12. جمعہ کا بیان

【1】

نماز جمعہ کے وجوب سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (دنیا میں) ہم پیچھے آنے والے ہیں اور (قیامت میں) آگے ہوں گے، صرف اتنی بات ہے کہ انہیں (یعنی یہود و نصاریٰ کو) کتاب ہم سے پہلے دی گئی ہے، اور ہمیں ان کے بعد دی گئی ہے، یہ (جمعہ کا دن) وہ دن ہے جس دن اللہ نے ان پر عبادت فرض کی تھی مگر انہوں نے اس میں اختلاف کیا ١ ؎، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے (یعنی جمعہ کے دن سے) ہمیں نواز دیا، تو لوگ اس میں ہمارے تابع ہیں ٢ ؎، یہود کل کی یعنی ہفتہ (سنیچر) کی تعظیم کرتے ہیں، اور نصاریٰ پرسوں کی (یعنی اتوار کی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٢ (٨٩٦) ، أحادیث الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨٦) ، صحیح مسلم/الجمعة ٦ (٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٢، ١٣٦٨٣) ، مسند احمد ٢/ ٢٤٩، ٢٧٤، ٣٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہود نے اپنے لیے ہفتہ (سنیچر) کا دن تجویز کرلیا اور نصایٰ نے اتوار کا۔ ٢ ؎: کیونکہ جمعہ ہی کے دن اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1367

【2】

یہودی ایک روز ہم لوگوں کے بعد ہیں اور نصاری ہم سے دو دن کے بعد

ابوہریرہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ سے بھٹکا دیا، یہود کے لیے ہفتہ (سنیچر) کا دن مقرر ہوا، اور نصرانیوں کے لیے اتوار کا، پھر اللہ تعالیٰ ہمیں لایا تو اس نے ہمیں جمعہ کے دن سے نوازا، تو اب (پہلے) جمعہ ہے، پھر ہفتہ (سنیچر) پھر اتوار، اس طرح یہ لوگ قیامت تک ہمارے تابع ہوں گے، ہم دنیا میں بعد میں آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٦ (٨٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٨ (١٠٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تمام مخلوقات سے پہلے ہمارا فیصلہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1368

【3】

نماز جمعہ چھوڑنے کی وعید کا بیان

ابوجعد ضمری (رض) (جنہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے تین جمعہ سستی سے چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١٠ (١٠٥٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٢، الجمعة ٧ (٥٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٣ (١١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٨٣) ، مسند احمد ٣/٤٢٤، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٥ (١٦١٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا دل خیر اور ہدایت کے قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دئیے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1369

【4】

نماز جمعہ چھوڑنے کی وعید کا بیان

عبداللہ بن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے منبر کے زینے سے فرمایا : لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا ١ ؎ اور وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٢ (٨٦٥) (وفیہ ” أبو ھریرة “ بدل ” ابن عباس “ )، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٧ (٧٩٤) (تحفة الأشراف : ٥٤١٣، ٦٦٩٦) ، (وفیہ ” الجماعات “ بدل ” الجمعات “ )، مسند احمد ١/٢٣٩، ٢٥٤، ٣٣٥ و ٢/٨٤، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٥ (١٦١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا مسلسل جمعہ کا چھوڑنا ایسا خطرناک فعل ہے جس سے دلوں پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد انسان کے لیے اخروی فلاح و نجات کی امید ختم ہوجاتی ہے۔ ٢ ؎: غافلوں میں سے ہوجائیں کا مطلب ہے کہ اللہ کے ذکر اور اس کے احکام سے بالکل بےپرواہ ہوجائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1370

【5】

نماز جمعہ چھوڑنے کی وعید کا بیان

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے لیے (مسجد) جانا ہر بالغ مرد پر فرض ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٢٩ (٣٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٦) ، (و عندہ زیادة ” وعلی کل من راح إلی الجمعة الغسل “ ) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1371

【6】

بغیر عذر نماز جمعہ چھوڑنے کا کفارہ

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بنا کسی عذر کے جمعہ چھوڑ دے تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اور اگر ایک دینار نہ ہو تو آدھا دینار ہی کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢١١ (١٠٥٣، ١٠٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٣١) ، مسند احمد ٥/٨، ١٤ (ضعیف) (اس کے راوی ” قدامہ “ مجہول ہیں، نیز ” سمرہ (رض) “ سے ان کا سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1372

【7】

فضیلت جمعہ سے متعلق احادیث

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم (علیہ السلام) پیدا کیے گئے، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اور اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٥ (٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٩) ، مسند احمد ٢/٤٠١، ٤١٨، ٥١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے جمعہ کے دن کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے امور سر انجام پائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1373

【8】

جمعہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بکثرت درود بھیجنا

اوس بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل (بہترین) جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم (علیہ السلام) پیدا ہوئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بیہوشی طاری ہوگی، لہٰذا تم مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلاۃ (درود و رحمت) بھیجو کیونکہ تمہاری صلاۃ (درود و رحمت) مجھ پر پیش کیے جائیں گے ١ ؎ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہماری صلاۃ (درود و رحمت) آپ پر کس طرح پیش کی جائیں گی حالانکہ آپ ریزہ ریزہ ہوچکے ہوں گے یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے، کہ آپ بوسیدہ ہوچکے ہوں گے، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے جسم کو کھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٧ (١٠٤٧) ، ٣٦١ (١٥٣١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٩ (١٠٨٥) ، الجنائز ٦٥ (١٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٦) ، مسند احمد ٤/٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تمہارے درود مجھ پر پیش کیے جائیں گے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ براہ راست کسی کا درود نہیں سنتے نہ قریب سے نہ بعید سے، قریب سے سننے کی ایک روایت مشہور ہے لیکن وہ صحیح نہیں، صحیح یہی ہے کہ آپ خود کسی کا درود نہیں سنتے فرشتے ہی آپ کا درود پہنچاتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1374

【9】

جمعہ کے دن مسواک کرنے کا حکم

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا واجب ہے، مسواک کرنا بھی، اور خوشبو جس پر وہ قادر ہو لگانا بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣ (٨٨٠) ، صحیح مسلم/الجمعة ٢ (٨٤٦) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٢٩ (٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٦) ، مسند احمد ٣/٣٠، ٦٥، ٦٦، ٦٩، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٣٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1375

【10】

جمعہ کے دن غسل کرنے سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمعہ (کی نماز) کے لیے آئے تو اسے چاہیئے کہ غسل کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢ (٨٧٧) ، ١٢ (٨٩٤) ، ٢٦ (٩١٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٨١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة (٨٤٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٨، الجمعة ٣ (٤٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٨) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (٥) ، مسند احمد ٢/٣، ٩، ٣٥، ٣٧، ٤١، ٤٢، ٤٨، ٥٣، ٥٥، ٥٧، ٦٤، ٧٧، ٧٨، ١٠١، ١٠٥، ١١٥، ١٢٠، ١٤١، ١٤٥، ١٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1376

【11】

غسل جمعہ واجب ہے

ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ شخص پر واجب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٥٨) ، الجمعة ٢ (٨٧٩) ، ١٢ (٨٩٥) ، الشھادات ١٨ (٢٦٦٥) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٦) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٢٩ (٣٤١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٩) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦١) ، مسند احمد ٣/٦، ٦٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٠ (١٥٧٨، ١٥٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمعہ کی نماز کے لیے غسل شروع میں واجب تھا، جو بعد میں منسوخ ہوگیا، دیکھئیے حدیث رقم : ١٣٨٠ ، ١٣٨١ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1377

【12】

غسل جمعہ واجب ہے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان شخص پر ہر سات دن میں ایک دن کا غسل ہے، اور وہ جمعہ کا دن ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، مسند احمد ٣/٣٠٤، (تحفة الأشراف : ٢٧٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1378

【13】

جمعہ کے دن اگر غسل نے کرے تو کیا کرنا چاہئے؟

قاسم بن محمد ابن ابی بکر کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جمعہ کے دن کے غسل کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا : لوگ عالیہ میں رہتے تھے، تو وہ وہاں سے جمعہ میں آتے تھے، اور ان کا حال یہ ہوتا کہ وہ میلے کچیلے ہوتے، جب ہوا ان پر سے ہوتے ہوئے گزرتی تو ان کی بو پھیلتی، تو لوگوں کو تکلیف ہوتی، رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ لوگ غسل کر کے نہیں آسکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٦ (٩٠٣) ، البیوع ١٥ (٢٠٧١) ، صحیح مسلم/الجمعة ١ (٨٤٧) ، سنن ابی داود/الطہارة ١٣٠ (٣٥٢) نحوہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عالیہ شہر مدینہ سے جنوب مشرق میں جو آباد یاں تھیں انہیں عالیہ (یا عوالی) کہا جاتا تھا، آج بھی انہیں عوالی کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1379

【14】

جمعہ کے دن اگر غسل نے کرے تو کیا کرنا چاہئے؟

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور یہ خوب ہے ١ ؎ اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : حسن بصری نے سمرہ (رض) سے اس حدیث کو ان کی کتاب سے روایت کیا ہے، کیونکہ حسن نے سمرہ سے سوائے عقیقہ والی حدیث کے کوئی اور حدیث نہیں سنی ہے ٢ ؎ واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٣٠ (٣٥٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٠ (الجمعة ٥) (٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨٧) ، مسند احمد ٥/٨، ١١، ١٥، ١٦، ٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٠ (١٥٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فبہا کا مطلب ہے فبالرخص ۃ أخذ یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور نِعْمَتْ کا مطلب نعمت ہی الرخص ۃ ہے یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے عدم وجوب پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔ ٢ ؎: صحیح بخاری میں حدیث عقیقہ کے علاوہ بھی حسن بصری کی سمرہ (رض) سے روایات موجود ہیں، اس بابت اختلاف ہے، مگر علی بن المدینی اور امام بخاری کی ترجیح یہی ہے کہ حسن بصری نے حدیث عقیقہ کے علاوہ بھی سمرہ (رض) سے سنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1380

【15】

غسل جمعہ کی فضلیت

اوس بن اوس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو غسل کرائے ١ ؎ غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطھارة ١٢٩ (٣٤٥، ٣٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٩ (الجمعة ٤) (٤٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٠ (١٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥) ، مسند احمد ٤/٨، ٩، ١٠، ١٠٤، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٣٨٥، ١٣٩٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جمعہ کے لیے اپنے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1381

【16】

جمعہ کے لئے کیسا لباس ہونا چاہئے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے (ریشم کا) ایک جوڑا (بکتے) دیکھا، تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ اسے خرید لیتے، اور جمعہ کے دن، اور باہر کے وفود کے لیے جب وہ آپ سے ملنے آئیں پہنتے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے تو وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو ، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس اس طرح کے کچھ جوڑے آئے، آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر (رض) کو دیا، تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے اسے پہننے کے لیے دیا ہے حالانکہ عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے ایسا ایسا کہا تھا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے یہ جوڑا تمہیں اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم خود پہنو ، تو عمر (رض) نے اسے اپنے مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٧ (٨٨٦) ، العیدین ١ (٩٤٨) ، الھبة ٢٧ (٢٦١٢) ، ٢٩ (٢٦١٩) ، الجھاد ١٧٧ (٣٠٥٤) (وفیہ ” العید “ بدل ” الجمعة “ )، اللباس ٣٠ (٥٨٤١) ، الأدب ٩ (٥٩٨١) ، ٦٦ (٦٠٨١) (بدون ذکر الجمعة أو العید) ، صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٩ (١٠٧٦) ، اللباس ١٠ (٤٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ١٦ (٣٥٩١) ، موطا امام مالک/اللباس ٨ (١٨) ، مسند احمد ٢/٢٠، ٣٩، ٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1382

【17】

جمعہ کے لئے کیسا لباس ہونا چاہئے؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، اور خوشبو لگانا جس پر وہ قادر ہو، ہر بالغ شخص پر واجب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر حدیث رقم : ١٣٧٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1383

【18】

نماز جمعہ کے لئے جانے کی فضیلت سے متعلق

اوس بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اپنی بیوی کو غسل کرائے، صبح سویرے ہی جمعہ کے لیے نکلے، شروع خطبہ ہی سے موجود رہے، پیدل چل کر مسجد جائے، سواری نہ کرے، امام سے قریب بیٹھے، اور خاموش رہے کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کے ہر قدم پر ایک سال کے عمل کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1384

【19】

جمعہ کے دن مسجد جلدی جانے کے فضائل

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣١ (٩٢٩) ، بدء الخلق ٦ (٣٢١١) ، صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٥) ، مسند احمد ٢/٢٥٩، ٢٦٣، ٢٦٤، ٢٨٠، ٥٠٥، ٥١٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٣ (١٥٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنی جلدی پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا، اور جتنی تاخیر کرے گا اتنا ہی ثواب میں کمی آتی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1385

【20】

جمعہ کے دن مسجد جلدی جانے کے فضائل

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے لوگوں کو ان کے درجات و مراتب کے مطابق یعنی ترتیب وار لکھتے ہیں، جو پہلے آتا ہے اسے پہلے لکھتے ہیں، جب امام خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو رجسٹر لپیٹ دیے جاتے ہیں، اور فرشتے خطبہ سننے لگتے ہیں، جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے کی طرح ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ ایک گائے قربان کرنے والے کی طرح ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ ایک مینڈھا قربان کرنے والے کی طرح ہے ، یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے کا (بھی) ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٧ (٨٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٢ (١٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٨) ، مسند احمد ٢/٢٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1386

【21】

جمعہ کے دن مسجد جلدی جانے کے فضائل

ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمعۃ المبارک کے دن فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب کے مطابق لکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی تو اس آدمی کی طرح ہوں گے جس نے اعلیٰ درجے کا اونٹ صدقہ کیا، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کا اونٹ صدقہ کیا، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی گائے صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی گائے صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین مرغی صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی مرغی صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے قیمتی چڑیا صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام چڑیا صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین انڈہ صدقہ کیا اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام انڈہ صدقہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٥٨٣) (حسن صحیح) (لیکن عصفور (گوریا) کا لفظ منک رہے، معروف ” دجاجہ “ (مرغی) کا لفظ ہے جیسا کہ پچھلی روایات میں گزرا، اور نکارت کا سبب ” ابن عجلان “ ہیں، ان سے ابوہریرہ کی روایات میں بڑا وہم ہوا ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح لکن قوله عصفور منکر والمحفوظ دجاجة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1387

【22】

جمعہ کے دن کس وقت نماز کیلئے جانا افضل ہے؟

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ (جمعہ میں شریک ہونے کے لیے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا، تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا، اور جو چوتھی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک انڈا پیش کیا، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آجاتے ہیں، اور خطبہ سننے لگتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٤ (٨٨١) ، ٣١ (٩٢٩) ، صحیح مسلم/الجمعة ٢ (٨٥٠) ، سنن ابی داود/الطھارة ١٢٩ (٣٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤١ (الجمعة ٦) (٤٩٩) ، موطا امام مالک/الجمعة ١ (١) ، مسند احمد ٢/٤٦٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٣ (١٥٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نام درج کرنے والا رجسٹر بند کردیتے ہیں، اس میں نماز جمعہ کے لیے جلد سے جلد جانے کی ترغیب و فضیلت کا بیان ہے، جو جتنی جلدی جائے گا اتنا ہی زیادہ ثواب کا مستحق ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1388

【23】

جمعہ کے دن کس وقت نماز کیلئے جانا افضل ہے؟

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ کا دن بارہ ساعتوں (گھڑیوں) پر مشتمل ہے، اس کی ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں جو بھی مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے ہوئے پایا جاتا ہے، تو اسے وہ دیتا ہے، تو تم اسے آخری گھڑی میں عصر کے بعد تلاش کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٨ (١٠٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس گھڑی کے بارے میں علماء میں بہت اختلاف ہے، بعض علماء کے نزدیک راجح قول یہی ہے جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں : یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے تک کے درمیانی وقفے میں ہوتی ہے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1389

【24】

جمعہ کے دن کس وقت نماز کیلئے جانا افضل ہے؟

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے، پھر ہم لوٹتے تو اپنے اونٹوں کو آرام دیتے، میں نے کہا : وہ کون سا وقت ہوتا ؟ ، انہوں نے کہا : سورج ڈھلنے کا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ٩ (٨٥٨) ، مسند احمد ٣/٣٣١، (تحفة الأشراف : ٢٦٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1390

【25】

جمعہ کے دن کس وقت نماز کیلئے جانا افضل ہے؟

سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر ہم اس حال میں لوٹتے کہ دیواروں کا سایہ نہ ہوتا جس سے سایہ حاصل کیا جاسکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٥ (٤١٦٨) ، صحیح مسلم/الجمعة ٩ (٨٦٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٤ (١٠٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٤ (١١٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٥١٢) ، مسند احمد ٤/٤٦، ٥٠، ٥٤، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٤ (١٥٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زوال ہوئے ابھی تھوڑا سا وقت گزرا ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1391

【26】

اذان جمعہ سے متعلق احادیث

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا، پھر جب عثمان (رض) عنہ کا دور خلافت آیا، اور لوگ بڑھ گئے تو انہوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا ١ ؎، وہ اذان مقام زوراء پر دی گئی، پھر اسی پر معاملہ قائم رہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢١ (٩١٢) ، ٢٢ (٩١٣) ، ٢٤ (٩١٥) ، ٢٥ (٩١٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٥ (١٠٨٧، ١٠٨٨، ١٠٨٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٥ (الجمعة ٢٠) (٥١٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٧ (١١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٩) ، مسند احمد ٣/٤٤٩، ٤٥٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تکبیر کو شامل کر کے تیسری اذان ہوئی، یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان غنی (رض) کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہوگی جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان تکبیر ہے، اگر کوئی صرف اذان اور تکبیر پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت کی اتباع کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1392

【27】

اذان جمعہ سے متعلق احادیث

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ تو تیسری اذان کا حکم عثمان (رض) عنہ نے دیا تھا جب اہل مدینہ زیادہ ہوگئے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا صرف ایک ہی مؤذن تھا، اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : أنظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1393

【28】

اذان جمعہ سے متعلق احادیث

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) اس وقت اذان دیتے جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے، پھر جب آپ اترتے تو وہ اقامت کہتے، اسی طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی ہوتا رہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1394

【29】

امام جب خطبہ کے واسطے نکل چکا ہو تو اس وقت مسجد میں آجائے تو سنت پڑھے یا نہیں؟

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی (مسجد) آئے اور امام (خطبہ کے لیے) نکل چکا ہو ١ ؎ تو چاہیئے کہ وہ دو رکعت پڑھ لے ۔ شعبہ کی روایت میں ہے : جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٢٥ (١١٦٦) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٤٩) ، مسند احمد ٣/٣٨٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٥٩٢) ، وانظر أیضا مایأتی برقم : ١٤٠١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خواہ اس نے خطبہ شروع کردیا ہو یا ابھی نہ کیا ہو، بلکہ ایک روایت میں والإمام یخطب کے الفاظ وارد ہیں، اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ امام کے خطبہ دینے کی حالت میں بھی یہ دونوں رکعتیں پڑھی جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1395

【30】

امام خطبہ کے لئے کس چیز پر کھڑا ہو؟

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ دیتے تو مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنا سے آپ ٹیک لگاتے تھے، پھر جب منبر بنایا گیا، اور آپ اس پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون (جس سے آپ سہارا لیتے تھے) بیقرار ہو کر رونے لگا جس طرح اونٹنی روتی ہے، یہاں تک کہ اسے مسجد والوں نے بھی سنا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اتر کر اس کے پاس گئے، اور اسے گلے سے لگایا تو وہ چپ ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٦ (٩١٧) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٩ (١٤١٧) ، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٨٧٧) ، مسند احمد ٣/٢٩٥، ٣٠٠، ٣٠٦، ٣٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1396

【31】

امام خطبہ کے لئے کس چیز پر کھڑا ہو؟

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں آئے اور عبدالرحمٰن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے تو انہوں نے کہا : اس شخص کو دیکھو بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وترکوک قائما اور جب وہ کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں (الجمعہ : ١١ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١١ (٨٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٢٠) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1397

【32】

امام کے قریب بیٹھنے کی فضیلت

اوس بن اوس ثقفی (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص غسل کرائے اور خود بھی غسل کرے، اور مسجد کے لیے سویرے نکل جائے، اور امام سے قریب رہے، اور خاموشی سے خطبہ سنے، پھر کوئی لغو کام نہ کرے، تو اسے ہر قدم کے عوض ایک سال کے روزے، اور قیام کا ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1398

【33】

جس وقت امام منبر پر خطبہ دے رہا ہو تو لوگوں کی گردنیں پھلانگنا ممنوع ہے

ابوالزاہریہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے روز عبداللہ بن بسر (رض) کے بغل میں بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا : ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : اے فلان ! بیٹھ جاؤ تم نے (لوگوں کو) تکلیف دی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٨ (١١١٨) ، (تحفة الأشراف : ٥١٨٨) ، مسند احمد ٤/١٨٨، ١٩٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس صورت میں ہے جب اگلی صفوں میں خالی جگہ نہ ہو لیکن اگر لوگوں نے خالی جگہ چھوڑ رکھی ہو تو گردنیں پھلانگ کر جانا درست ہوگا، یا یہ اس وقت کے ساتھ خاص ہے جب امام منبر پر بیٹھا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1399

【34】

اگر امام خطبہ دے رہا ہو اور اس وقت کوئی شخص آجائے تو نماز پڑھے یا نہیں؟

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن منبر پر تھے، ایک آدمی (مسجد میں) آیا تو آپ نے اس سے پوچھا : کیا تم نے دو رکعتیں پڑھ لیں ؟ اس نے کہا : نہیں، تو آپ نے فرمایا : تو پڑھ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٢ (٩٣٠) ، ٣٣ (٩٣١) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٧ (١١١٥) ، سنن الترمذی/فیہ ٢٥٠ (الجمعة ١٥) (٥١٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٧ (١١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٥٧) ، مسند احمد ٣/٢٩٧، ٣٠٨، ٣٦٩، ٣٨٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٤٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ جمعہ سے پہلے کتنی سنتیں ہیں، اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں آنے والا دو رکعت پڑھ کر بیٹھے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ جمعہ کے دوران بھی آئے تو وہ بھی مختصر طور پر دو رکعت ضرور پڑھے پھر خطبہ سنے تاہم خطبہ سے پہلے آنے والا شخص دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرنے کے بعد دو دو کر کے جتنے چاہے نوافل پڑھ سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1400

【35】

جس وقت خطبہ ہو رہا ہو تو خاموش رہنا چاہئے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا : خاموش رہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس نے لغو حرکت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٦ (٩٣٤) ، صحیح مسلم/الجمعة ٣ (٨٥١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥١ (الجمعة ١٦) (٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٦ (١١١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٠٦) ، موطا امام مالک/الجمعة ٢ (٦) ، مسند احمد ٢/٢٤٤، ٢٧٢، ٢٨٠، ٣٩٣، ٣٩٦، ٤٨٥، ٥١٨، ٥٣٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٥ (١٥٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1401

【36】

جس وقت خطبہ ہو رہا ہو تو خاموش رہنا چاہئے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم اپنے ساتھ والے سے جمعہ کے دن کہو : خاموش رہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو کام کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1402

【37】

خاموش رہنے کے فضائل سے متعلق

سلمان (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی آدمی پاکی حاصل کرتا ہے جیسا کہ اسے حکم دیا گیا، پھر وہ اپنے گھر سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ جمعہ میں آتا ہے، اور خاموش رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز ختم کرلے، تو (اس کا یہ عمل) اس کے ان گناہوں کے لیے کفارہ ہوگا جو اس سے پہلے کے جمعہ سے اس جمعہ تک ہوئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٥٠٨) ، مسند احمد ٥/٤٣٨، ٤٣٩، ٤٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1403

【38】

خطبہ کس طریقہ سے پڑھے؟

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں خطبہ حاجة ١ ؎ سکھایا، اور وہ یہ ہے : الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد اور گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شر انگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ، پھر آپ یہ تین آیتیں پڑھتے : يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیئے، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا (آل عمران : ١٠٢ ) ۔ يا أيها الناس اتقوا ربکم الذي خلقکم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا کثيرا ونساء واتقوا اللہ الذي تساءلون به والأرحام إن اللہ کان عليكم رقيبا‏ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے (الاحزاب : ٧٠ ) يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سديدا اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور صحیح و درست بات کہو (النساء : ١ ) ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابوعبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود (رض) سے نہیں سنا ہے، نہ ہی عبدالرحمٰن بن عبداللہ ابن مسعود نے، اور نہ ہی عبدالجبار بن وائل بن حجر نے، (یعنی ان تینوں کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٣٣ (٢١١٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/النکاح ١٧ (١١٠٥) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ١٩ (١٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٨) ، مسند احمد ١/٣٩٢، ٤٣٢، سنن الدارمی/النکاح ٢٠ (٢٢٤٨) (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ” ابو عبیدہ “ اور ان کے باپ ” ابن مسعود “ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، دیکھئے البانی کا رسالہ خطبة الحاجہ ) وضاحت : ١ ؎: حاجۃ کا لفظ عام ہے نکاح اور بیع وغیرہ سبھی چیزوں کو شامل ہے، اسی وجہ سے امام شافعی نے بیع و نکاح وغیرہ تمام عقود میں اس خطبہ کے پڑھنے کو مسنون قرار دیا ہے۔ نسائی کی اس سند میں بھی ابوعبیدہ ہیں، مگر ابوداؤد اور دیگر کی سندوں میں ابو عبیدہ کی جگہ ابوالاحوص ہیں، جن کا سماع ابن مسعود (رض) سے ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1404

【39】

خطبہ جمعہ میں غسل کی ترغیب سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے جائے تو اسے چاہیئے کہ غسل کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٦٥٠) ، مسند احمد ٢/٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1405

【40】

خطبہ جمعہ میں غسل کی ترغیب سے متعلق احادیث

ابراہیم بن نشیط سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن شہاب زہری سے جمعہ کے دن کے غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : سنت ہے، اور اسے مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے منبر پر بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٨٠٥) ، مسند احمد ٢/٣٥ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1406

【41】

خطبہ جمعہ میں غسل کی ترغیب سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے کھڑے فرمایا : جو شخص تم میں سے جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ وہ غسل کرلے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند پر لیث کی متابعت کی ہو سوائے ابن جریج کے، اور زہری کے دیگر تلامذہ عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر کے بدلے سالم بن عبداللہ عن أبيه کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة (٨٤٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٨ (٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٠) ، مسند احمد ٢/١٢٠، ١٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1407

【42】

جمعہ کے روز امام کو خیرات کرنے کی ترغیب دینا چاہئے

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو ایک آدمی خستہ حالت میں (مسجد میں) آیا اس سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے نماز پڑھی ؟ اس نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : دو رکعتیں پڑھ لو ، اور آپ نے (دوران خطبہ) لوگوں کو صدقہ پر ابھارا، لوگوں نے صدقہ میں کپڑے دیئے، تو آپ ﷺ نے ان میں سے دو کپڑے اس شخص کو دیے، پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو وہ شخص پھر آیا، اس وقت بھی رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے لوگوں کو پھر صدقہ پر ابھارا، تو اس شخص نے بھی اپنے کپڑوں میں سے ایک کپڑا ڈال دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ شخص (پچھلے) جمعہ کو بڑی خستہ حالت میں آیا، تو میں نے لوگوں کو صدقے پر ابھارا، تو انہوں نے صدقے میں کپڑے دیئے، میں نے اس میں سے دو کپڑے اس شخص کو دینے کا حکم دیا، اب وہ پھر آیا تو میں نے پھر لوگوں کو صدقے کا حکم دیا تو اس نے بھی اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا ، پھر آپ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا : اپنا کپڑا اٹھا لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٠ (الجمعة ١٥) (٥١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٧ (١١١٣) ، مسند احمد ٣/٢٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٦ (١٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: رسول اللہ ﷺ نے اس کا صدقہ قبول نہیں کیا کیونکہ اس کے پاس صرف دو ہی کپڑے تھے جو اس کی ضرورت سے زائد نہیں تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1408

【43】

امام کا منبر پر بیٹھ کر اپنی رعایا سے خطاب کرنا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی آیا ١ ؎ (اور بیٹھ گیا) تو آپ ﷺ نے اس سے کہا : تم نے سنت پڑھ لی ؟ ، اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : کھڑے ہوجاؤ اور (سنت) پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٢ (٩٣٠) ، صحیح مسلم/الجمعة ١٤ (٨٧٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٧ (١١١٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٠ (٥١٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ سلیک غطفانی تھے جیسا کہ ابوداؤد کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1409

【44】

امام کا منبر پر بیٹھ کر اپنی رعایا سے خطاب کرنا

ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا، حسن (رض) آپ کے ساتھ تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، تو کبھی ان کی طرف، اور آپ فرما رہے تھے : میرا یہ بچہ سردار ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلح ٩ (٢٧٠٤) ، المناقب ٢٥ (٣٦٢٩) ، فضائل الصحابة ٢٢ (٣٧٤٦) ، الفتن ٢٠ (٧١٠٩) ، سنن ابی داود/السنة ١٣ (٤٦٦٢) ، سنن الترمذی/المناقب ٣١ (٣٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٨) ، مسند احمد ٥/٣٧، ٤٤، ٤٩، ٥١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: الحمدللہ نبی اکرم ﷺ کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور امت مسلمہ کے دو گروہ باہم متفق ہوگئے ہوا یہ کہ حسن (رض) نے خلافت سے دستبرداری فرمائی اور ساری امت معاویہ (رض) کی امارت پر متفق ہوگئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1410

【45】

خطبہ میں قرآن پڑھنا

حارثہ بن نعمان (رض) کی بیٹی (ام ہشام) کہتی ہیں کہ میں نے ق والقرآن المجيد کو جمعہ کے دن منبر پر رسول اللہ ﷺ کے منہ سے سن سن کر یاد کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٩ (١١٠٠، ١١٠٢، ١١٠٣) ، مسند احمد ٦/٤٣٥، ٤٦٣، (تحفة الأشراف : ١٨٣٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے خطبے میں پوری سورة ق پابندی سے پڑھا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1411

【46】

دوران خطبہ اشارہ کرنا

حصین سے روایت ہے کہ بشر بن مروان نے جمعہ کے دن منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، تو اس پر عمارہ بن رویبہ ثقفی (رض) نے انہیں برا بھلا کہا، اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے زیادہ نہیں کیا، اور انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٣ (٨٧٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٠ (١١٠٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٤ (الجمعة ١٩) (٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٧) ، مسند احمد ٤/١٣٥، ١٣٦، ٢٦١، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠١ (١٦٠١، ١٦٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1412

【47】

خطبہ ختم کرنے سے پہلے منبر سے اترنا اور پھر واپس جانا

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپ ﷺ (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آگئے، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے إنما أموالکم وأولادکم فتنة تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کرسکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٣٣ (١١٠٩) ، سنن الترمذی/المناقب ٣١ (٣٧٧٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٠ (٣٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٩٥٨) ، مسند احمد ٥/٣٥٤، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٥٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1413

【48】

خطبہ مختصر دینا مستحب ہے

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذکرو اذکار زیادہ کرتے، لایعنی باتوں سے گریز کرتے، نماز لمبی پڑھتے، اور خطبہ مختصر دیتے تھے، اور بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ جانے میں کہ ان کی ضرورت پوری کریں، عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥١٨٣) ، سنن الدارمی/المقدمة ١٣ (٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1414

【49】

بروز جمعہ کتنے خطبے دئیے جائیں؟

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی ہم نشینی کی، تو میں نے آپ کو کھڑے ہو کر ہی خطبہ دیتے دیکھا، آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور دوسرا خطبہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢١٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٧٦٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٨ (١٠٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٥ (١١٠٥) ، مسند احمد ٥/٨٧، ٨٨، ٨٩، ٩٠، ٩١، ٩٢، ٩٣، ٩٤، ٩٥، ٩٧، ٩٨، ٩٩، ١٠٠، ١٠١، ١٠٢، ١٠٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٩٩ (١٥٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1415

【50】

دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر دو خطبے دیتے تھے، ان دونوں کے بیچ میں بیٹھ کر فصل کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٣٠ (٩٢٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤٦ (٥٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٥ (١١٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٨١٢) ، مسند احمد ٢/٩٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1416

【51】

خطبوں کے درمیان خاموش بیٹھنا

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا، پھر آپ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے اور دوسرا خطبہ دیتے، جو تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو جھوٹا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢١٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٠ (٨٦٢) ، مسند احمد ٥/٨٩، ٩٠، ٩١، ٩٣، ٩٥، ١٠٠ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1417

【52】

دوسرے خطبہ میں قرأت کرنا اور اللہ عز وجل کا ذکر کرنا

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور کچھ آیتیں پڑھتے، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ١ ؎ اور آپ کا خطبہ درمیانی ہوتا تھا، اور نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٩ (١١٠١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٥ (١١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٣) ، مسند احمد ٥/٨٦، ٨٨، ٩١، ٩٣، ٩٨، ١٠٢، ١٠٦، ١٠٧ ں ویأتی عند المؤلف فی العیدین ٢٦ (برقم : ١٥٨٥) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ (رض) ہی کی ایک روایت میں یہ صراحت ہے کہ آپ جمعہ میں دو خطبے دیتے تھے، اور دونوں میں تلاوت قرآن اور وعظ و تذکیر کیا کرتے تھے، اس لیے وعظ و تذکیر کے لیے صرف پہلے خطبے کو خاص کرلینا خلاف سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1418

【53】

منبر سے نیچے اتر کر کھڑا ہونا یا کسی سے گفتگو کرنا

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر سے اترتے پھر کوئی آدمی آپ کے سامنے آجاتا تو آپ اس سے گفتگو کرتے، اور نبی اکرم ﷺ اس کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری نہ کرلیتا یعنی اپنی بات ختم نہ کرلیتا، پھر آپ اپنی جائے نماز کی طرف بڑھتے، اور نماز پڑھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٠ (١١٢٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٦ (الجمعة ٢١) (٥١٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٨٩ (١١١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٠) ، مسند احمد ٣/١١٩، ١٢٧، ٢١٣ (شاذ) (صحیح بات یہ ہے کہ واقعہ عشاء کی صلاة میں پیش آیا تھا، بقول امام بخاری اس میں جریر بن حازم سے وہم ہوگیا ہے، کما نقل عنہ الترمذی ) قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ أن ذلک کان في صلاة العشاء صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1419

【54】

نماز جمعہ کی رکعات

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے کہا کہ جمعہ کی نماز، عید الفطر کی نماز، اور عید الاضحی کی نماز، اور سفر کی نماز، دو دو رکعتیں ہیں، اور یہ بزبان محمد ﷺ پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عمر (رض) سے نہیں سنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٣ (١٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٦) ، مسند احمد ١/٣٧، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٤٤١ و ١٥٦٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محقق بات یہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا سماع عمر (رض) سے ثابت ہے، دیکھئیے مسند احمد، ونصب الرایہ ( ٢ /١٨٩) نیز ابن ماجہ کی دوسری سند ( ١٠٦٤ ) میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اور عمر (رض) کے درمیان کعب بن عجرہ (رض) کا واسطہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1420

【55】

نماز جمعہ میں سو رہ جمعہ اور سورت منافقون پڑھنا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے روز نماز فجر میں ‏الم * تنزيل اور هل أتى على الإنسان پڑھتے، اور جمعہ کی صلاۃ میں سورة جمعہ اور سورة منافقون پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1421

【56】

نماز جمعہ میں سورت الاعلی اور سورت غاشیہ کی تلاوت کرنے کا بیان

سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ میں سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٢ (١١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٥) ، مسند احمد ٥/٧، ١٣، ١٤، ١٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں اور اس سے پہلے والے باب کی روایت میں بظاہر تعارض ہے، پر یہ اختلاف دونوں کے جواز اور دونوں کے مسنون ہونے پر دلالت کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ کبھی آپ جمعہ کی پہلی رکعت میں سورة جمعہ اور دوسری رکعت میں سورة منافقون پڑھتے اور کبھی سبح اسم ربک الأعلى اور هل أتاک حديث الغاشية پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1422

【57】

نعمان بن بشیر سے جمعہ میں قرأت سے متعلق مختلف احادیث

عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن سورة الجمعہ کے بعد کون سی سورة پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ‏هل أتاک حديث الغاشية‏ پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٢ (١١٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٠ (١١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٤) ، موطا امام مالک/الجمعة ٩ (١٩) ، مسند احمد ٤/٢٧٠، ٢٧٧، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٣ (١٦٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1423

【58】

نعمان بن بشیر سے جمعہ میں قرأت سے متعلق مختلف احادیث

حبیب بن سالم نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ میں سبح اسم ربک الأعلى اور ‏هل أتاک حديث الغاشية‏ پڑھتے تھے اور جب کبھی عید اور جمعہ دونوں جمع ہوجاتے تو ان دونوں میں بھی آپ انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٦ (٨٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٢ (١١٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٨ (الجمعة ٣٣) (٥٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٧ (١٢٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٢) ، مسند احمد ٤/٢٧١، ٢٧٣، ٢٧٦، ٢٧٧، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٣ (١٦٠٩) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٥٦٩، ١٥٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1424

【59】

جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی اس کا جمعہ ادا ہوگیا

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کی نماز میں سے ایک رکعت پا لی تو اس نے (جمعہ کی نماز) پا لی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦٠ (٥٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩١ (١١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٣) ، مسند احمد ٢/٢٤١، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٦) (شاذ بذکر الجمعة) (جمعہ کا لفظ صرف مؤلف کے یہاں ہے، باقی تمام محدثین کے یہاں صرف ” صلاة “ کا لفظ ہے، تفاصیل کے لیے مذکور تخریج ملاحظہ فرمائیں، اس لیے جمعہ کا لفظ شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ بذکر الجمعة والمحفوظ الصلاة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1425

【60】

بعدجمعہ مسجد میں کتنی سنتیں ادا کرے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے تو اسے چاہیئے کہ اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٤ (١١٣١) ، سنن الترمذی/الصلاة (الجمعة ٢٤) (٥٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٩٥ (١١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٧ (١٦١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں چار رکعت کا ذکر ہے، اور اس کے بعد والی حدیث میں دو رکعت کا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں بعض لوگوں نے دونوں رایتوں میں اس طرح سے تطبیق دی ہے کہ جو مسجد میں پڑھے وہ چار رکعت پڑھے، اور جو گھر جا کر پڑھے وہ دو رکعت پڑھے، اسی طرح چار رکعت کس طرح پڑھی جائیں، اس میں بھی دو رائے ہے ایک رائے تو یہ ہے کہ ایک سلام کے ساتھ چاروں رکعتیں پڑھی جائیں، اور دوسری رائے یہ ہے کہ دو دو کر کے چار رکعتیں پڑھی جائیں، کیونکہ صحیح حدیث میں ہے صلا ۃ اللیل والنہارمثنیٰ مثنیٰ رات اور دن کی (نفلی نمازیں) دو دو کر کے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1426

【61】

امام کا بعد جمعہ نماز ادا کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ گھر لوٹ آتے، پھر دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٨ (٨٨٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٤ (١١٢٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٩ (الجمعة ٢٤) (٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٣) ، مسند احمد ٢/٤٤٩، ٤٩٩، وانظر حدیث رقم : ٨٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1427

【62】

امام کا بعد جمعہ نماز ادا کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٤ (١١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1428

【63】

جمعہ کے بعد دو طویل رکعات ادا کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور ان کو لمبی کرتے تھے اور کہتے : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٤ (١١٢٧، ١١٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٨، مسند احمد ٢/١٠٣ (شاذ) (ان دونوں رکعتوں کو لمبی کرنے کا ذکر شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ بذکر إطالتهما صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1429

【64】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب (کعب احبار) (رض) ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی دن قیامت قائم ہوگی، زمین پر رہنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو جمعہ کے دن قیامت کے ڈر سے صبح کو سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے، سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اور نماز کی حالت میں ہو اور وہ اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا ، کعب نے کہا : یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا : نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا ہے، یہ ہر جمعہ میں ہے۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا، تو میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری (رض) سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا : آپ کہاں سے آ رہے ہیں ؟ میں نے کہا : طور سے، انہوں نے کہا : کاش کہ میں آپ سے وہاں جانے سے پہلے ملا ہوتا، تو آپ وہاں نہ جاتے، میں نے ان سے کہا : کیوں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ فرما رہے تھے : سواریاں استعمال نہ کی جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف : ایک مسجد الحرام کی طرف، دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی کی طرف، اور تیسری مسجد بیت المقدس ١ ؎ کی طرف۔ پھر میں عبداللہ بن سلام (رض) سے ملا تو میں نے کہا : کاش آپ نے مجھے دیکھا ہوتا، میں طور گیا تو میری ملاقات کعب سے ہوئی، پھر میں اور وہ دونوں پورے دن ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں سورج نکلا، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں دنیا میں اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی میں قیامت قائم ہوگی، زمین پر کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو قیامت کے ڈر سے جمعہ کے دن صبح سے سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس مسلمان کو وہ گھڑی نماز کی حالت میں مل جائے، اور وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے گا، اس پر کعب نے کہا : ایسا دن ہر سال میں ایک ہے، تو عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : کعب نے غلط کہا، میں نے کہا : پھر کعب نے (تورات) پڑھی اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا ہے، وہ ہر جمعہ میں ہے، تو عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا : کعب نے سچ کہا، پھر انہوں نے کہا : میں اس گھڑی کو جانتا ہوں، تو میں نے کہا : اے بھائی ! مجھے وہ گھڑی بتادیں، انہوں نے کہا : وہ گھڑی جمعہ کے دن سورج ڈوبنے سے پہلے کی آخری گھڑی ہے، تو میں نے کہا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا : جو مومن اس گھڑی کو پائے اور وہ نماز میں ہو جبکہ اس گھڑی میں کوئی نماز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا : کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص نماز پڑھے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے ، میں نے کہا : کیوں نہیں سنا ہے ؟ اس پر انہوں نے کہا : تو وہ اسی طرح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٧ (١٠٤٦) مختصراً ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣٧ (الجمعة ٢) (٤٩١) مختصراً ، موطا امام مالک/الجمعة ٧ (١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٠٠٠) ، مسند احمد ٢/٤٧٦، ٥٠٤، ٥/٤٥١، ٤٥٣، وقولہ : ” فیہ ساعة لایصادفھا ۔۔۔ الخ عند الشیخین و الترمذی من طریق الأعرج عنہ، أنظر رقم : ١٤٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لہٰذا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے، ایسے ہی مقام کی زیارت کے لیے ثواب کی نیت سے جانا خواہ وہ کوئی قبر ہو یا شہر درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1430

【65】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اس گھڑی کو پالے، اور اس میں اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٣٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1431

【66】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا : جمعہ والے دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ اسے نماز میں کھڑا پالے، پھر اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے، تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دے گا ، اور آپ اسے ہاتھ کے اشارے سے کم کر کے بتا رہے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ہم کسی کون ہیں جانتے جس نے اس حدیث کو عن معمر، عن الزهري، عن سعيد (المقبري) کے طریق سے روایت کیا ہو، سوائے رباح کے، البتہ ایوب بن سوید نے اس کو عن يونس، عن الزهري، عن سعيد وأبي سلمة کے طریق سے روایت کیا ہے، لیکن ایوب بن سوید متروک الحدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٦١ (٦٤٠٠) ، صحیح مسلم/الجمعة ٤ (٨٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٠٦) ، مسند احمد ٢/٢٣٠، ٢٨٤، ٤٩٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٤ (١٦١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1432