19. جنائز کے متعلق احادیث

【1】

موت کی خواہش سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو و تمنا نہ کرے، (کیونکہ) یا تو وہ نیک ہوگا تو ہوسکتا ہے زیادہ نیکی کرے، یا برا ہوگا تو ہوسکتا ہے وہ برائی سے توبہ کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤١١٧) ، مسند احمد ٢/٢٣٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے زندہ رہنا ہی اس کے لیے بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1818

【2】

موت کی خواہش سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو و تمنا نہ کرے (کیونکہ) اگر وہ نیک ہے تو شاید زندہ رہے (اور) زیادہ نیکی کرے، اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر گناہ گار ہے تو ہوسکتا ہے گنا ہوں سے توبہ کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ١٩ (٥٦٧٣) ، التمني ٦ (٧٢٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣٤) ، مسند احمد ٢/٣٠٩، ٥١٤، سنن الدارمی/الرقاق ٤٥ (٢٨٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1819

【3】

موت کی خواہش سے متعلق احادیث

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز مصیبت کی وجہ سے جو اسے دنیا میں پہنچتی ہے موت کی تمنا نہ کرے ١ ؎، بلکہ یہ کہے : اللہم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي‏ اے اللہ ! اس وقت تک مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور اس وقت موت دیدے جب موت میرے لیے بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٠٥، حم ٣/١٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ زندگی کا جو حصہ باقی ہے اس کے دین و دنیا کے لیے بہتر ہو، اس لیے موت کی آرزو کرنا منع ہے، شہادت کی یا مقدس جگہ مرنے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1820

【4】

موت کی خواہش سے متعلق احادیث

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو نہ کرے، اس مصیبت کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہے، اگر موت کی آرزو کرنا ضروری ہو تو یہ کہے : اللہم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي اے اللہ ! اس وقت تک مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور اس وقت موت دیدے جب موت میرے لیے بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث إسماعیل ابن علیّة، عن عبدالعزیز أخرجہ : صحیح البخاری/الدعوات ٣٠ (٦٣٥١) ، صحیح مسلم/الذکر ٤ (٢٦٨٠) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣ (٩٧١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١) ، مسند احمد ٣/١٠١، وحدیث عبدالوارث، عن عبدالعزیز أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ١٣ (٣١٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣١ (٤٢٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1821

【5】

موت کی دعا مانگنے سے متعلق

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم موت کی دعا نہ کرو، اور نہ ہی اس کی تمنا (مگر) جسے دعا کرنا ضروری ہو وہ کہے : اللہم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي اے اللہ ! مجھے زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہو اور موت دیدے جب میرے لیے موت بہتر ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٩٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1822

【6】

موت کی دعا مانگنے سے متعلق

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں میں خباب (رض) کے پاس آیا، انہوں نے اپنے پیٹ میں سات داغ لگوا رکھے تھے وہ کہنے لگے : اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت کی دعا سے نہ روکا ہوتا تو میں (شدت تکلیف سے) اس کی دعا کرتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المرضی ١٩ (٥٦٧٢) ، والدعوات ٣٠ (٦٣٤٩) ، والرقاق ٧ (٦٤٣٠) ، والتمني ٦ (٧٢٣٤) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٤ (٢٦٨١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/صفة القیامة ٤٠ (٢٤٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٨) ، مسند احمد ٥/١٠٩، ١١٠، ١١١، ١١٢ و ٦/٣٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1823

【7】

موت کو زیادہ یاد کرنے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لذتوں کو کاٹنے والی ١ ؎ کو خوب یاد کیا کرو ٢ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں : محمد بن ابراہیم ابوبکر بن ابی شیبہ کے والد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث فضل بن موسی، عن محمد بن عمرو قد أخرجہ : سنن الترمذی/الزھد ٤ (٢٣٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣١ (٤٢٥٨) ، مسند احمد ٢/٢٩٣، (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٠) ، وحدیث محمد بن إبراہیم، عن موسیٰ بن عمرو قد تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٧) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لذتوں کو کاٹنے والی سے مراد موت ہے۔ ٢ ؎: موت کو کثرت سے یاد کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ انسان اس سے نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے، اور برائیوں سے توبہ کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1824

【8】

موت کو زیادہ یاد کرنے سے متعلق

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اچھی باتیں کرو، کیونکہ تم جو کچھ کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ چناچہ جب ابوسلمہ مرگئے، تو میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں کیا کہوں ؟ تو آپ نے فرمایا ـ: تو کہو : اللہم اغفر لنا وله وأعقبني منه عقبى حسنة اے اللہ ! ہماری اور ان کی مغفرت فرما، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بعد محمد ﷺ کو عطا کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣ (٩١٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ١٩ (٣١١٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧ (٩٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ (١٤٤٧) ، ٥٥ (١٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٦٢) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٤ (٤٢) ، مسند احمد ٦/٢٩١، ٣٠٦، ٣٢٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوسلمہ کی وفات کے بعد ام سلمہ رضی الله عنہا کا نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوگیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں بدل ہی نہیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1825

【9】

مرنے والے کو موت کے وقت سکھلانا

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے قریب المرگ لوگوں کو لا إله إلا اللہ کی تلقین کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١ (٩١٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٠ (٣١١٧) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧ (٩٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣ (١٤٤٥) ، مسند احمد ٣/٣، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی ان کے پاس پڑھ کر انہیں اس کی یاد ہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی پڑھنے لگیں، ان سے پڑھنے کے لیے نہ کہا جائے کیونکہ موت کے شدت سے گھبراہٹ میں جھنجھلا کر وہ کہیں اس کلمہ کا انکار نہ کر دے، لیکن البانی صاحب (رح) کے نزدیک تلقین کا مطلب یہی ہے کہ اس سے لا إله إلا الله پڑھنے کے لیے کہا جائے، تفصیل کے لیے دیکھئیے احکام الجنائز للالبانی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1826

【10】

مرنے والے کو موت کے وقت سکھلانا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے قریب المرگ لوگوں کو لا إله إلا اللہ کی تلقین کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٨٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1827

【11】

مومن کی موت کی علامت

بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن ایسی حالت میں مرتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ آلود ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٠ (٩٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥ (١٤٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٩٩٢) ، مسند احمد ٥/٣٥٠، ٣٥٧، ٣٦٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مومن موت کی شدت سے دوچار ہوتا ہے تاکہ اس کے گناہوں کی بخشش ہوجائے، یا موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ رزق حلال اور ادائیگی فرض کے لیے اس قدر کوشاں رہتا ہے کہ اس کی پیشانی عرق آلود رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1828

【12】

مومن کی موت کی علامت

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا : مومن ایسی حالت میں مرتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ آلود رہتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٩٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1829

【13】

موت کی سختی سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی، تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان تھا، آپ ﷺ کو دیکھنے کے بعد کبھی کسی کی موت کی سختی مجھے ناگوار نہیں لگتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣١) ، مسند احمد ٦/٦٤، ٧٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ موت کی سختی برے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ ترقی درجات، اور گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1830

【14】

سوموار کے روز موت آنے سے متعلق

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کا آخری دیدار اس وقت کیا تھا (جب) آپ نے (حجرے کا) پردہ اٹھایا، اور لوگ ابوبکر (رض) کے پیچھے صف باندھے (کھڑے تھے) ، ابوبکر (رض) نے پیچھے ہٹنا چاہا تو آپ نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، اور پردہ گرا دیا (پھر) آپ اسی دن کے آخری (حصہ میں) انتقال فرما گئے، اور یہ دوشنبہ کا دن تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥٣ (٣٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٤ (١٦٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٧) ، مسند احمد ٣/١١٠، ١٦٣، ١٩٦، ١٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1831

【15】

وطن کے علاوہ دوسری جگہ موت آنے سے متعلق

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مدینے کا ایک آدمی جو وہیں پیدا ہونے والوں میں سے تھا مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس (کے جنازے) کی نماز پڑھائی، پھر فرمایا : کاش ! (یہ شخص) اپنے پیدائش کی جگہ کے علاوہ کہیں اور مرا ہوتا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں تو آپ نے فرمایا : آدمی جب اپنی جائے پیدائش کے علاوہ کہیں اور مرتا ہے، تو اسے جنت میں اس کی جائے پیدائش سے جائے موت تک جگہ دی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦١ (١٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٦) ، مسند احمد ٢/١٧٧ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: جنت میں یہ جگہ اس لیے ملتی ہے کہ وہ اجنبیت کی موت مرتا ہے، یا مراد یہ ہے کہ اس کی قبر اتنی کشادہ کردی جاتی ہے جتنا اس کی جائے پیدائش اور جائے وفات میں فاصلہ ہوتا، اس سے مسافرت اور اجنبیت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، جب کسی برے کام کے لیے نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1832

【16】

روح نکلتے وقت مومن کا اکرام

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مومن کی موت آتی ہے تو اس کے پاس رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں، اور (اس کی روح سے) کہتے ہیں : نکل، تو اللہ سے راضی ہے، اور اللہ تجھ سے راضی ہے، اللہ کی رحمت اور رزق کی طرف اور (اپنے) رب کی طرف جو ناراض نہیں ہے، تو وہ پاکیزہ خوشبودار مشک کی مانند نکل پڑتی، ہے یہاں تک کہ (فرشتے) اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، (جب) آسمان کے دروازے پر اسے لے کر آتے ہیں تو (دربان) کہتے ہیں : کیا خوب ہے یہ خوشبو جو زمین سے تمہارے پاس آئی ہے، (پھر) وہ اسے مومن کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں، تو انہیں ایسی خوشی ہوتی ہے جو گمشدہ شخص کے لوٹ کر آجانے سے بڑھ کر ہوتی ہے، وہ روحیں اس سے ان لوگوں کا حال پوچھتی ہیں جنہیں وہ دنیا میں چھوڑ گئے تھے : فلاں کیسے ہے، اور فلاں کیسے ہے ؟ وہ کہتی ہیں : انہیں چھوڑو، یہ دنیا کے غم میں مبتلا تھے، تو جب وہ (نووارد روح) کہتی ہے : کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا ؟ (وہ تو مرگیا تھا) تو وہ کہتی ہیں : اسے اس کے ٹھکانہ ہاویہ کی طرف لے جایا گیا ہوگا، اور جب کافر قریب المرگ ہوتا ہے تو عذاب کے فرشتے ایک ٹاٹ کا ٹکڑا لے کر آتے ہیں، (اور) کہتے ہیں : اللہ کے عذاب کی طرف نکل، تو اللہ سے ناراض ہے، اور اللہ تجھ سے ناراض ہے، تو وہ نکل پڑتی ہے جیسے سڑے مردار کی بدبو نکلتی ہے یہاں تک کہ اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں (پھر) کہتے ہیں : کتنی خراب بدبو ہے یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جا کر (چھوڑ دیتے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٢٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1833

【17】

جو شخص خداوند قدوس کی ملاقات چاہے

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرے گا ۔ شریح کہتے ہیں : میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور میں نے کہا : ام المؤمنین ! میں نے ابوہریرہ (رض) کو رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ذکر کرتے سنا ہے، اگر ایسا ہے تو ہم ہلاک ہوگئے، انہوں نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو اللہ سے ملنا چاہے اللہ (بھی) اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرے گا لیکن ہم میں سے کوئی (بھی) ایسا نہیں جو موت کو ناپسند نہ کرتا ہو۔ تو انہوں نے کہا : بیشک یہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نگاہ پتھرا جائے، سینہ میں دم گھٹنے لگے، اور رونگٹے کھڑے ہوجائیں، اس وقت جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٥ (٢٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٩٢) ، مسند احمد ٢/٣١٣، ٣٤٦، ٤٢٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خود رسول اللہ ﷺ نے اس کی صراحت فرما دی ہے (دیکھئیے حدیث رقم : ١٨٣٩ ) مطلب یہ ہے کہ مومن کو موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خوشی ہوتی ہے، اور کافر کو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1834

【18】

جو شخص خداوند قدوس کی ملاقات چاہے

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میرا بندہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو میں (بھی) اس سے ملنا چاہتا ہوں، اور جب وہ مجھ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تو میں (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي ہریرة أخرجہ : صحیح البخاری/التوحید ٥ (٧٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣١) ، وحدیث مغیرة، عن أبي الزناد قد تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٩٠٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٠) ، مسند احمد ٢/٤١٨ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1835

【19】

جو شخص خداوند قدوس کی ملاقات چاہے

عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے، اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤١ (٦٥٠٧) مطولاً ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٥ (٢٦٨٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٧ (١٠٦٦) ، والزھد ٦ (٢٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٧٠) ، مسند احمد ٥/٣١٦، ٣٢١، سنن الدارمی/الرقاق ٤٣ (٢٧٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1836

【20】

جو شخص خداوند قدوس کی ملاقات چاہے

عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1837

【21】

جو شخص خداوند قدوس کی ملاقات چاہے

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے گا اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا ناپسند کرے گا، (عمرو نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے) اس پر اللہ کے رسول سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! (اگر) اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرنا موت کو ناپسند کرنا ہے، تو ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : یہ اس کے مرنے کے وقت کی بات ہے، جب اسے اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ سے (جلد) ملنا چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ (بھی) اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جب اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے تو (ڈر کی وجہ سے) ملنا ناپسند کرتا ہے، اور وہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤١ (٦٥٠٧) (تعلیقاً ) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ٥ (٢٦٨٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٧ (١٠٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣١ (٤٢٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠٣) ، مسند احمد ٦/٤٤، ٥٥، ٢٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1838

【22】

میت کو بوسہ دینے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کی دونوں آنکھوں کے بیچ بوسہ لیا، اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٧٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1839

【23】

میت کو بوسہ دینے سے متعلق

عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کا بوسہ لیا، اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث ابن عباس قد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٥٥) ، والطب ٢١ (٥٧٠٩) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥٣ (٣٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٧ (١٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٠) ، مسند احمد ٦/٥٥، وحدیث عائشة قد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٥٥، ٤٤٥٦، ٤٤٥٧) ، تحفة الأشراف : ١٦٣١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1840

【24】

میت کو بوسہ دینے سے متعلق

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ ابوبکر سُنح میں واقع اپنے مکان سے ایک گھوڑے پر آئے، اور اتر کر (سیدھے) مسجد میں گئے، لوگوں سے کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس (ان کے حجرے میں) آئے، رسول اللہ ﷺ کو دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا تو انہوں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کھولا، پھر وہ آپ پر جھکے اور آپ کا بوسہ لیا، اور رو پڑے، پھر کہا : میرے باپ آپ پر فدا ہوں، اللہ کی قسم ! اللہ کبھی آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا، رہی یہ موت جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر لکھ دی تھی تو یہ ہوچکی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣ (١٢٤١) ، والمغازي ٨٣ (٤٤٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (١٦٢٧) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٦٦٣٢) ، مسند احمد ٦/١١٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سُنح یہ عوالی مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں نبی حارث بن خزرج کے لوگ رہتے تھے، ابوبکر رضی الله عنہ نے انہیں میں شادی کی تھی، اور یہ رہائش گاہ ان کی اہلیہ کی تھی، رسول اللہ ﷺ نے انہیں وہاں جانے کی اجازت دی تھی۔ ٢ ؎: ابوبکر رضی الله عنہ نے یہ جملہ عمر رضی الله عنہ کی تردید میں کہا تھا جو کہہ رہے تھے کہ آپ پھر دنیا میں واپس آئیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1841

【25】

میت کو ڈھانکنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن میرے والد کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا، انہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھا گیا، اور ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، میں نے ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانا چاہا تو لوگوں نے مجھے روک دیا، (پھر) رسول اللہ ﷺ نے انہیں (اٹھانے) کا حکم دیا، انہیں اٹھایا گیا، تو جب وہ اٹھائے گئے تو آپ نے کسی رونے والے کی آواز سنی تو پوچھا : یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے کہا : یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے، آپ نے فرمایا : مت روؤ، یا فرمایا : کیوں روتی ہو ؟ جب تک انہیں اٹھایا نہیں گیا تھا فرشتے انہیں برابر سایہ کئے ہوئے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣ (١٢٤٤) ، ٣٤ (١٢٩٣) ، والجھاد ٢٠ (٢٨١٦) ، والمغازي ٢٦ (٤٠٨٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٦ (٢٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٣٢) ، مسند احمد ٣/٢٩٨، ٣٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1842

【26】

مرنے والے پر رونے سے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک چھوٹی بچی کے مرنے کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے اسے (اپنی گود میں) لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا، پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ آپ ﷺ کے سامنے ہی مرگئی، ام ایمن رضی اللہ عنہا رونے لگیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ام ایمن ! تم رو رہی ہو جبکہ اللہ کے رسول ﷺ تمہارے پاس موجود ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : میں کیوں نہ روؤں جبکہ اللہ کے رسول ﷺ (خود) رو رہے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں رو نہیں رہا ہوں، البتہ یہ اللہ کی رحمت ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن ہر حال میں اچھا ہے، اس کی دونوں پسلیوں کے بیچ سے اس کی جان نکالی جاتی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ٤٤ (٣٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٥٦) ، مسند احمد ١/٢٦٨، ٢٧٣، ٢٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1843

【27】

مرنے والے پر رونے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی وفات پر رونے لگیں، اور کہنے لگیں : ہائے، ابا جان ! آپ اپنے رب سے کس قدر قریب ہوگئے، ہائے، ابا جان ! مرنے کی خبر ہم جبرائیل (علیہ السلام) کو دے رہے ہیں، ہائے، ابا جان ! آپ کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/المغازي ٨٣ (٤٤٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٦٥ (١٦٣٠) ، مسند احمد ٣/١٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1844

【28】

مرنے والے پر رونے سے متعلق

جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد کے دن قتل کردیئے گئے، میں ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانے اور رونے لگا، لوگ مجھے روک رہے تھے، اور رسول اللہ ﷺ نہیں روک رہے تھے، میری پھوپھی (بھی) ان پر رونے لگیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم ان پر مت روؤ، فرشتے ان پر برابر اپنے پروں سے سایہ کیے رہے یہاں تک کہ تم لوگوں نے اٹھایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣ (١٢٤٤) ، المغازي ٢٦ (٤٠٨٠) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٦ (٢٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٤) ، مسند احمد ٣/٢٩٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان احادیث سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہو رہا ہے، رہیں وہ روایتیں جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ اس رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1845

【29】

کس قسم کا رونا ممنوع ہے؟

جابر بن عتیک انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ عبداللہ بن ثابت (رض) کی عیادت (بیمار پرسی) کرنے آئے تو دیکھا کہ بیماری ان پر غالب آگئی ہے، تو آپ نے انہیں زور سے پکارا (لیکن) انہوں نے (کوئی) جواب نہیں دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اناللہ وانا اليہ راجعون پڑھا، اور فرمایا : اے ابو ربیع ! ہم تم پر مغلوب ہوگئے (یہ سن کر) عورتیں چیخ پڑیں، اور رونے لگیں، ابن عتیک انہیں چپ کرانے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں چھوڑ دو لیکن جب واجب ہوجائے تو ہرگز کوئی رونے والی نہ روئے ۔ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! (یہ) واجب ہونا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : مرجانا ، ان کی بیٹی نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا : مجھے امید تھی کہ آپ شہید ہوں گے (کیونکہ) آپ نے اپنا سامان جہاد تیار کرلیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی نیت کے حساب سے انہیں اجر و ثواب دے گا، تم لوگ شہادت سے کیا سمجھتے ہو ؟ لوگوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جانا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جانے کے علاوہ شہادت (کی) سات (قسمیں) ہیں، طاعون سے مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، عمارت سے دب کر مرنے والا شہید ہے، نمونیہ میں مرنے والا شہید ہے، جل کر مرنے والا شہید ہے، اور جو عورت جننے کے وقت یا جننے کے بعد مرجائے وہ شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ١٥ (٣١١١) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ١٧ (٢٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٧٣) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٢ (٣٦) ، مسند احمد ٥/٤٤٦، ویأتی عند المؤلف فی الجھاد ٤٨ (بأرقام : ٣١٩٦، ٣١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن ثابت کی کنیت ہے مطلب یہ ہے کہ تقدیر ہمارے ارادے پر غالب آگئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1846

【30】

کس قسم کا رونا ممنوع ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رضی اللہ عنہم) کے مرنے کی خبر آئی تو رسول اللہ ﷺ بیٹھے (اور) آپ (کے چہرے) پر حزن و ملال نمایاں تھا، میں دروازے کے شگاف سے دیکھ رہی تھی (اتنے میں) ایک شخص آیا اور کہنے لگا : جعفر (کے گھر) کی عورتیں رو رہی ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : جاؤ انہیں منع کرو ، چناچہ وہ گیا (اور) پھر (لوٹ کر) آیا اور کہنے لگا : میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مانیں، آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں منع کرو (پھر) وہ گیا (اور پھر لوٹ کر آیا، اور کہنے لگا : میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مان رہی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ ان کے منہ میں مٹی ڈال دو ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میں نے کہا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک خاک آلود کرے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے، تو اللہ کی قسم ! نہ تو رسول اللہ ﷺ کو پریشان کرنا چھوڑ رہا ہے، اور نہ تو یہی کرسکتا ہے (کہ انہیں سختی سے روک دے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٠ (١٢٩٩) ، ٤٥ (١٣٠٥) ، والمغازی ٤٤ (٤٧٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٠ (٩٣٥) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٥ (٣١٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٢) ، مسند احمد ٦/٥٨، ٢٧٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ تو بار بار شکایات کر کے رسول اللہ ﷺ کو پریشان کرنے سے بھی باز نہیں آتا ہے، اور نہ یہی کرتا ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کر عورتوں کو رونے سے منع کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1847

【31】

کس قسم کا رونا ممنوع ہے؟

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٥٦) ، مسند احمد ١/٢٦، ٣٦، ٤٧، ٥٠، ٥١، ٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1848

【32】

کس قسم کا رونا ممنوع ہے؟

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) کے پاس ذکر کیا گیا کہ میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا : اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٨٤٣) ، مسند احمد ٤/٤٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1849

【33】

کس قسم کا رونا ممنوع ہے؟

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٤ (١٠٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٧) ، مسند احمد ١/٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1850

【34】

مردہ پر نوحہ کرنا

قیس بن عاصم رضی الله عنہ نے کہا تم میرے اوپر نوحہ مت کرنا کیونکہ رسول اللہ ﷺ پر نوحہ نہیں کیا گیا۔ یہ لمبی حدیث سے مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١١٠١) ، مسند احمد ٥/٦١ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: میت پر اس کے اوصاف بیان کر کے چلا چلا کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1851

【35】

مردہ پر نوحہ کرنا

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت عورتوں سے بیعت لی تو ان سے یہ بھی عہد لیا کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی، تو عورتوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کچھ عورتوں نے زمانہ جاہلیت میں (نوحہ کرنے میں) ہماری مدد کی ہے، تو کیا ہم ان کی مدد کریں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسلام میں (نوحہ پر) کوئی مدد نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٥) ، مسند احمد ٣/١٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1852

【36】

مردہ پر نوحہ کرنا

عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میت کو اس کی قبر میں اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٣ (١٢٩٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٤ (١٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٣٦) ، مسند احمد ١/٢٦، ٣٦، ٥٠، ٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1853

【37】

مردہ پر نوحہ کرنا

عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، اس پر ایک شخص نے ان سے کہا : مجھے بتائیے کہ ایک شخص خراسان میں مرے، اور اس کے گھر والے یہاں اس پر نوحہ کریں تو اس پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا، (یہ بات عقل میں آنے والی نہیں) ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا، اور تو جھوٹا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٨١٠) (صحیح) (اس سند میں ” ہشیم “ اور ” حسن بصری “ مدلس ہیں، مگر پچھلی سند (١٨٥٠) سے یہ روایت صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہی جواب ہے اس شخص کا جو حدیث کے ہوتے ہوئے عقل اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1854

【38】

مردہ پر نوحہ کرنا

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے ، اسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا : انہیں (ابن عمر کو) غلط فہمی ہوئی ہے (اصل واقعہ یوں ہے) رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے تو کہا : اس قبر والے کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی : ولا تزر وازرة وزر أخرى کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (فاطر : ١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٧٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٩ (٣١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٤، ١٦٨١٨) ، مسند احمد ٢/٣٨ و ٦/٣٩، ٥٧، ٩٥، ٢٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1855

【39】

مردہ پر نوحہ کرنا

عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا جب ان کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت کرے، سنو ! انہوں نے جھوٹ اور غلط نہیں کہا ہے، بلکہ وہ بھول گئے انہیں غلط فہمی ہوئی ہے (اصل بات یہ ہے) رسول اللہ ﷺ ایک یہودیہ عورت (کی قبر) کے پاس سے گزرے جس پر (اس کے گھر والے) رو رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٩) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٥ (١٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٢ (٣٧) ، مسند احمد ٦/١٠٧، ٢٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1856

【40】

مردہ پر نوحہ کرنا

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب کو اس پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بڑھا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٦) مطولاً ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٢٩) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٦، ١٦٢٢٧) ، مسند احمد ١/٤١، ٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1857

【41】

مردہ پر نوحہ کرنا

ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب ام ابان مرگئیں تو میں (بھی) لوگوں کے ساتھ (تعزیت میں) آیا، اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے بیچ میں بیٹھ گیا، عورتیں رونے لگیں تو ابن عمر (رض) نے کہا : کیا تم انہیں رونے سے روکو گے نہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے ، اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : عمر (رض) بھی ایسا ہی کہتے تھے، (ایک بار) میں عمر (رض) کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ ہم بیداء پہنچے، تو انہوں نے ایک درخت کے نیچے کچھ سواروں کو دیکھا تو (مجھ سے) کہا : دیکھو (یہ) سوار کون ہیں ؟ چناچہ میں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ صہیب (رض) اور ان کے گھر والے ہیں، لوٹ کر ان کے پاس آیا، اور ان سے کہا : امیر المؤمنین ! وہ صہیب (رض) اور ان کے گھر والے ہیں، تو انہوں نے کہا : صہیب (رض) کو میرے پاس لاؤ، پھر جب ہم مدینہ آئے تو عمر (رض) زخمی کر دئیے گئے، صہیب (رض) ان کے پاس روتے ہوئے بیٹھے (اور) وہ کہہ رہے تھے : ہائے میرے بھائی ! ہائے میرے بھائی ! تو عمر (رض) نے کہا : صہیب ! روؤ مت، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے (ابن عباس) کہتے ہیں : میں نے اس بات کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو انہوں نے کہا : سنو ! اللہ کی قسم ! تم یہ حدیث نہ جھوٹوں سے روایت کر رہے ہو، اور نہ ایسوں سے جنہیں جھٹلایا گیا ہو، البتہ سننے (میں) غلط فہمی ہوئی ہے، اور قرآن میں (ایسی بات موجود ہے) جس سے تمہیں تسکین ہو : ألا تزر وازرة وزر أخرى کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا البتہ رسول اللہ ﷺ نے (یوں) فرمایا تھا : اللہ کافر کا عذاب اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بڑھا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1858

【42】

میت پر رونے کی اجازت کا بیان

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے خاندان میں کسی کا انتقال ہوگیا تو عورتیں اکٹھا ہوئیں (اور) میت پر رونے لگیں، تو عمر (رض) کھڑے ہو کر انہیں روکنے اور بھگانے لگے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمر ! انہیں چھوڑ دو کیونکہ آنکھوں میں آنسو ہے، دل غم میں ڈوبا ہوا ہے، اور موت کا وقت قریب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٣ (١٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٥) ، مسند احمد ٢/١١٠، ٢٧٣، ٤٠٨ (ضعیف) (اس کے راوی ” سلمہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1859

【43】

زما نہ جاہلیت کی طرح زور سے رونا اور پکارنا

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں ١ ؎ جو منہ پیٹے، گریباں پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے (یعنی نوحہ کرے) ۔ یہ الفاظ علی بن خشرم کے ہیں، اور حسن کی روایت بدعا الجاہلی ۃ کی جگہ بدعویٰ الجاہلی ۃ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٥ (١٢٩٤) ، ٣٨ (١٢٩٧) ، ٣٩ (١٢٩٨) ، والمناقب ٨ (٣٥١٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٢٢ (٩٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٩) ، مسند احمد ١/٤٣٢، ٤٤٢، ٤٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہمارے طریقے پر نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1860

【44】

چیخ کر رونے کی ممانعت

صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری پر بےہوشی طاری ہوگئی، لوگ ان پر رونے لگے، تو انہوں نے کہا : میں تم سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ کہہ کر برات کا اظہار کیا تھا کہ جو سر منڈائے کپڑے پھاڑے، واویلا کرے ہم میں سے نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٠٤) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٩ (٣١٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٦) ، مسند احمد ٤/٣٩٦، ٤٠٤، ٤٠٥، ٤١٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مصیبت کے موقع پر سر منڈائے جیسے ہندو منڈواتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1861

【45】

رخسار پر مارنے کی ممانعت سے متعلق

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو گال پیٹے، گریباں پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے ہم میں سے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٥ (١٢٩٤) ، المناقب ٨ (٣٥١٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٢ (٩٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٥٩) ، مسند احمد ١/٣٨٦، ٤٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1862

【46】

مصیبت میں سر منڈانا ممنوع ہے

عبدالرحمٰن بن یزید اور ابوبردہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری (کی بیماری) سخت ہوئی، تو ان کی عورت چلاتی ہوئی آئی۔ (ان کی بیماری میں کچھ) افاقہ ہوا، تو انہوں نے کہا : کیا میں تجھے نہ بتاؤں کہ میں ان چیزوں سے بری ہوں جن سے رسول اللہ ﷺ بری تھے، ان دونوں نے ان کی بیوی سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : میں اس شخص سے بری ہوں جو سر منڈائے، کپڑے پھاڑے اور واویلا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٢ (١٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1863

【47】

گریبان چاک کرنے کا بیان

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو گال پیٹے، گریبان پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1864

【48】

گریبان چاک کرنے کا بیان

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان پر غشی طاری ہوئی، تو ان کی ام ولد رو پڑی، جب (کچھ) افاقہ ہوا تو انہوں نے اس سے کہا : کیا تجھے وہ بات نہیں پہنچی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے ؟ تو ہم نے اس سے پوچھا (آپ نے کیا فرمایا تھا ؟ ) تو اس نے کہا : آپ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو گال پیٹے، سر منڈائے، اور کپڑے پھاڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٢٩ (٣١٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٣٤) ، مسند احمد ٤/٣٩٦، ٤٠٤، ٤٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1865

【49】

گریبان چاک کرنے کا بیان

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ شخص ہم میں سے نہیں جو سر منڈائے، واویلا کرے اور کپڑے پھاڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٤ (١٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٣) ، مسند احمد ٤/٣٩٦، ٤٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1866

【50】

گریبان چاک کرنے کا بیان

قرثع کہتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری (رض) کی بیماری بڑھ گئی تو ان کی بیوی چیخ مار کر رونے لگی، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا ہے کیا تجھے معلوم نہیں ؟ اس نے کہا : کیوں، نہیں ضرور معلوم ہے، پھر وہ خاموش ہوگئی، تو اس سے اس کے بعد پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا ہے ؟ اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے (ہر اس شخص پر) لعنت فرمائی ہے جو سر منڈوائے، یا واویلا کرے، یا گریبان پھاڑے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٦٦ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1867

【51】

مصیبت کے وقت صبر اور اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنے کا حکم

اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیٹی نے آپ کو ﷺ کہلا بھیجا کہ میرا بیٹا ١ ؎ مرنے کو ہے آپ آجائیں، تو آپ ﷺ نے کہلا بھیجا کہ آپ سلام کہتے ہیں، اور کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو (کچھ) لے، اور اسی کے لیے ہے جو (کچھ) دے، اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، تو چاہیئے کہ تم صبر کرو، اور اللہ سے اجر طلب کرو، بیٹی نے (دوبارہ) قسم دے کے کہلا بھیجا کہ آپ ﷺ ضرور آجائیں، چناچہ آپ اٹھے، آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور کچھ اور لوگ تھے، (بچہ) رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھا کر اس حال میں لایا گیا کہ اس کی سانس ٹوٹ رہی تھی، تو آپ کی آنکھوں (سے) آنسو بہ پڑے، اس پر سعد (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ رکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٢ (١٢٨٤) ، والمرضی ٩ (٥٦٥٥) ، و القدر ٤ (٦٦٠٢) ، والأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٥) ، والتوحید ٢ (٧٣٧٧) ، ٢٥ (٧٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٦ (٩٢٣) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٨ (٣١٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٣ (١٥٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨) ، مسند احمد ٥/٢٠٤، ٢٠٥، ٢٠٦، ٢٠٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد علی بن ابی العاص بن ربیع ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ بنت سے مراد فاطمہ رضی الله عنہا اور ابن سے مراد ان کے بیٹے محسن ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1868

【52】

مصیبت کے وقت صبر اور اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنے کا حکم

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صبر وہی ہے جو صدمہ (غم) پہنچتے ہی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣١ (١٢٨٣) ، ٤٢ (١٣٠٢) ، والأحکام ١١ (٧١٥٤) ، صحیح مسلم/الجنائز ٨ (٩٢٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٢٧ (٣١٢٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٣ (٩٨٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٥ (١٥٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٩) ، مسند احمد ٣/١٣٠، ١٤٣، ٢١٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ رو پیٹ کر تو صبر سبھی کو آجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1869

【53】

مصیبت کے وقت صبر اور اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنے کا حکم

قرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس کے ساتھ اس کا بیٹا (بھی) تھا، آپ نے اس سے پوچھا : کیا تم اس سے محبت کرتے ہو ؟ تو اس نے جواب دیا : اللہ آپ سے ایسے ہی محبت کرے جیسے میں اس سے کرتا ہوں، پھر وہ (لڑکا) مرگیا، تو آپ نے (کچھ دنوں سے) اسے نہیں دیکھا تو اس کے بارے میں (اس کے باپ سے) پوچھا (تو انہوں نے بتایا کہ وہ مرگیا ہے) آپ نے فرمایا : کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوگی کہ تم جنت کے جس دروازے پر جاؤ گے (اپنے بچے) کو اس کے پاس پاؤ گے، وہ تمہارے لیے دوڑ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٨٣) ، مسند احمد ٥/٣٥، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٠٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1870

【54】

مصیبت پر جو شخص صبر کرے اور خداوند قدوس سے اجر مانگے اس کا ثواب

عمرو بن شعیب نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی حسین کو ان کے بیٹے کی وفات پر تعزیت کا خط لکھا، اور اپنے خط میں ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے والد کو بیان کرتے سنا وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے روایت کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کے لیے جب وہ زمین والوں میں سے اس کی سب سے محبوب چیز یعنی بیٹا کو لے لے، اور وہ اس پر صبر کرے، اور اجر چاہے، اور وہی کہے جس کا حکم دیا گیا ہے، جنت سے کم ثواب پر راضی نہیں ہوتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1871

【55】

جس کے تین بچے فوت ہوجائیں اس کا ثواب

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی تین صلبی اولاد مرجائیں (اور) وہ اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر و ثواب چاہے، تو وہ جنت میں داخل ہوگا (اتنے میں) ایک عورت کھڑی ہوئی اور بولی : اور دو اولاد مرنے پر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : دو اولاد کے مرنے پر بھی ، اس عورت نے کہا : کاش ! میں ایک ہی کہتی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر میں ایک بچہ مرنے کی بات آپ سے پوچھتی تو قوی امید ہے کہ آپ ایک بچہ مرنے پر بھی یہی ثواب بتاتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1872

【56】

جس کسی کی تین اولاد کی اس کی زندگی میں وفات ہوجائے اس کا ثواب

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں، تو اللہ تعالیٰ اسے ان پر اپنی رحمت کے فضل سے جنت میں داخل کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦ (١٢٤٨) ، ٩١ (١٣٨١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٧ (١٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٦) ، مسند احمد ٣/١٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1873

【57】

جس کسی کی تین اولاد کی اس کی زندگی میں وفات ہوجائے اس کا ثواب

صعصعہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ میں ابوذر (رض) سے ملا تو میں نے کہا : مجھ سے حدیث بیان کیجئے تو انہوں کہا : اچھا سنو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس مسلمان ماں باپ کی بھی تین نابالغ اولاد مرجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ان پر اپنی رحمت کے فضل سے بخش دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٣) ، مسند احمد ٥/١٥١، ١٥٣، ١٥٩، ١٦٤، سنن الدارمی/الجہاد ١٣ (٢٤٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1874

【58】

جس کسی کی تین اولاد کی اس کی زندگی میں وفات ہوجائے اس کا ثواب

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں میں سے جس شخص کے بھی تین بچے مرجائیں، تو اسے جہنم کی آگ صرف قسم ١ ؎ پوری کرنے ہی کے لیے چھوئے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦ (١٢٥١) ، والأیمان والنذور ٩ (٦٦٥٦) ، صحیح مسلم/البر والصلة ٤٧ (٢٦٣٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٤ (١٠٦٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٥٧ (١٦٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٤) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٣ (٣٨) ، مسند احمد ٢/٤٧٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وإن منکم إلا واردها (مريم : 71) یعنی تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے جہنم پر سے نہ آنا پڑے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1875

【59】

جس کسی کی تین اولاد کی اس کی زندگی میں وفات ہوجائے اس کا ثواب

ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس مسلمان ماں باپ کے تین نابالغ بچے مرجائیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو ان پر اپنی رحمت کے فضل سے جنت میں داخل کرے گا ، آپ ﷺ فرماتے ہیں : ان سے کہا جائے گا : جنت میں داخل ہوجاؤ، تو وہ کہیں گے (ہم نہیں داخل ہوسکتے) جب تک کہ ہمارے والدین داخل نہ ہوجائیں، (پھر) کہا جائے گا : (جاؤ) اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٤٨٩) ، مسند احمد ٢/٥١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1876

【60】

جس شخص کی زندگی میں اس کی تین اولاد کی وفات ہوجائے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا بیٹا لے کر آئی جو بیمار تھا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ڈر رہی ہوں کہ یہ مر نہ جائے، اور (اس سے پہلے) تین بچوں کو بھیج چکی ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے جہنم کی آگ سے بچاؤ کے لیے زبردست ڈھال بنا لیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البر والصلة ٤٧ (٢٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٨٩١) ، مسند احمد ٢/٤١٩، ٥٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1877

【61】

موت کی اطلاع پہنچانے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زید اور جعفر کی موت کی اطلاع (کسی آدمی کے ذریعہ) ان کی (موت) کی خبر آنے سے پہلے دی، اس وقت آپ کی دونوں آنکھیں اشکبار تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤ (١٢٤٦) ، والجھاد ٧ (٢٧٩٨) ، ١٨٣ (٣٠٦٣) ، والمناقب ٢٥ (٣٦٣٠) ، و فضائل الصحابة ٢٥ (٣٧٥٧) ، والمغازي ٤٤ (٤٢٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٠) ، مسند احمد ٣/١١٣، ١١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1878

【62】

موت کی اطلاع پہنچانے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ مرے، اور فرمایا : اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٠ (١٣٢٨) ، ومناقب الأنصار ٣٨ (٣٨٨٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٢ (٣٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٧٦) ، مسند احمد ٢/٥٢٩، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1879

【63】

موت کی اطلاع پہنچانے سے متعلق

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے جا رہے تھے کہ اچانک آپ کی نگاہ ایک عورت پہ پڑی، ہم یہی گمان کر رہے تھے کہ آپ نے اسے نہیں پہچانا ہے، تو جب بیچ راستے میں پہنچے تو آپ کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ وہ (عورت) آپ کے پاس آگئی، تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں، آپ نے ان سے پوچھا : فاطمہ ! تم اپنے گھر سے کیوں نکلی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : میں اس میت کے گھر والوں کے پاس آئی، میں نے ان کے لیے رحمت کی دعا کی، اور ان کی میت کی وجہ سے ان کی تعزیت کی، آپ نے فرمایا : شاید تم ان کے ساتھ کدیٰ ١ ؎ تک گئی تھیں ؟ انہوں نے کہا : اللہ کی پناہ ! میں وہاں تک کیوں جاتی اس سلسلے میں آپ کو ان باتوں کا ذکر کرتے سن چکی ہوں جن کا آپ ذکر کرتے ہیں، تو آپ نے ان سے فرمایا : اگر تم ان کے ساتھ وہاں جاتی تو تم جنت نہ دیکھ پاتی یہاں تک کہ تمہارے باپ کے دادا (عبدالمطلب) اسے دیکھ لیں ٢ ؎۔ نسائی کہتے ہیں : ربیعہ ضعیف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٢٦ (٣١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٥٣) ، مسند احمد ٢/١٦٨، ٢٢٣ (ضعیف) (اس کے راوی ” ربیعہ معافری “ منکر روایت کیا کرتے تھے ) وضاحت : ١ ؎: کُدَی کُدْیَ ۃ کی جمع ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں یہاں مراد قبرستان ہے۔ ٢ ؎: یہ جملہ حتیٰ یلج الجمل فی سم الخیاط کے قبیل سے ہے، مراد یہ ہے کہ تم اسے کبھی نہیں دیکھ پاتی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1880

【64】

مردے کو پانی اور بیری کے پتے سے غسل سے متعلق

ام عطیہ انصاریہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ١ ؎ کی وفات ہوئی، آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اسے پانی اور بیر (کے پتوں) سے دو تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار اگر مناسب سمجھو غسل دو ، اور آخری بار میں کچھ کافور یا کافور کی کچھ مقدار ملا لو (اور) جب تم (غسل سے) فارغ ہو تو مجھے خبر کرو ۔ تو جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا اور فرمایا : اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٧) ، والجنائز ٨-١٧ (١٢٥٣-١٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٣ (٣١٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ١٥ (٩٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٤) ، موطا امام مالک/الجنائز ١ (٢) ، مسند احمد ٦/٨٤، ٨٥، ٤٠٧، ٤٠٨، ویأتی عند المؤلف فی بأرقام : ١٨٨٧، ١٨٨٨، ١٨٩١، ١٨٩٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمہور کے قول کے مطابق یہ زینب رضی الله عنہا تھیں، اور بعض اہل سیر کی رائے ہے کہ یہ ام کلثوم رضی الله عنہا تھیں، صحیح پہلا قول ہے۔ ٢ ؎: شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو جسم سے ملا ہو، مطلب یہ ہے کہ اسے ان کے جسم پر لپیٹ دو پھر کفن پہناؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1881

【65】

گرم پانی سے غسل سے متعلق

ام قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرا بیٹا مرگیا، تو میں اس پر رونے لگی اور اس شخص سے جو اسے غسل دے رہا تھا کہا : میرے بیٹے کو ٹھنڈے پانی سے غسل نہ دو کہ اس (مرے کو مزید) مارو، عکاشہ بن محصن (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، اور آپ کو ان کی یہ بات بتائی تو آپ مسکرا پڑے، پھر فرمایا : کیا کہا اس نے ؟ اس کی عمردراز ہو ، (راوی کہتے ہیں) تو ہم نہیں جانتے کہ کسی عورت کو اتنی عمر ملی ہو جتنی انہیں ملی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٦) ، مسند احمد ٦/٣٥٥ (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” ابو الحسن “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ رسول اللہ ﷺ کی دعا طال عمرہا کی برکت تھی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1882

【66】

میت کا سر دھونا

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ان عورتوں نے نبی اکرم ﷺ کی بیٹی کے سر کی تین چوٹیاں بنائیں، میں نے پوچھا : اسے کھول کر انہوں نے تین چوٹیاں کردیں، تو انہوں نے کہا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : الجنائز ٩ (١٢٥٤) مطولاً ، ١٣ (١٢٥٨) ، ١٤ (١٢٦٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨١١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1883

【67】

مردے کے دائیں جانب سے غسل شروع کرنا اور مقامات وضو کو پہلے دھونا

ام عطیہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے غسل کے سلسلہ میں فرمایا : ان کے داہنے اعضاء، اور وضو کے مقامات سے نہلانا شروع کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣١ (١٦٧) ، الجنائز ١٠ (١٢٥٥) ، ١١ (١٢٥٦) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٣ (٣١٤٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٥ (٩٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1884

【68】

مردے کو طاق مرتبہ غسل سے متعلق

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک بیٹی انتقال کر گئیں، تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا اور فرمایا : اسے پانی اور بیر کے پتوں سے غسل دینا، اور طاق بار یعنی تین بار، یا پانچ بار غسل دینا، اگر ضرورت سمجھو تو سات بار دینا، اور آخری بار تھوڑا کافور ملا لینا (اور) جب تم فارغ ہو چکو تو مجھے خبر کرنا ، تو جب ہم (نہلا کر) فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر کیا، آپ ﷺ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا، اور فرمایا : اسے (ان کے جسم پہ) لپیٹ دو ، (پھر) ہم نے ان کی تین چوٹیاں کیں، اور انہیں ان کے پیچھے ڈال دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٧ (١٢٦٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٥ (٩٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٥) ، مسند احمد ٦/٤٠٧، ٤٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1885

【69】

مردہ کو پانچ مرتبہ سے زیادہ غسل دینے سے متعلق

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپ کی بیٹی کو نہلا رہے تھے، آپ نے فرمایا : انہیں پانی اور بیر (کے پتوں) سے تین یا پانچ بار غسل دو ، یا اگر مناسب سمجھو اس سے بھی زیادہ، اور آخری بار کافور یا کافور کی کچھ (مقدار) ملا لینا، اور جب تم فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر کرو ۔ چناچہ جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر کی تو آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا، اور فرمایا : اسے ان کے جسم سے لپیٹ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1886

【70】

میت کو سات سے زیادہ مرتبہ غسل دینا

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک بیٹی کی وفات ہوگئی، تو آپ نے ہمیں بلوایا (اور) فرمایا : اسے پانی اور بیر (کے پتوں) سے تین یا پانچ بار غسل دو ، یا اس سے زیادہ اگر مناسب سمجھو، اور آخری بار کچھ کافور یا کافور کی کچھ (مقدار) ملا لینا، اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر کرو ۔ تو جب ہم فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر کی، آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا : اسے (اس کے جسم سے) لپیٹ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1887

【71】

میت کو سات سے زیادہ مرتبہ غسل دینا

اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، مگر (اس میں یہ الفاظ ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں تین بار یا پانچ بار یا سات بار غسل دو ، یا اس سے زیادہ اگر اس کی ضرورت سمجھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩ (١٢٥٤) ، ١٣ (١٢٥٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٢ (٩٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٨ (١٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨١١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1888

【72】

میت کو سات سے زیادہ مرتبہ غسل دینا

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک بیٹی کی وفات ہوگئی، تو آپ نے مجھے انہیں نہلانے کا حکم دیا اور فرمایا : تین بار، یا پانچ بار، یا سات بار غسل دو ، یا اس سے زیادہ اگر ضرورت سمجھو ، تو میں نے کہا : طاق بار ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اور آخری مرتبہ کچھ کافور یا کافور کی کچھ مقدار ملا لو، (اور) جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے باخبر کرنا ، چناچہ جب ہم فارغ ہوئے، ہم نے آپ کو خبر کی تو آپ نے ہمیں اپنا تہبند دیا، اور فرمایا : اسے (اس کے جسم سے) لپیٹ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨١٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1889

【73】

میت کے غسل میں کافور کی شرکت

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم آپ کی بیٹی کو غسل دے رہے تھے، آپ نے فرمایا : انہیں پانی اور بیر (کے پتوں) سے تین بار، یا پانچ بار، غسل دو ، یا اس سے زیادہ، اور آخری بار کچھ کافور یا کافور کی مقدار ملا لو (اور) جب تم فارغ ہوجاؤ تو مجھے آگاہ کرو ، تو جب ہم فارغ ہوئے تو آپ کو خبر کی، آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا : اسے (اس کے جسم سے) لپیٹ دو ، راوی کہتے ہیں یا حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں : اسے تین، پانچ، یا سات بار غسل دو ، راوی کہتے ہیں : ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ہم نے ان کی تین چوٹیاں کیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1890

【74】

میت کے غسل میں کافور کی شرکت

اس سند سے بھی ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے ان کے سر کی تین چوٹیاں کیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٥ (٩٣٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٣ (٣١٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٣) ، مسند احمد ٦/٤٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1891

【75】

میت کے غسل میں کافور کی شرکت

اس سند سے بھی ام عطیہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے ان کے سر کی تین چوٹیاں کیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1892

【76】

اندر ایک کپڑا لپیٹنا کیسا ہے؟

محمد بن سیرین کہتے ہیں ام عطیہ رضی اللہ عنہا ایک انصاری عورت تھیں، وہ (بصرہ) آئیں، اپنے بیٹے سے جلد ملنا چاہ رہی تھیں لیکن وہ اسے نہیں پاسکیں، انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی، کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم آپ کی بیٹی کو غسل دے رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں پانی اور بیر (کی پتیوں) سے تین بار، یا پانچ بار غسل دو ، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھو، اور آخر میں کافور یا کافور کی کچھ مقدار ملا لینا (اور) جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے بتاؤ، تو جب ہم فارغ ہوئے تو آپ نے ہماری طرف اپنا تہبند پھینکا اور فرمایا : اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو ، اور اس سے زیادہ نہیں فرمایا۔ (ایوب نے) کہا : میں نہیں جانتا کہ یہ آپ کی کون سی بیٹی تھیں، راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا اشعار سے کیا مراد ہے ؟ کیا ازار (تہبند) پہنانا مقصود ہے ؟ ایوب نے کہا : میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسے ان کے جسم پر لپیٹ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1893

【77】

اندر ایک کپڑا لپیٹنا کیسا ہے؟

ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی موت ہوگئی تو آپ نے فرمایا : انہیں تین یا پانچ بار غسل دو ، یا اس سے زیادہ اگر ضرورت سمجھو، اور انہیں بیر (کے پتوں) اور پانی سے غسل دو ، اور کچھ کافور ملا لو، اور جب فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبر کرو ، وہ کہتی ہیں : میں نے آپ کو خبر کیا، تو آپ نے ہماری طرف اپنی لنگی پھینکی اور فرمایا : اسے (ان کے جسم سے) لپیٹ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٢ (١٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1894

【78】

عمدہ کفن دینے کی تاکید

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو آپ نے اپنے صحابہ میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جو مرگیا تھا، اور اسے رات ہی میں دفنا دیا گیا تھا، اور ایک گھٹیا کفن میں اس کی تکفین کی گئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرما دیا کہ کوئی آدمی رات میں دفنایا جائے سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی (کے کفن دفن کا) ولی ہو تو اسے چاہیئے کہ اسے اچھا کفن دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٥ (٩٤٣) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٤ (٣١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٥) ، مسند احمد ٣/٢٩٥، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٠١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1895

【79】

کفن کونسی قسم کا بہتر ہے؟

سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم کپڑوں میں سے سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ وہ پاکیزہ اور عمدہ ہوتا ہے، نیز اپنے مردوں کو (بھی) اسی میں کفنایا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٤٦ (٢٨١٠) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٥ (٣٥٦٧) ، مسند احمد ٥/١٠، ١٢، ١٣، ١٧، ١٨، ١٩، ٢١، ویأتی عند المؤلف برقم : ٥٣٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1896

【80】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفن کتنے کپڑے میں دیا گیا؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٨ (١٢٦٤) ، ٢٣ (١٢٧١) ، ٢٤ (١٢٧٢) ، ٩٤ (١٣٨٧) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٤ (٣١٥١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٠ (٩٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١١ (١٤٦٩) ، موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) ، مسند احمد ٦/٤٠، ٩٣، ١١٨، ١٣٢، ١٦٥، ٢٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1897

【81】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفن کتنے کپڑے میں دیا گیا؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنائے گئے جن میں نہ تو قمیص تھی اور نہ عمامہ (پگڑی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٤ (١٢٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٦٠) ، موطا امام مالک/الجنائز ٢ (٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1898

【82】

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفن کتنے کپڑے میں دیا گیا؟

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تین سفید یمنی سوتی کپڑوں میں کفنایا گیا جس میں نہ تو قمیص تھی، اور نہ عمامہ (پگڑی) ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دو کپڑوں اور ایک یمنی چادر کے متعلق لوگوں کی گفتگو کا ذکر کیا گیا، تو انہوں نے کہا : چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے لوٹا دیا، اور آپ کو اس میں نہیں کفنایا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣٤ (٣١٥٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٠ (٩٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١١ (١٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1899

【83】

کفن میں قمیض ہونے سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) مرگیا، تو اس کے بیٹے (عبداللہ رضی اللہ عنہ) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، (اور) عرض کیا : (اللہ کے رسول ! ) آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ میں اس میں انہیں کفنا دوں، اور آپ ان پر نماز (جنازہ) پڑھ دیجئیے، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کر دیجئیے، تو آپ ﷺ نے اپنی قمیص انہیں دے دی، پھر فرمایا : جب تم فارغ ہو لو تو مجھے خبر کرو میں ان کی نماز (جنازہ) پڑھوں گا (اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے) تو عمر (رض) نے آپ کو کھینچا، اور کہا : اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز (جنازہ) پڑھنے سے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں دو اختیارات کے درمیان ہوں (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا : ‏استغفر لهم أو لا تستغفر لهم تم ان کے لیے مغفرت چاہو یا نہ چاہو دونوں برابر ہے (التوبہ : ٨٠ ) چناچہ آپ نے اس کی نماز (جنازہ) پڑھی، تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی : ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره تم ان (منافقین) میں سے کسی پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھو، اور نہ ہی ان کی قبر پر کھڑے ہو (التوبہ : ٨٤ ) تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٢ (١٢٦٩) ، و تفسیر التوبة ١٢ (٤٦٧٠) ، ١٣ (٤٦٧٢) ، واللباس ٨ (٥٧٩٦) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٤٠٠) ، وصفات المنافقین (٢٧٧٤) ، سنن الترمذی/تفسیر التوبة (٣٠٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣١ (١٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٨١٣٩) ، مسند احمد ٢/١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1900

【84】

کفن میں قمیض ہونے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عبداللہ بن ابی کی قبر پر آئے، اور اسے اس کی قبر میں رکھا جا چکا تھا، تو آپ اس پر کھڑے ہوئے، اور اس کے نکالنے کا حکم دیا تو اسے نکالا گیا، تو آپ نے اسے اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، اور اپنی قمیص پہنائی اور اس پر تھو تھو کیا، واللہ تعالیٰ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٢ (١٢٧٠) ، ٧٧ (١٣٥٠) ، واللباس ٨ (٥٧٩٥) ، صحیح مسلم/صفات المنافقین (٢٧٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣١) ، مسند احمد ٣/٣٧١، ٣٨١، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٠٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1901

【85】

کفن میں قمیض ہونے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب (رض) مدینے میں تھے، تو انصار نے ایک کپڑا تلاش کیا جو انہیں پہنائیں، تو عبداللہ بن ابی کی قمیص کے سوا کوئی قمیص نہیں ملی جو ان پر فٹ آتی، تو انہوں نے انہیں وہی پہنا دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور اسی احسان کے بدلے کے طور پر آپ نے مرنے پر عبداللہ بن ابی کو اپنی قمیص دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1902

【86】

کفن میں قمیض ہونے سے متعلق

خباب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی، ہم اللہ تعالیٰ کی رضا چاہ رہے تھے، اللہ تعالیٰ پر ہمارا اجر ثابت ہوگیا، پھر ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو مرگئے (اور) اس اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں چکھا، انہیں میں سے مصعب بن عمیر (رض) ہیں، جو جنگ احد میں قتل کئے گئے، تو ہم نے سوائے ایک (چھوٹی) دھاری دار چادر کے کوئی ایسی چیز نہیں پائی جس میں انہیں کفناتے، جب ہم ان کا سر ڈھکتے تو پیر کھل جاتا، اور جب پیر ڈھکتے تو سر کھل جاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھک دیں اور ان کے پیروں پہ اذخر نامی گھاس ڈال دیں، اور ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کے پھل پکے اور وہ اسے چن رہے ہیں (یہ الفاظ اسماعیل کے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٧ (١٢٧٦) ، ومناقب الأنصار ٤٥ (٣٨٩٧، ٣٩١٤) ، والمغازي ١٧ (٤٠٤٧) ، ٢٦ (٤٠٨٢) ، والرقاق ٧ (٦٤٣٢) ، ١٦ (٦٤٤٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٣ (٩٤٠) ، سنن ابی داود/الوصایا ١١ (٢٨٧٦) ، سنن الترمذی/المناقب ٥٤ (٣٨٥٣) ، مسند احمد ٥/١٠٩، ١١١، ١١٢، ٦/٣٩٥، (تحفة الأشراف : ٣٥١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1903

【87】

جس وقت احرام باندھا ہوا شخص فوت ہوجائے تو اس کو کس طریقہ سے کفن دینا چاہیے؟

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محرم کو اس کے ان ہی دونوں کپڑوں میں غسل دو جن میں وہ احرام باندھے ہوئے تھا، اور اسے پانی اور بیر (کے پتوں) سے نہلاؤ، اور اسے اس کے دونوں کپڑوں ہی میں کفناؤ، نہ اسے خوشبو لگاؤ، اور نہ ہی اس کا سر ڈھکو، کیونکہ وہ قیامت کے دن احرام باندھے ہوئے اٹھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢١ (١٢٦٨) ، وجزاء الصید ١٣ (١٨٣٩) ، ٢٠ (١٨٤٩) ، ٢١ (١٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٨٤ (٣٢٣٨، ٣٢٣٩) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٥ (٩٥١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٨٩ (٣٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٢) ، مسند احمد ١/٢١٥، ٢٢٠، ٢٦٦، ٢٨٦، ٣٤٦، سنن الدارمی/المناسک ٣٥ (١٨٩٤) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٧١٥، ٢٨٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1904

【88】

مشک سے متعلق احادیث

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمدہ ترین خوشبو مشک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأدب ٥ (٢٢٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣٧ (٣١٥٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ١٦ (٩٩١، ٩٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١١) ، مسند احمد ٣/٣١، ٣٦، ٤٠، ٤٦، ٤٧، ٦٢، ٦٨، ٨٧، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٥١٢٢، ٥٢٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1905

【89】

مشک سے متعلق احادیث

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بہترین خوشبوؤں میں سے مشک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٣٧ (٣١٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٨١) ، مسند احمد ٣/٣٦، ٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1906

【90】

جنازہ کی اطلاع دینے سے متعلق

ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک مسکین عورت بیمار ہوگئی، رسول اللہ ﷺ کو اس کی بیماری کی خبر دی گئی (رسول اللہ ﷺ مسکینوں اور غریبوں کی بیمار پرسی کرتے اور ان کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب یہ مرجائے تو مجھے خبر کرنا ، رات میں اس کا جنازہ لے جایا گیا (تو) لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو بیدار کرنا مناسب نہ جانا، جب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی تو (رات میں) جو کچھ ہوا تھا آپ کو اس کی خبر دی گئی، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ مجھے اس کی خبر کرنا ؟ تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو رات میں جگانا نا مناسب سمجھا، رسول اللہ ﷺ (اپنے صحابہ کے ساتھ) نکلے یہاں تک کہ اس کی قبر پہ لوگوں کی صف بندی ١ ؎ کی اور چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٧) ، موطا امام مالک/الجنائز ٥ (١٥) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٩٧١، ١٩٨٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں قبر پر دوبارہ نماز پڑھنے کے جواز کی دلیل ہے، جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں وہ اسے اسی عورت کے ساتھ خاص مانتے ہیں لیکن یہ دعویٰ محتاج دلیل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1907

【91】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب نیک بندہ اپنی چارپائی پہ رکھا جاتا ہے، تو وہ کہتا ہے : مجھے جلدی لے چلو، مجھے جلدی لے چلو، اور جب برا آدمی اپنی چارپائی پہ رکھا جاتا ہے، تو کہتا ہے : ہائے میری تباہی ! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٦٢٣) ، مسند احمد ٢/٢٩٢، ٤٧٤، ٥٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1908

【92】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب جنازہ (چارپائی پر) رکھا جاتا ہے (اور) لوگ اسے اپنے کندھوں پہ اٹھاتے ہیں، تو اگر وہ نیکوکار ہوتا ہے تو کہتا ہے : مجھے جلدی لے چلو، مجھے جلدی لے چلو، اور اگر برا ہوتا ہے تو کہتا ہے : ہائے اس کی ہلاکت ! تم اسے کہاں لے جا رہے ہو، اس کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے، اگر انسان اسے سن لے تو بیہوش ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٠ (١٣١٤) ، ٥٢ (١٣١٦) ، ٩٠ (١٣٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٨٧) ، مسند احمد ٣/٤١، ٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1909

【93】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنازے کو تیز لے چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف (جلد) لے جاؤ گے، اور اگر اس کے علاوہ ہے تو وہ ایک شر ہے جسے تم (جلد) اپنی گردنوں سے اتار پھینکو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥١ (١٣١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٦ (٩٤٤) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٠ (٣١٨١) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٠ (١٠١٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٤) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٦) ، (موقوفاً علی أبي ھریرة) ، مسند احمد ٢/٢٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1910

【94】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جنازے کو جلدی لے چلو، کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف جلد لے جاؤ گے، اور اگر بد ہے تو شر کو اپنی گردنوں سے (جلد) اتار پھینکو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٦ (٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٨٧) ، مسند احمد ٢/٢٤٠، ٢٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1911

【95】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

عبدالرحمٰن بن جو شن کہتے ہیں میں عبدالرحمٰن بن سمرہ (رض) کے جنازے میں موجود تھا، زیاد نکلے تو وہ چارپائی کے آگے چل رہے تھے، عبدالرحمٰن (رض) کے گھر والوں میں سے کچھ لوگ اور ان کے غلام چارپائی کو سامنے کر کے اپنی ایڑیوں کے بل چلنے لگے، وہ کہہ رہے تھے : آہستہ چلو، آہستہ چلو، اللہ تمہیں برکت دے، تو وہ لوگ رینگنے کے انداز میں چلنے لگے، یہاں تک کہ جب ہم مربد کے راستے میں تھے تو ابوبکرہ (رض) ہمیں ایک خچر پر (سوار) ملے، جب انہوں نے انہیں (ایسا) کرتے دیکھا، تو اپنے خچر پر (سوار) ان کے پاس گئے اور کوڑے سے ان کی طرف اشارہ کیا، اور کہا : قسم ! اس ذات کی جس نے ابوالقاسم ﷺ کو عزت بخشی، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم جنازے کے ساتھ تقریباً دوڑتے ہوئے چلتے، تو لوگ (یہ سن کر) خوش ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٠ (٣١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩٥) ، مسند احمد ٥/٣٦، ٣٧، ٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1912

【96】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (صحابہ کرام) کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھا ہم جنازے کے ساتھ تقریباً دوڑتے ہوئے چلتے۔ یہ الفاظ ہشیم کی روایت کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1913

【97】

جنازہ جلدی لے جانے سے متعلق

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تمہارے (سامنے) سے جنازہ گزرے تو کھڑے ہوجاؤ، (اور) جو (جنازے) کے ساتھ جائے وہ نہ بیٹھے یہاں تک کہ اسے رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٨ (١٣١٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥١ (١٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٠) ، مسند احمد ٣/٢٥، ٤١، ٤٣، ٤٨، ٥١، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ١٩١٨، ٢٠٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1914

【98】

جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم

عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے (اور) اس کے ساتھ جا نہ رہا ہو تو وہ کھڑا رہے یہاں تک کہ (جنازہ) اس سے آگے نکل جائے یا آگے نکلنے سے پہلے رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٦ (١٣٠٧) ، ٤٧ (١٣٠٨) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٨) ، سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥١ (١٠٤١، ١٠٤٢) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٣٥ (١٥٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٤١) ، مسند احمد ٣/٤٤٥، ٤٤٦، ٤٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1915

【99】

جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم

عامر بن ربیعہ عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے نکل جائے، یا رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1916

【100】

جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ، (اور) جو اس کے پیچھے پیچھے جا رہا ہو جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے وہ نہ بیٹھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1917

【101】

جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم

ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ جنازے کے ساتھ ہوں، (اور) بیٹھ گئے ہوں یہاں تک کہ وہ رکھ دیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٠، ١٣٠٥٩) (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1918

【102】

جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ (لے کر) گزرے، تو آپ کھڑے ہوگئے، اور عمرو بن علی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٨) ، مسند احمد ٣/٤٧، ٥٣ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1919

【103】

جنازہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم

یزید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے (اتنے میں) ایک جنازہ نظر آیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے، اور جو ان کے ساتھ تھے وہ بھی کھڑے ہوگئے، تو وہ لوگ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ نکل گیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٦) ، مسند احمد ٤/٣٨٨ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1920

【104】

مشرکین کے جنازہ کے واسطے کھڑے رہنا

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد بن عبادہ (رض) قادسیہ میں تھے۔ ان دونوں کے قریب سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو دونوں کھڑے ہوگئے تو ان سے کہا گیا : یہ تو ذمی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا تو آپ کھڑے ہوگئے، تو آپ سے عرض کیا گیا یہ تو یہودی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے کہا : کیا یہ روح نہیں ہے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٩ (١٣١٢، ١٣١٣) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1921

【105】

مشرکین کے جنازہ کے واسطے کھڑے رہنا

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک جنازہ ہمارے پاس سے گزرا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے، اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہوگئے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ جنازہ (ایک) یہودی عورت کا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : موت ایک قسم کی ہیبت ہے، تو جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ، یہ الفاظ خالد کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٩ (١٣١١) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٦٠) ، سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٦) ، مسند احمد ٣/٣١٩، ٣٣٤، ٣٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1922

【106】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم علی (رض) کے پاس تھے (اتنے میں) ایک جنازہ گزرا تو لوگ کھڑے ہوگئے، تو علی (رض) نے کہا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوموسیٰ اشعری کا حکم ہے، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کے جنازے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، (پھر) اس کے بعد آپ کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٥) ، مسند احمد ١/١٤١، ١٤٢، ٤/٤١٣ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1923

【107】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ ایک جنازہ حسن بن علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس سے گزرا، تو حسن (رض) کھڑے ہوگئے، اور ابن عباس (رض) نہیں کھڑے ہوئے، تو حسن (رض) نے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ ایک یہودی کا جنازہ (دیکھ کر) کھڑے نہیں ہوئے تھے ؟ تو ابن عباس (رض) نے کہا : ہاں، پھر بیٹھے رہنے لگے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٩) ، مسند احمد ١/٢٠٠، ٢٠١، ٣٣٧، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٩٢٦، ١٩٢٧، ١٩٢٨ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پھر اس کے بعد کسی جنازے کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1924

【108】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

اس سند سے بھی ابن سیرین کہتے ہیں کہ حسن بن علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کے قریب سے ایک جنازہ گزرا، تو حسن (رض) کھڑے ہوگئے، اور ابن عباس (رض) نہیں کھڑے ہوئے، تو حسن (رض) نے ابن عباس سے کہا : کیا اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کھڑے نہیں ہوئے تھے ؟ تو ابن عباس (رض) نے کہا : کھڑے ہوئے تھے پھر بیٹھے رہنے لگے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: جمہور نے اس سے کھڑے ہونے والی روایت کے منسوخ ہونے پر استدلال کیا ہے، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا کھڑا نہ ہونا بیان جواز کے لیے رہا ہو، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1925

【109】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

اس سند سے بھی ابن عباس رضی الله عنہما اور حسن بن علی رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان دونوں کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو ان میں سے ایک کھڑے ہوگئے، اور دوسرے بیٹھے رہے، تو جو کھڑے ہوگئے تھے انہوں نے کہا : سنو ! اللہ کی قسم ! مجھے یہی معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے، تو جو بیٹھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا : مجھے (یہ بھی) معلوم ہو کہ رسول اللہ ﷺ (بعد میں) بیٹھے رہنے لگے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٢٥ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1926

【110】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

محمد بن علی الباقر کہتے ہیں کہ حسن بن علی (رض) بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگ کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ جنازہ گزر گیا، تو حسن (رض) نے کہا : ایک یہودی کا جنازہ گزرا، رسول اللہ ﷺ اسی راستے میں بیٹھے تھے تو آپ نے ناپسند کیا کہ ایک یہودی کا جنازہ آپ کے سر سے بلند ہو تو آپ کھڑے ہوگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٢٥ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ تاویل حسن رضی الله عنہ کی ہے جو ان کے ذہن میں آئی، لیکن احادیث سے جو بات سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ موت کی ہیبت اور اس کی سنگینی تھیں جیسا کہ إن للموت فزعاً والی روایت سے ظاہر ہے، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی متعدد وجہیں رہی ہوں، ان میں سے ایک یہ بھی ہو کیونکہ ایک روایت میں ہے : ہم فرشتوں کی تکریم میں کھڑے ہوئے ہیں نہ کہ جنازہ کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1927

【111】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک یہودی کے جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے پاس سے گزرا یہاں تک کہ وہ (نظروں سے) اوجھل ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٤ (٩٥٨، ٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٨) ، مسند احمد ٣/٢٩٥، ٣٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1928

【112】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب ایک یہودی کے جنازے کے لیے سے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ وہ (نظروں سے) اوجھل ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح أيضاً صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1928

【113】

جنازہ کے واسطے کھڑے نہ ہونے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک جنازہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ کھڑے ہوگئے، آپ سے کہا گیا : یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہم فرشتوں (کی تکریم میں) کھڑے ہوئے ہیں، (نہ کہ جنازہ کی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٦٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح أيضاً صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1929

【114】

مومن کے موت سے آرام حاصل کرنے سے متعلق

ابوقتادہ بن ربعی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو آپ نے فرمایا : (یہ) مستریح ہے یا مستراح منہ ہے، تو لوگوں نے پوچھا : مستریح اور مستراح منہ سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بندہ مومن (موت کے بعد) دنیا کی بلا اور تکلیف سے راحت پا لیتا ہے، اور فاجر ١ ؎ بندہ مرتا ہے تو اس سے اللہ کے بندے، بستیاں، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پالیتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٢ (٦٥١٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢١ (٩٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٤) ، مسند احمد ٥/٢٩٦، ٢٠٢، ٣٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے کہا ہے فاجر سے مراد کافر ہے کیونکہ یہاں مومن کے بالمقابل استعمال ہوا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ اسے کافر اور فاجر دونوں کے لیے عام مانا جائے، کیونکہ کافر کی طرح فاجر مسلمان بھی بندگان اللہ کو اپنے مظالم کا شکار بناتے ہیں، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1930

【115】

مومن کے موت سے آرام حاصل کرنے سے متعلق

ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک جنازہ نظر آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ مستریح ہے یا مستراح منہ ہے، (کیونکہ) جب مومن مرتا ہے تو دنیا کی مصیبتوں، بلاؤں اور تکلیفوں سے نجات پا لیتا ہے، اور فاجر مرتا ہے تو اس سے (اللہ کے) بندے، ملک و شہر، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پالیتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1931

【116】

مردے کی تعریف کرنا

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک جنازہ لے جایا گیا تو اس کی تعریف کی گئی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واجب ہوگئی ، (پھر) ایک دوسرا جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی مذمت کی گئی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واجب ہوگئی ، تو عمر (رض) نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، ایک جنازہ لے جایا گیا تو اس کی تعریف کی گئی، تو آپ نے فرمایا : واجب ہوگئی پھر ایک دوسرا جنازہ لے جایا گیا تو اس کی مذمت کی گئی، تو آپ نے فرمایا : واجب ہوگئی ؟ ، تو آپ نے فرمایا : تم لوگوں نے جس کی تعریف کی تھی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس کی مذمت کی تھی اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی، تم ١ ؎ روئے زمین پر اللہ کے گواہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٧) ، والشھادات ٦ (٢٦٤٢) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٠ (٩٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٣ (١٠٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٠ (١٤٩١) ، مسند احمد ٣/١٧٩، ١٨٦، ١٩٧، ٢٤٥، ٢٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے کہا ہے یہ خطاب صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ مخصوص ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ اس خطاب میں صحابہ رضی الله عنہم کرام کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ان کے طریقہ پر کاربند ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1932

【117】

مردے کی تعریف کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ لے کر گزرے، تو لوگوں نے اس کی تعریف کی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واجب ہوگئی ، پھر لوگ ایک دوسرا جنازہ لے کر گزرے، تو لوگوں نے اس کی مذمت کی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : واجب ہوگئی ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ کے پہلی بار اور دوسری بار وجبت کہنے سے کیا مراد ہے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے آسمان پر اللہ کے گواہ ہیں، اور تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٨٠ (٣٢٣٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٠ (١٤٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٣٨) ، مسند احمد ٢/٤٦٦، ٤٧٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1933

【118】

مردے کی تعریف کرنا

ابو اسود دیلی کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھا اتنے میں ایک جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی تعریف کی گئی تو عمر (رض) نے کہا : واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرا جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی (بھی) تعریف کی گئی، تو عمر (رض) نے کہا : واجب ہوگئی، پھر ایک تیسرا جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی مذمت کی گئی، تو عمر (رض) نے کہا : واجب ہوگئی، تو میں نے پوچھا : امیر المؤمنین ! کیا واجب ہوگئی ؟ انہوں نے کہا : میں نے وہی بات کہی جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی : جس مسلمان کے لیے بھی چار لوگوں نے خیر کی گواہی دی تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا ، ہم نے پوچھا : (اگر) تین گواہی دیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تین ہی سہی ، (پھر) ہم نے پوچھا : (اگر) دو گواہی دیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : دو ہی سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٥ (١٣٦٨) ، والشھادات ٦ (٢٦٤٣) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٣ (١٠٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٧٢) ، مسند احمد ١/٢١، ٢٢، ٤٥، ٣٠، ٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1934

【119】

مرنے والے کا تذکرہ بہتر طریقہ سے کرنا چاہیے

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مرے ہوئے شخص کا ذکر برائی سے کیا گیا، تو آپ نے فرمایا : تم اپنے مردوں کا ذکر صرف بھلائی کے ساتھ کیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٨٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1935

【120】

مردوں کو برا کہنے کی ممانعت سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے مردوں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا تھا، اس تک پہنچ چکے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٧ (١٣٩٣) ، والرقاق ٤٢ (٦٥١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٦) ، مسند احمد ٦/١٨٠، سنن الدارمی/السیر ٦٨ (٢٥٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی انہیں اپنے اعمال کی جزا و سزا مل رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1936

【121】

مردوں کو برا کہنے کی ممانعت سے متعلق

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردے (کے ساتھ) تین چیزیں (قبرستان تک) جاتی ہیں : اس کے گھر والے، اس کا مال، اور اس کا عمل، (پھر) دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال لوٹ آتے ہیں، اور ایک باقی رہ جاتا ہے اور وہ اس کا عمل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٢ (٦٥١٤) ، صحیح مسلم/الزھد ١ (٢٩٦٠) ، سنن الترمذی/فیہ ٤٦ (٢٣٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٠) ، مسند احمد ٣/١١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1937

【122】

مردوں کو برا کہنے کی ممانعت سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں : جب بیمار ہو تو وہ اس کی عیادت کرے، جب مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک رہے، جب دعوت کرے تو اسے قبول کرے، جب وہ اس سے ملے تو اسے سلام کرے، جب چھینکے اور الحمد للہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہے، اور اس کی خیر خواہی کرے خواہ اس کے پیٹھ پیچھے ہو یا سامنے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ١ (٢٧٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٦) ، مسند احمد ٢/٣٢١، ٣٧٢، ٤١٢، ٥٤٠ (صحیح) و ورد عندخ و م بلفظ ” خمس “ أی بعدم ذکر ” وینصح لہ إذا ۔۔۔ الخ “ راجع خ /الجنائز ٢ (١٢٤٠) ، صحیح مسلم/السلام ٣ (٢١٦٢ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1938

【123】

جنازوں کے پیچھے چلنے کے حکم سے متعلق

براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا، اور سات باتوں سے منع فرمایا : ہمیں آپ نے مریض کی عیادت کرنے، چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے، قسم پوری کرانے، مظلوم کی مدد کرنے، سلام کو عام کرنے، دعوت دینے والوں (کی دعوت) قبول کرنے، اور جنازے کے ساتھ جانے کا حکم دیا، اور ہمیں آپ نے سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے، چاندی کے برتن (میں کھانے، پینے) سے، میاثر، قسّیہ، استبرق ١ ؎، حریر اور دیباج نامی ریشمی کپڑوں سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢ (١٢٣٩) ، والمظالم ٥ (٢٤٤٥) ، وانکاح ٧١ (٥١٧٥) ، والأشربة ٢٨ (٥٦٣٥) ، والمرضی ٤ (٥٦٥٠) ، واللباس ٢٨ (٥٨٣٨) ، ٣٦ (٥٨٤٩) ، ٤٥ (٥٨٦٣) ، والأدب ١٢٤ (٦٢٢٢) ، والاستئذان ٨ (٦٦٥٤) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٦) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٥ (٢٨٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٢ (٢١١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٩١٦) ، مسند احمد ٤/٢٨٤، ٢٨٧، ٢٩٩، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٨٠٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: استبرق، حریر اور دیباج یہ تینوں ریشمی کپڑوں کی قسمیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1939

【124】

جنازے کے ساتھ جانے کی فضیلت

براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص جنازے کے ساتھ گیا، اور اس کے ساتھ رہا یہاں تک کہ اس پر جنازہ کی نماز پڑھی گئی اس کے لیے ایک قیراط کا ثواب ہے، اور جو شخص کسی جنازے کے ساتھ گیا، اور اس کے ساتھ رہا یہاں تک وہ دفن کردیا گیا، تو اس کے لیے دو قیراط کا ثواب ہے، اور ایک قیراط احد (پہاڑ) کے مثل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٩١٥) ، مسند احمد ٤/٢٩٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1940

【125】

جنازے کے ساتھ جانے کی فضیلت

عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی جنازے کے ساتھ جائے، اور اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو لیا جائے، تو اس کے لیے دو قیراط کا ثواب ہے، اور اگر لوٹ آئے قبل اس کے کہ اس سے فارغ ہوا جائے، تو اس کے لیے ایک قیراط کا ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٣) ، مسند احمد ٤/٨٦، و ٥/٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1941

【126】

کسی چیز پر سوار شخص جنازے کے ساتھ کہا چلے

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا جہاں چاہے رہے، اور بچوں پہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٩ (٣١٨٠) مطولاً ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٢ (١٠٣١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٥ (١٤٨١) مختصراً ، ٢٦ (١٥٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٩٠) ، مسند احمد ٤/٢٤٧، ٢٤٨، ٢٤٩، ٢٥٢، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٩٤٥، ١٩٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1942

【127】

پیدل شخص جنازہ کے ساتھ کس جگہ چلے؟

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا (آگے پیچھے دائیں بائیں) جہاں چاہے رہے، اور بچوں پہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1943

【128】

پیدل شخص جنازہ کے ساتھ کس جگہ چلے؟

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اور ابوبکر و عمر (رض) کو جنازے کے آگے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٩ (٣١٧٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٦ (١٠٠٧، ١٠٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ١٦ (١٤٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٠) ، موطا امام مالک/الجنائز ٣ (٨) (مرسلاً ) ، مسند احمد ٢/٨، ١٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1944

【129】

پیدل شخص جنازہ کے ساتھ کس جگہ چلے؟

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان (رض) عنہم کو جنازے کے آگے (پیدل) چلتے دیکھا ہے۔ صرف راوی بکر نے عثمان (رض) عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ نسائی کہتے ہیں : اس حدیث کا موصول ہونا غلط ہے، اور درست مرسل ہونا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1945

【130】

مردہ پر نماز پڑھنے کا حکم

عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارا بھائی مرگیا ہے، اٹھو اس کی نماز جنازہ پڑھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٤٨ (١٠٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٦) ، مسند احمد ٤/٤٣١، ٤٣٣، ٤٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1946

【131】

بچوں پر نماز پڑھنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انصار کے بچوں میں سے ایک بچہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اس کی جنازے کی نماز پڑھی، میں نے کہا : (یہ) خوش بخت جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تو اس نے کوئی برا کام کیا، اور نہ اس عمر (رض) کو پہنچا، آپ ﷺ نے فرمایا : یا عائشہ ! اس کے علاوہ کچھ اور معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، اور اس کے لیے لوگ پیدا کئے، جبکہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے، اور (اللہ) نے جہنم کی تخلیق کی، اور اس کے لیے لوگ پیدا کیے جبکہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٦٢) ، سنن ابی داود/السنة ١٨ (٤٧١٣) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٠ (٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٣) ، مسند احمد ٦/٤١، ٢٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور وہ توقف ہے، لیکن یہ پہلے کی بات ہے، بعد میں آپ نے یہ بتایا کہ مسلمانوں کے نابالغ بچے جنت میں جائیں گے، البتہ کفار و مشرکین کے بچوں کی بابت جمہور کا موقف یہی ہے کہ ان کے بارے میں توقف اختیار کیا جائے، دیکھئیے حدیث رقم : ١٩٥١ ، ١٩٥٣ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1947

【132】

بچوں پر نماز (جنازہ) پڑھنا چاہیے؟

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا اس کے (آگے پیچھے دائیں بائیں) جس طرف چاہے رہے، اور شیرخوار بچہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1948

【133】

مشرکین کی اولاد

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : جو کچھ وہ کرنے والے تھے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٢ (١٣٨٣) ، و القدر ٣ (٦٥٩٢) ، صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٨ (٤٧١٤) بمعناہ، سنن الترمذی/القدر ٥ (٢١٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢١٢) ، مسند احمد ٢/٢٤٤، ٢٥٣، ٢٥٩، ٢٦٨، ٣١٥، ٣٤٧، ٣٩٣، ٣٩٥، ٤٧١، ٤٨٨، ٥١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1949

【134】

مشرکین کی اولاد

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جو وہ کرنے والے تھے اسے خوب جانتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٥٣٢) ، مسند احمد ٢/٢٤٦، ٢٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ اپنے اسی علم کی بنیاد پر ان کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1950

【135】

مشرکین کی اولاد

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا (اور) جس وقت انہیں پیدا کیا وہ جانتا تھا (کہ آئندہ) وہ کیا کرنے والے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٩٢ (١٣٨٣) ، و القدر ٣ (٦٥٩٧) ، صحیح مسلم/القدر ٦ (٢٦٦٠) ، سنن ابی داود/السنة ١٨ (٤٧١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٩) ، مسند احمد ١/٢١٥، ٣٢٨، ٣٤٠، ٣٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1951

【136】

مشرکین کی اولاد

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے جو وہ کرنے والے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1952

【137】

حضرات شہداء کرام پر نماز کا حکم

شداد بن ہاد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک بادیہ نشین نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ پر ایمان لے آیا، اور آپ کے ساتھ ہوگیا، پھر اس نے عرض کیا : میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا، نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعض اصحاب کو اس کا خیال رکھنے کی وصیت کی، جب ایک غزوہ ہوا تو نبی اکرم ﷺ مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں ملیں، تو آپ نے انہیں تقسیم کیا، اور اس کا (بھی) حصہ لگایا، چناچہ اس کا حصہ اپنے ان اصحاب کو دے دیا جن کے سپرد اسے کیا گیا تھا، وہ ان کی سواریاں چراتا تھا، جب وہ آیا تو انہوں نے (اس کا حصہ) اس کے حوالے کیا، اس نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یہ حصہ نبی اکرم ﷺ نے تمہارے لیے لگایا تھا، تو اس نے اسے لے لیا، (اور) نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا : (اللہ کے رسول ! ) یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے تمہارا حصہ دیا ہے ، تو اس نے کہا : میں نے اس (حقیر بدلے) کے لیے آپ کی پیروی نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس بات پر آپ کی پیروی کی ہے کہ میں تیر سے یہاں مارا جاؤں، (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا) پھر میں مروں اور جنت میں داخل ہوجاؤں، تو آپ نے فرمایا : اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا وعدہ سچ کر دکھائے گا ، پھر وہ لوگ تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، پھر دشمنوں سے لڑنے کے لیے اٹھے، تو انہیں (کچھ دیر کے بعد) نبی اکرم ﷺ کے پاس اٹھا کر لایا گیا، اور انہیں ایسی جگہ تیر لگا تھا جہاں انہوں نے اشارہ کیا تھا، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : کیا یہ وہی شخص ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تو (اللہ تعالیٰ ) نے (بھی) اپنا وعدہ اسے سچ کر دکھایا ١ ؎ پھر نبی اکرم ﷺ نے اپنے جبّے (قمیص) میں اسے کفنایا، پھر اسے اپنے سامنے رکھا، اور اس کی جنازے کی نماز پڑھی ٢ ؎ آپ کی نماز میں سے جو چیز لوگوں کو سنائی دی وہ یہ دعا تھی : اللہم هذا عبدک خرج مهاجرا في سبيلک فقتل شهيدا أنا شهيد على ذلك اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے، یہ تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، اور شہید ہوگیا، میں اس بات پر گواہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی مراد پوری کردی۔ ٢ ؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1953

【138】

حضرات شہداء کرام پر نماز کا حکم

عقبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ (مدینہ سے باہر) نکلے، اور غزوہ احد کے شہیدوں پر نماز (جنازہ) پڑھی ١ ؎ جیسے میت کی نماز جنازہ پڑھتے تھے، پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا : میں (قیامت میں) تمہارا پیش رو ہوں، اور تم پر گواہ (بھی) ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢ (١٣٤٤) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٩٦) ، والمغازي ١٧ (٤٠٤٢) ، ٢٧ (٤٠٨٥) ، والرقاق ٧ (٦٤٢٦) ، ٥٣ (٦٥٩٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٩ (٢٢٩٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٥ (٣٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٥٦) ، مسند احمد ٤/١٤٩، ١٥٣، ١٥٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نماز آپ نے جنگ احد کے آٹھ سال بعد آخری عمر میں پڑھی تھی، اور یہ شہداء احد ہی کے ساتھ خاص تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1954

【139】

شہداء پر نماز جنازہ

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ احد کے مقتولین میں سے میں سے دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے، پھر پوچھتے : ان دونوں میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا ؟ جب لوگ ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے تو آپ اسے قبر میں پہلے رکھتے، اور فرماتے : میں ان پر گواہ ہوں ، آپ نے انہیں ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا، اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی ١ ؎ اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٢ (١٣٤٤) ، ٧٣ (١٣٤٥) ، ٧٥ (١٣٤٦) ، ٧٨ (١٣٤٨) ، والمغازي ٢٦ (٤٠٧٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٣١ (٣١٣٨، ٣١٣٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٦ (١٠٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو لوگ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جانے کے قائل ہیں، وہ اس روایت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان میں کسی پر اس طرح نماز نہیں پڑھی جیسے حمزہ رضی الله عنہ پر کئی بار پڑھی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1955

【140】

جس شخص کو سنگسار کیا گیا ہو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنا

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے (اپنا منہ) پھیرلیا، اس نے دوبارہ اعتراف کیا تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیرلیا، اس نے پھر تیسری دفعہ اعتراف کیا، تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیرلیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تجھے جنون ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : کیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا : ہاں، تو نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا تو اس کو رجم کردیا گیا، جب اسے پتھر لگا تو بھاگ کھڑا ہوا، پھر وہ پکڑا گیا تو پتھروں سے مارا گیا، تو اور مرگیا، نبی اکرم ﷺ نے اس کے حق میں اچھی بات کہی، اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١١ (٥٢٧٠) ، والحدود ٢١ (٦٨١٤) ، ٢٥ (٦٨٢٠) (المحاربین ٧، ١١) ، صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩١) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٤ (٤٤٣٠) ، سنن الترمذی/الحدود ٥ (١٤٥٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٩) ، مسند احمد ٣/٣٢٣، سنن الدارمی/الحدود ١٢ (٢٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رجم کئے جانے والے پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کی بابت روایات مختلف ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ رجم کے دن نہیں پڑھی دوسرے دن پڑھی، جیسا کہ سنن ابو قرہ میں ہے، نیز امام وقت کو یہ اختیار ہے، جس کے حالات جیسے ہوں اسی کے حساب پڑھے یا نہ پڑھے، ماعز اور غامدیہ رضی الله عنہما نے سچی توبہ کی تھی، تو ان کی نماز جنازہ پڑھی، اور جو بغیر توبہ کے گواہی کی وجہ سے رجم کیا جائے اس پر نہ پڑھنا ہی بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1956

【141】

حد زنا میں جو شخص پتھروں سے مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنا

عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور کہنے لگی : میں نے زنا کیا ہے، وہ حاملہ تھی، تو آپ نے اسے اس کے ولی کے سپرد کردیا اور کہا : اسے اچھی طرح رکھو، اور جب بچہ جن دے تو میرے پاس لے کر آنا ، چناچہ جب اس نے بچہ جن دیا تو ولی اسے لے کر آیا، تو آپ نے اسے حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے، پھر آپ نے اسے رجم کیا، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی، اس پر عمر (رض) نے آپ سے عرض کیا : آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ؟ حالانکہ وہ زنا کرچکی ہے، تو آپ نے فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ اہل مدینہ کے ستر لوگوں کے درمیان تقسیم کردی جائے تو ان سب کو کافی ہوجائے، اور اس سے بہتر توبہ اور کیا ہوگی کہ اس نے اللہ تعالیٰ (کی شریعت کے پاس و لحاظ میں) اپنی جان (تک) قربان کردی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٥ (١٦٩٦) ، سنن ابی داود/الحدود ٢٥ (٤٤٤٠، ٤٤٤١) ، سنن الترمذی/الحدود ٩ (١٤٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٩ (٢٥٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨١) ، مسند احمد ٤/٤٢٠، ٤٢٩، ٤٣٥، ٤٣٧، ٤٤٠، سنن الدارمی/الحدود ١٧ (٢٣٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1957

【142】

جو آدمی وصیت کرنے میں ظلم سے کام لے (یعنی جائز حق سے زیادہ کی وصیت کرے) اس کی نماز جنازہ

عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کردیئے، اس کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی مال (مال و اسباب) نہ تھا، یہ بات نبی اکرم ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ اس سے ناراض ہوئے، اور فرمایا : میں نے ارادہ کیا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھوں ، پھر آپ نے اس کے غلاموں کو بلایا، اور ان کے تین حصے کیے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور دو کو آزاد کردیا، اور چار کو رہنے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٨١٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الأیمان ١١ (١٦٦٨) ، سنن ابی داود/العتق ١٠ (٣٩٥٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٧ (١٣٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٠ (٢٣٤٥) ، مسند احمد ٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٣٨، ٤٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1958

【143】

جس کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہو اس پر نماز پڑھنا

زید بن خالد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص خیبر میں مرگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، اس نے اللہ کی راہ میں چوری کی ہے ، تو (جب) ہم نے اس کے اسباب کی تلاشی لی تو ہمیں اس میں یہود کے نگینوں میں سے کچھ نگینے ملے، جو دو درہم کے برابر بھی نہیں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجھاد ١٤٣ (٢٧١٠) ، سنن ابن ماجہ/الجھاد ٣٤ (٢٨٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٦٧) ، موطا امام مالک/الجھاد ١٣ (٢٣) ، مسند احمد ٤/١١٤ و ٥/١٩٢ (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو عمرہ “ لین الحدیث ہیں، اور موطا میں یہ سند سے ساقط ہیں، کما حررہ ابن عبدالبر ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1959

【144】

مقروض شخص کی جنازہ کی نماز

ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس انصار کا ایک شخص لایا گیا تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ دیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھتا) کیونکہ اس پر قرض ہے ، ابوقتادہ (رض) نے کہا : یہ میرے ذمہ ہے، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : تم اس کی ادائیگی کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں میں اس کی ادائیگی کروں گا، تب آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٩ (١٠٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الکفالة ٩ (٢٤٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٣) ، مسند احمد ٥/٣٠١، ٣٠٢، ٣١١، سنن الدارمی/البیوع ٥٣ (٢٦٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1960

【145】

مقروض شخص کی جنازہ کی نماز

سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے کہا : اللہ کے نبی ! اس کی نماز جنازہ پڑھ دیجئیے، آپ نے پوچھا : کیا اس نے اپنے اوپر کچھ قرض چھوڑا ہے ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں، آپ نے پوچھا : کیا اس نے اس کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز چھوڑی ہے ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ، تو ابوقتادہ نامی ایک انصاری نے عرض کیا : آپ اس کی نماز (جنازہ) پڑھ دیجئیے، اس کا قرض میرے ذمہ ہے، تو آپ ﷺ نے اس کی نماز (جنازہ) پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحوالة ٣ (٢٢٨٩) ، والکفالة ٣ (٢٢٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٤٧) ، مسند احمد ٤/٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1961

【146】

مقروض شخص کی جنازہ کی نماز

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مقروض آدمی کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے، چناچہ ایک جنازہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے پوچھا : کیا اس پر قرض ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : ہاں، اس پر دو دینار (کا قرض) ہے، آپ نے فرمایا : تم لوگ اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو ، ابوقتادہ (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں دینار میرے ذمہ ہیں، تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتح و نصرت عطا کی، تو آپ نے فرمایا : میں ہر مومن پر اس کی جان سے زیادہ حق رکھتا ہوں، جو قرض چھوڑ کر مرے (اس کی ادائیگی) مجھ پر ہے، اور جو مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخراج ١٥ (٢٩٥٤) ، البیوع ٩ (٣٣٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٣١٥٨) ، مسند احمد ٣/٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1962

【147】

مقروض شخص کی جنازہ کی نماز

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن مرتا اور اس پر قرض ہوتا ہے تو رسول اللہ ﷺ پوچھتے : کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟ اگر لوگ کہتے : جی ہاں، تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے : نہیں، تو آپ کہتے : تم اپنے ساتھی پر نماز (جنازہ) پڑھ لو ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر فتح و نصرت کا دروازہ کھولا، تو آپ نے فرمایا : میں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں، تو جو وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو (اس کی ادائیگی) مجھ پر ہے، اور اگر کوئی مال چھوڑ کر گیا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الکفالة ٥ (٢٢٩٨) ، والنفقات ١٥ (٢٣٩٨) ، صحیح مسلم/الفرائض ٤ (١٦١٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٩ (١٠٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١٣ (٢٤١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٥٧، ١٥٣١٥) ، مسند احمد ٢/٢٩٠، ٤٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1963

【148】

جو شخص خود کو ہلاک کرے اس کی نماز جنازہ سے متعلق احادیث

ابن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے تیر کی انی سے خودکشی کرلی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہا میں تو میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٢١٥٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥١ (٣١٨٥) مطولاً ، سنن الترمذی/الجنائز ٦٨ (١٠٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣١ (١٥٢٦) ، مسند احمد ٥/٨٧، ٩٠، ٩١، ٩٢، ٩٤، ٩٦، ٩٧، ١٠٠، ١٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1964

【149】

جو شخص خود کو ہلاک کرے اس کی نماز جنازہ سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے آپ کو کسی پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے، تو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش اپنے آپ کو اوپر سے نیچے گراتا رہے گا، اور جو زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالے تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں رہے گا اسے وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں پیتا رہے گا، اور جو شخص کسی دھار دار چیز سے اپنے آپ کو مار ڈالے (راوی کہتے ہیں : پھر کوئی چیز میرے سننے سے رہ گئی ١ ؎، خالد کہہ رہے تھے :) تو اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا اسے وہ جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں برابر گھونپتا رہے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطب ٥٦ (٥٧٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤٧ (١٠٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ١١ (٣٨٧٢) ، سنن الترمذی/الطب ٧ (١٠٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الطب ١١ (١٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩٤) ، مسند احمد ٢/٢٥٤، ٢٧٨، ٤٨٨، سنن الدارمی/الدیات ١٠ (٢٤٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ متن حدیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ خالد سے روایت کرنے والے راوی کا کلام ہے یعنی خالد کہہ رہے تھے کہ من قتل نفسہ بحدید ۃ کے بعد کوئی لفظ رہ گیا ہے جسے میں سن نہیں سکا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1965

【150】

منافقین پر نماز نہ پڑھنے سے متعلق

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ بلائے گئے، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، جب رسول اللہ ﷺ (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کی طرف بڑھا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ابن ابی پر نماز جنازہ پڑھیں گے ؟ حالانکہ فلاں دن وہ ایسا ایسا کہہ رہا تھا، میں اس کی تمام باتیں آپ پر گنانے لگا، تو آپ مسکرائے، اور فرمایا : اے عمر ! ان باتوں کو جانے دو ۔ جب میں نے کافی اصرار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اختیار ہے (نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں) تو میں نے پڑھنا پسند کیا، اگر میں یہ جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت چاہنے پر اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں اس سے زیادہ مغفرت کرتا ١ ؎ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر لوٹے اور ابھی ذرا سا دم ہی لیا تھا کہ سورة برأت کی دونوں آیتیں نازل ہوئیں : ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم کفروا باللہ ورسوله وماتوا وهم فاسقون جب یہ مرجائیں تو تم ان میں سے کسی پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پہ کھڑے ہو، اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے، اور گنہگار ہو کر مرے ہیں ، بعد میں مجھے رسول اللہ ﷺ کے خلاف اپنی اس دن کی اس جرات پر حیرت ہوئی، اور اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں کہ یہ جرات میں نے کیوں کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٤ (١٣٦٦) ، و تفسیر التوبة ١٢ (٤٦٧١) ، سنن الترمذی/الجنائز/تفسیر التوبة (٣٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٩) ، مسند احمد ١/١٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ستر بار سے زیادہ اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1966

【151】

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء (رض) کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٤ (٩٧٣) مطولاً ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٤ (٣١٨٩) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٤ (١٠٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٩ (١٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٧٥) ، موطا امام مالک/الجنائز ٨ (٢٢) ، مسند احمد ٦/٧٨، ١٣٣، ١٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مسجد میں جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اگرچہ آپ کا معمول مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1967

【152】

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء ١ ؎ کی نماز جنازہ مسجد کے صحن ہی میں پڑھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام سہل، سہیل اور صفوان تھے اور ان کی ماں کا نام رعد تھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1968

【153】

رات میں نماز جنازہ ادا کرنا

ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ عوالی مدینہ کی ایک غریب عورت ١ ؎ بیمار پڑگئی، نبی اکرم ﷺ اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھتے رہتے تھے، اور کہہ رکھا تھا کہ اگر یہ مرجائے تو اسے دفن مت کرنا جب تک کہ میں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھ لوں ، چناچہ وہ مرگئی، تو لوگ اسے عشاء کے بعد مدینہ لے کر آئے، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سویا ہوا پایا، تو آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا، چناچہ ان لوگوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی، اور اسے لے جا کر مقبرہ بقیع میں دفن کردیا، جب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی تو لوگ آپ کے پاس آئے، آپ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ تو دفنائی جا چکی، (رات) ہم آپ کے پاس آئے (بھی) تھے، (لیکن) ہم نے آپ کو سویا ہوا پایا، تو آپ کو جگانا نامناسب سمجھا، آپ نے فرمایا : چلو ! (اور) خود بھی چل پڑے، اور لوگ بھی آپ کے ساتھ گئے یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ کو اس کی قبر دکھائی، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھا، آپ نے اس کی نماز (جنازہ) پڑھائی اور (اس میں) چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس عورت کا نام ام محجن تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1969

【154】

جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی کی موت ہوگئی ہے، تو تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو ، (پھر) آپ نے ہماری صف بندی کی جیسے جنازہ پر صف بندی کی جاتی ہے، اور ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٣ (١٣١٧) ، ٥٤ (١٣٢٠) ، ٦٤ (١٣٣٤) ، ومناقب الأنصار ٣٨ (٣٨٧٧) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٥٠) ، مسند احمد ٣/٢٩٥، ٣١٩، ٣٦٩، ٤٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1970

【155】

جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ مرے، پھر آپ لوگوں کو لے کر صلاۃ گاہ کی طرف نکلے، اور ان کی صف بندی کی، (پھر) آپ نے ان کی نماز (جنازہ) پڑھائی، اور چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤ (١٢٤٥) ، ٥٤ (١٣١٨) ، ٦٠ (١٣٢٨) ، ٦٤ (١٣٣٤) ، والمناقب ٣٨ (٣٨٨٠- ٣٨٨١) صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٦٢ (٣٢٠٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٧ (١٠٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٢) ، موطا امام مالک/الجنائز ٥ (١٤) ، مسند احمد ٢/٢٨١، ٢٨٩، ٤٣٨، ٤٣٩، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٩٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1971

【156】

جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اپنے صحابہ کو نجاشی کی موت کی خبر دی، تو انہوں نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، آپ نے ان کی نماز (جنازہ) پڑھائی، اور چار تکبیریں کہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابن مسیب کا نام جیسا میں سننا چاہتا تھا نہیں سن سکا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٤ (١٣١٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٧ (١٠٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٧، ١٥٢٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1972

【157】

جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : تمہارے بھائی (نجاشی) مرگئے ہیں تو تم لوگ اٹھو، اور ان کی نماز جنازہ پڑھو تو ہم نے ان پر دو صفیں باندھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر صحیح مسلم/الجنائز ٢٢ (٩٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٠) ، مسند احمد ٣/٣٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1973

【158】

جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی نماز (جنازہ) پڑھی تھی میں دوسری صف میں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٤ (١٣٢٠) تعلیقاً ، (تحفة الأشراف : ٢٧٧٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1974

【159】

جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق

عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا : تمہارے بھائی نجاشی انتقال کر گئے ہیں تو تم اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو ، تو ہم کھڑے ہوئے (اور) ہم نے ان پر اسی طرح صف بندی کی جس طرح میت پر کی جاتی ہے، اور ہم نے ان کی نماز (جنازہ) اسی طرح پڑھی جس طرح میت کی پڑھی جاتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر سنن الترمذی/الجنائز ٤٨ (١٠٣٩) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٣ (١٥٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٨٩) ، مسند احمد ٤/٤٣٩، ٤٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1975

【160】

جنازہ پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا

سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام کعب رضی اللہ عنہا کی نماز (جنازہ) پڑھی، جو اپنی زچگی میں مرگئیں تھیں، تو رسول اللہ ﷺ نماز میں ان کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1976

【161】

لڑکے اور عورت کے جنازہ کو ایک ساتھ رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنے کا بیان

عمار رضی الله عنہ کہتے ہیں ایک بچہ اور ایک عورت کا جنازہ آیا، تو بچہ لوگوں سے متصل رکھا گیا، اور عورت اس کے پیچھے (قبلہ کی طرف) رکھی گئی، پھر ان دونوں کی نماز جنازہ پڑھی گئی، لوگوں میں ابو سعید خدری، ابن عباس، ابوقتادہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم (بھی) تھے، تو میں نے ان (لوگوں) سے اس کے متعلق سوال کیا، تو سبھوں نے کہا : یہی سنت (نبی کا طریقہ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٥٦ (٣١٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1977

【162】

خواتین اور مردوں کے جنازہ کو ایک جگہ رکھنا

نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے نو جنازوں کی ایک ساتھ نماز پڑھی، تو مرد امام سے قریب رکھے گئے، اور عورتیں قبلہ سے قریب، ان سب عورتوں کی ایک صف بنائی، اور علی (رض) کی بیٹی اور عمر بن خطاب (رض) کی بیوی ام کلثوم، اور ان کے بیٹے زید دونوں کا جنازہ ایک ساتھ رکھا گیا، امام اس دن سعید بن العاص تھے، اور لوگوں میں ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم (بھی موجود) تھے، بچہ امام سے قریب رکھا گیا، تو ایک شخص نے کہا : مجھے یہ چیز ناگوار لگی، تو میں نے ابن عباس، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابوقتادہ (رضی اللہ عنہم) کی طرف (حیرت سے) دیکھا، اور پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یہی سنت (نبی کا طریقہ) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، وانظر الحدیث الذي قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1978

【163】

خواتین اور مردوں کے جنازہ کو ایک جگہ رکھنا

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں کی ماں کی نماز جنازہ پڑھی جو اپنی زچگی میں مرگئیں تھیں، تو آپ ان کے بیچ میں یعنی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1979

【164】

جنازہ پر کس قدر تکبیریں پڑھنا چاہیے

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نجاشی کی موت کی خبر دی، اور آپ ان کے ساتھ نکلے تو ان کی صف بندی کی، (اور) چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1980

【165】

جنازہ پر کس قدر تکبیریں پڑھنا چاہیے

ابوامامہ بن سہل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عوالی والوں ١ ؎ میں سے ایک عورت بیمار ہوئی، اور نبی اکرم ﷺ بیمار کی بیمار پرسی سب سے زیادہ کرتے تھے، تو آپ نے فرمایا : جب یہ مرجائے تو مجھے خبر کرنا تو وہ رات میں مرگئی، اور لوگوں نے اسے دفنا دیا اور نبی اکرم ﷺ کو خبر نہیں کیا، جب آپ نے صبح کی تو اس کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو بیدار کرنا مناسب نہیں سمجھا، آپ اس کی قبر پر آئے، اور اس پر نماز جنازہ پڑھی اور (اس میں) چار تکبیریں کہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عوالی مدینہ سے جنوب میں بلندی پر واقع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1981

【166】

جنازہ پر کس قدر تکبیریں پڑھنا چاہیے

ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ زید بن ارقم (رض) نے ایک میت کی نماز جنازہ پڑھائی تو (اس میں) پانچ تکبیریں کہیں، اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے بھی اتنی ہی تکبیریں کہیں تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٦١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٨ (٣١٩٧) ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٧ (١٠٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٥ (١٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧١) ، مسند احمد ٤/٣٦٧، ٣٦٨، ٣٧٠، ٣٧١، ٣٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1982

【167】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ ایک جنازے کی نماز میں کہہ رہے تھے : اللہم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وقه عذاب القبر و عذاب النار اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم کر، اسے معاف کر دے، اسے عافیت دے، اس کی (بہترین) مہمان نوازی فرما، اس کی (قبر) کشادہ کر دے، اسے پانی برف اور اولے سے دھو دے، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اس کو بدلے میں اس کے گھر سے اچھا گھر، اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے، اور اس کی بیوی سے اچھی بیوی عطا کر، اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا ۔ عوف (رض) کہتے ہیں کہ اس میت کے لیے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا (سن کر) میں نے آرزو کی : کاش ! اس کی جگہ میں ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1983

【168】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک میت پر صلاۃ پڑھتے سنا، تو میں نے سنا کہ آپ اس کے لیے دعا میں یہ کہہ رہے تھے : اللہم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وأدخله الجنة ونجه من النار - أو قال - وأعذه من عذاب القبر‏ اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم کر، اسے عافیت دے، اسے معاف کر دے، اس کی (بہترین) مہمان نوازی فرما، اس کی (قبر) کشادہ کر دے، اسے پانی، برف اور اولے سے دھو دے، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اس کو بدلے میں اس کے گھر سے اچھا گھر، اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے، اور اس کی بیوی سے اچھی بیوی عطا کر، اور اسے جنت میں داخل کر، اور جہنم کے عذاب سے نجات دے، یا فرمایا اسے عذاب قبر سے بچا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1984

【169】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

عبید بن خالد سلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان بھائی چارہ کرایا، ان میں سے ایک قتل کردیا گیا، اور دوسرا (بھی) اس کے بعد مرگیا، ہم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، تو نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : تم لوگوں نے کیا دعا کی ؟ ، تو ان لوگوں نے کہا : ہم نے اس کے لیے یہ دعا کی : اللہم اغفر له اللہم ارحمه اللہم ألحقه بصاحبه اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ اس پر رحم فرما، اے اللہ ! اسے اپنے ساتھی سے ملا دے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کی صلاۃ اس کی صلاۃ کے بعد کہاں جائے گی ؟ اور اس کا عمل اس کے عمل کے بعد کہاں جائے گا ؟ ان دونوں کے درمیان وہی دوری ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے ۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں : مجھے خوشی ہوئی کیونکہ عبداللہ بن ربیعہ سلمی (رض) نے (اس حدیث کو) میرے لیے مسند کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجھاد ٢٩ (٢٥٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٢) ، مسند احمد ٣/٥٠٠، ٤/٤١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1985

【170】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

ابوابراہیم انصاری اشہلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو میت پر نماز جنازہ میں کہتے سنا : اللہم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وذکرنا وأنثانا وصغيرنا وكبيرنا اے اللہ ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے حاضر اور غائب، ہمارے نر اور مادہ، ہمارے چھوٹے اور بڑے سب کو بخش دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٣٨ (١٠٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٣ (١٤٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٧) ، مسند احمد ٤/١٧٠، ٥/٤١٢ (صحیح) (حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : أحکام الجنائز للألبانی : ١٥٧ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1986

【171】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورة فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھی، اور جہر کیا یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا : (یہ کیا ؟ ) تو انہوں نے کہا : (یہی) سنت (نبی کا طریقہ) ہے، اور (یہی) حق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٥ (١٣٣٥) مختصراً ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٩ (٣١٩٨) مختصراً ، سنن الترمذی/الجنائز ٣٩ (١٠١٦) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1987

【172】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

طلحہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کے پیچھے ایک جنازے کی نماز پڑھی، تو میں نے انہیں سورة فاتحہ پڑھتے سنا، تو جب وہ سلام پھیر چکے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا، اور پوچھا : آپ (نماز جنازہ میں) قرآن پڑھتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں، (یہی) حق اور سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1988

【173】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

ابوامامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورة فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں، اور آخر میں سلام پھیرا جائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوامامہ یہ کنیت سے مشہور ہیں، ان کا نام اسعد یا سعد ہے، ابن سعد بن حنیف الانصاری، ان کا شمار صحابہ مںْ ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھنے کا شرف حاصل کیا ہے، لیکن آپ سے احادیث نہیں سنی ہیں، اس لیے یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے، اور یہ قابل استناد ہے، اس لیے کہ صحابی نے صحابی سے سنا ہے، اور دوسرے صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، بیچ کا واسطہ ثقہ راوی یعنی صحابی ہے، اس لیے کوئی حرج نہیں، دوسرے طرق میں واسطہ کا ذکر ثابت ہے، جیسا کہ آگے کی حدیث میں یہ روایت ضحاک بن قیس رضی الله عنہ سے آرہی ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : أحکام الجنائز للألبانی : فقرہ نمبر ٧٤ ، حدیث نمبر ٥ ) امام زہری نے اس حدیث کی روایت ابوامامہ سے کی جس کی تصحیح أئمہ نے کی ہے امام طحاوی نے اس حدیث کی تخریج میں یہ اضافہ کیا ہے کہ زہری نے محمد بن سوید فہری سے ابوامامہ کی اس حدیث کا تذکرہ کیا، تو اس پر ابن سوید نے کہا کہ میں نے اسے ضحاک بن قیس رضی الله عنہ سے سنا ہے، جسے وہ حبیب بن مسلمہ سے نماز جنازہ کے بارے روایت کرتے ہیں، اور یہ اسی حدیث کی طرح ہے جسے ابوامامہ نے تم سے روایت کی ہے۔ (طحاوی ١ /٢٨٨) آگے صحیح سند سے نسائی نے اسے مرفوعاً ضحاک سے روایت کی ہے، اور طحاوی کے یہاں ضحاک نے اسے حبیب بن مسلمہ سے روایت کی ہے، واضح رہے کہ یہ دونوں کمسن صحابہ میں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1989

【174】

دعاء جنازہ کے بیان سے متعلق

ضحاک بن قیس دمشقی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٩٧٤) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1990

【175】

جس کسی پر ایک سو آدمی نماز ادا کریں

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس میت پر بھی مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھے (جن کی تعداد) سو تک پہنچتی ہو، (اور) وہ (اللہ کے پاس) شفاعت (سفارش) کریں تو اس کے حق میں (ان کی) شفاعت قبول کی جائے گی ۔ سلام کہتے ہیں : میں نے اس حدیث کو شعیب بن حبحاب سے بیان کیا تو انہوں نے کہا : مجھ سے اسے انس بن مالک (رض) نے بیان کیا ہے، وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ١٨ (٩٤٧) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٠ (١٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩١٨، ١٦٢٩١) ، مسند احمد ٣/٢٦٦، ٦/٣٢، ٤٠، ٩٧، ٢٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1991

【176】

جس کسی پر ایک سو آدمی نماز ادا کریں

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں میں سے جو بھی اس طرح مرتا ہو کہ لوگوں کی ایک ایسی جماعت اس کی نماز جنازہ پڑھتی ہو، جو سو تک پہنچ جاتی ہو، تو وہ شفاعت کرتے ہیں، تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1992

【177】

جس کسی پر ایک سو آدمی نماز ادا کریں

ابوبکار حکم بن فروخ کہتے ہیں ہمیں ابوملیح نے ایک جنازے کی نماز پڑھائی تو ہم نے سمجھا کہ وہ تکبیر (تکبیر اولیٰ ) کہہ چکے (پھر کیا دیکھتا ہوں کہ) وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہا : تم اپنی صفیں درست کرو تاکہ تمہاری سفارش کارگر ہو۔ ابوملیح کہتے ہیں : مجھ سے عبداللہ بن سلیط نے بیان کیا، انہوں نے امہات المؤمنین میں سے ایک سے روایت کی، اور وہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا ہیں، وہ کہتی ہیں : مجھے نبی اکرم ﷺ نے خبر دی، آپ نے فرمایا : جس میت کی بھی لوگوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھتی ہے تو اس کے حق میں (ان کی) شفاعت قبول کرلی جاتی ہے ، تو میں نے ابوملیح سے جماعت (کی تعداد) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : چالیس افراد پر مشتمل گروہ امت (جماعت) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٩) ، مسند احمد ٦/٣٣١، ٣٣٤ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1993

【178】

جو کوئی نماز جنازہ ادا کرے تو اس کو کیا ثواب ہوگا؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی کی نماز جنازہ پڑھی، تو اسے ایک قیراط ملے گا، اور جس نے اسے قبر میں رکھے جانے تک انتظار کیا، تو اسے دو قیراط ملے گا، اور دو قیراط دو بڑے پہاڑوں کے مثل ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٥ (٤٧) ، والجنائز ٥٨ (١٣٢٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٥ (٣١٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٤ (١٥٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦٦) ، مسند احمد ٢/٢٣٣، ٢٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1994

【179】

جو کوئی نماز جنازہ ادا کرے تو اس کو کیا ثواب ہوگا؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جنازے میں شریک رہے یہاں تک کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا، اور جو دفنائے جانے تک رہے تو اسے دو قیراط ملے گا ، پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! یہ دو قیراط کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ دو بڑے پہاڑوں کے برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٥٨ (١٣٢٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٧ (٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٥٨) ، مسند احمد ٢/٤٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1995

【180】

جو کوئی نماز جنازہ ادا کرے تو اس کو کیا ثواب ہوگا؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص طلب ثواب کے لیے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے، اور اس کی نماز جنازہ پڑھے، اور اسے دفنائے تو اس کے لیے دو قیراط (کا ثواب) ہے، اور جو (صرف) نماز جنازہ پڑھے اور دفنانے جانے سے پہلے لوٹ آئے، تو وہ ایک قیراط (ثواب) لے کر لوٹتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٥ (٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٤٨١) ، مسند احمد ٢/٤٣٠، ٤٩٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1996

【181】

جو کوئی نماز جنازہ ادا کرے تو اس کو کیا ثواب ہوگا؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کسی جنازے کے ساتھ جائے (اور) اس پر نماز جنازہ پڑھے پھر لوٹ آئے، تو اسے ایک قیراط کا ثواب ہے، اور جو (جنازہ میں) شریک ہو، (اور) اس پر نماز جنازہ پڑھے پھر بیٹھا رہے یہاں تک کہ اسے دفنا کر فارغ ہو لیا جائے، تو اس کا اجر دو قیراط ہے، ان میں سے ہر ایک قیراط احد (پہاڑ) سے زیادہ بڑا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٥٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1997

【182】

جنازہ رکھنے سے قبل بیٹھنا کیسا ہے؟

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ، اور جو اس کے ساتھ جائے وہ بھی کھڑا رہے یہاں تک کہ اسے رکھ دیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1998

【183】

جنازہ کے واسطے کھڑے ہونے سے متعلق

علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے جنازے کے لیے جب تک رکھ نہ دیا جائے کھڑے رہنے کا ذکر کیا گیا، تو علی (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ (پہلے) کھڑے رہتے تھے پھر بیٹھنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٥ (٩٦٢) ، سنن ابی داود/الجنائز ٤٧ (٣١٧٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٢ (١٠٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٥ (١٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٦) ، موطا امام مالک/الجنائز ١١ (٣٣) ، حصحیح مسلم/٨٢، ٨٣، ١٣١، ١٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 1999

【184】

جنازہ کے واسطے کھڑے ہونے سے متعلق

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے دیکھا آپ کھڑے ہوئے تو ہم (بھی) کھڑے ہوئے، اور بیٹھتے دیکھا تو ہم (بھی) بیٹھنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2000

【185】

جنازہ کے واسطے کھڑے ہونے سے متعلق

براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو وہ تیار نہیں ہوئی تھی، چناچہ آپ بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے، گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٨ (٣٢١١، ٣٢١٢) ، والسنة ٢٧ (٤٧٥٣، ٤٧٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٧ (١٥٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٨) ، مسند احمد ٤/٢٨٧، ٢٨٨، ٢٩٧، ٢٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2001

【186】

شہید کو خون میں لت پت دفن کرنا

عبداللہ بن ثعلبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے احد کے بارے میں فرمایا : انہیں ان کے خون کے ساتھ کپڑوں میں لپیٹ دو کیونکہ جو بھی زخم اللہ کی راہ میں لگا ہوگا وہ قیامت کے روز بہتا ہوا آئے گا، اس کا رنگ خون کا رنگ ہوگا، اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٢١٠) ، مسند احمد ٥/٤٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2002

【187】

شہید کو کس جگہ دفن کیا جائے؟

عبیداللہ بن معیہ نامی ایک شخص کہتے ہیں کہ غزوہ طائف کے دن دو مسلمان مارے گئے، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اٹھا کر لائے گئے، تو آپ نے انہیں (اسی جگہ) دفنانے کا حکم دیا جہاں وہ مارے گئے تھے۔ اس حدیث کے راوی ابن معیہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٧٤١) (ضعیف الإسناد) (ابن معیّة تابعی ہیں اس لیے یہ روایت مرسل ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2003

【188】

شہید کو کس جگہ دفن کیا جائے؟

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ احد کے مقتولین کے بارے حکم دیا کہ انہیں ان کے پچھاڑے جانے کی جگ ہوں پر لوٹا دیا جائے، حالانکہ وہ مدینہ لے آئے گئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٢ (٣١٦٥) ، سنن الترمذی/الجھاد ٣٧ (١٧١٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٢٨ (١٥١٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١١٧) ، مسند احمد ٣/٢٩٧، ٣٠٣، ٣٠٨، ٣٩٧، سنن الدارمی/المقدمة ٧ (٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2004

【189】

شہید کو کس جگہ دفن کیا جائے؟

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مقتولین کو ان کے گرنے کی جگ ہوں میں دفن کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ مارے گئے ہیں اور جس جگہ ان کی لاش گری تھی وہیں دفن کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2005

【190】

مشرک کی تدفین سے متعلق

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : آپ کے بوڑھے گم کردہ راہ چچا (ابوطالب) مرگئے ہیں، انہیں کون دفن کرے ؟ آپ نے فرمایا : تم جاؤ اور اپنے باپ کو دفن کر دو اور کوئی نئی چیز نہ کرنا جب تک میرے پاس لوٹ نہ آنا ، چناچہ میں انہیں دفن کر آیا، تو آپ نے میرے لیے (نہانے کا) حکم دیا، میں نے غسل کیا، اور آپ نے مجھے دعا دی۔ راوی ناجیہ بن کعب کہتے ہیں : اور علی (رض) نے ایک ایسی دعا کا ذکر کیا جسے میں یاد نہیں رکھ سکا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2006

【191】

بغلی اور صندوقی قبر سے متعلق

سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میرے لیے بغلی قبر کھودنا، اور (اینٹیں) کھڑی کرنا جیسے رسول اللہ ﷺ کے لیے کی گئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، صحیح مسلم/الجنائز ٢٩ (٩٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٩ (١٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢٦) ، مسند احمد ١/١٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2007

【192】

بغلی اور صندوقی قبر سے متعلق

عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ سعد (رض) کی جب وفات ہونے لگی تو انہوں نے کہا : میرے لیے بغلی قبر کھدوانا، اور اینٹیں کھڑی کرنا جیسے رسول اللہ ﷺ (علیہ السلام) کے لیے کی گئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تحفة الأشراف : ٣٨٦٧، حم ١/١٦٩، ١٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2008

【193】

بغلی اور صندوقی قبر سے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بغلی قبر ہم (مسلمانوں) کے لیے ہے، اور صندوقی قبر دوسروں کے لیے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٦٥ (٣٢٠٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٣ (١٠٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٩ (١٥٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اہل کتاب کے لیے ہے، مقصود یہ ہے کہ بغلی قبر افضل ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ اللحد لنا کا مطلب اللحد لي ہے، یعنی بغلی قبر میرے لیے ہے، جمع کا صیغہ تعظیم کے لیے ہے، یا اللحدلنا کا مطلب اللحد اختیارنا ہے، یعنی بغلی قبر ہماری پسندیدہ قبر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کی صندوقی مسلمانوں کے لیے ہے، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں مدینہ میں قبر کھودنے والے دو شخص تھے ایک بغلی بنانے والا دوسرا شخص صندوقی بنانے والا، اگر صندوقی ناجائز ہوتی تو انہیں اس سے روک دیا جاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2009

【194】

قبر گہری کھودنا بہتر ہے

ہشام بن عامر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (غزوہ) احد کے دن رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہر ایک آدمی کے لیے (الگ الگ) قبر کھودنا ہمارے لیے دشوار ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : کھودو اور گہرا کھودو اچھی طرح کھودو، اور دو دو تین تین (افراد) کو ایک ہی قبر میں دفن کر دو ، تو لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! پہلے ہم کسے رکھیں ؟ آپ نے فرمایا : پہلے انہیں رکھو جنہیں قرآن زیادہ یاد ہو ۔ ہشام (رض) کہتے ہیں : ایک ہی قبر میں رکھے جانے والے تین افراد میں سے میرے والد تیسرے فرد تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧١ (٣٢١٥، ٣٢١٦، ٣٢١٧) ، سنن الترمذی/الجھاد ٣٣ (١٧١٣) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤١ (١٥٦٠) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١١٧٣١) ، مسند احمد ٤/١٩، ٢٠، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٠١٣، ٢٠١٧-٢٠٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2010

【195】

قبر کو کشادہ رکھنا مستحب ہے

ہشام بن عامر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس دن احد کی لڑائی ہوئی تو جن مسلمانوں کو مارا جانا تھا مارے گئے، اور جسے زخمی ہونا تھا زخمی ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قبریں) کھودو اور چوڑی کھودو، اور ایک ہی قبر میں دو دو تین تین لوگوں کو دفنا دو ، اور جنہیں قرآن زیادہ یاد ہو انہیں (قبر میں) پہلے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2011

【196】

قبر میں ایک کپڑا بچھانے سے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت دفنائے گئے آپ کے نیچے ایک سرخ چادر رکھی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٠ (٩٦٧) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٥ (١٠٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٦) ، مسند احمد ١/٢٢٨، ٣٥٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مشہور یہ ہے کہ اسے نبی اکرم ﷺ کے بعض غلاموں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو بتائے بغیر بچھایا تھا، ابن سعد نے طبقات ( ٢ /٢٩٩) میں وکیع کا قول نقل کیا ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے لیے خاص ہے، اور حسن بصری سے ایک روایت ہے کہ زمین گیلی تھی اس لیے ایک سرخ چادر بچھائی گئی جسے آپ اوڑھتے تھے، اور حسن بصری ہی سے ایک دوسری روایت ہے جس میں ہے قال رسول اللہ ﷺ افرشوا لي قطیفتي في لحدي، فإن الأرض لم تسلط علی أجساد الأنبیائ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2012

【197】

جن اوقات میں میت کی تدفین ممنوع ہے

عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھنے (اور) اپنے مردوں کو قبر میں دفنانے سے منع فرماتے تھے : ایک جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہوجائے، اور دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور (تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2013

【198】

جن اوقات میں میت کی تدفین ممنوع ہے

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نے خطاب فرمایا (آپ نے اس میں) اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جو مرگیا تھا، اسے رات ہی میں دفنا دیا گیا، اور ایک گھٹیا کفن میں کفنایا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے سختی سے منع فرما دیا کہ کوئی رات میں دفنایا جائے، سوائے اس کے کہ وہ اس کے لیے مجبور کردیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2014

【199】

چند لوگوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنا

ہشام بن عامر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب (غزوہ) احد کا دن آیا، تو لوگوں کو سخت پریشانی ہوئی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قبریں کھودو اور اسے چوڑی کھودو، اور ایک ہی قبر میں دو دو تین تین دفنا دو ، تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! پہلے کسے رکھیں ؟ آپ نے فرمایا : پہلے اسے رکھو جسے قرآن زیادہ یاد ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2015

【200】

چند لوگوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنا

ہشام بن عامر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (غزوہ) احد کے دن (لوگ) شدید زخمی ہوئے (اور جاں بحق ہوگئے) تو رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی گئی ١ ؎، آپ نے فرمایا : (قبریں) کھودو، انہیں کشادہ اور اچھی بناؤ، اور ایک (ہی) قبر میں دو دو تین تین کو دفن کرو، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہوا سے آگے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ سے اس پریشانی کا ذکر کیا گیا کہ اتنے لوگوں کے لیے قبریں کھودنا بہت مشکل امر ہے، انہیں کیسے دفنایا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2016

【201】

چند لوگوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنا

ہشام بن عامر انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قبریں) کھودو، اور انہیں خوبصورت بناؤ، اور دو دو تین تین کو دفن کرو، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو انہیں پہلے رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2017

【202】

قبر میں تدفین کے وقت کس کو آگے کیا جائے؟

ہشام بن عامر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (غزوہ) احد کے دن میرے والد قتل کئے گئے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (قبریں) کھودو اور انہیں کشادہ اور اچھی بناؤ، اور (ایک ہی) قبر میں دو دو تین تین کو دفنا دو ، اور جنہیں قرآن زیادہ یاد ہو انہیں پہلے رکھو ، چناچہ میرے والد تین میں کے تیسرے تھے، اور انہیں قرآن زیادہ یاد تھا تو وہ پہلے رکھے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2018

【203】

تدفین کے بعد مردہ کو قبر سے باہر نکالنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عبداللہ بن ابی کو قبر میں داخل کر دئیے جانے کے بعد آئے، تو آپ نے اسے (نکالنے کا) حکم دیا، چناچہ وہ نکالا گیا، آپ نے اسے اپنے دونوں گھٹنوں پر بٹھایا، اور اس پر تھو تھو کیا، اور اسے اپنی قمیص پہنائی، واللہ اعلم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس پر تھو تھو کرنے اور اسے اپنی قمیص پہنانے میں کیا مصلحت پنہا تھی اسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، بعض لوگوں نے کہا : چونکہ اس نے آپ ﷺ کے چچا عباس رضی الله عنہ کو اپنی قمیص پہنائی تھی اس لیے آپ نے بدلے میں ایسا کیا، اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے بیٹے کی دلجوئی کے لیے آپ نے ایسا کیا تھا۔ واللہ اعلم قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2019

【204】

تدفین کے بعد مردہ کو قبر سے باہر نکالنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو اس کی قبر سے نکلوایا، پھر اس کا سر اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، اور اس پر تھو تھو کیا، اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ اور اس کی نماز (جنازہ) پڑھی، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٥٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2020

【205】

مردہ کو تدفین کے بعد قبر سے نکالنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد کے ساتھ قبر میں ایک شخص اور دفن کیا گیا تھا، میرا دل خوش نہیں ہوا یہاں تک کہ میں نے اسے نکالا، اور انہیں علاحدہ دفن کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٧ (١٣٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٢٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧٩ (٣٢٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2021

【206】

قبر پر نماز پڑھنے سے متعلق احادیث

یزید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، تو آپ نے ایک نئی قبر دیکھی تو فرمایا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ فلاں قبیلے کی لونڈی (کی قبر) ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے پہچان لیا، وہ دوپہر میں مری تھی، اور آپ قیلولہ فرما رہے تھے، تو ہم نے آپ کو اس کی وجہ سے جگانا پسند نہیں کیا، تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اور اپنے پیچھے لوگوں کی صف بندی کی، اور آپ نے چار تکبیریں کہیں، پھر فرمایا : جب تک میں تمہارے درمیان ہوں جو بھی تم میں سے مرے اس کی خبر مجھے ضرور دو ، کیونکہ میری نماز اس کے لیے رحمت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٢ (١٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٢٤) ، مسند احمد ٤/٣٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2022

【207】

قبر پر نماز پڑھنے سے متعلق احادیث

عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ایسی قبر کے پاس سے گزرا، جو الگ تھلگ تھی، تو آپ نے ان کی امامت کی، اور اپنے پیچھے ان کی صف بندی کی۔ سلیمان کہتے ہیں میں نے (شعبی) پوچھا : ابوعمرو ! یہ کون تھے ؟ انہوں نے کہا : ابن عباس (رض) تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٥٧) ، والجنائز ٥، ٥٤ (١٢٤٧) ، ٥٥ (١٣١٩) ، ٥٩ (١٣٢٤) ، ٦٦ (١٣٢٦) ، ٦٩ (١٣٣٦) ، صحیح مسلم/الجنائز ٢٣ (٩٥٤) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٨ (٣١٩٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤٧ (١٠٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٢ (١٥٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٦) ، مسند احمد ١/٢٢٤، ٢٨٣، ٣٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2023

【208】

قبر پر نماز پڑھنے سے متعلق احادیث

عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے گزرے، تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اپنے پیچھے اپنے اصحاب کی صف بندی کی، پوچھا گیا : آپ سے کس نے بیان کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ابن عباس (رض) نے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2024

【209】

قبر پر نماز پڑھنے سے متعلق احادیث

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت کی قبر پر اسے دفن کر دئیے جانے کے بعد نماز جنازہ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٤٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2025

【210】

جنازہ سے فراغت کے بعد سوار ہونے سے متعلق

جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابودحداح (رض) کے جنازے میں (شرکت کے لیے) نکلے، تو جب آپ لوٹنے لگے تو (آپ کے لیے) بغیر زین کے ننگی پیٹھ والا ایک گھوڑا لایا گیا، آپ (اس پر) سوار ہوگئے، اور ہم آپ کے ہمراہ پیدل چلنے لگے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٢٨ (٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٢١٩٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٤٨ (٣١٧٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٢٩ (١٠١٣) ، مسند احمد ٥/٩٠، ١٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2026

【211】

قبر کو بلند کرنے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں یا اس پر لکھا جائے کا اضافہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٢ (٩٧٠) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٦ (٣٢٢٥) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٨ (١٠٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٣ (١٥٦٢، ١٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٧٤، ٢٧٩٦) ، مسند احمد ٣/٢٩٥، ٣٣٢، ٣٩٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی مطلق ہے، اس میں میت کا نام اور اس کی تاریخ وفات تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں، اور اسماء حسنٰی وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں اور یہ سب کچھ منع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2027

【212】

قبر پر عمارت تعمیر کرنا

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے ١ ؎ یا اس پر عمارت بنانے ٢ ؎ یا اس پر کسی کے بیٹھنے ٣ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ یہ فضول خرچی ہے اس سے کوئی فائدہ مردے کو نہیں ہوتا، دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ ٢ ؎: قبہ اور گنبد وغیرہ بنانے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ٣ ؎: یعنی قضائے حاجت کے ارادے سے بیٹھنے یا بطور سوگ بیٹھنے سے منع فرمایا، یا یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی خاطر ہے کیونکہ اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2028

【213】

قبروں پر کانچ لگانے سے متعلق

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٢ (٩٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٣ (١٥٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦٨) ، مسند احمد ٣/٣٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2029

【214】

اگر قبر اونچی ہو تو اس کو منہدم کر کے برابر کرنا کیسا ہے؟

ثمامہ بن شفی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید (رض) کے ساتھ سر زمین روم میں تھے کہ ہمارا ایک ساتھی وفات پا گیا، تو فضالہ (رض) نے اس کی قبر (زمین کے برابر کرنے کا) حکم دیا، تو وہ برابر کردی گئی ١ ؎ پھر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کے برابر کرنے کا حکم دیتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣١ (٩٦٨) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٢ (٣٢١٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٢٦) ، مسند احمد ٦/١٨، ٢١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کوہان کی طرح بنائی جانے کے بجائے مسطح بنائی گئی، گو وہ زمین سے کچھ اونچی ہو، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2030

【215】

اگر قبر اونچی ہو تو اس کو منہدم کر کے برابر کرنا کیسا ہے؟

ابوہیاج (حیان بن حصین اسدی) کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : کیا میں تمہیں اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا تھا : تم کوئی بھی اونچی قبر نہ چھوڑنا مگر اسے برابر کردینا، اور نہ کسی گھر میں کوئی مجسمہ (تصویر) چھوڑنا مگر اسے مٹا دینا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣١ (٩٦٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٢ (٣٢١٨) ، سنن الترمذی/الجنائز ٥٦ (١٠٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٣) ، مسند احمد ١/٩٦، ٩٨، ١١١، ١٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2031

【216】

زیارت قبور سے متعلق

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب تم اس کی زیارت کیا کرو ١ ؎، اور میں نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا تو اب جب تک جی چاہے رکھو، اور میں نے تمہیں مشک کے علاوہ کسی اور برتن میں نبیذ (پینے) سے منع کیا تھا، تو سارے برتنوں میں پیو (مگر) کسی نشہ آور چیز کو مت پینا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧) ، والأضاحي ٥ (١٩٧٧) ، والأشربة ٦ (٩٧٧) (مقتصرا علی الشق الثالث) ، سنن ابی داود/الأشربة ٧ (٣٦٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦ (١٨٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٤ (٣٤٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٠١) ، مسند احمد ٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٤٤٣٤، ٥٦٥٤، ٥٦٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قبروں کی زیارت کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ یہ چیز قبر پرستی اور مردوں سے مدد مانگنے اور فریاد کرنے کا ذریعہ نہ بن جائے پھر جب توحید کی تعلیم دلوں میں بیٹھ گئی، تو آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2032

【217】

زیارت قبور سے متعلق

بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے جس میں رسول اللہ ﷺ (موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع کیا تھا (تو اب تم) کھاؤ، کھلاؤ اور جب تک جی چاہے رکھ چھوڑو، اور میں نے تم سے ذکر کیا تھا کہ کدو کی تمبی، تار کول ملے ہوئے، اور لکڑی کے اور سبز اونچے گھڑے کے برتنوں میں نبیذ نہ بناؤ، (مگر اب) جس میں مناسب سمجھو بناؤ، اور ہر نشہ آور چیز سے پرہیز کرو، اور میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا (تو اب) جو بھی زیارت کرنا چاہے کرے، البتہ تم زبان سے بری بات نہ کہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2033

【218】

کافر اور مشرک کی قبر کی زیارت سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی، تو آپ خود رو پڑے اور جو آپ کے اردگرد تھے انہیں بھی رلا دیا، اور فرمایا : میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ میں ان کے لیے مغفرت طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں ملی، (تو پھر) میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت دے دی گئی، تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٦) ، سنن ابی داود/الجنائز ٨١ (٣٢٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٨ (١٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣٩) ، مسند احمد ٢/٤٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2034

【219】

اہل شرک کے لئے دعا مانگنے کی ممانعت سے متعلق

مسیب بن حزن رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، اور ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں ان کے پاس (پہلے سے موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ لا إله إلا اللہ کا کلمہ کہہ دیجئیے، میں اس کے ذریعہ آپ کے لیے اللہ عزوجل کے پاس جھگڑوں گا ، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں نے ان سے کہا : ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لو گے ؟ پھر وہ دونوں ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو عبدالمطلب نے ان سے کی وہ یہ تھی کہ (میں) عبدالمطلب کے دین پر ہوں، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا : میں آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے روک نہ دیا جائے ، تو یہ آیت اتری ١ ؎: ‏ما کان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشرکين نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں (التوبہ : ١١٣ ) نیز یہ آیت اتری : إنک لا تهدي من أحببت آپ جسے چاہیں ہدایت کے راستہ پر نہیں لاسکتے (القص : ٥٦ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٠ (١٣٦٠) ، ومناقب الأنصار ٤٠ (٣٨٨٤) ، و تفسیر التوبة ١٦ (٤٦٧٥) ، والقصص ١ (٤٧٧٢) ، والأیمان والنذور ١٩ (٦٦٨١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٩ (٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٨١) ، مسند احمد ٥/٤٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں ایک مشکل یہ ہے کہ ابوطالب کی موت ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، اور سورة برأت جس کی یہ آیت ہے ان سورتوں میں سے جو مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ آیت کا نزول آپ کے لأستغفرن لک ما لم أنه عنك کہنے کے بعد فوراً ہوا، بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ نزول کا سبب ہے فنزلت میں فاء سبب بیان کرنے کے لیے ہے نہیں کہ بلکہ تعقیب یعنی بعد میں واقع ہونے کی خبر کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2035

【220】

اہل شرک کے لئے دعا مانگنے کی ممانعت سے متعلق

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں میں نے ایک شخص کو اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو میں نے کہا : کیا تو ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے ؟ حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو اس نے کہا : کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی ؟ تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا، تو (یہ آیت) اتری : وما کان استغفار إبراهيم لأبيه إلا عن موعدة وعدها إياه ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب کرنا ایک وعدہ کی وجہ سے تھا (التوبہ : ١١٤ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر التوبة (٣١٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨١) ، مسند احمد ١/٩٩، ١٠٣ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2036

【221】

مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم

محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں : کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم ﷺ میرے پاس تھے تو آپ (عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آگئی، اور گھر میں داخل ہوگئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہوگئے، آپ نے پوچھا : عائشہ ! تجھے کیا ہوگیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں ؟ میں نے کہا : کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا : تو مجھے بتادے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتادے گی ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتادی تو آپ نے فرمایا : وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی ، میں نے عرض کیا : جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا : کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ تجھ پر ظلم کریں گے ، میں نے کہا : جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتادے گا) آپ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں ، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں) ، آپ ﷺ نے فرمایا : کہو السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے (دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٥ (٩٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٩٣) ، مسند احمد ٦/٢٢١، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٣٤١٥، ٣٤١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2037

【222】

مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ایک رات رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، اپنا کپڑا پہنا پھر (باہر) نکل گئے، تو میں نے اپنی لونڈی بریرہ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے پیچھے جائے، چناچہ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئی یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع پہنچے، تو اس کے قریب کھڑے رہے جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے کھڑا رکھنا چاہا، پھر آپ پلٹے تو بریرہ آپ سے پہلے پلٹ کر آگئی، اور اس نے مجھے بتایا، لیکن میں نے آپ سے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ صبح کیا، تو میں نے آپ کو ساری باتیں بتائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اہل بقیع کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ میں ان کے حق میں دعا کروں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦٢) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥٥) ، مسند احمد ٦/٩٢ (ضعیف الإسناد) (اس کی راویہ ” ام علقمہ مرجانہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2038

【223】

مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں جب جب رسول اللہ ﷺ کی باری ان کے یہاں ہوتی تو رات کے آخری (حصے) میں مقبرہ بقیع کی طرف نکل جاتے، (اور) کہتے : السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواکلون وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون اللہم اغفر لأهل بقيع الغرقد اے مومن گھر (قبرستان) والو ! تم پر سلامتی ہو، ہم اور تم آپس میں ایک دوسرے سے کل کی حاضری کا وعدہ کرنے والے ہیں، اور آپس میں ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے والے ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے والے ہیں، اے اللہ ! بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٥ (٩٧٤) ، مسند احمد ٦/١٨٠، (تحفة الأشراف : ١٧٣٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2039

【224】

مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم

بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قبرستان آتے تو فرماتے : ‏السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون أنتم لنا فرط ونحن لکم تبع أسأل اللہ العافية لنا ولکم اے مومن اور مسلمان گھر والو ! تم پر سلامتی ہو، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم (عنقریب) تم سے ملنے والے ہیں، تم ہمارے پیش رو ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ میں اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی درخواست کرتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٥ (٩٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٦ (١٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٠) ، مسند احمد ٥/٣٥٣، ٣٥٩) ٣٦٠، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة ٣١٨ (١٠٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2040

【225】

مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نجاشی (شاہ حبشہ) کا انتقال ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ان کی بخشش کی دعا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥١٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2041

【226】

مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں شاہ حبشہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ مرے، آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٨٠ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2042

【227】

قبور پر چراغ جلانے کی وعید سے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر، اور انہیں سجدہ گاہ بنانے اور ان پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٨٢ (٣٢٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٢ (٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٩ (١٥٧٥) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٠) ، مسند احمد ١/٢٢٩، ٢٨٧، ٣٢٤، ٧٣٧ (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو صالح باذام مولی ام ھانی “ ضعیف اور مدلس ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2043

【228】

قبور پر بیٹھنے کی برائی سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کا انگارے پر بیٹھنا یہاں تک کہ اس کے کپڑے جل جائیں اس کے لیے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنائز ٣٣ (٩٧١) ، (تحفةا الأشراف : ١٢٦٦٢) ، قد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧٧ (٣٢٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٥ (١٥٦٦) ، مسند احمد ٢/٣١١، ٣٨٩، ٤٤٤، ٥٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2044

【229】

قبور پر بیٹھنے کی برائی سے متعلق

عمرو بن حزم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ قبروں پر نہ بیٹھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٢٧) (صحیح) (اس کے راوی ” نصر سلمی “ مجہول ہیں، لیکن پچھلی روایت نیز ابو مرثد رضی الله عنہ کی روایت صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2045

【230】

قبور کو مسجد بنانے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٣) ، مسند احمد ٦/١٤٦، ٢٥٢ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2046

【231】

قبور کو مسجد بنانے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائی ہے (کیونکہ) ان لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٣١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٤ (٤٣٤) ، صحیح مسلم/المساجد ٣ (٥٢٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٦ (٣٢٢٧) ، مسند احمد ٢/٢٤٦، ٢٦٠، ٢٨٤، ٢٨٥، ٣٦٦، ٣٩٦، (بعضھم بلفظ ” قاتل “ الخ) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2047

【232】

سبتی کے بنے ہوئے جوتے قبرستان پہن کر جانے کی کراہت

بشیر بن خصاصیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : یہ لوگ بڑے شر و فساد سے (بچ) کر آگے نکل گئے ، پھر آپ مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : یہ لوگ بڑے خیر سے (محروم) ہو کر آگے نکل گئے ، پھر آپ متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص اپنی دونوں جوتیوں میں قبروں کے درمیان چل رہا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے سبتی جوتوں والو ! انہیں اتار دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجنائز ٧٨ (٣٢٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤٦ (١٥٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢١) ، مسند احمد ٥/٨٣، ٨٤، ٢٢٤ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2048

【233】

سبتی کے علاوہ دوسری قسم کے جوتوں کی اجازت

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں، تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٧ (١٣٣٨) ، ٨٦ (١٣٧٣، ١٣٧٤) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧٠) ، سنن ابی داود/الجنائز ٧٨ (٣٢٣١) ، والسنة ٢٧ (٤٧٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٠) ، حصحیح مسلم/٣/١٢٦، ٢٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مؤلف نے اس بات پر استدلال ہے کہ سبتی جوتیوں کے علاوہ دوسری جوتیاں پہن کر قبروں کے درمیان چلنا جائز ہے کیونکہ جوتیوں کی آواز اسی وقت سنی جاسکتی ہے جب انہیں پہن کر ان میں چلا جائے، واضح رہے کہ سبتی جوتیوں کے علاوہ کی قید مؤلف نے دونوں روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے لگائی ہے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سبتی جوتوں کی بات اتفاقی ہے، وہ شخص اس وقت سبتی جوتے پہنے تھا، اگر ان کے سوا کوئی اور جوتے بھی ہوتے تو آپ یہی فرماتے، اور اس حدیث میں بات بیان جواز کی ہے یا قبروں سے بچ بچ کر جوتوں میں چل سکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2049

【234】

سبتی کے علاوہ دوسری قسم کے جوتوں کی اجازت

انس بن مالک رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتیوں کی آواز سنتا ہے، (پھر) اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اور اسے بٹھاتے ہیں، (اور) اس سے پوچھتے ہیں : تم اس شخص (محمد) کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ رہا مومن تو وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، تو اس سے کہا جائے گا کہ تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تمہیں جنت میں ٹھکانا دیا ہے ، نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں : تو وہ ان دونوں (جنت و جہنم) کو ایک ساتھ دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٠) ، مسند احمد ٣/١٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2050

【235】

کافر سے قبر میں سوال وجواب

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھی لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے، (پھر) دو فرشتے آتے ہیں، (اور) اسے بٹھاتے ہیں (پھر) اس سے پوچھتے ہیں : تم اس شخص محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ رہا مومن تو وہ کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (پھر) اس سے کہا جاتا ہے تم جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کے بدلے ایک اچھا ٹھکانا دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : وہ ان دونوں (جنت و جہنم) کو ایک ساتھ دیکھتا ہے، اور رہا کافر یا منافق تو اس سے پوچھا جاتا ہے : اس شخص (محمد) کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ ، تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو اس سے کہا جائے گا : نہ تم نے خود جاننے کی کوشش کی، اور نہ جانکار لوگوں کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے بیچ ایک ایسی مار ماری جاتی ہے کہ وہ ایسے زور کی چیخ مارتا ہے جسے انسان اور جنات کے علاوہ جو بھی اس کے قریب ہوتے ہیں سبھی سنتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2051

【236】

جو شخص پیٹ کی تکلیف میں فوت ہوجائے؟

عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور (وہیں) سلیمان بن صرد اور خالد بن عرفطہٰ (رض) (بھی) موجود تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ ایک آدمی اپنے پیٹ کے عارضہ میں وفات پا گیا ہے، تو ان دونوں نے تمنا کی کہ وہ اس کے جنازے میں شریک ہوں، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : کیا رسول اللہ ﷺ نے نہیں کہا ہے کہ جو پیٹ کے عارضہ میں مرے اسے قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا ، تو دوسرے نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے ایسا فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦٥ (١٠٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٣) ، مسند احمد ٤/٢٦٢ و ٥/٢٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2052

【237】

شہید کے متعلق

ایک صحابی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا بات ہے ؟ سبھی اہل ایمان اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں، سوائے شہید کے ؟ آپ نے فرمایا : اس کے سروں پر چمکتی تلوار کی آزمائش کافی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٥٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2053

【238】

شہید کے متعلق

صفوان بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں طاعون سے مرنے والا، پیٹ کے مرض میں مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، اور زچگی کی وجہ سے مرنے والی عورت شہید ہے۔ وہ (تیمی) کہتے ہیں : ہم سے ابوعثمان نے بارہا بیان کیا، ایک مرتبہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسے مرفوع بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٨) ، مسند احمد ٣/٤٠٠، ٤٠١ و ٦/٤٦٥، ٤٦٦، سنن الدارمی/الجھاد ٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2054

【239】

قبر کے میت کو دبانے سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہی وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، (پھر بھی قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ عذاب) اس سے جاتا رہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٩٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد سعد بن معاذ رضی الله عنہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2055

【240】

قبر کے میت کو دبانے سے متعلق

براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں آیت کریمہ يثبت اللہ الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں ٹھیک بات پر قائم رکھے گا (ابراہیم : ٢٧ ) ۔ عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2056

【241】

قبر کے میت کو دبانے سے متعلق

براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آیت کریمہ يثبت اللہ الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة‏ اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت (دونوں میں) ٹھیک بات پر قائم رکھے گا ۔ عذاب قبر کے سلسلے میں اتری ہے۔ میت سے پوچھا جائے گا : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہے گا : میرا رب اللہ ہے، میرا دین محمد ﷺ کا دین ہے۔ اللہ کے قول : يثبت اللہ الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سے یہی مراد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٦ (١٣٦٩) ، و تفسیر سورة ابراھیم ٢ (٤٦٩٩) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧١) ، سنن ابی داود/السنة ٢٧ (٤٧٥٠، ٤٧٥٣) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة إبراھیم (٣١١٩) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٢ (٤٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦٢) ، مسند احمد ٤/٢٨٢، ٢٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2057

【242】

قبر کے میت کو دبانے سے متعلق

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی قبر سے ایک آواز سنی تو پوچھا : یہ کب مرا ہے ؟ لوگوں نے کہا : زمانہ جاہلیت میں مرا ہے، آپ اس بات سے خوش ہوئے، اور فرمایا : اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کو دفن کرنا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧١١) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٦٨) ، مسند احمد ٣/١٠٣، ١١١، ١١٤، ١٥٣، ١٧٥، ١٧٦، ٢٠١، ٢٧٣، ٢٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2058

【243】

قبر کے میت کو دبانے سے متعلق

ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈوبنے کے بعد نکلے، تو ایک آواز سنی، آپ نے فرمایا : یہود اپنی قبروں میں عذاب دیئے جا رہے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٧ (١٣٧٥) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٥٤) ، مسند احمد ٥/٤١٧، ٤١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2059

【244】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے : اللہم إني أعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من عذاب النار وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال اے اللہ ! میں عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں، زندگی اور موت کی آزمائش سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور مسیح دجال کی آزمائش سے (بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٤٣٥) ، صحیح البخاری/الجنائز ٨٧ (١٣٧٧) ، مسند احمد ٢/٤١٤، ویأتی عند المؤلف برقم : ٥٥٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2060

【245】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٤ (٥٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : یہودی عورت کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد آپ نے عذاب قبر سے پناہ مانگنی شروع کردی تھی، دیکھئیے حدیث رقم : ٢٠٦٦ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2061

【246】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے (اور) اس آزمائش کا ذکر کیا جس سے آدمی اپنی قبر میں دوچار ہوتا ہے، تو جب آپ نے اس کا ذکر کیا تو مسلمانوں نے ایک چیخ ماری جو میرے اور رسول اللہ ﷺ کی بات سمجھنے کے درمیان حائل ہوگئی، جب ان کی چیخ و پکار بند ہوئیں تو میں نے ایک شخص سے جو مجھ سے قریب تھا کہا : اللہ تجھے برکت دے ! رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطاب کے آخر میں کیا کہا تھا ؟ اس نے کہا : (آپ نے فرمایا تھا :) مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہاری آزمائش ہوگی جو دجال کی آزمائش کے قریب قریب ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٤ (٨٦) ، والوضوء ٣٧ (١٨٤) ، والجمعة ٢٩ (١٠٥٣) ، والکسوف ١٠ (١٠٦١) ، والجنائز ٨٦ (١٣٧٣) مختصراً ، والاعتصام ٢ (٧٢٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٢٨) ، صحیح مسلم/الکسوف ٣ (٩٠٥) ، موطا امام مالک/الکسوف ٢ (٤) ، مسند احمد ٦/٣٤٥، ٣٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2062

【247】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا انہیں اسی طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے کہو : اللہم إنا نعوذ بک من عذاب جهنم وأعوذ بک من عذاب القبر وأعوذ بک من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بک من فتنة المحيا والممات اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں جہنم کے عذاب سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں موت اور زندگی کی آزمائش سے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٥ (٥٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦٧ (١٥٤٢) ، سنن الترمذی/الدعوات ٧٧ (٣٤٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الدعاء ٣ (٣٨٤٠) ، موطا امام مالک/القرآن ٨ (٣٣) ، مسند احمد ١/٢٤٢، ٢٥٨، ٢٩٨، ٣١١، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٥١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2063

【248】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، میرے پاس ایک یہودی عورت تھی، وہ کہہ رہی تھی کہ تم لوگ قبروں میں آزمائے جاؤ گے، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ گھبرا گئے، اور فرمایا : صرف یہودیوں ہی کی آزمائش ہوگی ۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : پھر ہم کئی رات ٹھہرے رہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ پر وحی آئی ہے کہ تمہیں (بھی) قبروں میں آزمایا جائے گا ، اس کے بعد سے میں رسول اللہ ﷺ کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے سنتی رہی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٢٤ (٥٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧١٢) ، مسند احمد ٦/٨٩، ٢٣٨، ٢٤٨، ٢٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2064

【249】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ قبر کے عذاب، اور دجال کے فتنے سے پناہ طلب کرتے، اور فرماتے : تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٩٤٤) ، ویأتی برقم : ٥٥٠٦ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2065

【250】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی (اور) اس نے ان سے کوئی چیز مانگی تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے دیا تو اس نے کہا : اللہ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے ! عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو اس کی یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ آئے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے جسے چوپائے سنتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدعوات ٣٧ (٦٣٦٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٤ (٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١١) ، مسند احمد ٦/٤٤، ٢٠٥ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2066

【251】

عذاب قبر سے پناہ کے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں یہود مدینہ کی بوڑھی عورتوں میں سے دو عورتیں میرے پاس آئیں، (اور) کہنے لگیں کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، تو میں نے ان کو جھٹلا دیا اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں ان کی تصدیق کروں، وہ دونوں نکل گئیں (تبھی) رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہود مدینہ کی بوڑھیوں میں سے دو بوڑھیاں کہہ رہی تھیں کہ مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں نے سچ کہا، انہیں عذاب دیا جاتا ہے جسے سارے چوپائے سنتے ہیں ، (پھر) میں نے دیکھا آپ ہر صلاۃ کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2067

【252】

قبر پر درخت کی شاخ لگانے سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مکہ یا مدینہ کے باغات میں سے ایک باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ نے دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے ١ ؎، بلکہ ان میں سے ایک اچھی طرح اپنے پیشاب سے پاکی نہیں حاصل کرتا تھا، اور دوسرا چغل خوری ٢ ؎ کرتا تھا ، پھر آپ نے ایک ٹہنی منگوائی (اور) اس کے دو ٹکڑے کئے پھر ان میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا، تو آپ سے سوال کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو آپ نے فرمایا : شاید ان کے عذاب میں نرمی کردی جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں ۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے ما لم ييبسا أو أن ييبسا فرمایا، یا إلى أن ييبسا فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دیا جا رہا ہے کا مطلب ہے ان کے خیال میں وہ کوئی بڑا جرم نہیں ورنہ شریعت کی نظر میں تو وہ بڑا جرم تھا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کبیر سے مراد ہے کہ ان کا ترک کرنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں تھا اگر چاہتا تو آسانی سے اس گناہ سے بچ سکتا تھا۔ ٢ ؎: دو آدمیوں میں فساد ڈالنے کی نیت سے ایک بات دوسرے تک پہنچانے کا نام چغل خوری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2068

【253】

قبر پر درخت کی شاخ لگانے سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبر کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور یہ کسی بڑے جرم میں عذاب نہیں دئیے جا رہے ہیں، رہا ان میں سے ایک تو وہ اپنے پیشاب سے اچھی طرح پاکی حاصل نہیں کرتا تھا، اور رہا دوسرا تو وہ چغل خوری کرتا تھا، پھر آپ نے کھجور کی ایک ہری ٹہنی لی (اور) اسے آدھا آدھا چیر دیا، پھر ہر ایک کی قبر پہ گاڑ دیا ، تو لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا کردیا جائے جب تک یہ دونوں (ٹہنیاں) خشک نہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2069

【254】

قبر پر درخت کی شاخ لگانے سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سنو ! جب تم میں سے کوئی مرجاتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے، اگر جنتی ہے تو جنت میں کا، اور اگر جہنمی ہے تو جہنم میں کا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز اٹھائے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٩ (١٣٧٩) ، وبدء الخلق ٨ (٣٢٤٠) ، والرقاق ٤٢ (٦٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٩٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٦٦) ، سنن الترمذی/الجنائز ٧٠ (١٠٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٢ (٤٢٧٠) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٧) ، مسند احمد ٢/١٦، ٥١، ١١٣، ١٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اٹھائے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا، اور وہ اپنے اس ٹھکانے میں پہنچ جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2070

【255】

قبر پر درخت کی شاخ لگانے سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، چناچہ اگر وہ جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے (پیش کیا جائے گا) ، اور کہا جاتا ہے : یہ ہے تمہارا ٹھکانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز اٹھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨١٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2071

【256】

قبر پر درخت کی شاخ لگانے سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس کا ٹھکانا اس پر صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہے تو جنتیوں (کے ٹھکانوں) میں سے، اور اگر جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے، (اور اس سے) کہا جاتا ہے : یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل تمہیں قیامت کے روز اٹھائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٨٩ (١٣٧٩) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٦١) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٧) ، مسند احمد ٢/١١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2072

【257】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کی جان جنت کے درختوں پہ اڑتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم کی طرف بھیج دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١٣ (١٦٤١) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٤ (١٤٤٩) ، والزھد ٣٢ (٤٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٤٨) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٩) ، مسند احمد ٣/٤٥٥، ٤٥٦، ٤٦٠، ٦/٣٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2073

【258】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے کہ وہ ہم سے اہل بدر کے سلسلہ میں بیان کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (کافروں کے) مارے جانے کی جگہیں ایک دن پہلے دکھلا دیں، اور فرمایا : اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل فلاں کے پچھاڑ کھا کر گرنے کی جگہ یہاں ہوگی، اور فلاں کی یہاں ، عمر (رض) کہتے ہیں : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ! ان جگہوں میں کوئی فرق نہیں آیا، چناچہ انہیں ایک کنویں میں ڈال دیا گیا، (پھر) نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، (اور) پکارا : اے فلاں، فلاں کے بیٹے ! اے فلاں، فلاں کے بیٹے ! کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے صحیح پایا ؟ میں نے تو اللہ نے جو وعدہ مجھ سے کیا تھا اسے صحیح پایا ، اس پر عمر (رض) نے کہا : آپ ایسے جسموں سے بات کر رہے ہیں جن میں روح نہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : جو میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤١٠) ، مسند احمد ١/٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2074

【259】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے رات کو بدر کے کنویں پر رسول اللہ ﷺ کو کھڑے آواز لگاتے سنا : اے ابوجہل بن ہشام ! اے شیبہ بن ربیعہ ! اے عتبہ بن ربیعہ ! اور اے امیہ بن خلف ! کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے صحیح پایا ؟ ، میں نے تو اپنے رب کے وعدہ کو صحیح پایا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ان لوگوں کو پکارتے ہیں جو محض بدبودار لاش ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جو میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے، لیکن (فرق صرف اتنا ہے کہ) وہ جواب نہیں دے سکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧١٣) ، صحیح مسلم/الجنة ١٧ (٢٨٧٤) ، مسند احمد ٣/١٠٤، ٢٢٠، ٢٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2075

【260】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ بدر کے کنویں پہ کھڑے ہوئے (اور) فرمایا : کیا تم نے اپنے رب کے وعدہ کو صحیح پایا ؟ (پھر) آپ نے فرمایا : اس وقت جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ لوگ سن رہے ہیں ، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا گیا، تو انہوں نے کہا : ابن عمر (رض) سے بھول ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے (یوں) کہا تھا : یہ لوگ اب خوب جان رہے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ سچ تھا ، پھر انہوں نے اللہ کا قول پڑھا : إنک لا تسمع الموتى (النمل : ٨٠ ) یہاں تک کہ پوری آیت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٨ (٣٩٨٠) ، صحیح مسلم/الجنائز ٩ (٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٣) ، مسند احمد ٢/٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2076

【261】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی آدم (کے جسم کا ہر حصہ) ، (مغیرہ والی حدیث میں ہے) ابن آدم (کے جسم کے ہر حصہ کو) مٹی کھا جاتی ہے، سوائے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے، اسی سے وہ پیدا کیا گیا ہے، اور اسی سے (دوبارہ) جوڑا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر الزمر ٤ (٤٨١٤) ، و تفسیر النبأ ١ (٤٩٤٥) ، صحیح مسلم/الفتن ٢٨ (٢٩٥٥) ، سنن ابی داود/السنة ٢٤ (٤٧٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣٥، ١٣٨٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٢ (٤٢٦٦) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٨) ، مسند احمد ٢/٣١٥، ٣٢٢، ٤٢٨، ٤٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2077

【262】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ مجھے جھٹلانا اس کے لیے مناسب نہ تھا، ابن آدم نے مجھے گالی دی حالانکہ مجھے گالی دینا اس کے لیے مناسب نہ تھا، رہا اس کا مجھے جھٹلانا تو وہ اس کا (یہ) کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہیں کرسکوں گا جیسے پہلی بار کیا تھا، حالانکہ آخری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ دشوار مشکل نہیں، اور رہا اس کا مجھے گالی دینا تو وہ اس کا (یہ) کہنا ہے کہ اللہ کے بیٹا ہے، حالانکہ میں اللہ اکیلا اور بےنیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا، نہ مجھے کسی نے جنا، اور نہ کوئی میرا ہم سر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٨٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١ (٣١٩٣) ، و تفسیر سورة الصمد ١ (٤٩٧٤) ، مسند احمد ٢/٣١٧، ٣٥٠، ٣٩٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2078

【263】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا : ایک بندے نے اپنے اوپر (بڑا) ظلم کیا، یہاں تک کہ موت (کا وقت) آپ پہنچا، تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا : جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر مجھے پیس ڈالنا، کچھ ہوا میں اڑا دینا اور کچھ سمندر میں ڈال دینا، اس لیے کہ اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوا تو ایسا (سخت) عذاب دے گا کہ ویسا عذاب اپنی کسی مخلوق کو نہیں دے گا ، تو اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جس نے اس کا کچھ حصہ لیا تھا حکم دیا کہ حاضر کرو جو کچھ تم نے لیا ہے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سامنے کھڑا ہے، (تو) اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا : تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے اکسایا ؟ اس نے کہا : تیرے خوف نے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨١) ، والتوحید ٣٥ (٧٥٠٦) ، صحیح مسلم/التوبة ٥ (٢٧٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ٣٠ (٤٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٨٠) ، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٥١) ، مسند احمد ٢/٢٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2079

【264】

اہل ایمان کی روحوں سے متعلق احادیث

حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں کا ایک آدمی اپنے اعمال کے سلسلہ میں بدگمان تھا، چناچہ جب موت (کا وقت) آپ پہنچا، تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا : جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر پیس ڈالنا، پھر مجھے دریا میں اڑا دینا، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگا تو وہ مجھے بخشے گا نہیں، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا تو وہ اس کی روح کو پکڑ کر لائے، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا : تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے ابھارا ؟ اس نے کہا : اے میرے رب ! میں نے صرف تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٤ (٣٤٧٩) ، والرقاق ٢٥ (٦٤٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٢) ، مسند احمد ٥/٣٨٣، ٣٩٥، ٤٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2080

【265】

قیامت کے دن دوسری مرتبہ زندہ ہونے سے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر خطبہ دیتے سنا آپ فرما رہے تھے : تم اللہ تعالیٰ سے ننگے پاؤں، ننگے بدن (اور) غیر مختون ملو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٥ (٦٥٢٤، ٦٥٢٥) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٨٣) ، وقد أخرجہ : حم ١/٢٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2081

【266】

قیامت کے دن دوسری مرتبہ زندہ ہونے سے متعلق

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگ قیامت کے دن ننگ دھڑنگ، غیر مختون اکٹھا کیے جائیں گے، اور مخلوقات میں سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑا پہنایا جائے گا، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : كما بدأنا أول خلق نعيده جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے (الانبیاء : ١٠٤ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٨ (٣٣٤٩) ، ٤٩ (٣٤٤٧) ، تفسیر المائدة ١٣ (٤٦٢٦) ، تفسیر الأنبیاء ٢ (٤٧٤٠) ، الرقاق ٤٥ (٦٥٢٦) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٦٠) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٣ (٢٤٢٣) ، تفسیر الأنبیاء (٣١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢٢) ، مسند احمد ١/٢٢٣، ٢٢٩، ٢٣٥، ٢٥٣، سنن الدارمی/الرقاق ٨٢ (٢٨٤٤) ، ویأتي برقم : ٢٠٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2082

【267】

قیامت کے دن دوسری مرتبہ زندہ ہونے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن (اور) غیر مختون اٹھائے جائیں گے ، تو اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : لوگوں کی شرمگاہوں کا کیا حال ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس دن ہر ایک کی ایسی حالت ہوگی جو اسے (ان چیزوں سے) بےنیاز کر دے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٢٨) ، مسند احمد ٦/٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2083

【268】

قیامت کے دن دوسری مرتبہ زندہ ہونے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم لوگ (قیامت کے دن) ننگے پاؤں (اور) ننگے بدن اکٹھا کیے جاؤ گے ، میں نے پوچھا : مرد عورت سب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : معاملہ اتنا سنگین ہوگا کہ انہیں اس کی فکر نہیں ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٥ (٦٥٢٧) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ٣٣ (٤٢٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦١) ، مسند احمد ٦/٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2084

【269】

قیامت کے دن دوسری مرتبہ زندہ ہونے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ قیامت کے دن تین گروہ میں جمع کیے جائیں گے، کچھ جنت کی رغبت رکھنے والے اور جہنم سے ڈرنے والے ہوں گے ١ ؎، اور کچھ لوگ ایک اونٹ پر دو سوار ہوں گے، ایک اونٹ پر تین سوار ہوں گے، ایک اونٹ پر چار سوار ہوں گے، ایک اونٹ پر دس سوار ہوں گے، اور بقیہ لوگوں کو آگ ١ ؎ اکٹھا کرے گی، ان کے ساتھ وہ بھی قیلولہ کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے، رات گزارے گی جہاں وہ رات گزاریں گے، صبح کرے گی جہاں وہ صبح کریں گے، اور شام کرے گی جہاں وہ شام کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٥ (٦٥٢٢) ، صحیح مسلم/الجنة ١٤ (٢٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس آگ کا ذکر بہت سی حدیثوں میں آیا ہوا ہے، یہ عدن سے نکلے گی اور لوگوں کو شام کی طرف ہانک کرلے جائے گی۔ ٢ ؎: یہ پہلا گروہ ہوگا جو موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسی وقت چل پڑے گا جب سواریوں اور زاد راہ کی بہتات ہوگی، چناچہ وہ سوار ہو کر کھاتا اور پہنتا پہنچے گا، اور کچھ بیٹھے رہیں جب سواریاں کم ہوجائیں گی تب چلیں گے، ایک اونٹ پر کئی کئی لوگ سوار ہوں گے، اور تیسرا گروہ وہ ہوگا جو سواریوں سے محروم ہوگا، اور جسے آگ پا پیادہ ہانک کرلے جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2085

【270】

قیامت کے دن دوسری مرتبہ زندہ ہونے سے متعلق

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صادق و مصدوق ﷺ نے مجھ سے بیان کیا کہ لوگ (قیامت کے دن) تین گروہ میں جمع کیے جائیں گے : ایک گروپ سوار ہوگا، کھاتے (اور) پہنتے اٹھے گا، اور ایک گروہ کو فرشتے اوندھے منہ گھسیٹیں گے، اور انہیں آگ گھیر لے گی، اور ایک گروہ پیدل چلے گا (بلکہ) دوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ سواریوں پر آفت نازل کر دے گا، چناچہ کوئی سواری باقی نہ رہے گی، یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس باغ ہوگا جسے وہ ایک پالان والے اونٹ کے بدلے میں دیدے گا جس پر وہ قادر نہ ہو سکے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٦) ، مسند احمد ٥/١٦٤ (ضعیف) (اس کے راوی ” ولید بن عبداللہ بن جمیع “ حافظہ کے ذرا کمزور راوی ہیں، اس لیے کبھی کبھی انہیں روایتوں میں وہم ہوجایا کرتا تھا ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2086

【271】

سب سے پہلے کسے کپڑے پہنائے جائیں گے؟

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نصیحت کرنے کھڑے ہوئے تو فرمایا : لوگو ! تم اللہ تعالیٰ کے پاس ننگے جسم جمع کئے جاؤ گے، (ابوداؤد کی روایت میں ہے ننگے پاؤں اور غیر مختون جمع کئے جاؤ گے، اور وکیع اور وہب کی روایت میں ہے : ننگے جسم اور بلا ختنہ) جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : سب سے پہلے جسے قیامت کے دن کپڑا پہنایا جائے گا ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے، اور عنقریب میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے (ابوداؤد کی روایت میں یجائ ہے اور وہب اور وکیع کی روایت میں سیؤتی ہے) اور وہ پکڑ کر بائیں جانب لے جائے جائیں گے، میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! یہ میرے اصحاب (امتی) ہیں، کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے جو آپ کے بعد انہوں نے شریعت میں نئی چیزیں ایجاد کر ڈالی ہیں، تو میں وہی کہوں گا جو نیکوکار بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا تھا کہ جب تک میں ان کے درمیان موجود تھا ان پر گواہ تھا جب تو نے مجھے وفات دے دی (تو تو ہی ان کا نگہبان تھا) اب اگر تو انہیں سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر انہیں بخش دے تو تو زبردست حکمت والا ہے، تو کہا جائے گا : یہ لوگ برابر پیٹھ پھیرنے والے رہے، (اور ابوداؤد کی روایت میں ہے : جب سے تم ان سے جدا ہوئے یہ اپنے ایڑیوں کے بل پلٹنے والے رہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2087

【272】

مرنے والے پر اظہار غم سے متعلق

قرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ جب بیٹھتے تو آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے پاس بیٹھتی، ان میں ایک ایسے آدمی بھی ہوتے جن کا ایک چھوٹا بچہ ان کی پیٹھ کے پیچھے سے آتا، تو وہ اسے اپنے سامنے (گود میں) بٹھا لیتے (چنانچہ کچھ دنوں بعد) وہ بچہ مرگیا، تو اس آدمی نے اپنے بچے کی یاد میں محفل میں آنا بند کردیا، اور رنجیدہ رہنے لگا، تو (جب) نبی اکرم ﷺ نے اسے نہیں پایا تو پوچھا : کیا بات ہے ؟ میں فلاں کو نہیں دیکھ رہا ہوں ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اس کا ننھا بچہ جسے آپ نے دیکھا تھا مرگیا، چناچہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے ملاقات کی، (اور) اس کے بچے کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ وہ مرگیا، تو آپ نے اس کی (موت کی خبر) پر اس کی تعزیت کی، پھر فرمایا : اے فلاں ! تجھ کو کون سی بات زیادہ پسند ہے ؟ یہ کہ تم اس سے عمر بھر فائدہ اٹھاتے یا یہ کہ (جب) تم قیامت کے دن جنت کے کسی دروازے پر جاؤ تو اسے اپنے سے پہلے پہنچا ہوا پائے، وہ تمہارے لیے اسے کھول رہا ہو ؟ تو اس نے کہا : اللہ کے نبی ! مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ وہ جنت کے دروازے پر مجھ سے پہلے پہنچے، اور میرے لیے دروازہ کھول رہا ہو، آپ نے فرمایا : تمہارے لیے ایسا (ہی) ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2088

【273】

ایک دوسری قسم کی تعزیت سے متعلق فرمان نبوی ﷺ

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں موت کا فرشتہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھیجا گیا، جب وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے ایک طمانچہ رسید کیا، تو اس کی ایک آنکھ پھوٹ کر بہہ گئی، چناچہ اس نے اپنے رب کے پاس واپس جا کر شکایت کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیج دیا جو مرنا نہیں چاہتا، اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ اچھی کردی، اور کہا : اس کے پاس دوبارہ جاؤ، اور اس سے کہہ : تم اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے عوض انہیں ایک سال کی مزید عمر مل جائے گی، تو انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب ! پھر کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر مرنا ہوگا، (موسیٰ علیہ السلام) نے کہا : تب تو ابھی (مرنا بہتر ہے) ، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ وہ انہیں ارض مقدس سے پتھر پھینکنے کی مسافت کے برابر قریب کر دے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں اس جگہ ہوتا تو تمہیں راستے کی طرف سرخ ٹیلے کے نیچے ان کی قبر دکھلاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٦٨ (١٣٣٩) ، والأنبیاء ٣٣ (٣٤٠٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ٤٢ (٢٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٩) ، مسند احمد ٢/٢٦٩- ٣١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2089