10. امامت کے متعلق احادیث
امامت صاحب علم و فضل کو کرنا چاہئے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے : ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر (رض) ان کے پاس آئے، اور کہا : کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ١ ؎، تو اب بتاؤ ابوبکر (رض) سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہوگا ؟ ٢ ؎ تو لوگوں نے کہا : ہم ابوبکر (رض) سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٧) ، مسند احمد ١/٣٩٦، ٤٠٥ (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لیے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ ٢ ؎: اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لیے رسول اللہ ﷺ کا ابوبکر (رض) کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہوگا، اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب (رض) کے متعلق اقرأکم أبی فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر (رض) کو امامت کے لیے مقدم کیا۔ ٣ ؎: اس کے بعد ابوبکر (رض) کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہوگئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 777
ظالم حکمرانوں کی اقتداء میں نماز ادا کرنا
ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے نماز میں دیر کردی تو میرے پاس (عبداللہ ابن صامت) ابن صامت آئے میں نے ان کے لیے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ١ ؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا : میں نے بھی ابوذر (رض) سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا : نماز اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ نماز کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا اب نہیں پڑھوں گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤١ (٦٤٨) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١١٩٤٨) ، مسند احمد ٥/١٤٧، ١٦٠، ١٦٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٥ (١٢٦٣) ، ویأتی عند المؤلف في الإمامة ٥٥ (برقم : ٨٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے اس کے فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا۔ ٢ ؎: کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 778
ظالم حکمرانوں کی اقتداء میں نماز ادا کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عنقریب تم کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو نماز کو بےوقت کر کے پڑھیں گے، تو اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھ لیا کرو، اور ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرو ١ ؎ اور اسے سنت (نفل) بنا لو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥٠ (١٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٢١١) ، مسند احمد ١/٣٧٩، ٤٥٥، ٤٥٩، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ٢ ؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں واجعلوا صلاتکم معہم نافل ۃ یعنی بعد میں ان کے ساتھ جو نماز پڑھو اسے نفل سمجھو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 779
امامت کا زیادہ حق دار کون؟
ابومسعود (عقبہ بن عمرو) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ١ ؎، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ٢ ؎، اور اگر سنت (کے جاننے) میں بھی برابر ہوں تو جو ان میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ ٣ ؎ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دیدے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦١ (٥٨٢، ٥٨٣، ٥٨٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٠ (٢٣٥) ، الأدب ٢٤ (٢٧٧٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٦ (٩٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٦) ، مسند احمد ٤/١١٨، ١٢١، ١٢٢، ٥/٢٧٢، ویأتی عند المؤلف برقم : ٧٨٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس صورت میں ہے جب وہ قرآن سمجھتا ہو (واللہ اعلم) ٢ ؎: کیونکہ ہجرت میں سبقت اور پہل کے شرف کا تقاضا ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے صحیح مسلم کی روایت (جو ابومسعود (رض) ہی سے مروی ہے) میں سنت کے جانکار کو ہجرت میں سبقت کرنے والے پر مقدم کیا گیا ہے، ابوداؤد اور ترمذی میں بھی یہی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے (واللہ اعلم) ۔ ٣ ؎: مثلاً کسی کی مخصوص کرسی یا مسند وغیرہ پر۔ ٤ ؎: إلا ا ٔن یاذن لکم کا تعلق دونوں فعلوں یعنی امامت کرنے اور مخصوص جگہ پر بیٹھنے سے ہے، لہٰذا اس استثناء کی رو سے مہمان میزبان کی اجازت سے اس کی امامت کرسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 780
جو شخص زیادہ عمر رسیدہ ہو تو اس کو امامت کرنا چاہئے
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا : میں اور میرے ایک ساتھی، دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک اذان کہے دوسرا اس کا جواب دے، یا دونوں میں سے کوئی اذان دے اور دوسرا امامت کرائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 781
جس وقت کچھ لوگ اکھٹے ہوں تو کس شخص کو امامت کرنا چاہئے؟
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تین شخص ہوں تو ان میں سے ایک کو امامت کرنی چاہیئے، اور ان میں امامت کا زیادہ حقدار وہ ہے جسے قرآن زیادہ یاد ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٧٢) ، مسند احمد ٣/٢٤، ٣٤، ٣٦، ٥١، ٨٤، سنن الدارمی/الصلاة ٤٢ (١٢٨٩) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٨٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 782
جس وقت آدمی اکٹھے ہوں اور ان میں وہ شخص بھی شامل ہو جو کہ تمام کا حکمران ہو
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی امامت ایسی جگہ نہ کی جائے جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور بغیر اجازت اس کی مخصوص نشست گاہ پر نہ بیٹھا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر حاکم موجود ہو تو وہی امامت کا مستحق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 783
جس وقت رعایا میں سے کوئی شخص امامت کرتا ہو اسی دوران حاکم وقت آجائے تو وہ امام پیچھے چلا جائے
سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہوگیا ہے تو رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ ﷺ اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ پہنچا ١ ؎ تو بلال (رض) ابوبکر (رض) کے پاس آئے، اور کہنے لگے : ابوبکر ! رسول اللہ ﷺ (ابھی تک) نہیں آسکے ہیں، اور نماز کا وقت ہوچکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کردیں گے ؟ انہوں نے کہا : ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چناچہ بلال (رض) نے تکبیر کہی تو ابوبکر (رض) آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو نماز پڑھانی شروع کردی، اسی دوران رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آ کر کھڑے ہوگئے، اور (رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر (رض) اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ موجود ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں، اس پر ابوبکر (رض) نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہوگئے، تو رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو نماز پڑھائی، اور جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا : لوگو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ جب تمہیں نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہوگا (پھر آپ ابوبکر (رض) کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا : ابوبکر ! جب میں نے تمہیں اشارہ کردیا تھا تو تم نے لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھائی ؟ ، تو ابوبکر (رض) نے جواب دیا ؟ ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے نماز پڑھائے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٨ (٦٨٤) ، العمل في الصلاة ٣ (١٢٠١) ، ٥ (١٢٠٤) ، ١٦ (١٢١٨) ، السھو ٩ (١٢٣٤) ، الصلح ١ (٢٦٩٠) ، الأحکام ٣٦ (٧١٩٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٢ (٤٢١) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٥/٣٣٦، ٣٣٨، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٤، ١٤٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم : ٧٩٤ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔ ٢ ؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان نماز آجائے تو چاہے تو وہی نائب نماز پڑھاتا رہے، اور چاہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب نماز پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی نماز بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 784
اگر امام اپنی رعایا میں سے کسی کی اقتداء میں نماز ادا کرے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی آخری نماز وہ تھی جسے آپ نے ابوبکر (رض) کے پیچھے ایک کپڑے میں اس حال میں پڑھی تھی کہ اس کے دونوں کنارے بغل سے نکال کر آپ کندھے پر ڈالے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٩٤) ، مسند احمد ٣/١٥٩، ٢١٦، ٢٤٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 785
اگر امام اپنی رعایا میں سے کسی کی اقتداء میں نماز ادا کرے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور رسول اللہ ﷺ صف میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٢ (٣٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٢) ، مسند احمد ٦/١٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 786
جو شخص کسی قوم سے ملنے جائے تو ان کی اجازت کے بغیر ان کی امامت نہ کرے
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے : جب تم میں سے کوئی کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ انہیں ہرگز نماز نہ پڑھائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٦ (٥٩٦) مطولاً ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٨ (٣٥٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٦) ، مسند احمد ٣/٤٣٦، ٤٣٧، و ٥/٥٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: إلا یہ کہ وہ لوگ اس کی اجازت دیں جیسا کہ ابن مسعود (رض) کی روایت میں ہے، جو اوپر گزر چکی ہے جس میں إلا بإذنہ کے الفاظ وارد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 787
نابینا شخص کی امامت
محمود بن ربیع سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک (رض) اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول ! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں ! تو رسول اللہ ﷺ آئے، اور آپ نے پوچھا : تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو ؟ انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ میں نماز پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٥ (٤٢٤) ، ٤٦ (٤٢٥) مطولاً ، الأذان ٤٠ (٦٦٧) ، ٥٠ (٦٨٦) ، ١٥٤ (٨٤٠) ، التھجد ٣٦ (١١٨٦) مطولاً ، الأطعمة ١٥ (٥٤٠١) مطولاً ، صحیح مسلم/الإیمان ١٠ (٣٣) ، المساجد ٤٧ (٣٣) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٨ (٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٠) ، موطا امام مالک/السفر ٢٤ (٨٦) ، مسند احمد ٤/٤٣، ٤٤، ٥/٤٤٩، ٤٥٠، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٨٤٥، ١٣٢٨ مطولاً (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نابینا کی امامت بغیر کراہت جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 788
نابالغ لڑکا امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟
عمرو بن سلمہ جرمی (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو ، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو ، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری میں ہی تھا، چناچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوداؤد کی روایت میں ٧ سال کا ذکر ہے، اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مکلف نابالغ بچہ مکلف لوگوں کی امامت کرسکتا ہے، اس لیے کہ یؤم القوم أقراہم لکتاب اللہ کہ عموم میں صبی ممیز (باشعور بچہ) بھی داخل ہے، اور کتاب و سنت میں کوئی بھی نص ایسا نہیں جو اس سے متعارض و متصادم ہو، رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ عمرو بن سلمہ (رض) کے قبیلہ نے انہیں اپنے اجتہاد سے اپنا امام بنایا تھا، نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع نہیں تھی، تو یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نزول وحی کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا، اگر یہ چیز درست نہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع دے دی جاتی، اور آپ اس سے ضرور منع فرما دیتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 789
جس وقت امام نماز پڑھانے کے واسطے باہر کی جانب نکلے تو اس وقت لوگ کھڑے ہوں
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اذان دی جائے، تو جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہوا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ کہیں لوگوں کو دیر تک کھڑا رہنا نہ پڑجائے کیونکہ بسا اوقات کسی وجہ سے آنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 790
اگر تکبیر پوری ہونے کے بعد امام کو کوئی کام پیش آجائے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی، اور رسول اللہ ﷺ ایک شخص سے راز داری کی باتیں کر رہے تھے، تو آپ نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ لوگ سونے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحیض ٣٣ (٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٣) ، مسند احمد ٣/١٠١، ١١٤، ١٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہوسکتا ہے یہ گفتگو کسی ضروری امر پر مشتمل رہی ہو یا آپ ﷺ نے بیان جواز کے لیے ایسا کیا ہو، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اقامت میں اور نماز شروع کرنے میں فصل کرنا نماز کے لیے مضر نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 791
جس وقت امام نماز کی امامت کیلئے اپنی جگہ کھڑا ہوجائے پھر اس کو علم ہو کہ اس کا وضو نہیں ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو لوگوں نے اپنی صفیں درست کیں، اور رسول اللہ ﷺ حجرے سے نکل کر نماز پڑھنے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہوئے، پھر آپ کو یاد آیا کہ غسل نہیں کیا ہے ١ ؎ تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : تم اپنی جگہوں پر رہو ، پھر آپ واپس اپنے گھر گئے پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٥ (٦٣٩، ٦٤٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٥) ، سنن ابی داود/الطھارة ٩٤ (٢٣٥) ، الصلاة ٤٦ (٥٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٠٠) ، مسند احمد ٢/٢٣٧، ٢٥٩، ٢٨٣، ٣٣٨، ٣٣٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ آپ نے ابھی نماز شروع نہیں کی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 792
جس وقت امام کسی جگہ جانے لگے تو کسی کو خلیفہ مقرر کر جانا چاہئے
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں آپس میں لڑائی ہوئی، یہ خبر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر ان کے پاس آئے تاکہ ان میں صلح کرا دیں، اور بلال (رض) سے فرمایا : بلال ! جب عصر کا وقت آجائے اور میں نہ آسکوں تو ابوبکر سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ، چناچہ جب عصر کا وقت آیا، تو بلال (رض) نے اذان دی، پھر اقامت کہی، اور ابوبکر (رض) سے کہا : آگے بڑھیے، تو ابوبکر (رض) آگے بڑھے، اور نماز پڑھانے لگے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، اور لوگوں کو چیرتے ہوئے آگے آئے ١ ؎ یہاں تک کہ ابوبکر (رض) کے پیچھے آ کر کھڑے ہوگئے، تو لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کردیں، اور ابوبکر (رض) کا حال یہ تھا کہ جب وہ نماز شروع کردیتے تو کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوتے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ برابر تالی بج رہی ہے تو وہ متوجہ ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تم نماز جاری رکھو ، تو اس بات پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ اپنی ایڑیوں کے بل الٹے چل کر پیچھے آگئے، جب رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھا تو آپ نے آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر جب اپنی نماز پوری کرچکے تو آپ نے فرمایا : ابوبکر ! جب میں نے تمہیں اشارہ کردیا تھا تو تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی ؟ تو انہوں نے عرض کیا : ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی امامت کرے، پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : جب تمہیں نماز کے اندر کوئی بات پیش آجائے، تو مرد سبحان اللہ کہیں، اور عورتیں تالی بجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٣٦ (٧١٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٣ (٩٤١) ، مسند احمد ٥/٣٣٢، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٤) ، تحفة الأشراف : ٤٦٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صفوں کو چیر کر اندر داخل ہونا درست نہیں، پھر یا تو امام کے لیے یہ جائز ہو، یا پھر آپ نے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھی ہو اسے پُر کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 793
امام کی اتباع کا حکم
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گرپڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آئے، اور نماز کا وقت آپ پہنچا، جب آپ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، والأذان ٥١ (٦٨٩) ، ٨٢ (٧٣٢) ، ١٢٨ (٨٠٥) مطولاً ، تقصیر الصلاة ١٧ (١١١٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤٤ (١٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥) ، موطا امام مالک/الجماعة ٥ (١٦) ، مسند احمد ٣/١١٠، ١٦٢، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩١) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٠٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 794
اس شخص کی پیروی کرنا جو امام کی اتباع کر رہا ہو
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ میں پیچھے رہنے کا عمل دیکھا تو آپ نے فرمایا : تم لوگ آگے آؤ اور میری اقتداء کرو، اور جو تمہارے بعد ہیں وہ تمہاری اقتداء کریں، یاد رکھو کچھ لوگ برابر (اگلی صفوں سے) پیچھے رہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بھی انہیں (اپنی رحمت سے یا اپنی جنت سے) پیچھے کردیتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٨ (٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٥ (٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٠٩) ، مسند احمد ٣/١٩، ٣٤، ٥٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں امام کے قریب کھڑے ہونے کی تاکید اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 795
اس شخص کی پیروی کرنا جو امام کی اتباع کر رہا ہو
اس سند سے بھی ابونضرہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 796
اس شخص کی پیروی کرنا جو امام کی اتباع کر رہا ہو
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، نبی اکرم ﷺ ابوبکر (رض) کے آگے تھے، تو آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور ابوبکر (رض) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے، اور لوگ ابوبکر (رض) کے پیچھے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٣١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 797
اس شخص کی پیروی کرنا جو امام کی اتباع کر رہا ہو
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، اور ابوبکر (رض) آپ کے پیچھے تھے، جب رسول اللہ ﷺ اللہ اکبر کہتے، تو ابوبکر (رض) بھی اللہ اکبر کہتے، وہ ہمیں (آپ کی تکبیر) سنا رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٨٦) (صحیح ) وضاحت : اور یہ بتار ہے تھے کہ آپ ایک حالت سے دوسری حالت میں جا رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 798
جس وقت تین آدمی موجود ہوں تو مقتدی اور امام کس طرف کھڑے ہوں؟
اسود اور علقمہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم دوپہر میں عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا : عنقریب امراء نماز کے وقت سے غافل ہوجائیں گے، تو تم لوگ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنا، پھر وہ اٹھے اور میرے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧١ (٦١٣) ، مسند احمد ١/٤٢٤، ٤٥١، ٤٥٥، ٤٥٩، (تحفة الأشراف : ٩١٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اہل علم کی ایک جماعت جن میں امام شافعی بھی شامل ہیں نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے آپ ﷺ سے اسے مکہ میں سیکھا تھا، اس میں تطبیق کے ساتھ اور دوسری باتیں بھی تھیں جو اب متروک ہیں، یہ بھی منجملہ انہیں میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 799
جس وقت تین آدمی موجود ہوں تو مقتدی اور امام کس طرف کھڑے ہوں؟
فروہ اسلمی کے غلام مسعود بن ھبیرۃ (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس سے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض) گزرے، تو ابوبکر (رض) نے مجھ سے کہا : مسعود ! تم ابوتمیم یعنی اپنے مالک کے پاس جاؤ، اور ان سے کہو کہ وہ ہمیں سواری کے لیے ایک اونٹ دے دیں، اور ہمارے لیے کچھ زاد راہ اور ایک رہبر بھیج دیں جو ہماری رہنمائی کرے، تو میں نے اپنے مالک کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے میرے ساتھ ایک اونٹ اور ایک کُپّا دودھ بھیجا، میں انہیں لے کر خفیہ راستوں سے چھپ چھپا کر چلا تاکہ کافروں کو پتہ نہ چل سکے، جب نماز کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اور ابوبکر (رض) آپ کے دائیں طرف کھڑے ہوئے، ان دونوں کے ساتھ رہ کر میں نے اسلام سیکھ لیا تھا، تو میں آ کر ان دونوں کے پیچھے کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کے سینے پر ہاتھ رکھ کر انہیں پیچھے کی طرف ہٹایا، تو (وہ آ کر ہم سے مل گئے اور) ہم دونوں آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ بریدہ بن سفیان حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٤) (ضعیف) (اس کا راوی ” بریدہ بن سفیان “ ضعیف ہے، اور رافضی شیعہ ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 800
اگر تین اشخاص اور ایک عورت ہو تو کس طرح کھڑے ہوں؟
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر مدعو کیا جسے انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، تو آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ کھایا، پھر فرمایا : اٹھو تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں ، انس (رض) کہتے ہیں : تو میں اٹھ کر اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا جو کافی دنوں سے پڑی رہنے کی وجہ سے کالی ہوگئی تھی، میں نے اس پر پانی چھڑکا، اور اسے آپ کے پاس لا کر بچھایا تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے، اور میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھی، آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر واپس تشریف لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٠ (٣٨٠) ، الأذان ١٦١ (٨٦٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٥٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧١ (٦١٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٩ (٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٩٧) ، موطا امام مالک/السفر ٩ (٣١) ، مسند احمد ٣/١٣١، ١٤٩، ١٦٤، سنن الدارمی/الصلاة ٦١ (١٣٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 801
جس وقت دو مرد اور دو خواتین ہوں تو کس طریقہ سے صف بنائی جائے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، اور اس وقت وہاں صرف میں، میری ماں، ایک یتیم، اور میری خالہ ام حرام تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اٹھو تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں ، (یہ کسی نماز کا وقت نہ تھا) تو آپ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٦٠) ، فضائل الصحابة ٣٢ (٢٤٨١) (في سیاق أطول وبدون ذکر الیتیم في کلا الموضعین) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٩) ، مسند احمد ٣/١٩٣، ٢١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 802
جس وقت دو مرد اور دو خواتین ہوں تو کس طریقہ سے صف بنائی جائے؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ وہ اور رسول اللہ ﷺ تھے، اور ان کی ماں اور ان کی خالہ تھیں، تو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، آپ نے انس (رض) کو اپنی دائیں جانب کھڑا کیا، اور ان کی ماں اور خالہ دونوں کو اپنے اور انس (رض) کے پیچھے کھڑا کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٨ (٦٦٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٠ (٦٠٩) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٤ (٩٧٥) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩) ، مسند احمد ٣/١٩٤، ٢٥٨، ٢٦١، ویأتی عند المؤلف برقم : ٨٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 803
جس وقت ایک لڑکا اور ایک خاتون موجود ہو تو امام کو کس جگہ کھڑا ہونا چاہئے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے بغل میں نماز پڑھی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے ساتھ ہمارے پیچھے نماز پڑھ رہی تھیں، اور میں نبی اکرم ﷺ کے بغل میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٢٠٦) ، مسند احمد ١/٣٠٢، ویأتی عند المؤلف برقم : ٨٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 804
جس وقت ایک لڑکا اور ایک خاتون موجود ہو تو امام کو کس جگہ کھڑا ہونا چاہئے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور میرے گھر کی ایک عورت کو نماز پڑھائی، تو آپ نے مجھے اپنی داہنی جانب کھڑا کیا، اور عورت ہمارے پیچھے تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 805
جس وقت ایک لڑکا امام کے ساتھ موجود ہو تو کس جگہ امام کو کھڑا ہونا چاہئے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری، رسول اللہ ﷺ رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، تو آپ ﷺ نے میرے ساتھ اس طرح کیا یعنی آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی داہنی جانب کھڑا کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٩ (٦٩٩) ، تحفة الأشراف : ٥٥٢٩) ، مسند احمد ١/٣٦٠، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٧) ، الوضوء ٥ (١٣٨) ، الأذان ٥٧ (٦٩٧) ، ٧٩ (٧٢٨) ، الوتر ١ (٩٩٢) ، اللباس ٧١ (٥٩١٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٠ (٦١٠) ، مسند احمد ١/٢١٥، ٢٥٢، ٢٨٥، ٢٨٧، ٣٤١، ٣٤٧، ٣٥٤، ٣٥٧، ٣٦٥، سنن الدارمی/الصلاة ٤٣ (١٢٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 806
امام کے قریب کن لوگ کھڑے ہوں اور ان کے قریب کون ہوں؟
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں (صف بندی کے وقت) ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے، اور فرماتے : تم آگے پیچھے نہ کھڑے ہو کہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑجائے، اور تم میں سے ہوش مند اور باشعور لوگ مجھ سے قریب رہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو (اس وصف میں) ان سے قریب ہو ، ابومسعود (رض) کہتے ہیں : اسی بنا پر تم میں آج اختلافات زیادہ ہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابومعمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٦ (٦٧٤) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٥ (٩٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٤) ، مسند احمد ٤/١٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ٥١ (١٣٠٢) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٨١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 807
امام کے قریب کن لوگ کھڑے ہوں اور ان کے قریب کون ہوں؟
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں مسجد میں اگلی صف میں تھا کہ اسی دوران مجھے میرے پیچھے سے ایک شخص نے زور سے کھینچا، اور مجھے ہٹا کر میری جگہ خود کھڑا ہوگیا، تو قسم اللہ کی غصہ کے مارے مجھے اپنی نماز کا ہوش نہیں رہا، جب وہ (سلام پھیر کر) پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابی بن کعب (رض) ہیں تو انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا : اے نوجوان ! اللہ تجھے رنج و مصیبت سے بچائے ! حقیقت میں نبی اکرم ﷺ سے ہمارا میثاق (عہد) ہے کہ ہم ان سے قریب رہیں، پھر وہ قبلہ رخ ہوئے، اور انہوں نے تین بار کہا : رب کعبہ کی قسم ! تباہ ہوگئے اہل عقد، پھر انہوں نے کہا : لیکن ہمیں ان پر غم نہیں ہے، بلکہ غم ان پر ہے جو بھٹک گئے ہیں، میں نے پوچھا : اے ابو یعقوب ! اہل عقد سے آپ کا کیا مطلب ؟ تو انہوں نے کہا : امراء (حکام) مراد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٢) ، مسند احمد ٥/١٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 808
امام کے نکلنے سے پہلے صفیں سیدھی کر لینا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم کھڑے ہوئے، اور صفیں اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلیں درست کرلی گئیں، پھر رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے یہاں تک کہ جب آپ اپنی نماز پڑھانے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہوگئے تو اس سے پہلے کہ کے آپ تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہیں ہماری طرف پلٹے، اور فرمایا : تم لوگ اپنی جگہوں پہ رہو ، تو ہم برابر کھڑے آپ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ہماری طرف آئے، آپ غسل کئے ہوئے تھے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، تو آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی، اور صلاۃ پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١٧ (٢٧٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٥) ، سنن ابی داود/الطہارة ٩٤ (٢٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٠٩) ، مسند احمد ٢/٥١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 809
امام کس طریقہ سے صفوں کو درست کرے
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صفیں درست فرماتے تھے جیسے تیر درست کئے جاتے ہیں، آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تم اپنی صفیں ضرور درست کرلیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فر مادے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٦) ، سنن ابی داود/الأذان ٩٤ (٦٦٣، ٦٦٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٣ (٢٢٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٠ (٩٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٠) ، مسند احمد ٤/٢٧٠، ٢٧١، ٢٧٢، ٢٧٦، ٢٧٧ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا، مطلب ہے کہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈال دے گا جس کی وجہ سے تمہارے اندر تفرق و انتشار عام ہوجائے گا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے اس کے حقیقی معنی مراد ہیں یعنی تمہارے چہروں کو گدّی کی طرف پھیر کر انہیں بدل اور بگاڑ دے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 810
امام کس طریقہ سے صفوں کو درست کرے
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے کندھوں اور سینوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ١ ؎ صفوں کے بیچ میں سے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جاتے، اور فرماتے : اختلاف نہ کرو ٢ ؎ ورنہ تمہارے دل مختلف ہوجائیں ٣ ؎ نیز فرماتے : اللہ تعالیٰ اگلی صفوں پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٦) ، مسند احمد ٤/٢٨٥، ٢٩٦، ٢٩٧، ٢٩٨، ٢٩٩، ٣٠٤، سنن الدارمی/الصلاة ٤٩ (١٢٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انہیں درست کرتے ہوئے۔ ٢ ؎: یعنی آگے پیچھے نہ کھڑے ہو۔ ٣ ؎: یعنی ان میں پھوٹ پڑجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 811
جس وقت امام آگے کی جانب بڑھے تو صف کو برابر کرنے کے واسطے کیا کہنا چاہئے؟
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے مونڈھوں پہ ہاتھ پھیرتے ١ ؎ اور فرماتے : صفیں سیدھی رکھو، اختلاف نہ کرو ٢ ؎ ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف پیدا ہوجائے گا، اور تم میں سے جو ہوش مند اور باشعور ہوں مجھ سے قریب رہیں، پھر (اس وصف میں) وہ جو ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مونڈھوں پہ ہاتھ پھیرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں درست فرماتے تاکہ کوئی صف سے آگے پیچھے نہ رہے۔ ٢ ؎: اختلاف نہ کرو کا مطلب ہے کسی کا کندھا آگے پیچھے نہ ہو، ورنہ اس کا اثر دلوں پر پڑے گا، اور تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 812
امام کتنی بار یہ کہے کہ تم لوگ برابر ہوجاؤ؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے : برابر ہوجاؤ، برابر ہوجاؤ، برابر ہوجاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٨١) ، مسند احمد ٣/٢٦٨، ٢٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 813
امام لوگوں کو صفیں درست کرنے کی توجہ دلائے اور لوگوں کو ملا کر کھڑے ہونے کی ہدایت کرے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے، اور اللہ اکبر کہنے سے پہلے فرماتے : تم اپنی صفیں درست کرلو، اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہوجاؤ، ١ ؎ کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٥٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٧١ (٧١٨) ، ٧٢ (٧١٩) ، ٧٦ (٧٢٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٤) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٨٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تراص کے معنی اس طرح مل کر کھڑے ہونے کے ہیں جیسے دیوار میں ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ پیوست ہوتی ہے درمیان میں ذرا سا بھی فاصلہ اور شگاف نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 814
امام لوگوں کو صفیں درست کرنے کی توجہ دلائے اور لوگوں کو ملا کر کھڑے ہونے کی ہدایت کرے
قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم اپنی صفیں سیسہ پلائی دیوار کی طرح درست کرلو، اور انہیں ایک دوسرے کے نزدیک رکھو، اور گردنیں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں شیاطین کو صف کے درمیان ١ ؎ گھستے ہوئے دیکھتا ہوں جیسے وہ بکری کے کالے بچے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢) ، مسند احمد ٣/٢٦٠، ٢٨٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کا صفوں کے درمیان شگافوں میں شیطان کو گھستے ہوئے دیکھنا یا تو حقیقتاً ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزے کے طور پر یہ منظر دکھایا ہو، یا بذریعہ وحی آپ کو اس سے آگاہ کیا گیا ہو کہ صفوں میں خلا رکھنے سے شیطان خوش ہوتا ہے، اور اسے وسوسہ اندازی کا موقع ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 815
امام لوگوں کو صفیں درست کرنے کی توجہ دلائے اور لوگوں کو ملا کر کھڑے ہونے کی ہدایت کرے
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور فرمایا : کیا تم لوگ صف نہیں باندھو گے جس طرح فرشتے اپنے رب کے پاس باندھتے ہیں ، لوگوں نے پوچھا : فرشتے اپنے رب کے پاس کیسے صف باندھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ پہلے اگلی صف پوری کرتے ہیں، پھر وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣٠) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٠ (٩٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٧) ، مسند احمد ٥/١٠١، ١٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 816
پہلی صف کی دوسری صف پر فضیلت
عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف کے لیے تین بار اور دوسری صف کے لیے ایک بار دعا فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ٥١ (٩٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٤) ، مسند احمد ٤/١٢٦، ١٢٧، ١٢٨، سنن الدارمی/الصلاة ٥٠ (١٣٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 817
پیچھے والی صف سے متعلق
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پہلے اگلی صف پوری کرو، پھر جو اس سے قریب ہو، اور اگر کچھ کمی رہے تو پچھلی صف میں رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٥) ، مسند احمد ٣/١١٦، ١٣٢، ٢١٥، ٢٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 818
جو شخص صفوں کو ملائے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو صف کو جوڑے گا اللہ تعالیٰ اسے جوڑے گا، اور جو صف کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے کاٹے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٠) ، مسند احمد ٢/٩٧، ٩٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صف کو جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خلاء اور شگاف باقی نہ رہنے دیا جائے، اسی طرح اگلی صف مکمل کئے بغیر دوسری صف شروع نہ کی جائے، اور صف کو کاٹنا یہ ہے کہ صف میں خلاء چھوڑ دیا جائے یا اگلی صف میں جگہ ہوتے ہوئے دوسری صف شروع کردی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 819
مردوں کی صف میں کونسی صف بری ہے اور خواتین کی کونسی صف بہتر ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے ١ ؎، اور بدتر صف آخری صف ہے ٢ ؎، اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری صف ہے ٣ ؎، اور ان کی سب سے بدتر صف پہلی صف ہے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٨ (٦٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٢ (٢٢٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٢ (١٠٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٦) ، مسند احمد ٢/٢٤٧، ٣٣٦، ٣٤٠، ٣٦٧، ٤٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ٥٢ (١٣٠٤) (صحیح ٧٩٠ ) وضاحت : ١ ؎: پہلی صف سے مراد وہ صف ہے جو امام سے متصل ہوتی ہے سب سے بہتر صف پہلی صف ہے کا مطلب ہے کہ دوسری صفوں کی بہ نسبت اس میں خیر و بھلائی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ جو صف امام سے قریب ہوتی ہے تو جو لوگ اس میں ہوتے ہیں وہ امام سے براہ راست فائدہ اٹھاتے ہیں، تلاوت قرآن اور تکبیرات سنتے ہیں، اور عورتوں سے دور رہنے سے نماز میں خلل انداز ہونے والے وسوسوں، اور برے خیالات سے محفوظ رہتے ہیں، اور آخری صف سب سے بری صف ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں خیر و بھلائی دوسری صفوں کی بہ نسبت کم ہے یہ مطلب نہیں کہ اس میں جو لوگ ہوں گے وہ برے ہوں گے۔ ٢ ؎: کیونکہ عورتوں سے قریب ہوتی ہے۔ ٣ ؎: عورتوں کے حق میں آخری صف اس لیے بہتر ہے کہ یہ مردوں سے دور ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس صف میں شریک عورتیں شیطان کے وسوسوں اور فتنوں سے محفوظ رہتی ہیں۔ ٤ ؎: عورتوں کے حق میں پہلی صف اس لیے بدتر ہے کہ یہ مردوں سے قریب ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 820
ستون کے درمیان صف بندی
عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں کہ ہم انس (رض) کے ساتھ تھے کہ ہم نے حکام میں سے ایک حاکم کے ساتھ نماز پڑھی، لوگوں نے ہمیں (بھیڑ کی وجہ سے) دھکیلا یہاں تک کہ ہم نے دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھی، تو انس (رض) پیچھے ہٹ گئے اور کہنے لگے : ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اس سے بچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٥ (٦٧٣) مختصراً ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٥ (٢٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٠) ، مسند احمد ٣/١٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 821
ستون کے درمیان صف بندی
براء (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو میں آپ کے دائیں کھڑا ہونے کو پسند کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٨ (٧٠٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٢ (٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٥ (١٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩) ، مسند احمد ٤/٢٩٠، ٣٠٠، ٣٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 822
امام نماز پڑھنے میں کس قدر تخفیف سے کام لے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور بوڑھے لوگ بھی ہوتے ہیں، اور جب کوئی تنہا نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٢ (٧٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٧ (٧٩٤) ، موطا امام مالک/الجماعة ٤ (١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٥) ، مسند احمد ٢/٢٥٦، ٢٧١، ٣١٧، ٣٩٣، ٤٨٦، ٥٠٢، ٥٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 823
امام نماز پڑھنے میں کس قدر تخفیف سے کام لے؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے ہلکی اور کامل نماز پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٧ (٤٦٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦١ (٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٢) ، مسند احمد ٣/١٧٠، ١٧٣، ١٧٩، ٢٣١، ٢٣٤، ٢٧٦، ٢٧٩، سنن الدارمی/الصلاة ٤٦ (١٢٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسی ہلکی نہیں ہوتی تھی جس سے نماز کے ارکان کی ادائیگی میں کوئی خلل اور نقص واقع ہو، قیام و قعود اور رکوع و سجود وغیرہ ارکان میں اتمام فرماتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 824
امام نماز پڑھنے میں کس قدر تخفیف سے کام لے؟
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور بچوں کا رونا سنتا ہوں تو اپنی نماز ہلکی کردیتا ہوں، اس ڈر سے کہ میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٥ (٧٠٧) ، ١٦٣ (٨٦٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٦ (٧٨٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٩ (٩٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٠) ، مسند احمد ٥/٣٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 825
امام کیلئے طویل قرأت کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہلکی نماز پڑھانے کا حکم دیتے، اور آپ ہماری امامت سورة الصافات سے کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٧٤٩) ، مسند احمد ٢/٢٦، ٤٠، ١٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس میں ایک سو اسی آیتیں ہیں، اور عمومی طور پر آپ ساٹھ سے سو آیتیں پڑھا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 826
امام کو نماز کے درمیان کون کونسا کام کرنا درست ہے؟
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا، آپ (اپنی نواسی) امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ رکوع میں جاتے تو اسے اتار دیتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اسے دوبارہ اٹھا لیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 827
امام سے آگے رکوع اور سجدہ کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ محمد ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے کیا وہ (اس بات سے) نہیں ڈرتا کہ ١ ؎ اللہ اس کا سر گدھے کے سر میں تبدیل نہ کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٧) ، سنن الترمذی/فیہ ٢٩٢ (٥٨٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤١ (٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٢) ، مسند احمد ٢/٢٦٠، ٢٧١، ٤٢٥، ٤٥٦، ٤٦٩، ٤٧٢، ٥٠٤، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ اس سزا کا مستحق ہے اس لیے اسے اس کا ڈر اور خدشہ لگا رہنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 828
امام سے آگے رکوع اور سجدہ کرنا
براء (رض) (جو جھوٹے نہ تھے ١ ؎) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، اور آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں جا چکے ہیں، پھر وہ سجدہ میں جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥٢ (٦٩٠) ، ٩١ (٧٤٧) ، ١٣٣ (٨١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٩ (٤٧٤) ، سنن ابی داود/فیہ ٧٥ (٦٢٠) ، سنن الترمذی/فیہ ٩٣ (٢٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢) ، مسند احمد ٤/٢٨٤، ٢٨٥، ٣٠٠، ٣٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بھروسہ مند اور قابل اعتماد تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 829
امام سے آگے رکوع اور سجدہ کرنا
حطان بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی تو جب وہ قعدہ میں گئے تو قوم کا ایک آدمی اندر آیا اور کہنے لگا کہ نماز نیکی اور زکاۃ کے ساتھ ملا دی گئی ہے ١ ؎، تو جب ابوموسیٰ اشعری (رض) سلام پھیر کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے پوچھا : تم میں سے کس نے یہ بات کہی ہے ؟ تو سبھی لوگ خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، تو انہوں نے کہا : اے حطان ! شاید تم نے ہی یہ بات کہی ہے ! تو انہوں نے کہا : نہیں میں نے نہیں کہی ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ مجھ ہی کو اس پر سرزنش نہ کرنے لگ جائیں، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمیں ہماری نماز اور ہمارے طریقے سکھاتے تھے، تو آپ فرماتے : امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم لوگ آمین کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری (دعا) قبول فرمائے گا، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ (رکوع) سے سر اٹھائے اور سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ سجدہ سے سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے، اور تم سے پہلے سر بھی اٹھاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ادھر کی کسر ادھر پوری ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٧٢، ٩٧٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٤ (٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٧) ، مسند احمد ٤/٣٩٣، ٣٩٤، ٤٠١، ٤٠٥، ٤٠٩، ٤١٥، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٥١) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٠٦٥، ١١٧٣، ١٢٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : نماز کا نیکی اور زکاۃ کے ساتھ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے، اور تینوں کا ایک ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 830
کوئی شخص امام کی اقتداء توڑ کر مسجد کے کونہ میں علیحدہ نماز ادا کرے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص آیا اور نماز کھڑی ہوچکی تھی تو وہ مسجد میں داخل ہوا، اور جا کر معاذ (رض) کے پیچھے نماز پڑھنے لگا، انہوں نے رکعت لمبی کردی، تو وہ شخص (نماز توڑ کر) الگ ہوگیا، اور مسجد کے ایک گوشے میں جا کر (تنہا) نماز پڑھ لی، پھر چلا گیا، جب معاذ (رض) نے نماز پوری کرلی تو ان سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا ہے، تو معاذ (رض) نے کہا : اگر میں نے صبح کرلی تو اسے رسول اللہ ﷺ سے ضرور بیان کروں گا ؛ چناچہ معاذ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو بلا بھیجا، وہ آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا : تمہیں کس چیز نے ایسا کرنے پر ابھارا ؟ تو اس نے جواب دیا : اللہ کے رسول ! میں نے دن بھر (کھیت کی) سینچائی کی تھی، میں آیا، تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی، تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور ان کے ساتھ نماز میں شامل ہوگیا، انہوں نے فلاں فلاں سورت پڑھنی شروع کردی، اور (قرآت) لمبی کردی، تو میں نے نماز توڑ کر جا کر الگ ایک کونے میں نماز پڑھ لی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو ؟ معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو ؟ معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٠ (٧٠١) ، ٦٣ (٧٠٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأدب ٧٤ (٦١٠٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٨ (٥٩٩) ، ١٢٧ (٧٩٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٨ (٩٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٣٧، ٢٥٨٢) ، مسند احمد ٣/٢٩٩، ٣٠٨، ٣٦٩، سنن الدارمی/الصلاة ٦٥ (١٣٣٣) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٩٨٥ مختصراً ، ٩٩٨ مختصراً (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی لوگوں کو پریشان کرتے ہو کہ وہ مجبور ہو کر نماز توڑ دیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 831
اگر امام بیٹھ کر نماز ادا کرے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر ادا کریں
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گرگئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آگئی، تو آپ نے کچھ نمازیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا : امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو، اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥١ (٦٨٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٩) ، موطا امام مالک/الجماعة ٥ (١٦) ، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 832
اگر امام بیٹھ کر نماز ادا کرے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر ادا کریں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری بڑھ گئی، بلال (رض) آپ کو نماز کی خبر دینے آئے، آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سنا سکیں گے ١ ؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں ، تو میں نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم ﷺ سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم یوسف (علیہ السلام) کی ساتھ والیاں ہو ٢ ؎، ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا، تو جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر نماز میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر (رض) نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو ، ام المؤمنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آ کر ابوبکر (رض) کے بائیں بیٹھ گئے، آپ ﷺ لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر (رض) کھڑے تھے، ابوبکر رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر (رض) کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٩ (٦٦٤) ، ٦٧ (٧١٢) ، ٦٨ (٧١٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤٢ (١٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٥) ، مسند احمد ٦/٣٤، ٩٦، ٩٧، ٢١٠، ٢٢٤، ٢٢٨، ٢٤٩، ٢٥١، سنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر ایسی رقت طاری ہوجائے گی کہ وہ رونے لگیں گے، اور قرأت نہیں کرسکیں گے۔ ٢ ؎: اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، جیسے قرآن میں صرف امرأ ۃ العزیز مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ عائشہ امرأ ۃ العزیز کی طرح دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھیں، اور اظہار کسی اور بات کا کر رہی تھیں، وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر ابوبکر (رض) آپ کی جگہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ کی وفات ہوگئی تو لوگ ابوبکر (رض) کو منحوس سمجھیں گے، اس لیے بہانہ بنا رہی تھیں رقیق القلبی کا، ایک موقع پر انہوں نے یہ بات ظاہر بھی کردی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 833
اگر امام بیٹھ کر نماز ادا کرے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر ادا کریں
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی ؟ انہوں نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا : کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ تو ہم نے عرض کیا : نہیں، اللہ کے رسول ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے ٹب میں پانی رکھو ؛ چناچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بےہوشی طاری ہوگئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے پوچھا : کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ تو ہم نے عرض کیا : نہیں، اللہ کے رسول ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میرے لیے ٹب میں پانی رکھو ؛ چناچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بیہوش ہوگئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر (رض) کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ابوبکر (رض) نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر (رض) سے) کہا : عمر ! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو ، تو انہوں نے کہا : آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چناچہ ان ایام میں ابوبکر (رض) نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس (رض) تھے) نماز ظہر کے لیے آئے، تو جب ابوبکر (رض) نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابوبکر (رض) کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، لوگ ابوبکر (رض) کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ (عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا : کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا : کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس (رض) کے ساتھ تھے ؟ میں نے کہا : نہیں، تو انہوں نے کہا : وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥١ (٦٨٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣١٧) ، مسند احمد ٢/٥٢، ٦/٢٤٩، ٢٥١، سنن الدارمی/الصلاة ٤٤ (١٢٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 834
اگر مقتدی اور امام کی نیت میں اختلاف ہو؟
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ معاذ (رض) نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کی امامت کرتے، ایک رات انہوں نے نماز لمبی کردی، نبی اکرم ﷺ کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آ کر ان کی امامت کرنے لگے، تو انہوں نے سورة البقرہ کی قرآت شروع کردی، جب مقتدیوں میں سے ایک شخص نے قرآت سنی تو نماز توڑ کر پیچھے جا کر الگ سے نماز پڑھ لی، پھر وہ (مسجد سے) نکل گیا، تو لوگوں نے پوچھا، فلاں ! تو منافق ہوگیا ہے ؟ تو اس نے کہا : اللہ کی قسم میں نے منافقت نہیں کی ہے، اور میں نبی اکرم ﷺ کے پاس جاؤں گا، اور آپ کو اس سے باخبر کروں گا ؛ چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، پھر ہمارے پاس آتے ہیں، اور ہماری امامت کرتے ہیں، پچھلی رات انہوں نے نماز بڑی لمبی کردی، انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر واپس آ کر انہوں نے ہماری امامت کی، تو سورة البقرہ پڑھنا شروع کردی، جب میں نے ان کی قرآت سنی تو پیچھے جا کر میں نے (تنہا) نماز پڑھ لی، ہم پانی ڈھونے والے لوگ ہیں، دن بھر اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا : معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو تم (نماز میں) فلاں، فلاں سورت پڑھا کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٨ (٦٠٠) ، ١٢٧ (٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 835
اگر مقتدی اور امام کی نیت میں اختلاف ہو؟
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خوف کی نماز پڑھائی، تو اپنے پیچھے والوں کو دو رکعت پڑھائی، (پھر وہ چلے گئے) اور جو ان کی جگہ آئے انہیں بھی دو رکعت پڑھائی، تو اس طرح نبی کریم ﷺ کی چار رکعتیں ہوئیں، اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٨٨ (١٢٤٨) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٣) ، مسند احمد ٥/٣٩، ٤٩، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٥٥٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کی چار رکعتوں میں سے پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئیں، جب کہ ان دو رکعتوں میں آپ کے جو مقتدی تھے انہوں نے اپنی فرض پڑھی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 836
فضیلت جماعت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٠ (٦٤٥) ، ٣١ (٦٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٥٠) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٨٣٦٧) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (١) ، مسند احمد ٢/١٧، ٦٥، ١٠٢، ١١٢، ١٥٦، سنن الدارمی/الصلاة ٥٦ (١٣١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 837
فضیلت جماعت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جماعت کی نماز تم میں سے کسی کی تنہا نماز سے پچیس گنا افضل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٢ (٦٤٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٧ (٢١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٩) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (٢) ، مسند احمد ٢/٢٥٢، ٢٦٤، ٢٦٦، ٢٧٣، ٣٢٨ (بلفظ : سبع وعشرون) ٣٩٦، ٤٥٤، ٤٧٣، ٤٧٥، ٤٨٥، ٤٨٦، ٥٢٠، ٥٢٥، ٥٢٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ٢٧ گنا، اور اس میں ٢٥ گنا زیادہ فضیلت بتائی گئی ہے، اس کی توجیہ بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ فضیلت رسول اللہ ﷺ کو پہلے ٢٥ گنا بتلائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں مزید اضافہ فرما کر اسے ٢٧ گنا کردیا، اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کمی بیشی نماز میں خشوع و خضوع اور اس کے سنن و آداب کی حفاظت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 838
فضیلت جماعت
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جماعت کی نماز تنہا نماز سے پچیس درجہ بڑھی ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٤٧١) ، مسند احمد ٦/٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 839
جس وقت تین آدمی ہوں تو نماز جماعت سے پڑھیں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرے، اور امامت کا زیادہ حقدار ان میں وہ ہے جسے قرآن زیادہ یاد ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 840
اگر تین اشخاص ہوں ایک مرد ایک بچہ اور ایک عورت تو جماعت کرائیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے بغل میں نماز پڑھی، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے ساتھ ہمارے پیچھے نماز پڑھ رہیں تھیں، اور میں نبی اکرم ﷺ کے بغل میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 841
جب دو آدمی ہوں تو جماعت کرائیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو میں آپ کے بائیں کھڑا ہوا، تو آپ نے مجھے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑا، اور (پیچھے سے لا کر) اپنے دائیں کھڑا کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ٧٠ (٦١٠) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٧) ، مسند احمد ١/٢٤٩، ٣٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 842
جب دو آدمی ہوں تو جماعت کرائیں
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا فلاں نماز میں موجود ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اور فلاں ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں نمازیں (عشاء اور فجر) منافقین پر سب سے بھاری ہیں، اگر لوگ جان لیں کہ ان دونوں نمازوں میں کیا اجر و ثواب ہے، تو وہ ان دونوں میں ضرور آئیں خواہ چوتڑوں کے بل انہیں گھسٹ کر آنا پڑے، اور پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے، اگر تم اس کی فضیلت جان لو تو تم اس میں شرکت کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے، کسی آدمی کا کسی آدمی کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے ١ ؎، اور ایک شخص کا دو آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور لوگ جتنا زیادہ ہوں گے اتنا ہی وہ نماز اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٨ (٥٥٤) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٦ (٧٩٠) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٣٦) ، مسند احمد ٥/١٤٠، ١٤١، سنن الدارمی/الصلاة ٥٣ (١٣٠٧، ١٣٠٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اسی جملے سے باب کی مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 843
نفل نماز کے واسطے جماعت کرنا
عتبان بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے اور میرے قبیلہ کی مسجد کے درمیان (برسات میں) سیلاب حائل ہوجاتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لاتے، اور میرے گھر میں ایک جگہ نماز پڑھ دیتے جسے میں مصلیٰ بنا لیتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اچھا ہم آئیں گے ، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے پوچھا : تم کہاں چاہتے ہو ؟ تو میں نے گھر کے ایک گوشہ کی جانب اشارہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٨٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے جماعت کے ساتھ نفل پڑھنے کا جواز ثابت ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 844
جو نماز قضاء ہوجائے اس کے واسطے جماعت کرنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنی صفوں کو درست کرلیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨١٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہمیشہ اپنی پیٹھ کے پیچھے دیکھنے پر قادر تھے بلکہ یہ ایک معجزہ تھا جس کا ظہور جماعت کے وقت اللہ کی مشیئت سے ہوتا تھا، یہ حدیث نُسّاخ کی غلطی سے یہاں درج ہوگئی ہے، باب سے اس کو کوئی مناسبت نہیں ہے، اور بقول علامہ پنجابی : یہ بعض نسخوں کے اندر ہے بھی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 845
جو نماز قضاء ہوجائے اس کے واسطے جماعت کرنے سے متعلق
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم (سفر میں) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ لوگ کہنے لگے : اللہ کے رسول ! کاش آپ آرام کے لیے پڑاؤ ڈالتے، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ تم کہیں نماز سے سو نہ جاؤ، اس پر بلال (رض) نے کہا : میں آپ سب کی نگرانی کروں گا، چناچہ سب لوگ لیٹے، اور سب سو گئے، بلال (رض) نے اپنی پیٹھ اپنی سواری سے ٹیک لی، (اور وہ بھی سو گئے) رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو سورج نکل چکا تھا، آپ ﷺ نے بلال (رض) سے فرمایا : بلال ! کہاں گئی وہ بات جو تم نے کہی تھی ؟ بلال (رض) نے عرض کیا : مجھ پر ایسی نیند جیسی اس بار ہوئی کبھی طاری نہیں ہوئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے، اور جب چاہتا ہے اسے لوٹا دیتا ہے، بلال اٹھو ! اور لوگوں میں نماز کا اعلان کرو ؛ چناچہ بلال کھڑے ہوئے، اور انہوں نے اذان دی، پھر لوگوں نے وضو کیا، اس وقت سورج بلند ہوچکا تھا، تو آپ کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٥ (٥٩٥) ، التوحید ٣١ (٧٤٧١) (مختصراً علي قولہ : إن اللہ إذا الخ) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٣٩، ٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٦) ، مسند احمد ٥/٣٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 846
نماز با جماعت میں حاضر نہ ہونے کی وعید
معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ مجھ سے ابودرداء (رض) نے پوچھا : تمہارا گھر کہاں ہے ؟ میں نے کہا : حمص کے دُوَین نامی بستی میں، اس پر ابودرداء (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب کسی بستی یا بادیہ میں تین افراد موجود ہوں، اور اس میں نماز نہ قائم کی جاتی ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑ یا ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری ہی کو کھاتا ہے ۔ سائب کہتے ہیں : جماعت سے مراد نماز کی جماعت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٧) ، مسند احمد ٥/١٩٦ و ٦/٤٤٦ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 847
جماعت میں شرکت نہ کرنے کی وعید
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، تو وہ جمع کی جائے، پھر میں حکم دوں کہ نماز کے لیے اذان کہی جائے، پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کے سمیت ان کے گھروں میں آگ لگا دوں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے (مسجد میں) ایک موٹی ہڈی یا دو اچھے کھر ملیں گے تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٩ (٦٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان الأحکام ٥٢ (٧٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣٢) ، موطا امام مالک/ صلاة الجماعة ١ (٣) ، مسند احمد ٢/٢٤٤، ٣٧٦، ٤٧٩، ٤٨٠، ٥٣١، سنن الدارمی/الصلاة ٥٤ (١٣١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 848
جس جگہ پر اذان ہوتی ہے وہاں پر جماعت میں شرکت کرنا لازم ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے تھے کہ جس شخص کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے کہ وہ مسلمان ہو، تو وہ ان پانچوں نمازوں کی محافظت کرے ١ ؎، جب ان کی اذان دی جائے، کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ کے لیے ہدایت کے راستے مقرر کر دئیے ہیں، اور یہ نمازیں ہدایت کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ تم میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کی ایک مسجد اس کے گھر میں نہ ہو جس میں وہ نماز پڑھتا ہو، اگر تم اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھو گے اور اپنی مسجدوں کو چھوڑ دو گے تو تم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دو گے، اور اگر تم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے، اور جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر نماز کے لیے (اپنے گھر سے) چلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے عوض جسے وہ اٹھاتا ہے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، یا اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے، یا اس کے عوض اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے، میں نے اپنے لوگوں (صحابہ کرام) کو دیکھا ہے جب ہم نماز کو جاتے تو قریب قریب قدم رکھتے، (تاکہ نیکیاں زیادہ ملیں) اور میں نے دیکھا کہ نماز سے وہی پیچھے رہتا جو منافق ہوتا، اور جس کا منافق ہونا لوگوں کو معلوم ہوتا، اور میں نے (عہدرسالت میں) دیکھا کہ آدمی کو دو آدمیوں کے درمیان سہارا دے کر (مسجد) لایا جاتا یہاں تک کہ لا کر صف میں کھڑا کردیا جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٤ (٦٥٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٥٠) مختصراً ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٩٥٠٢) ، مسند احمد ١/٣٨٢، ٤١٤، ٤١٥، ٤١٩، ٤٥٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انہیں مسجد میں جا کر جماعت سے پڑھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 849
جس جگہ پر اذان ہوتی ہے وہاں پر جماعت میں شرکت کرنا لازم ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک نابینا شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ١ ؎، اور اس نے عرض کیا : میرا کوئی راہبر (گائیڈ) نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لائے، اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اسے اس کے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں، آپ ﷺ نے اسے اجازت دے دی، پھر جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا، تو آپ ﷺ نے اسے بلایا، اور اس سے پوچھا : کیا تم اذان سنتے ہو ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو (مؤذن کی پکار پر) لبیک کہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٣ (٦٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ عبداللہ بن ام مکتوم (رض) تھے۔ ٢ ؎: یعنی مسجد میں آ کر جماعت ہی سے نماز پڑھو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 850
جس جگہ پر اذان ہوتی ہے وہاں پر جماعت میں شرکت کرنا لازم ہے
عبداللہ بن ام مکتوم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مدینہ میں کیڑے مکوڑے (سانپ بچھو وغیرہ) اور درندے بہت ہیں، (تو کیا میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں) آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم حى على الصلاة، اور حى على الفلاح کی آواز سنتے ہو ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو آؤ، اور آپ نے انہیں جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہیں دی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٧ (٥٥٣) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٠٧٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 851
عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنا
عروہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ارقم (رض) اپنے لوگوں کی امامت کرتے تھے، ایک دن نماز کا وقت آیا، تو وہ اپنی حاجت کے لیے چلے گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا ہے : جب تم میں سے کوئی پاخانہ کی حاجت محسوس کرے، تو نماز سے پہلے اس سے فارغ ہو لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ٤٣ (٨٨) مطولاً ، سنن الترمذی/الطھارة ١٠٨ (١٤٢) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ١١٤ (٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤١) ، (بدون ذکر القصة) ، موطا امام مالک/قصرالصلاة في السفر ١٧ (٤٩) ، مسند احمد ٣/٤٨٣، ٤/٣٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٧ (١٤٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 852
عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز (جماعت) کھڑی کردی گئی ہو، تو پہلے کھانا کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٦ (٥٥٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٤٦ (٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٤ (٩٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦) ، مسند احمد ٣/١٠٠، ١١٠، ١٦١، ٢٣١، ٢٣٨، ٢٤٩، سنن الدارمی/الصلاة ٥٨ (١٣١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 853
عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنا
اسامہ بن عمیر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین میں تھے کہ ہم پر بارش ہونے لگی، تو رسول اللہ ﷺ کے مؤذن نے آواز لگائی : (لوگو ! ) اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٣ (١٠٥٧، ١٠٥٨، ١٠٥٩) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣٥ (٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣) ، مسند احمد ٥/٢٤، ٧٤، ٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 854
بغیر جماعت کے جماعت کا اجر کب ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر وہ مسجد کا ارادہ کر کے نکلا، (اور مسجد آیا) تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھے گا جتنا اس شخص کو ملا ہے جو جماعت میں موجود تھا، اور یہ ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥٢ (٥٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨١) ، مسند احمد ٢/٣٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 855
بغیر جماعت کے جماعت کا اجر کب ہے؟
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے نماز کے لیے وضو کیا، اور کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا، اور آ کر لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی یا جماعت کے ساتھ، یا مسجد میں (تنہا) نماز پڑھی، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں ١ ؎ کو بخش دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٨ (٦٤٣٣) ، صحیح مسلم/الطھارة ٤ (٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٩٧) ، مسند احمد ١/٦٤، ٦٧، ٧١، (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 856
اگر کوئی شخص نماز تنہا پڑھ چکا ہو پھر جماعت سے نماز ہونے لگے تو دوبارہ نماز پڑھے
محجن (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ مؤذن نے نماز کے لیے اذان دی، تو رسول اللہ ﷺ اٹھے (اور جا کر نماز پڑھی) ، پھر (نماز پڑھ کر) لوٹے، اور محجن اپنی مجلس ہی میں بیٹھے رہے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں ! لیکن میں نے اپنے گھر میں نماز پڑھ لی تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : جب تم آؤ (اور لوگ نماز پڑھ رہے ہوں) تو لوگوں کے ساتھ تم بھی نماز پڑھ لیا کرو، اگرچہ تم پڑھ چکے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، موطا امام مالک/الجماعة ٣ (٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢١٩) ، مسند احمد ٤/٣٤، ٣٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 857
جو شخص نماز فجر تنہا ادا کرچکا ہو پھر جماعت ہو تو نماز دوبارہ پڑھ لے
یزید بن اسود عامری (رض) کہتے ہیں کہ میں مسجد خیف میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز میں موجود تھا، جب آپ اپنی نماز پوری کرچکے تو آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے آخر میں دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے، آپ نے فرمایا : ان دونوں کو میرے پاس لاؤ، چناچہ ان دونوں کو لایا گیا، ان کے مونڈھے (گھبراہٹ سے) کانپ رہے تھے وہ گھبرائے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا : تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ تو ان دونوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، جب تم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکو، پھر مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو تم ان کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہوجائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥٧ (٥٧٥، ٥٧٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٩ (٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٢) ، مسند احمد ٤/١٦٠، ١٦١، سنن الدارمی/الصلاة ٩٧ (١٤٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو تم دونوں نے امام کے ساتھ پڑھی ہے یا جو تم نے ڈیرے میں پڑھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 858
اگر نماز کا افضل وقت گزرنے کے بعد جماعت ہو جب بھی شرکت کر لے
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے میری ران پہ ہاتھ مار کر مجھ سے فرمایا : جب تم ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو نماز کو اس کے وقت سے دیر کر کے پڑھیں گے تو کیسے کرو گے ؟ انہوں نے کہا : آپ جیسا حکم دیں، آپ ﷺ نے فرمایا : نماز اول وقت پر پڑھ لینا، پھر تم اپنی ضرورت کے لیے چلے جانا، اور اگر جماعت کھڑی ہوچکی ہو اور تم (ابھی) مسجد ہی میں ہو تو پھر نماز پڑھ لینا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 859
جو شخص امام کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرچکا ہو اس کو دوسری جماعت میں شرکت کرنا لازم نہیں ہے
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کو بلاط (ایک جگہ کا نام) پر بیٹھے ہوئے دیکھا، اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا بات ہے آپ کیوں نہیں نماز پڑھ رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : دراصل میں نماز پڑھ چکا ہوں، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دن میں دو بار نماز نہ لوٹائی جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٥٨ (٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٤) ، مسند احمد ٢/١٩، ٤١ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ترجمۃ الباب سے مصنف نے یہ اشارہ کیا ہے کہ یہ بات اس صورت پر محمول ہوگی جب اس نے مسجد میں باجماعت نماز پڑھی ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 860
نماز کیلئے کس طریقہ سے جانا چاہئے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ چلتے ہوئے آؤ، اور تم پر (وقار) سکینت طاری ہو، نماز جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٨ (٦٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٨ (٣٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٧) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد ٢/٢٣٧، ٢٣٨، ٢٣٩، ٢٧٠، ٢٨٢، ٣١٨، ٣٨٢، ٣٨٧، ٤٢٧، ٤٥٢، ٤٦٠، ٤٧٢، ٤٨٩، ٥٢٩، ٥٣٢، ٥٣٣، سنن الدارمی/الصلاة ٥٩ (١٣١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 861
نماز کے واسطے جلدی چلنا بغیر دوڑے ہوئے
ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز پڑھ چکتے تو بنی عبدالاشہل کے لوگوں میں جاتے اور ان سے گفتگو کرتے یہاں تک کہ مغرب کی نماز کے لیے اترتے، نبی اکرم ﷺ مغرب کی نماز کے لیے تیزی سے جا رہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : افسوس ہے تم پر، افسوس ہے تم پر آپ ﷺ کی یہ بات مجھے گراں لگی، اور یہ سمجھ کر کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں، میں پیچھے ہٹ گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ؟ چلو ، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا کوئی بات ہوگئی ہے ؟ آپ ﷺ نے پوچھا : وہ کیا ؟ ، تو میں نے عرض کیا : آپ نے مجھ پر اف کہا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں ! (تم پر نہیں) البتہ اس شخص پر (اظہار اف) کیا ہے جسے میں نے فلاں قبیلے میں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا، تو اس نے ایک دھاری دار چادر چرا لی ہے ؛ چناچہ اب اسے ویسی ہی آگ کی چادر پہنا دی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٠٢٨) ، مسند احمد ٦/٣٩٢ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 862
نماز کے واسطے جلدی چلنا بغیر دوڑے ہوئے
اس سند سے بھی ابورافع (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 863
نماز پڑھنے کے واسطے اول اور افضل وقت نکلنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اول وقت میں نماز کے لیے جانے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو بھیڑ کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو مرغی کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو انڈے کی قربانی کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣١ (٩٢٩) ، بدء الخلق ٦ (٣٢١١) ، صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٨٢ (١٠٩٢) ، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٣، ١٥١٨٢) ، مسند احمد ٢/٢٣٩، ٢٥٩، ٢٨٠، ٥٠٥، ٥١٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٣ (١٥٨٤، ١٥٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 864
جس وقت نماز کے واسطے تکبیر ہوجائے تو نفل یا سنت نماز پڑھنا منع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٤ (١٢٦٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٦ (٤٢١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠٣ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٢٨) ، مسند احمد ٢/٣٣١، ٥١٧، ٥٣١، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٩ (١٤٨٨، ١٤٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 865
جس وقت نماز کے واسطے تکبیر ہوجائے تو نفل یا سنت نماز پڑھنا منع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 866
جس وقت نماز کے واسطے تکبیر ہوجائے تو نفل یا سنت نماز پڑھنا منع ہے
ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک ازدی) (رض) کہتے ہیں کہ نماز فجر کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور مؤذن اقامت کہہ رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم فجر کی نماز چار رکعت پڑھتے ہو ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٣٨ (٦٦٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠٣ (١١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٥) ، مسند احمد ٥/٣٤٥، ٣٤٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٩ (١٤٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 867
اگر کوئی شخص نماز فجر کی سنت میں مشغول ہو اور امام نماز فرض پڑھائے
عبداللہ بن سرجس (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا، اور رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز میں تھے، اس نے دو رکعت سنت پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوا، جب رسول اللہ ﷺ اپنی نماز پوری کرچکے تو فرمایا : اے فلاں ! ان دونوں میں سے تمہاری نماز کون سی تھی، جو تم نے ہمارے ساتھ پڑھی ہے ؟ یا جو خود سے پڑھی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٩ (٧١٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٤ (١٢٦٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠٣ (١١٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٩) ، مسند احمد ٥/٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مقصود اس کی اس حرکت پر زجر و ملامت کرنا تھا کہ جس نماز کی خاطر اس نے مسجد آنے کی زحمت اٹھائی تھی اسے پا کر دوسری نماز میں لگنا عقلمندی نہیں ہے، سنت کے لیے گھر ہی بہتر جگہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 868
جو شخص صف کے پیچھے تنہا نماز ادا کرے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر آئے تو میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے تنہا نماز پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٨ (٧٢٧) ، ١٦٤ (٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٢) ، مسند احمد ٣/١١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے مصنف نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے کے جواز پر استدلال کیا ہے جیسا کہ ترجمۃ الباب سے واضح ہوتا ہے لیکن جو لوگ عدم جواز کے قائل ہیں وہ اسے عورتوں کے لیے مخصوص مانتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 869
جو شخص صف کے پیچھے تنہا نماز ادا کرے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتی تھی، جو لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی، تو بعض لوگ پہلی صف میں چلے جاتے تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکیں، اور بعض لوگ پیچھے ہوجاتے یہاں تک کہ بالکل پچھلی صف میں چلے جاتے ١ ؎، تو جب وہ رکوع میں جاتے تو وہ اپنے بغل سے جھانک کر دیکھتے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ولقد علمنا المستقدمين منکم ولقد علمنا المستأخرين (الحجر : ٢٤ ) ہم تم میں سے آگے رہنے والوں کو بھی خوب جانتے ہیں، اور پیچھے رہنے والوں کو بھی خوب جانتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة الحجر ١٥ (٣١٢٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٦٨ (١٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٦٤) ، مسند احمد ١/٣٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے اسے پیچھے تنہا پڑھنے پر محمول کیا ہے لیکن حدیث صراحۃً اس پر دلالت نہیں کرتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 870
صف میں شامل ہونے سے متعلق رکوع کرنے سے متعلق
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے، نبی اکرم ﷺ رکوع میں تھے، تو انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کرلیا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ آپ کی حرص میں اضافہ فرمائے، پھر ایسا نہ کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاذان ١١٤ (٧٨٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٠١ (٦٨٣، ٦٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٩) ، مسند احمد ٥/٣٩، ٤٢، ٤٥، ٤٦، ٥٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ خیر کی حرص گو محبوب و مطلوب ہے لیکن اسی صورت میں جب یہ شریعت کے مخالف نہ ہو، اور اس طرح صف میں شامل ہونا شرعی طریقے کے خلاف ہے، اس لیے اس سے بچنا اولیٰ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 871
صف میں شامل ہونے سے متعلق رکوع کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر سلام پھیر کر پلٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے فلاں ! تم اپنی نماز درست کیوں نہیں کرتے ؟ کیا نمازی دیکھتا نہیں کہ اسے اپنی نماز کیسی پڑھنی چاہیئے، (سن لو) میں اپنے پیچھے سے بھی ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسے اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٤ (٤٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٣٤) ، مسند احمد ٢/٤٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 872
ظہر کی نماز کے بعد سنت کتنی پڑھے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے، اور اس کے بعد بھی دو رکعت پڑھتے تھے، اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے، اور عشاء کے بعد بھی دو رکعت پڑھتے، اور جمعہ کے بعد مسجد میں کچھ نہیں پڑھتے یہاں تک کہ جب گھر لوٹ آتے تو دو رکعت پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٩ (٩٣٧) ، التھجد ٢٥ (١١٦٥) ، ٢٩ (١١٧٢) ، ٣٤ (١١٨٠) ، الجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩ (١٢٥٢) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/السفر ٢٣ (٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٣) ، مسند احمد ٢/٦٣، ٨٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤ (١٤٧٧) ، ٢٠٧ (١٦١٤) ، ویأتی عند المؤلف في الجمعة ٤٣ برقم : ١٤٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 873
نماز عصر کے قبل کی سنت
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ ہم نے کہا : گرچہ ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے مگر سن تو لیں، تو انہوں نے کہا : جب سورج یہاں ہوتا ١ ؎ جس طرح عصر کے وقت یہاں ہوتا ہے ٢ ؎ تو آپ دو رکعت (سنت) پڑھتے ٣ ؎، اور جب سورج یہاں ہوتا جس طرح ظہر کے وقت ہوتا ہے تو آپ چار رکعت (سنت) پڑھتے ٤ ؎، اور ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے ٥ ؎، اور اس کے بعد دو رکعت پڑھتے، اور عصر سے پہلے چار رکعت (سنت) پڑھتے، ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور نبیوں پر اور ان کے پیروکار مومنوں اور مسلمانوں پر سلام کے ذریعہ ٦ ؎ فصل کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٣٠١ (٥٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠٩ (١١٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٧) ، مسند احمد ١/٨٥، ١١١، ١٤٣، ١٤٧، ١٦٠ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مشرق میں۔ ٢ ؎: یعنی مغرب میں۔ ٣ ؎: یعنی چاشت کے وقت آپ ﷺ دو رکعت پڑھتے۔ ٤ ؎: اس سے مراد صلاۃ الاوابین ہے جسے آپ ﷺ زوال سے پہلے پڑھتے تھے۔ ٥ ؎: ظہر سے پہلے چار رکعت اور دو رکعت دونوں کی روایتیں آئی ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دونوں جائز ہے، کبھی ایسا کرلے اور کبھی ایسا، لیکن چار والی روایت کو اختیار کرنا اولیٰ ہے، کیونکہ یہ قولی حدیث سے ثابت ہے۔ ٦ ؎: یعنی تشہد کے ذریعہ فصل کرتے، تشہد کو تسلیم اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں السلام علينا وعلى عباده الله الصالحين کا ٹکڑا ہے۔ قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 874
نماز عصر کے قبل کی سنت
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی اس نماز کے بارے میں پوچھا جسے آپ دن میں فرض سے پہلے پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا : کون اس کی طاقت رکھتا ہے ؟ پھر انہوں نے ہمیں بتایا، اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت سورج ڈھل جاتا دو رکعت پڑھتے، اور نصف النہار ہونے سے پہلے چار رکعت پڑھتے، اور اس کے آخر میں سلام پھیرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 875