13. نماز قصر سے متعلقہ احادیث

【1】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) سے آیت کریمہ : ‏ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنکم الذين کفروا تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے (النساء : ١٠١ ) ، کے متعلق عرض کیا کہ اب تو لوگ مامون اور بےخوف ہوگئے ہیں ؟ تو عمر (رض) نے کہا : مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا جس سے تم کو تعجب ہے، تو میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : یہ ایک صدقہ ہے ١ ؎ جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اس کے صدقہ کو قبول کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٠ (١١٩٩، ١٢٠٠) ، سنن الترمذی/تفسیر النساء ٥ (٣٠٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٣ (١٠٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٩) ، مسند احمد ١/٢٥، ٣٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسے اللہ تعالیٰ نے تمہاری کمزوری اور درماندگی کو دیکھتے ہوئے تمہاری پریشانی اور مشقت کے ازالہ کے لیے بطور رحمت تمہارے لیے مشروع کیا ہے، لہٰذا آیت میں إن خفتم (اگر تمہیں ڈر ہو) کی جو قید ہے وہ اتفاقی ہے احترازی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1433

【2】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

امیہ بن عبداللہ بن خالد سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے کہا کہ ہم قرآن میں حضر کی صلاۃ ١ ؎ اور خوف کی صلاۃ کے احکام ٢ ؎ تو پاتے ہیں، مگر سفر کی صلاۃ کو قرآن میں نہیں پاتے ؟ تو ابن عمر (رض) نے ان سے کہا : بھتیجے ! اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو ہم میں بھیجا، اور ہم اس وقت کچھ نہیں جانتے تھے، ہم تو ویسے ہی کریں گے جیسے ہم نے محمد ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قرآن کے سلسلہ میں جو مطلق اوامر وارد ہیں ان کا محمل یہی حضر کی صلاۃ ہے۔ ٢ ؎: خوف کی صلاۃ کا ذکر آیت کریمہ : وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا (النساء : 101) میں ہے۔ ٣ ؎: اور آپ نے بغیر خوف کے بھی قصر کیا ہے، لہٰذا یہ ایسی دلیل ہے جس سے اسی طرح حکم ثابت ہوتا ہے جیسے قرآن سے ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1434

【3】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے مدینہ کے لیے نکلے، آپ صرف رب العالمین سے ہی ڈر رہے تھے ١ ؎ (اس کے باوجود) آپ (راستہ بھر) دو رکعتیں ہی پڑھتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٤ (الجمعة ٣٩) (٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٣٦) ، مسند احمد ١/٢١٥، ٢٢٦، ٢٥٥، ٣٤٥، ٣٦٢، ٣٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ کسی دشمن کا کوئی خوف نہیں تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1435

【4】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کرتے تھے، ہمیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوتا تھا، پھر بھی ہم دو رکعتیں ہی پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1436

【5】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

ابن سمط کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو ذوالحلیفہ ١ ؎ میں دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے ان سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا : میں تو ویسے ہی کر رہا ہوں جیسے میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٢) ، مسند احمد ١/٢٩، ٣٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو مدینہ سے بارہ کیلو میٹر کی دوری پر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1437

【6】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلا تو آپ برابر قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ نے وہاں دس دن تک قیام کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ١ (١٠٨١) ، المغازي ٥٢ (٤٢٩٧) مختصراً ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٩٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٩ (١٢٣٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٥ (الجمعة ٤٠) (٥٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٧) ، مسند احمد ٣/١٨٧، ١٩٠، ٢٨٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠ (١٥٥١) ، ویأتی عند المؤلف فی باب ٤ (برقم : ١٤٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1438

【7】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں دو رکعتیں پڑھیں، ابوبکر (رض) کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں، اور عمر بن خطاب (رض) کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٤٥٨) ، مسند احمد ١/٣٧٨، ٤٢٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1439

【8】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

عمر (رض) کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے، عید الاضحی کی نماز دو رکعت ہے، اور سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور بزبان نبی اکرم ﷺ یہ سب پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1440

【9】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ حضر (اقامت) کی نماز تمہارے نبی کریم ﷺ کی زبان پر چار رکعتیں فرض ہوئیں، اور سفر کی نماز دو رکعت، اور خوف کی نماز ایک رکعت ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حذیفہ (رض) کی روایت میں اس کی صراحت ہے، بعض صحابہ کرام اور ائمہ عظام اس کے قائل بھی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1441

【10】

بروز جمعہ قبولیت کی گھڑی کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم ﷺ کی زبان پر حضر (اقامت) میں چار رکعتیں، اور سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1442

【11】

مکہ معظمہ میں نماز پڑھنا

موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ میں مکہ میں کس طرح نماز پڑھوں کہ جب میں جماعت سے نہ پڑھوں ؟ تو انہوں نے کہا : دو رکعت پڑھو، ابوالقاسم ﷺ کی سنت (پر عمل کرو) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٨) ، مسند احمد ١/٢١٦، ٢٢٦، ٢٩٠، ٣٣٧، ٣٦٩، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1443

【12】

مکہ معظمہ میں نماز پڑھنا

موسیٰ بن سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا : میں نے کہا : مجھ سے باجماعت نماز چھوٹ جاتی ہے اور میں بطحاء میں ہوتا ہوں، تو میں کتنی رکعت پڑھوں ؟ انہوں نے کہا : دو رکعت پڑھو، ابوالقاسم ﷺ کی سنت (پر عمل کرو) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1444

【13】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

حارثہ بن وہب خزاعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو ہی رکعت پڑھی، ایک ایسے وقت میں جس میں کہ لوگ سب سے زیادہ مامون و بےخوف تھے، اور تعداد میں زیادہ تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ٢ (١٠٨٣) ، الحج ٨٤ (١٦٥٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٦) ، سنن ابی داود/الحج ٧٧ (١٩٦٥) ، سنن الترمذی/الحج ٥٢ (٨٨٢) ، مسند احمد ٤/٣٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1445

【14】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

حارثہ بن وہب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منیٰ میں دو رکعت پڑھائی، ایک ایسے وقت میں جس میں لوگ تعداد میں زیادہ تھے، اور سب سے زیادہ مامون و بےخوف تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1446

【15】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت پڑھی، اور عثمان (رض) عنہ کے ساتھ بھی ان کی خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٧٢) ، مسند احمد ٣/١٤٤، ١٤٥، ١٦٨ (حسن ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1447

【16】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے منیٰ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو رکعت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ٢ (١٠٨٤) ، الحج ٨٤ (١٦٥٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٥) ، سنن ابی داود/الحج ٧٦ (١٩٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٣) ، مسند احمد ١/٣٧٨، ٤١٦، ٤٢٢، ٤٢٥، ٤٦٤، سنن الدارمی/المناسک ٤٧ (١٩١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1448

【17】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عثمان (رض) عنہ نے منیٰ میں چار رکعت پڑھی یہاں تک کہ اس کی خبر عبداللہ بن مسعود (رض) کو ہوئی تو انہوں نے کہا : میں نے تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو ہی رکعت پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1449

【18】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت پڑھی، اور ابوبکر (رض) کے ساتھ بھی دو رکعت، اور عمر (رض) کے ساتھ بھی دو ہی رکعت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ٢ (١٠٨٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥١) ، مسند احمد ٢/١٦، ٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1450

【19】

منی میں نماز قصر ادا کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں دو رکعت پڑھی، اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم نے بھی وہاں دو ہی رکعت پڑھی، اور عثمان (رض) عنہ نے بھی اپنی خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ٢ (١٠٨٢) ، الحج ٨٤ (١٦٥٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢ (٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٧) ، مسند احمد ٢/١٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1451

【20】

کتنے دن تک ٹھہر نے تک قصر کرنا جائز ہے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلے، تو آپ ہمیں دو رکعت پڑھاتے رہے یہاں تک کہ ہم واپس لوٹ آئے، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں : میں نے انس (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے مکہ میں قیام کیا تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، ہم نے وہاں دس دن قیام کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1452

【21】

کتنے دن تک ٹھہر نے تک قصر کرنا جائز ہے؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں پندرہ دن ٹھہرے رہے ١ ؎ اور آپ دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٩ (١٢٣١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٦) (شاذ) (کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، صحیح روایت ” انیس دن “ کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ فتح مکہ کی بات ہے اور دس دن کے قیام والی روایت حجۃ الوداع کے موقع کی ہے، فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں نبی اکرم ﷺ نے کتنے دنوں تک قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، صحیح بخاری کی روایت میں ١٩ دن کا ذکر ہے، اور ابوداؤد کی ایک روایت اٹھارہ دن، اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا، اس نے سترہ کی روایت کی ہے اور جس نے دخول کا شمار کیا اور خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں، اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے، رہی پندرہ دن والی مؤلف کی روایت تو یہ شاذ ہے، اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ١٧ دن ہے، پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ١٥ دن کی روایت کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ تسعة عشر يوما صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1453

【22】

کتنے دن تک ٹھہر نے تک قصر کرنا جائز ہے؟

علاء بن حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہاجر حج و عمرہ کے ارکان و مناسک پورے کرنے کے بعد (مکہ میں) تین دن تک ٹھر سکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٤٧ (٣٩٣٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨١ (١٣٥٢) ، سنن ابی داود/الحج ٩٢ (٢٠٢٢) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٣ (٩٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٠٨) ، مسند احمد ٤/٣٣٩، ٥/٥٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠ (١٥٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1454

【23】

کتنے دن تک ٹھہر نے تک قصر کرنا جائز ہے؟

علاء بن حضرمی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مہاجر اپنے نسک (حج و عمرہ کے ارکان) پورے کرنے کے بعد مکہ میں تین دن ٹھر سکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1455

【24】

کتنے دن تک ٹھہر نے تک قصر کرنا جائز ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ سے مکہ کے لیے نکلیں یہاں تک کہ جب وہ مکہ آگئیں، تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ نے نماز قصر پڑھی ہے، اور میں نے پوری پڑھی ہے، اور آپ نے روزہ نہیں رکھا ہے اور میں نے رکھا ہے تو آپ نے فرمایا : عائشہ ! تم نے اچھا کیا ، اور آپ نے مجھ پر کوئی نکیر نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩٨) (منکر) (سند میں ” عبدالرحمن “ اور ” عائشہ رضی اللہ عنہا “ کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان میں کوئی عمرہ نہیں کیا ہے، جبکہ اس روایت کے بعض طرق میں ” رمضان میں “ کا تذکرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1456

【25】

دوران سفر نوافل ادا کرنا

وبرہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں دو رکعت پر اضافہ نہیں کرتے تھے، نہ تو اس سے پہلے نماز پڑھتے اور نہ ہی اس کے بعد، تو ان سے کہا گیا : یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٦) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1457

【26】

دوران سفر نوافل ادا کرنا

حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو انہوں نے ظہر اور عصر کی نمازیں دو دو رکعت پڑھیں، پھر اپنے خیمے کی طرف لوٹنے لگے، تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے پوچھا : یہ لوگ (اب) کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ لوگ سنت پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے کہا : اگر میں اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز پڑھنے والا ہوتا تو میں فرض ہی کو پورا کرتا، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، ابوبکر کے ساتھ رہا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا، عمر اور عثمان (رض) عنہم کے ساتھ بھی رہا یہ سب لوگ اسی طرح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ١١ (١١٠١، ١١٠٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ١ (٦٨٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٦ (١٢٢٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٤ (الجمعة ٣٩) (٥٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٥ (١٠٧١) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٩٣) ، مسند احمد ٢/٢٤، ٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1458