18. رات دن کے نوافل کے متعلق احادیث

【1】

گھروں میں نوافل ادا کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھروں میں نماز پڑھو، انہیں قبرستان نہ بناؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٥٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٢ (٤٣٢) ، التھجد ٣٧ (١١٨٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٧٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٣) ، ٣٤٦ (١٤٤٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٤ (٤٥١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٦ (١٣٧٧) ، مسند احمد ٢/٦، ١٦، ١٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نماز سے مراد نوافل اور سنتیں ہیں۔ انہیں قبرستان نہ بناؤ یعنی اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہوتا وہ قبرستان کی طرح ہوتے ہیں، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں اسی طرح ایسے گھر بھی عمل اور عبادت سے محروم ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1598

【2】

گھروں میں نوافل ادا کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان

زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں نمازیں پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کردی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کردی گئی تو تم اسے ادا نہیں کرسکو گے، تو لوگو ! تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨١ (٧٣١) ، الأدب ٧٥ (٦١١٣) ، الإعتصام ٣ (٧٢٩٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٩ (٧٨١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٠٥ (١٠٤٤) ، ٣٤٦ (١٤٤٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٤ (٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٨) ، موطا امام مالک/الجماعة ١ (٤) ، مسند احمد ٥/١٨٢، ١٨٣، ١٨٦، ١٨٧، سنن الدارمی/الصلاة ٩٦ (١٤٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم تمام نفلی نمازوں کو شامل ہے، البتہ اس حکم سے وہ نمازوں مستثنیٰ ہیں جو شعائر اسلام میں شمار کی جاتی ہیں مثلاً عیدین، استسقاء اور کسوف و خسوف (چاند اور سورج گرہن) کی نمازوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1599

【3】

گھروں میں نوافل ادا کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان

کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب کی نماز قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پڑھی، جب آپ پڑھ چکے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر سنت پڑھنے لگے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس (سنت) نماز کو گھروں میں پڑھنے کی پابندی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٤ (١٣٠٠) ، سنن الترمذی/فیہ ٣٠٧ (الجمعة ٧١) (٦٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1600

【4】

تہجد کا بیان

سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ سعد نے کہا : کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا : وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چناچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے : میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ١ ؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چناچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا : تمہارے ساتھ یہ کون ہیں ؟ میں نے کہا : سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا : کون ہشام ؟ میں نے کہا : عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا : عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا : ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا : نبی کریم ﷺ کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا : ام المؤمنین ! مجھے نبی کریم ﷺ کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا : کیا تم سورة يا أيها المزمل‏ نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس سورة کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورة کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورة کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہوگیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ ﷺ کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا : ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا : ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ٢ ؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ بوڑھے ہوگئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے ! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم ﷺ نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا : عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٤٢، ١٣٤٣، ١٣٤٤، ١٣٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٤) ، مسند احمد ٦/٥٣، ٩٤، ١٠٩، ١٦٣، ١٦٨، ٢٣٦، ٢٥٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٥ (١٥١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان میں۔ ٢ ؎: کسی راوی سے وہم ہوگیا ہے، صحیح نو رکعتیں ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، آٹھ رکعتیں لگاتار پڑھتے، اور آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر نویں رکعت کے لیے اٹھتے۔ ٣ ؎: وتر کی جگہ میں غلطی اس طرح ہوئی ہے کہ اس حدیث میں بیٹھ کر پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں کو اس وتر کی رکعت پر مقدم کردیا گیا جسے آپ آٹھویں کے بعد پڑھتے تھے، صحیح یہ ہے کہ آپ ان دونوں رکعتوں کو بیٹھ کر وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1601

【5】

رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کے ثواب کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے (رات کا) قیام کرے گا، تو اس کے گناہ جو پہلے ہوچکے ہوں بخش دیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، الصوم ٦ (١٨٩٨) ، التراویح ١ (٢٠٠٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٣) ، ٨٣ (٨٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٣ (١٣٢٦) ، موطا امام مالک/رمضان ١ (٢) ، مسند احمد ٢/٢٤١، ٢٨١، ٢٨٩، ٤٠٨، ٤٢٣، ٤٧٣، ٤٨٦، ٥٠٣، ٢٩، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٢٠١، ٢٢٠٢، ٢٢٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1602

【6】

رمضان المبارک میں عبادت کرنے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے (رات کا) قیام کرے گا، تو اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٧، ١٥٢٤٨) ، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم : ٥٠٢٨، ٥٠٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1603

【7】

ماہ رمضان میں نفلی عبادت کرنا۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ کی نماز کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی نماز پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا : تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے ، یہ رمضان کا واقعہ تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨٠ (٧٢٩) ، الجمعة ٢٩ (٩٢٤) ، التھجد ٥ (١١٢٩) ، التراویح ١ (٢٠١١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٤) ، موطا امام مالک/رمضان ١ (١) ، مسند احمد ٦/١٦٩، ١٧٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے میں اب کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں، تو دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے ان راتوں میں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں اور وتر کی رکعتوں کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعت تک پڑھنا ثابت ہے، یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1604

【8】

ماہ رمضان میں نفلی عبادت کرنا۔

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان میں روزے رکھے، تو آپ ہمارے ساتھ (تراویح کے لیے) کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ مہینے کی سات راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات کو قیام نہیں کیا، پھر پچیسویں رات کو قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کاش آپ ہماری اس رات کے باقی حصہ میں بھی اسی طرح نفلی نماز پڑھاتے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام (کا ثواب) لکھے گا ، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، اور نہ آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ مہینے کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ستائیسویں رات میں ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی جمع کیا یہاں تک کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا : فلاح کیا ہے ؟ کہنے لگے : سحری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1605

【9】

ماہ رمضان میں نفلی عبادت کرنا۔

نعیم بن زیاد ابوطلحہ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بشیر رضی اللہ عنہم کو حمص میں منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے مہینے میں تیئسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا، پھر پچسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا، پھر ستائیسویں رات کو ہم نے آپ کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم فلاح نہیں پاسکیں گے، وہ لوگ سحری کو فلاح کا نام دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٢) ، مسند احمد ٤/٢٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1606

【10】

رات کو نماز پڑھنے کی ترغیب کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں لگا دیتا ہے، اور ہر گرہ پر تھپکی دے کر کہتا ہے : ابھی رات بہت لمبی ہے، پس سوئے رہ، تو اگر وہ بیدار ہوجاتا ہے، اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وہ وضو بھی کرلے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر اس نے نماز پڑھی تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں، اور وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہش اس بش اس اور خوش دل ہوتا ہے، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ بددل اور سست ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التھجد ١٢ (١١٤٢) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٦٩) ، موطا امام مالک/المسافرین ٢٨ (٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٨٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٤ (١٣٢٩) ، موطا امام مالک/ صلاة السفر ٢٥ (٩٥) ، مسند احمد ٢/٢٤٣، ٢٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1607

【11】

رات کو نماز پڑھنے کی ترغیب کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات بھر سوتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو آپ نے فرمایا : یہ ایسا آدمی ہے جس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٣ (١١٤٤) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٧٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٤ (١٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٩٧) ، مسند احمد ١/٣٧٥، ٤٢٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے کہا کہ کان میں شیطان کا پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لیے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1608

【12】

رات کو نماز پڑھنے کی ترغیب کا بیان

عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! فلاں شخص کل کی رات نماز سے سویا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو آپ نے فرمایا : اس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1609

【13】

رات کو نماز پڑھنے کی ترغیب کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ رحم کرے اس آدمی پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے، پھر اپنی بیوی کو بیدار کرے، تو وہ (بھی) نماز پڑھے، اگر نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور تہجد پڑھے، پھر اپنے شوہر کو (بھی) بیدار کرے، تو وہ بھی تہجد پڑھے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٧ (١٣٠٨) ، ٣٤٨ (١٤٥٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٥ (١٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٠) ، مسند احمد ٢/٢٥٠، ٤٣٦ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ پانی کے چھینٹے مارنے سے وہ جاگ جائے گا، اور نماز پڑھے گا تو وہ بھی اس کی مستحق ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1610

【14】

رات کو نماز پڑھنے کی ترغیب کا بیان

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا : کیا تم نماز نہیں پڑھو گے ؟ تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ ﷺ پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے : وكان الإنسان أكثر شىء جدلا انسان بہت حجتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٥ (١١٢٧) ، تفسیر الکھف ١ (٤٧٢٤) ، الاعتصام ١٨ (٧٣٤٧) ، التوحید ٣١ (٧٤٦٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٨ (٧٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٧٠) ، مسند احمد ١/١١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1611

【15】

رات کو نماز پڑھنے کی ترغیب کا بیان

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں میرے اور فاطمہ کے پاس آئے، اور آپ نے ہمیں نماز کے لیے بیدار کیا، پھر آپ اپنے گھر لوٹ گئے، اور جا کر دیر رات تک نماز پڑھتے رہے، جب آپ نے ہماری کوئی آہٹ نہیں سنی تو آپ دوبارہ ہمارے پاس آئے، اور ہمیں بیدار کیا، اور فرمایا : تم دونوں اٹھو، اور نماز پڑھو ، تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا، میں اپنی آنکھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا : قسم اللہ کی، ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اگر وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تو بیدار کر دے گا تو یہ سنا تو رسول اللہ ﷺ پیٹھ پھیر کر جانے لگے، آپ اپنے ہاتھ سے اپنی ران پر مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے : ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ١ ؎ انسان بہت ہی حجتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ علی (رض) کی بات تھی جسے آپ بطور تعجب دہرا رہے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1612

【16】

رات کو نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کے مہینے کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں ١ ؎، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل (تہجد) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٣٨ (١١٦٣) ، سنن ابی داود/الصیام ٥٥ (٢٤٢٩) ، سنن الترمذی/الصل ا ٢٠٨ (٤٣٨) الصوم ٤٠ (٧٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٤٣ (١٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٩٢) ، مسند احمد ٢/٣٠٣، ٣٢٩، ٣٤٢، ٣٤٤، ٥٣٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٦ (١٥١٧) ، الصوم ٤٥ (١٧٩٨، ١٧٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ کی طرف اس مہینے کی نسبت شرف و فضل کی علامت کے طور پر ہے، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ وغیرہ تراکیب ہیں، محرم حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اسی مہینے سے ہجری سن کا آغاز ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1613

【17】

رات کو نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان

حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل (تہجد) ہے، اور رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے روزے ہیں ۔ شعبہ بن حجاج نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح بما قبلہ) (یہ مرسل ہے لیکن پچھلی روایت متصل ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1614

【18】

سفر میں نماز تہجد پڑھنے کی فضیلت کا بیان

ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین شخص سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے : ایک وہ شخص جو کسی قوم کے پاس آیا، اور اس نے ان سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا، آپ سی قرابت کا واسطہ دے کر نہیں مانگا، تو انہوں نے اسے نہیں دیا، پھر انہی میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے سے آیا، اور چھپا کر چپکے سے اسے دیا، اور اس کے اس صدقہ دینے کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس شخص کے جس کو اس نے دیا ہے کوئی نہیں جانتا، اور دوسرا آدمی وہ ہے جس کے ساتھ کے لوگ رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب نیند انہیں بھلی معلوم ہونے لگی تو وہ اترے اور سو رہے، لیکن وہ خود کھڑا ہو کر اللہ کے سامنے عاجزی کرتا رہا، اور اس کی آیتیں تلاوت کرتا رہا، اور تیسرا وہ شخص ہے جو ایک لشکر میں تھا، دشمن سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی، تو وہ ہار گئے (جس کی وجہ سے بھاگنے لگے) لیکن وہ سینہ سپر رہا یہاں تک کہ وہ مارا جائے، یا اللہ اسے فتح دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/صفة الجنة ٢٥ (٢٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩١٣) ، مسند احمد ٥/١٥٣، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٥٧١ (کلھم بسیاق فیہ زیادة) (ضعیف) (اس کے راوی ” زیدبن ظبیان “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1615

【19】

رات میں نوافل پڑھنے کا وقت

مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون سا عمل تھا ؟ تو انہوں نے کہا : جس عمل پر مداومت ہو، میں نے پوچھا : رات میں آپ کب اٹھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : جب مرغ کی بانگ سنتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٧ (١١٣٢) ، الرقاق ١٨ (٦٤٦١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٢ (١٣١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٩) ، مسند احمد ٦/٩٤، ١١٠، ١٤٧، ٢٠٣، ٢٧٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ عام معمول کی بات ہوگی، ورنہ خود عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ رات کے ہر حصے میں سوتے یا نماز پڑھتے پائے گئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1616

【20】

شب میں بیدار ہونے پر سب سے پہلے کیا پڑھا جائے؟

عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ رات کے قیام کی شروعات کس سے کرتے تھے ؟ تو وہ کہنے لگیں، تو نے مجھ سے ایک ایسی چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی، رسول اللہ ﷺ دس بار اللہ اکبر، دس بار الحمد للہ، دس بار سبحان اللہ اور دس بار لا الٰہ الا اللہ اور دس بار استغفر اللہ کہتے تھے، اور اللہم اغفر لي واهدني وارزقني وعافني أعوذ باللہ من ضيق المقام يوم القيامة اے اللہ ! مجھے بخش دے، مجھے راہ دکھا، مجھے رزق عطا فرما، اور میری حفاظت فرما، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں قیامت کے روز جگہ کی تنگی سے کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٦٦) مسند احمد ٦/١٤٣، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم : ٥٥٣٧ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1617

【21】

شب میں بیدار ہونے پر سب سے پہلے کیا پڑھا جائے؟

ربیعہ بن کعب الاسلمی (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے کمرے کے پاس رات گزارتا تھا، تو میں آپ کو سنتا جب آپ رات میں اٹھتے، تو دیر تک سبحان اللہ رب العالمين کہتے، پھر سبحان اللہ وبحمده دیر تک کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٣) وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٣ (٤٨٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٢ (١٣٢٠) ، سنن الترمذی/الدعوات ٢٧ (٣٤١٦) ، سنن ابن ماجہ/ الدعاء ٢ (٣٨٧٩) ، مسند احمد ٤/٥٧، ٥٨، ٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1618

【22】

شب میں بیدار ہونے پر سب سے پہلے کیا پڑھا جائے؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو کہتے : ‏اللہم لک الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد أنت قيام السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد أنت ملک السموات والأرض ومن فيهن ولک الحمد أنت حق ووعدک حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيون حق ومحمد حق لك أسلمت وعليك توکلت وبک آمنت اے اللہ ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا روشن کرنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا قائم و برقرار رکھنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور جوان میں ہیں سب کا بادشاہ ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں، اور محمد حق ہیں، میں نے تیری ہی فرمانبرداری کی، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تجھی پر ایمان لایا ، پھر قتیبہ نے ایک بات ذکر کی اس کا مفہوم ہے (کہ آپ یہ بھی کہتے :) وبک خاصمت وإليك حاکمت اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا باللہ اور تیرے ہی لیے میں نے جھگڑا کیا، تیری ہی طرف میں فیصلہ کے لیے آیا، بخش دے میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود مگر تو ہی، اور نہ ہی کسی میں زور و طاقت ہے سوائے اللہ کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١ (١١٢٠) ، الدعوات ١٠ (٦٣١٧) ، التوحید ٨ (٧٣٨٥) ، ٢٤ (٧٤٤٢) ، ٣٥ (٧٤٩٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٢) ، مسند احمد ١/٢٩٨، ٣٠٨، ٣٥٨، ٣٦٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٩ (١٥٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1619

【23】

شب میں بیدار ہونے پر سب سے پہلے کیا پڑھا جائے؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری (وہ ان کی خالہ تھیں) تو وہ تکیہ کے چوڑان میں لیٹے اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ دونوں اس کی لمبان میں، رسول اللہ ﷺ سوئے رہے یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی، یا اس سے کچھ پہلے، یا اس کے کچھ بعد تو رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے، چہرہ سے نیند بھگانے کے لیے اپنے ہاتھ سے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے، پھر آپ نے سورة آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر آپ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف بڑھے، اور اس سے وضو کیا تو خوب اچھی طرح سے وضو کیا، پھر آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے آپ نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہوگیا تو آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر آپ نے وتر پڑھی ١ ؎ پھر آپ لیٹے یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آیا تو آپ نے پھر ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٨٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک رکعت وتر پڑھی، اگر تین رکعتیں پڑھی ہوتیں تو پھر یہ کل پندرہ رکعتیں ہوجائیں گی، اور آپ کی تہجد کی نماز کے سلسلے میں یہ کسی کے نزدیک ثابت نہیں ہے، صحیح بخاری کی ایک روایت میں تیرہ رکعتوں کی صراحت موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1620

【24】

رات کو سو کر اٹھ کے مسواک کرنا

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب رات میں اٹھتے تو مسواک سے اپنا منہ ملتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1621

【25】

رات کو سو کر اٹھ کے مسواک کرنا

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں اٹھتے تو مسواک سے اپنا منہ ملتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1622

【26】

رات کو سو کر اٹھ کے مسواک کرنا

ابوسنان ابوحصین سے وہ ابو وائل شقیق بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ (رض) نے کہا : جب ہم رات میں بیدار ہوتے تو ہمیں مسواک کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر حدیث رقم : ٢ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس میں اختلاف ہے کہ اوروں نے اس کو نبی اکرم ﷺ کے عمل کے طور پر روایت کیا ہے، جب کہ ابوحصین عثمان نے اس کو اس سند سے جو حکماً مرفوع ہے قول رسول کے طور پر روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1623

【27】

رات کو سو کر اٹھ کے مسواک کرنا

اسرائیل ابوحصین سے روایت کرتے ہیں کہ ابو وائل شقیق نے کہا : جب ہم رات کو بیدار ہوتے تھے تو ہمیں مسواک سے اپنا منہ ملنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢ (صحیح الإسناد) وذکرہ المزي موصولاً بذکر حذیفة کالسابق ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1624

【28】

رات کی نماز کی کس دعا سے ابتداکی جائے؟

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ اپنی نماز کی شروعات کس چیز سے کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ جب رات میں اٹھ کر اپنی نماز شروع کرتے تو کہتے : اللہم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحکم بين عبادک فيما کانوا فيه يختلفون اللہم اهدني لما اختلف فيه من الحق إنک تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم اے اللہ ! اے جبرائیل و میکائیل و اسرافیل کے رب، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ جھگڑتے تھے، اے اللہ ! جس میں اختلاف کیا گیا ہے اس میں تو میری رہنمائی فرما، تو جس کی چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی فرماتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٧٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢١ (٧٦٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ٣١ (٣٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٠ (١٣٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٩) ، مسند احمد ٦/١٥٦ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1625

【29】

رات کی نماز کی کس دعا سے ابتداکی جائے؟

حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں نے اپنے جی میں کہا کہ اللہ کی قسم ! میں نماز کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ آپ کے عمل کو دیکھ لوں، تو جب آپ نے عشاء کی نماز پڑھی، اور یہی عتمہ تھی، تو بڑی رات تک سوئے رہے، پھر آپ بیدار ہوئے توافق کی جانب نگاہ اٹھائی، اور فرمایا : ربنا ما خلقت هذا باطلا اے ہمارے رب ! تو نے اسے بیکار پیدا نہیں کیا ہے (آل عمران : ١٩١ ) یہاں تک کہ آپ إنک لا تخلف الميعاد بلاشبہ تو وعدہ خلافی نہیں کرتا (آل عمران : ١٩٤ ) تک پہنچے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف جھکے، اور آپ نے اس میں سے ایک مسواک نکالی، پھر ڈول سے جو آپ کے پاس تھا ایک پیالے میں پانی انڈیلا، اور مسواک کی، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور نماز پڑھی یہاں تک کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا : آپ جتنی دیر تک سوئے تھے اتنی ہی دیر تک آپ نے نماز پڑھی ہے، پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا : آپ اتنی ہی دیر تک سوئے ہیں جتنی دیر تک آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ بیدار ہوئے تو آپ نے اسی طرح کیا جس طرح آپ نے پہلی مرتبہ کیا تھا، اور اسی طرح کہا جس طرح پہلے کہا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فجر سے پہلے تین مرتبہ (اسی طرح) کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٥٥٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1626

【30】

رسول اللہ کی (تہجد) نماز کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو رات میں نماز (تہجد) پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو دیکھ لیتے، اور آپ کو سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو دیکھ لیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التھجد ١١ (١١٤١) ، الصیام ٥٣ (١٩٧٢، ١٩٧٣) ، سنن الترمذی/الصیام ٥٧ (٧٦٩) ، مسند احمد ٣/١٠٤، ١١٤، ١٨٢، ٢٣٦، ٢٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ آپ رات میں سوتے بھی تھے، اور نماز بھی پڑھتے تھے، نہ ساری رات جاگتے ہی تھے، اور نہ ساری رات سوتے ہی تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1627

【31】

رسول اللہ کی (تہجد) نماز کا بیان

یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا : آپ عتمہ (عشاء کی نماز) پڑھتے تھے پھر سنتیں پڑھتے، پھر اس کے بعد رات میں جتنا اللہ چاہتا پڑھتے، پھر آپ واپس جا کر جتنی دیر تک آپ نے نماز پڑھی تھی اسی کے بقدر سوتے، پھر آپ اپنی اس نیند سے بیدار ہوتے تو جتنی دیر تک سوئے تھے اسی کے بقدر نماز پڑھتے، اور آپ کی یہ دوسری مرتبہ والی نماز صبح (فجر) تک جاری رہتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٢٣ (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1628

【32】

رسول اللہ کی (تہجد) نماز کا بیان

یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی قرآت اور آپ کی نماز کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے کہا : تمہیں آپ کی نماز سے کیا سروکار ؟ ١ ؎ آپ نماز پڑھتے تھے، پھر جتنی دیر تک آپ نے نماز پڑھی تھی اسی کے بقدر آپ سوتے، پھر جتنی دیر تک سوئے تھے اسی کے بقدر آپ اٹھ کر نماز پڑھتے، پھر جتنی دیر تک نماز پڑھی تھی اسی کے بقدر آپ سوتے یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے ان سے آپ کی قرآت کی کیفیت بیان کی، تو وہ ایک ایک حرف واضح کر کے بیان کر رہی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٢٣ (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تمہارا اسے پوچھنا بےسود ہے کیونکہ تم ویسی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1629

【33】

حضرت داد کی رات کی نماز کا بیان

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب روزے داود (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نماز داود (علیہ السلام) کی نماز ہے، وہ آدھی رات تک سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے، پھر چھٹے حصہ میں سو جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٧ (١١٣١) ، أحادیث الأنبیاء ٣٨ (٣٤٢٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن ابی داود/الصیام ٦٧ (٢٤٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٣١ (١٧١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٧) ، مسند احمد ٢/١٦٠، ١٦٤، ٢٠٦، ویأتی عند المؤلف فی الصوم ١٩ (برقم : ٢٣٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1630

【34】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

حماد بن سلمہ سلیمان تیمی سے، سلیمان تیمی ثابت سے اور ثابت انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس رات مجھے معراج ہوئی میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سرخ ٹیلے کے پاس آیا، اور وہ کھڑے اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1631

【35】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

سلیمان تیمی اور ثابت دونوں انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں الكثيب الأحمر سرخ ٹیلے کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ ١ ؎ ہمارے نزدیک معاذ بن خالد کی حدیث سے زیادہ درست ہے، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٤٢ (٢٣٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٢) ، مسند احمد ٣/١٢٠، ١٤٨، ٢٤٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس سند کا عن سلیمان وثابت حرف عطف کے ساتھ ہونا عن سلیمان عن ثابت ہونے کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1632

【36】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

حماد بن سلمہ کہتے ہیں ہمیں ثابت اور سلیمان تیمی نے خبر دی ہے وہ دونوں انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر پر سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1633

【37】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

سلیمان تیمی روایت کرتے ہیں انس بن مالک (رض) سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں معراج کی رات میں موسیٰ وضاحت پر سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1634

【38】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

معتمر بن سلیمان اپنے والد سے اور ان کے والد انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ معراج کی رات موسیٰ (علیہ السلام) پر سے گزرے اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1635

【39】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

معتمر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے انس (رض) کو کہتے سنا ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ کے بعض اصحاب نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ معراج کی رات میں موسیٰ (علیہ السلام) پر سے گزرے، اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٥٣٣) ، مسند احمد ٥/٥٩، ٣٦٢، ٣٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1636

【40】

حضرت موسیٰ کا طریقہ نماز کا بیان

سلیمان انس (رض) سے اور وہ نبی اکرم ﷺ کے بعض اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : معراج کی رات میں میں موسیٰ کے پاس سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1637

【41】

شب میں عبادت کرنے کا بیان

خباب بن ارت (رض) سے روایت ہے (وہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے) کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو پوری رات نماز پڑھتے دیکھا یہاں تک کہ فجر ہوگئی، جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز سے سلام پھیرا، تو خباب (رض) آپ کے پاس آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے آج رات ایسی نماز پڑھی کہ اس طرح میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں یہ رغبت اور خوف کی نماز تھی، میں نے اپنے رب سے اس میں تین باتوں کی درخواست کی، تو اس نے دو مجھے دے دیں اور ایک نہیں دی، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اس چیز کے ذریعہ ہلاک نہ کرے جس کے ذریعہ اس نے ہم سے پہلے کی امتوں کو ہلاک کیا، تو اس نے یہ مجھے دے دی، اور میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ کسی دشمن کو جو ہم میں سے نہ ہو ہم پر غالب نہ کرے، تو اسے بھی اس نے مجھے دے دیا، اور میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہم میں پھوٹ نہ ڈالے، اور ہم گروہ در گروہ نہ ہوں، تو اس نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ١٤ (٢١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٦) ، مسند احمد ٥/١٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1638

【42】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

مسروق کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب (رمضان کا آخری) عشرہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ شب بیداری فرماتے، اور اپنے اہل و عیال کو بیدار کرتے، اور (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہوجاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/لیلة القدر ٥ (٢٠٢٤) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٣ (١١٧٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥٧ (١٧٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٧) ، مسند احمد ٦/٤٠، ٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1639

【43】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس آیا، وہ میرے بھائی اور دوست تھے، تو میں نے کہا : اے ابوعمرو ! مجھ سے وہ باتیں بیان کریں جن کو ام المؤمنین نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق بیان کیا ہے، تو انہوں نے کہا : وہ کہتی ہیں کہ آپ شروع رات میں سوتے تھے، اور اس کے آخر کو زندہ رکھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/التھجد ١٥ (١١٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٢ (١٣٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٠) ، مسند احمد ٦/١٠٢، ٢٥٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رات کے آخری حصہ میں جاگ کر عبادت کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1640

【44】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، یا رات بھر صبح تک عبادت کی ہو، یا پورے مہینے روزے رکھے ہوں، سوائے رمضان کے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإقامة ١٧٨ (١٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٨) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢١٨٤، ٢٣٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1641

【45】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، اور ان کے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی تو آپ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : فلاں (عورت) ہے جو سوتی نہیں ہے، پھر انہوں نے اس کی نماز کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : چپ رہو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تمہیں طاقت ہو، قسم اللہ کی، اللہ نہیں تھکتا ہے یہاں تک کہ تم تھک جاؤ، پسندیدہ دین (عمل) اس کے نزدیک وہی ہے جس پر آدمی مداومت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٢ (٤٣) ، التھجد ١٨ (١١٥١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٢ (٧٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزھد ٢٨ (٤٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٠٧) ، مسند احمد ٦/٥١، ویأتی عند المؤلف فی الإیمان ٢٩ برقم : ٥٠٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1642

【46】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے دو ستونوں کے درمیان میں ایک لمبی رسی دیکھی، تو آپ نے پوچھا : یہ رسی کیسی ہے ؟ تو لوگوں نے عرض کیا : زینب (زینب بنت جحش) کی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں، جب کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کھولو اسے، تم میں سے کوئی بھی ہو جب تک اس کا دل لگے نماز پڑھے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٨ (١١٥٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣١ (٧٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٨ (١٣١٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨٤ (١٣٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٣) ، مسند احمد ٣/١٠١، ١٨٤، ٢٠٤، ٢٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1643

【47】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا : کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٦ (١١٣٠) ، تفسیر الفتح ٢ (٤٨٣٦) ، الرقاق ٢٠ (٦٤٧١) ، صحیح مسلم/المنافقین ١٨ (٢٨١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٨ (٤١٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠٠ (١٤١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٨) ، مسند احمد ٤/٢٥١، ٢٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1644

【48】

سیدہ عائشہ صدیقہ سے ّرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) رات میں عبادت سے متعلق روایات کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں پھٹ جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٢٩٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠٠ (١٤٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1645

【49】

نماز کے لئے کھڑے ہونے پر کیا کرے اور اس سلسلے میں راویان حدیث کا عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے میں اختلاف کا بیان

بدیل اور ایوب دونوں عبداللہ بن شفیق سے روایت کرتے ہیں، اور وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ ﷺ رات میں کافی دیر تک نماز پڑھتے، تو جب آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو کھڑے کھڑے ہی رکوع کرتے، اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو بیٹھ کر رکوع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٥٩ (٣٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٠ (١٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠١) ، ١٦٢٠٣) ، مسند احمد ٦/١٠٠، ٢٢٧، ٢٦١، ٢٦٢، ٢٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1646

【50】

نماز کے لئے کھڑے ہونے پر کیا کرے اور اس سلسلے میں راویان حدیث کا عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے میں اختلاف کا بیان

ابن سیرین عبداللہ بن شفیق سے اور عبداللہ بن شقیق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی کھڑے ہو کر اور کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے، تو جب آپ کھڑے ہو کر نماز شروع کرتے تو کھڑے کھڑے رکوع کرتے، اور جب بیٹھ کر شروع کرتے تو بیٹھے بیٹھے ہی رکوع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢٢) ، مسند احمد ٦/١١٢، ١١٣، ١٦٦، ٢٠٤، ٢٢٧، ٢٢٨، ٢٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1647

【51】

نماز کے لئے کھڑے ہونے پر کیا کرے اور اس سلسلے میں راویان حدیث کا عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے میں اختلاف کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم ﷺ نماز پڑھتے اور بیٹھے ہوتے، اور قرآت کرتے اور بیٹھے ہوتے، پھر جب آپ کی قرآت میں تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر باقی رہ جاتی تو کھڑے ہوجاتے، اور کھڑے ہو کر قرآت کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں (بھی) ایسے ہی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٢٠ (١١١٩) ، التھجد ١٦ (١١٤٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٩ (٣٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٠ (١٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٠٩) ، موطا امام مالک/الجماعة ٧ (٢٣) ، مسند احمد ٦/١٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1648

【52】

نماز کے لئے کھڑے ہونے پر کیا کرے اور اس سلسلے میں راویان حدیث کا عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے میں اختلاف کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہو یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہوگئے، تو (جب آپ بوڑھے ہوگئے) تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھ کر قرآت کرتے، پھر جب سورة میں سے تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو ان کی قرآت کھڑے ہو کر کرتے، پھر رکوع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧١٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1649

【53】

نماز کے لئے کھڑے ہونے پر کیا کرے اور اس سلسلے میں راویان حدیث کا عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے میں اختلاف کا بیان

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قرآت کرتے اور بیٹھے ہوتے، تو جب آپ رکوع کرنا چاہتے تو آدمی کے چالیس آیتیں پڑھنے کے بقدر (باقی رہنے پر) کھڑے ہوجاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٠ (١٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٠) ، مسند احمد ٦/٢١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1650

【54】

نماز کے لئے کھڑے ہونے پر کیا کرے اور اس سلسلے میں راویان حدیث کا عائشہ صدیقہ سے روایت کرنے میں اختلاف کا بیان

سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں میں مدینہ آیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں سعد بن ہشام بن عامر ہوں، انہوں نے کہا : اللہ تمہارے باپ پر رحم کرے، میں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق کچھ بتائیے، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا ایسا کرتے تھے، میں نے کہا : اچھا، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ رات میں عشاء کی نماز پڑھتے تھے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف آتے اور سو جاتے، پھر جب آدھی رات ہوتی، تو قضائے حاجت کے لیے اٹھتے اور وضو کے پانی کے پاس آتے، اور وضو کرتے، پھر مسجد آتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، تو پھر ایسا محسوس ہوتا کہ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے سب برابر برابر ہیں، اور ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر آپ اپنے پہلو کے بل لیٹ جاتے، تو کبھی اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ لگے بلال (رض) آپ کے پاس آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آپ کی آنکھ لگ جاتی، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ سوئے یا نہیں سوئے یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، تو یہ رسول اللہ ﷺ کی نماز تھی، یہاں تک کہ آپ عمردراز ہوگئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا، پھر انہوں نے آپ کے جسم پر گوشت چڑھنے کا حال بیان کیا جو اللہ نے چاہا، وہ کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے، پھر اپنے بچھونے کی طرف آتے، تو جب آدھی رات ہوجاتی تو آپ اپنی پاکی اور حاجت کے لیے اٹھ کر جاتے، پھر وضو کرتے، پھر مسجد آتے تو چھ رکعتیں پڑھتے، ایسا محسوس ہوتا کہ آپ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے میں برابری رکھتے ہیں، پھر آپ ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، پھر اپنے پہلو کے بل لیٹتے تو کبھی بلال (رض) آپ کی آنکھ لگنے سے پہلے ہی آ کر نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آنکھ لگ جانے پر آتے، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ کی آنکھ لگی یا نہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، وہ کہتی ہیں : تو برابر یہی رسول اللہ ﷺ کی نماز رہی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩٦) ، مسند احمد ٦/٩١، ٩٧، ١٦٨، ٢١٦، ٢٢٧، ٢٣٥، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٧٢٣، ١٧٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1651

【55】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ١ ؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٢) ، مسند احمد ٦/١١٣، ٢٥٠ (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی روزے کی حالت میں بوسہ وغیرہ لینے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1652

【56】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے۔ شعبہ اور سفیان نے یونس بن شریک کی مخالفت کی ہے، ان دونوں نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ام سلمہ سے روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨١٤٥) ، مسند احمد ٦/٢٩٧، وانظر مایأتی (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1653

【57】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی اکثر و بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤٠ (١٢٢٥) ، الزھد ٢٨ (٤٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٦) ، مسند احمد ٦/٣٠٤، ٣٠٥، ٣١٩، ٣٢٠، ٣٢١، ٣٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1654

【58】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ ﷺ کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے، اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ عثمان بن ابی سلیمان نے ابواسحاق کی مخالفت کی ہے انہوں نے اسے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مخالفت اس طرح ہے کہ عثمان نے ام سلمہ کی جگہ عائشہ کا ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1655

【59】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے عثمان بن ابی سلیمان نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابوسلمہ نے انہیں خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ اپنی بیشتر نمازیں بیٹھ کر پڑھنے لگے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣١) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣٩ (٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٣٤) ، مسند احمد ٦/١٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1656

【60】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، اس کے بعد کہ لوگوں نے آپ پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو کمزور کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١٤) ، مسند احمد ٦/١٧١، ٢١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1657

【61】

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے بیان میں

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بیٹھ کر نفل پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ اپنی وفات سے ایک سال قبل آپ بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے تھے، آپ سورت پڑھتے تو اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ طویل سے طویل تر ہوجاتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٩ (٣٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨١٢) ، موطا امام مالک/الجماعة ٧ (٢١) ، مسند احمد ٦/٢٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٩ (١٤٢٥، ١٤٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1658

【62】

نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی بیٹھ کر (نماز) پڑھنے والے پر فضیلت کا بیان

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے عرض کیا کہ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کے آدھی ہوتی ہے، اور آپ خود بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں لیکن میں تم لوگوں کی طرح نہیں ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٦ (٧٣٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣٧) ، مسند احمد ٢/١٦٢، ١٩٢، ٢٠١، ٢٠٣، سنن الدارمی/الصلاة ١٠٨ (١٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: میرا معاملہ تم لوگوں سے جداگانہ ہے، میں خواہ بیٹھ کر پڑھوں یا کھڑے ہو کر میری نماز میں کوئی کمی نہیں رہتی، بیٹھ کر پڑھنے میں بھی مجھے پورا ثواب ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1659

【63】

نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کی لیٹ کر پڑھنے والے پر فضیلت کا بیان

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا : تو آپ نے فرمایا : جس نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی وہ سب سے افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کا آدھا ثواب ملے گا، اور جس نے لیٹ کر نماز پڑھی تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے آدھا ملے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ١٧ (١١١٥) ، ١٨ (١١١٦) ، ١٩ (١١١٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٧٩ (٩٥١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٥٨ (٣٧١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٤١ (١٢٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٣١) ، مسند احمد ٤/٤٢٦، ٤٣٣، ٤٣٥، ٤٢ ٤، ٤٤٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے تندرست آدمی نہیں بلکہ مریض مراد ہے کیونکہ انس (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا : بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے آدھا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1660

【64】

بیٹھ کر نماز پڑھنے کا طریقہ

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو پالتی مار کر بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ ابوداؤد حفری کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، اور ابوداؤد ثقہ ہیں اس کے باوجود میں اس حدیث کو غلط ہی سمجھتا ہوں، واللہ اعلم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٦) ، انظر صحیح ابن خزیمة ٩٧٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علم حدیث کے قواعد کے مطابق اس کے صحیح ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں، امام ابن خزیمہ نے بھی اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1661

【65】

رات کو قرأت کرنے کے طریقہ کا بیان

عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ رات میں کس طرح قرآت کرتے تھے، جہری یا سری ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ہر طرح سے پڑھتے، کبھی جہراً پڑھتے، اور کبھی سرّاً پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٢٨٦) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٣ (٤٤٩) ، مسند احمد ٦/١٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1662

【66】

آہستہ (آواز سے) پڑھنے والے کی فضیلت کا بیان

عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو جہر سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلان کر کے صدقہ کرتا ہے، اور جو آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر چپکے سے صدقہ کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٥ (١٣٣٣) ، سنن الترمذی/فضائل القرآن ٢٠ (٢٩١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٤٩) ، مسند احمد ٤/١٥١، ١٥٨، ٢٠١، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٥٦٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ صرف نفلی نماز ہے، ورنہ مغرب، عشاء، فجر اور جمعہ کی نماز میں جہر کرنا واجب ہے، جس طرح فرض و نفل صدقہ کا معاملہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1663

【67】

آہستہ (آواز سے) پڑھنے والے کی فضیلت کا بیان

حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی تو آپ نے سورة البقرہ شروع کردی، میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ بڑھ گئے تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ دو سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ اس سے بھی آگے بڑھ گئے، تو میں نے اپنے جی میں کہا : آپ ایک ہی رکعت میں پوری سورة پڑھ ڈالیں گے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور سورة نساء شروع کردی، اور اسے پڑھ چکنے کے بعد سورة آل عمران شروع کردی، اور پوری پڑھ ڈالی، آپ نے یہ پوری قرآت آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر کی، اس طرح کہ جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی) کا ذکر ہوتا تو آپ اس کی پاکی بیان کرتے، اور جب کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے، اور جب کسی پناہ کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور ‏ سبحان ربي العظيم پاک ہے میرا رب جو عظیم ہے کہا، آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام کے برابر تھا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور سمع اللہ لمن حمده کہا، آپ کا قیام تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سجدہ میں سبحان ربي الأعلى پاک ہے میرا رب جو اعلیٰ ہے پڑھ رہے تھے، اور آپ کا سجدہ تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1664

【68】

آہستہ (آواز سے) پڑھنے والے کی فضیلت کا بیان

حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان میں نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نے رکوع کیا، اور یہ اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ کا قیام تھا، آپ نے اپنے رکوع میں سبحان ربي العظيم‏ کہا، پھر آپ اتنی ہی دیر بیٹھے جتنی دیر کھڑے تھے، اور رب اغفر لي رب اغفر لي کہتے رہے، پھر آپ ﷺ نے اتنی دیر تک سجدہ کیا جتنی دیر تک آپ کھڑے تھے، اور سبحان ربي الأعلى کہتے رہے تو آپ نے صرف چار رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ بلال (رض) صبح کی نماز کے لیے بلانے آگئے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ حدیث میرے نزدیک مرسل (منقطع) ہے، میں نہیں جانتا کہ طلحہ بن یزید نے حذیفہ (رض) سے کچھ سنا ہے، علاء بن مسیب کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں یوں کہا : عن طلح ۃ ، عن رجل، عن حذیف ۃ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر الأرقام : ١٠٠٩، ١٠١٠، ١٠٧٠، ١١٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1665

【69】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : میرے خیال میں اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے ٢ ؎ واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٢ (١٢٩٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠١ (الجمعة ٦٥) (٥٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٢ (١٣٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤٩) ، مسند احمد ٢/٢٦، ٥١، سنن الدارمی/الصلاة ١٥٤ (١٤٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل دن ہو یا رات دو دو کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ ٢ ؎: اس سے ان کی مراد والنہار کی زیادتی میں غلطی ہے، کچھ لوگوں نے اس زیادتی کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ یہ زیادتی علی البارقی الازدی کے طریق سے مروی ہے، اور یہ ابن معین کے نزدیک ضعیف ہیں، لیکن ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کے رواۃ ثقہ ہیں اور مسلم نے علی البارقی سے حجت پکڑی ہے، اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، علامہ البانی نے بھی سلسلۃ الصحیحۃ میں اس کی تصحیح کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1666

【70】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا : دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٤ (٤٧٣) ، الوتر ١ (٩٩٠، ٩٩١، ٩٩٣) ، التھجد ١٠ (١١٣٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٤ (١٣٢٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٧ (٤٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧١ (١٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٩٩) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٣ (١٣) ، مسند احمد ٢/٣٠، ١١٣، ١٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ سب وتر یعنی طاق ہوجائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1667

【71】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تجھے صبح ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر یعنی طاق کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1668

【72】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے منبر پر فرماتے سنا : آپ سے رات کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا : وہ دو دو رکعت ہے، لیکن جب تمہیں صبح ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو تو ایک رکعت سے وتر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧١ (١٣٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٥) ، مسند احمد ٣/١٠، ٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1669

【73】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : دو دو رکعت ہے، لیکن اگر تم میں سے کوئی صبح ہوجانے کا خطرہ محسوس کرے، تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1670

【74】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٧ (٤٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧١ (١٣١٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٨) ، مسند احمد ٢/١١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1671

【75】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : رات کی نماز کیسے پڑھی جائے ؟ تو آپ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پس جب تمہیں صبح ہوجانے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ١٠ (١١٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1672

【76】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح کا ہوجانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٧١٠) ، مسند احمد ٢/١٣٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1673

【77】

رات کی نماز کس طریقہ سے ادا کی جائے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا : اللہ کے رسول ! رات کی نماز کیسے پڑھی جائے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح ہوجانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1674

【78】

وتر پڑھنے کے حکم کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر پڑھی، پھر فرمایا : اے اہل قرآن ! وتر پڑھو ١ ؎ کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر ہے، اور وتر کو محبوب رکھتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٦ (١٤١٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٦ (الوتر ٢) (٤٥٣، ٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤ (١١٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٥) ، مسند احمد ١/٨٦، ٩٨، ١٠٠، ١٠٧، ١١٠، ١١٥، ١٢٠، ١٤٣، ١٤٤، ١٤٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦٢٠) (صحیح) (سند میں ابو اسحاق سبیعی مختلط ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے، مگر متابعات اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تراجع الالبانی ٤٨٢ ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو اہل قرآن کہا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے بلکہ یہاں اہل قرآن کا مطلب شریعت اسلامیہ کے پیروکار ہیں، اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعہ کا نام ہے نہ کہ حدیث کے بغیر صرف قرآن کا۔ ٢ ؎: طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وتر سے مراد قیام اللیل ہے، کیونکہ وتر کا اطلاق قیام اللیل پر بھی ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1675

【79】

وتر پڑھنے کے حکم کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح کوئی حتمی و واجبی چیز نہیں ہے، البتہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٦ (الوتر ٢) (٥٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٤، حم ١/٨٦، ٩٨، ١٠٠، ١٠٧، ١١٥، ١٤٤، ١٤٥، ١٤٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦٢٠) (صحیح) (دیکھئے پچھلی حدیث پر کلام ) وضاحت : ١ ؎: یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ وتر واجب نہیں جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1676

【80】

سونے سے قبل وتر پڑھنے کی ترغب کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی ہے : وتر پڑھ کر سونے کی، ہر مہینہ تین دن کے روزے رکھنے کی، اور چاشت کی دونوں رکعتیں پڑھنے کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٣٣ (١١٧٨) ، الصیام ٦٠ (١٩٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦١٨) ، مسند احمد ٢/٤٥٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٥١ (١٤٩٥) ، الصوم ٣٨ (١٧٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تیرھویں چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1677

【81】

سونے سے قبل وتر پڑھنے کی ترغب کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھے تین باتوں کی نصیحت کی : شروع رات میں وتر پڑھنے کی، فجر کی رکعت سنت پڑھنے کی ١ ؎، اور ہر مہینہ تین دن کے روزے رکھنے کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحاح کی اکثر روایات میں چاشت کی رکعتیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1678

【82】

ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنے کی ممانعت کا بیان

قیس بن طلق کہتے ہیں ہمارے والد طلق بن علی (رض) نے رمضان میں ایک دن ہماری زیارت کی اور ہمارے ساتھ انہوں نے رات گزاری، ہمارے ساتھ اس رات نماز تہجد ادا کی، اور وتر بھی پڑھی، پھر وہ ایک مسجد میں گئے، اور اس مسجد والوں کو انہوں نے نماز پڑھائی یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئی، تو انہوں نے ایک شخص کو آگے بڑھایا، اور اس سے کہا : انہیں وتر پڑھاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ایک رات میں دو وتر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٤ (١٤٣٩) ، سنن الترمذی/فیہ ٢٢٧ (الوتر ١٣) (٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٤) ، مسند احمد ٤/٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1679

【83】

وتر کے وقت کا بیان

اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ شروع رات میں سو جاتے، پھر اٹھتے اگر سحر (صبح) ہونے کو ہوتی تو وتر پڑھتے، پھر اپنے بستر پر آتے، اور اگر آپ کو خواہش ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس آتے، پھر جب اذان سنتے تو جھٹ سے اٹھ کر کھڑے ہوجاتے، اگر جنبی ہوتے تو (اپنے اوپر پانی ڈالتے) یعنی غسل فرماتے، ورنہ وضو کرتے پھر نماز کو چلے جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٥ (١١٤٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣٩ (رقم : ٢٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٩) ، مسند احمد ٦/١٠٢، ١٧٦، ٢١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1680

【84】

وتر کے وقت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شروع، اخیر اور بیچ رات سب میں وتر کی نماز پڑھی ہے، اور آخری عمر میں آپ کا وتر سحر (صبح) تک پہنچ گیا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : خ /الوتر ٢ (٩٩٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٤٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٣ (١٤٣٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٨ (الوتر ٤) (٤٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢١ (١١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٥٣) ، مسند احمد ٦/٤٦، ١٠٠، ١٠٧، ١٢٩، ٢٠٤، ٢٠٥، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نبی اکرم ﷺ آخری عمر میں وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھنے لگے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1681

【85】

وتر کے وقت کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جو رات کو نماز پڑھے تو وہ اپنی آخری نماز وتر کو بنائے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اسی کا حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥١) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٩٧) ، مسند احمد ٢/٣٩، ١٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1682

【86】

صبح سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : وتر صبح ہونے (فجر نکلنے) سے پہلے پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٦ (الوتر ١٢) (٤٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٢ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨٤) ، مسند احمد ٣/٤، ١٣، ٣٥، ٣٧، ٧١، سنن الدارمی/الصلاة ٢١١ (١٦٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1683

【87】

صبح سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وتر فجر نکلنے سے پہلے پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1684

【88】

فجر کی اذان کے بعد وتر پڑھنا

محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے، کہ اتنے میں اقامت ہوگئی، تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے، وہ آئے اور کہا : میں وتر پڑھ رہا تھا، اور کہا : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے پوچھا گیا : کیا اذان کے بعد وتر ہے، تو کہا : ہاں، اور اقامت کے بعد بھی ہے، اور انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نماز سے سوئے رہ گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر آپ نے (اٹھ کر) نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦١٣ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1685

【89】

سواری پر وتر پڑھنے کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سواری پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٧٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1686

【90】

سواری پر وتر پڑھنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم اپنے اونٹ پر وتر پڑھتے تھے، اور ذکر کرتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1687

【91】

سواری پر وتر پڑھنے کا بیان

سعید بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر وتر پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٥ (٩٩٩) مطولاً ، صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) مطولاً ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٨ (٤٧٢) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٧ (١٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٥) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٣ (١٥) ، مسند احمد ٢/٧، ٥٧، ١١٣، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٣ (١٦٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1688

【92】

رکعات وتر کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٥٢، ٧٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٨ (١٤٢١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٦ (١١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٨) ، مسند احمد ١/٣١١، ٣٦١، ٢/٤٣، ٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1689

【93】

رکعات وتر کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1690

【94】

رکعات وتر کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ دیہات والوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا : تو آپ نے فرمایا : دو دو رکعت ہے، اور وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٨ (١٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٧) ، مسند احمد ٢/٤٠، ٥٨، ٧١، ٧٦، ٧٩، ١٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1691

【95】

ایک رکعت وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پھر جب تم ختم کرنے کا ارادہ کرو تو ایک رکعت اور پڑھ لو، یہ جو تم نے پڑھی ہے سب کو (طاق) کر دے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ١ (٩٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1692

【96】

ایک رکعت وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور وتر ایک رکعت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٦٥٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1693

【97】

ایک رکعت وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت ہے، اور تم میں سے کسی کو جب صبح ہوجانے کا خدشہ ہو تو وہ ایک رکعت اور پڑھ لے یہ جو اس نے پڑھی ہے سب کو وتر (طاق) کر دے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ١ (٩٩٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٠ (٧٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٤ (١٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٥) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٣ (١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1694

【98】

ایک رکعت وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت ہے، تو جب تمہیں صبح ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1695

【99】

ایک رکعت وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٢٦) ، الوتر ١ (٩٩٤) ، التھجد ٣ (١١٢٣) ، ٢٣ (١١٦٠) ، الدعوات ٥ (٦٣١٠) صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٣٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٩ (٤٤١) ، الشمائل ٣٩ (٢٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٦ (١١٩٨) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٢ (٨) ، مسند احمد ٦/٣٥، ١٨٢، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٣) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٥ (١٥١٤) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٧٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق لکن ذکر الاضطجاع بعد الوتر شاذ والمحفوظ بعد سنة الفجر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1696

【100】

تین رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ رمضان میں اور غیر رمضان میں کسی میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعت پڑھتے تو ان کا حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو ١ ؎، پھر چار رکعت پڑھتے تو تم ان کا (بھی) حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو، پھر تین رکعت پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٦ (١١٤٧) ، التراویح ١ (٢٠١٣) ، المناقب ٢٤ (٣٥٦٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٤١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٩ (٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٩) موطا امام مالک/ صلاة اللیل ٢ (٩) ، مسند احمد ٦/٣٦، ٧٣، ١٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں نہی مقصود نہیں بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔ ٢ ؎: یعنی میرا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اس وجہ سے سونے سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا، میرا وضو اس سے نہیں ٹوٹتا، واضح رہے کہ یہ بات آپ کی خصوصیات میں سے تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1697

【101】

تین رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦١١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تینوں رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1698

【102】

حضرت ابی بن کعب کی وتر کے متعلق حدیث میں اختلاف روایان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ وتر تین رکعت پڑھتے تھے، پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الأعلى‏ دوسری رکعت میں قل يا أيها الکافرون اور تیسری میں قل هو اللہ أحد پڑھتے، اور دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، پھر جب (وتر سے) فارغ ہوجاتے تو فراغت کے وقت تین بار : سبحان الملک القدوس کہتے، اور ان کے آخر میں کھینچتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٩ (١٤٢٣) (وعندہ ” قل للذین کفروا “ و ” اللہ الواحد الصمد “ )، ٣٤١ (١٤٣٠) سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٥ (١١٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٤، ٥٥) ، مسند احمد ٥/١٢٣، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٧٠١، ١٧٠٢، ١٧٣٠، ١٧٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1699

【103】

حضرت ابی بن کعب کی وتر کے متعلق حدیث میں اختلاف روایان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الأعلى‏ دوسری رکعت میں قل يا أيها الکافرون اور تیسری میں قل هو اللہ أحد پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1700

【104】

حضرت ابی بن کعب کی وتر کے متعلق حدیث میں اختلاف روایان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ وتر میں (پہلی رکعت میں) سبح اسم ربک الأعلى‏ دوسری رکعت میں قل يا أيها الکافرون اور تیسری میں قل هو اللہ أحد پڑھتے، اور ان کے بالکل آخر ہی میں سلام پھیرتے، اور تین بار : سبحان الملک القدوس کہتے (یعنی سلام پھیرنے کے بعد) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1701

【105】

سیدنا عبداللہ ابن عباس کی حدیث میں راویان حدیث کا اختلاف

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے، پہلی میں سبح اسم ربک الأعلى‏ دوسری میں قل يا أيها الکافرون اور تیسری میں قل هو اللہ أحد پڑھتے۔ زہیر نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، (ان کی روایت اس کے بعد آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٣ (الوتر ٩) (٤٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٥ (١١٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٧) ، مسند احمد ١/٢٩٩، ٣٠٠، ٣١٦، ٣٧٢، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٠ (١٦٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1702

【106】

سیدنا عبداللہ ابن عباس کی حدیث میں راویان حدیث کا اختلاف

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ وہ وتر کی تینوں رکعتوں میں سبح اسم ربک الأعلى‏، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1703

【107】

حضرت عبداللہ ابن عباس کی حضرت حبیب بن ابی ثابت سے مروی روایت کے متعلق اختلاف

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کو اٹھے اور مسواک کی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر سو گئے، (دوبارہ) آپ پھر اٹھے، اور مسواک کی، پھر وضو کیا، اور دو رکعت نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ نے چھ رکعتیں پڑھیں، پھر تین رکعتیں وتر کی اور دو رکعتیں (فجر کی) پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العلم ٤١ (١١٧) ، الأذان ٥٧ (٦٩٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الطھارة ٣٠ (٥٨) ، الصلاة ٣١٦ (١٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٧) ، مسند احمد ١/٣٥٠، ٣٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1704

【108】

حضرت عبداللہ ابن عباس کی حضرت حبیب بن ابی ثابت سے مروی روایت کے متعلق اختلاف

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا، آپ نیند سے بیدار ہوئے، آپ نے وضو کیا، مسواک کی، آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے : إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں (آل عمران : ١٩٠ ) یہاں تک کہ آپ اس سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ واپس آئے، اور سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ اٹھے، اور وضو کیا، مسواک کی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، اور تین رکعت وتر پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1705

【109】

حضرت عبداللہ ابن عباس کی حضرت حبیب بن ابی ثابت سے مروی روایت کے متعلق اختلاف

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو آپ نے مسواک کی، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٤٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1706

【110】

حضرت عبداللہ ابن عباس کی حضرت حبیب بن ابی ثابت سے مروی روایت کے متعلق اختلاف

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو آٹھ رکعتیں پڑھتے، اور تین رکعت وتر پڑھتے، اور دو رکعت فجر کی نماز سے پہلے پڑھتے۔ عمرو بن مرہ نے حبیب کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے یحییٰ بن الجزار سے اور یحییٰ جزار نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول ﷺ سے روایت کی ہے، (یعنی اس کو مسند ابن عباس رضی اللہ عنہم کے بجائے مسند ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں سے قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٥٤٧) ، مسند احمد ١/٢٩٩، ٣٠١، ٣٢٦ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1707

【111】

حضرت عبداللہ ابن عباس کی حضرت حبیب بن ابی ثابت سے مروی روایت کے متعلق اختلاف

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تیرہ رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر جب آپ بوڑھے اور کمزور ہوگئے تو آپ نو رکعت وتر پڑھنے لگے۔ عمارہ بن عمیر نے عمرو کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے یحییٰ بن جزار سے اور یحییٰ بن جزار نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ (یعنی عمارہ بن عمیر نے اس کو مسند ام سلمہ کی بجائے مسند عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١٩ (الوتر ٥) (٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٥) ، مسند احمد ٦/٣٢٢، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٧٢٨ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1708

【112】

حضرت عبداللہ ابن عباس کی حضرت حبیب بن ابی ثابت سے مروی روایت کے متعلق اختلاف

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے، جب آپ بوڑھے اور (گوشت چڑھ جانے کی وجہ سے) بھاری بھر کم ہوگئے تو (صرف) سات رکعتیں پڑھنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٦٨١) ، مسند احمد ٦/٣٢، ٢٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1709

【113】

حضرت ابوایوب سے مروی حدیث کے متعلق زہری پر اختلاف کا بیان

دوید بن نافع نے زہری سے، اور زہری نے عطاء بن یزید سے اور عطاء بن یزید نے ابوایوب (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وتر حق ہے، جو چاہے سات رکعت پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٨ (١٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٣ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٨٠) ، مسند احمد ٥/٤١٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٠ (١٦٢٣، ١٦٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1710

【114】

حضرت ابوایوب سے مروی حدیث کے متعلق زہری پر اختلاف کا بیان

اوزاعی نے زہری سے اور زہری نے عطاء بن یزید سے اور عطاء نے ابوایوب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وتر حق ہے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے ایک پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1711

【115】

حضرت ابوایوب سے مروی حدیث کے متعلق زہری پر اختلاف کا بیان

ابومعید نے زہری سے اور زہری نے عطاء بن یزید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری (رض) کو کہتے سنا : وتر حق ہے، جو پانچ رکعت پڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھے، جو تین پڑھنا چاہے وہ تین پڑھے، اور جو ایک پڑھنا چاہے ایک پڑھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1712

【116】

حضرت ابوایوب سے مروی حدیث کے متعلق زہری پر اختلاف کا بیان

سفیان زھری سے روایت کرتے ہیں، اور زہری عطاء بن یزید سے، اور عطاء ابوایوب سے، ابوایوب (رض) کہتے ہیں جو چاہے وتر سات رکعت پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے، اور جو اشارے سے پڑھنا چاہے اشارے سے پڑھے (یعنی بیمار آدمی) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧١١ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1713

【117】

پانچ رکعات وتر پڑھنے کا طریقہ اور حکم کے متعلق وتر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان

منصور روایت کرتے ہیں حکم سے، اور وہ مقسم سے اور مقسم ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پانچ یا سات رکعت وتر پڑھتے، اور ان کے درمیان آپ سلام کے ذریعہ فصل نہیں کرتے تھے اور نہ کلام کے ذریعہ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٢٣ (١١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢١٤) ، مسند احمد ٦/٢٩٠، ٣١٠، ٣٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1714

【118】

پانچ رکعات وتر پڑھنے کا طریقہ اور حکم کے متعلق وتر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان

منصور حکم سے روایت کرتے ہیں، اور وہ مقسم سے اور مقسم ابن عباس رضی اللہ عنہم سے اور ابن عباس رضی اللہ عنہم ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سات یا پانچ رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان کے درمیان سلام کے ذریعہ فصل نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨١٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1715

【119】

پانچ رکعات وتر پڑھنے کا طریقہ اور حکم کے متعلق وتر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان

سفیان بن الحسین حکم سے روایت کرتے ہیں، اور وہ مقسم سے، مقسم کہتے ہیں کہ وتر سات رکعت ہے اور پانچ سے کم نہیں، میں نے یہ بات ابراہیم سے ذکر کی، تو انہوں نے کہا : انہوں نے اسے کس کے واسطہ سے ذکر کیا ہے ؟ تو میں نے کہا : مجھے نہیں معلوم، حکم کہتے ہیں : پھر میں حج کو گیا تو میں نے مقسم سے ملاقات کی، اور ان سے پوچھا کہ یہ بات آپ نے کس سے سنی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ایک ثقہ شخص سے ١ ؎، اور اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور میمونہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٨١٨) ، مسند احمد ٦/٣٣٥ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: غالباً ثقہ شخص سے مراد ابن عباس رضی اللہ عنہم ہیں کیونکہ مقسم برابر انہیں سے چمٹے رہتے تھے، اور انہوں نے ولاء کی نسبت بھی انہیں کی طرف کی ہے، یا عن عائشہ وعن میمونہ عن الثقۃ سے بدل ہے ایسی صورت میں ترجمہ ہوگا ثقہ سے سنی ہے یعنی عائشہ اور میمونہ سے سنی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1716

【120】

پانچ رکعات وتر پڑھنے کا طریقہ اور حکم کے متعلق وتر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ پانچ رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان کے آخر ہی میں بیٹھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٩٢١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٧) ، مسند احمد ٦/١٢٣، ١٦١، ٢٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1717

【121】

وتر کی سات رکعت پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بوڑھے ہوگئے، اور بدن پر گوشت چڑھ گیا، تو آپ سات رکعت پڑھنے لگے، اور صرف ان کے آخر میں قعدہ کرتے تھے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت اور پڑھتے تو میرے بیٹے یہ نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ ﷺ جب کوئی صلاۃ پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں، (یہ حدیث مختصر ہے) ۔ ہشام دستوائی نے شعبہ کی مخالفت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦١١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1718

【122】

وتر کی سات رکعت پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نو رکعت وتر پڑھتے تو صرف آٹھویں رکعت میں قعدہ کرتے، اللہ کی حمد کرتے، اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر کھڑے ہوجاتے، اور سلام نہیں پھیرتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ عزوجل کا ذکر کرتے، دعا کرتے، پھر ایک سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر جب آپ بوڑھے اور کمزور ہوگئے تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے، صرف چھٹی میں قعدہ کرتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہوجاتے، اور ساتویں رکعت پڑھتے، پھر ایک سلام پھیرتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦١١٣، ١٦١١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1719

【123】

نو رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیا کرتے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا تورات میں آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے (پھر) وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اور اللہ کی حمد کرتے، اور اس کے نبی کریم ﷺ پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور ان کے درمیان دعائیں کرتے، اور کوئی سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعات پڑھتے اور قعدہ کرتے، راوی نے اس طرح کی کوئی بات ذکر کی کہ آپ اللہ کی حمد کرتے، اس کے نبی کریم ﷺ پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1720

【124】

نو رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ان سے رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا : کیا میں تمہیں اس ہستی کو نہ بتاؤں یا اس ہستی کی خبر نہ دوں جو رسول اللہ ﷺ کے وتر کو زمین والوں میں سب سے زیادہ جانتی ہے ؟ میں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، تو ہم ان کے پاس آئے، اور ہم نے انہیں سلام کیا، اور ہم اندر گئے، اور اس بارے میں میں نے ان سے پوچھا، میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا : ہم آپ کے لیے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے، پھر رات کو جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، سوائے آٹھویں کے ان میں سے کسی میں قعدہ نہیں کرتے، اللہ کی حمد کرتے اس کا ذکر کرتے، اور دعا مانگتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہوجاتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ کی حمد اور اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے آپ ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، میرے بیٹے ! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں، لیکن جب آپ بوڑھے ہوگئے اور آپ کے جسم پر گوشت چڑھ گیا تو آپ وتر سات رکعت پڑھنے لگے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، اس طرح میرے بیٹے ! یہ کل نو رکعتیں ہوتی تھیں، اور رسول اللہ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣١٦، ١٦٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1721

【125】

نو رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نو رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، تو جب آپ کمزور ہوگئے تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1722

【126】

نو رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نو رکعت وتر پڑھتے تھے، اور دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1723

【127】

نو رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور انہوں نے ان سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا : آپ رات کو آٹھ رکعتیں پڑھتے، اور نویں رکعت کے ذریعہ اسے وتر کرلیتے، پھر آپ بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1724

【128】

نو رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢١١ (٤٤٣، ٤٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٨١ (١٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥١) ، مسند احمد ٦/١٠٠، ٢٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1725

【129】

وتر کی گیارہ رکعت پڑھنے کے طریقہ کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات کو گیارہ رکعت پڑھتے، اور آپ ایک کے ذریعہ اسے وتر کرلیتے، پھر آپ اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٩٧ (صحیح) (وتر کے بعد لیٹنے کا ذکر شاذ ہے، محفوظ یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹتے تھے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لکن ذکر الاضطجاع بعد الوتر شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1726

【130】

تیرہ رکعت وتر پڑھنے کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تیرہ رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر جب آپ بوڑھے اور ضعیف ہوگئے تو نو رکعت پڑھنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1727

【131】

وتر میں قرأت کرنے کا بیان

ابومجلز سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری مکہ اور مدینے کے درمیان تھے، کہ انہوں نے عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھی، اس میں انہوں نے سورة نساء کی سو آیتیں پڑھیں، پھر کہا : میں نے اپنے دونوں قدموں کو اس جگہ رکھنے میں جہاں رسول اللہ ﷺ نے رکھے تھے، اور ان آیتوں کے پڑھنے میں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے پڑھی تھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٣) ، مسند احمد ٤/٤١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1728

【132】

وتر میں ایک اور طریقہ سے قرأت کرنے کا بیان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى اور قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے، پھر جب آپ سلام پھیرتے تو تین بار سبحان الملک القدوس کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ١٧٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1729

【133】

وتر میں ایک اور طریقہ سے قرأت کرنے کا بیان

ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى اور قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے۔ ان دونوں کی یعنی زبید اور طلحہ کی حصین نے مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ذر سے، ذر نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزی سے انہوں نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1730

【134】

وتر میں ایک اور طریقہ سے قرأت کرنے کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى اور قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٦٨٣) ، مسند احمد ٣/٤٠٦، ٤٠٧، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٧٣٣- ١٧٣٧، ١٧٤٠- ١٧٤٣، ١٧٥١- ١٧٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1731

【135】

مندرجہ بالا حدیث میں شعبہ کے متعلق اختلاف راویان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى اور قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیرتے تھے، تو سبحان الملک القدوس تین بار کہتے، اور تیسری بار اپنی آواز بلند کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1732

【136】

مندرجہ بالا حدیث میں شعبہ کے متعلق اختلاف راویان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى اور قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیرتے، تو سبحان الملک القدوس کہتے، اور تیسری بار سبحان الملک القدوس کہتے وقت اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ منصور نے اسے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے ذر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1733

【137】

مندرجہ بالا حدیث میں شعبہ کے متعلق اختلاف راویان

عبدالرحمٰن بن ابزی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیر کر فارغ ہوجاتے تو تین بار سبحان الملک القدوس کہتے، اور تیسری بار کھینچ کر کہتے تھے۔ نیز اسے عبدالملک بن ابی سلیمان نے زبید سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے بھی ذر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1734

【138】

مندرجہ بالا حدیث میں شعبہ کے متعلق اختلاف راویان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے۔ نیز محمد بن جحادہ نے اسے زبید سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے بھی ذر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1735

【139】

مندرجہ بالا حدیث میں شعبہ کے متعلق اختلاف راویان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے، اور جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو تین بار سبحان الملک القدوس کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1736

【140】

حدیث ذیل میں مالک بن مغول کے متعلق اختلاف کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1737

【141】

حدیث ذیل میں مالک بن مغول کے متعلق اختلاف کا بیان

اس سند سے (سعید بن عبدالرحمٰن) بن ابزیٰ نے یہ حدیث مرسلاً (یعنی سند میں انقطاع کے ساتھ) روایت کی ہے، لیکن اسے عطا بن سائب نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کے واسطے سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے متصلاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر أیضا حدیث رقم : ١٧٣٢ (مرسل صحیح بماقبلہ وبمابعدہ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1738

【142】

حدیث ذیل میں مالک بن مغول کے متعلق اختلاف کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1739

【143】

حدیث ذیل میں قتادہ سے شعبہ پر راویوں کے اختلاف کا بیان

سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے پھر جب فارغ ہوجاتے تو تین بار سبحان الملک القدوس کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1740

【144】

حدیث ذیل میں قتادہ سے شعبہ پر راویوں کے اختلاف کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد‏ پڑھتے تھے، اور جب فارغ ہوجاتے تو تین بار سبحان الملک القدوس کہتے، اور تیسری مرتبہ کھینچ کر کہتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1741

【145】

حدیث ذیل میں قتادہ سے شعبہ پر راویوں کے اختلاف کا بیان

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى پڑھتے تھے۔ شبابہ نے ان دونوں کی یعنی محمد کی اور ابوداؤد کی مخالفت کی ہے ١ ؎ انہوں نے اسے شعبہ سے، شعبہ نے قتادہ سے، قتادہ نے زرارہ بن اوفی سے، اور زرارہ نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شبابہ نے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کی جگہ عمران بن حصین (رض) کا ذکر کیا ہے، ان کی روایت آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1742

【146】

حدیث ذیل میں قتادہ سے شعبہ پر راویوں کے اختلاف کا بیان

عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وتر میں ‏سبح اسم ربک الأعلى پڑھی۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے اس حدیث میں شبابہ کی متابعت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے ان کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٨٢٦) (صحیح بما قبلہ) (عمران بن حصین (رض) کی روایت سے صحیح ہے، واقعہ وہ ہے جس کا تذکرہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، ایسے وتر میں مذکورہ سورت کا پڑھنا دیگر روایات سے ثابت ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہ مخالفت متن حدیث میں ہے جیسا کہ اگلی روایت سے ظاہر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1743

【147】

حدیث ذیل میں قتادہ سے شعبہ پر راویوں کے اختلاف کا بیان

عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی، تو ایک شخص نے سورة ‏سبح اسم ربک الأعلى پڑھی، تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ نے پوچھا : ‏سبح اسم ربک الأعلى کس نے پڑھی ہے ؟ تو ایک شخص نے عرض کیا : میں نے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٩١٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ دونوں الگ الگ حدیثیں ہیں گو دونوں کی سند ایک ہے، اس طرح کی مخالفت ضرر رساں نہیں واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1744

【148】

وتر میں دعا کا بیان

حسن (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر کی کی قنوت میں کہتا ہوں، وہ یہ ہیں : اللہم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت و بارک لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت إنک تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تبارکت ربنا وتعاليت اے اللہ ! مجھے ہدایت دے، ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے ہدایت دی ہے، عافیت دے ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے عافیت دی ہے، میری نگہبانی فرمان لوگوں میں شامل کر کے جن کی تو نے نگہبانی فرمائی، اور جو تو نے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت عطا فرما، اور جس کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس کی برائی سے مجھے بچا، اس لیے کہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے، اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، اور تو جس سے دوستی کرے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب ! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٥، ١٤٢٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢٤ (الوتر ١٠) (٤٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٧ (١١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٤) ، مسند احمد ١/١٩٩، ٢٠٠، سنن الدارمی/الصلاة ٢١٤ (١٦٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1745

【149】

وتر میں دعا کا بیان

حسن بن علی رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے وتر کے یہ کلمات سکھائے، آپ نے فرمایا : کہو : اللہم اهدني فيمن هديت و بارک لي فيما أعطيت وتولني فيمن توليت وقني شر ما قضيت فإنک تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تبارکت ربنا وتعاليت وصلى اللہ على النبي محمد۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (لیکن ” و صلی اللہ …کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، اس کے راوی ” عبداللہ بن علی زین العابدین “ لین الحدیث ہیں، اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1746

【150】

وتر میں دعا کا بیان

علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی وتر کے آخر میں یہ کلمات کہتے تھے : اللہم إني أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصي ثناء عليك أنت کما أثنيت على نفسک اے اللہ ! میں تیری خوشی کی تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے بچاؤ کی تیری پکڑ سے پناہ مانگتا ہوں، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٤٠ (١٤٢٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ١١٣ (٣٥٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١١٧ (١١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٧) ، مسند احمد ١/٩٦، ١١٨، ١٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1747

【151】

وتر میں بوقت دعائے قنوت ہاتھ نہ اٹھانا

انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دونوں ہاتھ استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں : میں نے ثابت سے پوچھا : آپ نے اسے انس (رض) سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : سبحان اللہ، میں نے کہا : آپ نے اسے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الاستسقاء ١ (٨٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٤) ، مسند احمد ٣/١٨٤، ٢٠٩، ٢١٦، ٢٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ کہنا ان کا بطور تعجب تھا، مطلب یہ ہے کہ سنا کیوں نہیں ہے اگر نہیں سنا ہوتا تو بیان کیسے کرتا، اور یہ مؤلف کا قیاسی استنباط ہے، یہاں نہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ اٹھانے میں مبالغہ نہیں کرتے تھے، نہ یہ کہ سرے سے اٹھاتے ہی نہیں تھے کیونکہ قنوت میں اور دوسرے موقعوں پر بھی آپ کا ہاتھ اٹھانا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ق دون قوله قال شعبة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1748

【152】

وتر کے بعد سجدہ کی طوالت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں عشاء کی نماز سے فارغ ہونے سے لے کر فجر ہونے تک فجر کی دو رکعتوں کے علاوہ گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ تم میں سے کوئی پچاس آیتوں کے بقدر پڑھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٥٦٨) (صحیح ) وضاحت : مؤلف نے اس سجدہ سے تہجد (مع وتر) کے سجدوں کے علاوہ سلام کے بعد ایک مستقل سجدہ سمجھا ہے، حالانکہ اس سے مراد تہجد کے سجدے ہیں، آپ یہ سجدے پچاس آیتیں پڑھنے کے بقدر لمبا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1749

【153】

وتر سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح پڑھنا

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ وتر میں سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے تھے، اور سلام پھیرنے کے بعد سبحان الملک القدوس تین بار کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1750

【154】

وتر سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح پڑھنا

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے تھے، اور سلام پھیرنے کے بعد سبحان الملک القدوس تین بار کہتے، اور اس کے ذریعہ اپنی آواز بلند کرتے۔ ابونعیم نے ان دونوں کی یعنی قاسم اور محمد بن عبید کی مخالفت کی ہے، چناچہ انہوں نے اسے سفیان سے، اور سفیان نے زبید سے، زبید نے ذر سے، اور ذر نے سعید بن عبدالرحمٰن ابزیٰ سے روایت کیا ہے، (یعنی سند میں ایک راوی ذر کا اضافہ کیا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1751

【155】

وتر سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح پڑھنا

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے تھے، اور جب واپس ہونے کا ارادہ کرتے تو سبحان الملک القدوس تین مرتبہ کہتے، اور اس کے ذریعہ اپنی آواز بلند کرتے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ابونعیم ہمارے نزدیک محمد بن عبید اور قاسم بن یزید سے زیادہ ثقہ ہیں، اور ہمارے نزدیک سفیان ثوری کے تلامذہ میں سب سے زیادہ معتبر یحییٰ بن سعید قطان ہیں، پھر عبداللہ بن مبارک، پھر وکیع بن جراح، پھر عبدالرحمٰن بن مہدی، پھر ابونعیم، پھر اسود ہیں، واللہ اعلم، نیز اسے جریر بن حازم نے زبید سے روایت کیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ تیسری بار میں اپنی آواز کھینچتے اور بلند کرتے تھے، (جریر کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1752

【156】

وتر سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح پڑھنا

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیرتے تو تین بار سبحان الملک القدوس کہتے، اور تیسری بار میں آواز کھینچتے اور بلند کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1753

【157】

وتر سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح پڑھنا

عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں سبح اسم ربک الأعلى، قل يا أيها الکافرون اور قل هو اللہ أحد پڑھتے تھے، اور جب فارغ ہوتے تو سبحان الملک القدوس کہتے۔ ہشام نے اسے مرسلاً روایت کیا، ان کی روایت آگے آرہی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انہوں نے عن أبیہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1754

【158】

وتر سے فارغ ہونے کے بعد تسبیح پڑھنا

سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر پڑھتے تھے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٣٩ (صحیح) (سند میں ارسال ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر گزرا ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1755

【159】

وتر (کے بعد) اور فجر کی سنتوں سے پہلے نوافل پڑھنا جائز ہے

یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، نو رکعت کھڑے ہو کر، اس میں وتر بھی ہوتی اور دو رکعت بیٹھ کر، تو جب آپ رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے، اور رکوع اور سجدہ کرتے، اور ایسا آپ وتر کے بعد کرتے تھے، پھر جب آپ فجر کی اذان سنتے تو کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٩) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٨١) ، مسند احمد ٦/٥٢، ٥٣، ٨١، ١٢٨، ١٣٨، ١٧٨، ١٨٢، ١٨٩، ٢١٣، ٢٢٢، ٢٣٠، ٢٣٩، ٢٤٩، ٢٧٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٥ (١٥١٥) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام ١٧٨١، ١٧٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1756

【160】

فجر کی سنتوں کی حفاظت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔ شعبہ کے جن تلامذہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ان میں سے اکثر نے عثمان بن عمر کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے مسروق کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٦٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1757

【161】

فجر کی سنتوں کی حفاظت کا بیان

ابراہیم بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو بیان کرتے سنا کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں، اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔ ابو عبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ہمارے نزدیک صحیح یہی ہے، اور عثمان بن عمر کی (پچھلی) روایت غلط ہے، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التہجد ٣٤ (١١٨٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٩٠ (١٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٩٩) ، مسند احمد ٦/٦٣، ١٤٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤ (١٤٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1758

【162】

فجر کی سنتوں کی حفاظت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فجر کی دونوں رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩١ (٤١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٦) ، مسند احمد ٦/٥٠، ١٤٩، ٢٦٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد فجر کی دونوں سنتیں ہیں کیونکہ عام طور پر اس لفظ سے یہی مراد لیا جاتا ہے، اور یہ ممکن ہے کہ یہاں مراد فرض ہو کیونکہ لفظ اس کا بھی محتمل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1759

【163】

فجر کی دو رکعات کا بیان

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب صبح کی نماز کی اذان دی جاتی تو رسول اللہ ﷺ اس سے پہلے کہ نماز کھڑی ہو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1760

【164】

فجر کی دو رکعات کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب فجر روشن ہوجاتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1761

【165】

فجر کی سنتیں ادا کرنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹنا

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب مؤذن فجر کی پہلی اذان کہہ کر خاموش ہوجاتا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے، اور فجر نمودار ہونے کے بعد فجر کی نماز سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٥ (٦٢٦) ، والتھجد ٢٣ (١١٦٠) ، ٢٤ (١١٦١) ، والدعوات ٥ (٦٣١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کا عمل بیان کیا گیا ہے، اور ابوداؤد اور ترمذی کی ایک روایت میں جو صحیح سندوں سے مروی ہے اس کا حکم بھی آیا ہے جس سے مخالفین کی تاویل باطل ہوجاتی ہے، اور اس کے سنت ہونے میں کوئی کلام نہیں رہ جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1762

【166】

جو شخص رات کو عبادت میں مصروف رہتا ہو پھر چھوڑ دے

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فلاں کی طرح مت ہوجانا، وہ رات میں قیام کرتا تھا (تہجد پڑھتا تھا) ، پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ١٩ (١١٥٢) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٥ (١١٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٤ (١٣٣١) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦١) ، مسند احمد ٢/١٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1763

【167】

جو شخص رات کو عبادت میں مصروف رہتا ہو پھر چھوڑ دے

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عبداللہ ! فلاں کی طرح مت ہوجانا، پہلے وہ قیام اللیل کرتا تھا (تہجد پڑھتا تھا) ، پھر اس نے چھوڑ دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1764

【168】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فجر کی دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہلکی پڑھنے کا مطلب ہے کہ آپ فجر کی ان دونوں سنتوں میں قیام و قرأت اور رکوع و سجود وغیرہ میں اختصار سے کام لیتے تھے کیونکہ اس کے بعد آپ کو فجر کی نماز پڑھانی ہوتی تھی جس میں قرات لمبی کی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1765

【169】

فجر کی رکعات کا وقت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک غلط ہیں ١ ؎ واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پہلی روایت نافع عن صفی ۃ عن حفصہ کے طریق سے مروی ہے، صحیح عن نافع عن ابن عمر عن حفصہ ہے، اور دوسری روایت کی سند میں انبأنا شعیب قال حدثنا الاوزاعی ہے، صحیح انبأنا یحییٰ قال حدثنا الاوزاعی ہے، یہ بات اس صورت میں ہے جب ترجمۃ الباب میں علی کو فی کے معنی میں لیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1766

【170】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اذان اور نماز کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1767

【171】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1768

【172】

فجر کی رکعات کا وقت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1769

【173】

فجر کی رکعات کا وقت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1770

【174】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب فجر کی اذان کہہ دی جاتی تو رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز سے پہلے دو سجدے کرتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1771

【175】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مؤذن خاموش ہوجاتا تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1772

【176】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مؤذن صبح کی نماز کی اذان کہہ کر خاموش ہوجاتا، اور صبح نمودار ہوجاتی، تو نماز کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1773

【177】

فجر کی رکعات کا وقت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ فجر سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1774

【178】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر طلوع ہوجاتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1775

【179】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ سوائے دو ہلکی رکعتوں کے کچھ اور نہیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1776

【180】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب فجر کی اذان دے دی جاتی تو نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔ اور سالم نے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہم سے، اور انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1777

【181】

فجر کی رکعات کا وقت

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور یہ فجر طلوع ہوجانے کے بعد پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1778

【182】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر روشن ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1779

【183】

فجر کی رکعات کا وقت

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1780

【184】

فجر کی رکعات کا وقت

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا ؟ تو انہوں نے کہا : آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے، پہلے آٹھ رکعتیں پڑھتے، پھر (ایک رکعت) وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، اور جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے، اور رکوع کرتے، اور دو رکعتیں صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوسلمہ سے مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1781

【185】

فجر کی رکعات کا وقت

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب اذان سنتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٤٨٤) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: نکارت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اس مشہور روایت کے مخالف ہے جس میں ہے کہ آپ جب مؤذن اذان سے فارغ ہوجاتا اور صبح نمودار ہوجاتی تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے منکر کے بجائے شاذ کہا جائے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متن ابن عباس رضی اللہ عنہم سے محفوظ نہیں ہے کیونکہ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں عرو ۃ عن عائشہ کے طریق سے روایت کی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اذان سن لیتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے، اور احتمال اس کا بھی ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے جو محفوظ روایت ہے وہ اس متن کے علاوہ ہے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1782

【186】

فجر کی رکعات کا وقت

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ شریح حضرمی کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے پاس کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ قرآن کو تکیہ نہیں بناتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٢) ، مسند احمد ٣/٤٤٩ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: قرآن کو تکیہ بنانے کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ رات کو سوتے نہیں بلکہ رات بھر عبادت کرتے ہیں، دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ قرآن کو یاد نہیں رکھتے، اور اس کی قرات پر مداومت نہیں کرتے، پہلے معنی میں شریح کی تعریف ہے، اور دوسرے میں ان کی مذمت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1783

【187】

کوئی روز تہجد پڑھتا ہو لیکن غلبہ نیند کی وجہ سے کبھی نہ پڑھ سکے

سعید بن جبیر ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں جو ان کے نزدیک پسندیدہ ہے اس نے انہیں خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی آدمی رات کو تہجد پڑھا کرتا ہو، پھر کسی دن نیند کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھ دیتا ہے، اور اس کی نیند اس پر صدقہ ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٠ (١٣١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٧) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ١ (١) ، مسند احمد ٦/٦٣، ٧٢، ١٨٠ (صحیح) (مبہم راوی کا نام آگے آ رہا ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1784

【188】

رضی (نامی شخص) کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی رات میں کسی نماز کا عادی ہو، اور کسی رات وہ نیند کی وجہ سے اسے نہ پڑھ سکے، تو یہ اس پر اللہ کی طرف سے کیا ہوا صدقہ ہوگا، اور وہ اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت کی سند میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ گذشتہ سند میں سعید بن جبیر کے نزدیک پسندیدہ شخص کا نام اسود بن یزید ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1785

【189】

رضی (نامی شخص) کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابو جعفر رازی حدیث میں قوی نہیں ہیں، (اسی لیے سند میں سے ایک راوی اسود کو ساقط کردیا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٨٥ (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1786

【190】

کوئی شخص اپنے بستر پر رات کو بیدار ہونے کی نیت سے آیا لیکن نیند آگئی اور بیدار نہ ہو سکا

ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو بستر پر آئے، اور وہ رات میں قیام کی نیت رکھتا ہو، پھر اس کی دونوں آنکھیں اس پر غالب آجائیں یہاں تک کہ صبح ہوجائے تو اس کے لیے اس کی نیت کا ثواب لکھا جائے گا، اور اس کی نیند اس کے رب عزوجل کی جانب سے اس پر صدقہ ہوگی ۔ سفیان ثوری نے حبیب بن ابی ثابت کی مخالفت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٧ (١٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1787

【191】

کوئی شخص اپنے بستر پر رات کو بیدار ہونے کی نیت سے آیا لیکن نیند آگئی اور بیدار نہ ہو سکا

اور سفیان ثوری (کی حبیب بن ابی ثابت سے مخالفت یہ ہے کہ انہوں) نے اس سند سے یہ حدیث ابوذر اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم سے موقوفاً روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1788

【192】

اگر کوئی شخص نیند یا مرض کی وجہ سے رات میں نماز میں مشغول نہ رہ سکا تو وہ شخص دن میں کس قدر رکعت ادا کرے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز نہیں پڑھ پاتے خواہ نیند نے آپ کو اس سے روکا ہو یا کسی تکلیف نے تو دن کو آپ بارہ رکعتیں پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢١٠ (٤٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1789

【193】

جو کوئی اپنا وظیفہ وغیرہ رات میں نہ پڑھ سکے تو وہ دن میں کب وہ وظیفہ پڑھے؟

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی رات کو اپنے وظیفہ سے، یا اس کی کسی چیز سے سو جائے، پھر وہ اسے فجر سے لے کر ظہر تک کے درمیان پڑھ لے، تو اس کے لیے یہی لکھا جائے گا کہ گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٨ (٧٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٩ (١٣١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩١ (الجمعة ٥٦) (٥٨١) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٧ (١٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٢) ، موطا امام مالک/القرآن ٣ (٣) ، مسند احمد ١/٣٢، ٥٣، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٧ (١٥١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1790

【194】

جو کوئی اپنا وظیفہ وغیرہ رات میں نہ پڑھ سکے تو وہ دن میں کب وہ وظیفہ پڑھے؟

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں جو کوئی رات کو اپنا وظیفہ پڑھے بغیر سو جائے، پھر وہ صبح سے ظہر تک کے درمیان کسی بھی وقت اسے پڑھ لے، تو گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1791

【195】

جو کوئی اپنا وظیفہ وغیرہ رات میں نہ پڑھ سکے تو وہ دن میں کب وہ وظیفہ پڑھے؟

عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں جس کا رات کا وظیفہ چھوٹ جائے، اور وہ سورج ڈھلنے سے لے کر نماز ظہر تک کسی بھی وقت اسے پڑھ لے، تو اس کا وظیفہ نہیں چھوٹا، یا گویا اس نے اپنا وظیفہ پا لیا۔ اسے حمید بن عبدالرحمٰن نے موقوفاً (یعنی : مقطوعا) روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1792

【196】

جو کوئی اپنا وظیفہ وغیرہ رات میں نہ پڑھ سکے تو وہ دن میں کب وہ وظیفہ پڑھے؟

حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں جس کا رات کا وظیفہ چھوٹ جائے، تو اسے چاہیئے کہ وہ ظہر سے پہلے کسی نماز میں اسے پڑھ لے، کیونکہ یہ رات کی نماز کے برابر ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٧٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1793

【197】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو دن رات میں بارہ رکعتوں پر مداومت کرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٩٠ (٤١٤) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٠ (١١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فرض نماز سے پہلے یا اس کے بعد جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس پر نبی اکرم ﷺ نے مداومت فرمائی ہے بعض روایتوں میں ان کی تعداد دس بیان کی گئی ہے، اور بعض میں بارہ، اور بعض میں چودہ، انہیں سنن مؤکدہ یا سنن رواتب کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں کی ہے انہیں نوافل یا غیر موکدہ کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے مزید تقرب کے لیے نوافل یا غیر مؤکدہ سنتوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1794

【198】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص پابندی سے بارہ رکعتوں پر مداومت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد، اور دو رکعتیں فجر سے پہلے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1795

【199】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے فرض کے علاوہ دن رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٥ (٧٢٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٠ (١٢٥٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٩٠ (٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٠ (١١٤١) ، مسند احمد ٦/٣٢٦، ٣٢٧، ٤٢٦، سنن الدارمی/ ال صلاة ١٤٤ (١٤٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1796

【200】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے کہا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ جمعہ سے پہلے بارہ رکعتیں پڑھتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کو کیا معلوم ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا : مجھے خبر دی گئی ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عنبسہ بن ابی سفیان سے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : جس نے رات دن میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٩) ، مسند احمد ٦/٣٢٦ (صحیح) (اس سند میں انقطاع ہے، لیکن پچھلی سند سے یہ روایت بھی صحیح ہے، مگر عطاء کی یہ سمجھ خطا ہے کہ ایک ہی وقت میں بارہ رکعتیں پڑھ لیں تو وہی ثواب ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1797

【201】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ عزوجل اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ عطا نے اسے عنبسہ سے نہیں سنا ہے (اس کی دلیل آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1798

【202】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں طائف آیا، تو عنبسہ بن ابی سفیان کے پاس گیا، اور وہ مرنے کے قریب تھے، میں نے انہیں دیکھا کہ وہ گھبرائے ہوئے ہیں، میں نے کہا : آپ تو اچھے آدمی ہیں، اس پر انہوں نے کہا مجھے میری بہن ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دن یا رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا ۔ ابویونس قشیری نے ان لوگوں کی جنہوں نے اسے عطا سے روایت کی ہے مخالفت کی ہے، (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1799

【203】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں ظہر سے پہلے پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٢) (صحیح) (اس کے راوی ” شہر “ ضعیف ہیں، لیکن پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1800

【204】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بارہ رکعتیں ہیں، جو انہیں پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد، دو رکعتیں عصر سے پہلے، دو رکعتیں مغرب کے بعد، اور دو رکعتیں نماز فجر سے پہلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٥ (٧٢٨) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٠ (١٢٥٠) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٠) ، مسند احمد ٦/٣٢٧، ٤٢٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٤ (١٤٧٨) (ضعیف الإسناد) (ابو اسحاق کے مدلس اور مختلط ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں (اور اس کے بعد دونوں روایتوں میں جو دراصل ایک ہی روایت ہے) عشاء کے بعد دو رکعت کے بجائے عصر سے پہلے دو رکعت کا ذکر ہے، جو سنداً ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1801

【205】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا : چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو اس کے بعد، دو عصر سے پہلے، دو مغرب کے بعد اور دو صبح سے پہلے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : فلیح بن سلیمان زیادہ قوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ١٨٩ (٤١٥) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٠ (١١٤١) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٢) ، مسند احمد ٦/٣٢٦ (ضعیف الإسناد) (ابو اسحاق مدلس مختلط اور فُلَیْح کثیر الخطا راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1802

【206】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس نے دن اور رات میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا : چار ظہر سے پہلے، اور دو رکعتیں اس کے بعد، دو عصر سے پہلے، دو مغرب کے بعد، اور دو فجر سے پہلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٠٣ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1803

【207】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1804

【208】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس نے رات اور دن میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1805

【209】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس نے دن اور رات میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ حصین نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اور عنبسہ اور مسیب کے درمیان انہوں نے ذکوان کو داخل کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1806

【210】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ابوصالح ذکوان کہتے ہیں کہ عنبسہ بن ابی سفیان نے مجھ سے بیان کیا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا ہے : جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1807

【211】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک دن میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا، یا اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٩) ، مسند احمد ٦/٣٢٦، ٤٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1808

【212】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1809

【213】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1810

【214】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں فرض کے علاوہ پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ غلط ہے، محمد بن سلیمان ضعیف ہیں، وہ اصبہانی کے بیٹے ہیں، نیز یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی ان الفاظ کے علاوہ کے ساتھ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٠ (١١٤٢) مطولاً ، حم ٢/٤٩٨، (تحفة الأشراف : ١٢٧٤٧) (صحیح بما قبلہ) (اس کے راوی ” محمد بن سلیمان “ حافظہ کے کمزور ہیں، ان سے غلطیاں ہوجایا کرتی تھیں، مگر شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1811

【215】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ جب عنبسہ کی موت کا وقت آیا تو وہ تکلیف سے پیچ و تاب کھانے لگے تو ان سے کچھ پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا : سنو ! میں نے ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سنا وہ نبی اکرم ﷺ کے واسطہ سے بیان کر رہی تھیں کہ آپ نے فرمایا ہے : جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں، اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کا گوشت جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا، تو جب سے میں نے انہیں سنا ہے میں نے انہیں چھوڑا نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٦ (١٢٦٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠١ (٤٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٨ (١١٦٠) ، مسند احمد ٦/٣٢٥، ٤٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1812

【216】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

عنبسہ بن ابی سفیان کہتے ہیں کہ میری بہن ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ ان کے محبوب ابوالقاسم ﷺ نے انہیں بتایا : جو بھی مومن بندہ ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھے گا، تو جہنم کی آگ اس کے چہرے کو کبھی نہیں چھوئے گی، اگر اللہ عزوجل نے چاہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٠ (٤٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦١) (صحیح) (اس کے رواة ” ہلال “ اور ” ایوب شامی “ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1813

【217】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٦ (١٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٣) ، مسند احمد ٦/٣٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1814

【218】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، مروان بن محمد کہتے ہیں : اور سعید بن عبدالعزیز پر جب پڑھا گیا کہ ام حبیبہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں تو انہوں نے اس کا اقرار کیا، اور انکار نہیں کیا حالانکہ جب انہوں نے اسے ہم سے بیان کیا تو انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا، وہ کہتی ہیں : جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں، اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مکحول نے عنبسہ سے کچھ نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1815

【219】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

محمد بن ابی سفیان کہتے ہیں کہ جب ان کی موت کا وقت قریب ہوا تو ان کی حالت شدید ہوگئی تو انہوں نے کہا : مجھ سے میری بہن ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں، اور اس کے بعد کی چار رکعتوں کی محافظت کی، تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1816

【220】

نماز فرض کے علاوہ رات دن میں بارہ رکعات پڑھنے کے اجر سے متعلق احادیث

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار پڑھیں، اسے آگ نہیں چھوئے گی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ غلط ہے ١ ؎، صحیح مروان کی حدیث ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ٢٠١ (٤٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٨ (١١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٨) ، مسند احمد ٦/٤٢٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اشارہ اس سے پہلے والی حدیث کی طرف ہے اس لیے بہتر یہ تھا کہ امام نسائی کا یہ قول حدیث رقم : ١٨١٧ کے بعد ذکر کیا جاتا، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ مراد عبداللہ شعیشی کے طریق سے وارد حدیث ہو ایسی صورت میں یہ کلام اپنے محل ہی میں ہوگا۔ ٢ ؎: یعنی حدیث رقم : ١٨١٦ ، جسے وہ سعید بن عبدالعزیز سے روایت کر رہے ہیں، اس میں عنبسہ بن ابی سفیان ہیں جب کہ اس میں محمد بن ابی سفیان ہیں جو غلط ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1817