چاہیے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چار جانوروں کے قتل سے روکا ہے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد، لٹورا چڑیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ١٠ (٣٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٣٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٦ (٢١٤٢) (صحیح )
چینو نٹی کو بلا وجہ نہیں مارنا چاہیے
عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ اپنی حاجت کے لیے تشریف لے گئے، ہم نے ایک چھوٹی چڑیا دیکھی اس کے دو بچے تھے، ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لیے، تو وہ چڑیا آئی اور (انہیں حاصل کرنے کے لیے) تڑپنے لگی، اتنے میں نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا : کس نے اس کے بچے لے کر اسے تکلیف پہنچائی ہے، اس کے بچے اسے واپس لوٹا دو ، آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی جسے ہم نے جلا ڈالا تھا، آپ نے پوچھا : کس نے جلایا ہے ؟ ہم نے کہا : ہم نے، آپ نے فرمایا : آگ کے پیدا کرنے والے کے سوا کسی کے لیے آگ کی سزا دینا مناسب نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٢) (صحیح )
مینڈک کو مارنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن عثمان سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ ﷺ سے مینڈک کو دوا میں استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہیں نبی اکرم ﷺ نے اسے مارنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٣٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠٦) (صحیح )
کنکری مارنے کا بیان
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (کھیل کود اور ہنسی مذاق میں) ایک دوسرے کو کنکریاں مارنے سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا : نہ تو یہ کسی شکار کا شکار کرتی ہے، نہ کسی دشمن کو گھائل کرتی ہے۔ یہ تو صرف آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الفتح ٥ (٤٨٤١) ، الذبائح ٥ (٥٤٧٩) ، الأدب ١٢٢ (٦٢٢٠) ، صحیح مسلم/الذبائح ١٠ (١٩٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١١ (٣٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/القسامة ٣٣ (٤٨١٩) ، مسند احمد (٤/٨٦، ٥/٤٦، ٥٤، ٥٥، ٥٦، ٥٧) (صحیح )
ختنہ کا بیان
ام عطیہ انصاریہ (رض) سے روایت ہے کہ مدینہ میں ایک عورت عورتوں کا ختنہ کیا کرتی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : نیچا کر ختنہ مت کرو بہت نیچے سے مت کاٹو کیونکہ یہ عورت کے لیے زیادہ لطف و لذت کی چیز ہے اور شوہر کے لیے زیادہ پسندیدہ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ عبیداللہ بن عمرو سے مروی ہے انہوں نے عبدالملک سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث قوی نہیں ہے، وہ مرسلاً بھی روایت کی گئی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : محمد بن حسان مجہول ہیں اور یہ حدیث ضعیف ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٣) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن حسان مجہول راوی ہیں )
عورتوں کا راستہ میں چلنا
ابواسید انصاری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت فرماتے ہوئے سنا جب آپ مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور لوگ راستے میں عورتوں میں مل جل گئے تھے، تو رسول ﷺ نے عورتوں سے فرمایا : تم پیچھے ہٹ جاؤ، تمہارے لیے راستے کے درمیان سے چلنا ٹھیک نہیں، تمہارے لیے راستے کے کنارے کنارے چلنا مناسب ہے پھر تو ایسا ہوگیا کہ عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے (دوپٹے وغیرہ) دیوار میں پھنس جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١١٩٢) (حسن )
عورتوں کا راستہ میں چلنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مرد کو دو عورتوں کے بیچ میں چلنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٦٦٢) (موضوع) (داود بن ابی صالح حدیثیں گھڑتا تھا )
عورتوں کا راستہ میں چلنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : ابن آدم (انسان) مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں، تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں، میں ہی رات اور دن کو الٹتا پلٹتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الجاثیة ١ (٤٨٢٦) ، التوحید ٣٥ (٧٤٩١) ، الأدب ١٠١ (٦١٨١) ، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ١ (٢٢٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الکلام ١ (٣) (صحیح )