11. نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث
نماز کے آغاز میں کیا کرنا چاہئے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں تکبیر تحریمہ شروع کرتے تو جس وقت اللہ اکبر کہتے اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھاتے کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل کرلیتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے تو بھی اسی طرح کرتے، پھر جب سمع اللہ لمن حمده کہتے تو بھی اسی طرح کرتے ١ ؎، اور ربنا ولک الحمد کہتے اور سجدہ میں جاتے وقت اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت ایسا نہیں کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٥ (٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٤١) ، صحیح البخاری/الأذان ٨٣ (٧٣٥) ، ٨٤ (٧٣٦) ، ٨٦ (٧٣٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٦ (٢٥٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥ (٨٥٨) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٦) ، مسند احمد ٢ / ٨، ١٨، ٤٤، ٤٧، ٦٢، ١٠٠، ١٤٧، سنن الدارمی/الصلاة ٧١ (١٣٤٧، ١٣٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے، جو لوگ اسے منسوخ یا مکروہ کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں کیونکہ اگر رفع یدین کا نہ کرنا کبھی کبھی ثابت بھی ہوجائے تو یہ رفع یدین کے سنت نہ ہونے پر دلیل نہیں، کیونکہ سنت کی شان ہی یہ ہے کہ اسے کبھی کبھی ترک کردیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 876
جس وقت تکبیر پڑھے تو پہلے دونوں ہاتھ اٹھائے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھاتے کہ وہ آپ کے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہوجاتے، پھر اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور سمع اللہ لمن حمده کہتے، اور سجدہ کرتے وقت ایسا نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٤ (٧٣٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 877
جس وقت تکبیر پڑھے تو پہلے دونوں ہاتھ اٹھائے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کرتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ان دونوں کو اسی طرح اٹھاتے، اور سمع اللہ لمن حمده، ربنا ولک الحمد کہتے، اور سجدہ کرتے وقت ایسا نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٣ (٧٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٩١٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٦) ، مسند احمد ٢/١٨، ٦٢، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٥) ، ٧١ (١٣٤٧، ١٣٤٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٠٥٨، ١٠٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 878
کان تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے نماز شروع کی تو اللہ اکبر کہا، اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھائے کہ انہیں اپنے کانوں کے بالمقابل کیا، پھر سورة فاتحہ پڑھنے لگے، جب اس سے فارغ ہوئے تو بآواز بلند آمین کہی اے اللہ اسے قبول فرما ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٧٦٣) ، مسند احمد ٤/٣١٨، سنن الدارمی/الصلاة ٣٥ (١٢٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٤) (بدون ذکر آمین) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤ (٨٥٥) ، (بدون ذکر رفع الیدین) ، مسند احمد ٤/٣١٥ (بدون ذکر رفع الیدین) ، ٣١٦ (بدون ذکر آمین) ٣١٨ (بتمامہ) ، وانظر حدیث وائل من غیر طریق عبدالجبار عن أبیہ عند : صحیح مسلم/الصلاة ١٥ (٤٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥ (٨٦٧) ، مسند احمد ٤/٣١٦، ٣١٧، ٣١٨، ٣١٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض روایتوں میں یرفع بہا صوتہ کے بجائے یخفض بہا صوتہ ہے، لیکن محدثین اسے وہم قرار دیتے ہیں، گو بعض فقہاء نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن محدثین کے مقابلہ میں فقہاء کی ترجیح کی کوئی حیثیت نہیں، اور جو یہ کہا جا رہا ہے کہ عبدالجبار بن وائل کا سماع ان کے والد وائل (رض) سے ثابت نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت عبدالجبار کے علاوہ دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، اور صحیح ہے، (دیکھئیے تخریج) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 879
کان تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق
مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے (اور یہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو جس وقت آپ اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کرنے اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کرتے (تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل اٹھاتے) ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥ (٨٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) ، مسند احمد ٣/٤٣٦، ٤٣٧، ٥/٥٣، سنن الدارمی/الصلاة ٤١ (١٢٨٦) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٠٢٥، ١٠٥٧، ١٠٨٦، ١٠٨٧، ١٠٨٨، ١١٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 880
کان تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جس وقت آپ نماز میں داخل ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اور جس وقت آپ نے رکوع کیا اور جس وقت رکوع سے اپنا سر اٹھایا (تو بھی انہیں آپ نے اٹھایا) یہاں تک کہ وہ دونوں آپ کی کانوں کی لو کے بالمقابل ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہم دونوں ان صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کے آخری عمر میں آپ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، اس لیے ان دونوں کا اسے روایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 881
جس وقت ہاتھ اٹھائے تو دونوں ہاتھ کے انگوٹھوں کو کس جگہ تک لے جائے؟
وائل بن حجر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو یہاں تک اٹھاتے کہ آپ کے دونوں انگوٹھے آپ کے کانوں کی لو کے بالمقابل ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٧٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٥٩) ، مسند احمد ٤/٣١٦ (ضعیف الإسناد) (لیکن شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر روایت صحیح ہے، دیکھئے رقم : ٨٨٠ کی تخریج ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 882
دونوں ہاتھ بڑھا کر ہاتھ کا اٹھانا
سعید بن سمعان کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) قبیلہ زریق کی مسجد میں آئے، اور کہنے لگے : تین کام ایسے ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کرتے تھے اور لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے ١ ؎، آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر اٹھاتے تھے، اور تھوڑی دیر چپ رہتے تھے ٢ ؎ اور جب سجدہ کرتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٩ (٧٥٣) مختصراً ، سنن الترمذی/فیہ ٦٣ (٢٤٠) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٨١) ، مسند احمد ٢/٣٧٥، ٤٣٤، ٥٠٠، سنن الدارمی/الصلاة ٣٢ (١٢٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے وقت میں بعض سنتوں پر لوگوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ٢ ؎: یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد، جیسا کہ حدیث رقم ( ٨٩٦ ) میں جو آرہی ہے صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 883
نماز شروع کرنے کے وقت تکبیر پڑھنا لازم ہے (یعنی تکبیر اولی اور تکبیر تحریمہ)
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، اور ایک اور شخص داخل ہوا، اس نے آ کر نماز پڑھی، پھر وہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا، اور فرمایا : واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی تو وہ لوٹ گئے اور جا کر پھر سے نماز پڑھی جس طرح پہلی بار پڑھی تھی، پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو سلام کئے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے (پھر) فرمایا : وعلیک السلام، واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، ایسا انہوں نے تین مرتبہ کیا، پھر عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے، میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے (نماز پڑھنا) سکھا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو اللہ اکبر کہیں ١ ؎ پھر قرآن میں سے جو آسان ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں آپ کو اطمینان ہوجائے، پھر رکوع سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کرلو، پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر اسی طرح اپنی پوری نماز میں کرو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٧) ، ١٢٢ (٧٩٣) ، الإستئذان ١٨ (٦٢٥٢) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٥٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١١ (٣٠٣) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٤٣٠٤) ، مسند احمد ٢/٤٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مؤلف نے تکبیر تحریمہ کی فرضیت پر استدلال کی۔ ٢ ؎: اس سے تعدیل ارکان کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 884
نماز کے آغاز میں کیا پڑھنا ضروری ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھا : اللہ أكبر کبيرا والحمد لله كثيرا و سبحان اللہ بكرة وأصيلا اللہ بہت بڑا ہے، اور میں اسی کی بڑائی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور میں اسی کی خوب تعریف کرتا ہوں، اللہ کی ذات پاک ہے، اور میں صبح و شام اس کی ذات کی پاکی بیان کرتا ہوں تو نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : یہ کلمے کس نے کہے ہیں ؟ تو اس آدمی نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں نے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے بارہ فرشتوں کو اس پر جھپٹتے دیکھا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٦٠١) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٢٧ (٣٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٦٩) ، مسند احمد ٢/١٤، ٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہر ایک چاہتا تھا کہ اسے اللہ کے حضور لے جانے کا شرف اسے حاصل ہو۔ ٢ ؎: تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان صحیح احادیث میں متعدد اذکار اور ادعیہ کا ذکر آیا ہے، ان میں سے کوئی بھی دعا پڑھی جاسکتی ہے، اور بعض لوگوں نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ سبحانک اللہم کے علاوہ باقی دیگر دعائیں نماز تہجد، اور دیگر نفل نمازوں کے لیے ہیں تو یہ مجرد دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 885
نماز کے آغاز میں کیا پڑھنا ضروری ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران لوگوں میں سے ایک شخص نے : اللہ أكبر کبيرا والحمد لله كثيرا و سبحان اللہ بكرة وأصيلا اللہ بہت بڑا ہے، اور میں اسی کی بڑائی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور میں اسی کی خوب تعریف کرتا ہوں، اللہ کی ذات پاک ہے، اور میں صبح و شام اس کی ذات کی پاکی بیان کرتا ہوں کہا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : یہ کلمے کس نے کہے ہیں ؟ تو لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے کہے ہیں، تو آپ نے فرمایا : مجھے اس کلمہ پر حیرت ہوئی ، اور آپ نے ایک ایسی بات ذکر کی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے، ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے میں نے اسے کبھی نہیں چھوڑا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 886
نماز کے دوران ہاتھ باندھنے سے متعلق
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا بایاں ہاتھ پکڑتے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٨) ، مسند احمد ٤/٣١٦، ٣١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 887
اگر امام کسی شخص کو بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر باندھے ہوئے دیکھے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں نماز میں اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ پر رکھے ہوئے تھا، تو آپ ﷺ نے میرا داہنا ہاتھ پکڑا اور اسے میرے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٠ (٧٥٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٣ (٨١١) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٨) ، مسند احمد ١/٣٤٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 888
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر کس جگہ رکھے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کیسے پڑھتے ہیں ؛ چناچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھائے کہ انہیں اپنے کانوں کے بالمقابل لے گئے، پھر آپ نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت) ، کلائی اور بازو پر رکھا ١ ؎، پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، پھر جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل رکھا، پھر آپ نے قعدہ کیا، اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کا سرا اپنی داہنی ران کے اوپر اٹھائے رکھا، پھر آپ نے اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند ٢ ؎ کرلیا، اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ (دائرہ) بنا لیا، پھر آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی، تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٦) ، ١٨٠ (٩٥٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥ (٨٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨١) ، مسند احمد ٤/٣١٦، ٣١٧، ٣١٨، ٣١٩، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١١٠٣، ١٢٦٤، ١٢٦٦، ١٢٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا مسنون ہے، اور حدیث رقم ( ٨٨٨ ) میں داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کے پکڑنے کا ذکر ہے یہ دونوں طریقے مسنون ہیں، بعض لوگوں نے جو یہ صورت ذکر کی ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے، اور اپنے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے بائیں ہاتھ کی کلائی پکڑے تو یہ بدعت ہے، اس کا ثبوت نہیں، رہا یہ سوال کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھ کہاں رکھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے اپنے سینے پر رکھے، کیونکہ ہاتھوں کا سینے پر ہی رکھنا ثابت ہے، اس کے خلاف جو بھی روایت ہے یا تو وہ ضعیف ہے یا تو پھر اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ ٢ ؎: یعنی خنصر اور بنصر کو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 889
کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا ممنوع ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی شخص کوکھ (کمر) پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث إسحاق بن إبراہیم تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٥١٦) ، وحدیث سوید بن نصر أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١١ (٥٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٣٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمل في الصلاة ١٧ (١٢٢٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٦ (٩٤٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٥ (٣٨٣) ، مسند احمد ٢/٢٣٢، ٢٩٠، ٢٩٥، ٣٣١، ٣٩٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٨ (١٤٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ نماز بارگاہ الٰہی میں عجز و نیاز مندی کے اظہار کا نام ہے، اس کے برخلاف کوکھ (کمر) پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے تکبر کا اظہار ہوتا ہے، اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شیطان جب چلتا ہے تو اسی طرح چلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 890
کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا ممنوع ہے
زیاد بن صبیح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کے بغل میں نماز پڑھی تو میں نے اپنا ہاتھ اپنی کوکھ (کمر) پر رکھ لیا، تو انہوں نے اس طرح اپنے ہاتھ سے مارا، جب میں نے نماز پڑھ لی تو ایک شخص سے (پوچھا) یہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ہیں، میں نے ان سے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! میری کیا چیز آپ کو ناگوار لگی ؟ تو انہوں نے کہا : یہ صلیب کی ہیئت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس سے روکا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦٠ (٩٠٣) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٤) ، مسند احمد ٢/٣٠، ١٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 891
دوران نماز دونوں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا کیسا ہے؟
ابوعبیدہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دونوں قدم ملا کر نماز پڑھ رہا ہے، تو انہوں نے کہا : اس نے سنت کی مخالفت کی ہے، اگر یہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا تو بہتر ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٦٣١) (ضعیف الإسناد) (ابو عبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود (رض) کے درمیان انقطاع ہونے کی وجہ سے سنداً یہ روایت ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: سنداً اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے، مگر بات یہی صحیح ہے کہ نمازی اپنے دونوں قدموں کو آپس میں ملائے نہیں، کیونکہ اس کو جماعت میں اپنے بغل کے نمازی کے قدم سے قدم ملانا ہے، اگر منفرد ہے تب بھی اپنے قدموں کو آپس میں ملانے سے اس کو پریشانی ہوگی، الگ الگ رکھنے میں راحت ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 892
دوران نماز دونوں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا کیسا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اس نے اپنے دونوں قدم ملا رکھا تھا تو انہوں نے کہا : یہ سنت سے چوک گیا، اگر وہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا تو میرے نزدیک زیادہ اچھا ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف الإسناد) (سند میں ابوعبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود (رض) کے مابین انقطاع ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 893
تکبیر تحریمہ کے بعد کچھ خاموش رہنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو تھوڑی دیر چپ رہتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد اور قرات شروع کرنے سے پہلے، اس درمیان آپ دعا ثنا پڑھتے تھے، جیسا کہ اگلی روایت میں صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 894
تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان میں کونسی دعا مانگنا چاہئے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو تھوڑی دیر چپ رہتے، تو میں نے آپ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان اپنی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں کہتا ہوں : اللہم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب اللہم نقني من خطاياى كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللہم اغسلني من خطاياى بالماء والثلج والبرد اے اللہ ! تو میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر رکھی ہے، اے اللہ ! تو مجھے میرے گناہوں سے پاک صاف کر دے جس طرح میل کچیل سے سفید کپڑا صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ ! تو میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 895
ایک اور دعا
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے : إن صلاتي ونسکي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللہم اهدني لأحسن الأعمال وأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت وقني سيئ الأعمال وسيئ الأخلاق لا يقي سيئها إلا أنت بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں، اے اللہ ! مجھے حسن اعمال اور حسن اخلاق کی توفیق دے، تیرے سوا کوئی اس کی توفیق نہیں دے سکتا، اور مجھے برے اعمال اور قبیح اخلاق سے بچا، تیرے سوا کوئی ان برائیوں سے بچا نہیں سکتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 896
دوسری دعا تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے : وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا من المسلمين اللہم أنت الملک لا إله إلا أنت أنا عبدک ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بک وإليك تبارکت وتعاليت أستغفرک وأتوب إليك میں نے اپنا رخ یکسو ہو کر اس ذات کی جانب کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساجھی بنانے والوں میں سے نہیں ہوں، یقیناً میری صلاۃ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں، اے اللہ ! تو صاحب قوت و اقتدار ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں تیرا غلام ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، اور میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کوئی نہیں کرسکتا، اور مجھے حسن اخلاق کی توفیق دے، تیرے سوا کوئی اس کی توفیق نہیں دے سکتا، اور مجھ سے برے اخلاق پھیر دے، تیرے سوا اس کی برائی مجھ سے کوئی پھیر نہیں سکتا، میں تیری تابعداری کے لیے باربار حاضر ہوں، اور ہر طرح کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے، اور شر سے تیرا کوئی علاقہ نہیں ٢ ؎، میں تیری وجہ سے ہوں، اور مجھے تیری ہی طرف پلٹنا ہے، تو صاحب برکت اور صاحب علو ہے، میں تجھ سے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٤) ، ١٢١ (٧٦٠، ٧٦١) ، ٣٦٠ (١٥٠٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٢ (٣٤٢١، ٣٤٢٢، ٣٤٢٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٥ (٨٦٤) ، ٧٠ (١٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، مسند احمد ١/٩٣، ٩٤، ٩٥، ١٠٢، ١٠٣، ١١٩، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٠٥١، ١١٢٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابن حبان ( ٣ /١٣١) کے الفاظ ہیں : جب نماز شروع کرتے … اس سے ثابت ہوا کہ بعض حضرات کا یہ کہنا کہ یہ دعائیں نوافل میں پڑھتے تھے، درست نہیں، یہ ساری دعائیں وقتاً فوقتاً بدل بدل کر پڑھی جاسکتی ہیں۔ ٢ ؎: شر کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف نہیں کی جاسکتی اس لیے کہ اس کے فعل میں کوئی شر نہیں، بلکہ اس کے سارے افعال خیر ہیں، اس لیے کہ وہ سب سراسر عدل و حکمت پر مبنی ہیں، علامہ ابن قیم (رح) لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ خیر و شر دونوں کا خالق ہے پس شر اس کی بعض مخلوقات میں ہے، اس کی تخلیق و عمل میں نہیں، اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ اس ظلم سے پاک ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 897
دوسری دعا تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان
محمد بن مسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نفل نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو کہتے : اللہ أكبر وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا مسلما وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا أول المسلمين اللہم أنت الملک لا إله إلا أنت سبحانک وبحمدک اللہ بہت بڑا ہے، میں نے اپنا رخ یکسو ہو کر اس ذات کی جانب کرلیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں اللہ کے ساتھ ساجھی بنانے والوں میں سے نہیں ہوں، یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا رب (پالنہار) ہے جس کا کوئی ساجھی نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں پہلا مسلمان ہوں، اے اللہ ! تو صاحب قدرت و اقتدار ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تیری ذات تمام عیوب سے پاک ہے، اور تو لائق حمد وثناء ہے) ، پھر قرآت فرماتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٠) ، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف بأرقام : ١٠٥٣، ١١٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 898
تکبیر اور قرأت کے درمیان چوتھی ثنائ
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو کہتے : سبحانک اللہم وبحمدک تبارک اسمک وتعالى جدک ولا إله غيرك اے اللہ ! تو (شرک اور تمام عیبوں سے) پاک ہے، اور لائق حمد ہے، تیرا نام بابرکت ہے، اور تیری شان بلند و بالا ہے، اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢٢ (٧٧٥) مطولاً ، سنن الترمذی/الصلاة ٦٥ (٢٢٤) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١ (٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٢) ، مسند احمد ٣/٥٠، ٦٩، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 899
تکبیر اور قرأت کے درمیان چوتھی ثنائ
ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو کہتے : سبحانک اللہم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالى جدک ولا إله غيرك اے اللہ ! تو (تمام عیبوں سے) پاک ہے، اور لائق حمد تو ہی ہے، اور بابرکت ہے تیرا نام، اور بلند ہے تیری شان، اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 900
تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان ایک ذکر خداوندی
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا، اور مسجد میں داخل ہوا اس کی سانس پھول گئی تھی، تو اس نے اللہ أكبر الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں ایسی تعریف جو پاکیزہ بابرکت ہو کہا، تو جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز پوری کرلی تو پوچھا : یہ کلمے کس نے کہے تھے ؟ لوگ خاموش رہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے کوئی قابل حرج بات نہیں کہی ، تو اس شخص نے کہا : میں نے اے اللہ کے رسول ! میں آیا اور میری سانس پھول رہی تھی تو میں نے یہ کلمات کہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا سب جھپٹ رہے تھے کہ اسے کون اوپر لے جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٧ (٦٠٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٣، ٦١٢، ١١٥٧) ، مسند احمد ٣/١٦٧، ١٦٨، ١٨٨، ٢٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 901
پہلے سورت فاتحہ اور پھر دوسری سورت تلاوت کرے
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم الحمد لله رب العالمين سے قرآت شروع کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦٨ (٢٤٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤ (٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥) ، مسند احمد ٣/١٠١، ١١١، ١١٤، ١٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 902
پہلے سورت فاتحہ اور پھر دوسری سورت تلاوت کرے
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی تو ان لوگوں نے الحمد لله رب العالمين سے قرآت شروع کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٤ (٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٢) ، مسند احمد ٣/١١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 903
بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن آپ یعنی نبی اکرم ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ یکایک آپ کو جھپکی سی آئی، پھر مسکراتے ہوئے نے اپنا سر اٹھایا، تو ہم نے آپ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت اتری ہے بسم اللہ الرحمن الرحيم * إنا أعطيناک الکوثر * فصل لربک وانحر * إن شانئك هو الأبتر شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے، یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی، تو آپ اپنے رب کے لیے صلاۃ پڑھیں، اور قربانی کریں، یقیناً آپ کا دشمن ہی لاوارث اور بےنام و نشان ہے ، پھر آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا میرے رب نے وعدہ کیا ہے، جس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں، میری امت اس حوض پر میرے پاس آئے گی، ان میں سے ایک شخص کھینچ لیا جائے گا تو میں کہوں گا : میرے رب ! یہ تو میری امت میں سے ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا : تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٤ (٤٠٠) ، الفضائل ٩ (٢٣٠٤) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٤ (٧٨٤) مختصراً ، والسنة ٢٦ (٤٧٤٧) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٥) ، مسند احمد ٣/١٠٢، ٢٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 904
بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا
نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحيم کہا، پھر سورة فاتحہ پڑھی، اور جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين پر پہنچے آمین کہی، لوگوں نے بھی آمین کہی ١ ؎، اور جب جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دوسری رکعت میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، اور جب سلام پھیرا تو کہا : اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم میں نماز کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٦) ، مسند احمد ٢/٤٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ امام و مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہیں گے، ایک روایت میں صراحت سے اس کا حکم آیا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی تو اس کے سارے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے، اس سے امام کے آمین نہ کہنے پر امام مالک کا استدلال باطل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 905
بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، تو آپ نے ہمیں بسم اللہ الرحمن الرحيم کی قرآت نہیں سنائی، اور ہمیں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم نے بھی نماز پڑھائی، تو ہم نے ان دونوں سے بھی اسے نہیں سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: بسم اللہ سے متعلق زیادہ تر روایتیں آہستہ ہی پڑھنے کی ہیں، جو روایتیں زور (جہر) سے پڑھنے کی آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، سب سے عمدہ روایت نعیم المجمر کی ہے جس میں ہے صليت وراء أبي هريرة فقرأ : بسم الله الرحمن الرحيم : ثم قرأ بأم القرآن اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اسے نعیم کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں، اس لیے ان کی روایت شاذ ہوگی، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ نعیم ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، اس لیے اس سے جہری پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے، لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ ان کی مخالفت ثقات نے کی ہے، اس لیے یہ تفرد غیر مقبول ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 906
بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحيم زور سے پڑھتے نہیں سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٩ (٧٤٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٣ (٣٩٩) ، مسند احمد ٣/١٧٦، ١٧٩، ٢٧٣، (تحفة الأشراف : ١٢١٨، ١٢٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 907
بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنا
عبداللہ بن مغفل کے بیٹے کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مغفل (رض) جب ہم میں سے کسی سے بسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھتے ہوئے سنتے تو کہتے : میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، ابوبکر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، اور عمر (رض) کے پیچھے بھی نماز پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھتے نہیں سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٦٦ (٢٤٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤ (٨١٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٦٧) ، مسند احمد ٤/٨٥ و ٥/٥٤، ٥٥ (ضعیف) (بعض ائمہ نے ” ابن عبداللہ بن مغفل ‘ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جب کہ حافظ مزی نے ان کا نام ” یزید “ لکھا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ” صدوق “ کہا ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زور سے پڑھتے نہیں سنا، نہ کہ بالکل پڑھتے ہی نہیں تھے (دیکھئیے پچھلی دونوں حدیثیں) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 908
سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہ پڑھنا
ابوسائب مولی ہشام بن زہرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ،
سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہ پڑھنا
میں نے پوچھا : ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں ؟ ) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبایا، اور کہا : اے فارسی ! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے نماز ١ ؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سورة فاتحہ پڑھو، جب بندہ الحمد لله رب العالمين کہتا ہے ٢ ؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ مالک يوم الدين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی، اور جب بندہ إياک نعبد وإياک نستعين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے : یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٥ (٨٢١) ، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ٥ (٢٩٥٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١١ (٨٣٨) (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩) ، مسند احمد ٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٦٠، ٤٧٨، ٤٨٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صلاۃ سے مراد سورة فاتحہ ہے کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ٢ ؎: اسی سے مؤلف نے سورة فاتحہ میں بسم الله الرحمن الرحيم نہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں بات صرف یہ ہے کہ اصل سورة فاتحہ تو الحمد للہ سے ہے، اور رہا پڑھنا بسم الله ‘ تو ہر سورة کی شروع میں ہونے کی وجہ سے اس کو تو پڑھنا ہی ہوتا ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے یہاں اس کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 909 عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جو سورة فاتحہ نہ پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٥ (٧٥٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٤) ، سنن ابی داود/فیہ ١٣٦ (٨٢٢) ، سنن الترمذی/فیہ ٦٩ (٢٤٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١١ (٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٠) ، مسند احمد ٥/٣١٤، ٣٢١، ٣٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ٣٦ (١٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے خواہ وہ فرض ہو یا نفل، اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی، کیونکہ لاء نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع صلاۃ مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہٰذا جز یا کُل کی نفی سے ذات کی نفی ہوجائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہوسکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب (زیادہ قریب) اور کمال ذات سے ابعد (زیادہ دور) ہے، اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد (بعید تر) ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 910
نماز کے دوران الحمد شریف کی تلاوت لازمی ہے
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں جو سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩١١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کی سزا قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کے سلسلے میں صحیح حدیث میں ہے لا تقطع الید إلا فی ربع دینار فصاعدا چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا یعنی چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لہٰذا حدیث میں وارد اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص کی صلاۃ نہیں ہوگی جس نے سورة فاتحہ سے کم پڑھا ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 911
فضیلت سورت فاتحہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور جبرائیل (علیہ السلام) ایک ساتھ ہی تھے کہ اچانک جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے اوپر دروازہ کھلنے کی آواز سنی، تو نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا : یہ آسمان کا ایک دروازہ کھلا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، پھر اس سے ایک فرشتہ اترا، اور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے کہا : مبارک ہو ! آپ کو دو نور دیا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا، سورة فاتحہ اور سورة البقرہ کی آخری آیتیں، ان دونوں میں سے ایک حرف بھی تم پڑھو گے تو (اس کا ثواب) تمہیں ضرور دیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٣ (٨٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 912
تفسیر آیت کریمہ|"ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم سے آخر تک
ابوسعید بن معلی (رض) کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا ؟ کہا : میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے !: يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاکم لما يحييكم اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو (الحجر : ٨٧ ) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں ؟ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سورت الحمد لله رب العالمين ہے، اور یہی سبع المثاني ١ ؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة ١ (٤٤٧٤) ، تفسیر الأنفال ٣ (٤٦٤٧) ، تفسیر الحجر ٣ (٤٧٠٣) ، فضائل القرآن ٩ (٥٠٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٠ (١٤٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٢ (٣٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٧) ، مسند احمد ٣/٤٥٠، ٤ (٢١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٢ (١٥٣٣) ، فضائل القرآن ١٢ (٣٤١٤) ، موطا امام مالک/ الصلاة ٨ (٣٧) من حدیث أبی بن کعب (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سورة فاتحہ کا نام سبع المثاني ہے، سبع اس لیے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور مثانی اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت و خصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت و خصوصیت کے اظہار کے لیے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 913
تفسیر آیت کریمہ|"ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم سے آخر تک
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سورة فاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تو رات میں اتاری ہے اور نہ انجیل میں، یہی سبع المثاني ہے، یہ میرے اور میرے بندے کے بیچ بٹی ہوئی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر الحجر (٣١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٧) ، مسند احمد ٥/١١٤، سنن الدارمی/الفضائل ١٢ (٣٤١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 914
تفسیر آیت کریمہ|"ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم سے آخر تک
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو سبع المثاني یعنی سات لمبی سورتیں ١ ؎ عطا کی گئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥١ (١٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور وہ یہ ہیں : بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، ہود اور یونس، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا قول سند میں شریک ضعیف ہیں، نیز ابواسحاق بیہقی مدلس و مختلط لیکن سابقہ سند سے تقویت پا کر یہ حسن ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 915
تفسیر آیت کریمہ|"ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم سے آخر تک
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ عزوجل کے قول : سبعا من المثاني کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد سات لمبی سورتیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٥٩٠) (حسن) (سند میں شریک القاضی ضعیف اور ابو اسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن لغیرہ ہے، اور اصل حدیث صحیح ہے کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو : صحیح ابی داود : ٥/٢٠٠، رقم : ١٣١٢) اور مشہور حسن کے نسخے میں ضعیف لکھا ہے اور حوالہ صحیح ابی داود کا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس کی سند میں ضعف ہے اور اصل حدیث صحیح ہے ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 916
امام کی اقتداء میں سری نماز میں (سوا سورت فاتحہ کے) قرأت نہ کرے
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے ظہر پڑھائی تو ایک آدمی نے آپ کے پیچھے سورة سبح اسم ربک الأعلى پڑھی، جب آپ ﷺ نے نماز پڑھ لی تو پوچھا : سورة سبح اسم ربک الأعلى کس نے پڑھی ؟ تو اس آدمی نے عرض کیا : میں نے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٢ (٣٩٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٨ (٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٥) ، مسند احمد ٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٣٣، ٤٤١، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٧٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 917
امام کی اقتداء میں سری نماز میں (سوا سورت فاتحہ کے) قرأت نہ کرے
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر یا عصر پڑھائی، اور ایک آدمی آپ کے پیچھے قرآت کر رہا تھا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو پوچھا : تم میں سے سورة سبح اسم ربک الأعلى کس نے پڑھی ہے ؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : میں نے، اور میری نیت صرف خیر کی تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے بعض نے مجھ سے سورة پڑھنے میں خلجان میں دال دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلجان مطلق سورة فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ زور سے پڑھنے کی وجہ سے ہوا، یہی بات قرین قیاس ہے بلکہ حتمی ہے، اس لیے اس حدیث سے سورة فاتحہ نہ پڑھنے پر استدلال واضح نہیں ہے، نیز عبادہ (رض) کی حدیث (رقم : ٩٢١ ) سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ نے باضابطہٰ سورة فاتحہ پڑھنے کی صراحت فرما دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 918
جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا : کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے ؟ تو ایک شخص نے کہا : جی ہاں ! اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا : آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے ۔ زہری کہتے ہیں : جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ ﷺ زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٧ (٨٢٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٧ (٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٣ (٨٤٨، ٨٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٤) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٠ (٤٤) ، مسند احمد ٢/٢٤٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٣٠١، ٣٠٢، ٤٨٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ قول کہ جب لوگوں نے … زہری کا ہے، ائمہ حدیث نے اس کی تصریح کردی ہے، اور زہری تابعی صغیر ہیں، وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، ان کی یہ روایت مرسل ہے، اور مرسل ضعیف کی قسموں میں سے ہے، یا اس کا یہ معنی ہے کہ لوگ زور سے قرات کرتے تھے، اسی سے آپ ﷺ کو خلجان ہوتا تھا، اور خلجان کا واقعہ جہری سری دونوں میں پیش آیا ہے (جیسا کہ حدیث رقم : ٩١٨ میں گزرا) اس واقعہ کے بعد لوگ زور سے قرات کرنے سے رک گئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 919
جس وقت امام جہری نماز میں قرأت کرے تو مقتدی کچھ نہ پڑھیں لیکن سورت فاتحہ پڑھیں
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورة فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٦ (٨٢٤) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٥١١٦) ، مسند احمد ٥/٣١٣، ٣١٦، ٣٢٢ (حسن صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت حسن صحیح ہے، بعض ائمہ نے محمود میں کچھ کلام کیا ہے، جب کہ بہت سوں نے ان کی توثیق کی ہے، نیز وہ اس روایت میں منفرد بھی نہیں ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 920
آیت کریمہ کی تفسیر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام تو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآت کرے تو تم خاموش رہو ١ ؎، اور جب سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٣ (٨٤٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٢٣١٧) ، مسند احمد ٢/٣٧٦، ٤٢٠، وأخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ٧٤ (٧٢٢) ، ٨٢ (٧٣٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٤) ، سنن الدارمی/فیہ ٧١ (١٣٥٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اقوال میں آپس میں ٹکراؤ ممکن ہی نہیں، نیز رسول اللہ ﷺ کے اپنے اقوال میں بھی ٹکراو محال ہے، یہ مسلّمہ عقیدہ ہے، اس لیے سورة فاتحہ کے وجوب پر دیگر قطعی احادیث کے تناظر میں اس صحیح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ کی قرات کے وقت امام کی قرات سنو، اور چپ رہو، رہا سورة فاتحہ پڑھنے کے مانعین کا آیت و إذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا سے استدلال، تو ایک تو یہ آیت نماز فرض ہونے سے پہلے کی ہے، تو اس کو نماز پر کیسے فٹ کریں گے ؟ دوسرے مکاتب میں ایک طالب علم کے پڑھنے کے وقت سارے بچوں کو خاموش رہ کر سننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی ؟ جب کہ یہ حکم وہاں زیادہ فٹ ہوتا ہے، اور نماز کے لیے تو لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب والی حدیث سے استثناء بھی آگیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 921
آیت کریمہ کی تفسیر
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ قرآت کرے تو تم خاموش رہو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مخرمی کہتے تھے : وہ یعنی محمد بن سعد الانصاری ثقہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 922
مقتدی کی قرأت امام کے واسطے کافی ہے
ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کیا ہر نماز میں قرآت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! (اس پر) انصار کے ایک شخص نے کہا : یہ (قرآت) واجب ہوگئی، تو ابو الدرداء (رض) میری طرف متوجہ ہوئے اور حال یہ تھا کہ میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھا، تو انہوں نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ امام جب لوگوں کی امامت کرے تو (امام کی قرآت) انہیں بھی کافی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : اسے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنا غلط ہے، یہ تو صرف ابو الدرداء (رض) کا قول ہے، اور اسے اس کتاب کے ساتھ انہوں نے نہیں پڑھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٩٥٩) ، مسند احمد ٥/١٩٧، ٦/٤٤٨ وأخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١١ (٨٤٢) ، (من طریق أبی ادریس الخولانی إلی قولہ : وجب ھذا) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ مؤلف کے شاگرد ابوبکر ابن السنی کا قول ہے، یعنی ابن السنی نے مؤلف پر اس کتاب کو پڑھتے وقت یہ حدیث نہیں پڑھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد والموقوف منه فالتفت إلي صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 923
جو کوئی تلاوت قرآن نہ کرسکے تو اس کے واسطے اس کا کیا بدل ہے؟
ابن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : میں قرآن کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا، تو مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئیے جو میرے لیے قرآن کے بدلے کافی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ واللہ أكبر ولا حول ولا قوة إلا باللہ اللہ پاک ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے، اور اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، اور اللہ سب سے بڑا ہے، اور طاقت و قوت صرف اللہ ہی کی توفیق سے ہے پڑھ لیا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣٩ (٨٣٢) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٥١٥٠) ، مسند احمد ٤/٣٥٣، ٣٥٦، ٣٨٢ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 924
امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب قاری (امام) آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے ١ ؎ گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٢٦٦) ، مسند احمد ٢/٢٣٨، ٤٤٩، ٤٥٩، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨١، ١٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مؤلف نے امام کے بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے، کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہو سکے گا، اور جب انہیں اس کا علم نہیں ہو سکے گا تو ان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 925
امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب قاری (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا، اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦٣ (٦٤٠٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤ (٨٥١) ، مسند احمد ٢/٢٣٨، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 926
امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمين کہو، کیونکہ فرشتے آمین کہتے ہیں اور امام آمین کہتا ہے تو جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤ (٨٥٢) مختصراً ، مسند احمد ٢/٢٣٣، ٢٧٠، سنن الدارمی/الصلاة ٣٨ (١٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 927
امام آمین بلند آواز سے پکارے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا، اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧١ (٢٥٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 928
امام کی اقتداء میں آمین کہنا اس کا حکم
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم لوگ آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوجائے گا اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٣ (٧٨٢) ، التفسیر ٢ (٤٤٧٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٢ (٩٣٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٥) ، مسند احمد ٢/٤٥٩، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 929
فضیلت آمین
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی آمین کہے اور فرشتے بھی آسمان پر آمین کہیں اور ان دونوں میں سے ایک کی آمین دوسرے کے موافق ہوجائے تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١١ (٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٦) ، موطا امام مالک/الصلاة ١١ (٤٦) ، مسند احمد ٢/٤٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 930
اگر مقتدی کو نماز میں چھینک آجائے تو کیا کہنا چاہئے؟
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، تو مجھے چھینک آگئی، تو میں نے الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضى اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے کہا، تو جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے، اور سلام پھیر کر پلٹے تو آپ نے پوچھا : نماز میں کون بول رہا تھا ؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے دوسری بار پوچھا : نماز میں کون بول رہا تھا ؟ تو رفاعہ بن رافع بن عفراء (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : تم نے کیسے کہا تھا ؟ انہوں نے کہا : میں نے یوں کہا تھا : الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه مبارکا عليه كما يحب ربنا ويرضى اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں، جو پاکیزہ و بابرکت ہوں، جیسا ہمارا رب چاہتا اور پسند کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے لے کر کون اوپر چڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٧٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٠ (٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٦) ، موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٥) ، مسند احمد ٤/٣٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 931
اگر مقتدی کو نماز میں چھینک آجائے تو کیا کہنا چاہئے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے اللہ اکبر کہا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے نیچے تک اٹھایا، پھر جب آپ نے غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہا تو آپ نے آمین کہی جسے میں نے سنا، اور میں آپ کے پیچھے تھا ١ ؎، پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه کہتے سنا، تو جب آپ اپنی نماز سے سلام پھیرلیا تو پوچھا : نماز میں کس نے یہ کلمہ کہا تھا ؟ تو اس شخص نے کہا : میں نے اللہ کے رسول ! اور اس سے میں نے کسی برائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر بارہ فرشتے جھپٹے تو اسے عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز روک نہیں سکی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١١٧٦٤) ، مسند احمد ٤/٣١٥، ٣١٧ (صحیح) (اس سند میں عبدالجبار اور ان کے باپ وائل بن حجر (رض) کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ” فما نھنھھا ۔۔۔ “ کے جملے کے علاوہ اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر بقیہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلند آواز سے آمین کہی، رہا بعض حاشیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ پہلی صف والوں کے بالخصوص ایسے شخص سے سننے سے جو نبی اکرم ﷺ کے بالکل پیچھے ہو جہر لازم نہیں آتا، تو یہ صحیح نہیں کیونکہ صاحب ہدایہ نے یہ تصریح کی ہے کہ جہر یہی ہے کہ کوئی دوسرا سن لے، اور کرخی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہر کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ بولنے والا آدمی خود اسے سنے، رہی وائل بن حجر (رض) کی خفض والی روایت تو شعبہ نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں، جس کی تفصیل سنن ترمذی حدیث رقم ( ٢٤٨ ) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره دون قوله فما نهنهها صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 932
فضائل قرآن کریم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا : گھنٹی کی آواز کی طرح، پھر وہ بند ہوجاتی ہے اور میں اسے یاد کرلیتا ہوں، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، اور کبھی وحی کا فرشتہ میرے پاس نوجوان آدمی کی شکل میں آتا ہے، اور وہ مجھ سے کہہ جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٣ (٢٣٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢٤) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٧) ، مسند احمد ٦/١٥٨، ١٦٣، ٢٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 933
فضائل قرآن کریم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حارث بن ہشام (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کبھی میرے پاس گھنٹی کی آواز کی شکل میں آتی ہے، اور یہ قسم میرے اوپر سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر وہ بند ہوجاتی ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد کرلیتا ہوں، اور کبھی میرے پاس فرشتہ آدمی کی شکل میں آتا ہے ١ ؎ اور مجھ سے باتیں کرتا ہے، اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے یاد کرلیتا ہوں ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کڑکڑاتے جاڑے میں آپ پر وحی اترتے دیکھا، پھر وہ بند ہوتی اور حال یہ ہوتا کہ آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ٢ (٢) ، سنن الترمذی/المناقب ٧ (٣٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٥٢) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٧) ، مسند احمد ٦/٢٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یتمثل لي الملک رجلاً میں رَجَلاً منصوب بنزع الخافض ہے، تقدیر یوں ہوگی یتمثل لي الملک صورۃ رجل، صور ۃ جو مضاف تھا حذف کردیا گیا ہے، اور رجل جو مضاف الیہ کو مضاف کا اعراب دے دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 934
فضائل قرآن کریم
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے قول : لا تحرک به لسانک لتعجل به * إن علينا جمعه وقرآنه (القیامۃ : ١٦ - ١٧) کی تفسیر میں مروی ہے، کہ نبی اکرم ﷺ وحی اترتے وقت بڑی تکلیف برداشت کرتے تھے، اپنے ہونٹ ہلاتے رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے نبی ! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، کیونکہ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے ١ ؎، ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جمعه کے معنی : اس کا آپ ﷺ کے سینہ میں بیٹھا دینا ہے، اور قرآنه کے معنی اسے اس طرح پڑھوا دینا ہے کہ جب آپ چاہیں اسے پڑھنے لگ جائیں فإذا قرأناه فاتبع قرآن ه میں فاتبع قرآن ه کے معنی ہیں : آپ اسے غور سے سنیں، اور چپ رہیں، چناچہ جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ بغور سنتے تھے، اور جب روانہ ہوجاتے تو آپ اسے پڑھتے جس طرح انہوں نے پڑھایا ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ٤ (٥) ، تفسیر ” القیامة “ ١ (٤٩٢٧) مختصراً ، ٢ (٤٩٢٨) مختصراً ، ٣ (٤٩٢٩) ، فضائل القرآن ٢٨ (٥٠٤٤) ، التوحید ٤٣ (٧٥٢٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٢ (٤٤٨) ، سنن الترمذی/تفسیر ” القیامة “ ٧١ (٣٣٢٩) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٧) ، مسند احمد ١/٢٢٠، ٣٤٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ ہمارے ذمہ ہے کہ اسے آپ کے دل میں بٹھا دیں، اور آپ اسے پڑھنے لگیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 935
فضائل قرآن کریم
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام (رض) کو سورة الفرقان پڑھتے سنا، انہوں نے اس میں کچھ الفاظ اس طرح پڑھے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اس طرح نہیں پڑھائے تھے تو میں نے پوچھا : یہ سورت آپ کو کس نے پڑھائی ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے، میں نے کہا : آپ غلط کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اس طرح کبھی نہیں پڑھائی ہوگی ! چناچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا، اور انہیں کھینچ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے سورة الفرقان پڑھائی ہے، اور میں نے انہیں اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ہشام ! ذرا پڑھو تو ، تو انہوں نے ویسے ہی پڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ سورت اسی طرح اتری ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : عمر ! اب تم پڑھو تو ، تو میں نے پڑھا، تب بھی آپ ﷺ نے فرمایا : اسی طرح اتری ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخصومات ٤ (٢٤١٩) ، فضائل القرآن ٥ (٤٩٩٢) ، ٢٧ (٥٠٤١) ، المرتدین ٩ (٦٩٣٦) ، التوحید ٥٣ (٧٥٥٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٨ (٨١٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٧ (١٤٧٥) ، سنن الترمذی/القرائات ١١ (٢٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩١، ١٠٦٤٢) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٥) ، مسند احمد ١/٢٤، ٤٠، ٤٢، ٤٣، ٢٦٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی تفسیر میں امام سیوطی نے الاتقان میں ( ٣٠ ) سے زائد اقوال نقل کئے ہیں جس میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات مشہور لغات ہیں، بعضوں نے کہا اس سے مراد سات لہجے ہیں جو عربوں کے مختلف قبائل میں مروج تھے، اور بعضوں نے کہا کہ اس سے مراد سات مشہور قراتیں ہیں جنہیں قرات سبعہ کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 936
فضائل قرآن کریم
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم (رض) کو سورة الفرقان پڑھتے سنا، جس طرح میں پڑھ رہا تھا وہ اس کے خلاف پڑھ رہے تھے، جبکہ مجھے خود رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا تھا، تو قریب تھا کہ میں ان کے خلاف جلد بازی میں کچھ کر بیٹھوں ١ ؎، لیکن میں نے انہیں مہلت دی یہاں تک کہ وہ پڑھ کر فارغ ہوگئے، پھر میں نے ان کی چادر سمیت ان کا گریبان پکڑ کر انہیں کھینچا، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے انہیں سورة الفرقان ایسے طریقہ پر پڑھتے سنا ہے جو اس طریقہ کے خلاف ہے جس طریقہ پر آپ نے مجھے یہ سورت پڑھائی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : (اچھا) تم پڑھو !، انہوں نے اسی طریقہ پر پڑھا جس پر میں نے ان کو پڑھتے ہوئے سنا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے ، پھر مجھ سے فرمایا : تم پڑھو ! تو میں نے بھی پڑھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے، یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، ان میں سے جو آسان ہو تم اسی طرح پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نماز ہی کی حالت میں انہیں پکڑ کر کھینچ لوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 937
فضائل قرآن کریم
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہشام بن حکیم (رض) کو سورة الفرقان پڑھتے سنا تو میں ان کی قرآت غور سے سننے لگا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کچھ الفاظ ایسے طریقے پر پڑھ رہے ہیں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھایا تھا، چناچہ قریب تھا کہ میں ان پر نماز میں ہی جھپٹ پڑوں لیکن میں نے صبر سے کام لیا، یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیر دیا، جب وہ سلام پھیر چکے تو میں نے ان کی چادر سمیت ان کا گریبان پکڑا، اور پوچھا : یہ سورت جو میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے سنی ہے آپ کو کس نے پڑھائی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے، میں نے کہا : تم جھوٹ کہہ رہے ہو : اللہ کی قسم یہی سورت جو میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے سنی ہے رسول اللہ ﷺ نے بذات خود مجھے پڑھائی ہے، بالآخر میں انہیں کھینچ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا، اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے انہیں سورة الفرقان کے کچھ الفاظ پڑھتے سنا ہے کہ اس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھایا ہے، حالانکہ سورة الفرقان آپ نے ہی مجھ کو پڑھائی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمر ! انہیں چھوڑ دو ، اور ہشام ! تم پڑھو ! تو انہوں نے اسے اسی طرح پر پڑھا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمر ! اب تم پڑھو ! تو میں نے اس طرح پڑھا جیسے آپ نے مجھے پڑھایا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، ان میں سے جو آسان ہو اسی پر پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٣٧، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 938
فضائل قرآن کریم
ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس تشریف لائے، اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی امت کو ایک ہی حرف پر قرآن پڑھائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ سے عفو و مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ، پھر دوسری بار جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے، اور انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی امت کو دو حرفوں پر قرآن پڑھائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ سے عفو و مغفرت کا طلب گار ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ، پھر جبرائیل (علیہ السلام) تیسری بار آپ کے پاس آئے اور انہوں کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی امت کو قرآن تین حرفوں پر قرآن پڑھائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں اپنے رب سے عفو و مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ہے ، پھر وہ آپ کے پاس چوتھی بار آئے، اور انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو سات حرفوں پر قرآن پڑھائیں، تو وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے صحیح پڑھیں گے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اس حدیث میں حکم کی مخالفت کی گئی ہے، منصور بن معتمر نے ان کی مخالفت کی ہے، اسے مجاهد عن عبيد بن عمير کے طریق سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٨ (٨٢٠، ٨٢١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٧ (١٤٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٠) ، مسند احمد ٥/١٢٧، ١٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 939
فضائل قرآن کریم
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک سورت پڑھائی تھی، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اسی سورت کو پڑھ رہا ہے، اور میری قرآت کے خلاف پڑھ رہا ہے، تو میں نے اس سے پوچھا : تمہیں یہ سورت کس نے سکھائی ہے ؟ اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے، میں نے کہا : تم مجھ سے جدا نہ ہونا جب تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس نہ آجائیں، میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ شخص وہ سورت جسے آپ نے مجھے سکھائی ہے میرے طریقے کے خلاف پڑھ رہا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابی ! تم پڑھو تو میں نے وہ سورت پڑھی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہت خوب ، پھر آپ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا : تم پڑھو ! تو اس نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہت خوب ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابی ! قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، اور ہر ایک درست اور کافی ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : معقل بن عبیداللہ (زیادہ) قوی نہیں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٦) ، مسند احمد ٥/١١٤، ١٢٧، ١٢٨ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے الف لام کے ساتھ القوی کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے مراد ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک یہ ہے کہ یہ اتنا قوی نہیں ہیں جتنا صحیح حدیث کے راوی کو ہونا چاہیے یہ بقول حافظ ابن حجر صدوق یخطیٔ ہیں، یعنی عدالت میں تو ثقہ ہیں مگر حافظہ کے ذرا کمزور ہیں، متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر ان کی یہ روایت حسن صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 940
فضائل قرآن کریم
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو میرے دل میں کوئی خلش پیدا نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ میں نے ایک آیت پڑھی، اور دوسرے شخص نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو میں نے کہا : مجھے یہ آیت خود رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے، تو دوسرے نے بھی کہا : مجھے بھی یہ آیت رسول اللہ ﷺ نے ہی پڑھائی ہے، بالآخر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! آپ نے مجھے یہ آیت اس اس طرح پڑھائی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، اور دوسرے شخص نے کہا : کیا آپ نے مجھے ایسے ایسے نہیں پڑھایا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) دونوں میرے پاس آئے، جبرائیل میرے داہنے اور میکائیل میرے بائیں طرف بیٹھے، جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : آپ قرآن ایک حرف پر پڑھا کریں، تو میکائیل نے کہا : آپ اسے (اللہ سے) زیادہ کرا دیجئیے یہاں تک کہ وہ سات حرفوں تک پہنچے، (اور کہا کہ) ہر حرف شافی و کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨) ، مسند احمد ٥/١١٤، ١٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 941
فضائل قرآن کریم
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صاحب قرآن ١ ؎ کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے اونٹ رسی سے بندھے ہوں، جب تک وہ ان کی نگرانی کرتا رہتا ہے تو وہ بندھے رہتے ہیں، اور جب انہیں چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٣ (٥٠٣١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٩) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٨٣٦٨) ، موطا امام مالک/القرآن ٤ (٦) ، مسند احمد ٢/٦٥، ١١٢، ١٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صاحب قرآن سے قرآن کا حافظ مراد ہے، خواہ پورے قرآن کا حافظ ہو یا اس کے کچھ اجزاء کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 942
فضائل قرآن کریم
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ کتنی بری بات ہے کہ کوئی کہے : میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ١ ؎، بلکہ اسے کہنا چاہیئے کہ وہ بھلا دیا گیا، تم لوگ قرآن یاد کرتے رہو کیونکہ وہ لوگوں کے سینوں سے رسی سے کھل جانے والے اونٹ سے بھی زیادہ جلدی نکل جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٣ (٥٠٣٢) ، ٢٦ (٥٠٣٩) مختصراً ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٩٠) ، سنن الترمذی/القراءات ١٠ (٢٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٩٥) ، مسند احمد ١/٣٨٢، ٤١٧، ٤٢٣، ٤٢٩، ٤٣٨، سنن الدارمی/الرقاق ٣٢ (٢٧٨٧) ، فضائل القرآن ٤ (٣٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بھول گیا سے غفلت لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے، اس کے برخلاف بھلا دیا گیا میں حسرت و افسوس اور ندامت کا اظہار ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 943
سنت فجر میں کیا پڑھنا چاہئے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں آیت کریمہ : قولوا آمنا باللہ وما أنزل إلينا (البقرہ : ١٣٦ ) اخیر آیت تک، اور دوسری رکعت میں آمنا باللہ واشهد بأنا مسلمون (آل عمران : ٥٢ ) پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٢ (١٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٦٩) ، مسند احمد ١/٢٣٠، ٢٣١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مراد سورة فاتحہ کے علاوہ ہے، سورة فاتحہ کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ اسے تو بہرصورت ہر سورة میں پڑھنی ہے، اس طرح بہت سی جگہوں پر فاتحہ کے علاوہ پر قرات کا اطلاق ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 944
سنت فجر میں سورت کافرون اور سورت اخلاص پڑھنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کی دونوں رکعتوں میں قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٢ (١٢٥٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠٢ (١١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 945
فجر کی سنتیں خفیف پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی : کیا آپ ﷺ نے ان دونوں میں سورة فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٨ (١١٧١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٢ (١٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١٣) ، مسند احمد ٦/٤٠، ٤٩، ١٠٠، ١٦٤، ١٧٢، ١٨٦، ٢٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 946
نماز فجر میں سورت روم کی تلاوت کرنا
نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے نماز فجر پڑھائی، اس میں آپ نے سورة الروم کی تلاوت فرمائی، تو آپ کو شک ہوگیا، جب نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، اور ٹھیک سے طہارت حاصل نہیں کرتے، یہی لوگ ہمیں قرآت میں شک میں ڈال دیتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٥٩٤) ، مسند احمد ٣/٤٧١، ٥/٣٦٣، ٣٦٨ (حسن) (تراجع الالبانی ٧٢ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 947
نماز فجر میں ساٹھ آیات کریمہ سے لے کر ایک سو آیات کریمہ تک تلاوت کرنا
ابوبرزہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر میں ساٹھ سے سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٥ (٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 948
نماز فجر میں سورت ق کی تلاوت سے متعلق
ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ق، والقرآن المجيد کو رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (سن سن کر) یاد کیا ہے، آپ اسے فجر میں (بکثرت) پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٣) ، مسند احمد ٦/٤٦٣ (شاذ) (اس کے راوی ” ابن ابی الرجال “ حافظہ کے کمزور ہیں اس لیے کبھی غلطی کر جاتے تھے، اور یہاں کر بھی گئے ہیں، محفوظ یہ ہے کہ منبر پر خطبہ میں پڑھنے کی بات ہے، جیسا کہ مؤلف کے یہاں بھی آ رہا ہے، دیکھئے رقم : ١٤١٢ ) قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ أن ذلک کان في خطبة الجمعة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 949
نماز فجر میں سورت ق کی تلاوت سے متعلق
زیاد بن علاقہ کے چچا قطبہ بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز فجر پڑھی، تو آپ نے ایک رکعت میں والنخل باسقات لها طلع نضيد پڑھی ١ ؎، شعبہ کہتے ہیں : میں نے زیاد سے پر ہجوم بازار میں ملاقات کی تو انہوں نے کہا : سورة ق پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٧) ، سنن الترمذی/فیہ ١١٢ (٣٠٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥ (٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٧) ، مسند احمد ٤/٣٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٤، ١٣٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ سورة پڑھی جس میں یہ آیت ہے جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 950
نماز فجر میں سورت تلاوت کرنا
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فجر میں إذا الشمس کورت پڑھتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٢٢) ، مسند احمد ٤/٣٠٦، ٣٠٧، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 951
فجر میں سورت الفلق اور سورت الناس پڑھنا
عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے معوذتین کے متعلق پوچھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فجر میں انہیں دونوں سورتوں کے ذریعہ ہماری امامت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٩١٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٥٤٣٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معوذتین سے مراد قل أعوذ برب الناس اور قل أعوذ برب الفلق ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 952
فضیلت سورت الفلق اور سورت الناس
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چلا، اور آپ سوار تھے تو میں نے آپ کے پاؤں پہ اپنا ہاتھ رکھا، اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے سورة هود اور سورة یوسف پڑھا دیجئیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس سے زیادہ بلیغ سورت تم کوئی اور نہیں پڑھو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٨) ، مسند احمد ٤/١٤٩، ١٥٥، ١٥٩، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٥ (٣٤٨٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٤٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 953
فضیلت سورت الفلق اور سورت الناس
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج رات میرے اوپر کچھ ایسی آیتیں اتریں ہیں جن کی طرح (کوئی اور آیتیں) نہیں دیکھی گئیں، وہ ہیں { قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤٦ (٨١٤) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٢ (٢٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٨) ، مسند احمد ٤/١٤٤، ١٥٠، ١٥١، ١٥٢، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٥ (٣٤٨٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٤٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 954
بروز جمعہ نماز فجر میں کونسی سورت تلاوت کی جائے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن فجر میں رسول اللہ ﷺ الم تنزیل (سورۃ الم سجدہ) اور ھل أتی (سورۃ الدہر) پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٠ (٨٩١) ، سجود القرآن ٢ (١٠٦٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٧ (٨٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦ (٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٤٧) ، مسند احمد ٢/٤٣٠، ٤٧٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٢ (١٥٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ کو نماز فجر میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے کان یقرأ کے صیغے سے اس پر نبی اکرم ﷺ کی مواظبت کا پتہ چلتا ہے، بلکہ ابن مسعود (رض) کی روایت میں جس کی تخریج طبرانی نے کی ہے اس پر آپ کی مداومت کی تصریح آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 955
بروز جمعہ نماز فجر میں کونسی سورت تلاوت کی جائے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن فجر میں تنزیل سجدہ (سورۃ السجدہ) اور ھل أتی علی الإنسان (سورۃ دھر) پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٧ (٨٧٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٨ (١٠٧٤، ١٠٧٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٨ (٥٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦ (٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٣) ، مسند احمد ١/٦ ٢٢، ٣٠٧، ٣١٦، ٣٢٨، ٣٣٤، ٣٤٠، ٣٥٤، ٣٦١، ویأتی عند المؤلف في الجمعة ٣٨ (برقم : ١٤٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 956
قرآن کریم کے سجدوں سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سورة ص میں سجدہ کیا، اور فرمایا : داود (علیہ السلام) نے یہ سجدہ توبہ کے لیے کیا تھا، اور ہم یہ سجدہ (توبہ کی قبولیت پر) شکر ادا کرنے کے لیے کر رہے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٥٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 957
سورہ نجم کے سجدہ سے متعلق
مطلب بن ابی وداعہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں سورة النجم پڑھی، تو آپ نے سجدہ کیا، اور جو لوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا، لیکن میں نے اپنا سر اٹھائے رکھا، اور سجدہ کرنے سے انکار کیا، (راوی کہتے ہیں) ان دنوں مطلب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٢٨٧) ، مسند احمد ٣/٤٢٠، ٤/٢١٥، ٦/٤٠٠ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 958
سورہ نجم کے سجدہ سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة النجم پڑھی، تو اس میں آپ نے سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٤ (١٠٦٧) مطولاً ، مناقب الأنصار ٢٩ (٣٨٥٣) مطولاً ، المغازي ٨ (٣٩٧٢) مطولاً ، تفسیر ” والنجم “ ٤ (٤٨٦٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٠ (١٤٠٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٩١٨٠) ، مسند احمد ١/٣٨٨، ٤٠١، ٤٣٧، ٤٤٣، ٤٦٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٠ (١٥٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 959
سورہ نجم میں سجدہ نہ کرنے سے متعلق
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ انہوں نے زید بن ثابت (رض) سے امام کے ساتھ قرآت کرنے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : امام کے ساتھ قرآت نہیں ہے ١ ؎، اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو والنجم اذا ھوی پڑھ کر سنایا، تو آپ ﷺ نے سجدہ نہیں کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/سجود القرآن ٦ (١٠٧٢، ١٠٧٣) (بدون قولہ في القرأة) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٩ (١٤٠٤) مختصراً ، سنن الترمذی/فیہ ٢٨٧ (٥٧٦) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٣) ، ح صحیح مسلم/٥/١٨٣، ١٨٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٤ (١٥١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ان کی اپنی سمجھ کے مطابق ان کا فتویٰ ہے، جو مرفوع حدیث کے مخالف ہے، یا مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ قرات میں امام کے ساتھ قرات نہیں ہے۔ ٢ ؎: اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مفصل میں سجدہ نہیں ہے، اور سورة النجم کے سجدہ کے سلسلہ میں جو روایتیں وارد ہیں، انہیں یہ لوگ منسوخ کہتے ہیں، کیونکہ یہ مکہ کا واقعہ تھا، لیکن جمہور جو مفصل کے سجدوں کے قائل ہیں، اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ قاری سامع کے لیے امام کا درجہ رکھتا ہے چونکہ زید قاری تھے، اور نبی اکرم ﷺ سامع تھے، زید نے اپنی کمسنی کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا تو نبی کریم ﷺ نے بھی ان کی اتباع میں سجدہ نہیں کیا، دوسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آپ اس وقت باوضو نہیں تھے اس لیے آپ نے بروقت سجدہ نہیں کیا جسے زید نے سمجھا کہ آپ نے سجدہ ہی نہیں کیا ہے، تیسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سجدہ واجب نہیں ہے، اس لیے آپ نے بیان جواز کے لیے کبھی کبھی انہیں ترک بھی کردیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 960
سورہ میں سجدہ کرنے سے متعلق
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے إذا السماء انشقت پڑھ کر سنایا تو انہوں نے اس میں سجدہ کیا، جب وہ سجدہ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں سجدہ کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : وقد اخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٩) ، موطا امام مالک/القرآن ٥ (١٢) ، مسند احمد ٢/٢٨١، ٤١٣، ٤٤٩، ٤٥١، ٤٥٤، ٤٦٦، ٤٨٧، ٥٢٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٢ (١٥٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 961
سورہ میں سجدہ کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے إذا السماء انشقت میں سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٩) ، مسند احمد ٢/٤٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 962
سورہ میں سجدہ کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ إذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربك میں سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٥ (٥٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧١ (١٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٥) ، مسند احمد ٢/٢٤٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٢ (١٥١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 963
سورہ میں سجدہ کرنے سے متعلق
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 964
سورہ میں سجدہ کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم نے إذا السماء انشقت میں سجدہ کیا، اور جو ان دونوں سے بہتر تھے انہوں نے بھی (یعنی نبی اکرم ﷺ نے بھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 965
سورہ اقراء میں سجدہ کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم نے اور جو ان دونوں سے بہتر تھے، انہوں نے یعنی نبی اکرم ﷺ نے إذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربك میں سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 966
سورہ اقراء میں سجدہ کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ إذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربك میں سجدہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٣١ (١٤٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٥ (٥٧٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٧١ (١٠٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٠٦) ، مسند احمد ٢/٢٤٩، ٤٦١، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٣ (١٥١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 967
نماز فرض میں سجدہ تلاوت سے متعلق
ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کے پیچھے عشاء یعنی عتمہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورة إذا السماء انشقت پڑھی، اور اس میں سجدہ کیا، تو میں نے کہا : ابوہریرہ ! اسے تو ہم کبھی نہیں کرتے تھے، انہوں نے کہا : اسے ابوالقاسم ﷺ نے کیا ہے، اور میں آپ کے پیچھے تھا، میں یہ سجدہ برابر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ ابوالقاسم ﷺ سے جا ملوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٦) ، ١٠١ (٧٦٨) ، سجود القرآن ١١ (١٠٧٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٠ (٥٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٣١ (١٤٠٧، ١٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤٩) ، مسند احمد ٢/٢٢٩، ٤٥٦، ٤٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 968
دن کے وقت نماز میں قرأت آہستہ کرنی چاہئے
عطاء کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے کہا : ہر نماز میں قرآت کی جاتی ہے تو جسے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سنایا ہم تمہیں سنا رہے ہیں، اور جسے آپ نے ہم سے چھپایا ہم بھی تم سے چھپا رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤١٧٧) ، مسند احمد ٢/٢٥٨، ٢٧٣، ٢٨٥، ٣٠١، ٣٤٣، ٣٤٨، ٤١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 969
دن کے وقت نماز میں قرأت آہستہ کرنی چاہئے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہر نماز میں قرآت ہے، تو جسے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سنایا ہم تمہیں سنا رہے ہیں، اور جسے آپ نے ہم سے چھپایا ہم تم سے چھپا رہے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٤ (٧٧٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٩٠) ، مسند احمد ٢/٢٧٣، ٢٨٥، ٣٤٨، ٤٨٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس میں آپ نے جہر سے قرات کی ہم بھی اس میں جہر سے قرات کرتے ہیں، اور جس میں آپ نے سرّی قرات کی اس میں ہم بھی سرّی قرات کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 970
نماز ظہر میں قرأت سے متعلق
براء (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پیچھے ظہر پڑھتے تھے، تو ہم آپ سے سورة لقمان اور سورة والذاریات کی ایک آدھ آیت کئی آیتوں کے بعد سن لیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨ (٨٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٩١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” ابو اسحاق “ مختلط ہوگئے تھے، نیز مدلس بھی ہیں، اور عنعنہ سے روایت کیے ہوئے ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ سری قرات کرتے تھے لیکن کبھی کبھی کوئی آیت زور سے بھی پڑھ دیا کرتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ سری نمازوں میں کبھی کبھی کوئی آیت جہر سے پڑھ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 971
نماز ظہر میں قرأت سے متعلق
عبداللہ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکر بن نضر کو کہتے سنا کہ ہم طف میں انس (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے لوگوں کو ظہر پڑھائی، جب وہ فارغ ہوئے تو کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر پڑھی، تو آپ نے (ظہر کی) دونوں رکعتوں میں یہی دونوں سورتیں یعنی سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧١٤) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” ابوبکر بن نضر “ مجہول الحال ہیں ) وضاحت : ١ ؎: طف کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 972
نماز ظہر میں پہلی رکعت میں سورت پڑھنے سے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نماز ظہر کھڑی کی جاتی تھی، پھرجانے والا بقیع جاتا اور اپنی حاجت پوری کرتا، پھر وضو کرتا اور واپس آتا، اور رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں ہوتے، (کیونکہ) آپ اسے خوب لمبی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧ (٨٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٨٢) ، مسند احمد ٣/٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 973
نماز ظہر میں پہلی رکعت میں سورت پڑھنے سے متعلق
ابوقتادہ (رض) نبی اکرم ﷺ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں ظہر پڑھاتے تھے تو آپ پہلی دونوں رکعتوں میں قرآت کرتے، اور یونہی کبھی ایک آدھ آیت ہمیں سنا دیتے، اور ظہر اور فجر کی پہلی رکعت بہ نسبت دوسری رکعت کے لمبی کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٦ (٧٥٩) ، ٩٧ (٧٦٢) مختصراً ، ١٠٧ (٧٧٦) مطولاً ، ١٠٩ (٧٧٧) ، ١١٠ (٧٧٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢٩ (٧٩٨، ٧٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨ (٨٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٨) ، مسند احمد ٤/٣٨٣، و ٥/٢٩٥، ٢٩٧، ٣٠٠، ٣٠١، ٣٠٥، ٣٠٧، ٣٠٨، ٣٠٩، ٣١٠، ٣١١، سنن الدارمی/الصلاة ٦٣ (١٣٢٨، ١٣٢٩، ١٣٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ لوگ پہلی رکعت کی فضیلت سے محروم نہ ہونے پائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 974
نماز ظہر میں امام کا آیت کریمہ پڑھنا اگر سنایا جائے
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر و عصر میں پہلی دونوں رکعتوں میں سورة فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے، اور پہلی رکعت میں دوسری رکعت کے بہ نسبت قرآت لمبی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 975
نماز ظہر کی دوسری رکعت میں پہلی رکعت سے کم قرأت کرنا
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم پر ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قرآت کرتے، اور کبھی کبھار آپ ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے، پہلی رکعت میں لمبی قرآت کرتے اور دوسری رکعت میں اس سے کم، اور فجر میں بھی ایسے ہی کرتے تھے پہلی میں لمبی قرآت کرتے اور دوسری میں اس سے کم کرتے، اور عصر میں بھی پہلی دونوں رکعتوں میں ہم پر قرآت کرتے، پہلی میں لمبی کرتے اور دوسری میں اس سے کم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 976
نماز ظہر کی دو رکعت میں قرات
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورة فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے، اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورة فاتحہ پڑھتے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے تھے، اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 977
نماز عصر کی شروع والی دو رکعت میں قرات
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورة فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے تھے، اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیتے، اور ظہر میں پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت (پہلی کی بہ نسبت) مختصر کرتے تھے، نیز فجر میں بھی ایسا ہی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 978
نماز عصر کی شروع والی دو رکعت میں قرات
جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ظہر اور عصر میں والسماء ذات البروج اور والسماء والطارق اور اسی جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٣١ (٨٠٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٣ (٣٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٢١٤٧) ، مسند احمد ٥/١٠٣، ١٠٦، ١٠٨، سنن الدارمی/الصلاة ٦٢ (١٣٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 979
نماز عصر کی شروع والی دو رکعت میں قرات
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ظہر میں والليل إذا يغشى پڑھتے تھے، اور عصر میں اسی جیسی سورت پڑھتے، اور صبح میں اس سے زیادہ لمبی سورت پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٩) ، المساجد ٣٣ (٦١٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣١ (٨٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٩، ٢١٨٥) ، مسند احمد ٥/٨٦، ٨٨، ١٠١، ١٠٦، ١٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 980
قیام اور قرأت کو مختصر کرنے سے متعلق
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک (رض) کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا : تم لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا : جی ہاں ! تو انہوں نے کہا : بیٹی ! میرے لیے وضو کا پانی لاؤ، میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جس کی نماز تمہارے اس امام ١ ؎ کی نماز سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتی ہو، زید کہتے ہیں : عمر بن عبدالعزیز رکوع اور سجدے مکمل کرتے اور قیام و قعود ہلکا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٤٠) ، مسند احمد ٣/١٦٢، ١٦٣، ٢٥٤، ٢٥٥، ٢٥٩ (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 981
قیام اور قرأت کو مختصر کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو فلاں ١ ؎ کی نماز سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہو، سلیمان کہتے ہیں : وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے اور آخری دونوں رکعتیں ہلکی کرتے، اور عصر کو ہلکی کرتے، اور مغرب میں قصارِ مفصل پڑھتے تھے، اور عشاء میں وساطِ مفصل پڑھتے تھے، اور فجر میں طوالِ مفصل پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧ (٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٤) ، مسند احمد ٢/٣٠٠، ٣٢٩، ٣٣٠، ٥٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فلاں سے مراد عمرو بن سلمہ (رض) ہیں۔ ٢ ؎: مفصل قرآن کا آخری ساتواں حصہ ہے جس کی ابتداء صحیح قول کی بنا پر سورة قٓ سے ہوتی ہے، مفصل کی تین قسمیں ہیں طوال مفصل وساط مفصل، قصارِ مفصل سورة ق یا سورة حجرات سے لے کر عم یتسألون یا سورة بروج تک طوال مفصل ہے، اور وساط مفصل سورة عم یتسألون سے یا سورة بروج سے لے کر والضحیٰ یا سورة لم یکن تک ہے، اور قصار مفصل والضحیٰ یا لم یکن سے لے کر اخیر قرآن تک ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 982
نماز مغرب میں مفصل کی چھوٹی سورت پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے فلاں سے بڑھ کر کسی کے پیچھے رسول اللہ ﷺ کی نماز سے مشابہ نماز نہیں پڑھی (سلیمان کہتے ہیں) ہم نے اس شخص کے پیچھے نماز پڑھی، وہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتے تھے، اور آخری دونوں (رکعتیں) ہلکی کرتے، اور عصر بھی ہلکی کرتے، اور مغرب میں قصار مفصل پڑھتے، اور عشاء میں والشمس وضحاها اور اسی طرح کی سورتیں پڑھتے، اور فجر میں دو لمبی دو سورتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 983
نماز مغرب میں سبح اسم ربک الاعلی کی تلاوت کرنا
جابر (رض) کہتے ہیں : انصار کا ایک شخص دو اونٹوں کے ساتھ جن پر سنچائی کے لیے پانی ڈھویا جاتا ہے معاذ (رض) کے پاس سے گزرا، اور وہ مغرب ١ ؎ پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے سورة البقرہ شروع کردی، تو اس شخص نے (الگ جا کر) نماز پڑھی، پھر وہ چلا گیا تو یہ بات نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : معاذ ! کیا تم فتنہ پرداز ہو ؟ معاذ کیا تم فتنہ پرداز ہو ؟ سبح اسم ربک الأعلى اور والشمس وضحاها اور اس طرح کی سورتیں کیوں نہیں پڑھتے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ عشاء میں ہوا، جیسا کہ صحیح بخاری میں اس کی صراحت ہے، نیز دیکھئیے حدیث رقم : ٩٩٨ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 984
نماز مغرب میں سورت و المرسلات کی تلاوت
ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اپنے گھر میں مغرب پڑھائی، تو آپ نے سورة المرسلات پڑھی، اس کے بعد آپ نے کوئی بھی نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٠) ، مسند احمد ٦/٣٣٨، ٣٣٩، ٣٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 985
نماز مغرب میں سورت و المرسلات کی تلاوت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اپنی ماں (ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو مغرب میں سورة المرسلات پڑھتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٨ (٧٦٣) مطولاً ، المغازي ٨٣ (٤٤٢٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٢) ، سنن ابی داود/فیہ ١٣٢ (٨١٠) مطولاً ، سنن الترمذی/فیہ ١١٤ (٣٠٨) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩ (٨٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٢) ، موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٤) ، مسند احمد ٦/٣٣٨، ٣٤٠، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 986
نماز مغرب میں سورت والطور کی تلاوت کرنا
جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو مغرب میں سورة الطور پڑھتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٩ (٧٦٥) ، الجھاد ١٧٢ (٣٠٥٠) ، المغازي ١٢ (٤٠٢٣) ، تفسیر الطور ١ (٤٨٥٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٦٣) ، سنن ابی داود/فیہ ١٣٢ (٨١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩ (٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٣) ، مسند احمد ٤/٨٠، ٨٣، ٨٤، ٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ٦٤ (١٣٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 987
نماز مغرب میں سورت حم دخان کی تلاوت
عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مغرب میں سورة حم الدخان پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٥٧٩) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” معاویہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 988
نماز مغرب میں سورت المص کی تلاوت کرنا
زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے مروان سے پوچھا : اے ابوعبدالملک ! کیا تم مغرب میں قل هو اللہ أحد اور إنا أعطيناک الکوثر پڑھتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں ! تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس میں المص جو دو لمبی سورتوں (انعام اور اعراف) میں زیادہ لمبی ہے (سورۃ الاعراف) پڑھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٢) ، مسند احمد ٥/١٨٥، ١٨٧، ١٨٨، ١٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 989
نماز مغرب میں سورت المص کی تلاوت کرنا
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ زید بن ثابت (رض) کہنے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں مغرب میں تمہیں چھوٹی سورتیں پڑھتے دیکھتا ہوں، حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس نماز میں دو بڑی سورتوں میں جو زیادہ بڑی سورت ہے اسے پڑھتے دیکھا ہے، میں نے پوچھا : اے ابوعبداللہ ! دو بڑی سورتوں میں سے زیادہ بڑی سورت کون سی ہے ؟ انہوں نے کہا : اعراف۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٨ (٧٦٤) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٢ (٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 990
نماز مغرب میں سورت المص کی تلاوت کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب میں سورة الاعراف پڑھی، آپ نے اسے دونوں رکعتوں میں بانٹ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٩٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 991
نماز مغرب میں کونسی سورت تلاوت کی جائے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیس مرتبہ مغرب کے بعد کی اور فجر کے پہلے کی دونوں رکعتوں میں قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٢ (٤١٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٢ (١١٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٨٨) ، مسند احمد ٢/٢٤، ٣٥، ٥٨، ٩٤، ٩٥، ٩٩ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 992
سورہ قل ھو اللہ احد کی فضیلت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھایا کرتا تھا، اور قرأت قل هو اللہ أحد پر ختم کرتا تھا، جب لوگ لوٹ کر واپس آئے، تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ان سے پوچھو، وہ ایسا کیوں کرتے تھے ؟ ان لوگوں نے ان سے پوچھا : انہوں نے کہا : یہ رحمن عزوجل کی صفت ہے، اس لیے میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اسے بتادو کہ اللہ عزوجل بھی اسے پسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/توحید ١ (٧٣٧٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٥ (٨١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 993
سورہ قل ھو اللہ احد کی فضیلت سے متعلق
عبید بن حنین مولی آل زید بن خطاب کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آیا، تو آپ نے ایک شخص کو قل هو اللہ أحد * اللہ الصمد * لم يلد ولم يولد * ولم يكن له کفوا أحد پڑھتے سنا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : واجب ہوگئی ، میں نے آپ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا چیز واجب ہوگئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جنت ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١١ (٢٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٢٧) ، موطا امام مالک/القرآن ٦ (١٨) ، مسند احمد ٢/٣٠٢، ٥٣٥، ٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 994
سورہ قل ھو اللہ احد کی فضیلت سے متعلق
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کو قل هو اللہ أحد پڑھتے سنا، وہ اسے باربار دہرا رہا تھا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ تہائی قرآن کے برابر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٣ (٥٠١٣) ، الأیمان والنذور ٣ (٦٦٤٣) ، التوحید ١ (٧٣٧٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٣ (١٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٤) ، موطا امام مالک/القرآن ٦ (١٧) ، مسند احمد ٣/٢٣، ٣٥، ٤٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض علماء نے اس کی توضیح اس طرح کی ہے کہ علوم قرآن کی تین قسمیں ہیں، ایک توحید، دوسری تشریع، اور تیسری اخلاق، ان میں سے پہلی قسم توحید کا جامع بیان اس سورت میں موجود ہے اس لیے اسے ثلث قرآن کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 995
سورہ قل ھو اللہ احد کی فضیلت سے متعلق
ابوایوب خالد بن زید انصاری (رض) نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قل هو اللہ أحد تہائی قرآن ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : میں کسی حدیث کی اس سے زیادہ بڑی سند نہیں جانتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل القرآن ١١ (٢٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٢) ، مسند احمد ٥/٤١٨، ٤١٩، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٢٤ (٣٤٨٠) (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 996
نماز عشاء میں سورت اعلی کی تلاوت
جابر (رض) کہتے ہیں کہ معاذ (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے عشاء پڑھائی، تو انہوں نے قرأت لمبی کردی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معاذ ! کیا تم فتنہ پرداز ہو ؟ معاذ ! کیا تم فتنہ پرداز ہو ؟ سبح اسم ربک الأعلى، والضحى اور إذا السماء انفطرت کیوں نہیں پڑھتے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 997
نماز عشاء میں سورت شمس پڑھنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) نے اپنے اصحاب کو عشاء پڑھائی تو انہوں نے قرأت ان پر طویل کردی، تو ہم میں سے ایک شخص نے نماز توڑ دی (اور الگ نماز پڑھ لی) معاذ (رض) کو اس کے متعلق بتایا گیا تو انہوں نے کہا : وہ منافق ہے، جب یہ بات اس شخص کو معلوم ہوئی، تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور معاذ (رض) نے جو کچھ کہا تھا آپ کو اس کی خبر دی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : معاذ ! کیا تم فتنہ بپا کرنا چاہتے ہو ؟ جب تم لوگوں کی امامت کرو تو والشمس وضحاها، سبح اسم ربک الأعلى، والليل إذا يغشى اور اقرأ باسم ربك پڑھا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الدین ١٠ (٨٣٦) ، ٤٨ (٩٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٩١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 998
نماز عشاء میں سورت شمس پڑھنا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء میں والشمس وضحاها اور اسی جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١١٥ (٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩٦٢) ، مسند احمد ٥/٣٥٤، ٣٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 999
سورہ والتین نماز عشاء میں تلاوت کرنا
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشاء پڑھی، تو آپ ﷺ نے اس میں والتین والزیتون پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٠ (٧٦٧) ، ١٠٢ (٧٦٩) ، تفسیر ” التین “ ١ (٤٩٥٢) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٦ (٤٦٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٥ (١٢٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣١ (٣١٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠ (٨٣٤، ٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩١) ، موطا امام مالک/الصلاة ٥ (٢٧) ، مسند احمد ٤/٢٨٤، ٢٨٦، ٢٩١، ٢٩٨، ٣٠٢، ٣٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1000
عشاء کی پہلی رکعت میں کونسی سورت پڑھی جائے
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے، تو آپ ﷺ نے عشاء کی پہلی رکعت میں والتین والزیتون پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1001
شروع کی دو رکعت کو طویل کرنا
ابو عون کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ (رض) کو کہتے سنا کہ عمر (رض) نے سعد (رض) سے کہا : لوگ ہر بات میں تمہاری شکایت کرتے ہیں یہاں تک کہ نماز میں بھی، سعد (رض) نے کہا : میں پہلی دونوں رکعتوں میں جلد بازی نہیں کرتا ١ ؎ اور پچھلی دونوں رکعتوں میں قرأت ہلکی کرتا ہوں، میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی پیروی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، عمر (رض) نے کہا : تم سے مجھے یہی توقع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٤ (٧٥٥) مطولاً ، ٩٥ (٧٥٨) ، ١٠٣ (٧٧٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٠ (٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٤٧) ، مسند احمد ١/١٧٥، ١٧٦، ١٧٩، ١٨٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر قرأت کرتا ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1002
شروع کی دو رکعت کو طویل کرنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ کوفہ کے چند لوگ عمر (رض) کے پاس سعد (رض) کی شکایت لے کر آئے، اور کہنے لگے : اللہ کی قسم ! یہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، (عمر (رض) کے پوچھنے پر) سعد (رض) نے کہا : میں تو انہیں رسول اللہ ﷺ کی سی نماز پڑھاتا ہوں، اس میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا، پہلی دونوں رکعتوں میں قرأت لمبی کرتا ہوں، اور پچھلی دونوں رکعتوں میں ہلکی کرتا ہوں، عمر (رض) نے کہا : تم سے یہی توقع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1003
ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں ان سورتوں کو جانتا ہوں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، وہ بیس سورتیں ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ دس رکعتوں میں پڑھتے تھے، پھر انہوں نے علقمہ (رض) کا ہاتھ پکڑا، اور اندر لے گئے، پھر علقمہ (رض) نکل کر باہر ہمارے پاس آئے، تو ہم نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے ہمیں وہ سورتیں بتائیں۔ تخریج دارالدعوہ : فضائل القرآن ٦ (٤٩٩٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٩ (٨٢٢) مطولاً ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٥ (٦٠٢) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٨) ، مسند احمد ١/٣٨٠، ٤١٧، ٤٢٧، ٤٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1004
ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا
ابو وائل شفیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آ کر کہنے لگا : میں نے پوری مفصل ایک ہی رکعت میں پڑھ لی، تو انہوں نے کہا : یہ تو شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھنا ہوا، مجھے وہ سورتیں معلوم ہیں جو ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، اور جنہیں رسول اللہ ﷺ ملا کر پڑھا کرتے تھے، تو انہوں نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا جن میں آپ دو دو سورتیں ایک رکعت میں ملا کر پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤٩ (٨٢٢) ، مسند احمد ١/٤٣٦، (تحفة الأشراف : ٩٢٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1005
ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے آج رات ایک رکعت میں پوری مفصل پڑھ ڈالی، تو انہوں نے کہا : یہ تو شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھنا ہوا، لیکن رسول اللہ ﷺ حمٓ سے اخیر قرآن تک مفصل کی صرف بیس ہم مثل سورتیں ملا کر پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٥٨٦) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: وہ سورتیں یہ ہیں الرحمن اور النجم کو ایک رکعت میں، اقتربت اور الحاقہ کو ایک رکعت میں الذاریات اور الطور کو ایک رکعت میں الواقع ۃ اور نون کو ایک رکعت میں، سأل اور والنازعات کو ایک رکعت میں عبس اور ویل للمطففین کو ایک رکعت میں المدثر، اور المزمل کو ایک رکعت میں، ہل أتی اور لا أقسم کو ایک رکعت میں، عم یتسألون اور المرسلات کو ایک رکعت میں، اور والشمس کورت اور الدخان کو ایک رکعت میں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1006
سورت کا کوئی حصہ نماز میں پڑھنا
عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے کعبہ کے سامنے نماز پڑھی، اپنے جوتے اتار کر انہیں اپنی بائیں طرف رکھا، اور سورة مومنون سے قرأت شروع کی، جب موسیٰ یا عیسیٰ (علیہما السلام) کا ذکر آیا ١ ؎ تو آپ کو کھانسی آگئی، تو آپ رکوع میں چلے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٠٦ (٧٧٤) تعلیقاً ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٥ (٤٥٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨٩ (٦٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠٥ (٨٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٣) ، مسند احمد ٣/٤١١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سورة مومنون آیت نمبر : ٤٥ ثم أرسلنا موسیٰ وأخاه هارون بآياتنا وسلطان مبين میں ہے، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر اس سے چار آیتوں کے بعد وجعلنا ابن مريم وأمه آية وآويناهما إلى ربوة ذات قرار ومعين [ المؤمنون : 50] میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1007
جس وقت دوران نماز عذاب الہی سے متعلق آیت کریمہ تلاوت کرے تو اللہ سے پناہ مانگے
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں نماز پڑھی، تو آپ نے قرأت کی، آپ جب کسی عذاب کی آیت سے گزرتے تو تھوڑی دیر ٹھہرتے، اور پناہ مانگتے، اور جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو دعا کرتے ١ ؎، اور رکوع میں سبحان ربي العظيم کہتے، اور سجدے میں سبحان ربي الأعلى کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٧ (٧٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٩ (٢٦٢، ٢٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٣ (٨٩٧) ، ١٧٩ (١٣٥١) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٥١) ، مسند احمد ٥/٣٨٢، ٣٨٤، ٣٨٩، ٣٩٤، ٣٩٧، سنن الدارمی/الصلاة ٦٩ (١٣٤٥) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٠٤٧، ١١٣٤، ١٦٦٥، ١٦٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صلى إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تہجد کی نماز تھی، اسی لیے علماء نے اسے نفل نمازوں کے ساتھ خاص قرار دیا ہے شیخ عبدالحق لمعات میں لکھتے ہیں : وهو محمول عندنا على النوافل یعنی یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1008
رحمت کی آیت پڑھنے پر رحمت کی دعا کرنا
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ہی رکعت میں تین سورتیں : بقرہ، آل عمران اور نساء پڑھیں، آپ جب بھی رحمت کی آیت سے گزرتے تو (اللہ سے) رحمت کی درخواست کرتے، اور عذاب کی آیت سے گزرتے تو (عذاب سے) اللہ کی پناہ مانگتے۔ تخریج دارالدعوہ : ویأتي عند المؤلف برقم : ١٦٦٦، (تحفة الأشراف : ٣٣٥١، ٣٣٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1009
ایک ہی آیت کریمہ کو متعدد مرتبہ تلاوت کرنا
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ نے ایک ہی آیت میں صبح کردی، وہ آیت یہ تھی : إن تعذبهم فإنهم عبادک وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحکيم یعنی اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو انہیں معاف فرما دے تو تو (غالب و زبردست) ہے، اور حکیم (حکمت والا) ہے (المائدہ : ١١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٩ (١٣٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠١٢) ، مسند احمد ٥/١٥٦، ١٧٠، ١٧٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1010
آیت کریمہ|"ولا تجھر بصلوتک ولاتخافت بھا|" کی تفسیر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم آیت کریمہ : ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ مکہ میں چھپے رہتے تھے، جب رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کو نماز پڑھاتے تو اپنی آواز بلند کرتے، (ابن منیع کی روایت میں ہے : قرآن زور سے پڑھتے) جب مشرکین آپ کی آواز سنتے تو قرآن کو اور جس نے اسے نازل کیا ہے اسے، اور جو لے کر آیا ہے اسے سب کو برا بھلا کہتے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے کہا : اے محمد ! اپنی نماز یعنی اپنی قرأت کو بلند نہ کریں کہ مشرکین سنیں تو قرآن کو برا بھلا کہیں، اور نہ اسے اتنی پست آواز میں پڑھیں کہ آپ کے ساتھی سن ہی نہ سکیں، بلکہ ان دونوں کے بیچ کا راستہ اختیار کریں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الإسراء ١٤ (٤٧٢٢) ، التوحید ٣٤ (٧٤٩٠) ، ٤٤ (٧٥٢٥) ، ٥٢ (٧٥٤٧) مختصراً ، صحیح مسلم/الصلاة ٣١ (٤٤٦) ، سنن الترمذی/تفسیر الإسراء ٥/٣٠٦ (٣١٤٥، ٣١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٥١) ، مسند احمد ١/٢٣، ٢١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1011
آیت کریمہ|"ولا تجھر بصلوتک ولاتخافت بھا|" کی تفسیر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے، تو جب مشرک آپ کی آواز سنتے تو وہ قرآن کو اور اسے لے کر آنے والے کو برا بھلا کہتے، تو نبی اکرم ﷺ قرآن کو اتنی پست آواز سے پڑھنے لگے کہ آپ کے ساتھی بھی نہیں سن پاتے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ولا تجهر بصلاتک ولا تخافت بها وابتغ بين ذلک سبيلا یعنی اے محمد ! نہ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھیں، اور نہ بہت پست آواز سے بلکہ ان کے بیچ کا راستہ اختیار کریں (بنی اسرائیل : ١١٠ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1012
قرآن کریم کو بلند آواز سے تلاوت کرنا
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں مسجد میں نبی اکرم ﷺ کی قرأت سنتی تھی، اور میں اپنی چھت پر ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ٤٣ (٣٠١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٩ (١٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠١٦) ، مسند احمد ٦/٣٤٢، ٣٤٣، ٤٢٤ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1013
بلند آواز سے قرآن کریم پڑھنا
قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : آپ اپنی آواز خوب کھینچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٢٩ (٥٠٤٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٥) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٣ (٢٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٩ (١٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥) ، مسند احمد ٣/١١٩، ١٢٧، ١٣١، ١٩٢، ١٩٨، ٢٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1014
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت بخشو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٦ (١٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥) ، مسند احمد ٤/٢٨٣، ٢٨٥، ٢٩٦، ٣٠٤، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٤ (٣٥٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1015
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم قرآن کو اپنی آواز سے مزین کرو ۔ عبدالرحمٰن بن عوسجہ کہتے ہیں : میں اس جملے زينوا القرآن کو بھول گیا تھا یہاں تک کہ مجھے ضحاک بن مزاحم نے یاد دلایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1016
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : اللہ تعالیٰ کوئی چیز اتنی پسندیدگی سے نہیں سنتا جتنی خوش الحان نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے، جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٩ (٥٠٢٣) ، التوحید ٣٢ (٧٤٨٢) ، ٥٢ (٧٥٤٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٤ (٧٩٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٧) ، مسند احمد ٢/٢٧١، ٢٨٥، ٤٥٠، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٤ (٣٥٣٣، ٣٥٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1017
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٩ (٥٠٢٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٤ (٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1018
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی قرأت سنی تو فرمایا : انہیں آل داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٢٣١) ، مسند احمد ٢/٣٦٩، ٤٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1019
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ابوموسیٰ (رض) کی قرأت سنی تو فرمایا : یقیناً انہیں آل داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٤٥٦) ، مسند احمد ٦/٣٧، ١٦٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٧١ (١٥٣٠) (صحیح الإسناد) (وھو عندخ وم من حدیث أبي موسیٰ وبریدة ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1020
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوموسیٰ (رض) کی قرأت سنی تو فرمایا : انہیں داود کے لحن (سُر) میں سے ایک لحن عطا کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٧٢) ، مسند احمد ٦/١٦٧ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 21 10
قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی قرأت اور نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : تم کہاں اور آپ کی نماز کہاں ! پھر انہوں نے آپ کی قرأت بیان کی جس کا ایک ایک حرف بالکل واضح تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٥ (١٤٦٦) مطولاً ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٣ (٢٩٢٣) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٦) ، مسند احمد ٦/٢٩٤، ٢٩٧، ٣٠٠، ٣٠٨، وأعادہ المؤلف برقم : ١٦٣٠ (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ” یعلی “ لین الحدیث ہیں، دیکھئے إرواء رقم : ٣٤٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1022
بوقت رکوع تکبیر پڑھنا
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ جس وقت مروان نے ابوہریرہ (رض) کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا، وہ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب وہ رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمده، ربنا ولک الحمد کہتے، پھر جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب تشہد کے بعد دوسری رکعت سے اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، (ہر رکعت میں) اسی طرح کرتے یہاں تک کہ اپنی نماز پوری کرلیتے، (ایک بار) جب انہوں نے اپنی نماز پوری کرلی اور سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم میں سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٠ (٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٢٦) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٩) ، مسند احمد ٢/٢٣٦، ٢٧٠، ٣٠٠، ٣١٩، ٤٥٢، ٤٩٧، ٥٠٢، ٥٢٧، ٥٣٣، سنن الدارمی/الصلاة ٤٠ (١٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1023
بوقت رکوع کانوں تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی کانوں کی لو تک پہنچ جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1024
دونوں مونڈھوں تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، یہاں تک کہ آپ انہیں اپنے مونڈھوں کے بالمقابل لے جاتے ١ ؎، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٩ (٣٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٦ (٢٥٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٥ (٨٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٦) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٦) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١١٤٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان دونوں روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں توسّع ہے کہ کبھی آپ دونوں ہاتھ کانوں کے اطراف تک اٹھاتے اور کبھی مونڈھوں کے بالمقابل لے جاتے، اور بعض نے دونوں میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ ہاتھوں کی ہتھیلیاں تو مونڈھوں کے بالمقابل رکھتے، اور انگلیوں کے سرے کانوں کے بالمقابل رکھتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1025
مونڈھوں تک ہاتھ نہ اٹھانا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں ؟ چناچہ وہ کھڑے ہوئے اور پہلی بار اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر انہوں نے دوبارہ ایسا نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٩ (٧٤٨، ٧٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٧٦ (٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٨) ، مسند احمد ١/٣٨٨، ٤٤١، ٤٤٢، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٠٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ ایسا ہوسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کبھی کبھی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرتے رہے ہوں، کیونکہ یہ فرض و واجب تو ہے نہیں، اس لیے ممکن ہے بیان جواز کے لیے کبھی آپ نے رفع یدین نہ کیا ہو، اور ابن مسعود (رض) نے اسی حالت میں آپ کو دیکھا ہو، ویسے ان سے تو کچھ ایسی باتیں بھی منقول ہیں کہ جن کا کوئی بھی امام قائل نہیں ہے، جیسے رکوع میں تطبیق (دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا کر دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھنا) اور معوّذتین کا ان کے مصحف (قرآن) میں نہ ہونا، وغیرہ، تو ممکن ہے ان کی یہ روایت بھی انہی باتوں میں سے ہو، رفع یدین نبی اکرم ﷺ کی سنت مستمرہ و راتبہ میں سے نہ ہوتا تو آپ کی وفات کے بعد بیسیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع یدین نہ کرتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1026
رکوع میں پشت برابر رکھنا
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسی نماز کافی نہیں ہوتی جس میں آدمی رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ برابر نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٥٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨١ (٢٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٦ (٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٥) ، مسند احمد ٤/١١٩، ١٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ٧٨ (١٣٦٦) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١١١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1027
کس طریقہ سے رکوع کیا جائے؟
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رکوع اور سجدے میں سیدھے رہو ١ ؎ اور تم میں سے کوئی بھی اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث حماد بن سلمة عن قتادة عن أنس، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٦١) ، وحدیث سعید بن أبي عروبة عن قتادة عن أنس قد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢١ (٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١١١١، ١١١٨، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٨ (٥٣٢) ، الأذان ١٤١ (٨٢٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٥ (٤٩٣) ، سنن ابی داود/فیہ ١٥٨ (٨٩٧) ، سنن الترمذی/فیہ ٩٠ (٢٨٦) ، مسند احمد ٣/١١٥، ١٧٧، ١٧٩، ١٩١، ٢١٤، ٢٧٤، ٢٩١، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رکوع میں (اعتدال) سیدھا رہنے کا مطلب یہ ہے کہ پیٹھ کو سیدھا رکھے، اور سر کو اس کے برابر رکھے، نہ اوپر نہ نیچے، اور دونوں ہاتھ سیدھے کر کے گھٹنوں پر رکھے، اور سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ کہنیوں کو زمین سے اور پیٹ کو ران سے جدا رکھے، کتے کی طرح بازو بچھانے کا مطلب دونوں کہنیوں کو دونوں ہتھیلیوں کے ساتھ زمین پر رکھنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1028
کس طریقہ سے رکوع کیا جائے؟
علقمہ اور اسود سے روایت ہے کہ وہ دونوں عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ ان کے گھر میں تھے، تو انہوں نے پوچھا : کیا ان لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا : ہاں ! تو انہوں نے بغیر اذان و اقامت کے دونوں کی امامت کی، اور ان دونوں کے درمیان میں کھڑے ہوئے، اور کہنے لگے : جب تم تین ہو تو ایسے ہی کرو، اور جب تم اس سے زیادہ ہو تو تم میں کا ایک شخص تمہاری امامت کرے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنی دونوں رانوں پر بچھا لے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست دیکھ رہا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں اختصار ہے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے واذا کنتم أکثر من ذلک، فلیؤمکم أحدکم، وإذا رکع أحدکم فلیفرش ذراعیہ علی فخذیہ، ولیجنأ ولیطبق بین کفیہ، فلَکَأَني أنظر إلی اختلاف أصابع رسول اللہ یعنی جب تم تین سے زائد ہو تو تم میں سے ایک آگے بڑھ کر امامت کرے، اور جب رکوع کرے تو اپنے دونوں بازو اپنی دونوں رانوں پر بچھا لے، اور رکوع میں جائے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرے، اور انہیں اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ میں رکھ لے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست دیکھ رہا ہوں، اس کو تطبیق کہتے ہیں اور یہ منسوخ ہے، دیکھئیے رقم : ١٠٣٣ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1029
کس طریقہ سے رکوع کیا جائے؟
اسود اور علقمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ ان کے گھر میں نماز پڑھی، وہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، ہم نے اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا، تو انہوں نے اسے وہاں سے ہٹا دیا اور ہمارے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کردیں، اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1030
کس طریقہ سے رکوع کیا جائے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز سکھائی، آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے اللہ اکبر کہا، تو جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو اپنے ہاتھوں کو ملا کر اپنے دونوں گھٹنوں کے بیچ کرلیا، اور رکوع کیا، یہ بات سعد (رض) کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا : میرے بھائی نے سچ کہا، ہم پہلے ایسا ہی کرتے تھے، پھر ہمیں اس کا یعنی ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑنے کا حکم دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٦٩) ، مسند احمد ١/٤١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1031
اس حکم کا منسوخ ہونا
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے پہلو میں نماز پڑھی، میں نے رکوع میں اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں کے درمیان کرلیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا : اپنی ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پہ رکھو، پھر میں نے دوسری بار بھی ایسا ہی کیا، تو انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا اور کہا : ہمیں اس سے روک دیا گیا ہے، اور ہاتھوں کو گھٹنوں پہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٨ (٧٩٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٠ (٨٦٧) ، سنن الترمذی/فیہ ٧٧ (٢٥٩) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧ (٨٧٣) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢٩) ، مسند احمد ١/١٨١، ١٨٢، سنن الدارمی/الصلاة ٦٨ (١٣٤١، ١٣٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1032
اس حکم کا منسوخ ہونا
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کر کے اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان کرلیا، تو میرے والد نے کہا : پہلے ہم ایسا ہی کرتے تھے، پھر ہم اسے اٹھا کر گھٹنوں پر رکھنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1033
دوران رکوع دونوں گھٹنوں کو پکڑنا
عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہتھیلیوں سے گھٹنوں کو پکڑے رکھنا تمہارے لیے مسنون قرار دیا گیا ہے، لہٰذا تم رکوع میں گھٹنوں کو پکڑے رہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٧٧ (٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1034
دوران رکوع دونوں گھٹنوں کو پکڑنا
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے کہا : سنت تو گھٹنوں کو پکڑنا ہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٣٥ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1035
دوران رکوع دونوں ہتھیلیاں کس جگہ رکھے؟
سالم البراد کہتے ہیں کہ ہم ابومسعود (عقبہ بن عمرو) کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا : آپ ہم سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں بیان کیجئے تو وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے، اور اللہ اکبر کہا، اور جب انہوں نے رکوع کیا تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پہ رکھا، اور انگلیوں کو اس سے نیچے، اور اپنی دونوں کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھا یہاں تک کہ ان کی ہر چیز سیدھی ہوگئی، پھر انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا، اور کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ ان کی ہر چیز سیدھی ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٦٣) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٥) ، مسند احمد ٤/١١٩، ١٢٠ و ٥/٢٧٤، سنن الدارمی/الصلاة ٦٨ (١٣٤٣) (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، مگر ” انگلیوں والا “ ٹکڑا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس کے راوی ” عطاء بن السائب “ مختلط راوی ہیں، اور ” ابو الاحوص “ یا زائدہ یا ابن علیہ (جو اگلی روایتوں میں ان کے راوی ہیں) ان سے اختلاط کے بعد روایت کرنے والے ہیں، اور انگلیوں والے ٹکڑے میں ان کا کوئی متابع نہیں پایا جاتا ) قال الشيخ الألباني : صحيح إلا جملة الأصابع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1036
دوران رکوع دونوں ہاتھ کی انگلیاں کس جگہ رہیں؟
ابوعبداللہ سالم بن البرد سے روایت ہے کہ عقبہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ کیا میں تمہارے سامنے ایسی نماز نہ پڑھوں جیسی میں نے رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے دیکھا ہے ؟ تو ہم نے کہا : کیوں نہیں ! ضرور پڑھیئے، تو وہ کھڑے ہوئے، جب انہوں نے رکوع کیا تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پہ، اور اپنی انگلیوں کو گھٹنوں کے نیچے رکھا، اور اپنے بغلوں کو جدا رکھا یہاں تک کہ ان کی ہر چیز اپنی جگہ پر آگئی، پھر انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور کھڑے ہوگئے، پھر سجدہ کیا اور اپنے بغلوں کو جدا رکھا یہاں تک ان کی ہر چیز اپنی جگہ جم گئی، پھر وہ بیٹھے یہاں تک کہ جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر آگیا، پھر انہوں نے سجدہ کیا یہاں تک کہ جسم کا ہر ہر عضو اپنی جگہ پر آگیا، چاروں رکعتیں اسی طرح ادا کیں، پھر انہوں نے کہا : میں نے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، اور آپ ہمیں اسی طرح پڑھاتے بھی تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (مگر انگلیوں والا ٹکڑا صحیح نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح إلا جملة الأصابع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1037
دوران رکوع بغلوں کو کشادہ رکھنے سے متعلق
ابوعبداللہ سالم براد کہتے ہیں کہ ابومسعود (عقبہ بن عمرو) (رض) کہنے لگے کہ کیا میں تمہیں نہ دکھاؤں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ تو ہم نے کہا : کیوں نہیں، ضرور دکھایئے، چناچہ وہ کھڑے ہوئے، اور اللہ اکبر کہا، اور جب رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں بغلوں سے جدا رکھا، یہاں تک کہ جب ان کی ہر چیز اپنی جگہ پر آگئی تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا، اسی طرح انہوں نے چار رکعتیں پڑھیں، اور کہا : میں نے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٣٧ (صحیح لغیرہ ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1038
بحالت رکوع اعتدال اختیار کرنے سے متعلق
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب رکوع کرتے تو پیٹھ اور سر کو برابر رکھتے، نہ تو سر کو بہت اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکا کر رکھتے، اور اپنے ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پہ رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٥ (٨٢٨) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٧٣٠، ٧٣١، ٧٣٢) ، ١٨١ (٩٦٣، ٩٦٤، ٩٦٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١١ (٣٠٤، ٣٠٥) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٢) ، ٧٢ (١٠٦١) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) ، مسند احمد ٥/٤٢٤، سنن الدارمی/الصلاة ٧٠ (١٣٤٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١١٠٢، ١١٨٢، ١٢٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1039
بحالت رکوع تلاوت قرآن کا ممنوع ہونا
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے قسی ١ ؎ اور حریر ٢ ؎ اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے روکا ہے، اور اس بات سے بھی کہ میں رکوع کی حالت میں قرآن پڑھوں۔ دوسری بار راوی نے أن أقرأ وأنا راکع کے بجائے أن أقرأ راکعا کہا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٨، ١٩٠٠١) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١٨٦، ٥١٨٧، ٥١٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک ریشمی کپڑا ہے قس کی طرف منسوب ہے جو ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎: خالص ریشمی کپڑا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1040
بحالت رکوع تلاوت قرآن کا ممنوع ہونا
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی پہننے سے، رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے، قسی کے بنے ہوئے ریشمی کپڑے اور کسم میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٤) ، مسند احمد ١/٨١، ١٢٣، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٠٤٣، ١١١٩، ٥١٧٥، ٥١٧٦، ٥٢٦٩ (حسن، صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1041
بحالت رکوع تلاوت قرآن کا ممنوع ہونا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی پہننے سے، قسی کے بنے ہوئے ریشمی کپڑے پہننے سے، انتہائی سرخ کپڑے اور کسم میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے، اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1042
بحالت رکوع تلاوت قرآن کا ممنوع ہونا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی سے اور قسی کے بنے ریشمی کپڑے، کسم میں رنگے کپڑے پہننے سے، اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٨٠) ، اللباس ٤ (٢٠٧٨) ، سنن ابی داود/اللباس ١١ (٤٠٤٤، ٤٠٤٥، ٤٠٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٠ (٢٦٤) ، اللباس ٥ (١٧٢٥) ، ١٣ (١٧٣٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢١ (٣٦٠٢) ، ٤٠ (٣٦٤٢) ، موطا امام مالک/الصلاة ٦ (٢٨) ، مسند احمد ١/٩٢، ١١٤، ١٢٦، ١٣٢، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٩) ، ویأتي عند المؤلف بالأرقام : ١٠٤٥، ١١٢٠، ٥١٧٧، ٥١٧٨، ٥١٨٠، ٥١٨١، ٥١٨٢، ٥١٨٣، ٥١٨٤، ٥١٨٥، ٥٢٧٠، ٥٢٧١، ٥٢٧٢، ٥٢٧٣، ٥٢٧٤، ٥٣٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1043
بحالت رکوع تلاوت قرآن کا ممنوع ہونا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے قسی کے بنے ریشمی کپڑے، اور کسم میں رنگے کپڑے پہننے سے، اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے، اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1044
دوران رکوع پروردگار کی عظمت کرنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا، اور لوگ ابوبکر (رض) کے پیچھے صف باندھے کھڑے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو ! نبوت کی خوشخبری سنانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے سوائے سچے خواب کے جسے مسلمان دیکھے یا اس کے لیے کسی اور کو دکھایا جائے ، پھر فرمایا : سنو ! مجھے رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہے، رہا رکوع تو اس میں اپنے رب کی بڑائی بیان کرو، اور رہا سجدہ تو اس میں دعا کی کوشش کرو کیونکہ اس میں تمہاری دعا قبول کئے جانے کے لائق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١ (٤٧٩) ، سنن ابی داود/فیہ ١٥٢ (٨٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الرؤیا ١ (٣٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨١٢) ، مسند احمد ١/٢١٩، سنن الدارمی/الصلاة ٧٧ (١٣٦٤، ١٣٦٥) ، ویأتی عند المؤلف في باب ٦٢ (برقم : ١١٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1045
بوقت رکوع کیا پڑھنا چاہئے؟
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا تو اپنے رکوع میں سبحان ربي العظيم اور سجدے میں سبحان ربي الأعلى کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1046
رکوع میں دوسرا کلمہ پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ رکوع اور سجدے میں سبحانک ربنا وبحمدک اللہم اغفر لي اے ہمارے رب تیری ذات پاک ہے، اور تیری حمد کے ساتھ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے کثرت سے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٣ (٧٩٤) ، ١٣٩ (٨١٧) ، المغازي ٥١ (٤٢٩٣) ، تفسیر سورة النصر ١ (٤٩٦٧) ، ٢ (٤٩٦٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٤) ، سنن ابی داود/فیہ ١٥٢ (٨٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠ (٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٥) ، مسند احمد ٦/٤٣، ٤٩، ١٠٠، ١٩٠، ٢٣٠، ٢٥٣، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١١٢٣، ١١٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1047
رکوع میں تیسرا کلمہ کہنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں سبوح قدوس رب الملائكة والروح فرشتوں اور جبرائیل امین کا رب ہر نقص و عیب سے پاک اور تمام آلائشوں سے منزہ ہے ، پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٤) ، مسند احمد ٦/٣٤، ٩٤، ١١٥، ١٤٨، ١٤٩، ١٧٦، ١٩٣، ٢٠٠، ٢٤٤، ٢٦٥، ویأتی عند المؤلف في باب ٧٥ (برقم : ١١٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1048
رکوع کے درمیان چوتھا کلمہ پڑھنا
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (نماز کے لیے) کھڑا ہوا تو جب آپ ﷺ نے رکوع کیا، تو سورة البقرہ پڑھنے کے بقدر رکوع میں ٹھہرے، آپ اپنے رکوع میں سبحان ذي الجبروت والملکوت والکبرياء والعظمة میں صاحب قدرت و بادشاہت اور صاحب بزرگی و عظمت کی پاکی بیان کرتا ہوں پڑھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧٣) مطولاً ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٢ (٢٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٢) ، مسند احمد ٦/٢٤، ویأتی عند المؤلف برقم : ١١٣٣ مطولاً (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1049
دوران رکوع پانچویں قسم کا کلمہ پڑھنا
علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع کرتے تو اللہم لک رکعت ولک أسلمت وبک آمنت خشع لک سمعي وبصري وعظامي ومخي وعصبي اے اللہ ! میں نے تیرے لیے اپنی پیٹھ جھکا دی، اور اپنے آپ کو تیرے حوالے کردیا، اور میں تجھ پر ایمان لایا، میرے کان، میری آنکھیں، میری ہڈیاں، میرے بھیجے اور میرے پٹھوں نے تیرے لیے عاجزی کا اظہار کیا پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٤) ، ١٢١ (٧٦٠، ٧٦١) ، ٣٦٠ (١٥٠٩) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣٢ (٣٤٢١، ٣٤٢٢، ٣٤٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥ (٨٦٤) ، ٧٠ (١٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) ، مسند احمد ١/٩٣، ٩٥، ١٠٢، ١٠٣، ١١٩، سنن الدارمی/الصلاة ٣٣ (١٢٧٤) ، ٧١ (١٣٥٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١١٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1050
رکوع کے دوران ایک دوسری قسم کا کلمہ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب رکوع کرتے تو اس میں اللہم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت وعليك توکلت أنت ربي خشع سمعي وبصري ودمي ولحمي وعظمي وعصبي لله رب العالمين اے اللہ ! میں نے تیرے لیے ہی اپنا سر جھکا دیا، تیرے اوپر ہی ایمان لایا، میں نے اپنے آپ کو تیرے ہی حوالے کردیا، تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا، تو میرا رب ہے، میرے کان، میری آنکھ، میرا خون، میرا گوشت، میری ہڈیاں اور میرے پٹھے نے اللہ کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے عاجزی کا اظہار کیا ہے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1051
رکوع کے دوران ایک دوسری قسم کا کلمہ
محمد بن مسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نفل پڑھنے کھڑے ہوتے تو جب رکوع میں جاتے تو اللہم لک رکعت وبک آمنت ولک أسلمت وعليك توکلت أنت ربي خشع سمعي وبصري ولحمي ودمي ومخي وعصبي لله رب العالمين اے اللہ ! میں نے تیرے لیے اپنی پیٹھ جھکا دی، تیرے اوپر ایمان لایا، میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کردیا، اور تجھ پر بھروسہ کیا، تو میرا رب ہے، میرا کان، میری آنکھ، میرا گوشت، میرا خون، میرا دماغ اور میرے پٹھے نے اللہ رب العالمین کے لیے عاجزی کا اظہار کیا ہے پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٠) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١١٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1052
دوران رکوع کچھ نہ پڑھنے سے متعلق
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ ﷺ اسے دیکھ رہے تھے لیکن وہ جان نہیں رہا تھا، وہ نماز سے فارغ ہوا، تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ کو سلام کیا، تو آپ نے سلام کا جواب دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ تم پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، میں نہیں جان سکا کہ اس نے دوسری بار میں یا تیسری بار میں کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے، میں اپنی کوشش کرچکا، آپ مجھے نماز پڑھنا سکھا دیں، اور پڑھ کر دکھا دیں کہ کیسے پڑھوں، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز کا ارادہ کرو تو وضو کرو اور اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ کھڑے ہو، پھر اللہ اکبر کہو، پھر قرأت کرو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ تم رکوع کی حالت میں مطمئن ہوجاؤ، پھر اٹھو یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ کی حالت میں مطمئن ہوجاؤ، پھر اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ کی حالت میں مطمئن ہوجاؤ، جب تم ایسا کرو گے تو اپنی نماز پوری کرلو گے، اور اس میں جو کمی کرو گے تو اپنی نماز ہی میں کمی کرو گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٦٨، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) ، ویأتي برقم : ١٣١٤، ١٣١٥ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے اس سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے رکوع (یا سجدہ) میں تسبیح کا ذکر نہیں کیا ہے، آپ اس کو صلاۃ سکھا رہے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ رکوع (یا سجدہ) میں تسبیح ضروری نہیں ہے، لیکن یہ استدلال صحیح نہیں، اس میں بہت سے واجبات کا ذکر نہیں ہے، دراصل اس آدمی میں تعدیل ارکان کی کمی تھی، اسی پر توجہ دلانا مقصود تھا، اس لیے آپ نے اعتدال پر خاص زور دیا، اور بہت سے واجبات کا ذکر نہیں کیا، دیگر روایات میں تسبیحات کا حکم موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1053
عمدہ طریقہ سے رکوع پورا کرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم رکوع اور سجدہ کرو تو انہیں اچھی طرح کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1054
رکوع سے سر اٹھانے کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، تو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے، اور جب رکوع کرتے، اور سمع اللہ لمن حمده کہتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ قیس بن سلیم (راوی حدیث) نے دونوں کانوں تک اشارہ کر کے دکھایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٧٧٩) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1055
رکوع سے اٹھتے وقت کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھانا
مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ رکوع کرتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے کانوں کی لو کے برابر کرلیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٨١، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1056
جس وقت رکوع سے سر اٹھائے تو ہاتھوں کو دونوں مونڈھے تک اٹھانا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اپنے کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب سمع اللہ لمن حمده کہتے تو ربنا لک الحمد کہتے، اور دونوں سجدوں کے درمیان اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٧٩، (تحفة الأشراف : ٦٩١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1057
رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ نہ اٹھانے کی اجازت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں ؟ چناچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1058
جس وقت امام رکوع سے سر اٹھائے تو اس وقت کیا پڑھنا چاہئے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور سمع اللہ لمن حمده ربنا ولک الحمد کہتے، اور سجدے میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1059
جس وقت امام رکوع سے سر اٹھائے تو اس وقت کیا پڑھنا چاہئے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہم ربنا ولک الحمد کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٢٩٥) ، مسند احمد ٢/٢٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1060
مقتدی جس وقت رکوع سے سر اٹھائے تو اس وقت کیا کہنا چاہئے؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ گھوڑے سے اپنے داہنے پہلو پر گرپڑے، تو لوگ آپ کی عیادت کرنے آپ کے پاس آئے کہ (اسی دوران) نماز کا وقت ہوگیا، (تو آپ نے انہیں نماز پڑھائی) جب آپ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا : امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمده کہے، تو تم ربنا ولک الحمد کہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٩٥، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں کہ مقتدی اور امام دونوں سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہیں جیسا کہ اس میں اس بات کی دلیل نہیں کہ امام اور مقتدی دونوں سمع اللہ لمن حمدہ کہیں کیونکہ یہ حدیث اس بات کے بیان کے لیے نہیں آئی ہے کہ اس موقع پر امام یا مقتدی کیا کہیں بلکہ اس حدیث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مقتدی ربنا لک الحمد امام کی سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد پڑھے، اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ امام ہونے کے باوجود ربنا لک الحمد کہتے تھے، اسی طرح آپ ﷺ کی حدیث صلّوا کما رأیتمونی اصلي کا عموم بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1061
مقتدی جس وقت رکوع سے سر اٹھائے تو اس وقت کیا کہنا چاہئے؟
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو سمع اللہ لمن حمده کہا، تو آپ کے پیچھے ایک شخص نے ربنا ولک الحمد حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه اللہ کے لیے بہت زیادہ تعریفیں ہیں جو پاکیزہ و بابرکت ہیں کہا، جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے پوچھا : ابھی ابھی (نماز میں) کون بول رہا تھا ؟ تو اس شخص نے عرض کیا : میں تھا اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا ان میں سے ہر ایک سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کون پہلے لکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٥) ، موطا امام مالک/القرآن ٧ (٢٥) ، مسند احمد ٤/٣٤٠، وانظر رقم : ٩٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1062
ربنا ولک الحمد کہنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب امام سمع اللہ لمن حمده کہے، تو تم ربنا ولک الحمد کہو کیونکہ جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہوگا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٥ (٧٩٦) ، بدء الخلق ٧ (٣٢٢٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٨ (٤٠٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٤ (٨٤٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٣ (٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٨) ، موطا امام مالک/النداء للصلاة ١١ (٤٧) ، مسند احمد ٢/ ٣٨٧، ٤١٧، ٤٥٩، ٤٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1063
ربنا ولک الحمد کہنا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اور ہمیں ہمارے طریقے بتائے، اور ہماری نماز سکھائی، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں سیدھی کرو، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرے، اور جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے، تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا، اور جب وہ اللہ اکبر کہے، اور رکوع کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور رکوع کرو، امام تم سے پہلے رکوع کرے گا، اور تم سے پہلے رکوع سے سر بھی اٹھائے گا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تو ادھر کی کمی ادھر پوری ہوجائے گی ، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمده کہے، تو تم اللہم ربنا ولک الحمد کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری پکار سن لے گا ؛ کیونکہ اللہ نے اپنے بنی کی زبان سے فرمایا ہے : اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی حمد بیان کی، تو جب وہ اللہ اکبر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور سجدہ کرو، امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا، اور تم سے پہلے سجدہ سے سر بھی اٹھائے گا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تو ادھر کی کمی ادھر پوری ہوجائے گی، جب وہ قعدے میں ہو تو تم میں سے ہر ایک کی پہلی دعا یہ ہو :التحيات الطيبات الصلوات لله سلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته سلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله آداب بندگیاں، پاکیزہ خیراتیں، اور صلاتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے رسول ! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں یہ سات کلمے ١ ؎ ہیں اور یہ نماز کا سلام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٣١، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلا التحیات ہے، دوسرا الطیبات، تیسرا الصلوات، چوتھا سلام علیک، پانچواں سلام علینا، چھٹا أشہد أن لا إلہ إلا اللہ، اور ساتواں أشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح م دون قوله سبع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1064
رکوع اور سجود کے درمیان کتنی دیر کھڑا ہوا جائے
براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا رکوع کرنا، اور رکوع سے سر اٹھانا اور سجدہ کرنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا، تقریباً برابر برابر ہوتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢١ (٧٩٢) ، ١٢٧ (٨٠١) ، ١٤٠ (٨٢٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٨ (٤٧١) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٧ (٨٥٢، ٨٥٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٢ (٢٧٩، ٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨١) ، مسند احمد ٤/٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٨، ٢٩٤، ٢٩٨، سنن الدارمی/الصلاة ٨٠ (١٣٧٢، ١٣٧٣) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١١٩٤، ١٣٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ارکان کو نبی اکرم ﷺ کامل اعتدال (اطمینان) کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے، صحیحین کی انس (رض) کی روایت میں تو یہاں تک ہے کہ نبی اکرم ﷺ رکوع کے بعد یا دونوں سجدوں کے درمیان اتنا ٹھہرتے کہ کہنے والا یہ تک کہتا (یعنی سوچتا) کہ شاید آپ اگلے رکن میں جانا بھول گئے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1065
جس وقت رکوع سے کھڑا ہو تو کیا کہنا چاہئے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سمع اللہ لمن حمده کہتے، تو اللہم ربنا لک الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد اے اللہ ! تیری تعریف ہے، آسمانوں بھر، زمین بھر اور اس کے بعد تو جس چیز بھر چاہے کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٠ (٤٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٥٤) ، مسند احمد ١/٢٧٠، ٢٧٦، ٢٧٧، ٣٣٣، ٣٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1066
جس وقت رکوع سے کھڑا ہو تو کیا کہنا چاہئے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب رکوع کے بعد سجدے کا ارادہ کرتے تو اللہم ربنا ولک الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد اے ہمارے رب ! تیری تعریف ہے، تیرا شکر ہے آسمان و زمین بھر اور اس کے بعد تو جس چیز بھر چاہے کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٦٤٢، حم ١/٢٧٧، ٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1067
جس وقت رکوع سے کھڑا ہو تو کیا کہنا چاہئے؟
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سمع اللہ لمن حمده کہتے، تو ربنا لک الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد أهل الثناء والمجد خير ما قال العبد وکلنا لک عبد لا مانع لما أعطيت ولا ينفع ذا الجد منک الجد اے اللہ، ہمارے رب ! تیرا شکر ہے آسمان و زمین بھر، اور اس کے بعد تو جس چیز بھر چاہے، اے لائق تعریف و لائق مجد و شرف ! بہتر ہے جو بندے نے کہا، اور ہم سب تیرے بندے ہیں، کوئی روکنے والا نہیں جسے تو دیدے، تیرے مقابلے میں مالداروں کی مالداری کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٠ (٤٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٤ (٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٨١) ، مسند احمد ٣/٨٧، ٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1068
جس وقت رکوع سے کھڑا ہو تو کیا کہنا چاہئے؟
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے تکبیر کہی تو انہوں نے آپ کو کہتے سنا :اللہ أكبر ذا الجبروت والملکوت والکبرياء والعظمة اللہ سب سے بڑا صاحب قدرت و سطوت اور صاحب بزرگی و عظمت ہے ، اور آپ رکوع میں سبحان ربي العظيم کہتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو : لربي الحمد لربي الحمد، شکر میرے رب کے لیے، شکر میرے رب کے لیے کہتے، اور سجدے میں سبحان ربي الأعلى کہتے، اور دونوں سجدوں کے درمیان رب اغفر لي رب اغفر لي اے میرے رب ! میری مغفرت فرما، اے میرے رب ! میری مغفرت فرما کہتے، اور آپ کا قیام کرنا، رکوع کرنا، اور رکوع سے سر اٹھانا، اور آپ کا سجدہ کرنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا، تقریباً سب برابر برابر ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥١ (٨٧٤) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣٩ (٢٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٣ (٨٩٧) ، من قولہ : ” کان یقول بین السجدتین “ ویأتی عند المؤلف برقم : ١١٤٦ (صحیح) (سند میں ” رجل “ جو مبہم راوی ہے بقول شعبہ ” صلہ بن زفر “ ہے، نیز کئی اس کے متابعات بھی ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1069
رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھنا
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل ١ ؎ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی، بد دعا کرتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٧ (١٠٠٣) ، المغازي ٢٨ (٤٠٩٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، تحفة الأشراف : ١٦٥٠) ، مسند احمد ٣/١١٦، ٢٠٤، والحدیث أخرجہ : صحیح البخاری/الوتر ٧ (١٠٠١) ، الجنائز ٤٠ (١٣٠٠) ، الجھاد ٩ (٢٨٠١) ، ١٩ (٢٨١٤) ، ١٨٤ (٣٠٦٤) ، الجزیة ٨ (٣١٧٠) ، المغازي ٢٨ (٤٠٨٨، ٤٠٩٢) ، (٤٠٩٤، ٤٠٩٦) ، الدعوات ٥٨ (٦٣٩٤) ، الاعتصام ١٦ (٧٣٤١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٠ (١١٨٤) ، مسند احمد ٣/١١٣، ١١٥، ١٦٦، ١٦٧، ١٨٠، ١٨٤، ١٩١، ٢٠٤، ٢١٧، ٢٣٢، ٢٤٩، ٢٦١، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رعل، ذکوان اور عصیّہ تینوں قبائل کے نام ہیں، جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کے قراء کو دھوکہ سے قتل کردیا تھا، آپ نے ان پر ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی تھی، جو رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے، یہ وتر والی قنوت نہیں تھی، وتر والی قنوت میں تو افضل یہ ہے کہ رکوع سے پہلے پڑھی جائے، جائز رکوع کے بعد بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1070
نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنا
ابن سیرین سے روایت ہے کہ انس بن مالک (رض) سے پوچھا گیا، کیا رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! (پڑھی ہے) پھر ان سے پوچھا گیا، رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد ؟ رکوع کے بعد ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٧ (١٠٠١) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٠ (١١٨٤) ، مسند احمد ٣/١١٣، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور رکوع سے پہلے کی بھی روایت موجود ہے جیسا کہ ابن ماجہ (حدیث رقم : ١١٨٣ ) میں نقنت قبل الرکوع وبعدہ کے الفاظ آئے ہیں اور اس کی سند قوی ہے۔ گویا دونوں طرح جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1071
نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنا
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے جس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز فجر پڑھی تھی، بیان کیا کہ جب آپ ﷺ نے دوسری رکعت میں سمع اللہ لمن حمده کہا تو آپ تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1072
نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی : اے اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف (علیہ السلام) (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ١١٠ (٦٢٠٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٥ (١٢٤٤) ، مسند احمد ٢/٢٣٩، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٢) ، والحدیث أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٨ (٨٠٤) ، الاستسقاء ٢ (١٠٠٦) ، الجھاد ٩٨ (٢٩٣٢) ، الأنبیاء ١٩ (٣٣٨٦) ، تفسیر آل عمران ٩ (٤٥٠٦) ، تفسیر النساء ٢١ (٤٥٩٨) ، الدعوات ٥٨ (٦٣٩٣) ، الإکراہ ١٥ (٦٩٤٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٢) ، مسند احمد ٢/ ٢٣٩، ٢٥٥، ٢٧١، ٤١٨، ٤٧٠، ٥٠٧، ٥٢١، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1073
نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں جس وقت سمع اللہ لمن حمده ربنا ولک الحمد کہتے تو دعا کرتے، سجدہ میں جانے سے پہلے کھڑے ہو کر، کہتے : اللہم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين من المؤمنين اللہم اشدد وطأتک على مضر واجعلها عليهم كسني يوسف اے اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان پر یوسف سا قحط مسلط کر دے ، پھر آپ اللہ اکبر کہتے اور سجدہ کرتے، ان دنوں قبیلہ مضر رسول اللہ ﷺ کا مخالف تھا۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث سعید بن المسیب أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٨ (٨٠٣) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥٥) ، وحدیث أبي سلمة أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1074
نماز ظہر میں قنوت پڑھنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز قریب تر کر کے دکھاؤں گا، چناچہ ابوہریرہ (رض) سمع اللہ لمن حمده کہنے کے بعد ظہر کی آخری رکعت میں اور عشاء میں، اور فجر میں دعائے قنوت پڑھتے، تو مومنوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت بھیجتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٦ (٧٩٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢١) ، مسند احمد ٢/٢٥٥، ٣٣٧، ٤٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1075
نماز مغرب میں قنوت پڑھنے سے متعلق
براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فجر میں اور مغرب میں دعائے قنوت پڑھتے تھے۔ عبیداللہ بن سعید کی روایت میں أن النبي صلى اللہ عليه وسلم کے بجائے أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٥ (١٤٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٨ (٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢) ، مسند احمد ٤/٢٨٠، ٢٨٥، ٢٩٩، ٣٠٠، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٦ (١٦٣٨، ١٦٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1076
قنوت میں کفار اور مشرکین پر لعنت بھیجنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی۔ شعبہ کی روایت میں ہے آپ نے چند لوگوں پر لعنت بھیجی، اور ہشام کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ عرب کے کچھ قبیلوں پر رکوع کے بعد بد دعا فرماتے تھے، پھر آپ نے اسے چھوڑ دیا، یہ قول ہشام کا ہے، اور شعبہ قتادہ سے اور قتادہ انس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک مہینہ تک قنوت پڑھی، آپ رعل، ذکوان اور لحیان قبائل پر لعنت بھیج رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث شعبة عن قتادة عن أنس أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، مسند احمد ٣/٢١٦، ٢٥٩، ٢٧٨، (تحفة الأشراف : ١٢٧٣) ، وحدیث ہشام عن قتادة عن أنس أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٢٨ (٤٠٨٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٤ (٦٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٥ (١٢٤٣) ، مسند احمد ٣/١١٥، ١٨٠، ٢١٧، ٢٤٩، ٢٦١، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1077
دعاء قنوت کے دوران منافقین پر لعنت بھیجنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو جس وقت آپ نے فجر کی نماز میں آخری رکعت سے اپنا سر اٹھایا کچھ منافقوں پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا، آپ کہہ رہے تھے : اللہم العن فلانا وفلانا اے اللہ ! تو فلاں فلاں کو رسوا کر ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ليس لک من الأمر شىء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون اے محمد ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں (آل عمران : ١٢٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٢١ (٤٠٦٩) ، تفسیر آل عمران ٩ (٤٥٥٩) ، الاعتصام ١٧ (٧٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٤٠) ، مسند احمد ٢/٩٣، ١٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1078
دعاء قنوت نہ پڑھنے کے بارے میں
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی، آپ عرب کے ایک قبیلے پر بد دعا کر رہے تھے، پھر آپ نے اسے ترک کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1079
دعاء قنوت نہ پڑھنے کے بارے میں
ابو مالک اشجعی (سعد) اپنے والد (طارق بن اشیم) سے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، ابوبکر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، عمر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، عثمان (رض) عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، اور علی (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بھی دعائے قنوت نہیں پڑھی، پھر انہوں نے کہا : میرے بیٹے ! یہ (یعنی : مداومت) بدعت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٧٩ (٤٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٥ (١٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٦) ، مسند احمد ٣/٤٧٢، و ٦/٣٩٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قنوت نازلہ فجر میں بوقت ضرورت پڑھی گئی تھی، پھر چھوڑ دی گئی، اس لیے مداومت (ہمیشہ پڑھنے) کو انہوں نے بدعت کہا، ضرورت پڑنے پر اب بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1080
کنکریوں کو سجدہ کرنے کی غرض سے ٹھنڈا کرنا
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم ظہر کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھتے تھے، میں نماز میں ہی ایک مٹھی کنکری اپنے ہاتھ میں لے لیتا، اسے ٹھنڈا کرتا، پھر اسے دوسرے ہاتھ میں پلٹ دیتا، تو جب سجدہ کرتا تو اسے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لیتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥٢) ، مسند احمد ٣/٣٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1081
بوقت سجدہ تکبیر کہنا کیسا ہے؟
مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین (رض) دونوں نے علی بن ابی طالب (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، جب وہ نماز پڑھ چکے تو عمران (رض) نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا : انہوں نے مجھے محمد ﷺ کی نماز یاد دلا دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٦ (٧٨٦) ، ١٤٤ (٨٢٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٠ (٣٩٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٠ (٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٤٨) ، مسند احمد ٤/٤٠٠، ٤٢٨، ٤٢٩، ٤٣٢، ٤٤٠، ٤٤٤، ویأتی عند المؤلف برقم : ١١٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1082
بوقت سجدہ تکبیر کہنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر جھکنے اور اٹھنے میں اللہ اکبر کہتے تھے ١ ؎، اور آپ اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرتے، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أسود عن عبداللہ أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٧٤ (٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٤) ، مسند احمد ١/٣٨٦، ٣٩٤، ٤١٨، ٤٢٧، ٤٤٢، ٤٤٣، سنن الدارمی/الصلاة ٤٠ (١٢٤٨) ، وحدیث علقمة کحدیث أسود، (تحفة الأشراف : ٩٤٧٠) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١١٤٣، ١١٥٠، ١٣٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مراد یہ ہے کہ اکثر جھکتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے، ورنہ رکوع سے اٹھتے وقت اللہ اکبر نہیں کہتے تھے، بلکہ اس کے بجائے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1083
سجدہ کس طریقہ سے کرنا چاہئے؟
حکیم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ میں کھڑے کھڑے ہی سجدے میں گروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٧) ، مسند احمد ٣/٤٠٢ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رکوع سے واپس قیام میں جاؤں گا، اور سیدھا کھڑا ہوجانے کے بعد سجدہ کے لیے جھکوں گا۔ (دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین کے ذکر کے بغیر یہ حدیث رقم : ٨٨١ میں گزر چکی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1084
سجدہ کرنے کے وقت ہاتھ اٹھانا
مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو نماز میں جب آپ رکوع کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور جب سجدہ کرتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے ١ ؎ رفع یدین کرتے دیکھا، یہاں تک کہ آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کی لو کے بالمقابل کرلیتے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) ، وانظر حدیث رقم : ٨٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کبھی کبھار سجدہ میں جاتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ ٢ ؎: گرچہ بعض علماء نے دونوں سجدوں میں جاتے اور ان سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین والے اس ٹکڑے کی تصحیح کی ہے، مگر اکثر علماء اور رفع یدین کے قائل ائمہ نے اس ٹکڑے کی تضعیف کی ہے، اس کے راوی قتادہ مدلس ہیں، اور انہوں نے اسے عنعنہ سے روایت کیا ہے اس باب میں دیگر روایات بھی کلام سے خالی نہیں ہیں، جب کہ سجدہ میں رفع یدین کرنے والی ابن عمر رضی اللہ عنہم کی روایت صحیحین کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1085
سجدہ کرنے کے وقت ہاتھ اٹھانا
مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اسی کے مثل روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، وانظر حدیث رقم : ٨٨١ (بدون ذکر الزیادة) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1086
سجدہ کرنے کے وقت ہاتھ اٹھانا
مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز میں داخل ہوجاتے .... پھر آگے انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، اس میں انہوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، انظر حدیث رقم : ٨٨١ (بدون ذکر الزیادة) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1087
بوقت سجدہ ہاتھ نہ اٹھانے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز شروع کرتے، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سجدہ کرنے میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٩٦٢) ، مسند احمد ٢/٤٧، ١٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1088
سجدہ کرنے کے وقت پہلے زمین پر کونسا عضو رکھے
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ اٹھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤١ (٨٣٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٤ (٢٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٠) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١١٥٥ (ضعیف) (شریک القاضی جب کسی روایت میں منفرد ہوں تو ان کی روایت قبول نہیں کی جاتی، اور وہ یہاں اس روایت میں منفرد ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1089
سجدہ کرنے کے وقت پہلے زمین پر کونسا عضو رکھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم میں سے کوئی اپنی نماز کا قصد کرتا ہے تو وہ بیٹھتا ہے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤١ (٨٤٠، ٨٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٥ (٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٦) ، مسند احمد ٢/٣٨١، سنن الدارمی/الصلاة ٧٤ (١٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ کا یہ ارشاد استفھام انکاری ہے، یعنی ایسا نہیں کرنا چاہیئے، یعنی اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نماز میں نہیں بیٹھنا چاہیئے، اور یہ واضح رہے کہ چوپایوں کے گھٹنے ان کے اگلے دونوں پاؤں میں ہوتے ہیں، اونٹ پہلے اپنے اگلے پاؤں رکھتا ہے یعنی گھٹنے پہلے رکھتا ہے، اور انسان کو نماز میں اونٹ کی طرح بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے انسان اونٹ کی مخالفت کرتے ہوئے پہلے اپنے ہاتھ رکھے پھر گھٹنے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1090
سجدہ کرنے کے وقت پہلے زمین پر کونسا عضو رکھے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنا ہاتھ زمین پر رکھے، اور وہ اونٹ کے بیٹھنے کی طرح نہ بیٹھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1091
دونوں ہاتھ پیشانی کے ساتھ زمین پر رکھنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دونوں ہاتھ سجدہ کرتے ہیں جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے، لہٰذا جب تم میں کا کوئی اپنا چہرہ زمین پر رکھے تو اپنے دونوں ہاتھ بھی رکھے، اور جب اسے اٹھائے تو ان دونوں کو بھی اٹھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٧) ، مسند احمد ٢/٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1092
سجدہ کتنے اعضاء پر کرنا چاہئے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ سات اعضاء ١ ؎ پر سجدہ کریں، اور اپنے بال اور کپڑے نہ سمیٹیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٣ (٨٠٩، ٨١٠) ، ١٣٧ (٨١٥) ، ١٣٨ (٨١٦) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٨٨٩، ٨٩٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٨ (٢٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٣) ، ٦٧ (١٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) ، مسند احمد ١/٢٢١، ٢٢٢، ٢٥٥، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٣٠٥، ٣٢٤، سنن الدارمی/الصلاة ٧٣ (١٣٥٧) ، وأعادہ المؤلف بأرقام : ١١١٤، ١١١٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سات اعضاء سے مراد پیشانی ناک کے ساتھ، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں ہیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی تفسیر آرہی ہے۔ ٢ ؎: بالوں کو سمیٹنا یہ ہے کہ سب کو اکٹھا کر کے جوڑا باندھ لے، یا دستار میں رکھ لے، اور کپڑوں کا سمیٹنا یہ ہے کہ سجدے یا رکوع میں جاتے وقت کپڑوں کو اس خیال سے سمیٹے کہ کپڑوں میں گرد نہ لگے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1093
مذکورہ سات اعضاء کی تشریح
عباس بن عبدالمطلب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتوں اعضاء : اس کا چہرہ، اس کے دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، اور دونوں پیر بھی سجدہ کرتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٥ (٨٩١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٨٨ (٢٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٦) ، مسند احمد ١/٢٠٦، ٢٠٨، ویأتی عند المؤلف في باب ٤٦ (برقم : ١١٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ناک چہرہ کا ایک جزء ہے اس لیے پیشانی اور ناک دونوں سے سجدہ کرنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1094
پیشانی زمین پر رکھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ (رمضان کی) اکیسویں رات کی صبح کو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کا نشان تھا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤١ (٦٦٩) ، ١٣٥ (٨١٣) ، ١٥١ (٨٣٦) ، لیلة القدر ٢ (٢٠١٦) ، الاعتکاف ١ (٢٠٢٧) ، ٩ (٢٠٣٦) ، ١٣ (٢٠٤٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٤٠ (١١٦٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٧ (٨٩٤، ٨٩٥) ، ١٦٦ (٩١١) ، ٣٢٠ (١٣٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٥٦ (١٧٦٦) ، ٦٢ (١٧٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤١٩) ، موطا امام مالک/الاعتکاف ٦ (٩) ، مسند احمد ٣/٧، ٢٤، ٦٠، ٧٤، ٩٤، ویأتی عند المؤلف في السھو ٩٨ (برقم : ١٣٥٧) مطولاً (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تفصیل سے یہی حدیث باب السہو ( ١٣٥٧ ) میں وارد ہوئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1095
بحالت سجدہ زمین پر ناک رکھنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء : پیشانی اور ناک، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے، اور دونوں پیر پر سجدہ کروں، اور بال اور کپڑے نہ سمیٹوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣٤ (٨١٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٨) ، مسند احمد ١/٢٢٢، ٢٩٢، ٣٠٥، سنن الدارمی/الصلاة ٧٣ (١٣٥٨) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٠٩٨، ١٠٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1096
دونوں ہاتھوں پر سجدہ کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے : پیشانی پر، اور آپ نے اپنے ہاتھ سے ناک پر کا اشارہ کیا، اور دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنے، اور دونوں پیر کے کناروں یعنی انگلیوں پر۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٧، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1097
بحالت سجدہ دونوں گھٹنے زمین پر لگانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، اور بالوں اور کپڑوں کو سمیٹنے سے روکا گیا : اپنی دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنے اور انگلیوں کے سروں پر۔ سفیان کہتے ہیں : ابن طاؤس نے اپنے دونوں ہاتھ پیشانی پر رکھے، اور انہیں اپنی ناک پر گزارا، اور کہا : یہ سب ایک ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں : یہ الفاظ محمد بن منصور کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٧، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1098
دونوں پاؤں پر سجدہ کرنے کا بیان
عباس بن عبدالمطلب (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے ساتوں اعضاء یعنی اس کا چہرہ، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے اور دونوں پیر سجدہ کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٥، (تحفة الأشراف : ٥١٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1099
سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کھڑے رکھنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات مجھے رسول اللہ ﷺ بستر پہ نہیں ملے تو میں تلاش کرتی ہوئی آپ تک پہنچی، آپ سجدے میں تھے، آپ کے دونوں قدم کھڑے تھے، اور آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے : اللہم إني أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وبک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک اے اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، تیرے عفو و درگزر کی تیری سزا اور عقوبت سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں تیرے غضب سے، میں تیری تعریف کی طاقت نہیں رکھتا، تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف بیان کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٩، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1100
بحالت سجدہ دونوں پاؤں کی انگلیاں کھڑی کرنا
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھکتے تو اپنے بازوؤں کو اپنی بغل سے الگ رکھتے، اور اپنے پیر کی انگلیوں کو کھلا رکھتے - یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٠، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1101
جس وقت سجدہ میں جائے تو دونوں ہاتھ کس جگہ رکھے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز ضرور دیکھوں گا (کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں نے دیکھا) آپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے دونوں انگوٹھوں کو آپ کی دونوں کانوں کے قریب دیکھا، اور جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور سمع اللہ لمن حمده کہا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا، اور سجدہ کیا، آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی دونوں کانوں کی اس جگہ تک اٹھے جہاں تک آپ نے شروع نماز میں انہیں اٹھایا تھا (یعنی انہیں دونوں کانوں کے بالمقابل اٹھایا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٠، (تحفة الأشراف : ١١٧٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1102
دوران سجدہ دونوں بازو زمین پر نہ رکھنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں کوئی شخص سجدے میں اپنے دونوں بازو (زمین پر) کتے کے بچھانے کی طرف نہ بچھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١١٤٣) ، مسند احمد ٣/١٠٩، ٢٠٢، ٢٣١، ٢٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1103
ترکیب اور کیفیت سجدہ
ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ براء (رض) نے ہمیں سجدہ کر کے دکھایا تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے، اور اپنی سرین اٹھائے رکھی، اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٨ (٨٩٦) ، مسند احمد ٤/٣٠٣، (تحفة الأشراف : ١٨٦٤) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی حافظے کے کمزور راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1104
ترکیب اور کیفیت سجدہ
براء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں بازو کھلا رکھتے، اور انہیں اپنے پہلوؤں سے دور رکھتے، اور اپنا پیٹ زمین سے اٹھائے رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٩٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1105
ترکیب اور کیفیت سجدہ
عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ کشادگی رکھتے، یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہوجاتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٧ (٣٩٠) ، الأذان ١٣٠ (٨٠٧) ، المناقب ٢٣ (٣٥٦٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٧) ، مسند احمد ٥/٣٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1106
ترکیب اور کیفیت سجدہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہوتا تو میں آپ کی دونوں بغل ضرور دیکھتا ہوتا ١ ؎۔ ابومجلز کہتے ہیں کہ گویا انہوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی ہے کیونکہ وہ نماز میں موجود تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٨ (٧٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ اس قدر کشادہ رکھتے کہ آپ کی دونوں بغل کی سفیدی دکھائی دیتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1107
ترکیب اور کیفیت سجدہ
عبداللہ بن اقرم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے آپ کی دونوں بغل کی سفیدی نظر آتی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٨٩ (٢٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٤٢) ، مسند احمد ٤/٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1108
سجدے میں دونوں ہاتھوں کو کھلا رکھنا
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھ اپنے پہلو سے جدا رکھتے یہاں تک کہ اگر کوئی بکری کا بچہ آپ کے ہاتھوں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر جاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٦ (٤٩٦، ٤٩٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٨ (٨٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩ (٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٣) ، مسند احمد ٦/٣٣١، ٣٣٢، ٣٣٥، سنن الدارمی/الصلاة ٧٩ (١٣٦٩، ١٣٧٠، ١٣٧١) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١١٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1109
سجدہ میں میانہ روی رکھنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سجدے میں اپنی ہیئت درمیانی رکھو ١ ؎ اور تم میں سے کوئی اپنے دونوں ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے - یہ الفاظ اسحاق بن راہویہ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث سعید عن قتادة عن أنس قد تقدم، انظر حدیث رقم : ١٠٢٩، (تحفة الأشراف : ١١٩٧) ، وحدیث شعبة عن قتادة عن أنس أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤١ (٨٢٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٤٥ (٤٩٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٨ (٨٩٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٠ (٢٧٦) ، مسند احمد ٣/١١٥، ١٧٧، ١٧٩، ٢٠٢، ٢٧٤، ٢٩١، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سجدہ میں اپنی ہیئت درمیانی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھے، اور کہنیوں کو زمین سے اور پیٹ کو ران سے الگ رکھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1110
بحالت سجدہ پشت برابر رکھنے کے بارے میں
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں آدمی رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٢٨، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1111
کوے کی طرح سے (نماز میں) چونچ مارنا ممنوع ہے
عبدالرحمٰن بن شبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں سے منع کیا ہے : ایک کوے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، دوسری درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے سے، اور تیسری یہ کہ آدمی نماز کے لیے ایک جگہ خاص کرلے جیسے اونٹ اپنے بیٹھنے کی جگہ کو خاص کرلیتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠٤ (١٤٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠١) ، مسند احمد ٣/٤٢٨، ٤٤٤، سنن الدارمی/الصلاة ٧٥ (١٣٦٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1112
بال جوڑنے کے ممنوع ہونے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں، اور بال اور کپڑے نہ سمیٹوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٤، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1113
جس شخص کا جوڑا نہ بندھا ہو اگر وہ نماز ادا کرے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن حارث (رض) کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا کہ ان کے سر میں پیچھے جوڑا بندھا ہوا تھا، تو وہ کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے، جب عبداللہ بن حارث (رض) سلام پھیر چکے تو ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور کہنے لگے : آپ کو میرے سر سے کیا مطلب تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ بندھے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٤ (٤٩٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨٨ (٦٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٩) ، مسند احمد ١/٣٠٤، ٣١٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٥ (١٤٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1114
کپڑوں کو جوڑنے کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور بال اور کپڑے سمیٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٤، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1115
کپڑے پر سجدہ کرنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٣ (٣٨٥) ، المواقیت ١١ (٥٤٢) ، العمل في الصلاة ٩ (١٢٠٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦٢٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩٣ (٦٦٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٤ (الجمعة ٥٨) (٥٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٤ (١٠٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٠) ، مسند احمد ٣/١٠٠، سنن الدارمی/الصلاة ٨٢ (١٣٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1116
سجدہ کے مکمل طریقہ سے ادا کرنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم رکوع اور سجدہ پوری طرح کرو، اللہ کی قسم ! میں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے تمہیں رکوع اور سجدہ کی حالت میں دیکھتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٢٩، ١١١١، (تحفة الأشراف : ١١٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1117
سجدہ کی حالت میں قرآن کریم پڑھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے تین باتوں سے منع کیا ہے، میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو بھی منع کیا ہے، مجھے سونے کی انگوٹھی پہننے سے، قسی کے بنے ہوئے ریشمی کپڑے پہننے سے، اور کسم میں رنگے ہوئے گہرے سرخ کپڑے پہننے سے منع کیا ہے، اور میں رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن نہیں پڑھتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢، (تحفة الأشراف : ١٠١٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1118
سجدہ کی حالت میں قرآن کریم پڑھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رکوع اور سجدے کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤، (تحفة الأشراف : ١٠١٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1119
سجدہ کے دوران کو شش سے دعا کرنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی پردہ ہٹایا، آپ کا سر مبارک کپڑے سے بندھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے تین بار فرمایا : اے اللہ ! میں نے پہنچا دیا (پھر فرمایا :) نبوت کی خوش خبریوں میں سے سوائے سچے خواب کے جسے بندہ خود دیکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اور دیکھتا ہے کوئی اور چیز باقی نہیں رہ گئی ہے، سنو ! مجھے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، تو جب تم رکوع کرو تو اپنے رب کی عظمت بیان کرو، اور جب سجدہ کرو تو دعا میں کوشش کرو کیونکہ یہ حالت اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٦، (تحفة الأشراف : ٥٨١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1120
بحالت سجدہ دعا کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری، اور رسول اللہ ﷺ بھی اس رات کو ان ہی کے پاس رہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی حاجت کے لیے اٹھے، مشک کے پاس آئے، اور اس کا بندھن کھولا، پھر وضو کیا جو دو وضوؤں کے درمیان تھا، (یعنی شرعی وضو نہیں تھا) ، پھر آپ اپنے بستر پہ آئے، اور سو گئے، پھر دوسری بار اٹھے، مشک کے پاس آئے، اور اس کا بندھن کھولا، پھر وضو کیا یہ (شرعی) وضو تھا، پھر آپ ﷺ اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، آپ اپنے سجدے میں یہ دعا پڑھ رہے تھے : اللہم اجعل في قلبي نورا واجعل في سمعي نورا واجعل في بصري نورا واجعل من تحتي نورا واجعل من فوقي نورا وعن يميني نورا وعن يساري نورا واجعل أمامي نورا واجعل خلفي نورا وأعظم لي نورا اے اللہ ! میرے دل کو منور کر دے، میرے کانوں کو نور (روشنی) سے بھر دے، میری آنکھوں کو روشن کر دے، میرے نیچے نور کر دے، میرے اوپر نور کر دے، میرے دائیں نور کر دے، میرے بائیں نور کر دے، میرے آگے نور کر دے، میرے پیچھے نور کر دے، اور میرے لیے نور کو عظیم کر دے ، پھر آپ سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے، پھر بلال (رض) آئے، اور آپ ﷺ کو نماز کے لیے جگایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٠ (٦٣١٦) ، صحیح مسلم/الحیض ٥ (٣٠٤) ، المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الأدب ١٠٥ (٥٠٤٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧١ (٥٠٨) ، مسند احمد ١/٢٣٤، ٢٨٣، ٢٨٤، ٣٤٣، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعا آپ نے تہجد کے سجدے میں پڑھی تھی، اس لیے تہجد یا نوافل میں اس طرح کی لمبی دعائیں پڑھے، فرائض میں خصوصاً جب امام ہو تو مختصر دعائیں پڑھے جن میں سے بعض کا تذکرہ آگے آ رہا ہے، ان میں سے معروف دعا سبحان ربي الأعلیٰ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1121
دوران سجدہ دوسری قسم کی دعا مانگنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں سبحانک اللہم ربنا وبحمدک اللہم اغفر لي اے اللہ ! ہمارے رب ! تو پاک ہے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے کہہ رہے تھے، آپ قرآن کی عملی تفسیر فرما رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٨، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسبح بحمد ربک آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے آپ اسی حکم کی تعمیل میں یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1122
دوران سجدہ دوسری قسم کی دعانہ پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رکوع اور سجدے میں سبحانک اللہم ربنا وبحمدک اللہم اغفر لي اے اللہ ہمارے رب ! تو پاک ہے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں، اے اللہ تو مجھے بخش دے کہہ رہے تھے، آپ ﷺ قرآن کی عملی تفسیر فر مار ہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٨، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1123
دوران سجدہ دوسری قسم کی دعا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی خواب گاہ میں نہیں ملے، تو میں آپ کو تلاش کرنے لگی، اور مجھے گمان ہوا کہ شاید آپ اپنی کسی لونڈی کے پاس چلے گئے ہیں کہ اچانک میرا ہاتھ آپ پر پڑا، آپ سجدے میں تھے، اور کہہ رہے تھے : اللہم اغفر لي ما أسررت وما أعلنت اے اللہ ! بخش دے میرے ان گناہوں کو جنہیں میں نے چھپا کر کیا ہے اور جنہیں میں نے اعلانیہ کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٨) ، مسند احمد ٦/١٤٧، وانظر حدیث رقم : ١٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1124
دوران سجدہ ایک دوسری دعا پڑھنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو اپنے بستر پر موجود نہیں پایا، میں نے گمان کیا کہ شاید آپ اپنی کسی لونڈی کے پاس چلے گئے ہیں، چناچہ میں نے آپ کو تلاش کیا، تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں : رب اغفر لي ما أسررت وما أعلنت اے میرے رب ! میرے تمام گناہوں کو جو میں نے چھپے اور کھلے کئے ہیں بخش دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٧٨) ، وانظر حدیث رقم : ١٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1125
دوران سجدہ ایک دوسری قسم دعا
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو کہتے : اللہم لک سجدت ولک أسلمت وبک آمنت سجد وجهي للذي خلقه وصوره فأحسن صورته وشق سمعه وبصره تبارک اللہ أحسن الخالقين اے اللہ ! میں نے تیرے لیے اپنی پیشانی زمین سے ٹیک دی، اور تیرے ہی لیے میں اسلام لایا، اور تجھی پر میں ایمان لایا، میرے چہرے نے سجدہ کیا، اس ذات کے لیے جس نے اسے پیدا کیا، اور اس کی صورت گری کی، اور اچھی صورت گری کی، اور جس نے اس کے کان اور اس کی آنکھیں پھاڑیں، اللہ بڑی برکت والا ہے، اور سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٨ و ١٠٥١، (تحفة الأشراف : ١٠٢٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1126
ایک دوسری قسم کی دعا
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے سجدے میں کہتے تھے : اللہم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت وأنت ربي سجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره تبارک اللہ أحسن الخالقين اے اللہ ! میں نے تیرے لیے اپنی پیشانی زمین پر ٹیک دی، تیرے ہی اوپر ایمان لایا، تیرے ہی لیے میں مسلمان ہوا، تو ہی میرا رب ہے، میرے چہرہ نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا، اور اس کی صورت گری کی، اور جس نے اس کے کان اور اس کی آنکھیں بنائیں، بڑی برکتوں والا ہے، اللہ سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٠٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1127
دوران سجدہ ایک دوسری قسم دعا پڑھنا
محمد بن مسلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں اٹھتے تو نفل پڑھتے، اور جب سجدہ کرتے تو کہتے : اللہم لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت اللہم أنت ربي سجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره تبارک اللہ أحسن الخالقين اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لیے سجدہ کیا، تجھی پر میں ایمان لایا، تیرے لیے میں مسلمان ہوا، اے اللہ ! تو ہی میرا رب ہے، میرے چہرہ نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا، اور اس کی صورت گری کی، اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں بنائیں، اللہ بڑی برکتوں والا، سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٩ و ١٠٥٣، (تحفة الأشراف : ١١٢٣٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1128
دعا کا ایک اور طریقہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات کو تلاوت قرآن کے سجدوں میں کہتے : سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره بحوله وقوته میرے چہرہ نے سجدہ کیا اس ذات کے لیے جس نے اسے پیدا کیا، اور اس کے کان اور اس کی آنکھیں اپنی قوت و طاقت سے بنائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٤ (١٤١٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٠ (الجمعة ٥٥) ، (٥٨٠) ، الدعوات ٣٣ (٣٤٢٥) ، مسند احمد ٦/٣٠، ٢١٧، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1129
دوران سجدہ ایک دوسری دعا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو (بستر پر) موجود نہیں پایا، تو دیکھا کہ آپ سجدے کی حالت میں ہیں، اور آپ کے دونوں قدموں کے پنجے قبلہ رخ ہیں، تو میں نے آپ کو سجدہ میں کہتے سنا : أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیری ناراضگی سے، میں پناہ مانگتا ہوں تیری معافی کی تیری سزا سے، اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری تجھ سے، میں تیری حمد و ثنا کا حق نہیں ادا کرسکتا، تو ایسے ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ٧٦ (٣٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨٥) ، موطا امام مالک/القرآن ٨ (٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1130
دوران سجدہ ایک دوسری دعا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک رات (بستر پر) موجود نہیں پایا، تو میں نے گمان کیا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، پھر میں نے آپ کو تلاش کیا تو اچانک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ رکوع یا سجدہ کی حالت میں کہہ رہے ہیں : سبحانک اللہم وبحمدک لا إله إلا أنت اے اللہ ! تو پاک ہے، میں تیری تعریف کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتا ہوں، نہیں ہے کوئی معبود برحق مگر تو ہی ، تو وہ کہنے لگیں : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! میں کس خیال میں تھی اور آپ کس حال میں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٥٦) ، مسند احمد ٦/١٥١، ویأتی عند المؤلف في عشرة النساء ٤ برقم : (٣٤١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1131
ایک اور دعا
عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اٹھا، پہلے آپ نے مسواک کی، پھر وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے، تو آپ نے سورة البقرہ شروع کی، آپ جب بھی کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو ٹھہرتے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر رحمت کا سوال کرتے، اور جب بھی عذاب کی کسی آیت سے گزرتے تو ٹھہرتے، اور اس کے عذاب سے اس کی پناہ مانگتے، پھر آپ نے رکوع کیا، تو رکوع میں اپنے قیام کے بقدر ٹھہرے رہے، آپ اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے : سبحان ذي الجبروت والملکوت والکبرياء والعظمة پھر آپ نے اپنے رکوع کے بقدر سجدہ کیا، اور اپنے سجدے میں آپ کہہ رہے تھے : سبحان ذي الجبروت والملکوت والکبرياء والعظمة، پھر آپ نے دوسری رکعت میں سورة آل عمران پڑھی، پھر ایک اور سورة پڑھی، پھر ایک اور سورة پڑھی، آپ نے اسی طرح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1132
دوران سجدہ ایک اور قسم کی دعا
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے سورة البقرہ شروع کردی، آپ نے سو آیتیں پڑھ لیں لیکن رکوع نہیں کیا، اور آگے بڑھ گئے، میں نے اپنے جی میں کہا : لگتا ہے کہ آپ اسے دونوں رکعتوں میں ختم کردیں گے، لیکن آپ برابر آگے بڑھتے رہے، تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ اسے ختم کر کے ہی پھر رکوع کریں گے، لیکن آپ سورت ختم کر کے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ پوری سورة نساء آپ نے پڑھ ڈالی، پھر سورة اٰل عمران بھی پڑھ ڈالی، پھر تقریباً اپنے قیام ہی کے برابر رکوع میں رہے، اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے : سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور سمع اللہ لمن حمده ربنا لک الحمد کہا، اور دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے سجدہ کیا تو دیر تک سجدہ میں رہے، آپ سجدے میں کہہ رہے تھے : سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى جب آپ کسی خوف کی یا اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی آیت پر سے گزرتے، تو اللہ کا ذکر کرتے یعنی اس کی حمد و ثنا کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ١٠٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1133
دوران سجدہ ایک دوسری قسم کی دعا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں سبوح قدوس رب الملائكة والروح تمام فرشتے اور جبرائیل کا رب ہر نقص و عیب سے پاک ہے کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1134
دوران سجدہ کتنی مرتبہ تسبیح کہنا چاہئے؟
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے اس نوجوان یعنی عمر بن عبدالعزیز سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ نماز کسی کی نہیں دیکھی، تو ہم نے ان کے رکوع میں دس تسبیحوں کا، اور سجدے میں بھی دس تسبیحوں کا اندازہ لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٥٤ (٨٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٩) ، مسند احمد ٣/١٦٢، وانظر حدیث رقم : ٩٨٢ (ضعیف) (اس کے راوی ” وہب “ مجہول الحال ہیں، لیکن ” عمر بن عبدالعزیز “ کی نماز کے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ ہونے کی تائید ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ہے (رقم : ٩٨٣) سے ہوتی ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد إن شاء الله صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1135
اگر دوران سجدہ کچھ نہ پڑھے تو سجدہ جب بھی ادا ہوجائے گا
رفاعہ بن رافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے تھے، اور ہم لوگ آپ کے اردگرد تھے، اتنے میں ایک شخص آیا اور وہ قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنے لگا، جب وہ اپنی نماز پوری کرچکا تو آیا، اور رسول اللہ ﷺ اور لوگوں کو سلام کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : تم پر بھی سلامتی ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، تو وہ گیا، اور اس نے جا کر پھر سے نماز پڑھی، اور رسول اللہ ﷺ اس کی نماز کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے لیکن وہ یہ جان نہیں رہا تھا کہ اس میں وہ کیا غلطی کر رہا ہے ؟ تو جب وہ اپنی نماز پوری کرچکا تو آیا، اور اس نے رسول اللہ ﷺ اور لوگوں کو سلام کیا، رسول اللہ ﷺ نے پھر اس سے فرمایا : تم پر بھی سلامتی ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ، چناچہ اس نے دو یا تین بار نماز دہرائی، پھر اس شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میری نماز میں آپ نے کیا خامی پائی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرلے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کے کرنے کا حکم دیا ہے، وہ اپنا چہرہ دھوئے، اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے، اپنے سر کا مسح کرے، اور اپنے دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوئے، پھر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرے (یعنی تکبیر تحریمہ کہے) اور اس کی حمد وثناء اور بزرگی بیان کرے (یعنی دعائے ثناء پڑھے) ۔ ہمام کہتے ہیں : میں نے اسحاق کو ويحمد اللہ ويمجده ويكبره بھی کہتے سنا ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے دونوں طرح سے انہیں کہتے سنا ہے۔ آگے آپ ﷺ نے فرمایا : اور قرآن میں سے حسب توفیق اور مرضی الٰہی جو آسان ہو پڑھے، پھر اللہ اکبر کہے، اور رکوع کرے یہاں تک کہ اس کے تمام جوڑ اپنی جگہ آجائیں، اور ڈھیلے پڑجائیں، پھر سمع اللہ لمن حمده کہے، پھر سیدھا کھڑا ہوجائے یہاں تک اس کی پیٹھ برابر ہوجائے، پھر اللہ اکبر کہے، اور سجدہ کرے یہاں تک کہ وہ اپنا چہرہ زمین پر ٹکا دے ، (میں نے اسحاق کو اپنی پیشانی بھی کہتے سنا ہے) ، اور تمام جوڑ اپنی جگہ آجائیں اور ڈھیلے پڑجائیں، پھر اللہ اکبر کہے، اور اپنا سر اٹھائے یہاں تک کہ اپنی سرین پر سیدھا ہو کر بیٹھ جائے، اور اپنی پیٹھ سیدھی کرلے، پھر اللہ اکبر کہے، اور سجدہ کرے یہاں تک کہ وہ اپنا چہرہ زمین سے اچھی طرح ٹکا دے، اور ڈھیلا پڑجائے، اگر اس نے اس طرح نہیں کیا تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٦٨، ویأتي برقم : ١٣١٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے اس سے سجدے میں تسبیحات نہ پڑھنے پر استدلال اس طرح کیا ہے کہ اس میں تسبیحات کا ذکر نہیں ہے، مگر آپ ﷺ نے اس میں دیگر بہت سی واجبات کا بھی ذکر نہیں کیا ہے، یہاں صرف تعدیل ارکان پر توجہ دلانا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1136
بندہ اللہ عزوجل سے کب نزدیک ہوتا ہے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے، لہٰذا (سجدے میں) تم لوگ بکثرت دعا کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٢ (٤٨٢) ، سنن ابی داود/فیہ ١٥٢ (٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٥) ، مسند احمد ٢/٤٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1137
سجدہ کرنے کی فضیلت کا بیان
ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے وضو اور آپ کی حاجت کا پانی لے کر آتا تھا، تو ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا : جو مانگنا ہو مجھ سے مانگو ، میں نے کہا : میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے علاوہ اور بھی کچھ ؟ میں نے عرض کیا : بس یہی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو اپنے اوپر کثرت سجدہ کو لازم کر کے میری مدد کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٩) ، سنن ابی داود/فیہ ٣١٢ (١٣٢٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٧ (٣٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ١٦ (٣٨٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٣) ، مسند احمد ٤/٥٧، ٥٨، ٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کثرت سے سجدے کیا کرو اس لیے کہ نماز کی عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، شاید تمہاری کثرت سجود سے مجھے تمہارے لیے اپنی رفاقت کی سفارش کا موقع مل جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1138
خداوندقدوس کے واسطے جو شخص ایک سجدہ کرے تو اس کو کس قدر اجر ملے گا؟
معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے غلام ثوبان (رض) سے ملاقات کی، تو میں نے کہا : مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے فائدہ پہنچائے، یا مجھے جنت میں داخل کرے، وہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر میری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے : تم سجدوں کو لازم پکڑو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے بدلے، اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے ۔ معدان کہتے ہیں : پھر میں ابو الدرداء (رض) سے ملا اور میں نے ان سے وہی سوال کیا جو ثوبان (رض) سے کرچکا تھا، تو انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا : تم سجدوں کو لازم پکڑو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سجدہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے، اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٨٨، ٣٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠١ (١٤٢٣) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٦٥، ٢١١٢) ، مسند احمد ٥/٢٧٦، ٢٨٠، ٢٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1139
دوران سجدہ زمین پر لگنے والے اعضاء کی فضیلت کا بیان
عطاء بن یزید کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو ان دونوں میں سے ایک نے شفاعت کی حدیث بیان کی، اور دوسرے خاموش رہے، انہوں نے کہا : فرشتے آئیں گے، شفاعت کریں گے، اور انبیاء و رسل بھی شفاعت کریں گے، نیز انہوں نے پل صراط کا ذکر کیا، اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : پل صراط پار کرنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلوں سے فارغ ہوگا، اور جہنم سے جسے نکالنا چاہے گا نکال لے گا، تو اللہ فرشتوں کو اور رسولوں کو حکم دے گا کہ وہ شفاعت کریں، قابل شفاعت لوگ اپنی نشانیوں سے پہچان لیئے جائیں گے، آگ ابن آدم کی ہر چیز کھاجائے گی سوائے سجدہ کی جگہ کے، پھر ان پر چشمہ حیات کا پانی انڈیلا جائے گا، تو وہ اگنے لگیں گے جیسے سیلاب کے خش و خاشاک میں دانہ اگتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٩ ١ (٨٠٦) ، الرقاق ٥٢ (٦٥٧٣) ، التوحید ٢٤ (٧٤٣٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٠ (١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٦، ١٤٢١٣) ، مسند احمد ٢/٢٧٥، ٢٩٣، ٥٣٣ و ٣/٩٤، سنن الدارمی/الرقاق ٩٦ (٢٨٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس طرح سیلاب کے کوڑا کرکٹ میں دانہ اُگ کر جلد ہی ترو تازہ ہوجاتا ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی اس پانی کی برکت سے بھلے چنگے ہوجائیں گے، اور آگ کے نشانات مٹ جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1140
کیا ایک سجدہ دوسرے سے طویل کرنا جائز ہے؟
شداد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازوں میں سے کسی ایک نماز کے لیے نکلے، اور حسن یا حسین کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو انہیں (زمین پر) بٹھا دیا، پھر آپ نے نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی، اور نماز شروع کردی، اور اپنی نماز کے دوران آپ نے ایک سجدہ لمبا کردیا، تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ رسول اللہ ﷺ کی پیٹھ پر ہے، اور آپ سجدے میں ہیں، پھر میں اپنے سجدے کی طرف دوبارہ پلٹ گیا، جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ اتنا لمبا کردیا کہ ہم نے سمجھا کوئی معاملہ پیش آگیا ہے، یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی، البتہ میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا لی تھی تو مجھے ناگوار لگا کہ میں جلدی کروں یہاں تک کہ وہ اپنی خواہش پوری کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، حم ٣/٤٩٣، ٦/٤٦٧، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1141
جس وقت سجدہ سے سر اٹھائے تو تکبیر پڑھنا چاہئے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہر جھکنے، اٹھنے، کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں اللہ اکبر کہتے دیکھا، اور آپ اپنے دائیں اور بائیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے گال کی سفیدی دکھائی دیتی، اور میں نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کو بھی ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1142
پہلے سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا
مالک بن حویرث (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر الأرقام : ١٠٨٦، ١٠٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم : ١٠٨٦ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1143
دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھ نہ اٹھانے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے، اور جب رکوع کرتے تو بھی، اور رکوع کے بعد بھی، اور دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1144
دونوں سجدوں کے درمیان دعا کرنا
حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کے پہلو میں جا کر کھڑے ہوگئے، آپ نے اللہ أكبر ذو الملکوت والجبروت والکبرياء والعظمة کہا، پھر آپ نے سورة البقرہ پڑھی، پھر رکوع کیا، آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام کے برابر رہا، اور آپ نے رکوع میں :سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم کہا، اور جب آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا تو : لربي الحمد لربي الحمد کہا، اور آپ اپنے سجدہ میں سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى اور دونوں سجدوں کے درمیان رب اغفر لي رب اغفر لي کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1145
چہرہ کے سامنے دونوں ہاتھ اٹھانے سے متعلق
نضر بن کثیر ابوسہل ازدی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن طاؤس نے منیٰ میں مسجد خیف میں میرے پہلو میں نماز پڑھی، تو انہوں نے جب پہلا سجدہ کیا، اور سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے کے بالمقابل اٹھایا، مجھے یہ بات عجیب لگی تو میں نے وہیب بن خالد سے کہا کہ یہ ایسا کام کر رہے ہیں جو میں نے کبھی کسی کو کرتے نہیں دیکھا ؟ ، تو وہیب نے ان سے کہا : آپ ایسا کام کرتے ہیں جسے ہم نے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ؟ اس پر عبداللہ بن طاؤس نے کہا : میں نے اپنے والد کو ایسا کرتے دیکھا ہے، اور میرے والد نے کہا : میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٧٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٩) (صحیح) (اس کے راوی ” نضر بن کثیر “ ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1146
دونوں سجدوں کے درمیان کتنی دیر تک بیٹھنا چاہئے؟
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز یعنی آپ کا رکوع، سجدہ، رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کا قیام اور دونوں سجدوں کے درمیان کا بیٹھنا تقریباً سب برابر برابر ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1148
دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا طریقہ
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے پہلو سے جدا رکھتے یہاں تک کہ آپ کے پیچھے آپ کے بغل کی سفیدی نظر آتی، اور جب بیٹھتے تو اپنی بائیں ران زمین پر لگا کر بیٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١١٠ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1147
سجدہ کے واسطے تکبیر پڑھنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر اٹھتے، جھکتے، کھڑے ہوتے اور بیٹھتے وقت اللہ اکبر کہتے، اور ابوبکر و عمر اور عثمان (رض) عنہم بھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1149
سجدہ کے واسطے تکبیر پڑھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے اٹھتے تو جس وقت کھڑے ہوتے اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جس وقت اپنی پیٹھ رکوع سے اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمده کہتے، پھر کھڑے ہو کر کہتے : ربنا لک الحمد پھر جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر پوری نماز میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ آپ اسے پوری کرلیتے، اور جس وقت دوسری رکعت سے بیٹھنے کے بعد اٹھتے تو (بھی) اللہ اکبر کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٧ (٧٨٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٠ (٣٩٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١٧ (٧٣٨) ، مسند احمد ٢/٢٧٠، ٤٥٤، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1150
جس وقت دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر اٹھنے لگے تو پہلے سیدھا کھڑا ہو کر بیٹھ جاتے پھر اٹھتے
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ ابوسلیمان مالک بن حویرث (رض) ہماری مسجد میں آئے اور کہنے لگے : میں تمہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کیسے نماز پڑھتے دیکھا ہے، تو وہ پہلی رکعت میں آخری سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے وقت بیٹھے (جلسہ استراحت کرتے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٥ (٦٧٧) ، ١٢٧ (٨٠٢) ، ١٤٠ (٨١٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٢ (٨٤٢، ٨٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٥) ، مسند احمد ٣/٤٣٦، ٥/٥٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس بیٹھک کو جلسہ استراحت کہتے ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسنون نہیں، اور اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آپ اسے بالقصد نہیں کرتے تھے بلکہ اخیر عمر میں کبر سنی کی وجہ سے ایسا کرتے تھے، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ صحیحین کی روایت میں اس کے کرنے کا حکم آیا ہے، اور جو روایتیں اس کے خلاف آئی ہیں وہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں، اور اگر نبی اکرم ﷺ اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا ترک تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ اس کے مسنون ہونے کے منافی نہیں، کیونکہ جو چیز واجب نہ ہو اسے کبھی کبھی ترک کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1151
جس وقت دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر اٹھنے لگے تو پہلے سیدھا کھڑا ہو کر بیٹھ جاتے پھر اٹھتے
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا، جب آپ اپنی نماز کی طاق رکعتوں میں ہوتے تو جب تک بیٹھ کر سیدھے نہیں ہوجاتے نہیں اٹھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٢ (٨٢٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٢ (٨٤٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩٨ (٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1152
کھڑے ہوتے وقت ہاتھ زمین پر ٹکانا
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث (رض) ہمارے پاس آتے تو کہتے : کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ تو وہ بغیر وقت کے نماز پڑھتے، جب وہ پہلی رکعت میں دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھ کر سیدھے ہوجاتے، پھر کھڑے ہوتے تو زمین پر اپنا ہاتھ ٹیکتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٥٢، (تحفة الأشراف : ١١١٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1153
ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھانا
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو گھٹنوں کو ہاتھ سے پہلے زمین پر رکھتے، اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اسے شریک سے یزید بن ہارون کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٠ (ضعیف) (شریک القاضی حافظے کے کمزور راوی ہیں اس لیے جب کسی روایت میں منفرد ہوں تو ان کی روایت قبول نہیں کی جاتی ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1154
سجدے سے اٹھتے وقت تکبیر کہنا
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) انہیں نماز پڑھاتے تھے، تو جب جب جھکتے اور اٹھتے اللہ اکبر کہتے، پھر جب وہ سلام پھیر کر پلٹتے تو کہتے : قسم اللہ کی، میں تم میں نماز کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٥ (٧٨٥) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٠ (٣٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٤٧) ، موطا امام مالک/الصلاة ٤ (١٩) ، مسند احمد ٢/٢٣٦، ٥٠٢، ٥٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1155
سجدے سے اٹھتے وقت تکبیر کہنا
ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ان دونوں نے ابوہریرہ (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، جب انہوں نے رکوع کیا تو اللہ اکبر کہا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو سمع اللہ لمن حمده ربنا ولک الحمد کہا، پھر سجدہ کیا تو اللہ اکبر کہا، اور سجدہ سے اپنا سر اٹھایا تو اللہ اکبر کہا، پھر جس وقت رکعت پوری کر کے کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، پھر کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نماز میں ازروئے مشابہت تم میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ قریب ہوں، برابر آپ کی نماز ایسے رہی یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہوگئے، یہ الفاظ سّوار کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢٨ (٨٠٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٤٠ (٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٤) ، مسند احمد ٢/٢٧٠، سنن الدارمی/الصلاة ٤٠ (١٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1156
قعدہ اولی میں بیٹھنے کا طریقہ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز کی سنت میں سے یہ بات ہے کہ تم اپنے بائیں پیر کو بچھاؤ اور دائیں کو کھڑا رکھو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٥ (٨٢٧) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٠ (٩٥٨، ٩٥٩، ٩٦٠، ٩٦١) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٢ (٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1157
تشہد میں بیٹھنے کے وقت پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی جانب رکھنا چاہئے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز کی سنت میں سے دائیں پیر کو کھڑا رکھنا، اور اس کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھنا اور بائیں پیر پر بیٹھنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1158
بیٹھ جانے کے وقت ہاتھ کس جگہ رکھنا چاہئے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرلیتے، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو بھی ایسے ہی اٹھاتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پیر کو بچھا دیتے، اور دائیں کو کھڑا رکھتے، اور اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے، اور (شہادت کی) انگلی دعا کے لیے کھڑی رکھتے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے۔ وائل (رض) کہتے ہیں : پھر میں آئندہ سال ان لوگوں کے پاس آیا، تو میں نے لوگوں کو جبوں کے اندر اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١٦ (٧٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٢٦٤ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1159
بحالت نماز جس وقت بیٹھ جائے تو کس جانب نگاہ رکھنا چاہئے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے ہاتھ سے کنکریاں ہٹا رہا ہے، تو جب وہ سلام پھیر چکا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے اس سے کہا : جب تم نماز میں رہو تو کنکریوں کو ادھر ادھر مت کرو کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، البتہ اس طرح کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، اس نے پوچھا : آپ کیسے کرتے تھے ؟ تو انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے قبلہ کی طرف اشارہ کیا، اور اپنی نگاہ اسی انگلی پر رکھی، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٨٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٦ (٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥١) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٢ (٩٨) ، مسند احمد ٢/١٠، ٤٥، ٦٥، ٧٣، سنن الدارمی/الصلاة ٨٣ (١٣٧٨) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٢٦٧، ١٢٦٨ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے سلام پھیرنے تک برابر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے، اشارہ کرنے کے بعد انگلی کے گرا لینے یا لا الٰہ پر اٹھانے اور الا اللہ پڑھ کر گرا لینے کی کوئی دلیل حدیث میں نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1160
انگلی سے اشارہ کرنے سے متعلق حدیث
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دوسری یا چوتھی رکعت میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پہ رکھتے پھر اپنی (شہادت کی) انگلی سے اشارہ کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1161
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ جب ہم دوسری رکعت میں بیٹھیں تو التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله تمام بزرگیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، تمام دعائیں اور صلاتیں اور تمام پاک چیزیں بھی، اے نبی ! آپ پر سلامتی ہو، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٩٩ (٢٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٩) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٩١٨١) ، مسند احمد ١/٤١٣، ٤٢٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ١١٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1162
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہر دو رکعت (کے بعد قعدہ) میں کیا کہیں، سوائے اس کے کہ ہم اپنے رب کی پاکی بیان کریں، اور اس کی بڑائی اور حمد و ثنا کریں، حالانکہ محمد ﷺ نے خیر کے فواتح اور خواتم سکھا دئیے ہیں (یعنی وہ ساری باتیں سکھا دی ہیں جن میں خیر و بھلائی ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم ہر دو رکعت کے بعد بیٹھو تو کہو : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله تم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اسے جو دعا بھی اچھی لگے اختیار کرے، اور اللہ عزوجل سے دعا کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٦٩) ، سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٩) ، مسند احمد ١/٤٠٨، ٤١٣، ٤١٨، ٤٢٣، ٤٣٧، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1163
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صلاۃ کا تشہد اور حاجت کا تشہد دونوں سکھایا، رہا صلاۃ کا تشہد تو وہ التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1164
پہلا تشہد کون سا ہے؟
یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ میں نے سفیان (سفیان ثوری) کو یہی تشہد فرض اور نفل دونوں میں پڑھتے سنا، اور وہ کہتے تھے کہ ہم سے اسحاق نے بیان کیا انہوں نے ابو احوص سے انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، نیز اسے ہم سے منصور اور حماد نے بیان کیا اور ان دونوں نے ابو وائل سے روایت کیا اور انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے اور ابن مسعود (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبو إسحاق عن أبي الأحوص، عن عبداللہ تقدم تخریجہ، أنظر حدیث رقم : ١١٦٤، ولکن حدیث منصور وحماد عن أبي وائل عن عبداللہ أخرجہ : صحیح البخاری/الدعوات ١٧ (٦٣٢٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٩ م ١) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٢، ٩٢٩٦) ، مسند احمد ١/٤١٣، ٤٣٩، ٤٤٠، ٤٦٤، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١١٧٠، ١١٧١، ١٢٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1165
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم کچھ نہیں جانتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تم ہر جلسہ میں التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله کہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٦٣، (تحفة الأشراف : ٩١٨١، ٩٤٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1166
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ جب ہم صلاۃ پڑھیں تو کیا کہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے ہمیں جامع کلمات سکھائے، آپ نے ہم سے فرمایا : کہو : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود (رض) کو دیکھا کہ وہ ہمیں یہ کلمات اسی طرح سکھاتے تھے جیسے وہ ہمیں قرآن سکھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٤١٣) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1167
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے : السلام على اللہ السلام على جبريل السلام على ميكائيل تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : السلام على اللہ نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سراپا سلام ہے بلکہ یوں کہو : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم : ١١٦٨) (شاذ) (وحدہ لا شریک لہ…کا اضافہ شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ بزيادة وحده لا شريك له صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1168
پہلا تشہد کون سا ہے؟
ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے : السلام على اللہ السلام على جبريل السلام على ميكائيل تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : السلام على اللہ نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سراپا سلام ہے بلکہ یوں کہو : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1169
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ تشہد میں التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث منصور وحماد، عن أبي وائل، عن عبداللہ تقدم تخریجہ انظر حدیث رقم : ١١٦٦، ولکن حدیث سلیمان بن مہران، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عبداللہ (صحیح) ٭ ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں : ابو ہاشم غریب ہیں ١ ؎۔ وضاحت ١ ؎: یعنی اس روایت میں ان کا ذکر صرف اس سند میں ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1170
پہلا تشہد کون سا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورة سکھاتے تھے اور میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان ہوتی (آپ فرماتے : کہو) التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإستئذان ٢٨ (٦٢٦٥) مطولاً ، صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٢) ، مسند احمد ١/٤١٤، (تحفة الأشراف : ٩٣٣٨) ، صحیح البخاری/الأذان ١٤٨ (٨٣١) ، ١٥٠ (٨٣٥) ، الاستئذان ٣ (٦٢٣٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٥) ، مسند احمد ١/٣٨٢، ٤١٣، ٤٢٣، ٤٢٧، ٤٣١، ٤٤٠، سنن الدارمی/الصلاة ٨٤ (١٣٧٩) ، وحدیث مغیرة بن مقسم، عن أبي وائل، عن عبداللہ أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٥ (٧٣٨١) ، مسند احمد ١/٤٤٠، (تحفة الأشراف : ٩٢٩٣) ، وحدیث یحییٰ بن دینار، وأبي ہاشم أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٨٩٩ م ١) ، (تحفة الأشراف : ٩٣١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1171
دوسری قسم کا تشہد
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے خطاب کیا، تو اس میں آپ نے ہمیں ہمارا طریقہ سکھایا، اور ہم سے ہماری صلاۃ کی تشریح فرمائی، اور فرمایا : اپنی صفیں درست کرو، پھر تم میں کا کوئی امامت کرے، تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور وہ ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری یہ دعا قبول کرے گا، اور جب امام اللہ اکبر کہے، اور رکوع کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور رکوع کرو، امام تم سے پہلے رکوع کرے گا، اور تم سے پہلے رکوع سے اپنا سر اٹھائے گا، ادھر کی تاخیر ادھر پوری ہوجائے گی، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری سنے گا، اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی زبان پر فرمایا ہے : اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، پھر جب امام اللہ اکبر کہے، اور سجدہ کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور سجدہ کرو، امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا، اور تم سے پہلے سجدے سے سر اٹھائے گا، ادھر کی تاخیر ادھر پوری ہوجائے گی ١ ؎ اور جب امام قاعدے میں ہو تو تم میں سے ہر ایک کی زبان پہ پہلی دعا یہ ہو : التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٣١، ویأتي برقم : ١١٧٤ مختصراً ، ١٢٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی امام تم سے جتنا پہلے سجدہ میں گیا اتنا ہی پہلے وہ سجدہ سے اٹھ گیا، اس طرح تمہاری اور امام کی نماز برابر ہوگئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1172
ایک دوسری قسم کے تشہد سے متعلق
حطان بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری (رض) کے ساتھ نماز پڑھی، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب امام قاعدے میں ہو تو تم میں سے ہر ایک کی زبان پہ پہلی دعا یہ ہو : التحيات لله الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٣١، ١١٧٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوموسیٰ اشعری (رض) سے مروی ان دونوں تشہدوں میں فرق یہ ہے کہ اس دوسری میں التحیات کے بعد للہ کا اضافہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1173
ایک دوسری نوعیت کے تشہد کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد سکھاتے جیسے ہمیں قرآن پڑھنا سکھاتے تھے، آپ کہتے تھے : التحيات المبارکات الصلوات الطيبات لله سلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته سلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٦ (٤٠٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٢ (٩٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠١ (٢٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٠) ، مسند احمد ١/٢٩٢ ویأتی عند المؤلف في السھو ٤٢ (برقم : ١٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تمام کلمات کے اندر واؤ پوشیدہ ہے، یعنی : التحیات والمبارکات والصلوات والطیبات للہ واؤ کو اختصاراً حذف کردیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح حيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1174
ایک اور نوعیت کے تشہد سے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد پڑھنا سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورة پڑھنا سکھاتے، فرماتے : بسم اللہ وباللہ التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أسأل اللہ الجنة وأعوذ باللہ من النار۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٤ (٩٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٢٨٢ (ضعیف) (اس کے راوی ” أیمن “ حافظہ کے کمزور ہیں، اور کسی نے اس پر ان کی متابعت نہیں کی ہے، دیکھئے اس حدیث پر خود مؤلف کا کلام حدیث رقم : ١٢٨٢ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1175
پہلے قعدہ کو ہلکا کرنے کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دوسری رکعت میں ایسا بیٹھتے جیسے گرم پتھر پر بیٹھے ہوں، راوی نے کہا : میں نے کہا : اٹھنے تک ؟ تو انہوں نے (استاد نے) کہا : ہاں ! یہی مراد ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٨ (٩٩٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٤ (٣٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٠٩) ، مسند احمد ١/٣٨٦، ٤١٠، ٤٢٨، ٤٣٦، ٤٦٠ (ضعیف) (ابو عبیدہ کا ان کے والد ابن مسعود (رض) سے سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1176
اگر قعدہ اولی یاد نہ رہے تو کیا کرنا ہوگا؟
ابن بحینہ (عبداللہ بن مالک) (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھائی، تو دوسری رکعت میں جس میں آپ بیٹھنا چاہتے تھے کھڑے ہوگئے، اور اپنی نماز جاری رکھی، یہاں تک کہ نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے آپ ﷺ نے دو سجدہ کیا، پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٦ (٨٢٩) ، ١٤٧ (٨٣٠) ، السھو ١، ٥ (١٢٢٤، ١٢٢٥ و ١٢٣٠) ، الأیمان ١٥ (٦٦٧٠) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٠ (١٠٣٤، ١٠٣٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٢ (٣٩١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣١ (١٢٠٦، ١٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٤) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٧ (٦٥) ، مسند احمد ٥/٣٤٥، ٣٤٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٦ (١٥٤٠، ١٥٤١) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١١٧٧، ١٢٢٣، ١٢٢٤، ١٢٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1177
اگر قعدہ اولی یاد نہ رہے تو کیا کرنا ہوگا؟
ابن بحینہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نماز پڑھائی، تو دوسری رکعت میں کھڑے ہوگئے، لوگوں نے سبحان اللہ کہا، لیکن آپ نے نماز جاری رکھی، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدہ کیا، پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1178
جس وقت درمیان کہ قعدہ سے فراغت ہوجائے اور پچھلی دو رکعت کے واسطے اٹھنا چاہئے تو تکبیر پڑھے
عبدالرحمٰن بن اصم کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) سے نماز میں اللہ اکبر کہنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا : اللہ اکبر کہے جب رکوع میں جائے، اور جب سجدہ میں جائے، اور جب سجدہ سے سر اٹھائے، اور جب دوسری رکعت سے اٹھے۔ حطیم نے پوچھا : آپ نے اسے کس سے سن کر یاد کیا ہے، تو انہوں نے کہا : نبی اکرم ﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم سے، پھر وہ خاموش ہوگئے، تو حطیم نے ان سے کہا، اور عثمان (رض) عنہ سے بھی ؟ انہوں نے کہا : اور عثمان (رض) عنہ سے بھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٨٧) ، مسند احمد ٣/١٢٥، ١٣٢، ١٧٩، ٢٥١، ٢٥٧، ٢٦٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1179
جس وقت درمیان کہ قعدہ سے فراغت ہوجائے اور پچھلی دو رکعت کے واسطے اٹھنا چاہئے تو تکبیر پڑھے
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) نے نماز پڑھی، تو وہ ہر جھکنے اور اٹھنے میں اللہ اکبر کہتے تھے، اور تکبیر پوری کرتے تھے (اس میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے) تو عمران بن حصین (رض) نے کہا : اس شخص نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز یاد دلا دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1180
جس وقت پچھلی دو رکعت کے واسطے اٹھے تو دونوں ہاتھ اٹھائے
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب دونوں رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، اور رفع یدین کرتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں کے برابر لے جاتے، جیسے وہ نماز شروع کرتے وقت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ١٠٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1181
قعدہ اولی کے بعد دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھانا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز میں داخل ہوتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور دو رکعتوں کے بعد جب کھڑے ہوتے تو بھی اپنے ہاتھوں کو مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1182
دونوں ہاتھوں کا اوپر اٹھانا اور بحالت نماز خداوند قدوس کی تعریف کرنا
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا، تو مؤذن ابوبکر (رض) کے پاس آیا، اور اس نے ان سے لوگوں کو جمع کر کے ان کی امامت کرنے کے لیے کہا (چنانچہ انہوں نے امامت شروع کردی) اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، اور صفوں کو چیر کر اگلی صف میں آ کر کھڑے ہوگئے، لوگ ابوبکر (رض) کو تالیاں بجانے لگے تاکہ انہیں رسول اللہ ﷺ کی آمد کی خبر دے دیں، جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو انہیں احساس ہوا کہ نماز میں کوئی چیز ہوگئی ہے، تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ہیں ابوبکر (رض) نماز میں کسی اور طرف دھیان نہیں کرتے تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو، رسول اللہ ﷺ کے اس کہنے پر ابوبکر (رض) نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر وہ الٹے پاؤں پیچھے آگئے، اور رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے، پھر آپ نے نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوبکر (رض) سے پوچھا : تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی، جب میں نے تمہیں اشارہ کردیا تھا ؟ تو ابوبکر (رض) نے کہا : ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی امامت کرے، پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا : تمہیں کیا ہوگیا تھا کہ تم تالیاں بجا رہے تھے، تالیاں تو عورتوں کے لیے ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : جب تمہیں تمہاری نماز میں کوئی چیز پیش آجائے، تو تم سبحان اللہ کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٢ (٤٢١) ، مسند احمد ٥/٣٣٢، (تحفة الأشراف : ٤٧٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1183
بحالت نماز ہاتھ اٹھا کر سلام کرنے سے متعلق
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اور ہم نماز میں اپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر سلام کر رہے تھے ١ ؎ تو آپ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھا رہے ہیں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں، نماز میں سکون سے رہا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٦٧ (٩١٢) ، ١٨٩ (١٠٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٢٨) ، مسند احمد ٥/٨٦، ٨٨، ٩٣، ١٠١، ١٠٢، ١٠٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسا کہ اگلی روایت میں فنسلم بأیدینا کے الفاظ آ رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1184
بحالت نماز ہاتھ اٹھا کر سلام کرنے سے متعلق
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے، اور اپنے ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے، اس پر آپ نے فرمایا : ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ اپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر سلام کرتے ہیں گویا کہ یہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں، کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھیں پھر السلام عليكم، السلام عليكم کہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ صحیح مسلم/الصلاة ٢٧ (٤٣١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٩ (٩٩٨، ٩٩٩) ، مسند احمد ٥/٨٦، ٨٨، ١٠٢، ١٠٧، (تحفة الأشراف : ٢٢٠٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٣١٩، ١٣٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1185
نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے
صحابی رسول صہیب (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے تو میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، (ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں) اور میں یہی جانتا ہوں کہ صہیب (رض) نے کہا کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٠ (٩٢٥) ، سنن الترمذی/فیہ ١٥٥ (٣٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٦) ، مسند احمد ٤/٣٣٢، سنن الدارمی/الصلاة ٩٤ (١٤٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1186
نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مسجد قباء میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوئے، تو لوگ ان کے پاس سلام کرنے کے لیے آئے، میں نے صہیب ﷺ سے پوچھا (وہ آپ کے ساتھ تھے) کہ نبی اکرم ﷺ سے جب سلام کیا جاتا تھا تو آپ کیسے جواب دیتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٩ (١٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1187
نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے
عمار بن یاسر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں (اشارے سے) جواب دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٤/٢٦٣، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1188
نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے لیے بھیجا، جب میں (واپس آیا تو) میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے (اسی حالت میں) آپ کو سلام کیا، تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، جب آپ نماز پڑھ چکے تو مجھے بلایا، اور فرمایا : تم نے ابھی مجھے سلام کیا تھا، اور میں نماز پڑھ رہا تھا ، اور اس وقت آپ پورب کی طرف رخ کیے ہوئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٩ (١٠١٨) ، مسند احمد ٣/٣٣٤، (تحفة الأشراف : ٢٩١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مقصود یہ ہے کہ اس وقت آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف نہیں تھا اس لیے مجھے یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ آپ نماز میں ہیں، اس لیے آپ نے بعد میں بلا کر وضاحت کی، اور پورب کی طرف رخ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اس وقت اپنی سواری پر تھے، اور سواری قبلہ سے پورب کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1189
نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے
جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے (کسی ضرورت سے) بھیجا، میں (لوٹ کر) آپ کے پاس آیا تو آپ (سواری پر) مشرق یا مغرب کی طرف جا رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، میں واپس ہونے لگا تو آپ نے مجھے آواز دی : اے جابر ! (تو میں نے نہیں سنا) پھر لوگوں نے بھی مجھے جابر کہہ کر (بلند آواز سے) پکارا، تو میں آپ کے پاس آیا، اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1190
نماز کے دوران کنکریوں کو ہٹانا منع ہے
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ کنکری پر ہاتھ نہ پھیرے، کیونکہ رحمت اس کا سامنا کر رہی ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٥ (٩٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٢ (١٠٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٧) ، مسند احمد ٥/١٤٩، ١٥٠، ١٦٣، ١٧٩، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٨) (ضعیف) (اس کے راوی ” أبو الأحوص “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1191
ایک مرتبہ کنکریوں کو ہٹانے کی اجازت سے متعلق
معیقب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اگر تمہیں (کنکریوں پر) ہاتھ پھیرنا ضروری ہی ہو تو ایک بار پھیر سکتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی ال صلاة ٨ (١٢٠٧) ، صحیح مسلم/المساجد ١٢ (٥٤٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٥ (٩٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦٣ (٣٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٢ (١٠٢٦) ، مسند احمد ٣/٤٢٦ و ٥/٤٢٥، ٤٢٦، سنن الدارمی/الصلاة ١١٠ (١٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1192
بحالت نماز آسمان کی جانب دیکھنے کی ممانعت سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ نماز میں اپنی نگاہوں کو آسمان کی جانب اٹھاتے ہیں ، آپ نے بڑی سخت بات اس سلسلہ میں کہی یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : وہ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی نظریں اچک لی جائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٢ (٧٥٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٦٧ (٩١٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٨ (١٠٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣) ، مسند احمد ٣/١٠٩، ١١٢، ١١٥، ١١٦، ١٤٠، ٢٥٨، سنن الدارمی/الصلاة ٦٧ (١٣٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1193
بحالت نماز آسمان کی جانب دیکھنے کی ممانعت سے متعلق
ایک صحابی رسول (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو وہ اپنی نظروں کو آسمان کی طرف نہ اٹھائے، ایسا نہ ہو کہ اس کی نظر اچک لی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٦٣٤) ، مسند احمد ٣/٤٤١ و ٥/٢٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1194
نماز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا ممنوع ہے
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : برابر اللہ بندے پر اس کی نماز میں متوجہ رہتا ہے اس وقت تک جب تک کہ وہ ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتا، اور جب وہ رخ پھیر لیتا ہے تو اللہ بھی اس سے پھرجاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦٥ (٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٨) ، مسند احمد ٥/١٧٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٤ (١٤٦٣) (ضعیف) (اس کے راوی ” أبو الأحوص “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1195
نماز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا ممنوع ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : یہ چھینا جھپٹی ہے جسے شیطان اس سے نماز میں کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٣ (٧٥١) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٩١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٦٥ (٩١٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٦ (الجمعة ٦٠) (٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦١) ، مسند احمد ٦/٧، ١٠٦، وانظر الأرقام الآتیة : (١١٩٨، ١١٩٩، ١٢٠٠ موقوفاً ) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1196
نماز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا ممنوع ہے
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کرتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1197
نماز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا ممنوع ہے
اس سند سے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٩٧ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1198
نماز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا ممنوع ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا چھینا جھپٹی ہے جسے شیطان نماز میں اس سے کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٩٧، ولکن ہذا الحدیث موقوف علی عائشة (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1199
نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کی اجازت
جابر (رض) کہتے ہیں (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے، تو ہم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر (رض) زور سے تکبیر کہہ کر لوگوں کو آپ کی تکبیر سنا رہے تھے، (نماز میں) آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے ہمیں دیکھا کہ ہم کھڑے ہیں، آپ نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا، تو ہم بیٹھ گئے، اور ہم نے آپ کی امامت میں بیٹھ کر نماز پڑھی، جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا : ابھی ابھی تم لوگ فارس اور روم والوں کی طرح کر رہے تھے، وہ لوگ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں، اور وہ بیٹھے رہتے ہیں، تو تم ایسا نہ کرو، اپنے اماموں کی اقتداء کرو، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں تو تم کھڑے ہو کر پڑھو، اور اگر بیٹھ کر پڑھیں بھی بیٹھ کر پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٩ (٤١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٦٩ (٦٠٦) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٤ (١٢٤٠) ، (تحفة الاشراف : ٢٩٠٦) ، مسند احمد ٣/٣٣٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ واقعہ مرض الموت والے واقعے سے پہلے کا ہے، مرض الموت والے واقعے میں آپ نے بیٹھ کر امامت کرائی اور لوگوں نے کھڑے ہو کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی، اور آپ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا، اس لیے وہ اب منسوخ ہے، اور نماز میں آپ ﷺ کا التفات کرنا آپ کی خصوصیات میں سے تھا، امت کے لیے آپ کا فرمان حدیث رقم : ١١٩٧ میں گزرا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1200
نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کی اجازت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز میں دائیں بائیں متوجہ ہوتے تھے ١ ؎ لیکن آپ اپنی گردن اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں موڑتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٦ (الجمعة ٦٠) (٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٠١٤) ، مسند احمد ١/٢٧٥، ٣٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسے نفل نماز پر محمول کرنا اولیٰ ہے، جیسا کہ سنن ترمذی میں انس (رض) کی حدیث میں اس کی صراحت ہے، اور فرض میں بوقت اشد ضرورت ایسا کیا جاسکتا ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1201
بحالت نماز سانپ اور بچھو قتل کر ڈالنا درست ہے
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز (کی حالت) میں دو کالوں کو یعنی سانپ اور بچھو کو مارنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦٩ (٩٢١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٠ (٣٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٦ (١٢٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٣) ، مسند احمد ٢/٢٣٣، ٢٤٨، ٢٥٥، ٢٧٣، ٢٧٥، ٢٨٤، ٤٩٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٨ (١٥٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1202
بحالت نماز سانپ اور بچھو قتل کر ڈالنا درست ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں دو کالوں کو مارنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1203
بحالت نماز سانپ اور بچھو قتل کر ڈالنا درست ہے
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، اور نماز کی حالت میں (اپنی نواسی) امامہ رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے تھے، جب آپ سجدہ میں گئے تو انہیں اتار دیا، اور جب کھڑے ہوئے تو انہیں اٹھا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ٧١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1204
بحالت نماز سانپ اور بچھو قتل کر ڈالنا درست ہے
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کی امامت کر رہے ہیں، اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہم کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں، جب آپ رکوع میں گئے تو انہیں اتار دیا، اور جب سجدے سے فارغ ہوئے تو انہیں پھر اٹھا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1205
نماز میں چند قدم قبلے کی طرف چلنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دروازہ کھلوانا چاہا، اس وقت رسول اللہ ﷺ نفل نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ قبلہ کی طرف پڑ رہا تھا، آپ اپنے دائیں جانب یا بائیں جانب (چند قدم) چلے، اور آپ نے دروازہ کھولا، پھر آپ اپنی جگہ پر واپس لوٹ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦٩ (٩٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٤ (الجمعة ٦٨) (٦٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤١٧) ، مسند احمد ٦/٣١، ١٨٣، ٢٣٤) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1206
نماز کی حالت میں دستک دینے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے ۔ ابن مثنیٰ نے في الصلاة کا اضافہ کیا ہے (یعنی نماز میں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی ال صلاة ٥ (١٢٠٣) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٣ (٩٣٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٦٥ (١٠٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤١) ، مسند احمد ٢/٢٤١، سنن الدارمی/الصلاة ٩٥ (١٤٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1207
نماز کی حالت میں دستک دینے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٣ (٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1208
بحالت نماز سبحان اللہ کہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ (کہنا) مردوں کے لیے ہے، اور دستک دینا عورتوں کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٤١٨) ، مسند احمد ٢/٢٦١، ٤٤٠، ٤٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1209
بحالت نماز سبحان اللہ کہنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٤٨٨) ، مسند احمد ٢/٢٩٠، ٤٣٢، ٤٧٣، ٤٩٢، ٥٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1210
نماز کی حالت میں کھنکارنا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے میرے لیے ایک گھڑی ایسی مقرر تھی کہ میں اس میں آپ کے پاس آیا کرتا تھا، جب میں آپ کے پاس آتا تو اجازت مانگتا، اگر میں آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پاتا تو آپ کھنکھارتے، تو میں اندر داخل ہوجاتا، اگر میں آپ کو خالی پاتا تو آپ مجھے اجازت دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٧ (٣٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٢) ، مسند احمد ١/٧٧، ٨٠، ١٠٧، ١٥٠ (ضعیف الإسناد) (عبداللہ بن نجی کا علی (رض) سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1211
نماز کی حالت میں کھنکارنا
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے آنے کے دو وقت تھے، ایک رات میں اور ایک دن میں، جب میں رات میں آپ کے پاس آتا (اور آپ نماز وغیرہ میں مشغول ہوتے) تو آپ میرے لیے کھنکھارتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢١٢ (ضعیف الإسناد) (سند میں انقطاع ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کھنکھار کر اندر آنے کی اجازت دیتے، اور بعض نسخوں میں تنحنح کے بجائے سبّح ہے، اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ اس کے بعد والی روایت میں ہے کہ کھنکھارنا عدم اجازت کی علامت تھی، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی دو ہیئت رہی ہو ایک اجازت پر دلالت کرتی رہی ہو، اور دوسری عدم اجازت پر، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1212
نماز کی حالت میں کھنکارنا
نجی کہتے ہیں کہ مجھ سے علی (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے یہاں میرا ایسا مقام و مرتبہ تھا جو مخلوق میں سے کسی اور کو میسر نہیں تھا، چناچہ میں آپ کے پاس ہر صبح تڑکے آتا اور کہتا السلام عليك يا نبي اللہ اللہ کے نبی ! آپ پر سلامتی ہو اگر آپ کھنکھارتے تو میں اپنے گھر واپس لوٹ جاتا، اور نہیں تو میں اندر داخل ہوجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٢٩٢) ، مسند احمد ١/٨٥ (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” نجی “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1213
نماز کے دوران رونے سے متعلق
عبداللہ بن الشخیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ کے پیٹ سے ایسی آواز آرہی تھی جیسے ہانڈی ابل رہی ہو یعنی آپ رو رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٦١ (٩٠٤) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٤ (٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٧) ، مسند احمد ٤/٢٥، ٢٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے نماز میں اللہ کے خوف سے رونے کا جواز ثابت ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1214
بحالت نماز شیطان پر لعنت کرنے سے متعلق
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ کو کہتے سنا : أعوذ باللہ منك میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تجھ سے پھر آپ نے فرمایا : ألعنک بلعنة اللہ میں تجھ پر اللہ کی لعنت کرتا ہوں تین بار آپ نے ایسا کہا، اور اپنا ہاتھ پھیلایا گویا آپ کوئی چیز پکڑنی چاہ رہے ہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو نماز میں ایک ایسی بات کہتے ہوئے سنا جسے ہم نے اس سے پہلے آپ کو کبھی کہتے ہوئے نہیں سنا، نیز ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنا ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، تو میں نے تین بار کہا : میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تجھ سے، پھر میں نے تین بار کہا : میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں، پھر بھی وہ پیچھے نہیں ہٹا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس کو پکڑ لوں، اللہ کی قسم ! اگر ہمارے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی، تو وہ صبح کو اس (کھمبے) سے بندھا ہوا ہوتا، اور اس سے اہل مدینہ کے بچے کھیل کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٨ (٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1215
دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ کے ساتھ ہم (بھی) کھڑے ہوئے، تو ایک اعرابی نے کہا (اور وہ نماز میں مشغول تھا) : اللہم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا اے اللہ ! میرے اوپر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما ١ ؎ جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ نے اعرابی سے فرمایا : تو نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کردیا ، آپ اس سے اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٢٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گرچہ یہ جملہ لوگوں کی عام دنیوی باتوں میں سے نہیں ہے، جو نماز میں ممنوع ہیں بلکہ ایک دعا ہے اور نماز میں دعا جائز ہے، لیکن پھر بھی غیر مناسب دعا ہے اس لیے آپ نے اس پر نکیر فرمائی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1216
دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا، اور اس نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اس نے (نماز ہی میں) کہا : اللہم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا اے اللہ ! مجھ پر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کردیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٨ (٣٨٠) ، سنن الترمذی/الطہارة ١١٢ (١٤٧) ، مسند احمد ٢/٢٣٩، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1217
دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
معاویہ بن حکم سلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارا جاہلیت کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا، ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو برا شگون لیتے ہیں ! آپ نے فرمایا : یہ محض ایک خیال ہے جسے لوگ اپنے دلوں میں پاتے ہیں، تو یہ ان کے آڑے نہ آئے ١ ؎ معاویہ بن حکم نے کہا : اور ہم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو کاہنوں کے پاس جاتے ہیں ! تو آپ نے فرمایا : تم لوگ ان کے پاس نہ جایا کرو ، پھر معاویہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اور ہم میں سے کچھ لوگ (زمین پر یا کاغذ پر آئندہ کی بات بتانے کے لیے) لکیریں کھینچتے ہیں ! آپ نے فرمایا : نبیوں میں سے ایک نبی بھی لکیریں کھینچتے تھے، تو جس شخص کی لکیر ان کے موافق ہو تو وہ صحیح ہے ۔ معاویہ (رض) کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ ہی رہا تھا کہ اسی دوران اچانک قوم میں سے ایک آدمی کو چھینک آگئی، تو میں نے (زور سے) يرحمک اللہ اللہ تجھ پر رحم کرے کہا، تو لوگ مجھے گھور کر دیکھنے لگے، میں نے کہا : واثکل أمياه میری ماں مجھ پر روئے ، تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ تم مجھے گھور رہے ہو ؟ لوگوں نے (مجھے خاموش کرنے کے لیے) اپنے ہاتھوں سے اپنی رانوں کو تھپتھپایا، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کر رہے ہیں تو میں خاموش ہوگیا، پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بلایا، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ہی مجھے ڈانٹا، اور نہ ہی برا بھلا کہا، میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ سے اچھا اور بہتر معلم کسی کو نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا : ہماری اس نماز میں لوگوں کی گفتگو میں سے کوئی چیز درست نہیں، نماز تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرأت قرآن کا نام ہے ، پھر میں اپنی بکریوں کی طرف آیا جنہیں میری باندی احد پہاڑ اور جوانیہ ٢ ؎ میں چرا رہی تھی، میں (وہاں) آیا تو میں نے پایا کہ بھیڑیا ان میں سے ایک بکری اٹھا لے گیا ہے، میں (بھی) بنو آدم ہی میں سے ایک فرد ہوں، مجھے (بھی) غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، چناچہ میں نے اسے ایک چانٹا مارا، پھر میں لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، میں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی، تو آپ نے مجھ پر اس کی سنگینی واضح کی، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں اس کو آزاد نہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسے بلاؤ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا : آسمان کے اوپر، آپ نے پوچھا : میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ مومنہ ہے، تو تم اسے آزاد کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧١ (٩٣٠) ، مسند احمد ٥/٤٤٧، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٨) ، وھو مختصراً والحدیث عند : صحیح مسلم/السلام ٣٥ (٥٣٧) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٩ (٣٢٨٢) ، الطب ٢٣ (٣٩٠٩) ، موطا امام مالک/العتق ٦ (٨) ، مسند احمد ٥/٤٤٨، ٤٤٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٧ (١٥٤٣، ١٥٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ بدشگونی انہیں کسی کام سے جس کے کرنے کا انہوں نے ارادہ کیا ہو نہ روکے۔ ٢ ؎: احد پہاڑ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1218
دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (شروع میں) آدمی نماز میں اپنے ساتھ والے سے ضرورت کی باتیں کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ : حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين محافظت کرو نمازوں کی، اور بیچ والی نماز کی، اور اللہ کے لیے خاموش کھڑے رہو نازل ہوئی تو (اس کے بعد سے) ہمیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا (البقرہ : ٢٣٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٢ (١٢٠٠) ، تفسیر البقرة ٤٢ (٤٥٣٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٨ (٩٤٩) ، سنن الترمذی/فیہ ١٨١ (٤٠٥) ، تفسیر البقرة (٢٩٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦١) ، مسند احمد ٤/٣٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1219
دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آتا تھا، اور آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو میں آپ کو سلام کرتا، تو آپ مجھے جواب دیتے، (ایک بار) میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، جب آپ نے سلام پھیرا، تو لوگوں کی طرف اشارہ کیا، اور فرمایا : اللہ نے نماز میں ایک نیا حکم دیا ہے کہ تم لوگ (نماز میں) سوائے ذکر الٰہی اور مناسب دعاؤں کے کوئی اور گفتگو نہ کرو، اور اللہ کے لیے یکسو ہو کر کھڑے رہا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٥٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1220
دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کو سلام کرتے تھے، تو آپ ہمیں سلام کا جواب دیتے تھے، یہاں تک کہ ہم سر زمین حبشہ سے واپس آئے تو میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا، تو مجھے نزدیک و دور کی فکر لاحق ہوئی ١ ؎ لہٰذا میں بیٹھ گیا یہاں تک کہ جب آپ نے نماز ختم کرلی تو فرمایا : اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے نیا حکم دیتا ہے، اب اس نے یہ نیا حکم دیا ہے کہ (اب) نماز میں گفتگو نہ کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٠ (٩٢٤) ، مسند احمد ١/٣٧٧، ٤٠٩، ٤١٥، ٤٣٥، ٤٦٣، (تحفة الأشراف : ٩٢٧٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمل فی الصلاة ٢، ١٥ (١١٩٩، ١٢١٦) ، مناقب الأنصار ٣٧ (٣٨٧٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٧ (٥٣٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1221
جو شخص دو رکعات ادا کر کے بھول کر کھڑا ہوجائے اور درمیان میں وہ قعدہ نے کرے
عبداللہ بن بحینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر آپ کھڑے ہوگئے اور بیٹھے نہیں، تو لوگ (بھی) آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، جب آپ نے نماز مکمل کرلی، اور ہم آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کرنے لگے، تو آپ نے اللہ اکبر کہا، اور سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے، پھر آپ نے سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1222
جو شخص دو رکعات ادا کر کے بھول کر کھڑا ہوجائے اور درمیان میں وہ قعدہ نے کرے
عبداللہ ابن بحینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں کھڑے ہوگئے حالانکہ آپ کو تشہد کے لیے بیٹھنا چاہیئے تھا، تو آپ نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1223
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہم کو شام کی دونوں نمازوں (ظہر یا عصر) میں سے کوئی ایک نماز پڑھائی، لیکن میں بھول گیا (کہ آپ نے کون سی نماز پڑھائی تھی) تو آپ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا، پھر آپ مسجد میں لگی ایک لکڑی کی جانب گئے، اور اس پر اپنا ہاتھ رکھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گویا آپ غصہ میں ہیں، اور جلد باز لوگ مسجد کے دروازے سے نکل گئے، اور کہنے لگے : نماز کم کردی گئی ہے، لوگوں میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم (بھی) تھے، لیکن وہ دونوں ڈرے کہ آپ سے اس سلسلہ میں پوچھیں، لوگوں میں ایک شخص تھے جن کے دونوں ہاتھ لمبے تھے، انہیں ذوالیدین (دو ہاتھوں والا) کہا جاتا تھا، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ بھول گئے ہیں یا نماز ہی کم کردی گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہ تو میں بھولا ہوں، اور نہ نماز ہی کم کی گئی ہے ، آپ نے (لوگوں سے) پوچھا : کیا ایسا ہی ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں، (ایسا ہی ہے) چناچہ آپ (مصلے پر واپس آئے) اور وہ (دو رکعتیں) پڑھیں جنہیں آپ نے چھوڑ دیا تھا، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا اور اپنے سجدوں کے جیسا یا ان سے لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور اللہ اکبر کہا، اور اپنے سجدوں کی طرح یا ان سے لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا پھر اللہ اکبر کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٨ (٤٨٢) ، والحدیث عند : صحیح البخاری/ سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٦٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٢٣٦، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٤ (١٢١٤) ، مسند احمد ٢/٤٣٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥ (١٥٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1224
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو ہی رکعت پر نماز ختم کردی، تو آپ سے ذوالیدین نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے دو (رکعت مزید) پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہہ کر اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، پھر اپنے سجدوں کی طرح یا اس سے لمبا دوسرا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٩ (٧١٤) ، السہود ٤ (١٢٢٨) ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٥٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠٠٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٦ (٣٩٩) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٥ (٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1225
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، تو دو ہی رکعت میں سلام پھیر دیا، ذوالیدین کھڑے ہوئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ان دونوں میں سے) کوئی بات بھی نہیں ہوئی ہے ، ذوالیدین نے کہا : اللہ کے رسول ! ان دونوں میں سے کوئی ایک بات ضرور ہوئی ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور آپ نے ان سے پوچھا : کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، (سچ کہہ رہے ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سے جو رہ گیا تھا، اسے پورا، کیا پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٣) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٥ (٥٩) ، مسند احمد ٢/٤٤٧، ٤٥٩، ٥٣٢، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1226
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر دو رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، تو لوگ کہنے لگے کہ نماز کم کردی گئی ہے، تو آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکعت مزید پڑھائی، پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٦٩ (٦١٥) ، السہو ٣ (١٢٢٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١٤) مختصراً ، مسند احمد ٢/٣٨٦، ٤٦٨، (تحفة الأشراف : ١٤٩٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1227
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی تو آپ نے دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، پھرجانے لگے تو آپ کے پاس ذوالشمالین ١ ؎ آئے، اور کہنے لگے : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : نہ تو نماز کم کی گئی ہے اور نہ ہی میں بھولا ہوں ، اس پر انہوں نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ان دونوں میں سے ضرور کوئی ایک بات ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے (لوگوں سے) پوچھا : کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، تو آپ ﷺ نے لوگوں کو دو رکعتیں اور پڑھائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ذوالشمالین کا نام عمیر بن عبد عمرو اور کنیت ابو محمد ہے، یہ غزوہ بدر میں شہید کر دئیے گئے تھے، اور ذوالیدین کا نام خرباق اور کنیت ابو العریان ہے، ان کی وفات عمر (رض) کے عہد خلافت میں ہوئی، سہو والے واقعہ میں ذوالشمالین کا ذکر راوی کا وہم ہے، صحیح ذوالیدین ہے، بعض لوگوں نے دونوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو صحیح نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1228
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (نماز میں) بھول گئے، تو آپ نے دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا، تو آپ سے ذوالشمالین نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے (لوگوں سے) پوچھا : کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، (سچ کہہ رہے ہیں) تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے نماز پوری کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٣٤٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1229
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ہم کو) ظہر یا عصر پڑھائی، تو آپ نے دو ہی رکعت میں سلام پھیر دیا، اور اٹھ کر جانے لگے، تو آپ سے ذوالشمالین بن عمرو نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ نبی اکرم ﷺ نے (لوگوں سے) پوچھا : ذوالیدین کیا کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : وہ سچ کہہ رہے ہیں، اللہ کے نبی ! تو آپ نے ان دو رکعتوں کو جو باقی رہ گئی تھیں لوگوں کے ساتھ پورا کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٨٥٩، ١٥٢٩٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1230
جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت پڑھائی، تو ذوالشمالین نے آپ سے عرض کیا، آگے حدیث اسی طرح ہے۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر سعید بن مسیب نے ابوہریرہ کے واسطہ سے دی ہے، وہ (زہری) کہتے ہیں : نیز مجھے اس کی خبر ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث اور عبیدالرحمن بن عبداللہ نے بھی دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٨٠) ، مرسلاً وموصولاً ، وانظر حدیث رقم : ١٢٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1231
حضرت ابوہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں؟
سعید بن مسیب، ابوسلمہ، ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابن ابی حثمہ چاروں ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن نہ تو سلام سے پہلے سجدہ (سہو) کیا، اور نہ ہی اس کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٢) ، وحدیث أبي سلمة، عن أبي ہریرة (تحفة الأشراف : ١٥٢٢٨) ، وحدیث أبي بکر عبدالرحمن، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٩) ، وحدیث أبي بکر بن سلیمان بن حثمة، (تحفة الأشراف : ١٤٨٦٠) ، وأربعتہم عن أبي ہریرة، (تحفة الأشراف : ١٣١٨٠) (شاذ) (محفوظ بات یہ ہے کہ آپ نے سلام کے بعد سجدۂ سہو کیا ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1232
حضرت ابوہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں؟
عراک بن مالک ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالیدین والے دن سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٩) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1233
حضرت ابوہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں؟
محمد بن سیرین ابوہریرہ (رض) سے، اور وہ رسول اللہ ﷺ اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٤٩٨) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1234
حضرت ابوہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں؟
ابن سیرین ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بھول ہوجانے کی صورت میں سلام پھیرنے کے بعد سجدہ (سہو) کیا۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن عون، عن ابن سیرین قد تقدم تخریجہ برقم : ١٢٢٥، وحدیث خالد بن مہران الحذائ، عن ابن سیرین قد تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1235
حضرت ابوہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں؟
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ کو سہو ہوگیا، تو آپ نے دو سجدے (سہو کے) کیے، پھر سلام پھیرا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٢ (١٠٣٩) ، سنن الترمذی/فیہ ١٧٤ (٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٥) ، مسند احمد ٥/١١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ سلام سجدہ سہو سے نکلنے کے لیے تھا، کیونکہ دیگر تمام روایات میں یہ صراحت ہے کہ آپ نے سلام پھیرا، پھر سجدہ سہو کیا (پھر اس کے لیے سلام پھیرا) نماز میں رکعات کی کمی بیشی کے سبب جو سجدہ سہو آپ نے کئے ہیں، وہ سب سلام کے بعد میں ہیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے، ہاں ان سجدوں کے بعد تشہد کے بارے میں تینوں احادیث ضعیف ہیں کما في التعلیقات السلفیۃ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1236
حضرت ابوہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں؟
عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی تین رکعت پر سلام پھیر دیا، پھر آپ اپنے حجرے میں چلے گئے، تو آپ کی طرف اٹھ کر خرباق نامی ایک شخص گئے اور پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کم ہوگئی ہے ؟ تو آپ غصہ کی حالت میں اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے، اور پوچھا : کیا یہ سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، تو آپ کھڑے ہوئے، اور (جو چھوٹ گئی تھی) اسے پڑھایا پھر سلام پھیرا، پھر اس رکعت کے (چھوٹ جانے کے سبب) دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٤ (١٢١٥) ، مسند احمد ٤/٤٢٧، ٤٣١، ٤٤٠، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٣٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1237
جس وقت نماز کے دوران کسی قسم کا شک ہوجائے؟ (تو کتنی رکعت پڑھے؟)
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں شک ہوجائے تو وہ شک کو چھوڑ دے، اور یقین پر بنا کرے، جب اسے نماز کے پورا ہونے کا یقین ہوجائے تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے، (اب) اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھیں ہوں گی تو (یہ) دونوں سجدے اس کی نماز کو جفت بنادیں گے، اور اگر اس نے چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو (یہ) دونوں سجدے شیطان کی ذلت و خواری کے موجب ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ المساجد ١٩ (٥٧١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٧ (١٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٢ (١٢١٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١٦ (٦٢) مرسلاً ، حم ٣/٧٢، ٨٣، ٨٤، ٨٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٤ (١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٢٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1238
جس وقت نماز کے دوران کسی قسم کا شک ہوجائے؟ (تو کتنی رکعت پڑھے؟)
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی (نماز پڑھتے وقت) نہ جان پائے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اسے ایک رکعت اور پڑھ لینی چاہیئے، پھر وہ ان سب کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے، (اب) اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی، تو یہ دونوں سجدے اس کی نماز کو جفت بنادیں گے، اور اگر اس نے چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت و خواری کا اور اسے غیظ و غضب میں مبتلا کرنے کا سبب بنیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1239
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں شک ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ وہ (غور و فکر کے بعد) اس چیز کا قصد کرے جسے اس نے درست سمجھا ہو، اور اسی پر اتمام کرے، پھر اس کے بعد یعنی دو سجدے کرے ، راوی کہتے ہیں : آپ کے بعض حروف کو میں اس طرح سمجھ نہیں سکا جیسے میں چاہ رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣١ (٤٠١) مطولاً ، ٣٢ (٤٠٤) ، السھو ٢ (١٢٢٦) ، الأیمان ١٥ (٦٦٧١) مطولاً ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠٢٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٣ (١٢١١، ١٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥١) ، مسند احمد ١/٣٧٩، ٤٢٩، ٤٣٨، ٤٥٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥ (١٥٣٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٢٤٢، ١٢٤٣، ١٢٤٤، ١٢٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1240
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں شک ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ وہ غور و فکر کرے، (اور ظن غالب کو تلاش کرے) اور نماز سے فارغ ہوجانے کے بعد دو سجدے کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ آدمی اسے سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے، یہی قول اکثر فقہائے مدینہ مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ اور شافعی وغیرہ کا ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے، اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہ قول مالک بن انس کا ہے، اور امام احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑے ہوجائے تو ابن بحینہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے، اور جب ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر و عصر کی نماز میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اس طرح جس صورت میں جیسے رسول اللہ ﷺ کا فعل موجود ہے اس پر اسی طرح عمل کرے، اور جس صورت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1241
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی تو آپ نے کچھ بڑھایا گھٹا دیا، جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا نماز میں کوئی نئی بات ہوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر نماز کے سلسلہ میں کوئی نیا حکم آیا ہوتا تو میں تمہیں اسے بتاتا، البتہ میں بھی انسان ہی ہوں، جس طرح تم لوگ بھول جاتے ہو، مجھ سے بھی بھول ہوسکتی ہے، لہٰذا تم میں سے کسی کو نماز میں کچھ شک ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس چیز کو دیکھے جو صحت و درستی کے زیادہ لائق ہے، اور اسی پر اتمام کرے، پھر سلام پھیرے، اور دو سجدے کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1242
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، آپ نے اس میں کچھ بڑھا، یا گھٹا دیا، تو جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے پوچھا : اللہ کے نبی ! کیا نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ کیا ہے ؟ تو ہم نے آپ سے اس چیز کا ذکر کیا جو آپ ﷺ نے کیا تھا، تو آپ نے اپنا پاؤں موڑا، قبلہ رخ ہوئے، اور سہو کے دو سجدے کیے، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اگر نماز کے متعلق کوئی نئی چیز ہوتی تو میں تمہیں اس کی خبر دیتا ، پھر فرمایا : میں انسان ہی تو ہوں، جیسے تم بھولتے ہو، میں بھی بھولتا ہوں، لہٰذا تم میں سے کسی کو نماز میں کوئی شک ہوجائے تو غور و فکر کرے، اور اس چیز کا قصد کرے جس کو وہ درست سمجھ رہا ہو، پھر وہ سلام پھیرے، پھر سہو کے دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1243
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے، تو لوگوں نے عرض کیا : کیا نماز کے متعلق کوئی نئی چیز واقع ہوئی ہے ؟ آپ ﷺ نے پوچھا : وہ کیا ؟ تو لوگوں نے آپ کو جو آپ نے کیا تھا بتایا، تو آپ ﷺ نے (اسی حالت میں) اپنا پاؤں موڑا، اور آپ قبلہ رخ ہوئے، اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا، پھر آپ (دوبارہ) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا : میں انسان ہی تو ہوں اسی طرح بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو، تو جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد دلا دو ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر نماز میں کوئی چیز ہوئی ہوتی تو میں تمہیں اسے بتاتا ، نیز آپ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں وہم ہوجائے تو اسے چاہیئے کہ وہ سوچے، اور اس چیز کا قصد کرے جو درستی سے زیادہ قریب ہو، پھر اسی پر اتمام کرے، پھر دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1244
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں جسے اپنی نماز میں وہم ہوجائے تو اسے صحیح اور صواب جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے، پھر فارغ ہونے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٩٢٤١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٢٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1245
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جسے کچھ شک یا وہم ہوجائے تو اسے صحیح اور صواب جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے، پھر دو سجدے کرے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1246
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے کہ جب کسی آدمی کو وہم ہوجائے تو اسے صحیح و صواب جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے، پھر دو سجدے کرے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1247
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو اس کی نماز میں شک ہوجائے، تو وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٩ (١٠٣٣) ، مسند احمد ١/٢٠٤، ٢٠٥، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” عقبہ یا عتبہ “ لین الحدیث ہیں، نیز ” عبداللہ بن مسافع “ کے ان سے سماع میں سخت اختلاف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1248
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنی نماز میں شک کرے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (اس کے رواة ” مصعب “ اور ” عقبہ یا عتبہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1249
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنی نماز میں شک کرے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٤٩ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی دونوں روایتیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1250
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنی نماز میں شک کرے تو وہ دو سجدے کرے ، حجاج کی روایت میں ہے : سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرے ، اور روح کی روایت میں ہے : بیٹھے بیٹھے (دو سجدے کرے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٤٩ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی روایات ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1251
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے، اور اس پر اس کی نماز کو گڈمڈ کردیتا ہے، یہاں تک کہ وہ نہیں جان پاتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا محسوس کرے تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السھو ٧ (١٢٣٢) ، صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٣٨٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٨ (١٠٣٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ١ (٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1252
شک ہوجانے کی صورت میں سوچ میں پڑجانے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، پھر جب اقامت کہہ دی جاتی ہے تو وہ واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ آدمی کے دل میں گھس کر وسوسے ڈالتا ہے، یہاں تک کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی، لہٰذا جب تم میں سے کوئی اس قسم کی صورت حال دیکھے تو وہ دو سجدے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/السہو ٧ (١٢٣١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٨ (٣٩٨) ، مسند احمد ٢/٥٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٤ (١٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1253
جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز پانچ (رکعت) پڑھی، تو آپ سے عرض کیا گیا : کیا نماز میں زیادتی کردی گئی ہے ؟ تو آپ نے پوچھا : وہ کیا ؟ لوگوں نے کہا : آپ نے پانچ (رکعت) پڑھی ہے، تو آپ نے اپنا پاؤں موڑا اور دو سجدے کیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٢ (٤٠٤) ، السہو ٢ (١٢٢٦) ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٣ (٣٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٣٠ (١٢٠٥) ، مسند احمد ١/٣٧٦، ٤٤٣، ٤٦٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٥ (١٥٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤١١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٢٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1254
جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھائی، تو لوگوں نے عرض کیا : آپ نے پانچ (رکعت) پڑھائی ہے، تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٥٥، وتفرد بہ النسائي من طریق مغیرة بن مقسم، (تحفة الأشراف : ٩٤٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1255
جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟
ابراہیم بن سوید کہتے ہیں کہ علقمہ نے پانچ (رکعت) نماز پڑھی، تو ان سے (اس زیادتی کے بارے میں) کہا گیا، تو انہوں نے کہا : میں نے (ایسا) نہیں کیا ہے، تو میں نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا : کیوں نہیں ؟ آپ نے ضرور کیا ہے، انہوں نے کہا : اور تم اس کی گواہی دیتے ہو اے اعور ! تو میں نے کہا : ہاں (دیتا ہوں) تو انہوں نے دو سجدے کیے، پھر انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی کہ نبی اکرم ﷺ نے پانچ (رکعتیں) پڑھیں، تو لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھسر کرنے لگے، ان لوگوں نے آپ ﷺ سے پوچھا : کیا نماز میں اضافہ کردیا گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، لوگوں نے آپ کو بتایا (کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں) ، تو آپ ﷺ نے اپنا پاؤں موڑا، اور دو سجدے کیے، پھر فرمایا : میں انسان ہی ہوں، میں (بھی) بھول سکتا ہوں جس طرح تم بھولتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠٢٢) مختصراً ، مسند احمد ١/٤٣٨، ٤٤٨، (تحفة الأشراف : ٩٤٠٩) ، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم : ١٢٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1256
جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟
مالک بن مغول کہتے ہیں کہ میں نے (عامری شراحیل) شعبی کو کہتے ہوئے سنا کہ علقمہ بن قیس سے نماز میں سہو ہوگیا، تو لوگوں نے آپ سے میں گفتگو کرنے کے بعد ان سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے پوچھا : کیا ایسا ہی ہے، اے اعور ! (ابراہیم بن سوید نے) کہا : ہاں، تو انہوں نے اپنا حبوہ ١ ؎ کھولا، پھر سہو کے دو سجدے کیے، اور کہنے لگے : اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے، (مالک بن مغول) نے کہا : اور میں نے حکم (ابن عتیبہ) کو کہتے ہوئے سنا کہ علقمہ نے پانچ (رکعتیں) پڑھی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ١/٤٣٨ (صحیح) (اس حدیث میں علقمہ نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر نہیں کیا ہے، جن سے اوپر صحیح حدیث گزری، اس لیے یہ سند مرسل ہے، لیکن اصل حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے، اور امام نسائی نے اس طریق کو اس کی علت ارسال کی وضاحت کے لیے کیا ہے، یہ بھی واضح رہے کہ مزی نے تحفة الاشراف میں اس حدیث کا ذکر نہیں کیا ہے، جب کہ اس کا مقام مراسیل علقمہ بن قیس النخعی ہے ) وضاحت : ١ ؎: حبوہ : ایک طرح کی بیٹھک ہے جس میں سرین کو زمین پر ٹکا کر دونوں رانوں کو دونوں ہاتھ سے باندھ لیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1257
جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟
ابراہیم سے روایت ہے کہ علقمہ نے پانچ (رکعتیں) پڑھیں، جب انہوں نے سلام پھیرا، تو ابراہیم بن سوید نے کہا : ابو شبل (علقمہ) ! آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، انہوں نے کہا : کیا ایسا ہوا ہے اے اعور ؟ (انہوں نے کہا : ہاں) تو علقمہ نے سہو کے دو سجدے کیے، پھر کہا : اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٥٧ (صحیح) (علقمہ نے اس حدیث میں صحابی کا ذکر نہیں کیا، اس لیے یہ روایت مرسل ہے، لیکن اصل حدیث علقمہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اس لیے یہ حدیث بھی صحیح ہے، اور امام نسائی نے اس طریق کو اس کی علت ارسال کی وضاحت کے لیے کیا ہے، یہ بھی واضح رہے کہ مزی نے تحفة الاشراف میں اس حدیث کا ذکر نہیں کیا ہے، جب کہ اس کا مقام مراسیل علقمہ بن قیس النخعی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1258
جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کی دونوں نمازوں (یعنی ظہر اور عصر) میں سے کوئی ایک نماز پانچ رکعت پڑھائی، تو آپ سے کہا گیا : کیا نماز میں اضافہ کردیا گیا ہے ؟ آپ نے پوچھا : وہ کیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں انسان ہی تو ہوں، میں بھی بھولتا ہوں جس طرح تم بھولتے، ہو اور مجھے بھی یاد رہتا ہے جیسے تمہیں یاد رہتا ہے ، پھر آپ نے دو سجدے کیے، اور پیچھے کی طرف پلٹے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، مسند احمد ١/٤٠٩، ٤٢٠، ٤٢٨، ٤٦٣، (تحفة الأشراف : ٩١٧١) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1259
جو شخص اپنی نماز میں سے کچھ بھول جائے تو وہ شخص کیا کرے اس کے متعلق
یوسف سے روایت ہے کہ معاویہ (رض) نے لوگوں کے آگے نماز پڑھی (یعنی ان کی امامت کی) تو وہ نماز میں کھڑے ہوگئے، حالانکہ انہیں بیٹھنا چاہیئے تھا، تو لوگوں نے سبحان اللہ کہا، پر وہ کھڑے ہی رہے، اور نماز پوری کرلی، پھر بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے، پھر منبر پر بیٹھے، اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو اپنی نماز میں سے کوئی چیز بھول جائے تو وہ ان دونوں سجدوں کی طرح سجدے کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٤/١٠٠، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٢) (ضعیف) (اس کے راوی ” یوسف “ اور ان کے بیٹے ” محمد “ دونوں لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ایک تو یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، دوسرے اس میں مذکور بھول بالکل عام نہیں ہے، بلکہ رکن کے سوا کسی اور چیز کی بھول مراد ہے، معاویہ (رض) قعدہ اولیٰ بھولے تھے جو رکن نہیں ہے، اس طرح کی بھول کا کفارہ سجدہ سہو ہوسکتا ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1260
سجدہ سہو کے دوران تکبیر کہنا
عبداللہ بن بحینہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی دوسری رکعت کے بعد (بغیر قعدہ کے) کھڑے ہوگئے، پھر (واپس) نہیں بیٹھے، پھر جب آپ نے اپنی نماز پوری کرلی تو جو تشہد آپ بھول گئے تھے اس کے عوض بیٹھے بیٹھے سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے، اور ہر سجدہ میں اللہ اکبر کہا، آپ کے ساتھ لوگوں نے (بھی) یہ دونوں سجدے کیے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1261
آخر جلسہ میں کس طریقہ سے بیٹھنا چاہئے؟
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب ان دو رکعتوں میں ہوتے تھے جن میں نماز ختم ہوتی ہے، تو آپ (قعدہ میں) اپنا بایاں پاؤں (داہنی طرف) نکال دیتے، اور اپنی ایک سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے پھر سلام پھیرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس بیٹھک کو تورک کہتے ہیں، اس سے پتہ چلا کہ قعدہ اخیرہ میں اس طرح بیٹھنا سنت ہے، بعض لوگ اسے کبرسنی پر محمول کرتے ہیں لیکن اس پر محمول کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں، نیز بعض لوگوں کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ فجر کے قعدہ اخیرہ میں تورک ثابت نہیں، اس حدیث کے الفاظ سے صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تورک کرتے تھے، اب خواہ یہ قعدہ اخیرہ فجر و مغرب کا ہو یا چار رکعتوں والی نمازوں کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1262
آخر جلسہ میں کس طریقہ سے بیٹھنا چاہئے؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح اٹھاتے) اور جب آپ (قعدہ میں) بیٹھتے تو بایاں (پاؤں) لٹاتے، اور دایاں (پاؤں) کھڑا رکھتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے، اور درمیان والی انگلی اور انگوٹھے دونوں کو ملا کر گرہ بناتے، اور اشارہ کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٠ و ١١٦٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ یہ بیان آخری قعدہ کے بارے میں ہے، اس لیے باب سے مناسبت واضح نہیں، یا یہ مراد ہے کہ یہ بیان دونوں قعدوں کے بارے میں ہے، تو یہ بھی درست نہیں، کیونکہ ابو حمید ساعدی (رض) کی حدیث صحیحین کی ہے نیز تورک کے بارے میں واضح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1263
دونوں بازو کس جگہ رکھے؟
وائل بن حجر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں بیٹھے تو آپ نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، آپ اس کے ذریعہ دعا کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٠٢ (٢٩٢) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1264
دونوں کہنیاں بیٹھنے کے وقت کس جگہ رکھنی چاہئیں؟
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر رہوں گا کہ آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اور قبلہ رو ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھایا کہ وہ آپ کے کانوں کے بالمقابل ہوگئے، پھر اپنے دائیں (ہاتھ) سے اپنے بائیں (ہاتھ) کو پکڑا، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو ان دونوں کو پھر اسی طرح اٹھایا، اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھا، پھر جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر ان دونوں کو اسی طرح اٹھایا، پھر جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اسی جگہ پر رکھا ١ ؎، پھر آپ بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران سے دور رکھا، پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں، اور حلقہ بنایا، اور میں نے انہیں اس طرح کرتے دیکھا۔ بشر نے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اپنا سر اس طرح رکھا کہ دونوں ہاتھ دونوں کانوں کے بالمقابل ہوگئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1265
دونوں ہتھیلیاں بیٹھنے کے وقت کس جگہ رکھنی چاہئے؟
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کے بغل میں نماز پڑھی، تو میں کنکریوں کو الٹنے پلٹنے لگا، (نماز سے فارغ ہونے پر) انہوں نے مجھ سے کہا : (نماز میں) کنکریاں مت پلٹو، کیونکہ کنکریاں کو الٹنا پلٹنا شیطان کی جانب سے ہے، (بلکہ) اس طرح کرو جس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے، میں نے کہا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کیسے کرتے دیکھا ہے ؟ ، انہوں نے کہا : اس طرح سے، اور انہوں نے دائیں پیر کو قعدہ میں کھڑا کیا، اور بائیں پیر کو لٹایا ١ ؎، اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنے والی ساری روایتیں مبہم ہیں، اور ابوحمید (رض) والی روایت کہ جس میں قعدہ اخیرہ میں تورک کا ذکر ہے، مفصل ہے اس لیے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے۔ ٢ ؎: دونوں قعدوں میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنا کر دائیں گھٹنے پر رکھنا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے اس اشارہ کا کوئی وقت متعین نہیں ہے، شروع تشہد سے اخیر تک اشارہ کرتے رہنا چاہیئے، اور اس اشارہ میں کبھی انگلی کو حرکت دینا اور کبھی نہ دینا دونوں ثابت ہے، اس بابت تمام روایات کا یہی حاصل ہے، صرف أشھد أن لا إلہ إلا اللہ پر اشارہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1266
شہادت کی انگلی کے علاوہ دائیں ہاتھ کی تمام انگلیوں کو بند کرنے سے متعلق
علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے دیکھا تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے منع کیا، اور کہا : اس طرح کیا کرو جس طرح رسول اللہ ﷺ کرتے تھے، میں نے کہا : آپ ﷺ کس طرح کرتے تھے ؟ کہا : جب آپ ﷺ نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے ١ ؎، اور اپنی سبھی انگلیاں سمیٹے رکھتے، اور اپنی اس انگلی سے جو انگوٹھے کے قریب ہے اشارہ کرتے، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور ایک روایت میں ہے اپنے داہنے گھٹنے پر۔ ٢ ؎: اور ایک روایت میں ہے اپنے بائیں گھٹنے پر۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1267
انگلیوں کو بند کرنا اور درمیان کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ باندھنے سے متعلق
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کیسے پڑھتے ہیں ؟ تو میں نے دیکھا، پھر انہوں نے آپ ﷺ کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی، اور کہا : پھر آپ ﷺ بیٹھے اور آپ ﷺ نے اپنا بایاں پیر بچھایا، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کے سرے کو اپنی دائیں ران پر کیا، پھر اپنی انگلیوں میں سے دو کو سمیٹا، اور (باقی انگلیوں میں سے دو سے) حلقہ بنایا، پھر اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی تو میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسے ہلا رہے تھے، اس کے ذریعہ دعا مانگ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1268
بائیں ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے، اور جو انگلی انگوٹھے سے لگی ہوتی اسے اٹھاتے، اور اس سے دعا مانگتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ آپ کے بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوتا تھا، (یعنی : بائیں ہتھیلی کو حلقہ بنانے کے بجائے اس کی ساری انگلیاں بائیں گھٹنے پر پھیلائے رکھتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٨٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٥ (٢٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٧ (٩١٣) ، مسند احمد ٢/١٤٧، (تحفة الأشراف : ٨١٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1269
بائیں ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھنے سے متعلق
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے، اور اسے ہلاتے نہیں تھے ١ ؎۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو نے (اس میں) اضافہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ عامر بن عبداللہ بن زبیر نے مجھے خبر دی، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی طرح دعا کرتے، اور آپ اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے بائیں پاؤں کو تھامے رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٦ (٩٨٩، ٩٩٠) ، مسند احمد ٤/٣، سنن الدارمی/الصلاة ٨٣ (١٣٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٤) (شاذ) صرف ” ولا یحرکھا “ کا جملہ شاذ ہے ۔ وضاحت : ١ ؎: حدیث کے اس ٹکڑے اور اس کو ہلاتے نہیں تھے کو بعض علماء نے شاذ قرار دیا ہے، اور بعض اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ کبھی بھی نہیں ہلاتے تھے، اور صرف اشارہ پر اکتفاء کرتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ صرف اشارہ کے عمل کو وائل (رض) نے ہلاتے رہتے تھے سے تعبیر کردیا ہے، اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے اصل حقیقت بیان کردی ہے، یعنی اشارہ کرتے تھے ہلاتے نہیں تھے، ہمارے خیال میں : تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اشارہ تو بلا تعیین وقت کرتے تھے، رہی ہلانے کی بات تو کبھی ہلاتے تھے اور کبھی نہیں ہلاتے تھے، جس نے جو دیکھا اسے بیان کردیا، یا مطلب یہ ہے کہ اشارہ میں انگلی کا ہل جانا بالکل ممکن ہے اس کو وائل (رض) نے ہلاتے تھے سے تعبیر کردیا، اصل کام اشارہ تھا۔ قال الشيخ الألباني : شاذ بزيادة ولا يحركها صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1270
تشہد کے درمیان انگلی سے اشارہ کرنے سے متعلق
نمیر خزاعی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھے ہوئے تھے، اور اپنی انگلی سے اشارہ کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٦ (٩٩١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٧ (٩١١) ، (تحفة الأشراف : ١١٧١٠) ، مسند احمد ٣/٤٧١، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٢٧٥ (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ” مالک “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1271
دو انگلی سے اشارہ کرنے کی ممانعت اور کونسی انگلی سے اشارہ کرے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کر رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک سے (اشارہ) کرو ایک سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدعوات ١٠٥ (٣٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٥) ، مسند احمد ٢/٤٢٠، ٥٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1272
دو انگلی سے اشارہ کرنے کی ممانعت اور کونسی انگلی سے اشارہ کرے؟
سعد (رض) کہتے ہیں کہ میرے پاس سے رسول اللہ ﷺ گزرے، اور میں (تشہد میں) اپنی انگلیوں ١ ؎ سے (اشارہ کرتے ہوئے) دعا کر رہا تھا، تو آپ نے فرمایا : ایک سے (اشارہ) کرو ایک سے ، اور آپ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلے والی روایت میں، دو انگلیوں سے اشارہ کرنے کا ذکر ہے اس لیے اسے اقل جمع یعنی دو پر محمول کیا جائے گا، یا یہ مانا جائے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1273
شہادت کی انگلی کو اشارہ کے دوران جھکانے سے متعلق
نمیر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز میں بیٹھے ہوئے دیکھا، اس حال میں کہ آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھے ہوئے تھے، اور اپنی شہادت کی انگلی اٹھائے ہوئے تھے، اور آپ نے اسے کچھ جھکا رکھا تھا، اور آپ دعا کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٧٢ (منکر) (انگلی کو جھکانے کا ” تذکرہ “ منکر ہے، اس کے راوی ” مالک “ لین الحدیث ہیں، اور اس ٹکڑے میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے، باقی کے صحیح شواہد موجود ہیں) ۔ قال الشيخ الألباني : منکر بزيادة الإحناء صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1274
بوقت اشارہ نگاہ کس جگہ رکھی جائے؟
عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے، آپ کی نگاہ آپ کے اشارہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢١ (٥٧٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٦ (٩٨٨) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٥٢٦٣) ، مسند احمد ٤/٣ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1275
نماز کے دوران دعا مانگتے وقت آسمان کی جانب نظر نہ اٹھائے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز میں دعا کے وقت لوگ اپنی نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھانے سے باز آجائیں، ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٦ (٤٢٩) ، مسند احمد ٢/٣٣٣، ٣٦٧، (تحفة الأشراف : ١٣٦٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ممانعت حالت نماز میں ہے، نماز سے باہر دعا کرنے والا آسمان کی طرف نظر اٹھا سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1276
تشہد پڑھنے کے وجوب سے متعلق
ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نماز میں تشہد کے فرض کئے جانے سے پہلے السلام على اللہ السلام على جبريل وميكائيل سلام ہو اللہ پر، سلام ہو جبرائیل اور میکائیل پر کہا کرتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اس طرح نہ کہو، کیونکہ اللہ تو خود سلام ہے، بلکہ یوں کہو :التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی آپ پر اللہ کی جانب سے سلامتی ہو، اور آپ پر اس کی رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوں، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٦٦، ١١٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1277
تشہد ایسے طریقہ سے سکھلانا کہ جس طریقہ سے قرآنی سورت سکھلاتے ہیں کیسا ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد اسی طرح سکھاتے تھے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1278
تشہد سے متعلق احادیث
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل خود سلام ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی (تشہد میں) بیٹھے تو وہ یوں کہے : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی آپ پر سلام ہو، اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں آپ پر نازل ہوں، سلامتی ہو ہم پر، اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں پھر اس کے بعد اسے اختیار ہے جو چاہے دعا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1279
ایک دوسری قسم کے تشہد سے متعلق
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا تو آپ نے ہمیں ہمارے طریقے بتائے، اور ہم سے ہماری نماز کے طریقے بیان کیے، آپ نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی تمہاری امامت کرے، جب وہ اللہ اکبر کہے، تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب وہ ولا الضالين کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری اس کی ہوئی دعا کو قبول کرے گا، پھر جب وہ اللہ اکبر کہے اور رکوع کرے، تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور رکوع کرو، بیشک امام تم سے پہلے رکوع کرے گا، اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا ، تو ادھر کی کمی ادھر سے پوری ہوجائے گی، اور جب وہ سمع اللہ لمن حمده کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد اے اللہ ! ہمارے رب تیرے ہی لیے تمام حمد ہے کہو، اس لیے کہ اللہ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان سے کہلوا دیا ہے کہ اس نے اپنے حمد کرنے والے کی حمد سن لی ہے، پھر جب وہ اللہ اکبر کہے اور سجدہ کرے، تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور سجدہ کرو، بیشک امام تم سے پہلے سجدہ میں جائے گا، اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا ، تو ادھر کی کمی ادھر پوری ہوجائے گی، اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک کو یہ کہنا چاہیئے : التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله تمام قولی، فعلی، اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، سلام ہو آپ پر اے نبی ! اور اللہ کی رحمت اور برکت آپ پر نازل ہو، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٨٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1280
ایک دوسری قسم کے تشہد سے متعلق
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو تشہد اسی طرح سکھاتے تھے، جس طرح آپ ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے بسم اللہ وباللہ التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين أشهد أن لا إله إلا اللہ وأن محمدا عبده ورسوله وأسأل اللہ الجنة وأعوذ به من النار اللہ کے نام سے اور اسی کے واسطے سے، تمام قولی فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، سلام ہو آپ پر اے نبی ! اور اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہو آپ پر، سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور میں اللہ سے جنت مانگتا ہوں، اور آگ (جہنم) سے اس کی پناہ چاہتا ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اس روایت پر ایمن بن نابل کی متابعت کی ہو، ایمن ہمارے نزدیک قابل قبول ہیں، لیکن حدیث میں غلطی ہے، ہم اللہ سے توفیق کے طلب گار ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧٦ (ضعیف) (اس کے راوی ” أیمن “ حافظہ کے کمزور ہیں اور اس میں وارد اضافہ پر کسی نے ان کی متابعت نہیں کی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1281
حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں، وہ مجھ تک میرے امتیوں کا سلام پہنچاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، حم ١/٣٨٧، ٤٤١، ٤٥٢، سنن الدارمی/الرقاق ٥٨ (٢٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٤) ، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٢٩ (رقم ٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1282
حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام کرنے کے فضائل
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے، ہم نے عرض کیا : ہم آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ اس لیے کہ میرے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا : اے محمد ! آپ کا رب کہتا ہے : کیا آپ کے لیے یہ خوشی کی بات نہیں کہ جو کوئی آپ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجے گا، تو میں اس پر دس بار صلاۃ (درود) بھیجوں گا ١ ؎، اور جو کوئی آپ پر ایک بار سلام بھیجے گا، میں اس پر دس بار سلام بھیجوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٤/٢٩، ٣٠، سنن الدارمی/الرقاق ٥٨ (٢٨١٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٢٩٦ (حسن) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پا کر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” سلیمان “ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کے صلاۃ (درود) بھیجنے کا مطلب آپ ﷺ کی مدح و ستائش اور تعظیم کرنا ہے، اور فرشتوں وغیرہ کے صلاۃ (درود) بھیجنے کا مطلب اللہ تعالیٰ سے اس مدح و ستائش اور تعظیم میں طلب زیادتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1283
نماز کے دوران عظمت خداوندی بیان کرنا
فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نہ تو اللہ کی بزرگی بیان کی، اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ وسلام (درود) بھیجا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے نمازی ! تم نے جلد بازی کردی ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے سکھایا (کہ کس طرح دعا کی جائے) اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز کی حالت میں اللہ کی بزرگی اور حمد بیان کرتے، اور نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ وسلام (درود) بھیجتے سنا تو فرمایا : آپ دعا کریں آپ کی دعا قبول کی جائے گی، اور مانگو آپ کو دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٨١) ، سنن الترمذی/الدعوات ٦٥ (٣٤٧٧) ، مسند احمد ٦/١٨، (تحفة الأشراف : ١١٠٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1284
درودشریف بھیجنے کی تاکید سے متعلق
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سعد بن عبادہ (رض) کی بیٹھک میں ہمارے پاس تشریف لائے، تو آپ سے بشر بن سعد (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر کیسے صلاۃ (درود) بھیجیں ؟ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ ہماری یہ خواہش ہونے لگی کہ کاش انہوں نے آپ سے نہ پوچھا ہوتا، پھر آپ نے فرمایا : کہو اللہم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على آل إبراهيم و بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على آل إبراهيم في العالمين إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اسی طرح صلاۃ (درود) بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر صلاۃ (درود) بھیجا ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر اسی طرح جیسے تو نے آل ابراہیم پر تمام عالم میں برکتیں نازل فرمائی ہیں، بلاشبہ تو ہی تعریف اور بزرگی کے لائق ہے) اور سلام بھیجنا تو تم جانتے ہی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٣ (٩٨٠، ٩٨١) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأحزاب (٣٢٢٠) ، موطا امام مالک/السفر ٢٢ (٦٧) ، مسند احمد ٤/١١٨، ١١٩، ٥/٢٧٣، سنن الدارمی/ ال صلاة ٨٥ (١٣٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1285
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنے کا طریقہ
ابومسعود انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا : ہمیں آپ پر صلاۃ (درود) وسلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے، رہا سلام تو اسے ہم جان چکے ہیں، مگر ہم آپ پر صلاۃ (درود) کس طرح بھیجیں ؟ آپ نے فرمایا : کہو اللہم صل على محمد کما صليت على آل إبراهيم اللہم بارک على محمد کما بارکت على آل إبراهيم اے اللہ ! محمد پر تو اسی طرح صلاۃ (درود) و رحمت بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے، اے اللہ ! محمد پر تو اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1286
ایک دوسری قسم کا درود
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر سلام بھیجنا تو ہم جان چکے ہیں، صلاۃ (درود) کیسے بھیجیں ؟ آپ نے فرمایا : اس طرح کہو : اللہم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد اللہم بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر تو اسی طرح صلاۃ (درود) بھیج جیسے تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے، یقیناً تو تعریف اور بزرگی کے لائق ہے، اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں، یقیناً تو حمید و مجید یعنی تعریف اور بزرگی کے لائق ہے ۔ ابن ابی لیلیٰ نے کہا : اور ہم لوگ وعلينا معهم اور ان لوگوں کے ساتھ ہم پر بھی کہتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ سند ہمارے شیخ قاسم نے ہم سے اپنی کتاب سے بیان کی ہے، اور یہ غلط ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٧٠) ، تفسیر الأحزاب ١٠ (٤٧٩٧) ، الدعوات ٣٢ (٦٣٥٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٣ (٩٧٦، ٩٧٧، ٩٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٤ (٤٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٥ (٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٣) ، مسند احمد ٤/٢٤١، ٢٤٣، ٢٤٤، سنن الدارمی/الصلاة ٨٥ (١٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی وجہ اگلی روایت میں امام نسائی خود بیان کر رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1287
ایک دوسری قسم کا درود
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر سلام بھیجنے کو ہم جان چکے ہیں مگر آپ پر صلاۃ (درود) کس طرح بھیجیں ؟ تو آپ نے فرمایا : کہو اللہم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنک حميد مجيد و بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على إبراهيم وآل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! تو صلاۃ (درود) بھیج محمد اور آل محمد پر اسی طرح جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر بھیجا ہے، یقیناً تو حمید و مجید یعنی قابل تعریف اور بزرگ ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد اور آل محمد پر اسی طرح جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں، یقیناً تو حمید و مجید یعنی قابل تعریف اور بزرگ ہے ۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں : اور ہم وعلينا معهم اور ان لوگوں کے ساتھ ہم پر بھی بھی کہتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ سند اس سے پہلے والی سے زیادہ قرین صواب ہے (یعنی عمرو کی جگہ حکم کا ہونا) اور ہم قاسم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن مرہ کا ذکر کیا ہو، واللہ اعلم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگلی سند میں بھی حکم ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1288
ایک دوسری قسم کا درود
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ (رض) نے کہا کہ کیا میں تمہیں ایک ہدیہ نہ دوں، ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ جان چکے ہیں، مگر ہم آپ پر صلاۃ (درود) کیسے بھیجیں ؟ تو آپ نے فرمایا : کہو اللہم صل على محمد وآل محمد کما صليت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد اللہم بارک على محمد وآل محمد کما بارکت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! درود بھیج محمد اور آل محمد پر جیسے تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے یقیناً تو حمید و مجید یعنی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، اے اللہ ! برکتیں نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسے تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں، یقیناً تو حمید و مجید یعنی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1289
ایک دوسری قسم کے درود شریف سے متعلق
طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر صلاۃ (درود و رحمت) کیسے بھیجا جائے، تو آپ نے فرمایا : کہو اللہم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنک حميد مجيد و بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على إبراهيم وآل إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! صلاۃ (درود) بھیج محمد اور آل محمد پر ایسے ہی جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر بھیجا، بلاشبہ تو حمید و مجید یعنی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد اور آل محمد پر، ایسے ہی جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں، بلاشبہ تو حمید و مجید یعنی لائق تعریف اور بزرگی والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، حم ١/١٦٢، (تحفة الأشراف : ٥٠١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1290
ایک دوسری قسم کے درود شریف سے متعلق
طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! ہم آپ پر صلاۃ (درود) کس طرح بھیجیں ؟ آپ نے فرمایا : کہو : اللہم صل على محمد وعلى آل محمد کما صليت على إبراهيم إنک حميد مجيد و بارک على محمد وعلى آل محمد کما بارکت على إبراهيم إنک حميد مجيد اے اللہ ! صلاۃ (درود) بھیج محمد پر اور آل محمد پر ویسے ہی جیسے تو نے ابراہیم پر بھیجا ہے، بلاشبہ تو حمید و مجید یعنی لائق تعریف اور بزرگی والا ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد اور آل محمد پر ویسے ہی جیسے تو نے ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں، بلاشبہ تو حمید و مجید یعنی لائق تعریف اور بزرگی والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1291
ایک دوسری قسم کے درود شریف سے متعلق
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن خارجہ (رض) سے پوچھا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : مجھ پر صلاۃ (درود و رحمت) بھیجو، اور دعا میں کوشش کرو، اور کہو : اللہم صل على محمد وعلى آل محمد اے اللہ ! صلاۃ (درود و رحمت) بھیج محمد پر اور آل محمد پر ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، حم ١/١٩٩، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1292
ایک دوسری قسم کا دود شریف
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہم جان چکے ہیں، پر مگر آپ پر صلاۃ (درود و رحمت) کیسے بھیجیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس طرح کہو : اللہم صل على محمد عبدک ورسولک کما صليت على إبراهيم و بارک على محمد وآل محمد کما بارکت على إبراهيم اے اللہ ! درود و رحمت بھیج اپنے بندے اور رسول محمد پر جس طرح تو نے ابراہیم پر بھیجا ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد اور آل محمد پر ویسے ہی جیسے تو نے ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ١٠ (٤٧٩٨) ، الدعوات ٣٢ (٦٣٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٥ (٩٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٩٣) ، مسند احمد ٣/٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1293
ایک دوسری قسم کا دود شریف
ابو حمید ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ ان لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر صلاۃ (درود و رحمت) کیسے بھیجیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہو : اللہم صل على محمد وأزواجه وذريته، یہ صرف حارث کی روایت میں ہے كما صليت على آل إبراهيم و بارک على محمد وأزواجه وذريته۔ یہ دونوں کی روایت میں ہے كما بارکت على آل إبراهيم إنک حميد مجيد۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : قتیبہ نے اس حدیث کو مجھ سے دو بار بیان کیا، اور شاید کہ ان سے کچھ حصہ اس حدیث کا چھوٹ گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٩) ، الدعوات ٣٣ (٦٣٦٠) ، صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٣ (٩٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٥ (٩٠٥) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢٢ (٦٦) ، مسند احمد ٥/٤٢٤، (تحفة الأشراف : ١١٨٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1294
فضیلت درود سے متعلق
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، اور آپ کے چہرے پر خوشی و مسرت جھلک رہی تھی، آپ نے فرمایا : یہ (خوشی اس لیے ہے کہ) میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے، اور کہنے لگے : اے محمد ! کیا آپ کے لیے یہ خوشی کا باعث نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی بھی آپ پر صلاۃ (درود و رحمت) بھیجے گا تو میں اس پر دس بار درود بھیجوں گا، اور جو کوئی آپ کے امتیوں میں سے آپ پر سلام بھیجے گا میں تو اس پر دس بار سلام بھیجوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٨٤ (حسن) (شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” سلیمان “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1295
فضیلت درود سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک (مرتبہ) صلاۃ (درود و رحمت) بھیجے گا اللہ اس پر دس مرتبہ صلاۃ (درود و رحمت) بھیجے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٧ (٤٠٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥٣٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٥ (الوتر ٢٠) (٤٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٤) ، مسند احمد ٢/٣٧، ٣٧٣، ٣٧٥، ٤٨٥، سنن الدارمی/الرقاق ٥٨ (٢٨١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1296
فضیلت درود سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میرے اوپر ایک بار صلاۃ (درود و رحمت) بھیجے گا، تو اللہ اس پر دس بار صلاۃ (درود و رحمت) بھیجے گا، اور اس کے دس گناہ معاف اور دس درجے بلند کردیئے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٣/١٠٢، ٢٦١، (تحفة الأشراف : ٢٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1297
درود شریف پڑھنے کے بعد نماز میں جو دل چاہے دعا مانگ سکتا ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں بیٹھتے تو کہتے : سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے، سلام ہو فلاں پر اور فلاں پر، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : السلام على اللہ نہ کہو، کیونکہ اللہ تو خود ہی سلام ہے، ہاں جب تم میں سے کوئی قعدہ میں بیٹھے تو چاہیئے کہ وہ کہے : التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة اللہ وبرکاته السلام علينا وعلى عباد اللہ الصالحين تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو کیونکہ جب تم اس طرح کہو گے تو زمین و آسمان میں رہنے والے ہر نیک بندے کو یہ شامل ہوگا، (پھر کہے) : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں پھر اس کے بعد اپنی پسندیدہ دعا جو بھی چاہے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧١، ١٢٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1298
نماز میں تشہد پڑھنے کے بعد کیا پڑھنا چاہئے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کچھ ایسے کلمات سکھا دیجئیے جن کے ذریعہ میں اپنی نماز میں دعا کیا کروں، تو آپ نے فرمایا : دس بار سبحان اللہ، دس بار الحمد لله، دس بار اللہ أكبر کہو، اس کے بعد تم اللہ سے اپنی حاجت مانگو، وہ ہاں، ہاں کہے گا ، (یعنی جو تم مانگو گی وہ تمہیں دے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٣ (٤٨١) ، مسند احمد ٣/١٢٠، (تحفة الأشراف : ١٨٥) (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1299
دعا ماثورہ سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مسجد میں) بیٹھا ہوا تھا، اور ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، جب اس نے رکوع اور سجدہ کرلیا، اور تشہد سے فارغ ہوگیا، تو اس نے دعا کی، اور اپنی دعا میں اس نے کہا : اللہم إني أسألک بأن لک الحمد لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض يا ذا الجلال والإکرام يا حى يا قيوم إني أسألك اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس لیے کہ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے تیرے، تو بہت احسان کرنے والا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے اور وجود میں لانے والا ہے، اے عظمت و جلال اور احسان والے، ہمیشہ زندہ و باقی رہنے والے ! ، میں تجھی سے مانگتا ہوں۔ یہ سنا تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا : تم جانتے ہو اس نے کن لفظوں سے دعا کی ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے تو اللہ سے اس کے اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے جس کے ذریعہ دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ مانگا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٩٥) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٥٥١) ، مسند احمد ٣/١٢٠، ١٥٨، ٢٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1300
دعا ماثورہ سے متعلق
محجن بن ادرع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں گئے، تو دیکھا کہ ایک آدمی اپنی نماز پوری کرچکا ہے، اور تشہد میں ہے اور کہہ رہا ہے :اللہم إني أسألك يا اللہ بأنک الواحد الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد أن تغفر لي ذنوبي إنك أنت الغفور الرحيم اے اللہ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں، اے اللہ تجھی سے، اس لیے کہ تو ہی ایک ایسا تن تنہا بےنیاز ہے جس نے نہ تو کسی کو جنا ہے، اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے، لہٰذا تو میرے گناہوں کو بخش دے، تو ہی غفور و رحیم یعنی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے تین بار فرمایا : اس کے گناہ بخش دیے گئے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٤ (٩٨٥) ، مسند احمد ٤/٣٣٨، (تحفة الأشراف : ١١٢١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1301
ایک دوسری قسم کی دعا سے متعلق
ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جس کے ذریعہ میں اپنی نماز میں دعا مانگا کروں، تو آپ نے فرمایا : کہو : اللہم إني ظلمت نفسي ظلما کثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندک وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم اے اللہ ! بیشک میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے، اور سوائے تیرے گناہوں کو کوئی بخش نہیں سکتا، لہٰذا تو اپنی خاص مغفرت سے مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم کر، یقیناً تو غفور و رحیم یعنی بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٩ (٨٣٤) ، الدعوات ١٧ (٦٣٢٦) ، التوحید ٩ (٧٣٨٨) ، صحیح مسلم/الدعاء ١٣ (٢٧٠٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ٩٧ (٣٥٣١) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٢ (٣٨٣٥) ، مسند احمد ١/٣، ٧، (تحفة الأشراف : ٦٦٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1302
ایک دوسری قسم کی دعا سے متعلق
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے، اور فرمایا : اے معاذ ! میں تم سے محبت کرتا ہوں ، تو میں نے عرض کیا : اور میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں اللہ کے رسول ! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر تو تم ہر نماز میں یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑو رب أعني على ذکرک وشکرک وحسن عبادتک اے میرے رب ! اپنے ذکر اور شکر پر، اور اپنی حسن عبادت پر میری مدد فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥٢٢) ، فی عمل الیوم واللیلة ٤٦ (١٩٠) مسند احمد ٥/٢٤٤، ٢٤٧، (تحفة الأشراف : ١١٣٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1303
ایک دوسری قسم کی دعا سے متعلق
شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز میں کہتے تھے : اللہم إني أسألک الثبات في الأمر والعزيمة على الرشد وأسألک شکر نعمتک وحسن عبادتک وأسألک قلبا سليما ولسانا صادقا وأسألک من خير ما تعلم وأعوذ بک من شر ما تعلم وأستغفرک لما تعلم اے اللہ ! میں معاملہ میں تجھ سے ثابت قدمی کا، اور راست روی میں عزیمت کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے تیری نعمتوں کے شکر اور تیری حسن عبادت کی توفیق مانگتا ہوں، اور تجھ سے تمام برائیوں اور آلائشوں سے پاک و صاف دل، اور سچ کہنے والی زبان کا طلب گار ہوں، اور تجھ سے ان چیزوں کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں جنہیں تو جانتا ہے، اور ان چیزوں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں جنہیں تو جانتا ہے، اور میں تجھ سے ان گناہوں کی مغفرت طلب کرتا ہوں جو تیرے علم میں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الدعوات ٢٣ (٣٤٠٧) ، مسند احمد ٤/١٢٥ (حسن) (اس کی سند میں ” ابو العلاء یزید بن عبداللہ العامري “ اور ” شداد (رض) “ کے درمیان انقطاع ہے، ترمذی اور احمد کی سند میں یہاں پر کوئی ” رجل من بنی حنظلہ “ ہے جو مجہول ہے، لیکن دوسرے طرق اور شواہد کی بنا پر حدیث حسن ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٣٢٢٨، و صحیح موارد الظمآن ٢٠٤٧، ٢٠٤٩، وتراجع الالبانی ٥٦٨ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1304
ایک دوسری قسم کی دعا کے بارے میں
سائب کہتے ہیں کہ عمار بن یاسر (رض) نے ہمیں نماز پڑھائی تو اس میں اختصار سے کام لیا، قوم میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے نماز ہلکی کردی ہے، راوی کو شک ہے خففت کہا یا أوجزت (ہلکی کردی یا مختصر کردی) تو انہوں نے کہا : اس کے باوجود میں نے اس میں ایسی دعائیں پڑھی ہیں جن کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، تو جب وہ جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو قوم میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے ہو لیا (وہ کوئی اور نہیں میرے والد تھے مگر انہوں نے اپنا نام چھپایا ہے) ١ ؎ اس نے ان سے اس دعا کے بارے میں سوال کیا، پھر آ کر لوگوں کو اس کی خبر دی، وہ دعا یہ تھی : اللہم بعلمک الغيب وقدرتک على الخلق أحيني ما علمت الحياة خيرا لي وتوفني إذا علمت الوفاة خيرا لي اللہم وأسألک خشيتک في الغيب والشهادة وأسألك كلمة الحق في الرضا والغضب وأسألک القصد في الفقر والغنى وأسألک نعيما لا ينفد وأسألک قرة عين لا تنقطع وأسألک الرضاء بعد القضاء وأسألک برد العيش بعد الموت وأسألک لذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقائك في غير ضراء مضرة ولا فتنة مضلة اللہم زينا بزينة الإيمان واجعلنا هداة مهتدين اے اللہ ! میں تیرے علم غیب اور تمام مخلوق پر تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے، اور مجھے موت دیدے جب تو جانے کہ موت میرے لیے بہتر ہے، اے اللہ ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری مشیت کا طلب گار ہوں، اور میں تجھ سے خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں کلمہ حق کہنے کی توفیق مانگتا ہوں، اور تنگ دستی و خوشحالی دونوں میں میانہ روی کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلبگار ہوں جو منقطع نہ ہو، اور میں تجھ سے تیری قضاء پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طالب ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طالب ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تجھ سے اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے، اے اللہ ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ، اور ہم کو راہ نما اور ہدایت یافتہ بنا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٤/٢٦٤، (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1305
ایک دوسری قسم کی دعا کے بارے میں
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ عمار بن یاسر (رض) نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور اسے ہلکی پڑھائی، تو گویا کہ لوگوں نے اسے ناپسند کیا، تو انہوں نے کہا : کیا میں نے رکوع اور سجدے پورے پورے نہیں کیے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور کیا ہے، پھر انہوں نے کہا : سنو ! میں نے اس میں ایسی دعا پڑھی ہے جس کو نبی اکرم ﷺ پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے : اللہم بعلمک الغيب وقدرتک على الخلق أحيني ما علمت الحياة خيرا لي وتوفني إذا علمت الوفاة خيرا لي وأسألک خشيتک في الغيب والشهادة وکلمة الإخلاص في الرضا والغضب وأسألک نعيما لا ينفد وقرة عين لا تنقطع وأسألک الرضاء بالقضاء وبرد العيش بعد الموت ولذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقائك وأعوذ بک من ضراء مضرة وفتنة مضلة اللہم زينا بزينة الإيمان واجعلنا هداة مهتدين اے اللہ ! میں تیرے علم غیب اور تمام مخلوق پر تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے، اور مجھے موت دیدے جب تو جانے کہ موت میرے لیے بہتر ہے، اے اللہ ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری خشیت کا طلب گار ہوں، اور میں تجھ سے خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں کلمہ اخلاص کی توفیق مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلبگار ہوں جو منقطع نہ ہو، اور میں تجھ سے تیری قضاء پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طلبگار ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تیری اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے، اے اللہ ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ، اور ہم کو راہنما و ہدایت یافتہ بنا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، تحفة الأشراف : ١٠٣٦٦) ، مسند احمد ٤/٢٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1306
نماز کے دوران پناہ مانگنے سے متعلق
فروہ بن نوفل کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے ایسی چیز بیان کیجئیے جس کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز میں دعا کرتے رہے ہوں، تو وہ کہنے لگیں : ہاں، سنو، رسول اللہ ﷺ کہتے تھے : اللہم إني أعوذ بک من شر ما عملت ومن شر ما لم أعمل اے اللہ ! میں تجھ سے اس کام کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کیا ہے، اور اس کام کی برائی سے جو میں نے نہیں کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الدعاء ١٨ (٢٧١٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٠) ، مسند احمد ٦/٣١، ١٠٠، ١٣٩، ٢١٣، ٢٥٧، ٢٧٨، ویأتی عند المؤلف فی الاستعاذة ٥٨ (بأرقام ٥٥٢٧ - ٥٥٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1307
ایک دوسری قسم کی پناہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے قبر کے عذاب کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : ہاں، قبر کا عذاب برحق ہے ، اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کو کوئی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا جس میں آپ نے قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٦ (١٣٧٢) ، الدعوات ٣٧ (٦٣٦٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٤ (٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٦٠) ، مسند احمد ٦/١٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1308
ایک دوسری قسم کی پناہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا مانگتے : اللہم إني أعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات اللہم إني أعوذ بک من المأثم والمغرم اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ ! میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں تو کہنے والے نے آپ سے کہا : آپ قرض سے اتنا زیادہ کیوں پناہ مانگتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : آدمی جب مقروض ہوتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤٩ (٨٣٢) ، الاستقراض ١٠ (٢٣٩٧) مختصراً ، صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٨٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٣ (٨٨٠) ، مسند احمد ٦/٨٩، ٢٤٤، ویأتی عند المؤلف فی الاستعاذة (برقم : ٥٤٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1309
ایک دوسری قسم کی پناہ سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے، تو وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہے : جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے، اور مسیح دجال کے شر سے، پھر وہ اپنے لیے جو جی چاہے دعا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٨٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨٤ (٩٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٦ (٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٨٧) ، مسند احمد ٢/٢٣٧، سنن الدارمی/الصلاة ٨٦ (١٣٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1310
ایک دوسری نوعیت کی دعا سے متعلق
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد کے بعد اپنی نماز میں کہتے تھے : أحسن الکلام کلام اللہ وأحسن الهدى هدى محمد صلى اللہ عليه وسلم سب سے عمدہ کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1311
نماز کو گھٹانے کے بارے میں
حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے، اور اچھی طرح نہیں پڑھ رہا ہے، اس میں وہ کمی کر رہا ہے، تو حذیفہ (رض) نے اس سے پوچھا : اس طرح سے نماز تم کب سے پڑھ رہے ہو ؟ اس نے کہا : چالیس سال سے، تو انہوں نے کہا : تم نے چالیس سال سے کامل نماز نہیں پڑھی، اور اگر تم اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرجاتے تو تمہارا خاتمہ محمد ﷺ کی ملت کے علاوہ پر ہوتا، پھر انہوں نے کہا : آدمی ہلکی نماز پڑھے لیکن پوری اور اچھی پڑھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١١٩ (٧٩١) مختصراً ، مسند احمد ٥/٣٨٤، (تحفة الأشراف : ٣٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نماز میں تطفیف (تقصیر و کوتاہی) یہ ہے کہ رکوع، و سجود اور قیام کو قدر واجب سے کم کرے، اور دونوں سجدوں کے بیچ میں اچھی طرح سے نہ ٹھہرے اسی طرح رکوع کے بعد سیدھا کھڑا نہ ہو، یہ مذموم ہے، اور نماز میں تخفیف یہ ہے کہ رکوع، سجود اور قیام وغیرہ اچھی طرح کرے، لیکن لمبی سورتوں کے بجائے مختصر سورتیں پڑھے، ایسا کرنا درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1312
نماز پڑھنے کے واسطے کم از کم کیا شرائط ہیں؟
یحییٰ اپنے چچا بدری صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان سے بیان کیا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز پڑھنے لگا، رسول اللہ ﷺ اسے دیکھ رہے تھے، اور ہم نہیں سمجھ رہے تھے، جب وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوا، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور آ کر اس نے آپ کو سلام کیا، آپ نے (جواب دینے کے بعد) فرمایا : واپس جاؤ دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے ، چناچہ وہ واپس گیا، اور اس نے پھر سے نماز پڑھی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا : واپس جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو کیونکہ تم نے (ابھی بھی) نماز نہیں پڑھی ہے ، دو یا تین بار ایسا ہوا تو اس آدمی نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو عزت دی ہے، میں اپنی بھر کوشش کرچکا ہوں لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو وضو کرو اور اچھی طرح سے وضو کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہو، پھر قرآن پڑھو، پھر رکوع کرو اور اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہوجاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کرلو، پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ اطمینان سے سجدہ کرلو، پھر سر اٹھاؤ، پھر اس کے بعد دوسری رکعت میں اسی طرح کرو یہاں تک کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٦٨، ١١٣٧ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1313
نماز پڑھنے کے واسطے کم از کم کیا شرائط ہیں؟
یحییٰ بن خلاد بن رافع بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے چچا بدری صحابی روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، اور اس نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر وہ آیا، اور اس نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، آپ ﷺ اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے، آپ نے سلام کا جواب دیا، پھر اس سے فرمایا : واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے ، چناچہ وہ واپس آیا، اور پھر سے اس نے نماز پڑھی، پھر وہ دوبارہ آیا اور اس نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، آپ نے اسے جواب دیا، پھر فرمایا : واپس جاؤ اور نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ہے ، یہاں تک کہ تیسری یا چوتھی بار میں اس نے عرض کیا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے، میں اپنی کوشش کرچکا ہوں، اور میری خواہش ہے آپ مجھے (صحیح نماز پڑھنے کا طریقہ) دکھا، اور سکھا دیجئیے، آپ نے فرمایا : جب تم نماز کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضو کرو پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہو پھر قرآت کرو پھر رکوع میں جاؤ اور رکوع میں رہو یہاں تک کہ تمہیں اطمینان ہوجائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم سیدھے کھڑے ہوجاؤ، پھر سجدہ میں جاؤ اور اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم آرام سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کر اور سجدہ میں رہو یہاں تک کہ تمہیں اطمینان ہوجائے، پھر سر اٹھاؤ تو جب تم اپنی نماز کو اس نہج پر پورا کرو گے تو وہ مکمل ہوگی، اور اگر تم نے اس میں سے کچھ کمی کی تو تم اپنی نماز میں کمی کرو گے۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ٦٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1314
نماز پڑھنے کے واسطے کم از کم کیا شرائط ہیں؟
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا : ہم آپ کے (تہجد کے) لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ جب آپ کو رات میں بیدار کرنا چاہتا بیدار کردیتا، آپ اٹھ کر مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ١ ؎، ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، اللہ عزوجل کا ذکر کرتے، اور دعائیں کرتے، پھر اتنی اونچی آواز میں آپ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنا دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٣ (١١٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٧) ، مسند احمد ٦/٥٤، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٧٢١، ١٧٢٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ رواۃ میں سے کسی راوی کا وہم ہے جیسا کہ مؤلف آگے چل کر حدیث رقم ١٦٠٢ میں اس پر تنبیہ کریں گے، صحیح نو رکعتیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1315
سلام سے متعلق
سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (نماز میں) اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٢ (٥٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٨ (٩١٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٦) ، مسند احمد ١/١٧٢، ١٨٠، ١٨١، سنن الدارمی/الصلاة ٨٧ (١٣٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1316
سلام سے متعلق
سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا تھا کہ آپ اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھی جاتی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : عبداللہ بن جعفر مخرمی میں کوئی حرج نہیں یعنی قابل قبول راوی ہیں، اور علی بن مدینی کے والد عبداللہ بن جعفر بن نجیح، متروک الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1317
سلام پھیرتے وقت ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہم سلام پھیرتے وقت السلام عليكم السلام عليكم کہتے تھے، (مسعر نے اپنے ہاتھ سے دائیں بائیں دونوں طرف اشارہ کر کے بتایا) تو آپ نے فرمایا : ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو اپنے ہاتھ اس طرح کرتے ہیں گویا شریر گھوڑوں کی دم ہیں، کیا یہ کافی نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھیں، پھر وہ اپنے دائیں طرف اور اپنے بائیں اپنے بھائی کو سلام کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ١١٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1318
سلام پھیرتے وقت ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہر جھکنے اٹھنے اور کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں اللہ اکبر کہتے، پھر اپنی دائیں طرف اور بائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ السلام عليكم ورحمة اللہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھی جاتی، اور میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ١٠٨٤، (تحفة الأشراف : ٩١٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1319
سلام پھیرتے وقت ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟
واسع بن حبان سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ جب جھکتے تو اللہ أكبر کہتے، اور جب اٹھتے تو اللہ أكبر کہتے، پھر آپ اپنی دائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہتے اور اپنی بائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٣) ، مسند احمد ٢/٧٢، ١٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1320
بائیں جانب سلام میں کیا کہنا چاہئے؟
واسع بن حبان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں بتائیے کہ وہ کیسی ہوتی تھی، تو انہوں نے تکبیر کہی، اور اپنی دائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہنے، اور بائیں طرف السلام عليكم ١ ؎ کہنے کا ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، أنظر ما قبلہ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ داہنی جانب والوں کی تکریم لیے داہنی طرف سلام پھیرتے وقت ورحم ۃ اللہ کا اضافہ فرماتے تھے، اور بائیں طرف السلام عليكم ہی پر اکتفا کرتے تھے، پچھلی روایت میں بائیں طرف بھی ورحم ۃ اللہ کہنے کا ذکر ہے، اور اسی پر عمل ہے، شاید آپ کبھی کبھی اسے چھوڑ دیتے رہے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1321
بائیں جانب سلام میں کیا کہنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہا، اور اپنی بائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہا، گویا میں آپ کے گال کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٨٩ (٩٩٦) ، سنن الترمذی/فیہ ١٠٦ (٢٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٨ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠٤) ، مسند احمد ١/٣٩٠، ٤٠٦، ٤٠٨، ٤٠٩، ٤١٤، ٤٤٤، ٤٤٨، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٣٢٤ مختصراً ، ١٣٢٥، ١٣٢٦ بنحوہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1322
بائیں جانب سلام میں کیا کہنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دائیں طرف سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے گال کی سفیدی دکھائی دیتی، اور آپ بائیں طرف سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے گال کی سفیدی دکھائی دیتی۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1323
بائیں جانب سلام میں کیا کہنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی دائیں طرف اور بائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ السلام عليكم ورحمة اللہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے، اور (آپ اپنے سر کو اتنا گھماتے) کہ آپ کے رخسار کی سفیدی ادھر سے، اور ادھر سے دکھائی دیتی۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ١٣٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1324
بائیں جانب سلام میں کیا کہنا چاہئے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے دائیں گال کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور بائیں طرف السلام عليكم ورحمة اللہ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے بائیں گال کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ١٣٢٣، (تحفة الأشراف : ٩١٨٢، ٩٤٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1325
سلام کے وقت ہاتھوں سے اشارہ کرنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہتے :السلام عليكم السلام عليكم رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس طرح کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے ہو، گویا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں، جب تم میں سے کوئی سلام پھیرے تو وہ اپنے ساتھ والے کی طرف متوجہ ہوجائے، اور اپنے ہاتھ سے اشارہ نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1326
جس وقت امام سلام کرے تو اس وقت مقتدی کو بھی کرنا چاہئے
محمود بن ربیع (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عتبان بن مالک (رض) کو کہتے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے عرض کیا کہ میری آنکھیں کمزور ہوگئی ہیں، اور برسات میں میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان سیلاب حائل ہوجاتا ہے، لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لاتے، اور کسی جگہ میں نماز پڑھ دیتے تو میں اس جگہ کو اپنے لیے مسجد بنا لیتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اچھا ان شاء اللہ عنقریب آؤں گا ، چناچہ رسول اللہ ﷺ خوب دن چڑھ آنے کے بعد میرے پاس تشریف لائے، آپ کے ساتھ ابوبکر (رض) بھی تھے، نبی اکرم ﷺ نے اندر آنے کی اجازت مانگی، میں نے آپ کو اندر تشریف لانے کے لیے کہا، آپ بیٹھے بھی نہیں کہ آپ نے پوچھا : تم اپنے گھر کے کس حصہ میں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں ؟ تو میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں چاہتا تھا کہ آپ اس میں نماز پڑھیں، چناچہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، پھر آپ نے سلام پھیرا، اور ہم نے بھی سلام پھیرا جس وقت آپ نے سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1327
نماز سے فراغت کے بعد سجدہ کرنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے فجر تک کے بیچ میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور ایک رکعت کے ذریعہ وتر کرتے ١ ؎، اور ایک سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ کوئی اس سے پہلے کہ آپ سجدہ سے سر اٹھائیں پچاس آیتیں پڑھ لے۔ اس حدیث کے رواۃ (ابن ابی ذئب، عمرو بن حارث اور یونس بن یزید) ایک دوسرے پر اضافہ بھی کرتے ہیں اور یہ حدیث ایک لمبی حدیث سے مختصر کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ سجدہ سلام کے بعد ہوتا تھا، حالانکہ یہاں تہجد کے اندر آپ کے سجدے کی طوالت بیان کرنی مقصود ہے، اس روایت میں صحیح بخاری کی عبارت یوں ہے فیسجد السجد ۃ من ذٰلک قدرما یقرأ أحدکم خمسین آی ۃ قبل أن یرفع (کتاب الوتر باب ١ ) یعنی : تہجد میں آپ کا ایک سجدہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ کوئی دوسرا اتنے میں پچاس آیتیں پڑھ لے، مؤلف (رح) سے اس بابت وہم ہوا ہے عفا اللہ عنہ … ایسے کسی سجدہ کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1328
سلام پھیرنے اور گفتگو کرنے کے بعد سجدہ سہو
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سلام پھیرا، پھر آپ نے گفتگو کی، پھر سہو کے دو سجدے کیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٩ (٥٧٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧٣ (٣٩٣) ، مسند احمد ١/٤٥٦، (تحفة الأشراف : ٩٤٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1329
سجدہ سہو کے بعد سلام
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، پھر سہو کے دو سجدے بیٹھے بیٹھے کئے، پھر سلام پھیرا، راوی کہتے ہیں : اس کا ذکر ذوالیدین والی حدیث میں بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٥ (١٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٤) ، مسند احمد ٢/٤٢٣ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1330
سجدہ سہو کے بعد سلام
عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تین رکعت نماز پڑھ کر سلام پھیر دیا، تو خرباق (رض) نے عرض کیا : آپ نے تین ہی رکعت نماز پڑھی ہے، چناچہ آپ نے انہیں وہ رکعت پڑھائی جو باقی رہ گئی تھی، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر سجدہ سہو کیا، اس کے بعد سلام پھیرا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٢٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1331
سجدہ سہو کے بعد سلام
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کو بغور دیکھا، تو میں نے پایا کہ آپ کا قیام ١ ؎، آپ کا رکوع، اور رکوع کے بعد آپ کا سیدھا کھڑا ہونا، پھر آپ کا سجدہ کرنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا، پھر دوسرا سجدہ کرنا، پھر سلام پھیرنے اور مقتدیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنا تقریباً برابر برابر ہوتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٦٦، (تحفة الأشراف : ١٧٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں قیام کا اضافہ ہلال بن أبی حمید کی روایت میں ہے، ان کے ساتھی حکم بن عتیبہ کی روایت میں قیام کا ذکر نہیں ہے، اور حکم ہلال کے مقابلہ زیادہ ثقہ ہیں، اس لیے ان کی روایت محفوظ ہے، نیز نبی اکرم ﷺ کا قیام تو اکثر رکوع، قومہ، جلسہ بین السجدتین وغیرہ سے لمبا ہی ہوا کرتا تھا، بلکہ کبھی کبھی آپ ساٹھ سے سو آیتیں پڑھا کرتے رہے ہیں، اور ظہر کی پہلی رکعت دوسری سے لمبی ہوا کرتی تھی، اس لیے ہلال کی روایت یا تو شاذ ہے، یا کبھی کبھار آپ ایسا کرتے رہے ہوں، اور اسی وقت براء (رض) نے دیکھا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1332
سجدہ سہو کے بعد سلام
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتیں جب نماز سے سلام پھیرتیں تو کھڑی ہوجاتیں، اور رسول اللہ ﷺ اور مردوں میں سے جو لوگ نماز میں ہوتے بیٹھے رہتے جب تک اللہ چاہتا، پھر جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے تو مرد بھی کھڑے ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٢ (٨٣٧) ، ١٥٧ (٨٤٩) ، ١٦٣ (٨٦٦) ، ١٦٧ (٨٧٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٣ (١٠٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٣ (٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٩) ، مسند احمد ٦/٢٩٦، ٣١٠، ٣١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1333
سلام پھیرتے ہی اٹھ جانا
یزید بن اسود (رض) روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز فجر پڑھی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ نے اپنا رخ پلٹ کر مقتدیوں کی طرف کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧٢ (٦١٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٩ (٢١٩) مطولاً ، مسند احمد ٤/١٦١، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1334
امام کے سلام پھیرنے کے بعد تکبیر کہنے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے ختم ہونے کو تکبیر کے ذریعہ جانتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٥ (٨٤٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٣ (٥٨٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩١ (١٠٠٢) ، مسند احمد ١/٢٢٢، (تحفة الأشراف : ٦٥١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی اس حدیث اور ثوبان (رض) کی حدیث (رقم : ١٣٣٨ ) کا خلاصہ یہ ہے کہ سلام کے بعد ایک بار زور سے اللہ اکبر اور تین بار استغفر اللہ کہتے، اور یہ تکبیر ٣٣ ، ٣٣ بار تسبیح تحمید اور تکبیر کے علاوہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1335
نماز سے فراغت کے بعد معوذ تین ( سورت الفلق و سورت ناس) کی تلاوت
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ہر نماز کے بعد معوذتین قل أعوذ برب الفلق اور قل أعوذ برب الناس پڑھا کروں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥٢٣) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ١٢ (٢٩٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٠) ، مسند احمد ٤/١٥٥، ٢٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1336
سلام کے بعد استغفار پڑھنا
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹتے تو تین بار استغفر اللہ کہتے، پھر کہتے : اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت يا ذا الجلال والإکرام اے اللہ ! تو سلام ہے، اور تجھ سے ہی تمام کی سلامتی ہے، تیری ذات بڑی بابرکت ہے، اے بزرگی اور عزت والے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٣٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٨) ، مسند احمد ٥/٢٧٥، ٢٧٩، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1337
استغفار کے بعد ذکر خداوندی میں مشغول ہونا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیرتے تو کہتے : اللهم أنت السلام ومنک السلام تبارکت يا ذا الجلال والإکرام اے اللہ ! تو سلام ہے، اور تجھی سے تمام کی سلامتی ہے، اے عزت و بزرگی والے تیری ذات بڑی بابرکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥١٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٠٩ (٢٩٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٣ (٩٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٧) ، مسند احمد ٦/٦٢، ١٨٤، ٢٣٥، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1338
سلام کے بعد کیا دعا پڑھی جائے؟
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو اس منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیرتے تو کہتے : لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير لا حول ولا قوة إلا باللہ لا إله إلا اللہ لا نعبد إلا إياه أهل النعمة والفضل والثناء الحسن لا إله إلا اللہ مخلصين له الدين ولو کره الکافرون نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے جو اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، نہیں طاقت و قوت مگر اللہ ہی کی توفیق سے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، ہم صرف اسی نعمت، فضل اور بہترین تعریف والے کی عبادت کرتے ہیں، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، ہم دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والے ہیں، اگرچہ کافروں کو برا لگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥٠٦) ، مسند احمد ٤/٤، ٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1339
سلام کے بعد تسبیح پڑھنا اور ذکر کرنا
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم نماز کے بعد تہلیل کرتے اور کہتے : لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير لا إله إلا اللہ ولا نعبد إلا إياه له النعمة وله الفضل وله الثناء الحسن لا إله إلا اللہ مخلصين له الدين ولو کره الکافرون نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، جو تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے سب پر، اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں، نعمت، فضل اور بہترین ثنا اسی کے لیے ہے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، ہم دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والے ہیں، اگرچہ کافروں کو برا لگے پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہم کہتے : رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد انہیں کلمات کے ذریعہ تہلیل کیا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1340
نماز کے بعد کی ایک اور دعا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کے منشی وراد کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے مغیرہ بن شعبہ (رض) کو لکھا کہ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھ چکتے تو کہتے : لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير اللہم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منک الجد نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جو تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور مالدار کی مالداری تیرے عذاب سے بچا نہیں سکتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٥ (٨٤٤) ، الدعوات ١٨ (٦٣٣٠) ، الرقاق ٢٢ (٦٤٧٣) ، القدر ١٢ (٦٦١٥) ، الاعتصام ٣ (٧٢٩٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٠ (١٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣٥) ، مسند احمد ٤/٢٤٥، ٢٤٧، ٢٥٠، ٢٥١، ٢٥٤، ٢٥٥، سنن الدارمی/الصلاة ٨٨ (١٣٨٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٣٤٣، ١٣٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1341
نماز کے بعد کی ایک اور دعا
وراد کہتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ (رض) نے معاویہ (رض) کو لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو کہتے : لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير اللہم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منک الجد نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے سلطنت و حکومت ہے، اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جو تو روک دے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور نہ مالدار کی مالداری تیرے عذاب سے بچا سکے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1342
یہ دعا کتنی مرتبہ پڑھی جائے
مغیرہ (رض) کے منشی وراد سے روایت ہے کہ معاویہ (رض) نے مغیرہ (رض) کو لکھا : مجھے کوئی حدیث لکھ بھیجو جسے تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، تو مغیرہ (رض) نے انہیں لکھا میں نے آپ ﷺ کو سلام پھیر کر پلٹتے وقت لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے، اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے تین بار کہتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣٤٢ (شاذ) (اس دعا میں ” تین بار “ کا تذکرہ شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ بزيادة الثلاث صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1343
سلام کے بعد کا ایک اور ذکر
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھتے یا نماز پڑھتے تو کچھ کلمات کہتے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے ان کلمات کے بارے میں پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے کوئی بھلی بات کی ہوگی تو یہ کلمات اس پر قیامت کے دن تک بطور مہر ہوں گے، اور اگر اس کے علاوہ اس نے کوئی اور بات کی ہوگی تو یہ کلمات اس کے لیے کفارہ ہوں گے، وہ یہ ہیں : سبحانک اللہم وبحمدک أستغفرک وأتوب إليك تیری ذات پاک ہے اے اللہ ! اور تیری حمد کے ذریعہ سے میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں، اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٥) ، وقد أخرجہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة ١٣٧ (٤٠٠) ، مسند احمد ٦/٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1344
سلام کے بعد ایک دوسری قسم کی دعا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی : پیشاب سے نہ بچنے پر قبر میں عذاب ہوتا ہے تو میں نے کہا : تو جھوٹی ہے، تو اس نے کہا : سچ ہے ایسا ہی ہے، ہم کھال یا کپڑے کو پیشاب لگ جانے پر کاٹ ڈالتے ہیں، اتنے میں رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے باہر تشریف لائے، ہماری آواز بلند ہوگئی تھی، آپ نے پوچھا : کیا ماجرا ہے ؟ میں نے آپ کو جو اس نے کہا تھا بتایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سچ کہہ رہی ہے ، چناچہ اس دن کے بعد سے آپ جو بھی نماز پڑھتے تو نماز کے بعد یہ کلمات ضرور کہتے : رب جبريل وميكائيل وإسرافيل أعذني من حر النار و عذاب القبر اے جبرائیل وم یکائیل اور اسرافیل کے رب ! مجھے جہنم کی آگ کی تپش، اور قبر کے عذاب سے بچا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٨٢٩) ، وأخرجہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٥٤ (١٣٨) ، مسند احمد ٦/١٦ (صحیح) (” جسرة بنت دجاجہ “ اور قدامہ کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، یہ لین الحدیث ہیں، لیکن صحیحین میں اس روایت کی اصل سند سے موجود ہے، دیکھئے : صحیح البخاری/الکسوف ٧ (١٣٧٢) ، الجنائز ٨٦ (١٣٧٢) ، الدعوات ٢٣٧ (٦٣٦٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٤ (٥٨٤) نیز اس کو رقم (٥٥٢٢) کی حدیث ابوہریرہ سے بھی تقویت مل رہی ہے، بنابریں یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1345
ایک دوسری قسم کی دعا کے بارے میں
ابومروان روایت کرتے ہیں کہ کعب (رض) نے ان سے اس اللہ کی قسم کھا کر کہا جس نے موسیٰ کے لیے سمندر پھاڑا کہ ہم لوگ تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ کے نبی داود (علیہ السلام) جب اپنی نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تو کہتی : اللہم أصلح لي ديني الذي جعلته لي عصمة وأصلح لي دنياى التي جعلت فيها معاشي اللہم إني أعوذ برضاک من سخطک وأعوذ بعفوک من نقمتک وأعوذ بک منک لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منک الجد اے اللہ ! میرے لیے میرے دین کو درست فرما دے جسے تو نے میرے لیے بچاؤ کا ذریعہ بنایا ہے، اور میرے لیے میری دنیا درست فرما دے جس میں میری روزی ہے، اے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا مندی کی پناہ چاہتا ہوں، اور تیرے عذاب سے تیرے عفو و درگزر کی پناہ چاہتا ہوں، اور میں تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں، نہیں ہے کوئی روکنے والا اس کو جو تو دیدے، اور نہ ہی ہے کوئی دینے والا اسے جسے تو روک لے، اور نہ مالدار کو اس کی مالداری بچا پائے گی۔ ابومروان کہتے ہیں : اور کعب (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ صہیب (رض) نے ان سے بیان کیا ہے کہ محمد ﷺ ان کلمات کو نماز سے سلام پھیر کر پلٹنے پر کہا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٩٧١) ، وقد أخرجہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٥٣ (١٣٧) (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1346
نماز کے بعد پناہ مانگنے کے بارے میں
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میرے والد (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے : اللہم إني أعوذ بک من الکفر والفقر و عذاب القبر اے اللہ میں کفر سے، محتاجی سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں تو میں بھی انہیں کہا کرتا تھا، تو میرے والد نے کہا : میرے بیٹے ! تم نے یہ کس سے یاد کیا ہے ؟ میں نے کہا : آپ سے، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ انہیں نماز کے بعد کہا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٧٠٦) ، مسند احمد ٥/٣٦، ٣٩، ٤٤ ویأتی عند المؤلف فی الاستعاذة برقم ٥٤٦٧ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1347
سلام کے بعد تسبیح کتنی مرتبہ پڑھنا چاہئے؟
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دو ایسی خصلتیں ہیں کہ کوئی مسلمان آدمی انہیں اختیار کرلے تو وہ جنت میں داخل ہوگا، یہ دونوں آسان ہیں لیکن ان پر عمل کرنے والے کم ہیں، پانچ نمازیں تم میں سے جو کوئی ہر نماز کے بعد دس بار سبحان اللہ دس بار الحمد لله اور دس بار اللہ أكبر کہے گا، تو وہ زبان سے کہنے کے لحاظ سے ڈیڑھ سو کلمے ہوئے، مگر میزان میں ان کا شمار ڈیڑھ ہزار کلموں کے برابر ہوگا، (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں) میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں اپنے ہاتھوں (انگلیوں) پر شمار کرتے ہوئے دیکھا ہے) ، اور جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر سونے کے لیے جائے، اور تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد لله اور چونتیس بار اللہ أكبر کہے، تو وہ زبان پر سو کلمات ہوں گے، مگر میزان (ترازو) میں ایک ہزار شمار ہوں گے، تو تم میں سے کون دن و رات میں دو ہزار پانچ سو گناہ کرتا ہے، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ہم یہ دونوں تسبیحیں کیوں کر نہیں گن سکتے ؟ ١ ؎ تو آپ نے فرمایا : شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے، اور وہ نماز میں ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے : فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو اور اسی طرح اس کے سونے کے وقت اس کے پاس آتا ہے، اور اسے (یہ کلمات کہے بغیر ہی) سلا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٠٩ (٥٠٦٥) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٥ (٣٤١٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٢ (٩٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٨) ، مسند احمد ٢/١٦٠، ٢٠٤، ٢٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان تسبیحات کو وقت پر پڑھ لینا کیا مشکل ہے ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1348
ایک دوسری قسم کی تسبیح سے متعلق
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کچھ ایسے الفاظ ہیں جنہیں ہر نماز کے بعد کہا جاتا ہے ان کا کہنے والا ناکام و نامراد نہیں ہوسکتا، یعنی جو ہر نماز کے بعد تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد لله اور چونتیس بار اللہ أکبر کہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٦ (٥٩٦) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٥ (٣٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٥) ، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٥٩ (١٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1349
ایک دوسری قسم کی تسبیح سے متعلق
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ہر نماز کے بعد تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد لله اور چونتیس بار اللہ أکبر کہیں، پھر ایک انصاری شخص سے اس کے خواب میں پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں ہر نماز کے بعد تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد لله اور چونتیس بار اللہ أکبر کہنے کا حکم دیا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، تو پوچھنے والے نے کہا : تم انہیں پچیس، پچیس بار کرلو، اور باقی پچیس کی جگہ لا الٰہ إلا اللہ کہا کرو، تو جب صبح ہوئی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا، تو آپ نے فرمایا : اسے اسی طرح کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٦) ، مسند احمد ٥/١٨٤، ١٩٠، سنن الدارمی/الصلاة ٩٠ (١٣٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1350
ایک دوسری قسم کی تسبیح سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دیکھا جیسے سونے والا خواب دیکھتا ہے، اس سے خواب میں پوچھا گیا : تمہارے نبی کریم ﷺ نے تمہیں کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ اس نے کہا : آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد لله اور چونتیس بار اللہ أكبر کہیں، تو یہ کل سو ہیں، تو اس نے کہا : تم پچیس بار سبحان اللہ پچیس بار الحمد لله پچیس بار اللہ أكبر اور پچیس بار لا إله إلا اللہ کہو، یہ بھی سو ہیں، چناچہ جب صبح ہوئی تو اس آدمی نے اسے نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ایسے ہی کرلو جیسے انصاری نے کہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٨) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1351
ایک دوسری قسم کی تسبیح سے متعلق احادیث
ام المؤمنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے، اور وہ مسجد میں دعا مانگ رہی تھیں، پھر آپ ان کے پاس سے دوپہر کے قریب گزرے (تو دیکھا وہ اسی جگہ دعا میں مشغول ہیں) تو آپ نے ان سے فرمایا : تم اب تک اسی حال میں ہو ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ بتاؤں کہ جنہیں تم کہا کرو ؟ وہ یہ ہیں : سبحان اللہ عدد خلقه سبحان اللہ عدد خلقه سبحان اللہ عدد خلقه سبحان اللہ رضا نفسه سبحان اللہ رضا نفسه سبحان اللہ رضا نفسه سبحان اللہ زنة عرشه سبحان اللہ زنة عرشه سبحان اللہ زنة عرشه سبحان اللہ مداد کلماته سبحان اللہ مداد کلماته سبحان اللہ مداد کلماته اللہ کی پاکی اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو جتنا وہ چاہے، اللہ کی پاکی بیان ہو جتنا وہ چاہے، اللہ کی پاکی بیان ہو جتنا وہ چاہے، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کے عرش کے وزن کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کے عرش کے وزن کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کے عرش کے وزن کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کے بےانتہا کلمات کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کے بےانتہا کلمات کے برابر، اللہ کی پاکی بیان ہو اس کے بےانتہا کلمات کے برابر ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الدعاء ١٩ (٢٧٢٦) ، سنن الترمذی/الدعوات ١٠٤ (٣٥٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٥٦ (٣٨٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٨) ، مسند احمد ٦/٣٢٤، ٣٢٥، ٤٢٩، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٢٦ (١٦١، ١٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1352
ایک دوسری قسم کی تسبیح کے بارے میں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ فقراء نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! مالدار لوگ (بھی) نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں، وہ بھی روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، ان کے پاس مال ہے وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، (اور ہم نہیں کر پاتے ہیں تو ہم ان کے برابر کیسے ہوسکتے ہیں) یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم لوگ نماز پڑھ چکو تو تینتیس بار سبحان اللہ تینتیس بار الحمد لله اور تینتیس بار اللہ أكبر اور دس بار لا إله إلا اللہ کہو، تو تم اس کے ذریعہ سے ان لوگوں کو پالو گے جو تم سے سبقت کر گئے ہیں، اور اپنے بعد والوں سے سبقت کر جاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٦ (٤١٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٦٨، ٦٣٩٣) (منکر) (دس بار ” لا إلٰہ إلا اللہ “ کا ذکر منکر ہے، منکر ہونے کا سبب خصیف ہیں جو حافظے کے کمزور اور مختلط راوی ہیں، نیز آخر میں ایک بار ” لا إلہ إلا اللہ “ کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے صحیح بخاری میں مروی ہے ) قال الشيخ الألباني : منکر بتعشير التهليل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1353
ایک دوسری قسم کی دعا کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فجر کی نماز کے بعد سو بار سبحان اللہ اور سو بار لا إله إلا اللہ کہے گا، اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1354
تسبیح کے شمار کرنے کے بارے میں احادیث
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تسبیح گنتے ہوئے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٩ (١٥٠٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٥ (٣٤١١) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مگر نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی یہ تسبیحات اپنی انگلیوں کے پوروں پر گنا کرتے تھے کسی اور چیز پر نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1355
سلام کے بعد چہرہ خشک نہ کرنے کے بارے میں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (رمضان کے) مہینہ کے بیچ کے دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں کا استقبال کرتے تو آپ اپنے گھر واپس آجاتے، اور وہ لوگ بھی واپس آجاتے جو آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے، پھر ایک مہینہ ایسا ہوا کہ آپ جس رات گھر واپس آجاتے تھے اعتکاف ہی میں ٹھہرے رہے، لوگوں کو خطبہ دیا، اور انہیں حکم دیا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا : میں اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا پھر میرے جی میں آیا کہ میں ان آخری دس دنوں میں اعتکاف کروں، تو جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں ہے تو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرا رہے، میں نے اس رات (لیلۃ القدر) کو دیکھا، پھر وہ مجھے بھلا دی گئی، تم اسے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ، ابو سعید خدری کہتے ہیں : اکیسویں رات کو بارش ہوئی تو مسجد رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جگہ پر ٹپکنے لگی، چناچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ رہے ہیں، اور آپ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٩٦ (ہذا الحدیث مطول، والحدیث الذي تقدم مختصر) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1356
نماز کے سلام کے بعد جس جگہ نماز پڑھی ہے اس جگہ امام کا بیٹھے رہنا
جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز فجر سے فارغ ہوجاتے تو آپ اپنے مصلیٰ ہی پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٢ (٦٧٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٥ (٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٨) ، مسند احمد ٥/٩١، ٩٧، ١٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1357
نماز کے سلام کے بعد جس جگہ نماز پڑھی ہے اس جگہ امام کا بیٹھے رہنا
سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ (رض) سے پوچھا : آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں (پھر انہوں نے بیان کیا) کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز فجر پڑھ لیتے تو اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا، پھر آپ کے صحابہ آپ سے میں بات چیت کرتے، جاہلیت کے دور کا ذکر کرتے، اور اشعار پڑھتے، اور ہنستے اور رسول اللہ ﷺ بھی مسکراتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٢ (٦٧٠) ، الفضائل ١٧ (٢٣٢٢) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠١ (١٢٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٢١٥٥) ، مسند احمد ٥/٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1358
نماز سے فارغ ہو کر کس طرف گھوما جائے؟
سدی (اسماعیل بن عبدالرحمٰن) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا کہ میں اپنے داہنے اور بائیں سلام پھیر کر کیسے پلٹوں ؟ تو انہوں نے کہا : رہا میں تو میں نے اکثر رسول اللہ ﷺ کو دائیں طرف سے پلٹتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٧ (٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧) ، مسند احمد ٣/١٣٣، ١٧٩، ٢١٧، ٢٨٠، سنن الدارمی/الصلاة ٨٩ (١٣٩١، ١٣٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1359
نماز سے فارغ ہو کر کس طرف گھوما جائے؟
اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : تم میں سے کوئی خود سے شیطان کا کوئی حصہ نہ کرے کہ غیر ضروری چیز کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے، اور داہنی طرف ہی سے پلٹنے کو اپنے اوپر لازم کرلے، میں نے تو رسول اللہ ﷺ کو اکثر بائیں طرف سے پلٹتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٩ (٨٥٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٧ (٧٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٣٣ (٩٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩١٧٧) ، مسند احمد ١/٣٨٣، ٤٢٩، ٤٦٤، سنن الدارمی/الصلاة ٨٩ (١٣٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1360
نماز سے فارغ ہو کر کس طرف گھوما جائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر، اور ننگے پاؤں اور جوتے پہن کر بھی نماز پڑھتے دیکھا ہے، اور آپ سلام پھیر نے کے بعد (کبھی) اپنے دائیں طرف پلٹتے، اور (کبھی) اپنے بائیں طرف۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٦/٨٧، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1361
خواتین نماز سے کس وقت فراغت حاصل کریں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عورتیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز فجر ادا کرتی تھیں، جب آپ سلام پھیرتے تو وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی نکل جاتیں، اور اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢١) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠ (١٢٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتیں امام کے سلام پھیرتے ہی اپنے گھروں کو واپس چلی جاتیں، تاکہ مردوں کی بھیڑ بھاڑ سے انہیں واسطہ نہ پڑے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1362
اٹھنے میں امام سے جلدی کرنا ممنوع ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : میں تمہارا امام ہوں، تو تم مجھ سے رکوع و سجود اور قیام میں جلدی نہ کرو، اور نہ ہی سلام میں، کیونکہ میں تمہیں اپنے آگے سے بھی دیکھتا ہوں، اور پیچھے سے بھی ، پھر آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم وہ چیزیں دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں تو تم ہنستے کم، اور روتے زیادہ ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے کیا دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے جنت اور جہنم دیکھی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢٥ (٤٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧) ، مسند احمد ٣/١٠٢، ١٢٦، ١٥٤، ٢١٧، ٢٤٠، ٢٤٥، ٢٩٠، سنن الدارمی/الصلاة ٧٢ (١٣٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1363
جو شخص امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو اور اس کی فراغت تک ساتھ رہے تو کیا ثواب ہے؟
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رمضان میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھے، لیکن رسول اللہ ﷺ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ رمضان کے مہینہ کی سات راتیں رہ گئیں، تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تہائی رات کے قریب گزر گئی، پھر چھٹی رات آئی لیکن آپ ہمیں پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے، پھر جب پانچویں رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تقریباً آدھی رات گزر گئی، تو ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ یہ رات پوری پڑھاتے، آپ نے فرمایا : آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے ، پھر چوتھی رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے نہیں کھڑے ہوئے، پھر جب رمضان کے مہینہ کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو کہلا بھیجا اور لوگوں کو بھی جمع کیا، اور ہمیں تراویح پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، پھر اس کے بعد مہینہ کے باقی دنوں میں آپ نے ہمیں تراویح نہیں پڑھائی۔ داود بن ابی ہند کہتے ہیں : میں نے پوچھا : فلاح کیا ہے ؟ تو انہوں نے (ولید بن عبدالرحمٰن نے) کہا : سحری کھانا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٨١ (٨٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٣ (١٣٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٣) ، مسند احمد ٥/١٥٩، ١٦٣، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٨، ١٨١٩) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٦٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1364
لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر امام کو نماز پڑھنے کیلئے جانا درست ہے
عقبہ بن حارث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ میں نماز عصر پڑھی، پھر آپ تیزی سے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے گئے یہاں تک کہ لوگ آپ کی تیزی سے تعجب میں پڑگئے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے گئے (کہ کیا معاملہ ہے) آپ اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور فرمایا : میں نماز عصر میں تھا کہ مجھے سونے کا وہ ڈلا یاد آگیا جو ہمارے پاس تھا، تو مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ رات بھر وہ ہمارے پاس پڑا رہے، لہٰذا جا کر میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥٨ (٨٥١) ، العمل فی ال صلاة ١٨ (١٢٢١) ، الزکاة ٢٠ (١٤٣٠) ، الاستئذان ٣٦ (٦٢٧٥) ، مسند احمد ٤/٧، ٨، ٣٨٤، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1365
جب نماز کا پوچھا جائے تو وہ شخص کہہ سکتا ہے نہیں پڑھی
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) غزوہ خندق کے دن سورج ڈوب جانے کے بعد کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو رسول اللہ نے فرمایا : قسم اللہ کی ! میں نے بھی نہیں پڑھی ہے ، چناچہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وادی بطحان میں اترے، پھر آپ نے نماز کے لیے وضو کیا، اور ہم نے بھی وضو کیا پھر آپ نے سورج ڈوب جانے کے باوجود (پہلے) عصر پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٦ (٥٩٦) ، ٣٨ (٥٩٨) ، الأذان ٢٦ (٦٤١) ، الخوف ٤ (٩٤٥) ، المغازي ٢٩ (٤١١٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٦ (٦٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨ (١٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1366