9. روزوں کا بیان

【1】

روزہ کی فرضیت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ يا أيها الذين آمنوا کتب عليكم الصيام کما كتب على الذين من قبلکم اے ایمان والو ! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دئیے گئے تھے (سورۃ البقرہ : ١٨٣) نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اور عورتوں سے جماع کرنا حرام ہوجاتا، اور وہ آئندہ رات تک روزے سے رہتے، ایک شخص نے اپنے نفس سے خیانت کی، اس نے اپنی بیوی سے صحبت کرلی حالانکہ وہ عشاء پڑھ چکا تھا، اور اس نے روزہ نہیں توڑا تو اللہ تعالیٰ نے باقی لوگوں کو آسانی اور رخصت دینی اور انہیں فائدہ پہنچانا چاہا تو فرمایا : علم الله أنكم کنتم تختانون أنفسکم اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے (سورۃ البقرہ : ١٨٧) یہی وہ چیز تھی جس کا فائدہ اللہ نے لوگوں کو دیا اور جس کی انہیں رخصت اور آسانی دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٥٤) (حسن صحیح )

【2】

روزہ کی فرضیت

براء (رض) کہتے ہیں کہ (ابتداء اسلام میں) آدمی جب روزہ رکھتا تھا تو سونے کے بعد آئندہ رات تک کھانا نہیں کھاتا تھا، صرمۃ بن قیس انصاری (رض) کے ساتھ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا : کیا تیرے پاس کچھ (کھانا) ہے ؟ وہ بولی : کچھ نہیں ہے لیکن جاتی ہوں ہوسکتا ہے ڈھونڈنے سے کچھ مل جائے، تو وہ چلی گئی لیکن حرمہ کو نیند آگئی وہ آئی تو (دیکھ کر) کہنے لگی کہ اب تو تم (کھانے سے) محروم رہ گئے دوپہر کا وقت ہوا بھی نہیں کہ (بھوک کے مارے) ان پر غشی طاری ہوگئی اور وہ دن بھر اپنے زمین میں کام کرتے تھے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو یہ آیت أحل لکم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم روزے کی رات میں تمہارے لیے اپنی عورتوں سے جماع حلال کردیا گیا ہے (سورۃ البقرہ : ١٨٣) نازل ہوئی، اور آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول من الفجر تک پوری آیت پڑھی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٥ (١٩١٥) ، سنن الترمذی/تفسیرالبقرة ٣ (٢٩٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصیام ١٧(٢١٧٠) ، مسند احمد (٤/٢٩٥) ، سنن الدارمی/الصیام ٧ (١٧٣٥) (صحیح )

【3】

آیت قرآنی وعلی الذین یطیقونہ فدیتہ کی منسوخی کا بیان۔

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتی ہیں کہ جب یہ آیت وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دے دیں (سورۃ البقرہ : ١٨٣) نازل ہوئی تو جو شخص ہم میں سے روزے نہیں رکھنا چاہتا وہ فدیہ ادا کردیتا پھر اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٢٦ (٤٥٠٦) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٥ (١١٤٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٧٥ (٧٩٨) ، سنن النسائی/الصیام ٣٥ (٢٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ٢٩ (١٧٧٥) (صحیح )

【4】

آیت قرآنی وعلی الذین یطیقونہ فدیتہ کی منسوخی کا بیان۔

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آیت کریمہ وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص ایک مسکین کا کھانا فدیہ دینا چاہتا دے دیتا اور اس کا روزہ مکمل ہوجاتا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فمن تطوع خيرا فهو خير له وأن تصوموا خير لكم (سورۃ البقرہ : ١٨٤) پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزہ رکھنا ہی ہے ، پھر فرمایا : فمن شهد منکم الشهر فليصمه ومن کان مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر (سورۃ البقرہ : ١٨٥) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٥) (حسن )

【5】

اس کا بیان کہ حکم قرآنی جو لوگ باوجود قوت کے روزہ نہ رکھیں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اب بھی بوڑھے مرد اور عورت اور حاملہ عورتوں کے لئے باقی ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں اس آیت کا حکم حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے حق میں باقی رکھا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٦١٩٦) (صحیح )

【6】

اس کا بیان کہ حکم قرآنی جو لوگ باوجود قوت کے روزہ نہ رکھیں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اب بھی بوڑھے مرد اور عورت اور حاملہ عورتوں کے لئے باقی ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين زیادہ بوڑھے مرد و عورت (جو کہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں) کے لیے رخصت ہے کہ روزے نہ رکھیں، بلکہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور حاملہ نیز دودھ پلانے والی عورت بچے کے نقصان کا خوف کریں تو روزے نہ رکھیں، فدیہ دیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی مرضعہ اور حاملہ کو اپنے بچوں کے نقصان کا خوف ہو تو وہ بھی روزے نہ رکھیں اور ہر روزے کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٥) (شاذ) (اس لئے کہ زیادہ بوڑھوں کے لئے اب بھی فدیہ جائز ہے ، اور حاملہ و مرضعہ کا حکم فدیہ کا نہیں ہے بلکہ بعد میں روزے رکھ لینے کا ہے )

【7】

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : ہم ان پڑھ لوگ ہیں نہ ہم لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب و کتاب، مہینہ ایسا، ایسا اور ایسا ہوتا ہے، (آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بتایا) ، راوی حدیث سلیمان نے تیسری بار میں اپنی انگلی بند کرلی، یعنی مہینہ انتیس اور تیس دن کا ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٣(١٩١٣) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، سنن النسائی/الصیام ٨ (٢١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٦ (١٦٥٤) ، مسند احمد (٢/١٢٢) (صحیح )

【8】

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر روزے چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو ۔ راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر (رض) چاند دیکھتے اگر نظر آجاتا تو ٹھیک اور اگر نظر نہ آتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن روزہ نہ رکھتے اور اگر بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہوجاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے۔ راوی کا یہ بھی بیان ہے کہ ابن عمر (رض) لوگوں کے ساتھ ہی روزے رکھنا چھوڑتے تھے، اور اپنے حساب کا خیال نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢(١٠٨٠) ،(تحفة الأشراف : ٧٥٣٦، ١٩١٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٥) (صحیح )

【9】

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

ایوب کہتے ہیں : عمر بن عبدالعزیز نے بصرہ والوں کو لکھا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے متعلق معلوم ہوا ہے۔۔۔ ، آگے اسی طرح ہے جیسے ابن عمر (رض) کی اوپر والی مرفوع حدیث میں ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے : اچھا اندازہ یہ ہے کہ جب ہم شعبان کا چاند فلاں فلاں روز دیکھیں تو روزہ انشاء اللہ فلاں فلاں دن کا ہوگا، ہاں اگر چاند اس سے پہلے ہی دیکھ لیں (تو چاند دیکھنے ہی سے روزہ رکھیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٥٣٦ و ١٩١٤٦) (صحیح )

【10】

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تیس دن کے روزے کے مقابلے میں انتیس دن کے روزے زیادہ رکھے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٦ (٦٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٧٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٤١، ٣٩٧، ٤٠٥، ٤٠٨، ٤٤١، ٤٥٠) (صحیح )

【11】

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

ابوبکرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٢(١٩١٢) ، صحیح مسلم/الصوم ٧ (١٠٨٩) ، سنن الترمذی/الصوم ٨ (٦٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٣٨، ٤٧، ٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی دونوں ایک ہی سال میں انتیس انتیس دن کے نہیں ہوتے، ایک اگر انتیس ہے تو دوسرا تیس کا ہوگا، ایک مفہوم یہ بتایا جاتا ہے کہ ثواب کے اعتبار سے کم نہیں ہوتے اگر انتیس دن کے ہوں تب بھی پورے مہینے کا ثواب ملے گا۔

【12】

چاند دیکھنے میں اگر لوگوں سے غلطی ہو جائے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حدیث بیان کی، اس میں ہے : تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم افطار کرتے ہو ١ ؎ اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم قربانی کرتے ہو، پورا کا پورا میدان عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور سارا میدان منیٰ قربانی کرنے کی جگہ ہے نیز مکہ کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں، اور سارا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٦٠٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ١١ (٦٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٩ (١٦٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اسی جملے کی باب سے مطابقت ہے ، مطلب یہ ہے کہ : جب سارے کے سارے لوگ تلاش و جستجو اور اجتہاد کے بعد کسی دن چاند کا فیصلہ کرلیں اور اسی حساب سے روزہ اور افطار اور قربانی کرلیں اور بعد میں چاند دوسرے دن کا ثابت ہوجائے تو یہ اجتماعی غلطی معاف ہے۔

【13】

جب رمضان کے چاند پر ابر ہو

عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول ﷺ ماہ شعبان کی تاریخوں کا جتنا خیال رکھتے کسی اور مہینے کی تاریخوں کا اتنا خیال نہ فرماتے، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھتے، اگر وہ آپ پر مشتبہ ہوجاتا تو تیس دن پورے کرتے، پھر روزے رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٢٨٣) (صحیح )

【14】

جب رمضان کے چاند پر ابر ہو

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چاند دیکھے بغیر یا مہینے کی گنتی پوری کئے بغیر پہلے ہی روزے رکھنا شروع نہ کر دو ، بلکہ چاند دیکھ کر یا گنتی پوری کر کے روزے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٔ (٢١٢٨، ٢١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٦) ، وقد أخرجہ : حم (٤/٣١٤) (صحیح )

【15】

اگر انتیس رمضان کو شوال کا چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے پورے کرو

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہی روزے رکھنے شروع نہ کر دو ، ہاں اگر کسی کا کوئی معمول ہو تو رکھ سکتا ہے، اور بغیر چاند دیکھے روزے نہ رکھو، پھر روزے رکھتے جاؤ، (جب تک کہ شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، اگر اس کے درمیان بدلی حائل ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرو اس کے بعد ہی روزے رکھنا چھوڑو، اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : حاتم بن ابی صغیرہ، شعبہ اور حسن بن صالح نے سماک سے پہلی حدیث کے مفہوم کے ہم معنی روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے فأتموا العدة ثلاثين کے بعد ثم أفطروا نہیں کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥ (٦٨٨) ، سنن النسائی/الصیام ٧ (٢١٣١) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ١(٣) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٢٦، ٢٥٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٥) (صحیح )

【16】

رمضان کو مقدم کرنے کا بیان

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے پوچھا : کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ١ ؎؟ ، جواب دیا : نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو ، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے : دو روزے رکھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٢(١٩٨٣ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٧ (١١٦١) ، (عندالجمیع : ” من سرر شعبان “ )، (تحفة الأشراف : ١٠٨٤٤، ١٠٨٥٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٤٣٢، ٤٣٤، ٤٤٢، ٤٤٣، ٤٤٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٥ (١١٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں شهر (مہینہ) کی بجائے سرر (آخر ماہ) کا لفظ ہے ، بلکہ خود مؤلف کے بعض نسخوں میں بھی یہی لفظ ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ : ” اس آدمی کی عادت تھی کہ ہر مہینہ کے اخیر میں روزہ رکھا کرتا تھا، مگر رمضان سے ایک دو دن برائے استقبال رمضان روزہ کی ممانعت “ سن کر اس نے اپنے معمول والا یہ روزہ نہیں رکھا، تو آپ ﷺ نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ایسا فرمایا، یعنی : رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کا اگر کسی کا معمول ہو تو وہ رکھ سکتا ہے ، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معمول کی عبادت اگر کسی سبب سے چھوٹ جائے تو اس کی قضا کر لینی چاہیے۔

【17】

رمضان کو مقدم کرنے کا بیان

ابوازہر مغیرہ بن فروہ کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے دیر مسحل پر (جو کہ حمص کے دروازے پر واقع ہے) ، کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا : لوگو ! ہم نے چاند فلاں فلاں دن دیکھ لیا ہے اور میں سب سے پہلے روزہ رکھ رہا ہوں، جو شخص روزہ رکھنا چاہے رکھ لے، مالک بن ہبیرہ سبئی نے کھڑے ہو کر ان سے کہا : معاویہ ! یہ بات آپ نے رسول ﷺ سے سن کر کہی ہے، یا آپ کی اپنی رائے ہے ؟ جواب دیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : رمضان کے مہینے کے روزے رکھو اور آخر شعبان کے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٤) (ضعيف) (اس کے راوی مغیرہ بن فروہ لین الحدیث ہیں )

【18】

رمضان کو مقدم کرنے کا بیان

سلیمان بن عبدالرحمٰن نے اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ ولید کہتے ہیں : میں نے ابوعمرو یعنی اوزاعی کو کہتے سنا ہے کہ سرہ کے معنی اوائل ماہ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٦٦) (شاذ مقطوع) (کیونکہ صحیح معنی : اواخرماہ ہے )

【19】

رمضان کو مقدم کرنے کا بیان

ابومسہر کہتے ہیں سعید یعنی ابن عبدالعزیز کہتے ہیں سره کے معنی أوله کے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : سره کے معنی کچھ لوگ وسطه کے بتاتے ہیں اور کچھ لوگ آخره کے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٨٩٦٦، ١٨٦٩٣) (شاذ )

【20】

اگر ایک شہر میں دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چاند نظر آجائے

کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ (رض) کے پاس شام بھیجا، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آگیا تو ابن عباس (رض) نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا ؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا : تم نے خود دیکھا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس (رض) نے کہا : لیکن ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم چاند نظر آنے تک روزہ رکھتے رہیں گے، یا تیس روزے پورے کریں گے، تو میں نے کہا کہ کیا معاویہ کی رؤیت اور ان کا روزہ کافی نہیں ہے ؟ کہنے لگے : نہیں، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٥ (١٠٨٧) ، سنن الترمذی/الصیام ٩ (٦٩٣) ، سنن النسائی/الصیام ٥ (٢١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٠٦) (صحیح ) حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی شہر میں ہو اور اس نے دوشنبہ (پیر) کے دن کا روزہ رکھ لیا ہو اور دو آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے اتوار کی رات چاند دیکھا ہے (اور اتوار کو روزہ رکھا ہے) تو انہوں نے کہا : وہ شخص اور اس شہر کے باشندے اس دن کا روزہ قضاء نہیں کریں گے، ہاں اگر معلوم ہوجائے کہ مسلم آبادی والے کسی شہر کے باشندوں نے سنیچر کا روزہ رکھا ہے تو انہیں بھی ایک روزے کی قضاء کرنی پڑے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ فتوی اس حدیث کے خلاف ہے جس میں ہے کہ : اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کی گواہی پر ایک روزہ رکھنے کا حکم صادر فرمایا اور دو آمیوں کی گواہی پر عید کرنے کا حکم دیا ، یعنی : بات سچی گواہی پر منحصر ہے نہ کہ جم غفیر کے عمل پر۔

【21】

None

جو کسی شہر میں ہو اور اس نے دوشنبہ ( پیر ) کے دن کا روزہ رکھ لیا ہو اور دو آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے اتوار کی رات چاند دیکھا ہے ( اور اتوار کو روزہ رکھا ہے ) تو انہوں نے کہا: وہ شخص اور اس شہر کے باشندے اس دن کا روزہ قضاء نہیں کریں گے، ہاں اگر معلوم ہو جائے کہ مسلم آبادی والے کسی شہر کے باشندوں نے سنیچر کا روزہ رکھا ہے تو انہیں بھی ایک روزے کی قضاء کرنی پڑے گی ۱؎۔

【22】

یوم الشک کو روزہ رکھنا مکروہ ہے

صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم اس دن میں جس دن کا روزہ مشکوک ہے عمار (رض) کے پاس تھے، ان کے پاس ایک (بھنی ہوئی) بکری لائی گئی، تو لوگوں میں سے ایک آدمی (کھانے سے احتراز کرتے ہوئے) الگ ہٹ گیا اس پر عمار (رض) نے کہا : جس نے ایسے (شک والے) دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١(١٩٠٦ تعلیقاً ) ، سنن الترمذی/الصوم ٣ (٦٨٦) ، سنن النسائی/الصیام ٢٠ (٢١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣ (١٦٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ١(١٧٢٤) (صحیح )

【23】

جو شخص روزہ رکھ کر شعبان کو رمضان سے ملا دے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں اگر کوئی آدمی پہلے سے روزہ رکھتا آ رہا ہے تو وہ ان دنوں کا روزہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٤(١٩١٤) ، صحیح مسلم/الصیام ٣ (١٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٢ (٦٨٥) ، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢١٧١) ، ٣٨ (٢١٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٥٠) ، مسند احمد (٢/٢٣٤، ٣٤٧، ٤٠٨، ٤٣٨، ٤٧٧، ٤٩٧، ٥١٣، ٥٢١) ، سنن الدارمی/الصوم ٤ (١٧٣١) (صحیح )

【24】

جو شخص روزہ رکھ کر شعبان کو رمضان سے ملا دے

ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سال میں کسی مہینے کے مکمل روزے نہ رکھتے سوائے شعبان کے اسے رمضان سے ملا دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ١٩ (٢١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤ (١٦٤٨) ، مسند احمد (٦/٣٠٠، ٣١١) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٣ (١٧٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ صرف نبی اکرم ﷺ کے لئے خاص تھا، کیونکہ آپ ﷺ نے امت کو نصف شعبان کے بعد روزے سے منع فرمایا ہے، تاکہ رمضان کے لئے قوت حاصل ہوجائے۔

【25】

آخر شعبان میں روزہ رکھنے کی کراہت

عبدالعزیز بن محمد کہتے ہیں کہ عباد بن کثیر مدینہ آئے تو علاء کی مجلس کی طرف مڑے اور (جا کر) ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھڑا کیا پھر کہنے لگے : اے اللہ ! یہ شخص اپنے والد سے اور وہ ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نصف شعبان ہوجائے تو روزے نہ رکھو ، علاء نے کہا : اے اللہ ! میرے والد نے یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے مجھ سے بیان کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ثوری، شبل بن علاء، ابو عمیس اور زہیر بن محمد نے علاء سے روایت کیا، نیز ابوداؤد نے کہا : عبدالرحمٰن (عبدالرحمٰن ابن مہدی) اس حدیث کو بیان نہیں کرتے تھے، میں نے احمد سے کہا : ایسا کیوں ہے ؟ وہ بولے : کیونکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کو (روزہ رکھ کر) رمضان سے ملا دیتے تھے، نیز انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ سے اس کے برخلاف مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : میرے نزدیک یہ اس کے خلاف نہیں ہے ١ ؎ اسے علاء کے علاوہ کسی اور نے ان کے والد سے روایت نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٣٨ (٧٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥ (١٦٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ٣٤ (١٧٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس لئے کہ وہ بات آپ ﷺ کے لئے خاص تھی ، اور یہ بات عام امت کے لئے ہے۔

【26】

شوال کا چاند دیکھنے کی دو آدمیوں کی شہادت

ابو مالک اشجعی سے روایت ہے کہ ہم سے حسین بن حارث جدلی نے (جو جدیلہ قیس سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کیا کہ امیر مکہ نے خطبہ دیا پھر کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم چاند دیکھ کر حج ادا کریں، اگر ہم خود نہ دیکھ سکیں اور دو معتبر گواہ اس کی رویت کی گواہی دیں تو ان کی گواہی پر حج ادا کریں، میں نے حسین بن حارث سے پوچھا کہ امیر مکہ کون تھے ؟ کہا کہ میں نہیں جانتا، اس کے بعد وہ پھر مجھ سے ملے اور کہنے لگے : وہ محمد بن حاطب کے بھائی حارث بن حاطب تھے پھر امیر نے کہا : تمہارے اندر ایک ایسے شخص موجود ہیں جو مجھ سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو جانتے ہیں اور وہ اس حدیث کے گواہ ہیں، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ حسین کا بیان ہے کہ میں نے اپنے پاس بیٹھے ایک بزرگ سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں جن کی طرف امیر نے اشارہ کیا ہے ؟ کہنے لگے : یہ عبداللہ بن عمر (رض) ہیں اور امیر نے سچ ہی کہا ہے کہ وہ اللہ کو ان سے زیادہ جانتے ہیں، اس پر انہوں نے (ابن عمر (رض) نے) کہا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی کا حکم فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٢٧٥) (صحیح )

【27】

شوال کا چاند دیکھنے کی دو آدمیوں کی شہادت

نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں رمضان کے آخری دن لوگوں میں (چاند کی رویت پر) اختلاف ہوگیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٤، ٥/٣٦٢) (صحیح )

【28】

اگر رمضان کے چاند پر ایک ہی گواہ مرتب ہو تب بھی روزہ رکھیں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور اس نے عرض کیا : میں نے چاند دیکھا ہے، (راوی حسن نے اپنی روایت میں کہا ہے یعنی رمضان کا) تو آپ ﷺ نے اس اعرابی سے پوچھا : کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ؟ اس نے جواب دیا : ہاں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا : کیا اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے جواب دیا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : بلال ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٧ (٦٩١) ، سنن النسائی/الصوم ٦ (٢١١٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦ (١٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٤، ١٩١١٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ٦ (١٧٣٤) (ضعیف) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں بڑا اضطراب پایا جاتا ہے ، نیز سماک کے اکثر تلامذ نے اسے عن عکرمہ عن النبی ﷺ … مرسلاً روایت کیا ہے )

【29】

اگر رمضان کے چاند پر ایک ہی گواہ مرتب ہو تب بھی روزہ رکھیں

عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک بار لوگوں کو رمضان کے چاند (کی روئیت) سے متعلق شک ہوا اور انہوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ نہ تو تراویح پڑھیں گے اور نہ روزے رکھیں گے، اتنے میں مقام حرہ سے ایک اعرابی آگیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی چناچہ اسے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے جایا گیا، آپ نے اس سے سوال کیا : کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، اور چاند دیکھنے کی گواہی بھی دی چناچہ آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں منادی کردیں کہ لوگ تراویح پڑھیں اور روزہ رکھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ایک جماعت نے سماک سے اور انہوں نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور سوائے حماد بن سلمہ کے کسی اور نے تراویح پڑھنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٤، ١٩١١٣) (ضعیف )

【30】

اگر رمضان کے چاند پر ایک ہی گواہ مرتب ہو تب بھی روزہ رکھیں

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی (لیکن انہیں نظر نہ آیا) اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ میں نے اسے دیکھا ہے، چناچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٨٥٤٣) ، وقد أخرجہ : سنن الدارمی/الصوم ٦ (١٧٣٣) (صحیح )

【31】

سحری کھانے کی تاکید

عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں سحری کھانے کا فرق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٩ (١٠٩٦) ، سنن الترمذی/الصوم ١٧ (٧٠٩) ، سنن النسائی/الصیام ٢٧ (٢١٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٩٧، ٢٠٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٩ (١٧٣٩) (صحیح )

【32】

سحری کو دوپہر کا کھانا بھی کہا گیا ہے

عرباض بن ساریہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں سحری کھانے کے لیے بلایا اور یوں کہا : بابرکت غداء پر آؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ١٣ (٢١٦٥) ،(تحفة الأشراف : ٩٨٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧) (حسن لغیرہ) (ابو رہم مجہول ہیں، حدیث کے شواہد سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحيحة للألباني : 3408، وتراجع الألباني : 192 )

【33】

سحری کو دوپہر کا کھانا بھی کہا گیا ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھجور مومن کی کتنی اچھی سحری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٧) (صحیح )

【34】

سحری کھانے کا وقت

سوادہ قشیری کہتے ہیں کہ سمرہ بن جندب (رض) خطبہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان ہرگز نہ روکے اور نہ آسمان کے کنارے کی سفیدی (صبح کاذب) ہی باز رکھے، جو اس طرح (لمبائی میں) ظاہر ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ پھیل جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٨ (١٠٩٤) ، سنن الترمذی/الصوم ١٥ (٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصیام ١٨ (٢١٧٣) ، مسند احمد (٥/٧، ٩، ١٣، ١٨) (صحیح )

【35】

سحری کھانے کا وقت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے ہرگز نہ روکے، کیونکہ وہ اذان یا ندا دیتے ہیں تاکہ تم میں قیام کرنے (تہجد پڑھنے) والا تہجد پڑھنا بند کر دے، اور سونے والا جاگ جائے، فجر کا وقت اس طرح نہیں ہے ۔ مسدد کہتے ہیں : راوی یحییٰ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کر کے اور دونوں شہادت کی انگلیاں دراز کر کے اشارے سے سمجھایا یعنی اوپر کو چڑھنے والی روشنی صبح صادق نہیں بلکہ صبح کاذب ہے، یہاں تک اس طرح ہوجائے (یعنی روشنی لمبائی میں پھیل جائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣ (٦٢١) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٨) ، أخبارالآحاد ١ (٧٢٤٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٨ (١٠٩٣) ، سنن النسائی/الأذان ١١ (٦٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٣ (١٦٩٦) (تحفة الأشراف : ٩٣٧٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٨٦، ٣٩٢، ٤٣٥) (صحیح )

【36】

سحری کھانے کا وقت

طلق (رض) سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ پیو، اور اوپر کو چڑھنے والی روشنی تمہیں کھانے پینے سے قطعاً نہ روکے اس وقت تک کھاؤ، پیو جب تک کہ سرخی چوڑائی میں نہ پھیل جائے یعنی صبح صادق نہ ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ١٥ (٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣) (حسن صحیح )

【37】

سحری کھانے کا وقت

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ حتى يتبين لکم الخيط الأبيض من الخيط الأسود یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے (سورۃ البقرہ : ١٨٧) نازل ہوئی تو میں نے ایک سفید اور ایک کالی رسی لے کر اپنے تکیے کے نیچے (صبح صادق جاننے کی غرض سے) رکھ لی، میں دیکھتا رہا لیکن پتہ نہ چل سکا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ہنس پڑے اور کہنے لگے، تمہارا تکیہ تو بڑا لمبا چوڑا ہے، اس سے مراد رات اور دن ہے ۔ عثمان کی روایت میں ہے : اس سے مراد رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٦(١٩١٦) ، و تفسیر البقرة ٢٨ (٤٥٠٩) ، صحیح مسلم/الصیام ٨ (١٠٩٠) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة ١٧ (٢٩٧٠ م) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٧٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٧ (١٧٣٦) (صحیح )

【38】

جب صبح کی اذان ہو اور کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور (کھانے پینے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٤٢٣، ٥١٠) (حسن صحیح )

【39】

روزہ افطار کرنے کا وقت

عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٣(١٩٥٤) ، صحیح مسلم/الصیام ١٠ (١١٠٠) ، سنن الترمذی/الصوم ١٢ (٦٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٨، ٣٥، ٤٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١١ (١٧٤٢) (صحیح )

【40】

روزہ افطار کرنے کا وقت

سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کو کہتے سنا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے آپ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : بلال ! (سواری سے) اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو ، بلال (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر اور شام ہوجانے دیں تو بہتر ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو ، بلال (رض) نے پھر کہا : اللہ کے رسول ! ابھی تو دن ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو ، چناچہ وہ اترے اور ستو گھولا، آپ ﷺ نے اسے نوش فرمایا پھر فرمایا : جب تم دیکھ لو کہ رات ادھر سے آگئی تو روزے کے افطار کا وقت ہوگیا ، اور آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے مشرق کی جانب اشارہ فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٣ (١٩٤١) ، ٤٣ (١٩٥٥) ، ٤٥ (١٩٥٨) ، والطلاق ٢٢ (٥٢٩٧) ، صحیح مسلم/الصیام ١١(١١٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٨٠، ٣٨٢) (صحیح )

【41】

روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دین برابر غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، کیونکہ یہود و نصاری اس میں تاخیر کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٤ (١٦٩٨) ، حم (٢/٤٥٠) (حسن )

【42】

روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے

ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے کہا : ام المؤمنین ! محمد ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمی ہیں ان میں ایک افطار بھی جلدی کرتا ہے اور نماز بھی جلدی پڑھتا ہے، اور دوسرا ان دونوں چیزوں میں تاخیر کرتا ہے، (بتائیے ان میں کون درستگی پر ہے ؟ ) ام المؤمنین عائشہ (رض) نے پوچھا : ان دونوں میں افطار اور نماز میں جلدی کون کرتا ہے ؟ ہم نے کہا : وہ عبداللہ ہیں، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٩ (١٠٩٩) ، سنن الترمذی/الصوم ١٣ (٧٠٢) ، سنن النسائی/الصیام ١١ (٢١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٨، ١٧٣) (صحیح )

【43】

روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے؟

سلمان بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو اسے کھجور ١ ؎ سے روزہ افطار کرنا چاہیئے اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے کرلے اس لیے کہ وہ پاکیزہ چیز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٦ (٦٥٨) ، الصوم ١٠ (٦٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٥ (١٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١٢ (١٧٤٣) (ضعیف) (کیونکہ رباب لین الحدیث ہیں) اس حدیث کی تصحیح ترمذی، ابن خزیمة، ابن حبان نے کی ہے، البانی نے پہلے اس کی تصحیح کی تھی، بعد میں اسے ضعیف الجامع الصغیر میں رکھ دیا (٣٦٩) تراجع الالبانی (١٣٢) ۔ وضاحت : ١ ؎ : اس سے نگاہ کو طاقت ملتی ہے اور روزے سے پیدا ہونے والی نقاہت دور ہوتی ہے۔

【44】

روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے تھے، اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کرلیتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ مل پاتیں تو چند گھونٹ پانی نوش فرما لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ١٠ (٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٥) (حسن صحیح )

【45】

افطار کے وقت کی دعا

مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو دیکھا، وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے، اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے : ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله پیاس ختم ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٤٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٤ (٥٨٩٢) (الشق الأول بسند آخر) ، سنن النسائی/الیوم واللیلة (٢٩٩) (حسن )

【46】

افطار کے وقت کی دعا

معاذ بن زہرہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے : اللهم لک صمت وعلى رزقک أفطرت‏‏ اے اللہ ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٩٤٤) (ضعيف) (اس کے راوی معاذ ایک تو لین الحدیث ہیں، دوسرے ارسال کئے ہوئے ہیں )

【47】

اگر غلطی سے سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار کرلے تو کیا کرے

اسماء بنت ابوبکر (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ماہ رمضان میں ایک دن ہم نے بدلی میں روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نمودار ہوگیا۔ راوی ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن عروہ سے سوال کیا کہ پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہوگا ؟ کہنے لگے : کیا اس کے بغیر بھی چارہ ہے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٦ (١٩٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٤٦) (صحیح )

【48】

پے درپے روزے رکھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صوم وصال (مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا ہے، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ تو مسلسل روزے رکھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا پلایا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٠ (١٩٢٢) ، ٤٨ (١٩٦٢) ، صحیح مسلم/الصیام ١١ (١١٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٥٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ١٣ (٣٨) ، مسند احمد (٢/١١٢، ١٢٨) (صحیح )

【49】

پے درپے روزے رکھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم صوم وصال نہ رکھو، اگر تم میں سے کوئی صوم وصال رکھنا چاہے تو سحری کے وقت تک رکھے ۔ لوگوں نے کہا : آپ تو رکھتے ہیں ؟ فرمایا : میں تمہاری طرح نہیں ہوں، کیونکہ مجھے کھلانے پلانے والا کھلاتا پلاتا رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٨ (١٩٦٢) ، ٥٠(١٩٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٨، ٨٧) ، سنن الدارمی/الصوم ١٤ (١٧٤٧) (صحیح )

【50】

روزہ میں غیبت کرنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (روزے کی حالت میں) جھوٹ بولنا، اور برے عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٨ (١٩٠٣) ، سنن الترمذی/الصوم ١٦ (٧٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢١ (١٦٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢١) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الصوم (٣٢٤٦) ، مسند احمد (٢/٤٥٢، ٥٠٥) (صحیح )

【51】

روزہ میں غیبت کرنا

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : روزہ (برائیوں سے بچنے کے لیے) ڈھال ہے، جب تم میں کوئی صائم (روزے سے ہو) تو فحش باتیں نہ کرے، اور نہ نادانی کرے، اگر کوئی آدمی اس سے جھگڑا کرے یا گالی گلوچ کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢ (١٨٩٤) ، ٩ (١٩٠٤) ، سنن النسائی/الصیام ٢٣ (٢٢١٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢١ (١٦٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٠ (١١٥١) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٥ (٧٦٤) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٢ (٥٧) ، مسند احمد (٢/٢٣٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٠ (١٨١٢) (صحیح )

【52】

روزہ کی حالت میں مسواک کرنا

عامر بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو روزے کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا، جسے میں نہ گن سکتا ہوں، نہ شمار کرسکتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٢٨ (٧٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٤٥، ٤٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی عاصم ضعیف ہیں )

【53】

روزہ دار کے سر پر پیاس کی وجہ سے پانی ڈالنا اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سے کام لینا

ابوبکر بن عبدالرحمٰن ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے فتح مکہ کے سال اپنے سفر میں لوگوں کو روزہ توڑ دینے کا حکم دیا، اور فرمایا : اپنے دشمن (سے لڑنے) کے لیے طاقت حاصل کرو اور رسول اللہ ﷺ نے خود روزہ رکھا۔ ابوبکر کہتے ہیں : مجھ سے بیان کرنے والے نے کہا کہ میں نے مقام عرج میں رسول اللہ ﷺ کو اپنے سر پر پیاس سے یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ روزے سے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢) ، مسند احمد (٣/٤٧٥، ٤/٦٣، ٥/٣٧٦، ٣٨٠، ٤٠٨، ٤٣٠) (صحیح )

【54】

روزہ دار کے سر پر پیاس کی وجہ سے پانی ڈالنا اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ سے کام لینا

لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (١٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) (صحیح )

【55】

روزے کی حالت میں پچھنے لگانا یا لگوانا

ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١٨ (١٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٣١٣٥) ، مسند احمد (٥/٢٧٦، ٢٧٧، ٢٨٠، ٢٨٢، ٢٨٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٣٦ (١٧٧٤) (صحیح )

【56】

روزے کی حالت میں پچھنے لگانا یا لگوانا

ابوقلابہ جرمی نے خبر دی ہے کہ شداد بن اوس (رض) نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے کہ اسی دوران (آپ نے فرمایا) ، آگے راوی نے اس سے پہلی والی حدیث کی طرح بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١٨ (١٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٣١٤٤) ، مسند احمد (٤/١٢٣، ١٢٤، ١٢٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٦ (١٧٧١) (صحیح )

【57】

روزے کی حالت میں پچھنے لگانا یا لگوانا

شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بقیع میں ایک شخص کے پاس آئے جو کہ سینگی لگا رہا تھا، آپ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، یہ رمضان کی اٹھارہ تاریخ کا واقعہ ہے، اور آپ ﷺ نے فرمایا : سینگی (پچھنا) لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : خالد الحذاء نے ابوقلابہ سے ایوب کی سند سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٨١٨) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الکبری (٣١٤١) ، مسند احمد (٤/١٢٢، ١٢٢٤) (صحیح )

【58】

روزے کی حالت میں پچھنے لگانا یا لگوانا

نبی اکرم ﷺ کے مولیٰ ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : سینگی (پچھنا) لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٤) (صحیح )

【59】

روزے کی حالت میں پچھنے لگانا یا لگوانا

ثوبان (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سینگی (پچھنا) لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن ثوبان نے اپنے والد سے اور انہوں نے مکحول سے اسی سند سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠٤) (صحیح )

【60】

روزے میں پچھنے لگوانے کی اجازت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگی (پچھنا) لگوایا اور آپ روزے سے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے وہیب بن خالد نے ایوب سے اسی سند سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، اور جعفر بن ربیعہ اور ہشام بن حسان نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس (رض) سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الطب ١٢ (٥٦٩٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٦١ (٧٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٥١) (صحیح )

【61】

روزے میں پچھنے لگوانے کی اجازت

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگی (پچھنا) لگوایا، آپ روزے سے تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصیام ٦١ (٧٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٨ (١٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢٢، ٢٨٦) (ضعیف) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : حالت احرام میں آپ ﷺ روزے سے ہوں ، یہ بات بعید از قیاس ہے ، یہی یزید بن ابی زیاد کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے ، ہاں کبھی روزے کی حالت میں، اور کبھی احرام کی حالت میں بچھنا لگوانا آپ ﷺ سے ثابت ہے ، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں احتجم وهو صائم، واحتجم وهو محرم (آپ ﷺ نے سینگی (پچھنا) لگوائی جبکہ آپ روزے سے تھے ، آپ ﷺ نے سینگی لگوائی جبکہ آپ محرم تھے )

【62】

روزے میں پچھنے لگوانے کی اجازت

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول ﷺ نے (حالت روزے میں) سینگی لگوانے اور مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمایا، لیکن اپنے اصحاب کی رعایت کرتے ہوئے اسے حرام قرار نہیں دیا، آپ سے کہا گیا : اللہ کے رسول ! آپ تو بغیر کھائے پیئے سحر تک روزہ رکھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں سحر تک روزے کو جاری رکھتا ہوں اور مجھے میرا رب کھلاتا پلاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٥٦٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣١٤، ٣١٥، ٥/٣٦٣، ٣٦٤) (صحیح )

【63】

روزے میں پچھنے لگوانے کی اجازت

ثابت کہتے ہیں کہ انس (رض) نے کہا : ہم روزے دار کو صرف مشقت کے پیش نظر سینگی (پچھنا) نہیں لگانے دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٢٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٢ (١٩٤٠) (صحیح )

【64】

جو شخص رمضان میں صبح کو احتلام کی حالت میں اٹھے

نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے قے کی اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا، اور نہ اس شخص کا جس کو احتلام ہوگیا، اور نہ اس شخص کا جس نے پچھنا لگایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠١) (ضعیف) (اس کے ایک راوی رجل مبہم ہے )

【65】

سوتے وقت سرمہ لگانا

معبد بن ہوذہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مشک ملا ہوا سرمہ سوتے وقت لگانے کا حکم دیا اور فرمایا : روزہ دار اس سے پرہیز کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مجھ سے یحییٰ بن معین نے کہا کہ یہ یعنی سرمہ والی حدیث منکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١١٤٦٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٦، ٤٩٩، ٥٠٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٨ (١٧٧٤) (ضعیف) (اس کے راوی نعمان بن معبد مجہول ہیں )

【66】

سوتے وقت سرمہ لگانا

عبیداللہ بن ابی بکر بن انس کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) سرمہ لگاتے تھے اور روزے سے ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥) (حسن موقوف )

【67】

سوتے وقت سرمہ لگانا

اعمش کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی روزے دار کے سرمہ لگانے کو ناپسند کرتے نہیں دیکھا اور ابراہیم نخعی روزے دار کو صبر (ایک قسم کا سرمہ ہے) کے سرمے کی اجازت دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٤٠٠، ١٨٧٨٦) (حسن )

【68】

اگر روزہ دار قصدا قے کرے تو اسکا روزہ ٹوٹ جائے گا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کو قے ہوجائے اور وہ روزے سے ہو تو اس پر قضاء نہیں، ہاں اگر اس نے قصداً قے کی تو قضاء کرے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے حفص بن غیاث نے بھی ہشام سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٢٥ (٧٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٦ (١٦٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری (٣١٣٠) ، حم (٢/٤٩٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٥ (١٧٧٠) (صحیح )

【69】

اگر روزہ دار قصدا قے کرے تو اسکا روزہ ٹوٹ جائے گا

معدان بن طلحہ کا بیان ہے کہ ابوالدرداء (رض) نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قے ہوئی تو آپ نے روزہ توڑ ڈالا، اس کے بعد دمشق کی مسجد میں میری ملاقات ثوبان (رض) سے ہوئی تو میں نے کہا کہ ابوالدرداء نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قے ہوگئی تو آپ نے روزہ توڑ دیا اس پر ثوبان نے کہا : ابوالدرداء نے سچ کہا اور میں نے ہی (اس وقت) رسول اللہ ﷺ کے لیے وضو کا پانی ڈالا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ٦٤ (٨٧) ، سنن النسائی/ الکبری/ الصوم (٣١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٤٣، ٤٤٩) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٤ (١٧٦٩) (صحیح )

【70】

روزہ دار کے لئے بوسہ لینا جائز ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور چمٹ کر سوتے، لیکن آپ ﷺ اپنی خواہش پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٢ (١١٠٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٢ (٧٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٠، ١٥٩٣٢، ١٧٤٠٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٤ (١٩٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٩ (١٦٨٤) ، موطا امام مالک/الصیام ٦(١٨) ، مسند احمد (٦/٢٣٠) ، سنن الدارمی/المقدمة ٥٣ (٦٩٨) والصوم ٢١ (١٧٦٣) (صحیح )

【71】

روزہ دار کے لئے بوسہ لینا جائز ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ماہ رمضان کے مہینے میں بوسہ لیتے (لے لیا کرتے) تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٢ (١١٠٦) ، سنن الترمذی/الصیام ٣١ (٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٩ (١٦٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٠، ٢٢٠، ٢٥٦، ٢٥٨، ٢٦٤ )

【72】

روزہ دار کے لئے بوسہ لینا جائز ہے

حدیث نمبر : 2384 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرا بوسہ لیتے اور آپ روزے سے ہوتے اور میں بھی روزے سے ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣٤، ١٦٢، ١٧٥، ١٧٩، ٢٩٦، ٢٧٠) (صحیح )

【73】

روزہ دار کے لئے بوسہ لینا جائز ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : میں خوش ہوا تو میں نے بوسہ لیا اور میں روزے سے تھا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے تو آج بہت بڑی حرکت کر ڈالی، روزے کی حالت میں بوسہ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا : بھلا بتاؤ اگر تم روزے کی حالت میں پانی سے کلی کرلو (تو کیا ہوا) ، میں نے کہا : اس میں تو کچھ حرج نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو بس کوئی بات نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٤٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الصوم (٣٠٤٨) ، مسند احمد (١/٢١، ٥٣، سنن الدارمی/الصوم ٢١(١٧٦٥) (صحیح )

【74】

اگر روزہ دار لعاب نگل جائے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لیتے اور ان کی زبان چوستے تھے۔ ابن اعرابی کہتے ہیں : یہ سند صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٢٣، ٢٣٤) (ضعیف) (اس کے راوی مصدع لین الحدیث ہیں )

【75】

جوان آدمی کے لئے مباشرت مکروہ ہے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے روزہ دار کے بیوی سے چمٹ کر سونے کے متعلق پوچھا، آپ نے اس کو اس کی اجازت دی، اور ایک دوسرا شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے بھی اسی سلسلہ میں آپ سے پوچھا تو اس کو منع کردیا، جس کو آپ ﷺ نے اجازت دی تھی، وہ بوڑھا تھا اور جسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٢١٩٨) (حسن صحیح )

【76】

جو شخص رمضان میں جنابت کی حالت میں صبح کرے

ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حالت جنابت میں صبح کرتے۔ عبداللہ اذرمی کی روایت میں ہے : ایسا رمضان میں احتلام سے نہیں بلکہ جماع سے ہوتا تھا، پھر آپ روزہ سے رہتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : کتنی کم تر ہے اس شخص کی بات جو یہ یعنی يصبح جنبا في رمضان کہتا ہے، حدیث تو (جو کہ بہت سے طرق سے مروی ہے) یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جنبی ہو کر صبح کرتے تھے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٢(١٩٢٥) ، صحیح مسلم/الصیام ١٣ (١١٠٩) ، سنن الترمذی/الصوم ٦٣ (٧٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٧(١٧٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٦، ١٨٢٢٨، ١٨١٩٠، ١٨١٩٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٤(١٠) ، مسند احمد (١/٢١١، ٦/٣٤، ٣٦، ٣٨، ٢٠٣، ٢١٣، ٢١٦، ٢٢٩، ٢٦٦، ٢٧٨، ٢٨٩، ٢٩٠، ٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٢ (١٧٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس میں لفظ رمضان کا ذکر نہیں ہے۔

【77】

جو شخص رمضان میں جنابت کی حالت میں صبح کرے

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! میں جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنا چاہتا ہوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں بھی جنابت کی حالت میں صبح کرتا ہوں اور روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں پھر غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھ لیتا ہوں ، اس شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ تو ہماری طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر رکھے ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ غصہ ہوگئے اور فرمایا : اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ میں تم میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، اور مجھے کیا کرنا ہے اس بات کو بھی تم سے زیادہ جانتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٣ (١١١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٤ (٩) ، مسند احمد (٦/٦٧، ١٥٦، ٢٤٥) (صحیح )

【78】

جو شخص روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھے اسکا کفارہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہلاک ہوگیا آپ ﷺ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے کہا : میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم ایک گردن آزاد کرسکتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، فرمایا : دو مہینے مسلسل روزے رکھنے کی طاقت ہے ؟ کہا : نہیں، فرمایا : ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟ ، کہا : نہیں، فرمایا : بیٹھو ، اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا تھیلا آگیا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : انہیں صدقہ کر دو ، کہنے لگا : اللہ کے رسول ! مدینہ کی ان دونوں سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے بیچ ہم سے زیادہ محتاج کوئی گھرانہ ہے ہی نہیں، اس پر رسول ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت ظاہر ہوگئے اور فرمایا : اچھا تو انہیں ہی کھلا دو ۔ مسدد کی روایت میں ایک دوسری جگہ ثناياه کی جگہ أنيابه ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٠ (١٩٣٦) ، الہبة ٢٠ (٢٦٠٠) ، النفقات ١٣ (٥٣٦٨) ، الأدب ٦٧ (٦٠٨٧) ، ٩٥ (٦١٦٤) ، کفارات الأیمان ٢ (٦٧٠٩) ، ٣ (٦٧١٠) ، ٤ (٦٧١١) ، صحیح مسلم/الصیام ١٤ (١١١١) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٨ (٧٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٤ (١٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٥) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٩(٢٨) ، مسند احمد (٢/٢٠٨، ٢٤١، ٢٧٣، ٢٨١، ٥١٦) ، سنن الدارمی/الصوم ١٩ (١٧٥٧) (صحیح )

【79】

جو شخص روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھے اسکا کفارہ

اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں زہری نے یہ الفاظ زائد کہے کہ یہ (کھجوریں اپنے اہل و عیال کو ہی کھلا دینے کا حکم) اسی شخص کے ساتھ خاص تھا اگر اب کوئی اس گناہ کا ارتکاب کرے تو اسے کفارہ ادا کئے بغیر چارہ نہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے لیث بن سعد، اوزاعی، منصور بن معتمر اور عراک بن مالک نے ابن عیینہ کی روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے اور اوزاعی نے اس میں واستغفر الله اور اللہ سے بخشش طلب کر کا اضافہ کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٥) (صحیح) (لیکن زہری کے بات خلاف اصل ہے )

【80】

جو شخص روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھے اسکا کفارہ

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ایک غلام آزاد کرنے، یا دو مہینے کا مسلسل روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم فرمایا، وہ شخص کہنے لگا کہ میں تو (ان میں سے) کچھ نہیں پاتا، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا : بیٹھ جاؤ ، اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں لے لو اور صدقہ کر دو ، وہ کہنے لگا : اللہ کے رسول ! مجھ سے زیادہ ضرورت مند تو کوئی ہے ہی نہیں، اس پر آپ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت نظر آنے لگے اور اس سے فرمایا : تم ہی اسے کھا جاؤ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن جریج نے زہری سے مالک کی روایت کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے روزہ توڑ دیا، اس میں ہے أو تعتق رقبة أو تصوم شهرين أو تطعم ستين مسكينا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٣٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی غائب کے بجائے حاضر کے صیغے کے ساتھ اور بغیر متتابعين کے ہے۔

【81】

جو شخص روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھے اسکا کفارہ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اس نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تھا، آگے اوپر والی حدیث کا ذکر ہے اس میں ہے : پھر آپ ﷺ کے پاس ایک بڑا تھیلا آیا جس میں پندرہ صاع کے بقدر کھجوریں تھیں، اور اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے تم اور تمہارے گھر والے کھاؤ، اور ایک دن کا روزہ رکھ لو، اور اللہ سے بخشش طلب کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم :(٢٣٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٠٤) (صحیح )

【82】

جو شخص روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھے اسکا کفارہ

عباد بن عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص رمضان میں مسجد کے اندر آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں تو بھسم ہوگیا، آپ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا : میں نے اپنی بیوی سے صحبت کرلی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : صدقہ کر دو ، وہ کہنے لگا : اللہ کی قسم ! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اور نہ میرے اندر استطاعت ہے، فرمایا : بیٹھ جاؤ ، وہ بیٹھ گیا، اتنے میں ایک شخص غلے سے لدا ہوا گدھا ہانک کر لایا، آپ ﷺ نے فرمایا : ابھی بھسم ہونے والا کہاں ہے ؟ وہ شخص کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے صدقہ کر دو ، بولا : اللہ کے رسول ! کیا اپنے علاوہ کسی اور پر صدقہ کروں ؟ اللہ کی قسم ! ہم بھوکے ہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، فرمایا : اسے تم ہی کھالو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٩ (١٩٣٥) ، صحیح مسلم/الصیام ١٤ (١١١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الصوم (٣١١٠) ، مسند احمد (٦/١٤٠، ٢٧٦) ، سنن الدارمی/الصوم ١٩(١٧٥٩) (صحیح )

【83】

جو شخص روزہ کی حالت میں جماع کر بیٹھے اسکا کفارہ

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے یہی قصہ مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک ایسا تھیلا لایا گیا جس میں بیس صاع کھجوریں تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٦) (منكر) (مقدار کی بات منکر ہے جو مؤلف کے سوا کسی کے یہاں نہیں ہے) نوٹ : سند ایک ہے، لیکن اگلی حدیث کے حکم میں اختلاف ہے

【84】

جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی سزا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن کا روزہ توڑ دیا تو اس کی قضاء زمانہ بھر کے روزے بھی نہیں کرسکیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٢٧ (٧٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٨٦، ٤٤٢، ٤٥٨، ٤٧٠) ، سنن الدارمی/الصوم ١٨ (١٧٥٦) (ضعیف) (اس کے راوی ابوالمطوس لین الحدیث اور اس کے والد مجہول ہیں )

【85】

جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی سزا

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے ابن کثیر اور سلیمان کی حدیث نمبر (٢٣٩٦) کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٦) (ضعیف )

【86】

روزہ میں بھول سے کچھ کھا پی لینا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے بھول کر کھا پی لیا، اور میں روزے سے تھا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٤٣٠، ١٤٤٦٠، ١٤٤٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٦(١٩٣٣) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٣ (١١٥٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٢٦ (٧٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٥ (١٦٧٣) ، مسند احمد (٢/٣٩٥، ٥١٣، ٤١٥، ٤٩١) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٣ (١٧٦٧) (صحیح )

【87】

رمضان کے روزوں کی قضاء میں تاخیر کرنا

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) کو کہتے سنا : مجھ پر ماہ رمضان کی قضاء ہوتی تھی اور میں انہیں رکھ نہیں پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان آجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٠ (١٩٥٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٦ (١١٤٦) ، ن الصیام ٣٦ (٢٣٢١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٣ (١٦٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصیام ٦٦ (٧٨٣) ، موطا امام مالک/الصیام ٢٠ (٥٤) ، مسند احمد (٦/١٢٤، ١٧٩) (صحیح )

【88】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی جانب سے اس کا ولی روزے رکھے گا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ حکم نذر کے روزے کا ہے اور یہی احمد بن حنبل کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٢(١٩٥٢) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٧ (١١٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٩) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (٣٣١١) (صحیح )

【89】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب آدمی رمضان میں بیمار ہوجائے پھر مرجائے اور روزے نہ رکھ سکے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے گا اور اس پر قضاء نہیں ہوگی اور اگر اس نے نذر مانی تھی تو اس کا ولی اس کی جانب سے پورا کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود (صحیح )

【90】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا : اللہ کے رسول ! میں مسلسل روزے رکھتا ہوں تو کیا سفر میں بھی روزے رکھوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٧ (١١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٣ (١٩٤٢) ، سنن الترمذی/الصوم ١٩ (٧١١) ، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢٣٠٨) ، ٤٣ (٢٣٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٠ (١٦٦٢) ، موطا امام مالک/الصیام ٧ (٣٤) ، مسند احمد (٦/٤٦، ٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧) ، سنن الدارمی/الصوم ١٥(١٧٤٨) (صحیح ) Narrated Aishah: Hamzat al-Aslami asked the Prophet ﷺ: Messenger of Allah, I am a man who keeps perpetual fast, may I fast while on a journey? He replied: Fast if you like, or break your fast if you like.

【91】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

حمزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں سواریوں والا ہوں، انہیں لے جایا کرتا ہوں، ان پر سفر کرتا ہوں اور انہیں کرایہ پر بھی دیتا ہوں، اور بسا اوقات مجھے یہی مہینہ یعنی رمضان مل جاتا ہے اور میں جوان ہوں اپنے اندر روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں، میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ روزہ مؤخر کرنے سے آسان یہ ہے کہ اسے رکھ لیا جائے، تاکہ بلاوجہ قرض نہ بنا رہے، اللہ کے رسول ! میرے لیے روزہ رکھنے میں زیادہ ثواب ہے یا چھوڑ دینے میں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : حمزہ ! جیسا بھی تم چاہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد المؤلف بہذا السیاق، وانظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٠) (ضعیف) (اس کے رواة محمد بن حمزة اور محمد بن عبد المجید لین الحدیث ہیں )

【92】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے یہاں تک کہ مقام عسفان پر پہنچے، پھر آپ ﷺ نے (پانی وغیرہ کا) برتن منگایا اور اسے اپنے منہ سے لگایا تاکہ آپ اسے لوگوں کو دکھا دیں (کہ میں روزے سے نہیں ہوں) اور یہ رمضان میں ہوا، اسی لیے ابن عباس (رض) کہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے روزہ بھی رکھا ہے اور افطار بھی کیا ہے، تو جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٨ (١٩٤٨) ، صحیح مسلم/الصیام ١٥ (١١١٣) ، سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢٢٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١٠(١٦٦١) ، موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢١) ، مسند احمد (١/٢٤٤، ٣٥٠) ، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٤٩) (صحیح )

【93】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رمضان میں سفر کیا تو ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا تو نہ تو روزہ توڑنے والوں نے، روزہ رکھنے والوں پر عیب لگایا، اور نہ روزہ رکھنے والوں نے روزہ توڑنے والوں پر عیب لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٧ (١٩٤٧) ، صحیح مسلم/الصیام ١٥ (١١١٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢٣) (صحیح )

【94】

جو شخص مر جائے اس کے ذمہ روزے ہوں

قزعہ کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری (رض) کے پاس آیا اور وہ لوگوں کو فتوی دے رہے تھے، اور لوگ ان پر جھکے جا رہے تھے تو میں تنہائی میں ملاقات کی غرض سے انتظار کرتا رہا، جب وہ اکیلے رہ گئے تو میں نے سفر میں رمضان کے مہینے کے روزے کا حکم دریافت کیا، انہوں نے کہا : ہم فتح مکہ کے سال رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر پر نکلے، سفر میں اللہ کے رسول بھی روزے رکھتے تھے اور ہم بھی، یہاں تک کہ جب منزلیں طے کرتے ہوئے ایک پڑاؤ پر پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اب تم دشمن کے بالکل قریب آگئے ہو، روزہ چھوڑ دینا تمہیں زیادہ توانائی بخشے گا ، چناچہ دوسرے دن ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا، پھر ہمارا سفر جاری رہا پھر ہم نے ایک جگہ قیام کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : صبح تم دشمن کے پاس ہو گے اور روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ قوت بخش ہے، لہٰذا روزہ چھوڑ دو ، یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تاکید تھی۔ ابوسعید کہتے ہیں : پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس سے پہلے بھی روزے رکھے اور اس کے بعد بھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ١٦ (١١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/الصیام ٣١ (٢٣١١) ، مسند احمد (٣/٣٥) (صحیح )

【95】

سفر میں روزہ نہ رکھنا بہتر ہے

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس پر سایہ کیا جا رہا تھا اور اس پر بھیڑ لگی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٦ (١٩٤٦) ، صحیح مسلم/الصیام ١٥ (١١١٥) ، سنن النسائی/الصیام ٢٧ (٢٢٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٥) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٢٩٩، ٣١٧، ٣١٩، ٣٥٢، ٣٩٩) (صحیح )

【96】

سفر میں روزہ نہ رکھنا بہتر ہے

انس بن مالک ١ ؎ (رض) سے روایت ہے (جو بنی قشیر کے برادران بنی عبداللہ بن کعب کے ایک فرد ہیں) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے گھوڑ سوار دستے نے ہم پر حملہ کیا، میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس پہنچا، یا یوں کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف چلا، آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : بیٹھو، اور ہمارے کھانے میں سے کچھ کھاؤ ، میں نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا بیٹھو، میں تمہیں نماز اور روزے کے بارے میں بتاتا ہوں : اللہ نے (سفر میں) نماز آدھی کردی ہے، اور مسافر، دودھ پلانے والی، اور حاملہ عورت کو روزہ رکھنے کی رخصت دی ہے ، قسم اللہ کی ! آپ ﷺ نے دونوں کا ذکر کیا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا، مجھے رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں سے نہ کھا پانے کا افسوس رہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٢١ (٧١٥) ، سنن النسائی/الصیام ٢٨ (٢٢٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ١٢ (١٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٤٧، ٥/٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ انس بن مالک (رض) رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص کے علاوہ ہیں۔

【97】

جنہوں نے کہا کہ سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کسی غزوے میں نکلے، گرمی اس قدر شدید تھی کہ شدت کی وجہ سے ہم میں سے ہر شخص اپنا ہاتھ یا اپنی ہتھیلی اپنے سر پر رکھ لیتا، اس موقعے پر رسول اللہ ﷺ اور عبداللہ بن رواحہ (رض) کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٥(١٩٤٥) ، صحیح مسلم/الصیام ١٧(١١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ١٠ (١٦٦٣) ، مسند احمد (٥/١٩٤، ٦/١٤٤) (صحیح )

【98】

جنہوں نے کہا کہ سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے

سلمہ بن محبق ہذلی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس منزل پر ایسی سواری ہو جو اسے ایسی جگہ پہنچا سکے جہاں اسے راحت و آسودگی ملے تو وہ جہاں بھی رمضان کا مہینہ پالے روزے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٤٥٦١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤٧٤، ٤٧٦، ٥/٧) (ضعیف) (اس کے راوی عبد الصمد ضعیف ہیں )

【99】

تکلیف نہ ہو اگرچہ روزہ کا قضاء کرنا بھی جائز ہے

سلمہ بن محبق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حالت سفر میں رمضان جسے پالے …، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦١) (ضعیف )

【100】

جب مسافر سفر کو نکلے تو کہاں سے افطار کرئے

عبید بن جبر کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے صحابی ابو بصرہ غفاری (رض) کے ہمراہ رمضان میں ایک کشتی میں تھا جو فسطاط شہر کی تھی، کشتی پر بیٹھے ہی تھے کہ صبح کا کھانا آگیا، (جعفر کی روایت میں ہے کہ) شہر کے گھروں سے ابھی آگے نہیں بڑھے تھے کہ انہوں نے دستر خوان منگوایا اور کہنے لگے : نزدیک آجاؤ، میں نے کہا : کیا آپ (شہر کے) گھروں کو نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ (ابھی تو شہر بھی نہیں نکلا اور آپ کھانا کھا رہے ہیں) کہنے لگے : کیا تم رسول اللہ ﷺ کی سنت سے اعراض کرتے ہو ؟ (جعفر کی روایت میں ہے) تو انہوں نے کھانا کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٧، ٣٩٨) سنن الدارمی/الصوم ١٧(١٧٥٤) (صحیح )

【101】

سفر کی وہ مسافت جس کی وجہ سے روزہ افطار کیا جاسکتا ہے

منصور کلبی سے روایت ہے کہ دحیہ بن خلیفہ کلبی (رض) ایک بار رمضان میں دمشق کی کسی بستی سے اتنی دور نکلے جتنی دور فسطاط سے عقبہ بستی ہے اور وہ تین میل ہے، پھر انہوں نے اور ان کے ساتھ کے کچھ لوگوں نے تو روزہ توڑ دیا لیکن کچھ دوسرے لوگوں نے روزہ توڑنے کو ناپسند کیا، جب وہ اپنی بستی میں لوٹ کر آئے تو کہنے لگے : اللہ کی قسم ! آج میں نے ایسا منظر دیکھا جس کا میں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا، لوگوں نے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے طریقے سے اعراض کیا، یہ بات وہ ان لوگوں کے متعلق کہہ رہے تھے، جنہوں نے سفر میں روزہ رکھا تھا، پھر انہوں نے اسی وقت دعا کی : اے اللہ ! مجھے اپنی طرف اٹھا لے (ی عنی اس پر آشوب دور میں زندہ رہنے سے موت اچھی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٣٥٣٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٩٨) (ضعیف) (اس کے راوی منصور کلبی مجہول ہیں )

【102】

سفر کی وہ مسافت جس کی وجہ سے روزہ افطار کیا جاسکتا ہے

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) غابہ ١ ؎ جاتے تو نہ تو روزہ توڑتے، اور نہ ہی نماز قصر کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ؟ ؟؟ ) (صحیح موقوف ) وضاحت : ١ ؎ : غابہ ایک جگہ ہے جو مدینہ سے تھوڑی دور کے فاصلہ پر شام کے راستے میں پڑتا ہے۔

【103】

یہ نہ کہنا چاہیے کہ میں نے رمضان بھر روزہ رکھا

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے، اور پورے رمضان کا قیام کیا ۔ راوی حدیث کہتے ہیں : مجھے معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کی یہ ممانعت خود اپنے آپ کو پاکباز و عبادت گزار ظاہر کرنے کی ممانعت کی بنا پر تھی، یا اس وجہ سے تھی کہ وہ لازمی طور پر کچھ نہ کچھ سویا ضرور ہوگا (اس طرح یہ غلط بیانی ہوجائے گی) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤ (٢١١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤٠، ٤١، ٤٨، ٥٢) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بصری مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )

【104】

عید الفطر اور عید الا ضحی کے دن روزہ رکھنا

ابو عبید کہتے ہیں کہ میں عمر (رض) کے ساتھ عید میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی پھر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے : عید الاضحی کے روزے سے تو اس لیے کہ تم اس میں اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو، اور عید الفطر کے روزے سے اس لیے کہ تم اپنے روزوں سے فارغ ہوتے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٦ (١٩٩٠) ، الأضاحی ١٦ (٥٥٧١) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٢ (١١٣٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٨ (٧٧١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٦ (١٧٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/العیدین ٢ (٥) ، مسند احمد (١/٢٤، ٣٤، ٤٠) (صحیح )

【105】

عید الفطر اور عید الا ضحی کے دن روزہ رکھنا

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایا : ایک عید الفطر کے دوسرے عید الاضحی کے، اسی طرح دو لباسوں سے منع فرمایا ایک صمّاء ١ ؎ دوسرے ایک کپڑے میں احتباء ٢ ؎ کرنے سے (جس سے ستر کھلنے کا اندیشہ رہتا ہے) نیز دو وقتوں میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا : ایک فجر کے بعد، دوسرے عصر کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٦ (٨٨٤) ، وجزاء الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، والصوم ٦٨ (١٩٩٦) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٢ (٨٢٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٨ (٧٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٦ (١٧٢٢) ، مسند احمد (٣/٣٤، ٩٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٣ (١٧٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صماء کی صورت یہ ہے کہ آدمی پورے جسم پر کپڑا لپیٹ لے جس میں کوئی ایسا شگاف نہ ہو کہ ہاتھ باہر نکال سکے اور اپنے ہاتھ سے کوئی موذی چیز دفع کرسکے۔ ٢ ؎ : احتباء کی صورت یہ ہے کہ دونوں پاؤں کھڑا رکھے ، انہیں پیٹ سے ملائے رکھے، اور دونوں سرین پر بیٹھے اور کپڑے سے دونوں پاؤں اور پیٹ باندھ لے یا ہاتھوں سے حلقہ دے لے۔

【106】

ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی ممانعت

ام ہانی (رض) کے غلام ابو مرہ سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمرو (رض) کے ہمراہ ان کے والد عمرو بن العاص (رض) کے پاس گئے تو انہوں نے دونوں کے لیے کھانا پیش کیا اور کہا کہ کھاؤ، تو عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا : میں تو روزے سے ہوں ، اس پر عمرو (رض) نے کہا : کھاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ان دنوں میں روزہ توڑ دینے کا حکم فرماتے اور روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔ مالک کا بیان ہے کہ یہ ایام تشریق کی بات ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥١) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤٤(١٣٧) ، مسند احمد (٤/١٩٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٨ (١٨٠٨) (صحیح )

【107】

ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی ممانعت

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٩ (٧٧٣) ، سنن النسائی/المناسک ١٩٥ (٣٠٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٥٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٧ (١٨٠٥) (صحیح )

【108】

روزہ کے لئے جمعہ کے دن کو مخصوص نہ کرے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں کوئی جمعہ کو روزہ نہ رکھے سوائے اس کے کہ ایک دن پہلے یا بعد کو ملا کر رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٤ (١١٤٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٤٢ (٧٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٧ (١٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٣(١٩٨٥) ، مسند احمد (٢/٤٥٨) (صحیح )

【109】

سینچر کو روزہ کے لئے مخصوص نہ کرے

عبداللہ بن بسر سلمی مازنی (رض) اپنی بہن مّاء (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرض روزے کے علاوہ کوئی روزہ سنیچر (ہفتے) کے دن نہ رکھو اگر تم میں سے کسی کو (اس دن کا نفلی روزہ توڑنے کے لیے) کچھ نہ ملے تو انگور کا چھل کہ یا درخت کی لکڑی ہی چبا لے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یہ منسوخ حدیث ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٤٣ (٧٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٨ (١٧٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٠، ١٨٩٦٤، ١٩٢٥٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٣٦٨) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٠ (١٧٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، اور اس میں کراہت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی سنیچر کو روزہ کے لئے مخصوص کر دے، کیونکہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، اس تأویل کی صورت میں امام ابوداود کا اسے منسوخ کہنا درست نہیں ہے، اور کسی صورت میں اس حدیث میں اور اگلے باب کی حدیث ( اور اس دن کے صیام نبوی کی احادیث) میں کوئی تعارض نہیں باقی رہ جاتا، کہ روزہ رکھنے کی صورت میں اس دن کو مخصوص نہیں کیا گیا، ( ملاحظہ ہو : تہذیب السنن لابن القیم ٣ ؍ ٢٩٧- ٣٠١، و زاد المعاد ١ ؍ ٢٣٧- ٢٣٨، و صحیح ابی داود ٧ ؍ ١٨٠)

【110】

سینچر کے دن روزہ رکھنے کی اجازت

ام المؤمنین جویریہ بنت حارث (رض) فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان کے یہاں جمعہ کے دن تشریف لائے اور وہ روزے سے تھیں تو آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم نے کل بھی روزہ رکھا تھا ؟ کہا : نہیں، فرمایا : کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے ؟ بولیں : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر روزہ توڑ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٣ (١٩٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٩) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ (٢٧٥٤) ، مسند احمد (٦/٣٢٤، ٤٣٠) (صحیح )

【111】

سینچر کے دن روزہ رکھنے کی اجازت

ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ ان کے سامنے جب سنیچر (ہفتے) کے دن روزے کی ممانعت کا تذکرہ آتا تو کہتے کہ یہ حمص والوں کی حدیث ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث (٢٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس جملہ سے حدیث نمبر (٢٤٢١) کی تضعیف مقصود ہے لیکن ، صحیح حدیث کی تضعیف کا یہ انداز بڑا عجیب و غریب ہے، بالخصوص امام زہری جیسے جلیل القدر امام سے، ائمۃ حدیث نے حدیث کی تصحیح فرمائی ہے ( ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود ٧ ؍ ١٧٩ )

【112】

سینچر کے دن روزہ رکھنے کی اجازت

اوزاعی کہتے ہیں کہ میں برابر عبداللہ بن بسر (رض) کی حدیث (یعنی سنیچر (ہفتے) کے روزے کی ممانعت والی حدیث) کو چھپاتا رہا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ وہ لوگوں میں مشہور ہوگئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں : مالک کہتے ہیں : یہ روایت جھوٹی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث (٢٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : امام مالک کا یہ قول مرفوض ہے۔

【113】

ہمیشہ روزہ رکھنا

ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ روزہ کس طرح رکھتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کو اس کے اس سوال پر غصہ آگیا، عمر (رض) نے جب یہ منظر دیکھا تو کہا : رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا نعوذ بالله من غضب الله ومن غضب رسوله ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی و مطمئن ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں عمر (رض) یہ کلمات برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، پھر (عمر (رض) نے) پوچھا : اللہ کے رسول ! جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا : نہ اس نے روزہ ہی رکھا اور نہ افطار ہی کیا ۔ پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو شخص دو دن روزہ رکھتا ہے، اور ایک دن افطار کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی کسی کے اندر طاقت ہے بھی ؟ ۔ (پھر) انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو شخص ایک دن روزہ رکھتا ہے، اور ایک دن افطار کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے ۔ پوچھا : اللہ کے رسول ! اس شخص کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے، اور دو دن افطار کرتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میری خواہش ہے کہ مجھے بھی اس کی طاقت ملے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ہر ماہ کے تین روزے اور رمضان کے روزے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہیں، یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، اور اللہ سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ یوم عاشورہ (دس محرم الحرام) کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٢) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٦ (٧٦٧) ، سنن النسائی/الصیام ٤٢ (٢٣٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣١ (١٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٢٩٧، ٢٩٩، ٣٠٣، ٣٠٨، ٣١٠) (صحیح )

【114】

ہمیشہ روزہ رکھنا

اس سند سے بھی ابوقتادہ (رض) سے یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : کہا : اللہ کے رسول ! دوشنبہ اور جمعرات کے روزے کے متعلق بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں اسی دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) (صحیح ) The tradition mentioned above has also been transmitted by Abu Qatadah through a different chain of narrators. This version add: He said: Messenger of Allah, tell me about keeping fast on Monday and Thursday. He said: On it I was born, and on it the Quran was first revealed to me.

【115】

ہمیشہ روزہ رکھنا

عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہوئی تو آپ نے فرمایا : کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو : میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا ؟ کہا : میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا : ہاں، اللہ کے رسول ! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے ۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنے اندر اس سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : تو ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو وہ کہتے ہیں : اس پر میں نے کہا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تو پھر ایک دن روزہ رکھو، اور ایک دن افطار کرو، یہ عمدہ روزہ ہے، اور داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے میں نے کہا : مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٦ (١٩٧٦) ، وأحادیث الأنبیاء ٣٨ (٣٤١٨) ، /النکاح ٩٠ (٥١٩٩) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤٥، ٨٩٦٠ ) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٧ (٧٧٠) ، سنن النسائی/الصوم ٤٥ (٢٣٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣١ (١٧٢١) ، مسند احمد (٢/١٦٠، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٢ (١٧٩٣) (صحیح )

【116】

حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھنا

مجیبہ باہلیہ اپنے والد یا چچا سے روایت کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے پھر چلے گئے اور ایک سال بعد دوبارہ آئے اس مدت میں ان کی حالت و ہیئت بدل گئی تھی، کہنے لگے : اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے پہچانتے نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : کون ہو ؟ جواب دیا : میں باہلی ہوں جو کہ پہلے سال بھی حاضر ہوا تھا، آپ ﷺ نے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ؟ تمہاری تو اچھی خاصی حالت تھی ؟ جواب دیا : جب سے آپ کے پاس سے گیا ہوں رات کے علاوہ کھایا ہی نہیں ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے آپ کو تم نے عذاب میں کیوں مبتلا کیا ؟ پھر فرمایا : صبر کے مہینہ (رمضان) کے روزے رکھو، اور ہر مہینہ ایک روزہ رکھو انہوں نے کہا : اور زیادہ کیجئے کیونکہ میرے اندر طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : دو دن روزہ رکھو ، انہوں نے کہا : اس سے زیادہ کی میرے اندر طاقت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تین دن کے روزے رکھ لو ، انہوں نے کہا : اور زیادہ کیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا : حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو ، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو ، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو ، آپ ﷺ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ کیا، پہلے بند کیا پھر چھوڑ دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/(١٧٤١) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الصیام (٢٧٤٣) ، مسند احمد (٥/٢٨) (ضعیف) (مجیبة کے بارے میں سخت اختلاف ہے، یہ عورت ہیں یا مرد، صحابی ہیں یا تابعی اسی اضطراب کے سبب اس حدیث کو لوگوں نے ضعیف قرار دیا ہے ) وضاحت : ١ ؎ : برابر روزے رکھ رہا ہوں۔ ٢ ؎ : یعنی تین دن روزے رکھو پھر تین دن نہ رکھو، پورے مہینوں میں اسی طرح کرتے رہو۔

【117】

محرم کے مہینہ میں روزے رکھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے محرم کے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات کی نماز (تہجد) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٨ (١١٦٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٧ (٤٣٨) ، الصوم ٤٠ (٧٤٠) ، سنن النسائی/قیام اللیل ٦ (١٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٣ (١٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٢، ٣٢٩، ٣٤٢، ٣٤٤، ٥٣٥) (صحیح )

【118】

رجب کے مہینہ میں روزے رکھنا

عثمان بن حکیم کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے رجب کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ابن عباس (رض) نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے تو رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے : افطار ہی نہیں کریں گے، اسی طرح جب روزے چھوڑتے تو چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے : اب روزے رکھیں گے ہی نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥٤) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الصیام ٤١ (٢٣٤٨، ٢٣٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٠ (١٧١١) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٢٧، ٢٣١، ٣٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہ باب کئی نسخوں میں نہیں ہے، جب کہ مولانا وحیدالزماں کے نسخہ میں موجود ہے ، اور تبویب حدیث کے مطابق ہے، واللہ اعلم۔

【119】

ماہ شعبان کے روزے رکھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ آپ شعبان میں روزے رکھیں، پھر اسے رمضان سے ملا دیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن النسائی/ الکبری/ الصیام (٢٦٥٩) (صحیح )

【120】

ماہ شعبان کے روزے رکھنا

مسلم قرشی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پورے سال کے روزوں کے متعلق پوچھا، یا آپ سے سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم پر تمہارے اہل کا بھی حق ہے، لہٰذا رمضان اور اس کے بعد (والے ماہ میں) روزے رکھو، اور ہر بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھو تو گویا تم نے پورے سال کا روزہ رکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٤٥ (٧٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٠) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/٤١٦، ٤/٧٨) (ضعیف) (صحیح مسلم بن عبیداللہ ہے اور یہ لین الحدیث ہیں، ان کے والد کا نام عبیداللہ بن مسلم اور یہ صحابی ہیں )

【121】

شوال کے مہینہ میں چھ دن کے روزے رکھنا

ابوایوب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٩ (١١٦٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٣ (٧٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٣ (١٧١٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٤١٧، ٤١٩) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٤ (١٧٩٥) (صحیح )

【122】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفلی روزے کس طرح رکھتے تھے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ روزے رکھنا نہیں چھوڑیں گے، پھر چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہنے لگتے کہ اب آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے، میں نے آپ ﷺ کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور جتنے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے اتنے روزے کسی اور ماہ میں رکھتے نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٦٩) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦) ، سنن النسائی/الصیام ١٩ (٢١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٠ (١٧١٠) ، موطا امام مالک/الصوم ٢٢ (٥٦) ، مسند احمد (٦/٣٩، ٨٠، ٨٤، ٨٩، ١٠٧، ١٢٨، ١٤٣، ١٥٣، ١٦٥، ١٧٩، ٢٣٣، ٢٤٢، ٢٤٩، ٢٦٨) (صحیح )

【123】

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفلی روزے کس طرح رکھتے تھے

ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں اتنا اضافہ ہے : آپ شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے، سوائے چند دنوں کے بلکہ پورے شعبان میں روزے رکھتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٥٠١٦) (حسن صحیح )

【124】

پیر اور جمعرات کاروزہ

اسامہ بن زید (رض) کے غلام کہتے ہیں کہ وہ اسامہ (رض) کے ہمراہ وادی قری کی طرف ان کے مال (اونٹ) کی تلاش میں گئے (اسامہ کا معمول یہ تھا کہ) دوشنبہ (سوموار، پیر) اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، اس پر ان کے غلام نے ان سے پوچھا : آپ دوشنبہ (سوموار، پیر) اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں حالانکہ آپ بہت بوڑھے ہیں ؟ کہنے لگے : نبی اکرم ﷺ دوشنبہ اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، اور جب آپ سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : بندوں کے اعمال دوشنبہ اور جمعرات کو (بارگاہ الٰہی میں) پیش کئے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤١ (٢٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠١) ، سنن الدارمی/الصوم ٤١ (١٧٩١) (صحیح )

【125】

ذی الحجہ کی دسویں تاریخ تک روزے رکھنا

ہنیدہ بن خالد کی بیوی سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی کسی بیوی سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذی الحجہ کے (شروع) کے نو دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن یعنی مہینے کے پہلے پیر (سوموار، دوشنبہ) اور جمعرات کا روزہ رکھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤١ (٢٣٧١) ، ٥١ (٢٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٧١) ، ویأتی ہذا الحدیث برقم (٢٤٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ابوداود کی اس روایت میں اسی طرح واحد کے لفظ کے ساتھ ہے مگر نسائی کی روایت (رقم ٢٣٧٤) میں تثنیہ الخميسين کے لفظ کے ساتھ ہے ، اور سیاق وسباق سے یہی متبادر ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر تین دن کی تفصیل نہیں ہو پاتی۔

【126】

ذی الحجہ کی دسویں تاریخ تک روزے رکھنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہاد بھی (اسے نہیں پاسکتا) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جہاد بھی نہیں، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور لوٹا ہی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١١ (٩٦٩) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٢ (٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٢٤، ٣٣٨، ٣٤٦) ، سنن الدارمی/الصیام ٥٢ (١٨١٤) (صحیح )

【127】

ذی الحجہ کے دس دنوں میں روزے نہ رکھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عشرہ ذی الحجہ ١ ؎ میں کبھی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاعتکاف ٤ (١١٧٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٥١ (٧٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٩ (١٧٢٩) ، مسند احمد (٦/٤٢، ١٢٤، ١٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جن کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان نو دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، خاص کر یوم عرفہ (حاجیوں کے میدان عرفات میں وقوف کے دن ) کے روزے کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کسی بیماری یا سفر کی وجہ سے کبھی روزہ نہ رکھا ہو نیز عائشہ (رض) کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ روزہ نہ رکھتے رہے ہوں۔

【128】

عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھنا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٠ (١٧٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٥٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٠٤، ٤٤٦) (ضعیف) (اس کے راوی ” مہدیٰ الہجری “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎ : یوم عرفہ (عرفہ کے دن) کا روزہ یعنی (٩) ذی الحجہ کے دن کا روزہ ، اور سعودی عرب کے ٹائم ٹیبل اور حج کے دن کے اعلان کے مطابق عرفات میں حجاج کے اجتماع کے دن کا روزہ ہے، اور یہ امیر حج کے اعلان کے مطابق مکہ مکرمہ میں اس دن ذی الحجۃ کی (٩) تاریخ ہوگی، اختلاف مطالع کی وجہ سے تاریخوں کے فرق میں عام مسلمان مکہ کی تاریخ کا خیال رکھیں۔

【129】

عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھنا

ام الفضل بنت حارث (رض) سے روایت ہے کہ ان کے پاس لوگ رسول ﷺ کے یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزے سے متعلق جھگڑنے لگے، کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ آپ ﷺ روزے سے ہیں اور کچھ کہہ رہے تھے کہ روزے سے نہیں ہیں چناچہ میں نے دودھ کا ایک پیالہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا اس وقت آپ عرفہ میں اپنے اونٹ پر وقوف کئے ہوئے تھے تو آپ نے اسے نوش فرما لیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨٥ (١٦٥٨) ، الصوم ٦٥ (١٩٨٨) ، الأشربة ١٢ (٥٦٠٤) ، صحیح مسلم/الصیام ١٨ (١١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٤) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الحج ٤٣ (١٣٢) ، مسند احمد (٦/٣٣٨، ٣٤٠) (صحیح )

【130】

عاشورہ کے دن روزہ رکھنا

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ بھی اس کا روزہ نبوت سے پہلے رکھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مدینہ آئے تو آپ نے اس کا روزہ رکھا، اور اس کے روزے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رمضان کے روزے ہی فرض رہے، اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا اب اسے جو چاہے رکھے جو چاہے چھوڑ دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصیام ١٩ (١١٢٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٤٩ (٧٥٣) ، موطا امام مالک/الصیام ١١(٣٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٣) (صحیح )

【131】

عاشورہ کے دن روزہ رکھنا

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٢) ، والتفسیر ٢٤ (٤٥٠١) ، صحیح مسلم/الصیام ٢٠ (١١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٤١ (١٧٣٧) ، مسند احمد (٢/٥٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٣) (صحیح )

【132】

عاشورہ کے دن روزہ رکھنا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، اس کے متعلق جب ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (وضاحت) کو فرعون پر فتح نصیب کی تھی، چناچہ تعظیم کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے تم سے زیادہ حقدار ہیں ، اور آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٤) ، أحادیث الأنبیاء ٢٤ (٣٣٩٧) ، المناقب ٥٢ (٣٩٤٣) ، التفسیر ٢ (٤٧٣٧) ، صحیح مسلم/الصیام ١٩ (١١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٤٩ (٧٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤١ (١٧٣٤) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٣٤٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٨٠٠) (صحیح )

【133】

اس بات کا بیان کہ عاشورہ نویں تاریخ کو ہے

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے ، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپ وفات فرما گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٠ (١١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : یہود کی مخالفت میں اس کے ساتھ نو کو بھی روزہ رکھنے کا عزم کیا تھا اور قولا اس کا حکم بھی دیا تھا، ویسے ایک دن پہلے بھی روزہ رہنے سے شکرانہ ادا ہوسکتا ہے۔

【134】

اس بات کا بیان کہ عاشورہ نویں تاریخ کو ہے

حکم بن الاعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت وہ مسجد الحرام میں اپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے، میں نے عاشوراء کے روزے سے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا : جب تم محرم کا چاند دیکھو تو گنتے رہو اور نویں تاریخ آنے پر روزہ رکھو، میں نے پوچھا : محمد ﷺ بھی اسی طرح روزہ رکھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : (ہاں) محمد ﷺ بھی اسی طرح روزہ رکھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٢٠ (١١٣٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٠ (٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٤١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٢٣٩، ٢٤٦، ٢٨٠، ٣٤٤، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : پچھلی حدیث میں ہے ” آئندہ سال آیا نہیں کہ آپ وفات پا گئے “ اور اس حدیث میں ہے، ” محمد ﷺ بھی اسی طرح (نو محرم کا) روزہ رکھتے تھے “ بات صحیح یہی ہے کہ نو کے روزہ رکھنے کا آپ ﷺ کو موقع نہیں ملا، لیکن ابن عباس (رض) نے اس بنا پر کہہ دیا کہ آپ ﷺ نے آئندہ سے روزہ رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا، نیز قولا اس کا حکم بھی دیا تھا۔

【135】

عاشورہ کے روزے کی فضیلت

عبدالرحمٰن بن مسلمہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کے لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا : کیا تم لوگوں نے اپنے اس دن کا روزہ رکھا ہے ؟ جواب دیا : نہیں، فرمایا : دن کا بقیہ حصہ بغیر کھائے پئے پورا کرو اور روزے کی قضاء کرو ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : یعنی عاشوراء کے دن۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/ الصیام ٣٦ (٢٣٢٠) (تحفة الأشراف : ١٥٦٢٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/٢٩، ٣٦٧، ٤٠٩) (ضعیف) (اس کے راوی عبد الرحمن لین الحدیث ہیں )

【136】

ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ کرنا

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داود (علیہ السلام) کے روزے ہیں، اور پسندیدہ نماز بھی داود کی نماز ہے : وہ آدھی رات تک سوتے، اور تہائی رات تک قیام کرتے (تہجد پڑھتے) ، پھر رات کا چھٹا حصہ سوتے، اور ایک دن روزہ نہ رکھتے، ایک دن رکھتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/قیام اللیل ٧ (١١٣١) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن النسائی/الصیام ٤٠ (٢٣٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣١ (١٧١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٠٦) ، دی/ الصوم (٤٢ (١٧٩٣) (صحیح )

【137】

ہرمہینہ میں تین روزے رکھنے کا بیان

قتادہ بن ملحان قیسی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ایام بیض یعنی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخوں میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے، اور فرماتے : یہ پورے سال روزے رکھنے کے مثل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٥١ (٢٤٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٩ (١٧٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/١٦٥، ٥/٢٧، ٢٨) (صحیح )

【138】

ہرمہینہ میں تین روزے رکھنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے کے شروع میں تین دن روزے رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٤١ (٧٤٢) ، سنن ابن ماجہ/ المناسک ٣٧ (١٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٤٠٦) (حسن )

【139】

پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کا بیان

ام المؤمنین حفصہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مہینے میں تین دن روزے رکھتے تھے یعنی (پہلے ہفتہ کے) دوشنبہ، جمعرات اور دوسرے ہفتے کے دوشنبہ کو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٤١ (٢٣٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٧، ٢٨٨) ، وانظر ما تقدم برقم : (٢٤٣٧) (حسن )

【140】

پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کا بیان

ہنیدہ خزاعی اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس گئی اور ان سے روزے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین دن روزے رکھنے کا حکم فرماتے تھے، ان میں سے پہلا دوشنبہ کا ہوتا اور جمعرات کا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الصیام ٥١ (٢٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٧) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٢٨٩، ٣١٠) (منکر ) وضاحت : ١ ؎ : نسائی میں اس روایت کے الفاظ ہیں ، أَوَّلُ خَمِيْسٍ “ ” وَالاثْنَيْنِ وَالاثْنَيْنِ یعنی : مہینے کا پہلا جمعرات اور دوشنبہ ، پھر دوسرا دوشنبہ ، بعض روایتوں میں تیسرا دن جمعرات ہے (حدیث نمبر : ٢٤٣٧) بعض روایتوں میں درمیان ماہ کے تین دنوں کا تذکرہ ہے ، اور اگلی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی خاص دن متعین نہیں تھا، بس تین دن کا روزہ مقصود تھا، سب مختلف اوقات و حالات کے لحاظ سے تھا۔

【141】

مہینہ میں جس دن چاہے روزہ رکھے

معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں، میں نے پوچھا : مہینے کے کون سے دنوں میں روزے رکھتے تھے ؟ جواب دیا کہ آپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تھی کہ مہینہ کے کن دنوں میں رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٦ (١١٦٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٤ (٧٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٩ (١٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٤٥) (صحیح )

【142】

رات سے روزہ کی نیت کرناضروری ہے

ام المؤمنین حفصہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے فجر ہونے سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے لیث اور اسحاق بن حازم نے عبداللہ بن ابی بکر سے اسی کے مثل (یعنی مرفوعاً ) روایت کیا ہے، اور اسے معمر، زبیدی، ابن عیینہ اور یونس ایلی نے ام المؤمنین حفصہ (رض) پر موقوف کیا ہے، یہ سارے لوگ زہری سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٣٣ (٧٣٠) ، سنن النسائی/الصیام ٣٩ (٢٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٦ (١٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصیام ٢ (٥) ، مسند احمد (٦/٢٧٨) ، سنن الدارمی/الصوم ١٠(١٧٤٠) (صحیح ) Narrated Hafsah, Ummul Muminin: The Messenger of Allah ﷺ said: He who does not determine to fast before dawn does not fast.

【143】

رات سے روزہ کی نیت کرناضروری نہیں ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے پاس تشریف لاتے تو پوچھتے : کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ جب میں کہتی : نہیں، تو فرماتے : میں روزے سے ہوں ، ایک دن آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ہدیے میں (کھجور، گھی اور پنیر سے بنا ہوا) ملیدہ آیا ہے، اور اسے ہم نے آپ کے لیے بچا رکھا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لاؤ اسے حاضر کرو ۔ طلحہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے روزے سے ہو کر صبح کی تھی لیکن روزہ توڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٢ (١١٥٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٥ (٧٣٤) ، سنن النسائی/الصیام ٣٩ (٢٣٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٦ (١٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٤٩، ٢٠٧) (حسن صحیح )

【144】

رات سے روزہ کی نیت کرناضروری نہیں ہے

ام ہانی (رض) کہتی ہیں کہ فتح مکہ کا دن تھا، فاطمہ (رض) آئیں اور رسول اللہ ﷺ کے بائیں جانب بیٹھ گئیں اور میں دائیں جانب بیٹھی، اس کے بعد لونڈی برتن میں کوئی پینے کی چیز لائی، اور آپ ﷺ کو پیش کیا، آپ نے اس میں سے نوش فرمایا، پھر مجھے دے دیا، میں نے بھی پیا، پھر میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں تو روزے سے تھی، میں نے روزہ توڑ دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم کسی روزے کی قضاء کر رہی تھیں ؟ جواب دیا نہیں، فرمایا : اگر نفلی روزہ تھا تو تجھے کوئی نقصان نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٨٠٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٣٤ (٧٣٢) ، مسند احمد (٦/٣٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : ام المومنین حفصہ (رض) کی پچھلی روایت سے فجر ہی سے نیت کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور اس باب کی دونوں روایتوں سے عدم وجوب ! دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ حفصہ کی روایت فرض روزے سے متعلق ہے، اور باب کی دونوں روایتیں نفلی روزے سے متعلق ہیں، سیاق سے یہ صاف ظاہر ہے۔

【145】

جن کے نزدیک نفل روزہ توڑنے سے قضا واجب ہوتی ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے اور ام المؤمنین حفصہ (رض) کے لیے کچھ کھانا ہدیے میں آیا، ہم دونوں روزے سے تھیں، ہم نے روزہ توڑ دیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہم نے آپ سے دریافت کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ہدیہ آیا تھا ہمیں اس کے کھانے کی خواہش ہوئی تو روزہ توڑ دیا (یہ سن کر) آپ ﷺ نے فرمایا : روزہ توڑ دیا تو کوئی بات نہیں، دوسرے دن اس کے بدلے رکھ لینا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٣٦ (٧٣٥) ، موطا امام مالک/الصیام ١٨ (٥٠) (ضعیف) (اس کے راوی زُمَیل مجہول ہیں )

【146】

عورت شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی عورت روزہ نہ رکھے سوائے رمضان کے، اور بغیر اس کی اجازت کے اس کی موجودگی میں کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ البیوع ١٢ (٢٠٦٦) ، النکاح ٨٤ (٥١٩٢) ، النفقات ٥ ٥٣٦٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٦ (١٠٢٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٦٥ (٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٣ (١٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٩٥، ١٤٧٩٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٦١) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٠ (١٧٦١) (صحیح) دون ذکر رمضان

【147】

عورت شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، ہم آپ کے پاس تھے، کہنے لگی : اللہ کے رسول ! میرے شوہر صفوان بن معطل (رض) جب نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتے ہیں، اور روزہ رکھتی ہوں تو روزہ تڑوا دیتے ہیں، اور فجر سورج نکلنے سے پہلے نہیں پڑھتے۔ صفوان اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھے، تو آپ ﷺ نے ان سے ان باتوں کے متعلق پوچھا جو ان کی بیوی نے بیان کیا تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس کا یہ الزام کہ نماز پڑھنے پر میں اسے مارتا ہوں تو بات یہ ہے کہ یہ دو دو سورتیں پڑھتی ہے جب کہ میں نے اسے (دو دو سورتیں پڑھنے سے) منع کر رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : لوگ اگر ایک ہی سورت پڑھ لیں تب بھی کافی ہے ۔ صفوان نے پھر کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں اس سے روزہ افطار کرا دیتا ہوں تو یہ روزہ رکھتی چلی جاتی ہے، میں جوان آدمی ہوں صبر نہیں کر پاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس دن فرمایا : کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفل روزہ) نہ رکھے ۔ رہی اس کی یہ بات کہ میں سورج نکلنے سے پہلے نماز نہیں پڑھتا تو ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب بھی جاگو نماز پڑھ لیا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٤٠١٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٣ (١٧٦٢) ، مسند احمد (٣/٨٠، ٨٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٠ (١٧٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : صفوان بن معطل (رض) کے اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ گویا آپ شرعی طور پر اس بات میں معذور تھے ، اور یہ واقعہ کبھی کبھار کا ہی ہوسکتا ہے ، جس کو مسئلہ بنا کر ان کی بیوی نے عدالت نبوی میں پیش کیا۔ صحابی رسول کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ قصداً و عمداً وہ نماز میں تساہلی کرے گا ، رات بھر کی محنت و مزدوری کے بعد آدمی تھک کر چور ہوجاتا ہے ، اور فطری طور پر آخری رات کی نیند سے خود سے یا جلدی بیدار ہونا مشکل مسئلہ ہے ، اگر کبھی ایسی معذوری ہوجائے تو بیداری کے بعد نماز ادا کرلی جائے ، ایک بات یہ بھی واضح رہے کہ صفوان اور ان کے خاندان کے لوگ گہری نیند اور تاخیر سے اٹھنے کی عادت میں مشہور تھے ، جیسا کہ زیر بحث حدیث میں صراحت ہے ، نیز مسند احمد میں صفوان کا قول ہے کہ : میں گہری نیند والا ہوں ، اور ایسے خاندان سے ہوں جو اپنی گہری نیند کے بارے میں مشہور ہیں ( ٣ ؍ ٨٤- ٨٥ ) ۔ نیز مسند احمد میں ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا کہ کن وقتوں میں نماز مکروہ ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فجر کے بعد نماز سے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل آئے ، جب سورج نکل آئے تو نماز پڑھو ... ( ٥ ؍ ٣١٢ ) ۔ چناچہ غزوات میں اپنی اسی عادت کی بنا پر قافلہء مجاہدین میں سب سے بعد میں لوگوں کے گرے پڑے سامان سمیٹ کر قافلہ سے مل جاتے ( ملاحظہ ہو واقعہ إفک جو کہ غزوہ بنی مصطلق میں ہوا ) ۔ یہ بھی واضح رہے کہ فجر میں مسلسل غیر حاضری کا معاملہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخفی نہیں رہ سکتا ، بلکہ یہ حرکت تو منافقین سے سرزد ہوتی تھی ، اور صحابہ کرام کے بارے میں یا صفوان (رض) کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔

【148】

اگر کسی روزہ دار کی ولیمہ کی دعوت ہو

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، اگر روزے سے نہ ہو تو کھالے، اور اگر روزے سے ہو تو اس کے حق میں دعا کر دے ۔ ہشام کہتے ہیں : صلا ۃ سے مراد دعا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٤٥٧٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٣١ (١٧٧٨) (صحیح )

【149】

اگر کسی روزہ دار کی ولیمہ کی دعوت ہو

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے اور وہ روزے سے ہو تو اسے کہنا چاہیئے کہ میں روزے سے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الصیام ٢٨ (١١٥٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٦٤ (٧٨١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٧ (١٧٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٤٢) ، دی/المناسک ٣١ (١٧٧٨) (صحیح )

【150】

اعتکاف کا بیان

ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، اور آپ ﷺ کا یہ معمول وفات تک رہا، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١ (٢٠٢٦) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ١ (١١٧٢) ، سنن الترمذی/الصوم ٧١ (٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/٦٩، ٩٢، ٢٧٩) (صحیح )

【151】

اعتکاف کا بیان

ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، ایک سال (کسی وجہ سے) اعتکاف نہیں کرسکے تو اگلے سال آپ ﷺ نے بیس رات کا اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٨ (١٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٥/١٤١) (صحیح )

【152】

اعتکاف کا بیان

حدیث نمبر : 2464 ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کرنے کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، تو خیمہ لگانے کا حکم دیا، خیمہ لگا دیا گیا، جب میں نے اسے دیکھا تو اپنے لیے بھی خیمہ لگانے کا حکم دیا، اسے بھی لگایا گیا، نیز میرے علاوہ دیگر ازواج مطہرات نے بھی خیمہ لگانے کا حکم دیا تو لگایا گیا، جب آپ ﷺ نے فجر پڑھی تو ان خیموں پر آپ کی نگاہ پڑی آپ نے پوچھا : یہ کیا ہیں ؟ کیا تمہارا مقصد اس سے نیکی کا ہے ؟ ١ ؎، پھر آپ ﷺ نے اپنے نیز اپنی ازواج کے خیموں کے توڑ دینے کا حکم فرمایا، اور اعتکاف شوال کے پہلے عشرہ تک کے لیے مؤخر کردیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اسے ابن اسحاق اور اوزاعی نے یحییٰ بن سعید سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اسے مالک نے بھی یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے آپ نے شوال کی بیس تاریخ کو اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٦ (٢٠٣٣) ، ٧ (٢٠٣٤) ، ١٤ (٢٠٤١) ، ١٨ (٢٠٤٥) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٢ (١١٧٢) ، سنن الترمذی/الصوم ٧١ (٧٩١) ، سنن النسائی/المساجد ١٨ (٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥٩ (١٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الاعتکاف ٤ (٧) ، مسند احمد (٦/٨٤، ٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : استفہام انکاری ہے یعنی اس کام سے تم سب کے پیش نظر نیکی نہیں ہے، غیرت کی وجہ سے یہ کام کر رہی ہو۔

【153】

اعتکاف کہاں کرنا چاہئے

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ نافع کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر نے مجھے مسجد کے اندر وہ جگہ دکھائی جس میں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١ (٢٠٢٥) (دون قولہ : قال نافع ۔۔۔ ) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ١ (١٧٧١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦١ (١٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٣٦) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/١٣٣) (صحیح )

【154】

اعتکاف کہاں کرنا چاہئے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے، لیکن جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١٧ (٢٠٤٤) ، فضائل القرآن ٧ (٤٩٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٨ (١٧٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٤) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٢٨١، ٣٣٦، ٣٥٥، ٤١٠) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٥ (١٨٢٠) (حسن صحیح )

【155】

معتکف حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے گھر میں جاسکتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف میں ہوتے تو (مسجد ہی سے) اپنا سر میرے قریب کردیتے اور میں اس میں کنگھی کردیتی اور آپ ﷺ گھر میں کسی انسانی ضرورت ہی کے پیش نظر داخل ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٠٨) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٢) ، الاعتکاف ١ (١) ، ٧ (٧) ، مسند احمد (٦/١٠٤، ٢٠٤، ٢٣١، ٢٤٧، ٢٦٢، ٢٧٢، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٧ (١٠٨٥) (صحیح )

【156】

معتکف حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے گھر میں جاسکتا ہے

اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ (رض) سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الاعتکاف ٣ (٢٠٢٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، سنن الترمذی/الصیام ٨٠ (٨٠٥) ، سنن النسائی/ الکبری/ الاعتکاف (٣٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٦٣ (١٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٨) (صحیح )

【157】

معتکف حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے گھر میں جاسکتا ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد کے اندر اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو حجرے کے کسی جھروکے سے اپنا سر میری طرف کردیتے میں آپ ﷺ کا سر دھو دیتی، کنگھی کردیتی، اور میں حیض سے ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٦٨٧٠) (صحیح )

【158】

معتکف حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے گھر میں جاسکتا ہے

ام المؤمنین صفیہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ معتکف تھے تو میں رات میں ملاقات کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ ﷺ سے میں نے بات چیت کی، پھر میں کھڑی ہو کر چلنے لگی تو آپ ﷺ بھی مجھے واپس کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے، (اس وقت ان کی رہائش اسامہ بن زید (رض) کے مکان میں تھی) اتنے میں دو انصاری وہاں سے گزرے، وہ آپ کو دیکھ کر تیزی سے نکلنے لگے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہے (ایسا نہ ہو کہ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوجائے) ، وہ بولے : سبحان اللہ ! اللہ کے رسول ! (آپ کے متعلق ایسی بدگمانی ہو ہی نہیں سکتی) آپ ﷺ نے فرمایا : شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کچھ (یا کہا : کوئی شر) نہ ڈال دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١١ (٢٠٣٨) ، ١٢ (٢٠٣٩) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٨١) ، الأحکام ٢١ (٧١٧١) ، صحیح مسلم/السلام ٩ (٢١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦٥ (١٧٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٣/١٥٦، ٢٨٥، ٣٠٩، ٦/٣٣٧) ، سنن الدارمی/الصوم ٥٥ (١٨٢١) ، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (٤٩٩٤) (صحیح )

【159】

معتکف حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے گھر میں جاسکتا ہے

زہری سے اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے جس میں ام المؤمنین صفیہ (رض) کا بیان ہے کہ جب آپ ﷺ مسجد کے اس دروازے پر پہنچے جو ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے دروازے کے پاس ہے تو ان کے قریب سے دو شخص گزرے، اور پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٠١) (صحیح )

【160】

معتکف کے لئے مریض کے عیادت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ حالت اعتکاف میں مریض کے پاس سے عیادت کرتے ہوئے گزر جاتے جس طرح کے ہوتے اور ٹھہرتے نہیں بغیر ٹھہرتے اس کا حال پوچھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ١٧٥١٥) (ضعیف) (اس کے راوی لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں )

【161】

معتکف کے لئے مریض کے عیادت

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ سنت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا کسی مریض کی عیادت نہ کرے، نہ جنازے میں شریک ہو، نہ عورت کو چھوئے، اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے، اور نہ کسی ضرورت سے نکلے سوائے ایسی ضرورت کے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، اور بغیر روزے کے اعتکاف نہیں، اور جامع مسجد کے سوا کہیں اور اعتکاف نہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عبدالرحمٰن کے علاوہ دوسروں کی روایت میں قالت السنة کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : انہوں نے اسے ام المؤمنین عائشہ (رض) کا قول قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٣٥٤) (حسن صحیح )

【162】

معتکف کے لئے مریض کے عیادت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر کعبہ کے پاس ایک دن اور ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : اعتکاف کرو اور روزہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف : ٧٣٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ١٦ (٢٠٤٣) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ٧ (١٦٥٦) ، سنن الترمذی/الأیمان والنذور ١١ (١٥٣٩) ، سنن النسائی/الکبری/ الاعتکاف (٣٣٥٥) ، كلهم رو وا هذا الحديث بلفظ : ” أوف بنذرک “۔ (صحیح) دون قوله : ” أو يومًا “ وقوله : ” وصم “ (سب کے یہاں صرف ” اپنی نذر پوری کر “ کا لفظ ہے اور بس )

【163】

معتکف کے لئے مریض کے عیادت

اس سند سے بھی عبداللہ بن بدیل سے اسی طرح مروی ہے، اس میں ہے اسی دوران کہ وہ (عمر رضی اللہ عنہ) حالت اعتکاف میں تھے لوگوں نے الله أكبر کہا، تو پوچھا : عبداللہ ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ قبیلہ ہوازن والوں کے قیدیوں کو رسول اللہ ﷺ نے آزاد کردیا ہے، کہا : یہ لونڈی بھی (تو انہیں میں سے ہے) ١ ؎ چناچہ انہوں نے اسے بھی ان کے ساتھ آزاد کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ عمر (رض) سے جب یہ سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہوازن کے قیدیوں کو آزاد کردیا ہے تو اپنے بیٹے عبداللہ (رض) سے کہا کہ یہ لونڈی جو میرے پاس ہے وہ بھی تو انہیں قیدیوں میں سے ہے پھر تم اسے کیسے روکے ہوئے ہو۔

【164】

مستحاضہ اعتکاف کرسکتی ہے

ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کی بیویوں میں سے کسی نے اعتکاف کیا وہ (خون میں) پیلا پن اور سرخی دیکھتیں (یعنی انہیں استحاضہ کا خون جاری رہتا) تو بسا اوقات ہم ان کے نیچے (خون کے لیے) بڑا برتن رکھ دیتے اور وہ حالت نماز میں ہوتیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١٠ (٣٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦٦ (١٧٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٩) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٦/١٣١) ، سنن الدارمی/الطھارة ٩٣ (٩٠٦) (صحیح )