14. گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب
چاند گرہن اور سورج گرہن کا بیان
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو کسی کے مرنے اور کسی کے پیدا ہونے سے گرہن نہیں لگتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١ (١٠٤٠) ، ٦ (١٠٤٨) ، ١٧ (١٠٦٣) ، اللباس ٢ (٥٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦١) ، مسند احمد ٥/٣٧، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٤٦٤، ١٤٦٥، ١٤٩٢، ١٤٩٣، ١٥٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1459
بوقت سورج گرہن تسبیح و تکبیر پڑھنا اور دعا کرنا
عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تیر اندازی میں مشغول تھا، اتنے میں سورج کو گرہن لگ گیا، میں نے اپنے تیروں کو سمیٹا اور دل میں ارادہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے موقع پر کیا نئی بات کی ہے، اسے چل کر ضرور دیکھوں گا، میں آپ کے پیچھے کی جانب سے آپ کے پاس آیا، آپ مسجد میں تھے، تسبیح و تکبیر اور دعا میں لگے رہے، یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکعت نماز پڑھی، اور چار سجدے کیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٧ (١١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٦) ، مسند احمد ٥/ ١٦، ٦٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ظاہر حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آفتاب صاف ہوجانے کے بعد آپ ﷺ نے نماز پڑھی، حالانکہ کسوف کی نماز گرہن صاف ہوجانے کے بعد درست نہیں، لہٰذا اس کی تاویل اس طرح کی جاتی ہے کہ عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) نے آپ کو نماز ہی کی حالت میں کھڑا پایا، آپ تسبیح و تکبیر نماز ہی میں کر رہے تھے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ فأتیناہ وھو قائم فی ال صلا ۃ ، رافع یدیہ، فجعل یسبح ویحمد ویہلل ویکبر ویدعو چناچہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ نماز میں کھڑے اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے اور اللہ کی تسبیح و تحمید اور تہلیل و تکبیر کے ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے ، بعضوں نے کہا ہے یہ دونوں رکعتیں نماز کسوف سے الگ بطور شکرانہ کے تھیں، لیکن یہ قول ضعیف ہے، اور دوسری روایات کے ظاہر کے خلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1460
سورج گرہن کے وقت نماز ادا کرنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند گرہن کسی کے مرنے اور کسی کے پیدا ہونے سے نہیں لگتا ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١ (١٠٤٢) ، بدء الخلق ٤ (٣٢٠١) ، صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٣) ، مسند احمد ٢/١٠٩، ١١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1461
چاند گرہن کے وقت نماز پڑھنے کا حکم
ابومسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورج گرہن اور چاند گرہن کسی کے مرنے سے نہیں لگتا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١ (١٠٤١) ، ١٢ (١٠٥٧) ، بدء الخلق ٤ (٣٢٠٤) ، صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٠٣) ، مسند احمد ٤/١٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1462
ابتدائے گرہن سے گرہن ختم ہوجانے تک نماز میں مصروف رہنا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ تو کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے نہ کسی کے پیدا ہونے سے، جب تم ان دونوں کو گرہن لگا ہوا دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ یہ صاف ہوجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1463
ابتدائے گرہن سے گرہن ختم ہوجانے تک نماز میں مصروف رہنا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ سورج کو گرہن لگ گیا، تو آپ اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے جلدی سے اٹھے، اور دو رکعت نماز پڑھی یہاں تک کہ وہ چھٹ گیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1464
صلوة کسوف (گرہن کی نماز) کے لئے اذان دینا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو نبی آپ ﷺ نے ایک منادی کو حکم دیا، تو اس نے ندا دی کہ نماز کے لیے جمع ہوجاؤ، تو سب جمع ہوگئے، اور انہوں نے صف بندی کی تو آپ نے انہیں چار رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ، دو رکعت نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١٩ (١٠٦٦) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٤ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥١١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٦٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٤٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1465
گرہن کی نماز میں صفیں بنانے کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ مسجد کی طرف نکلے، اور نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے اللہ اکبر ، کہا اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے چار رکوع اور چار سجدے مکمل کئے، سورج آپ کے فارغ ہونے سے پہلے ہی صاف ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٤٨٧) ، مسند احمد ٦/٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1466
نماز گرہن کا طریقہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن لگنے پر آٹھ رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی اور عطاء نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہم سے اسی کے مثل روایت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٤ (٩٠٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٩ (الجمعة ٤٤) (٥٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٧) ، مسند احمد ١/٢٢٥، ٣٤٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٦٧) (شاذ) (حبیب بن ابی ثابت مدلس کثیر الارسال ہیں، یہ حدیث انہوں نے ابن عباس سے نہیں سنی ہے، نیز یہ روایت خود ابن عباس سے مروی دیگر روایات کے خلاف ہے، دیکھئے حدیث رقم : ١٤٧٠ ) وضاحت : ١ ؎: عطاء کی روایت جس کی طرف امام نسائی نے اشارہ کیا ہے، حقیقت میں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی نہیں ہے، بلکہ وہ مرسل ہے، جیسا کہ امام مزی نے اسے مراسیل میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو : تحفہ الأشراف : ١٩٠٤٩ ۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1467
نماز گرہن کا طریقہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے گرہن لگنے پر نماز پڑھی، آپ نے قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرآت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا، اور دوسری رکعت بھی ایسے ہی پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (شاذ) (دیکھیں سابقہ روایت ) قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ أربع رکوعات في رکعتين صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1468
سیدنا عبداللہ ابن عباس سے نماز گرہن سے متعلق ایک اور روایت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس دن سورج گرہن لگا، دو رکعت نماز پڑھی، تو چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٤٦) مطولاً ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١، ٩٠٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨١) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1469
ایک اور طریقہ کی گرہن کی نماز
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا ہے جسے میں سچا سمجھتا ہوں، میرا گمان ہے کہ ان کی مراد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے لوگوں کے ساتھ بڑی دیر تک نماز میں قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر قیام کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر قیام کرتے پھر رکوع کرتے، اس طرح آپ نے دو رکعت پڑھی، ہر رکعت میں آپ نے تین رکوع کیا، تیسرے رکوع سے اٹھنے کے بعد آپ نے سجدہ کیا یہاں تک کہ اس دن آدمیوں پر غشی طاری ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ان کے اوپر پانی کے ڈول انڈیلنے پڑگئے تھے، آپ جب رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمده کہتے، آپ فارغ نہیں ہوئے جب تک کہ سورج صاف نہیں ہوگیا، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور فرمایا : سورج اور چاند کو نہ تو کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، لیکن یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ تمہیں ڈراتا ہے، تو جب ان میں گرہن لگے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، اور ذکر الٰہی میں لگے رہو جب تک کہ وہ صاف نہ ہوجائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦١ (١١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٣) ، مسند احمد ٦/٧٦ (شاذ) (تین رکوع کا تذکرہ شاذ ہے، محفوظ بات دو رکوع کی ہے، خود عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں دو رکوع کا تذکرہ ہے، دیکھئے حدیث رقم : ١٤٧٣) ۔ قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ عنها في كل ركعة رکوعان صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1470
ایک اور طریقہ کی گرہن کی نماز
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چار سجدوں میں چھ رکوع کئے۔ اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے معاذ بن ہشام سے پوچھا : نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے نا، انہوں نے کہا : اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٥) (شاذ) (دیکھئے سابقہ روایت ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1471
سیدہ ّ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا گیا ایک اور طریقہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، اور تکبیر کہی، اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے بڑی لمبی قرآت کی، پھر اللہ اکبر کہا، اور ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، تو سمع اللہ لمن حمده ربنا لک الحمد کہا، پھر آپ کھڑے رہے، اور ایک لمبی قرآت کی مگر پہلی قرآت سے کم، پھر تکبیر کہی، اور ایک لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے چھوٹا، پھر آپ نے سمع اللہ لمن حمده ربنا لک الحمد کہا، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدے پورے کیے، آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہوگیا، پھر آپ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کیا، تو اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی جو اس کے شایان شان تھی، پھر فرمایا : بلاشبہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے، نہ کسی کے پیدا ہونے سے، جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھو، جب تک کہ وہ تم سے چھٹ نہ جائے، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ میں ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا، میں نے چاہا کہ جنت کے پھلوں میں سے ایک گچھا توڑ لوں، جب تم نے مجھے دیکھا میں آگے بڑھا تھا، اور میں نے جہنم کو دیکھا، اس حال میں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو توڑ رہا تھا جب تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا، اور میں نے اس میں ابن لحی کو دیکھا ١ ؎، یہی ہے جس نے سب سے پہلے سائبہ چھوڑا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٤ (١٠٤٦) ، ٥ (١٠٤٧) ، ١٣ (١٠٥٨) ، العمل فی ال صلاة ١١ (١٢١٢) ، بدء الخلق ٤ (٣٢٠٣) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨٠) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا نام عمرو ہے اور باپ کا نام عامر ہے اور لقب لحی ہے۔ ٢ ؎: سائبہ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جسے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیا گیا ہو، اور اس سے سواری اور بار برداری کا کوئی کام نہ لیا جاتا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1472
سیدہ ّ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا گیا ایک اور طریقہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو الصلاة جامعة (صلاۃ باجماعت ہوگی) کی منادی کرائی گئی، چناچہ لوگ اکٹھا ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ دو رکعت میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1473
سیدہ ّ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا گیا ایک اور طریقہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ نے لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا، اور سجدہ کیا، پھر آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا، پھر آپ فارغ ہوئے اس حال میں کہ سورج صاف ہوچکا تھا، تو آپ نے لوگوں کو خطاب کیا، پہلے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے، اور نہ ہی کسی کے جینے سے، تو جب تم اسے دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، اور اس کی بڑائی بیان کرو، اور صدقہ کرو ، پھر آپ نے فرمایا : اے امت محمد ! اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی اس بات پر غیرت کرنے والا نہیں کہ اس کا غلام یا لونڈی زنا کرے، اے امت محمد ! قسم اللہ کی، اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں، تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٢ (١٠٤٤) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٥ (١١٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٤٨) ، موطا امام مالک/الکسوف ١ (١) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1474
سیدہ ّ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا گیا ایک اور طریقہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور کہنے لگی : اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے، یہ سنا تو عائشہ نے پوچھا : اللہ کے رسول ! لوگوں کو قبر میں بھی عذاب دیا جائے گا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی پناہ ۔ نبی اکرم ﷺ کہیں جانے کے لیے نکلے اتنے میں سورج گرہن لگ گیا، تو ہم حجرہ میں چلے گئے، یہ دیکھ کر دوسری عورتیں بھی ہمارے پاس جمع ہوگئیں، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے اور یہ چاشت کا وقت تھا، آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے نماز میں لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، تو قیام کیا پہلے قیام سے کم، پھر آپ نے رکوع کیا، اپنے پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا، پھر آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے، تو اسی طرح کیا مگر دوسری رکعت میں آپ کا رکوع اور قیام پہلی رکعت سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سورج صاف ہوگیا، تو جب آپ فارغ ہوئے، تو منبر پر بیٹھے، اور جو باتیں کہنی تھیں کہیں، اس میں ایک بات یہ بھی تھی : کہ لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جائیں گے، جیسے دجال کے فتنے میں آزمائے جائیں گے ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اس کے بعد سے برابر ہم آپ کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٧ (١٠٤٩) ، ١٢ (١٠٥٥) ، صحیح مسلم/الکسوف ٢ (٩٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٦) ، موطا امام مالک/الکسوف ١ (٣) ، مسند احمد ٦/٣٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٦٨، ١٥٧٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٤٧٧، ١٥٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1475
ایک اور قسم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت مجھ سے کچھ پوچھنے آئی تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے، تو جب رسول اللہ ﷺ آئے تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا لوگ قبروں میں بھی عذاب دیئے جاتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی پناہ ، پھر آپ (کہیں جانے کے لیے) سواری پر سوار ہوئے کہ ادھر سورج گرہن لگ گیا، اور میں دوسری عورتوں کے ساتھ حجروں کے درمیان بیٹھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری سے اتر کر آئے، اور اپنے مصلیٰ کی طرف بڑھے، آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر آپ (سجدہ سے کھڑے ہوئے) اور آپ نے قیام کیا، مگر اپنے پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا، اپنے پہلے رکوع سے کم، پھر اپنا سر اٹھایا تو قیام کیا اپنے پہلے قیام سے کم، تو یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، اور سورج صاف ہوگیا، تو آپ نے فرمایا : تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے اسی طرح جس طرح دجال کے فتنے سے آزمائے جاؤ گے ۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اس کے بعد سے میں نے برابر آپ کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1476
ایک اور قسم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسوف کی نماز میں زمزم کے چبوترے پر چار چار رکوع اور چار چار سجدے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الکسوف ١٨ (١٠٦٤) بلفظ ” أربع رکعات فی سجدتین “ بدون ذکر الصفة (شاذ) (آپ صلی الله علیہ وسلم نے زندگی میں صرف ایک بار وہ بھی مدینہ میں سورج گرہن کی صلاة پڑھی ہے، یہ روایت شاذ ہے، کسی راوی سے وہم ہوگیا ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون ذکر الصفة فإنه شاذ مخالف لکل الروايات السابقة واللاحقة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1477
ایک اور قسم
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی، اور لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ (بیہوش ہو ہو کر) گرنے لگے، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو آپ نے لمبا قیام کیا، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو لمبا قیام کیا، پھر دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو آپ نے پھر اسی طرح کیا، نیز آپ آگے بڑھے پھر پیچھے ہٹنے لگے، تو یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن ان کے بڑے آدمیوں میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، حالانکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تمہیں دکھاتا ہے، تو جب گرہن لگے تو نماز پڑھو جب تک کہ وہ چھٹ نہ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الکسوف ٣ (٩٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٧٦) ، مسند احمد ٣/٣٧٤، ٣٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1478
ایک اور (طریقہ) نماز گرہن
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے (نماز کا) حکم دیا تو الصلاة جامعة (نماز باجماعت پڑھی جائے گی) کی منادی کرائی گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی (پہلی رکعت میں) آپ نے دو رکوع اور ایک سجدہ کیا ١ ؎، پھر آپ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے (دوسری رکعت میں بھی) دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کبھی اتنا لمبا رکوع نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی اتنا لمبا سجدہ کیا۔ محمد بن حمیر نے مروان کی مخالفت کی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ٣ (١٠٤٥) ، ٨ (١٠٥١) ، صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٣) ، مسند احمد ٢/١٧٥، ٢٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں سجدہ سے مراد مکمل ایک رکعت ہے، کیونکہ کسی بھی نماز میں ایک سجدہ کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ ایک رکعت دو رکوع کے ساتھ پڑھی۔ ٢ ؎: یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں ہے، سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں یحییٰ بن ابی کثیر اور عبداللہ بن عمرو کے درمیان ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا واسطہ ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کی جگہ ابوطعمہ کا واسطہ ہے، اور متن میں مخالفت یہ ہے کہ مروان کی روایت میں سجدہ کا لفظ آیا ہے، اور محمد بن حمیر کی روایت میں اس کی جگہ سجدتین کا لفظ آیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1479
ایک اور (طریقہ) نماز گرہن
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے دو رکوع کیے، اور دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر سورج سے گرہن چھٹ گیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں : رسول اللہ ﷺ نے کوئی سجدہ اور کوئی رکوع ان سے لمبا نہیں کیا۔ علی بن مبارک نے معاویہ بن سلام کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علی بن مبارک نے اسے مسند عائشہ میں سے قرار دیا ہے، اور معاویہ بن سلام نے مسند عبداللہ بن عمرو میں سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1480
ایک اور (طریقہ) نماز گرہن
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ نے وضو کیا، اور حکم دیا تو ندا دی گئی : الصلاة جامعة (نماز باجماعت ہوگی) ، پھر آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے لمبا قیام کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو مجھے گمان ہوا کہ آپ نے سورة البقرہ پڑھی، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے : سمع اللہ لمن حمده کہا، پھر آپ نے اسی طرح قیام کیا جیسے پہلے کیا تھا، اور سجدہ نہیں کیا، پھر آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے پہلے ہی کی طرح دو رکوع اور ایک سجدہ کیا، پھر آپ بیٹھے، تب سورج سے گرہن چھٹ چکا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٦٩٨) (صحیح) (اس کے راوی ” ابو حفص مولی عائشہ “ لین الحدیث ہیں لیکن متابعت اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1481
ایک اور (طریقہ) نماز
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے جو آپ کے ساتھ تھے، آپ لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا، اور بیٹھے تو دیر تک بیٹھے رہے، پھر آپ سجدہ میں گئے تو لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا، اور کھڑے ہوگئے، پھر آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح قیام، رکوع، سجدہ اور جلوس کیا جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا، پھر دوسری رکعت کے آخری سجدے میں آپ ہانپنے اور رونے لگے، آپ کہہ رہے تھے : تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا ١ ؎، اور حال یہ ہے کہ میں ان میں موجود ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، اور ہم تجھ سے (اپنے گناہوں کی) بخشش چاہتے ہیں ، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تب سورج صاف ہوچکا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اور آپ نے لوگوں کو خطاب کیا، پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو جب تم ان میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جنت مجھ سے قریب کردی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے کچھ گچھے لے لیتا، اور جہنم مجھ سے قریب کردی گئی یہاں تک کہ میں اس سے بچاؤ کرنے لگا، اس خوف سے کہ کہیں وہ تمہیں ڈھانپ نہ لے، یہاں تک کہ میں نے اس میں حمیر کی ایک عورت پر ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوتے ہوئے دیکھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو اس نے اسے زمین کے کیڑے مکوڑے کھانے کے لیے چھوڑا، اور نہ ہی اس نے اسے خود کچھ کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ مرگئی، میں نے اسے دیکھا وہ اس عورت کو نوچتی تھی جب وہ سامنے آتی، اور جب وہ پیٹھ پھیر کر جاتی تو اس کے سرین کو نوچتی، نیز میں نے اس میں دو چمڑے کی جوتیوں والے کو دیکھا، جو قبیلہ بنی دعدع کا ایک فرد تھا، اسے دو منہ والی لکڑی سے مار کر آگ میں دھکیلا جا رہا تھا، نیز میں نے اس میں خمدار سر والی لکڑی چرانے والے کو دیکھا، جو حاجیوں کا مال چراتا تھا، وہ جہنم میں اپنی لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے کہہ رہا تھا : میں خمدار سر والی لکڑی چرانے والا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٧ (١١٩٤) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٤ (٣٠٧) ، مسند احمد ٢/١٥٩، ١٦٣، ١٨٨، ١٩٨، ٢٢٣، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٩) ، ویأتی عند المؤلف فی برقم : ١٤٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میری موجودگی میں انہیں عذاب دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا، بلکہ تو نے اس کے برعکس یہ وعدہ کیا تھا کہ تو انہیں میری موجودگی میں عذاب نہیں دے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1482
ایک اور (طریقہ) نماز
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ کھڑے ہوئے، اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، اور یہ پہلے سجدہ سے کم تھا، پھر آپ (دوسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے دو رکوع کیے، اور ان میں پہلے جیسا ہی کیا، پھر آپ نے دو سجدے کیے، ان دونوں میں اسی طرح کرتے رہے جیسے پہلے کیا تھا یہاں تک کہ اپنی نماز سے فارغ ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، لہٰذا جب تم انہیں (گرہن لگا) دیکھو، تو تم اللہ کے ذکر اور نماز کی طرف دوڑ پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٣) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1483
ایک اور (طریقہ) نماز
ثعلبہ بن عباد العبدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب (رض) کے خطبہ میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے اپنے خطبہ میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ایک حدیث ذکر کی، سمرہ بن جندب (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے نشانہ بازی کر رہے تھے، یہاں تک کہ سورج دیکھنے والے کی نظر میں افق سے دو تین نیزے کے برابر اوپر آچکا تھا کہ اچانک وہ سیاہ ہوگیا، ہم میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا : چلو مسجد چلیں، قسم اللہ کی اس سورج کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے لیے آپ کی امت میں ضرور کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، پھر ہم مسجد گئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے وقت میں پایا جب آپ لوگوں کی طرف نکلے، پھر آپ آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی، تو اتنا لمبا قیام کیا کہ ایسا قیام آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے رکوع کیا تو اتنا لمبا رکوع کیا کہ ایسا رکوع آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا تو اتنا لمبا سجدہ کیا کہ ایسا سجدہ آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ایسے ہی دوسری رکعت میں بھی کیا، دوسری رکعت میں آپ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج صاف ہوگیا، تو آپ نے سلام پھیرا، اور اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، اور گواہی دی کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور گواہی دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ حدیث مختصر ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٠ (الجمعة ٤٥) (٥٦٢) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٤) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٣) ، مسند احمد ٥/١٤، ١٦، ١٧، ١٩، ٢٣، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٥٠٢ مختصراً (ضعیف) (اس کے راوی ” ثعلبہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1484
ایک اور (طریقہ) نماز
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرائے ہوئے اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد آئے، اور ہمیں برابر نماز پڑھاتے رہے یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا، جب سورج صاف ہوگیا تو آپ نے فرمایا : کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کے مرنے پر لگتا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، سورج اور چاند گرہن نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے لگتا ہے اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اللہ تعالیٰ جب اپنی کسی مخلوق کے لیے اپنی تجلی ظاہر کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، تو جب کبھی تم اس صورت حال کو دیکھو تو تم اس تازہ فرض نماز کی طرح نماز پڑھو، جو تم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٧ (١١٩٣) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣١) ، مسند احمد ٤/٢٦٧، ٢٦٩، ٢٧١، ٢٧٧، ویأتي عند المؤلف بأقام : ١٤٨٩، ١٤٩٠ (ضعیف) (اس کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے، اس کا سبب ابو قلابہ مدلس ہیں، دیکھئے إرواء رقم : ٦٦٢ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث ضعیف ہے، آپ نے گرہن کی نماز عام نمازوں کی طرح ایک رکوع سے نہیں پڑھی تھی بلکہ دو رکوع سے پڑھی تھی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1485
ایک اور (طریقہ) نماز
قبیصہ بن مخارق الہلالی (رض) کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا، ہم لوگ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ میں تھے، آپ گھبرائے ہوئے اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور اتنا لمبا کیا کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج چھٹ چکا تھا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر آپ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں کو نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، تو جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو اس تازہ فرض نماز کی طرح نماز پڑھو جو تم نے (گرہن لگنے پہلے) پڑھی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٢ (١١٨٥، ١١٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦٥) ، مسند احمد ٥/٦٠، ٦١ (ضعیف) (یہاں ابو قلابة مدلس نے ” نعمان “ کے بجائے ” قبیصہ “ کا نام لیا ہے، مذکورہ سبب سے یہ روایت بھی ضعیف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1486
ایک اور (طریقہ) نماز
قبیصہ الہلالی (رض) سے روایت ہے کہ سورج گرہن لگا تو نبی کریم ﷺ نے دو دو رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ وہ صاف ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا : سورج اور چاند کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے نئی بات پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق میں سے کسی پر تجلی فرماتا ہے تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، لہٰذا جب ان دونوں میں سے کوئی رونما ہو تو تم نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ چھٹ جائے، یا اللہ تعالیٰ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1487
ایک اور (طریقہ) نماز
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب سورج اور چاند کو گرہن لگے تو نماز پڑھو، اس تازہ نماز کی طرح جو تم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٨٦ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1488
ایک اور (طریقہ) نماز
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت سورج گرہن لگا ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی آپ رکوع کر رہے تھے اور سجدہ کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٨٦ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1489
ایک اور (طریقہ) نماز
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ بڑی جلدی میں گھر سے مسجد کی طرف نکلے، سورج گرہن لگا تھا، آپ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا : زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن زمین والوں میں بڑے لوگوں میں سے کسی بڑے آدمی کے مرجانے کی وجہ سے لگتا ہے۔ حالانکہ سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، بلکہ یہ دونوں اللہ کی مخلوق میں سے دو مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں جو نیا واقعہ چاہتا ہے رونما کرتا ہے، تو ان میں سے کوئی (بھی) گہنائے تو تم نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ صاف ہوجائے، یا اللہ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٦١٥) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور یہاں روایت عنعنہ سے ہے، اور سند میں انقطاع ہے، تراجع الالبانی ٣٣٩ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1490
ایک اور (طریقہ) نماز
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ سورج گرہن لگا، رسول اللہ ﷺ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد پہنچے، اور لوگ (بھی) آپ کی طرف لپکے، پھر آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، جب سورج صاف ہوگیا تو آپ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اور یہ دونوں نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، تو جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ چیز چھٹ جائے جو تم پر آن پڑی ہے ، اور آپ نے یہ اس لیے فرمایا کہ (اسی روز) آپ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا، تو کچھ لوگوں نے آپ سے یہ بات کہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1491
ایک اور (طریقہ) نماز
ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہاری اسی نماز کی طرح دو رکعت نماز پڑھی، اور انہوں نے سورج گرہن لگنے کا ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1492
نماز گرہن میں کتنی قرأت کرے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورة البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہوچکا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چناچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو ، لوگوں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کرلے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا : میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چناچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا ، انہوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے ، پوچھا گیا : کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : (نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی : میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢١ (٢٩) مختصراً ، ال صلاة ٥١ (٤٣١) مختصراً ، الأذان ٩١ (٧٤٨) مختصراً ، الکسوف ٩ (١٠٥٢) ، بدء الخلق ٤ (٣٢٠٢) مختصراً ، النکاح ٨٨ (٥١٩٧) ، صحیح مسلم/الکسوف ٣ (٩٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٣ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٧٧) ، موطا امام مالک/الکسوف ١ (٢) ، مسند احمد ١/٢٩٨، ٣٥٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٧ (١٥٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1493
نماز گرہن میں با آواز بلند قرأت کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ (گرہن کی) نماز پڑھی، آپ نے ان میں بلند آواز سے قرآت کی، آپ جب جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمده، ربنا ولک الحمد کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١٩ (١٠٦٥) ، صحیح مسلم/الکسوف ١ (٩٠١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٦٤ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢٨) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٤٩٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1494
صلوة کسوف میں بغیر آواز کے قرآت
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سورج گرہن کی نماز پڑھائی (وہ کہتے ہیں) کہ ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٨٥ (ضعیف) (اس کے راوی ” ثعلبہ بن عباد “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1495
نماز گرہن میں بحالت سجدہ کیا پڑھا جائے؟
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے نماز پڑھی، تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے (شعبہ کہتے ہیں : میرا گمان ہے عطاء نے سجدے کے سلسلہ میں بھی یہی بات کہی ہے) اور آپ سجدے میں رونے اور پھونک مارنے لگے، آپ فرما رہے تھے : میرے رب ! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا اور حال یہ ہے کہ میں لوگوں میں موجود ہوں ، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا : مجھ پر جنت پیش کی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے پھلوں گچھوں میں سے توڑ لیتا، نیز مجھ پر جہنم پیش کی گئی تو میں پھونکنے لگا اس ڈر سے کہ کہیں اس کی گرمی تمہیں نہ ڈھانپ لے، اور میں نے اس میں اس چور کو دیکھا جو رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو چرایا تھا، اور میں نے اس میں بنو دعدع کے اس شخص کو دیکھا جو حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا، اور جب وہ پہچان لیا جاتا تو کہتا : یہ (میری اس) خمدار لکڑی کا کام ہے، اور میں نے اس میں ایک کالی لمبی عورت کو دیکھا جسے ایک بلی کے سبب عذاب ہو رہا تھا، جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو وہ اسے کھلاتی پلاتی تھی اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے، یہاں تک کہ وہ مرگئی، اور سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے گہناتے ہیں، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب ان میں سے کوئی گہنا جائے (یا کہا : ان دونوں میں سے کوئی اس میں سے کچھ کرے، یعنی گہنا جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1496
نماز گرہن میں تشہد پڑھنا اور سلام پھیرنا
عبدالرحمٰن بن نمر سے روایت ہے کہ انہوں نے زہری سے گرہن کی نماز کے طریقے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی ہے وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا، تو اس نے اعلان کیا کہ نماز جماعت سے ہونے والی ہے، تو لوگ جمع ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی، آپ نے اللہ اکبر کہا، پھر ایک لمبی قرآت کی، پھر اللہ اکبر کہا، پھر ایک لمبا رکوع کیا، اپنے قیام کی طرح یا اس سے بھی لمبا، پھر اپنا سر اٹھایا، اور سمع اللہ لمن حمده کہا، پھر ایک لمبی قرآت کی یہ پہلی قرآت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا، اور ایک لمبا رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر اپنا سر اٹھایا، اور سمع اللہ لمن حمده کہا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا، اور ایک لمبا سجدہ کیا اپنے رکوع کی طرح یا اس سے بھی لمبا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا، اور اپنا سر اٹھایا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا اور ایک لمبی قرآت کی، یہ پہلی قرآت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا، پھر ایک لمبا رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر اپنا سر اٹھایا، اور سمع اللہ لمن حمده کہا، پھر ایک لمبی قرآت کی لیکن یہ پہلی قرآت سے جو دوسری رکعت میں کی تھی کم تھی، پھر آپ نے اللہ اکبر کہا، اور ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر اللہ اکبر کہا اور اپنا سر اٹھایا، پھر سمع اللہ لمن حمده کہا، پھر اللہ اکبر کہا، اور سجدہ کیا، اور یہ پہلے سجدہ سے کم تھا، پھر آپ نے تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا، پھر ان کے بیچ میں کھڑے ہوئے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے سے گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو ان میں سے کسی کو گہن لگ جائے تو نماز کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑ پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1497
نماز گرہن میں تشہد پڑھنا اور سلام پھیرنا
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گرہن کی نماز پڑھی، تو آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر (اپنا سر رکوع سے) اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر رکوع سے اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر (اپنا سر سجدہ سے) اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، اور نماز سے فارغ ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩٠ (٧٤٥) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٢ (١٢٦٥) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٥٧١٧) ، مسند احمد ٦/٣٥٠، ٣٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1498
صلوة الکسوف کے بعد منبر پر بیٹھنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کہیں جانے کے لیے نکلے کہ سورج کو گرہن لگ گیا، تو ہم حجرے کی طرف چلے، اور کچھ اور عورتیں بھی ہمارے پاس جمع ہوگئیں، رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اور یہ چاشت کا وقت تھا، (آپ نماز پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوئے، تو آپ نے ایک لمبا قیام کیا، پھر ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، پھر قیام کیا پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو بھی ایسے ہی کیا، مگر آپ کا یہ قیام اور رکوع پہلی والی رکعت کے قیام اور رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سورج صاف ہوگیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو منبر پر بیٹھے، اور منبر پر جو باتیں آپ نے کہیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ لوگوں کو ان کی قبروں میں دجال کی آزمائش کی طرح آزمایا جائے گا ، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1499
نماز گرہن کے بعد کیسے خطبہ دیا جائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا، تو آپ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی تو بہت لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو بہت لمبا رکوع کیا، پھر (رکوع سے سر) اٹھایا، پھر قیام کیا تو بہت لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے (رکوع سے سر) اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا یہاں تک کہ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے، تو سورج سے گرہن چھٹ چکا تھا، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا : سورج اور چاند کو نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن لگتا ہے، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، لہٰذا جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو، اور صدقہ خیرات کرو، اور اللہ عزوجل کو یاد کرو ، نیز فرمایا : اے امت محمد ! کوئی اللہ تعالیٰ سے زیادہ اس بات پر غیرت والا نہیں کہ اس کا غلام یا اس کی باندی زنا کرے، اے امت محمد ! اگر تم لوگ وہ چیز جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1500
نماز گرہن کے بعد کیسے خطبہ دیا جائے؟
سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس وقت سورج گرہن لگا خطبہ دیا تو آپ نے (حمد و ثنا کے بعد) أما بعد کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٨٥ (ضعیف) (اس کے راوی ” ثعلبہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1501
گرہن کے موقع پر حکم دعا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے کہ سورج گرہن لگ گیا، تو آپ جلدی سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھے، تو لوگ بھی آپ کے ساتھ ہو لیے، آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اسی طرح جیسے لوگ پڑھتے ہیں، پھر جب سورج صاف ہوگیا تو آپ نے ہمیں خطبہ دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اور ان دونوں کو کسی کے مرنے سے گرہن نہیں لگتا، تو جب تم ان دونوں میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو، اور دعا کرو یہاں تک کہ جو تمہیں لاحق ہوا ہے چھٹ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٤٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1502
سورج گرہن کے موقع پر استغفار کرنے کا حکم
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ گھبرا کر کھڑے ہوئے، آپ ڈر رہے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی ہے، چناچہ آپ اٹھے یہاں تک کہ مسجد آئے، پھر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو آپ نے اتنے لمبے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کیے کہ اتنے لمبے میں نے آپ کو کسی نماز میں کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، یہ نہ کسی کے مرنے سے ہوتے ہیں نہ کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، تو جب تم ان میں سے کچھ دیکھو تو اللہ کو یاد کرنے اور اس سے دعا اور استغفار کرنے کے لیے دوڑ پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکسوف ١٤ (١٠٥٩) ، صحیح مسلم/الکسوف ٥ (٩١٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1503