1. پاکی کا بیان
اللہ تعالیٰ کا ارشاد اے لوگو جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو اپنا چہرہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھوؤ کی تفسیر
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے جاگ جائے تو اپنا ہاتھ اپنے وضو کے پانی میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اسے تین بار دھو لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٦ (١٦٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٦ (٢٧٨) ، سنن ابی داود/الطھارة ٤٩ (١٠٣) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٩ (٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٤٠ (٣٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٩) ، موطا امام مالک/ فیہ ٢ (٩) ، مسند احمد ٢/٢٤١، ٢٥٣، ٢٥٩، ٣٤٩، ٣٨٢، سنن الدارمی/الطہارة ٧٨ (٧٩٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٦١، ٤٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق وليس عند خ العدد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1
رات کو بیدار ہونے کے بعد مسواک کرنا
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو (نماز تہجد کے لیے) اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٣ (٢٤٥) ، الجمعة ٨ (٨٨٩) ، التہجد ٩ (١١٣٦) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٥) ، سنن ابی داود/فیہ ٣٠ (٥٥) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧ (٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٦) ، مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٩٠، ٣٩٧، ٤٠٢، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٢٠/٧١٢، وأعادہ المؤلف في قیام اللیل : ١٠، رقم : ١٦٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2
طریقہ مسواک
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ مسواک کر رہے تھے اور مسواک کا سرا آپ ﷺ کی زبان پر تھا، اور آپ : عأعأ کی آواز نکال رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧٣ (٢٤٤) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٤) ، سنن ابی داود/فیہ ٢٦ (٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٣) وقد أخرجہ : مسند احمد ٤/٤١٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حلق صاف کر رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3
کیا حاکم اپنی رعایا کی موجودگی میں مسواک کرسکتا ہے؟
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ ﷺ مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ ﷺ سے کام (نوکری) کی درخواست کی ٢ ؎، میں نے عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ ﷺ کی مسواک کو (جو اس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ٣ ؎، لیکن (اے ابوموسیٰ ! ) تم جاؤ (یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں) ، چناچہ آپ ﷺ نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ١ (٢٢٦١) ، المرتدین ٢ (٦٩٢٣) مطولا، الأحکام ٧ (٧١٤٩) ١٢ (٧١٥٦) مختصرا، صحیح مسلم/الإمارة ٣ (١٧٣٣) ، سنن ابی داود/الأقضیة ٣ (٣٥٧٩) ، الحدود ١ (٤٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٣) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٣٩٣، ٤٠٩، ٤١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ نسخہ نظامیہ میں يستاک کا لفظ ہے، بقیہ تمام نسخوں میں يستن کا لفظ موجود ہے۔ ٢ ؎: یعنی اس بات کی درخواست کی کہ آپ ہمیں عامل بنا دیجئیے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجئیے۔ ٣ ؎: کیونکہ اللہ کی توفیق و مدد ایسے شخص کے شامل حال نہیں ہوتی، وہ اپنے نفس کے سپرد کردیا جاتا ہے، جیسا کہ عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا : لا تسال الإمارة فإنك إن اعطيتها عن مسالة وکلت إليها حکومت کا سوال نہ کرنا اس لیے کہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے (صحیح البخاری : ٧١٤٦ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4
فضیلت مسواک
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : مسواک منہ کی پاکیزگی، رب تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٢٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٧ (تعلیقا : ١٩٣٤) ، مسند احمد ٦/٤٧، ٦٢، ١٢٤، ٢٣٨، سنن الدارمی/الطہارة ١٩ (٧١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5
کثرت کے ساتھ مسواک کرنے کی ہدایت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے مسواک کے سلسلے میں تم لوگوں سے بارہا کہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٨ (٨٨٨) (تحفة الأشراف : ٩١٤) ، مسند احمد (٣/١٤٣، ٢٤٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٨ (٧٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: أکثرت بصیغہ مجہول بھی منقول ہے یعنی مجھے بارہا یہ حکم دیا گیا کہ میں تمہیں باربار مسواک کرنے کی تاکید کروں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 6
روزہ دار شخص کے لئے تیسرے پہر تک مسواک
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں اپنی امت کے لیے باعث مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٨ (٨٨٧) ، موطا امام مالک/الطھارة : ٣٢ (١١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٢) ، سنن ابی داود/ فیہ ٢٥ (٤٦) ، سنن الترمذی/ فیہ ١٨ (٢٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧ (٢٨٧) ، موطا امام مالک/فیہ ٣٢ (١١٤) ، مسند احمد ٢/٢٤٥، ٢٥٠، ٣٩٩، ٤٠٠، سنن الدارمی/الطہارة ١٧ (٧١٠) ، یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ فرمائیں ٥٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وجوبی حکم دیتا، رہا مسواک کا ہر نماز کے وقت مسنون ہونا تو وہ ثابت ہے، اور باب سے مناسبت یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم عام ہے، صائم اور غیر صائم دونوں کو شامل ہے، اسی طرح صبح، دوپہر اور شام سبھی وقتوں کو شامل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 7
ہر وقت مسواک کرنا
شریح کہتے ہیں : میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو کون سا کام پہلے کرتے ؟ انہوں نے کہا : مسواک سے (پہل کرتے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٣) ، سنن ابی داود/فیہ ٢٧ (٥١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧ (٢٩٠) ، مسند احمد ٦/٤١، ١١٠، ١٨٢، ١٨٨، ١٩٢، ٢٣٧، ٢٥٤، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی طبیعت میں کس درجہ لطافت تھی کہ منہ میں معمولی تغیر کا پیدا ہونا بھی گوارا نہ تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 8
پیدائشی سنتیں جیسے ختنہ وغیرہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : فطری (پیدائشی) سنتیں پانچ ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، مونچھ کترنا، ناخن تراشنا، اور بغل کے بال اکھیڑنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٣ (٥٨٨٩) ، ٦٤ (٥٨٩١) ، الاستئذان ٥١ (٦٢٩٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٧) ، سنن ابی داود/الترجل ١٦ (٤١٩٨) ، سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨ (٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤٣) ، موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ٣ موقوفا (٤) ، مسند احمد ٢/٢٢٩، ٢٤، ٢٨٤، ٤١١، ٤٨٩ (صحیح ) وضاحت : فطرت سے مراد جبلت یعنی مزاج و طبیعت کے ہیں جس پر انسان کی پیدائش ہوتی ہے، یہاں مراد قدیم سنت ہے جسے انبیاء کرام (علیہم السلام) نے پسند فرمایا ہے اور تمام قدیم شریعتیں اس پر متفق ہیں، گویا کہ یہ پیدائشی معاملہ ہے۔ یہاں حصر یعنی ان فطری چیزوں کو ان پانچ چیزوں میں محصور کردینا مراد نہیں ہے، بعض روایتوں میں عشر من الفطرة کے الفاظ وارد ہیں۔ (یعنی دس چیزیں فطری امور میں سے ہیں) ۔ ایک حدیث کی رو سے چالیس دن سے زیادہ کی تاخیر اس میں درست نہیں ہے۔ مونچھ کترنا، اس سے مراد لب (ہونٹ) کے بڑھے ہوئے بالوں کا کاٹنا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑی اور لمبی مونچھیں ناپسندیدہ ہیں۔ (یعنی فطری چیز کو ان پانچ چیزوں میں محصور کردینا) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 9
ناخن کاٹنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں : مونچھ کترنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، اور ختنہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٦) ، مسند احمد ٢/٢٢٩، ٢٨٣، ٤١٠، ٤٨٩، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٦) ، یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : (٥٢٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 10
بغل کے بال اکھاڑنے کا بیان۔
ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں : ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، اور مونچھ کے بال لینا (یعنی کاٹنا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٣ (٥٨٨٩) ، ٦٤ (٥٨٩١) ، الإستئذان ٥١ (٦٢٩٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٧) ، سنن ابی داود/الترجل ١٦ (٤١٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨ (٢٩٢) ، مسند احمد ٢/٢٣٩، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 11
ناف کے نیچے کے بال کاٹنے کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ناخن تراشنا، مونچھ کے بال لینا، اور زیر ناف کے بال مونڈنا فطری (پیدائشی) سنتیں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٣ (٥٨٨٨) ، ٦٤ (٥٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٥٤) ، مسند احمد ٢/١١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 12
مونچھ کترنا
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنی مونچھ کے بال نہ لے وہ ہم میں سے نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/ الأدب ١٦ (٢٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٠) ، (مسند احمد ٤/٣٦٦، ٣٦٨) یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے (٥٠٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہماری روش پر چلنے والوں میں سے نہیں، یہ تعبیر تغلیظ و تشدید کے لیے ہے، اسلام سے خروج مراد نہیں اس لیے اس میں غفلت و سستی نہ کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 13
مذکورہ اشیاء کی مدت سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مونچھ کترنے، ناخن تراشنے، زیر ناف کے بال صاف کرنے، اور بغل کے بال اکھیڑنے کی مدت ہمارے لیے مقرر فرما دی ہے کہ ان چیزوں کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ١ ؎، راوی نے دوسری بار أربعين يومًا کے بجائے أربعين ليلة کے الفاظ کی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٨) ، سنن ابی داود/الترجل ١٦ (٤٢٠٠) ، سنن الترمذی/الأدب ١٥ (٢٧٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨ (٢٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠) ، مسند احمد ٣/١٢٢، ٢٠٣، ٢٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ تحدید اکثر مدت کی ہے مطلب یہ ہے کہ چالیس دن سے انہیں زیادہ نہ چھوڑے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 14
مونچھ کے بال کترنے اور داڑھی کے چھوڑنے کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مونچھوں کو خوب کترو ١ ؎، اور داڑھیوں کو چھوڑے رکھو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٦ (٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨١٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٤ (٥٨٩٢) ، ٦٥ (٥٨٩٣) ، سنن ابی داود/الترجل ١٦ (٤١٩٩) ، سنن الترمذی/الأدب ١٨ (٢٧٦٣) ، ط : الشعر ١ (١) ، مسند احمد ٢/١٦، ٥٢، ١٥٧ یہ حدیث مکرر، دیکھئے : ٥٠٤٨، ٥٢٢٨) ، ولفظہ عند أبي داود ومالک : أمر بإحفاء الشوارب وإعفاء اللحی (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: أحفو کے معنی کاٹنے میں مبالغہ کرنے کے ہیں۔ ٢ ؎: داڑھی کے لیے صحیحین کی روایتوں میں پانچ الفاظ استعمال ہوئے ہیں : اعفوا، أو فوا، أرخو اور وفروا ان سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی : داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑے رکھو، البتہ ابن عمر اور ابوہریرہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ وہ ایک مٹھی کے بعد زائد بال کو کاٹا کرتے تھے، جب کہ یہی لوگ إعفاء اللحی ۃ کے راوی بھی ہیں، گویا کہ ان کا یہ فعل لفظ إعفائ کی تشریح ہے، اسی لیے ایک مٹھی کی مقدار بہت سے علماء کے نزدیک فرض ہے اس لیے ایک مٹھی سے کم کی داڑھی خلاف سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 15
پیشاب پاخانہ کے لئے دور جانا
عبدالرحمٰن بن ابی قراد (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قضائے حاجت کے لیے نکلا، اور آپ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو دور جاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٢ (٣٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٣) ، مسند احمد ٣/٤٤٣ و ٤/٢٢٤، ٢٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ لوگ آپ کو دیکھ نہ سکیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 16
پیشاب پاخانہ کے لئے دور جانا
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب پاخانے کے لیے جاتے تو دور جاتے، مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے ایک سفر میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے (تو واپس آ کر) آپ نے فرمایا : میرے لیے وضو کا پانی لاؤ ، میں آپ کے پاس پانی لے کر آیا، تو آپ نے وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ امام نسائی کہتے ہیں اسمائیل سے مراد : ابن جعفر بن ابی کثیر القاری ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١ (١) ، سنن الترمذی/فیہ ١٦ (٢٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢٢ (٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٠) ، مسند احمد ٣/٤٤٣، ٤/٢٢٤، ٢٣٧، ٢٤٨، سنن الدارمی/الطہارة ٤ (٦٨٦) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 17
قضائے حاجت کے لئے دور نہ جانا
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ١ ؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ٢ ؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہوگیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہوگئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦١ (٢٢٤) ، ٢٦ (٢٢٥) مختصراً ، المظالم ٢٧ (٢٤٧١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٣) ، سنن ابی داود/فیہ ١٢ (٢٣) ، سنن الترمذی/فیہ ٩ (١٣) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٣ (٣٠٥) ، ٨٤ (٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٥) ، لم یذکر بولہ علیہ السلام، مسند احمد ٥/٣٨٢، ٤٠٢، سنن الدارمی/الطہارة ٩ (٦٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی علماء نے متعدد توجیہیں بیان کیں ہیں، سب سے مناسب توجیہ یہ ہے کہ اسے بیان جواز پر محمول کیا جائے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ ٢ ؎: تاکہ میں آڑ بن جاؤں دوسرے لوگ آپ کو اس حالت میں نہ دیکھ سکیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 18
پاخانہ کے لئے جانے کے وقت کی دعا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ کی جگہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : اللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث اے اللہ ! میں ناپاک جنوں اور جنیوں (کے شر) سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٩ (١٤٢) ، الدعوات ١٥ (٦٣٢٢) ، صحیح مسلم/حیض ٣٢ (٣٧٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣ (٤) ، سنن الترمذی/فیہ ٤ (٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩ (٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧) ، مسند احمد ٣/١٠١، ٢٨٢، سنن الدارمی/الطہارة ١٠ (٦٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 19
قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنے کی ممانعت
رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری (رض) کو مصر میں ان کے قیام کے دوران کہتے سنا : اللہ کی قسم ! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کھڈیوں کو کیا کروں ؟ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : جب تم میں سے کوئی پاخانے یا پیشاب کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٥/٤١٤، ٤١٩، (تحفة الأشراف : ٣٤٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 20
پیشاب یا پاخانہ کرنے کے وقت بیت اللہ کی جانب پشت کرنے کی ممانعت
ابوایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پاخانہ و پیشاب کے لیے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١١ (١٤٤) ، الصلاة ٢٩ (٣٩٤) ، صحیح مسلم/الطھارة ١٧ (٢٦٤) ، سنن ابی داود/فیہ ٤ (٩) ، سنن الترمذی/فیہ ٦ (٨) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٧ (٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٧٨) ، مسند احمد ٥/٤١٦، ٤١٧، ٤٢١، سنن الدارمی/فیہ ٦ (٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ خطاب اہل مدینہ اور ان لوگوں کو ہے جو خانہ کعبہ سے اتر یا دکھن کی سمت میں رہتے ہیں، اس سے مقصود اس سمت کی جانب رہنمائی ہے جس میں قبلہ نہ آدمی کے آگے ہو نہ پیچھے، برصغیر ہند و پاک والوں کا قبلہ چونکہ پچھم میں ہے اس لیے یہاں اس حدیث کے مطابق اتر اور دکھن کی طرف منہ یا پیٹھ کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 21
یعقوب بن ابراہیم، غندر، معمر، ابن شہاب، عطا بن یزید، حضرت ابوایوب انصاری
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 22
مکانات میں پیشاب پاخانہ کے وقت بیت اللہ کی جانب چہرہ یا پشت کرنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٢ (١٤٥) ، ١٤ (١٤٨، ١٤٩) ، الخمس ٤ (٣١٠٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٦) ، سنن ابی داود/فیہ ٥ (١٢) ، سنن الترمذی/فیہ ٧ (١١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٨ (٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٢) ، موطا امام مالک/القبلة ٢ (٣) ، مسند احمد ٢/١٢، ١٣، ٤١، سنن الدارمی/طہارة ٨ (٦٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدینہ منورہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے والے کی پیٹھ مکہ مکرمہ کی طرف ہوگی، چونکہ بیت الخلاء گھر میں تھا اس لیے آپ ﷺ نے ایسا کیا، کھلے میدان میں یہ جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 23
قضائے حاجت کے وقت شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے چھونے کی ممانعت
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو داہنے ہاتھ سے اپنا ذکر (عضو تناسل) نہ پکڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٨ (١٥٣) ، ١٩ (١٥٤) ، الأشربة ٢٥ (٥٦٣٠) مطولاً ، صحیح مسلم/الطہارة ١٨ (٢٦٧) ، سنن ابی داود/فیہ ١٨ (٣١) ، سنن الترمذی/فیہ ١١ (١٥) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٥ (٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٥) ، مسند احمد ٤/٣٨٤، ٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٠، ٣٠٩، ٣١٠، ٣١١، سنن الدارمی/الطہارة ١٣ (٧٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ ناپسندیدہ کاموں کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کیا جائے تاکہ داہنے ہاتھ کا احترام و وقار قائم رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 24
قضائے حاجت کے وقت شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے چھونے کی ممانعت
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پاخانہ کی جگہ میں داخل ہو تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا ذکر نہ چھوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 25
صحرا میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا بیان
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے کوڑا خانہ پر آئے تو کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 26
صحرا میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا بیان
حذیفہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے کوڑا خانہ پر آئے تو کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 27
صحرا میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا بیان
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے ایک کوڑا خانہ پر چل کر آئے تو آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 28
مکان میں بیٹھ کر پیشاب کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جو تم سے یہ بیان کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا، تو تم اس کی تصدیق نہ کرو، آپ ﷺ بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٨ (١٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٤ (٣٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٧) ، مسند احمد ٦/١٣٦، ١٩٢، ٢١٣ (صحیح) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی حافظہ کے کمزور راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٢٠١، تراجع الالبانی ٢ ) وضاحت : ١ ؎: حذیفہ اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم دونوں کی روایتوں میں تعارض ہے لیکن حذیفہ (رض) کی روایت کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ سنداً وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور اگر دونوں روایتوں کو صحت میں برابر مان لیا جائے تو جواب یہ ہوگا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی حذیفہ رضی اللہ عنہا کے اثبات میں قادح نہیں کیونکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی ان کی معلومات کی حد تک ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا عام دستور یہی تھا کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے، اور بیان جواز کے لیے آپ نے کھڑے ہو کر بھی پیشاب کیا ہے جیسا کہ حذیفہ (رض) کی روایت سے ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 29
کسی شے کی آڑ میں پیشاب کرنا
عبدالرحمٰن بن حسنہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ہاتھ میں ڈھال کی طرح کوئی چیز تھی، تو آپ نے اسے رکھا، پھر اس کے پیچھے بیٹھے، اور اس کی طرف منہ کر کے پیشاب کیا، اس پر لوگوں نے کہا : ان کو دیکھو ! یہ عورت کی طرح پیشاب کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے سنا تو فرمایا : کیا تمہیں اس چیز کی خبر نہیں جو بنی اسرائیل کے ایک شخص کو پیش آئی، انہیں جب پیشاب میں سے کچھ لگ جاتا تو اسے قینچی سے کاٹ ڈالتے تھے، تو ان کے ایک شخص نے انہیں (ایسا کرنے سے) روکا، چناچہ اس کی وجہ سے وہ اپنی قبر میں عذاب دیا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١١ (٢٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢٦ (٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٣) ، مسند احمد ٤/١٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 30
پیشاب سے بچنے کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ١ ؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں بچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا ، پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا : امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوجائیں ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٥ (٢١٦) ، ٥٦ (٢١٨) ، الجنائز ٨١ (١٣٦١) ، ٨٨ (١٣٧٨) ، الأدب ٤٦ (٦٠٥٢) ، ٤٩ (٦٠٥٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٤ (٢٩٢) ، سنن ابی داود/فیہ ١١ (٢٠) ، سنن الترمذی/فیہ ٣ ٥ (٧٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢٦ (٣٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٧) ، مسند احمد ١/٢٢٥، سنن الدارمی/الطہارة ٦١ (٧٦٦) ، و یأتي عند المؤلف في الجنائز ١١٦ (رقم : ٢٠٧٠، ٢٠٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 31
برتن میں پیشاب کرنا
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لکڑی کا ایک پیالہ تھا، جس میں آپ پیشاب کرتے اور اسے تخت کے نیچے رکھ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣ (٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 32
طشت میں پیشاب کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (مرض الموت میں) علی (رض) کو وصی بنایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تھال منگوایا کہ اس میں پیشاب کریں، مگر (اس سے قبل ہی) آپ کا جسم ڈھیلا پڑگیا۔ (آپ فوت ہوگئے) مجھے پتہ بھی نہ چلا، تو آپ نے کس کو وصیت کی ؟ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٤١) ، المغازي ٨٣ (٤٤٥٩) ، صحیح مسلم/الوصیة ٥ (١٦٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٤ (١٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٠) ، مسند احمد ٦/٣٢، ویأتي عند المؤلف في الوصایا ٢ (رقم : ٣٦٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 33
سوراخ میں پیشاب کرنے کی ممانعت
عبداللہ بن سرجس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی سوراخ میں ہرگز پیشاب نہ کرے ، لوگوں نے قتادہ سے پوچھا ؛ سوراخ میں پیشاب کرنا کیوں مکروہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا : کہا جاتا ہے کہ یہ جنوں کی رہائش گاہیں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٦ (٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٢٢) ، مسند احمد ٥/٨٢ (ضعیف) (قتادہ کا سماع عبداللہ بن سرجس سے نہیں ہے، نیز قتادہ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، تراجع الالبانی ١٣١ ) وضاحت : ١ ؎: سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سانپ، بچھو وغیرہ سوراخ سے نکل کر ایذا نہ پہنچائیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 34
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٨ (٢٨١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢٥ (٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١١) ، مسند احمد ٣/٣٥٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ٹھہرے ہوئے پانی سے وہ پانی مراد ہے جو دریا کے پانی کی طرح جاری نہ ہو، جیسے گڈھا، جھیل، تالاب وغیرہ کا پانی، ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہوگا، ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے ہی سڑاند اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے، اگر اس میں مزید نجاست و غلاظت ڈال دی جائے تو یہ پانی مزید بدبودار ہوجائے گا، اور اس کی عفونت اور سڑاند سے قرب و جوار کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 35
غسل خانہ میں پیشاب کرنا منع ہے
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی اپنے غسل خانے میں پیشاب نہ کرے، کیونکہ زیادہ تر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٥ (٢٧) ، سنن الترمذی/فیہ ١٧ (٢١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٢ (٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٨) ، مسند احمد ٥/٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله فإن عامة الوسواس منه صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 36
پیشاب کرنے والے شخص کو سلام کرنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا، آپ ﷺ پیشاب کر رہے تھے، تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٧٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨ (١٦) ، سنن الترمذی/فیہ ٦٧ (٩٠) ، الاستئذان ٢٧ (٢٧٢٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢٧ (٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٩٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سلام کا جواب نہیں دیا کا مطلب ہے فوری طور پر جواب نہیں دیا بلکہ وضو کرنے کے بعد دیا، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطور تادیب سرے سے سلام کا جواب ہی نہ دیا ہو۔ قال الألباني :(صحيح دون قوله : فإن عامة الوسواس منه ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 37
وضو کرنے کے بعد سلام کا جواب دینا
مہاجر بن قنفذ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، اور آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وضو کیا، پھر جب آپ نے وضو کرلیا، تو ان کے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨ (١٧) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢٧ (٣٥٠) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٠) ، مسند احمد ٤/٣٤٥، ٥/٨٠، سنن الدارمی/الاستئذان ١٣ (٢٦٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 38
ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع کیا ہے کہ تم میں سے کوئی ہڈی یا گوبر سے استنجاء کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٣ (٤٥٠) مطولاً ، سنن الترمذی/الطہارة ١٤ (١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض روایتوں میں اس ممانعت کی علت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 39
لید سے استنجا کرنے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تمہارے لیے باپ کے منزلے میں ہوں (باپ کی طرح ہوں) ، تمہیں سکھا رہا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی پاخانہ جائے تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرے، نہ پیٹھ، اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ، آپ (استنجاء کے لیے) تین پتھروں کا حکم فرماتے، اور گوبر اور بوسیدہ ہڈی سے (استنجاء کرنے سے) آپ منع فرماتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داودالطہارة ٤ (٨) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٦ (٣١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٦٥) مختصراً ، مسند احمد ٢/٢٤٧، ٢٥٠، سنن الدارمی/الطہارة ١٤ (٧٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں مراد مطلق ہڈی ہے جیسا کہ دوسری روایتوں میں آیا ہے، یا یہ کہا جائے کہ بوسیدہ ہڈی جو کسی کام کی نہیں ہوتی جب اسے نجاست سے آلودہ کرنے کی ممانعت ہے تو وہ ہڈی جو بوسیدہ نہ ہو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 40
استنجا میں تین پتھر سے کم پتھر استعمال کرنے سے متعلق
سلمان (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (حقارت کے انداز میں) ان سے کہا : تمہارے نبی تمہیں (سب کچھ) سکھاتے ہیں یہاں تک کہ پاخانہ کرنا (بھی) ؟ تو انہوں نے (فخریہ انداز میں) کہا : ہاں ! آپ نے ہمیں پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے اور (استنجاء کے لیے) تین پتھر سے کم پر اکتفا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٢) ، سنن ابی داود/فیہ ٤ (٧) ، سنن الترمذی/فیہ ١٢ (١٦) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٦ (٣١٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٥) ، مسند احمد ٥/ ٤٣٧، ٤٣٨، ٤٣٩، یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 41
دو ڈھیلوں سے استنجا کرنے کی رخصت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت (پاخانے) کی جگہ میں آئے، اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم فرمایا، مجھے دو پتھر ملے، تیسرے کی میں نے تلاش کی مگر وہ نہیں ملا، تو میں نے گوبر لے لیا اور ان تینوں کو لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے دونوں پتھر لے لیے، اور گوبر پھینک دیا ١ ؎ اور فرمایا : یہ رکس (ناپاک) ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن النسائی کہتے ہیں : رکس سے مراد جنوں کا کھانا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢١ (١٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٣ (١٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٦ (٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٠) ، مسند احمد ١/٣٨٨، ٤١٨، ٤٢٧، ٤٥٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دو ہی پتھر پر اکتفا کیا اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے تیسرا خود اٹھا لیا ہو، نیز مسند احمد اور سنن دارقطنی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ائتنی بحجر فرما کر تیسرا پتھر لانے کے لیے بھی کہا، اس کی سند صحیح ہے۔ ٢ ؎: لغوی اعتبار سے اس کا ثبوت محل نظر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 42
ایک پتھر سے استنجا کرنے کی رخصت و اجازت کا بیان
سلمہ بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب استنجاء کرو تو طاق (ڈھیلا) استعمال کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢١ (٢٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٤٤ (٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٦) ، مسند احمد ٤/ ٣١٣، ٣٣٩، ٣٤٠، کلہم بزیادة إذا توضأت فانثر، ویأتي عند المؤلف برقم : ٨٩، بزیادة اذا توضات فاستنثر (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف کا استدلال فأوتر کے لفظ سے ہے جو مطلق لفظ ہے اور ایک پتھر کے کافی ہونے کو بھی وتر کہیں گے لیکن اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مطلق مقید پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی طاق سے مراد تین یا تین سے زیادہ پانچ وغیرہ مراد ہے، کیونکہ اصول یہ ہے ایک حدیث دوسرے حدیث کی وضاحت کرتی ہے اور تین کی قید حدیث رقم : ٤١ میں آچکی ہے، اس لیے طاق سے تین والا طاق مراد ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 43
صرف پتھر یا مٹی کے ڈھیلوں ہی سے استنجا کرلیا جائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پاخانہ جائے تو اپنے ساتھ تین پتھر لے جائے، اور ان سے پاکی حاصل کرے کیونکہ یہ طہارت کے لیے کافی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢١ (٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٥٧) ، مسند احمد ٦/ ١٠٨، ١٣٣، سنن الدارمی/الطہارة ١١ (٦٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 44
پانی سے استنجا کرنے کا حکم
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو میں اور میرے ساتھ مجھ ہی جیسا ایک لڑکا دونوں پانی کا برتن لے جا کر رکھتے، تو آپ پانی سے استنجاء فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٥ (١٥٠) ، ١٦ (١٥٠) ، ١٧ (١٥٢) ، الصلاة ٩٣ (٥٠٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢١ (٢٧١) ، سنن ابی داود/فیہ ٢٣ (٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤) ، مسند احمد ٣/١١٢، ١٧١، ٢٠٣، ٢٥٩، ٢٨٤، سنن الدارمی/الطہارة ١٥ (٧٠٢، ٧٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 45
پانی سے استنجا کرنے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجاء کریں، کیونکہ میں ان سے یہ کہنے میں شرماتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ١٥ (١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٠) ، مسند احمد ٦/١١٣، ١١٤، ١٢٠، ١٣٠، ١٧١، ٢٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 46
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی پانی پئیے تو اپنے برتن میں سانس نہ لے، اور جب قضائے حاجت کے لیے آئے تو اپنے داہنے ہاتھ سے ذکر (عضو تناسل) نہ چھوئے، اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض علماء نے داہنے ہاتھ سے عضو تناسل کے چھونے کی ممانعت کو بحالت پیشاب خاص کیا ہے، کیونکہ ایک روایت میں إذا بال أحدکم فلا یمس ذکرہ کے الفاظ وارد ہیں، اور ایک دوسری روایت میں لا يمسکن أحدکم ذكره بيمينه وهو يبول آیا ہے، اس لیے ان لوگوں نے مطلق کو مقید پر محمول کیا ہے، اور نووی نے حالت استنجاء اور غیر استنجاء میں کوئی تفریق نہیں کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب حالت استنجاء میں اس کی ممانعت ہے جب کہ اس کی ضرورت پڑتی ہے، تو دوسری حالتوں میں جب کہ اس کی ضرورت نہیں پڑتی بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 47
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے سے، داہنے ہاتھ سے عضو تناسل چھونے سے اور داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 48
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت
سلمان (رض) کہتے ہیں کہ مشرکوں نے (حقارت کے انداز میں) کہا کہ ہم تمہارے نبی کو دیکھتے ہیں کہ وہ تمہیں پاخانہ (تک) کی تعلیم دیتے ہیں، تو انہوں نے (فخریہ) کہا : ہاں، آپ نے ہمیں داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے اور (بحالت قضائے حاجت) قبلہ کا رخ کرنے سے منع فرمایا، نیز فرمایا : تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم میں استنجاء نہ کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابن حزم کہتے ہیں کہ بدون ثلاث ۃ احجار میں دون، اقل کے معنی میں یا غیر کے معنی میں ہے، لہٰذا نہ تین پتھر سے کم لینا درست ہے نہ زیادہ، اور بعض لوگوں نے کہا ہے دون کو غیر کے معنی میں لینا غلط ہے، یہاں دونوں سے مراد اقل ہے جیسے ليس فيما دون خمس من الأبل صدقة میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 49
استنجا کرنے کے بعد زمین پر ہاتھ رگڑنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا، جب آپ نے (اس سے پہلے) استنجاء کیا تو اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٨٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٤ (٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٩ (٣٥٨) ، ٤١ (٤٧٣) ، مسند احمد ٢/٣١١، ٤٥٤، سنن الدارمی/الطہارة ١٥ (٧٠٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہوجائے، اور نجاست کا اثر کلی طور پر زائل ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 50
استنجا کرنے کے بعد زمین پر ہاتھ رگڑنا
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، آپ قضائے حاجت کی جگہ میں آئے، اور آپ نے حاجت پوری کی، پھر فرمایا : جریر ! پانی لاؤ، میں نے پانی حاضر کیا، تو آپ ﷺ نے پانی سے استنجاء کیا، اور راوی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : پھر آپ ﷺ نے ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٩ (٣٥٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٦ (٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٠٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 51
پانی میں کتنی ناپاکی گرنے سے وہ نا پاک نہیں ہوتا اس کی حد کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے آتے جاتے ہوں؛ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب پانی دو قلہ ١ ؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز نہیں ہونے دے گا یعنی اسے دفع کر دے گا ؟ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣٣ (٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٢) ، سنن الترمذی/فیہ ٥٠ (٦٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٥ (٥١٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٥ (٧٥٩) ، مسند احمد ٢/١٢، ٢٣، ٣٨، ١٠٧، ویأتي عند المؤلف في المیاہ ٢ (برقم : ٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مطلب نہیں کہ وہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہوگا کیونکہ یہ معنی لینے کی صورت میں قلتین (دو قلہ) کی تحدید بےمعنی ہوجائے گی۔ قُلّہ سے مراد بڑا مٹکا ہوتا ہے کہ جس میں پانچ سو رطل پانی آتا ہے، یعنی اڑھائی مشک۔ ٢ ؎: حاکم کی روایت میں لم يحمل الخبث کی جگہ لم ينجسه شيء ہے، جس سے لم يحمل الخبث کے معنی کی وضاحت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 52
پانی میں کتنی ناپاکی گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اس کی حد کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس پر جھپٹے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، کرنے دو روکو نہیں ١ ؎، جب وہ فارغ ہوگیا تو آپ نے پانی منگوایا، اور اس پر انڈیل دیا۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی (رح)) کہتے ہیں : یعنی بیچ میں نہ روکو پیشاب کرلینے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٧ (٢١٩) ، الأدب ٣٥ (٦٠٢٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٠ (٢٨٤) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٨ (٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠) ، وقد أحرجہ : سنن الدارمی/الطہارة ٦٢ (٧٦٧) ، مسند احمد ٣/١٩١، ٢٢٦، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں، ایک تو یہ کہ اگر اسے بھگاتے تو وہ پیشاب کرتا ہوا جاتا جس سے ساری مسجد نجس ہوجاتی، دوسری یہ کہ اگر وہ پیشاب اچانک روک لیتا تو اندیشہ تھا کہ اسے کوئی عارضہ لاحق ہوجاتا، تیسری یہ کہ وہ گھبرا جاتا اور مسلمانوں کو بدخلق سمجھ کر اسلام ہی سے پھرجاتا وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 53
پانی میں کتنی ناپاکی گرنے سے وہ نا پاک نہیں ہوتا اس کی حد کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے مسجد میں پیشاب کردیا تو نبی اکرم ﷺ نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا جو اس پر ڈال دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٩ (٢٢١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٠ (٢٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 54
پانی میں کتنی ناپاکی گرنے سے وہ نا پاک نہیں ہوتا اس کی حد کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اس پر چیخے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو (کرنے دو ) تو لوگوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کرلیا، پھر آپ ﷺ نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا جو اس پر بہا دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 55
پانی میں کتنی ناپاکی گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوتا اس کی حد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی اٹھا، اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اسے پکڑنے کے لیے بڑھے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اسے چھوڑ دو (پیشاب کرلینے دو ) اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو ، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، سختی کرنے والے بنا کر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٨ (٢٢٠) ، الأدب ٨٠ (٦١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤١١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٨ (٣٨٠) مفصلاً ، سنن الترمذی/فیہ ١١٢ (١٤٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٨ (٥٢٩) ، مسند احمد ٢/٢٨٢، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 56
ٹھہرے ہوئے پانی سے متعلق
ابوہریرہ (رض) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث عوف، عن محمد بن سیرین، عن أبي ہریرة تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٤٩٢) ، وحدیث عوف، عن خلاس بن عمرو، عن أبي ہریرة تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٣٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٥١ (٦٨) ، مسند احمد ٢/٢٥٩، ٢٦٥، ٤٩٢، ٥٢٩، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٩٧) من غیر ہذا الطریق (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 57
ٹھہرے ہوئے پانی سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٥٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٨ (٢٣٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٨ (٢٩٢) ، مسند احمد ٢/٣١٦، ٣٤٦، ٣٦٢، ٣٦٤، سنن الدارمی/الطہارة ٥٤ (٧٥٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٢٢، ٣٩٧، ٣٩٨، ٣٩٩، ٤٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 58
سمندری پانی کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کا پانی پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤١ (٨٣) ، سنن الترمذی/فیہ ٥٢ (٦٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٨ (٣٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٨) ، موطا امام مالک/فیہ ٣ (١٢) ، مسند احمد ٢/٢٣٧، ٣٦١، ٣٧٨، ٣٩٢، ٣٩٣، سنن الدارمی/الطہارة ٥٣ (٧٥٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مردار سے مراد وہ سمندری جانور ہیں جو سمندر میں مریں، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے، دیگر سمندری جانور نہیں، لیکن اس تخصیص پر کوئی صریح دلیل نہیں ہے، اور آیت کریمہ : أحل لکم صيدُ البحرِ وطعامُه بھی مطلق ہے۔ سائل نے صرف سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا تھا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کھانے کا بھی حال بیان کردیا کیونکہ جیسے سمندری سفر میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے ویسے کبھی کھانے کی بھی کمی ہوجاتی ہے، اس کا مردار حلال ہے، یعنی سمندر میں جتنے جانور رہتے ہیں جن کی زندگی بغیر پانی کے نہیں ہوسکتی وہ سب حلال ہیں، گو ان کی شکل مچھلی کی نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 59
برف سے وضو کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے، تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! آپ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان اپنے خاموش رہنے کے دوران کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں کہتا ہوں اللہم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللہم نقني من خطاياى كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللہم اغسلني من خطاياى بالثلج والماء والبرد اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح دوری پیدا کر دے جیسے کہ تو نے پورب اور پچھم کے درمیان دوری رکھی ہے، اے اللہ ! مجھے میری خطاؤں سے اسی طرح پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے، اے اللہ ! مجھے میرے گناہوں سے برف، پانی اور اولے کے ذریعہ دھو ڈال ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٥٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٨١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١ (٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩٦) ، مسند احمد ٢/٢٣١، ٤٩٤، سنن الدارمی/الصلاة ٣٧ (١٢٨٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : (٣٣٤، ٨٩٥، ٨٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مؤلف نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ برف سے وضو درست ہے، اس لیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے برف سے گناہ دھونے کی دعا مانگی ہے، اور ظاہر ہے کہ گناہ وضو سے دھوئے جاتے ہیں لہٰذا برف سے وضو کرنا صحیح ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 60
برف کے پانی سے وضو
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : اللہم اغسل خطاياى بماء الثلج والبرد ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس اے اللہ ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے، اور میرے دل کو گناہوں سے اسی طرح پاک کر دے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل سے پاک کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٧٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الدعوات ٣٩ (٦٣٦٨) ، ٤٤ (٦٣٧٥) ، ٤٦ (٦٣٧٧) ، صحیح مسلم/الذکر ١٤ (٥٨٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٧ (٣٤٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٣٨) ، مسند احمد ٦/٥٧، ٢٠٧، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 61
اولوں کے پانی سے وضو
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک جنازے پر نماز پڑھتے ہوئے سنا، تو میں نے آپ کی دعا میں سے سنا آپ فرما رہے تھے : اللہم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله وأوسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اے اللہ ! اسے بخش دے، اس پر رحم کر، اسے عافیت سے رکھ، اس سے درگزر فرما، اس کی بہترین مہمان نوازی فرما، اس کی جگہ (قبر) کشادہ کر دے، اس (کے گناہوں) کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے، اور اس کو گناہوں سے اسی طرح پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٦ (٩٦٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٨ (١٠٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٥٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٠١) ، مسند احمد ٦/٢٣، ٢٨، ویأتي عند المؤلف برقم : (١٩٨٥، وعمل الیوم واللیلة (١٠٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 62
کتے کے جھوٹے کا حکم
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کتا تم میں سے کسی کے برتن سے پی لے، تو وہ اسے سات مرتبہ دھوئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فیہ ٦٨ (٩١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣١ (٣٦٤) ، موطا امام مالک/فیہ ٦ (٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٩) ، مسند احمد ٢/٢٤٥، ٢٦٥، ٢٧١، ٣١٤، ٣٦٠، ٣٩٨، ٤٢٤، ٤٢٧، ٤٦٠، ٤٨٠، ٤٨٢، ٥٠٨، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٣، ٣٣٩، ٣٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح روایتوں سے سات بار ہی دھونا ثابت ہے، تین بار دھونے کی روایت صحیح نہیں ہے، بعض لوگوں نے اسے بھی دیگر نجاستوں پر قیاس کیا ہے، اور کہا ہے کہ کتے کی نجاست بھی تین بار دھونے سے پاک ہوجائے گی لیکن اس قیاس سے نص کی یا ضعیف حدیث سے صحیح حدیث کی مخالفت ہے، جو درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 63
کتے کے جھوٹے کا حکم
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو وہ اسے سات مرتبہ دھوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٢/٢٧١، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 64
کتے کے جھوٹے کا حکم
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٢/٢٧١، (تحفة الأشراف : ١٥٣٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 65
جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈال کر چپ چپ کر کے پانی پی لے تو برتن میں جو کچھ ہے اس کو بہا دینا چاہئے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے، تو وہ (جو کچھ اس برتن میں ہو) اسے بہا دے، پھر سات مرتبہ اسے دھوئے ۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ کسی شخص نے علی بن مسہر کی ان کے قول فلیرقہ پر متابعت کی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣١ (٣٦٣) ، مسند احمد ٢/٤٢٤، ٤٨٠، (تحفة الأشراف : ١٢٤٤١، ١٤٦٠٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 66
جس برتن میں کتا منہ ڈال کر پی لے تو اس کو مٹی سے مانجھنے کے بارے میں
عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا ١ ؎ اور شکاری کتوں کی اور بکریوں کے ریوڑ کی نگہبانی کرنے والے کتوں کی اجازت دی، اور فرمایا : جب کتا برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات مرتبہ دھوؤ، اور آٹھویں دفعہ اسے مٹی سے مانجھو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٨٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٧ (٧٤) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣١ (٣٦٥) ، الصید ١ (٣٢٠٠، ٣٢٠١) ، مسند احمد ٤/٨٦، ٥/٥٦، سنن الدارمی/الطہارة ٥٩ (٧٦٤) ، الصید ٢ (٢٠٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٥) ، ویأتي عند المؤلف في المیاہ ٧ برقم : (٣٣٧، ٣٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شروع اسلام میں کتوں کے مار ڈالنے کا حکم تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ ٢ ؎: اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں بار دھونا بھی واجب ہے، بعضوں نے ابوہریرہ (رض) کی حدیث کو اس پر ترجیح دی ہے اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ ترجیح اس وقت دی جاتی ہے جب تعارض ہو، جب کہ یہاں تعارض نہیں ہے، ابن مغفل (رض) کی حدیث پر عمل کرنے سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 67
بلی کے جھوٹے سے متعلق
کبشہ بنت کعب بن مالک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوقتادہ (رض) ان کے پاس آئے، پھر (کبشہ نے) ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے ان کے لیے وضو کا پانی لا کر ایک برتن میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آئی اور اس سے پینے لگی، تو انہوں نے برتن ٹیڑھا کردیا یہاں تک کہ اس بلی نے پانی پی لیا، کبشہ کہتی ہیں : تو انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں انہیں (حیرت سے) دیکھ رہی ہوں، تو کہنے لگے : بھتیجی ! کیا تم تعجب کر رہی ہو ؟ میں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ ناپاک نہیں ہے، یہ تو تمہارے پاس بکثرت آنے جانے والوں اور آنے جانے والیوں میں سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارہ ٣٨ (٧٥) ، سنن الترمذی/فیہ ٦٩ (٩٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٢ (٣٦٧) ، موطا امام مالک/فیہ ٣ (١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٤١) ، مسند احمد ٥/٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٩، سنن الدارمی/الطہارة ٥٨ (٧٦٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٣٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی مثال ان غلاموں اور خادموں جیسی ہے جو گھروں میں خدمت کے لیے بکثرت آتے جاتے ہیں، چونکہ یہ رات دن گھروں میں پھرتی رہتی ہے اس لیے یہ پاک کردی گئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 68
گدھے کے جھوٹے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا منادی آیا اور اس نے کہا : اللہ اور اس کے رسول تم لوگوں کو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ ناپاک ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣٠ (٢٩٩١) ، المغازي ٣٨ (٤١٩٨) ، الذبائح ٢٨ (٥٥٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٣ (٣١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصید ٥ (١٩٤٠) ، مسند احمد ٣/١١١، ١٢١، ١٦٤، سنن الدارمی/الاضاحي ٢١ (٢٠٣٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٤٣٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب گدھے کا گوشت ناپاک اور نجس ہے، تو اس کا جو ٹھا بھی ناپاک و نجس ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 69
حائضہ عورت کے جھوٹے کا بیان
حدیث نمبر : 70 ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں ہڈی نوچتی تھی تو رسول اللہ ﷺ اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں رکھتی حالانکہ میں حائضہ ہوتی، اور میں برتن سے پانی پیتی تھی تو آپ ﷺ اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں رکھتی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٣ (٢٥٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٢٥ (٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٥) ، مسند احمد ٦/٦٢، ٦٤، ١٢٧، ١٩٢، ٢١٠، ٢١٤، (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٢٨٠، ٢٨١، ٣٤٢، ٣٧٧، ٣٨٠) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٨ (١١٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 70
مرد اور عورت کے ایک ساتھ وضو کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مرد اور عورتیں ایک ساتھ (یعنی ایک ہی برتن سے) وضو کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٣ (١٩٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٩ (٧٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٦ (٣٨١) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٥٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/فیہ ٣ (١٥) ، مسند احمد ٢/٤، ١٠٣، ١١٣، (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد میاں بیوی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 71
جنبی کے غسل سے جو پانی بچ جائے اس کا حکم
عروہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣١٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٥ (٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢ (٢٥٠) ، ١٥ (٢٧٣) ، سنن ابی داود/الطھارة ٣٩ (٧٧) ، مسند احمد ٦/٣٧، ١٧٣، ١٨٩، ١٩١، ١٩٩، ٢١٠، ٢٣٠، ٢٣١، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٢٩، ٢٣٢-٢٣٦، ٣٤٥، ٤١٠، ٤١١، ٤١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 72
وضو کے لئے کس قدر پانی کافی ہے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مکوک پانی سے وضو اور پانچ مکوک سے غسل فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٧ (٢٠١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٤٤ (٩٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣١٢ (٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٢) ، مسند احمد ٣/١١٢، ١١٦، ١٧٩، ٢٥٩، ٢٨٢، ٢٩٠، سنن الدارمی/الطہارة ٢٣ (٧١٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٣٠، ٣٤٦ (صحیح ) وضاحت : مکوک سے مراد یہاں مد ہے، اور ایک قول کے مطابق صاع ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ایک روایت میں مکوک کی تفسیر مد سے کی گئی ہے، اور مد اہل حجاز کے نزدیک ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور اہل عراق کے نزدیک دو رطل کا ہوتا ہے، اس حساب سے صاع جو چار مد کا ہوتا ہے اہل حجاز کے نزدیک پانچ رطل کا ہوگا، اور اہل عراق کے نزدیک آٹھ رطل کا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 73
وضو کے لئے کس قدر پانی کافی ہے؟
ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کا ارادہ کیا تو آپ کی خدمت میں ایک برتن میں دو تہائی مد کے بقدر پانی لایا گیا، (شعبہ کہتے ہیں : مجھے اتنا اور یاد ہے کہ) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا، اور انہیں ملنے اور اپنے دونوں کانوں کے داخلی حصے کا مسح کرنے لگے، اور مجھے یہ نہیں یاد کہ آپ ﷺ نے ان کے اوپری (ظاہری) حصے کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٤٤ (٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 74
وضو میں نیت کا بیان
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، آدمی کے لیے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی، تو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی، اور جس نے دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے واسطے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ١ (١) ، الایمان ٤١ (٥٤) ، العتق ٦ (٢٥٢٩) ، مناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٨) ، النکاح ٥ (٥٠٧٠) ، الأیمان والنذر ٢٣ (٦٦٨٩) ، الحیل ١ (٦٩٥٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٥ (١٩٠٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ١١ (٢٢٠١) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٦ (١٦٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٢٦ (٤٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٢) ، مسند احمد ١/٢٥، ٤٣، ویأتيعند المؤلف بأرقام : ٣٤٦٧، ٣٨٢٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کی بنیاد پر علماء کا اتفاق ہے کہ اعمال میں نیت ضروری ہے، اور نیت کے مطابق ہی اجر ملے گا، اور نیت کا محل دل ہے یعنی دل میں نیت کرنی ضروری ہے، زبان سے اس کا اظہار ضروری نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے سوائے ان صورتوں کے جن میں زبان سے نیت کرنا دلائل و نصوص سے ثابت ہے، جیسے حج و عمرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 75
برتن سے وضو کے متعلق فرمان نبوی ﷺ
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسی حالت میں دیکھا کہ عصر کا وقت قریب ہوگیا تھا، تو لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر وہ پانی نہیں پا سکے، پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھوڑا سا وضو کا پانی لایا گیا، تو آپ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا، اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا، تو میں نے دیکھا کہ پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا ہے، حتیٰ کہ ان کے آخری آدمی نے بھی وضو کرلیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٢ (١٦٩) ، المناقب ٢٥ (٣٥٧٣) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣ (٢٢٧٩) ، سنن الترمذی/المناقب ٦ (٣٦٣١) ، موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٠) ، مسند احمد ٣/١٣٢، ١٤٧، ١٧٠، ٢١٥، ٢٨٩، نحوہ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٧٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ تھا، دوسری روایت میں ہے کہ یہ کل تین سو آدمی تھے، ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار پانچ سو آدمی تھے واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 76
برتن سے وضو کے متعلق فرمان نبوی ﷺ
عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، لوگوں کو پانی نہ ملا تو آپ ﷺ کے پاس ایک طشت لایا گیا، آپ نے اس میں اپنا ہاتھ داخل کیا، تو میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا، اور آپ ﷺ فرما رہے تھے : پاک کرنے والے پانی اور اللہ کی برکت پر آؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٤٣٦) ، مسند احمد ١/٣٩٦، ٤٠١، سنن الدارمی/المقدمة ٥ (٣٠) ، وحدیث جابر أخرجہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٥٧٦) ، المغازي ٣٥ (٤١٥٢) ، الأشربة ٣١ (٥٦٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 77
بوقت وضو بسم اللہ پڑھنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام نے وضو کا پانی تلاش کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے ؟ (تو ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لایا گیا) تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ یہ فرماتے ہوئے پانی میں ڈالا : بسم اللہ کر کے وضو کرو میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا تھا، حتیٰ کہ ان میں سے آخری آدمی نے بھی وضو کرلیا۔ ثابت کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے پوچھا : آپ کے خیال میں وہ کتنے لوگ تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ستر کے قریب ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، حدیث ثابت عن أنس، (تحفة الأشراف : ٤٨٤) ، وحدیث قتادة عن أنس، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧) ، (نیز ملاحظہ ہو : ٧٦) (صحیح الاسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس باب اور اس سے پہلے والے باب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک سے زیادہ بار پیش آیا تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 78
اگر خادم وضو کرنے والے شخص کے اعضاء پر وضو کا پانی ڈالتا جائے
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے غزوہ تبوک میں جس وقت رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، آپ پر پانی ڈالا، پھر آپ نے اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٨٢) ، ٤٨ (٢٠٣) ، المغازي ٨١ (٤٤٢١) ، اللباس ١١ (٥٧٩٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٤) ، الصلاة ٢٢ (٢٧٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٩ (١٤٩، ١٥١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٤ (٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥١٤) ، موطا امام مالک/فیہ ٨ (٤١) ، مسند احمد ٤/٢٤٩، ٢٥١، ٢٥٤، ٢٥٥، سنن الدارمی/الطہارة ٤١ (٧٤٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٨٢، ١٢٤، ١٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 79
وضو کرتے وقت اعضاء کو ایک ایک مرتبہ دھونا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ پھر انہوں نے اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٢ (١٥٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٣ (١٣٨) ، سنن الترمذی/فیہ ٣٢ (٤٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٤٥ (٤١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٦) ، مسند احمد ١/٢٣٣، ٣٣٢، ٢٣٦، سنن الدارمی/الطہارة ٢٩ (٧٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 80
وضو میں اعضاء کو تین تین مرتبہ دھو نا
مطلب بن عبداللہ بن حنطب کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے وضو کیا، اور اعضاء وضو کو تین تین بار دھویا، وہ اسے نبی اکرم ﷺ تک مرفوع کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٦ (٤١٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٨) ، مسند احمد ٢/٨، ١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 81
وضو کا طریقہ، دونوں ہاتھ دھونا
مغیرہ (رض) کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ نے میری پیٹھ پر ایک چھڑی لگائی ١ ؎ اور آپ مڑے تو میں بھی آپ کے ساتھ مڑ گیا، یہاں تک کہ آپ ایک ایسی جگہ پر آئے جو ایسی ایسی تھی، اور اونٹ کو بٹھایا پھر آپ چلے، مغیرہ (رض) کہتے ہیں : تو آپ چلتے رہے یہاں تک کہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے، پھر آپ (واپس) آئے، اور پوچھا : کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میرے پاس میری ایک چھاگل تھی، اسے لے کر میں آپ کے پاس آیا، اور آپ پر انڈیلا، تو آپ نے اپنے دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، چہرہ دھویا، اور دونوں بازو دھونے چلے، تو آپ ایک تنگ آستین کا شامی جبہ پہنے ہوئے ہوئے تھے (آستین چڑھ نہ سکی) تو اپنا ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالا، اور اپنا چہرہ اور اپنے دونوں بازو دھوئے - مغیرہ (رض) نے آپ کی پیشانی کے کچھ حصے اور عمامہ کے کچھ حصے کا ذکر کیا، ابن عون کہتے ہیں : میں جس طرح چاہتا تھا اس طرح مجھے یاد نہیں ہے، پھر آپ ﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر فرمایا : اب تو اپنی ضرورت پوری کرلے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے حاجت نہیں، تو ہم آئے دیکھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف لوگوں کی امامت کر رہے تھے، اور وہ نماز فجر کی ایک رکعت پڑھا چکے تھے، تو میں بڑھا کہ انہیں آپ ﷺ کی آمد کی خبر دے دوں، تو آپ ﷺ نے مجھے منع فرما دیا، چناچہ ہم نے جو نماز پائی اسے پڑھ لیا، اور جو حصہ فوت ہوگیا تھا اسے (بعد میں) پورا کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٩ (تحفة الأشراف : ١١٥١٤) (صحیح) (بخاری کی روایت میں ” ناصیہ “ اور ” عمامہ “ کا ذکر نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں مار سے تیز مار مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ پیٹھ میں چھڑی کو نچی یہ بتانے کے لیے کہ ادھر مڑنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ق لکن ليس عند خ ذکر الناصية والعمامة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 82
وضو میں کتنی مرتبہ اعضاء کو دھونا چاہئے؟
ابواوس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے (اپنی ہتھیلیوں پر) تین بار پانی ٹپکایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧٤٠) ، مسند احمد ٤/٩، ١٠، سنن الدارمی/الطہارة ٢٦ (٧١٩) (صحیح الاسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 83
وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
حمران بن ابان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان (رض) کو دیکھا آپ نے وضو کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی انڈیلا، انہیں دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر کہنی تک اپنا دایاں ہاتھ دھویا، پھر اسی طرح بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پیر تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پیر دھویا، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، اور فرمایا : جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، اور دل میں کوئی اور خیال نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٤ (١٥٩) ، ٢٨ (١٦٤) ، الصوم ٤٧ (١٩٣٤) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣/٢٢٦، سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٤) ، مسند احمد ١/٥٩، ٦٠، سنن الدارمی/الطہارة ٢٧ (٧٢٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٨٥، ١١٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسا خیال جو دنیاوی امور سے متعلق ہو اور نماز سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، اور اگر خود سے کوئی خیال آجائے اور اسے وہ ذہن سے جھٹک دے تو یہ معاف ہوگا، ایسے شخص کو ان شاء اللہ یہ فضیلت حاصل ہوگی کیونکہ یہ اس کا فعل نہیں۔ گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے : اس سے مراد وہ صغائر ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 84
دونوں ہاتھوں میں سے کون سے ہاتھ میں پانی لے کر کلی کرے؟
حمران سے روایت ہے کہ انہوں نے عثمان (رض) عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، اور اسے برتن سے اپنے دونوں ہاتھ پر انڈیلا، پھر انہیں تین بار دھویا، پھر اپنا داہنا ہاتھ پانی میں ڈالا ١ ؎ اور کلی کی، اور ناک صاف کی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیروں میں سے ہر پیر کو تین تین بار دھویا، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، اور فرمایا : جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھے، دل میں کوئی اور خیال نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے داہنے ہاتھ سے پانی لے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 85
ایک ہی مرتبہ ناک صاف کرنے کا بیان و احکام
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اپنے ناک میں پانی سڑ کے (ناک میں پانی ڈالے) ، پھر اسے جھاڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث سفیان عن أبی الزناد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٨ (٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٨٩) ، صحیح البخاری/الوضوء ٢٦ (١٦٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٨ (٢٣٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٥ (١٤٠) ، موطا امام مالک/فیہ ١ (٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٠) ، مسند احمد ٢/٢٤٢، ٤٦٣، وحدیث مالک عن أبی الزناد أخرجہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 86
وضو کرتے وقت ناک میں پانی زور سے ڈالنے کا بیان
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے وضو کے متعلق بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : پوری طرح وضو کرو، اور ناک میں پانی سڑکنے (ڈالنے) میں مبالغہ کرو، اِلّا یہ کہ تم روزے سے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٥ (١٤٢، ١٤٣، ١٤٤) ، الصوم ٢٧ (٢٣٦٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٦٩ (٧٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٤ (٤٠٧) ، ٥٤ (٤٤٨) ، (وعندہ ” وخلل بین الأصابع “ بدل ” وبالغ في الاستنشاق “ )، (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) ، وھکذا عند المؤلف في باب ٩٢ (١١٤) ، مسند احمد ٤/٣٢، ٣٣، ٢١١، سنن الدارمی/الطہارة ٣٤ (٧٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 87
ناک میں پانی ڈالنے اور صاف کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو وضو کرے تو اسے چاہیئے کہ ناک جھاڑے، اور جو استنجاء میں پتھر استعمال کرے تو اسے چاہیئے کہ طاق استعمال کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٥ (١٦١) ، صحیح مسلم/الطہارة ٨ (٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٤٤ (٤٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٧) ، موطا امام مالک/فیہ ١ (٣) ، مسند احمد ٢/٢٣٦، ٢٧٧، ٣٠٨، ٤٠١، ٥١٨، سنن الدارمی/الطہارة ٣٢ (٧٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 88
ناک میں پانی ڈالنے اور صاف کرنے کا بیان
سلمہ بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب وضو کرو تو ناک جھاڑو، اور جب ڈھیلے سے استنجاء کرو تو طاق ڈھیلا استعمال کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٢١ (٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٤ (٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٥٦) ، مسند احمد ٤/٣١٣، ٣٣٩، ٣٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 89
بیدار ہونے کے بعد ناک صاف کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگ کر وضو کرے تو (پانی لے کر) تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان اس کے پانسے میں رات گزارتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١١ (٣٢٩٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٨ (٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٤) ، مسند احمد ٢/٣٥٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسے حقیقت پر محمول کرنا ہی راجح اور اولیٰ ہے، اس لیے کہ یہ جسم کے منافذ میں سے ایک ہے جس سے شیطان دل تک پہنچتا ہے، استنثار سے مقصود اس کے اثرات کا ازالہ ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں مجازی معنی مقصود ہے، وہ یہ کہ غبار اور رطوبت (جو ناک میں جمع ہو کر گندگی کا سبب بنتے ہیں) کو شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ پانسے گندگی جمع ہونے کی جگہ ہیں جو شیطان کے رات گزارنے کے لیے زیادہ مناسب ہیں، لہٰذا انسان کے لیے یہ مناسب ہے کہ اسے صاف کرلے تاکہ اس کے اثرات زائل ہوجائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 90
کون سے ناک سنکے
علی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے تین بار جھاڑا، پھر کہنے لگے : یہ اللہ کے نبی کریم ﷺ کا وضو ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١١، ١١٢، ١١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣٧ (٤٨) ، مسند احمد ١/ ١١٠، ١٢٢، ١٢٣، ١٣٥، ١٣٩، ١٥٤، سنن الدارمی/الطہارة ٣١ (٧٢٨) ، و عبداللہ بن أحمد ١/ ١١٣، ١١٤، ١١٥، ١١٦، ١٢٣، ١٢٤، ١٢٥، ١٢٧، ١٤١، (نیز یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٩٢، ٩٣، ٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 91
وضو میں چہرہ دھونا
عبد خیر کہتے ہیں کہ ہم لوگ علی بن ابی طالب (رض) کے پاس آئے، آپ نماز پڑھ چکے تھے، مگر آپ نے وضو کا پانی طلب کیا، ہم لوگوں نے (دل میں یا آپس میں) کہا : وہ اسے کیا کریں گے ؟ وہ تو نماز پڑھ چکے ہیں، (ایسا کر کے) وہ ہمیں صرف سکھانا چاہتے ہوں گے، چناچہ ایک برتن جس میں پانی تھا، اور ایک طشت لایا گیا، آپ نے برتن سے اپنے ہاتھ پر پانی انڈیلا اور اسے تین مرتبہ دھویا، پھر جس ہتھیلی سے پانی لیتے تھے اسی سے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ تین بار دھویا، اور دایاں ہاتھ تین بار دھویا پھر بایاں ہاتھ تین بار اور اپنے سرکا ایک بار مسح کیا، پھر دایاں پیر تین بار دھویا، اور بایاں پیر تین بار دھویا، پھر کہنے لگے : جسے خواہش ہو کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ وضو معلوم کرے تو وہ یہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 92
چہرہ کتنی مرتبہ دھونا چاہئے؟
علی (رض) سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک کرسی لائی گئی تو وہ اس پر بیٹھے، پھر آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا، اپنے دونوں ہاتھ پر تین بار پانی انڈیلا، پھر ایک ہی ہتھیلی سے تین دفعہ کلی کی اور ناک جھاڑی، اور اپنا چہرہ تین بار دھویا، اور اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، پھر پانی لے کر اپنے سرکا مسح کیا، (شعبہ - جو حدیث کے راوی ہیں - نے اپنی پیشانی سے اپنے سر کے آخر تک ایک بار مسح کر کے دکھایا، پھر کہا : میں نہیں جانتا کہ ان دونوں کو (گدی سے پیشانی تک) واپس لائے یا نہیں ؟ ) اور اپنے دونوں پیروں کو تین تین بار دھویا، پھر علی (رض) نے کہا : جسے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ وضو دیکھنے کی خواہش ہو تو یہی آپ کا وضو ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩١، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 93
وضو میں دونوں ہاتھ دھونے کا بیان
عبد خیر کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے کرسی منگائی، پھر وہ اس پر بیٹھے، پھر ایک برتن میں پانی منگایا، اور اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، پھر ایک ہی ہتھیلی سے تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈبو کر اپنے سر کا مسح کیا، پھر دونوں پیر تین تین بار دھوئے، پھر کہا : جسے خواہش ہو کہ رسول اللہ ﷺ کا وضو دیکھے تو یہی آپ کا وضو ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩١، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 94
ترکیب وضو
حسین بن علی (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد علی (رض) نے مجھ سے وضو کا پانی مانگا، تو میں نے اسے (وضو کے پانی کو) انہیں لا کردیا، آپ نے وضو کرنا شروع کیا، تو اپنی ہتھیلیوں کو اس سے پہلے کہ انہیں اپنے وضو کے پانی میں داخل کریں تین بار دھویا، پھر تین بار کلی کی اور تین بار (پانی لے کر) ناک جھاڑی، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھویا، پھر بایاں ہاتھ (بھی) اسی طرح دھویا، پھر اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، پھر دونوں ٹخنوں تک اپنا دایاں پیر تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پیر (دھویا) ، پھر آپ اٹھ کر کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے : مجھے (برتن) دو ، چناچہ میں نے وہ برتن بڑھا دیا جس میں ان کے وضو کا بچا ہوا پانی تھا، تو آپ نے وضو کا باقی ماندہ پانی کھڑے ہو کر پیا، تو مجھے تعجب ہوا، جب آپ نے میری طرف دیکھا تو بولے : تعجب نہ کرو، میں نے تمہارے نانا نبی اکرم ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے کرتے دیکھا، وہ اپنے اس وضو کے اور اس سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہو کر پینے کے متعلق کہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (عقیب ١١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 95
وضو میں ہاتھوں کو کتنی مرتبہ دھونا چاہئے؟
ابوحیہ (ابن قیس) کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنی ہتھیلیوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں (خوب) صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے، اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی لیا اور کھڑے کھڑے پی لیا، پھر کہنے لگے کہ میں نے چاہا کہ میں تم لوگوں کو دکھلاؤں کہ نبی اکرم ﷺ کا وضو کیسا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥٠ (١١٦) مختصرًا، سنن الترمذی/فیہ ٣٧ (٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢١) ، مسند احمد ١/١٢٠، ١٢٥، ١٢٧، ١٤٢، ١٤٨، و عبداللہ بن أحمد ١/١٢٧، ١٥٦، ١٥٧، ١٥٨، ١٦٠، (نیز یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ١١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 96
ہاتھوں کو دھونے کی حد کا بیان
عمرو بن یحییٰ المازنی کے والد روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے پوچھا۔ وہ ١ ؎ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں اور (عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں) کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے ؟ تو عبداللہ بن زید (رض) نے کہا : ہاں، پھر انہوں نے پانی منگایا، اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر انڈیلا، انہیں دو دو بار دھویا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر جس جگہ سے شروع کیا تھا وہیں انہیں لوٹا لائے، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٨ (١٨٥) ، ٣٩ (١٨٦) ، ٤١ (١٩١) ، ٤٢ (١٩٢) ، ٤٥ (١٩٧) ، ٤٦ (١٩٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٧ (٢٣٥) ، سنن ابی داود/فیہ ٤٧ (١٠٠) ، ٥٠ (١١٨، ١١٩) ، سنن الترمذی/فیہ ٢٢ (٢٨) ، ٢٤ (٣٢) ، ٣٦ (٤٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٤٣ (٤٠٥) ، ٦١ (٤٧١) ، ٥١ (٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) ، موطا امام مالک/فیہ ١ (١) ، مسند احمد ٤/٣٨، ٣٩، ٤٠، ٤٢، سنن الدارمی/الطہارة ٢٧ (٧٠٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٩٨، ٩٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ کی ضمیر عبداللہ بن زید بن عاصم کی طرف لوٹ رہی ہے، لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے کیونکہ عمرو بن یحییٰ کے دادا کا نام عمارہ ہے جیسا کہ دوسری روایات سے ظاہر ہے، اس لیے صحیح یہ ہے کہ ضمیر سائل (عمارہ یا عمرو) کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ مسئول کی طرف، صحیح بخاری میں اس کی صراحت موجود ہے کہ سائل یحییٰ نہیں بلکہ عمارہ یا عمرو ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 97
سر پر مسح کی کیفیت کا بیان
یحییٰ سے روایت ہے کہ انہوں نے (ان کے باپ عمارہ نے) عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے کہا - (وہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں) کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے ؟ عبداللہ بن زید (رض) نے کہا : جی ہاں ! چناچہ انہوں نے پانی منگایا، اور اپنے دائیں ہاتھ پر انڈیل کر اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے، پھر تین بار کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ کہنیوں تک دھوئے، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا، ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا، پھر انہیں اپنی گدی تک لے گئے، پھر انہیں واپس لے آئے یہاں تک کہ اسی جگہ لوٹا لائے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 98
سر پر کتنی مرتبہ مسح کرنا چاہئے؟
عبداللہ بن زید (رض) (جنہیں خواب میں کلمات اذان بتلائے گئے تھے ١ ؎) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے وضو کیا، تو اپنا چہرہ تین بار اور اپنے دونوں ہاتھ دو بار دھوئے، اور اپنے دونوں پاؤں دو بار دھوئے، اور دو بار ٢ ؎ اپنے سر کا مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٧، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) (شاذ ) وضاحت : ١ ؎: الذي أرى الندائ یہ راوی کی غلطی ہے، اس لیے کہ وضو والی حدیث کے راوی عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی (رض) ہیں، اور اذان والی حدیث کے راوی عبداللہ بن زید بن عبدربہ (رض) ہیں، اس لیے اس سند میں زید بن عاصم مازنی (رض) مراد ہیں۔ ٢ ؎: دو بار سے مراد پیچھے سے آگے لانا، اور آگے سے پیچھے لے جانا ہے، یہ فی الواقع ایک ہی مسح ہے، راوی نے اس کی ظاہری شکل دیکھ کر اس کی تعبیر مرتین (دو بار) سے کردی ہے۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 99
عورت کے مسح کرنے کا بیان
ابوعبداللہ سالم سبلان کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی امانت پر تعجب کرتی تھیں، اور ان سے اجرت پر کام لیتی تھیں، چناچہ آپ رضی اللہ عنہا نے مجھے دکھایا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے وضو کرتے تھے ؟ چناچہ آپ رضی اللہ عنہا نے تین بار کلی کی، اور ناک جھاڑی اور تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر تین بار اپنا دایاں ہاتھ دھویا، اور تین بار بایاں، پھر اپنا ہاتھ اپنے سر کے اگلے حصہ پر رکھا، اور اپنے سر کا اس کے پچھلے حصہ تک ایک بار مسح کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں پر پھیرا، پھر دونوں رخساروں پر پھیرا، سالم کہتے ہیں : میں بطور مکاتب (غلام) کے ان کے پاس آتا تھا اور آپ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں، میرے سامنے بیٹھتیں اور مجھ سے گفتگو کرتی تھیں، یہاں تک کہ ایک دن میں ان کے پاس آیا، اور ان سے کہا : ام المؤمنین ! میرے لیے برکت کی دعا کر دیجئیے، وہ بولیں : کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : اللہ نے مجھے آزادی دے دی ہے، انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ تمہیں برکت سے نوازے، اور پھر آپ نے میرے سامنے پردہ لٹکا دیا، اس دن کے بعد سے میں نے انہیں نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 100
کانوں کے مسح سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا ١ ؎، اور اپنا چہرہ دھویا، اور اپنے دونوں ہاتھ ایک ایک بار دھوئے، اور اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کا ایک بار مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧ (١٤٠) ، سنن ابی داود/الطہارة ٥٢ (١٣٧) مطولاً ، سنن الترمذی/الطہارة ٢٨ (٣٦) مختصرًا، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٣ (٤٠٣) مختصرًا، ٥٢ (٤٣٩) مختصرًا، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٨) ، مسند احمد ١/٢٦٨، ٣٦٥، ٧٠٣، سنن الدارمی/الطہارة ٢٩ (٧٢٣، ٧٢٤) مختصرًا (نیز یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ١٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 101
کانوں کا سر کے ساتھ مسح کرنا اور ان کے سر کے حکم میں شامل ہونے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، تو آپ نے ایک چلو پانی لیا، اور کلی کی، اور ناک میں ڈالا، پھر دوسرا چلو لیا، اور اپنا چہرہ دھویا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا دایاں ہاتھ دھویا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا شہادت کی انگلی سے، اور ان دونوں کے بیرونی حصہ کا انگوٹھے سے مسح کیا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا دایاں پاؤں دھویا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا بایاں پاؤں دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ١٠١، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٨) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 102
کانوں کا سر کے ساتھ مسح کرنا اور ان کے سر کے حکم میں شامل ہونے سے متعلق
عبداللہ صنابحی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ مومن وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب ناک جھاڑتا ہے تو اس کی ناک کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کی دونوں آنکھ کے پپوٹوں سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھ کے ناخنوں کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کانوں سے نکل جاتے ہیں پھر جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں پاؤں کے ناخن کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر اس کا مسجد تک جانا اور اس کا نماز پڑھنا اس کے لیے نفل ہوتا ہے ۔ قتیبہ کی روایت میں عن الصنابحي أن رسول اللہ رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال کے بجائے عن الصنابحي أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦ (٢٨٢) ، موطا امام مالک/فیہ ٦ (٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٧٧) ، مسند احمد ٤/٣٤٨، ٣٤٩ (صحیح ) وضاحت : گناہ نکل جاتے ہیں اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں نہ کہ کبائر (گناہ کبیرہ) اس لیے کہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ مصنف نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ دونوں کان سر ہی کا حصہ ہیں کیونکہ سر پر مسح کرنے سے دونوں کانوں سے خطاؤں کا نکلنا اسی صورت میں صحیح ہوگا جب وہ سر ہی کا حصہ ہوں، اس باب میں مصنف کو الأذنان من الرأس والی مشہور روایت ذکر کرنی چاہیئے تھی لیکن مصنف نے اس سے صرف نظر کیا کیونکہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حماد کو اس روایت کے سلسلہ میں شک ہے کہ یہ مرفوع ہے یا موقوف، نیز اس کی سند بھی قوی نہیں ہے، گرچہ متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے حسن درجہ کو پہنچ گئی ہے، مصنف کا اس روایت سے اعراض کر کے مذکورہ بالا روایت سے استدلال کرنا ان کی دقت نظری کی دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 103
عمامہ پر مسح سے متعلق
بلال (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو چمڑے کے موزوں اور پگڑی پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٥) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٥ (١٠١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٩ (٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٧) ، مسند احمد ٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں لفظ خمار آیا ہے اس سے مراد پگڑی ہی ہے، اس لیے کہ خمار کے معنی ہیں جس سے سر ڈھانپا جائے اور مرد اپنا سر پگڑی ہی سے ڈھانپتا ہے لہٰذا یہاں پگڑی ہی مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 104
عمامہ پر مسح سے متعلق
بلال (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، مسند احمد ٦/١٥، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 105
عمامہ پر مسح سے متعلق
بلال (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو پگڑی اور چمڑے کے دونوں موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ٢٠٤٣) ، مسند احمد ٦/١٣، ١٤، ١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 106
پیشانی اور عمامے پر مسح کرنے کے متعلق
مغیرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو آپ ﷺ نے اپنی پیشانی، پگڑی اور چمڑے کے موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٤) ، سنن ابی داود/فیہ ٥٩ (١٥٠، ١٥١) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٥ (١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٤) ، مسند احمد ٤/٢٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 107
پیشانی اور عمامے پر مسح کرنے کے متعلق
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (کسی سفر میں) لشکر سے پیچھے ہوگئے، تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہوگیا، تو جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو پوچھا : کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ تو میں لوٹے میں پانی لے کر آپ کے پاس آیا، تو آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں دھوئیں اور اپنا چہرہ دھویا، پھر آپ اپنے دونوں بازؤوں کو کھولنے لگے تو جبہ کی آستین تنگ ہوگئی، تو آپ نے (ہاتھ کو اندر سے نکالنے کے بعد) اسے (آستین کو) اپنے دونوں کندھوں پر ڈال لیا، پھر اپنے دونوں بازو دھوئے، اور اپنی پیشانی، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٣ (١٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٥) ، موطا امام مالک/الطہارة ٨ (٤٢) ، مسند احمد ٤/٢٤٨، ٢٥١، سنن الدارمی/الصلاة ٨١ (١٣٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 108
عمامہ پر مسح کرنے کی کیفیت
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں : دو باتیں ایسی ہیں کہ میں ان کے متعلق کسی سے نہیں پوچھتا، اس کے بعد کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو انہیں کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے، (پہلی چیز یہ ہے کہ) ایک سفر میں ہم آپ ﷺ کے ساتھ تھے، تو آپ قضائے حاجت کے لیے جنگل کی طرف نکلے، پھر واپس آئے تو آپ نے وضو کیا، اور اپنی پیشانی اور پگڑی کے دونوں جانب کا مسح کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، (دوسری چیز) حاکم کا اپنی رعایا میں سے کسی آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا، اور نبی اکرم ﷺ رکے رہ گئے، چناچہ لوگوں نے نماز کھڑی کردی اور ابن عوف (رض) کو آگے بڑھا دیا، انہوں نے نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، اور ابن عوف (رض) کے پیچھے جو نماز باقی رہ گئی تھی پڑھی، جب ابن عوف (رض) نے سلام پھیرا تو نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے، اور جس قدر نماز فوت ہوگئی تھی اسے پوری کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٥٢١) بھذا الإسناد، وأما بغیر ھذا الإسناد، ومطولا ومختصرا فقد أخرجہ کل من : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٨٢) ، و ٤٨ (٢٠٣) ، الصلاة ٧ (٣٦٣) ، الجہاد ٩٠ (٢٩١٨) ، المغازي ٨١ (٤٤٢١) ، اللباس ١٠ (٥٧٩٨) ، ١١ (٥٧٩٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢، (٢٧٤) ، سنن ابی داود/فیہ ٥٩ (١٤٩) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٢ (٩٧) ، ٧٥ (١٠٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٤ (٥٤٥) ، موطا امام مالک/فیہ ٨ (٤١) ، مسند احمد ٤/٢٤٤، ٢٤٥، ٢٤٦، ٢٤٧، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٥٠، ٢٥١، ٢٥٢، ٢٥٣، ٢٥٥، سنن الدارمی/الطہارة ٤١ (٧٤٠) ، وتقدم عند المؤلف (بأرقام : ٧٩، ٨٢، ١٠٧، ١٠٨) ، ویأتي عندہ (برقم : ١٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 109
پاؤں دھونے کے واجب ہونے کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : (وضو میں) ایڑی دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی تباہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٩ (١٦٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٩ (٢٤٢) ، قد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣١ (٤١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٥٥ (٤٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٨١) ، مسند احمد ٢/٢٣١، ٢٨٢، ٢٨٤، ٣٨٩، ٤٠٦، ٤٠٩، ٤٣٠، ٤٧١، ٤٨٢، ٤٩٧، ٤٩٨، سنن الدارمی/الطہارة ٣٥ (٧٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو پاؤں کے مسح کو کافی سمجھتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 110
پاؤں دھونے کے واجب ہونے کے متعلق
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا، تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں (خشک ہونے کی وجہ سے) چمک رہی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وضو میں ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے جہنم کی تباہی ہے، وضو کامل طریقہ سے کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٩ (٢٤١) ، سنن ابی داود/فیہ ٤٦ (٩٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٥٥ (٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٣ (٦٠) ، و ٣٠ (٩٦) ، الوضوء ٢٧ (١٦٣) ، مسند احمد ٢/١٦٤، ١٩٣، ٢٠١، ٢٠٥، ٢١١، ٢٢٦، سنن الدارمی/الطہارة ٣٥ (٧٣٣) ، ویأتي عندالمؤلف برقم : ١٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 111
وضو میں کون سے پاؤں کو پہلے دھونا چاہئے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ذکر کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے وضو کرنے میں، جوتا پہننے میں، اور کنگھی کرنے میں طاقت بھر داہنی جانب کو پسند کرتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں : پھر میں نے اشعث سے مقام واسط میں سنا وہ کہہ رہے تھے کہ آپ ﷺ اپنے تمام امور کو داہنے سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے، پھر میں نے کوفہ میں انہیں کہتے ہوئے سنا کہ آپ حتیٰ المقدور داہنے سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٨) ، الصلاة ٤٧ (٤٢٦) ، الأطعمة ٥ (٥٣٨٠) ، اللباس ٣٨ (٥٨٥٤) ، و ٧٧ (٥٩٢٦) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٩ (٢٦٨) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٤٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣١٦ (٦٠٨) ، ١٠ (٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٢ (٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٧) ، مسند احمد ٦/٩٤، ١٣٠، ١٤٧، ١٨٧، ١٨٨، ٢٠٢، ٢١٠، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٢١، ٥٠٦٢، ٥٢٤٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شعبہ کے اس قول کا ماحصل یہ ہے کہ میں نے اس روایت کو اشعث سے درج ذیل تینوں طرح سے سنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 112
دونوں پاؤں کو ہاتھوں سے دھونے سے متعلق
عمارہ کہتے ہیں : مجھ سے قیسی (رض) نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے پاس پانی لایا گیا تو آپ نے اسے برتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا ١ ؎ اور انہیں ایک بار دھویا، پھر اپنے چہرے اور دونوں بازؤوں کو ایک ایک بار دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں پیروں کو دھویا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٦٤٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ‘’ عمارہ بن عثمان بن حنیف “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں فقال على يديه وارد ہے عرب قول کو مختلف افعال و اعمال کے لیے استعمال کرتے ہیں مثلاً قال بيده سے لیا قال برجله سے چلا اور قالت له العينان سے اشارہ کیا مراد لیتے ہیں، اسی طرح قال على يديه من الإنائ سے برتن سے پانی دونوں ہاتھوں پر انڈیلا مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 113
انگلیوں کے درمیان خلال کرنے سے متعلق
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم وضو کرو تو کامل وضو کرو، اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٨٧ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 114
کتنی مرتبہ پاؤں دھونا چاہئے
ابوحیہ وادعی کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچوں کو تین بار دھویا، تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار اپنا چہرہ اور تین تین بار اپنے دونوں بازو دھوئے، اور اپنے سر کا مسح کیا، اور تین تین بار اپنے دونوں پاؤں دھوئے، پھر کہا : یہی رسول اللہ ﷺ کا وضو ہے۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 115
دھونے کی حد سے متعلق
حمران مولی عثمان سے روایت ہے کہ عثمان (رض) عنہ نے وضو کا پانی مانگا، اور وضو کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہتھیلی تین بار دھو لی، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر اسی طرح اپنا بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں ٹخنے تک تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پاؤں دھویا، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے میرے اسی وضو کی طرح وضو کیا، پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھے، اور اپنے دل میں دوسرے خیالات نہ لائے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٨٤، ٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہاتھ کہنی تک اور پیر ٹخنے تک دھویا جائے، اور سر کے مسح کے علاوہ سارے اعضاء تین تین بار دھوئے جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 116
جو توں میں وضو سے متعلق یعنی جوتے پہن کر وضو کرنا؟
عبید بن جریج کہتے ہیں : میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ چمڑے کی ان سبتی جوتوں کو پہنتے ہیں، اور اسی میں وضو کرتے ہیں ؟ ١ ؎ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں پہنتے اور ان میں وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے، سبتی جوتوں سے مراد بالوں کے بغیر نری کے چمڑے کی جوتیاں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٠ (١٦٦) مطولاً ، اللباس ٣٧ (٥٨٥١) مطولاً ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، سنن ابی داود/الحج ٢١ (١٧٧٢) مطولاً ، سنن الترمذی/الشمائل ١٠ (٧٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٤ (٣٦٢٦) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣١) ، مسند احمد ٢/١٧، ٦٦، ١١٠، ١٣٨ (تحفة الأشراف : ٧٣١٦) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٢٧٦١، ٢٩٥٣، ٥٢٤٥ ) وضاحت : ١ ؎: یہاں وضو سے مراد پاؤں دھونا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 117
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
جریر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا : کیا آپ مسح کرتے ہیں ؟ اس پر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٥ (٣٨٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٢) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٠ (٩٣) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٤ (٥٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/فیہ ٥٩ (١٥٤) ، مسند احمد ٤/٣٥٨، ٣٦١، ٣٦٤، ویأتي عند المؤلف برقم : ٧٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 118
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
عمرو بن امیہ ضمری (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٨ (٢٠٤، ٢٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٩ (٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠١) ، مسند احمد ٤/١٣٩، ١٧٩، و ٥/٢٨٧، ٢٨٨، سنن الدارمی/الطہارة ٣٨ (٧٣٧) ، بزیادة ” العمامة “ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 119
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور بلال (رض) اسواف ١ ؎ میں داخل ہوئے، تو آپ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، پھر نکلے، اسامہ (رض) کہتے ہیں کہ تو میں نے بلال (رض) سے دریافت کیا : آپ ﷺ نے کیا کیا ؟ بلال (رض) نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، پھر آپ ﷺ نے وضو کیا، چناچہ اپنا چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، اور اپنے سر کا مسح کیا، اور دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر نماز ادا کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٠) (حسن صحیح) (صحیح موارد الظمآن ١٥١ ) وضاحت : ١ ؎: اسواف حرم مدینہ کو کہتے ہیں۔ اور مدینہ میں ایک مقام کا نام بھی اسواف ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 120
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
سعد بن ابی وقاص (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٨ (٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٤ (٥٤٦) ، مسند احمد ١/١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 121
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
سعد بن ابی وقاص (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے موزوں پر مسح کے متعلق روایت کی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الاسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 122
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے، جب آپ لوٹے تو میں ایک لوٹے میں پانی لے کر آپ سے ملا، اور میں نے (اسے) آپ پر ڈالا، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر آپ اپنے دونوں بازو دھونے چلے تو جبہ تنگ پڑگیا، تو آپ نے انہیں جبے کے نیچے سے نکالا اور انہیں دھویا، پھر اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی، ( پھر ہمیں نماز پڑھائی کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧ (٣٦٣) ، ٢٥ (٣٨٨) مختصراً ، الجہاد ٩٠ (٢٩١٨) ، اللباس ١٠ (٥٧٩٨) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٩ (٣٨٩) ، مسند احمد ٤/ ٢٤٧، ٢٥٠، (تحفة الأشراف : ١١٥٢٨) (صحیح الاسناد) (لیکن ” صلى بنا “ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس قصہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف (رض) کے پیچھے صلاة پڑھی تھی ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد م لکن قوله بنا خطأ لأنه صلى الله عليه وسلم کان مقتديا بابن عوف في هذه القصة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 123
موزوں پر مسح کرنے سے متعلق
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے، مغیرہ ایک برتن لے کر جس میں پانی تھا آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے گئے، اور آپ پر پانی ڈالا، یہاں تک ١ ؎ کہ آپ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے، پھر وضو کیا، اور دونوں موزوں پر مسح کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ١١٥١٤) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ٧٩ ) وضاحت : ١ ؎: مسلم کی روایت میں حتیٰ فرغ من حاجتہ کے بجائے حین فرغ من حاجتہ ہے یعنی جب آپ ﷺ حاجت سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ پر پانی ڈالا تو آپ نے وضو کیا، اس کی رو سے حتی کا لفظ راوی کا سہو ہے، صحیح حین ہے، اور نووی نے تاویل یہ کی ہے کہ یہاں حاجت سے مراد وضو ہے، لیکن اس صورت میں اس کے بعد فتوضأ کا جملہ بےموقع ہوگا۔ ٢ ؎: اس حدیث سے وضو میں تعاون لینے کا جواز ثابت ہوا، جن حدیثوں میں تعاون لینے کی ممانعت آئی ہے وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 124
جراب اور جوتوں پر مسح سے متعلق
مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں پاتابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦١ (١٥٩) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٤ (٩٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٨ (٥٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٤) مسند احمد ٤/٢٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو آپ نے فرمایا : مغیرہ ! تم پیچھے ہوجاؤ اور لوگو ! تم چلو ، چناچہ میں پیچھے ہوگیا، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، لوگ آگے نکل گئے، تو رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو میں آپ پر پانی ڈالنے لگا، آپ تنگ آستین کا ایک رومی جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا مگر جبہ تنگ ہوگیا، تو آپ نے جبہ کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکال لیا، پھر اپنا چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، اور اپنے سر کا مسح کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ١١٤٩٥) (صحیح الإسناد) (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو : ١٠٨ ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 125
مسافر کے لئے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کا بیان
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بحالت سفر ہم کو تین دن اور تین راتیں اپنے موزے نہ اتارنے کی اجازت دی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٧١ (٩٦) مطولاً ، الزہد ٥٠ (٢٣٨٧) ببعضہ، الدعوات ٩٩ (٣٥٣٥، ٣٥٣٦) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٣ (٤٧٨) ، الفتن ٣٢ (٤٠٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) ، مسند احمد ٤/ ٢٣٩، ٢٤٠، ٢٤١، وأعادہ المؤلف بأرقام : ١٥٨، ١٥٩ بزیادة في متنہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 126
مسافر کے لئے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کا بیان
زر کہتے ہیں کہ میں نے صفوان بن عسال (رض) سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا ؟ تو انہوں نے کہا : جب ہم مسافر ہوتے تو ہمیں رسول اللہ ﷺ حکم دیتے کہ ہم اپنے موزوں پر مسح کریں، اور اسے تین دن تک پیشاب، پاخانہ اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں سوائے جنابت کے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 127
مقیم کے واسطے موزوں پر مسح کرنے کی مدت
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں، اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی تحدید فرمائی ہے ١ ؎ یعنی (موزوں پر) مسح کے سلسلے میں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٤ (٢٧٦) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٦ (٥٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٢٦) ، مسند احمد مسند احمد ١/٩٦، ١٠٠، ١١٣، ١١٧، ١٢٠، ١٣٣، ١٣٤، ١٤٦، ١٤٩، ٦/١١٠، سنن الدارمی/الطہارة ٤٢ (٧٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مدت حدث کے وقت سے معتبر ہوگی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 128
مقیم کے واسطے موزوں پر مسح کرنے کی مدت
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے کہا : علی (رض) سے جا کر پوچھو، وہ اس بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، چناچہ میں علی (رض) کے پاس آیا اور ان سے مسح کے متعلق دریافت کیا ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ مقیم ایک دن ایک رات، اور مسافر تین دن اور تین راتیں مسح کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر : ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مالک سے مشہور یہ روایت ہے کہ مسح کی کوئی مدت مقرر نہیں جب تک چاہے مسح کرے، ان کی دلیل ابی بن عمارہ (رض) کی حدیث ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے لیکن وہ ضعیف ہے، لائق استدلال نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 129
با وضو شخص کس طریقہ سے نیا وضو کرے؟
عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے یعنی ان کے مقدمات نپٹانے کے لیے بیٹھے، جب عصر کا وقت ہوا تو پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ نے اس سے ایک ہتھیلی میں پانی لیا، پھر اسے اپنے چہرہ، اپنے دونوں بازو، سر اور دونوں پیروں پر ملا ١ ؎، پھر بچا ہوا پانی لیا اور کھڑے ہو کر پیا، اور کہنے لگے کہ کچھ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے، اور یہ ان لوگوں کا وضو ہے جن کا وضو نہیں ٹوٹا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأشربة ١٦ (٥٦١٥، ٥٦١٦) مختصراً ، سنن ابی داود/فیہ ١٣ (٣٧١٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣٢ (٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩٣) ، مسند احمد ١/٧٨، ١٢٠، ١٢٣، ١٣٩، ١٤٤، ١٥٣، ١٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی باوضو ہو اور نماز کا وقت آجائے، اور وہ ثواب کے لیے تازہ وضو کرنا چاہے تو تھوڑا سا پانی لے کر سارے اعضاء پر مل لے تو کافی ہوگا، پورا وضو کرنا اور ہر عضو کے لیے الگ الگ پانی لینا ضروری نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 130
ہر نماز کے لئے وضو بنانا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس چھوٹا سا برتن لایا گیا، تو آپ نے (اس سے) وضو کیا، عمرو بن عامر کہتے ہیں : میں نے پوچھا : کیا نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ١ ؎! اس پر (عمرو بن عامر) نے پوچھا : اور آپ لوگ ؟ کہا : ہم لوگ جب تک وضو نہیں توڑتے نماز پڑھتے رہتے تھے، نیز کہا : ہم لوگ کئی نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارہ ٥٤ (٢١٤) مختصراً ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٦ (١٧١) مختصراً ، سنن الترمذی/فیہ ٤٤ (٦٠) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٢ (٥٠٩) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١١١٠) ، مسند احمد ٣/١٣٢، ١٣٣، ١٥٤، ١٩٤، ٢٦٠، سنن الدارمی/الطہارة ٤٦ (٧٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ کی عام عادت مبارکہ یہی تھی، اگرچہ کبھی کبھی ایک وضو سے دو اور اس سے زیادہ نمازیں بھی آپ نے پڑھی ہیں، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ انس (رض) نے اپنی معلومات کے مطابق جواب دیا ہو، شاید انہیں اس کا علم نہ رہا ہو کہ آپ نے ایک وضو سے کئی نمازیں بھی پڑھی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 131
ہر نماز کے لئے وضو بنانا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ سے نکلے تو آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، تو لوگوں نے پوچھا : کیا ہم لوگ وضو کا پانی نہ لائیں ؟ آپ ﷺ نے کہا : مجھے وضو کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا ہے جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ١١ (٣٧٦٠) ، سنن الترمذی/فیہ ٤٠ (١٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٩٣) ، مسند احمد ١/٢٨٢، ٣٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 132
ہر نماز کے لئے وضو بنانا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، تو جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپ نے کئی نمازیں ایک ہی وضو سے ادا کیں، چناچہ عمر (رض) نے آپ سے کہا : آپ نے ایسا کام کیا ہے جو آپ نہیں کرتے تھے ١ ؎؟ فرمایا : عمر ! میں نے اسے عمداً (جان بوجھ کر) کیا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٥ (٢٧٧) مختصراً ، سنن ابی داود/فیہ ٦٦ (١٧٢) مختصراً ، سنن الترمذی/فیہ ٤٥ (٦١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٢ (٥١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٢٨) ، مسند احمد ٥/٣٥٠، ٣٥١، ٣٥٨، سنن الدارمی/الطہارة ٣ (٢٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ عام طور سے ایسا نہیں کرتے تھے ورنہ فتح مکہ سے پہلے بھی آپ کا ایسا کرنا ثابت ہے۔ ٢ ؎: تاکہ میری امت کو یہ معلوم ہوجائے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کرنا درست ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 133
پانی کے چھڑکنے کا بیان
سفیان ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تھے تو ایک چلو پانی لیتے اور اس طرح کرتے، اور شعبہ نے کیفیت بتائی کہ آپ ﷺ اسے اپنی شرمگاہ پر چھڑکتے، (خالد بن حارث کہتے ہیں) میں نے اس کا ذکر ابراہیم سے کیا تو انہیں یہ بات پسند آئی۔ ابن السنی کہتے ہیں کہ حکم سفیان ثقفی (رض) کے بیٹے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٤ (١٦٦، ١٦٧، ١٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٨ (٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٠) ، مسند احمد ٣/٤١٠، ٤/٦٩، ١٧٩، ٢١٢، ٥/٣٨٠، ٤٠٨، ٤٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 134
پانی کے چھڑکنے کا بیان
حکم بن سفیان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارا۔ احمد کی روایت میں و نضح فرجه کی جگہ فنضح فرجه ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حکم بن سفیان ان کے نام میں اضطراب ہے، حکم بن سفیان، سفیان بن حکم، ابن ابی سفیان یا أبو الحکم کئی طرح سے آیا ہے، نیز کسی کی روایت میں عن أبيه ہے اور کسی کی روایت میں نہیں ہے، اس لیے ان کی یہ روایت اضطراب کے سبب ضعیف ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : تحفۃ الأشراف : ٣٤٢٠ ) لیکن ابن ماجہ میں مروی زید اور جابر رضی اللہ عنہم کی روایتوں سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہوجاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 135
وضو کا بچا ہوا پانی کار آمد کرنا
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا (تو اپنے اعضاء) تین تین بار (دھوئے) پھر وہ کھڑے ہوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اور کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے (بھی) اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطہارة ٣٤ (٤٤) مختصرًا، وانظر حدیث رقم : ٩٦، ١١٥ (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 136
وضو کا بچا ہوا پانی کار آمد کرنا
ابوجحیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، بلال (رض) نے آپ کے وضو کا پانی (جو برتن میں بچا تھا) نکالا، تو لوگ اسے لینے کے لیے جھپٹے، میں نے بھی اس میں سے کچھ لیا، اور آپ ﷺ کے لیے لکڑی نصب کی، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ کے سامنے سے گدھے، کتے اور عورتیں گزر رہی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٦٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٨١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٠ (١٨٧) ، الصلاة ١٧ (٣٧٦) ، ٩٣ (٤٩٩) ، ٩٤ (٥٠١) ، المناقب ٢٣ (٣٥٥٣) ، اللباس ٣ (٥٧٨٦) ، ٤٢ (٥٨٥٩) ، مسند احمد ٤/٣٠٧، ٣٠٨، ٣٠٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٤ (١٤٤٩) ، وأعادہ المؤلف برقم : ٧٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 137
وضو کا بچا ہوا پانی کار آمد کرنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) میری عیادت کے لیے آئے، دونوں نے مجھے بیہوش پایا، تو رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، پھر آپ نے اپنے وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ٥ (٥٦٥١) مطولاً ، الفرائض ١ (٦٧٢٣) مطولاً ، الاعتصام ٨ (٧٣٠٩) ، صحیح مسلم/الفرائض ٢ (١٦١٦) مطولاً ، سنن ابی داود/فیہ ٢ (٢٨٨٦) مطولاً ، سنن الترمذی/الفرائض ٧ (٢٠٩٧) ، التفسیر ٥ (٣٠١٥) ، سنن ابن ماجہ/الفرائض، الجنائز ١ (١٤٣٦) ، ٥ (٢٧٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٢٨) ، مسند احمد ٣/٣٠٧، سنن الدارمی/الطہارة ٥٦ (٧٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو پانی وضو سے بچ رہا تھا اسے میرے اوپر ڈالا، یہ تفسیر باب کے مناسب ہے، یا جو پانی وضو میں استعمال ہوا تھا اس کو اکٹھا کر کے ڈالا، ایسی صورت میں کہا جائے گا کہ جب ماء مستعمل سے نفع اٹھانا جائز ہے تو بچے ہوئے پانی سے نفع اٹھانا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 138
وضو کی فرضیت
ابوالملیح کے والد (اسامہ بن عمیر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بغیر وضو کے کوئی نماز قبول نہیں کرتا، اور نہ خیانت کے مال کا صدقہ قبول کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٣١ (٥٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٢ (٢٧١) ، (تحفة الأشراف ١٣٢) ، مسند احمد ٥/٧٤، ٧٥، سنن الدارمی/الطہارة ٢١ (٧١٣) ، ویأتي عندالمؤلف برقم : ٢٥٢٥، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢ (٢٢٤) ، عن ابن عمر، مسند احمد ٢/٢٠، ٣٩، ٥١، ٥٧ وغیرہما (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مال غنیمت میں سے چرا کر اگر کوئی صدقہ دے تو وہ صدقہ مقبول نہ ہوگا، یہی حکم ہر مال حرام کا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 139
وضو میں اضافہ کرنے کی ممانعت
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا، وہ آپ ﷺ سے وضو کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو آپ ﷺ نے اسے تین تین بار اعضاء وضو دھو کر کے دکھائے، پھر فرمایا : اسی طرح وضو کرنا ہے، جس نے اس پر زیادتی کی اس نے برا کیا، وہ حد سے آگے بڑھا اور اس نے ظلم کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٥١ (١٣٥) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٤٨ (٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٠٩) ، مسند احمد ٢/١٨٠ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی سنت کی اتباع بہتر ہے، اور اپنی عقل سے اس میں کمی بیشی کرنا مذموم ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 140
وضو پورا کرنا
عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم لوگ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے تھے، تو انہوں نے کہا : قسم ہے اللہ کی ! رسول اللہ ﷺ نے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت ہمیں (یعنی بنی ہاشم کو) کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا سوائے تین چیزوں کے ١ ؎ (پہلی یہ کہ) آپ نے حکم دیا کہ ہم کامل وضو کریں، (دوسری یہ کہ) ہم صدقہ نہ کھائیں، اور (تیسری یہ کہ) ہم گدھوں کو گھوڑیوں پر نہ چڑھائیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣١ (٨٠٨) مطولاً ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٣ (١٧٠١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٩ (٤٢٦) مختصرًا، (تحفة الأشراف : ٥٧٩١) ، مسند احمد ١/٢٢٥، ٢٣٢، ٢٣٤، ٢٤٩، ٢٥٥، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٦١١، بزیادة في أوّلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان باتوں کی بنی ہاشم کو زیادہ تاکید فرمائی، ان میں سے پہلی بات تو عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے، اور دوسری بات بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ساتھ خاص ہے، جب کہ تیسری بات یعنی گدھوں اور گھوڑیوں کا ملاپ عموماً مکروہ ہے کیونکہ اس سے گھوڑوں کی نسل کم ہوگی حالانکہ ان کی نسل بڑھانی چاہیئے کیونکہ گھوڑے آلات جہاد میں سے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 141
وضو پورا کرنا
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامل وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 142
وضومکمل کرنے کی فضیلت سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کو ایسی چیز نہ بتاؤں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا اور درجات بلند کرتا ہے، وہ ہے : ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا، زیادہ قدم چل کر مسجد جانا، اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا، یہی رباط ہے یہی رباط ہے یہی رباط ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٤ (٢٥١) ، سنن الترمذی/فیہ ٣٩ (٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٨٧) ، موطا امام مالک/ السفر ١٨ (٥٥) ، مسند احمد ٢/٢٧٧، ٣٠٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمان : يا أيها الذين آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا (آل عمران : 200) میں جس کا حکم دیا گیا ہے اس سے یہی مراد ہے، بلکہ اس سے نفس اور بدن کو طاعات سے مربوط کرنا ہے، یا اس سے مراد افضل عمل ہے، یعنی یہ اعمال جہاد کی طرح ہیں جن کے ذریعہ انسان اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان کو زیر کرتا ہے، اس وجہ سے اسے رباط کہا گیا ہے جس کے معنی سرحد کی حفاظت و نگہبانی کے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 143
حکم خداوندی کے مطابق وضو کرنا
عاصم بن سفیان ثقفی سے روایت ہے کہ وہ لوگ غزوہ سلاسل کے لیے نکلے، لیکن یہ غزوہ ان سے فوت ہوگیا، تو وہ سرحد ہی پہ جمے رہے، پھر معاویہ (رض) کے پاس لوٹ آئے، ان کے پاس ابوایوب اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم موجود تھے، تو عاصم کہنے لگے : ابوایوب ! اس سال ہم لوگ غزوہ میں شریک نہیں ہو سکے ہیں، اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ جو چار مسجدوں ٢ ؎ میں نماز پڑھ لے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ؟ ، تو انہوں نے کہا : بھتیجے ! میں تمہیں اس سے آسان چیز بتاتا ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے : جو وضو کرے اسی طرح جیسے اسے حکم دیا گیا ہے اور نماز پڑھے اسی طرح جیسے اسے حکم دیا گیا ہے، تو اس کے وہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے جنہیں اس نے اس سے پہلے کیا ہو ، عقبہ ! ایسے ہی ہے نا ؟ انہوں نے کہا : ہاں (ایسے ہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٩٣ (١٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٢) ، مسند احمد ٥/٤٢٣، سنن الدارمی/الطہارة ٤٥ (٧٤٤) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” سفیان بن عبدالرحمن “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : غزوہ سلاسل یہ وہ غزوہ نہیں ہے جو نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں ٨ ھ میں ہوا تھا، یہ کوئی ایسا غزوہ تھا جو عمر بن خطاب (رض) کے زمانہ میں ملک عراق کے اندر ہوا تھا۔ ٢ ؎: چاروں مسجدوں سے مراد مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد قباء اور مسجد الاقصیٰ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 144
حکم خداوندی کے مطابق وضو کرنا
عثمان (رض) عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : جس نے اللہ عزوجل کے حکم کے موافق وضو کو پورا کیا، پانچوں وقت کی نمازیں اس کے ان گناہوں کے لیے کفارہ ہوں گی جو ان کے درمیان سرزد ہوئے ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٤ (٢٣١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٥٧ (٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٩) ، مسند احمد ١/٥٧، ٦٦، ٦٩، وانظر ایضا الأرقام : ٨٤، ٨٥، ٨٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 145
حکم خداوندی کے مطابق وضو کرنا
عثمان (رض) عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر نماز پڑھے، تو اس کے اس نماز سے لے کر دوسری نماز پڑھنے تک کے دوران ہونے والے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٤ (١٦٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ٤ (٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٣) ، موطا امام مالک/فیہ ٦ (٢٩) ، مسند احمد ١ (٥٧) وانظر أیضا رقم : ٨٤، ٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 146
حکم خداوندی کے مطابق وضو کرنا
عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وضو کا ثواب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وضو کا ثواب یہ ہے کہ : جب تم وضو کرتے ہو، اور اپنی دونوں ہتھیلی دھو کر انہیں صاف کرتے ہو تو تمہارے ناخن اور انگلیوں کے پوروں سے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جب تم کلی کرتے ہو، اور اپنے نتھنوں میں پانی ڈالتے ہو، اور اپنا چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوتے ہو، اور سر کا مسح کرتے ہو، اور ٹخنے تک پاؤں دھوتے ہو تو تمہارے اکثر گناہ دھل جاتے ہیں، پھر اگر تم اپنا چہرہ اللہ عزوجل کے لیے (زمین) پر رکھتے ہو تو اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جاتے ہو جیسے اس دن تھے جس دن تمہاری ماں نے تمہیں جنا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/مسافرین ٥٢ (٨٣٢) ، مسند احمد ٤/١١٢، کلاھما مطولاً لغیر ہذا السیاق (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 147
وضو سے فراغت کے بعد کیا کہنا چاہئے؟
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے وضو کیا، اور اچھی طرح وضو کیا، پھر أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں کہا تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے جس سے چاہے وہ جنت میں داخل ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٢٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٠ (٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٤١ (٥٥) ، بزیادة ” اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین “ ، وأعادہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٣٤ (٨٤) ، سنن ابی داود/فیہ ٦٥ (١٦٩) ، م (٤/١٤٦، ١٥١، ١٥٣) من مسند عقبة بن عامر، سنن الدارمی/الطہارة ٤٣ (٧٤٣) مطولاً (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 148
وضو کے زیور سے متعلق ارشاد رسول ﷺ
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) کے پیچھے تھا، اور وہ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے، وہ اپنے دونوں ہاتھ دھو رہے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں بغلوں تک پہنچ جاتے تھے، تو میں نے کہا : ابوہریرہ ! یہ کون سا وضو ہے ؟ انہوں نے مجھ سے کہا : اے بنی فروخ ! تم لوگ یہاں ہو ! ١ ؎ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ یہاں ہو تو میں یہ وضو نہیں کرتا ٢ ؎، میں نے اپنے خلیل (گہرے دوست) نبی اکرم ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جنت میں مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضو پہنچے گا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٣ (٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩٨) ، مسند احمد ٢/٣٧١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فروخ ابراہیم (علیہ السلام) کے لڑکے کا نام تھا جو اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) کے بعد پیدا ہوئے، ان کی نسل بہت بڑھی، کہا جاتا ہے کہ عجمی انہیں کی اولاد میں سے ہیں، قاضی عیاض کہتے ہیں، فروخ سے ابوہریرہ کی مراد موالی ہیں اور یہ خطاب ابوحازم کی طرف ہے۔ ٢ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ عوام کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ اسے فرض سمجھنے لگ جائیں، اس لیے ابوہریرہ (رض) نے یہ بات کہی کہ اگر میں جانتا کہ تم لوگ یہاں موجود ہو تو اس طرح وضو نہ کرتا۔ ٣ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز مومن کے اعضاء وضو میں زیور پہنائے جائیں گے، تو جو کامل وضو کرے گا اس کے زیور بھی کامل ہوں گے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن مسلمان کو زیور اس حد تک پہنایا جائے گا جہاں تک وضو میں پانی پہنچتا ہے یعنی ہاتھوں کا زیور کہنیوں تک، پاؤں کا ٹخنوں تک، اور منہ کا کانوں تک ہوگا۔ واللہ اعلم قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 149
وضو کے زیور سے متعلق ارشاد رسول ﷺ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان کی طرف نکلے اور آپ نے فرمایا : السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون مومن قوم کی بستی والو ! تم پر سلامتی ہو، اللہ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں میری خواہش ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے صحابہ (ساتھی) ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جو بعد میں آئیں گے کیسے پہچانیں گے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ اگر کسی آدمی کا سفید چہرے اور پاؤں والا گھوڑا سیاہ گھوڑوں کے درمیان ہو تو کیا وہ اپنا گھوڑا نہیں پہچان لے گا ؟ لوگوں نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس حال میں آئیں گے کہ وضو کی وجہ سے ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں چمک رہے ہوں گے، اور میں حوض پر ان کا پیش رو ہوں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٢ (٢٤٩) مطولاً ، سنن ابی داود/الجنائز ٨٣ (٣٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/ الزھد ٣٦ (٤٣٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٠٨٦) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٢٨) ، مسند احمد ٢/٣٠٠، ٣٧٥، ٤٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پیش رو سے مراد میر سامان ہے جو قافلے میں سب سے پہلے آگے جا کر قافلے کے ٹھہرنے اور ان کی دیگر ضروریات کا انتظام کرتا ہے، یہ امت محمدیہ کا شرف ہے کہ ان کے پیش رو محمد رسول اللہ ﷺ ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 150
بہترین طریقہ سے وضو کر کے دو رکعات ادا کرنے والے کا اجر؟
عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اچھی طرح وضو کرے، پھر دل اور چہرہ سے متوجہ ہو کر دو رکعت نماز ادا کرے، اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٦ (٢٣٤) مطولاً ، سنن ابی داود/فیہ ٦٥ (١٦٩) مطولاً ، ١٦٢ (٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٤) ، مسند احمد ٤/١٤٦، ١٥١، ١٥٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حالت نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھے، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے، اور نہ ہی دل میں کوئی دوسرا خیال لائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 151
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی ١ ؎ آتی تھی، اور نبی اکرم ﷺ کی بیٹی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) میرے عقد نکاح میں تھیں، جس کی وجہ سے میں نے خود آپ ﷺ سے پوچھنے میں شرم محسوس کی، تو میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ایک آدمی سے کہا : تم پوچھو، تو اس نے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں وضو ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٣ (٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٨) ، مسند احمد ١/١٢٥، ١٢٩ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مذی وہ لیس دار پتلا پانی ہے جو جماع کی خواہش سے پہلے شرمگاہ سے نکلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 152
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے مقداد سے کہا : جب آدمی اپنی بیوی کے پاس جائے، اور مذی نکل آئے، اور جماع نہ کرے تو (اس پر کیا ہے ؟ ) تم اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے پوچھو، میں آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھنے سے شرما رہا ہوں، کیونکہ آپ کی صاحبزادی میرے عقد نکاح میں ہیں، چناچہ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اپنی شرمگاہ دھو لیں، اور نماز کی طرح وضو کرلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٨٣ (٢٠٨، ٢٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٤١) ، مسند احمد ١/١٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 153
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
عائش بن انس سے روایت ہے کہ علی (رض) نے کہا کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو میں نے آپ کی صاحبزادی جو میرے عقد نکاح میں تھیں کی وجہ سے عمار بن یاسر کو حکم دیا کہ وہ (اس بارے میں) رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں، (چنانچہ انہوں نے پوچھا) تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں وضو کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠١٥٦) (منکر) (مقداد کی جگہ عمار بن یاسر کا ذکر منکر ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کی صحیح حدیثوں مں مقداد کا ذکر آیا ہے ) قال الشيخ الألباني : منکر بذکر عمار صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 154
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ علی (رض) نے عمار (رض) کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے مذی کے بارے میں سوال کریں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اپنی شرمگاہ دھو لیں، اور وضو کرلیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٠) (منکر) (مقداد کی جگہ عمار بن یاسر کا ذکر منکر ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کی صحیح حدیثوں مں مقداد کا ذکر آیا ہے، کما تقدم ) قال الشيخ الألباني : منکر والمحفوظ أن المأمور المقداد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 155
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
مقداد بن اسود (رض) سے روایت ہے کہ علی (رض) نے انہیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں سوال کریں جو اپنی بیوی سے قریب ہو اور اس سے مذی نکل آئے، تو اس پر کیا واجب ہے ؟ (وضو یا غسل) کیونکہ میرے عقد نکاح میں آپ ﷺ کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) ہیں، اس لیے میں (خود) آپ ﷺ سے پوچھتے ہوئے شرما رہا ہوں، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی ایسا پائے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑک لے اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٨٣ (٢٠٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٠ (٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٤٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٣ (٥٣) ، مسند احمد ٦/٤، ٥ ویأتی عند المؤلف برقم : ٤٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 156
مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے مذی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے خود پوچھنے میں شرم محسوس کی، تو مقداد بن اسود (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا : آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں وضو واجب ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥١ (١٣٢) ، الوضوء ٣٤ (١٧٨) ، صحیح مسلم/الحیض ٤ (٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٤) ، مسند احمد ١/٨٠، ٨٢، ١٠٣، ١٢٤، ١٤٠، ولہ طرق أخری عن علی ۔ انظر الأرقام : ٤٣٦-٤٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 157
پاخانہ پیشاب نکلنے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس آیا جسے صفوان بن عسال (رض) کہا جاتا تھا، میں ان کے دروازہ پر بیٹھ گیا، تو وہ نکلے، تو انہوں نے پوچھا کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا : طالب علم کے لیے فرشتے اس چیز سے خوش ہو کر جسے وہ حاصل کر رہا ہو اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، پھر پوچھا : کس چیز کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا : دونوں موزوں کے متعلق کہا : جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں ہوتے تو آپ ﷺ ہمیں حکم دیتے کہ ہم انہیں تین دن تک نہ اتاریں، الاّ یہ کہ جنابت لاحق ہوجائے، لیکن پاخانہ، پیشاب اور نیند (تو ان کی وجہ سے نہ اتاریں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٦، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) (حسن ) وضاحت : یعنی اگر جنابت لاحق ہوجائے تو اتارنے ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 158
پاخانہ نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جانے کا بیان
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں ہوتے تو آپ حکم دیتے کہ ہم (موزوں کو) تین دن تک نہ اتاریں، إلاّ یہ کہ جنابت لاحق ہوجائے، ١ ؎ لیکن پاخانہ، پیشاب اور نیند (تو ان کی وجہ سے نہ اتاریں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٦، (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر نہانے کی حاجت ہو تو موزے اتار کر نہائیں، باقی صورتوں میں اتارنے کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 159
پاخانہ نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جانے کا بیان
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے شکایت کی گئی کہ آدمی (بسا اوقات) نماز میں محسوس کرتا ہے کہ ہوا خارج ہوگئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تک بو نہ پالے، یا آواز نہ سن لے نماز نہ چھوڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤ (١٣٧) و ٣٤ (١٧٧) مختصرًا، البیوع ٥ (٢٠٥٦) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٦ (٣٦١) ، سنن ابی داود/الطہارة ٦٨ (١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٤ (٥١٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٦) ، مسند احمد ٤/٣٩، ٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب ہوا کے خارج ہونے کا یقین ہوجائے تب نماز توڑے اور جا کر وضو کرے، محض وہم پر نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 160
سونے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر تین مرتبہ پانی نہ ڈال لے کیونکہ اسے خبر نہیں کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١، (تحفة الأشراف : ١٥٢٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی (ممانعت) اکثر علماء کے نزدیک تنزیہی ہے اور بعض کے نزدیک تحریمی ہے، امام احمد سے منقول ہے کہ اگر رات کو سو کر اٹھے تو کراہت تحریمی ہے اور دن کو سو کر اٹھے تو کراہت تنزیہی، في الإنائ کی قید سے معلوم ہوا کہ نہر، بڑا حوض اور تالاب وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ (الگ) ہیں اور ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 161
اونگھ آنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کسی کو اونگھ آئے اور وہ نماز میں ہو تو وہ جلدی سے نماز ختم کرلے، ایسا نہ ہو کہ وہ (اونگھ میں) اپنے حق میں بدعا کر رہا ہو اور جان ہی نہ سکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٧٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٣ (٢١٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٨ (١٣١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٦ (٣٥٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٨٤ (١٣٧٠) ، موطا امام مالک/صلاة الیل ١ (٣) ، مسند احمد ٦/٥٦، ٢٠٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٧ (١٤٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مصنف نے یہ اخذ کیا ہے کہ اونگھ ناقض وضو نہیں ہے کیونکہ اگر ناقض وضو ہوتی تو آپ ﷺ نماز میں اس ڈر سے منع نہ فرماتے کہ وہ اپنے حق میں بدعا کر رہا ہو، بلکہ آپ ﷺ یہ کہتے کہ اونگھنے کی حالت میں نماز درست نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 162
شرم گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں مروان بن حکم کے پاس گیا، پھر ہم نے ان چیزوں کا ذکر کیا جن سے وضو لازم آتا ہے، تو مروان نے کہا : ذکر (عضو تناسل) کے چھونے سے وضو ہے، اس پر عروہ نے کہا : مجھے معلوم نہیں، تو مروان نے کہا : بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب کوئی اپنا ذکر (عضو تناسل) چھوئے تو وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٠ (١٨١) ، سنن الترمذی/فیہ ٦١ (٨٢) مختصرًا، سنن ابن ماجہ/٦٣ (٤٧٩) مختصرًا، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٥) ، موطا امام مالک/فیہ ١٥ (٥٨) ، مسند احمد ٦/٤٠٦، ٤٠٧، سنن الدارمی/الطہارة ٥٠ (٧٥١، ٧٥٢) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٦٣، ٤٤٥- ٤٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 163
شرم گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے سے متعلق
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مروان نے اپنی مدینہ کی امارت کے دوران ذکر کیا کہ عضو تناسل کے چھونے سے وضو کیا جائے گا، جب اس تک آدمی اپنا ہاتھ لے جائے، تو میں نے اس کا انکار کیا اور کہا : جو عضو تناسل چھوئے اس پر وضو نہیں ہے، تو مروان نے کہا : مجھے بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے ان چیزوں کا ذکر کیا جن سے وضو کیا جاتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اور عضو تناسل چھونے سے (بھی) وضو کیا جائے گا ، عروہ کہتے ہیں : میں مروان سے برابر جھگڑتا رہا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ایک دربان کو بلایا اور اسے بسرہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا، چناچہ اس نے مروان سے بیان کی ہوئی حدیث کے بارے میں بسرہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا، تو بسرہ نے اسی طرح کی بات کہلا بھیجی جو مروان نے ان کے واسطے سے مجھ سے بیان کی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 164
شرم گاہ چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے سے متعلق
طلق بن علی (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک وفد کی شکل میں نکلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز ادا کی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ایک شخص جو دیہاتی لگ رہا تھا آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اس آدمی کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو نماز میں اپنا عضو تناسل چھو لے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا یا حصہ ہی تو ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧١ (١٨٢، ١٨٣) ، سنن الترمذی/فیہ ٦٢ (٨٥) مختصرًا، سنن ابن ماجہ/فیہ ٦٤، ٤٨٣، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٣) ، مسند احمد ٤/٢٢، ٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بسرۃ بنت صفوان رضی اللہ عنہا اور طلق بن علی (رضی اللہ عنہم) دونوں کی روایتیں بظاہر متعارض ہیں لیکن بسرۃ رضی اللہ عنہا کی روایت کو ترجیح حاصل ہے، اس لیے کہ وہ اثبت اور اصح ہے اور طلق بن علی رضی اللہ عنہم کی روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ پہلے کی ہے اور بسرۃ رضی اللہ عنہا کی روایت بعد کی ہے جیسا کہ ابن حبان اور حازمی نے اس کی تصریح کی ہے، دونوں کے اندر اس طرح بھی تطبیق دی جاتی ہے کہ بسرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بغیر کسی پردہ اور آڑ کے چھونے سے متعلق ہے، اور طلق رضی اللہ عنہم کی حدیث کپڑے وغیرہ کے اوپر سے چھونے سے متعلق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 165
اس کا بیان کہ اگر مرد شہوت کے بغیر عورت کو چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹتا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے جنازے کی طرح چوڑان میں لیٹی رہتی تھی، یہاں تک کہ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے اپنے پاؤں سے کچوکے لگاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠٨ (٥١٩) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١٧ (٧٤٤) ، سنن ابی داود/فیہ ١١٢ (٧١٢) ، مسند احمد ٦/٤٤، ٥٥، ٢٥٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٧ (١٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مصنف نے باب پر حدیث میں وارد لفظ مسني برجله سے استدلال کیا ہے کیونکہ یہ بغیر شہوت کے چھونا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 166
اس کا بیان کہ اگر مرد شہوت کے بغیر عورت کو چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹتا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ تم لوگوں نے دیکھا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی اور آپ نماز پڑھتے ہوتے، جب آپ سجدہ کا ارادہ کرتے تو میرے پاؤں کو کچوکے لگاتے، تو میں اسے سمیٹ لیتی، پھر آپ سجدہ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠٨ (٥١٩) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٢ (٧١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٧) ، مسند احمد ٢/٤٤، ٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 167
اس کا بیان کہ اگر مرد شہوت کے بغیر عورت کو چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹتا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سوتی تھی اور میرے دونوں پاؤں آپ کے قبلہ کی طرف ہوتے، جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے کچوکے لگاتے تو میں اپنے دونوں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں انہیں پھیلا لیتی، ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٢ (٣٨٢) ، ١٠٤ (٥١٣) ، العمل في الصلاة ١٠ (١٢٠٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٥١ (٥١٢) ، سنن ابی داود/فیہ ١١٢ (٧١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٢) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ١ (٢) ، مسند احمد ٦/١٤٨، ٢٢٥، ٢٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 168
اس کا بیان کہ اگر مرد شہوت کے بغیر عورت کو چھوئے تو وضو نہیں ٹوٹتا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم ﷺ کو غائب پایا، تو اپنے ہاتھ سے آپ کو ٹٹولنے لگی، تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر پڑا، آپ کے دونوں قدم کھڑے تھے اور آپ سجدے میں تھے، کہہ رہے تھے : أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک اے اللہ ! پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، اور تیری عافیت کی تیرے عذاب سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری شمار کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٦) ، سنن ابی داود/فیہ ١٥٢ (٨٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٧) ، موطا امام مالک/القرآن ٨ (٣١) ، (وفیہ انقطاع) ، مسند احمد ٦/٥٨، ٢٠١، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١١٠١، ١١٣١، ٥٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 169
بوسہ لینے سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بعض ازواج مطہرات کا بوسہ لیتے تھے، پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس باب میں اس سے اچھی کوئی حدیث نہیں ہے اگرچہ یہ مرسل ہے، اور اس حدیث کو اعمش نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے عروہ سے، اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، یحییٰ القطان کہتے ہیں : حبیب کی یہ روایت جسے انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے اور حبیب کی تصلى وإن قطر الدم على الحصير مستحاضہ نماز پڑھے گرچہ چٹائی پر خون ٹپکے والی روایت جسے انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے دونوں کچھ نہیں ہیں ٢ ؎، (یعنی دونوں ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث إبراہیم بن یزید الیتمی عن عائشة أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٩ (١٧٨) ، صحیح مسلم/٢١٠، (تحفة الأشراف : ١٥٩١٥) ، وحدیث عروة المزنی عن عائشة أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ٦٩ (١٧٩) ، سنن الترمذی/الطہارة ٦٣ (٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٩ (٥٠٢) ، مسند احمد ٦/٢١٠، (تحفة الأشراف : ١٧٣٧١) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ ابراہیم تیمی کا سماع ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شہوت کے ساتھ عورت کو چھونے سے بھی وضو نہیں ہے کیونکہ اس کا بوسہ عام طور سے شہوت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ ٢ ؎: اس کی وجہ حبیب اور عروہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، مگر متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 170
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٣ (٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٨٢، ٣٥٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطھارة ٧٦ (١٩٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٨ (٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٥ (٤٨٥) ، مسند احمد ٢/٢٦٥، ٢٧١، ٤٢٧، ٤٥٨، ٤٧٩، ٤٦٩، ٤٧٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث منسوخ ہے، دیکھئیے حدیث رقم : ١٨٢ - ١٨٥۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 171
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧١، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 172
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو مسجد کی چھت پر وضو کرتے دیکھا، تو انہوں نے کہا : میں نے پنیر کے کچھ ٹکڑے کھائے ہیں، اسی وجہ سے میں نے وضو کیا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کا حکم دیتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧١ (تحفة الأشراف : ١٣٥٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 173
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : کیا میں اس کھانے سے وضو کروں جسے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں حلال پاتا ہوں، محض اس لیے کہ وہ آگ سے پکا ہوا ہے ؟ تو ابوہریرہ (رض) نے کچھ کنکریاں جمع کیں اور کہا : ان کنکریوں کی تعداد کے برابر گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ سے پکی چیزوں سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٤٦١٤) ، مسند احمد ٢/٥٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 174
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٣٥٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 175
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگ سے پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 176
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٧٨١) ، مسند احمد ٤/٣٠ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 177
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٨) ، مسند احمد ٤/٢٨، ٣٠ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 178
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٣ (٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٤) ، مسند احمد ٥/١٨٤، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠، ١٩١، ١٩٢، سنن الدارمی/الطہارة ٥١ (٧٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 179
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوسفیان بن سعید بن اخنس بن شریق نے خبر دی ہے کہ وہ اپنی خالہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، تو انہوں نے مجھے ستو پلایا، پھر کہا : بھانجے ! وضو کرلو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : الطہارة ٧٦ (١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧١) ، مسند احمد ٦/٣٢٦، ٣٢٧، ٣٢٨، ٤٢٦، ٤٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 180
آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا
ابوسفیان بن سعید بن اخنس سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا (جب انہوں نے ستو پیا) بھانجے ! وضو کرلو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 181
آگ سے پکی ہوئی اشیاء کھا کر وضو نہ کرنے سے متعلق
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (بکری کی) دست کھائی، پھر آپ کے پاس بلال (رض) آئے، تو آپ نماز کے لیے نکلے اور پانی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٦ (٤٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٩) ، مسند احمد ٦/٢٩٢، ولہ غیر ھذہ الطریق عن أم سلمة، راجع مسند احمد ٦/٣٠٦، ٣١٧، ٣١٩، ٣٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 182
آگ سے پکی ہوئی اشیاء کھا کر وضو نہ کرنے سے متعلق
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ احتلام سے نہیں (بلکہ جماع سے) صبح کرتے، پھر روزہ رکھتے، (محمد بن یوسف کہتے ہیں :) اور ہم سے سلیمان بن یسار نے اس حدیث کے ساتھ (یہ بھی) بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھنا ہوا پہلو (گوشت کا ٹکڑا) پیش کیا، تو آپ ﷺ نے اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ١٣ (١١٠٩) ، مسند احمد ٦/٣٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 183
آگ سے پکی ہوئی اشیاء کھا کر وضو نہ کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، آپ نے روٹی اور گوشت تناول فرمایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ٥٦٧١) ، مسند احمد ١/٣٦٦، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطہارة ٥٠ (٢٠٧) ، الأطعمة ١٨ (٥٤٠٤) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٤ (٣٥٤) ، سنن ابی داود/الطہارة ٧٥ (١٨٧) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٢٧، ٢٤١، ٢٤٤، ٢٥٣، ٢٥٤، ٢٥٨، ٢٦٤، ٢٦٧، ٢٧٢، ٢٧٣، ٢٨١، ٣٣٦، ٣٥١، ٣٥٢، ٣٥٦، ٣٦١، ٣٦٣، ٣٦٥، ٣٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 184
آگ سے پکی ہوئی اشیاء کھا کر وضو نہ کرنے سے متعلق
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دونوں باتوں (آگ کی پکی ہوئی چیز کھا کر وضو کرنے اور وضو نہ کرنے) میں آخری بات آگ پر پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٧٥ (١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٧) ، وأخرجہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٥٣ (٥٤٥٧) ، مسند احمد ٣/٣٠٤، ٣٠٧، ٣٢٢، ٣٦٣، ٣٧٥، ٣٨١، بغیر ھذا اللفظ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 185
ستو کھانے کے بعد کلی کرنا
سوید بن نعمان (رض) کہتے ہیں کہ وہ خیبر کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب لوگ مقام صہبا (جو خیبر سے قریب ہے) میں پہنچے، تو آپ ﷺ نے نماز عصر ادا کی، پھر توشوں کو طلب کیا، تو صرف ستو لایا گیا، آپ ﷺ نے حکم دیا، تو اسے گھولا گیا، آپ نے کھایا اور ہم نے بھی کھایا، پھر آپ مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے کلی کی اور ہم نے (بھی) کلی کی، پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥١ (٢٠٩) ، ٥٤ (٢١٥) ، الجھاد ١٢٣ (٢٩٨١) ، المغازي ٣٨ (٤١٩٥) ، الأطعمة ٧ (٥٣٨٤) ، ٩ (٥٣٩٠) ، ٥١ (٥٤٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٦ (٤٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٨١٣) ، موطا امام مالک/فیہ ٥ (٢٠) ، مسند احمد ٣/٤٦٢، ٤٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 186
دودھ پی کر کلی کرنے کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیا، پھر پانی مانگا اور کلی کی، پھر فرمایا : اس میں چکنائی ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٢ (٢١١) ، الأشربة ١٢ (٥٦٠٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٤ (٣٥٨) ، سنن ابی داود/الطھارة ٧٧ (١٩٦) ، سنن الترمذی/الطھارة ٦٦ (٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٦٨ (٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٣) ، مسند احمد ١/٢٢٣، ٢٢٧، ٣٢٩، ٣٣٧، ٣٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 187
کونسی باتوں سے غسل کرنا لازم ہے اور کن سے نہیں؟
قیس بن عاصم (رض) سے روایت ہے کہ وہ اسلام لائے تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٣١ (٣٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٣ (٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٠) ، مسند احمد ٥/٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ غسل کفر کی گندگی کے ازالہ اور نجاست کے احتمال کے دفعیہ کے لیے ہے، اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم استحبابی ہے اور بعض کے نزدیک وجوبی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 188
جس وقت کافر مسلمان ہونے کا ارادہ کرے تو وہ غسل کرے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ثمامہ بن اثال حنفی ١ ؎ مسجد نبوی کے قریب پانی کے پاس آئے، اور غسل کیا، پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اے محمد ! اللہ کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں تھا، اور اب آپ کا چہرہ میرے لیے تمام چہروں سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوگیا ہے، اور آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے گرفتار کرلیا ہے، اور حال یہ ہے کہ میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں تو اب آپ کا کیا خیال ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بشارت دی، اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرلیں، (یہ حدیث یہاں مختصراً مذکور ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٦ (٤٦٢) مختصرًا، الخصومات ٧ (٢٤٢٢) مختصرًا، المغازي ٧٠ (٤٣٧٢) مطولاً ، صحیح مسلم/الجھاد ١٩ (١٧٦٤) ، سنن ابی داود/الجھاد ١٢٤ (٢٦٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٠٧) ، مسند احمد ٢/٤٥٢، ٤٨٣، وسیأتی بعضہ برقم : ٧١٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے ایک فرد تھے، اپنی قوم کے سردار بھی تھے، عمرہ کی ادائیگی کے لیے نکلے تھے، راستے میں رسول اللہ ﷺ کے گشتی سواروں نے گرفتار کرلیا، اور انہیں مدینہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں لے آئے، اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا، تین دن کے بعد نبی اکرم ﷺ نے انہیں آزاد کردیا جس سے متاثر ہو کر وہ اسلام لے لائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 189
جس وقت کافر مسلمان ہونے کا ارادہ کرے تو وہ غسل کرے
علی (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ابوطالب مرگئے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ انہیں گاڑ دو تو انہوں نے کہا : وہ شرک کی حالت میں مرے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ انہیں گاڑ دو ، چناچہ جب میں انہیں گاڑ کر آپ کے پاس واپس آیا، تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : غسل کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧٠ (٣٢١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٨٧) ، مسند احمد ١/٩٧، ١٣١، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٠٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 190
ختانوں کے مل جانے (دخول صحیحہ) پر غسل کا واجب ہونا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مرد، اس (عورت) کے چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھے، پھر کوشش کرے تو غسل واجب ہوجاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٨ (٢٩١) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٢ (٣٤٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ٨٤ (٢١٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١١ (٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٥٩) ، مسند احمد ٢/٢٣٤، ٣٤٧، ٣٩٣، ٤٧١، ٥٢٠، سنن الدارمی/الطہارة ٧٥ (٧٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شاخوں کے درمیان بیٹھے اس سے مراد عورت کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ہیں یا دونوں پیر اور دونوں ران ہیں، اور ایک قول ہے کہ اس کی شرمگاہ کے چاروں اطراف مراد ہیں۔ پھر کوشش کرے کوشش کرنے سے کنایہ دخول کی جانب ہے، یعنی عضو تناسل کو عورت کی شرمگاہ میں داخل کر دے۔ غسل واجب ہوجاتا ہے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غسل کے وجوب کا دارومدار دخول پر ہے اس کے لیے انزال شرط نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 191
ختانوں کے مل جانے (دخول صحیحہ) پر غسل کا واجب ہونا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مرد عورت کی چاروں شاخوں کے بیچ بیٹھے، پھر کوشش کرے، تو غسل واجب ہوگیا ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اشعث کا ابن سیرین کے طریق سے ابوہریرہ (رض) سے روایت کرنا غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ اشعث نے اسے بواسطہ حسن ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، نیز یہ حدیث بواسطہ شعبہ نضر بن شمیل وغیرہ سے بھی مروی ہے جیسا کہ اسے خالد نے روایت کی ہے، یعنی : بطریق قتادة عن الحسن، عن أبي رافع، عن أبي هريرة۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٤٤٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 192
جس وقت منی نکل جائے تو غسل کرنا ضروری ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا شخص تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب مذی دیکھو تو اپنا ذکر دھو لو، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کرلو، اور جب پانی (منی) کودتا ہوا نکلے تو غسل کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٨٣ (٢٠٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٩) ، مسند احمد ١/ ١٠٩، ١٢٥، ١٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 193
جس وقت منی نکل جائے تو غسل کرنا ضروری ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو میں نے ١ ؎، نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب مذی دیکھو تو وضو کرلو، اور اپنا ذکر دھو لو، اور جب پانی (منی) کو کودتے دیکھو، تو غسل کرو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مقداد یا عمار کے واسطہ سے پوچھا، جیسا کہ حدیث نمبر : ١٥٢ ، ١٥٧ میں گزر چکا ہے۔ ٢ ؎: منی کا ذکر افادئہ مزید کے لیے ہے ورنہ جواب مذی کے ذکر ہی پر پورا ہوچکا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 194
عورت کے لئے احتلام کے حکم کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے اس عورت کے متعلق دریافت کیا جو اپنے خواب میں وہ چیز دیکھتی ہے جو مرد دیکھتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب وہ انزال کرے تو غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١١) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٧ (٦٠١) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١١٨١) ، مسند احمد ٣/١٢١، ١٩٩، ٢٨٢، سنن الدارمی/الطھارة ٧٥ (٧٩١) بأطول من ھذا، ویأتی عندالمؤلف برقم : ٢٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 195
عورت کے لئے احتلام کے حکم کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا (بھی وہاں) بیٹھی ہوئی تھیں، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ حق بات (بیان کرنے) سے نہیں شرماتا ہے، آپ مجھے اس عورت کے متعلق بتائیے جو خواب میں وہ چیز دیکھتی ہے جو مرد دیکھتا ہے، کیا وہ اس کی وجہ سے غسل کرے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ہاں !، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو میں نے ان سے (ام سلیم رضی اللہ عنہا سے) کہا : افسوس ہے تم پر ! کیا عورت بھی اس طرح خواب دیکھتی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر بچہ کیسے (ماں کے) مشابہ ہوجاتا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، وقد آخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١٣) تعلیقاً ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٦ (٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٢٧) ، مسند احمد ٦/٩٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ لڑکا مرد اور عورت کے پانی ہی سے پیدا ہوتا ہے، جس کا پانی غالب ہوجاتا ہے لڑکا اسی کے مشابہ ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 196
عورت کے لئے احتلام کے حکم کا بیان
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ حق بات (بیان کرنے) سے نہیں شرماتا ہے (اسی لیے میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں) ، عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر غسل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، جب منی دیکھ لے ، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا (یہ سن کر) ہنس پڑیں، اور کہنے لگیں : کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر لڑکا کس چیز کی وجہ سے اس کے مشابہ (ہم شکل) ہوتا ہے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٠ (١٣٠) ، الغسل ٢٢ (٢٨٢) ، الأنبیاء ١ (٣٣٢٨) ، الأدب ٦٧ (٦٠٩١) ، وباب ٧٩ (٦١٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١٣) ، سنن الترمذی/الطھارة ٩٠ (١٢٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٠٧ (٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٤) ، موطا امام مالک/فیہ ٢١ (٨٤) ، مسند احمد ٦/ ٢٩٢، ٣٠٢، ٣٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 197
عورت کے لئے احتلام کے حکم کا بیان
خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس عورت کے متعلق پوچھا جسے خواب میں احتلام ہوجائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب وہ منی دیکھے تو غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٧ (٦٠٢) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٢٧) ، مسند احمد ٦/٤٠٩، سنن الدارمی/الطھارة ٧٦/٧٨٩ (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی عطاء خراسانی “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 198
اگر کسی کو احتلام تو ہو لیکن (جسم یا کپڑے پر) تری نہ دیکھے؟
ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانی پانی سے ہے ١ ؎ یعنی خواب میں منی خارج ہونے پر ہی غسل واجب ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٠ (٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٩) ، مسند احمد ٥/ ٤١٦، ٤٢١، سنن الدارمی/الطہارة ٧٤ (٧٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلے پانی سے مراد ماء مطہر ہے اور دوسرے پانی سے مراد منی ہے، یہ حدیث عرفاً حصر کا فائدہ دے رہی ہے یعنی مجرد دخول سے جب تک کہ انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا، لیکن یہ حدیث ابی بن کعب کے قول كان الماء من الماء في أوّل الإسلام ثم ترک بعده وأمر بالغسل إذا مس الختان بالختان سے منسوخ ہے، یا یہ حکم جماع سے متعلق نہیں صرف احتلام سے متعلق ہے جیسا کہ مؤلف نے ترجمہ الباب میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 199
مرد اور عورت کی منی سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مرد کی منی گاڑھی اور سفید ہوتی ہے، اور عورت کی منی پتلی زرد ہوتی ہے، تو دونوں میں جس کی منی سبقت کر جائے ١ ؎ بچہ اسی کی ہم شکل ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ١٩٥، (تحفة الأشراف : ١١٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی منی رحم میں پہلے پہنچ جائے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ سَبَقَ، غَلَبَ کے معنی میں ہے یعنی جس کی منی غالب آجائے اور مقدار میں طاقتور ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 200
حیض کے بعد غسل کرنا
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو قریش کے قبیلہ بنو اسد کی خاتون ہیں کہتی ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز ترک کر دو ، اور جب ختم ہوجائے تو خون دھو لو پھر (غسل کر کے) نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٠٨ (٢٨٠، ٢٨١) و ١١٠ (٢٨٦) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١١٥ (٦٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩) ، مسند احمد ٦/٤٢٠، ٤٦٣، وأعادہ المؤلف بأرقام : ٢١٢، ٣٥٠، ٣٥٨، ٣٦٢، ٣٥٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 201
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو ، اور جب بند ہوجائے تو غسل کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٦ (٦٢٦) مطولاً ، ٢٨ (٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٠٣، ٢٠٤، ٣٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 202
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حیض نہیں ہے، بلکہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے، لہٰذا غسل کر کے نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٦ (٣٢٧) ، صحیح مسلم/فیہ ١٤ (٣٣٤) ، سنن ابی داود/الطھارة ١١٠ (٢٨٥) ، ١١١ (٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/١١٦ (٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١٦، ١٧٩٢٢) ، مسند احمد ٦/٨٣، ١٤١، ١٨٧، سنن الدارمی/الطھارة ٨٠ (٧٩٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٠٤، ٢٠٥، ٢١١، ٣٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 203
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف کی بیوی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا - بنت جحش جو ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں - کو استحاضہ کا خون آیا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ حیض نہیں ہے بلکہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے، تو جب حیض بند ہوجائے تو غسل کرو، اور نماز پڑھو، اور جب وہ آجائے تو اس کی وجہ سے نماز ترک کر دو ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتیں ١ ؎ اور نماز پڑھتی تھیں، اور کبھی کبھی اپنی بہن زینب رضی اللہ عنہا کے کمرے میں ایک ٹب میں غسل کرتیں، اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتیں، یہاں تک کہ خون کی سرخی پانی کے اوپر آجاتی، پھر وہ نکلتیں، اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتیں، اور یہ (خون) انہیں نماز سے نہیں روکتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، ولکن لا یوجد عند مسلم قولہ : وتخرج فتصلی ۔۔۔ “ (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہر نماز کے لیے ان کا یہ غسل ازراہ احتیاط تھا، نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا، اور جو یہ آیا ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اس کا حکم دیا تھا تو اسے استحباب پر محمول کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح م دون قوله وتخرج فتصلي ... صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 204
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سالی ام حبیبہ کو، جو عبدالرحمٰن بن عوف کے عقد میں تھیں، سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، اس سلسلے میں انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حیض کا خون نہیں ہے، بلکہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے، لہٰذا تم غسل کر کے نماز پڑھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٣، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 205
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے (اس حالت میں کیا کروں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، تم غسل کر کے نماز پڑھ لیا کرو، چناچہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٤) ، سنن ابی داود/الطھارة ١١١ (٢٩٠) ، سنن الترمذی/فیہ ٩٦ (١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 206
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے (استحاضہ کے) خون کے متعلق پوچھا ؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان کا ٹب خون سے بھرا دیکھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تمہارے حیض کا خون جتنے دن تمہیں (پہلے صوم صلاۃ سے) روکے رکھتا تھا، اسی قدر رکی رہو، پھر غسل کرو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٤) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٠٨ (٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٧٠) ، مسند احمد ٦/٢٢٢، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠١) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٣ برقم : ٣٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 207
حیض کے بعد غسل کرنا
امام نسائی کہتے ہیں : ہم سے قتیبہ نے دوسری مرتبہ بیان کیا، اور (اس بار) انہوں نے جعفر کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 207
حیض کے بعد غسل کرنا
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کو کثرت سے خون آتا تھا، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے فتوی پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ مہینہ کے ان دنوں اور راتوں کو شمار کرلے جس میں اس بیماری سے جو اسے لاحق ہوئی ہے پہلے حیض آیا کرتا تھا، پھر ہر مہینہ اسی کے برابر نماز چھوڑ دے، اور جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کرے، پھر لنگوٹ باندھے، پھر نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٠٨ (٢٧٤، ٢٧٥، ٢٧٦، ٢٧٧، ٢٧٨) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١١٥ (٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٨) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٩ (١٠٥) ، مسند احمد ٦/٢٩٣، ٣٢٠، ٣٢٢، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٧) ، ویاتي عند المؤلف في الحیض ٣ برقم : ٣٥٤، ٣٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 208
لفظ اقرآء کی شرعی تعریف و حکم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو جو عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے عقد میں تھیں استحاضہ ہوگیا (جس سے) وہ پاک ہی نہیں رہ پاتی تھیں، تو رسول اللہ ﷺ سے ان کا معاملہ ذکر کیا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حیض کا خون نہیں ہے، بلکہ وہ رحم میں (شیطان کی طرف سے) ایک ایڑ ہے ١ ؎ تو وہ اپنے حیض کی مقدار کو جس میں اسے حیض آتا تھا یاد رکھے، پھر اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر اس کے بعد جو دیکھے تو ہر نماز کے وقت غسل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٤) ، مسند احمد ٦/ ١٢٨، مسند احمد ٦/ ١٢٩، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٤ رقم : ٣٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ رحم میں پیر سے مارتا ہے، تو کوئی رگ پھٹ جاتی ہے جس سے خون نکلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 209
لفظ اقرآء کی شرعی تعریف و حکم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آتا رہا، تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حیض کا خون نہیں ہے، یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے ، چناچہ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے حیض کے (دنوں کے) برابر نماز ترک کردیں، پھر غسل کریں، اور نماز پڑھیں، تو وہ ہر نماز کے وقت غسل کرتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر الأرقام : ٢٠٣، ٢٠٧، (تحفة الأشراف : ١٧٩٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 210
لفظ اقرآء کی شرعی تعریف و حکم
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ ایک رگ (کا خون) ہے، تو دیکھتی رہو جب حیض (کا دن) آجائے تو نماز چھوڑ دو ، پھر جب تمہارے حیض (کے دن) گزر جائیں، اور تم پاک ہوجاؤ، تو پھر دونوں حیض کے درمیان نماز پڑھو ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں : یہ حدیث ہشام بن عروہ نے عروہ سے روایت کی ہے ٢ ؎ انہوں نے اس چیز کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر منذر نے کیا ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠١، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس حیض کے ختم ہونے سے لے کر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھو، اور جب دوسرا حیض آجائے تو چھوڑ دو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قروء سے مراد حیض ہے۔ ٢ ؎: مصنف نے اس جملہ کو اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے کہ قرآن مجید میں قرء سے مراد حیض ہے، محققین علماء کی رائے ہے کہ یہ لفظ اضداد میں سے ہے، حیض اور طہر دونوں کے لیے بولا جاتا ہے، خطابی کہتے ہیں کہ قرء دراصل اس وقت کو کہتے ہیں جس میں حیض یا طہر لوٹتا ہے، اسی وجہ سے حیض اور طہر دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ٣ ؎: یعنی ہشام نے عروہ کے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سماع کا ذکر نہیں کیا ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حدیث میں انقطاع ہے کیونکہ ہشام نے بیان کیا ہے کہ ان کے والد عروہ نے فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کے واقعہ کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے، ان کی روایت سند اور متن دونوں اعتبار سے منذر بن مغیرہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، لیکن بقول امام ابن القیم : عروہ نے فاطمہ سے سنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 211
لفظ اقرآء کی شرعی تعریف و حکم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے، تو میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، یہ تو رگ (کا خون) ہے حیض کا خون نہیں، تو جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو ، اور جب بند ہوجائے تو اپنے (جسم اور کپڑے سے) خون دھو لو، اور (غسل کر کے) نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٨) ، الحیض ٨ (٣٠٦) ، ١٩ (٣٢٠) ، ٢٤ (٣٢٥) ، صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فیہ ٩٣ (١٢٥) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١١٥ (٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٧٠، ١٧١٩٦، ١٧٢٥٩) ، موطا امام مالک/فیہ ٢٩ (١٠٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 212
مستحاضہ کے غسل کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک مستحاضہ عورت سے کہا گیا کہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے جو رکتا نہیں، چناچہ اسے حکم دیا گیا کہ وہ ظہر دیر سے پڑھے اور عصر جلدی پڑھ لے، اور دونوں نمازوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب دیر سے پڑھے اور عشاء جلدی پڑھے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١١٢ (٢٩٤) ، مسند احمد ٦/١٧٢، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٥) ، ویاتي عند المؤلف برقم : ٣٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 213
نفاس کے بعد غسل کرنے سے متعلق
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والی حدیث میں روایت ہے کہ جس وقت انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آیا ١ ؎، تو رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) سے فرمایا کہ اسے حکم دو کہ وہ غسل کرلے، اور احرام باندھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٦ (١٢١٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٢ (٢٩١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٠) ، سنن الدارمی/المناسک ١١/١٨٤٦، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٩٢، ٢٧٦٢، ٢٧٦٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو بچہ جننے کے بعد عورت کو آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 214
استخاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق سے متعلق
فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں استحاضہ آتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : جب حیض کا خون ہو تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ وہ سیاہ خون ہوتا ہے، پہچان لیا جاتا ہے، اور جب دوسرا ہو تو وضو کرلو، کیونکہ وہ ایک رگ (کا خون) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١١٠ (٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٢٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢١٧، ٣٦٢ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 215
استخاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ آتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے اور پہچان لیا جاتا ہے، تو جب یہ خون ہو تو نماز سے رک جاؤ، اور جب دوسرا ہو تو وضو کر کے نماز پڑھو ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو کئی راویوں نے روایت کیا ہے، لیکن جو چیز ابن ابوعدی نے ذکر کی ہے اس کو کسی نے ذکر نہیں کیا، واللہ تعالیٰ اعلم، (یعنی دم الحیض دم أسود کا ذکر کسی اور نے اس سند سے نہیں کیا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٢٦) ، وأعادہ برقم : ٣٦٣ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 216
استخاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آیا، تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز چھوڑ دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، حیض نہیں ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو ، اور جب ختم ہوجائے تو خون کا دھبہ دھو لو، اور وضو کرلو، کیونکہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے حیض کا خون نہیں ہے ، آپ ﷺ سے پوچھا گیا : غسل ؟ (یعنی کیا غسل نہ کرے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں کسی کو شک نہیں ہے (یعنی حیض سے پاک ہونے کے بعد تو غسل کرنا ضروری ہے ہی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٥ (٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٨) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٦٤ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الأسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 217
استخاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، حیض کا خون نہیں ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو ، پھر جب اس کے بقدر ایام گزر جائیں تو خون دھو لو، اور (غسل کر کے) نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٨ (٣٠٦) ، سنن ابی داود/فیہ ١٠٩ (٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٤٩) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٩ (١٠٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٤ (٨٠١) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 218
استخاضہ اور حیض کے خون کے درمیان فرق سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بنت ابوحبیش (فاطمہ بنت ابوحبیش) رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز چھوڑ دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٩٥٦) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 219
جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں گھس کر غسل کرنے کی ممانعت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی ہونے کی حالت میں غسل نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ٢٩ (٢٨٣) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٠٩ (٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٣٢، ٣٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 220
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کے بعد غسل کرنا ممنوع ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر یہ کہ اسی سے غسل بھی کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٣٣٩٢) ، مسند احمد ٢/٣٩٤، ٤٦٤ ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٩٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ٹھہرا ہوا پانی اگر تھوڑا ہے تو پیشاب کرنے سے نجس (ناپاک) ہوجائے گا، اور اگر زیادہ ہے تو نجس (ناپاک) تو نہیں ہوگا لیکن پانی خراب ہوجائے گا، اور اس کے پینے سے لوگوں کو نقصان پہنچے گا، اس لیے اگر پانی تھوڑا ہو تو نہی تحریمی ہے اور زیادہ ہو تو تنزیہی۔ یعنی تھوڑے پانی میں پیشاب کے ممانعت کا مطلب اس فعل کا حرام ہونا ہے، اور زیادہ پانی ہو تو اس ممانعت کا مطلب نزاہیت و صفائی و ستھرائی مطلوب ہے، حرمت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 221
رات کے شروع حصہ میں غسل کرنا
غضیف بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ رات کے کس حصہ میں غسل کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : کبھی آپ ﷺ نے رات کے ابتدائی حصہ میں غسل کیا، اور کبھی آخری حصہ میں کیا، میں نے کہا : شکر ہے اس اللہ تعالیٰ کا جس نے معاملہ میں وسعت اور گنجائش رکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٩٠ (٢٢٦) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٧٩ (١٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٩) ، مسند احمد ٦/١٣٨، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 222
رات کے ابتدائی یا آخری حصہ میں غسل کیا جا سکتا ہے؟
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ رات کے ابتدائی حصہ میں غسل کرتے تھے یا آخری حصہ میں ؟ تو انہوں نے کہا : دونوں وقتوں میں کرتے تھے، کبھی رات کے شروع میں غسل کرتے اور کبھی رات کے آخر میں، میں نے کہا : شکر ہے اس اللہ رب العزت کا جس نے اس معاملے میں گنجائش رکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 223
غسل کے وقت پردہ یا آڑ کرنے سے متعلق
ابو سمح (ایاد) (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، تو جب آپ غسل کا ارادہ کرتے تو فرماتے : میری طرف اپنی گدی کرلو تو میں اپنی گدی آپ ﷺ کی طرف کر کے آپ کو آڑ کرلیتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٣٧ (٣٧٦) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٦) ، ١١٣ (٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 224
غسل کے وقت پردہ یا آڑ کرنے سے متعلق
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم ﷺ کے پاس گئیں، تو آپ ﷺ انہیں غسل کرتے ہوئے ملے، فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو ایک کپڑے سے آڑ کیے ہوئے تھیں، (ام ہانی کہتی ہیں) میں نے سلام کیا ١ ؎، تو آپ ﷺ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا : ام ہانی ہوں، تو جب آپ غسل سے فارغ ہوئے، تو کھڑے ہوئے اور ایک ہی کپڑے میں جسے آپ لپیٹے ہوئے تھے آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢١ (٢٨٠) ، الصلاة ٤ (٣٥٧) مطولاً ، الجزیة ٩ (٣١٧١) مطولاً ، المغازي ٥٠ (٤٢٩٢) ، الأدب ٩٤ (٦١٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ١٦ (٣٣٦) ، المسافرین ١٣ (٣٣٦) ، سنن الترمذی/السیر ٢٦ (١٥٧٩) ، الاستئذان ٣٤ (٢٧٣٤) مختصرًا، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥٩ (٤٦٥) مختصرًا، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠١ (١٢٩٠) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٨ (٢٧) ، مسند احمد ٦/٣٤١، ٣٤٢، ٣٤٣، ٤٢٣، ٤٢٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے جو غسل کر رہا ہو اسے سلام کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 225
پانی کی کس قدر مقدار سے غسل کیا جا سکتا ہے؟
موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ مجاہد کے پاس ایک برتن لایا گیا، میں نے اس میں آٹھ رطل پانی کی سمائی کا اندازہ کیا، تو مجاہد نے کہا : مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسی قدر پانی سے غسل فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨١) ، مسند احمد ٦/٥١ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 226
پانی کی کس قدر مقدار سے غسل کیا جا سکتا ہے؟
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور ان کے رضائی بھائی بھی آئے، تو انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ کے غسل کے متعلق پوچھا ؟ ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے ایک برتن منگایا جس میں ایک صاع کے بقدر پانی تھا، پھر ایک پردہ ڈال کر غسل کیا، اور اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٣ (٢٥١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٢) ، مسند احمد ٦/٧١، ٧٢، ١٤٣، ١٤٤، ١٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 227
پانی کی کس قدر مقدار سے غسل کیا جا سکتا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قدح (ٹب) سے غسل کرتے تھے، اور اس کا ١ ؎ نام فرق ہے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٢، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک پیمانہ ہے جس میں سولہ رطل پانی آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 228
پانی کی کس قدر مقدار سے غسل کیا جا سکتا ہے؟
عبداللہ بن جبر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ ایک مکوک سے وضو کرتے اور پانچ مکاکی سے غسل کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٣، ویأتی برقم : ٣٤٦، (تحفة الأشراف : ٩٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکاکی، مکوک کی جمع ہے جو اصل میں مکاکک ہے، اس کا کاف یا سے بدل دیا گیا ہے، یہ ایک پیمانہ کا نام ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے معنی مد کے ہیں، اور کچھ لوگوں کے نزدیک اس سے مراد صاع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 229
پانی کی کس قدر مقدار سے غسل کیا جا سکتا ہے؟
ابو جعفر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے پاس غسل کے سلسلہ میں جھگڑ پڑے، جابر (رض) نے کہا : غسل جنابت میں ایک صاع پانی کافی ہے، اس پر ہم نے کہا : ایک صاع اور دو صاع کافی نہیں ہوگا، تو جابر (رض) نے کہا : اس ذات گرامی کو کافی ہوتا تھا ١ ؎ جو تم سے زیادہ اچھے، اور زیادہ بالوں والے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٣ (٢٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد نبی اکرم ﷺ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 230
غسل کے واسطے پانی کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور وہ فرق کے بقدر ہوتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٥٣٣، ١٦٦٦٦) ، من طریق معمر وحدہ، مسند احمد ٦/١٢٧، ١٧٣، ومن طریق معمر وابن جریج مقرونین، مسند احمد ٦/١٩٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فرق ایک پیمانہ ہے جس میں سولہ رطل کی سمائی ہوتی ہے جو اہل حجاز کے نزدیک ١٢ مد یا تین صاع کے برابر ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 231
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرسکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور میں (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم دونوں اس سے لپ سے ایک ساتھ پانی لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٩٧٦، ١٧١٧٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٧ (٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح خ م دون الاغتراف واللفظ لقتيبة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 232
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرسکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٩ (٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٧١٤٩٣) ، مسند احمد ٦/١٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 233
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرسکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے (پانی کے) برتن کے سلسلہ میں جھگڑ رہی ہوں (میں اپنی طرف برتن کھینچ رہی ہوں اور آپ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں) میں اور آپ (ہم دونوں) اسی سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٢٩٩) مطولاً ، سنن ابی داود/الطہارة ٣٩ (٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٣) ، مسند احمد ٦/١٨٩، ١٩١، ١٩٢، ٢١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 234
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرسکتا ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 235
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرسکتا ہے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ٤٦ (٦٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٥ (٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٧) ، مسند احمد ٦/٣٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 236
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرسکتا ہے
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ ناعم نے بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ کیا بیوی شوہر کے ساتھ غسل کرسکتی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، جب سلیقہ مند ہو، میں نے اپنے آپ کو اور رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ہم ایک لگن سے غسل کرتے تھے، ہم اپنے ہاتھوں پر پانی بہاتے یہاں تک کہ انہیں صاف کرلیتے، پھر اپنے بدن پر پانی بہاتے۔ اعرج (كيّسة کی تفسیر کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ سلیقہ مند وہ ہے جو نہ تو شوہر کے ساتھ غسل کرتے وقت شرمگاہ کا خیال ذہن میں لائے، اور نہ بیوقوفی (پھوہڑپن) کا مظاہرہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف ١٨٢١٥) ، مسند احمد ٦/٣٢٣ (صحیح الاسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 237
جنبی شخص کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کی ممانعت
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں ایک ایسے آدمی سے ملا جو ابوہریرہ (رض) کی طرح چار سال رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا تھا، اس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ ہم میں سے کوئی ہر روز کنگھی کرے، یا اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ١ ؎، یا شوہر بیوی کے بچے ہوئے پانی سے یا بیوی شوہر کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے ٢ ؎، دونوں کو چاہیئے کہ ایک ساتھ لپ سے پانی لیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٥ (٢٨) ، ٤٠ (٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٥٤، ١٥٥٥٥) ، مسند احمد ٤/١١٠، ١١١، ٥/٣٦٩ و یأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں ترفّہ اور تنعم کے قبیل کی ہیں، اس لیے ان سے بچنا چاہیئے اور اگر ضرورت اس کی متقاضی ہو تو یہ جائز ہے جیسا کہ ابوقتادہ کی روایت ہے کہ ان کے بال بہت گھنے تھے، تو نبی اکرم ﷺ سے انہوں نے پوچھا، تو انہیں روزانہ اپنے بالوں کو سنوارنے اور کنگھی کرنے کا حکم دیا۔ ٢ ؎: یہ نہی تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے کیونکہ خود نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، نیز دیکھیں حدیث ما بعد۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 238
ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کی اجازت
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، (کبھی) آپ مجھ سے سبقت کر جاتے، اور کبھی میں آپ سے سبقت کر جاتی، یہاں تک کہ آپ ﷺ فرماتے : میرے لیے چھوڑ دو ، اور میں کہتی : میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٩) ، مسند احمد ٦/٩١، ١٠٣، ١١٨، ١٢٣، ١٦١، ١٧١، ١٧٢، ١٩٣، ٢٣٥، ٢٦٥، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 239
ایک پیالہ سے غسل کرے کا بیان
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دونوں نے ایک ہی برتن سے غسل کیا، ایک ٹب سے جس میں گندھے ہوئے آٹے کا اثر تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٣٥ (٣٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٢) ، مسند احمد ٦/٣٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 240
جس وقت کوئی خاتون غسل جنابت کرے تو اس کو اپنے سر کی چوٹی کھولنا لازم نہیں
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ اپنے سر کی چوٹی مضبوط باندھتی ہوں، تو کیا اسے غسل جنابت کے وقت کھولوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین لپ پانی ڈال لو، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٢ (٣٣٠) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٠٠ (٢٥١) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٧ (١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٠٨ (٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٧٢) ، مسند احمد ٦/٢٨٩، ٣١٥، سنن الدارمی/الطھارة ١١٥ (١١٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 241
اگر حائضہ عورت احرام باندھنے کا ارادہ کرے اور اس کے لئے وہ غسل کرے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے تو میں نے عمرہ کا احرام باندھا، پھر میں مکہ پہنچی تو حائضہ ہوگئی، تو میں نہ خانہ کعبہ کا طواف کرسکی، نہ صفا ومروہ کے بیچ سعی، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا سر کھول لو، کنگھی کرلو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرہ چھوڑ دو ، چناچہ میں نے (ایسا ہی) کیا، تو جب ہم نے حج پورا کرلیا، تو آپ ﷺ نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابوبکر (رض) کے ساتھ تنعیم بھیجا (وہاں سے میں عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ آئی اور) میں نے عمرہ کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تیرے اس عمرہ کی جگہ ہے (جو حیض کی وجہ سے تجھ سے چھوٹ گیا تھا) ۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی (رح)) کہتے ہیں : ہشام بن عروہ کے واسطے سے مالک کی یہ حدیث غریب ہے، مالک سے یہ حدیث صرف اشہب نے ہی روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث مالک عن بن شہاب أخرجہ، صحیح البخاری/١٨ (٣١٩) ، الحج ٣١ (١٥٥٦) ، ٧٧ (١٦٣٨) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/فیہ ٢٣ (١٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٨ (٣٠٠٠) ، موطا امام مالک/ الحج ٧٤ (٢٢٣) ، مسند احمد ٦/ ٨٦، ١٦٤، ١٦٨، ١٦٩، ٧٧ ا، ١٩١، ٢٤٦، وحدیث مالک عن ہشام بن عروة، تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧١٧٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٧٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 242
جنبی شخص برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ کو پاک کرے
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو آپ کے لیے پانی کا برتن رکھا جاتا، آپ برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالتے، یہاں تک کہ جب اپنے ہاتھ دھو لیتے تو اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کرتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے پانی ڈالتے اور بائیں سے اپنی شرمگاہ دھوتے، یہاں تک کہ جب فارغ ہوجاتے تو داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور دونوں ہاتھ دھوتے، پھر تین بار کلی کرتے، اور ناک میں پانی ڈالتے، پھر اپنے لپ بھربھر کر تین بار اپنے سر پر پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر (پانی) بہاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٨) ، ١٥ (٢٧٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٦) ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٨ (٢٤٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ٧٦ (١٠٣) ، مسند احمد ٦/ ٩٦، ١١٥، ١٤٣، ١٦١، ١٧٣، موطا امام مالک/الطھارة ١٧ (٦٧) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٤٥، ٢٤٦، ٢٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 243
برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ کو کتنی بار دھونا چاہیے؟
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری مدنی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے متعلق پوچھا ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں پر تین دفعہ پانی ڈالتے، پھر اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 244
دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد جسم کی ناپاکی کو زائل کرنے کا بیان
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے متعلق ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (پانی کا) برتن لایا جاتا تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالتے، اور انہیں دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی دونوں رانوں کی نجاست دھوتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، کلی کرتے، پھر ناک میں پانی ڈالتے، اور اپنے سر پر تین بار پانی ڈالتے، پھر اپنے باقی جسم پر پانی بہاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 245
دونوں ہاتھوں کو دھونے کے بعد جسم کی ناپاکی کو زائل کرنے کا بیان
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے غسل جنابت کا طریقہ بیان کیا، کہتی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی نجاست دھوتے، عمر بن عبید کہتے ہیں : میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے (عطا بن سائب) کہا : آپ اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر تین بار پانی ڈالتے، پھر تین بار کلی کرتے، تین بار ناک میں پانی ڈالتے، اور تین بار اپنا چہرہ دھوتے، پھر تین بار اپنے سر پر پانی بہاتے، پھر اپنے اوپر پانی ڈالتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٧) (صحیح الاسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اور اوپر کی حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ہاتھ دو بار دھوئے، ایک تو شروع میں دوسرے نجاست صاف کرنے کے بعد۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 246
غسل کرنے سے قبل وضو کرنے کے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ جب غسل جنابت کرتے، تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر وضو کرتے، جیسے آپ نماز کے لیے وضو کرتے تھے، پھر اپنی انگلیاں پانی میں ڈال کر ان سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٦٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٧ (٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 247
جنبی شخص کے سر کے بالوں میں خلال کرنے سے متعلق
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے غسل جنابت کے متعلق مجھ سے بیان کیا کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، وضو کرتے اور اپنے سر کا خلال کرتے یہاں تک کہ (پانی) آپ کے بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتا، پھر اپنے پورے جسم پر پانی ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧٣٣١) ، مسند احمد ٦/٥٢، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 248
جنبی شخص کے سر کے بالوں میں خلال کرنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کو پانی پلاتے تھے یعنی سر کا خلال کرتے تھے، پھر اس پر تین لپ پانی ڈالتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٩٣٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطہارة ٧٦ (١٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 249
جنبی کے واسطے کس قدر پانی غسل کے لئے بہانا کافی ہے؟
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس غسل کے سلسلے میں جھگڑ پڑے، قوم کا ایک شخص کہنے لگا : میں اس اس طرح غسل کرتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہا میں تو میں اپنے سر پر تین لپ پانی بہاتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٤ (٢٥٤) مختصرًا، صحیح مسلم/الحیض ١١ (٣٢٧) ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٨ (٢٣٩) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩٥ (٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٦) ، صحیح مسلم/٨١، ٨٤، ٨٥، ویأتي عندالمؤلف برقم : ٤٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 250
(عورت) حیض سے فراغت کے بعد کس طریقہ سے غسل کرے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے حیض کے غسل کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے اسے بتایا کہ وہ کیسے غسل کرے، پھر فرمایا : (غسل کے بعد) مشک لگا ہوا (روئی کا) ایک پھاہا لے کر اس سے طہارت حاصل کرو ، (عورت بولی) اس سے کیسے طہارت حاصل کروں ؟ آپ ﷺ نے اس طرح پردہ کرلیا (یعنی شرم سے اپنے منہ پر ہاتھ کی آڑ کرلی) پھر فرمایا : سبحان اللہ ! اس سے پاکی حاصل کرو ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو میں نے عورت کو پکڑ کر کھینچ لیا، اور (چپکے سے اس کے کان میں) کہا : اسے خون کے نشان پر پھیرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١٣ (٣١٤) ، ١٤ (٣١٥) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٧) ، صحیح مسلم/الحیض ١٣ (٣٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٢٢ (٣١٤) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٢٤ (٦٣٢) ، مسند احمد ٦/١٢٢، سنن الدارمی/الطھارة ٨٤، ٨٠٠، ویاتٔي عند المؤلف برقم : ٤٢٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ بدبو چلی جائے، یہ حکم استحبابی ہے اگر مشک نہ ملے تو اور خوشبو استعمال کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 251
غسل سے فراغت کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث الحسن بن صالح عن أبی إسحاق تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٠١٩) ، مسند احمد ٦/٢٣٥، حدیث شریک بن عبداللہ، عن أبی إسحاق قد أخرجہ : سنن الترمذی/فیہ ٧٩ (١٠٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩٦ (٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطھارة ٩٩ (٢٥٠) ، مسند احمد ٦/٦٨، ١١٩، ١٥٤، ١٩٢، ٢٥٣، ٢٥٨، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٣٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غسل سے غسل جنابت مراد ہے کیونکہ ابن ماجہ کی روایت لا يتوضأ بعد الغسل من الجنابة میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 252
جس جگہ غسل جنابت کرے تو پاؤں جگہ بدل کر دوسری جگہ دھوئے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ ﷺ نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٩) ، ٥ (٢٥٧) ، ٧ (٢٥٩) ، ٨ (٢٦٠) ، ١٠ (٢٦٥) ، ١١ (٢٦٦) ، ١٦ (٢٧٤) ، ١٨ (٢٧٦) ، ٢١ (٢٨١) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٧) ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٨ (٢٤٥) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٦ (١٠٣) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩٤ (٥٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٤) ، مسند احمد (٦/٣٢٩، ٣٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٠ (٧٣٨) ، ٦٧ (٧٧٤) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٠٨، ٤١٨، ٤١٩، ٤٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 253
غسل سے فارغ ہونے کے بعد اعضاء کو کپڑے سے نہ خشک کرنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غسل کیا، تو آپ کے لیے تولیہ لایا گیا تو آپ نے اسے نہیں چھوا ١ ؎ اور پانی کو ہاتھ سے پونچھ کر اس طرح جھاڑنے لگے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ٦٣٥١) (صحیح): یقول المزی : المحفوظ حدیث ابن عباس، عن میمونة (وحدیث میمونة قد تقدم برقم : ٢٤٥ ) وضاحت : ١ ؎: ممکن ہے آپ کو اس کی ضرورت نہ رہی ہو، یا تولیہ صاف نہ رہا ہو جس سے آپ نے بدن پوچھنے کو ناپسند کیا ہو، لہٰذا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں ہے : كان للنبي رسول الله صلى الله عليه وسلم خرقة ينشف بها بعد الوضوئ اور معاذ (رض) کی روایت کے بھی منافی نہیں جس میں ہے : رأيت رسول الله رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا توضأ مسح وجهه بطرف ثوبه اگرچہ ان دونوں حدیثوں میں کلام ہے لیکن ایک دوسرے سے تقویت پا رہی ہیں۔ ٢ ؎: اس سے ہاتھ سے پانی پونچھ کر جھاڑنے کا جواز ثابت ہوا، اور جس روایت میں ہاتھ سے پانی جھاڑنے کی ممانعت آئی ہے وہ ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 254
جنبی شخص کھانا کھانے کا ارادہ کرے اور غسل نہ کرسکے تو وضو کرلینا چاہئے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (اور عمرو کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جب کھانے یا سونے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے تو وضو کرتے، اور عمرو نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٥) ، سنن ابی داود/الطھارة ٨٩ (٢٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٣ (٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٦) ، مسند احمد ٦/١٢٦، ١٤٣، ١٩١، ١٩٢، ٢٣٥، ٢٦٠، ٢٧٣، سنن الدارمی/الطہارة ٧٣ (٧٨٤) ، الأطمة ٣٦ (٢١٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 255
اگر جنبی شخص کھانا کھانا چاہے اور صرف اس وقت ہاتھ ہی دھو لے تو کافی ہے اس کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو وضو کرتے، اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھو لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٥) ، سنن ابی داود/الطھارة ٨٨ (٢٢٣) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩٩ (٥٨٤) ، ١٠٤ (٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٥ (٢٨٦) ، ٢٧ (٢٨٨) ، مسند احمد ٦/٣٦، ١٠٢، ٢٠٠، ٢٧٩، سنن الدارمی/الطہارة ٧٣ (٧٨٤) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٥٨، ٢٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کبھی تو بیان جواز کے لیے دونوں ہاتھ دھونے پر اکتفا کرتے اور کبھی مکمل وضو کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 256
جنبی شخص جس وقت کھانے پینے کا ارادہ کرے تو ہاتھ دھونا کافی ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ کرتے اور آپ جنبی ہوتے تو وضو کرتے، اور جب کھانے یا پینے کا ارادہ کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر کھاتے یا پیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٧٧٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 257
جنبی اگر سونے لگے تو وضو کرے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے تو اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 258
جنبی اگر سونے لگے تو وضو کرے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے کوئی بحالت جنابت سو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب وہ وضو کرلے (تو سو سکتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٦) ، سنن الترمذی/الطھارة ٨٨ (١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٨١٧٨، ١٠٥٥٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٧ (٢٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٩٩ (٥٨٥) ، مسند احمد ٢/ ١٧، ٣٥، ٣٦، ٤٤، ١٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 259
جس وقت جنبی شخص سونے کا قصد کرے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرے اور عضو مخصوص دھولے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ وہ رات میں جنبی ہوجاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو کرلو اور اپنا عضو مخصوص دھو لو، پھر سو جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٧ (٢٩٠) ، صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٦) ، سنن ابی داود/الطھارة ٨٧ (٢٢١) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٩ (٧٦) ، مسند احمد ١/٥٠، ٤٦، ٥٦، ٦٤، ٧٥، ١١٦، ٢/٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 260
جس وقت جنبی شخص وضو نہ کرے تو کیا حکم ہے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر، کتا یا جنبی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٩٠ (٢٢٧) ، اللباس ٤٨ (٤١٥٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٤ (٣٦٥٠) ، (بدون قولہ ” ولاجنب “ )، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩١) ، مسند احمد ١/٨٣، ١٠٤، ١٣٩، سنن الدارمی/الاستئندان ٣٤، ٢٧٠٥، وأعادہ المؤلف برقم : ٤٢٨٦ (ضعیف) (اس کے راوی ” نجی “ اور ان کا اضافہ ” ولاجنب “ ہی ضعیف ہے، ورنہ اس کے سوا باقی ٹکڑے صحیحین میں دیگر صحابہ سے مروی ہیں ) وضاحت : اس سے مراد رحمت اور برکت کے فرشتے ہیں، نہ کہ وہ فرشتے جو جنبی اور غیر جنبی کسی سے جدا نہیں ہوتے۔ تصویر سے مراد جاندار کی تصویر ہے۔ کتا سے مراد وہ کتا ہے جو شکار یا گھر اور کھیت وغیرہ کی رکھوالی کے لیے نہ ہو۔ جنبی سے مراد وہ جنبی ہے جو غسل میں سستی کرتا ہو، اور دیر سے غسل کرنا اس کی عادت ہوگئی ہو، یا وہ جنبی ہے جس نے وضو نہ کیا ہو جیسا کہ مصنف نے باب کے ذریعہ اشارہ کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 261
اگر جنبی شخص دوبارہ ہمبستری کا ارادہ کرے تو کیا حکم ہے؟
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٨) مطولاً ، سنن ابی داود/الطھارة ٨٦ (٢٢٠) مطولاً ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠٧ (١٤١) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٠٠ (٥٨٧) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٠) ، مسند احمد ٣/ ٧، ٢١، ٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 262
ایک سے زیادہ عورتوں سے جماع کر کے ایک ہی غسل کرنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات ایک ہی غسل سے اپنی بیویوں کے پاس گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٨٥ (٢١٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎:(یعنی ان سب سے صحبت کی اور اخیر میں غسل کیا) ممکن ہے ایسا آپ نے سفر سے آنے پر یا ایک باری پوری ہوجانے، اور دوسری باری کے شروع کرنے سے پہلے کیا ہو، یا تمام بیویوں کی رضا مندی سے کیا ہو، یا یہ کہ آپ کے لیے یہ خاص ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 263
ایک سے زیادہ عورتوں سے جماع کر کے ایک ہی غسل کرنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی (سبھی) بیویوں کے پاس ایک ہی غسل میں جاتے (جماع کرتے) تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٦ (١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٠١ (٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٩) ، مسند احمد ٣/١٦١، ١٨٥ (صحیح) ولفظ البخاري من ھذا الطریق : کان یطوف علی نسائہ في الساعة الواحدة وفي روایة : في اللیلة الواحدة “ (وبدون ذکر الغسل) (الغسل ١٢ (٢٦٨) ، ٢٤ (٢٨٤) ، وانکاح ٤ (٥٠٦٨) ، ١٠٢ (٥٢١٥ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 264
جنبی شخص کے واسطے تلاوت قرآن جائز نہیں ہے
عبداللہ بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور دو آدمی علی (رض) کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ﷺ بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو قرآن مجید پڑھتے۔ آپ ﷺ ہمارے ساتھ گوشت کھاتے اور آپ کو قرآن مجید پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٩١ (٢٢٩) مطولاً ، سنن الترمذی/الطھارة ١١١ (١٤٦) ، بلفظ ــ” یقرء نا القرآن “ مختصرًا، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٠٥ (٥٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٦) ، مسند احمد ١/٨٣، ٨٤، ١٠٧، ١٢٤، ١٣٤ (ضعیف) (اس کے راوی ” عبد اللہ بن سلمہ “ مختلط ہوگئے تھے، اور عمرو کی ان سے روایت اختلاط کے بعد کی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 265
جنبی شخص کے واسطے تلاوت قرآن جائز نہیں ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر حال میں قرآن پڑھتے تھے سوائے جنابت کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس عموم سے جنابت کی طرح عین پاخانہ و پیشاب کی حالت بھی خارج ہے، چوں کہ عقلاً یہ دونوں اس عموم میں داخل نہیں ہیں اسی لیے ان کے استثناء کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 266
جنبی شخص کے ساتھ بیٹھ جا نا اور اس کو چھونے وغیرہ سے متعلق فرمان رسول ﷺ
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے کسی آدمی سے ملتے تو اس (کے جسم) پر ہاتھ پھیرتے، اور اس کے لیے دعا کرتے تھے، ایک دن صبح کے وقت آپ ﷺ کو دیکھ کر میں کترا گیا، پھر آپ کے پاس اس وقت آیا جب دن چڑھ آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں دیکھا تو تم مجھ سے کترا گئے ؟ میں نے عرض کیا : میں جنبی تھا، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ مجھ پر ہاتھ نہ پھیریں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان ناپاک نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٢) ، مسند احمد ٥/٣٨٤، ٤٠٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جنبی ہونے سے اس کا جسم اس طرح نجس نہیں ہوتا کہ کوئی اسے ہاتھ سے چھو لے تو ہاتھ نجس ہوجائے، اس کی نجاست حکمی ہوتی ہے عینی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 267
جنبی شخص کے ساتھ بیٹھ جا نا اور اس کو چھونے وغیرہ سے متعلق فرمان رسول ﷺ
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان سے ملے، اور وہ (حذیفہ) جنبی تھے، تو آپ ﷺ میری طرف بڑھے تو میں نے عرض کیا میں جنبی ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمان نجس نہیں ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٩ (٣٧٢) مطولاً ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٢ (٢٣٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٠ (٥٣٥) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٣٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے، ورنہ یہ واقعہ بھی وہی ہے جو اوپر گذرا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 268
جنبی شخص کے ساتھ بیٹھ جا نا اور اس کو چھونے وغیرہ سے متعلق فرمان رسول ﷺ
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں ان سے ملے، اور وہ اس وقت جنبی تھے، تو وہ چپکے سے نکل گئے، اور (جا کر) غسل کیا، نبی اکرم ﷺ نے انہیں نہیں پایا، تو جب وہ آئے، تو آپ نے پوچھا ابوہریرہ ! تم کہاں تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! آپ اس حالت میں ملے تھے کہ میں جنبی تھا، تو میں نے ناپسند کیا کہ بغیر غسل کئے آپ کے ساتھ بیٹھوں، آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! ١ ؎ مومن ناپاک نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٣ (٢٨٣) ، ٢٤ (٢٨٥) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٩ (٣٧١) ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٢ (٢٣١) ، سنن الترمذی/فیہ ٨٩ (١٢١) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨٠ (٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٨) ، مسند احمد ٢/٢٣٥، ٢٨٢، ٤٧١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جملہ کہہ کر ان کے ایسا کرنے اور مومن کے نجس ہونے کا عقیدہ رکھنے پر آپ نے تعجب کا اظہار کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 269
حائضہ سے خدمت لینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! مجھے کپڑا دے دو ، کہا : میں نماز نہیں پڑھتی ہوں ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ، تو انہوں نے آپ ﷺ کو کپڑا دیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢ (٢٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٣) ، مسند احمد ٢/٤٢٨، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٨ (برقم : ٣٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حائضہ ہوں۔ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ ہاتھ بڑھا کر مسجد میں کوئی چیز رکھ سکتی ہے یا مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 270
حائضہ سے خدمت لینا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے مسجد سے چٹائی دے دو ، انہوں نے کہا : میں حائضہ ہوں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢ (٢٩٨) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٠٤ (٢٦١) ، سنن الترمذی/فیہ ١٠١ (١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/فیہ ١٢٠ (٦٣٢) ، مسند احمد ٦/٤٥، ١٠١، ١١٢، ١١٤، ١٧٣، ٢١٤، ٢٢٩، ٢٤٥، سنن الدارمی/الطھارة ٨٢ (٧٩٨) ، ١٠٨ (١١١١) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٨ (برقم : ٣٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کہ وہ ہاتھ کو مسجد میں داخل کرنے سے مانع ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 271
حائضہ سے خدمت لینا
ابومعاویہ کی سند سے اعمش سے، پھر اسی کے مثل باقی سند سے حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 272
حائضہ کا مسجد میں چٹائی بچھانا
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ایک کی آغوش میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت فرماتے جب کہ وہ حائضہ ہوتی تھی، اور ہم میں سے کوئی بوریا لے کر مسجد جاتی، اور باہر کھڑی ہو کر ہاتھ بڑھا کر اسے (مسجد میں) بچھا دیتی اور وہ حائضہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٦) ، مسند احمد ٦/٣٣١، ٣٣٤، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٩ برقم : ٣٨٥ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 273
اگر کوئی شخص اپنی حائضہ بیوی کی گود میں سر رکھ کر تلاوت قرآن کرے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سر ہم (بیویوں) میں سے کسی کی گود میں ہوتا جب کہ وہ حائضہ ہوتی اور آپ قرآن کی تلاوت کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٣ (٢٩٧) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٩) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠١) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٠٣ (٢٦٠) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١٢٠ (٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٨) ، مسند احمد ٦/١١٧، ١٣٥، ١٤٨، ١٥٨، ١٩٠، ٢٠٤، ٢٥٨، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٦ (برقم : ٣٨١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اور وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہی ہوتیں، جیسا کہ مؤلف کے علاوہ دیگر رواۃ نے اس کی صراحت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 274
جس خاتون کو حیض ارہا ہو اس کو شوہر کا سر دھونا کیسا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اعتکاف کی حالت میں میری طرف اپنا سر بڑھاتے، تو میں اسے دھوتی اور میں حائضہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٣٠١) ، الاعتکاف ٤ (٢٠٣١) ، صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٩٠) ، مسند احمد ٦/٣٢، ٥٥، ٨٦، ١٧٠، ٢٠٤، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٢١، (برقم : ٣٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 275
جس خاتون کو حیض ارہا ہو اس کو شوہر کا سر دھونا کیسا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر مسجد سے میری طرف نکالتے، تو میں اسے دھوتی تھی اور میں حائضہ ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 276
جس خاتون کو حیض ارہا ہو اس کو شوہر کا سر دھونا کیسا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سر میں کنگھی کرتی اور میں حائضہ ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢ (٢٩٥) ، اللباس ٧٦ (٥٩٢٥) ، الشمائل ٤ (٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٢٩٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٨٠ (٨٠٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٢) ، مسند احمد ٦/١٠٤، ٢٣١، ٢٣٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٨ (١٠٩٨، ١٠٩٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٨٦، ٣٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 277
جس خاتون کو حیض ارہا ہو اس کو شوہر کا سر دھونا کیسا ہے؟
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٦ (٥٩٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 278
جس عورت کو حیض آرہا ہو اس کے ساتھ کھانا اور اس کا جھوٹا کھانا پینا
شریح ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا حائضہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ کھا سکتی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، رسول اللہ ﷺ مجھے بلاتے تو میں آپ کے ساتھ کھاتی اور میں حائضہ ہوتی تھی، آپ ﷺ ہڈی لیتے پھر اس کے سلسلہ میں آپ مجھے قسم دلاتے، تو میں اس میں سے دانت سے نوچتی پھر میں اسے رکھ دیتی، تو آپ لے لیتے اور اس میں سے نوچتے، اور آپ اپنا منہ ہڈی پر اسی جگہ رکھتے جہاں میں نے اپنا منہ رکھا ہوتا تھا، آپ پانی مانگتے، اور پینے سے پہلے مجھے اس سے پینے کی قسم دلاتے، چناچہ میں لے کر پیتی، پھر اسے رکھ دیتی، پھر آپ ﷺ اسے لیتے اور پیتے، اور اپنا منہ پیالے میں اسی جگہ رکھتے جہاں میں نے اپنا منہ رکھا ہوتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٠ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: آپ ایسا اظہار محبت اور بیان جواز کے لیے کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 279
جس عورت کو حیض آرہا ہو اس کے ساتھ کھانا اور اس کا جھوٹا کھانا پینا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنا منہ (برتن میں) اسی جگہ رکھتے جہاں سے میں (منہ لگا کر) پیتی تھی، آپ میرا بچا ہوا جو ٹھا پیتے، اور میں حائضہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 280
جس عورت کو حیض آرہا ہو اس کا جوٹھا پانی پینا
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے پانی کا برتن دیتے، میں اس میں سے پیتی، اور میں حائضہ ہوتی تھی، پھر میں آپ کو دیتی، آپ میرے منہ رکھنے کی جگہ تلاش کرتے، اور اپنا منہ اسی جگہ رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 281
جس عورت کو حیض آرہا ہو اس کا جوٹھا پانی پینا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں (پانی) پیتی اور میں حائضہ ہوتی، اور اسے نبی اکرم ﷺ کو دیتی، تو آپ اپنا منہ میرے منہ رکھنے کی جگہ پر رکھ کر پیتے، اور میں ہڈی سے گوشت (نوچ کر) کھاتی، اور حائضہ ہوتی، اور اسے نبی اکرم ﷺ کو دیتی تو آپ اپنا منہ میرے منہ رکھنے کی جگہ پر رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 282
حائضہ عورت کو اپنے ساتھ لٹانے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چادر میں لیٹی تھی کہ اسی دوران مجھے حیض آگیا، تو میں آہستہ سے کھسک آئی اور جا کر میں نے اپنے حیض کا کپڑا لیا، تو رسول اللہ ﷺ پوچھنے لگے : کیا تم کو حیض آگیا ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں، پھر آپ ﷺ نے مجھے بلایا، تو (جا کر) میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٤ (٢٩٨) ، ٢١ (٣٢٢) ، ٢٢ (٣٢٣) ، الصوم ٢٤ (١٩٢٩) صحیح مسلم/فیہ ٢ (٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢١ (٦٣٧) ، مسند احمد ٦/٣٠٠، ٣١٨، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٧ (١٠٨٥) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٠ (برقم : ٣٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 283
حائضہ عورت کو اپنے ساتھ لٹانے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی چادر میں رات گزارتے، اور میں حائضہ ہوتی، اگر آپ ﷺ کو میرے (خون) میں سے کچھ لگ جاتا تو صرف اسی جگہ کو دھوتے، اس سے تجاوز نہ کرتے، اور اسی کپڑے میں نماز ادا کرتے، پھر واپس آ کر لیٹ جاتے، پھر دوبارہ اگر آپ کو میرے (خون) میں سے کچھ لگ جاتا تو آپ ﷺ پھر اسی طرح کرتے، اس سے تجاوز نہ فرماتے، اور اسی میں نماز پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٠٧ (٢٦٩) ، انکاح ٤٧ (٢١٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٧) ، مسند احمد ٦/٤٤، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٥ (١٠٥٣) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٧٢، ٧٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 284
حائضہ خاتون کے ساتھ آرام کرنا اور اس کو چھونا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ایک کو جب وہ حائضہ ہوتی حکم دیتے کہ وہ تہبند باندھ لے، پھر آپ اس کے ساتھ لیٹ جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٣٠٢) ، صحیح مسلم/فیہ ١ (٢٩٣) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٠٧ (٢٦٨) ، سنن الترمذی/الطھارة ٩٩ (١٣٢) ، الصوم ٣٢ (٧٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارہ ١٢١ (٦٣٦) ، مسند احمد ٦/١١٣، ١٦٠، ١٧٤، ١٨٢، ٢٠٤، ٢٠٦، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٧ (١٠٨٧، ١٠٨٨) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٢ برقم : ٣٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 285
حائضہ خاتون کے ساتھ آرام کرنا اور اس کو چھونا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی حائضہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے حکم دیتے کہ تہبند باندھ لے، پھر آپ اس کے ساتھ لیٹ جاتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٢٩٩) ، الصوم ٤ (٢٠٣٠) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٣) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٧ (٢٦٨) ، سنن الترمذی/الطہارة ٩٩ (١٣٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢١ (٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٢) ، مسند احمد ٦/٥٥، ١٣٤، ١٧٤، ١٨٩، ٢٠٩، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٧ (١٠٧٧) ، ویأتی عندالمؤلف برقم : ٣٧٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں يباشرها کا لفظ آیا ہے یہاں مباشرت سے جماع مراد نہیں کہ یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کیسے مباشرت کرتے جبکہ حائضہ سے مباشرت حرام ہے، بلکہ یہاں بوس و کنار اور لیٹنا مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 286
حائضہ خاتون کے ساتھ آرام کرنا اور اس کو چھونا
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں میں سے کسی کے ساتھ لیٹ جایا کرتے تھے اور وہ حائضہ ہوتی جب اس پر تہبند ہوتا، جو آدھی ران اور گھٹنے تک پہنچتا، لیث کی روایت میں ہے : وہ اسے اپنی کمر پر باندھے ہوتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٠٧ (٢٦٧) ، مسند احمد ٦/٣٣٢، ٣٣٥، ٣٣٦، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٧ (١٠٩٧) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ١٣ (برقم : ٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٣٠٣) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں بھی مباشرت سے لیٹنا ہی مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 287
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم
انس (رض) کہتے ہیں کہ یہود کی عورتیں جب حائضہ ہوتیں تو وہ ان کے ساتھ نہ کھاتے پیتے اور نہ انہیں گھروں میں اپنے ساتھ رکھتے، تو لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو اللہ عزوجل نے آیت کریمہ : ويسألونک عن المحيض قل هو أذى (البقرہ : ٢٢٢ ) لوگ آپ سے حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجئیے : وہ گندگی ہے نازل فرمائی، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ کھائیں، پئیں اور انہیں اپنے ساتھ گھروں میں رکھیں، اور جماع کے علاوہ ان کے ساتھ سب کچھ کریں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣ (٣٠٢) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٠٣ (٢٥٨) ، النکاح ٤٧ (٢١٦٥) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٥ (٦٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٨) ، مسند احمد ٣/١٣٢، ٢٤٦، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٧ (١٠٩٣) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٨، باتم مما ھنا (برقم : ٣٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 288
نہی خداوندی اور ممانعت کے علم کے باوجود جو شخص بیوی سے حالت حیض میں ہمبستری کرلے اس کا کیا کفارہ ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو اپنی بیوی سے جماع کرے، اور وہ حائضہ ہو کہ وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٠٦ (٢٦٤) ، النکاح ٤٨ (٢١٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١٢٣ (٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الطھارة ١٠٣ (١٣٧) ، مسند احمد ١/٢٢٩، ٢٣٧، ٢٧٢، ٢٨٦، ٣١٢، ٣٢٥، ٣٦٣، ٣٦٧، سنن الدارمی/الطھارة ١١٢ (١١٤٦، ١١٤٧) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٩، (برقم : ٣٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ جب وہ بیوی سے شروع حیض میں جماع کرے تو ایک دینار صدقہ کرے، اور جب خون بند ہوجانے پر جماع کرے تو آدھا دینار صدقہ کرے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہاں نوعیت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ راوی کا تردد ہے، واضح رہے کہ یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 289
جو خاتون احرام باندھے اور اس کو حیض شروع ہوجائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج کرنا تھا، جب مقام سرف آیا تو میں حائضہ ہوگئی، تو رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے، اور اس وقت میں رو رہی تھی آپ ﷺ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ حائضہ ہوگئی ہو ؟ میں نے عرض کیا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ عزوجل نے آدم زادیوں کے لیے مقدر کردیا ہے، تو وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے اس کے کہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا ، نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٧ (٢٩٤) ، الحج ٣٣ (١٥٦٠) ، و ٨١ (١٦٥٠) ، العمرة ٩ (١٧٨٨) ، الأضاحي ٣ (٥٥٤٨) ، ١٠ (٥٥٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/فیہ ٢٣ (١٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٦ (٢٩٦٣) ، مسند احمد ٦/٣٩، سنن الدارمی/المناسک ٦٢ (١٩٤٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٤٩، ٢٧٤٢، ٢٩٩٣، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 290
نفاس والی خاتون احرام کیسے باندھیں؟
محمد کہتے ہیں کہ ہم لوگ جابر بن عبداللہ کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج (حجۃ الوداع) کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پچیس ذی قعدہ کو نکلے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آدمی بھیج کر دریافت کیا کہ اب میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : غسل کرلو اور لنگوٹ کس لو، پھر لبیک پکارو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ٢٦١٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 291
اگر کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے؟
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے حیض کا خون کپڑے میں لگ جانے کے بارے میں پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے لکڑی سے کھرچ دو ، اور پانی اور بیر کے پتے سے دھو لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٣٢ (٣٦٣) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ١١٨ (٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٤) ، مسند احمد ٦/٣٥٥، ٣٥٦، سنن الدارمی/الطھارة ١٠٥ (١٠٥٩) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٢٦ (برقم : ٣٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 292
اگر کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے؟
فاطمہ بنت منذر اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہم سے روایت کرتی ہیں (وہ ان کی گود میں پلی تھیں) کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے کپڑے میں حیض کا خون لگ جانے کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے کھرچ دو ، پھر پانی ڈال کر انگلیوں سے رگڑو، پھر اسے دھو لو، اور اس میں نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٧) ، الحیض ٩ (٣٠٦) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣٣ (٢٩١) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٢ (٣٦١، ٣٦٢) ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠٤ (١٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٨ (٦٢٩) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٣) ، مسند احمد ٦/٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣، سنن الدارمی/الطہارة ٨٣ (٧٩٩) ، ویأتي عند المؤلف في الحیض ٢٦ (برقم : ٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 293
منی کپڑے میں لگ جانے کا حکم
معاویہ بن ابوسفیان (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے (اپنی بہن) ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ اس کپڑے میں نماز پڑھتے تھے جس میں جماع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں ! جب آپ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٣٣ (٣٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨٣ (٥٤٠) ، مسند احمد ٦/٣٢٥، ٤٢٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٢ (١٤١٥، ١٤١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 294
کپڑے پر سے منی دھونے کا حکم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے جنابت کا اثر دھوتی تھی ١ ؎، پھر آپ نماز کے لیے نکلتے، اور پانی کے دھبے آپ کے کپڑے پر باقی ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٤ (٢٢٩، ٢٣٠) ، ٦٥ (٢٣١) ، صحیح مسلم/الطھارة ٣٢ (٢٨٩) ، سنن ابی داود/فیہ ٣٦ (٣٧٣) ، سنن الترمذی/فیہ ٨٦ (١١٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨١ (٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣٥) ، مسند احمد ٦/٤٨، ١٤٢، ١٦٢، ٢٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں اس سے مراد منی ہے، اور منی ایک قسم کی رطوبت ہے جو مرد کی شرمگاہ سے شہوت کے وقت اچھلتے ہوئے خارج ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 295
کپڑے سے منی کے کھرچنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے جنابت مل کر صاف کردیتی ١ ؎، دوسری مرتبہ کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی مل کر صاف کردیتی تھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خشک ہو تو اسے کھرچ دینے یا مل دینے، اور تر ہو تو کسی چیز سے صاف کردینے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے، منی پاک ہے یا ناپاک اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے، امام شافعی، داود ظاہری، اور امام احمد کی رائے میں منی پاک ہے، وہ منہ کے لعاب کی طرح ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے علی، سعد بن ابی وقاص، ابن عمر اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مسلک ہے، اس کے برعکس امام مالک اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ منی ناپاک ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک منی اگر خشک ہو تو کھُرچ دینے سے پاک ہوجاتی ہے، دھونا ضروری نہیں، اس کے برعکس امام مالک کے نزدیک خشک ہو یا تر دونوں صورتوں میں دھونا ضروری ہے، منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل کھرچنے والی حدیثیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ منی اگر نجس ہوتی تو کھرچنے کے بعد اسے دھونا ضروری ہوتا، اور جن لوگوں نے ناپاک کہا ہے ان کی دلیل وہ روایتیں ہیں جن میں دھونے کا حکم آیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ منی اگر پاک ہوتی تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن جو لوگ پاک کہتے ہیں وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کپڑے کا دھونا نظافت کے لیے ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ ٢ ؎: بظاہر اوپر والی روایت میں اور اس روایت میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ فرک (ملنے اور رگڑنے) والی روایتیں خشک منی پر محمول ہوں گی کیونکہ منی جب گیلی ہو تو ملنے سے صاف نہیں ہوگی، اور دھونے والی روایتیں تر منی پر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 296
کپڑے سے منی کے کھرچنے سے متعلق
ہمام بن حارث سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتی تھی کہ اسے (یعنی منی کو) رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے مل دوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٨) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٦ (٣٧١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٢ (٥٣٧) ، مسند احمد ٦/٤٣، ١٢٥، ١٣٥، ١٩٣، ٢٦٣، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 297
کپڑے سے منی کے کھرچنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے کپڑے سے اسے (یعنی منی کو) مل دیتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 298
کپڑے سے منی کے کھرچنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے کپڑے میں اسے (یعنی منی کو) دیکھتی تو اسے رگڑ دیتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 299
کپڑے سے منی کے کھرچنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے جنابت (منی کے اثر کو) مل رہی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 300
کپڑے سے منی کے کھرچنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں اسے (یعنی منی کو) رسول اللہ ﷺ کے کپڑے میں پاتی تو اسے رگڑ کر اس سے صاف کردیتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٢ (٥٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 301
کھانا نہ کھانے والے بچہ کے پیشاب کا حکم
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بیٹے کو جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئیں، رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا، تو آپ ﷺ نے پانی منگایا، اور اس سے کپڑے پر چھینٹا مار، اور اسے دھویا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٩ (٢٢٣) ، الطب ١٠ (٥٦٩٣) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣١ (٢٨٧) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٣٧ (٣٧٤) ، سنن الترمذی/الطھارة ٥٤ (٧١) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٢) ، موطا امام مالک/الطھارة ٣٠ (١١٠) ، مسند احمد ٦/٣٥٥، ٣٥٦، سنن الدارمی/الطھارة ٦٣ (٧٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 302
کھانا نہ کھانے والے بچہ کے پیشاب کا حکم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک (دودھ پینے والا) بچہ لایا گیا، تو اس نے آپ کے اوپر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگایا، اور اسے اس پر بہا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٩ (٢٢٢) ، العقیقة ١ (٥٤٦٨) ، الأدب ٢١ (٦٠٠٢) ، الدعوات ٣٠ (٦٣٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطہارة ٣١ (٢٨٦) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٧٧ (٥٢٣) ، موطا امام مالک/الطہارة ٣٠ (١٠٩) مسند احمد ٦/٥٢، ٢١٠، ٢١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 303
لڑکی کے پیشاب سے متعلق
ابو سمح (رض) (خادم النبی) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچی کا پیشاب دھویا جائے گا، اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٧ (٣٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧٧ (٥٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک روایت میں مالم یطعم (جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے) کی قید ہے، اس لیے جو روایتیں مطلق ہیں، انہیں مقید پر محمول کیا جائے گا یعنی دونوں کے پیشاب میں یہ تفریق اس وقت تک کے لیے ہے جب تک وہ دونوں کھانا نہ کھانے لگ جائیں، کھانا کھانے لگ جانے کے بعد دونوں کے پیشاب کا حکم یکساں ہوگا، دونوں کا پیشاب دھونا ضروری ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 304
جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کے پیشاب کا حکم
انس بن مالک (رض) کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ١ ؎ چناچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہوگئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہوگئے، اور نبی اکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ٢ ؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٦ (٢٣٣) ، الزکاة ٦٨ (١٥٠١) ، الجھاد ١٨٤ (٣٠٦٤) ، المغازي ٣٦ (٤١٩٢) ، الطب ٥ (٥٦٨٥) ، ٢٩/٥٧٢٧، الحدود ١٥ (٦٨٠٢) ، ١٨ (٦٨٠٥) ، الدیات ٢٢ (٦٨٩٩) ، صحیح مسلم/القسامة ٢ (١٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٣٨ (١٨٤٥) ، الطب ٦ (٢٠٤٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٠ (٣٥٠٣) ، مسند احمد ٣/١٦١، ١٦٣، ١٧٠، ٢٣٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٠٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ علاج کے طور پر اونٹ کا پیشاب پیا جاسکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جن جانورں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے، اور بوقت ضرورت ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ٢ ؎: ایک روایت میں انس (رض) نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس وجہ سے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہے کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں، لیکن یہ روایت بقول امام ترمذی غریب ہے، یحییٰ بن غیلان کے علاوہ کسی نے بھی اس میں یزید بن زریع کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 305
جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کے پیشاب کا حکم
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) آئے، اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ زرد ہوگئے، اور پیٹ پھول گئے، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی اونٹنیوں کے پاس بھیج دیا ١ ؎ اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوگئے، تو ان لوگوں نے آپ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، تو نبی اکرم ﷺ نے کچھ لوگوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا، چناچہ انہیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٠٤٠ (صحیح الاسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 306
حلال جانور کا پاخا نہ اگر کپڑے پر لگ جائے تو کیا حکم ہے؟
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود (رض) نے بیت المال میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، اور قریش کے کچھ شرفاء بیٹھے ہوئے تھے، اور انہوں نے ایک اونٹ ذبح کر رکھا تھا، تو ان میں سے ایک شخص نے کہا ١ ؎: تم میں سے کون ہے جو یہ خون آلود اوجھڑی لے کر جائے، پھر کچھ صبر کرے حتیٰ کہ جب آپ اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیں، تو وہ اسے ان کی پشت پر رکھ دے، تو ان میں کا سب سے بدبخت (انسان) کھڑا ہوا ٢ ؎، اور اس نے اوجھڑی لی، اور آپ کے پاس لے جا کر انتظار کرتا رہا، جب آپ سجدہ میں چلے گئے تو اس نے اسے آپ کی پشت پر ڈال دیا، تو آپ ﷺ کی کمسن بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی، تو وہ دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ ﷺ کی پشت سے اسے ہٹایا، جب آپ ﷺ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے تین مرتبہ کہا : اللہم عليك بقريش اے اللہ ! قریش کو ہلاک کر دے ، اللہم عليك بقريش، اللہم عليك بأبي جهل بن هشام وشيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة وعقبة بن أبي معيط اے اللہ ! ابوجہل بن ہشام، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط سے تو نپٹ لے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے قریش کے سات ٣ ؎ لوگوں کا گن کر نام لیا، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ پر قرآن نازل کیا، میں نے انہیں بدر کے دن ایک اوندھے کنویں میں مرا ہوا دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٩ (٢٤٠) ، والصلاة ١٠٩ (٥٢٠) ، والجھاد ٩٨ (٢٩٣٤) ، والجزیة ٢١ (٣١٨٥) ، ومناقب الأنصار ٢٩ (٣٨٥٤) ، صحیح مسلم/الجھاد ٣٩ (١٧٩٤) ، (تحفة الأشراف ٩٤٨٤) ، مسند احمد ١/ ٣٩٣، ٣٩٧، ٤١٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم کی تصریح کے مطابق وہ ابوجہل تھا۔ ٢ ؎: اس سے مراد عقبہ بن ابی معیط ہے جیسا کہ مسند ابوداؤد طیالسی میں اس کی صراحت ہے۔ ٣ ؎: چار تو وہ ہیں جن کا ذکر خود حدیث میں آیا ہے اور باقی تین یہ ہیں : ولید بن عتبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف اور عمارہ بن ولید۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 307
گر تھوک کپڑے کو لگ جائے تو اس کا حکم
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا، اس میں تھوکا، اور اسے مل دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف ٥٩١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٥) ، ٣٩ (٤١٧) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٤٣ (٣٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦١ (١٠٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ تھوک پاک ہے، ورنہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایسا نہ کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 308
گر تھوک کپڑے کو لگ جائے تو اس کا حکم
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف تھوکے، یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے نہیں تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے کپڑے میں اس طرح تھوکا ہے اور اسے مل دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٦١ (١٠٢٢) ، (تحفة الأشراف ١٤٦٦٩) ، مسند احمد ٢/٢٥٠، ٤١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 309
تیمم کے شروع ہونے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، یہاں تک کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے، تو میرا ہار ٹوٹ کر گرگیا، تو آپ ﷺ اسے تلاش کرنے کے لیے ٹھہر گئے، آپ کے ساتھ لوگ بھی ٹھہر گئے، نہ وہاں پانی تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا، تو لوگ ابوبکر (رض) کے پاس آئے، اور ان سے کہنے لگے کہ عائشہ نے جو کیا ہے کیا آپ اسے دیکھ نہیں رہے ہیں ؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اور لوگوں کو ایک ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں پانی نہیں ہے، اور نہ ان کے پاس ہی پانی ہے، چناچہ ابوبکر (رض) آئے، اور رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے، تو وہ کہنے لگے : تم نے رسول اللہ ﷺ کو اور لوگوں کو ایسی جگہ روک دیا جہاں پانی نہیں ہے، نہ ہی ان کے پاس پانی ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ تو ابوبکر (رض) نے میری سرزنش کی، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے جو کہلوانا چاہا انہوں نے کہا، اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، میں صرف اس وجہ سے نہیں ہلی کہ میری ران پر رسول اللہ ﷺ کا سر تھا، آپ ﷺ سوئے رہے یہاں تک کہ بغیر پانی کے صبح ہوگئی، پھر اللہ عزوجل نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، اس پر اسید بن حضیر (رض) کہنے لگے : اے آل ابوبکر ! یہ آپ کی پہلی ہی برکت نہیں، پھر ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا، تو ہمیں ہار اسی کے نیچے ملا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ١ (٣٣٤) ، ٢ (٣٣٦) ، و فضائل الصحابة ٥ (٣٦٧٢) ، ٣٠ (٣٧٧٣) ، و تفسیر النساء ١٠ (٤٥٨٣) ، و تفسیر المائدہ ٣ (٤٦٠٧) ، وانکاح ١٢٦ (٥٢٥٠) ، واللباس ٥٨ (٥٨٨٢) ، والحدود ٣٩ (٦٨٤٤) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٧) ، (تحفة الأشراف ١٧٥١٩) ، وقدأخرجہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٢٣ (٣١٧) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩٠ (٥٦٨) ، موطا امام مالک/فیہ ٢٣ (٨٩) ، مسند احمد ٦/٥٧، ١٧٩، ٢٧٢، ٢٧٣، سنن الدارمی/الطھارة ٦٦/٧٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 310
سفر کے بغیر تیمم
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ عبداللہ بن یسار دونوں آئے یہاں تک کہ ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری (رض) کے پاس گئے تو وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے، تو آپ سے ایک آدمی ملا، اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ دیوار کے پاس آئے، اور آپ نے اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھ پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٣ (٣٣٧) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٩) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٢٤ (٣٢٩) ، (تحفة الأشراف ١١٨٨٥) ، مسند احمد ٤/١٦٩ (صحیح ) وضاحت : بئر جمل مدینہ میں ایک مشہور جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 311
مقیم ہونے کی حالت میں تیمم
عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر (رض) کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا، (کیا کروں ؟ ) عمر (رض) نے کہا : (غسل کئے بغیر) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ دونوں ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہوگئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، اور رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا ، پھر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا - سلمہ کو شک ہے، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس میں مسح کا ذکر دونوں کہنیوں تک ہے یا دونوں ہتھیلیوں تک - (عمار (رض) کی بات سن کر) عمر (رض) نے کہا : جو تم کہہ رہے ہو ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٤ (٣٣٨) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٨) ، سنن ابی داود/الطھارة، سنن الترمذی/فیہ ١١٠ (١٤٤) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٩١ (٥٦٩) ، (تحفة الأشراف ١٠٣٦٢) ، مسند احمد ٤/٢٦٣، ٢٦٥، ٣١٩، ٣٢٠، سنن الدارمی/الطہارة ٦٦ (٧٧٢) مختصرًا، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣١٧، ٣١٨، ٣١٩، ٣٢٠ (صحیح ) وضاحت : ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ مجھے یہ یاد نہیں اس لیے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا تم اپنی ذمہ داری پر اسے بیان کرنا چاہو تو کرو، عمر اور عبداللہ بن مسعود (رض) دونوں کی رائے یہ ہے کہ جنبی کے لیے تیمم درست نہیں، ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام اور اکثر علماء اور مجتہدین کا قول ہے کہ تیمم محدث (جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو) اور جنبی (جسے احتلام ہوا ہو) دونوں کے لیے ہے، اس قول کی تائید کئی مشہور حدیثوں سے ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 312
مقیم ہونے کی حالت میں تیمم
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ میں اونٹ چرا رہا تھا کہ میں جنبی ہوگیا، اور مجھے پانی نہیں ملا، تو میں نے جانور کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو اس کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بس تیمم ہی کافی تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف ١٠٣٦٨) ، مسند احمد ٤/٢٦٣ (ضعیف) (اس کے راوی ” ناجیة “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 313
سفر میں تیمم
عمار (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کے پچھلے پہر اولات الجیش میں اترے، آپ کے ساتھ آپ کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، تو ان کا ظفار کے مونگوں والا ہار ٹوٹ کر گرگیا، تو ان کے اس ہار کی تلاش میں لوگ روک لیے گئے یہاں تک کہ فجر روشن ہوگئی، اور لوگوں کے پاس پانی بالکل نہیں تھا، تو ابوبکر (رض) عائشہ رضی اللہ عنہا پر ناراض ہوئے، اور کہنے لگے : تم نے لوگوں کو روک رکھا ہے اور حال یہ ہے کہ ان کے پاس پانی بالکل نہیں ہے، تو اللہ عزوجل نے مٹی سے تیمم کرنے کی رخصت نازل فرمائی، عمار (رض) کہتے ہیں : تو مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر انہیں بغیر جھاڑے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور اپنے ہاتھوں کے نیچے (کے حصہ پر) بغل تک مل لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٢٣ (٣٢٠) ، (تحفة الأشراف ١٠٣٥٧) مسند احمد ٤/ ٢٦٣، ٢٦٤ ۔ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا ان لوگوں نے اس وجہ سے کیا ہوگا کہ ممکن ہے پہلے یہی مشروع رہا ہو، پھر منسوخ ہوگیا ہو، یا ان لوگوں نے اپنے اجتہاد سے بغیر پوچھے ایسا کیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 314
کیفیت تیمم میں اختلاف کا بیان
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مٹی سے تیمم کیا، تو ہم نے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مونڈھوں تک مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة، ٩٠ (٥٦٦) مختصرًا، (تحفة الأشراف ١٠٣٥٨) ، مسند احمد ٤/ ٣٢٠، ٣٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 315
تیمم کا دوسرا طریقہ کہ جس میں ہاتھ مار کر گرد غبار کا تذکرہ ہے
عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) کہتے ہیں کہ ہم عمر (رض) کے پاس تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : امیر المؤمنین ! بسا اوقات ہمیں ایک ایک دو دو مہینہ بغیر پانی کے رہنا پڑجاتا ہے، (تو ہم کیا کریں ؟ ) تو آپ نے کہا : رہا میں تو میں جب تک پانی نہ پا لوں نماز نہیں پڑھ سکتا، اس پر عمار بن یاسر (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد ہے ؟ جب آپ اور ہم فلاں اور فلاں جگہ اونٹ چرا رہے تھے، تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم جنبی ہوگئے تھے، کہنے لگے : ہاں، تو رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے (اور ہم نے اسے آپ سے بیان کیا) تو آپ ﷺ نے ہنس کر فرمایا : تمہارے لیے مٹی سے اس طرح کرلینا کافی تھا ، اور آپ ﷺ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری ١ ؎، پھر اپنے چہرہ کا اور اپنے دونوں بازووں کے کچھ حصہ کا مسح کیا، اس پر عمر (رض) نے کہا : عمار ! اللہ سے ڈرو، تو انہوں نے کہا : امیر المؤمنین ! اگر آپ چاہیں تو میں اسے نہ بیان کروں، تو عمر (رض) نے کہا : بلکہ جو تم کہہ رہے ہو ہم تم کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٣ (صحیح) (دون ذراعیہ، والصواب کفیہ “ کما في الروایة التالیة ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا پھونک مارنا بھی مسنون ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون الذراعين والصواب کفيه صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 316
تیمم کا ایک دوسرا طریقہ
عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمر بن خطاب (رض) سے تیمم کے متعلق سوال کیا، تو وہ نہیں جان سکے کہ کیا جواب دیں، عمار (رض) نے کہا : کیا آپ کو یاد ہے ؟ جب ہم ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، اور میں جنبی ہوگیا تھا، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے اس طرح کرلینا ہی کافی تھا ، شعبہ نے (تیمم کا طریقہ بتانے کے لیے) اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر مارے، پھر ان میں پھونک ماری، اور ان دونوں سے اپنے چہرہ اور اپنے دونوں ہتھیلیوں پر ایک بار مسح کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 317
تیمم کا ایک دوسرا طریقہ
حکم بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ایک آدمی جنبی ہوگیا، تو وہ عمر (رض) کے پاس آیا، اور کہنے لگا : میں جنبی ہوگیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا (تو میں کیا کروں ؟ ) انہوں نے کہا : (جب تک پانی نہ ملے) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار (رض) نے ان سے کہا : کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب ہم لوگ ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہوگئے تھے، تو رہے آپ، تو آپ نے نماز نہیں پڑھی تھی، اور رہا میں، تو میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، پھر نماز پڑھ لی، پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا ، شعبہ نے اپنی ہتھیلی (گھٹنوں پر) ایک مرتبہ ماری، اور اس میں پھونک ماری، پھر ایک کو دوسرے سے رگڑا، پھر ان دونوں سے اپنے چہرے کا مسح کیا، اس پر عمر (رض) نے کہا میں ایسی چیز (سن رہا ہوں) جو مجھے معلوم نہیں، تو عمار (رض) نے کہا : اگر آپ چاہیں تو میں اسے بیان نہ کروں ؟ سلمہ نے اس سند میں ابو مالک سے کچھ اور بھی چیزوں کا ذکر کیا ہے، اور سلمہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ عمر (رض) نے کہا : بلکہ اس سلسلہ میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو ہم تم کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٣ (صحیح )
ایک اور دوسری قسم کا تیمم
عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر (رض) کے پاس آیا، اور کہنے لگا : میں جنبی ہوگیا ہوں، اور مجھے پانی نہیں ملا (کیا کروں ؟ ) تو عمر (رض) نے کہا : (جب تک پانی نہ ملے) تم نماز نہ پڑھو، اس پر عمار (رض) نے کہا : امیر المؤمنین ! کیا آپ کو یاد نہیں ؟ جب میں اور آپ دونوں ایک سریہ میں تھے، تو ہم جنبی ہوگئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں نے نماز پڑھ لی، تو جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا ، اور نبی اکرم ﷺ نے زمین پر اپنے دونوں ہاتھ مارے، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا۔ سلمہ نے شک کیا اور کہا : مجھے نہیں معلوم کہ (میرے شیخ ذر نے دونوں کہنیوں تک مسح کا ذکر کیا یا دونوں ہتھیلیوں تک) ۔ عمر (رض) نے کہا : اس سلسلہ میں جو تم کہہ رہے ہو اس کی ذمہ داری ہم تمہارے ہی سر ڈالتے ہیں شعبہ کہتے ہیں : سلمہ دونوں ہتھیلیوں، چہرے اور دونوں بازؤوں کا ذکر کر رہے تھے، تو منصور نے ان سے کہا : یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ کے سوا کسی اور نے بازؤوں کا ذکر نہیں کیا ہے، تو سلمہ شک میں پڑگئے اور کہنے لگے مجھے نہیں معلوم کہ (ذر نے) بازؤوں کا ذکر کیا یا نہیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 319
جنبی شخص کو تیمم کرنا درست ہے
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، تو ابوموسیٰ نے کہا : ١ ؎ آپ نے عمار (رض) کی بات جو انہوں نے عمر (رض) سے کہی نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی ضرورت سے بھیجا، تو میں جنبی ہوگیا، اور مجھے پانی نہیں ملا، تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ لیا، پھر میں آپ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارے لیے بس اس طرح کرلینا ہی کافی تھا ، اور آپ نے اپنا دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا، پھر انہیں جھاڑا، پھر آپ نے اپنی بائیں (ہتھیلی) سے اپنی داہنی (ہتھیلی) پر اور داہنی ہتھیلی سے اپنی بائیں (ہتھیلی) پر مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں اور اپنے چہرے کا مسح کیا، عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ عمر (رض) عمار (رض) کی بات سے مطمئن نہیں ہوئے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٧ (٣٤٦، ٣٤٥) ، ٨ (٣٤٧) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٨) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٢٣ (٣٢١) ، مسند احمد ٤/٢٦٤، ٢٦٥، ٣٩٦، (تحفة الأشراف ١٠٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوموسیٰ کا کہنا تھا کہ تیمم کا حکم عام ہے، محدث اور جنبی دونوں کو شامل ہے، اور ابن مسعود (رض) کا کہنا تھا کہ یہ صرف محدث کے لیے خاص ہے اس پر ابوموسیٰ نے بطور اعتراض ان سے یہ بات کہی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 320
مٹی سے تیمم کے متعلق حدیث
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھا، اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے فلاں ! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا ؟ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے جنابت لاحق ہوگئی ہے اور پانی نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : (پانی نہ ملنے پر) مٹی کو لازم پکڑو کیونکہ یہ تمہارے لیے کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٦ (٣٤٤) ، ٩ (٣٤٨) ، (تحفة الأشراف ١٠٨٧٦) ، مسند احمد ٤/ ٣٣٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 321
ایک ہی تیمم سے متعدد نمازیں ادا کرنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے، اگرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٢٥ (٣٣٢) مطولاً ، سنن الترمذی/فیہ ٩٢ (١٢٤) مطولاً ، (تحفة الأشراف ١١٩٧١) ، مسند احمد ٥/١٥٥، ١٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 322
جو شخص وضو کے لئے پانی اور تیمم کرنے کے لئے مٹی نہ پا سکے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسید بن حضیر (رض) اور کچھ اور لوگوں کو بھیجا، یہ لوگ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ڈھونڈ رہے تھے جسے وہ اس جگہ بھول گئیں تھیں جہاں وہ (آرام کرنے کے لیے) اتری تھیں، (اسی اثناء میں) نماز کا وقت ہوگیا، اور یہ لوگ نہ تو باوضو تھے اور نہ ہی انہیں (کہیں) پانی ملا، تو انہوں نے بلا وضو نماز پڑھ لی، پھر ان لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو اللہ عزوجل نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، تو اسید بن حضیر (رض) نے (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا) اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے، اللہ کی قسم ! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جسے آپ ناگوار سمجھتی رہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے بہتری رکھ دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٢٣ (٣١٧) ، (تحفة الأشراف ١٧٢٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 323
جو شخص وضو کے لئے پانی اور تیمم کرنے کے لئے مٹی نہ پا سکے
طارق (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی جنبی ہوگیا، اس نے نماز نہیں پڑھی، تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم نے ٹھیک کیا، پھر ایک دوسرا آدمی بھی جنبی ہوگیا، تو اس نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، اور آپ کے پاس آیا تو آپ ﷺ نے اس سے بھی ایسا ہی فرمایا جیسا کہ دوسرے سے فرمایا تھا، یعنی تم نے بھی ٹھیک کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف ٤٩٨٢) ، ویاتی عندالمؤلف برقم ٤٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 324