6. مناسک حج کا بیان
اول کتاب المناسک
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا حج ہر سال (فرض) ہے یا ایک بار ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (ہر سال نہیں) بلکہ ایک بار ہے اور جو ایک سے زائد بار کرے تو وہ نفل ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابوسنان سے مراد ابوسنان دؤلی ہیں، اسی طرح عبدالجلیل بن حمید اور سلیمان بن کثیر نے زہری سے نقل کیا ہے، اور عقیل سے ابوسنان کے بجائے صرف سنان منقول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/المناسک ١ (٢٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢ (٢٨٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٥، ٢٩٠، ٣٠١، ٣٠٣، ٣٢٣، ٣٢٥، ٣٥٢، ٣٧٠، ٣٧١) ، سنن الدارمی/الحج ٤ (١٨٢٩) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں واقع سفیان بن حسین کی زھری سے روایت میں ضعف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے، جس کی فرضیت ٥ یا ٦ ہجری میں ہوئی۔
اول کتاب المناسک
ابو واقد لیثی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں اپنی ازواج مطہرات سے فرماتے سنا : یہی حج ہے پھر چٹائیوں کے پشت ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٥١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢١٨، ٢١٩، ٦/٣٢٤) (صحیح) (ابو واقد (رض) کے لڑکے کا نام واقد ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کے بعد تمہیں گھروں میں ہی رہنا ہے تم پر کوئی اور حج واجب نہیں، مؤلف نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔
عورت کے لئے محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ایک رات کی مسافت کا سفر کرے مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٣٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٠٣٥، ١٤٣١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ٤ (١٠٨٨) ، سنن الترمذی/الرضاع ١٥ (١٦٦٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧ (٢٨٩٩) ، موطا امام مالک/الاستئذان ١٤(٣٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٦، ٣٤٠، ٣٤٧، ٤٢٣، ٤٣٧، ٤٤٥، ٤٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث میں ایک رات کی قید اتفاقی ہے، مقصد یہ نہیں کہ اس سے کم کا سفر غیر محرم کے ساتھ جائز ہے، محرم شوہر ہے یا وہ شخص جس سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہو، مثلاً باپ ، دادا، نانا، بیٹا ، بھائی، چچا، ماموں، بھتیجا ، بھانجا ، داماد وغیرہ وغیرہ، یا رضاعت سے ثابت ہونے والے رشتہ دار۔
عورت کے لئے محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر کرے ۔ پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر گزری۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٩٦٠، ١٣٠١٠، ١٤٣١٧) ، انظر حدیث رقم (١٧٢٣) (صحیح )
عورت کے لئے محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر انہوں نے اسی جیسی روایت ذکر کی البتہ اس میں (دن رات کی مسافت کے بجائے) بريدا کہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظرحدیث رقم : (١٧٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٩٦٠) (شاذ) (جریر نے یوم یا لیلة کی جگہ برید کی روایت کی ہے جو جماعت کی روایت کے مخالف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : برید : چار فرسخ کا ہوتا ہے، اور ایک فرسخ تین میل کا، اس طرح برید بارہ میل کا ہوا۔
عورت کے لئے محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ تین یا اس سے زیادہ دنوں کی مسافت کا سفر کرے سوائے اس صورت کے کہ اس کے ساتھ اس کا باپ ہو یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٤٠) ، سنن الترمذی/الرضاع ١٥ (١١٦٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧ (٢٨٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٤٠٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة ٦ (١١٩٧) ، وجزاء الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، والصوم ٦٧ (١٩٩٥) ، مسند احمد (٣/٥٤) ، سنن الدارمی/الاستئذان ٤٦ (٢٧٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جیسے : نانا، دادا، چچا ، ماموں ، بھتیجا ، اور بھانجا وغیرہ جو سب کے سب سگے ہوں، یا رضاعی۔
عورت کے لئے محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں
عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : عورت تین دن کا سفر نہ کرے مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٤ (١٠٨٦) ، صحیح مسلم/الحج ٧٤ (١٣٣٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨١٤٧) (صحیح )
عورت کے لئے محرم کے بغیر حج کرنا جائز نہیں
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اپنی لونڈی کو جسے صفیہ کہا جاتا تھا اپنے ساتھ سواری پر بیٹھا کر مکہ لے جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح )
اسلام میں صرورة نہیں ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں صرورة نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦١٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣١٢) (ضعیف) (اس کے راوی عمر بن عطاء بن دراز ضعیف ہیں )
حج میں تجارت کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لے جاتے۔ ابومسعود (رض) کہتے ہیں : اہل یمن یا اہل یمن میں سے کچھ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لیتے اور کہتے : ہم متوکل (اللہ پر بھروسہ کرنے والے) ہیں تو اللہ نے آیت کریمہ وتزودوا فإن خير الزاد التقوى ١ ؎ (زاد راہ ساتھ لے لو اس لیے کہ بہترین زاد راہ یہ ہے کہ آدمی سوال سے بچے) نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦ (١٥٢٣) ، سنن النسائی/الکبری/السیر (٨٧٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦١٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سورة البقرة : (١٩٨ )
حج میں تجارت کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہوئے راوی کہتے ہیں انہوں نے یہ آیت ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم ١ ؎ تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو پڑھی اور بتایا کہ عرب کے لوگ منیٰ میں تجارت نہیں کرتے تھے تو انہیں عرفات سے واپسی پر منیٰ میں تجارت کا حکم دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٤٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٥٠ (١٧٧٠) والبیوع ١ (٢٠٥٠) و تفسیر القرآن ٣٤ (٢٠٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سورة البقرة : (١٩٨ )
خالی ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے جلدی انجام دے لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٥٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١ (٢٨٨٣) ، مسند احمد (١/٢٢٥، ٣٢٣، ٣٥٥) ، سنن الدارمی/الحج ١ (١٨٢٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ تاخیر کی صورت میں اسے مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور وہ ایک فرض کا تارک ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوگا۔
دوران حج جانور کو کرایہ پر چلانا
ابوامامہ تیمی کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو سفر حج میں کرائے پر جانور دیتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ تمہارا حج نہیں ہوتا، تو میں ابن عمر (رض) سے ملا اور ان سے عرض کیا : ابوعبدالرحمٰن ! میں حج میں لوگوں کو جانور کرائے پر دیتا ہوں اور لوگ مجھ سے کہتے ہیں تمہارا حج نہیں ہوتا، تو ابن عمر (رض) نے کہا : کیا تم احرام نہیں باندھتے ؟ تلبیہ نہیں کہتے ؟ بیت اللہ کا طواف نہیں کرتے ؟ عرفات جا کر نہیں لوٹتے ؟ رمی جمار نہیں کرتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، تو انہوں نے کہا : تمہارا حج درست ہے، ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ سے اسی طرح کا سوال کیا جو تم نے مجھ سے کیا تو آپ ﷺ نے سکوت فرمایا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آیت کریمہ ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم تم پر کوئی گناہ نہیں اس میں کہ تم اپنے رب کا فضل ڈھونڈو نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا بھیجا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا : تمہارا حج درست ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٥٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٥٥) (صحیح )
دوران حج جانور کو کرایہ پر چلانا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ لوگ شروع شروع میں منیٰ ، عرفہ اور ذوالمجاز کے بازاروں اور حج کے موسم میں خریدو فروخت کیا کرتے تھے پھر انہیں حالت احرام میں خریدو فروخت کرنے میں تامل ہوا، تو اللہ نے ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو نازل کیا یعنی حج کے موسم میں۔ عطا کہتے ہیں : مجھ سے عبید بن عمیر نے بیان کیا کہ وہ (ابن عباس) اسے في مواسم الحج اپنے مصحف میں پڑھا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٨٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : في مواسم الحج کا لفظ اس روایت کے مطابق ابن عباس (رض) کے مصحف میں اس آیت کا ٹکڑا تھا، مگر یہ قرات شاذ ہے۔
دوران حج جانور کو کرایہ پر چلانا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ لوگ حج کے ابتدائی زمانے میں خریدو فروخت کرتے تھے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی روایت ان کے قول مواسم الحج تک ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٥٨٧٢) (صحیح) (اس سند میں واقع عبید مولی ابن عباس مجہول ہیں جبکہ پہلی سند میں واقع عبید لیثی ہیں اور ثقہ ہیں )
نابالغ بچہ کا حج
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مقام روحاء میں تھے کہ آپ کو کچھ سوار ملے، آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا اور پوچھا : کون لوگ ہو ؟ ، انہوں نے جواب دیا : ہم مسلمان ہیں، پھر ان لوگوں نے پوچھا : آپ کون ہو ؟ لوگوں نے انہیں بتایا کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ایک عورت گھبرا گئی پھر اس نے اپنے بچے کا بازو پکڑا اور اسے اپنے محفے ١ ؎ سے نکالا اور بولی : اللہ کے رسول ! کیا اس کا بھی حج ہوجائے گا ٢ ؎؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اور اجر تمہارے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٢ (١٣٣٦) ، سنن النسائی/المناسک ١٥ (٢٦٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٣٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٤) ، مسند احمد (١/٢٤٤، ٢٨٨، ٣٤٣، ٣٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہودج کی طرح عورتوں کی سواری پر ایک سیٹ ہوتی ہے جسے محفّہ کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابالغ کا حج صحیح ہے چونکہ اس کا ولی اس کی جانب سے کم سنی کی وجہ سے اعمال حج ادا کرتا ہے، اس لئے وہ ثواب کا مستحق ہوگا، واضح رہے اس سے حج کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی، بلکہ بلوغت کے بعد استطاعت کی صورت میں اس پر حج فرض ہے، اور بچپن کا حج اس کے لئے نفل ہوگا۔
میقات کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لیے جحفہ اور اہل نجد کے لیے قرن کو میقات ١ ؎ مقرر کیا، اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ ﷺ نے اہل یمن کے لیے یلملم ٢ ؎ کو میقات مقرر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨ (١٥٢٥) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٢) ، سنن الترمذی/الحج ١٧ (٨٣١) ، سنن النسائی/المناسک ١٧ (٢٦٥٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٣ (٢٩١٤) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٢٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨ (٢٢) ، مسند احمد (٢/٤٨، ٥٥، ٦٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥ (١٨٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت کرتا ہے۔ ٢ ؎ : یلملم ایک پہاڑ ہے جو مکہ سے دو دن کے فاصلہ پر واقع ہے۔
میقات کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میقات مقرر کیا پھر ان دونوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، ان دونوں (راویوں میں سے) میں سے ایک نے کہا : اہل یمن کے لیے یلملم ، اور دوسرے نے کہا : ألملم ، اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ان لوگوں کی میقاتیں ہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کی بھی جو ان جگہوں سے گزر کر آئیں اور حج و عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں، اور جو لوگ ان کے اندر رہتے ہوں ۔ ابن طاؤس (اپنی روایت میں) کہتے ہیں : ان کی میقات وہ ہے جہاں سے وہ سفر شروع کریں یہاں تک کہ اہل مکہ مکہ ہی ١ ؎ سے احرام باندھیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٨ (١٨٤٥) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٣) ، سنن النسائی/الحج ٢٠ (٢٦٥٥) ، ٢٣ (٢٦٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٣٨، ١٨٨٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٨، ٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ حاجی یا معتمر اگر مکہ یا مذکورہ مواقیت کے اندر رہتا ہو تو اس کا حکم عام لوگوں سے مختلف ہے اس کے لئے میقات پر جانا ضروری نہیں بلکہ اپنے گھر سے نکلتے وقت ہی احرام باندھ لینا اس کے لئے کافی ہوگا۔
میقات کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق ١ ؎ کو میقات مقرر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٩ (٢٦٥٤) ، ٢٢ (٢٦٥٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : سنن ترمذی کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات عمر (رض) نے متعین کیا تھا، لیکن یہ روایت ضعیف ہے، علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عمر (رض) کو یہ حدیث نہیں معلوم تھی، آپ نے اپنے اجتہاد سے یہ میقات مقرر کی جو نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی میقات کے عین مطابق ہوگئی۔
میقات کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٧ (٨٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٤٣) (ضعیف) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں، نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع نہیں ہے )
میقات کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو مسجد الاقصیٰ سے مسجد الحرام تک حج اور عمرہ کا احرام باندھے تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے، یا اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی ، راوی عبداللہ کو شک ہے کہ انہوں نے دونوں میں سے کیا کہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اللہ وکیع پر رحم فرمائے کہ انہوں نے بیت المقدس سے مکہ تک کے لیے احرام باندھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٩ (٣٠٠١، ٣٠٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٩) (ضعیف) (اس کی راویہ حکیمہ لین الحدیث ہیں، نی زیہ حدیث تمام صحیح روایات کے مخالف ہے )
میقات کا بیان
حارث بن عمرو سہمی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ منیٰ میں تھے یا عرفات میں، اور لوگوں نے آپ ﷺ کو گھیر رکھا تھا، تو اعراب (دیہاتی) آتے اور جب آپ کا چہرہ دیکھتے تو کہتے یہ برکت والا چہرہ ہے، آپ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٢٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٨٥) (حسن )
حائضہ عورت حج (یا عمرہ) کا احرام باندھے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (ابوبکر (رض) کی بیوی) کو مقام شجرہ میں محمد بن ابی بکر (رض) کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ (اسماء سے کہو کہ) وہ غسل کرلے پھر تلبیہ پکارے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٦ (١٢٠٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٢ (٢٩١١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحیض ٢٤ (٢١٥) ، والحج ٥٧ (٢٧٦٢) ، موطا امام مالک/الحج ٤١(١٢٧، ١٢٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٥) ، ٣٤ (١٨٩٢) (صحیح )
حائضہ عورت حج (یا عمرہ) کا احرام باندھے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حائضہ اور نفاس والی عورتیں جب میقات پر آجائیں تو غسل کریں، احرام باندھیں اور حج کے تمام مناسک ادا کریں سوائے بیت اللہ کے طواف کے ١ ؎۔ ابومعمر نے اپنی حدیث میں حتى تطهر یہاں تک کہ پاک ہوجائیں کا اضافہ کیا۔ ابن عیسیٰ نے عکرمہ اور مجاہد کا ذکر نہیں کیا، بلکہ یوں کہا : عن عطاء عن ابن عباس اور ابن عیسیٰ نے كلها کا لفظ بھی نقل نہیں کیا بلکہ صرف المناسک إلا الطواف بالبيت مناسک پورے کریں بجز خانہ کعبہ کے طواف کے کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٠٠ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حیض اور نفاس والی عورت حیض یا نفاس سے پاک ہونے کے بعد طواف قدوم اور طواف عمرہ کرے گی، طواف میں جو تاخیر ہوگی اس سے اس کے حج میں کوئی نقض واقع نہیں ہوگا۔
احرام کے وقت خوشبو لگانا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو جب آپ احرام باندھتے تو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام کھولنے کے بعد اس سے پہلے کہ آپ طواف کریں خوشبو لگایا کرتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٢(٢٦٧) ، ١٤ (٢٧٠) ، والحج ١٨ (١٥٣٩) ، ١٤٣ (١٧٥٤) ، واللباس ٧٣ (٥٩٢٢) ، ٧٤ (٥٩٢٣) ، ٧٩ (٥٩٢٨) ، ٨١ (٥٩٣٠) ، صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٨ (٢٩٢٦) ، موطا امام مالک/الحج ٧ (١٧) ، مسند احمد ٦/٩٨، ١٠٦، ١٣٠، ١٦٢، ١٨١، ١٨٦، ١٩٢، سنن الدارمی/المناسک ١٠ (١٨٤٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥١٨، ١٧٥١٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٧٧ (٩١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حالت احرام میں کسی قسم کی خوشبو کا استعمال درست نہیں، لیکن اگر یہی خوشبو احرام باندھتے وقت لگائی جائے تو مستحب ہے ، چاہے یہ خوشبو بدن یا کپڑے میں احرام کے بعد بھی باقی رہے۔
احرام کے وقت خوشبو لگانا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں مشک کی چمک دیکھ رہی ہوں اور آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، سنن النسائی/الحج ٤١ (٢٦٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٨، ١٨٦، ٢١٢، ١٩١، ٢٢٤، ٢٢٨، ٢٤٥) (صحیح )
سر کے بال جما نا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو تلبیہ پڑھتے سنا اور آپ اپنے سر کی تلبید ١ ؎ کئے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٩ (١٥٤٠) ، واللباس ٦٩ (٥٩١٤) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، سنن النسائی/المناسک ٤٠ (٢٦٨٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٢ (٣٠٤٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٧٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢١، ١٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” تلبيد “: بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینے کو تلبید کہتے ہیں، تاکہ وہ گرد و غبار نیز بکھرنے سے محفوظ رہیں۔
سر کے بال جما نا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے سر کے بال شہد سے جمائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٤١٤) (ضعیف) (ابن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
ہدی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال ہدی ١ ؎ کے لیے جو اونٹ بھیجا ان میں ایک اونٹ ابوجہل کا ٢ ؎ تھا، اس کے سر میں چاندی کا چھلا پڑا تھا، ابن منہال کی روایت میں ہے کہ سونے کا چھلا تھا ، نفیلی کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس سے آپ ﷺ مشرکین کو غصہ دلا رہے تھے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٤٠٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٨ (٣١٠٠) مسند احمد (١/٢٦١، ٢٧٣) (حسن) بلفظ : ” فضة “ وضاحت : ١ ؎ : ” ہدی “: حج میں ذبح کے لئے لے جانے والے جانور کو کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : یہ اونٹ رسول اللہ ﷺ کو جنگ میں بطور غنیمت ملا تھا۔ ٣ ؎ : تاکہ یہ تأثر دیا جائے کہ مشرکین کے سردار کا اونٹ مسلمانوں کے قبضے میں ہے۔
گائے بیل ہدی ہوسکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے آل ١ ؎ کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٥ (٣١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١١٥ (١٧٠٩) ، والأضاحي ٣ (٥٥٤٨) ، صحیح مسلم/الحج ٦٢ (١٣١٩) ، موطا امام مالک/الحج ٥٨(١٧٩) ، مسند احمد (٦/٢٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہاں آل سے مراد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں۔ ٢ ؎ : ایک گائے یا اونٹ میں سات آدمی کی شرکت ہوسکتی ہے، اس حج میں آپ ﷺ کے ساتھ سات ہی ازواج مطہرات ہوں گی، یا بخاری ومسلم کے لفظ ضحى (قربانی کی) سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے بطور ہدی نہیں بلکہ بطور قربانی ذبح کیا، تو پورے گھر والوں کی طرف سے گائے ذبح کی۔
گائے بیل ہدی ہوسکتا ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ان تمام ازواج مطہرات کی طرف سے جنہوں نے عمرہ کیا تھا (حجۃ الوداع کے موقعہ پر) ایک گائے ذبح کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأضاحي ٥ (٣١٣٣) ، سنن النسائی/الکبری /الحج (٤١٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٣٨٦) (صحیح )
اشعار کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی الحلیفہ میں ظہر پڑھی پھر آپ نے ہدی کا اونٹ منگایا اور اس کے کوہان کے داہنی جانب اشعار ١ ؎ کیا، پھر اس سے خون صاف کیا اور اس کی گردن میں دو جوتیاں پہنا دیں، پھر آپ ﷺ کی سواری لائی گئی جب آپ اس پر بیٹھ گئے اور وہ مقام بیداء میں آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجج ٣٢ (١٢٤٣) ، سنن الترمذی/الحج ٦٧ (٩٠٦) ، سنن النسائی/الحج ٦٤ (٢٧٧٦) ، ٦٧ (٢٧٨٤) ، ٧٠ (٢٧٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٦ (٣٠٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢٣ (١٥٤٩) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٥٤، ٢٨٠، ٣٣٩، ٣٤٤، ٣٤٧، ٣٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٨ (١٩٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اسے اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے، یہ بھی ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔ ٢ ؎ : اشعار مسنون ہے، اس کا انکار صرف امام ابوحنیفہ نے کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ” یہ مثلہ ہے جو درست نہیں “ ، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ مثلہ نہیں ہے ، مثلہ ناک کان وغیرہ کاٹنے کو کہتے ہیں، اشعار فصد یا حجامت کی طرح ہے، جو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
اشعار کا بیان
اس سند سے بھی شعبہ سے یہی حدیث ابوالولید کے روایت کے مفہوم کی طرح مروی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں : ثم سلت الدم بيده آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے خون صاف کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ہمام کی روایت میں سلت الدم عنها بإصبعه کے الفاظ ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف اہل بصرہ کی سنن میں سے ہے جو اس میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٥٩) (صحیح )
اشعار کا بیان
مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان دونوں سے روایت ہے، وہ دونوں کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے سال نکلے جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو ہدی ١ ؎ کو قلادہ پہنایا اور اس کا اشعار کیا اور احرام باندھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦(١٦٩٤) ، والمغازي ٣٦ (٤١٥٧، ٤١٥٨) ، سنن النسائی/الحج ٦٢ (٢٧٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/ ٣٢٣، ٣٢٧، ٣٢٨، ٣٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” ہدی “ اس جانور کو کہتے ہیں جو حج تمتع یا حج قران میں مکہ میں ذبح کیا جاتا ہے، نیز اس جانور کو بھی ” ہدی “ کہتے ہیں جس کو غیر حاجی حج کے موقع سے مکہ میں ذبح کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔
اشعار کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی بکریاں قلادہ پہنا کر ہدی میں بھیجیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٧٠١) ، م /الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن الترمذی/الحج ٧٠ (٩٠٩) ، سنن النسائی/الحج ٦٩ (٢٧٨٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٥ (٣٠٩٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٤٤، ١٥٩٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤١، ٤٢، ٢٠٨) (صحیح )
ہدی کا بدل جانا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے ایک بختی اونٹ ہدی کیا پھر انہیں اس کی قیمت تین سو دینار دی گئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! میں نے بختی اونٹ ہدی کیا اس کے بعد مجھے اس کی قیمت تین سو دینار مل رہی ہے، کیا میں اسے بیچ کر اس کی قیمت سے (ہدی کے لیے) ایک اونٹ خرید لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں اسی کو نحر کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ ممانعت (نہی) اس لیے تھی کہ وہ اس کا اشعار کرچکے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٧٤٨) ، وقد أخرجہ : (حم (٢/١٤٥) (ضعیف) (ایک تو جہم لین الحدیث ہیں، دوسرے سالم سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے )
جو شخص اپنی ہدی بھیج دے اور خود نہ جائے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے لیے قلادے بٹے پھر آپ نے انہیں اشعار کیا اور قلادہ ١ ؎ پہنایا پھر انہیں بیت اللہ کی طرف بھیج دیا اور خود مکہ میں مقیم رہے اور کوئی چیز جو آپ ﷺ کے لیے حلال تھی آپ پر حرام نہیں ہوئی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٦) ، ١٠٧(١٦٩٨) ، ١٠٨ (١٦٩٩) ، ١٠٩ (١٧٠٠) ، ١١٠ (١٧٠١) ، والوکالة ١٤ (٢٣١٧) ، والأضاحي ١٥ (٥٥٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن النسائی/الحج ٦٢ (٢٧٧٤) ، ٦٨ (٢٧٨٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٤ (٣٠٩٤) ، ٩٦ (٣٠٩٨) ، وانظر أیضا حدیث رقم : (١٧٥٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦٩ (٩٠٨) ، موطا امام مالک/الحج ١٥(٥١) ، مسند احمد (٦/٣٥، ٣٦، ٧٨، ٨٥، ٩١، ١٠٢، ١٢٧، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥، ١٩١، ٢٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا رسی وغیرہ لٹکانے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ ان جانوروں کو اللہ کے گھر کے لئے خاص جان کر ان سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقیم کے لئے بھی ہدی بھیجنا درست ہے اور صرف ہدی بھیج دینے سے وہ محرم نہیں ہوگا، اور نہ اس پر کوئی چیز حرام ہوگی جو محرم پر ہوتی ہے، جب تک کہ وہ احرام کی نیت کر کے احرام پہن کر خود حج کو نہ جائے، اور بعض لوگوں کی رائے ہے کہ وہ بھی مثل محرم کے ہوگا اس کے لئے بھی ان تمام چیزوں سے اس وقت تک بچنا ضروری ہوگا جب تک کہ ہدی قربان نہ کردی جائے، لیکن صحیح جمہور کا مذہب ہی ہے، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔
جو شخص اپنی ہدی بھیج دے اور خود نہ جائے
عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے ہدی بھیجتے تو میں آپ کی ہدی کے قلادے بٹتی اس کے بعد آپ کسی چیز سے اجتناب نہیں کرتے جس سے محرم اجتناب کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج (١٦٩٨) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن النسائی/الحج ٦٥ (٢٧٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٤ (٣٠٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٨٢، ١٧٩٢٣) ، وقد أخرجہ : (٦/٦٢) (صحیح )
جو شخص اپنی ہدی بھیج دے اور خود نہ جائے
ام المؤمنین (عائشہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہدی روانہ کئے تو میں نے اپنے ہاتھ سے اس اون سے ان کے قلادے بٹے جو ہمارے پاس تھی پھر آپ ﷺ نے حلال ہو کر ہم میں صبح کی آپ نے وہ تمام کام کئے جو ایک حلال (غیر محرم) آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج (١٧٠٥) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن النسائی/الحج ٦٥ (٢٧٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩١٨، ١٧٤٦٦) (صحیح )
ہدی کے جانور پر سواری کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہدی کا اونٹ ہانک کرلے جا رہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر سوار ہوجاؤ ، وہ بولا : یہ ہدی کا اونٹ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر سوار ہوجاؤ، تمہارا برا ہو ١ ؎، یہ آپ ﷺ نے دوسری یا تیسری بار میں فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٣ (١٦٨٩) ، والوصایا ١٢ (٢٧٥٥) ، والأدب ٩٥ (٦١٦٠) ، صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٢) ، سنن النسائی/الحج ٧٤ (٢٨٠١) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٨٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠٠ (٣١٠٣) ، موطا امام مالک/الحج ٤٥ (١٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٧٨، ٣١٢، ٤٦٤، ٤٧٤، ٤٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ آپ ﷺ نے بطور زجر و توبیخ کے فرمایا، کیوں کہ سواری کی اجازت آپ ﷺ پہلے دے چکے تھے، اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ ہدی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدی کے جانور پر سواری درست ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ بوقت ضرورت و حاجت جائز ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ جب جی چاہے سوار ہوسکتا ہے، خواہ حاجت ہو یا نہ ہو، اور بعض نے سوار ہونے کو واجب کہا ہے، کیوں کہ اس میں زمانہ جاہلیت کے طریقہ کی مخالفت ہے، وہ لوگ ایسے جانوروں کی ان کے درجہ سے زیادہ قدر و منزلت کرتے تھے۔
ہدی کے جانور پر سواری کرنے کا بیان
ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے ہدی پر سوار ہونے کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے، جب تم اس کے لیے مجبور کر دئیے جاؤ تو اس پر سوار ہوجاؤ بھلائی کے ساتھ یہاں تک کہ تمہیں کوئی دوسری سواری مل جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٤) ، سنن النسائی/الحج ٧٦ (٢٨٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٧، ٣٢٤، ٣٢٥، ٣٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے امام ابوحنیفہ کے مذہب کی تائید ہوتی ہے، جنہوں نے سوار ہونے کے لئے حاجت و ضرورت کی قید لگائی ہے۔
ہدی اپنے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہلاک ہوجائے تو کیا کرے؟
ناجیہ اسلمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہدی بھیجا اور فرمایا : اگر ان میں سے کوئی مرنے لگے تو اس کو نحر کرلینا پھر اس کی جوتی اسی کے خون میں رنگ کر اسے لوگوں کے واسطے چھوڑ دینا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٧١ (٩١٠) ، سنن النسائی/الکبری /الأطعمة (٦٦٣٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠١ (٣١٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥٨١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤٧(١٤٨) ، مسند احمد (٤/٣٣٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٦ (١٩٥٠) (صحیح )
ہدی اپنے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہلاک ہوجائے تو کیا کرے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں اسلمی کو ہدی کے اٹھارہ اونٹ دے کر بھیجا تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر ان میں سے کوئی (چلنے سے) عاجز ہوجائے تو آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسے نحر کردینا پھر اس کے جوتے کو اسی کے خون میں رنگ کر اس کی گردن کے ایک جانب چھاپ لگا دینا اور اس میں سے کچھ مت کھانا ١ ؎ اور نہ ہی تمہارے ساتھ والوں میں سے کوئی کھائے، یا آپ ﷺ نے یوں فرمایا : من أهل رفقتک یعنی تمہارے رفقاء میں سے کوئی نہ کھائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالوارث کی حدیث میں اضربها کے بجائے ثم اجعله على صفحتها ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے ابوسلمہ کو کہتے سنا : جب تم نے سند اور معنی درست کرلیا تو تمہیں کافی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٦ (١٣٢٥) ، سنن النسائی/الکبری /الحج (٤١٣٦) ، وانظر أیضا ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٥٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٧، ٢٤٤، ٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ یہ الزام نہ آئے کہ ہدی کے جانور کو کھانا چاہتا تھا، اس لئے نحر (ذبح) کر ڈالا۔
اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ
علی (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہدی کے اونٹوں کا نحر کیا تو اپنے ہاتھ سے تیس (٣٠) اونٹ نحر کئے پھر مجھے حکم دیا تو باقی سارے میں نے نحر کئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٠٢٢١) (منکر) ( یہ روایت صحیح مسلم کی روایت کے خلاف ہے جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے (٦٣) اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کئے، باقی علی (رض) نے کئے )
اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ
عبداللہ بن قرط (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر ہے ١ ؎، اس دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپ نحر کی ابتداء اس سے کریں جب وہ گرگئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو چاہے اس میں سے گوشت کاٹ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٩٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/الحج (٤٠٩٨) ، مسند احمد (٤/٣٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عیسیٰ کہتے ہیں : ثور نے کہا : وہ دوسرا دن ہے، یعنی گیارہویں ذی الحجہ کا دن۔
اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ
عرفہ بن حارث کندی (رض) کہتے ہیں میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، ہدی کے اونٹ لائے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابوالحسن (علی (رض) کی کنیت ہے) کو بلاؤ ، چناچہ آپ کے پاس علی (رض) کو بلا کر لایا گیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم برچھی کا نچلا سرا پکڑو ، اور رسول اللہ ﷺ نے اوپر کا سرا پکڑا پھر اونٹوں کو نحر کیا جب فارغ ہوگئے تو اپنے خچر پر سوار ہوئے اور علی کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٠١٩) (ضعیف) (اس کے راوی عبداللہ بن حارث کندی ازدی لین الحدیث ہیں )
اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ
جابر (رض) سے روایت ہے (ابن جریج کہتے ہیں : نیز مجھے عبدالرحمٰن بن سابط نے (مرسلاً ) خبر دی ہے) کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر اور باقی پیروں پر کھڑا کر کے اسے نحر کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٨٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اونٹ کو سینہ پر مار کر ذبح کرتے ہیں اس لیے نحر کا لفظ استعمال ہوا۔
اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ
یونس کہتے ہیں مجھے زیاد بن جبیر نے خبر دی ہے، وہ کہتے ہیں میں منیٰ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ تھا کہ ان کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا انہوں نے کہا : کھڑا کر کے (بایاں پیر) باندھ کر نحر کرو، یہی محمد ﷺ کا طریقہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١١٨ (١٧١٣) ، صحیح مسلم/الحج ٦٣ (١٣٢٠) ، سنن النسائی/الکبری/ الحج (٤١٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٦٧٢٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣، ٨٦، ١٣٩) سنن الدارمی/المناسک ٧٠ (١٩٥٥) (صحیح )
اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے ہدی کے اونٹوں کے پاس کھڑا ہو کر ان کی کھالیں اور جھولیں تقسیم کروں اور مجھے حکم دیا کہ اس میں سے قصاب کو کچھ بھی نہ دوں اور فرمایا : اسے ہم اپنے پاس سے (اجرت) دیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٠ (١٧١٦) ، ١٢١(١٧١٧) ، صحیح مسلم/الحج ٦١ (١٣١٧) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٤٦، ٤١٤٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٧ (٣٠٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٢١٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/ ٧٩، ١٢٣، ١٣٢، ١٤٣، ١٥٤، ١٥٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٩ (١٩٨٣) (صحیح )
احرام باندھنے کا وقت
سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے کہا : ابوالعباس ! مجھے تعجب ہے کہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے احرام باندھنے کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آپ نے احرام کب باندھا ؟ تو انہوں نے کہا : اس بات کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی حج کیا تھا اسی وجہ سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے، رسول اللہ ﷺ حج کی نیت کر کے مدینہ سے نکلے، جب ذی الحلیفہ کی اپنی مسجد میں آپ نے اپنی دو رکعتیں ادا کیں تو اسی مجلس میں آپ ﷺ نے احرام باندھا اور دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا، لوگوں نے اس کو سنا اور میں نے اس کو یاد رکھا، پھر آپ ﷺ سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا، بعض لوگوں نے اس وقت آپ ﷺ کو تلبیہ پڑھتے ہوئے پایا، اور یہ اس وجہ سے کہ لوگ الگ الگ ٹکڑیوں میں آپ کے پاس آتے تھے، تو جب آپ ﷺ کی اونٹنی آپ کو لے کر اٹھی تو انہوں نے آپ کو تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا : آپ نے تلبیہ اس وقت کہا ہے جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ چلے، جب مقام بیداء کی اونچائی پر چڑھے تو تلبیہ کہا تو بعض لوگوں نے اس وقت اسے سنا تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اسی وقت تلبیہ کہا ہے جب آپ بیداء کی اونچائی پر چڑھے حالانکہ اللہ کی قسم آپ نے وہیں تلبیہ کہا تھا جہاں آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ ﷺ نے اس وقت تلبیہ کہا جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی ہوئی اور پھر آپ نے بیداء کی اونچائی چڑھتے وقت تلبیہ کہا۔ سعید کہتے ہیں : جس نے ابن عباس (رض) کی بات کو لیا تو اس نے اس جگہ پر جہاں اس نے نماز پڑھی اپنی دونوں رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد تلبیہ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٥٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٦٠) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی خصیف کا حافظہ کمزور تھا، مگر حدیث میں مذکور تفصیل صحیح ہے )
احرام باندھنے کا وقت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ یہی وہ بیداء کا مقام ہے جس کے بارے میں تم لوگ رسول اللہ ﷺ سے غلط بیان کرتے ہو کہ آپ نے تو مسجد یعنی ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس ہی سے تلبیہ کہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢ (١٥١٥) ، ٢٠ (١٥٤١) ، والجھاد ٥٣ (٢٨٦٥) ، صحیح مسلم/الحج ٣، ٤ (١١٨٦) ، سنن الترمذی/الحج ٨ (٨١٨) ، سنن النسائی/الحج ٥٦ (٢٧٥٨) ، وانظر أیضا ما بعدہ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١٤ (٢٩١٦) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣٠) ، مسند احمد (٢/١٠، ١٧، ١٨، ٢٩، ٣٦، ٣٧، ٦٦، ١٥٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٢ (١٩٧٠) (صحیح )
احرام باندھنے کا وقت
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! میں نے آپ کو چار کام ایسے کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ہے ؟ انہوں نے پوچھا : وہ کیا ہیں ابن جریج ؟ وہ بولے : میں نے دیکھا کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہیں، اور دیکھا کہ آپ ایسی جوتیاں پہنتے ہیں جن کے چمڑے میں بال نہیں ہوتے، اور دیکھا آپ زرد خضاب لگاتے ہیں، اور دیکھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیا لیکن آپ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کے آنے تک احرام نہیں باندھا، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : رہی رکن یمانی اور حجر اسود کی بات تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو صرف انہیں دو کو چھوتے دیکھا ہے، اور رہی بغیر بال کی جوتیوں کی بات تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسی جوتیاں پہنتے دیکھی ہیں جن میں بال نہیں تھے اور آپ ان میں وضو کرتے تھے، لہٰذا میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں، اور رہی زرد خضاب کی بات تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو زرد رنگ کا خضاب لگاتے دیکھا ہے، لہٰذا میں بھی اسی کو پسند کرتا ہوں، اور احرام کے بارے میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس وقت تک لبیک پکارتے نہیں دیکھا جب تک کہ آپ کی سواری آپ کو لے کر چلنے کے لیے کھڑی نہ ہوجاتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٠ (١٦٦) ، والحج ٢٨ (١٥٥٢) (مختصرا) ٥٩ (١٦٠٩) (مختصرا) ، واللباس ٣٧ (٥٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٠ (٧٤) ، سنن النسائی/الطھارة ٩٥ (١١٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٤ (٣٦٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣١٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٩(٣١) ، مسند احمد (٢/١٧، ٢٦، ١١٠) (صحیح )
احرام باندھنے کا وقت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ظہر چار رکعت اور ذی الحلیفہ میں عصر دو رکعت ادا کی، پھر ذی الحلیفہ میں رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہوگئی، جب آپ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی ہوگئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٤ (١٥٤٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن النسائی/الصلاة ١١ (٣٧٨، ٤٧٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٤ (٥٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٣٧، ٣٧٨) (صحیح )
احرام باندھنے کا وقت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر اپنی سواری پر بیٹھے جب بیداء کے پہاڑ پر چڑھے تو تلبیہ پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢٥ (٢٦٦٣) ، ٥٦ (٢٧٥٦) ، ١٤٣ (٢٩٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٥٢٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٠٧) ، سنن الدارمی/الحج ١٢ (١٨٤٨) (صحیح لغیرہ) ( اس حدیث کے روای حسن بصری ہیں جو مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کی اصل سابقہ حدیث نمبر : (١٧٧٣) ہے، اس سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے )
احرام باندھنے کا وقت
عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص (رض) کا کہنا ہے کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ جب فرع کا راستہ (جو مکہ کو جاتا ہے) اختیار کرتے تو جب آپ ﷺ کی سواری آپ کو لے کر سیدھی ہوجاتی تو آپ تلبیہ پڑھتے اور جب آپ احد کا راستہ اختیار کرتے تو بیداء کی پہاڑی پر چڑھتے وقت تلبیہ پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٩٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
حج میں شرط لگانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! میں حج میں شرط لگانا چاہتی ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، (لگا سکتی ہو) ، انہوں نے کہا : تو میں کیسے کہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کہو ! لبيك اللهم لبيك، ومحلي من الأرض حيث حبستني حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، اور میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٧ (٩٤١) ، سنن النسائی/الحج ٦٠ (٢٧٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٥٤، ٦٢١٤، ٦٢٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٤ (٢٩٣٦) ، مسند احمد (١/٣٣٧، ٣٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ١٥ (١٨٥٢) (حسن صحیح )
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن الترمذی/الحج ١٠ (٨٢٠) ، سنن النسائی/الحج ٤٨ (٢٧١٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٧ (٢٩٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥١٧) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ١١(٣٧) ، مسند احمد (٦/٢٤٣) ، سنن الدارمی/المناسک ١٦ (١٨٥٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎ : حج کے مہینے میں میقات سے صرف حج کی نیت سے احرام باندھنے کو افراد کہتے ہیں، نبی کریم ﷺ کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ آپ نے حج قران کیا تھا، اس لئے کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہدی کے جانور تھے، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو وہ عمرہ پورا کر کے احرام کھول دیں، یعنی حج قران کو حج تمتع میں بدل دیں، دیکھئے حدیث نمبر : (٧٩٥) ۔
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکلنے کو ہوا تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے ۔ موسیٰ نے وہیب والی روایت میں کہا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں ہدی نہ لے چلتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا ۔ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے : رہا میں تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ ہدی ہے ۔ آگے دونوں راوی متفق ہیں (ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں) میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں تھی، آپ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ مجھے حیض آگیا، آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، میں رو رہی تھی، آپ ﷺ نے پوچھا : کیوں رو رہی ہو ؟ ، میں نے عرض کیا : میری خواہش یہ ہو رہی ہے کہ میں اس سال نہ نکلتی (تو بہتر ہوتا) ، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا عمرہ چھوڑ دو ، سر کھول لو اور کنگھی کرلو ۔ موسیٰ کی روایت میں ہے : اور حج کا احرام باندھ لو ، اور سلیمان کی روایت میں ہے : اور وہ تمام کام کرو جو مسلمان اپنے حج میں کرتے ہیں ۔ تو جب طواف زیارت کی رات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن کو حکم دیا چناچہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کر گئے۔ موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمرے کے عوض (جو ان سے چھوٹ گیا تھا) دوسرے عمرے کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس طرح اللہ نے ان کے عمرے اور حج دونوں کو پورا کردیا۔ ہشام کہتے ہیں : اور اس میں ان پر اس سے کوئی ہدی لازم نہیں ہوئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : موسیٰ نے حماد بن سلمہ کی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب بطحاء ١ ؎ کی رات آئی تو عائشہ (رض) حیض سے پاک ہوگئیں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث سلیمان بن حرب عن حماد بن زید قد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ١٨٥ (٢٩٩٣) ، ١٨٦ (٢٩٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٨٦٣، ١٦٨٨٢) ، وحدیث موسیٰ بن اسماعیل عن حماد بن سلمة وموسی بن اسماعیل عن وہیب، قد تفرد بہما أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٢٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ١ (٢٩٤) ، ٧ (٣٠٥) ، ١٥(٣١٦) ، ١٦ (٣١٧) ، ١٨ (٣١٩) ، الحج/٣١ (١٥٥٦) ، ٣٣ (١٥٦٠) ، ٣٤ (١٥٦٢) ، ٧٧ (١٦٣٨) ، ١١٥ (١٧٠٩) ، ١٢٤ (١٧٢٠) ، ١٤٥ (١٧٥٧) ، العمرة ٧ (١٧٨٦) ، ٩ (١٧٨٨) ، الجھاد ١٠٥ (٢٩٥٢) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن النسائی/الطھارة ١٨٣ (٢٩١) سنن ابن ماجہ/الحج ٣٦ (٢٩٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بطحاء سے مراد منیٰ ہے، یعنی قیام منیٰ کے ایام کی کسی رات میں وہ پاک ہوگئیں، علامہ عینی کہتے ہیں کہ عائشہ (رض) حیض تین ذی الحجہ بروز سنیچر مقام سرف میں شروع ہوا تھا، اور دسویں ذی الحجہ کو سنیچر کے روز پاک ہوئیں۔
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم لوگ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہم میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا، رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا، چناچہ جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے یوم النحر (یعنی دسویں ذی الحجہ) تک احرام نہیں کھولا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البخاری ٣٤ (١٥٦٢) ، المغازی ٧٨ (٤٤٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن النسائی/الحج ٤٨ (٢٧١٧) ، سنن ابن ماجہ/ الحج ٣٧ (٢٩٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦، ١٠٤، ١٠٧، ٢٤٣) (صحیح )
حج مفرد کا بیان
اس سند سے بھی ابوالاسود سے اسی طریق سے اسی کے مثل مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا تو ان لوگوں نے (عمرہ کر کے) احرام کھول دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٦٣٨٩) (صحیح )
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے پھر وہ حلال نہیں ہوگا جب تک کہ ان دونوں سے ایک ساتھ حلال نہ ہوجائے ، چناچہ میں مکہ آئی، میں حائضہ تھی، میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، لہٰذا میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اپنا سر کھول لو، کنگھی کرلو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرے کو ترک کر دو ، میں نے ایسا ہی کیا، جب میں نے حج ادا کرلیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا (تو میں وہاں سے احرام باندھ کر آئی اور) میں نے عمرہ ادا کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے عمرے کی جگہ پر ہے ، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : چناچہ جنہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، پھر ان لوگوں نے احرام کھول دیا، پھر جب منیٰ سے لوٹ کر آئے تو حج کا ایک اور طواف کیا، اور رہے وہ لوگ جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابراہیم بن سعد اور معمر نے ابن شہاب سے اسی طرح روایت کیا ہے انہوں نے ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے عمرہ کے طواف کا احرام باندھا، اور ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ٣١ (١٥٥٦) ، ٧٧ (١٦٣٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن النسائی/ الحج ٥٨ (٢٧٦٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٩١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٧٤ (٢٢٣) ، مسند احمد (٦/٣٥، ١٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی طرح حج افراد کا احرام باندھنے والوں نے بھی ایک ہی طواف کیا، واضح رہے کہ مفرد ہو یا متمتع یا قارن سب کے لئے طوافِ زیارت فرض ہے، اور متمتع پر صفا ومروہ کی دو سعی واجب ہے، جب کہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے، خواہ طواف قدوم (یا عمرہ) کے وقت کرلے یا طواف زیارت کے بعد، یہی مسئلہ مفرد حاجی کے لئے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوں میں ” سعی “ کے لئے بھی ” طواف “ کا لفظ وارد ہوا ہے۔
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا، رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا : عائشہ ! تم کیوں رو رہی ہو ؟ ، میں نے کہا : مجھے حیض آگیا کاش میں نے (امسال) حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی ذات پاک ہے، یہ تو بس ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے واسطے لکھ دی ہے ، پھر فرمایا : تم حج کے تمام مناسک ادا کرو البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرو ١ ؎ پھر جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اسے عمرہ بنانا چاہے تو وہ اسے عمرہ بنا لے ٢ ؎ سوائے اس شخص کے جس کے ساتھ ہدی ہو ، ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں : اور رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے گائے ذبح کی۔ جب بطحاء کی رات ہوئی اور عائشہ (رض) حیض سے پاک ہوگئیں تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میرے ساتھ والیاں حج و عمرہ دونوں کر کے لوٹیں گی اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن ابوبکر (رض) کو حکم دیا وہ انہیں لے کر مقام تنعیم گئے پھر ام المؤمنین عائشہ (رض) نے وہاں سے عمرہ کا تلبیہ پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢١٩) (صحیح) (لیکن یہ جملہ من شاء أن يجعلها ... الخ صحیح نہیں ہے جو اس روایت میں ہے، صحیح جملہ یوں ہے اجعلوها عمرة یعنی حکم دیا کہ عمرہ بنا ڈالو ) وضاحت : ١ ؎ : طواف ایک ایسی عبادت ہے جس میں طہارت شرط ہے اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو طواف سے روک دیا، طواف کے علاوہ حائضہ حج کے تمام ارکان ادا کرے گی۔ ٢ ؎ : جیسا کہ مذکور ہوا یہ جملہ جو اس روایت میں ہے صحیح نہیں ہے، صحیح جملہ یوں ہے : ” تم اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو سوائے اس شخص۔۔۔ الخ “
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم (مکہ) آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جو اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہو وہ حلال ہوجائے ١ ؎، چناچہ وہ تمام لوگ حلال ہوگئے جو ہدی لے کر نہیں آئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ٣٤ (١٥٦١) ، صحیح مسلم/ الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن النسائی/ الکبری، الحج (٣٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨٩، ١٩١، ١٩٢، ٢١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اپنا احرام کھول دے۔
حج مفرد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے پہلے یہ بات معلوم ہوگئی ہوتی جواب معلوم ہوئی ہے تو میں ہدی نہ لاتا ، محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے کہا : اور میں ان لوگوں کے ساتھ حلال ہوجاتا جو عمرہ کے بعد حلال ہوگئے ، آپ ﷺ نے چاہا کہ سب لوگوں کا معاملہ یکساں ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٤٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے تو وہ طواف اور سعی کرکے احرام کھول دیں، نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں لوگوں کی آسانی کے لئے ایسا حکم فرمایا تاکہ اس سے مشرکین کی مخالفت ہو، بعض لوگوں کو اس میں تردد ہوا تو آپ ﷺ ان پر ناراض ہوئے، اس حدیث کی بنا پر بعض ائمہ کے یہاں حج تمتع ہی واجب اور افضل ہے، (ملاحظہ ہو : زاد المعاد) ۔
حج مفرد کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج افراد کا احرام باندھ کر آئے، ام المؤمنین عائشہ (رض) عمرے کا احرام باندھ کر آئیں، جب وہ مقام سرف میں پہنچیں تو انہیں حیض آگیا یہاں تک کہ جب ہم لوگ مکہ پہنچے تو ہم نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جن کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دیں، ہم نے کہا : کیا کیا چیزیں حلال ہوں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز حلال ہے ، چناچہ ہم نے عورتوں سے صحبت کی، خوشبو لگائی، اپنے کپڑے پہنے حالانکہ عرفہ میں صرف چار راتیں باقی تھیں، پھر ہم نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو احرام باندھا، پھر رسول اللہ ﷺ عائشہ (رض) کے پاس آئے تو انہیں روتے پایا، پوچھا : کیا بات ہے ؟ ، وہ بولیں : مجھے حیض آگیا لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن میں نے نہیں کھولا اور نہ میں بیت اللہ کا طواف ہی کرسکی ہوں، اب لوگ حج کے لیے جا رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ (حیض) ایسی چیز ہے جسے اللہ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے لہٰذا تم غسل کرلو پھر حج کا احرام باندھ لو ، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اور سارے ارکان ادا کئے جب حیض سے پاک ہوگئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کی سعی کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اب تم حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہوگئیں ، وہ بولیں : اللہ کے رسول ! میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں بیت اللہ کا طواف (قدوم) نہیں کرسکی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : عبدالرحمٰن ! انہیں لے جاؤ، اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ ، یہ واقعہ حصبہ ١ ؎ کی رات کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٦ (١٢١٠) ، ١٧ (١٢١٣) ، سنن النسائی/الحج ٥٨ (٢٧٦٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٢ (٢٩١١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٩٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤١(١٢٦) ، مسند احمد (٣/٣٩٤) ، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ذی الحجہ کی چودہویں رات کو، جس رات کو محصب میں اترتے ہیں یا تیرہویں رات کو اگر بارہویں تاریخ کو منیٰ سے واپسی ہو، محصب : ایّام تشریق کے بعد منیٰ سے لوٹتے وقت راستے میں مکہ سے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
حج مفرد کا بیان
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے پاس آئے آگے اسی قصہ کا کچھ حصہ مروی ہے، اس میں ہے کہ اپنے قول وأهلي بالحج یعنی حج کا احرام باندھ لو کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : پھر حج کرو اور وہ تمام کام کرو جو ایک حاجی کرتا ہے البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور نماز نہ پڑھنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ١٧ (١٢١٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٩) (صحیح )
حج مفرد کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا : اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا ، پھر سراقہ بن مالک (رض) کھڑے ہوئے اور بولے : اللہ کے رسول ! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے ١ ؎۔ اوزاعی کہتے ہیں : میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کرسکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٤١ (٢٩٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٢٤٢٦، ٢٤٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٦) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے امام احمد کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ جو حج کا احرام باندھ کر آئے اور ہدی ساتھ نہ لائے وہ طواف اور سعی کرکے احرام کھول سکتا ہے، یعنی حج کو عمرہ میں تبدیل کرسکتا ہے۔
حج مفرد کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد (مکہ) آئے، جب انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرلی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سب اسے عمرہ بنا لو سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو ، پھر جب یوم الترویہ (آٹھواں ذی الحجہ) ہوا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا، جب یوم النحر (دسواں ذی الحجہ) ہوا تو وہ لوگ (مکہ) آئے اور انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٤٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ پہلی سعی کافی تھی البتہ جو شخص حج سے پہلے سعی نہ کرسکا ہو اس کو طواف زیارت کے بعد سعی کرنا ضروری ہوگا۔
حج مفرد کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم ﷺ اور طلحہ (رض) کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی (رض) یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا : میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کرلیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا : کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا : اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨١ (١٦٥١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٤٠٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠٥) (صحیح )
حج مفرد کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ عمرہ ہے، ہم نے اس سے فائدہ اٹھایا لہٰذا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پوری طرح سے حلال ہوجائے، اور عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوگیا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ (مرفوع حدیث) منکر ہے، یہ ابن عباس کا قول ہے نہ کہ نبی اکرم ﷺ کا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣١ (١٢٤١) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١٧) ، ( تحفة الأشراف : ٦٣٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ٣ (١٠٨٥) ، والحج/٢٣ (١٥٤٥) ، ٣٤ (١٥٦٤) ، والشرکة ١٥ (٢٥٠٥) ، ومناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٢) ، سنن الترمذی/الحج ٨٩ (٩٣٢) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٢٥٣، ٢٥٩، ٣٤١) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٨ (١٨٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوداود کا یہ قول صحیح نہیں ہے، اس کو کئی راویوں نے مرفوعا روایت کیا ہے جن میں امام احمد بن حنبل بھی ہیں (منذری) ۔
حج مفرد کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب آدمی حج کا احرام باندھ کر مکہ آئے اور بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرلے تو وہ حلال ہوگیا اور یہ عمرہ ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جریج نے ایک شخص سے انہوں نے عطا سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ خالص حج کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے اسے عمرہ سے بدل دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٩٦٥) (صحیح )
حج مفرد کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حج کا احرام باندھا جب آپ (مکہ) آئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی کی ( ابن شوکر کی روایت میں ہے کہ) آپ ﷺ نے بال نہیں کتروائے (پھر ابن شوکر اور ابن منیع دونوں کی روایتیں متفق ہیں کہ) آپ ﷺ نے ہدی کی وجہ سے احرام نہیں کھولا، اور حکم دیا کہ جو ہدی لے کر نہ آیا ہو طواف اور سعی کرلے اور بال کتروا لے پھر احرام کھول دے، (ابن منیع کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے) : یا سر منڈوا لے پھر احرام کھول دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٤٢٩) ، وقد أخرجہ : (حم ١/٢٤١، ٣٣٨) (صحیح )
حج مفرد کا بیان
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے ایک شخص عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا اور اس نے ان کے پاس گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو مرض الموت میں حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٨٢) (ضعیف) (سعید بن مسیب کا سماع عمر فاروق سے ثابت نہیں، نیز یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے )
حج مفرد کا بیان
ابوشیخ ہنائی خیوان بن خلدہ (جو اہل بصرہ میں سے ہیں اور ابوموسیٰ اشعری (رض) کے شاگرد ہیں) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام سے کہا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں فلاں چیز سے روکا ہے اور چیتوں کی کھال پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، پھر معاویہ نے پوچھا : تو کیا یہ بھی معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے (قران) حج اور عمرہ دونوں کو ملانے سے منع فرمایا ہے ؟ لوگوں نے کہا : رہی یہ بات تو ہم اسے نہیں جانتے، تو انہوں نے کہا : یہ بھی انہی (ممنوعات) میں سے ہے لیکن تم لوگ بھول گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٥٠ مختصراً (٢٧٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٢، ٩٥، ٩٨، ٩٩) ، (ضعیف) (اس کی سند میں اضطراب ہے، نیز صحیح روایات کے خلاف ہے ) وضاحت : ١ ؎ : قران بعض علماء کے نزدیک افضل ہے، پھر تمتع، پھر افراد، اور بعض کے نزدیک افراد سب سے افضل ہے، پھر قران پھر تمتع، اور صحیح قول یہ ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے، امام ابن قیم اور علامہ البانی کے بقول تمتع کے سوا حج کی دونوں قسمیں (یعنی افراد اور قران) منسوخ ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ” جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہوتی تو میں بھی ہدی کے جانور لے کر نہیں آتا، (تاکہ میں بھی اپنے حج کو عمرہ بنا دیتا) “ ، تو اب امت کے لئے یہ پیغام ملا کہ آئندہ کوئی ہدی لے کر آئے ہی نہیں۔
قران کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ لوگوں نے انہیں کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پڑھتے سنا آپ فرما رہے تھے : لبيك عمرة وحجا لبيك عمرة وحجا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٤ (١٢٥١) ، سنن النسائی/الحج ٤٩ (٢٧٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨١، ١٦٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٢٦(٢٩٨٦) ، والمغازي ٦١ (٤٣٥٣) ، سنن الترمذی/الحج ١١(٨٢١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٤ (٢٩١٧) ، ٣٨ (٢٩٦٨، ٢٩٦٩) ، مسند احمد (٣/٩٩، ٢٨٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٤) (صحیح )
قران کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ ﷺ نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ (مکہ) آئے تو آپ ﷺ نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا، یہاں تک کہ جب یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ ﷺ نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس (رض) نے) کہا کہ آپ ﷺ نے پہلے الحمدلله، سبحان الله والله أكبر کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٤ ، (١٥٤٧) ، ٢٥ (١٥٤٨) ، ٢٧ (١٥٥١) ، ١١٩ (١٧١٥) ، الجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، ١٢٦ (٢٩٨٦) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن النسائی/الضحایا ١٣ (٤٣٩٢) ، ویأتي ہذا الحدیث برقم (٢٧٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ٩٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور باقی اونٹوں کو علی (رض) نے ذبح (نحر) کیا، کل سو اونٹ تھے، جو ذبح کئے گئے۔
قران کا بیان
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) کو یمن کا امیر مقرر کر کے بھیجا، میں ان کے ساتھ تھا تو مجھے ان کے ساتھ (وہاں) کئی اوقیہ سونا ملا، جب آپ یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو دیکھا کہ فاطمہ (رض) رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اور گھر میں خوشبو بکھیر رکھی ہے، وہ کہنے لگیں : آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا تو انہوں نے احرام کھول دیا ہے، علی (رض) کہتے ہیں : میں نے فاطمہ سے کہا : میں نے وہ نیت کی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے کی ہے، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ نے مجھ سے پوچھا : تم نے کیا نیت کی ہے ؟ ، میں نے کہا : میں نے وہی احرام باندھا ہے جو نبی اکرم ﷺ کا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں اور میں نے قران کیا ہے ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : تم سڑسٹھ (٦٧) ١ ؎ یا چھیاسٹھ (٦٦) اونٹ (میری طرف سے) نحر کرو اور تینتیس (٣٣) یا چونتیس (٣٤) اپنے لیے روک لو، اور ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا گوشت میرے لیے رکھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٥٢ (٢٧٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٠٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٦١ (٤٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوداود کی روایت میں اسی طرح وارد ہے جو وہم سے خالی نہیں، قیاس یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تم (٦٧) یا (٦٦) اونٹ میری طرف سے نحر کرو اور باقی اپنی طرف سے کرنے کے لئے روک لو، اس معنی کے اعتبار سے علی (رض) سارے اونٹوں کے نحر کرنے والے ہوں گے، حالانکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ ان میں سے اکثر کو خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نحر کیا تھا، لہٰذا ” تم نحر کرو “ کے معنی یہ ہوں گے کہ انہیں نحر کے لئے تیار کرو اور انہیں منحر میں لے چلو تاکہ میں اپنے ہاتھ سے انہیں نحر کروں۔
قران کا بیان
ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد سے کہا : میں نے (حج و عمرہ) دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر (رض) نے کہا : تمہیں اپنے نبی کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٤٩ (٢٧٢٠، ٢٧٢١، ٢٧٢٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٨ (٢٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤، ٢٥، ٣٤، ٣٧، ٥٣) (صحیح )
قران کا بیان
ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد نے عرض کیا کہ میں ایک نصرانی بدو تھا میں نے اسلام قبول کیا تو اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس آیا جسے ہذیم بن ثرملہ کہا جاتا تھا میں نے اس سے کہا : ارے میاں ! میں جہاد کا حریص ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حج و عمرہ میرے اوپر فرض ہیں، تو میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں دونوں کو ادا کرسکوں، اس نے کہا : دونوں کو جمع کرلو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، تو میں نے ان دونوں کا احرام باندھ لیا، پھر جب میں مقام عذیب پر آیا تو میری ملاقات سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان سے ہوئی اور میں دونوں کا تلبیہ پکار رہا تھا، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : یہ اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں، تو جیسے میرے اوپر پہاڑ ڈال دیا گیا ہو، یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا، میں نے ان سے عرض کیا : امیر المؤمنین ! میں ایک نصرانی بدو تھا، میں نے اسلام قبول کیا، میں جہاد کا خواہشمند ہوں لیکن دیکھ رہا ہوں کہ مجھ پر حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا اس نے مجھے بتایا کہ تم ان دونوں کو جمع کرلو اور جو ہدی میسر ہو اسے ذبح کرو، چناچہ میں نے دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا تو عمر (رض) نے مجھ سے کہا : تمہیں اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کی توفیق ملی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٦٦) (صحیح )
قران کا بیان
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : آج رات میرے پاس میرے رب عزوجل کی جانب سے ایک آنے والا (جبرائیل) آیا (آپ اس وقت وادی عقیق ١ ؎ میں تھے) اور کہنے لگا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، اور کہا : عمرہ حج میں شامل ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے اس حدیث میں اوزاعی سے یہ جملہ وقل عمرة في حجة (کہو ! عمرہ حج میں ہے) نقل کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسی طرح اس حدیث میں علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے وقل عمرة في حجة کا جملہ نقل ٢ ؎ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٦ (١٥٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٠ (٢٩٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٥١٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” عقيق “: مدینہ سے چار میل کی دوری پر ایک وادی ہے، اور اب شہر میں داخل ہے۔ ٢ ؎ : یہ جملہ احادیث میں تین طرح سے وارد ہوا ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے قال عمرة في حجة ماضی کے صیغہ کے ساتھ، اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں وقل عمرة في حجة امر کے صیغہ کے ساتھ، اور بخاری کی روایت میں وقل عمرة في حجة ہے عمرة اور حجة کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔
قران کا بیان
سبرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم عسفان میں پہنچے تو آپ سے سراقہ بن مالک مدلجی نے کہا : اللہ کے رسول ! آج ایسا بیان فرمائیے جیسے ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں جو ابھی پیدا ہوئے ہوں (بالکل واضح) تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عمرہ کو تمہارے حج میں داخل کردیا ہے لہٰذا جب تم مکہ آجاؤ تو جو بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرلے تو وہ حلال ہوگیا سوائے اس کے جس کے ساتھ ہدی کا جانور ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٨١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٠٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٨ (١٨٩٩) ، (صحیح )
قران کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے انہیں خبر دی، وہ کہتے ہیں : میں نے مروہ پر نبی اکرم ﷺ کے بال تیر کی دھار سے کاٹے، (یا یوں ہے) میں نے آپ کو دیکھا کہ مروہ پر تیر کے پیکان سے آپ کے بال کترے جا رہے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٧ (١٧٣٠) (إلی قولہ : ” بمشقص “ )، صحیح مسلم/الحج ٣٣ (١٢٤٦) ، سنن النسائی/الحج ٥٠ (٢٧٣٨) ، ١٨٣ (٢٩٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٩٦، ٩٧، ٩٨، ١٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری میں صرف اتنا ہے کہ ” میں نے آپ ﷺ کے بال تیر کی دھار سے کاٹے “ ، اس جملے سے کوئی اشکال نہیں پیدا ہوتا، مگر صحیح مسلم و دیگر کے الفاظ ” مروہ پر “ سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قارن تھے تو عمرہ کے بعد مروہ پر بال کاٹنے کا کیا مطلب ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ عمرہ جعرانہ کا ہے نہ کہ حجۃ الوداع کا، جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے۔
قران کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے ان سے کہا : کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ ﷺ کے بال ایک اعرابی کے تیر کی پیکان سے کترے۔ حسن کی روایت میں لحجته (آپ کے حج میں) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٢٣) (صحیح) ( لحجته کا لفظ صحیح نہیں بلکہ منکر ہے )
قران کا بیان
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٠ (١٢٣٩) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٠) (صحیح )
قران کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو آپ نے ہدی کے جانور تیار کئے، اور ذی الحلیفہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تو پہلے رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ پکارا پھر حج کا (یعنی پہلے لبيك بعمرة کہا پھر لبيك بحجة کہا) ١ ؎ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی عمرے کو حج میں ملا کر تمتع کیا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے ہدی تیار کیا اور اسے لے گئے، اور بعض نے ہدی نہیں بھیجا، جب رسول اللہ ﷺ مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا : تم میں سے جو ہدی لے کر آیا ہو تو اس کے لیے (احرام کی وجہ سے) حرام ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنا حج مکمل نہ کرلے، اور تم لوگوں میں سے جو ہدی لے کر نہ آیا ہو تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف کرے، صفا ومروہ کی سعی کرے، بال کتروائے اور حلال ہوجائے، پھر حج کا احرام باندھے اور ہدی دے جسے ہدی نہ مل سکے تو ایام حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آجائے ، اور رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو آپ نے طواف کیا، سب سے پہلے آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر پہلے تین پھیروں میں تیز چلے اور آخری چار پھیروں میں عام چال، بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا اور پلٹے تو صفا پر آئے اور صفا ومروہ میں سات بار سعی کی، پھر (آپ کے لیے محرم ہونے کی وجہ سے) جو چیز حرام تھی وہ حلال نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنا حج پورا کرلیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنا ہدی نحر کردیا، پھر لوٹے اور بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کیا پھر ہر حرام چیز آپ کے لیے حلال ہوگئی اور لوگوں میں سے جنہوں نے ہدی دی اور اسے ساتھ لے کر آئے تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٤ (١٦٩١) ، صحیح مسلم/الحج ٢٤ (١٢٢٧) ، سنن النسائی/الحج ٥٠ (٢٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١٢(٨٢٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٤ (٢٩١٦) ، مسند احمد (٢/١٣٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٤ (١٩٧٢) (صحیح) (وبدأ رسول الله ﷺ فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج) یہ جملہ ابن قیم، ابن حجر، اور البانی کے یہاں شاذ ہے، (ملاحظہ ہو : فتح الباری، وزاد المعاد، و صحیح ابی داود ٦ ؍ ٦٨ ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اکرم ﷺ کے حج کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعدد بیانات ہیں، ان کے درمیان تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے شروع میں صرف حج کا احرام باندھا، پھر وحی آگئی تو عمرہ کو بھی شامل کرلیا، اگر آپ ﷺ ہدی ساتھ لے کر نہیں گئے ہوتے تو پہلے عمرہ کرتے پھر حلال ہو کر حج کرتے (یعنی حج تمتع کرتے) جیسا کہ صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا تھا، خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ نے حج قران کیا تھا جیسا کہ دسیوں صحابہ کا بیان ہے، اس تفصیل کے مطابق ابن عمر (رض) کا یہ کہنا کہ ” آپ ﷺ نے پہلے عمرہ کا احرام پھر حج کا احرام باندھا “ خلاف واقعہ ہے جو ان کے اپنے علم کے مطابق ہے (ابتدائے امر کے مطابق ہے) ، یا پھر ان کے بیان کی وہی تاویل ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے یعنی : یہاں تمتع سے مراد لغوی تمتع ہے نہ کہ اصطلاحی۔
قران کا بیان
ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے احرام کھول دیا لیکن آپ نے اپنے عمرے کا احرام نہیں کھولا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے سر میں تلبید کی تھی اور ہدی کو قلادہ پہنایا تھا تو میں اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہدی نحر نہ کرلوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٦) ، والمغازي ٧٧ (٤٣٩٨) ، واللباس ٦٩ (٥٩١٦) ، صحیح مسلم/الحج ٢٥ (١٢٢٩) ، سنن النسائی/الحج ٤٠ (٢٦٨١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٢ (٣٠٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٠٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٥٨ (١٨٠) ، مسند احمد (٦/٢٨٣، ٢٨٤، ٢٧٥) (صحیح )
حج کا احرام باندھ کر پھر اس کو عمرہ میں بدل دینا
سلیم بن اسود سے روایت ہے کہ ابوذر (رض) ایسے شخص کے بارے میں جو حج کی نیت کرے پھر اسے عمرے سے فسخ کر دے کہا کرتے تھے : یہ صرف اسی قافلہ کے لیے (مخصوص) تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٩٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٤) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٢ (٢٩٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ابوذر (رض) کا اپنا خیال تھا نہ کہ واقعہ، جیسا کہ پچھلی حدیثوں سے واضح ہے۔
حج کا احرام باندھ کر پھر اس کو عمرہ میں بدل دینا
بلال بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حج کا (عمرے کے ذریعے) فسخ کرنا ہمارے لیے خاص ہے یا ہمارے بعد والوں کے لیے بھی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بلکہ یہ تمہارے لیے خاص ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٢ (٢٩٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٢٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٧ (١٨٩٧) (ضعیف) (اس کے راوی حارث لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے، اس لئے منکر ہے )
حج کا احرام باندھ کر پھر اس کو عمرہ میں بدل دینا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ فضل بن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی تو فضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ فضل کا منہ اس عورت کی طرف سے دوسری طرف پھیرنے لگے ١ ؎، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر (عائد کردہ) فریضہ حج نے میرے والد کو اس حالت میں پایا ہے کہ وہ بوڑھے ہوچکے ہیں، اونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے کیا میں ان کی جانب سے حج کرلوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١ (١٥١٣) ، وجزاء الصید ٢٣ (١٨٥٤) ، ٢٤ (١٨٥٥) ، والمغازي ٧٧ (٤٣٩٩) ، والاستئذان ٢ (٦٢٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧١ (١٣٣٤) ، سنن النسائی/الحج ٨ (٢٦٣٤) ، ٩ (٢٦٣٦) ، ١٢ (٢٦٤٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٦٧٠، ٦٥٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٨٥ (٩٢٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠ (٢٩٠٩) ، موطا امام مالک/الحج ٣٠ (٩٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٥١، ٣٢٩، ٣٤٦، ٣٥٩) ، سنن الدارمی/الحج ٢٣ (١٨٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فضل بن عباس (رض) خوبصورت اور جوان تھے اور وہ عورت بھی حسین تھی، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔
حج کا احرام باندھ کر پھر اس کو عمرہ میں بدل دینا
ابورزین (رض) بنی عامر کے ایک فرد کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج کی طاقت رکھتے ہیں نہ عمرہ کرنے کی اور نہ سواری پر سوار ہونے کی، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے والد کی جانب سے حج اور عمرہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٨٧ (٩٣٠) ، سنن النسائی/الحج ٢ (٢٦٢٢) ، ١٠ (٢٦٣٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠ (٢٩٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ١١١٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٠، ١١، ١٢) (صحیح )
حج کا احرام باندھ کر پھر اس کو عمرہ میں بدل دینا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو کہتے سنا : لبيك عن شبرمة حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے آپ ﷺ نے دریافت کیا : شبرمہ کون ہے ؟ ، اس نے کہا : میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے، آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے اپنا حج کرلیا ہے ؟ ، اس نے جواب دیا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : پہلے اپنا حج کرو پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٩ (٢٩٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ٥٥٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض علماء کے نزدیک حج بدل (دوسرے کی طرف سے حج کرنا) درست ہے، خواہ اپنی طرف سے حج نہ کرسکا ہو، بعض ائمہ کے نزدیک اگر وہ اپنی طرف سے حج نہیں کرسکا ہے تو دوسرے کی طرف سے حج بدل درست نہ ہوگا، اور یہی صحیح مذہب ہے، اس لئے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس شخص کو جو لبيك عن شبرمة کہہ رہا تھا حکم دیا : حج عن نفسک ثم حج عن شبرمة : ” پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو “۔
تلبیہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا : لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لک لبيك، إن الحمد والنعمة لک والملک، لا شريك لك حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ستائش، نعمتیں اور فرماروائی تیری ہی ہے تیرا ان میں کوئی شریک نہیں ۔ راوی کہتے ہیں : عبداللہ بن عمر تلبیہ میں اتنا مزید کہتے لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء إليك والعمل حاضر ہوں تیری خدمت میں، حاضر ہوں، حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خیر تیرے ہاتھ میں ہے، تیری ہی طرف رغبت اور عمل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٦ (١٥٤٩) ، واللباس ٦٩(٥٩٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، سنن النسائی/الحج ٥٤ (٢٧٤٨، ٢٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١٣ (٨٢٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٥ (٢٩١٨) ، موطا امام مالک/الحج ٩(٢٨) ، مسند احمد (٢/٣، ٢٨، ٢٨، ٣٤، ٤١، ٤٣، ٤٧، ٤٨، ٥٣، ٧٦، ٧٧، ٧٩، ١٣١) ، سنن الدارمی/المناسک ١٣ (١٨٤٩) (صحیح )
تلبیہ کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا، پھر انہوں نے تلبیہ کا اسی طرح ذکر کیا جیسے ابن عمر کی حدیث میں ہے اور کہا : لوگ (اپنی طرف سے اللہ کی تعریف میں) ذا المعارج اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن آپ ان سے کچھ نہیں فرماتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١٥ (٢٩١٩) (کلاھما بدون قولہ : ” والناس یزیدون الخ) ، ( تحفة الأشراف : ٢٦٠٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٩(١٥٤٠) (في سیاق حجة النبي ﷺ الطویل) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ کی یہ خاموشی اور سکوت تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافہ کے جواز کی دلیل ہے، اگرچہ افضل وہی ہے جو آپ ﷺ سے مرفوعاً ثابت ہے اور جس پر آپ ﷺ نے مداومت کی ہے۔
تلبیہ کا بیان
سائب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ ١ ؎ اور ساتھ والوں کو الإهلال یا فرمایا التلبية میں آواز بلند کرنے کا حکم دوں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٥ (٨٢٩) ، سنن النسائی/الحج ٥٥ (٢٧٥٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٦ (٢٩٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ٣٧٨٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ١٠ (٣٤) ، مسند احمد (٤/٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/المناسک ١٤ (١٨٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے پتہ چلا کہ مردوں کے لئے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے، أصحابي کی قید سے اس حکم سے عورتیں خارج ہوگئی ہیں ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ بلند آواز سے تلبیہ نہ پکاریں۔ ٢ ؎ : اہلال اور تلبیہ دونوں ایک ہی معنی میں ہے، راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے اہلال کہا یا تلبیہ، مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے آپ ﷺ نے کوئی ایک ہی لفظ کہا۔
تلبیہ پڑھنا کب بند کرے
فضل بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تلبیہ پکارا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٢ (١٥٤٣) ، ٩٣(١٦٧٠) ، ١٠١(١٦٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٠) ، سنن الترمذی/الحج ٧٨ (٩١٨) ، سنن النسائی/الحج ٢١٦ (٣٠٥٧) ، ٢٢٨ (٣٠٨١) ، ٢٢٩ (٣٠٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٠٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٩ (٣٠٤٠) ، مسند احمد (١/٢١٠، ٢١١، ٢١٢، ٢١٣، ٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠(١٩٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حتى رمى جمرة العقبة سے احمد اور اسحاق نے استدلال کیا ہے کہ تلبیہ کہنا جمرہ عقبہ کی رمی پوری کرلینے کے بعد موقوف کیا جائے گا، لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة کے الفاظ آئے ہیں جس سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کی پہلی کنکری کے ساتھ ہی تلبیہ بند کردیا جائے گا۔
تلبیہ پڑھنا کب بند کرے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم صبح کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کی طرف نکلے ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے اور کچھ الله أكبر کہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٦ (١٢٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ٧٢٧١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الحج ١٩١ (٣٠٠١) ، مسند احمد (٢/٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٨ (١٩١٨) (صحیح )
عمرہ کرنے والا تلبیہ پڑھنا کب موقوف کرے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عمرہ کرنے والا حجر اسود کا استلام کرنے تک لبیک پکارے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے عبدالملک بن ابی سلیمان اور ہمام نے عطاء سے، عطاء نے ابن عباس (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٧٩ (٩١٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩١٢) موقوفًا، و (٥٩٥٨) (ضعیف) (اس کے راوی ” محمد بن أبی لیلی “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث سندا ضعیف ہے، مگر بہت سارے علماء کا یہی قول ہے، بعض لوگ کہتے ہیں : مکہ کے مکانات پر نظر پڑتے ہی تلبیہ بند کر دے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی تلبیہ بند کر دے، اور یہ دعا پڑھے : اللهم أنت السلام ومنک السلام الخ۔
حالت احرام میں خادم کو تادیباً مارنا جائز ہے
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کو نکلے، جب ہم مقام عرج میں پہنچے تو رسول اللہ ﷺ اترے، ہم بھی اترے، ام المؤمنین عائشہ (رض) رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں، اور میں اپنے والد کے پہلو میں بیٹھی۔ اس سفر میں ابوبکر (رض) اور رسول اللہ ﷺ دونوں کے سامان اٹھانے کا اونٹ ایک ہی تھا جو ابوبکر (رض) کے غلام کے پاس تھا، ابوبکر (رض) اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ غلام آئے جب وہ آیا تو اس کے ساتھ اونٹ نہ تھا، انہوں نے پوچھا : تیرا اونٹ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا کل رات وہ گم ہوگیا، ابوبکر (رض) بولے : ایک ہی اونٹ تھا اور وہ بھی تو نے گم کردیا، پھر وہ اسے مارنے لگے اور رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے تھے اور فرما رہے تھے : دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے ؟ (ابن ابی رزمہ نے کہا) رسول اللہ ﷺ اس سے زیادہ کچھ نہیں فرما رہے تھے کہ دیکھو اس محرم کو کیا کر رہا ہے اور آپ مسکرا رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢١ (٢٩٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧١٥) (حسن )
احرام کے وقت سلے ہوئے کپڑے اتار دینے چاہئیں
یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، اس کے بدن پر خوشبو یا زردی کا نشان تھا اور وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے کس طرح عمرہ کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل کی، جب وحی اتر چکی تو آپ نے فرمایا : عمرے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے ؟ فرمایا : خلوق کا نشان، یا زردی کا نشان دھو ڈالو، جبہ اتار دو ، اور عمرے میں وہ سب کرو جو حج میں کرتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٧ (١٥٣٦) والعمرة ١٠(١٧٨٩) ، وجزاء الصید ١٩(١٨٤٧) ، والمغازي ٥٦ (٤٣٢٩) ، و فضائل القرآن ٢ (٤٩٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٨٠) ، سنن الترمذی/الحج ٢٠(٨٣٦) ، سنن النسائی/الحج ٢٩ (٢٦٦٩) ، ٤٤ (٢٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٢٢٤) (صحیح )
احرام کے وقت سلے ہوئے کپڑے اتار دینے چاہئیں
اس سند سے بھی یعلیٰ سے یہی قصہ مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ اس سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنا جبہ اتار دو ، چناچہ اس نے اپنے سر کی طرف سے اسے اتار دیا، اور پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، سنن الترمذی/الحج ٢٠ (٨٣٥) سنن النسائی/الکبری/ فضائل القرآن (٧٩٨١) ، (من ١٨٢٠ حتی ١٨٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٦، ١١٨٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٤) (صحیح) (حدیث میں واقع یہ لفظ من رأسه منکر ہے) (ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٦ ؍ ٨٤ )
احرام کے وقت سلے ہوئے کپڑے اتار دینے چاہئیں
اس سند سے بھی یعلیٰ بن منیہ ١ ؎ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں : فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينزعها نزعا ويغتسل مرتين أو ثلاثا یعنی رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے اتار دے اور غسل کرے دو بار یا تین بار آپ نے فرمایا پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٨١٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : منیہ یعلیٰ کی والدہ ہیں ان کے والد کا نام امیّہ ہے۔
احرام کے وقت سلے ہوئے کپڑے اتار دینے چاہئیں
یعلیٰ بن امیہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جعرانہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اس نے عمرہ کا احرام اور جبہ پہنے ہوئے تھا، اور اس کی داڑھی و سر کے بال زرد تھے، اور راوی نے یہی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٨١٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٦) (صحیح )
احرام کے کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ آپ نے فرمایا : نہ کرتا پہنے، نہ ٹوپی، نہ پائجامہ، نہ عمامہ (پگڑی) ، نہ کوئی ایسا کپڑا جس میں ورس ١ ؎ یا زعفران لگا ہو، اور نہ ہی موزے، سوائے اس شخص کے جسے جوتے میسر نہ ہوں، تو جسے جوتے میسر نہ ہوں وہ موزے ہی پہن لے، انہیں کاٹ ڈالے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٣ (١٣٤) ، والصلاة ٩ (٣٦٦) ، والحج ٢١ (١٥٤٢) ، وجزاء الصید ١٣ (١٨٣٨) ، ١٥(١٨٤٢) ، واللباس ٨ (٥٧٩٤) ، ١٣ (٥٨٠٣) ، ١٥ (٥٨٠٦) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، سنن النسائی/الحج ٢٨ (٢٦٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٧، ٨٣٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١٨ (٨٣٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٩ (٢٩٢٩) ، موطا امام مالک/الحج ٣(٨) ، ٤ (٩) ، مسند احمد (٢/٤، ٨، ٢٢، ٢٩، ٣٢، ٣٤، ٤١، ٥٤، ٥٦، ٥٩، ٦٣، ٦٥، ٧٧، ١١٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٩ (١٨٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ایک قسم کی خوشبو دار گھاس ہے جس سے کپڑے وغیرہ رنگے جاتے ہیں۔ ٢ ؎ : امام احمد کے نزدیک خف (چمڑے کا موزہ) کاٹنا ضروری نہیں ، دیگر ائمہ کے نزدیک کاٹنا ضروری ہے، دلیل ان کی یہی حدیث ہے، اور امام احمد کی دلیل ابن عباس (رض) کی وہ حدیث ہے جس میں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے، جب کہ وہ میدان عرفات کے موقع کی حدیث ہے، یعنی ابن عمر (رض) کی اس حدیث کی ناسخ ہے، اور ورس اور زعفران سے منع اس لئے کیا گیا کہ اس میں خوشبو ہوتی ہے، یہی حکم ہر اس رنگ کا ہے جس میں خوشبو ہو۔
احرام کے کپڑوں کا بیان
اس سند سے ابن عمر (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ١٨ (١٥٣٩) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، سنن النسائی/ الحج ٣٠ (٢٦٧٠) ، سنن ابن ماجہ/ المناسک ١٩ (٢٩٢٩) ، (٢٩٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٢٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٣ (٨) ، مسند احمد (٢/٦٣) ، دی/ المناسک ٩ (١٨٣٩) (صحیح )
احرام کے کپڑوں کا بیان
اس سند سے بھی ابن عمر (رض) سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے، راوی نے البتہ اتنا اضافہ کیا ہے کہ محرم عورت منہ پر نہ نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حاتم بن اسماعیل اور یحییٰ بن ایوب نے اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ سے، اور موسیٰ نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے لیث نے کہا ہے، اور اسے موسیٰ بن طارق نے موسیٰ بن عقبہ سے ابن عمر پر موقوفاً روایت کیا ہے، اور اسی طرح اسے عبیداللہ بن عمر اور مالک اور ایوب نے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، اور ابراہیم بن سعید المدینی نے نافع سے نافع نے ابن عمر (رض) سے اور ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابراہیم بن سعید المدینی ایک شیخ ہیں جن کا تعلق اہل مدینہ سے ہے ان سے زیادہ احادیث مروی نہیں، یعنی وہ قلیل الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصید ١٣ (١٨٣٨) ، سنن النسائی/الحج ٣٣ (٢٦٧٤) ، سنن الترمذی/الحج ١٨ (٨٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ٨٢٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : احرام کی حالت میں عورتوں کو اپنے چہرے پر ’ ’ نقاب “ لگانا منع ہے، مگر حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا، برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا ” نقاب “ چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرنے کے وقت چہرے پر لٹکا لیا کرتی تھیں (دیکھئے حدیث نمبر : ١٨٣٣) ، اس لئے اس نقاب کو بوقت ضرورت عورتیں چہرے پر لٹکا سکتی ہیں، اور چوں کہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی (غیر محرم) مردوں کا سامنا پڑتا ہے، اس لئے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
احرام کے کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : محرم عورت نہ تو منہ پر نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٤٧٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤١) (صحیح )
احرام کے کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے عورتوں کو حالت احرام میں دستانے پہننے، نقاب اوڑھنے، اور ایسے کپڑے پہننے سے جن میں ورس یا زعفران لگا ہو منع فرمایا، البتہ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہنے جیسے زرد رنگ والے کپڑے، یا ریشمی کپڑے، یا زیور، یا پائجامہ، یا قمیص، یا کرتا، یا موزہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو عبدہ بن سلیمان اور محمد بن سلمہ نے ابن اسحاق سے ابن اسحاق نے نافع سے حدیث وما مس الورس والزعفران من الثياب تک روایت کیا ہے اور اس کے بعد کا ذکر ان دونوں نے نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٣ (١٨٣٨ تعلیقاً ) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١٨ (٨٣٣) ، مسند احمد (٢/٢٢، ٣٢، ١١٩) (حسن صحیح )
احرام کے کپڑوں کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے سردی محسوس کی تو انہوں نے کہا : نافع ! میرے اوپر کپڑا ڈال دو ، میں نے ان پر برنس ڈال دی، تو انہوں نے کہا : تم میرے اوپر یہ ڈال رہے ہو حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو اس کے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٥٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٤١، ١٤٨) (صحیح )
احرام کے کپڑوں کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : پاجامہ وہ پہنے جسے ازار نہ ملے اور موزے وہ پہنے جسے جوتے نہ مل سکیں ۔ (ابوداؤد کہتے ہیں یہ اہل مکہ کی حدیث ہے ١ ؎ اس کا مرجع بصرہ میں جابر بن زید ہیں ٢ ؎ اور جس چیز کے ساتھ وہ منفرد ہیں وہ سراویل کا ذکر ہے اور اس میں موزے کے سلسلہ میں کاٹنے کا ذکر نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٥ (١٨٤١) ، ١٦ (١٨٤٣) ، واللباس ١٤ (٥٨٠٤) ، ٣٧ (٣٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٨) ، سنن الترمذی/الحج ١٩ (٨٣٤) ، سنن النسائی/الحج ٣٢ (٢٦٧٢، ٢٦٧٣) ، ٣٧ (٢٦٨٠) ، والزینة ١٠٠ (٥٣٢٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٠ (٢٩٣١) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٨، ٢٧٩، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٩ (١٨٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ سلیمان بن حرب مکی ہیں اور مصنف نے انہیں سے روایت کی ہے۔ ٢ ؎ : کیونکہ اس سند کا محور جن پر یہ سند گھومتی ہے جابر بن زید ہیں اور وہ بصری ہیں۔
احرام کے کپڑوں کا بیان
عائشہ بنت طلحہ کا بیان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے ان سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف نکلتے تو ہم اپنی پیشانی پر خوشبو کا لیپ لگاتے تھے جب پسینہ آتا تو وہ خوشبو ہم میں سے کسی کے منہ پر بہہ کر آجاتی رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھتے لیکن منع نہ کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ خوشبو احرام سے پہلے کی ہوتی تھی اس لئے منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
احرام کے کپڑوں کا بیان
محمد بن اسحاق کہتے ہیں میں نے ابن شہاب سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا : مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) ایسا ہی کرتے تھے یعنی محرم عورت کے موزوں کو کاٹ دیتے ١ ؎، پھر ان سے صفیہ بنت ابی عبید نے بیان کیا کہ ان سے ام المؤمنین عائشہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں کے سلسلے میں عورتوں کو رخصت دی ہے تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٦٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩، ٣٥، ٦/٣٥) (حسن) (محمد بن اسحاق کی یہ روایت معنعن نہیں ہے بلکہ اسے انہوں نے زہری سے بالمشافہہ اخذ کیا ہے، اس لئے حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس باب کی پہلی روایت کے عموم سے ابن عمر (رض) نے یہ سمجھا تھا کہ یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے اسی لئے وہ محرم عورت کے موزوں کو کاٹ دیتے تھے، بعد میں جب انہوں نے عائشہ (رض) والی روایت سنی تو اپنے اس فتویٰ سے رجوع کرلیا۔
محرم ہتھیار رکھ سکتا ہے
براء (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو آپ نے ان سے اس شرط پر مصالحت کی کہ مسلمان مکہ میں جلبان السلاح کے ساتھ ہی داخل ہوں گے ١ ؎ تو میں نے ان سے پوچھا : جلبان السلاح کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : جلبان السلاح میان کا نام ہے اس چیز سمیت جو اس میں ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٧ (١٨٤٤) ، والصلح ٦ (٢٦٩٨) ، والجزیة ١٩ (٣١٨٤) ، والمغازي ٤٣ (٤٢٥١) ، صحیح مسلم/الجہاد ٣٤ (١٧٨٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٩، ٤/٢٨٩، ٢٩١) ، سنن الدارمی/السیر ٦٤ (٢٥٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان کی تلواریں میان کے اندر ہی رہیں گی۔
محرمہ عورت منہ ڈھک سکتی ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام باندھے ہوتے، جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٣ (٢٩٣٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٠) (حسن) (اس کے راوی یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں، لیکن اس باب میں اسماء کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الالبانی ٤٣٣ )
محرم کا سر پر سایہ کرنا جائز ہے
ام حصین (رض) کہتی ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کیا تو میں نے اسامہ اور بلال (رض) کو دیکھا کہ ان میں سے ایک نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے تھے، اور دوسرے اپنا کپڑا اٹھائے تھے تاکہ وہ آپ پر دھوپ سے سایہ کرسکیں ١ ؎ یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٨) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٠ (٣٠٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣١٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محرم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا سر کھولے رکھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سخت دھوپ میں چھتری یا خیمہ سے فائدہ نہ اٹھائے، گاڑیوں میں سفر نہ کرے، یہ چیزیں اس کے سر سے چپکی اور متصل نہیں رہتی ہیں۔
محرم پچھنے لگوا سکتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ حالت احرام میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الطب ١٢ (٥٦٩٥) ، ١٥(٥٧٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن الترمذی/الحج ٢٢ (٨٣٩) ، الصوم ٦١ (٧٧٥) ، سنن النسائی/الحج ٩٢ (٢٨٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٧ (٣٠٨١) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٢، ٢٣٦، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٦٠، ٢٨٣، ٢٨٦، ٢٩٢، ٣٠٦، ٣١٥، ٣٣٣، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٧٢، ٣٧٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠(١٨٦٠) (صحیح )
محرم پچھنے لگوا سکتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیماری کی وجہ سے جو آپ کو تھی اپنے سر میں پچھنا لگوایا اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ١٥ (٥٧٠٠) ، سنن النسائی/ الکبری/ الطب (٧٥٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٢٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٦، ٢٤٩، ٢٥٩، ٢٧٢) (صحیح )
محرم پچھنے لگوا سکتا ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ٤٩ (٣٤٨) ، سنن النسائی/الحج ٩٤ (٢٨٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٦٤، ٢٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اگر پچھنے (سینگی) لگانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ لازم ہوگا، اسی لئے بعض علماء نے سرے سے محرم کے لئے پچھنا لگوانے کو مکروہ جانا ہے، ورنہ حقیقت میں حالت احرام میں پچھنا لگوانا مکروہ نہیں ہے۔
محرم سرمہ لگا سکتا ہے
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر کی دونوں آنکھیں دکھنے لگیں تو انہوں نے ابان بن عثمان کے پاس (پوچھنے کے لیے اپنا آدمی) بھیجا کہ وہ اپنی آنکھوں کا کیا علاج کریں ؟ (سفیان کہتے ہیں : ابان ان دونوں حج کے امیر تھے) تو انہوں نے کہا : ان دونوں پر ایلوا کا لیپ لگا لو، کیونکہ میں نے عثمان سے سنا ہے وہ اسے رسول اللہ ﷺ سے نقل کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٢ (١٢٠٤) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٦ (٩٥٢) ، سنن النسائی/الحج ٤٥ (٢٧١٢) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٥٩، ٦٥، ٦٨، ٦٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٣ (١٩٧١) (صحیح )
محرم سرمہ لگا سکتا ہے
اس سند سے بھی نبیہ بن وہب سے یہی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٧٧) (صحیح )
محرم غسل کرسکتا ہے
عبداللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) اور مسور بن مخرمہ (رض) کے مابین مقام ابواء میں اختلاف ہوگیا، ابن عباس (رض) نے کہا : محرم سر دھو سکتا ہے، مسور نے کہا : محرم سر نہیں دھو سکتا، تو عبداللہ بن عباس (رض) نے انہیں (ابن حنین کو) ابوایوب انصاری (رض) کے پاس بھیجا تو آپ نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے کی آڑ لیے ہوئے نہاتے پایا، ابن حنین کہتے ہیں : میں نے سلام کیا تو انہوں نے پوچھا : کون ؟ میں نے کہا : میں عبداللہ بن حنین ہوں، مجھے آپ کے پاس عبداللہ بن عباس (رض) نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے معلوم کروں کہ رسول اللہ ﷺ حالت احرام میں اپنے سر کو کیسے دھوتے تھے ؟ ابوایوب (رض) نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا اور اسے اس قدر جھکایا کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا، پھر ایک آدمی سے جو ان پر پانی ڈال رہا تھا، کہا : پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، پھر ایوب نے اپنے ہاتھوں سے سر کو ملا، اور دونوں ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور بولے ایسا ہی میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٤ (١٨٤٠) ، صحیح مسلم/الحج ١٣ (١٢٠٥) ، سنن النسائی/الحج ٢٧ (٢٦٦٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٢ (٢٩٣٤) ، موطا امام مالک/الحج ٢ (٤) ، ( تحفة الأشراف : ٣٤٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٦، ٤١٨، ٤٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ٦ (١٨٣٤) ، (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حالت احرام میں صرف پانی سے سر کا دھونا جائز ہے کسی بھی ایسی چیز سے اجتناب ضروری ہے جس سے جؤوں کے مرنے کا خوف ہو اسی طرح سر دھلتے وقت بالوں کو اتنا زور سے نہ ملے کہ وہ گرنے لگیں۔
کیا محرم نکاح کرسکتا ہے
نبیہ بن وہب جو بنی عبدالدار کے فرد ہیں سے روایت ہے کہ عمر بن عبیداللہ نے انہیں ابان بن عثمان بن عفان کے پاس بھیجا، ابان اس وقت امیر الحج تھے، وہ دونوں محرم تھے، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں طلحہ بن عمر کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے نکاح کر دوں، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس میں شریک رہو، ابان نے اس پر انکار کیا اور کہا کہ میں نے اپنے والد عثمان بن عفان (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤٠٩) ، سنن الترمذی/الحج ٢٣ (٨٤٠) ، سنن النسائی/الحج ٩١ (٢٨٤٥) ، والنکاح ٣٨ (٣٢٧٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٦) ، الحج ٢٢ (٢٩٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٧٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ الحج ٢٢ (٧٠) ، مسند احمد (١/٥٧، ٦٤، ٦٩، ٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٤) (صحیح )
کیا محرم نکاح کرسکتا ہے
اس سند سے بھی عثمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا پھر راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے ولا يخطب (نہ شادی کا پیغام دے) کے لفظ کا اضافہ کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٧٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : احرام کی حالت میں نہ تو محرم خود اپنا نکاح کرسکتا ہے نہ ہی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے، عثمان (رض) کی یہ حدیث اس سلسلے میں قانون کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں کسی اور بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، رہا ابن عباس (رض) کا یہ بیان (جو حدیث نمبر : ١٨٤٤ میں آرہا ہے) کہ آپ ﷺ نے میمونہ (رض) سے حالت احرام میں نکاح کیا تو یہ ان کا وہم ہے (دیکھئے نمبر : ١٨٤٥) ، خود ام المومنین میمونہ (رض) اور ان کا نکاح کرانے والے ابورافع (رض) کا بیان اس کے برعکس ہے کہ یہ نکاح مقام سرف میں حلال رہنے کی حالت میں ہوا، تو صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہوتا ہے، دراصل ابن عباس (رض) نے مکہ نہ جا کر صرف ہدی (منی میں ذبح کیا جانے والا جانور) بھیج دینے کو بھی احرام سمجھا، حالاں کہ یہ احرام نہیں ہوتا، اور یہ نکاح اس حالت میں ہو رہا تھا کہ آپ ﷺ نے اشعار کرکے ہدی بھیج دی اور گھر رہ گئے، اور بقول عائشہ (رض) آپ ﷺ نے اپنے اوپر احرام کی کوئی بات لاگو نہیں کی۔
کیا محرم نکاح کرسکتا ہے
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا، اور ہم اس وقت مقام سرف میں حلال تھے (یعنی احرام نہیں باندھے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤١١) ، سنن الترمذی/الحج ٢٤ (٨٤٥) ، سنن النسائی/ الکبری/ النکاح (٥٤٠٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٣٢، ٣٣٣، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/ المناسک ٢١ (١٨٦٥) (صحیح )
کیا محرم نکاح کرسکتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین میمونہ (رض) سے حالت احرام میں نکاح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٢ (١٨٣٧) ، والمغازي ٤٣ (٤٢٥٨) ، والنکاح ٣٠ (٥١١٤) ، سنن الترمذی/الحج ٢٤ (٨٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤١٠) ، سنن النسائی/الحج ٩٠ (٢٨٤٣، ٢٨٤٤) ، والنکاح ٣٧ (٣٢٧٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٥) ، مسند احمد (١/٢٢، ٢٤٥، ٣٥٤، ٣٦٠، ٣٨٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٣) (صحیح )
کیا محرم نکاح کرسکتا ہے
سعید بن مسیب کہتے ہیں ام المؤمنین میمونہ (رض) سے (نبی اکرم ﷺ کے) حالت احرام میں نکاح کے سلسلے میں ابن عباس (رض) کو وہم ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٩٩٠) (صحیح )
محرم کو کون کو نسے جانور مارنا درست ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ محرم کون کون سا جانور قتل کرسکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ہیں جنہیں حل اور حرم دونوں جگہوں میں مارنے میں کوئی حرج نہیں : بچھو، چوہیا، چیل، کوا اور کاٹ کھانے والا کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٩) ، سنن النسائی/الحج ٨٨ (٢٨٣٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩١ (٣٠٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٦٨٢٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٦) ، وبدء الخلق ١٦ (٣٣١٥) ، موطا امام مالک/الحج ٢٨(٨٨، ٨٩) ، مسند احمد (٢/٨، ٣٢، ٣٧، ٤٨، ٥٠، ٥٢، ٥٤، ٥٧، ٦٥، ٧٧) ، سنن الدارمی/ المناسک ١٩ (١٨٥٧) (صحیح )
محرم کو کون کو نسے جانور مارنا درست ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی مارنا حلال ہے : سانپ، بچھو، کوا، چیل، چوہیا، اور کاٹ کھانے والا کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٨٦٦) (حسن صحیح )
محرم کو کون کو نسے جانور مارنا درست ہے؟
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : محرم کون کون سا جانور مار سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : سانپ، بچھو، چوہیا کو (مار سکتا ہے) اور کوے کو بھگا دے، اسے مارے نہیں، اور کاٹ کھانے والے کتے، چیل اور حملہ کرنے والے درندے کو (مار سکتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٢١ (٨٣٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩١ (٣٠٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٤١٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٤، ٣/٣، ٣٢، ٧٩) (ضعیف) وقولہ : ” یرمي الغراب ولا یقتلہ “ منکر (یزید ضعیف ہیں )
محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں
عبداللہ بن حارث سے روایت ہے (حارث طائف میں عثمان (رض) کے خلیفہ تھے) وہ کہتے ہیں حارث نے عثمان (رض) کے لیے کھانا تیار کیا، اس میں چکور ١ ؎، نر چکور اور نیل گائے کا گوشت تھا، وہ کہتے ہیں : انہوں نے علی (رض) کو بلا بھیجا چناچہ قاصد ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹوں کے لیے چارہ تیار کر رہے ہیں، اور اپنے ہاتھ سے چارا جھاڑ رہے تھے جب وہ آئے تو لوگوں نے ان سے کہا : کھاؤ، تو وہ کہنے لگے : لوگوں کو کھلاؤ جو حلال ہوں (احرام نہ باندھے ہوں) میں تو محرم ہوں تو انہوں نے کہا : میں قبیلہ اشجع کے ان لوگوں سے جو اس وقت یہاں موجود ہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے نیل گائے کا پاؤں ہدیہ بھیجا تو آپ نے کھانے سے انکار کیا کیونکہ آپ حالت احرام میں تھے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٠١٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٠٠، ١٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تیتر کے قسم کا ایک پہاڑی خوبصورت و خوش آواز پرندہ ہے، یہ چاندنی رات میں خوب چہچہاتا ہے اس لئے اسے چاند کا عاشق کہتے ہیں۔ ٢ ؎ : محرم کے لئے خشکی کا شکار کرنا یا کھانا دونوں ممنوع ہے، اسی طرح اگر کسی غیر محرم آدمی نے خشکی کا شکار خاص کر محرم کے لئے کیا ہو تو بھی محرم کو اس کا کھانا ممنوع ہے، البتہ اگر حلال آدمی نے شکار اپنے لئے کیا ہو اور کسی محرم نے اس میں اشارہ کنایہ تک سے بھی تعاون نہیں کیا ہو ، پھر اس میں سے کسی محرم کو ہدیہ پیش کیا ہو تو ایسے شکار کا کھانا جائز ہے، اس باب میں جتنی بھی روایات آئی ہیں ان سب کا یہی خلاصہ ہے، اور اس لحاظ سے ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے زید بن ارقم (رض) سے کہا : زید بن ارقم ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شکار کا دست ہدیہ دیا گیا تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا، اور فرمایا : ہم احرام باندھے ہوئے ہیں ؟ ، انہوں نے جواب دیا : ہاں (معلوم ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٧٩ (٢٨٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٦٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٥) ، مسند احمد (٤/٣٦٧، ٣٦٩، ٣٧١) (صحیح )
محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : خشکی کا شکار تمہارے لیے اس وقت حلال ہے جب تم خود اس کا شکار نہ کرو اور نہ تمہارے لیے اس کا شکار کیا جائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : جب دو روایتیں متعارض ہوں تو دیکھا جائے گا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کس کے موافق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٢٥ (٨٤٦) ، سنن النسائی/الحج ٨١ (٢٨٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٣٠٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٦٢، ٣٨٧، ٣٨٩) (ضعیف) (عمرو بن أبی عمرو اور مطلب میں کلام ہے لیکن اگلی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے )
محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، مکہ کا راستہ طے کرنے کے بعد اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے وہ پیچھے رہ گئے، انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، پھر اچانک انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا، انہوں نے انکار کیا، پھر ان سے برچھا مانگا تو انہوں نے پھر انکار کیا، پھر انہوں نے نیزہ خود لیا اور نیل گائے پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا تو رسول اللہ ﷺ کے بعض ساتھیوں نے اس میں سے کھایا اور بعض نے انکار کیا، جب وہ رسول اللہ ﷺ سے جا کر ملے تو آپ سے اس بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہیں کھلایا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢ (١٨٢١) ، ٥ (١٨٢٤) ، والھبة ٣ (٢٥٧٠) ، والجہاد ٤٦ (٢٨٥٤) ، ٨٨ (٢٩١٤) ، والأطعمة ١٩ (٥٤٠٧) ، والذبائح ١٠ (٥٤٩٠) ، ١١ (٥٤٩١) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٦) ، سنن الترمذی/الحج ٢٥ (٨٤٧) ، سنن النسائی/الحج ٧٨ (٢٨١٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٩٣ (٣٠٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٣١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٢٤(٧٦) ، مسند احمد (٥/٣٠٠، ٣٠٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٦٧) (صحیح )
محرم کے لئے ٹڈی مارنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹڈیاں سمندر کے شکار میں سے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٤٦٧٥، ١٩٢٣٨) (ضعیف) (اس کے راوی میمون لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی جس طرح سمندر کا شکار محرم کے لئے جائز ہے اسی طرح ٹڈی کا شکار بھی جائز ہے (مگر یہ حدیث ضعیف ہے) ۔
محرم کے لئے ٹڈی مارنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں ٹڈیوں کا ایک جھنڈ ملا، ہم میں سے ایک شخص انہیں اپنے کوڑے سے مار رہا تھا، اور وہ احرام باندھے ہوئے تھا تو اس سے کہا گیا کہ یہ درست نہیں، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ تو سمندر کے شکار میں سے ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابومہزم ضعیف ہیں اور دونوں روایتیں راوی کا وہم ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٢٧ (٨٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٩ (٣٢٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٨٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٦، ٣٦٤، ٣٧٤، ٤٠٧) (ضعیف جدا) (اس کے راوی ابو المہزم ضعیف ہیں )
محرم کے لئے ٹڈی مارنا
کعب (رض) کہتے ہیں ٹڈیاں سمندر کے شکار میں سے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٤٦٧٥، ١٩٢٣٨) (ضعیف) (اس کے راوی میمون ضعیف ہیں )
فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے ؟ کہا : ہاں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سر منڈوا دو ، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٥ (١٨١٤) ، ٦ (١٨١٥) ، ٧ (١٨١٦) ، ٨ (١٨١٧) ، والمغازي ٣٥ (٤١٥٩) ، و تفسیر البقرة ٣٢ (٤٥١٧) ، والمرضی ١٦ (٥٦٦٥) ، والطب ١٦ (٥٧٠٣) ، وکفارات الأیمان ١ (٦٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٠ (١٢٠١) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٧(٩٥٣) ، سنن النسائی/الحج ٩٦ (٢٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٦ (٣٠٧٩) ، موطا امام مالک/الحج ٧٨ (٢٣٧) ، مسند احمد (٤/ ٢٤٢، ٢٤٣، ٢٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث آیت کریمہ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ (سورۃ بقرۃ : ١٩٦) کی تفسیر ہے۔
فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا : اگر تم چاہو تو ایک بکری ذبح کر دو اور اگر چاہو تو تین دن کے روزے رکھو، اور اگر چاہو تو تین صاع کھجور چھ مسکینوں کو کھلا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١١١١٤) (صحیح )
فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے، پھر انہوں نے یہی قصہ بیان کیا، آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تمہارے ساتھ دم دینے کا جانور ہے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تو تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ، اس طرح کہ ہر دو مسکین کو ایک صاع مل جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١١١١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٤١، ٢٤٣) (صحیح )
فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے (اور انہیں سر میں (جوؤوں کی وجہ سے) تکلیف پہنچی تھی تو انہوں نے سر منڈوا دیا تھا) ، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٥٦، ( تحفة الأشراف : ١١١١٤) (ضعیف) (وقولہ : ” بقرة “ منکر) (اس کا ایک راوی مجہول ہے )
فدیہ کا بیان
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال میرے سر میں جوئیں پڑگئیں، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا یہاں تک کہ مجھے اپنی بینائی جانے کا خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے سلسلے میں فمن کان منکم مريضا أو به أذى من رأسه کی آیت نازل فرمائی، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا : تم اپنا سر منڈوا لو اور تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فرق ١ ؎ منقٰی کھلاؤ، یا پھر ایک بکری ذبح کرو چناچہ میں نے اپنا سر منڈوایا پھر ایک بکری کی قربانی دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٥٦، ( تحفة الأشراف : ١١١١٤) (حسن) (لیکن منقی کا ذکر منکر ہے صحیح روایت کھجور کی ہے ) وضاحت : ١ ؎ : ” فرق “: ایک پیمانہ ہے جس میں چار صاع کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس سند سے بھی کعب بن عجرہ (رض) سے یہی قصہ مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے أى ذلک فعلت أجزأ عنك اس میں سے تو جو بھی کرلو گے تمہارے لیے کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٥٦، ( تحفة الأشراف : ١١١١٤) (صحیح )
None
البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے «أى ذلك فعلت أجزأ عنك» اس میں سے تو جو بھی کر لو گے تمہارے لیے کافی ہے ۔
حج سے رک جانے کا بیان
حجاج بن عمرو انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے، یا لنگڑا ہوجائے تو وہ حلال ہوگیا، اب اس پر اگلے سال حج ہوگا ١ ؎۔ عکرمہ کہتے ہیں : میں نے ابن عباس (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے کہا : انہوں نے سچ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٩٦ (٩٤٠) ، سنن النسائی/الحج ١٠٢(٢٨٦٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٥ (٣٠٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٩٤، ٦٢٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٧ (١٩٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگر اچانک کوئی مرض لاحق ہوجائے تو وہ وہیں پر حلال ہوجائے گا، لیکن آئندہ سال اس کو حج کرنا ہوگا، اگر یہ حج فرض حج ہو تو۔
حج سے رک جانے کا بیان
حجاج بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہوجائے یا بیمار ہوجائے ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، سلمہ بن شبیب نے عن معمر کے بجائے أنبأنا معمر کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٩٤، ٦٢٤١) (صحیح )
حج سے رک جانے کا بیان
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے ابوحاضر حمیری سے سنا وہ میرے والد میمون بن مہران سے بیان کر رہے تھے کہ جس سال اہل شام مکہ میں عبداللہ بن زبیر (رض) کا محاصرہ کئے ہوئے تھے میں عمرہ کے ارادے سے نکلا اور میری قوم کے کئی لوگوں نے میرے ساتھ ہدی کے جانور بھی بھیجے، جب ہم اہل شام (مکہ کے محاصرین) کے قریب پہنچے تو انہوں نے ہمیں حرم میں داخل ہونے سے روک دیا، چناچہ میں نے اسی جگہ اپنی ہدی نحر کردی اور احرام کھول دیا اور لوٹ آیا، جب دوسرا سال ہوا تو میں اپنا عمرہ قضاء کرنے کے لیے نکلا، چناچہ میں ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ قضاء کے عمرہ میں حدیبیہ کے سال جس ہدی کی نحر کرلی تھی اس کا بدل دو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا تھا کہ وہ عمرہ قضاء میں اس ہدی کا بدل دیں جو انہوں نے حدیبیہ کے سال نحر کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٨٧٣) (ضعیف) (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے )
مکہ میں داخلہ کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) جب مکہ آتے تو ذی طویٰ میں رات گزارتے یہاں تک کہ صبح کرتے اور غسل فرماتے، پھر دن میں مکہ میں داخل ہوتے اور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں بتاتے کہ آپ نے ایسے ہی کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٩ (٤٨٤) ، والحج ٣٨ (١٥٧٣) ، ٣٩ (١٥٧٤) ، ١٤٨(١٧٦٧) ، ١٤٩(١٧٦٩) ، صحیح مسلم/الحج ٣٨ (١٢٥٩) ، سنن النسائی/الحج ١٠٣ (٢٨٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٧٥١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٣١ (٨٥٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٦ (٢٩٤٠) ، موطا امام مالک/الحج ٢(٦) ، مسند احمد (٢/ ٨٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٠ (١٩٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ مکہ میں دن میں داخل ہو، مگر یہ قدرت اور امکان پر منحصر ہے۔
مکہ میں داخلہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں ثنیہ علیا (بلند گھاٹی) سے داخل ہوتے، (یحییٰ کی روایت میں اس طرح ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں ثنیہ بطحاء کی جانب سے مقام کداء سے داخل ہوتے) اور ثنیہ سفلی (نشیبی گھاٹی) سے نکلتے۔ برمکی کی روایت میں اتنا زائد ہے یہ مکہ کی دو گھاٹیاں ہیں اور مسدد کی حدیث زیادہ کامل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٠ (١٥٧٦) ، ٤١ (١٥٧٧) ، صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٧) ، سنن النسائی/الحج ١٠٥ (٢٨٦٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨٦٩، ٨١٤٠، ٨٣٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٣٠ (٨٥٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٦ (٢٩٤٠) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨١ (١٩٦٩) (صحیح )
مکہ میں داخلہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ شجرہ (جو ذی الحلیفہ میں تھا) کے راستے سے (مدینہ سے) نکلتے تھے اور معرس (مدینہ سے چھ میل پر ایک موضع ہے) کے راستہ سے (مدینہ میں) داخل ہوتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٨٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٧) ، مسند احمد (٢/٢٩-٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ جب مکہ میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کی بات آئی تو مدینہ سے نکلنے اور داخل ہونے کی بابت بھی ایک حدیث باب میں ذکر کردیا، اور اس سے یہ بھی مستنبط کرنا ہے کہ مدینہ ہی نہیں کسی بھی بستی میں داخل ہونے یا اس سے نکلنے کے راستے میں فرق کرنا چاہیے، جیسا کہ اس حدیث پر امام نووی نے صحیح مسلم میں باب باندھا ہے۔
مکہ میں داخلہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ کے بلند مقام کداء ١ ؎ کی جانب سے داخل ہوئے اور عمرہ کے وقت کدی ٢ ؎ کی جانب سے داخل ہوئے اور عروہ دونوں ہی جانب سے داخل ہوتے تھے، البتہ اکثر کدی کی جانب سے داخل ہوتے اس لیے کہ یہ ان کے گھر سے قریب تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤١ (١٥٧٨) ، والمغازي ٤٩ (٤٢٩٠) ، صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٣٠ (٨٥٣) ، مسند احمد (٦/٥٨، ٢٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” کداء “ : مکہ مکرمہ کا وہ جانب جو مقبرۃ المعلی کی طرف ہے اور بلند ہے۔ ٢ ؎ : ” كدى“ : وہ جانب ہے جو باب العمرہ کی طرف نشیب میں ہے۔
مکہ میں داخلہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوتے تو اس کی بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور اس کے نشیب سے نکلتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤١ (١٥٧٧) ، صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٨) ، ن الکبری/ الحج ٢٩ (٤٢٤١) ، سنن الترمذی/الحج ٣٠ (٨٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٠) (صحیح )
خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانا
مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھاتا ہو تو انہوں نے کہا : میں سوائے یہود کے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھتا تھا، اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا، لیکن آپ ایسا نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٣٢ (٨٥٥) ، سنن النسائی/الحج ١٢٢ (٢٨٩٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٥ (١٩٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٣١١٦) (ضعیف) (اس کے راوی مہاجر بن عکرمہ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : صحیح احادیث اور آثار سے بیت اللہ پر نظر پڑتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں (یعنی فتح مکہ کے روز) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٣٥٦٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجہاد ٣١ (١٧٨٠) ، مسند احمد (٢/٥٣٨) (صحیح )
خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آئے اور مکہ میں داخل ہوئے تو پہلے رسول اللہ ﷺ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لیا، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر صفا کی طرف آئے اور اس پر چڑھے جہاں سے بیت اللہ کو دیکھ رہے تھے، پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگے اور اس کا ذکر کرتے رہے اور اس سے دعا کرتے رہے جتنی دیر تک اللہ نے چاہا، راوی کہتے ہیں : اور انصار آپ کے نیچے تھے، ہاشم کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ نے دعا کی اور اللہ کی حمد بیان کی اور جو دعا کرنا چاہتے تھے کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٨٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٥٦٢) (صحیح) (حدیث میں واقع جملہ والأنصار تحته پر کلام ہے )
حجر اسود کو بوسہ دینے کا بیان
عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چوما، اور کہا : میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٠ (١٥٩٧) ، ٥٧ (١٦٠٥) ، ٦٠ (١٦١٠) ، صحیح مسلم/الحج ٤١ (١٢٧٠) ، سنن الترمذی/الحج ٣٧ (٨٦٠) ، سنن النسائی/الحج ١٤٧ (٢٩٤٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٧ (٢٩٤٣) ، موطا امام مالک/الحج ٣٦ (١١٥) ، مسند احمد (١/٢١، ٢٦، ٣٤، ٣٥، ٣٩، ٤٦، ٥١، ٥٣، ٥٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٢ ( ١٩٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حجر اسود کے سلسلے میں طواف کرنے والے شخص کو اختیار ہے کہ تین باتوں چومنا، چھونا ہاتھ یا چھڑی سے، ( اشارہ کرنا) میں سے جو ممکن ہو کرلے ہر ایک کافی ہے۔
ارکان کو مس کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کے کسی رکن کو چھوتے نہیں دیکھا سوائے حجر اسود اور رکن یمانی کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٧ (١٦٠٦) ، ٥٩ (١٦١١) ، صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٢٦٨) ، سنن النسائی/الحج ١٥٧ (٢٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠٦، ٦٩٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٧ (٢٩٤٦) ، مسند احمد (٢/٨٦، ٨٩، ١١٤، ١١٥، ١٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ کے عمل سے رکن یمانی کے سلسلے میں یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے تھے، اس کا چومنا یا اس کی طرف چھڑی یا ہاتھ سے اشارہ کرنا ثابت نہیں ہے۔
ارکان کو مس کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہیں ام المؤمنین عائشہ (رض) کا یہ قول معلوم ہوا کہ حطیم کا ایک حصہ بیت اللہ میں شامل ہے، تو ابن عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میرا گمان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) نے اسے ضرور رسول اللہ ﷺ سے سنا ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان (رکن عراقی اور رکن شامی) کا استلام بھی اسی لیے چھوڑا ہوگا کہ یہ بیت اللہ کی اصلی بنیادوں پر نہ تھے اور اسی وجہ سے لوگ حطیم ١ ؎ کے پیچھے سے طواف کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٩٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٥٩ (١٦٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٣٣٥) ، سنن النسائی/الحج ١٥٦ (٢٩٥١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٧ (٢٩٤٦) ، مسند احمد (٢/٨٦، ١١٤، ١١٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٥ (١٨٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چونکہ حطیم (کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے) بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، اس لئے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیے، اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے تو طواف درست نہ ہوگا۔
ارکان کو مس کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کسی بھی چکر میں ترک نہیں کرتے تھے، راوی کہتے ہیں اور عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الحج ١٥٦ (٢٩٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٧٦١) (حسن )
طواف واجب کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٨ (١٦٠٧) ، ٦١ (١٦١٢) ، ٦٢ (١٦١٣) ، ٧٤ (١٦٣٢) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٢) ، سنن النسائی/المساجد ٢١ (٧١٤) ، الحج ١٥٩ (٢٩٥٧) ، ١٦٠ (٢٩٥٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٨ (٢٩٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٤٠ (٨٦٥) ، مسند احمد (/٢١٤، ٢٣٧، ٢٤٨، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٠ (١٨٨٧) (صحیح )
طواف واجب کا بیان
صفیہ بنت شیبہ (رض) کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کو جب مکہ میں اطمینان ہوا تو آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ ﷺ اپنے ہاتھ کی چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے، اور میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٨ (٢٩٤٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٠٩) (حسن) سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے ملاحظہ ہو صحیح أبی داود (١٦٤١ )
طواف واجب کا بیان
ابوطفیل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی سواری پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا، آپ حجر اسود کا استلام اپنی چھڑی سے کرتے پھر اسے چوم لیتے، (محمد بن رافع کی روایت میں اتنا زیادہ ہے) پھر آپ ﷺ صفا ومروہ کی طرف نکلے اور اپنی سواری پر بیٹھ کر سعی کے سات چکر لگائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٨(٢٩٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٥١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٥٤) (صحیح )
طواف واجب کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی سواری پر بیٹھ ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کی سعی کی، تاکہ آپ ﷺ بلندی پر ہوں، اور لوگ آپ کو دیکھ سکیں، اور آپ سے پوچھ سکیں، کیونکہ لوگوں نے آپ کو گھیر رکھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٣) ، سنن النسائی/الحج ١٧٣ (٢٩٧٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٧، ٣٣٤) (صحیح )
طواف واجب کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ آئے آپ کو کچھ تکلیف تھی چناچہ آپ نے اپنی سواری پر بیٹھ کر طواف کیا ١ ؎، جب آپ ﷺ حجر اسود کے پاس آتے تو چھڑی سے اس کا استلام کرتے، جب آپ طواف سے فارغ ہوگئے تو اونٹ کو بٹھا دیا اور (طواف کی) دو رکعتیں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٢٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٤، ٣٠٤) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کی بخاری نے (حج ٧٤ میں) خالدالحذاء کے طریق سے روایت کی ہے مگر اس میں وهو يشتكي (تکلیف تھی) کا لفظ نہیں ہے، خالد ثقہ ہیں جب کہ یزید ضعیف ہیں، اسی لئے امام بخاری نے ان کی روایت نہیں لی ہے، مگر تبویب سے اشارہ اسی طرف کیا ہے، بہرحال سواری پر طواف کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں بلاسبب افضل نہیں ہے، خصوصا مسجد اور مطاف بن جانے کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا، نیز دیکھئے حاشیہ حدیث نمبر (١٨٨٢) ۔
طواف واجب کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے طواف کرلو ١ ؎، تو میں نے طواف کیا اور آپ خانہ کعبہ کے پہلو میں اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اور الطور * وکتاب مسطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٨ (٤٦٤) ، الحج ٦٤ (١٦١٩) ، ٧١ (١٦٢٦) ، ٧٤ (١٦٣٣) ، تفسیر سورة الطور ١ (٤٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٦) ، سنن النسائی/الحج ١٣٨ (٢٩٢٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٤ (٢٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤٠ (١٢٣) ، مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیماری اور کمزوری کی حالت میں سوار ہو کر طواف کرنا درست ہے، اور آج کل سواری پر طواف چوں کہ ناممکن ہے اس لئے اس کی جگہ پر مخصوص لوگ حجاج کو چارپائی پر بٹھا کر طواف کراتے ہیں۔
طواف میں اضطباع کا بیان
یعلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہری چادر میں اضطباع کر کے طواف کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٣٦ (٨٥٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٠ (٢٩٥٤) ، ( تحفة الأشراف : ١١٨٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٢٢، ٢٢٣، ٢٢٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٨ (١٨٨٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اضطباع کی شکل یہ ہے کہ محرم چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے پر ڈال دے اور دایاں کندھا ننگا رکھے، اور یہ صرف پہلے طواف میں ہے۔
رمل کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھا تو بیت اللہ کے طواف میں رمل ١ ؎ کیا اور اپنی چادروں کو اپنی بغلوں کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کندھوں پر ڈالا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٥٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٩٥، ٣٠٦، ٣٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اکڑ کر مونڈھے ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لئے چلتا ہے، اور یہ صرف پہلے تین چکروں میں ہے۔
رمل کا بیان
ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کہا : آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور یہ سنت ہے، انہوں نے کہا : لوگوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا : لوگوں نے کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ اور غلط ؟ فرمایا : انہوں نے یہ سچ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمل کیا لیکن یہ جھوٹ اور غلط کہا کہ رمل سنت ہے (واقعہ یہ ہے) کہ قریش نے حدیبیہ کے موقع پر کہا کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑ دو وہ اونٹ کی موت خود ہی مرجائیں گے، پھر جب ان لوگوں نے آپ ﷺ سے اس شرط پر مصالحت کرلی کہ آپ آئندہ سال آ کر حج کریں اور مکہ میں تین دن قیام کریں تو رسول اللہ ﷺ آئے اور مشرکین بھی قعیقعان کی طرف سے آئے، آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : تین پھیروں میں رمل کرو ، اور یہ سنت نہیں ہے ١ ؎، میں نے کہا : آپ کی قوم سمجھتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی اور یہ سنت ہے، وہ بولے : انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ اور غلط بھی، میں نے دریافت کیا : کیا سچ کہا اور کیا جھوٹ ؟ وہ بولے : یہ سچ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان اپنے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی لیکن یہ جھوٹ اور غلط ہے کہ یہ سنت ہے، دراصل لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نہ جا رہے تھے اور نہ سرک رہے تھے، تو آپ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی تاکہ لوگ آپ کی بات سنیں اور لوگ آپ کو دیکھیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٩ (٢٩٥٣) ، مسند احمد (١/ ٢٢٩، ٢٣٣، ٢٩٧، ٢٩٨، ٣٦٩، ٣٧٢، ٣٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مراد ایسی سنت نہیں ہے جسے آپ ﷺ نے تقرب کے لئے بطور عبادت کی ہو، بلکہ مسلمانوں کو یہ حکم آپ ﷺ نے اس لئے دیا تھا تاکہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقتور اور توانا ہونے کا مظاہرہ کرسکیں، کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کر رکھا ہے، لیکن بہرحال اب یہ طواف کی سنتوں میں سے ہے جس کے ترک پر دم نہیں۔
رمل کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ آئے اور لوگوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور کردیا تھا، تو مشرکین نے کہا : تمہارے پاس وہ لوگ آ رہے ہیں جنہیں بخار نے ضعیف بنادیا ہے، اور انہیں بڑی تباہی اٹھانی پڑی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو ان کی اس گفتگو سے مطلع کردیا، تو آپ نے حکم دیا کہ لوگ (طواف کعبہ کے) پہلے تین پھیروں میں رمل کریں اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں، تو جب مشرکین نے انہیں رمل کرتے دیکھا تو کہنے لگے : یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق تم لوگوں نے یہ کہا تھا کہ انہیں بخار نے کمزور کردیا ہے، یہ لوگ تو ہم لوگوں سے زیادہ تندرست ہیں۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : آپ ﷺ نے انہیں تمام پھیروں میں رمل نہ کرنے کا حکم صرف ان پر نرمی اور شفقت کی وجہ سے دیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/الحج ٥٥ (١٦٠٢) ، والمغازي ٤٤ (٤٢٥٦) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٦) ، سنن النسائی/الکبری/ الحج (٣٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٣) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٥٥، ٣٠٦، ٣١٠، ٣١١، ٣٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ فی الواقع یہ لوگ کمزور اور دبلے پتلے تھے۔
رمل کا بیان
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے سنا : اب رمل اور مونڈھے کھولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اب تو اللہ نے اسلام کو مضبوط کردیا ہے اور کفر اور اہل کفر کا خاتمہ کردیا ہے، اس کے باوجود ہم ان باتوں کو نہیں چھوڑیں گے جو رسول اللہ ﷺ کے وقت میں کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٩(٢٩٥٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٩١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ شرع کی جس بات کی علت و حکمت سمجھ میں نہ آئے اس کو علی حالہ چھوڑ دینا چاہیے، کیونکہ ایسی صورت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ یہ اللہ کے رسول کی اتباع ہے۔
رمل کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیت اللہ کا طواف کرنا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا اور کنکریاں مارنا، یہ سب اللہ کی یاد قائم کرنے کے لیے مقرر کئے گئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٤ (٩٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٣٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٤، ٧٥، ١٣٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٦ (١٨٩٥) (ضعیف) (اس کے راوی عبیداللہ ضعیف ہیں )
رمل کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اضطباع کیا، پھر استلام کیا، اور تکبیر بلند کی، پھر تین پھیروں میں رمل کیا، جب لوگ (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) رکن یمانی پر پہنچتے اور قریش کی نظروں سے غائب ہوجاتے تو عام چال چلتے پھر جب ان کے سامنے آتے تو رمل کرتے، قریش کہتے تھے : گویا یہ ہرن ہیں، ابن عباس (رض) کہتے ہیں : تو یہ فعل سنت ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٧٧٧، ٥٧٧٩) (صحیح )
رمل کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھا تو بیت اللہ کے تین پھیروں میں رمل کیا اور چار میں عام چال چلی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الحج ٢٩ (٢٩٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٧، ٢٩٥، ٣٠٥، ٣٠٦، ٣١٤) (صحیح )
رمل کا بیان
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا، اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٧٩٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٦٣ (١٦١٦) ، سنن النسائی/الحج ١٥٠ (٢٩٤٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٣ (٨٥٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٩ (٢٩٥٠) ، موطا امام مالک/الحج ٣٤(١٠٨) ، مسند احمد (٢/١٠٠، ١١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٧ (١٨٨٢) (صحیح )
طواف میں دعاء کرنا
عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں رکن (یعنی رکن یمانی اور حجر اسود) کے درمیان ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار (سورۃ البقرہ : ٩٦) کہتے سنا، اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٣١٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٣٩٣٤) ، مسند احمد (٣/٤١١) (حسن )
طواف میں دعاء کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آتے ہی سب سے پہلے جب حج و عمرہ کا طواف کرتے تو آپ تین پھیروں میں دوڑ کر چلتے اور باقی چار میں معمولی چال چلتے، پھر دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ٦٣ (١٦١٦) ، صحیح مسلم/ الحج ٣٩ (١٢٦١) ، سنن النسائی/ الحج ١٥١ (٢٩٤٤) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١١٤) (صحیح )
نماز عصر کے بعد طواف کرنے کا بیان
جبیر بن مطعم (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس گھر (کعبہ) کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے کسی کو مت روکو، رات اور دن کے جس حصہ میں بھی وہ کرنا چاہے کرنے دو ۔ فضل کی روایت کے میں ہے : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا بني عبد مناف لا تمنعوا أحدا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے بنی عبد مناف ! کسی کو مت روکو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٤٢ (٨٦٨) ، سنن النسائی/المواقیت ٤١ (٥٨٦) ، والحج ١٣٧ (٢٩٢٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٩ (١٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٨٠، ٨١، ٨٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٩ (١٩٦٧) (صحیح )
قران کرنے والے کا طواف
ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے (جنہوں نے قران کیا تھا) صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک ہی سعی کی اپنے پہلے طواف کے وقت۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٣) ، سنن النسائی/الحج ١٨٢ (٢٩٨٩) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١٠٢ (٩٤٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٩ (٢٩٧٢) ، مسند احمد (٣/٣١٧) (صحیح )
قران کرنے والے کا طواف
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے جو آپ کے ساتھ تھے، اس وقت تک طواف نہیں کیا جب تک کہ ان لوگوں نے رمی جمار نہیں کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ( تحفة الأشراف : ١٦٦٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٧٢، ٤١٧٣) (صحیح) (یہ سابقہ حدیث نمبر : ١٧٨١ کا ایک ٹکڑا ہے)
قران کرنے والے کا طواف
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : بیت اللہ کا تمہارا طواف اور صفا ومروہ کی سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے ۔ شافعی کہتے ہیں : سفیان نے اس روایت کو کبھی عطاء سے اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے، اور کبھی عطاء سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عائشہ (رض) سے فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٨١) (صحیح )
ملتزم کا بیان
عبدالرحمٰن بن صفوان (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو میں نے کہا : میں اپنے کپڑے پہنوں گا (میرا گھر راستے میں تھا) پھر میں دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے ہیں، تو میں گیا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کعبۃ اللہ کے اندر سے نکل چکے ہیں اور سب لوگ بیت اللہ کے دروازے سے لے کر حطیم تک کعبہ سے چمٹے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ سے لگا دئیے ہیں اور رسول اللہ ﷺ ان سب کے بیچ میں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٧٠٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٣٠، ٤٣١) (ضعیف) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الصحیحہ ٢١٣٨ ) وضاحت : ١ ؎ : ” ملتزم “: کعبہ کا وہ حصہ جو حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان واقع ہے، لوگ اس سے چمٹ کر دعا مانگتے ہیں۔
ملتزم کا بیان
شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) کے ساتھ طواف کیا، جب ہم لوگ کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے کہا : کیا آپ پناہ نہیں مانگیں گے ؟ اس پر انہوں نے کہا : ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی آگ سے، پھر وہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، اور حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان کھڑے رہے اور اپنا سینہ، اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور انہوں نے انہیں پوری طرح پھیلایا، پھر بولے : اسی طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٥ (٢٩٦٢) ، ( تحفة الأشراف : ٨٧٧٦) (حسن) (اس کے راوی مثنی ضعیف ہیں، لیکن شواہد اور متابعات کی وجہ سے تقویت پا کر یہ حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آپ ﷺ ملتزم سے چمٹے ہوئے تھے۔
ملتزم کا بیان
عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس (رض) کو لے کر جاتے (جب ان کی بینائی ختم ہوگئی) اور ان کو اس تیسرے کونے کے پاس کھڑا کردیتے جو اس رکن کعبہ کے قریب ہے جو حجر اسود کے قریب ہے اور دروازے سے ملا ہوا ہے تو ابن عباس (رض) ان سے کہتے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس جگہ نماز پڑھتے تھے ؟ وہ کہتے : ہاں، تو ابن عباس (رض) کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٣٣ (٢٩٢١) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٠) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن عبداللہ بن سائب مجہول ہیں )
صفا اور مر وہ کا بیان
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا : مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد إن الصفا والمروة من شعائر الله کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ (رض) نے جواب دیا : ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول فلا جناح عليه أن يطوف بهما کے بجائے فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ١ ؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا ومروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : إن الصفا والمروة من شعائر الله ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣) ، والعمرة ١٠ (١٧٩٠) ، وتفسیرالبقرة ٢١(٤٤٩٥) ، و تفسیر النجم ٣ (٤٨٦١) ، سنن النسائی/الحج ١٦٨ (٢٩٧١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٨٢٠، ١٧١٥١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٤٣ (١٢٧٧) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة البقرة (٢٩٦٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٣ (٢٩٨٦) ، موطا امام مالک/الحج ٤٢ (١٢٩) ، مسند احمد (٦/١٤٤، ١٦٢، ٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” مناة قديد “ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک دیہات کا نام ہے۔ ٢ ؎ : بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ( سورة البقرة : ١٥٨ )
صفا اور مر وہ کا بیان
عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو آپ کو آڑ میں لیے ہوئے تھے، تو عبداللہ (رض) سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے ؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٣ (١٦٠٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٤ (٢٩٩٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥١٥٥، ٥١٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٣٢) ، مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٥، ٣٨١) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٧ (١٩٦٣) (صحیح )
صفا اور مر وہ کا بیان
اس سند سے بھی عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : پھر آپ صفا ومروہ آئے اور ان کے درمیان سات بار سعی کی، پھر اپنا سر منڈایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٥١٥٥، ٥١٥٦) (صحیح )
صفا اور مر وہ کا بیان
کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا ومروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر (رض) سے ایک شخص نے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! میں آپ کو (عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کر کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٤) ، سنن النسائی/الحج ١٧٤ (٢٩٧٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٣ (٢٩٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٧٣، ٧٣٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٣) (صحیح )
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
جعفر بن محمد اپنے والد محمد (محمد باقر) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں (ہر ایک سے) پوچھا یہاں تک کہ جب مجھ تک پہنچے تو میں نے کہا : میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی، پھر نیچے کی کھولی، اور پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں چھاتیوں کے بیچ میں رکھی، میں ان دنوں جوان تھا، پھر کہا : خوش آمدید، اے میرے بھتیجے ! جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے سوالات کئے، وہ نابینا ہوچکے تھے اور نماز کا وقت آگیا، تو وہ ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہوگئے (یعنی ایک ایسا کپڑا جو دہرا کر کے سلا ہوا تھا) ، جب اسے اپنے کندھے پر ڈالتے تو چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ کندھے سے گر جاتا، چناچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی اور ان کی چادر ان کے بغل میں تپائی پر رکھی ہوئی تھی، میں نے عرض کیا : مجھے اللہ کے رسول کے حج کا حال بتائیے، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو کی گرہ بنائی پھر بولے : رسول اللہ ﷺ نو سال تک (مدینہ میں) حج کئے بغیر رہے، پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ حج کو جانے والے ہیں، چناچہ مدینہ میں لوگ کثرت سے آگئے ١ ؎، ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ آپ ﷺ کی اقتداء میں حج کرے، اور آپ ہی کی طرح سارے کام انجام دے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکلے، ہم لوگ ذی الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس (رض) کے یہاں محمد بن ابی بکر (رض) کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھوایا : میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم غسل کرلو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام پہن لو ، پھر رسول اللہ ﷺ نے (ذو الحلیفہ کی) مسجد میں نماز پڑھی، پھر قصواء (نامی اونٹنی) پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ جب بیداء میں اونٹنی کو لے کر سیدھی ہوگئی (جابر (رض) کہتے ہیں) تو میں نے تاحد نگاہ دیکھا کہ آپ ﷺ کے سامنے سوار بھی ہیں پیدل بھی، اسی طرح معاملہ دائیں جانب تھا، اسی طرح بائیں جانب، اور اسی طرح آپ کے پیچھے، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں تھے ١ ؎، آپ ﷺ پر قرآن نازل ہو رہا تھا، اور آپ ﷺ اس کا معنی سمجھتے تھے، چناچہ جیسے آپ ﷺ کرتے ویسے ہی ہم بھی کرتے۔ آپ ﷺ نے توحید پر مشتمل تلبیہ : لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك پکارا، اور لوگ وہی تلبیہ پکارتے رہے جسے آپ ﷺ پکارا کرتے تھے ٢ ؎، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس میں سے کسی بھی لفظ سے منع نہیں کیا، بلکہ آپ ﷺ اپنا تلبیہ ہی برابر کہتے رہے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ عمرہ بھی کرنا پڑے گا ٣ ؎، جب ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس آئے اور یہ آیت پڑھی : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى ٤ ؎، اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں رکھا۔ (محمد بن جعفر) کہتے ہیں : میرے والد کہتے تھے (ابن نفیل اور عثمان کی روایت میں ہے) کہ میں یہی جانتا ہوں کہ جابر (رض) نے اسے نبی اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے (اور سلیمان کی روایت میں ہے) میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے کہا : رسول ﷺ نے دونوں رکعتوں میں قل هو الله أحد اور قل يا أيها الکافرون پڑھا ٥ ؎، پھر بیت اللہ کی طرف لوٹے اور حجر اسود کا استلام کیا، اس کے بعد (مسجد کے) دروازے سے صفا کی طرف نکل گئے جب صفا سے قریب ہوئے تو إن الصفا والمروة من شعائر الله پڑھا اور فرمایا : ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے ، چناچہ آپ ﷺ نے صفا سے ابتداء کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا، تو اللہ کی بڑائی اور وحدانیت بیان کی اور فرمایا : لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شىء قدير لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده پھر اس کے درمیان میں دعا مانگی اور اس طرح تین بار کہا، پھر مروہ کی طرف اتر کر آئے، جب آپ ﷺ کے قدم ڈھلکنے لگے تو آپ ﷺ نے بطن وادی ٦ ؎ میں رمل کیا یہاں تک کہ جب چڑھنے لگے تو عام چال چلے، یہاں تک کہ مروہ آئے تو وہاں بھی وہی کیا جو صفا پہ کیا تھا، جب طواف کا آخری پھیرا مروہ پہ ختم ہوا تو فرمایا : اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا جو کہ بعد میں معلوم ہوا تو میں ہدی نہ لاتا اور میں اسے عمرہ بنا دیتا، لہٰذا تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے، اور اسے عمرہ بنا لے ۔ سبھی لوگ حلال ہوگئے اور بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ پھر سراقہ بن جعشم (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا یہ (عمرہ) صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں داخل کیں اور فرمایا : عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہوگیا ، اسے دو مرتبہ فرمایا : (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ، اور علی (رض) یمن سے نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹ لے کر آئے تو فاطمہ (رض) کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، علی (رض) کو یہ ناگوار لگا، وہ کہنے لگے : تمہیں کس نے اس کا حکم دیا تھا ؟ وہ بولیں : میرے والد نے۔ علی (رض) (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں کہا کرتے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ نے کر رکھا تھا غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ نے آپ ﷺ کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے اس کا حکم دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، تم نے حج کی نیت کرتے وقت کیا کہا تھا ؟ ، عرض کیا : میں نے یوں کہا تھا : اے اللہ ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسول نے باندھا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھ تو ہدی ہے اب تم بھی احرام نہ کھولنا ۔ جابر (رض) کہتے ہیں : ہدی کے جانوروں کی مجموعی تعداد جو علی (رض) یمن سے لے کر آئے تھے اور جو رسول اللہ ﷺ مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو (١٠٠) تھی، چناچہ تمام لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروائے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ جابر (رض) کہتے ہیں : جب یوم الترویہ (ذو الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا اور حج کا احرام باندھا، رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر آپ ﷺ نے وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، آپ ﷺ نے اپنے لیے بالوں سے بنا ہوا ایک خیمہ کا حکم دیا، تو وادی نمرہ میں خیمہ لگایا گیا، پھر رسول اللہ ﷺ چلے، قریش کو اس بات میں شک نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ میں مشعر حرام ٧ ؎ کے پاس ٹھہریں گے جیسے جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات جا پہنچے ٨ ؎ تو دیکھا کہ خیمہ نمرہ میں لگا دیا گیا ہے، آپ ﷺ وہاں اترے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو قصواء کو لانے کا حکم فرمایا، اس پر کجاوہ باندھا گیا، آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے، تو لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا : تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے، اور تمہارے اس شہر میں۔ سنو ! جاہلیت کے زمانے کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہوگئی (یعنی لغو اور باطل ہوگئی اور اس کا اعتبار نہ رہا) جاہلیت کے سارے خون معاف ہیں اور سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ یا ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے۔ وہ بنی سعد میں دودھ پی رہا تھا۔ اسے ہذیل کے لوگوں نے قتل کردیا تھا (وہ نبی اکرم ﷺ کا چچا زاد بھائی تھا) اور جاہلیت کے تمام سود ختم ہیں سب سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ اپنا سود ہے یعنی عباس بن عبدالمطلب کا کیونکہ سود سبھی ختم ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے، اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اب اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بس اس قدر مارو کہ ہڈی نہ ٹوٹنے پائے، اور انہیں تم سے دستور کے مطابق کھانا لینے اور کپڑا لینے کا حق ہے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہوگا ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کردیا، اور نصیحت کی، پھر آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا، اور فرمایا : اے اللہ ! تو گواہ رہ، اے اللہ ! تو گواہ رہ ۔ پھر بلال (رض) نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھی اور انہوں نے پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی یہاں تک کہ میدان عرفات آئے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ صخرات (بڑے پتھروں) کی جانب کیا، اور حبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ ہوئے، اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور سورج کی ٹکیہ غائب ہونے کے بعد زردی کچھ کم ہوگئی۔ آپ ﷺ نے اسامہ (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر عرفات سے لوٹے، قصواء کی باگ آپ ﷺ نے کھینچ کر رکھی تھی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سر سے چھو جایا کرتا تھا، آپ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کے اشارہ سے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ : لوگو ! اطمینان سے چلو ! ، لوگو ! اطمینان سے چلو !، جب آپ ﷺ کسی بلندی پر آتے تو باگ ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ سکے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو اق امتوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ عثمان کہتے ہیں : دونوں کے بیچ میں کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی پھر سارے راوی متفق ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی تو آپ ﷺ نے فجر پڑھی یہاں تک کہ صبح خوب اچھی طرح روشن ہوگئی، سلیمان کہتے ہیں (یہ نماز) آپ ﷺ نے ایک اذان اور ایک اقامت سے (پڑھی) ، پھر سارے راوی متفق ہیں) ، پھر آپ ﷺ قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر حرام کے پاس آئے، اس پر چڑھے، (عثمان اور سلیمان کہتے ہیں) پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کی، (عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ) آپ ﷺ نے توحید بیان کی۔ پھر آپ ﷺ وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہوگئی اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ ﷺ وہاں سے چل پڑے، اور فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے سوار کرلیا، وہ نہایت عمدہ بال والے گورے خوبصورت شخص تھے، جب رسول اللہ ﷺ چلے تو آپ کا گزر ایسی عورتوں پر ہوا جو ہودجوں میں بیٹھی ہوئی جا رہی تھیں، فضل ان کی طرف دیکھنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ فضل کے چہرے پر رکھ دیا تو فضل نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیرلیا، آپ ﷺ نے بھی اپنا ہاتھ دوسری جانب موڑ دیا تو فضل نے اپنا رخ اور جانب موڑ لیا اور دیکھنے لگے، یہاں تک کہ جب وادی محسر میں آئے تو اپنی سواری کو ذرا حرکت دی (یعنی ذرا تیز چلایا) پھر درمیانی راستے ٩ ؎ سے چلے جو جمرہ عقبہ پہنچاتا ہے یہاں تک کہ جب اس جمرے کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر تکبیر کہی، کنکری اتنی بڑی تھی کہ انگلی میں رکھ کر پھینک رہے تھے، آپ ﷺ نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر آپ ﷺ وہاں سے نحر کرنے کی جگہ کو آئے، اور اپنے ہاتھ سے (٦٣) اونٹنیاں نحر کیں، اور پھر علی (رض) کو حکم دیا تو باقی انہوں نے نحر کیں، آپ ﷺ نے انہیں بھی اپنے ہدی میں شریک کرلیا (یعنی اپنے ہدی کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ انہیں بھی نحر کرنے کے لیے دے دیئے) پھر ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا، تو وہ سب ٹکڑے ایک دیگ میں رکھ کر پکائے گئے (آپ ﷺ اور علی رضی اللہ عنہ) دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور ان کا شوربہ پیا، (سلیمان کہتے ہیں) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف چلے، آپ ﷺ نے مکہ میں ١٠ ؎ ظہر پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے، وہ لوگ آب زمزم پلا رہے تھے فرمایا : اے بنی عبدالمطلب ! پانی کھینچو، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے سقایہ پر لوگ تم پر غالب آجائیں گے ١ ١ ؎ تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا، ان لوگوں نے ایک ڈول آپ ﷺ کو بھی دیا، آپ ﷺ نے اس میں سے پیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن النسائی/الحج ٤٦ (٢٧١٣) ، ٥١ (٢٧٤١) ، ٥٢ (٢٧٤٤) ، ٧٣ (٢٨٠٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٤ (٣٠٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٠، ٣٣١، ٣٣٣، ٣٤٠، ٣٧٣، ٣٨٨، ٣٩٤، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١١(١٨٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے یہ تعداد (٩٠) ہزار لکھی ہے، اور بعض نے ایک لاکھ تیس ہزار کہا ہے۔ ٢ ؎ : زمانہ جاہلیت میں تلبیہ میں لبيك اللهم لبيك لا شريك لك “ کے بعد ”إلا شريكًا هو لک تملکه بڑھا کر کہا جاتا تھا۔ ٣ ؎ : یعنی عمرہ کا بالکل قصد نہیں تھا، یا عمرہ کو حج کے مہینوں میں جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ٤ ؎ : اور مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنالو (سورۃ البقرۃ : ١٢٥) ۔ ٥ ؎ : پہلی رکعت میں قل يا أيها الکافرون پڑھی اور دوسری میں قل هو الله أحد۔ ٦ ؎ : حرم مکی کی تعمیر جدید میں دو سبز نشان سے اس وادی کی حد مقرر کردی گئی ہے، جن کو میلین اخضرین کہا جاتا ہے۔ ٧ ؎ : ” مشعر حرام “: مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے اسے قزح بھی کہا جاتا ہے۔ ٨ ؎ : زمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے ، عرفات نہیں جاتے تھے، اور باقی لوگ عرفات جاتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم ﷺ بھی قریش کی اتباع کریں گے، لیکن آپ ﷺ وہاں نہیں ٹھہرے اور عرفات چل دیئے۔ ٩ ؎ : اس کو طریق مازمین (دو پہاڑوں کا نام ہے) کہتے ہیں، عرفات سے اسی راستہ سے واپس ہونا سنت ہے، یہ اس راستہ کے علاوہ ہے جس سے رسول اکرم ﷺ عرفات گئے تھے، راستہ کی یہ تبدیلی نیک فال کے طور پر بھی ہے۔ ١٠ ؎ : یہی راجح قول ہے اس کے برخلاف ایک روایت آتی ہے جس میں ظہر منیٰ میں پڑھنے کا ذکر ہے، علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ آپ ﷺ نے زوال سے پہلے طواف افاضہ کیا پھر مکہ میں اول وقت پر ظہر پڑھی پھر منیٰ واپس آئے تو وہاں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ظہر پڑھی، اور بعد والی نماز آپ ﷺ کی نفل ہوگئی۔ ١ ١ ؎ : آپ ﷺ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں بھی پانی نکالنے میں لگ جاؤں تو لوگ اس کو بھی حج کی ایک ذمہ داری سمجھ لیں گے، اور اس کے لئے بھیڑ لگائیں گے، پھر تم ڈر کی وجہ سے اس خدمت سے علاحدہ ہوجاؤ گے کیونکہ تم لوگوں سے نہیں لڑ سکو گے، اور وہ تم پر غالب آجائیں گے۔
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
جعفر بن محمد اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں ظہر اور عصر ایک اذان سے پڑھی، ان کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھی، البتہ اقامت دو تھیں، اور مغرب و عشاء جمع (مزدلفہ) میں ایک اذان اور دو اق امتوں سے پڑھی، ان کے درمیان بھی کوئی نفل نہیں پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو حاتم بن اسماعیل نے ایک لمبی حدیث میں مسنداً بیان کیا ہے اور حاتم بن اسماعیل کی طرح اسے محمد بن علی الجعفی نے جعفر سے، اور جعفر نے اپنے والد محمد سے، محمد نے جابر (رض) سے روایت کیا ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے مغرب اور عشاء ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٩٣٢٠) (ضعیف) یہ حدیث معلق ہے، اس کی ابتدائی سند کو ابوداود نے ذکر نہیں کیا ہے، اور اس میں اقامة کا لفظ شاذ ہے، اقامتین محفوظ ہے، جیسا کہ گزرا (ملاحظہ ہو : ١٩٠٥- ١٩٠٦ ) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ روایت سنداً و واقعۃً ضعیف ہے، صحیح یہی ہے کہ دونوں نماز ایک اذان اور دو اق امتوں سے ادا کیں۔
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
جابر (رض) کہتے ہیں کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے تو یہاں (منیٰ میں) نحر کیا ہے اور منیٰ پورا کا پورا نحر کرنے کی جگہ ہے ، اور عرفات میں وقوف کیا تو فرمایا : میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن پورا میدان عرفات وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے ، اور مزدلفہ میں وقوف تو فرمایا : میں یہاں ٹھہرا ہوں لیکن پورا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن النسائی/ الحج ٥١ (٢٧٤١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٦) (صحیح )
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
اس سند سے بھی جعفر سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے : فانحروا في رحالکم کہ تم لوگ اپنی قیام گاہوں میں نحر کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٦) (صحیح )
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کا حال
اس سند سے بھی جابر (رض) سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں یعقوب نے واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى پڑھنے کے بعد یہ ادراج کیا ہے کہ آپ نے ان دونوں رکعتوں میں توحید (یعنی قل هو الله أحد ) اور قل يا أيها الکافرون پڑھیں ، اور اس میں یہ ادراج بھی کیا کہ علی (رض) نے کوفہ میں کہا یعقوب کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا : جابر (رض) نے علی (رض) کا یہ قول ذکر نہیں کیا : (میں نبی اکرم ﷺ کے پاس فاطمہ (رض) کے خلاف غصہ دلانے چلا) ، اور یعقوب نے فاطمہ (رض) کا واقعہ ذکر کیا، میرے والد جعفر کا کہنا ہے کہ جابر (رض) نے اس حرف یعنی فذهبت محرشا کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٩٠٥) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) (صحیح )
وقوف عرفہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہرتے تھے اور لوگ انہیں حمس یعنی بہادر و شجاع کہتے تھے جب کہ سارے عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے، تو جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو عرفات آنے اور وہاں ٹھہرنے پھر وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا اور یہی حکم اس آیت میں ہے : ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس (سورۃ البقرہ : ١٩٩) تم لوگ وہاں سے لوٹو جہاں سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں ۔ یعنی عرفات سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩١ (١٦٦٥) ، و تفسیر البقرة ٣٥ (٤٥٢٠) ، م /الحج ٢١ (١٢١٩) ، سنن النسائی/ الحج ٢٠٢ (٣٠١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٨ (٣٠١٨) (صحیح )
منی کی طرف روانگی
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو ظہر اور یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو فجر منیٰ میں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٠ (٨٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٦٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٥٥، ٢٩٦، ٢٩٧، ٣٠٣) ، دی/المناسک ٤٦ (١٩١٣) (صحیح )
منی کی طرف روانگی
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے سوال کیا اور کہا : مجھے آپ وہ بتائیے جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کو یاد ہو کہ آپ نے ظہر یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو کہاں پڑھی ؟ انہوں نے کہا : منیٰ میں، میں نے عرض کیا تو لوٹنے کے دن آپ ﷺ نے عصر کہاں پڑھی ؟ فرمایا : ابطح میں، پھر کہا : تم وہی کرو جو تمہارے امراء کریں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : * تخريج : صحیح البخاری/الحج ٨٣ (١٦٥٣) ، ١٤٦ (١٧٦٣) ، صحیح مسلم/الحج ٥٨ (١٣٠٨) ، سنن الترمذی/الحج ١١٦ (٩٦٤) ، سنن النسائی/الحج ١٩٠ (٣٠٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٠٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٦ (١٩١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں امیر کی مخالفت نہ کرو کیوں کہ ان کی مخالفت بسا اوقات فتنوں اور فساد کا موجب ہوتی ہے ، خصوصاً جب کہ امراء ظالم ہوں ورنہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع تو ہر حال میں بہتر ہے۔
منی کی طرف روانگی
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو فجر پڑھ کر منیٰ سے چلے یہاں تک کہ عرفات آئے تو نمرہ میں اترے اور نمرہ عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے، جب ظہر کا وقت آنے کو ہوا تو رسول اللہ ﷺ (نمرہ سے) عین دوپہر میں چلے اور ظہر اور عصر کو جمع کیا، پھر لوگوں میں خطبہ دیا ١ ؎ پھر چلے اور عرفات میں موقف میں وقوف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٨٤١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٢٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے برخلاف جابر (رض) کی ایک حدیث میں نماز سے پہلے خطبہ کا ذکر ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ دی جاتی ہے کہ ابن عمر (رض) کی اس حدیث کو عام نصیحت پر محمول کرلیا جائے، اور جابر (رض) کی روایت کو عرفہ کے مسنون خطبہ پر، یا یہ کہا جائے کہ ابن عمر (رض) والی روایت میں راوی کو وہم ہوگیا ہے، واللہ اعلم۔
عرفہ میں نماز کے لئے روانگی کا وقت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا تو ابن عمر (رض) کے پاس (پوچھنے کے لیے آدمی) بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ آج (یعنی عرفہ) کے دن (نماز اور خطبہ کے لیے) کس وقت نکلتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، پھر جب ابن عمر (رض) نے چلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا : ابھی سورج ڈھلا نہیں، انہوں نے پوچھا : کیا اب ڈھل گیا ؟ لوگوں نے کہا : ابھی نہیں ڈھلا، پھر جب لوگوں نے کہا کہ سورج ڈھل گیا تو وہ چلے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٤ (٣٠٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٨٧ (١٦٦٠) ، موطا امام مالک/الحج ٦٤ (١٩٥) ، مسند احمد (٢/٢٥) (حسن )
عرفات میں خطبہ دینا
بنی ضمرہ کے ایک آدمی اپنے والد یا اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفات میں منبر پر (خطبہ دیتے) دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٩٤، ٣٦٩، ٤٣٠) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی رَجُلٌ مبہم ہے )
عرفات میں خطبہ دینا
نبی ط بن شریط (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو عرفات میں سرخ اونٹ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٩٨ (٣٠١٠) ، ١٩٩ (٣٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥٨(١٢٨٦) ، مسند احمد (٤/ ٣٠٥، ٣٠٦) (صحیح) (مؤلف کے علاوہ دوسروں کے یہاں سند میں عن رجل کا اضافہ نہیں ہے اور سلمہ کا اپنے والد سے سماع ثابت ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے )
عرفات میں خطبہ دینا
خالد بن عداء بن ہوذہ (رض) کہتے ہیں عرفہ کے دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک اونٹ پر دونوں رکابوں کے درمیان کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ ١ ؎ دیتے دیکھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن العلاء نے وکیع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے ہناد نے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٨٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی پہلی حدیث جس میں میدان عرفات میں منبر پر خطبہ دینے کا تذکرہ ہے وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، واضح رہے کہ اس وقت وہاں منبر تھا ہی نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ منبر پر خطبہ دیتے۔
عرفات میں خطبہ دینا
اس سند سے بھی عداء بن خالد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٩٨٤٩) (صحیح )
عرفات میں کھڑے ہونے کی جگہ
یزید بن شیبان کہتے ہیں ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے ہم عرفات میں تھے (وہ ایسی جگہ تھی جسے عمرو (عمرو بن عبداللہ) امام سے دور سمجھتے تھے) ، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، آپ کا فرمان ہے کہ اپنے مشاعر (نشانیوں کی جگہوں) پر ٹھہرو ١ ؎ اس لیے کہ تم اپنے والد ابراہیم کے وارث ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٥ (٣٠١١) سنن النسائی/ الحج ٢٠٢ (٣٠١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٥٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مشاعر سے مراد مناسک حج کے مقامات اور قدیم مواقف ہیں، یعنی ان جگہوں پر تم بھی ٹھہرو کیونکہ ان جگہوں پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم کے زمانہ ہی سے بطور وراثت چلا آ رہا ہے۔
عرفات سے واپسی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، آپ پر اطمینان اور سکینت طاری تھی، آپ ﷺ کے ردیف اسامہ (رض) تھے، آپ نے فرمایا : لوگو ! اطمینان و سکینت کو لازم پکڑو اس لیے کہ گھوڑوں اور اونٹوں کا دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے ۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : میں نے انہیں (گھوڑوں اور اونٹوں کو) ہاتھ اٹھائے دوڑتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ جمع (مزدلفہ) آئے، (وہب کی روایت میں اتنا زیادہ ہے) : پھر آپ ﷺ نے اپنے ساتھ فضل بن عباس (رض) کو بٹھایا اور فرمایا : لوگو ! گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانا نیکی نہیں ہے تم اطمینان اور سکینت کو لازم پکڑو ۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : پھر میں نے کسی اونٹ اور گھوڑے کو اپنے ہاتھ اٹھائے (دوڑتے) نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ منیٰ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٤٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٢٢ (١٥٤٤) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٢) ، سنن الترمذی/الحج ٧٨ (٩١٨) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٤ (٣٠٢٢) ، مسند احمد (١/٢٣٥، ٢٥١، ٢٦٩، ٢٧٧، ٣٢٦، ٣٥٣، ٣٧١) (صحیح )
عرفات سے واپسی کا بیان
کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید (رض) سے پوچھا : جس شام کو آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوار ہو کر آئے تھے آپ نے کیا کیا کیا ؟ وہ بولے : ہم اس گھاٹی میں آئے جہاں لوگ اپنے اونٹ رات کو قیام کے لیے بٹھاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اپنی اونٹنی بیٹھا دی، پھر پیشاب کیا، (زہیر نے یہ نہیں کہا کہ پانی بہایا) پھر آپ ﷺ نے وضو کا پانی منگایا اور وضو کیا، جس میں زیادہ مبالغہ نہیں کیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! نماز، (پڑھی جائے) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نماز آگے چل کر (پڑھیں گے) ۔ اسامہ کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ سوار ہوئے یہاں تک کہ مزدلفہ آئے، وہاں آپ نے مغرب پڑھی پھر لوگوں نے اپنی سواریاں اپنے ٹھکانوں پر بٹھائیں یہاں تک کہ عشاء کی اقامت ہوئی، آپ ﷺ نے عشاء پڑھی، پھر لوگوں نے اونٹوں سے اپنے بوجھ اتارے، (محمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ کریب کہتے ہیں) پھر میں نے پوچھا : صبح ہوئی تو آپ لوگوں نے کیسے کیا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ کے ساتھ فضل بن عباس (رض) سوار ہوئے، اور میں پیدل قریش کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چلا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الحج ٢٠٧ (٣٠٣٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٩ (٣٠١٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٣٩) ، والحج ٩٥ (١٦٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٠) ، سنن الترمذی/الحج ٥٤ (٨٨٥) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٧) ، مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠٢، ٢٠٨، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥١ (١٩٢٢) (صحیح )
عرفات سے واپسی کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ پھر (ارکان عرفات سے فراغت کے بعد) آپ ﷺ نے اسامہ (رض) کو پیچھے سوار کرلیا اور درمیانی چال سے اونٹ ہانکنے لگے، لوگ دائیں اور بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے آپ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور فرماتے تھے : لوگو ! اطمینان سے چلو ، اور آپ ﷺ عرفات سے اس وقت لوٹے جب سورج ڈوب گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٥٤ (٨٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٢٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٧٢، ٧٥، ٧٦، ٨١) (حسن ) (مگر لا یلتفت کا لفظ صحیح نہیں ہے، صحیح لفظ یلتفت ہے جیسا کہ ترمذی میں ہے )
عرفات سے واپسی کا بیان
عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید (رض) سے سوال کیا گیا : رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے ؟ فرمایا : تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔ ہشام کہتے ہیں : نص ، عنق سے بھی زیادہ تیز چال کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٣ (١٦٦٦) ، والجہاد ١٣٦ (٢٩٩٩) ، والمغازي ٧٧ (٤٤١٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٦) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٥ (٣٠٢٦) ، ٢١٤ (٣٠٥٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٨ (٣٠١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٥٧(١٧٦) ، مسند احمد (٥/٢٠٥، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥١ (١٩٢٢) (صحیح )
عرفات سے واپسی کا بیان
اسامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر تھا جب سورج ڈوب گیا تو آپ ﷺ عرفات سے لوٹے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٧) (حسن صحیح )
عرفات سے واپسی کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کے غلام کریب کی روایت ہے کہ انہوں نے اسامہ بن زید (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے جب گھاٹی میں آئے تو اترے، پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن بھرپور وضو نہیں کیا، میں نے آپ سے عرض کیا : نماز (کا وقت ہوگیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : نماز آگے چل کر پڑھیں گے ، پھر آپ سوار ہوئے جب مزدلفہ پہنچے تو اترے وضو کیا اور اچھی طرح سے وضو کیا، پھر نماز کی تکبیر کہی گئی تو آپ ﷺ نے مغرب پڑھی پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنے قیام گاہ میں بٹھایا پھر عشاء کی اقامت ہوئی تو آپ نے عشاء پڑھی اور درمیان میں کچھ نہیں پڑھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٣٩) ، والحج ٩٥ (١٦٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٠) ، سنن النسائی/ الحج ٢٠٦ (٣٠٢٧، ٣٠٢٨) ، سنن الترمذی/الحج ٥٤ (٨٨٥) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٩٩، ٢٠٨، ٢١٠) (صحیح )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (٧٠٣) ، سنن النسائی/ الصلاة ١٨ (٤٨٢) ، ٢٠ (٤٨٤، ٤٨٥) ، سنن النسائی/ الصلاة ١٨ (٤٨٢) ، ٢٠ (٤٨٤، ٤٨٥) ، المواقیت ٤٩ (٦٠٧) ، والأذان ١٩ (٦٥٨) ، والحج ٢٠٧ (٣٠٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٩١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٩٦ (١٦٧٤) ، سنن الترمذی/الحج ٥٦ (٨٨٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٠ (٣٠٢٠) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٦) ، مسند احمد (٢/ ٣، ٦٢، ٧٩، ٨١) (صحیح )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
اس سند سے بھی زہری سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ ایک ہی اقامت سے دونوں کو جمع کیا۔ احمد کہتے ہیں : وکیع نے کہا : ہر نماز الگ الگ اقامت سے پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ٩٦ (١٦٧٣) ، سنن النسائی/ الأذان ٢٠ (٦٦١) ، الحج ٢٠٧ (٣٠٣١) ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٦، ١٥٧) ، دی/ المناسک ٥٢ (١٩٢٦) (صحیح) (ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت والی روایت ہی صحیح ہے، جیسا کہ جابر کی طویل حدیث میں گزرا )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
اس سند سے بھی زہری سے ابن حنبل کی سند سے انہوں نے حماد سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے : ہر نماز کے لیے ایک الگ اقامت کہی اور پہلی نماز کے لیے اذان نہیں دی اور نہ ان دونوں میں سے کسی کے بعد نفل پڑھی۔ مخلد کہتے ہیں : ان دونوں میں سے کسی نماز کے لیے اذان نہیں دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٩٢٣) (صحیح) (اذان والا جملہ صحیحین میں نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں جابر کی روایت کے مطابق ایک اذان ثابت ہے ، نیز ابن عمر (رض) کی آنے والی حدیث نمبر (١٩٣٣) میں اذان و اقامت کی تصریح ہے )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تو مالک بن حارث نے ان سے کہا : یہ کون سی نماز ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الحج ٥٦ (٨٨٧) ، ( تحفة الأشراف : ٧٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٨، ٣٣، ٧٨، ١٥٢) (صحیح ) (ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت کی زیادتی کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
سعید بن جبیر اور عبداللہ بن مالک سے روایت ہے وہ دونوں کہتے ہیں : ہم نے ابن عمر (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں مغرب و عشاء ایک اقامت سے پڑھیں، پھر راوی نے ابن کثیر کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ٤٧ (١٢٨٨) ، سنن الترمذی/ الحج ٥٦ (٨٨٨) ، سنن النسائی/ الحج ٢٠٧ (٣٠٣٣) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٥٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨٠، ٢/٢، ٣، ٣٣، ٥٩، ٦٢، ٧٩، ٨١) (صحیح) (اس میں قاضی شریک بن عبداللہ ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت موجود ہے، اذان اور ہر صلاة میں اقامت کے اثبات کے ساتھ جیسے تفصیل گزری )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم (عرفات سے) ابن عمر (رض) کے ساتھ لوٹے، جب ہم جمع یعنی مزدلفہ پہنچے تو آپ نے ہمیں مغرب اور عشاء، تین رکعت مغرب کی اور دو رکعت عشاء کی ایک اقامت ١ ؎ سے پڑھائی، جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عمر (رض) نے ہم سے کہا : اسی طرح ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ پڑھائی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٩٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٥٢) (صحیح) (” ایک اقامت “ والی روایت شاذ ہے، ہر صلاة کے لئے الگ الگ اقامت ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎ : اس کے برخلاف جابر (رض) کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اذان اور دو تکبیر سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے، واللہ اعلم۔
مزدلفہ میں نماز کا بیان
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں میں نے سعید بن جبیر کو دیکھا انہوں نے مزدلفہ میں اقامت کہی پھر مغرب تین رکعت پڑھی اور عشاء دو رکعت، پھر آپ نے کہا : میں نے دیکھا کہ ابن عمر (رض) نے اس مقام پر اسی طرح کیا اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس مقام پر اسی طرح کرتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (١٩٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٧٠٥٢) (صحیح) (اس میں بھی ایک اقامت شاذ ہے )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
سلیم بن اسود ابوالشعثاء محاربی کہتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ آیا وہ تکبیر و تہلیل سے تھکتے نہ تھے، جب ہم مزدلفہ آگئے تو انہوں نے اذان کہی اور اقامت، یا ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اذان اور اقامت کہے، پھر ہمیں مغرب تین رکعت پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا : عشاء پڑھ لو چناچہ ہمیں عشاء دو رکعت پڑھائی پھر کھانا منگوایا۔ اشعث کہتے ہیں : اور مجھے علاج بن عمرو نے میرے والد کی حدیث کے مثل حدیث کی خبر دی ہے جو انہوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ابن عمر (رض) سے لوگوں نے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اسی طرح نماز پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٠٩١) (صحیح) (اس میں دونوں نمازیں کے لئے اذان ثابت و محفوظ ہے، (١٩٢٨) کی حدیث میں اذان کا انکار ہے، جو شاذ و ضعیف ہے جیسا کہ گزرا، نیز اس روایت میں دوسری اقامت کی جگہ الصلاة کا لفظ ہے جو شاذ ہے، محفوظ دوسری مرتبہ اقامت کا لفظ ہے )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ وقت پر ہی نماز پڑھتے دیکھا سوائے مزدلفہ کے، مزدلفہ میں آپ ﷺ نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور دوسرے دن فجر وقت معمول سے کچھ پہلے پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٩ (١٦٨٢) ، صحیح مسلم/الحج ٤٨ (١٢٨٩) ، سنن النسائی/المواقیت ٤٩ (٦٠٦) ، والحج ٢٠٧ (٣٠٣٠) ، ٢١٠ (٣٠٤١) ، ( تحفة الأشراف : ٩٣٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٤، ٤٢٦، ٤٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ترجمہ سے اس حدیث کا صحیح معنی واضح ہوگیا، بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ” اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ غلس کے بعد اسفار میں نماز پڑھتے تھے صرف اس دن غلس میں پڑھی “ ، لیکن دیگر صحیح روایات کی روشنی میں اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ : غلس ہی میں فوراً پڑھ لی، عام حالات کی طرح تھوڑا انتظار نہیں کیا۔
مزدلفہ میں نماز کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ (مزدلفہ میں) جب آپ نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے صبح کی تو آپ قزح میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : یہ قزح ہے اور یہ موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے، اور مزدلفہ پورا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے، میں نے یہاں نحر کیا ہے اور منیٰ پورا نحر کرنے کی جگہ ہے لہٰذا تم اپنے اپنے ٹھکانوں میں نحر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٤ (٨٨٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٥ (٣٠١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٢٢٩) (حسن صحیح )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں عرفات میں اس جگہ ٹھہرا ہوں لیکن عرفات پورا جائے وقوف ہے، میں مزدلفہ میں یہاں ٹھہرا ہوں لیکن مزدلفہ پورا جائے وقوف ہے، میں نے یہاں پر نحر کیا اور منیٰ پورا جائے نحر ہے لہٰذا تم اپنے ٹھکانوں میں نحر کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن النسائی/ الحج ٥١ (٢٧٤١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٥٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المناسک ٥٠ (١٩٢١) (صحیح )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پورا عرفات جائے وقوف ہے پورا منیٰ جائے نحر ہے اور پورا مزدلفہ جائے وقوف ہے مکہ کے تمام راستے چلنے کی جگہیں ہیں اور ہر جگہ نحر درست ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ المناسک ٧٣ (٣٠٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ٢٣٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٢٦) (حسن صحیح )
مزدلفہ میں نماز کا بیان
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ سورج کو ثبیر ١ ؎ پر نہ دیکھ لیتے، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے پہلے ہی (مزدلفہ سے) چل پڑے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٠ (١٦٨٤) ، ومناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٨) ، سنن الترمذی/الحج ٦٠ (٨٩٦) ، سنن النسائی/الحج ٢١٣ (٣٠٥٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦١ (٣٠٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٤، ٢٩، ٣٩، ٤٢، ٥٠، ٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٥ (١٩٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” ثبير “: مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے۔
مزدلفہ سے جلدی لوٹنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر کے لوگوں میں سے کمزور جان کر مزدلفہ کی رات کو پہلے بھیج دیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٧٨) ، وجزاء الصید ٢٥ (١٨٥٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٣) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٨ (٣٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٨ (٢٩٢، ٨٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٢ (٣٠٢٥) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٢، ٢٤٥، ٢٧٢، ٣٣٤، ٣٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ روانہ کردینا جائز ہے، تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہوجائیں، لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔
مزدلفہ سے جلدی لوٹنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو گدھوں پر سوار کر کے مزدلفہ کی رات پہلے ہی روانہ کردیا تھا، آپ ﷺ ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے : اے میرے چھوٹے بچو ! جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب طلوع نہ ہوجائے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : لطح کے معنی آہستہ مارنے کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢٢٢ (٣٠٦٦) ، سنن ابن ماجہ/ المناسک ٦٢ (٣٠٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٨ (٨٩٣) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٣١١، ٣٤٣) (صحیح )
مزدلفہ سے جلدی لوٹنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر کے کمزور اور ضعیف لوگوں کو اندھیرے ہی میں منیٰ روانہ کردیتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ آفتاب نہ نکل آئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الحج ٢٢٢ (٣٠٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٨٨٨) (صحیح )
مزدلفہ سے جلدی لوٹنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام سلمہ کو نحر کی رات (دسویں رات) کو (منیٰ کی طرف) روانہ فرما دیا انہوں نے فجر سے پہلے کنکریاں مار لیں پھر مکہ جا کر طواف افاضہ کیا، اور یہ وہ دن تھا جس دن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس رہا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٦١) (ضعیف) (اس میں ضحاک ضعیف الحفظ ہیں، اور سند ومتن میں اضطراب ہے، ثقات کے روایت میں عائشہ (رض) کا ذکر نہیں ہے، ملاحظہ ہو : ضعیف ابی داود ٢ ؍ ١٧٧ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ ام المومنین ام سلمہ (رض) کی باری کا دن تھا۔
مزدلفہ سے جلدی لوٹنا
اسماء (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں ماریں، مخبر (راوی حدیث) کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : ہم نے رات ہی کو جمرے کو کنکریاں مار لیں، انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢١٤ (٣٠٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٧٩) ، صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩١) ، موطا امام مالک/الحج ٥٦ (١٧٢) ، مسند احمد (٦/٣٤٧، ٣٥١) (صحیح )
مزدلفہ سے جلدی لوٹنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ سے اطمینان و سکون کے ساتھ لوٹے اور لوگوں کو حکم دیا کہ اتنی چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں جو ہاتھ کی دونوں انگلیوں کے سروں کے درمیان آسکیں اور وادی محسر میں آپ نے اپنی سواری کو تیز کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الحج ٢٠٤ (٣٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/ المناسک ٦١ (٣٠٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٧٤٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٣٢، ٣٦٧، ٣٩١) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٩ (١٩٤٠) (صحیح )
حج اکبر کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نحر کے روز (دسویں ذی الحجہ کو) حجۃ الوداع میں جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور لوگوں سے پوچھا : یہ کون سا دن ہے ؟ ، لوگوں نے جواب دیا : یوم النحر، آپ ﷺ نے فرمایا : یہی حج اکبر کا دن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ١٣٢ (١٧٤٢ تعلیقًا) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٦ (٣٠٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ٨٥١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی قرآن مجید میں جو يوم الحج الأكبر آیا ہے اس سے مراد یوم نحر ہی ہے، حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے اور عمرہ کو حج اصغر، اور وہ جو عوام میں مشہور ہے کہ ” جمعہ کے دن یوم عرفہ پڑے تو حج اکبر ہے “ تو یہ بات بےدلیل اور بےاصل ہے۔
حج اکبر کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر (رض) نے یوم النحر کو منیٰ ان لوگوں میں بھیجا جو پکار رہے تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف کرے گا، اور حج ا کبر کا دن یوم النحر ہے اور حج اکبر سے مراد حج ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠ (٣٦٩) ، والحج ٦٧ (١٦٢٢) ، صحیح البخاری/الجزیة ١٦ (٣١٧٧) ، والمغازي ٦٦ (٤٣٦٣) ، و تفسیر البرائة ٢ (٤٦٥٦) ، ٣ (٤٦٥٥) ، و تفسیر البرائة ٤ (٤٦٥٧) ، صحیح مسلم/الحج ٧٨ (١٣٤٧) ، سنن النسائی/الحج ١٦١ (٢٩٦٠) ، مسند احمد (٢/٢٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ٦٦٢٤) (صحیح )
ماہ حرم سے مراد کونسے مہینے ہیں؟
ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حج میں خطبہ دیا تو فرمایا : زمانہ پلٹ کر ویسے ہی ہوگیا جیسے اس دن تھا جب اللہ نے آسمان اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی، سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرام ہیں : تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب ہے ١ ؎ جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے بیچ میں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٧٠٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٢(١٧٤٢) ، وبدء الخلق ٢ (٣١٩٧) ، والمغازي ٧٧ (٤٤٠٣) ، و تفسیر سورة التوبة ٨ (٤٦٦٢) ، والأضاحي ٥ (٥٥٥٠) ، والتوحید ٢٤ (٧٤٤٧) ، صحیح مسلم/القسامة ١٠ (١٦٧٩) ، سنن النسائی/ الکبری/ المحاربہ/ (٣٥٩٥) ، مسند احمد (٥/٣٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٢ (١٩٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رجب کی نسبت قبیلہ مضر کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ رجب کی حرمت کے سلسلہ میں زیادہ سخت تھے، اور دیگر عرب قبائل کے مقابلہ میں اس کی حرمت کا پاس و لحاظ زیادہ رکھتے تھے۔
ماہ حرم سے مراد کونسے مہینے ہیں؟
اس سند سے بھی ابوبکرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن عون نے اس حدیث میں ان کا نام لیا ہے اور یوں کہا ہے عن عبدالرحمٰن بن أبي بكرة عن أبي بكرة۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٦٨٦) (صحیح )
اگر کوئی وقوف عرفہ نہ پائے تو کیا کرے؟
عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ عرفات میں تھے، اتنے میں نجد والوں میں سے کچھ لوگ آئے، ان لوگوں نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے آواز دی : اللہ کے رسول ! حج کیوں کر ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے پکار کر کہا : حج عرفات میں وقوف ہے ١ ؎ جو شخص مزدلفہ کی رات کو فجر سے پہلے (عرفات میں) آجائے تو اس کا حج پورا ہوگیا، منیٰ کے دن تین ہیں (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ) ، جو شخص دو ہی دن کے بعد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے اس پر کوئی گناہ نہیں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنے پیچھے بٹھا لیا وہ یہی پکارتا جاتا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور اسی طرح مہران نے سفیان سے الحج الحج دو بار نقل کیا ہے اور یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان سے الحج ایک ہی بار نقل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٧ (٨٨٩) ، سنن النسائی/الحج ٢٠٣ (٣٠١٩) ، ٢١١ (٣٠٤٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٧ (٣٠١٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٩، ٣١٠، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی وقوف عرفہ نہ پائے تو کیا کرے؟
عروہ بن مضرس طائی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ موقف یعنی مزدلفہ میں تھے، میں نے عرض کیا : میں طی کے پہاڑوں سے آ رہا ہوں، میں نے اپنی اونٹنی کو تھکا مارا، اور خود کو بھی تھکا دیا، اللہ کی قسم راستے میں کوئی ایسا ٹیکرہ نہیں آیا جس پر میں ٹھہرا نہ ہوں، تو میرا حج درست ہوا یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ہمارے ساتھ اس نماز کو پالے اور اس سے پہلے رات یا دن کو عرفات میں ٹھہر چکا ہو تو اس کا حج پورا ١ ؎ ہوگیا، اس نے اپنا میل کچیل دور کرلیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٧ (٨٩١) ، سنن النسائی/الحج ٢١١ (٣٠٤٢، ٣٠٤٣، ٣٠٤٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٧ (٣٠١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٩٩٠٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥، ٢٦١، ٢٦٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت (٩) ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے، ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہوجائے گا۔ ٢ ؎ : نسائی کی ایک روایت میں ہے فقد قضى تفثه وتم حجه ، یعنی حالت احرام میں پراگندہ رہنے کی مدت اس نے پوری کرلی، اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کرسکتا ہے۔ Narrated Urwah ibn Mudarris at-Tai: I came to the Messenger of Allah ﷺ at the place of halting, that is, al-Muzdalifah. I said: I have come from the mountains of Tayy. I fatigued my mount and fatigued myself. By Allah, I found no hill (on my way) but I halted there. Have I completed my hajj? The Messenger of Allah ﷺ said: Anyone who offers this prayer along with us and comes over to Arafat before it by night or day will complete his hajj and he may wash away the dirt (of his body).
اگر کوئی وقوف عرفہ نہ پائے تو کیا کرے؟
عبدالرحمٰن بن معاذ سے روایت ہے وہ رسول ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے منیٰ میں لوگوں سے خطاب کیا، اور انہیں ان کے ٹھکانوں میں اتارا، آپ نے فرمایا : مہاجرین یہاں اتریں اور قبلہ کے دائیں جانب اشارہ کیا، اور انصار یہاں اتریں، اور قبلے کے بائیں جانب اشارہ کیا، پھر باقی لوگ ان کے اردگرد اتریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٦٢٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦١) (صحیح )
منی میں کس دن خطبہ پڑھے
بنی بکر کے دو آدمی کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ ایام تشریق کے بیچ والے دن (بارہویں ذی الحجہ کو) خطبہ دے رہے تھے اور ہم آپ کی اونٹنی کے پاس تھے، یہ وہی خطبہ تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٥٦٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٧٠) (صحیح )
منی میں کس دن خطبہ پڑھے
ربیعہ بن عبدالرحمٰن بن حصین کہتے ہیں مجھ سے میری دادی سراء بنت نبہان (رض) نے بیان کیا اور وہ جاہلیت میں گھر کی مالکہ تھیں (جس میں اصنام ہوتے تھے) ، وہ کہتی ہیں : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے یوم الروس ١ ؎ (ایام تشریق کے دوسرے دن بارہویں ذی الحجہ) کو خطاب کیا اور پوچھا : یہ کون سا دن ہے ؟ ، ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا : کیا یہ ایام تشریق کا بیچ والا دن نہیں ہے ۔ امام ابوداؤد (رح) کہتے ہیں : ابوحرہ رقاشی کے چچا سے بھی اسی طرح روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایام تشریق کے بیچ والے دن خطبہ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو دواد، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٩١) (ضعیف) (اس کے راوی ربیع لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : بارہویں ذی الحجہ کو یوم الرؤوس کہا جاتا تھا کیونکہ لوگ اپنی قربانی کے جانوروں کے سر اسی دن کھاتے تھے۔
جس نے کہا کہ یوم النحر میں خطبہ پڑھے
ہرماس بن زیاد باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ اپنی اونٹنی عضباء پر عید الاضحی کے دن منیٰ میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٧٢٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤٠٩٥) ، مسند احمد (٣/٤٨٥) (حسن )
جس نے کہا کہ یوم النحر میں خطبہ پڑھے
سلیم بن عامر کلاعی کہتے ہیں کہ میں نے ابوامامہ (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے منیٰ میں یوم النحر کو رسول اللہ ﷺ کا خطبہ سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٨٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ہر م اس بن زیاد اور ابو امامہ (رض) وغیرہ کی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یوم النحر کو خطبہ مشروع ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یوم النحر کو خطبہ نہیں، اور یہ احادیث عام موعظت و نصیحت کے قبیل سے ہیں نہ کہ یہ خطبہ ہے جو حج کے شعائر میں سے ہے، ان روایات سے ان کے اس قول کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان احادیث کے رواۃ نے اسے خطبہ کا نام دیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا گیا ہے۔
یوم النحر میں خطبہ کس وقت پڑھے
رافع بن عمرو المزنی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں ایک سفید خچر پر سوار لوگوں کو خطبہ دیتے سنا جس وقت آفتاب بلند ہوچکا تھا اور علی (رض) آپ کی طرف سے اسے لوگوں کو پہنچا ١ ؎ رہے تھے اور دور والوں کو بتا رہے تھے، کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ کھڑے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٥٩٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤٠٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : رسول اللہ ﷺ سے سن کر وہی کلمات بلند آواز سے دہرا رہے تھے تاکہ جو لوگ آپ ﷺ سے دور ہیں وہ بھی اسے سن لیں۔
منی میں خطبہ کے دوران امام کیا بیان کرے
عبدالرحمٰن بن معاذ تمیمی (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا، ہم منیٰ میں تھے تو ہمارے کان کھول دئیے گئے آپ جو بھی فرماتے تھے ہم اسے سن لیتے تھے، ہم اپنے ٹھکانوں میں تھے، آپ ﷺ نے لوگوں کو ارکان حج سکھانا شروع کئے یہاں تک کہ جب آپ جمرات تک پہنچے تو آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو رکھ کر اتنی چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں جو انگلیوں کے درمیان آسکتی تھیں پھر آپ ﷺ نے مہاجرین کو حکم دیا کہ وہ مسجد کے اگلے حصہ میں اتریں اور انصار کو حکم دیا کہ وہ لوگ مسجد کے پیچھے اتریں اس کے بعد سب لوگ اترے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٨٩(٢٩٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٦١) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٩ (١٣٩٣) (صحیح )
منی والی راتوں میں مکہ میں رہنا
حریز یا ابوحریز بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن فروخ کو ابن عمر (رض) سے پوچھتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ہم لوگوں کا مال بیچتے ہیں تو کیا ہم میں سے کوئی منیٰ کی راتوں میں مکہ میں جا کر مال کے پاس رہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ تو رات اور دن دونوں منیٰ میں رہا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٦٨٧) (ضعیف) (اس کے راوی حریز ، یا ابوحریز حجازی مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے مکہ میں رات گزارنی خلاف سنت اور ناجائز ہے، بعض علماء کے یہاں صرف شدید ضرورت کے وقت اس کی اجازت ہے۔
منی والی راتوں میں مکہ میں رہنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عباس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن نمیر أخرجہ صحیح البخاری/الحج ١٣٣ (١٧٤٥) ، صحیح مسلم/الحج ٦٠ (١٣١٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٠ (٣٠٦٥) ، مسند احمد (٢/٢٢) ، وحدیث أبو أسامة أخرجہ : صحیح البخاری/ الحج ١٣٣ (١٧٤٥ تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الحج ٦٠ (١٣١٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٩١ (١٩٨٦) ، ( تحفة الأشراف : ٧٨٢٤) (صحیح )
منی میں نماز کا بیان
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عثمان (رض) نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر (رض) کے ساتھ دو ہی رکعتیں پڑھیں (اور حفص کی روایت میں اتنا مزید ہے کہ) عثمان (رض) کے ساتھ ان کی خلافت کے شروع میں، پھر وہ پوری پڑھنے لگے، (ایک روایت میں ابومعاویہ سے یہ ہے کہ) پھر تمہاری رائیں مختلف ہوگئیں، میری تو خواہش ہے کہ میرے لیے چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہی ہوں۔ اعمش کہتے ہیں : مجھ سے معاویہ بن قرہ نے اپنے شیوخ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے چار رکعتیں پڑھیں، تو ان سے کہا گیا : آپ نے عثمان پر اعتراض کیا، پھر خود ہی چار پڑھنے لگے ؟ تو انہوں نے کہا : اختلاف برا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ٢ (١٠٨٤) ، والحج ٨٤ (١٦٥٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٥) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٣ (١٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٨، ٤١٦، ٤٢٢، ٤٢٥، ٤٦٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٧ (١٩١٦) (صحیح ) Narrated Abdur-Rahman bin Zaid: Uthman prayed four rakahs at Mina. Abdullah (bin Masud) said: I prayed two rakahs along with the Prophet ﷺ and two rakahs along with Umar. The version of Hafs added: And along with Uthman during the early period of his caliphate. He (Uthman) began to offer complete prayer (i. e. four rakahs) later on. The version of Abu Muawiyah added: Then your modes of action varied. I would like to pray two rakahs acceptable to Allah instead of four rakahs. Al-Amash said: Muawiyah bin Qurrah reported to me from his teachers: Abdullah (bin Masud) once prayed four rakahs. He was told: You criticized Uthman but you yourself prayed four ? He replied: Dissension is evil.
منی میں نماز کا بیان
زہری سے روایت ہے کہ عثمان (رض) نے منیٰ میں چار رکعتیں صرف اس لیے پڑھیں کہ انہوں نے حج کے بعد وہاں اقامت کی نیت کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، زہری نے عثمان (رض) کو نہیں پایا ہے )
منی میں نماز کا بیان
ابراہیم کہتے ہیں عثمان (رض) نے چار رکعتیں پڑھیں اس لیے کہ انہوں نے منیٰ کو وطن بنا لیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، ابراہیم نخعی نے عثمان (رض) کو نہیں پایا ہے )
منی میں نماز کا بیان
زہری کہتے ہیں جب عثمان (رض) نے طائف میں اپنی جائیداد بنائی اور وہاں قیام کرنے کا ارادہ کیا تو وہاں چار رکعتیں پڑھیں، وہ کہتے ہیں : پھر اس کے بعد ائمہ نے اسی کو اپنا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود (ضعیف) (سند میں زہری اور عثمان (رض) کے درمیان انقطاع ہے )
منی میں نماز کا بیان
زہری سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان (رض) نے منیٰ میں نماز اس وجہ سے پوری پڑھی کہ اس سال بدوی لوگ بہت آئے تھے تو انہوں نے چار رکعتیں پڑھیں تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ نماز (اصل میں) چار رکعت ہی ہے (نہ کہ دو ، جو قصر کی صورت میں پڑھی جاتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود (حسن لغیرہ) (سند میں زہری اور عثمان (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دوسرے متصل طریق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہوئی، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٦ ؍ ٢٠٦ )
اہل مکہ کے لئے قصر صلوة کا حکم
ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر (رض) کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٢ (١٠٨٣) ، والحج ٨٤ (١٦٥٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٦) ، سنن الترمذی/الحج ٥٢ (٨٨٢) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٢ (١٤٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٨٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محقق علماء کا قول یہ ہے کہ اہل مکہ بھی منیٰ اور عرفات میں قصر کریں گے، یہ حج کے مسائل میں سے ہے، یہاں مسافر اور مقیم کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سوار ہو کر بطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا، آپ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے کہا : فضل بن عباس (رض) ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہوگئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے (یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٣ (٣٠٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٥٠٣، ٥/٢٧٠، ٣٧٩، ٦/٣٧٩) (حسن )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمرہ عقبہ کے پاس سوار دیکھا اور میں نے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں میں کنکریاں تھیں، تو آپ نے بھی رمی کی اور لوگوں نے بھی رمی کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمرات کی رمی سواری پر درست ہے، لیکن موجودہ حالات میں منتظمین حج کے احکام کی روشنی میں مناسک حج، قربانی، اور رمی جمرات وغیرہ کے کام انجام دینا چاہیے۔
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
اس سند سے بھی یزید بن ابی زیاد سے اسی طریق سے اسی حدیث کے ہم مثل مروی ہے اس میں ولم يقم عندها اور اس کے پاس نہیں ٹھہرے کا جملہ زائد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٦٦، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٠٦) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ یوم النحر کے بعد تین دنوں میں جمرات کی رمی کے لیے پیدل چل کر آتے تھے اور پیدل ہی واپس جاتے اور وہ بتاتے تھے کہ خود نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٧٧٢٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٦٣ (٨٩٩) ، مسند احمد (٢/١١٤، ١٣٨، ١٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ رمی جمرات کے لئے پیدل چل کر آنا افضل ہے۔
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر یوم النحر کو رمی کر رہے تھے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : تم لوگ اپنے حج کے ارکان سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے اس حج کے بعد کوئی حج کرسکوں گا یا نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٣ (١٢٩٧) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٠ (٣٠٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ٢٨٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٩ (٨٩٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٥ (٣٠٥٣) ، مسند احمد (٣/٣١٣، ٣١٩، ٤٠٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٧) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی سواری پر بیٹھ کر یوم النحر کو چاشت کے وقت رمی کرتے دیکھا پھر اس کے بعد جو رمی کی (یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ کو) تو وہ زوال کے بعد کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ٥٣ (١٢٩٩) ، سنن الترمذی/ الحج ٥٩ (٨٩٤) ، سنن النسائی/ الحج ٢٢١ (٣٠٦٥) ، سنن ابن ماجہ/ ٧٥ المناسک (٣٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٣١٢، ٣٩٩) ، دی/ المناسک ٥٨ (١٩٣٧) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
وبرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ کنکریاں کب ماروں ؟ آپ نے کہا : جب تمہارا امام کنکریاں مارے تو تم بھی مارو، میں نے پھر یہی سوال کیا، انہوں نے کہا : ہم سورج ڈھلنے کا انتظار کرتے تھے تو جب سورج ڈھل جاتا تو ہم کنکریاں مارتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٤ (١٧٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٨٥٥٤) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (یوم النحر) کے آخری حصہ میں جس وقت ظہر پڑھ لی طواف افاضہ کیا، پھر منیٰ لوٹے اور تشریق کے دنوں تک وہاں ٹھہرے رہے، جب سورج ڈھل جاتا تو ہر جمرے کو سات سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، اور پہلے اور دوسرے جمرے پر دیر تک ٹھہرتے، روتے، گڑگڑاتے اور دعا کرتے اور تیسرے جمرے کو کنکریاں مار کر اس کے پاس نہیں ٹھہرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٩٠) (صحیح) (لیکن صلی الظہر ۔ ظہر پڑھی۔ کا جملہ صحیح نہیں ہے )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا : اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورة البقرہ نازل کی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٣٥ (١٧٤٧) ، ١٣٨ (١٧٥٠) ، صحیح مسلم/الحج ٥٠ (١٢٩٦) ، سنن الترمذی/الحج ٦٤ (٩٠١) ، سنن النسائی/المناسک ٢٢٦ (٣٠٧٣، ٣٠٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٤ (٣٠٣٠) ، ( تحفة الأشراف : ٩٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٤، ٤٠٨، ٤١٥، ٤٢٧، ٤٣٠، ٤٣٢، ٤٣٦، ٤٥٦، ٤٥٨) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو (منیٰ میں) رات نہ گزارنے کی رخصت دی اور یہ کہ وہ یوم النحر کو رمی کریں، پھر اس کے بعد والے دن یعنی گیارہویں کو گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں، اور پھر روانگی کے دن (تیرہویں کو) رمی کریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٠٨ (٩٥٤ و ٩٥٥) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٥ (٣٠٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٧ (٣٠٣٦، ٣٠٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٧٢ (٢١٨) ، مسند احمد (٥/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٨) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
عاصم بن عدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ناغہ کریں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٥٠٣٠) (صحیح )
رمی جمار (کنکریاں مارنے) کا بیان
ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے رمی جمرات کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے چھ کنکریاں ماریں یا سات ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ٢٢٧ (٣٠٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦٥٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عباس (رض) کو معلوم نہ ہوسکا تھا ، دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات سے ہر جمرے کو سات کنکریاں مارنا ثابت ہے۔
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی جمرہ عقبہ کی رمی کرلے تو اس کے لیے سوائے عورتوں کے ہر چیز حلال ہے ١ ؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حدیث ضعیف ہے، حجاج نے نہ تو زہری کو دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے سنا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٣) (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : بیویوں سے صحبت یا بوس وکنار اس وقت جائز ہوگا جب حاجی طواف زیارت سے فارغ ہوجائے۔ ٢ ؎ : مسند احمد کی سند میں زہری کی جگہ ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ہیں حجاج بن أرطاۃ کا ان سے سماع ثابت ہے، نیز حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں۔
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللهم ارحم المحلقين اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم کر ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور کٹوانے والوں پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللهم ارحم المحلقين اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور کٹوانے والوں پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اور کٹوانے والوں پر بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٧ (١٧٢٧) ، صحیح مسلم/الحج ٥٥ (١٣٠١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧١ (٣٠٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ٧٩٤٧، ١٨٣٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٤٧ (٩١٣) ، موطا امام مالک/الحج ٦٠(١٨٤) ، مسند احمد (٢/٣٤، ٧٩، ١٣٨، ١٥١) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٤ (١٩٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال منڈانا کتروانے سے زیادہ بہتر ہے۔
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈوایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازی ٧٨ (٤٤١٠) ، صحیح مسلم/ الحج ٥٥ (١٣٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٥٤) ، وقد أخرجہ : (٢/٨٨، ١٢٨) (صحیح ) ہشام بن حسان سے اس سند سے بھی یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اس طرح ہے آپ ﷺ نے حلاق (سر مونڈنے والے) سے فرمایا : میرے دائیں جانب سے شروع کرو اور اسے مونڈو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٤٥٦) (صحیح )
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا) ، اس نے آپ ﷺ کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ١ ؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا : ابوطلحہ یہاں ہیں ؟ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٦ (١٣٠٥) ، سنن الترمذی/الحج ٧٣ (٩١٢) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧١) ، مسند احمد (٣/١١١، ٢٠٨، ٢١٤، ٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانے کے مقابلے میں منڈوانا زیادہ بہتر ہے، اور بال منڈوانے اور کتروانے میں یہ خیال رہے کہ اس کو داہنی جانب سے شروع کرے، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہیے۔
None
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلاق ( سر مونڈنے والے ) سے فرمایا: میرے دائیں جانب سے شروع کرو اور اسے مونڈو ۔
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے : کوئی حرج نہیں ، چناچہ ایک شخص نے پوچھا : میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ذبح کرلو، کوئی حرج نہیں ، دوسرے نے کہا : مجھے شام ہوگئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ ﷺ نے فرمایا : رمی اب کرلو، کوئی حرج نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٤ (٨٤) ، والحج ١٢٥(١٧٢٣) ، ١٣٠ (١٧٣٥) ، والأیمان ١٥ (٦٦٦٦) ، سنن النسائی/الحج ٢٢٤ (٣٠٦٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٤ (٣٠٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦٠٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٥٧ (١٣٠٧) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٥٨، ٢٦٩، ٢٩١، ٣٠٠، ٣١١، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حج میں نحر (قربانی) کے دن جمرہ کبری کو کنکری مارنا ، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارہ) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے، مگر اس حدیث کی روشنی میں رمی، ذبح، حلق، اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہوگا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگا۔
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں پر حلق نہیں صرف تقصير (بال کٹانا) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٥٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/المناسک ٦٣ (١٩٤٦) (صحیح) (اگلی سند سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے )
سر منڈانے اور بال کتروانے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں پر حلق نہیں بلکہ صرف تقصير (بال کٹانا) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٥٧٦) (صحیح )
عمرہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے عمرہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٢ (١٧٧٤) ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٤٥) (صحیح )
عمرہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو ذی الحجہ میں عمرہ صرف اس لیے کرایا کہ مشرکین کا خیال ختم ہوجائے اس لیے کہ قریش کے لوگ نیز وہ لوگ جو ان کے دین پر چلتے تھے، کہتے تھے : جب اونٹ کے بال بڑھ جائیں اور پیٹھ کا زخم ٹھیک ہوجائے اور صفر کا مہینہ آجائے تو عمرہ کرنے والے کا عمرہ درست ہوگیا، چناچہ وہ ذی الحجہ اور محرم (اشہر حرم) کے ختم ہونے تک عمرہ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٥٧٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٤) ، ومناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٢) ، صحیح مسلم/الحج ٣١ (١٢٤٠) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨١٦) ، ١٠٨ (٢٨٧٠) ، مسند احمد (١/٢٥٢، ٢٦١) (حسن )
عمرہ کا بیان
ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے مروان کے قاصد (جسے ام معقل (رض) کے پاس بھیجا گیا تھا) نے خبر دی ہے کہ ام معقل کا بیان ہے کہ ابو معقل (رض) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کو نکلنے والے تھے جب وہ آئے تو ام معقل (رض) کہنے لگیں : آپ کو معلوم ہے کہ مجھ پر حج واجب ہے ١ ؎، چناچہ دونوں (ام معقل اور ابو معقل رضی اللہ عنہما) چلے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ام معقل نے کہا : اللہ کے رسول ! ابو معقل کے پاس ایک اونٹ ہے اور مجھ پر حج واجب ہے ؟ ابو معقل نے کہا : یہ سچ کہتی ہے، میں نے اس اونٹ کو اللہ کی راہ میں دے دیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اونٹ اسے دے دو کہ وہ اس پر سوار ہو کر حج کرلے، یہ بھی اللہ کی راہ ہی میں ہے ، ابومعقل نے ام معقل کو اونٹ دے دیا، پھر وہ کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! میں عمر رسیدہ اور بیمار عورت ہوں ٢ ؎ کوئی ایسا کام ہے جو حج کی جگہ میرے لیے کافی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : رمضان میں عمرہ کرنا (میرے ساتھ) حج کرنے کی جگہ میں کافی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٩٥ (٩٣٩) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤٢٢٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٥ (٢٩٩٣) ، مسند احمد (٦/٤٠٥، ٤٠٦) (حسن) (اس کے راوی ابراہیم حافظہ کے کمزور ہیں مگر حدیث نمبر (١٩٩٠) سے اس کو تقویت مل رہی ہے، نیز رمضان میں عمرہ کے ثواب سے متعلق جملہ کے شواہد صحیحین میں بھی ہیں، ہاں عورت کا قول إني امرأة ... من حجتي ؟ صحیح نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن میرے لئے رسول اللہ ﷺ کی معیت مقدر نہیں تھی اور میں نہیں جاسکی۔ ٢ ؎ : اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ میں حج کب کرسکوں گی۔ ٣ ؎ : یعنی رمضان میں عمرہ کا ثواب میرے ساتھ حج کے ثواب کے برابر ہے۔
عمرہ کا بیان
ام معقل (رض) کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کیا تو ہمارے پاس ایک اونٹ تھا لیکن ابومعقل (رض) نے اسے اللہ کی راہ میں دے دیا تھا ہم بیمار پڑگئے، اور ابومعقل (رض) چل بسے، نبی اکرم ﷺ حج کو تشریف لے گئے، جب اپنے حج سے واپس ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ام معقل ! کس چیز نے تمہیں ہمارے ساتھ (حج کے لیے) نکلنے سے روک دیا ؟ ، وہ بولیں : ہم نے تیاری تو کی تھی لیکن اتنے میں ابومعقل کی وفات ہوگئی، ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہم حج کیا کرتے تھے، ابومعقل نے اسے اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کردی، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اسی اونٹ پر سوار ہو کر کیوں نہیں نکلیں ؟ حج بھی تو اللہ کی راہ میں ہے، لیکن اب تو ہمارے ساتھ تمہارا حج جاتا رہا تم رمضان میں عمرہ کرلو، اس لیے کہ یہ بھی حج کی طرح ہے ، ام معقل (رض) کہا کرتی تھیں حج حج ہے اور عمرہ عمرہ ہے ١ ؎ لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہی فرمایا اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ حکم میرے لیے خاص تھا (یا سب کے لیے ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٨٥٧، ١٨٣٦١) (صحیح لغیرہ) (اس کے راوی محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے، نیز عیسیٰ لین الحدیث ہیں، لیکن رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے کے ٹکڑے کے شواہد صحیحین اور دیگر مصادر میں ہیں ، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، ہاں : آخری ٹکڑا : فکانت تقول إلخ کا شاہد نہیں ہے، اس لئے ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٦ ؍ ٢٣٠ ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں ایک مرتبہ میں نہیں ہے۔
عمرہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ کیا، ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا : مجھے بھی اپنے اونٹ پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرائیں، انہوں نے کہا : میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کراؤں، وہ کہنے لگی : مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کراؤ، تو انہوں نے کہا : وہ اونٹ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! میری بیوی آپ کو سلام کہتی ہے، اس نے آپ کے ساتھ حج کرنے کی مجھ سے خواہش کی ہے، اور کہا ہے : مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرائیں، میں نے اس سے کہا : میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کراؤں، اس نے کہا : مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کرائیں، میں نے اس سے کہا : وہ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : سنو اگر تم اسے اس اونٹ پر حج کرا دیتے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں ہوتا ۔ اس نے کہا : اس نے مجھے یہ بھی آپ سے دریافت کرنے کے لیے کہا ہے کہ کون سی چیز آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے سلام کہو اور بتاؤ کہ رمضان میں عمرہ کرلینا میرے ساتھ حج کرلینے کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود ( تحفة الأشراف : ٥٣٧٤) ، وقد أخرجہ : (صحیح البخاری/العمرة ٤(١٧٨٢) ، صحیح مسلم/الحج ٣٦ (٢٢١) بدون ذکر : ” أن الحج في سبیل اللہ “۔ (حسن صحیح )
عمرہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کئے : ایک ذی قعدہ میں اور دوسرا شوال میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٨٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں ام المومنین عائشہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے عمرے کی مجموعی تعداد کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ایک سال کے اندر آپ ﷺ نے دو عمرے کئے : ایک ذی قعدہ میں اور ایک شوال میں، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک سال کے اندر دو عمرہ نبی اکرم ﷺ نے کبھی نہیں کیا ہے، اور حج کے ساتھ والے عمرے کو چھوڑ کر آپ ﷺ کے سارے عمرے ذی قعدہ میں ہوئے ہیں، پھر ام المومنین عائشہ (رض) کا عمر ۃ فی شوّال کہنا ان کا وہم ہے، اور اگر اسے محفوظ مان لیا جائے تو اس کی تاویل یہ ہوگی اس عمرہ سے مراد عمرہ جعرانہ ہے جو اگرچہ ذی قعدہ ہی میں ہوا ہے، لیکن مکہ سے حنین کے لئے آپ شوال ہی میں نکلے تھے، اور واپسی پر جعرانہ سے احرام باندھ کر یہ عمرہ کیا تھا تو نکلنے کا لحاظ کرکے انہوں نے اس کی نسبت شوال کی طرف کردی ہے۔
عمرہ کا بیان
مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کئے ؟ انہوں نے جواب دیا : دو بار ١ ؎، اس پر ام المؤمنین عائشہ (رض) نے کہا : ابن عمر (رض) کو یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمرے کے علاوہ جو آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ ملایا تھا تین عمرے کئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٧٣٨٤، ١٧٥٧٤) (ضعیف) (اس کے راوی ابواسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت ہے، مگر اس میں مذکور عمروں کی تعداد صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎ : عبداللہ بن عمر (رض) نے عمرہ حدیبیہ کو اور اسی طرح حج کے ساتھ والے عمرہ کو شمار نہیں کیا۔
عمرہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے : ایک عمرہ حدیبیہ کا، دوسرا وہ عمرہ جسے آئندہ سال کرنے پر اتفاق کیا تھا، تیسرا عمرہ جعرانہ کا ١ ؎، اور چوتھا وہ جسے آپ ﷺ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٧ (٨١٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٠ (٣٠٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٦، ٣٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٩ (١٩٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” جعرانة “: طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے، نبی اکرم ﷺ نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔
عمرہ کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے اور وہ تمام ذی قعدہ میں تھے سوائے اس کے جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہاں سے آگے کے الفاظ میں نے ابوالولید سے بھی سنے لیکن انہیں یاد نہیں رکھ سکا، البتہ ہدبہ کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں کہ : ایک حدیبیہ کے زمانے کا، یا حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ ذی قعدہ میں جعرانہ کا جب آپ ﷺ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایا، اور چوتھا وہ عمرہ جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٣ (١٧٧٨) ، صحیح مسلم/الحج ٣٥ (١٢٥٣) ، سنن الترمذی/الحج ٦ (٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٥٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٣ (١٨٢٨) (صحیح )
جو عورت عمرہ کا احرام باندھے پھر اس کو حیض آجائے اور حج کا وقت آن پہنچے تو وہ عمرہ کو چھور دے اور حج کا احرام باندھ لے پھر عمرہ کی قضاء کرے
عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن (رض) سے فرمایا : عبدالرحمٰن ! اپنی بہن عائشہ کو بٹھا کرلے جاؤ اور انہیں تنعیم ١ ؎ سے عمرہ کرا لاؤ، جب تم ٹیلوں سے تنعیم میں اترو تو چاہیئے کہ وہ احرام باندھے ہو، کیونکہ یہ مقبول عمرہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٦٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمرة ٦ (١٧٨٤) ، والجھاد ١٢٥ (٢٩٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٢) ، سنن الترمذی/الحج ٩١ (٩٣٤) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٨ (٢٩٩٩) ، مسند احمد (١/١٩٧، ١٩٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٤١ (١٩٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ” تنعيم “ : ایک مقام ہے مکہ سے تین میل کے فاصلے پر، اب وہاں پر ایک مسجد بن گئی ہے جسے مسجد عائشہ کہتے ہیں، عمرہ کا احرام حرم سے باہر نکل کر باندھنا چاہیے، یہ مقام بہ نسبت دوسرے مقامات کے زیادہ قریب ہے اس لئے آپ ﷺ نے عائشہ (رض) کو وہیں سے عمرہ کرانے کا حکم دیا۔
جو عورت عمرہ کا احرام باندھے پھر اس کو حیض آجائے اور حج کا وقت آن پہنچے تو وہ عمرہ کو چھور دے اور حج کا احرام باندھ لے پھر عمرہ کی قضاء کرے
محرش کعبی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جعرانہ میں داخل ہوئے تو مسجد آئے اور وہاں اللہ نے جتنی چاہا نماز پڑھی، پھر احرام باندھا، پھر اپنی سواری پر جم کر بیٹھ گئے اور وادی سرف کی طرف بڑھے یہاں تک کہ مدینہ کے راستہ سے جا ملے، پھر آپ نے صبح مکہ میں اس طرح کی جیسے کوئی رات کو مکہ میں رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٩٢ (٩٣٥) ، سنن النسائی/الحج ١٠٤ (٢٨٦٦، ٢٨٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٢٦، ٤٢٧، ٤/٦٩، ٥/٣٨٠) سنن الدارمی/المناسک ٤١ (١٩٠٣) (صحیح) دون رکوعہ في المسجد، فإنہ منکر
عمرے میں قیام کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ قضاء میں تین دن قیام فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٣٧٦) (صحیح )
طواف اضافہ کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کو طواف افاضہ کیا پھر منی میں ظہر ادا کی یعنی (طواف سے) لوٹ کر۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٨ (١٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٠٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٦٨) ، مسند احمد (٢/٣٤) (صحیح )
طواف اضافہ کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میری وہ رات جس میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے یوم النحر کی شام تھی، چناچہ آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اتنے میں وہب بن زمعہ اور ان کے ساتھ ابوامیہ کی اولاد کا ایک شخص دونوں قمیص پہنے میرے یہاں آئے، رسول اللہ ﷺ نے وہب سے پوچھا : ابوعبداللہ ! کیا تم نے طواف افاضہ کرلیا ؟ وہ بولے : قسم اللہ کی ! نہیں اللہ کے رسول، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر اپنی قمیص اتار دو ، چناچہ انہوں نے اپنی قمیص اپنے سر سے اتار دی اور ان کے ساتھی نے بھی اپنے سر سے اپنی قمیص اتار دی پھر بولے : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ دن ہے کہ جب تم جمرہ کو کنکریاں مار لو تو تمہارے لیے وہ تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی جو تمہارے لیے حالت احرام میں حرام تھیں سوائے عورتوں کے، پھر جب شام کرلو اور بیت اللہ کا طواف نہ کرسکو تو تمہارا احرام باقی رہے گا، اسی طرح جیسے رمی جمرات سے پہلے تھا یہاں تک کہ تم اس کا طواف کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٨١٨٦، ١٨١٧٥، ١٨٢٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٩٥، ٣٠٣) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے یوم النحر کو طواف زیارت کرنے کی تاکید ثابت ہوتی ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس دن کسی نے طواف نہیں کیا تو وہ دوبارہ احرام میں واپس لوٹ آئے گا، جب تک وہ طواف نہ کرلے وہ احرام ہی میں رہے (ملاحظہ ہو : صحیح ابن خزیمہ (کتاب المناسک، باب النهي عن الطيب واللباس إذا أمسى الحاج يوم النحر قبل أن يفيض وکل ما زجر الحاج عنه قبل رمي الجمرة يوم النحر، حدیث نمبر : ٢٩٥٨ )
طواف اضافہ کا بیان
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یوم النحر کا طواف رات تک مؤخر کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ١٢٩ (قبیل ١٧٣٢) تعلیقًا، سنن الترمذی/الحج ٨٠ (٩٢٠) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٧ (٣٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥٢، ١٧٥٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٦٩) ، مسند احمد (١/٢٨٨) (ضعیف) ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز صحیح احادیث کے مطابق رسول اکرم ﷺ نے طواف افاضہ دن میں زوال کے بعد کیا تھا، (ملاحظہ ہو : زاد المعاد، و صحیح ابی داود ٦ ؍ ١٨٥ ) وضاحت : ١ ؎ : دسویں تاریخ کے طواف کو طواف زیارہ یا طواف افاضہ کہتے ہیں۔
طواف اضافہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے طواف افاضہ کے سات پھیروں میں رمل نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٧ (٣٠٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩١٧) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : معلوم ہوا کہ دوران طواف دلکی چال جسے رمل کہتے ہیں وہ صرف طواف قدوم میں مشروع ہے طواف افاضہ وغیرہ میں مشروع نہیں۔
طواف وداع کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ لوگ ہر جانب سے (مکہ سے) لوٹتے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی مکہ سے کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف (طواف وداع) ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٧ (١٣٢٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٢ (٣٠٧٠) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٤ (١٧٥٥) ، مسند احمد (١/٢٢٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٥ (١٩٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسے طواف صدر یا طواف وداع کہتے ہیں، بعض اہل علم کے نزدیک یہ سنت ہے، اور بعض کے نزدیک واجب ، اگر عورت کو چلتے وقت حیض آجائے تو وہ یہ طواف چھوڑ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
حائضہ عورت طواف افاضہ کے بعد جا سکتی ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صفیہ بنت حیي (رض) کا ذکر کیا تو لوگوں نے عرض کیا : انہیں حیض آگیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : لگتا ہے وہ ہم کو روک لیں گی ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو کوئی بات نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٧١٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٧ (٣٢٨) ، والحج ٣٤ (١٥٦٢) ، والمغازي ٧٧ (٤٤٠٨) ، والطلاق ٤٣ (٥٣٢٩) ، والأدب ٩٣ (٦١٥٧) ، صحیح مسلم/الحیض ٦٧ (١٢١١) ، سنن الترمذی/الحیض ٩٩ (٩٤٣) ، سنن النسائی/الحیض ٢٣ (٣٩١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٣ (٣٠١٢) ، موطا امام مالک/الحج ٧٥(٢٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٨، ٣٩، ٨٢، ٩٩، ١٢٢، ١٦٤، ١٧٥، ١٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٣ (١٩٥٨) (صحیح )
حائضہ عورت طواف افاضہ کے بعد جا سکتی ہے
حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا اور آپ سے اس عورت کے متعلق پوچھا جو یوم النحر کو بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کرچکی ہو، پھر اسے حیض آگیا ہو ؟ انہوں نے کہا : وہ آخری طواف (طواف وداع) کر کے جائے (یعنی : طواف وداع کا انتظار کرے) ، حارث نے کہا : اسی طرح مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھی بتایا تھا، اس پر عمر نے کہا تیرے دونوں ہاتھ گرجائیں ١ ؎! تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جسے تم رسول اللہ ﷺ سے پوچھ چکے تھے تاکہ میں اس کے خلاف بیان کروں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٠١ (٩٤٦) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری/ الحج (٤١٨٥) ، مسند احمد (٣/٤١٦) (صحیح) (صحیح تو ہے مگر پچھلی حدیث سے منسوخ ہے، پہلے یہ حکم تھا بعد میں منسوخ ہوگیا جو ان دونوں صحابی (رض) سے مخفی رہ گیا ) وضاحت : ١ ؎ : بظاہر یہ بددعا ہے لیکن حقیقت میں بددعا مقصود نہیں بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ ایسا کرکے تم نے غلط کام کیا ہے۔
طواف وداع کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے تنعیم سے عمرے کا احرام باندھا پھر میں (مکہ) گئی اور اپنا عمرہ پورا کیا، رسول اللہ ﷺ نے مقام ابطح ١ ؎ میں میرا انتظار کیا یہاں تک کہ میں فارغ ہو کر (آپ کے پاس واپس آگئی) تو آپ نے لوگوں کو روانگی کا حکم دیا، آپ ﷺ خانہ کعبہ آئے اور اس کا طواف کیا پھر روانہ ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٤٣، ١٧٤٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : وہ میدان جو مکہ اور منیٰ کے درمیان ہے اسے وادی محصب بھی کہتے ہیں۔
طواف وداع کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آخری دن کی روانگی میں نکلی تو آپ وادی محصب میں اترے، (ابوداؤد کہتے ہیں : ابن بشار نے اس حدیث میں ان کے تنعیم بھیجے جانے کا واقعہ ذکر نہیں کیا) پھر میں صبح کو آپ ﷺ کے پاس آئی، تو آپ نے لوگوں میں روانگی کی منادی کرا دی، پھر خود روانہ ہوئے تو فجر سے پہلے بیت اللہ سے گزرے اور نکلتے وقت اس کا طواف کیا، پھر مدینہ کا رخ کر کے چل پڑے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٣٤، ١٧٤٤١) (صحیح )
طواف وداع کا بیان
عبدالرحمٰن بن طارق اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب یعلیٰ کے گھر کی جگہ سے آگے بڑھتے (اس جگہ کا نام عبیداللہ بھول گئے) تو بیت اللہ کی جانب رخ کرتے اور دعا مانگتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٢٣ (٢٨٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٣٦، ٤٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : نہ تو یہ حدیث صحیح ہے اور نہ ہی باب سے اس کا کوئی تعلق ہے
وادی محصب میں اترنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ محصب میں صرف اس لیے اترے تاکہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے میں آسانی ہو، یہ کوئی سنت نہیں، لہٰذا جو چاہے وہاں اترے اور جو چاہے نہ اترے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٦٧٨٥، ١٧٣٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٧ (١٧٦٥) ، صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١١) ، سنن الترمذی/الحج ٨٢ (٩٢٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨١ (٣٠٦٧) ، مسند احمد (٦/١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : محصب، ابطح، بطحاء، خیف کنانہ سب ہم معنی ہیں اور اس سے مراد مکہ اور منٰی کے درمیان کا علاقہ ہے جو منٰی سے زیادۃ قریب ہے۔ محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ، رسول اکرم ﷺ زوال کے بعد آرام فرمانے کے لئے یہاں اقامت کی تھی اور یہاں پر عصر، ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ادا فرمائیں اور چودہویں رات گزاری، لیکن چونکہ آپ ﷺ نے یہاں نزول فرمایا، تو آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا ہے، امام شافعی ، امام مالک اور جمہور اہل علم نے رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے، اور اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں، نیز ظہر، عصر اور مغرب و عشاء کی نماز پڑھنی ، نیز رات کا ایک حصہ یا پوری رات سونا رسول اکرم ﷺ کی اقتدا میں مستحب ہے۔
وادی محصب میں اترنے کا بیان
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابورافع (رض) کہتے ہیں : مجھے آپ (رسول اللہ ﷺ ) نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ میں وہاں (محصب میں) اتروں، میں نے وہاں آپ ﷺ کا خیمہ نصب کیا تھا، آپ وہاں اترے تھے۔ مسدد کی روایت میں ہے، وہ (ابورافع) نبی اکرم ﷺ کے اسباب کے محافظ تھے اور عثمان (رض) کی روایت میں يعني في الأبطح کا اضافہ ہے (مطلب یہ ہے کہ وہ ابطح میں محافظ تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٠١٦) (صحیح )
وادی محصب میں اترنے کا بیان
اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کل حج میں کہاں اتریں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا عقیل نے کوئی گھر ہمارے لیے (مکہ میں) چھوڑا ہے ؟ ، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : ہم خیف بنو کنانہ میں اتریں گے جہاں قریش نے کفر پر عہد کیا تھا (یعنی وادی محصب میں) ١ ؎، اور وہ یہ کہ بنو کنانہ نے قریش سے بنی ہاشم کے خلاف قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے، نہ خریدو فروخت، اور نہ انہیں پناہ دیں گے۔ زہری کہتے ہیں : خیف وادی کا نام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٤ (١٥٨٨) ، والجھاد ١٨٠ (٣٠٥٨) ، ومناقب الأنصار ٣٩ (٤٢٨٢) ، والمغازي ٤٨ (٤٢٨٢) ، والتوحید ٣١ (٧٤٧٩) ، صحیح مسلم/الحج ٨٠ (١٣٥١) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض ٦ (٢٧٣٠) ، والمناسک ٢٦ (٢٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الفرائض ١٥ (٢١٠٧) ، موطا امام مالک/الفرائض ١٣ (١٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٧) ، سنن الدارمی/الفرائض ٢٩ (٣٠٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : نبی اکرم ﷺ اس وادی میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے اترے کہ جہاں پر کفر کا دور دورہ تھا، اب وہاں اسلام کا غلبہ ہوگیا۔
وادی محصب میں اترنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب منیٰ سے کوچ کرنے کا قصد کیا تو فرمایا : ہم وہاں کل اتریں گے ۔ پھر راوی نے ویسا ہی بیان کیا، اس روایت میں نہ تو حدیث کے شروع کے الفاظ ہیں، اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ خیف وادی کا نام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الحج ٤٥ (١٥٩٠) ، صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٣١٤) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/ ٢٣٧، ٥٤٠) (صحیح )
وادی محصب میں اترنے کا بیان
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) بطحاء میں نیند کی ایک جھپکی لے لیتے پھر مکہ میں داخل ہوتے اور بتاتے کہ رسول اللہ ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٦٦٥٨، ٧٥٩٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٨(١٧٦٧) ، صحیح مسلم/الحج ٥٩ (١٢٧٥) ، سنن الترمذی/الحج ٨١ (٩٢١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨١ (٣٠٦٨) ، مسند احمد (٢/٢٨، ١٣٨) (صحیح )
وادی محصب میں اترنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء بطحاء میں پڑھی پھر ایک نیند سوئے، پھر مکہ میں داخل ہوئے اور ابن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٦٦٥٨، ٧٥٩٠) (صحیح )
مناسک حج کی ترتیب الٹ جانے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں منیٰ میں ٹھہرے، لوگ آپ سے سوالات کر رہے تھے، آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور بولا : اللہ کے رسول ! مجھے معلوم نہ تھا میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذبح کرلو کوئی حرج نہیں ، پھر ایک اور شخص آیا اور بولا : اللہ کے رسول ! مجھے معلوم نہ تھا میں نے رمی کرنے سے پہلے نحر کرلیا، آپ ﷺ نے فرمایا : رمی کرلو، کوئی حرج نہیں ، اس طرح جتنی چیزوں کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا گیا جو آگے پیچھے ہوگئیں تھیں آپ نے فرمایا : کر ڈالو، کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٣ (٨٣) ، الحج ١٣١ (١٧٣٦) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٥) ، صحیح مسلم/الحج ٥٧ (١٣٠٦) ، سنن الترمذی/الحج ٧٦ (٩١٦) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٤١٠٦) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٤ (٣٠٥١) ، ( تحفة الأشراف : ٨٩٠٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٢) ، مسند احمد (٢/١٥٩، ١٦٠، ١٩٢، ٢٠٢، ٢١٠، ٢١٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٥ (١٩٤٨) (صحیح )
مناسک حج کی ترتیب الٹ جانے کا بیان
اسامہ بن شریک (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلا، لوگ آپ کے پاس آتے تھے جب کوئی کہتا : اللہ کے رسول ! میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی یا میں نے ایک چیز کو مقدم کردیا یا مؤخر کردیا تو آپ ﷺ فرماتے : کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، حرج صرف اس پر ہے جس نے کسی مسلمان کی جان یا عزت و آبرو پامال کی اور وہ ظالم ہو، ایسا ہی شخص ہے جو حرج میں پڑگیا اور ہلاک ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٢٨) (صحیح )
مکہ (خانہ کعبہ) میں سترہ کے بغیر نماز پڑھنے کا بیان
مطلب بن ابی وداعہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو باب بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا، لوگ آپ ﷺ کے سامنے سے گزر رہے تھے بیچ میں کوئی سترہ نہ تھا ١ ؎۔ سفیان کے الفاظ یوں ہیں : ان کے اور کعبہ کے درمیان کوئی سترہ نہ تھا۔ سفیان کہتے ہیں : ابن جریج نے ان کے بارے میں ہمیں بتایا کہ کثیر نے اپنے والد سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے اسے اپنے والد سے نہیں سنا، بلکہ گھر کے کسی فرد سے سنا اور انہوں نے میرے دادا سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/القبلة ٩ (٧٥٩) ، والحج ١٦٢ (٢٩٦٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٣ (٢٩٥٨) ، ( تحفة الأشراف : ١١٢٨٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٩) (ضعیف) (اس کے راوی بعض أہلہ مبہم مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث ضعیف ہے، اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، سترہ کے بارے میں وارد تمام احادیث مطلق اور عام ہیں، ان میں کسی جگہ کی کوئی قید نہیں خواہ صحراء ہو ، یا مسجد حتی کہ حرمین شریفین کی مساجد بھی اس حکم سے مستثنی نہیں ہیں، اس لئے ہر جگہ سترہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔
مکہ کے حرم کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مکہ فتح کرا دیا، تو آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : اللہ نے ہی مکہ سے ہاتھیوں کو روکا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنین کا اقتدار قائم کیا، میرے لیے دن کی صرف ایک گھڑی حلال کی گئی اور پھر اب قیامت تک کے لیے حرام کردی گئی، نہ وہاں (مکہ) کا درخت کاٹا جائے، نہ اس کا شکار بدکایا جائے، اور نہ وہاں کا لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کسی کے لیے حلال ہے، بجز اس کے جو اس کی تشہیر کرے ، اتنے میں عباس (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! سوائے اذخر کے ١ ؎ (یعنی اس کا کاٹنا درست ہونا چاہیئے) اس لیے کہ وہ ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوائے اذخر کے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : ابن مصفٰی نے ولید سے اتنا اضافہ کیا ہے : تو اہل یمن کے ایک شخص ابوشاہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے لکھ کر دے دیجئیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابو شاہ کو لکھ کر دے دو ، (ولید کہتے ہیں) میں نے اوزاعی سے پوچھا : اکتبوا لأبي شاه سے کیا مراد ہے، وہ بولے : یہی خطبہ ہے جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ٧ (٢٤٣٤) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٥) ، سنن الترمذی/الدیات ١٣ (١٤٠٥) ، سنن النسائی/القسامة ٢٤ (٤٧٨٩، ٤٧٩٠، ٤٧٩١) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٣ (٢٦٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٣٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٠ (٢٦٤٢) ، ویأتی ہذا الحدیث فی العلم (٣٦٤٩، ٣٦٥٠) وفی الدیات (٤٥٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ ایک خوشبو دار گھاس ہے۔
مکہ کے حرم کا بیان
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے یہی واقعہ مروی ہے اس میں اتنا زائد ہے لا يختلى خلاها (اور اس کے پودے نہ کاٹے جائیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ جزاء الصید ٩ (١٨٣٤) ، الجہاد ١(٢٧٨٣) صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٣) ، سنن الترمذی/ السیر ٣٣ (١٥٩٠) ، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (٣٨٥٧) ، ( تحفة الأشراف : ٥٧٤٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٥٩، ٣١٥، ٣٥٥) ویأتی ہذا الحدیث فی الجہاد (٢٤٨٠) (صحیح )
مکہ کے حرم کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے لیے منیٰ میں ایک گھر یا عمارت نہ بنادیں جو آپ کو دھوپ سے سایہ دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں یہ (منیٰ ) اس کی جائے قیام ہے جو یہاں پہلے پہنچ جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥١ (٨٨١) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٥٢ (٣٠٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨٧، ٢٠٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٧ (١٩٨٠) (ضعیف) (یوسف کی والدہ مسیکہ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی منیٰ کا میدان وقف ہے حاجیوں کے لئے وہ کسی کی خاص ملکیت نہیں ہے اگر کوئی وہاں پہلے پہنچے اور کسی جگہ اتر جائے تو دوسرا اس کو اٹھا نہیں سکتا چونکہ مکان بنانے میں ایک جگہ پر اپنا قبضہ اور حق جما لینا ہے اس لئے آپ نے اس سے منع فرمایا۔
مکہ کے حرم کا بیان
یعلیٰ بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حرم میں غلہ روک کر رکھنا اس میں الحاد (کج روی) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١١٨٤٨) (ضعیف) (اس کے رواة جعفر، عمارة اور موسیٰ سب ضعیف ہیں )
نبیذ کی سبیل لگانے کا بیان
بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے ایک شخص نے پوچھا : کیا وجہ ہے کہ اس گھر کے لوگ نبیذ (کھجور کا شربت) پلاتے ہیں اور آپ کے چچا کے بیٹے (قریش) دودھ، شہد اور ستو پلاتے ہیں ؟ کیا یہ لوگ بخیل یا محتاج ہیں ؟ ابن عباس نے کہا : نہ ہم بخیل ہیں اور نہ محتاج، بلکہ رسول اللہ ﷺ ایک روز اپنی سواری پر بیٹھ کر آئے، آپ ﷺ کے پیچھے اسامہ بن زید (رض) تھے، آپ ﷺ نے پینے کو کچھ مانگا تو نبیذ پیش کیا گیا، آپ نے اس میں سے پیا اور باقی ماندہ اسامہ (رض) کو دے دیا، تو انہوں نے بھی اس میں سے پیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے اچھا کیا اور خوب کیا ایسے ہی کیا کرو ، تو ہم اسی کو اختیار کئے ہوئے ہیں جسے رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا، اسے ہم بدلنا نہیں چاہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٠ (١٣١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٤٥، ٢٩٢، ٣٣٦، ٣٦٩، ٣٧٣) (صحیح )
مہاجرین کے لئے مکہ میں ٹھہرنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن حمید سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو سائب بن یزید سے پوچھتے سنا : کیا آپ نے مکہ میں رہائش اختیار کرنے کے سلسلے میں کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : مجھے ابن حضرمی نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مہاجرین کے لیے حج کے احکام سے فراغت کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤٧ (٣٩٣٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨١ (١٣٥٢) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٣ (٩٤٩) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ٣ (١٤٥٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧٦ (١٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٣٩، ٥/٥٢) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨ (١٢٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : تاکہ وہ اس دوران اپنی ضرورتیں پوری کرلیں اس سے زیادہ انہیں رکنے کی اجازت نہیں کیونکہ وہ اللہ کے لئے اس شہر کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، اسامہ بن زید، عثمان بن طلحہ حجبی اور بلال رضی اللہ عنہم کعبہ میں داخل ہوئے، پھر ان لوگوں نے اسے بند کرلیا، اور اس میں رکے رہے، عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : میں نے بلال (رض) سے جب وہ باہر آئے تو پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا کیا ؟ وہ بولے : آپ نے ایک ستون اپنے بائیں طرف اور دو ستون دائیں طرف اور تین ستون اپنے پیچھے کیا (اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پر قائم تھا) پھر آپ نے نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧) ، ٨١ (٤٨٦) ، ٩٦ (٥٠٤) ، التھجد ٢٥ (١١٦٧) ، الحج ٥١ (١٥٩٨) ، الجھاد ١٢٧ (٢٩٨٨) ، المغازي ٤٩ (٤٢٨٩) ، ٧٧ (٤٤٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٢٩) ، سنن النسائی/المساجد ٥ (٦٩٣) ، القبلة ٦ (٧٥٠) ، الحج ١٢٦ (٢٩٠٨) ، ١٢٧ (٢٩٠٩) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٩ (٣٠٦٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٣٧، ٨٣٣١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٤٦ (٨٧٤) ، موطا امام مالک/الحج ٦٣ (١٩٣) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٥٥، ١١٣، ١٢٠، ١٣٨، ٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٣ (١٩٠٨) (صحیح )
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
اس سند سے بھی مالک سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ستونوں کا ذکر نہیں، البتہ اتنا اضافہ ہے پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی، آپ کے اور قبلے کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٣٧، ٨٣٣١) (صحیح )
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے قعنبی کی حدیث کے ہم مثل روایت کی ہے اس میں اس طرح ہے کہ ابن عمر (رض) کہتے ہیں : میں ان سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ نے کتنی رکعتیں پڑھیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم (٢٠٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٣٧) (صحیح )
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
عبدالرحمٰن بن صفوان کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٠٥٩٠) ، وقد أخرجہ : (حم ٣/٤٣٠، ٤٣١) (صحیح )
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ آئے تو آپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر لیے ہوئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ انہیں ہلاک کرے، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں (ابراہیم اور اسماعیل) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا ، وہ کہتے ہیں : پھر آپ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے گوشوں اور کونوں میں تکبیرات بلند کیں، پھر بغیر نماز پڑھے نکل آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧) ، وأحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٥١) ، والحج ٥٤ (١٦٠١) ، والمغازي ٤٨ (٤٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٢٩) ، سنن النسائی/المناسک ١٣٠ (٢٩١٦) ، مسند احمد (١/٣٣٤، ٣٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : فال کے ان تیروں پر ” افعل “ ،” لا تفعل “ ،” لا شيء “ لکھا ہوتا تھا، ان کی عادت تھی جب وہ سفر پر نکلتے تو اس کو ایک تھیلی میں ڈال کر اس میں سے ایک کو نکالتے، اگر حسن اتفاق سے اس تیر پر افعل لکھا ہوتا تو سفر پر نکلتے، اور لا تفعل لکھا ہوتا تو سفر کو ملتوی کردیتے اور اگر لا شيء لکھا رہتا تو پھر دوبارہ سب کو ڈال کر نکالتے، یہاں تک کہ افعل یا لا تفعل نکل آئے، رہی یہ بات کہ ” آپ نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی “ تو یہ ابن عباس (رض) نے اپنے علم کی بنیاد پر کہا ہے، ترجیح بلال (رض) کے بیان کو ہے جنہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کردیا، اور فرمایا : جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پر اکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الحج ١٢٩ (٢٩١٥) ، سنن الترمذی/الحج ٤٨ (٨٧٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٤٢ (١٥٨٣) ، وأحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٨) ، و تفسیر سورة البقرة ١٠ (٤٤٨٤) ، والتمنی ٩ (٧٢٤٣) ، صحیح مسلم/الحج ٦٩ (٣٩٨) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣١ (٢٩٥٥) ، موطا امام مالک/الحج ٣٣(١٠٤) ، مسند احمد (٦/٦٧، ٩٢، ٩٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٤ (١٩١١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : حطیم کے حصہ کو عبداللہ بن زبیر (رض) نے اپنے دور خلافت میں کعبے کے اندر شامل کردیا تھا، لیکن حجاج بن یوسف نے جب ان پر چڑھائی کی اور کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو اس نے پھر نئے سرے سے اس کی تعمیر کروائی اور حطیم کو چھوڑ دیا اور آج تک ویسے ہی ہے۔
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے نکلے اور آپ خوش تھے پھر میرے پاس آئے اور آپ غمگین تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں کعبے کے اندر گیا اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی ١ ؎ تو میں اس میں داخل نہ ہوتا، مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٤٥ (٨٧٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٧٩ (٣٠٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٢٣٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی اسماعیل کثیرالوہم ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : کہ لوگوں کو کعبہ کے اندر داخل ہونے میں بڑی پریشانیاں اٹھانا پڑیں گی۔ ٢ ؎ : آپ ﷺ کا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا عوام نے کعبہ کے اندر جانے کو ضروری سمجھ لیا چناچہ اس کے لئے انہیں بڑی دھکم پیل کرنی پڑتی تھی، اللہ بھلا کرے سعودی حکومت کا جس نے کعبہ کے اندر عام لوگوں کا داخلہ بند کردیا۔
کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان
اسلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے عثمان (رض) سے پوچھا ١ ؎: جب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بلایا تو آپ سے کیا کہا ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں یہ بتانا بھول گیا کہ مینڈھے ٢ ؎ کی دونوں سینگوں کو چھپا دو اس لیے کہ کعبہ میں کوئی چیز ایسی رہنی مناسب نہیں ہے جو نماز پڑھنے والے کو غافل کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٧٦٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : عثمان سے مراد عثمان بن طلحہ حجبی (رض) ہیں۔ ٢ ؎ : اس دنبہ کی سینگیں جس کو اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ پر ذبح کرنے کے لئے جبریل (علیہ السلام) لے آئے تھے۔
خانہ کعبہ میں مدفون مال کا بیان
شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) اس جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو اور کہا : میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال ١ ؎ (محتاج مسلمانوں میں) تقسیم نہ کر دوں، میں نے کہا : آپ ایسا نہیں کرسکتے، فرمایا : کیوں نہیں، میں ضرور کروں گا، میں نے کہا : آپ ایسا نہیں کرسکتے، وہ بولے : کیوں ؟ میں نے کہا : اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس مال کی جگہ دیکھی، ابوبکر (رض) نے بھی دیکھ رکھی تھی، اور وہ دونوں اس مال کے آپ سے زیادہ حاجت مند تھے لیکن انہوں نے اسے نہیں نکالا، یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور باہر نکل آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٨ (١٥٩٤) ، والاعتصام ٢ (٧٢٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٠٥ (٣١١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤٨٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال امام مہدی کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔
خانہ کعبہ میں مدفون مال کا بیان
زبیر (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لیّۃ ١ ؎ سے لوٹے اور بیری کے درخت کے پاس پہنچے تو رسول اللہ ﷺ قرن اسود ٢ ؎ کے دامن میں اس کے بالمقابل کھڑے ہوئے پھر اپنی نگاہ سے نخب ٣ ؎ کا استقبال کیا (اور راوی نے کبھی ( نخبا کے بجائے واديه کا لفظ کہا) اور ٹھہر گئے تو سارے لوگ ٹھہر گئے تو فرمایا : صیدوج ٤ ؎ اور اس کے درخت محترم ہیں، اللہ کی طرف سے محترم قرار دیئے گئے ہیں ، یہ آپ ﷺ کے طائف میں اترنے اور ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے کی بات ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٦٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦٥) (ضعیف) (اس کے راوی محمد اور عبداللہ دونوں ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : ایک پہاڑ کا نام ہے جو طائف سے قریب ہے۔ ٢ ؎ : حجاز میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ٣ ؎ : ایک جگہ کا نام ہے۔ ٤ ؎ : طائف میں ایک وادی کا نام ہے ۔
مدینہ میں آمد کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کجاوے صرف تین ہی مسجدوں کے لیے کسے جائیں : مسجد الحرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصی کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصلاة ١ (١١٨٩) ، صحیح مسلم/الحج ٩٥ (١٣٩٧) ، سنن النسائی/المساجد ١٠ (٦٩٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٣٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٦ (١٤٠٩) ، موطا امام مالک/ الجمعة ٧ (١٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٢٣٨، ٢٧٨) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٢ (١٤٦١) (صحیح )
مدینہ کے حرم کا بیان
علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس صحیفے ١ ؎ میں ہے کچھ نہیں لکھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ حرام ہے عائر سے ثور تک (عائر اور ثور دو پہاڑ ہیں) ، جو شخص مدینہ میں کوئی بدعت (نئی بات) نکالے، یا نئی بات نکالنے والے کو پناہ اور ٹھکانا دے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہوگا اور نہ کوئی نفل، مسلمانوں کا ذمہ (عہد) ایک ہے (مسلمان سب ایک ہیں اگر کوئی کسی کو امان دیدے تو وہ سب کی طرف سے ہوگی) اس (کو نبھانے) کی ادنی سے ادنی شخص بھی کوشش کرے گا، لہٰذا جو کسی مسلمان کی دی ہوئی امان کو توڑے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہوگا اور نہ نفل، اور جو اپنے مولی کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے ولاء کرے ٢ ؎ اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہوگا اور نہ نفل ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٩ (١١١) ، و فضائل المدینة ١ (١٨٦٧) ، والجھاد ١٧١ (٣٠٤٧) ، والجزیة ١٠ (٣١٧٢، ٣١٧٩) ، والفرائض ٢١ (٦٧٥٥) ، والدیات ٢٤ (٦٩٠٣) ، والاعتصام ٥ (٧٣٠٠) ، صحیح مسلم/الحج ٨٥ (١٣٧٠) ، سنن الترمذی/الدیات ١٦ (١٤١٢) ، والولاء والھبة ٣ (٢١٢٧) ، سنن النسائی/القسامة ٩، ١٠ (٤٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٢١ (٢٦٥٨) ، مسند احمد (١/٨١، ١٢٢، ١٢٦، ١٥١، ٢/٣٩٨) ، سنن الدارمی/الدیات ٥ (٢٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ صحیفہ ایک ورق تھا جس میں دیت کے احکام تھے ، علی (رض) اسے اپنی تلوار کی نیام میں رکھتے تھے۔ ٢ ؎ : یعنی کوئی اپنی آزادی کی نسبت کسی دوسرے کی طرف نہ کرے۔
مدینہ کے حرم کا بیان
علی (رض) سے اس قصے میں روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس (یعنی مدینہ) کی نہ گھاس کاٹی جائے، نہ اس کا شکار بھگایا جائے، اور نہ وہاں کی گری پڑی چیزوں کو اٹھایا جائے، سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے، کسی شخص کے لیے درست نہیں کہ وہ وہاں لڑائی کے لیے ہتھیار لے جائے، اور نہ یہ درست ہے کہ وہاں کا کوئی درخت کاٹا جائے سوائے اس کے کہ کوئی آدمی اپنے اونٹ کو چارہ کھلائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٠٢٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١١٩) (صحیح )
مدینہ کے حرم کا بیان
عدی بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے ہر جانب ایک ایک برید محفوظ کردیا ہے ١ ؎ نہ وہاں کا درخت کاٹا جائے گا اور نہ پتے توڑے جائیں گے مگر اونٹ کے چارے کے لیے (بہ قدر ضرورت) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٩٨٧٩) (حسن) (اس کے راوی سلیمان مجہول اور عبداللہ لین الحدیث ہیں، لیکن یہ حدیث شواہد کی بنا پر حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٦/٢٧٥، والصحیحة : ٣٢٤٣ ) وضاحت : ١ ؎ : چاروں اطراف مشرق، مغرب اور شمال جنوب کو ملا کر کل چار برید ہوئے اور ایک برید چار فرسخ کا ہوتا ہے اور ایک فرسخ تین میل کا اس طرح اس حدیث کی رو سے کل (٤٨) میل بنتا ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں (١٢) میل کی صراحت آئی ہے۔
مدینہ کے حرم کا بیان
سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کو پکڑا جو مدینہ کے حرم میں جسے رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیا ہے شکار کر رہا تھا، سعد نے اس سے اس کے کپڑے چھین لیے تو اس کے سات (٧) لوگوں نے آ کر ان سے اس کے بارے میں گفتگو کی، آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسے حرم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے : جو کسی کو اس میں شکار کرتے پکڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے کپڑے چھین لے ، لہٰذا میں تمہیں وہ سامان نہیں دوں گا جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے دلایا ہے البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کی قیمت دے دوں گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٨٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٨٥ (٤٠٦٠) ، مسند احمد (١/١٦٨، ١٧٠) (صحیح) (لیکن شکار کی بات منکر ہے، صحیح بات درخت کاٹنے کی ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے اور صحیح مسلم میں بھی یہی بات ہے )
مدینہ کے حرم کا بیان
سعد (رض) کے غلام سے روایت ہے کہ سعد نے مدینہ کے غلاموں میں سے کچھ غلاموں کو مدینہ کے درخت کاٹتے پایا تو ان کے اسباب چھین لیے اور ان کے مالکوں سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو منع کرتے سنا ہے کہ مدینہ کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے، آپ ﷺ نے فرمایا ہے : جو کوئی اس میں کچھ کاٹے تو جو اسے پکڑے اس کا اسباب چھین لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٣٩٥١) (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، مؤلف کی سند میں دو علتیں ہیں : صالح کا اختلاط اور مولی لسعد کا مبہم ہونا ) وضاحت : ١ ؎ : یہ جھڑکی اور ملامت کے طور پر ہے، پھر اسے واپس دیدے ، اکثر علماء کی یہی رائے ہے، اور بعض علماء نے کہا ہے کہ نہ دے۔
مدینہ کے حرم کا بیان
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے حرم سے نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ پتے توڑے جائیں البتہ نرمی سے جھاڑ لیے جائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٢٢١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اکثر علماء کے نزدیک حرم مدینہ کے درخت کاٹنے یا شکار مارنے میں کوئی سزا نہیں ہے، بعض علماء کے نزدیک سزا کا مستحق ہے۔
مدینہ کے حرم کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد قباء پیدل اور سوار (دونوں طرح سے) آتے تھے ابن نمیر کی روایت میں اور دو رکعت پڑھتے تھے (کا اضافہ ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة ٣ (١١٩٤) تعلیقًا، والاعتصام ١٦ (٧٣٢٣) ، صحیح مسلم/الحج ٩٧ (١٣٩٩) ، سنن النسائی/المساجد ٩ (٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٩٤١، ٨١٤٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/ قصرالصلاة ٢٣ (٧١) ، مسند احمد (٢/٥، ٣٠، ٥٧، ٥٨، ٦٥) (صحیح )
قبروں کی زیارت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٤٨٣٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥٢٧) (حسن )
قبروں کی زیارت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ١ ؎ اور میری قبر کو میلا نہ بناؤ (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں) ، اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ١٣٠٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس میں نماز پڑھنا اور عبادت کرنا نہ چھوڑو کہ تم اس میں مردوں کی طرح ہوجاؤ اس سے معلوم ہوا کہ جس گھر میں نماز اور عبادت نہیں ہوتی وہ قبرستان کے مانند ہے۔
قبروں کی زیارت کا بیان
ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ (رض) کو سوائے اس ایک حدیث کے کوئی اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے نہیں سنا، میں نے عرض کیا : وہ کون سی حدیث ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، آپ شہداء کی قبروں کا ارادہ رکھتے تھے جب ہم حرۂ واقم (ایک ٹیلے کا نام ہے) پر چڑھے اور اس پر سے اترے تو دیکھا کہ وادی کے موڑ پر کئی قبریں ہیں، ہم نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہمارے صحابہ کی قبریں ہیں ١ ؎، جب ہم شہداء کی قبروں کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف : ٤٩٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/١٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : جن کی موت اسلام پر ہوئی ہے اور وہ شہداء کا مقام نہیں پا سکے ہیں۔ ٢ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے اخوت کی نسبت ان کی طرف کی یہ ان کے لئے بڑے شرف کی بات ہے۔
قبروں کی زیارت کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بطحاء میں جو ذی الحلیفہ میں ہے اونٹ بٹھایا اور وہاں نماز پڑھی، چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٩ (٤٨٤) ، والحج ١٤ (١٥٣٢) ، ١٥ (١٥٣٣) ، ١٦ (١٥٣٥) ، والعمرة ١٤ (١٧٩٩) ، والمزارعة ١٦ (٢٣٣٦) ، صحیح مسلم/الحج ٦ (١١٨٨) ، ٧٧ (١٢٧٥) ، سنن النسائی/المناسک ٢٤ (٢٦٦٠) ، ( تحفة الأشراف : ٨٣٣٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٦٩(٢٠٦) ، مسند احمد (٢/٢٨، ٨٧، ١١٢، ١٣٨) (صحیح )
قبروں کی زیارت کا بیان
مالک کہتے ہیں جب کوئی مدینہ واپس لوٹے اور معرس پہنچے تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھے جب تک کہ نماز نہ پڑھ لے جتنا اس کا جی چاہے اس لیے کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں رات کو قیام کیا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میں نے محمد بن اسحاق مدنی کو کہتے سنا : معرس مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، موطا امام مالک/الحج/ عقب حدیث (٢٠٦) (صحیح )