5. کتاب الزکوٰة
زکوة کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی، آپ کے بعد ابوبکر (رض) خلیفہ بنائے گئے اور عربوں میں سے جن کو کافر ١ ؎ ہونا تھا کافر ہوگئے تو عمر بن خطاب (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا : آپ لوگوں سے کیوں کر لڑیں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا إله إلا الله کہیں، لہٰذا جس نے لا إله إلا الله کہا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی سوائے حق اسلام کے ٢ ؎ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ؟ ، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ کے درمیان تفریق ٣ ؎ کرے گا، اس لیے کہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی، یہ لوگ جس قدر رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے اگر اس میں سے اونٹ کے پاؤں باندھنے کی ایک رسی بھی نہیں دی تو میں ان سے جنگ کروں گا، عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کا سینہ جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور اس وقت میں نے جانا کہ یہی حق ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث رباح بن زید نے روایت کی ہے اور عبدالرزاق نے معمر سے معمر نے زہری سے اسے اسی سند سے روایت کیا ہے، اس میں بعض نے عناقا کی جگہ عقالا کہا ہے اور ابن وہب نے اسے یونس سے روایت کیا ہے اس میں عناقا کا لفظ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : شعیب بن ابی حمزہ، معمر اور زبیدی نے اس حدیث میں زہری سے لو منعوني عناقا نقل کیا ہے اور عنبسہ نے یونس سے انہوں نے زہری سے یہی حدیث روایت کی ہے۔ اس میں بھی عناقا کا لفظ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١(١٣٩٩) ، ٤٠ (١٤٥٦) ، المرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، الاعتصام ٢ (٧٢٨٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن الترمذی/الإیمان ١ (٢٦٠٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٣ (٢٤٤٥) ، الجہاد ١ (٣٠٩٤) ، المحاربة ١ (٣٩٧٥، ٣٩٧٦، ٣٩٧٨، ٣٩٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٧) ، مسند احمد (٢/٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان کا تعلق قبیلہ غطفان اور بنی سلیم کے لوگوں سے تھا جنہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ ٢ ؎ : مثلا اگر وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے تو وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ ٣ ؎ : یعنی وہ نماز تو پڑھے لیکن زکاۃ کا انکار کرے ایسی صورت میں وہ (ارتداد کی بنا پر) واجب القتل ہوجاتا ہے کیونکہ اصول اسلام میں سے کسی ایک اصل کا انکار کل کا انکار ہے۔
زکوة کا بیان
اس سند سے بھی زہری سے یہی روایت مروی ہے اس میں ہے ابوبکر (رض) نے کہا : اس (اسلام) کا حق یہ ہے کہ زکاۃ ادا کریں اور اس میں عقالا کا لفظ آیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٦) (صحیح) (اوپر والی حدیث میں تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ عناق کا لفظ محفوظ، اور عقال کا لفظ شاذ ہے )
زکوة کا نصاب
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ اونٹوں سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ١ ؎، پانچ اوقیہ ٢ ؎ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ پانچ وسق ٣ ؎ سے کم (غلے اور پھلوں) میں زکاۃ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤ (١٤٠٥) ، ٣٢ (١٤٤٧) ، ٤٢ (١٤٥٩) ، ٥٦ (١٤٨٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٧٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٧ (٦٢٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٤٧) ، ١٨ (٢٤٧٥) ، ٢١ (٢٤٧٨) ، ٢٤ (٢٤٨٥، ٢٤٨٦، ٢٤٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٦ (١٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١ (١) ، مسند احمد (٣/٦، ٣٠، ٤٥، ٥٩، ٦٠، ٧٣، ٧٤، ٧٩) ، سنن الدارمی/الزکاة ١١ (١٦٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہے، اور چاندی کا پانچ اوقیہ، اور غلے اور پھلوں (جیسے کھجور اور کشمش وغیرہ) کا نصاب پانچ وسق ہے، اور سونے کا نصاب دوسری حدیث میں مذکور ہے جو بیس (٢٠) دینار ہے، جس کے ساڑھے سات تولے ہوتے ہیں، یہ چیزیں اگر نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر سال گزر جائے تو سونے اور چاندی میں ہر سال چالیسواں حصہ زکاۃ کا نکالنا ہوگا، اور اگر بغیر کسی محنت و مشقت کے یا پانی کی اجرت صرف کئے بغیر پیداوار ہو تو غلے اور پھلوں میں دسواں حصہ زکاۃ کا نکالنا ہوگا ، اور اگر محنت و مشقت اور پانی کی اجرت لگتی ہو تو بیسواں حصہ نکالنا ہوگا۔ ٢ ؎ : اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے پانچ اوقیہ دو سو درہم کا ہوا، موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (٥٩٥) گرام ہے۔ ٣ ؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، پانچ وسق کے تین سو صاع ہوئے، موجودہ وزن کے حساب سے تین سو صاع کا وزن تقریباً (٧٥٠) کیلو گرام یعنی ساڑھے سات کو ینٹل ہے۔ اور شیخ عبداللہ البسام نے ایک صاع کو تین کلو گرام بتایا ہے ، اس لیے ان کے حساب سے (٩) کو نئٹل غلے میں زکاۃ ہے۔
زکوة کا نصاب
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ۔ ایک وسق ساٹھ مہر بند صاع کا ہوتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوالبختری کا سماع ابو سعید خدری (رض) سے نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٢٤ (٢٤٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة (١٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٩، ٨٣، ٩٧) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا ہے )
زکوة کا نصاب
ابراہیم کہتے ہیں ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، جس پر حجاجی مہر لگی ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٠١) (صحیح )
زکوة کا نصاب
حبیب مالکی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عمران بن حصین (رض) سے کہا : ابونجید ! آپ ہم لوگوں سے بعض ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جن کی کوئی اصل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی، عمران (رض) غضب ناک ہوگئے، اور اس شخص سے یوں گویا ہوئے : کیا قرآن میں تمہیں یہ ملتا ہے کہ ہر چالیس درہم میں ایک درہم (زکاۃ) ہے یا اتنی اتنی بکریوں میں ایک بکری زکاۃ ہے یا اتنے اونٹوں میں ایک اونٹ زکاۃ ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : پھر تم نے یہ کہاں سے لیا ؟ تم نے ہم سے لیا اور ہم نے نبی اکرم ﷺ سے، اس کے بعد ایسی ہی چند اور باتیں ذکر کیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٩١) (ضعیف) (اس کے دو راوی صرد اور حبیب لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی بہت سے دینی مسائل و احکام قرآن مجید میں نہیں ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں میں بیان کئے گئے ہیں، تو جس طرح قرآن کی پیروی ضروری ہے اسی طرح حدیث کی پیروی بھی ضروری ہے، نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه مجھے قرآن ملا ہے، اور اسی کے ساتھ اسی جیسا اور بھی دیا گیا ہوں یعنی حدیث شریف، پس حدیث قرآن ہی کی طرح لائق حجت و استناد ہے۔
سامان تجارت پر زکوة ہے
سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے انہوں نے امابعد کہا پھر کہا : رسول اللہ ﷺ ہم کو حکم دیتے تھے کہ ہم ان چیزوں میں سے زکاۃ نکالیں جنہیں ہم بیچنے کے لیے رکھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٦١٨) (ضعیف) (اس کے راوی خبیب مجہول ہیں، لیکن مال تجارت پر زکاة اجماعی مسئلہ ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تجارت کا مال اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں بھی زکاۃ ہے، اس مسئلہ پر امت کا اجماع ہے۔
کنز کی تعریف اور زیورات پر زکوة کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے ۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈال دئیے اور بولی : یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ١٩ (٢٤٨١، ٢٤٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٧٨، ٢٠٤، ٢٠٨) (حسن )
کنز کی تعریف اور زیورات پر زکوة کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں میں سونے کے اوضاح ١ ؎ پہنا کرتی تھی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا یہ کنز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو مال اتنا ہوجائے کہ اس کی زکاۃ دی جائے پھر اس کی زکاۃ ادا کردی جائے وہ کنز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨١٩٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : ایک قسم کا زیور ہے جسے پازیب کہا جاتا ہے۔
کنز کی تعریف اور زیورات پر زکوة کا بیان
حدیث نمبر : 1565 عبداللہ بن شداد بن الہاد (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس گئے، وہ کہنے لگیں : میرے پاس رسول اللہ ﷺ آئے، آپ نے میرے ہاتھ میں چاندی کی کچھ انگوٹھیاں دیکھیں اور فرمایا : عائشہ ! یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : میں نے انہیں اس لیے بنوایا ہے کہ میں آپ کے لیے بناؤ سنگار کروں، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم ان کی زکاۃ ادا کرتی ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، یا جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٠) (صحیح ) اس سند سے عمر بن یعلیٰ (عمر بن عبداللہ بن یعلیٰ بن مرہ) سے اسی انگوٹھی والی حدیث جیسی حدیث مروی ہے سفیان سے پوچھا گیا : آپ اس کی زکاۃ کیسے دیں گے ؟ انہوں نے کہا : تم اسے دوسرے میں ملا لو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩١٥٧) (ضعیف) (عمر بن یعلی ضعیف راوی ہیں )
None
سفیان سے پوچھا گیا: آپ اس کی زکاۃ کیسے دیں گے؟ انہوں نے کہا: تم اسے دوسرے میں ملا لو۔
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے : یہ ابوبکر (رض) نے انس (رض) کے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ ﷺ کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کردی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی : یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے : پچیس (٢٥) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہوجائیں تو پینتیس (٣٥) تک میں ایک بنت مخاض ١ ؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس (٣٦) اونٹ ہوجائیں تو پینتالیس (٤٥) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (٤٦) اونٹ پورے ہوجائیں تو ساٹھ (٦٠) تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (٦١) اونٹ ہوجائیں تو پچہتر (٧٥) تک میں ایک جذعہ واجب ہوگی، جب چھہتر (٧٦) اونٹ ہوجائیں تو نوے (٩٠) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے (٩١) ہوجائیں تو ایک سو بیس (١٢٠) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (١٢٠) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (٤٠) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (٥٠) میں ایک حقہ دینا ہوگا۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کرلی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کرلی جائے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا سے لے کر ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه تک اچھی ضبط نہ کرسکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے : یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس (٤٠) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (١٢٠) تک ایک بکری دینی ہوگی، جب ایک سو اکیس (١٢١) ہوجائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو (٣٠٠) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہوگی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکاۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کرلیں گے ٢ ؎۔ اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣٣ (١٤٤٨) ، ٣٩ (١٤٥٥) ، الشرکة ٢ (٢٤٨٧) ، فرض الخمس ٥ (٣٠١٦) ، الحیل ٣ (٦٩٥٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٤٩) ، ١٠ (٢٤٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٠ (١٨٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١، ١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بنت مخاض، بنت لبون، حقہ، جذعہ وغیرہ کی تشریح آگے باب نمبر (٧) تفسیر انسان الابل میں دیکھئے۔ ٢ ؎ : مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، محصل آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور (٢٥) چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر، اب اگر محصل نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپے واپس کرے گا، اور اگر محصل نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کی کتاب لکھی، لیکن اسے اپنے عمال کے پاس بھیج نہ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، آپ ﷺ نے اسے اپنی تلوار سے لگائے رکھا پھر اس پر ابوبکر (رض) نے عمل کیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے، پھر عمر (رض) نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا، اس کتاب میں یہ تھا : پا نچ (٥) اونٹ میں ایک (١) بکری ہے، دس (١٠) اونٹ میں دو (٢) بکریاں، پندرہ (١٥) اونٹ میں تین (٣) بکریاں، اور بیس (٢٠) میں چار (٤) بکریاں ہیں، پھر پچیس (٢٥) سے پینتیس (٣٥) تک میں ایک بنت مخاض ہے، پینتیس (٣٥) سے زیادہ ہوجائے تو پینتالیس (٤٥) تک ایک بنت لبون ہے، جب پینتالیس (٤٥) سے زیادہ ہوجائے تو ساٹھ (٦٠) تک ایک حقہ ہے، جب ساٹھ (٦٠) سے زیادہ ہوجائے تو پچہتر (٧٥) تک ایک جذعہ ہے، جب پچہتر (٧٥) سے زیادہ ہوجائے تو نوے (٩٠) تک دو بنت لبون ہیں، جب نوے (٩٠) سے زیادہ ہوجائیں تو ایک سو بیس (١٢٠) تک دو حقے ہیں، اور جب اس سے بھی زیادہ ہوجائیں تو ہر پچاس (٥٠) پر ایک حقہ اور ہر چالیس (٤٠) پر ایک بنت لبون واجب ہے۔ بکریوں میں چالیس (٤٠) سے لے کر ایک سو بیس (١٢٠) بکریوں تک ایک (١) بکری واجب ہوگی، اگر اس سے زیادہ ہوجائیں تو دو سو (٢٠٠) تک دو (٢) بکریاں ہیں، اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو (٣٠٠) تک تین (٣) بکریاں ہیں، اگر اس سے بھی زیادہ ہوجائیں تو ہر سو (١٠٠) بکری پر ایک (١) بکری ہوگی، اور جو سو (١٠٠) سے کم ہو اس میں کچھ بھی نہیں، زکاۃ کے ڈر سے نہ جدا مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال کو جدا کیا جائے اور جو مال دو آدمیوں کی شرکت میں ہو وہ ایک دوسرے سے لے کر اپنا اپنا حصہ برابر کرلیں، زکاۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے گا ۔ زہری کہتے ہیں : جب مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا) آئے تو بکریوں کے تین غول کریں گے، ایک غول میں گھٹیا درجہ کی بکریاں ہوں گی دوسرے میں عمدہ اور تیسرے میں درمیانی درجہ کی تو مصدق درمیانی درجہ کی بکریاں زکاۃ میں لے گا، زہری نے گایوں کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٤ (٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٩ (١٧٩٨) ، موطا امام مالک/الزکاة ١١ (٢٣) (وجادةً ) ، سنن الدارمی/الزکاة ٦ (١٦٦٦) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٥) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ سفیان بن حسین زہری سے روایت میں ثقہ نہیں ہیں )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
محمد بن یزید واسطی کہتے ہیں ہمیں سفیان بن حسین نے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث کی خبر دی ہے اس میں ہے : اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون واجب ہوگا ، اور انہوں نے زہری کے کلام کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٨١٣) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطاب (رض) کی اولاد کے پاس تھی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں : اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کرلیا جیسے وہ تھی، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا : جب ایک سو اکیس (١٢١) اونٹ ہوجائیں تو ان میں ایک سو انتیس (١٢٩) تک تین (٣) بنت لبون واجب ہیں، جب ایک سو تیس (١٣٠) ہوجائیں تو ایک سو انتالیس (١٣٩) تک میں دو (٢) بنت لبون اور ایک (١) حقہ ہیں، جب ایک سو چالیس (١٤٠) ہوجائیں تو ایک سو انچاس (١٤٩) تک دو (٢) حقہ اور ایک (١) بنت لبون ہیں، جب ایک سو پچاس (١٥٠) ہوجائیں تو ایک سو انسٹھ (١٥٩) تک تین (٣) حقہ ہیں، جب ایک سو ساٹھ (١٦٠) ہوجائیں تو ایک سو انہتر (١٦٩) تک چار (٤) بنت لبون ہیں، جب ایک سو ستر (١٧٠) ہوجائیں تو ایک سو اناسی (١٧٩) تک تین (٣) بنت لبون اور ایک (١) حقہ ہیں، جب ایک سو اسی (١٨٠) ہوجائیں تو ایک سو نو اسی (١٨٩) تک دو (٢) حقہ اور دو (٢) بنت لبون ہیں، جب ایک سو نوے (١٩٠) ہوجائیں تو ایک سو ننانوے (١٩٩) تک تین (٣) حقہ اور ایک (١) بنت لبون ہیں، جب دو سو (٢٠٠) ہوجائیں تو چار (٤) حقے یا پانچ (٥) بنت لبون، ان میں سے جو بھی پائے جائیں، لے لیے جائیں گے ۔ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصول کرنے والا خود چاہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٥٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٨١٣، ١٨٦٧٠) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ مالک نے کہا : عمر بن خطاب (رض) کے قول جدا جدا مال کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور نہ اکٹھے مال کو جدا کیا جائے گا کا مطلب یہ ہے : مثلاً ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، جب مصدق ان کے پاس زکاۃ وصول کرنے آئے تو وہ سب اپنی بکریوں کو ایک جگہ کردیں تاکہ ایک ہی شخص کی تمام بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکاۃ میں لے، اکٹھا مال جدا نہ کئے جانے کا مطلب یہ ہے : دو ساجھے دار ہوں اور ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہوں (دونوں کی ملا کر دو سو دو ) تو دونوں کو ملا کر تین بکریاں زکاۃ کی ہوتی ہیں، لیکن جب زکاۃ وصول کرنے والا آتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کرلیتے ہیں، اس طرح ہر ایک پر ایک ہی بکری لازم ہوتی ہے، یہ ہے وہ چیز جو میں نے اس سلسلے میں سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٩٢٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١١ (٢٣) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
علی (رض) سے روایت ہے (زہیر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے) ، آپ ﷺ نے فرمایا ہے : چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس (٤٠) درہم میں ایک (١) درہم، اور جب تک دو سو (٢٠٠) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (٢٠٠) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (٥) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو، بکریوں میں جب چالیس (٤٠) ہوں تو ایک (١) بکری ہے، اگر انتالیس (٣٩) ہوں تو ان میں کچھ لازم نہیں ، پھر بکریوں کی زکاۃ اسی طرح تفصیل سے بیان کی جو زہری کی روایت میں ہے۔ گائے بیلوں میں یہ ہے کہ ہر تیس (٣٠) گائے یا بیل پر ایک سالہ گائے دینی ہوگی اور ہر چا لیس (٤٠) میں دو سالہ گائے دینی ہوگی، باربرداری والے گائے بیلوں میں کچھ لازم نہیں ہے، اونٹوں کے بارے میں زکاۃ کی وہی تفصیل اسی طرح بیان کی جو زہری کی روایت میں گزری ہے، البتہ اتنے فرق کے ساتھ کہ پچیس (٢٥) اونٹوں میں پانچ (٥) بکریاں ہوں گی، ایک بھی زیادہ ہونے یعنی چھبیس (٢٦) ہوجانے پر پینتیس (٣٥) تک ایک (١) بنت مخاض ہوگی، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون نر ہوگا، اور جب چھتیس (٣٦) ہوجائیں تو پینتالیس (٤٥) تک ایک (١) بنت لبون ہے، جب چھیالیس (٤٦) ہوجائیں تو ساٹھ (٦٠) تک ایک (١) حقہ ہے جو نر اونٹ کے لائق ہوجاتی ہے ، اس کے بعد اسی طرح بیان کیا ہے جیسے زہری نے بیان کیا یہاں تک کہ جب اکیانوے (٩١) ہوجائیں تو ایک سو بیس (١٢٠) تک دو (٢) حقہ ہوں گی جو جفتی کے لائق ہوں، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ہر پچاس (٥٠) پر ایک (١) حقہ دینا ہوگا، زکاۃ کے خوف سے نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے اور نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے، اسی طرح نہ کوئی بوڑھا جانور قابل قبول ہوگا اور نہ عیب دار اور نہ ہی نر، سوائے اس کے کہ مصدق کی چاہت ہو۔ (زمین سے ہونے والی) ، پیداوار کے سلسلے میں کہا کہ نہر یا بارش کے پانی کی سینچائی سے جو پیداوار ہوئی ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے اور جو پیداوار رہٹ سے پانی کھینچ کر کی گئی ہو، اس میں بیسواں حصہ لیا جائے گا ۔ عاصم اور حارث کی ایک روایت میں ہے کہ زکاۃ ہر سال لی جائے گی۔ زہیر کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ہر سال ایک بار کہا۔ عاصم کی روایت میں ہے : جب بنت مخاض اور ابن لبون بھی نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دینی ہوں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٤ (١٧٩٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٧ (١٦٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣ (٦٢٠) ، سنن النسائی/الزکاة ١٨ (٢٤٧٩) ، مسند احمد (١/١٢١، ١٣٢، ١٤٦) (صحیح) (شواہد کی بنا پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٥/٢٩١ )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
علی (رض) اس حدیث کے ابتدائی کچھ حصہ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جب تمہارے پاس دو سو (٢٠٠) درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (٥) درہم زکاۃ ہوگی، اور سونا جب تک بیس (٢٠) دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (٢٠) دینار ہوجائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہوگی (یعنی چالیسواں حصہ) ۔ راوی نے کہا : مجھے یاد نہیں کہ فبحساب ذلك علی (رض) کا قول ہے یا اسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ تک مرفوع کیا ہے ؟ اور کسی بھی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مگر جریر نے کہا ہے کہ ابن وہب اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے اتنا اضافہ کرتے ہیں : کسی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک اس پر سال نہ گزر جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٣٩) (صحیح) (شواہد کی بناپر صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٥/٢٩٤ )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے گھوڑا، غلام اور لونڈی کی زکاۃ معاف کردی ہے لہٰذا تم چاندی کی زکاۃ دو ، ہر چالیس (٤٠) درہم پہ ایک (١) درہم، ایک سو نوے (١٩٠) درہم میں کوئی زکاۃ نہیں، جب دو سو (٢٠٠) درہم پورے ہوجائیں تو ان میں پانچ (٥) درہم ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث اعمش نے ابواسحاق سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے ابوعوانہ نے کی ہے اور اسے شیبان ابومعاویہ اور ابراہیم بن طہمان نے ابواسحاق سے، ابواسحاق، حارث سے حارث نے علی (رض) سے اور علی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نفیلی کی حدیث شعبہ و سفیان اور ان کے علاوہ لوگوں نے ابواسحاق سے ابواسحاق نے عاصم سے عاصم نے علی (رض) سے روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوعاً کے بجائے علی (رض) پر موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الزکاة ٣ (٦٢٠) ، سنن النسائی/الزکاة ١٨ (٢٤٧٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٩٢، ١١٣) (صحیح) (شواہد کی بناپر صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٥/٢٩٥ )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
معاویہ بن حیدہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چرنے والے اونٹوں میں چالیس (٤٠) میں ایک (١) بنت لبون ہے، (زکاۃ بچانے کے خیال سے) اونٹ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہ کئے جائیں، جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو اسے روکے گا ہم اس سے اسے وصول کرلیں گے، اور (زکاۃ روکنے کی سزا میں) اس کا آدھا مال لے لیں گے، یہ ہمارے رب عزوجل کے تاکیدی حکموں میں سے ایک تاکیدی حکم ہے، آل محمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٤ (٢٤٤٦) ، ٧ (٢٤٥١) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢، ٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٦ (١٧١٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : جرمانے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہوگیا، اکثر علماء کے قول کے مطابق یہی راجح مسلک ہے۔
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
معاذ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تو یہ حکم دیا کہ وہ گائے بیلوں میں ہر تیس (٣٠) پر ایک سالہ بیل یا گائے لیں، اور چالیس (٤٠) پر دو سالہ گائے، اور ہر بالغ مرد سے (جو کافر ہو) ایک دینار یا ایک دینار کے بدلے اسی قیمت کے کپڑے جو یمن کے معافر نامی مقام میں تیار کئے جاتے ہیں (بطور جزیہ) لیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣١٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١٢(٢٤) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٣، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٦٣) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
اس سند سے بھی معاذ (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الزکاة ٥ (٦٢٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٨ (٢٤٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١٢ (٢٤) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٣، ٢٤٧) ، دی/الزکاة (١٦٦٣) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن بھیجا، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا، لیکن اس میں یہ کپڑے یمن میں بنتے تھے کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ راوی کی تشریح یعنی محتلمًا کا ذکر کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسے جریر، یعلیٰ ، معمر، شعبہ، ابو عوانہ اور یحییٰ بن سعید نے اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کیا ہے، یعلیٰ اور معمر نے اسی کے مثل اسے معاذ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٥٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
سوید بن غفلہ (رض) کہتے ہیں کہ میں خود گیا، یا یوں کہتے ہیں : جو رسول اللہ ﷺ کے محصل کے ساتھ گیا تھا اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کی کتاب میں لکھا تھا : ہم زکاۃ میں دودھ والی بکری یا دودھ پیتا بچہ نہ لیں، نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے ، رسول اللہ ﷺ کا مصدق اس وقت آتا جب بکریاں پانی پر جاتیں اور وہ کہتا : اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو، ایک شخص نے اپنا کو بڑے کوہان والا اونٹ کو دینا چاہا تو مصدق نے اسے لینے سے انکار کردیا، اس شخص نے کہا : نہیں، میری خوشی یہی ہے کہ تو میرا بہتر سے بہتر اونٹ لے، مصدق نے پھر لینے سے انکار کردیا، اب اس نے تھوڑے کم درجے کا اونٹ کھینچا، مصدق نے اس کے لینے سے بھی انکار کردیا، اس نے اور کم درجے کا اونٹ کھینچا تو مصدق نے اسے لے لیا اور کہا : میں لے لیتا ہوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں رسول اللہ ﷺ مجھ پر غصہ نہ ہوں اور آپ مجھ سے کہیں : تو نے ایک شخص کا بہترین اونٹ لے لیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ہشیم نے ہلال بن خباب سے اسی طرح روایت کیا ہے، مگر اس میں لا تفرق کی بجائے لا يفرق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ١٢ (٢٤٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١١ (١٨٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٨ (١٦٧٠) (حسن ) سوید بن غفلہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کا محصل آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا : زکاۃ کے خوف سے جدا مال اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ ہی اکٹھا مال جدا کیا جائے ، اس روایت میں دودھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٩٣) (حسن )
None
ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا: زکاۃ کے خوف سے جدا مال اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ ہی اکٹھا مال جدا کیا جائے ، اس روایت میں دودھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
مسلم بن ثفنہ یشکری ١ ؎ کہتے ہیں نافع بن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کے کاموں پر عامل مقرر کیا اور انہیں ان سے زکاۃ وصول کرنے کا حکم دیا، میرے والد نے مجھے ان کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، چناچہ میں ایک بوڑھے آدمی کے پاس آیا، جس کا نام سعر بن دیسم تھا، میں نے کہا : مجھے میرے والد نے آپ کے پاس زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے، وہ بولے : بھتیجے ! تم کس قسم کے جانور لو گے ؟ میں نے کہا : ہم تھنوں کو دیکھ کر عمدہ جانور چنیں گے، انہوں نے کہا : بھتیجے ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں : میں اپنی بکریوں کے ساتھ یہیں گھاٹی میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رہا کرتا تھا، ایک بار دو آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئے اور مجھ سے کہنے لگے : ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں، تاکہ تم اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کرو، میں نے کہا : مجھے کیا دینا ہوگا ؟ انہوں نے کہا : ایک بکری، میں نے ایک بکری کی طرف قصد کیا، جس کی جگہ مجھے معلوم تھی، وہ بکری دودھ اور چربی سے بھری ہوئی تھی، میں اسے نکال کر ان کے پاس لایا، انہوں نے کہا : یہ بکری پیٹ والی (حاملہ) ہے، ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایسی بکری لینے سے منع کیا ہے، پھر میں نے کہا : تم کیا لو گے ؟ انہوں نے کہا : ایک برس کی بکری جو دوسرے برس میں داخل ہوگئی ہو یا دو برس کی جو تیسرے میں داخل ہوگئی ہو، میں نے ایک موٹی بکری جس نے بچہ نہیں دیا تھا مگر بچہ دینے کے لائق ہونے والی تھی کا قصد کیا، اسے نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا : اسے ہم نے لے لیا، پھر وہ دونوں اسے اپنے اونٹ پر لاد کرلیے چلے گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوعاصم نے زکریا سے روایت کیا ہے، انہوں نے بھی مسلم بن شعبہ کہا ہے جیسا کہ روح نے کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ١٥ (٢٤٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٤، ٤١٥) (ضعیف) (اس کے راوی مسلم لین الحدیث ہیں، نیز اس میں مذکور معمر شخص مبہم ہے ) وضاحت : ١ ؎ : روح نے مسلم بن ثفنہ کے بجائے مسلم بن شعبہ کہا ہے۔ اس طریق سے بھی زکریا بن اسحاق سے یہی حدیث اسی سند سے مروی ہے اس میں مسلم بن شعبہ ہے اور اس میں ہے کہ شافع وہ بکری ہے جس کے پیٹ میں بچہ ہو۔ ١٥٨٢/م۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے عمرو بن حارث حمصی کی اولاد کے پاس حمص میں عبداللہ بن سالم کی کتاب میں پڑھا کہ زبیدی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : مجھے یحییٰ بن جابر نے خبر دی ہے، انہوں نے جبیر بن نفیر سے جبیر نے عبداللہ بن معاویہ غاضری سے جو غاضرہ قیس سے ہیں، روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین باتیں ہیں جو کوئی ان کو کرے گا ایمان کا مزا چکھے گا : جو صرف اللہ کی عبادت کرے، لا إله إلا الله کا اقرار کرے، اپنے مال کی زکاۃ خوشی سے ہر سال ادا کیا کرے، اور زکاۃ میں بوڑھا، خارشتی، بیمار اور گھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ اوسط درجے کا مال دے، اس لیے کہ اللہ نے نہ تو تم سے سب سے بہتر کا مطالبہ کیا اور نہ ہی تمہیں گھٹیا مال دینے کا حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٦٤٥) (صحیح )
None
اس میں مسلم بن شعبہ ہے اور اس میں ہے کہ «شافع» وہ بکری ہے جس کے پیٹ میں بچہ ہو۔ ۱۵۸۲/م- ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے عمرو بن حارث حمصی کی اولاد کے پاس حمص میں عبداللہ بن سالم کی کتاب میں پڑھا کہ زبیدی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن جابر نے خبر دی ہے، انہوں نے جبیر بن نفیر سے جبیر نے عبداللہ بن معاویہ غاضری سے جو غاضرہ قیس سے ہیں، روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ہیں جو کوئی ان کو کرے گا ایمان کا مزا چکھے گا: جو صرف اللہ کی عبادت کرے، «لا إله إلا الله» کا اقرار کرے، اپنے مال کی زکاۃ خوشی سے ہر سال ادا کیا کرے، اور زکاۃ میں بوڑھا، خارشتی، بیمار اور گھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ اوسط درجے کا مال دے، اس لیے کہ اللہ نے نہ تو تم سے سب سے بہتر کا مطالبہ کیا اور نہ ہی تمہیں گھٹیا مال دینے کا حکم دیا ہے ۔
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، میں ایک شخص کے پاس سے گزرا، جب اس نے اپنا مال اکٹھا کیا تو میں نے اس پر صرف ایک بنت مخاض کی زکاۃ واجب پائی، میں نے اس سے کہا : ایک بنت مخاض دو ، یہی تمہاری زکاۃ ہے، وہ بولا : بنت مخاض میں نہ تو دودھ ہے اور نہ وہ اس قابل ہے کہ (اس پر) سواری کی جاسکے، یہ لو ایک اونٹنی جوان، بڑی اور موٹی، میں نے اس سے کہا : میں ایسی چیز کبھی نہیں لے سکتا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں، البتہ رسول اللہ ﷺ تو تم سے قریب ہیں اگر تم چاہو تو ان کے پاس جا کر وہی بات پیش کرو جو تم نے مجھ سے کہی ہے، اب اگر آپ ﷺ قبول فرما لیتے ہیں تو میں بھی اسے لے لوں گا اور اگر آپ واپس کردیتے ہیں تو میں بھی واپس کر دوں گا، اس نے کہا : ٹھیک ہے میں چلتا ہوں اور وہ اس اونٹنی کو جو اس نے میرے سامنے پیش کی تھی، لے کر میرے ساتھ چلا، جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو اس نے آپ ﷺ سے کہا : اللہ کے نبی ! آپ کا قاصد میرے پاس مال کی زکاۃ لینے آیا، قسم اللہ کی ! اس سے پہلے کبھی نہ رسول اللہ ﷺ نے میرے مال کو دیکھا اور نہ آپ کے قاصد نے، میں نے اپنا مال اکٹھا کیا تو اس نے کہا : تجھ پر ایک بنت مخاض لازم ہے اور بنت مخاض نہ دودھ دیتی ہے اور نہ ہی وہ سواری کے لائق ہوتی ہے، لہٰذا میں نے اسے ایک بڑی موٹی اور جوان اونٹنی پیش کی، لیکن اسے لینے سے اس نے انکار کردیا اور وہ اونٹنی یہ ہے جسے لے کر میں آپ کی خدمت میں آیا ہوں، اللہ کے رسول ! اسے لے لیجئے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : تم پر واجب تو بنت مخاض ہی ہے، لیکن اگر تم خوشی سے اسے دے رہے ہو تو اللہ تمہیں اس کا اجر عطا کرے گا اور ہم اسے قبول کرلیں گے ، وہ شخص بولا : اے اللہ کے رسول ! اسے لے لیجئے، یہ وہی اونٹنی ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے لیے اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ( تحفة الأشراف : ٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤٢) (حسن )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ (رض) کو یمن بھیجا اور فرمایا : تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، ان کو اس بات کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی، پھر اگر وہ یہ بھی مان لیں تو تم ان کے عمدہ مالوں کو نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کہ اس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٥) ، ٤١ (١٤٥٨) ، ٦٣ (١٤٩٦) ، المظالم ٩ (٢٤٤٨) ، المغازي ٦٠ (٤٣٤٧) ، التوحید ١ (٧٣٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧ (١٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٦ (٦٢٥) ، والبر والصلة ٦٨ (٢٠١٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١ (٢٤٣٧) ، ٤٦ (٢٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١ (١٧٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥) (صحیح )
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زکاۃ لینے میں زیادتی کرنے والا، زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٩ (٦٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٤ (١٨٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جیسے گناہ زکاۃ نہ ادا کرنے میں ہے، ویسے ہی گناہ جبراً زکاۃ والے سے زیادہ لینے میں بھی ہے۔
مصدق کو راضی کرنے کا بیان
بشیر بن خصاصیہ (رض) سے روایت ہے (ابن عبید اپنی حدیث میں کہتے ہیں : ان کا نام بشیر نہیں تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بشیر رکھ دیا تھا) وہ کہتے ہیں : ہم نے عرض کیا : زکاۃ لینے والے ہم پر زیادتی کرتے ہیں، کیا جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں اتنا مال ہم چھپالیا کریں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٠٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٨٤) (ضعیف) (اس کے راوی دیسم لین الحدیث ہیں )
مصدق کو راضی کرنے کا بیان
اس سند سے بھی ایوب سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے مگر اس میں ہے ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! زکاۃ لینے والے زیادتی کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرزاق نے معمر سے اسے مرفوعاً نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٢٢) (ضعیف ) وضاحت : W
مصدق کو راضی کرنے کا بیان
جابر بن عتیک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قریب ہے کہ تم سے زکاۃ لینے کچھ ایسے لوگ آئیں جنہیں تم ناپسند کرو گے، جب وہ آئیں تو انہیں مرحبا کہو اور وہ جسے چاہیں، اسے لینے دو ، اگر انصاف کریں گے تو فائدہ انہیں کو ہوگا اور اگر ظلم کریں گے تو اس کا وبال بھی انہیں پر ہوگا، لہٰذا تم ان کو خوش رکھو، اس لیے کہ تمہاری زکاۃ اس وقت پوری ہوگی جب وہ خوش ہوں اور انہیں چاہیئے کہ تمہارے حق میں دعا کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣١٧٥) (ضعیف) (اس کے راوی صخر لین الحدیث ہیں )
مصدق کو راضی کرنے کا بیان
جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ کچھ لوگ یعنی کچھ دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : صدقہ و زکاۃ وصول کرنے والوں میں سے بعض لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مصدقین کو راضی کرو ، انہوں نے پوچھا : اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں، اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے فرمایا : تم اپنے مصدقین کو راضی کرو ، عثمان کی روایت میں اتنا زائد ہے اگرچہ وہ تم پر ظلم کریں ۔ ابوکامل اپنی حدیث میں کہتے ہیں : جریر (رض) کا بیان ہے : میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی، اس کے بعد سے میرے پاس جو بھی مصدق آیا، مجھ سے خوش ہو کر ہی واپس گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٥ (٩٨٩) ، سنن النسائی/الزکاة ١٤ (٢٤٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢١٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٠ (٦٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١١ (١٨٠٢) ، مسند احمد (٤/٣٦٢) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٢ (١٧١٢) (صحیح )
زکوة وصول کرنے والا زکوة دینے والے کے حق میں دعائے خیر کرے
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد (ابواوفی) اصحاب شجرہ ١ ؎ میں سے تھے، جب نبی اکرم ﷺ کے پاس کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ لے کر آتی تو آپ فرماتے : اے اللہ ! آل فلاں پر رحمت نازل فرما، میرے والد اپنی زکاۃ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ابواوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٤ (١٤٩٧) ، المغازي ٣٥ (٤١٦٦) ، الدعوات ١٩ (٦٣٣٢) ، ٣٣ (٦٣٥٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥٤(١٠٧٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٣ (٢٤٦١) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٨ (١٧٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٥، ٣٨١، ٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان لوگوں میں سے تھے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک تھے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو خود سے اپنی زکاۃ ادا کرنے آئے عامل کو اس کو دعا دینی چاہیے۔ ابوداؤد کہتے ہیں میں نے اونٹوں کی عمروں کی یہ تفصیل ریاشی اور ابوحاتم وغیرہ وغیرہ سے سنا ہے، اور نضر بن مشمیل اور ابوعبید کی کتاب سے حاصل کی ہے، اور بعض باتیں ان میں سے کسی ایک ہی نے ذکر کی ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے : اونٹ کا بچہ (جب پیدا ہو) حواء ر کہلاتا ہے۔ جب دودھ چھوڑے تو اسے فصیل کہتے ہیں۔ جب ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں لگ جائے تو دوسرے سال کے پورا ہونے تک اسے بنت مخاض کہتے ہیں۔ جب تیسرے میں داخل ہوجائے تو اسے بنت لبون کہتے ہیں۔ جب تین سال پورے کرے تو چار برس پورے ہونے تک اسے حِق یا حقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ سواری اور جفتی کے لائق ہوجاتی ہے، اور اونٹنی (مادہ) اس عمر میں حاملہ ہوجاتی ہے، لیکن نر جوان نہیں ہوتا، جب تک دگنی عمر (چھ برس) کا نہ ہوجائے، حقہ کو طروق ۃ الفحل بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ نر اس پر سوار ہوتا ہے۔ جب پانچواں برس لگے تو پانچ برس پورے ہونے تک جذعہ کہلاتا ہے۔ جب چھٹا برس لگے اور وہ سامنے کے دانت گراوے تو چھ برس پورے ہونے تک وہ ثنی ہے۔ جب ساتواں برس لگے تو سات برس پورے ہونے تک نر کو رباعی اور مادہ کو رباعیہ کہتے ہیں۔ جب آٹھواں برس لگے اور چھٹا دانت گرا دے تو آٹھ برس پورے ہونے تک اسے سدیس یا سدس کہتے ہیں۔ جب وہ نویں برس میں لگ جائے تو اسے دسواں برس شروع ہونے تک بازل کہتے ہیں، اس لیے کہ اس کی کچلیاں نکل آتی ہیں، کہا جاتا ہے بزل نابه یعنی اس کے دانت نکل آئے۔ اور دسواں برس لگ جائے تو وہ مخلف ہے، اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں، البتہ یوں کہتے ہیں : ایک سال کا بازل ، دو سال کا بازل ، ایک سال کا مخلف ، دو سال کا مخلف اور تین سال کا مخلف ، یہ سلسلہ پانچ سال تک چلتا ہے۔ خلفہ حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں۔ ابوحاتم نے کہا : جذوعہ ایک مدت کا نام ہے کسی خاص دانت کا نام نہیں، دانتوں کی فصل سہیل تارے کے نکلنے پر بدلتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہم کو ریاشی نے شعر سنائے (جن کے معنی ہیں) : جب رات کے اخیر میں سہیل (ستارہ) نکلا تو ابن لبون حِق ہوگیا اور حِق جذع ہوگیا کوئی دانت نہ رہا سوائے ہبع کے۔ ہبع : وہ بچہ ہے جو سہیل کے طلوع کے وقت میں پیدا نہ ہو، بلکہ کسی اور وقت میں پیدا ہو، اس کی عمر کا حساب سہیل سے نہیں ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : .
اموال کی زکوة کہاں پر لی جائے
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہ جلب صحیح ہے نہ جنب لوگوں سے زکاۃ ان کے ٹھکانوں میں ہی لی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٧٨٥، ١٩٢٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠، ٢١٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جلب زکاۃ دینے والا اپنے جانور کھینچ کر عامل کے پاس لے آئے، اور جنب زکاۃ دینے والا اپنے جانور دور لے کر چلا جائے تاکہ عامل کو زکاۃ لینے کے لئے وہاں جانا پڑے۔
اموال کی زکوة کہاں پر لی جائے
محمد بن اسحاق سے آپ ﷺ کے فرمان : لا جلب ولا جنب کی تفسیر میں مروی ہے کہ لا جلب کا مطلب یہ ہے کہ جانوروں کی زکاۃ ان کی جگہوں میں جا کرلی جائے وہ مصدق تک کھینچ کر نہ لائے جائیں، اور جنب فریضہ زکاۃ کے علاوہ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے : وہ کہتے ہیں : جنب یہ ہے کہ محصل زکاۃ دینے والوں کی جگہوں سے دور نہ رہے کہ جانور اس کے پاس لائے جائیں بلکہ اسی جگہ میں زکاۃ لی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٧٨٥، ١٩٢٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٠، ٢١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس تفسیر کی رو سے جلب اور جنب کے معنی ایک ہوجا رہے ہیں، اور جنب کی تفسیر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنب یہ ہے کہ جانوروں کا مالک جانوروں کو ان کی جگہوں سے ہٹا کر دور کرلے تاکہ محصل کو انہیں ڈھونڈنے اور ان کے پاس پہنچنے میں زحمت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
زکوة دینے کے بعد پھر اس کو نہیں خریدنا چاہیے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پایا تو خریدنا چاہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے مت خریدو، اپنے صدقے کو مت لوٹاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٩(١٤٨٩) ، والھبة ٣٠ (٢٦٢٣) ، ٣٧ (٢٦٣٦) ، والوصایا ٣١ (٢٧٧٥) ، والجہاد ١١٩ (٢٩٧١) ، ١٣٧ (٣٠٠٢) ، صحیح مسلم/الھبات ١ (١٦٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٢ (٦٦٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٦) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١ (٢٣٩٠) ، ٢ (٢٣٩٢) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٦(٤٩) ، مسند احمد (١/٤٠، ٥٤) (صحیح )
غلام اور باندیوں کی زکوٰة
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : گھوڑے اور غلام یا لونڈی میں زکاۃ نہیں، البتہ غلام یا لونڈی میں صدقہ فطر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٥ (١٤٦٣) ، ٤٦ (١٤٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢ (٩٨٢) ، سنن الترمذی/الزکاة ٨ (٦٢٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٦ (٢٤٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٥ (١٨١٢) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٣ (٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٤٩، ٢٥٤، ٢٧٩، ٤١٠، ٤٢٠، ٤٣٢، ٤٥٤، ٤٦٩، ٤٧٠، ٤٧٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٠ (١٦٧٢) (صحیح )
غلام اور باندیوں کی زکوٰة
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام، لونڈی اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) (صحیح )
زراعت کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کھیت کو آسمان یا دریا یا چشمے کا پانی سینچے یا زمین کی تری پہنچے، اس میں سے پیداوار کا دسواں حصہ لیا جائے گا اور جس کھیتی کی سینچائی رہٹ اور جانوروں کے ذریعہ کی گئی ہو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ لیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٥ (١٤٨٣) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٤ (٦٤٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٧ (١٨١٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٧٧) (صحیح )
زراعت کی زکوة کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے دریا یا چشمے کے پانی نے سینچا ہو، اس میں دسواں حصہ ہے اور جسے رہٹ کے پانی سے سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٨١) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٥ (٢٤٩١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤١، ٣٥٣) (صحیح )
زراعت کی زکوة کا بیان
وکیع کہتے ہیں بعل سے مراد وہ کھیتی ہے جو آسمان کے پانی سے (بارش) اگتی ہو، ابن اسود کہتے ہیں : یحییٰ (یعنی ابن آدم) کہتے ہیں : میں نے ابو ایاس اسدی سے بعل کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : بعل وہ زمین ہے جو آسمان کے پانی سے سیراب کی جاتی ہو، نضر بن شمیل کہتے ہیں : بعل بارش کے پانی کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح )
زراعت کی زکوة کا بیان
معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا تو فرمایا : غلہ میں سے غلہ لو، بکریوں میں سے بکری، اونٹوں میں سے اونٹ اور گایوں میں سے گائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے مصر میں ایک ککڑی کو بالشت سے ناپا تو وہ تیرہ بالشت کی تھی اور ایک سنترہ دیکھا جو ایک اونٹ پر لدا ہوا تھا، اس کے دو ٹکڑے کاٹ کر دو بوجھ کے مثل کردیئے گئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨١٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٣٤٨) (ضعیف) (اس کے راوی شریک کے اندر کلام ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مال کی زکاۃ اسی کے جنس سے ہوگی بصورت مجبوری اس کی قیمت بھی زکاۃ میں دی جاسکتی ہے۔
شھد کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ بنی متعان کے ایک فرد متعان اپنے شہد کا عشر (دسواں حصہ) لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کے ایک سلبہ نامی جنگل کا ٹھیکا طلب کیا، رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنگل کو ٹھیکے پردے دیا، جب عمر بن خطاب (رض) خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وہب نے عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھا، وہ ان سے اس کے متعلق پوچھ رہے تھے، عمر (رض) نے انہیں (جواب میں) لکھا اگر ہلال تم کو اسی قدر دیتے ہیں، جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے یعنی اپنے شہد کا دسواں حصہ، تو سلبہ کا ان کا ٹھیکا قائم رکھو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو مکھیاں بھی جنگل کی دوسری مکھیوں کی طرح ہیں، جو چاہے ان کا شہد کھا سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٢٩ (٢٤٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٠ (١٨٢٣) (حسن )
شھد کی زکوة کا بیان
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ شبابہ جو قبیلہ فہم کی ایک شاخ ہے، پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا اور کہا : ہر دس مشک میں سے ایک مشک زکاۃ ہے۔ سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں : وہ ان کے لیے دو وادیوں کو ٹھیکہ پر دیئے ہوئے تھے، اور مزید کہتے ہیں : تو وہ لوگ انہیں اسی قدر شہد دیتے تھے جتنا وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے اور آپ نے ان کے لیے دو وادیوں کو ٹھیکہ پر دیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٦٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٣٧) (حسن )
شھد کی زکوة کا بیان
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے مغیرہ (رض) کی روایت کے ہم معنی روایت ہے اس میں إن شبابة بطن من فهم کے بجائے إن بطنا من فهم ہے اور من کل عشر قرب قربة کے بجائے من عشر قرب قربة اور لهم وادييهم کے بجائے واديين لهم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٠ (١٨٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٨٦٥٧) (حسن )
درخت پر انگوروں کا اندازہ کرلینے کا بیان
عتاب بن اسید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کا تخمینہ لگانے کا حکم دیا جیسے درخت پر کھجور کا تخمینہ لگایا جاتا ہے اور ان کی زکاۃ اس وقت لی جائے جب وہ خشک ہوجائیں جیسے کھجور کی زکاۃ سوکھنے پر لی جاتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٧ (٦٤٤) ، سنن النسائی/الزکاة ١٠٠ (٢٦١٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٨ (١٨١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٤٨) (ضعیف) (سعید بن مسیب اور عتاب (رض) کے درمیان سند میں انقطاع ہے )
درخت پر انگوروں کا اندازہ کرلینے کا بیان
ابن شہاب سے اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : سعید نے عتاب سے کچھ نہیں سنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٤٨) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ عتاب (رض) کی وفات (١٣ ھ) میں اور سعید کی پیدائش (١٥ ھ) میں ہے۔
درخت پر پھلوں کا اندازہ لگانا
عبدالرحمٰن بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ (رض) ہماری مجلس میں تشریف لائے، انہوں نے کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جب تم پھلوں کا تخمینہ کرلو تب انہیں کاٹو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو اگر تم ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو ایک چوتھائی ہی چھوڑ دیا کرو ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اندازہ لگانے والا ایک تہائی بیج بونے وغیرہ جیسے کاموں کے لیے چھوڑ دے گا، اس کی زکاۃ نہیں لے گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٧ (٦٤٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٢٦ (٢٤٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣) (ضعیف) (عبدالرحمن بن مسعود انصاری لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جتنا اندازہ لگایا جائے اس میں سے ایک تہائی حصہ چھوڑ دیا جائے، اس کی زکاۃ نہ لی جائے کیوں کہ تخمینے میں کمی بیشی کا احتمال ہے، اسی طرح پھل تلف بھی ہوجاتے ہیں اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں، ایک تہائی چھوڑ دینے سے مالک کے ان نقصانات کی تلافی اور بھر پائی ہوجاتی ہے، اس پر اکثر علماء کا عمل ہے۔
کھجور کا اندازہ کب لگایا جائے؟
ام المؤمنین عائشہ (رض) خیبر کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عبداللہ بن رواحہ (رض) کو یہودیوں کے پاس بھیجتے تو وہ کھجور کو اس وقت اندازہ لگاتے جب وہ پکنے کے قریب ہوجاتی قبل اس کے کہ وہ کھائی جاسکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٠٦، ١٦٥٣١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٦٣) (ضعیف) (ابن جریج اور زھری کے درمیان سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎ : خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے اس طرح معاملہ کیا کہ تم اپنے کھیتوں میں کھیتی کرتے رہو، لیکن اس میں سے آدھا مسلمانوں کو دیا کرو، اس لئے عبداللہ بن رواحہ (رض) ہر فصل میں جا کر کھجوروں کا اندازہ لگا آتے، پھر فصل کٹنے کے بعد اسی حساب سے ان سے وصول لیا جاتا۔
زکوة میں خراب کھجور (یا کوئی اور چیز) دینا جائز نہیں ہے
سہل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جعرور اور لون الحبیق کو زکاۃ میں لینے سے منع ١ ؎ فرمایا، زہری کہتے ہیں : یہ دونوں مدینے کی کھجور کی قسمیں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابوالولید نے بھی سلیمان بن کثیر سے انہوں نے زہری سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٦٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٢٧ (٢٤٩٤) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سفیان بن حسین : ابن شہاب زھری سے روایت میں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : زکاۃ میں اوسط درجہ کا مال دیا جاتا ہے، نہ بہت عمدہ اور نہ بہت خراب ، کھجور کی مذکورہ دونوں قسمیں ردی اور خراب ہیں، اس لئے انہیں زکاۃ میں دینے سے منع فرمایا۔
زکوة میں خراب کھجور (یا کوئی اور چیز) دینا جائز نہیں ہے
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار ہمارے پاس مسجد میں تشریف لائے، آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، ایک شخص نے خراب قسم کی کھجور کا خوشہ لٹکا رکھا تھا، آپ ﷺ نے اس خوشہ میں چھڑی چبھوئی اور فرمایا : اس کا صدقہ دینے والا شخص اگر چاہتا تو اس سے بہتر دے سکتا تھا ، پھر فرمایا : یہ صدقہ دینے والا قیامت کے روز حشف (خراب قسم کی کھجور) کھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٢٧ (٢٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٩ (١٨٢١) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٣، ٢٨) (حسن )
صدقہ فطر کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہوگا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٣٣) (حسن )
صدقہ فطر کب دیا جائے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ صدقہ فطر لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے، راوی کہتے ہیں : چناچہ ابن عمر (رض) نماز عید کے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٦ (١٥٠٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥ (٩٨٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٦ (٦٧٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٤٥ (٢٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥١، ١٥٥) (صحیح) دون فعل ابن عمر
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع فرض کیا ہے، جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام پر، مرد اور عورت پر (فرض) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٣ (١٥٠٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥، ٣٦ (٦٧٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٣ (٢٥٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٢١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ٦٣، ٦٦، ١٠٢، ١١٤، ١٣٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٢) (صحیح )
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع مقرر کیا، پھر راوی نے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث ذکر کی، اس میں والصغير والکبير وأمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة ہر چھوٹے اور بڑے پر (صدقہ فطر واجب ہے) اور آپ نے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے اس کے ادا کردینے کا حکم دیا) کا اضافہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبداللہ عمری نے اسے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں على كل مسلم کے الفاظ ہیں (یعنی ہر مسلمان پر لازم ہے) ١ ؎ اور اسے سعید جمحی نے عبیداللہ (عمری) سے انہوں نے نافع سے روایت کیا ہے اس میں من المسلمين کا لفظ ہے حالانکہ عبیداللہ سے جو مشہور ہے اس میں من المسلمين کا لفظ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٣ (٢٥٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨٢٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کافر غلام یا کافر لونڈی کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا ضروری نہیں۔
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقہ فطر جو یا کھجور میں سے ہر چھوٹے بڑے اور آزاد اور غلام پر ایک صاع فرض کیا ہے۔ موسیٰ کی روایت میں والذکر والأنثى بھی ہے یعنی مرد اور عورت پر بھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس میں ایوب اور عبداللہ یعنی عمری نے اپنی اپنی روایتوں میں نافع سے ذكر أو أنثى کے الفاظ ( نکرہ کے ساتھ) ذکر کئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٨ (١٥١٢) ، ( تحفة الأشراف : ٧٧٩٥، ٧٨١٥، ٨١٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٥) (صحیح )
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع جو یا کھجور یا بغیر چھلکے کا جو، یا انگور نکالتے تھے، جب عمر (رض) کا دور آیا اور گیہوں بہت زیادہ آنے لگا تو انہوں نے ان تمام چیزوں کے بدلے گیہوں کا آدھا صاع (صدقہ فطر) مقرر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الزکاة ٤١ (٢٥١٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٧٦٠) (ضعیف) (عمر (رض) کا ذکر وہم ہے صحیح یہ ہے کہ ایسا معاویہ (رض) نے کیا، عبدالعزیز بن أبی رواد سے یہاں وھم ہوگیا ہے ان سے وہم ہو بھی جایا کرتا تھا )
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : اس کے بعد لوگوں نے آدھے صاع گیہوں کو ایک صاع کے برابر کرلیا، عبداللہ (ایک صاع) کھجور ہی دیا کرتے تھے، ایک سال مدینے میں کھجور کا ملنا دشوار ہوگیا تو انہوں نے جو دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٨ (١٥١١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٦) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٠ (٢٥٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥١٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ٦٣، ٦٦، ١٠٢، ١١٤، ١٣٧) ، دی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٢) (صحیح )
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان باحیات تھے، ہم لوگ صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھر ہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ (رض) حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی : میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پھر لوگوں نے یہی اختیار کرلیا، اور ابوسعید نے کہا : لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا۔ امام ابوداؤد (رح) کہتے ہیں : اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابوسعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے أو صاعًا من حنطة بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٢ (١٥٠٥) ، ٧٣ (١٥٠٦) ، ٧٥ (١٥٠٨) ، ٧٦ (١٥١٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٣٧ (٢٥١٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٦٩) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٣) ، مسند احمد (٣/٢٣، ٧٣، ٩٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٤) (صحیح )
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
اس سند سے اسماعیل (اسماعیل ابن علیہ) سے یہی حدیث (نمبر : ١٦١٦ کے اخیر میں مذکور سند سے) مروی ہے اس میں حنطہٰ کا ذکر نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : معاویہ بن ہشام نے اس حدیث میں ثوری سے، ثوری نے زید بن اسلم سے، زیدی اسلم نے عیاض سے، عیاض نے ابوسعید سے نصف صاع من بُرٍّ نقل کیا ہے، لیکن یہ زیادتی معاویہ بن ہشام کا یا اس شخص کا وہم ہے جس نے ان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٦٩) (ضعیف )
صدقہ فطر کی مقدار کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ایک ہی صاع نکالوں گا، ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کھجور، یا جو، یا پنیر، یا انگور کا ایک ہی صاع نکالتے تھے۔ یہ یحییٰ کی روایت ہے، سفیان کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : یا ایک صاع آٹے کا، حامد کہتے ہیں : لوگوں نے اس زیادتی پر نکیر کی، تو سفیان نے اسے چھوڑ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ زیادتی ابن عیینہ کا وہم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد أبو داود بروایة سفیان بن عیینة، وروایة یحییٰ القطان صحیحة موافقة لرقم : ١٦١٦، ( تحفة الأشراف : ٤٢٦٩) (حسن) (یحییٰ القطان کی روایت حسن ہے، اور ابن عیینہ کی روایت میں وہم ہے، اس لئے ضعیف ہے )
صدقہ فطر میں نصف صاع گیہوں کی دلیل
عبداللہ بن ابوصعیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گیہوں کا ایک صاع ہر دو آدمیوں پر لازم ہے (ہر ایک کی طرف سے آدھا صاع) چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، رہا تم میں جو غنی ہے، اللہ اسے پاک کر دے گا، اور جو فقیر ہے اللہ اسے اس سے زیادہ لوٹا دے گا، جتنا اس نے دیا ہے ۔ سلیمان نے اپنی روایت میں غنيٍ أو فقيرٍ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٠٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٢) (ضعیف) (نعمان بن راشد کے سبب یہ روایت ضعیف ہے )
صدقہ فطر میں نصف صاع گیہوں کی دلیل
ثعلبہ بن صعیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر شخص کی جانب سے نکالنے کا حکم دیا۔ علی بن حسین نے اپنی روایت میں أو صاع بر أو قمح بين اثنين کا اضافہ کیا ہے (یعنی دو آدمیوں کی طرف سے گیہوں کا ایک صاع نکالنے کا) ، پھر دونوں کی روایتیں متفق ہیں : چھوٹے بڑے آزاد اور غلام ہر ایک کی طرف سے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٠٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٣٢) (صحیح )
صدقہ فطر میں نصف صاع گیہوں کی دلیل
عبدالرزاق کہتے ہیں ابن جریج نے ہمیں خبر دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابن شہاب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن ثعلبہ (جزم کے ساتھ بغیر شک کے) کہا ١ ؎۔ احمد بن صالح کہتے ہیں کہ عبدالرزاق نے عبداللہ بن ثعلبہ کے تعلق سے کہا ہے کہ وہ عدوی ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ احمد بن صالح نے عبداللہ صالح کو عذری کہا ہے ٢ ؎، رسول اللہ ﷺ نے عید کے دو دن پہلے لوگوں کو خطبہ دیا، یہ خطبہ مقری (عبداللہ بن یزید) کی روایت کے مفہوم پر مشتمل تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نعمان بن راشد اور بکر بن وائل کی جو روایت زہری سے اوپر گزری ہے اس میں شک کے ساتھ آیا ہے۔ ٢ ؎ : عدوی تصحیف ہے۔
خالی ہے
حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے رمضان کے اخیر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور کہا : اپنے روزے کا صدقہ نکالو ، لوگ نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے کہا : اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ یہاں موجود ہیں ؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سمجھاؤ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ صدقہ فرض کیا کھجور یا جَو سے ایک صاع، اور گیہوں سے آدھا صاع ہر آزاد اور غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر ، پھر جب علی (رض) آئے تو انہوں نے ارزانی دیکھی اور کہنے لگے : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کردی ہے، اب اسے ہر شے میں سے ایک صاع کرلو ١ ؎ تو بہتر ہے ۔ حمید کہتے ہیں : حسن کا خیال تھا کہ صدقہ فطر اس شخص پر ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٣٦ (٢٥١٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٩٤) (ضعیف) (حسن بصری کا سماع ابن عباس (رض) سے نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی گیہوں بھی ایک صاع دو ۔
وجوب زکوة سے قبل زکوٰةدینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر بن خطاب (رض) کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم نے (زکاۃ دینے سے) انکار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن جمیل اس لیے نہیں دیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اس کو غنی کردیا، رہے خالد بن ولید تو خالد پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور سامان جنگ اللہ کی راہ میں دے رکھے ہیں ١ ؎، اور رہے رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی قدر اور ہے ٢ ؎، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں نہیں معلوم کہ چچا والد کے برابر ہے ۔ راوی کو شک ہے صنو الأب کہا، یا صنو أبيه کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣ (٩٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٩٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٩ (١٤٦٨) ، سنن النسائی/الزکاة ١٥ (٢٤٦٣) ، مسند احمد (٢/٣٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی انہوں نے اپنی زرہیں اور اپنے سامان اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے وقف کر رکھا ہے، پھر ان کی زکاۃ کیسی ، اسے تو انہوں نے اللہ ہی کی راہ میں دے رکھا ہے، یا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بن مانگے اپنی خوشی سے یہ چیزیں اللہ کی راہ میں دیدیں ہیں، تو وہ بھلا زکاۃ کیوں نہیں دیں گے، تمہیں لوگوں نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہوگی۔ ٢ ؎ : باب سے مطابقت اسی لفظ سے ہے یعنی : ” اس سال کی زکاۃ اور اسی کے مثل آئندہ کی زکاۃ بھی “۔
وجوب زکوة سے قبل زکوٰةدینے کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ عباس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے زکاۃ جلدی (یعنی سال گزرنے سے پہلے) دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو اس کی اجازت دی۔ راوی نے ایک بار فرخص له في ذلك کے بجائے فأذن له في ذلك روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ہشیم نے منصور بن زاذان سے، منصور نے حکم سے حکم نے حسن بن مسلم سے اور حسن بن مسلم نے نبی کریم ﷺ سے (مرسلاً ) روایت کی ہے اور ہشیم کی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے، (یعنی : اس روایت کا مرسل بلکہ معضل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٧ (٦٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٧ (١٧٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٢ (١٦٧٦) (حسن )
زکوة کا ایک شہر سے دوسرے شہر میں لے جانا
عطا کہتے ہیں زیاد یا کسی اور امیر نے عمران بن حصین (رض) کو زکاۃ کی وصولی کے لیے بھیجا، جب وہ لوٹ کر آئے تو اس نے عمران سے پوچھا : مال کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : کیا آپ نے مجھے مال لانے بھیجا تھا ؟ ہم نے اسے لیا جس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں لیتے تھے، اور اس کو صرف کردیا جہاں ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں صرف کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٤ (١٨١١) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٨٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شہر کے لوگوں سے زکاۃ وصولی جائے اسی شہر کے فقراء اور محتاجوں میں وہ تقسیم ہو، اگر وہاں کے لوگوں کو ضرورت نہ ہو تو دوسرے شہر کے ضرورتمندوں کی طرف اسے منتقل کیا جائے۔
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو سوال کرے اور اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے اس سوال سے مستغنی اور بےنیاز کرتی ہو تو قیامت کے روز اس کے چہرے پر خموش یا خدوش یا کدوح یعنی زخم ہوں گے ، لوگوں نے سوال کیا : اللہ کے رسول ! کتنے مال سے آدمی غنی ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے ہوں ۔ یحییٰ کہتے ہیں : عبداللہ بن عثمان نے سفیان سے کہا : مجھے یاد ہے کہ شعبہ حکیم بن جبیر سے روایت نہیں کرتے ١ ؎ تو سفیان نے کہا : ہم سے اسے زبید نے محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٢ (٦٥٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٧ (٢٥٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٦ (١٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٥ (١٦٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حکیم بن جبیر ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت زبید کر رہے ہیں جس سے یہ ضعف جاتا رہا۔
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے کچھ مانگ کر لاؤ جو ہم کھائیں، پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے : میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ میرے اوپر اس لیے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ١ ؎، اسدی کہتے ہیں : میں نے (اپنے جی میں) کہا : ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں : چناچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اور منقی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا، أو كما قال یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کردیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٩٠ (٢٥٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٦٤٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصدقة ١(٣) ، مسند احمد (٤/٣٦، ٥/٤٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث میں الحاف ہے یعنی الحاح اور شدید اصرار، ایسا سوال کرنا قرآن کے مطابق ناپسندیدہ عمل ہے۔
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو سوال کرے حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحاف کیا ، میں نے (اپنے جی میں) کہا : میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ (ہشام کی روایت میں ہے : چالیس درہم سے بہتر ہے) ، چناچہ میں لوٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ١ ؎۔ ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٨٩ (٢٥٩٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اللہ کے رسول ﷺ سے کچھ مانگنے کے لئے بھیجا تھا جیسا کہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے۔
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
ابوکبشہ سلولی کہتے ہیں ہم سے سہل بن حنظلیہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس آئے، انہوں نے آپ سے مانگا، آپ نے انہیں ان کی مانگی ہوئی چیز دینے کا حکم دیا اور معاویہ (رض) کو حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے لیے خط لکھ دیں جو انہوں نے مانگا ہے، اقرع نے یہ خط لے کر اسے اپنے عمامے میں لپیٹ لیا اور چلے گئے لیکن عیینہ خط لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : محمد ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ اپنی قوم کے پاس ایسا خط لے کر جاؤں جو متلمس ١ ؎ کے صحیفہ کی طرح ہو، جس کا مضمون مجھے معلوم نہ ہو ؟ معاویہ نے ان کی یہ بات رسول اللہ ﷺ سے بیان کی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو سوال کرے اس حال میں کہ اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے سوال سے بےنیاز کردیتی ہو تو وہ جہنم کی آگ زیادہ کرنا چاہ رہا ہے ۔ (ایک دوسرے مقام پر نفیلی نے جہنم کی آگ کے بجائے جہنم کا انگارہ کہا ہے) ۔ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کس قدر مال آدمی کو غنی کردیتا ہے ؟ (نفیلی نے ایک دوسرے مقام پر کہا : غنی کیا ہے، جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہیئے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : اتنی مقدار جسے وہ صبح و شام کھا سکے ۔ ایک دوسری جگہ میں نفیلی نے کہا : اس کے پاس ایک دن اور ایک رات یا ایک رات اور ایک دن کا کھانا ہو، نفیلی نے اسے مختصراً ہم سے انہیں الفاظ کے ساتھ بیان کیا جنہیں میں نے ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٦٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨٠، ١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : متلمس ایک شاعر گزرا ہے، اس نے بادشاہ عمرو بن ہند کی ہجو کی تھی، بادشاہ نے کمال ہوشیاری سے اپنے عامل کے نام خط لکھ کر اس کو دیا اور کہا کہ تم اس لفافے کو لے کر فلاں عامل کے پاس جاؤ، وہ تمہیں انعام سے نوازے گا، خط میں ہجو کے جرم میں اسے قتل کردینے کا حکم تھا، راستہ میں متلمس کو شبہہ ہوا، اس نے لفافہ پھاڑ کر خط پڑھا تو اس میں اس کے قتل کا حکم تھا، چناچہ اس نے خط پھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی جان بچا لی۔
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
زیاد بن حارث صدائی (رض) کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی، پھر ایک لمبی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے کہا : آپ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : مجھے صدقے میں سے دیجئیے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : اللہ تعالیٰ صدقے کے سلسلے میں نہ پیغمبر کے اور نہ کسی اور کے حکم پر راضی ہوا بلکہ خود اس نے اس سلسلے میں حکم دیا اور اسے آٹھ حصوں میں بانٹ دیا اب اگر تم ان آٹھوں ١ ؎ میں سے ہو تو میں تمہیں تمہارا حق دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٦٥٤) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ان آٹھ قسموں کا ذکر اس آیت میں ہے : إنما الصدقات للفقراء والمساکين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم (سورة التوبة : ٦٠) ، ” زکاۃ صرف فقراء، مساکین اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے ہے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے ہے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے یہ فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے “۔
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور یا ایک دو لقمہ در بدر پھرائے، بلکہ مسکین وہ ہے جو لوگوں سے سوال نہ کرتا ہو، اور نہ ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہوں کہ وہ مدد کا مستحق ہے کہ اسے دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٣٥٥) ، وقد أخرجہ : خ /الزکاة ٥٣ (١٤٧٦) ، و تفسیر البقرة ٤٨ (٤٥٣٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٤ (١٠٣٩) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٦ (٢٥٧٢) ، موطا امام مالک/ صفة النبی ٥ (٧) ، مسند احمد (٢/٢٦٠، ٣١٦، ٣٩٣، ٤٤٥، ٤٥٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢ (١٦٥٦) (صحیح )
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے اس میں ہے : لیکن مسکین سوال کرنے سے بچنے والا ہے، مسدد نے اپنی روایت میں اتنا بڑھایا ہے کہ (مسکین وہ ہے ) جس کے پاس اتنا نہ ہو جتنا اس کے پاس ہوتا ہے جو سوال نہیں کرتا ہے، اور نہ ہی اس کی محتاجی کا حال لوگوں کو معلوم ہوتا ہو کہ اس پر صدقہ کیا جائے، اسی کو محروم کہتے ہیں، اور مسدد نے المتعفف الذي لا يسأل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث محمد بن ثور اور عبدالرزاق نے معمر سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے فذاک المحروم کو زہری کا کلام بتایا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٧٦ (٢٥٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٢٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٦٠) (صحیح) دون قوله : ” فذاک المحروم “ فإنه مقطوع من کلام الزهري
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
عبیداللہ بن عدی بن خیار (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، آپ ﷺ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے، انہوں نے بھی آپ سے مانگا، آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا اور پھر نظر جھکا لی، آپ نے ہمیں موٹا تازہ دیکھ کر فرمایا : اگر تم دونوں چاہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن اس میں مالدار کا کوئی حصہ نہیں اور نہ طاقتور کا جو مزدوری کر کے کما سکتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٩١ (٢٥٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٦٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٤، ٥/٣٦٢) ، (صحیح )
مالداری کی حد اور زکوة کے مستحقین
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صدقہ مالدار کے لیے حلال نہیں اور نہ طاقتور اور مضبوط آدمی کے لیے (حلال ہے) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے سفیان نے سعد بن ابراہیم سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے ابراہیم نے کہا ہے نیز اسے شعبہ نے سعد سے روایت کیا ہے، اس میں لذي مرة سوي کے بجائے لذي مرة قوي کے الفاظ ہیں، نبی اکرم ﷺ سے مروی بعض روایات میں لذي مرة قوي اور بعض میں لذي مرة سوي کے الفاظ ہیں۔ عطا بن زہیر کہتے ہیں : عبداللہ بن عمرو (رض) سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا : إن الصدقة لا تحل لقوي ولا لذي مرة سوي۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٣ (٦٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ٨٦٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٤، ١٩٢) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٥ (١٦٧٩) (صحیح )
وہ شخص جسکے لئے بوجود مال دار ہونے کے صدقہ لینا جائز ہے
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مالدار کے لیے صدقہ لینا حلال نہیں سوائے پانچ لوگوں کے : اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے، یا زکاۃ کی وصولی کا کام کرنے والے کے لیے، یا مقروض کے لیے، یا ایسے شخص کے لیے جس نے اسے اپنے مال سے خرید لیا ہو، یا ایسے شخص کے لیے جس کا کوئی مسکین پڑوسی ہو اور اس مسکین پر صدقہ کیا گیا ہو پھر مسکین نے مالدار کو ہدیہ کردیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٧ (١٨٤١) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٧٧، ١٩٠٩٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الزکاة ١٧(٢٩) ، مسند احمد (٣/٤، ٣١، ٤٠، ٥٦، ٩٧) (صحیح) (اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ یہ روایت مرسل ہے )
وہ شخص جسکے لئے بوجود مال دار ہونے کے صدقہ لینا جائز ہے
اس سند سے بھی ابو سعید خدری (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں : نیز اسے ابن عیینہ نے زید سے اسی طرح روایت کیا جیسے مالک نے کہا ہے اور ثوری نے اسے زید سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : مجھ سے ایک ثقہ راوی نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٤١٧٧، ١٩٠٩٠) (صحیح )
وہ شخص جسکے لئے بوجود مال دار ہونے کے صدقہ لینا جائز ہے
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مالدار کے لیے صدقہ حلال نہیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی راہ میں ہو یا مسافر ہو یا اس کا کوئی فقیر پڑوسی ہو جسے صدقہ کیا گیا ہو پھر وہ تمہیں ہدیہ دیدے یا تمہاری دعوت کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : نیز اسے فراس اور ابن ابی لیلیٰ نے عطیہ سے، عطیہ نے ابوسعید (رض) سے اور ابوسعید نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١، ٤٠، ٩٧) (ضعیف) (عطیہ عوفی کی وجہ سے یہ روایت سنداً ضعیف ہے، ورنہ سابق سند سے صحیح ہے )
کسی شخص کو کس قدر زکوة دی جا سکتی ہے؟
بشیر بن یسار کہتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی جس کا نام سہل بن ابی حثمہ تھا کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ ان کو دیت کے دیئے یعنی اس انصاری کی دیت جو خیبر میں قتل کیا گیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٢٢ (٦٨٩٨) ، صحیح مسلم/القسامة ١ (١٦٦٩) ، سنن النسائی/القسامة ٢ (٤٧١٤) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٨ (٢٦٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٤، ١٥٥٣٦، ١٥٥٩٢) (صحیح) ویأتی ہذا الحدیث مفصلاً برقم (٤٥٢٠ ) وضاحت : ١ ؎ : شاید یہ غارمین (قرضداروں) کا حصہ ہوگا کیوں کہ دیت میں زکاۃ صرف نہیں ہوسکتی ، ویسے اس سے معلوم ہوا کہ ایک شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ دیا جاسکتا ہے۔
سوال کرنا کب جائز ہے؟
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سوال کرنا آدمی کا اپنے چہرے کو زخم لگانا ہے تو جس کا جی چاہے اپنے چہرے پر (نشان زخم) باقی رکھے اور جس کا جی چاہے اسے (مانگنا) ترک کر دے، سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے یا کسی ایسے مسئلہ میں مانگے جس میں کوئی اور چارہ کار نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٨ (٦٨١) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٢ (٢٦٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٠، ١٩، ٢٢) (صحیح )
سوال کرنا کب جائز ہے؟
قبیصہ بن مخارق ہلالی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہوگیا، چناچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے فرمایا : قبیصہ ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آجائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں ، پھر فرمایا : قبیصہ ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں : ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑگیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو، اس کے لیے بھی مانگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کرسکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کرسکے، اس کے بعد اس سے باز آجائے، اے قبیصہ ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٦ (١٠٤٤) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٠ (٢٥٨٠) ، ٨٦ (٢٥٩٢) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٧، ٥/٦٠) (صحیح )
سوال کرنا کب جائز ہے؟
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک انصاری نبی اکرم ﷺ کے پاس مانگنے کے لیے آیا، آپ نے پوچھا : کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ ، بولا : کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں میرے پاس لے آؤ ، چناچہ وہ انہیں آپ کے پاس لے آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا : یہ دونوں کون خریدے گا ؟ ، ایک آدمی بولا : انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں، آپ ﷺ نے پوچھا : ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے ؟ ، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا : میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ ﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا : ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ ، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا : جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں ، چناچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر آیا اور دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے : ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کرسکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ١٠ (١٢١٨) ، سنن النسائی/البیوع ٢٠ (٤٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٢٥ (٢١٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠، ١١٤، ١٢٦) (ضعیف) (اس کے راوی أبوبکر حنفی مجہول ہیں )
سوال کرنے اور مانگنے کی مذمت کا بیان
ابومسلم خولانی کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے پیارے اور امانت دار دوست عوف بن مالک (رض) نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا : ہم سات، آٹھ یا نو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرو گے ؟ ، جب کہ ہم ابھی بیعت کرچکے تھے، ہم نے کہا : ہم تو آپ سے بیعت کرچکے ہیں، آپ ﷺ نے یہی جملہ تین بار دہرایا چناچہ ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور آپ سے بیعت کی، ایک شخص بولا : اللہ کے رسول ! ہم ابھی بیعت کرچکے ہیں ؟ اب کس بات کی آپ سے بیعت کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس بات کی کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے اور (حکم) سنو گے اور اطاعت کرو گے ، ایک بات آپ نے آہستہ سے فرمائی، فرمایا : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے ، چناچہ ان لوگوں میں سے بعض کا حال یہ تھا کہ اگر ان کا کوڑا زمین پر گر جاتا تو وہ کسی سے اتنا بھی سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دیدے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہشام کی حدیث سعید کے علاوہ کسی اور نے بیان نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٣) ، سنن النسائی/الصلاة ٥ (٤٦١) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤١ (٢٨٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٧) (صحیح )
سوال کرنے اور مانگنے کی مذمت کا بیان
ثوبان (رض) جو رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں ؟ ، ثوبان نے کہا : میں (ضمانت دیتا ہوں) ، چناچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٠٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٨٦ (٢٥٩١) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٥ (١٨٣٧) ، مسند احمد (٥/٢٧٥، ٢٧٦، ٢٧٩، ٢٨١) (صحیح )
سوال سے بچنے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ ﷺ نے پھر دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا، ختم ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جو بھی مال ہوگا میں اسے تم سے بچا کے رکھ نہ چھوڑوں گا، لیکن جو سوال سے بچنا چاہتا ہے اللہ اسے بچا لیتا ہے، جو بےنیازی چاہتا ہے اللہ اسے بےنیاز کردیتا ہے، جو صبر کی توفیق طلب کرتا ہے اللہ اسے صبر عطا کرتا ہے، اور اللہ نے صبر سے زیادہ وسعت والی کوئی نعمت کسی کو نہیں دی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٦٩) ، والرقاق ٢٠ (٦٤٧٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٢ (١٠٥٣) ، سنن الترمذی/البر ٧٧ (٢٠٢٤) ، سنن النسائی/الزکاة ٨٥ (٢٥٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٥٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصدقة ٢ (٧) ، مسند احمد (٣/٣، ٩، ١٢، ١٤، ٤٧، ٩٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٨ (١٦٨٦) (صحیح )
سوال سے بچنے کا بیان
ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے فاقہ پہنچے اور وہ لوگوں سے اسے ظاہر کر دے تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہوگا، اور جو اس کو اللہ سے ظاہر کرے (یعنی اللہ سے اس کے دور ہونے کی دعا مانگے) تو قریب ہے کہ اسے اللہ بےپروا کر دے یا تو جلد موت دے کر یا جلد مالدار کر کے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ١٨ (٢٣٢٦) ( تحفة الأشراف : ٩٣١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٠٧، ٤٤٢) (صحیح )
سوال سے بچنے کا بیان
ابن الفراسی سے روایت ہے کہ فراسی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ! اللہ کے رسول ! کیا میں سوال کروں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں اور اگر سوال کرنا ضروری ہی ہو تو نیک لوگوں سے سوال کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٨٤ (٢٥٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٤) (ضعیف) (اس کے راوی مسلم لین الحدیث اور ابن الفراسی مجہول ہیں )
سوال سے بچنے کا بیان
ابن ساعدی کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے مجھے صدقے پر عامل مقرر کیا تو جب میں اس کام سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کردیا تو انہوں نے میرے لیے محنتانے (اجرت) کا حکم دیا، میں نے عرض کیا : میں نے یہ کام اللہ کے لیے کیا اور میرا بدلہ اللہ کے ذمہ ہے، عمر (رض) نے کہا : جو تمہیں دیا جا رہا ہے اسے لے لو، میں نے بھی یہ کام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کیا تھا، آپ ﷺ نے مجھے دینا چاہا تو میں نے بھی وہی بات کہی جو تم نے کہی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو اس میں سے کھاؤ اور صدقہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥١ (١٤٧٣) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٧ (١٠٤٥) ، سنن النسائی/الزکاہ ٩٤ (٢٦٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٧، ٤٠، ٥٢) (صحیح )
سوال سے بچنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور آپ منبر پر تھے صدقہ کرنے کا، سوال سے بچنے اور مانگنے کا ذکر کر رہے تھے کہ : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اوپر والا ہاتھ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہاتھ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث میں ایوب کی نافع سے روایت پر اختلاف کیا گیا ہے ١ ؎، عبدالوارث نے کہا : اليد العليا المتعففة (اوپر والا ہاتھ وہ ہے جو مانگنے سے بچے) ، اور اکثر رواۃ نے حماد بن زیدی سے روایت میں :اليد العليا المنفقة نقل کیا ہے (یعنی اوپر والا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے) اور ایک راوی نے حماد سے المتعففة روایت کی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٨ (١٤٢٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٢ (٢٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصدقة ٢ (٨) ، مسند احمد (٢/٩٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٢ (١٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ایوب کے تلامذہ نے ایوب سے اس حدیث میں اختلاف کیا ہے بعض رواۃ (جیسے حماد بن زید وغیرہ) نے ایوب سے اليد العليا المنفقة کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے جیسا کہ مالک نے روایت کی ہے، اس کے برخلاف عبدالوارث نے ایوب سے اليد العليا المتعففة کے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی حماد کے تلامذہ نے بھی حماد سے روایت میں اختلاف کیا ہے ان کے اکثر تلامذہ نے ان سے المنفقة کا لفظ روایت کیا ہے، اور ایک راوی نے جو مسدد بن مسرہد ہیں ان سے المتعففة کا لفظ روایت کیا ہے۔
سوال سے بچنے کا بیان
مالک بن نضلہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاتھ تین طرح کے ہیں : اللہ کا ہاتھ جو سب سے اوپر ہے، دینے والے کا ہاتھ جو اس کے بعد ہے اور لینے والے کا ہاتھ جو سب سے نیچے ہے، لہٰذا جو ضرورت سے زائد ہو اسے دے دو اور اپنے نفس کی بات مت مانو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٢٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٣) (صحیح )
بنی ہاشم کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں ہے
ابورافع (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، اس نے ابورافع سے کہا : میرے ساتھ چلو اس میں سے کچھ تمہیں بھی مل جائے گا، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر پوچھ لوں، چناچہ وہ آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : قوم کا غلام انہیں ١ ؎ میں سے ہوتا ہے اور ہمارے لیے صدقہ لینا حلال نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٥ (٦٥٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٩٧ (٢٦١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٠، ٣٩٠، ١٢٠١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابو رافع رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے لہٰذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے، اس لئے ان کے لئے بھی صدقہ لینا جائز نہیں ہوا۔
بنی ہاشم کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں ہے
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر کسی پڑی ہوئی کھجور پر ہوتا تو آپ کو اس کے لے لینے سے سوائے اس اندیشے کے کوئی چیز مانع نہ ہوتی کہ کہیں وہ صدقے کی نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٤ (٢٠٥٥) ، واللقطة ٦ (٢٤٣١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥٠ (١٠٧١) ، مسند احمد (٣/١٨٤، ١٩٢، ٢٥٨) (صحیح )
بنی ہاشم کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں ہے
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک کھجور (پڑی) پائی تو فرمایا : اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہو تاکہ یہ صدقے کی ہوگی تو میں اسے کھا لیتا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہشام نے بھی اسے قتادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٠ (١٠٧١) ، مسند احمد (٣/٢٩١) (صحیح )
بنی ہاشم کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے نبی اکرم ﷺ کے پاس اس اونٹ کے سلسلہ میں بھیجا جو آپ ﷺ نے انہیں صدقے میں سے دیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٣٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ قیام اللیل ٢٧ (١٣٣٩) ، مسند احمد (١/٣٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عباس (رض) بنی ہاشم میں سے ہیں اور بنی ہاشم کے لئے صدقہ جائز نہیں، اسی وجہ سے خطابی نے یہ تاویل کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس (رض) سے یہ اونٹ بطور قرض لیا ہو، پھر جب آپ ﷺ کے پاس صدقہ کے اونٹ آگئے ہوں تو آپ ﷺ نے اسی قرض کو صدقہ کے اونٹ سے واپس کیا ہو، اور بیہقی نے ایک تاویل یہ بھی کی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہونے سے پہلے کی بات ہو۔
بنی ہاشم کے لئے صدقہ لینا جائز نہیں ہے
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت مروی ہے البتہ اس میں (ابوعبیدہ نے) یہ اضافہ کیا ہے کہ میرے والد اسے آپ ﷺ سے بدل رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد عباس (رض) نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس لئے بھیجا کہ آپ اس اونٹ کو جو آپ نے انہیں دیا تھا صدقہ کے اونٹ سے بدل دیں اس مفہوم کے لحاظ سے من الصدقة “ ” يبدلها سے متعلق ہوگا، ناکہ أعطاها سے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں یہ اونٹ صدقہ کے علاوہ مال سے دیا تھا، پھر جب صدقہ کے اونٹ آئے تو انہوں نے اسے بدلنا چاہا اس صورت میں خطابی اور بیہقی کی اس تاویل کی ضرورت نہیں جو انہوں نے اوپر والی حدیث کے سلسلہ میں کی ہے۔
فقیر صدقہ کے مال سے غنی کو تحفہ دے سکتا ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا، آپ نے پوچھا : یہ گوشت کیسا ہے ؟ ، لوگوں نے عرض کیا : یہ وہ چیز ہے جسے بریرہ (رض) پر صدقہ کیا گیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اس (بریرہ) کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے (بریرہ کی طرف سے) ہدیہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٢ (١٤٩٥) ، والھبة ٧ (٢٥٧٧٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥٢ (١٠٧٤) ، سنن النسائی/العمری ١ (٣٧٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١١٧، ١٣٠، ١٨٠، ٢٧٦) (صحیح )
کوئی شخص صدقہ کرنے کے بعد پھر اسی چیز کو وراثت میں پائے تو اسکے لئے درست ہے
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا : میں نے ایک لونڈی اپنی ماں کو صدقہ میں دی تھی، اب وہ مرگئی ہیں اور وہی لونڈی چھوڑ کرگئی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اجر پورا ہوگیا، اور وہ لونڈی تیرے پاس ترکے میں لوٹ آئی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٧ (١١٤٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣١ (٦٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٣ (٢٣٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ الفرائض (٦٣١٥، ٦٣١٦) ، مسند احمد (٥/٣٥١، ٣٦١) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٨٧٧، ٣٣٠٩) (صحیح )
مال کا حق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم ڈول اور دیگچی عاریۃً دینے کو ماعون ١ ؎ میں شمار کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٢٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/التفسیر (١١٧٠١) ، مسند احمد ٣٨٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : عام استعمال کی ایسی چیزیں جنہیں عام طور پر لوگ ایک دوسرے سے عاریۃ لیتے رہتے ہیں۔ Narrated Abdullah ibn Masud: During the time of the Messenger of Allah ﷺ we used to consider maun (this of daily use) lending a bucket and cooking-pot.
مال کا حق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہوگی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہوگی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہوگی اور نہ ایسی ہوگی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا) ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہوگی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ ( اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہوگی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٦٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣ (١٤٠٢) ، والجہاد ١٨٩ (٢٣٧٨) ، وتفسر براء ة ٦ (٣٠٧٣) ، والحیل ٣ (٩٦٥٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٦ (٩٨٧) ، سنن النسائی/الزکاة ٦ (٢٤٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢ (١٧٨٦) ، موطا امام مالک/الزکاة ١٠(٢٢) ، مسند احمد (٢/٤٩٠، ١٠١، ٢٦٢، ٣٨٣) (صحیح )
مال کا حق
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں اونٹ کے قصے میں آپ ﷺ کے قول : لا يؤدي حقها . قال ومن حقها حلبها يوم وردها کا جملہ بھی ہے (یعنی ان کے حق میں سے یہ ہے کہ جب وہ پانی پینے (گھاٹ پر) آئیں تو ان کو دوہے) ، (اور دوہ کر مسافروں نیز دیگر محتاجوں کو پلائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٣٢١) (صحیح )
مال کا حق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس طرح کا قصہ سنا تو راوی نے ان سے یعنی ابوہریرہ (رض) سے پوچھا : اونٹوں کا حق کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : تم اچھا اونٹ اللہ کی راہ میں دو ، زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی عطیہ دو ، سواری کے لیے جانور دو ، جفتی کے لیے نر کو مفت دو اور لوگوں کو دودھ پلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٢ (٢٤٤٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٤٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٣، ٤٨٩، ٤٩٠) (حسن) (اس کے راوی ابوعمر الغدانی لین الحدیث ہیں، لیکن حدیث ماقبل ومابعد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے )
مال کا حق
عبید بن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اونٹوں کا حق کیا ہے ؟ پھر اس نے اوپر جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا ہے وإعارة دلوها (اس کے تھن دودھ دوہنے کے لیے عاریۃً دینا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٨٩٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ٦ (٩٨٨) (صحیح )
مال کا حق
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ جو دس وسق کھجور توڑے تو ایک خوشہ مسکینوں کے واسطے مسجد میں لٹکا دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣١٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح )
مال کا حق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اتنے میں ایک شخص اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر آیا اور دائیں بائیں اسے پھیرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس سواری نہ ہو، جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس توشہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ اللقطة ٤ (١٧٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤٣١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٤) (صحیح )
مال کا حق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ والذين يکنزون الذهب والفضة نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بہت گراں گزری تو عمر (رض) نے کہا : تمہاری اس مشکل کو میں رفع کرتا ہوں، چناچہ وہ (نبی اکرم ﷺ کے پاس) گئے اور عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ کے صحابہ پر یہ آیت بہت گراں گزری ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے زکاۃ صرف اس لیے فرض کی ہے کہ تمہارے باقی مال پاک ہوجائیں (جس مال کی زکاۃ نکل جائے وہ کنز نہیں ہے) اور اللہ نے میراث کو اسی لیے مقرر کیا تاکہ بعد والوں کو ملے ، اس پر عمر (رض) نے تکبیر کہی، پھر آپ ﷺ نے عمر (رض) سے فرمایا : کیا میں تم کو اس کی خبر نہ دوں جو مسلمان کا سب سے بہتر خزانہ ہے ؟ وہ نیک عورت ہے کہ جب مرد اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب وہ حکم دے تو اسے مانے اور جب وہ اس سے غائب ہو تو اس کی حفاظت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٣٨٣) (ضعیف) (اس کے راوی جعفر ، مجاہد سے روایت میں ضعیف ہیں )
سائل کا حق کیا ہے؟
حسین بن علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٤١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٠١) (ضعیف) (اس کے راوی یعلی مجہول ہیں )
سائل کا حق کیا ہے؟
اس سند سے علی (رض) سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٧١) (ضعیف) (اس کی سند میں شیخ ایک مبہم راوی ہے )
سائل کا حق کیا ہے؟
ام بجید (رض) یہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی، وہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے دروازے پر مسکین کھڑا ہوتا ہے لیکن میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو میں اسے دوں، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نہ ملے جو تم اسے دے سکو سوائے ایک جلے ہوئے کھر کے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٩ (٦٦٥) ، سنن النسائی/الزکاة ٧٠ (٢٥٦٦) ( تحفة الأشراف : ١٨٣٠٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/صفة النبی ٥ (٨) ، مسند احمد (٤/٧٠) (صحیح )
کافر کو صدقہ دینے کا بیان
اسماء (رض) کہتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٢٩ (٢٦٢٠) ، والجزیة ١٨ (٣١٨٣) ، والأدب ٨ (٥٩٧٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (١٠٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٤، ٣٤٧، ٣٥٥) (صحیح )
جس چیز کا روکنا درست نہیں
بہیسہ اپنے والد (عمیر) کہتی ہیں کہ میرے والد نے نبی اکرم ﷺ سے (آپ کے پاس آنے کی) اجازت طلب کی، (اجازت دے دی تو وہ آئے) اور وہ آپ ﷺ کے اور آپ کی قمیص کے درمیان داخل ہوگئے (یعنی آپ کی قمیص اٹھا لی) اور آپ ﷺ کے بدن مبارک کو چومنے اور آپ سے لپٹنے لگے، پھر انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ کون سی چیز ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! وہ کون سی چیز ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نمک ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! وہ کون سی چیز ہے جس کا نہ دینا جائز نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم جتنی نیکی کرو اتنی ہی وہ تمہارے لیے بہتر ہے (یعنی پانی نمک تو مت روکو اس کے علاوہ اگر ممکن ہو تو دوسری چیزیں بھی نہ روکو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ویأتي برقم : (٣٤٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٦٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٨٠، ٨١) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٠ (٢٦٥٥) (ضعیف) (اس کے رواة سیار اور ان کے والد لین الحدیث ہیں اور بہیسہ مجہول ہیں )
مسجد کے اندر سوال کرنا
عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے ایسا کوئی ہے جس نے آج کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہو ؟ ، ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بھکاری مانگ رہا ہے، میں نے عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا پایا تو ان سے اسے لے کر میں نے بھکاری کو دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٦٩٠) (صحیح) تراجع الألباني (141) (قصہ کے تذکرے کے بغیر ابوہریرہ کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس سند میں مبارک مدلس راوی ہیں اور بذریعہ عن روایت کئے ہوئے ہیں )
اللہ کے نام پر مانگنا مکروہ ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نام پر سوائے جنت کے کوئی چیز نہ مانگی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٠٤٠) (ضعیف) (اس کے راوی سلیمان ضعیف ہیں )
جو شخص اللہ کے نام پر مانگے اسکے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو ، جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو ، جو تمہیں دعوت دے اسے قبول کرو، اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے تم اس کا بدلہ دو ، اگر تم بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اس کے حق میں اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم اسے بدلہ دے چکے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٧٢ (٢٥٦٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٦٨، ٩٥، ٩٩، ١٧٢) (صحیح )
تمام مال صدقہ کرنی کی ممانعت کا بیان
جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ ایک شخص انڈہ کے برابر سونا لے کر آیا اور بولا : اللہ کے رسول ! مجھے یہ ایک کان میں سے ملا ہے، آپ اسے لے لیجئے، یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میں کسی اور چیز کا مالک نہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا، وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آپ کی دائیں جانب سے آیا اور ایسا ہی کہا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا، پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آپ کی بائیں جانب سے آیا، رسول اللہ ﷺ نے پھر اس سے منہ پھیرلیا، پھر وہ آپ ﷺ کے پیچھے سے آیا آپ نے اسے لے کر پھینک دیا، اگر وہ اسے لگ جاتا تو اس کو چوٹ پہنچاتا یا زخمی کردیتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں ایک اپنا سارا مال لے کر چلا آتا ہے اور کہتا ہے : یہ صدقہ ہے، پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، بہترین صدقہ وہ ہے جس کا مالک صدقہ دے کر مالدار رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٠٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الزکاة ٢٥ (١٧٠٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں، اور بذریعہ عن روایت کئے ہوئے ہیں )
تمام مال صدقہ کرنی کی ممانعت کا بیان
اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : خذ عنا مالک لا حاجة لنا به اپنا مال ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٩٧) (ضعیف )
تمام مال صدقہ کرنی کی ممانعت کا بیان
ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کپڑے (بطور صدقہ) ڈال دیں، انہوں نے ڈال دیا، پھر آپ ﷺ نے اس شخص کے لیے ان میں سے دو کپڑوں (کے دیئے جانے) کا حکم دیا، پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ پر ابھارا تو وہ شخص دو میں سے ایک کپڑا ڈالنے لگا، آپ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا : اپنے کپڑے لے لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الجمعة ٢٦ (٤٠٩) ، والزکاة ٥٥ (٢٥٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٠ (الجمعة ١٥) (٥١١) ، حم (٣/٢٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کا صدقہ قبول نہیں کیا کیونکہ اس کو صرف دو کپڑے ملے تھے اور وہ اس کی ضرورت سے زائد نہیں تھے۔
تمام مال صدقہ کرنی کی ممانعت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو مالدار باقی رکھے یا (یوں فرمایا) وہ صدقہ ہے جسے دینے کے بعد مالک مالدار رہے اور صدقہ پہلے اسے دو جس کی تم کفالت کرتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٣٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٨ (١٤٢٦) ، والنفقات ٢ (٥٣٥٥) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٢) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٨ (٦٨٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٣ (٢٥٣٥) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٤٣، ٢٧٨، ٢٨٨، ٣١٩، ٣٦٢، ٣٩٤، ٤٣٤) (صحیح )
تمام مال صدقہ کرنے کی اجازت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کم مال والے کا تکلیف اٹھا کردینا اور پہلے ان لوگوں کو دو جن کا تم خرچ اٹھاتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٤٨١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٨) (صحیح )
تمام مال صدقہ کرنے کی اجازت
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے سنا کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا : اگر میں کسی دن ابوبکر (رض) پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہوگا، چناچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے ؟ ، میں نے کہا : اسی قدر یعنی آدھا مال، اور ابوبکر (رض) اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے ؟ ، انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں ١ ؎، تب میں نے (دل میں) کہا : میں آپ سے کبھی بھی کسی معاملے میں نہیں بڑھ سکوں گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/المناقب ١٦ (٣٦٧٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الزکاة ٢٦ (١٧٠١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : گذشتہ باب کی حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال اللہ کی راہ میں دینے سے اللہ کے رسول نے روکا ہے، جب کہ باب کی اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ابوبکر (رض) نے اپنی پوری دولت اللہ کی راہ میں دے دی، اور یہ بات آپ کی فضیلت و بزرگی کا باعث بھی بنی، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ممانعت کا حکم ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے اعتماد اور توکل میں کمزوری ہو، اور وہ مال دینے کے بعد مفلسی سے گھبرائیں اور ندامت و شرمندگی محسوس کریں، لیکن اس کے برخلاف اگر کسی شخص کے اندر ابوبکر (رض) جیسا جذبہ، اللہ کی ذات پر اعتماد و توکل ہو تو اس کے لئے اس کام میں کوئی حرج نہیں بلکہ باعث خیر و برکت ہوگا، ان شاء اللہ۔
پانی پلانے کی فضیلت
سعد بن عبادہ انصاری خزرجی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : کون سا صدقہ آپ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی (کا صدقہ) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الوصایا ٩ (٣٦٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٨ (٣٦٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٨٥، ٦/٧) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : پانی کا صدقہ : مثلاً کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مسافروں، مصلیوں اور دیگر ضرورت مندوں کے لئے پانی کی سبیل لگانا۔
پانی پلانے کی فضیلت
اس سند سے بھی سعد بن عبادہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٣٨٣٤) (حسن )
پانی پلانے کی فضیلت
سعد بن عبادہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ام سعد (میری ماں) انتقال کر گئیں ہیں تو کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی ۔ راوی کہتے ہیں : چناچہ سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد ١ ؎ کا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٧٨، ( تحفة الأشراف : ٣٨٣٤) (حسن) (یہ روایت حدیث نمبر ١٦٧٩ سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں رجل ایک مبہم راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا ثواب ام سعد (رض) کے لئے ہے۔
پانی پلانے کی فضیلت
ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کپڑا پہنایا جب کہ وہ ننگا تھا تو اللہ اسے جنت کے سبز کپڑے پہنائے گا، اور جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کھلایا جب کہ وہ بھوکا تھا تو اللہ اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جس مسلمان نے کسی مسلمان کو پانی پلایا جب کہ وہ پیاسا تھا تو اللہ اسے (جنت کی) مہربند شراب پلائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٣٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ١٨ (٢٤٤٩) ، مسند احمد (٣/١٣) (ضعیف) (اس کے راوی نبی ح لین الحدیث ہیں )
کسی کو کوئی چیز عاریةً دینا باعث اجر ہے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چالیس خصلتیں ہیں ان میں سب سے بہتر خصلت بکری کا عطیہ دینا ہے، جو کوئی بھی ان میں سے کسی (خصلت نیک کام) کو ثواب کی امید سے اور (اللہ کی طرف سے) اپنے سے کئے ہوئے وعدے کو سچ سمجھ کر کرے گا اللہ اسے اس کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مسدد کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ حسان کہتے ہیں : ہم نے بکری عطیہ دینے کے علاوہ بقیہ خصلتوں اعمال صالحہ کو گنا جیسے سلام کا جواب دینا، چھینک کا جواب دینا اور راستے سے کوئی بھی تکلیف دہ چیز ہٹا دینا وغیرہ تو ہم پندرہ خصلتوں تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الھبة ٣٥ (٢٦٣١) ، ( تحفة الأشراف : ٨٩٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٠، ١٩٤، ١٩٦) (صحیح )
خزانچی کے ثواب کا بیان
ابوموسیٰ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امانت دار خازن جو حکم کے مطابق پورا پورا خوشی خوشی اس شخص کو دیتا ہے جس کے لیے حکم دیا گیا ہے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢٥ (١٤٣٨) ، والإجارة ١ (٢٢٦٠) ، والوکالة ١٦ (٢٣١٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٥ (١٠٢٣) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٧ (٢٥٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٩٠٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٣٩٤، ٤٠٤، ٤٠٩) (صحیح )
عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کسی فساد کی نیت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور مال کمانے کا ثواب اس کے شوہر کو اور خازن کو بھی اسی کے مثل ثواب ملے گا اور ان میں سے کوئی کسی کے ثواب کو کم نہیں کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٧ (١٤٢٥) ، ٢٥ (١٤٣٧) ، ٢٦ (١٤٤٠) ، والبیوع ١٢ (٢٠٦٥) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٥ (١٠٢٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٤ (٦٧٢) ، سنن النسائی/الزکاة ٥٧ (٢٥٤٠) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٥ (٢٢٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤، ٩٩، ٢٧٨) (صحیح )
عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان
سعد (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے بیعت کی تو ایک موٹی عورت جو قبیلہ مضر کی لگتی تھی کھڑی ہوئی اور بولی : اللہ کے نبی ! ہم (عورتیں) تو اپنے باپ اور بیٹوں پر بوجھ ہوتی ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میرے خیال میں أزواجنا کا لفظ کہا (یعنی اپنے شوہروں پر بوجھ ہوتی ہیں) ، ہمارے لیے ان کے مالوں میں سے کیا کچھ حلال ہے (کہ ہم خرچ کریں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : رطب ہے تم اسے کھاؤ اور ہدیہ بھی کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : رطب روٹی، ترکاری اور تر کھجوریں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور ثوری نے بھی یونس سے اسے اسی طرح روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٨٥٣) (ضعیف) (اس کے رواة عبدالسلام اور زیاد کے اندر کچھ کلام ہے )
عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کی کمائی میں سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس (شوہر) کا آدھا ثواب ملے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٢ (٢٠٦٦) ، والنکاح ٨٦ (٥١٩٢) ، والنفقات ٥ (٥٣٦٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٦ (١٠٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٦٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٥، ٣١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ اس مقدار پر محمول ہوگا جس کی عرفاً وعادۃً شوہر کی طرف سے بیوی کو خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اگرچہ اس کی طرف سے صریح اجازت اسے حاصل نہ ہو، رہا اس سے زیادہ مقدار کا معاملہ تو شوہر کی صریح اجازت کے بغیر وہ اسے خرچ نہیں کرسکتی۔
عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ان سے کسی نے پوچھا، عورت بھی اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ دے سکتی ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، البتہ اپنے خرچ میں سے دے سکتی ہے اور ثواب دونوں (میاں بیوی) کو ملے گا اور اس کے لیے یہ درست نہیں کہ شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر صدقہ دے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ہمام کی (پچھلی) حدیث کی تضعیف کرتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٤١٨٥) (صحیح موقوف ) وضاحت : ١ ؎ : یہ عبارت سنن ابوداود کے اکثر نسخوں میں نہیں ہے، ہمام بن منبہ کی روایت صحیح ہے، اس کی تخریج بخاری و مسلم نے کی ہے، اس میں کوئی علت بھی نہیں ہے، لہٰذا ابوداود کا یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے جب کہ عطا سے مروی ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت موقوف ہے، اور دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق بھی ممکن ہے جیسا کہ نووی نے شرح مسلم میں ذکر کیا ہے۔
حرص اور بخل کی مذمت
انس (رض) کہتے ہیں جب لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو ، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب (رض) کے درمیان تقسیم کردیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام : زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان : ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ (رض) اور حسان (رض) کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی (رض) کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو : حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں : ابی (رض) اور ابوطلحہ (رض) کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر القرآن (آل عمران) ٦ (٢٩٢٧) ، ( تحفة الأشراف : ٣١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوکالة ١٥ (٢٣١٨) ، والوصایا ١٠ (٢٧٥٢) ، و تفسیر القرآن ٥ (٤٥٥٤) ، والأشربة ١٣ (٥٦١١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٣ (٩٩٨) ، موطا امام مالک/الجامع ٨٣، مسند احمد (٣/١١٥، ٢٨٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٣ (١٦٩٥) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی، میں نے اسے آزاد کردیا، میرے پاس نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس کی خبر دی، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اجر عطا کرے، لیکن اگر تو اس لونڈی کو اپنے ننھیال کے لوگوں کو دے دیتی تو یہ تیرے لیے بڑے اجر کی چیز ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الہبة ١٥ (٢٥٩٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (٩٩٩) ، سنن النسائی/الکبری/المعتق (٤٩٣٢) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے کام میں لے آؤ ، تو اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے بیٹے کو دے دو ، اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنی بیوی کو دے دو ، اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے اپنے خادم کو دے دو ، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الزکاة ٥٤ (٢٥٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٠٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٥١، ٤٧١) (حسن )
حرص اور بخل کی مذمت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے ضائع کر دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٩٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٢ (٩٩٦) ، سنن النسائی/الکبری/عشرة النساء (٩١٧٦) ، مسند احمد (٢/١٦٠، ١٩٤، ١٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جن کی کفالت اس کے ذمہ ہو ان سے قطع تعلق کر کے نیکی کے دوسرے کاموں میں اپنا مال خرچ کرے۔
حرص اور بخل کی مذمت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے لیے یہ بات باعث مسرت ہو کہ اس کے رزق میں اور عمر میں درازی ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ وہ صلہ رحمی کرے (یعنی قرابت داروں کا خیال رکھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥١٦، ١٥٥٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ١٣ (٢٠٦٧) ، والأدب ١٢ (٥٩٨٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٦ (٢٥٥٩) ، مسند احمد (٢٣٩٣، ٢٤٧) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : میں رحمن ہوں اور رَحِم (ناتا) ہی ہے جس کا نام میں نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے، لہٰذا جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے کاٹے گا، میں اسے کاٹ دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر والصلة ٩ (١٩٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٩١، ١٩٤) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن عوف (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٢٨) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رشتہ ناتا توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١١ (٥٩٨٤) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٦ (٢٥٥٦) ، سنن الترمذی/البر والصلة ١٠ (١٩٠٩) ، ( تحفة الأشراف : ٣١٩٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٠، ٨٣، ٨٤، ٨٥، ٣٨٢، ٣٨٩، ٣٩٧، ٤٠٣) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رشتہ ناتا جوڑنے والا وہ نہیں جو بدلے میں ناتا جوڑے بلکہ ناتا جوڑنے والا وہ ہے کہ جب ناتا توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١٥ (٥٩٩١) ، سنن الترمذی/البر والصلة ١٠ (١٩٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨٩١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٠، ١٩٣) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا : بخل و حرص سے بچو اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ بخل و حرص کی وجہ سے ہلاک ہوئے، حرص نے لوگوں کو بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہوگئے، بخیل نے انہیں ناتا توڑنے کو کہا تو لوگوں نے ناتا توڑ لیا اور اس نے انہیں فسق و فجور کا حکم دیا تو وہ فسق و فجور میں لگ گئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٦٢٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری (١١٥٨٣) ، مسند احمد (٢/١٥٩، ١٦٠، ١٩١، ١٩٥) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں جو زبیر میرے لیے گھر میں لا دیں، کیا میں اس میں سے دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دو اور اسے بند کر کے نہ رکھو کہ تمہارا رزق بھی بند کر کے رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البروالصلة ٤٠ (١٩٦٠) ، سنن النسائی/الزکاة ٦٢ (٢٥٥١، ٢٥٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٣) ، ٢٢ (١٤٣٤) ، والھبة ١٥ (٢٥٩٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٨ (١٠٢٩) ، مسند احمد (٦/١٣٩، ٣٤٤، ٣٥٣، ٣٥٤) (صحیح )
حرص اور بخل کی مذمت
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی مسکینوں کا ذکر کیا (ابوداؤد کہتے ہیں : دوسروں کی روایت میں عدة من صدقة (کئی صدقوں کا ذکر ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : دو اور گنو مت کہ تمہیں بھی گن گن کر رزق دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٣٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الزکاة ٦٢ (٢٥٥٢) ، مسند احمد (٦/١٠٨، ١٣٩، ١٦٠) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
سوید بن غفلہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ جہاد کیا، مجھے ایک کوڑا پڑا ملا، ان دونوں نے کہا : اسے پھینک دو ، میں نے کہا : نہیں، بلکہ اگر اس کا مالک مل گیا تو میں اسے دے دوں گا اور اگر نہ ملا تو خود میں اپنے کام میں لاؤں گا، پھر میں نے حج کیا، میرا گزر مدینے سے ہوا، میں نے ابی بن کعب (رض) سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک تھیلی ملی تھی، اس میں سو (١٠٠) دینار تھے، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے فرمایا : ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ ، چناچہ میں ایک سال تک اس کی پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک سال اور پہچان کراؤ ، میں نے ایک سال اور پہچان کرائی، اس کے بعد پھر آپ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک سال پھر پہچان کراؤ ، چناچہ میں ایک سال پھر پہچان کراتا رہا، پھر آپ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے عرض کیا : مجھے کوئی نہ ملا جو اسے جانتا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی تعداد یاد رکھو اور اس کا بندھن اور اس کی تھیلی بھی، اگر اس کا مالک آجائے (تو بہتر) ورنہ تم اسے اپنے کام میں لے لینا ۔ شعبہ کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ سلمہ نے عرفها تین بار کہا تھا یا ایک بار۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ١ (٢٤٢٦) ، ١٠ (٢٤٣٧) ، صحیح مسلم/اللقطة ١ (١٧٢٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٥ (١٣٧٤) ، سنن النسائی/الکبری/ اللقطة (٥٨٢٠، ٥٨٢١) ، سنن ابن ماجہ/اللقطة ٢ (٢٥٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨) ، وقدأخرجہ : مسند احمد (٥/١٢٦، ١٢٧) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
اس سند سے بھی شعبہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں : عرفها حولا تین بار کہا، البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ نے اسے ایک سال میں کرنے کے لیے کہا یا تین سال میں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٢٨) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
حماد کہتے ہیں سلمہ بن کہیل نے ہم سے اسی سند سے اور اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اس میں ہے : آپ ﷺ نے (لقطہٰ کی) پہچان کرانے کے سلسلے میں فرمایا : دو یا تین سال تک (اس کی پہچان کراؤ) ، اور فرمایا : اس کی تعداد جان لو اور اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کی پہچان کرلو ، اس میں اتنا مزید ہے : اگر اس کا مالک آجائے اور اس کی تعداد اور سر بندھن بتادے تو اسے اس کے حوالے کر دو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : فعرف عددها کا کلمہ اس حدیث میں سوائے حماد کے کسی اور نے نہیں ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٠١، ( تحفة الأشراف : ٢٨) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز ) کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کی تھیلی اور سر بندھن کو پہچان لو، پھر اسے خرچ کر ڈالو، اب اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دو ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! گمشدہ بکری کو ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو پکڑ لو، اس لیے کہ وہ یا تو تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے ، اس نے پوچھا : اللہ کے رسول ! گمشدہ اونٹ کو ہم کیا کریں ؟ تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار سرخ ہوگئے یا آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا : تمہیں اس سے کیا سروکار ؟ اس کا جوتا ١ ؎ اور اس کا مشکیزہ اس کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٨ (٩١) ، المساقاة ١٢ (٢٣٧٢) ، اللقطة ٢ (٢٤٢٧) ، ٣ (٢٤٢٨) ، ٤ (٢٤٢٩) ، ٩ (٢٤٣٦) ، ١١ (٢٤٣٨) ، الطلاق ٢٢ (٥٢٩٢ مرسلاً ) ، الأدب ٧٥ (٦١١٢) ، صحیح مسلم/اللقطة ٣١ (١٧٢٢) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٥ (١٣٧٢) ، سنن النسائی/ الکبری /اللقطة (٥٨١٤، ٥٨١٥، ٥٨١٦) ، سنن ابن ماجہ/اللقطة ١ (٢٥٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الأقضیة ٣٨ (٤٦، ٤٧) ، مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦، ١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے، اور مشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھر لیتا ہے اور بار بار پانی پینے کی ضرورت نہیں محسوس کرتا، اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا بھی خوف نہیں کہ وہ خود اپنا دفاع کرلیتا ہے، اس لئے اسے پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
اس سند سے بھی مالک سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ : وہ اپنی سیرابی کے لیے پانی پر آجاتا ہے اور درخت کھا لیتا ہے ، اس روایت میں گمشدہ بکری کے سلسلے میں خذها (اسے پکڑ لو) کا لفظ نہیں ہے، البتہ لقطہٰ کے سلسلے میں فرمایا : ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر ہے ورنہ تم خود اس کو استعمال کرلو ، اس میں استنفق کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ثوری، سلیمان بن بلال اور حماد بن سلمہ نے اسے ربیعہ سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے خذها کا لفظ نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٦٣) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آجائے تو اسے اس کے حوالہ کر دو ورنہ اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آجائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللقطة ١(١٧٢٢) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٥ (١٣٧٣) ، سنن النسائی/الکبری (٥٨١١) ، سنن ابن ماجہ/ اللقطة ١ (٥٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١١٦، ٥/١٩٣) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے (لقطے کے متعلق) پوچھا گیا پھر راوی نے ربیعہ کی طرح حدیث ذکر کی اور کہا : لقطے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ایک سال تک تم اس کی تشہیر کرو، اب اگر اس کا مالک آجائے تو تم اسے اس کے حوالہ کر دو ، اور اگر نہ آئے تو تم اس کے ظرف اور سر بندھن کو پہچان لو پھر اسے اپنے مال میں ملا لو، پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے اس کو دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٧٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٦٣) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے قتیبہ کی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے : اگر اس کا ڈھونڈنے والا آجائے اور تھیلی اور گنتی کی پہچان بتائے تو اسے اس کو دے دو ۔ اور حماد نے بھی عبیداللہ بن عمر سے، عبیداللہ نے عمرو بن شعیب نے عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ زیادتی جو حماد بن سلمہ نے سلمہ بن کہیل، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ اور ربیعہ کی حدیث (یعنی حدیث نمبر : ١٧٠٢ -١٧٠٣) میں کی ہے : إن جاء صاحبها فعرف عفاصها ووکاء ها فادفعها إليه یعنی : اگر اس کا مالک آجائے اور اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتادے تو اس کو دے دو ، اس میں : فعرف عفاصها ووکاء ها تھیلی اور سر بندھن کی پہچان بتادے کا جملہ محفوظ نہیں ہے۔ اور عقبہ بن سوید کی حدیث میں بھی جسے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے یعنی عرفها سنة (ایک سال تک اس کی تشہیر کرو) موجود ہے۔ اور عمر (رض) کی حدیث میں بھی نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عرفها سنة تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٧٠٤) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (١٧١٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨، ٣٧٦٣، ٨٧٥٥، ٨٧٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کسی روایت میں تین سال پہچان (شناخت) کراتے رہنے کا تذکرہ ہے، اور کسی میں ایک سال، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب و ورع، ان دونوں روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ قرار دیا جائے اور دوسرے کو منسوخ (ملاحظہ ہو : فتح الباری) ۔
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
عیاض بن حمار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے لقطہٰ ملے تو وہ ایک یا دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنا لے ١ ؎ اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، اگر اس کے مالک کو پا جائے تو اسے واپس کر دے، ورنہ وہ اللہ عزوجل کا مال ہے جسے وہ چاہتا ہے دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الکبری (٥٨٠٨، ٥٨٠٩) ، سنن ابن ماجہ/اللقطة ٢ (٢٥٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : گواہ بنانا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ مال کی چاہت میں آگے چل کر آدمی کی نیت کہیں بری نہ ہوجائے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اچانک مرجائے اور اس کے ورثاء اسے میراث سمجھ لیں۔
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لٹکتے ہوئے پھل کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو حاجت مند اسے کھائے اور چھپا کر نہ لے جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، اور جو اس میں سے کچھ چھپا کرلے جائے تو اس کا دو گنا جرمانہ دے اور سزا الگ ہوگی، اور جب میوہ پک کر سوکھنے کے لیے کھلیان میں ڈال دیا جائے اور اس میں سے کوئی اس قدر چرا کرلے جائے جس کی قیمت سپر (ڈھال) کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اس کے بعد گمشدہ اونٹ اور بکری کا ذکر کیا جیسا کہ اوروں نے ذکر کیا ہے، اس میں ہے : آپ سے لقطے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو لقطہٰ گزر گاہ عام یا آباد گاؤں میں ملے تو ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو اسے دے دو اور اگر نہ آئے تو وہ تمہارا ہے اور جو لقطہٰ کسی اجڑے یا غیر آباد مقام پر ملے تو اس میں اور رکاز (جاہلیت کے دفینہ) میں پانچواں حصہ حاکم کو دینا ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البیوع ٥٤ (١٢٨٩) ، سنن النسائی/قطع السارق ٩ (٤٩٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٩٨) ویأتی عند المؤلف برقم (٤٣٩٠) (حسن )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
اس طریق سے بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ گمشدہ بکری کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا : اسے پکڑے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٨ (٢٥٩٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨٨١٢) (حسن )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
اس طریق سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : گمشدہ بکری کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بکری تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی، تو اسے پکڑے رکھو ۔ اسی طرح ایوب اور یعقوب بن عطا نے عمرو بن شعیب سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے (مرسلاً ) روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : تو تم اسے پکڑے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ قطع السارق ٨ (٤٩٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨٦) (حسن )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو (رض) سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے : گمشدہ بکری کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا : اسے پکڑے رکھو، یہاں تک کہ اس کا ڈھونڈھنے والا اس تک آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٧٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٨٤) (حسن )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) کو ایک دینار ملا تو وہ اسے لے کر فاطمہ (رض) کے پاس آئے، انہوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : وہ اللہ عزوجل کا دیا ہوا رزق ہے ، چناچہ اس میں سے رسول اللہ ﷺ نے کھایا اور علی اور فاطمہ (رض) نے کھایا، اس کے بعد ان کے پاس ایک عورت دینار ڈھونڈھتی ہوئی آئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی ! دینار ادا کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٤٤٣) (حسن )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
علی (رض) کہتے ہیں کہ انہیں ایک دینار پڑا ملا، جس سے انہوں نے آٹا خریدا، آٹے والے نے انہیں پہچان لیا، اور دینار واپس کردیا تو علی (رض) نے اسے واپس لے لیا اور اسے بھنا کر اس میں سے دو قیراط ١ ؎ کا گوشت خریدا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قیراط : دینار کا بیسواں حصہ۔
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد (رض) نے ان سے بتایا کہ علی بن ابی طالب (رض) فاطمہ (رض) کے پاس آئے اور حسن اور حسین (رض) رو رہے تھے، تو انہوں نے پوچھا : یہ دونوں کیوں رو رہے ہیں ؟ فاطمہ نے کہا : بھوک (سے رو رہے ہیں) ، علی (رض) باہر نکلے تو بازار میں ایک دینار پڑا پایا، وہ فاطمہ (رض) کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا : فلاں یہودی کے پاس جائیے اور ہمارے لیے آٹا لے لیجئے، چناچہ وہ یہودی کے پاس گئے اور اس سے آٹا خریدا، تو یہودی نے پوچھا : تم اس کے داماد ہو جو کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اس نے کہا : اپنا دینار رکھ لو اور آٹا لے جاؤ، چناچہ علی (رض) آٹا لے کر فاطمہ (رض) کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو وہ بولیں : فلاں قصاب کے پاس جائیے اور ایک درہم کا گوشت لے آئیے، چناچہ علی (رض) گئے اور اس دینار کو ایک درہم کے بدلے گروی رکھ دیا اور ایک درہم کا گوشت لے آئے، فاطمہ (رض) نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی اور روٹی پکائی، اور اپنے والد (رسول اللہ ﷺ ) کو بلا بھیجا، آپ تشریف لائے تو وہ بولیں : اللہ کے رسول ! میں آپ سے واقعہ بیان کرتی ہوں اگر آپ اسے ہمارے لیے حلال سمجھیں تو ہم بھی کھائیں اور ہمارے ساتھ آپ بھی کھائیں، اس کا واقعہ ایسا اور ایسا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر کھاؤ ، ابھی وہ لوگ اپنی جگہ ہی پر تھے کہ اسی دوران ایک لڑکا اللہ اور اسلام کی قسم دے کر اپنے کھوئے ہوئے دینار کے متعلق پوچھ رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اسے بلایا گیا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا : بازار میں مجھ سے (میرا دینار) گرگیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : علی ! قصاب کے پاس جاؤ اور اس سے کہو : اللہ کے رسول ﷺ تم سے کہہ رہے ہیں : دینار مجھے بھیج دو ، تمہارا درہم میرے ذمے ہے ، چناچہ اس نے وہ دینار بھیج دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اس (لڑکے) کو دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٧٧٠) (حسن )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لکڑی، کوڑے، رسی اور ان جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی کہ اگر آدمی انہیں پڑا پائے تو اسے کام میں لائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے نعمان بن عبدالسلام نے مغیرہ ابوسلمہ سے اسی طریق سے روایت کیا ہے اور اسے شبابہ نے مغیرہ بن مسلم سے انہوں نے ابو الزبیر سے ابوالزبیر نے جابر سے روایت کیا ہے، راوی کہتے ہیں : لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے یعنی اسے جابر (رض) پر موقوف کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٩٦٦) (ضعیف) (ابوالزبیر مدلس راوی ہیں اور بذریعہ عن روایت کئے ہیں )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : گمشدہ اونٹ اگر چھپا دیا جائے تو (چھپانے والے پر) اس کا جرمانہ ہوگا، اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٤٢٥١) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاجی کے لقطے سے منع فرمایا۔ احمد کہتے ہیں : ابن وہب نے کہا : یعنی حاجی کے لقطے کے بارے میں کہ وہ اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے، ابن موہب نے أخبرني عمرو کے بجائے عن عمرو کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : م /اللقطة ١ (١٧٢٤) ، سنن النسائی/ الکبری/ اللقطة (٥٨٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٩٩) (صحیح )
گری پڑی چیز اٹھا لینے کا بیان،
منذر بن جریر کہتے ہیں میں جریر کے ساتھ بوازیج ١ ؎ میں تھا کہ چرواہا گائیں لے کر آیا تو ان میں ایک گائے ایسی تھی جو ان کی گایوں میں سے نہیں تھی، جریر نے اس سے پوچھا : یہ کیسی گائے ہے ؟ اس نے کہا : یہ گایوں میں آ کر مل گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کس کی ہے، جریر نے کہا : اسے نکالو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : گمشدہ جانور کو کوئی گم راہ ہی اپنے پاس جگہ دیتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الکبری (٥٧٩٩) ، سنن ابن ماجہ/اللقطة ١ (٢٥٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٦٠، ٣٦٢) (صحیح) (مرفوع حصہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ” بوازيج “ : (عراق میں) نہر دجلہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے۔ ٢ ؎ : مطلب یہ ہے کہ کسی گم شدہ جانور کو اپنا بنا لینے کے لئے اس کو پکڑ لے تو وہ گمراہ ہے، رہا وہ شخص جو اسے اس لئے پکڑے تاکہ اس کی پہچان کرا کر اسے اس کے مالک کے حوالہ کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن خالد جہنی (رض) کی روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : من آوى ضالة فهو ضال ما لم يعرفها اور نسائی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں : من أخذ لقطة فهو ضال ما لم يعرفها جو آدمی گم شدہ چیز اپنے پاس رکھے وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کی تشہیر نہ کرے۔