20. روزوں سے متعلقہ احادیث
روزوں کی فرضیت کا بیان
طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس پراگندہ بال آیا، (اور) اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : پانچ (وقت کی) نمازیں، اِلاَّ یہ کہ تم کچھ نفل پڑھنا چاہو ، پھر اس نے کہا : مجھے بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنے روزے فرض کیے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ماہ رمضان کے روزے، اِلاَّ یہ کہ تم کچھ نفلی (روزے) رکھنا چاہو ، (پھر) اس نے پوچھا : مجھے بتلائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی زکاۃ فرض کی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اسلام کے احکام بتائے، تو اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کی تکریم کی ہے، میں کوئی نفل نہیں کروں اور نہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو فرض کیا ہے اس میں کوئی کمی کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے سچ کہا تو یہ کامیاب ہوگیا ، یا کہا : اگر اس نے سچ کہا تو جنت میں داخل ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2090
روزوں کی فرضیت کا بیان
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں : ہمیں قرآن کریم میں نبی اکرم ﷺ سے لایعنی بات پوچھنے سے منع کیا گیا تھا، تو ہمیں یہ بات اچھی لگتی کہ دیہاتیوں میں سے کوئی عقلمند شخص آئے، اور آپ سے نئی نئی باتیں پوچھے، چناچہ ایک دیہاتی آیا، اور کہنے لگا : اے محمد ! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا، اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ، اس نے پوچھا : آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے (پھر) اس نے پوچھا : زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ نے کہا : اللہ نے (پھر) اس نے پوچھا : اس میں پہاڑ کو کس نے نصب کیے ہیں ؟ آپ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے (پھر) اس نے پوچھا : اس میں نفع بخش (چیزیں) کس نے بنائیں ؟ آپ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے (پھر) اس نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، اور اس میں پہاڑ نصب کیے، اور اس میں نفع بخش (چیزیں) بنائیں کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ؟ آپ نے کہا : ہاں ، پھر اس نے کہا : اور آپ کے قاصد نے کہا ہے کہ ہمارے اوپر ہر روز دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ، تو اس نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان (نمازوں) کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے کہا : ہاں، (پھر) اس نے کہا : آپ کے قاصد نے کہا ہے کہ ہم پر اپنے مالوں کی زکاۃ فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا، (پھر) اس نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا ! کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے کہا : ہاں ، (پھر) اس نے کہا : آپ کے قاصد نے کہا ہے : ہم پر ہر سال ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں، آپ نے کہا : اس نے سچ کہا (پھر) اس نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان (دنوں کے روزوں) کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے کہا : ہاں ، (پھر) اس نے کہا : آپ کے قاصد نے کہا ہے : ہم میں سے جو کعبہ تک جانے کی طاقت رکھتے ہوں، ان پر حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ، اس نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، تو اس نے کہا : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا فرمایا : میں ہرگز نہ اس میں کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، جب وہ لوٹا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ ضرور جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٦ (٦٣) تعلیقاً ، صحیح مسلم/الإیمان ٣ (١٢) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢ (٦١٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤) ، مسند احمد ٣/١٤٣، ١٩٣، سنن الدارمی/الطھارة ١ (٦٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2091
روزوں کی فرضیت کا بیان
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں : ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر آیا، اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، (اور) لوگوں سے پوچھا : تم میں محمد کون ہیں ؟ اور رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو ہم نے اس سے کہا : یہ گورے چٹے آدمی ہیں، جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، آپ کو پکار کر اس شخص نے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : میں نے تمہاری بات سن لی (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) اس نے کہا : محمد ! میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں، (اور ذرا) سختی سے پوچھوں گا تو آپ دل میں کچھ محسوس نہ کریں، آپ نے فرمایا : پوچھو جو چاہتے ہو ، تو اس نے کہا : میں آپ کو آپ کے، اور آپ سے پہلے (جو گزر چکے ہیں) ان کے رب کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : اے اللہ ! (میری بات پر گواہ رہنا) ہاں ، (پھر) اس نے کہا : میں اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن اور رات میں پانچ (وقت کی) نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! (گواہ رہنا) ہاں ، (پھر) اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے اس ماہ میں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! (گواہ رہنا) ہاں، (پھر) اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالداروں سے زکاۃ لے کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : اے اللہ ! (گواہ رہنا) ہاں ، تب (اس) شخص نے کہا : میں آپ کی لائی ہوئی (شریعت) پر ایمان لایا، میں اپنی قوم کا جو میرے پیچھے ہیں قاصد ہوں، اور میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کا فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حماد بن عیسیٰ کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٦ (٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٣ (٤٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٤ (١٤٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٧) ، مسند احمد ٣/١٦٧، ١٦٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مخالفت اس طرح ہے کہ انہوں نے لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان کا واسطہ بڑھایا ہے، ان کی روایت آگے آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2092
روزوں کی فرضیت کا بیان
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر سوار آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھا کر باندھا (اور) لوگوں سے پوچھا : تم میں محمد کون ہیں ؟ اور آپ ﷺ لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے اس سے کہا : یہ گورے چٹے آدمی ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، تو (اس) شخص نے (پکار کر) آپ سے کہا : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : میں نے تمہاری بات سن لی ، (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) تو اس شخص نے کہا : اے محمد ! میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں (اور ذرا) سختی سے پوچھوں گا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پوچھو جو تم پوچھنا چاہتے ہو ، تو اس آدمی نے کہا : میں آپ کو آپ کے، اور آپ سے پہلے (جو گزر چکے ہیں) کے رب کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : اے اللہ ! (گواہ رہنا) ہاں ، پھر اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے اس ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! (گواہ رہنا ! ) ہاں ، (پھر) اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مالداروں سے یہ صدقہ لو اور اسے ہمارے غریبوں میں تقسیم کرو، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! (گواہ رہنا) ہاں ، تب (اس) شخص نے کہا : میں آپ کی لائی ہوئی (شریعت) پہ ایمان لایا، میں اپنی قوم کا جو میرے پیچھے ہے قاصد ہوں، اور میں بنی سعد بن بکر کا فرد ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ عبیداللہ بن عمر نے ابن عجلان کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مخالفت اس طرح ہے کہ انہوں نے اسے عن سعید بن ابی سعید المقبری عن ابی ہریرہ ۃ کے طریق سے روایت کیا ہے، اور ابن عجلان نے اسے عن سعید عن شریک عن انس کے طریق سے روایت کیا ہے، اور یہ مخالفت ضرر رساں نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سعید نے دونوں سے سنا ہو تو انہوں نے کبھی اس طرح طریق سے روایت کیا ہو، اور کبھی اس طریق سے (عبیداللہ کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2093
روزوں کی فرضیت کا بیان
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تھے کہ اسی دوران دیہاتیوں میں ایک شخص آیا، اور اس نے پوچھا : تم میں عبدالمطلب کے بیٹے کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا : یہ گورے رنگ والے جو تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں (حمزہ کہتے ہیں : الأمغر سرخی مائل کو کہتے ہیں) تو اس شخص نے کہا : میں آپ سے کچھ پوچھنے ولا ہوں، اور پوچھنے میں آپ سے سختی کروں گا، تو آپ ﷺ نے کہا : پوچھو جو چاہو ، اس نے کہا : میں آپ سے آپ کے رب کا اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کا اور آپ کے بعد کے لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں : کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ تو گواہ رہ، ہاں ، اس نے کہا : تو میں اسی کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھیں ؟ آپ نے کہا : اے اللہ تو گواہ رہ، ہاں ، اس نے کہا : کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مالداروں کے مالوں میں سے (زکاۃ) لیں، پھر اسے ہمارے فقیروں کو لوٹا دیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ تو گواہ رہنا، ہاں ، اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال کے بارہ مہینوں میں سے اس مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے کہا : اے اللہ تو گواہ رہنا، ہاں ، اس نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں کیا اللہ تعالیٰ نے آپ حکم دیا ہے کہ جو اس خانہ کعبہ تک پہنچنے کی طاقت رکھے وہ اس کا حج کرے ؟ آپ ﷺ نے کہا : اے اللہ گواہ رہنا ہاں ، تب اس شخص نے کہا : میں ایمان لایا اور میں نے تصدیق کی، میں ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٩٩٣) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2094
ماہ رمضان المبارک میں خوب سخاوت کرنے کے فضائل
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی آدمی تھے، اور رمضان میں جس وقت جبرائیل (علیہ السلام) آپ سے ملتے تھے آپ اور زیادہ سخی ہوجاتے تھے، جبرائیل (علیہ السلام) آپ سے ماہ رمضان میں ہر رات ملاقات کرتے (اور) قرآن کا دور کراتے تھے۔ (راوی) کہتے ہیں : جس وقت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرتے تو آپ تیز چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الوحي ٥ (٦) ، والصوم ٧ (١٩٠٢) ، وبدء الخلق ٦ (٣٢٢٠) ، والمناقب ٢٣ (٣٥٥٤) ، و فضائل القرآن ٧ (٤٩٩٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ١٢ (٢٣٠٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٧ (٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٤٠) ، مسند احمد ١/٢٣٠، ٢٣١، ٢٨٨، ٣٢٦، ٣٦٣، ٣٦٦، ٣٦٧، ٣٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2095
ماہ رمضان المبارک میں خوب سخاوت کرنے کے فضائل
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے کوئی لعنت ایسی نہیں کی جسے ذکر کیا جائے، (اور) جب جبرائیل (علیہ السلام) کے آپ کو قرآن دور کرانے کا زمانہ آتا تو آپ تیز چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ (روایت) غلط ہے، اور صحیح یونس بن یزید والی حدیث ہے (جو اوپر گزری) راوی نے اس حدیث میں ایک (دوسری) حدیث داخل کردی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٧٣) ، مسند احمد ٦/١٣٠ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2096
رمضان کی فضیلت
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٨٩٨، ١٨٩٩) ، وبدء الخلق ١١ (٣٢٧٧) ، صحیح مسلم/الصوم ١ (١٠٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢ (١٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٢) ، موطا امام مالک/الصوم ٢٢ (٥٩) (موقوفاً ) ، مسند احمد ٢/٢٨١، ٢٩٢، ٣٥٧، ٣٧٨، ٤٠١، سنن الدارمی/الصوم ٥٣ (١٨١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2097
رمضان کی فضیلت
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2098
اس حدیث شریف میں حضرت زہری پر راویوں نے جو اختلاف نقل کیا ہے اس کے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین زنجیر میں جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2099
اس حدیث شریف میں حضرت زہری پر راویوں نے جو اختلاف نقل کیا ہے اس کے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2100
اس حدیث شریف میں حضرت زہری پر راویوں نے جو اختلاف نقل کیا ہے اس کے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ اسے ابن اسحاق نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2101
اس حدیث شریف میں حضرت زہری پر راویوں نے جو اختلاف نقل کیا ہے اس کے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ ابن اسحاق (والی) حدیث غلط ہے، اسے ابن اسحاق نے زہری سے نہیں سنا ہے، اور صحیح (روایت) وہ ہے جس کا ذکر ہم (اوپر) کرچکے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٩٩ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2102
اس حدیث شریف میں حضرت زہری پر راویوں نے جو اختلاف نقل کیا ہے اس کے متعلق احادیث
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ رمضان ہے جو تمہارے پاس آپ پہنچا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ حدیث غلط ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٤٠) ، مسند احمد ٣/٢٣٦ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2103
اس حدیث شریف میں حضرت معمر پر راویوں نے جو اختلاف کیا ہے اس کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عزیمت و تاکید بغیر واجب کئے قیام رمضان کی ترغیب دیتے تھے، اور فرماتے تھے : جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس میں شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ ابن مبارک نے اسے مرسلاً (من قطعاً ) روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن الترمذی/الصوم ٨٣ (٨٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٠) ، مسند احمد ٢/٢٨١، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٢٠٠، لکن عندھم الجزء الأخیر ” من قام رمضان إیمانا الخ بدل ” إذا دخل رمضان الخ “ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2104
اس حدیث شریف میں حضرت معمر پر راویوں نے جو اختلاف کیا ہے اس کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٦٠٤) (صحیح) (سند میں زہری اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2105
اس حدیث شریف میں حضرت معمر پر راویوں نے جو اختلاف کیا ہے اس کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کردیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٥٦٤) ، مسند احمد ٢/٢٣٠، ٣٨٥، ٤٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2106
اس حدیث شریف میں حضرت معمر پر راویوں نے جو اختلاف کیا ہے اس کے متعلق
عرفجہ کہتے ہیں کہ ہم نے عتبہ بن فرقد کی عیادت کی تو ہم نے ماہ رمضان کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے پوچھا : تم لوگ کیا ذکر کر رہے ہو ؟ ہم نے کہا : ماہ رمضان کا، تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور ہر رات منادی آواز لگاتا ہے : اے خیر (بھلائی) کے طلب گار ! خیر کے کام میں لگ جا ١ ؎، اور اے شر (برائی) کے طلب گار ! برائی سے باز آ جا ٢ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : یہ غلط ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٧٥٨) ، مسند احمد ٤/٣١١، ٣١٢، ٥/٤١١ (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ یہی اس کا وقت ہے کیونکہ اس وقت معمولی عمل پر بہت زیادہ ثواب دیا جاتا ہے۔ ٢ ؎: اور توبہ کرلے کیونکہ یہی توبہ کا وقت ہے۔ ٣ ؎: غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ عرفجہ نے اسے عتبہ بن فرقد رضی الله عنہ کی روایت بنادیا ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کسی اور صحابی سے مروی ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2107
اس حدیث شریف میں حضرت معمر پر راویوں نے جو اختلاف کیا ہے اس کے متعلق
عرفجہ کہتے ہیں : میں ایک گھر میں تھا جس میں عتبہ بن فرقد بھی تھے، میں نے ایک حدیث بیان کرنی چاہی حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک (صاحب وہاں) موجود تھے گویا وہ حدیث بیان کرنے کا مجھ سے زیادہ مستحق تھے، چناچہ (انہوں) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اور ہر سرکش شیطان کو بیڑی لگا دی جاتی ہے، اور پکارنے والا ہر رات پکارتا ہے : اے خیر (بھلائی) کے طلب گار ! نیکی میں لگا رہ، اور اے شر (برائی) کے طلب گار ! باز آ جا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2108
ماہ رمضان المبارک کو صرف رمضان کہنے کی اجازت سے متعلق
ابوبکرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں کوئی ہرگز یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے، اور اس کی پوری راتوں میں قیام کیا (راوی کہتے ہیں) میں نہیں جانتا کہ آپ نے آپ اپنی تعریف کرنے کو ناپسند کیا، یا آپ نے سمجھا ضرور کوئی نہ کوئی غفلت اور لاپرواہی ہوئی ہوگی (پھر یہ کہنا کہ میں نے پورے رمضان میں عبادت کی کہاں صحیح ہوا) یہ الفاظ عبیداللہ کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٤٧ (٢٤١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٦٤) ، مسند احمد ٥/٣٩، ٣٠، ٤١، ٤٨، ٥٢ (ضعیف) (اس کے راوی ” حسن بصری “ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2109
ماہ رمضان المبارک کو صرف رمضان کہنے کی اجازت سے متعلق
عطا کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو سنا، وہ ہمیں بتا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری عورت سے کہا : جب رمضان آئے تو اس میں عمرہ کرلو، کیونکہ (ماہ رمضان میں) ایک عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ٤ (١٧٨٢) ، وجزء الصید ٢٦ (١٨٦٣) ، صحیح مسلم/الحج ٣٦ (١٢٥٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٤٥ (٢٩٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٩١٣) ، مسند احمد ١/٢٢٩، ٣٠٨، سنن الدارمی/المناسک ٤٠ (١٩٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2110
اگر چاند کے دیکھنے میں ملکوں میں اختلاف ہو
کریب مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں : ام فضل رضی اللہ عنہا نے انہیں معاویہ (رض) کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا، اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور میں شام (ہی) میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا، پھر میں مہینہ کے آخری (ایام) میں مدینہ آگیا، عبداللہ بن عباس (رض) نے مجھ سے (حال چال) پوچھا، پھر پہلی تاریخ کے چاند کا ذکر کیا، (اور مجھ سے) پوچھا : تم لوگوں نے چاند کب دیکھا ؟ تو میں نے جواب دیا : ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، انہوں نے (تاکیداً ) پوچھا : تم نے (بھی) اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا ؟ میں نے کہا : ہاں (میں نے بھی دیکھا تھا) اور لوگوں نے بھی دیکھا، تو لوگوں نے (بھی) روزے رکھے، اور معاویہ (رض) نے بھی، (تو) انہوں نے کہا : لیکن ہم لوگوں نے ہفتے (سنیچر) کی رات کو دیکھا تھا، (لہٰذا) ہم برابر روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ ہم (گنتی کے) تیس دن پورے کرلیں، یا ہم (اپنا چاند) دیکھ لیں، تو میں نے کہا : کیا معاویہ (رض) اور ان کے ساتھیوں کا چاند دیکھنا کافی نہیں ہے ؟ کہا : نہیں ! (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٥ (١٠٨٧) ، سنن ابی داود/الصیام ٩ (٢٣٣٢) ، سنن الترمذی/الصیام ٩ (٦٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥٧) ، مسند احمد ١/٣٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2111
رمضان کے چاند کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا (اور) کہنے لگا : میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ نے کہا : کیا تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، تو نبی اکرم ﷺ نے لوگوں میں روزہ رکھنے کا اعلان کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصیام ١٤ (٢٣٤٠، ٢٣٤١) مرسلاً ، سنن الترمذی/الصیام ٧ (٦٩١) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٦ (١٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٦ (١٧٣٤) (ضعیف) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں بڑا اضطراب پایا جاتا ہے، نیز سماک کے اکثر تلامذہ اسے عن عکرمہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم مرسلاً روایت کرتے ہیں جیسا کہ رقم ٢١١٦: میں آ رہا ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2112
رمضان کے چاند کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں نے آج رات چاند دیکھا ہے، آپ نے پوچھا : کیا تم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ؟ اس نے کہا : ہاں، تو آپ نے فرمایا : بلال ! لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل سے روزے رکھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2113
رمضان کے چاند کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے
اس سند سے عکرمہ سے یہ حدیث مرسلاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١١٤ (ضعیف) (ارسال کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، جیسا کہ مولف نے بیان کیا ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2114
رمضان کے چاند کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے
اس سند سے بھی عکرمہ سے یہ حدیث مرسلاً مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١١٤ (ضعیف) (ارسال کی وجہ سے یہ ضعیف ہے، جیسا کہ مولف نے بیان کیا ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2115
رمضان کے چاند کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے
عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک ایسے دن میں جس میں شک تھا (کہ رمضان کی پہلی تاریخ ہے یا شعبان کی آخری) لوگوں سے خطاب کیا تو کہا : سنو ! میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ہم نشینی کی، اور میں ان کے ساتھ بیٹھا تو میں نے ان سے سوالات کئے، اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اور اسی طرح حج بھی کرو، اور اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (کی گنتی) پوری کرو، (اور) اگر دو گواہ (چاند دیکھنے کی) شہادت دے دیں تو روزے رکھو، اور افطار (یعنی عید) کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٦٢١) ، مسند احمد ٤/٣٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2116
اگر فضا ابر الود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرنا اور حضرت ابوہریرہ سے نقل کرنے والوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (دن) پورے کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٩) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٢ (٦٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٧ (١٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٨٢) ، مسند احمد ٢/ ٤٠٩، ٤٣٠، ٤٧١، ٤٩٨، سنن الدارمی/الصیام ٢ (١٧٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٢٩ شعبان کو آسمان میں بادل ہوں اور اس کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے روزوں کی شروعات کرو، اسی طرح ٢٩ رمضان کو اگر عید الفطر کا چاند نظر نہ آسکے تو تیس روزے پورے کر کے عید الفطر مناؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2117
اگر فضا ابر الود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرنا اور حضرت ابوہریرہ سے نقل کرنے والوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، (اور) اگر مطلع تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس دن پورے کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2118
اس حدیث شریف میں راوی زہری کے اختلاف سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب (شوال کا) چاند دیکھو تو روزہ رکھنا بند کر دو ، (اور) اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو (پورے) تیس دن روزہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الصوم ٢ (١٠٨١) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٧ (١٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٠٢) ، مسند احمد ٢/٢٦٣، ٢٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2119
اس حدیث شریف میں راوی زہری کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب (شوال کا) چاند دیکھو تو روزہ رکھنا بند کر دو ، (اور) اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو اس کا اندازہ لگاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥ (١٩٠٠) تعلیقاً ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٤ (٢٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٧ (١٦٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٣) ، مسند احمد ٢/١٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2120
اس حدیث شریف میں راوی زہری کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا : تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اور روزہ رکھنا بند کرو یہاں تک کہ (چاند) دیکھ لو، (اور) اگر فضا ابر آلود ہو تو اس کا حساب لگا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٦) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٦٢) ، موطا امام مالک/الصوم ١ (١) ، مسند احمد ٢/٦٣، سنن الدارمی/الصوم ٢ (١٧٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2121
اس حدیث شریف میں عبیداللہ کے روایوں سے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم (رمضان کے) روزے نہ رکھو یہاں تک کہ (چاند) دیکھ لو اور نہ ہی روزے رکھنا بند کرو یہاں تک کہ (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو (اور) اگر آسمان میں بادل ہوں تو اس (مہینے) کا حساب لگا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٢١٤) ، مسند احمد ٢/١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2122
اس حدیث شریف میں عبیداللہ کے روایوں سے اختلاف سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چاند کا ذکر کیا تو فرمایا : جب تم اسے (یعنی رمضان کا چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور جب اسے (یعنی عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ بند کر دو ، (اور) اگر آسمان میں بادل ہوں تو تیس دن پورے شمار کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٩٧) ، مسند احمد ٢/٢٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2123
حضرت ابن عباس کی حدیث میں حضرت عمرو بن دینار پر راویوں کے اختلاف کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے (رمضان کا چاند) دیکھ کر روزہ رکھو، اور اسے (عید الفطر کا چاند) دیکھ کر روزہ بند کرو، (اور) اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٣٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2124
حضرت ابن عباس کی حدیث میں حضرت عمرو بن دینار پر راویوں کے اختلاف کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں : مجھے حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو مہینہ شروع ہونے سے پہلے (ہی) روزہ رکھنے لگتا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم (رمضان کا) چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، (اسی طرح) جب (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) جب تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٤٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2125
حضرت منصور پر ربعی کی روایت میں راویوں کے اختلاف سے متعلق
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم رمضان کے مہینہ پر سبقت نہ کرو ١ ؎ یہاں تک کہ (روزہ رکھنے سے) پہلے چاند دیکھ لو، یا (شعبان کی) تیس کی تعداد پوری کرلو، پھر روزہ رکھو، یہاں تک کہ (عید الفطر کا) چاند دیکھ لو، یا اس سے پہلے رمضان کی تیس کی تعداد پوری کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦ (٢٣٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٣١٦) ، مسند احمد ٤/٣١٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے روزہ نہ رکھو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2126
حضرت منصور پر ربعی کی روایت میں راویوں کے اختلاف سے متعلق
ایک صحابی رسول رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم رمضان کے مہینہ پر سبقت نہ کرو یہاں تک کہ شعبان کی گنتی پوری کرلو، یا رمضان کا چاند دیکھ لو پھر روزہ رکھو، اور نہ روزہ بند کرو یہاں تک کہ تم عید الفطر کا چاند دیکھ لو، یا رمضان کی تیس (دن) کی گنتی پوری کرلو ۔ حجاج بن ارطاۃ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2127
حضرت منصور پر ربعی کی روایت میں راویوں کے اختلاف سے متعلق
ربعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم (رمضان کا) چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور جب اسے (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ بند کر دو ، (اور) اگر تم پر بادل چھا جائیں تو شعبان کے تیس دن پورے کرو، مگر یہ کہ اس سے پہلے چاند دیکھ لو، پھر رمضان کے تیس روزے رکھو، مگر یہ کہ اس سے پہلے چاند دیکھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٢٨ (صحیح) (ربعی نے صحابی کا ذکر نہیں کیا اس لیے سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2128
حضرت منصور پر ربعی کی روایت میں راویوں کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے (رمضان کے چاند کو) دیکھ کر روزہ رکھو، اور اسے (یعنی عید الفطر کے چاند کو) دیکھ کر روزہ بند کرو، (اور) اگر تمہارے اور اس کے بیچ بدلی حائل ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرو، اور (ایک یا دو دن پہلے سے رمضان کے) مہینہ کا استقبال نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٧ (٢٣٢٧) ، سنن الترمذی/الصوم ٥ (٦٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٦١٠٥) ، مسند احمد ١/٢٢٦، ٢٥٨، سنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢١٣٢، ٢١٩١ (صحیح) (اس کے راوی سماک کے عکرمہ سے سماع میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن روایت رقم : ٢١٢٦ سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2129
حضرت منصور پر ربعی کی روایت میں راویوں کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان سے پہلے روزہ مت رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور (چاند) دیکھ کر (روزہ) بند کرو، (پس) اگر چاند سے ورے بادل حائل ہوجائے تو تیس (دن) پورے کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٣١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رمضان سے پہلے سے مراد شعبان کا آخری دن ہے، مطلب یہ ہے کہ صرف یہ خیال کر کے روزہ مت شروع کر دو کہ آج ٢٩ شعبان ہے تو ممکن ہے کہ کل سے رمضان شروع ہوجائے گا، بلکہ یقینی طور پر چاند دیکھ کر ہی روزہ شروع کرو، یا پھر تیس کی گنتی پوری کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2130
مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ میں حضرت زہری پر راویوں کے اختلاف سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قسم کھائی کہ ایک ماہ (تک) اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، چناچہ آپ انتیس دن ٹھہرے رہے، تو میں نے عرض کیا : کیا آپ نے ایک مہینے کی قسم نہیں کھائی تھی ؟ میں نے شمار کیا ہے، ابھی انتیس دن (ہوئے) ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٤ (١٠٨٣) ، والطلاق ٥ (١٤٧٩) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة التحریم (٣٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٤ (٢٠٥٩) ، مسند احمد ٦/١٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2131
مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ میں حضرت زہری پر راویوں کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں : مجھے برابر اس بات کا اشتیاق رہا کہ عمر بن خطاب (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبکما اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو (تو بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (التحریم : ٤ ) میں کیا ہے، پھر پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے انتیس راتوں تک اس بات کی وجہ سے جو حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظاہر کردی تھی کنارہ کشی اختیار کرلی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : آپ نے اپنی اس ناراضگی کی وجہ سے جو آپ کو اپنی عورتوں سے اس وقت ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بات آپ کو بتلائی یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا، تو جب انتیس راتیں گزر گئیں تو آپ سب سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے تو ایک مہینے تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، اور ہم نے (ابھی) انتیسویں رات کی (ہی) صبح کی ہے، ہم ایک ایک کر کے اسے گن رہے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٧ (٨٩) ، والمظالم ٢٥ (٢٤٦٨) ، و تفسیر سورة التحریم ٢-٤ (٤٩١٤، ٤٩١٥) ، وانکاح ٨٣ (٥١٩١) ، واللباس ٣١ (٥٨٤٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ٥ (١٤٧٩) ، سنن الترمذی/تفسیر التحریم (٣٣١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٧) ، مسند احمد ١/٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2132
اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس کی حدیث سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے کہا : مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٣٢٢) ، مسند احمد ١/٢١٨، ٢٣٥، ٢٤٠ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2133
اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس کی حدیث سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2134
حضرت سعد بن مالک کی روایت میں حضرت اسمعیل سے اختلاف
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنا (ایک) ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا : مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اور اس طرح ہے ، اور تیسری بار میں ایک انگلی دبا لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٤ (١٠٨٦) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٨ (١٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢٠) ، مسند احمد ١/١٨٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ نے دونوں ہاتھوں کی دسوں انگلیوں سے دو بار اشارہ کیا، اور تیسری بار میں ایک انگلی گرا لی، تو یہ کل انتیس دن ہوئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2135
حضرت سعد بن مالک کی روایت میں حضرت اسمعیل سے اختلاف
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے اور اس طرح ہے ، یعنی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ اسے یحییٰ بن سعید وغیرہ نے اسماعیل سے، انہوں نے محمد بن سعد بن ابی وقاص سے، اور محمد بن سعد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2136
حضرت سعد بن مالک کی روایت میں حضرت اسمعیل سے اختلاف
محمد بن سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اور اس طرح ہے ۔ اور محمد بن عبید نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین بار ملا کر بتلایا، پھر تیسری بار میں بائیں ہاتھ کا انگوٹھا بند کرلیا، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں : میں نے اسماعیل بن ابی خالد سے عن أبیہ کی زیادتی کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٣٧ (صحیح) (اس سند میں محمد بن سعد بن ابی وقاص نے صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے، اس لیے ارسال کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن اوپر گزرا کہ محمد بن سعد نے اپنے والد سعد بن ابی وقاص سے یہ حدیث روایت کی ہے، اس لیے اصل حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2137
حضرت ابوسلمہ کی حدیث میں یحیٰی بن ابی کثیر پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ (کبھی) انتیس دن کا ہوتا ہے، اور (کبھی) تیس دن کا، اور جب تم (چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھو اور جب اسے دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) اگر تم پر بادل چھا جائیں تو (تیس کی) گنتی پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٤١٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2138
حضرت ابوسلمہ کی حدیث میں یحیٰی بن ابی کثیر پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٣) ، مسند احمد ٢/٤٠، ٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2139
حضرت ابوسلمہ کی حدیث میں یحیٰی بن ابی کثیر پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم اُمّی لوگ ہیں، نہ ہم لکھتے پڑھتے ہیں اور نہ حساب کتاب کرتے ہیں، مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اور اس طرح ہے ، (ایسا تین بار کیا) یہاں تک کہ انتیس دن کا ذکر کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٣ (١٩١٣) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، سنن ابی داود/الصوم ٤ (٢٣١٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٧٥) ، مسند احمد ٢/٤٣، ٥٢، ١٢٢، ١٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2140
حضرت ابوسلمہ کی حدیث میں یحیٰی بن ابی کثیر پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ آپ نے فرمایا : ہم اُمّی لوگ ہیں، نہ تو ہم لکھتے ہیں، اور نہ حساب کتاب کرتے ہیں، مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے اور اس طرح ہے ، اور تیسری بار انگوٹھا بند کرلیا، مہینہ اس طرح ہے، اس طرح ہے، اور اس طرح ہے، پورے تیس دن ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مہینہ کبھی ٢٩ دن کا ہوتا ہے، اور کبھی تیس دن کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2141
حضرت ابوسلمہ کی حدیث میں یحیٰی بن ابی کثیر پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مہینہ اس طرح ہے ۔ شعبہ نے جبلہ سے نقل کیا، انہوں نے ابن عمر (رض) سے کہ مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے، اس طرح کہ انہوں نے دو بار اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اشارہ کیا، اور تیسری بار ایک انگلی دبا لی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٨) ، والطلاق ٢٥ (٥٣٠٢) ، صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٦٨) ، مسند احمد ٢/٤٤، ١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2142
حضرت ابوسلمہ کی حدیث میں یحیٰی بن ابی کثیر پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢ (١٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤٠) ، مسند احمد ٢/٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2143
سحری کھانے کی فضیلت
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ عبیداللہ بن سعید نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٢١٨) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2144
سحری کھانے کی فضیلت
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں : سحری کھاؤ۔ عبیداللہ کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ اس کے الفاظ کیا تھے ؟ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2145
سحری کھانے کی فضیلت
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢٠ (١٩٢٣) ، صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٥) ، سنن الترمذی/الصوم ١٧ (٧٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٢ (١٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٨) ، مسند احمد ٣/٢٢٩، سنن الدارمی/الصوم ٩ (١٧٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2146
اس حدیث میں عبدالملک بن ابی سلیمان کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤١٨٧) ، مسند احمد ٢/٣٧٧، ٤٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2147
اس حدیث میں عبدالملک بن ابی سلیمان کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ ابن ابی لیلیٰ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ موقوف روایت صحیح ہے، اور مرفوع اس سے زیادہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2148
اس حدیث میں عبدالملک بن ابی سلیمان کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٢٠٢) ، مسند احمد ٢/٣٧٧، ٤٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2149
اس حدیث میں عبدالملک بن ابی سلیمان کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2150
اس حدیث میں عبدالملک بن ابی سلیمان کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سحری کھاؤ، کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید کی اس حدیث کی سند تو حسن ہے، مگر یہ منکر ہے، اور مجھے محمد بن فضیل کی طرف سے غلطی کا اندیشہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٣٥٤) (صحیح) (اصل حدیث صحیح ہے، مؤلف نے سند میں غلطی کا اشارہ دیا ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : عطاء عن أبي هريرة کی بجائے أبو سلمة عن أبي هريرة محمد بن فضیل کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2151
سحری میں تاخیر کی فضیلت
زر حبیش کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ (رض) سے پوچھا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کس وقت سحری کھائی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : (تقریباً ) دن ١ ؎ مگر سورج ٢ ؎ نکلا نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٣ (١٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٢٥) ، مسند احمد ٥/٣٩٦، ٣٩٩، ٤٠٠، ٤٠٥ (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: دن سے مراد شرعی دن ہے جو طلوع صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔ ٢ ؎: سورج سے مراد طلوع فجر ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ سحر اس وقت کھاتے جب طلوع فجر قریب ہوجاتی۔ حذیفہ رضی الله عنہ کی اگلی روایت سے یہی معنی متعین ہوتا ہے، نہ یہ کہ دن کا سورج نکلنے کے قریب ہونا۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2152
سحری میں تاخیر کی فضیلت
زر بن حبیش کہتے ہیں : میں نے حذیفہ (رض) کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے نکلے، تو جب ہم مسجد پہنچے تو دو رکعت سنت پڑھی ہی تھی کہ نماز شروع ہوگئی، اور ان دونوں کے درمیان ذرا سا ہی وقفہ رہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2153
سحری میں تاخیر کی فضیلت
صلہ بن زفر کہتے ہیں : میں نے حذیفہ رضی الله عنہ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم مسجد کی طرف نکلے، اور ہم نے فجر کی دونوں رکعتیں پڑھیں، (اتنے میں) نماز کھڑی کردی گئی تو ہم نے نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٥٤ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2154
نماز فجر اور سحری کھانے میں کس قدر فاصلہ ہونا چاہئے؟
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں : ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم اٹھ کر نماز کے لیے گئے، انس کہتے ہیں : میں نے پوچھا : ان دونوں کے درمیان کتنا (وقفہ) تھا ؟ تو انہوں نے کہا : اس قدر جتنے میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٧ (٥٧٥) ، والصوم ١٩ (١٩٢١) ، صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٧) ، سنن الترمذی/الصوم ١٤ (٧٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٣ (١٦٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٩٦) ، مسند احمد ٥/١٨٢، ١٨٥، ١٨٦، ١٨٨، ١٩٢، سنن الدارمی/الصوم ٨ (١٧٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2155
اسی حدیث میں ہشام اور سعید کا قتادہ کے متعلق اختلاف
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں نے پوچھا (کہا جاتا کہ قلت کا قائل انس ہیں ١ ؎ ) : ان دونوں کے درمیان کتنا (وقفہ) تھا ؟ انہوں نے کہا : اس قدر کہ جتنے میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ جملہ معترضہ ہے جو قول اور مقولہ کے درمیان واقع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2156
اسی حدیث میں ہشام اور سعید کا قتادہ کے متعلق اختلاف
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ اور زید بن ثابت نے سحری کھائی، پھر وہ دونوں اٹھے، اور جا کر نماز فجر پڑھنی شروع کردی۔ قتادہ کہتے ہیں : ہم نے انس (رض) سے پوچھا : ان دونوں کے (سحری سے) فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے میں کتنا (وقفہ) تھا ؟ تو انہوں نے کہا : اس قدر کہ جتنے میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٧ (٥٧٦) ، والتھجد ٨ (١١٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧) ، مسند احمد ٣/١٧٠، ٢٣٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2157
سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں سلیمان بن مہران کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوعطیہ وادعی ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ہم میں نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمی ہیں ان دونوں میں سے ایک افطار میں جلدی کرتا ہے، اور سحری میں تاخیر، اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے، اور سحری میں جلدی، انہوں نے پوچھا : ان دونوں میں کون ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے، اور سحری میں تاخیر ؟ میں نے کہا : وہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں، اس پر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٢٠ (٢٣٥٤) ، سنن الترمذی/الصوم ١٣ (٧٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٩٩) ، مسند احمد ٦/٤٨، ١٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2158
سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں سلیمان بن مہران کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوعطیہ وادعی ہمدانی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ہم میں دو آدمی ہیں ان میں سے ایک افطار جلدی اور سحری تاخیر سے کرتے ہیں، اور دوسرے افطار تاخیر سے کرتے ہیں اور سحری جلدی، انہوں نے پوچھا : کون ہیں جو افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتے ہیں ؟ میں نے کہا : وہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2159
سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں سلیمان بن مہران کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوعطیہ وادعی ہمدانی کہتے ہیں : میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، مسروق نے ان سے کہا : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے دو شخص ہیں، یہ دونوں نیک کام میں کوتاہی نہیں کرتے، (لیکن) ان میں سے ایک نماز اور افطار دونوں میں تاخیر کرتے ہیں، اور دوسرے نماز اور افطار دونوں میں جلدی کرتے ہیں، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : کون ہیں جو نماز اور افطار دونوں میں جلدی کرتے ہیں ؟ مسروق نے کہا : وہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2160
سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں سلیمان بن مہران کے متعلق راویوں کا اختلاف
ابوعطیہ وادعی ہمدانی کہتے ہیں : میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ہم نے ان سے کہا : ام المؤمنین ! محمد ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمی ہیں، ان میں سے ایک افطار میں جلدی کرتے ہیں اور نماز میں بھی جلدی کرتے ہیں، اور دوسرے افطار میں تاخیر کرتے ہیں اور نماز میں بھی تاخیر کرتے ہیں، انہوں نے پوچھا : کون ہیں جو افطار میں جلدی کرتے اور نماز میں بھی جلدی کرتے ہیں ؟ ہم نے کہا : وہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہیں، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ (دوسرے شخص ابوموسیٰ اشعری (رض) تھے۔ ) تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2161
سحری کھانے کے فضائل
نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ اس وقت سحری کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا : یہ برکت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے تو تم اسے مت چھوڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٦٠٥) ، مسند احمد ٥/٣٦٧، ٣٧٠، ٣٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2162
سحری کھانے کے واسطے بلانے سے متعلق
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا : آپ رمضان کے مہینہ میں سحری کھانے کے لیے بلا رہے تھے، اور فرما رہے تھے : آؤ صبح کے مبارک کھانے پر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ١٦ (٢٣٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨٣) ، مسند احمد ٤/١٢٦، ١٢٧ (صحیح) (سند میں یونس بن سیف مقبول راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناپر صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2163
سحری کو صبح کا کھانا کہنا کیسا ہے؟
مقدام بن معد یکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم صبح کا کھانا (سحری کو) لازم پکڑو، کیونکہ یہ مبارک کھانا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٥٦٠) ، مسند احمد ٤/١٣٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2164
سحری کو صبح کا کھانا کہنا کیسا ہے؟
( تابعی) خالد بن معدان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے کہا : صبح کے مبارک کھانے یعنی سحری کے لیے آؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2165
ہم لوگوں کے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق؟
عمرو بن العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور اہل کتاب کے صیام میں جو فرق ہے، (وہ ہے) سحری کھانا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٩ (١٠٩٦) ، سنن ابی داود/الصوم ١٥ (٢٣٤٣) ، سنن الترمذی/الصوم ١٧ (٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٤٩) ، مسند احمد ٤/١٩٧، ٢٠٢، سنن الدارمی/الصوم ٩ (١٧٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2166
سحری میں ستو اور کھجور کھانا
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سحری کے وقت فرمایا : اے انس ! میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ کھلاؤ، تو میں کچھ کھجور اور ایک برتن میں پانی لے کر آپ کے پاس آیا، اور یہ بلال (رض) کی اذان دینے کے بعد کا وقت تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : اے انس ! کسی اور شخص کو تلاش کرو جو میرے ساتھ (سحری) کھائے ، تو میں نے زید بن ثابت (رض) کو بلایا، چناچہ وہ آئے (اور) کہنے لگے : میں نے ستو کا ایک گھونٹ پی لیا ہے، اور میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں (بھی) روزہ رکھنا چاہتا ہوں ، (پھر) زید بن ثابت (رض) نے آپ کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ اٹھے، اور (فجر کی) دو رکعت (سنت) پڑھی، پھر آپ فرض نماز کے لیے نکل گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨) ، مسند احمد ٣/١٩٧ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2167
تفسیر ارشاد باری تعالی
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان میں سے کوئی جب شام کا کھانا کھانے سے پہلے سو جاتا تو رات بھر اور دوسرے دن سورج ڈوبنے تک اس کے لیے کھانا پینا جائز نہ ہوتا، یہاں تک کہ آیت کریمہ : وکلوا واشربوا سے لے کر الخيط الأسود تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سیاہ دھاری سے سفید دھاری نظر آنے لگے تک نازل ہوئی، یہ آیت ابوقیس بن عمرو (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، (ہوا یہ کہ) وہ مغرب بعد اپنے گھر آئے، وہ روزے سے تھے، انہوں نے (گھر والوں سے) پوچھا : کچھ کھانا ہے ؟ ان کی بیوی نے کہا : ہمارے پاس تو کچھ (بھی) نہیں ہے، لیکن میں جا کر آپ کے لیے رات کا کھانا ڈھونڈ کر لاتی ہوں، چناچہ وہ نکل گئی، اور یہ اپنا سر رکھ کر سو گئے، وہ لوٹ کر آئی تو انہیں سویا ہوا پایا، (تو) انہیں جگایا (لیکن) انہوں نے کچھ (بھی) نہیں کھایا، اور (اسی حال میں) رات گزار دی، اور روزے ہی کی حالت) میں صبح کی یہاں تک کہ دوپہر ہوئی، تو ان پر غشی طاری ہوگئی، یہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے، اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) انہیں کے سلسلہ میں اتاری۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٤٣) ، مسند احمد ٤/٢٩٥، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ١٥ (١٩١٥) ، سنن ابی داود/الصوم ١ (٢٣١٤) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٧٢) ، سنن الدارمی/الصوم ٧ (١٧٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2168
تفسیر ارشاد باری تعالی
عدی بن حاتم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت کریمہ : حتى يتبين لکم الخيط الأبيض من الخيط الأسود کے متعلق سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : خيط الأسود (سیاہ دھاری) رات کی تاریکی ہے، (اور خيط الأسود سفید دھاری) دن کا اجالا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٦ (١٩١٦) ، و تفسیر البقرة ٢٨ (٤٥١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصیام ٨ (١٠٩٠) ، سنن ابی داود/الصیام ١٧ (٢٣٤٩) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٧٤) ، مسند احمد ٤/٣٧٧، سنن الدارمی/الصوم ٧ (١٧٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2169
فجر کس طرح ہوتی ہے؟
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، تاکہ وہ تم میں سونے والوں کو ہوشیار کردیں، (تہجد پڑھنے یا سحری کھانے کے لیے) اور تہجد پڑھنے والوں کو (گھر) لوٹا دیں، اور فجر اس طرح ظاہر نہیں ہوتی ، انہوں اپنی ہتھیلی سے اشارہ کیا، بلکہ فجر اس طرح ظاہر ہوتی ہے انہوں نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2170
فجر کس طرح ہوتی ہے؟
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلال کی اذان تمہیں ہرگز دھوکہ میں نہ ڈالے، اور نہ یہ سفیدی یہاں تک کہ فجر کی روشنی اس طرح اور اس طرح ، یعنی چوڑائی میں پھوٹ پڑے۔ ابوداؤد (طیالسی) کہتے ہیں : (شعبہ) نے اپنے دونوں ہاتھ دائیں بائیں بڑھا کر پھیلائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٨ (١٠٩٤) ، سنن ابی داود/الصوم ١٧ (٢٣٤٦) ، سنن الترمذی/الصوم ١٥ (٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٢٤) ، مسند احمد ٥/٧، ٩، ١٣، ١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2171
ماہ رمضان المبارک کا استقبال کرنا کیسا ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کا مہینہ (شروع ہونے) سے پہلے تم روزہ نہ رکھو، سوائے اس آدمی کے جو کسی خاص دن روزہ رکھتا ہو، اور (اتفاق سے) وہ دن رمضان کے روزہ سے پہلے آپڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٤ (١٩١٤) ، صحیح مسلم/الصوم ٣ (١٠٨٢) ، سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٢ (٦٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥ (١٦٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٩١) ، مسند احمد ٢/٢٣٤، ٤٣٧، ٤٠٨، ٤٣٨، ٤٧٧، ٤٩٧، ٥١٣، سنن الدارمی/الصوم ٤ (١٧٣١) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢١٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2172
اس حدیث شریف میں حضرت ابوسلمہ پر راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے کوئی روزہ نہ رکھے، البتہ جو اس سے پہلے (اس دن) روزہ رکھتا رہا ہو تو وہ رکھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا اگر پہلے سے اس کے معمولات میں داخل ہو تو وہ رکھے کیونکہ یہ استقبال رمضان کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ اس کے مستقل معمولات کا ایک حصہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2173
اس حدیث شریف میں حضرت ابوسلمہ پر راویوں کا اختلاف
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (رمضان) سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ مت رکھو، البتہ سوائے اس کے کہ یہ اس دن آپڑے جس دن تم میں کا کوئی (پہلے سے) روزہ رکھتا رہا ہو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ سند غلط ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٤) (حسن صحیح) (اصل حدیث صحیح ہے، مؤلف نے اس سند کو غلط بتایا ہے، اس لئے کہ بیشتر راویوں نے اسے ” عن ابی سلمہ عن ابن عباس “ کے بجائے ” عن ابی سلمہ عن ابی ہریرة “ روایت کیا ہے، واللہ اعلم قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2174
اس سلسلہ میں حضرت ابوسلمہ کی حدیث شریف
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی لگاتار دو مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤ (١٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٢) ، مسند احمد ٦/٢٩٣، ٣٠٠، ٣١١، سنن الدارمی/الصوم ٣٣ (١٧٨٠) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٣٥٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ شعبان میں برابر روزے رکھتے کہ وہ رمضان کے روزوں سے مل جاتا تھا، چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں، تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے فرض روزوں کے لیے برقرار رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2175
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٨) ، مسند احمد ٦/٣١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2176
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کے روزوں کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ (پے در پے اتنے) روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزہ رکھنا بند نہیں کریں گے، اور (پھر) اتنے دنوں تک بغیر روزے کے رہتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزے نہیں رکھیں گے، اور آپ (پورے) شعبان میں یا شعبان کے اکثر دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٨) ، مسند احمد ٦/٣١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2177
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : ہم (ازواج مطہرات) میں سے کوئی رمضان میں (حیض کی وجہ سے) روزہ نہیں رکھتی تو اس کی قضاء نہیں کر پاتی یہاں تک کہ شعبان آجاتا، رسول اللہ ﷺ کسی مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے جتنا شعبان میں رکھتے تھے، آپ چند دن چھوڑ کر پورے ماہ روزے رکھتے، بلکہ (بسا اوقات) پورے (ہی) ماہ روزے رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٢٦ (١١٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٤١) ، مسند احمد ٦/٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2178
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، میں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ کے روزوں کے بارے میں بتائیے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ (اس تسلسل سے) روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے اب آپ روزے ہی رکھتے رہیں گے، اور آپ (اس تسلسل سے) بلا روزے کے رہتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ بغیر روزے ہی کے رہیں گے، آپ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے، سوائے چند دنوں چھوڑ کے آپ پورے شعبان ہی روزے رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣٠ (١٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٢٩) ، مسند احمد ٦/٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2179
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے، آپ (تقریباً ) پورے شعبان ہی روزے رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٧٠) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٤ (٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٨٠) ، مسند احمد ٦/٨٤، ١٢٨، ١٨٩، ٢٣٣، ٢٤٤، ٢٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2180
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ شعبان میں روزہ رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٣) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2181
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایک ہی رات میں سارا قرآن پڑھا ہو، یا پوری رات صبح تک قیام کیا ہو، یا رمضان کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٤٢، ٢٣٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2182
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں : میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کے روزوں کے متعلق پوچھا : (تو) انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ (اس تسلسل سے) روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ روزے (ہی) رکھتے رہیں گے، اور (کبھی آپ اس تسلسل سے) بغیر روزے کے رہتے کہ ہم سمجھتے (اب) آپ بغیر روزے کے رہیں گے، اور آپ جب سے مدینہ آئے کبھی آپ نے پورے مہینے روزے نہیں رکھے سوائے اس کے کہ وہ رمضان ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2183
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا : کیا رسول اللہ ﷺ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، الا یہ کہ سفر سے (لوٹ کر) آتے، (پھر) میں نے سوال کیا : کیا رسول اللہ ﷺ کبھی پورے ماہ روزے رکھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، میں نہیں جانتی کہ آپ نے رمضان کے علاوہ کبھی پورے ماہ کے روزے رکھے ہوں، اور اور نہ ایسا ہی ہوتا کہ آپ پورے ماہ بغیر روزے کے رہے ہوں، کچھ نہ کچھ روزے ضرور رکھتے یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧١٧) ، والصوم ٣٤ (١١٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٠١ (١٢٩٢) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٢ (٤) ، مسند احمد ٦/١٧١، ٢١٨، ٢٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2184
حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، الا یہ کہ سفر سے (لوٹ کر) آتے، پھر میں نے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ کا رمضان کے علاوہ کوئی متعین روزہ تھا ؟ تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم آپ نے سوائے رمضان کے کسی خاص مہینے کے روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ آپ نے وفات پا لی، اور نہ ہی پورے ماہ بغیر روزے کے رہے، کچھ نہ کچھ روزے اس میں ضرور رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٣ (٧١٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠١ (١٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢١١) ، مسند احمد ٦/٢١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2185
اس حدیث میں خالد بن معدان کے متعلق اختلاف
جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزوں کے متعلق پوچھا : تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پورے شعبان روزے رکھتے، اور دو شنبہ (پیر) اور جمعرات کے روزے کا اہتمام فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصوم ٤٤ (٧٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤٢ (١٧٣٩) ، مسند احمد ٦/٨٠، ٨٩، ١٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق الشطر الأول فقط صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2186
اس حدیث میں خالد بن معدان کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شعبان اور رمضان میں روزے رکھتے، اور پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٤٤ (٧٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤٢ (١٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٨١) ، ویأتي عند المؤلف : ٢٣٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2187
شک کے دن کا روزہ
صلہ بن زفر کہتے ہیں : ہم عمار رضی الله عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی، تو انہوں نے کہا : آؤ تم لوگ بھی کھاؤ، تو لوگوں میں سے ایک شخص الگ ہٹ گیا، اور اس نے کہا : میں روزے سے ہوں، تو عمار (رض) نے کہا : جس نے شک والے دن روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١١ (١٩٠٦) (تعلیقاً ) ، سنن ابی داود/الصوم ١٠ (٢٣٣٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٣ (٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣ (١٦٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٥٤) ، سنن الدارمی/الصوم ١ (١٧٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2188
شک کے دن کا روزہ
سماک کہتے ہیں : میں عکرمہ کے پاس ایک ایسے دن میں آیا جس کے بارے میں شک تھا کہ یہ رمضان کا ہے یا شعبان کا، وہ روٹی سبزی، اور دودھ کھا رہے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا : آؤ کھاؤ، تو میں نے کہا : میں روزے سے ہوں، تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! تم ضرور روزہ توڑو گے، تو میں نے دو مرتبہ سبحان اللہ کہا، اور جب میں نے دیکھا کہ وہ قسم پہ قسم کھائے جا رہے ہیں اور ان شاء اللہ نہیں کہہ رہے ہیں تو میں آگے بڑھا، اور میں نے کہا : اب لائیے جو آپ کے پاس ہے، انہوں نے کہا : میں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : روزہ رکھو (چاند) دیکھ کر، اور افطار کرو (چاند) دیکھ کر، اور اگر تمہارے اور چاند کے بیچ کوئی بدلی یا سیاہی حائل ہوجائے تو شعبان کی تیس کی گنتی پوری کرو، اور ایک دن پہلے روزہ رکھ کر مہینے کا استقبال مت کرو، اور نہ رمضان کو شعبان کے کسی دن سے ملاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2189
شک کے دن کس کے لئے روزہ رکھنا درست ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہتے تھے : سنو ! رمضان کے مہینہ سے ایک یا دو روز پہلے روزہ مت رکھو، البتہ جو شخص پہلے سے روزہ رکھتا رہا ہو تو وہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2190
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
( تابعی) سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں (رات کو) ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٧٤٢) (صحیح) (سعید بن مسیب تابعی کی یہ روایت مرسل ہے، جن کی مراسیل کو سب سے زیادہ صحیح مانا جاتا ہے، اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2191
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دئیے رمضان (کی راتوں میں) قیام کی ترغیب دیتے، آپ فرماتے : جس نے رمضان میں (رات کو) ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٤١١) ، مسند احمد ٦/٢٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2192
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں یہ بھی تھا کہ انہوں نے کہا : ـ آپ ﷺ لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دیئے رمضان (کی راتوں میں) قیام یعنی صلاۃ تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے، اور فرماتے : جس نے شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب چاہنے کے لیے قیام کیا، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ، رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے، اور معاملہ اسی پر قائم رہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٧١٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٩ (٩٢٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦١) ، مسند احمد ٦/٢٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تراویح واجب اور ضروری نہیں ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد لکن قوله متوفى الخ مدرج إنما هو من قول الزهري صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2193
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے بارے میں فرماتے سنا : جس نے اس میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، یعنی صلاۃ تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٣٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2194
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ آدھی رات کو نکلے تو مسجد میں نماز پڑھی۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے : اور رسول اللہ ﷺ انہیں بغیر تاکیدی حکم دیئے رمضان میں قیام اللیل کرنے یعنی تہجد پڑھنے کی ترغیب دلاتے تھے، اور فرماتے تھے : جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام اللیل کیا یعنی تراویح پڑھی تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٤٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2195
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے متعلق فرماتے سنا : جس نے اس میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام اللیل کی، یعنی تہجد پڑھی تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥١٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2196
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا یعنی تہجد پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥١٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2197
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ لوگوں کو بغیر کوئی تاکیدی حکم دئیے، رمضان میں قیام اللیل کی ترغیب دلاتے تھے، (اور) فرماتے : جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام اللیل کی، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ صلاة المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/ صلاة المسافرین ٣١٨ (١٣٧١) ، سنن الترمذی/ صلاة المسافرین ٨٣ (٨٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٠) ، موطا امام مالک/رمضان ١ (٢) ، مسند احمد ٢/٢٤١، ٢٨١، ٢٨٩، ٢٥٩، وراجع رقم : ١٦٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2198
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2199
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2200
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2201
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں روزے رکھے، (اور قتیبہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے مہینہ میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے، اور جو شب قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی، اس کے (بھی) پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٧) ، ٢٨ (٣٨) ، ولیلة القدر ١ (٢٠١٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٥٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٨ (١٣٧٢) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (٦٨٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ال صلاة ١٧٣ (١٣٢٦) ، والصوم ٢ (١٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٤٥) ، مسند احمد ٢/٢٣٢، ٢٤١، ٣٨٥، ٤٧٣، ٥٠٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2202
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھا تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2203
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھا، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2204
جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھا، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٨ (٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢ (١٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٥٣) ، مسند احمد ٢/٢٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2205
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابن ابی کثیر اور نضر بن شیبان پر راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کرے گا، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے، اور جو شب قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کرے گا اس کے (بھی) پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦ (١٩٠١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٥ (٧٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٢٤) ، مسند احمد ٢/٤٧٣، سنن الدارمی/الصوم ٥٤ (١٨١٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٣٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2206
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابن ابی کثیر اور نضر بن شیبان پر راویوں کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے مہینہ میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی، اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے، اور جو شب قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے (عبادت پر) کمربستہ ہوگا اس کے (بھی) پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٥٤١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2207
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابن ابی کثیر اور نضر بن شیبان پر راویوں کا اختلاف
نصر بن علی کہتے ہیں : مجھ سے نضر بن شیبان نے بیان کیا کہ وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے ملے، تو ان سے انہوں نے کہا : آپ نے ماہ رمضان کے سلسلے میں جو سب سے افضل قابل ذکر چیز سنی ہوا سے بیان کیجئے تو ابوسلمہ نے کہا : مجھ سے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو اسے تمام مہینوں میں افضل قرار دیا اور فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا، یعنی نماز تراویح پڑھی، تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے ہی نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ غلط ہے أبوسلمة حدثني عبدالرحمٰن کے بجائے صحیح أبوسلمة عن أبي هريرة ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٧٣ (١٣٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٢٩) ، مسند احمد ١/١٩١، ١٩٤، ١٩٥ (ضعیف) (اس کے راوی ” نضر بن شیبان “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2208
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابن ابی کثیر اور نضر بن شیبان پر راویوں کا اختلاف
اس سند سے بھی ابوسلمہ سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے اس میں من صامه وقامه إيمانا واحتسابا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2209
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابن ابی کثیر اور نضر بن شیبان پر راویوں کا اختلاف
نضر بن شیبان کہتے ہیں : میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے کہا کہ آپ مجھ سے ماہ رمضان کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کریں جو آپ نے اپنے والد (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) سے سنی ہو، اور اسے آپ کے والد نے رسول اللہ ﷺ سنا ہو، آپ کے والد اور رسول اللہ ﷺ کے بیچ کوئی اور حائل نہ ہو۔ انہوں نے کہا : اچھا سنو ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں، اور میں نے تمہارے لیے اس میں قیام کرنے کو سنت قرار دیا ہے اس میں جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھے گا اور (عبادت پر) کمربستہ ہوگا تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢١٠ (ضعیف) (اس کے راوی ” نضر “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2210
روزوں کی فضیلت
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ کہتا ہے : روزہ میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک جس وقت وہ روزہ کھولتا ہے، اور دوسری جس وقت وہ اپنے رب سے ملے گا، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٠١٦٦ (صحیح) (آگے آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” العلاء بن ھلال باھلی “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2211
روزوں کی فضیلت
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے : روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک وقت وہ اپنے رب سے ملے گا، اور دوسری خوشی وہ جو اسے روزہ کھولنے کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، حم ١/٤٤٦ (صحیح الإسناد) (یہ موقوف روایت مرفوع کے حکم میں ہے، اس لیے کہ کوئی صحابی خود سے غیب کی بات نہیں کہہ سکتا، جب کہ اس حدیث قدسی میں صائم کے اجر و ثواب کا ذکر ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2212
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے : روزہ میرے لیے ہے۔ اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں : ایک جب وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے، اور (دوسری) جب وہ (قیامت میں) اللہ سے ملے گا اور وہ اسے بدلہ دے گا تو وہ خوش ہوگا، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٢٧) ، مسند احمد ٣/٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2213
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :) روزہ میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، روزہ دار دو بار خوش ہوتا ہے : ایک اپنے روزے کو کھولنے کے وقت، اور دوسرے جس دن وہ اللہ سے ملے گا، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے یہاں مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٨٨٤، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٢ (١٨٩٤) ، ٩ (١٩٠٤) ، واللباس ٧٨ (٥٩٢٧) ، والتوحید ٣٥ (٧٤٩٢) ، ٥٠ (٧٥٣٨) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، سنن ابی داود/الصوم ٢٥ (٢٣٦٣) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٥ (٧٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ١ (١٦٣٨) ، موطا امام مالک/الصوم ٢٢ (٥٨) ، مسند احمد ٢/٢٣٢، ٢٥٧، ٢٦٦، ٢٧٣، ٢٩٣، ٣٥٢، ٣١٢، ٤٤٣، ٤٤٥، ٤٧٥، ٤٧٧، ٤٨٠، ٥٠١، ٥١٠، ٥١٦ (صحیح) (مؤلف کی اس سند میں ” منذر “ لین الحدیث ہیں، جن کی متابعت موجود ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2214
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن آدم جو بھی نیکی کرتا ہے ان اس کے لیے دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر لکھی جاتی ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، وہ اپنی شہوت اور اپنا کھانا پینا میری خاطر چھوڑتا ہے، روزہ ڈھال ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اسے اپنے افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اپنے رب سے ملنے کے وقت حاصل ہوگی، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، تحفة الأشراف : ١٢٣٤٠، مسند احمد ٢/٤٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2215
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو فحش گوئی نہ کرے، شور و شغب نہ کرے، اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے مار پیٹ کرے تو اس سے کہہ دے (بھائی) میں روزے سے ہوں، (مار پیٹ گالی گلوچ کچھ نہیں کرسکتا) اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے یہاں قیامت کے دن مشک کی بو سے زیادہ پاکیزہ ہوگی، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے : ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو اپنے روزہ کھولنے سے خوش ہوتا ہے، اور دوسری جب وہ اپنے بزرگ و برتر رب سے ملے گا تو اپنے روزہ (کا ثواب) دیکھ کر خوش ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٩ (١٩٠٤) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٠ (١١٥١) ، تحفة الأشراف : ٢٨٥٣، مسند احمد ٢ ٢٧٣، ٥١٦، ٦/٢٤٤، ویأتی عندالمؤلف بأرقام : ٢٢٣٠ و ٢٢٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2216
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہوتا ہے سوائے روزے کے، وہ خالص میرے لیے ہے، اور میں خود ہی اسے اس کا بدلہ دوں گا، روزہ ڈھال ہے، تو جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو فحش اور لایعنی بات نہ کرے، اور نہ ہی شور و غل مچائے، اگر کوئی اس سے گالی گلوچ کرے یا اس کے ساتھ مار پیٹ کرے تو اس سے کہے : میں روزہ دار آدمی ہوں (گالی گلوچ مار پیٹ نہیں کرسکتا) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بوسے زیادہ عمدہ ہے۔ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) سے سعید بن مسیب نے روایت کی ہے (جو آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2217
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آدمی کا ہر عمل اسی کے لیے ہے، سوائے روزہ کے وہ میرے لیے ہے، اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥١) ، تحفة الأشراف : ١٣٣٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2218
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ہر وہ نیکی جسے آدمی کرتا ہے تو اسے اس کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہے، سوائے روزے کے، روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٣٠٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2219
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابو امامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا حکم دیجئیے جسے میں آپ سے براہ راست اخذ کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے اوپر روزہ لازم کرلو کیونکہ اس کے برابر کوئی (عبادت) نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٦١) ، مسند احمد ٥/٢٤٨، ٢٤٩، ٢٥٥، ٢٥٧، ٢٥٨، ٢٦٤، وانظر الأرقام التالیة (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شہوت کے توڑنے اور نفس امارہ اور شیطان کے دفع کرنے کے سلسلہ میں روزے کے برابر کوئی عبادت نہیں، یا کثرت ثواب میں اس کے برابر کوئی عبادت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2220
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کسی ایسی چیز کا حکم دیجئیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچائے، آپ ﷺ نے فرمایا : روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی (عبادت) نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2221
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2222
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کسی کام کا حکم فرمایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس جیسا کوئی (عمل) نہیں ہے ۔ میں نے (پھر) عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کسی کام کا حکم دیجئیے ! آپ ﷺ نے فرمایا : روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2223
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الإیمان ٨ (٢٦١٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٢ (٣٩٧٣) ، مسند احمد ٥/٢٣١، ٢٣٧ (صحیح) (سند میں راوی میمون کثیر الارسال ہیں، لیکن ابوہریرہ رضی الله عنہ کے آگے آنے والی شاہد (٢٢٣٠، ٢٢٣١) سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2224
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (ابوہریرہ رضی الله عنہ کے آگے آنے والی شاہد (٢٢٣٠) سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جہنم کی آگ سے بچاؤ کرتا ہے یا شیطان کے وار اور گناہوں کے ارتکاب سے بچاتا ہے جیسے ڈھال دشمن کے وار سے بچاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2225
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
معاذ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١١٣٤٧ (صحیح) (سند میں راوی عروة بن نزال لین الحدیث ہیں، لیکن آگے آنے والے شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2226
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
شعبہ کہتے ہیں کہ حکم نے مجھ سے کہا کہ میں نے یہ حدیث ان سے یعنی معاذ بن جبل (رض) سے چالیس سال پہلے سنی تھی، پھر حکم نے کہا نیز مجھ سے اسے میمون بن ابی شبیب نے بیان کیا انہوں نے معاذ بن جبل (رض) سے روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٢٦ (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف راوی ہے، لیکن آگے آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2227
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2228
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : روزہ ڈھال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2229
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
بنی عامر بن صعصعہ کی اولاد میں سے مطرف نامی ایک شخص کہتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص (رض) نے ان کے لیے دودھ منگوایا تاکہ وہ انہیں پلائیں تو مطرف نے کہا : میں تو روزے سے ہوں۔ تو عثمان (رض) عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : روزہ ڈھال ہے جس طرح کہ لڑائی کے موقع پر تم میں سے کسی کے پاس ڈھال ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ١ (١٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧١) ، مسند احمد ٤/ ٢١، ٢٢، ٢١٧، ٢١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2230
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
مطرف کہتے ہیں کہ میں عثمان بن ابی العاص (رض) کے پاس آیا تو انہوں نے (میری ضیافت کے لیے) دودھ منگوایا، تو میں نے کہا : میں روزے سے ہوں، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : روزہ آگ سے بچاؤ کے لیے کی ڈھال ہے جس طرح کہ تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں دشمن کے وار سے بچاؤ کے لیے ڈھال ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2231
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
سعید بن ابی ہند کہتے ہیں کہ مطرف عثمان (رض) عنہ کے پاس آئے۔ آگے راوی نے اس طرح کی روایت بیان کی، یہ روایت مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٣٢ (صحیح) (مؤلف نے اسے مرسل کہا ہے، یعنی یہ موقوف ہے، اس معنی میں کہ عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف نسبت کئے بغیر ہی اسے موقوفاً روایت کیا ہے، نیز احتمال ہے کہ ارسال یہاں انقطاع کے معنی میں ہو کیونکہ مطرف کا عثمان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس میں سعید موجود تھے اس بارے میں عبداللہ بن سعید کی روایت صریح نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2232
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوعبیدہ عامر بن عبداللہ الجراح رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اسے (جھوٹ و غیبت وغیرہ کے ذریعہ) پھاڑ نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٠٤٧) ، مسند احمد ١/١٩٥، ١٩٦، یأتي عند المؤلف برقم ٢٢٣٧ (ضعیف) (اس کے رواة بشار اور عیاض دونوں لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2233
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : روزہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ڈھال ہے، جو شخص روزہ دار ہو کر صبح کرے تو وہ اس دن جہالت و نادانی کی کوئی بات نہ کرے، اور اگر کوئی شخص اس کے ساتھ جہالت و نادانی کی بات کرنے لگے تو اسے گالی نہ دے، برا بھلا نہ کہے۔ اس کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ اس سے کہے، (بھائی) میں روزے سے ہوں، (میں تم سے لڑائی جھگڑا نہیں کرسکتا) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی بو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٧٣٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2234
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوعبیدہ بن الجراح رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اسے پھاڑ نہ دے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٣٥ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2235
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : روزہ دار کے لیے جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، روزہ دار کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا، اور جب آخری روزہ دار دروازہ کے اندر پہنچ جائے گا تو دروازہ بند کردیا جائے گا، جو وہاں پہنچ جائے گا وہ پئے گا اور جو پئے گا، وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٦٧٩) ،، حم ٥/٣٣٣، ٣٣٥، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصوم ٤ (١٨٩٦) ، وبدء الخلق ٩ (٣٢٥٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٠ (١١٥٢) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٥ (٧٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2236
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
سہل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکار کر کہا جائے گا، روزہ دارو ! کہاں ہو ؟ کیا تمہیں ریان کی طرف آنے کی رغبت ہے ؟ جو شخص اس میں داخل ہوگا، اور (اس کے چشمے (ریان) کا پانی پئے گا) وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہوگا، جب وہ داخل ہوجائیں گے تو وہ بند کردیا جائے گا۔ اس دروازے سے روزہ دار کے سوا کوئی اور داخل نہ ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٤٧٩١ (صحیح الإسناد) (یہ حدیث مرفوعا متفق علیہ ہے، من دخله لم يظمأ أبدا مرفوع حدیث میں ثابت نہیں ہے، صحیح الترغیب ٩٦٩، تراجع الالبانی ٣٥١ ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف ق مرفوعا دون جملة الظمأ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2237
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا دے گا ١ ؎ اسے جنت میں بلا کر پکارا جائے گا، اے اللہ کے بندے ! یہ تیری نیکی ہے، تو جو شخص نمازی ہوگا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو مجاہدین میں سے ہوگا وہ جہاد والے دروازہ سے بلایا جائے گا، اور جو صدقہ دینے والوں میں سے ہوگا وہ صدقہ والے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو روزہ داروں میں سے ہوگا وہ باب ریان سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کسی کے لیے ضرورت تو ٢ ؎ نہیں کہ وہ ان سبھی دروازوں سے بلایا جائے، لیکن کیا کوئی ان سبھی دروازوں سے بھی بلایا جائے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤ (١٨٩٧) ، الجھاد ٣٧ (٢٨٤١) ، بدء الخلق ٦ (٣٢١٦) ، فضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٧ (١٠٢٧) ، سنن الترمذی/المناقب ١٦ (٣٦٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٧٩) موطا امام مالک/الجھاد ١٩ (٤٩) ، مسند احمد ٢/٢٦٨، ٣٦٦، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٤٤١، ٣١٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎:ـ مثلاً دو دینار، دو گھوڑے، دو کپڑے، دو روٹیاں، دو غلام اور دو لونڈیاں وغیرہ وغیرہ دے گا۔ ٢ ؎: کیونکہ ایک دروازے سے بلایا جانا جنت میں داخل ہونے کے لیے کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2238
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، اور ہم سب نوجوان تھے۔ ہم (جوانی کے جوش میں) کسی چیز پر قابو نہیں رکھ پاتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے نوجوانوں کی جماعت ! تم اپنے اوپر شادی کرنے کو لازم پکڑو کیونکہ یہ نظر کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے، اور جو نہ کرسکتا ہو (یعنی نان، نفقے کا بوجھ نہ اٹھا سکتا ہو) وہ اپنے اوپر روزہ لازم کرلے کیونکہ یہ اس کے لیے بمنزلہ خصی بنا دینے کے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٠ (١٩٠٥) ، ٣ (٥٠٦٦) ، صحیح مسلم/الصوم ١ (١٤٠٠) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (١٠٨١) ، تحفة الأشراف : ٩٣٨٥) ، مسند احمد ١/٥٩٢، حم ١/٣٧٨، ٤٢٤، ٤٢٥، ٤٣٢، سنن الدارمی/النکاح ٢ (٨٢١١) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٢٤٤، ٣٢١١، ٣٢١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2239
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
علقمہ سے روایت ہے کہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) ، عثمان (رضی اللہ عنہ) سے عرفات میں ملے، تو وہ انہیں لے کر تنہائی میں چلے گئے اور ان سے باتیں کیں، عثمان (رض) عنہ نے ابن مسعود (رض) سے کہا : کیا آپ کو کسی دوشیزہ کی خواہش ہے کہ میں آپ کی اس سے شادی کرا دوں ؟ تو عبداللہ بن مسعود (رض) نے علقمہ کو بھی بلا لیا (آجاؤ کوئی خاص بات نہیں ہے اور جب وہ آگئے) تو انہوں نے عثمان (رض) عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص تم میں سے نان و نفقہ کی طاقت رکھے اسے چاہیئے کہ وہ شادی کرلے کیونکہ یہ چیز نگاہ کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور جو طاقت نہ رکھے، تو اسے چاہیئے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کے لیے وجاء ہے (یعنی وہ اسے خصی بنا دے گا، اس کی شہوت کو توڑ دے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ١٠ (١٩٠٥) مختصراً ، النکاح ٢ (٥٠٦٥) ، صحیح مسلم/الصوم ١ (١٤٠٠) ، سنن ابی داود/النکاح ١ (٢٠٤٦) ، سنن الترمذی/الصوم ١ (١٠٨١) تعلیقًا، سنن ابن ماجہ/الصوم ١ (١٨٤٥) مطولًا، تحفة الأشراف : ٩٤١٧، مسند احمد ١/ ٣٧٨، ٤٤٧، سنن الدارمی/النکاح ٢ (٢٢١٢) ، ویأتي عند المؤلف ٣٢٠٩، ٣٢١٠، ٣٢١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2240
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تم میں سے نان و نفقہ کی طاقت رکھے، تو وہ شادی کرلے اور جو نہ رکھے، وہ اپنے اوپر روزہ لازم کرلے، کیونکہ یہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2241
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت ہے کہ ہم عبداللہ (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے اور ہمارے ساتھ علقمہ، اسود اور ایک جماعت تھی، تو انہوں نے ہم سے ایک حدیث بیان کی، اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے وہ حدیث میرے ہی لیے بیان کی تھی کیونکہ میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ نوعمر تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے نوجوانوں کی جماعت ! جو تم میں بیوی کے نان و نفقہ کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ یہ نگاہ کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والی ہے ۔ علی بن ہاشم (راوی) کہتے ہیں کہ اعمش سے ابراہیم والی روایت کے بارے میں پوچھا گیا، سائل نے پوچھا : عن إبراهيم عن علقمة عن عبداللہ اسی کے مثل مروی ہے، اعمش نے کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤١ (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” علا باہلی “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2242
حضرت ابوامامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف
علقمہ کہتے ہیں : میں ابن مسعود (رض) کے ساتھ تھا اور وہ عثمان (رض) عنہ کے پاس تھے تو ثمان (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص وسعت والا ہو وہ شادی کرلے۔ کیونکہ یہ چیز نگاہ کو نیچی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والی ہے، اور جو شخص ایسا نہ ہو تو روزہ اس کی شہوت کو کچل دینے کا ذریعہ ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : سند میں مذکور ابومعشر کا نام زیاد بن کلیب ہے، وہ ثقہ ہیں اور وہ ابراہیم (نخعی) کے تلامذہ میں سے ہیں، اور ان سے منصور، مغیرہ اور شعبہ نے روایت کی ہے۔ اور (ایک دوسرے) ابومعشر جو مدنی ہیں ان کا نام نجیح (نجیح بن عبدالرحمٰن سندی) ہے، وہ ضعیف ہیں، اور ضعف کے ساتھ اختلاط کا شکار ہوگئے تھے ان کے یہاں کچھ منکر احادیث بھی ہیں جن میں سے ایک وہ ہے جو انہوں نے محمد بن عمرو سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے ابوہریرہ (رض) سے، اور ابوہریرہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے وہ قبلہ ہے ١ ؎۔ نیز اسی میں سے ایک حدیث وہ ہے جو انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : گوشت چھری سے نہ کاٹو بلکہ نوچ نوچ کر کھاؤ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (لم يذكر المزي طرف الحديث في ترجمة أبي معشر زياد بن کليب عن إبراهيم عن علقمة عن ابن مسعود /تحفة الأشراف 6/ 363) حم ١/٥٨ ویأتی عند المؤلف ٣٢٠٨ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: أخرجه الترمذي (342) وابن ماجه (1011) (تحفة الأشراف 15124) (حافظ ابن حجر النکت الظراف میں لکھتے ہیں کہ خلیلی نے ارشاد میں ایک دوسرے طریقے سے اسے بسند ابو معشر عن ہشام عن ابیہ عن عائشہ روایت کیا ہے، اس حدیث میں ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن سندی ہیں، جو ضعیف راوی ہیں، اسی لیے حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں کہا : ضعیف أسن واختلط یعنی ضعیف ہیں، عمر دراز ہوئے اور اختلاط کا شکار ہوئے، اسی وجہ سے امام نسائی نے باب میں موجود ابو معشر زیاد بن کلیب کی توثیق کے بعد اسی کنیت کے دوسرے راوی یعنی نجیح بن عبدالرحمٰن سندی کا تذکرہ ان کی منکر احادیث کے ساتھ دیا تاکہ دونوں میں تمیز ہوجائے، اور یہ امام نسائی کی کتاب کی خوبی ہے کہ وہ اس طرح کے افادات رقم فرماتے ہیں، لیکن مذکور حدیث دوسرے طرق کی وجہ سے صحیح ہے، تفصیل کے ملاحظہ ہو : الإرواء : ٢٩٢ ) ٢ ؎: حدیث لأستغفرن لک ما لم أنه عنك اس کی تخریج ابوداؤد اور بیہقی نے سنن کبریٰ میں کی ہے، اور شیخ البانی نے اسے ضعیف الجامع ( ٦٢٥٦ ) میں داخل کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2243
جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی راہ (یعنی جہاد یا اس کے سفر) میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اسے اس دن کے بدلے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ٣ (١٦٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣٤ (١٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٦٢٤) حم ٢/٣٠٠، ٣٥٧ (صحیح) (مزی نے تحفة الاشراف میں ابن حیویہ کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اس حدیث کو مراسیل میں ذکر کیا ہے (١٨٦٢٤) اس لیے کہ اس کے نسخہ (ہ) میں ” عن أبي هريرة “ ساقط ہے، اور ابن الاحمر اور ابن سیار نیز سنن صغریٰ سب میں ” عن ابی ہریرة “ موجود ہے، اور مسند میں بھی ایسے ہی ہے) (ملاحظہ ہو : السنن الکبریٰ : ٢٥٦٤ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2244
جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس دن کے بدلے اس کے اور جہنم کی آگ کے درمیان ستر سال کی دوری کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٤٢٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2245
جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا اللہ عزوجل اسے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٢٦٥٩، مسند احمد ٢/٣٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2246
جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٤٠٧٨، مسند احمد ٣/٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2247
جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے بھی اللہ عزوجل کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ عزوجل اس دن کے بدلے اسے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٦ (٢٨٤٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٣١ (١١٥٣) ، سنن الترمذی/الجہاد ٣ (١٦٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣٤ (١٧١٧) ، تحفة الأشراف : ٤٣٨٨، مسند احمد ٣/٢٦، ٥٩، ٨٣، سنن الدارمی/الجہاد ١٠ (٢٤٤٤) ، و یأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٢٥١-٢٢٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2248
جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا، اللہ اسے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2249
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت سفیان ثوری پر راویوں کا اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے آگ سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2250
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت سفیان ثوری پر راویوں کا اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ بھی اللہ کی راہ میں کسی دن کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس دن کے بدلے اسے جہنم کی آگ سے ستر سال دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2251
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت سفیان ثوری پر راویوں کا اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے بدلے اس سے جہنم کی گرمی کو ستر سال کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2252
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت سفیان ثوری پر راویوں کا اختلاف
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس دن کے بدلے اس سے جہنم کی آگ کو ستر سال دور کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2253
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت سفیان ثوری پر راویوں کا اختلاف
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کو سو سال کی مسافت کی دوری پر کر دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٩٩٤٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2254
بحالت سفر روزہ رکھنے کے مکروہ ہونے سے متعلق
کعب بن عاصم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ١١ (١٦٦٤) ، مسند احمد ٥/٤٣٤، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2255
بحالت سفر روزہ رکھنے کے مکروہ ہونے سے متعلق
( تابعی) سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ غلط ہے، صحیح روایت وہ ہے جو پہلے گزری ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس پر ابن محمد بن کثیر کی متابعت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، جس کی وضاحت خود مؤلف نے کردی ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر اصل حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2256
اس سے متعلق تذکرہ کہ جس وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طریقہ سے ارشاد فرمایا اور حضرت جابر کی روایت میں محمد بن عبدالرحمن پر اختلاف
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو ایک شخص کو گھیرے ہوئے دیکھا، تو آپ ﷺ نے پوچھا : (کیا بات ہے ؟ کیوں لوگ اکٹھا ہیں ؟ ) تو لوگوں نے کہا : ایک شخص ہے جسے روزہ نے نڈھال کردیا ہے، تو آپ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی و تقویٰ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٠) ، مسند احمد ٣/٣٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2257
اس سے متعلق تذکرہ کہ جس وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طریقہ سے ارشاد فرمایا اور حضرت جابر کی روایت میں محمد بن عبدالرحمن پر اختلاف
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو ایک درخت کے سایہ میں بیٹھا ہوا تھا اور اس پر پانی چھڑکا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے پوچھا : تمہارے اس ساتھی کو کیا ہوگیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ روزہ دار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ نیکی و تقویٰ نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو، اللہ نے جو رخصت تمہیں دی ہے اسے قبول کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2258
اس سے متعلق تذکرہ کہ جس وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طریقہ سے ارشاد فرمایا اور حضرت جابر کی روایت میں محمد بن عبدالرحمن پر اختلاف
یحییٰ کہتے ہیں مجھے محمد بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، وہ کہتے ہیں : مجھ سے جس شخص نے جابر (رض) سے سنا ہے اسی طرح بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٥٩ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2259
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے، اللہ عزوجل کی دی گئی رخصت (اجازت) کو لازم پکڑو اور اسے قبول کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2260
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2261
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
محمد بن عبدالرحمٰن نے محمد بن عمرو بن حسن سے روایت کی، اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ سفر میں اس کے اوپر سایہ کیا گیا ہے، تو آپ نے فرمایا : سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٦ (١٩٤٦) ، صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٥) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٣ (٢٤٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٥) ، مسند احمد ٣/ ٢٩٩، ٣١٧، ٣١٩، ٣٩٨، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اوپر والی روایت میں مذکور عن رجل میں رجل سے مراد یہی محمد بن عمرو بن حسن ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2262
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال رمضان میں مکہ کے لیے نکلے، تو آپ نے روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع الغمیم پر پہنچے، تو لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا، تو آپ کو خبر ملی کہ لوگوں پر روزہ دشوار ہوگیا ہے، تو آپ نے عصر کے بعد پانی سے بھرا ہوا پیالہ منگایا، پھر پانی پیا، اور لوگ دیکھ رہے تھے، تو (آپ کو دیکھ کر) بعض لوگوں نے روزہ توڑ دیا، اور بعض رکھے رہ گئے، آپ کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ روزہ رکھے ہوئے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا ـ: یہی لوگ نافرمان ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٤) ، سنن الترمذی/الصوم ١٨ (٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2263
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مرالظہران (مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے) میں کھانا لایا گیا، تو آپ نے ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا : تم دونوں قریب آ جاؤ اور کھاؤ، انہوں نے عرض کیا : ہم روزہ سے ہیں، تو آپ نے لوگوں سے کہا : اپنے دونوں ساتھیوں کے کجاوے کس دو ، اور اپنے دونوں ساتھیوں کے کام کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : مسند احمد ٢/٣٣٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے سفر میں روزہ رکھنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ روزہ دار کو سہولت پہنچائی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2264
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر (رض) بھی تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا : آؤ کھانا کھاؤ یہ روایت مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، جیسا کہ مؤلف نے بیان فرمایا اس لیے ابوسلمہ تابعی نے صحابی کا ذکر نہیں کیا لیکن اصل حدیث سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2265
زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکر و عمر (رض) مرالظہران میں تھے یہ روایت مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر رقم ٢٢٦٦ (صحیح) (اس سند میں بھی ارسال ہے جیسا کہ اوپر والی روایت میں گزرا، لیکن اصل حدیث سے سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے، اور یہ واضح رہے کہ مؤلف (رح) اس طرح کی روایتوں کو ان کی علت اور ضعف بیان کرنے کے لیے کرتے ہیں، کبھی صراحة اور کبھی صحیح اور غیر صحیح روایات کو پیش کر کے ان کی اصل اور ان کے اختلافات کا تذکرہ کرتے ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2266
مسافر کے واسطے روزہ کے معاف ہونے سے متعلق
عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر سے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، آپ نے فرمایا : اے ابوامیہ ! (بیٹھو) صبح کے کھانے کا انتظار کرلو ، میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : آؤ میرے قریب آ جاؤ، میں تمہیں مسافر سے متعلق بتاتا ہوں، اللہ عزوجل نے اس سے روزے معاف کردیا ہے اور آدھی نماز بھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی سفر کی حالت میں مسافر پر روزہ رکھنا ضروری نہیں، قرار دیا، بلکہ اسے اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو روزہ رکھ لے (اگر اس کی طاقت پاتا ہے تو) یا چاہے تو ان کے بدلہ اتنے ہی روزے دوسرے دنوں میں رکھ لے، لیکن مسافر سے روزہ بالکل معاف نہیں ہے، ہاں چار رکعت والی نماز میں سے دو رکعت کی چھوٹ دی ہے، چاہے تو چار رکعت پڑھے اور چاہے تو دو رکعت، اور پھر اس کی قضاء نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2267
مسافر کے واسطے روزہ کے معاف ہونے سے متعلق
عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھ سے فرمایا : اے امیہ ! تم کیوں نہیں دوپہر کے کھانے کا انتظار کرلیتے ، میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں۔ تو آپ نے فرمایا : (میرے قریب) آ جاؤ۔ میں مسافر کے سلسلے میں تمہیں (شریعت کا حکم) بتاتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے اس سے روزہ کی چھوٹ دے دی ہے، اور نماز آدھی کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2268
مسافر کے واسطے روزہ کے معاف ہونے سے متعلق
ابوامیہ ضمری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر سے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، تو میں نے آپ کو سلام کیا، پھر جب میں نکلنے لگا تو آپ نے فرمایا : اے ابوامیہ ! دوپہر کے کھانے کا انتظار کرلو ۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں روزے سے ہوں، آپ نے فرمایا : آؤ میں تمہیں مسافر کے بارے میں بتاتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس سے روزے کی چھوٹ دے دی ہے، اور نماز آدھی کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠٨، سنن الدارمی/الصوم ١٦ (١٧٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2269
مسافر کے واسطے روزہ کے معاف ہونے سے متعلق
ابوالمہاجر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوامیہ یعنی ضمری (رض) نے بیان کیا ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2270
مسافر کے واسطے روزہ کے معاف ہونے سے متعلق
ابوقلابہ جرمی کا بیان ہے کہ ان سے ابوامیہ ضمری (رض) نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ نے ان سے کہا : ابوامیہ ! دوپہر کے کھانے کا انتظار کرلو (کھا کر چلے جانا) میں نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : قریب آؤ، میں مسافر کے بارے میں تمہیں بتاتا ہوں : اللہ نے اس سے روزے کی چھوٹ دے دی ہے، اور نماز آدھی کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2271
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ابوامیہ ضمری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ سفر سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور وہ روزے سے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا : (تم جانا چاہتے ہو) کیا، تم دوپہر کے کھانے کا انتظار نہیں کرو گے ، انہوں نے کہا : میں روزے سے ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آؤ میں روزے سے متعلق تمہیں بتاتا ہوں۔ اللہ عزوجل نے مسافر کو روزے کی چھوٹ دی ہے اور نماز آدھی کردی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2272
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ابوامیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سفر سے آئے، آگے راوی نے پوری روایت اسی طرح ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٠٩) (صحیح الإسناد ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2273
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
انس (قشیری) رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز اور روزے کی چھوٹ دی ہے اور، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی (روزے کی چھوٹ دی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٤٣ (٢٤٠٨) ، سنن الترمذی/الصوم ٢١ (٧١٥) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ١٢ (١٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٢) ، مسند احمد ٤/٣٤٧ و ٥/٢٩، وانظر الأرقام التالیة، ٢٢٧٧، إلی ٢٢٨٠، ٢٢٨٤، ٢٣١٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2274
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ایوب قبیلہ قشیر کے ایک شیخ سے، اور وہ قشیری اپنے چچا ١ ؎ سے روایت کرتے ہیں، (ایوب کہتے ہیں) ہم سے حدیث بیان کی گئی، پھر ہم نے انہیں (شیخ قشیری کو) ان کے اونٹوں میں پایا، تو ان سے ابوقلابہ نے کہا : آپ ان سے (ایوب سے) حدیث بیان کیجئے تو (قشیری) شیخ نے کہا : مجھ سے میرے چچا نے بیان کیا کہ وہ اپنے اونٹوں میں گئے، اور نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے، آپ کھانا کھا رہے تھے (راوی کو شک ہے یا ٔکل کہا یا یطعم کہا) آپ ﷺ نے فرمایا : قریب آؤ اور کھانا کھاؤ (راوی کو شک ہے ادن فکل کہا یا ادن فاطعم کہا) تو میں نے کہا : مںَ صائم ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز اور روزے کی چھوٹ دے دی ہے، اور حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٢٢٧٦ (حسن) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: ان کا نام انس بن مالک قشیری ہے۔ ٢ ؎: حاملہ اور مرضعہ کو روزے کی چھوٹ دی ہے، نہ کہ آدھی نماز کی، جیسا کہ متبادر ہو رہا ہے، ترمذی کی عبارت واضح ہے مسافر کو روزہ اور آدھی نماز کی چھوٹ دی ہے، اور حاملہ و مرضعہ کو روزے کی ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2275
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوقلابہ نے یہ حدیث بیان کی، پھر مجھ سے کہا : کیا آپ اس حدیث کے بیان کرنے والے سے ملنا چاہیں گے ؟ پھر انہوں نے ان کی طرف میری رہنمائی کی، تو میں جا کر ان سے ملا، انہوں نے کہا : مجھ سے میرے ایک رشتہ دار نے جنہیں انس بن مالک کہا جاتا ہے نے بیان کیا کہ میں اپنے اونٹوں کے سلسلے میں جو پکڑ لیے گئے تھے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، میں پہنچا تو آپ کھانا کھا رہے تھے، تو آپ نے مجھے اپنے کھانے میں شریک ہونے کے لیے بلایا۔ میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قریب آؤ میں تمہیں اس کے متعلق بتاتا ہوں، (سنو) اللہ تعالیٰ نے مسافر کو روزہ، اور آدھی نماز کی چھوٹ دی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم : ٢٢٧٦، ٢٢٧٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2276
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ایک صحابی کہتے ہیں : میں ایک ضرورت سے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اتفاق کی بات آپ اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ نے کہا : آؤ کھانا میں شریک ہوجاؤ، میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں، آپ نے فرمایا : آؤ میں تمہیں روزے کے متعلق بتاتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز اور روزے کی چھوٹ دی ہے، اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی چھوٹ دی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٧٦ و ٢٢٧٧ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اگر ان کے روزہ رکھنے سے پیٹ کے بچہ کو یا شیرخوار بچہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اوہ روزہ نہ رکھیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2277
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ابو العلاء بن شخیر بھی ایک شخص سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٧٦ (حسن ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2278
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ہانی بن شخیر بلحریش کے ایک شخص سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں مسافر تھا تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور میں روزے سے تھا، اور آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا : آؤ (کھانے میں شریک ہوجاؤ) میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں۔ آپ نے فرمایا : ادھر آؤ، کیا تمہیں اس چیز کا علم نہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسافر کو چھوٹ دی ہے ۔ میں نے کہا : اللہ نے مسافر کو کیا چھوٹ دی ہے ؟ آپ نے فرمایا : روزے کی، اور آدھی نماز کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٥٣٥٣ (صحیح) (سابقہ متابعت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ھانی بن الشخیر “ لین الحدیث ہیں، نیز اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے ) وضاحت : ١ ؎: بلحریش بنی الحریش کا مخفف ہے جیسے بلحارث بنی الحارث کا مخفف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2279
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
ہانی بن عبداللہ بن شخیر بلحریش کے ایک شخص سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا ہم سفر کرتے رہے، پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ نے فرمایا : آؤ کھانا کھاؤ، میں نے عرض کیا : میں روزے سے ہوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں روزے کے متعلق بتاتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزے کی چھوٹ دی ہے، اور آدھی نماز کی بھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (دیکھئے پچھلی روایت پر کلام ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2280
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مسافر تھا، رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ کھانا کھا رہے تھے اور میں روزے سے تھا، آپ نے فرمایا : آؤ (کھانا کھالو) میں نے کہا : میں روزے سے ہوں۔ آپ نے فرمایا : کیا تمہیں وہ چیز معلوم ہے جس کی اللہ نے مسافر کو چھوٹ دی ہے ؟ ، میں نے کہا : کس چیز کی اللہ تعالیٰ نے مسافر کو چھوٹ دی ہے ؟ ، آپ ﷺ نے فرمایا : روزے اور آدھی نماز کی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٨١ (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ھانی “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2281
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف
غیلان کہتے ہیں : میں ابوقلابہ کے ساتھ ایک سفر میں نکلا (کھانے کے وقت) انہوں نے کھانا میرے آگے بڑھایا تو میں نے کہا : میں تو روزے سے ہوں، اس پر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں نکلے، آپ نے کھانا آگے بڑھاتے ہوئے ایک شخص سے کہا : قریب آ جاؤ کھانا کھاؤ، اس نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا ـ: اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے آدھی نماز کی اور سفر میں روزے کی چھوٹ دی ہے ۔ تو اب آؤ کھاؤ، تو میں قریب ہوگیا، اور کھانے لگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٧٦ (صحیح) (سند میں ضعف ارسال کی وجہ سے ہے، اس لیے کہ ابو قلابہ نے راوی صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے، متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2282
بحالت سفر روزہ نہ رکھنے کی فضیلت سے متعلق
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، ہم میں سے کچھ لوگ روزہ رکھے ہوئے تھے اور کچھ لوگ بغیر روزے کے تھے، ہم نے ایک گرم دن میں پڑاؤ کیا، اور ہم (چھولداریاں اور خیمے لگا لگا کر) سایہ کرنے لگے، تو روزہ دار (سخت گرمی کی تاب نہ لا کر) گر گرپڑے، اور روزہ نہ رہنے والے اٹھے، اور انہوں نے سواریوں کو پانی پلایا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج غیر روزہ دار ثواب مار لے گئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجھاد ٧١ (٢٨٩٠) ، صحیح مسلم/الصوم ١٦ (١١١٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2283
دوران سفر روزہ رکھنا ایسا ہے کہ جس طریقہ سے مکان میں بغیر روزہ کے رہنا
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں : کہا جاتا ہے سفر میں روزہ رکھنا ایسا ہے جیسے حضر میں افطار کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ١١ (١٦٦٦) مرفوعا (ضعیف) (ابوسلمہ کا اپنے والد ” عبدالرحمن بن عوف “ سے سماع نہیں ہے (لیکن حمید کا سماع ہے، ان کی روایت آگے آرہی ہے، اور ابن ماجہ کی روایت جو مرفوعاً ہے اس میں یہی انقطاع ہے، نیز اس میں ایک ضعیف راوی بھی ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2284
دوران سفر روزہ رکھنا ایسا ہے کہ جس طریقہ سے مکان میں بغیر روزہ کے رہنا
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں : سفر میں روزہ رکھنے والا ایسا ہی ہے جیسے حضر میں روزہ نہ رکھنے والا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی روایت پر کلام ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2285
دوران سفر روزہ رکھنا ایسا ہے کہ جس طریقہ سے مکان میں بغیر روزہ کے رہنا
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں : سفر میں روزہ رکھنے والا حضر میں افطار کرنے والے کی طرح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٧١٩۔ ألف) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس طرح حضر میں افطار کرنا گناہ ہے اس طرح سفر میں روزہ رکھنا بھی باعث گناہ ہے، مگر یہ صحابی کا قول ہے جو حدیث رسول ﷺ کے مخالف ہے (یعنی مسافر کو چھوٹ ہے چاہے رکھے، چاہے نہ رکھے اور قضاء کرے) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2286
بحالت سفر روزہ رکھنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے مہینے میں سفر پر نکلے، تو آپ روزے سے رہے۔ یہاں تک کہ آپ قدید پہنچے، تو آپ کے سامنے دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، تو آپ نے پیا، اور آپ نے اور آپ کے صحابہ نے روزہ توڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٤٧٩) ، مسند احمد ١/٢٤٤، ٣٤١، ٣٤٤، ٣٥٠ (صحیح) (آنے والی احادیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎: قدید مدینہ سے سات منزل کی دوری پر عسفان کے قریب ایک گاؤں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2287
بحالت سفر روزہ رکھنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں روزہ رکھا، (اور چلے) یہاں تک کہ آپ قدید آئے، پھر آپ نے روزہ توڑ دیا، اور مکہ پہنچنے تک بغیر روزہ کے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ٦٣٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2288
بحالت سفر روزہ رکھنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ قدید آئے، پھر آپ نے دودھ کا ایک پیالہ منگایا اور (اسے) پیا، اور آپ نے اور آپ کے اصحاب نے روزہ توڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2289
راوی حدیث منصور کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے لیے نکلے، آپ روزہ رکھے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ آپ عسفان ١ ؎ پہنچے، تو ایک پیالہ منگایا اور پیا۔ شعبہ کہتے ہیں : یہ واقعہ رمضان کے مہینے کا ہے، چناچہ ابن عباس (رض) کہتے تھے : سفر میں جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ١٠ (١٦٦١) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٦٤٢٥) ، مسند احمد ١/٣٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عسفان کے پاس ہی قدید ہے، یہ واقعہ وہی ہے جس کا تذکرہ اوپر روایتوں میں ہے، کسی راوی نے قدید کہا اور کسی نے عسفان۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2290
راوی حدیث منصور کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں سفر کیا، اور آپ روزہ رکھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ عسفان پہنچے تو آپ نے ایک برتن منگایا، تو دن ہی میں پی لیا، لوگ اسے دیکھ رہے تھے، پھر آپ بغیر روزہ کے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٨ (١٩٤٨) ، صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٣) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٢ (٢٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٩، مسند احمد ١/٢٥٩، ٢٩١، ٣٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2291
راوی حدیث منصور کے اختلاف سے متعلق
عوام بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ سفر میں روزہ رکھتے تھے اور نہیں بھی رکھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٢ (صحیح) (اس کے راوی عوام ضعیف ہیں، لیکن اگلی سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اپنی آسانی دیکھ کر جیسا مناسب سمجھے کرے، اللہ نے نہ رکھنے کی رخصت دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2292
راوی حدیث منصور کے اختلاف سے متعلق
مجاہد کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے مہینے میں روزے رکھے، اور سفر میں بغیر روزے کے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٢ (صحیح) (یہ سند مرسل ہے، اس لیے کہ تابعی مجاہد نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن متابعت کی بنا پر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2293
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : چاہو تو روزہ رکھو، اور چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٧ (١١٢١) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٢ (٢٤٠٢) ، مسند احمد ٣/٤٩٤، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧١٤) ، وانظر الأرقام التالیة إلی ٢٣٠٧، وأیضاً رقم ٢٣٠٨-٢٣١٠ (صحیح) (مؤلف کی اس سند میں ” سلیمان “ اور ” حمزہ “ رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن حدیث رقم ٢٣٠٤ کی سند متصل ہے، نیز اس کی دیگر سند میں بھی متصل ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2294
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آگے اوپر والی حدیث کے مثل ہے اور یہ حدیث مرسل ٢ ؎ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٢٢٩٦ (مرسل ) وضاحت : ١ ؎: مرسل سے مراد منقطع ہے کیونکہ سلیمان بن یسار اور حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ کے درمیان ابو مرواح کا واسطہ چھوٹا ہوا ہے جیسا کہ حدیث نمبر ٢٣٠٤ (جو آگے آرہی ہے) کی سند سے واضح ہے (واللہ اعلم) ۔ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2295
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم روزہ رکھنا چاہو تو رکھو اور اگر نہ رکھنا چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2296
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم روزہ رکھنا چاہو تو رکھو، اور اگر نہ رکھنا چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2297
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں سفر میں اپنے اندر روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں (تو کیا میں روزہ رکھوں ؟ ) آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2298
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا : تو آپ نے فرمایا : اگر رکھنا چاہو تو رکھو، اور اگر نہ رکھنا چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2299
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسلسل روزہ رکھتا تھا، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سفر میں مسلسل روزہ رکھوں ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2300
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں مسلسل روزہ رکھنے والا آدمی ہوں تو کیا میں سفر میں بھی برابر روزہ رکھوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2301
حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا وہ ایک ایسے آدمی تھے جو سفر میں روزہ رکھتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2302
حضرت حمزہ کی روایت میں حضرت عروہ پر اختلاف
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : میں اپنے اندر سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہوں، تو کیا (اگر میں روزہ رکھوں تو) مجھ پر گناہ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اللہ عزوجل کی جانب سے رخصت ہے، تو جس نے اس رخصت کو اختیار کیا تو یہ اچھا ہے، اور جو روزہ رکھنا چاہے تو اس پر کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2303
اس حدیث شریف میں حضرت ہشام بن عروہ پر اختلاف سے متعلق
حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میں سفر روزہ میں رکھوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2304
اس حدیث شریف میں حضرت ہشام بن عروہ پر اختلاف سے متعلق
حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں روزہ رکھنے والا آدمی ہوں، کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2305
اس حدیث شریف میں حضرت ہشام بن عروہ پر اختلاف سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٣ (١٩٤٣) ، صحیح مسلم/الصوم ١٧ (١١٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٦٢، موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢٤) ، مسند احمد ٦/٤٦، ٩٣، ٢٠٢، ٢٠٧، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ١٧ (١١٢١) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٢ (٢٤٠٢) ، سنن الترمذی/الصوم ١٩ (٧١١) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ١٠ (١٦٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2306
اس حدیث شریف میں حضرت ہشام بن عروہ پر اختلاف سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سفر میں روزہ رکھوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٢٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2307
اس حدیث شریف میں حضرت ہشام بن عروہ پر اختلاف سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا وہ ایک ایسے آدمی تھے جو مسلسل روزہ رکھتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو، اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ١٩ (٧١١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2308
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابونضرہ پر اختلاف سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رمضان میں (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) سفر کرتے تھے۔ ہم میں سے کوئی روزہ سے ہوتا تھا، اور کوئی بغیر روزہ کے، اور روزہ دار روزہ نہ رکھنے والوں کو عیب کی نظر سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ رکھنے والے کو معیوب سمجھتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٦) ، سنن الترمذی/الصوم ١٩ (٧١٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٢٥) ، مسند احمد ٣/١٢، ٤٥، ٥٠، ٧٤، ٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2309
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابونضرہ پر اختلاف سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے، تو ہم میں بعض روزہ دار ہوتے تھے اور بعض بغیر روزہ کے، اور روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے کو عیب کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا، اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار کو عیب کی نظر سے دیکھتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٦) ، سنن الترمذی/الصوم ١٩ (٧١٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٣٤٤) ، مسند احمد ٣/١٢، ٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2310
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابونضرہ پر اختلاف سے متعلق
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا تو ہم میں سے بعض نے روزہ رکھے اور بعض نے نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٧) ، (تحفة الأشراف : ٣١٠٢) ، مسند احمد ٣/٣١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2311
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابونضرہ پر اختلاف سے متعلق
ابو سعید خدری اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا، تو روزہ رکھنے والا روزہ رکھتا، اور نہ رکھنے والا کھاتا پیتا، اور روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے کو معیوب نہیں سمجھتا، اور روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار کو معیوب نہیں سمجھتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2312
مسافر کے واسطے ماہ رمضان المبارک میں اس کا اختیار ہے کہ وہ کچھ دن روزہ رکھے اور کچھ دن نہ رکھے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں فتح مکہ کے سال روزہ کی حالت میں نکلے۔ یہاں تک کہ جب کدید ١ ؎ میں پہنچے تو آپ نے روزہ توڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٣٤ (١٩٤٤) ، الجہاد ١٠٦ (٢٩٥٣) ، المغازي ٤٨ (٤٢٧٥، ٤٢٧٦) ، صحیح مسلم/الصوم ١٥ (١١١٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٤٣) ، موطا امام مالک/الصیام ٧ (٢١) ، مسند احمد ١ (٢١٩، ٢٦٦، ٣١٥، ٣٣٤، ٣٤٨، ٣٦٦، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کَدِید یا قدید یہ دونوں مقامات عسفان کے پاس ہیں، اس لیے رواۃ کبھی عسفان کہتے ہیں اور کبھی قدید اور کبھی کَدِید، واقعہ ایک ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2313
جو کوئی ماہ رمضان المبارک میں روزہ رکھے پھر وہ سفر کرے تو روزہ توڑ سکتا ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر کیا تو روزہ رکھا یہاں تک کہ عسفان پہنچے، پھر آپ نے (پانی سے بھرا) ایک برتن منگایا، اور دن ہی میں پیا، تاکہ لوگ آپ کو دیکھ لیں، پھر آپ بغیر روزہ کے رہے، یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ تو آپ نے مکہ کو رمضان میں فتح کیا۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا، اور روزہ توڑ بھی دیا ہے، تو جس کا جی چاہے روزہ رکھے، اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2314
حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ کی معافی سے متعلق احادیث
انس بن مالک (قشیری) رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : آؤ کھانا کھاؤ۔ انہوں نے عرض کیا : میں روزہ دار ہوں، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : اللہ عزوجل نے مسافر کو روزہ کی، اور آدھی نماز کی چھوٹ دے دی ہے، نیز حاملہ اور مرضعہ کو بھی روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ دی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2315
آیت کریمہ|" وَعَلَی الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکِينٍ يُطِيقُونَهُ|" کی تفسیر کا بیان
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ : وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں (اور وہ روزہ نہ رکھنا چاہیں) تو ان کا فدیہ یہ ہے کہ کسی مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائیں (البقرہ : ١٨٤ ) نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص چاہتا کہ وہ افطار کرے (کھائے پئے) اور فدیہ دیدے (تو وہ ایسا کرلیتا) یہاں کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی تو اس نے اسے منسوخ کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٢٦ (٤٥٠٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٥ (١١٥٥) ، سنن ابی داود/الصوم ٢ (٢٣١٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٧٥ (٧٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٤) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٩ (١٧٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعد والی آیت سے مراد سورة البقرہ کی یہ آیت ہے فمن شہد منکم الشھر فلیصمہ یعنی تم میں سے جو بھی آدمی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2316
آیت کریمہ|" وَعَلَی الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکِينٍ يُطِيقُونَهُ|" کی تفسیر کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ : وعلى الذين يطيقونه میں يطيقونه کی تفسیر میں کہتے ہیں معنی یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کے مکلف ہیں، (تو ہر روزہ کے بدلے) ان پر ایک مسکین کے دونوں وقت کے کھانے کا فدیہ ہے، (اور جو شخص ازراہ ثواب و نیکی و بھلائی) ایک سے زیادہ مسکین کو کھانا دے دیں تو یہ منسوخ نہیں ہے، (یہ اچھی بات ہے، اور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ روزہ ہی رکھے جائیں) یہ رخصت صرف اس شخص کے لیے ہے جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، یا بیمار ہو اور اچھا نہ ہو پا رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرالبقرة ٢٥ (٤٥٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٣ (٢٣١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2317
حائضہ کیلئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت
معاذہ عدویہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا عورت جب حیض سے پاک ہوجائے تو نماز کی قضاء کرے ؟ انہوں نے کہا : کیا تو حروریہ ١ ؎ ہے ؟ ہم عورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حیض سے ہوتی تھیں، پھر ہم پاک ہوتیں تو آپ ہمیں روزہ کی قضاء کا حکم دیتے تھے، اور نماز کی قضاء کے لیے نہیں کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حروریۃ حروراء کی طرف منسوب ہے، جو کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے، چونکہ خوارج یہیں جمع تھے اس لیے اسی کی طرف منسوب کر کے حروری کہلاتے تھے، یہ لوگ حیض کے دنوں میں فوت شدہ نمازوں کی قضاء کو واجب قرار دیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2318
حائضہ کیلئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھ پر رمضان کے روزہ ہوتے تھے تو میں قضاء نہیں کر پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان آجاتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٤٠ (١٩٥٠) ، صحیح مسلم/الصوم ٢٦ (١١٤٦) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٠ (٢٣٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ١٣ (١٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٧) ، موطا امام مالک/الصوم ٢٠ (٥٤) ، مسند احمد ٦/١٢٤، ١٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2319
جس وقت کوئی خاتون حیض سے پاک ہوجائے یا سفر سے رمضان میں کوئی مسافر واپس آجائے اور رمضان کا دن باقی ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
محمد بن صیفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کے دن فرمایا : کیا تم میں سے کسی نے آج کے دن کھایا ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن ہوں نے روزہ رکھا ہے، اور کچھ لوگوں نے نہیں رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنا باقی دن (بغیر کھائے پیئے) پورا کرو ١ ؎، اہل عروض ٢ ؎ کو خبر کرا دو کہ وہ بھی اپنا باقی دن (بغیر کھائے پئے) پورا کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ٤١ (١٧٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٥) ، مسند احمد ٤/٣٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اپنا باقی دن بغیر کھائے پیئے پورا کرو، اسی جملہ سے ترجمۃ الباب پر استدلال ہے، اس میں روزہ رکھنے والوں اور روزہ نہ رکھنے والوں دونوں کو اتمام کا حکم ہے۔ ٢ ؎: عروض کا اطلاق مکہ، مدینہ اور اس کے اطراف پر ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2320
اگر رات میں روزہ کی نیت نہیں کی تو کیا دن میں نفلی روزہ رکھنا درست ہے؟
سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے کہا : لوگوں میں عاشوراء کے دن اعلان کر دو : جس نے کھالیا ہے وہ باقی دن (بغیر کھائے پیئے) پورا کرے، اور جس نے نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٢١ (١٩٢٤) ، ٦٩ (٢٠٠٧) ، أخبارالآحاد (٧٢٦٥) ، صحیح مسلم/الصوم ٢١ (١١٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٨) ، مسند احمد ٤/٤٧، ٤٨، سنن الدارمی/الصوم ٤٦ (١٧٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2321
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے پاس آئے، اور پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے ؟ تو میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو میں روزہ سے ہوں ، اس دن کے بعد پھر ایک دن آپ میرے پاس سے گزرے، اس دن میرے پاس تحفہ میں حیس ١ ؎ آیا ہوا تھا، میں نے اس میں سے آپ کے لیے نکال کر چھپا رکھا تھا، آپ کو حیس بہت پسند تھا، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے حیس تحفے میں دیا گیا ہے، میں نے اس میں سے آپ کے لیے چھپا کر رکھا ہے، آپ نے فرمایا : لاؤ حاضر کرو، اگرچہ میں نے صبح سے ہی روزہ کی نیت کر رکھی ہے (مگر کھاؤ گا) تو آپ ﷺ نے کھایا، پھر فرمایا : نفلی روزہ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنے مال میں سے (نفلی) صدقہ نکالتا ہے، جی چاہا دے دیا، جی چاہا نہیں دیا، روک لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٦ (١٧٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٧٨) ، مسند احمد ٦/٤٩، ٢٠٧، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٢ (١١٥٤) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٢ (٢٤٥٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٥ (٢٣٤) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: حیس ایک کھانا ہے جو کھجور، پنیر، گھی اور آٹے سے بنایا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2322
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ گھوم کر میرے پاس آئے اور پوچھا : تمہارے پاس کوئی چیز (کھانے کی) ہے ؟ میں نے عرض کیا، میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو میں روزہ رکھ لیتا ہوں ، پھر ایک اور بار میرے پاس آئے، اس وقت ہمارے پاس حیس ہدیہ میں آیا ہوا تھا، تو میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئی تو آپ نے اسے کھایا، تو مجھے اس بات سے حیرت ہوئی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہمارے پاس آئے تو روزہ سے تھے پھر بھی آپ ﷺ نے حیس کھالیا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں عائشہ ! جس نے کوئی روزہ رکھا لیکن وہ روزہ رمضان کا یا رمضان کی قضاء کا نہ ہو، یا نفلی روزہ ہو تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنے مال میں سے (نفلی) صدقہ نکالا، پھر اس میں سے جتنا چاہا سخاوت کر کے دے دیا اور جو بچ رہا بخیلی کر کے اسے روک لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اس سے نفلی روزے کے توڑنے کا جواز ثابت ہوا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نفلی روزہ توڑ دینے پر اس کی قضاء واجب نہیں، جمہور کا مسلک یہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2323
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تھے اور پوچھتے تھے : کیا تمہارے پاس کھانا ہے ؟ میں کہتی تھی : نہیں، تو آپ فرماتے تھے : میں روزہ سے ہوں ، ایک دن آپ ہمارے پاس تشریف لائے، اس دن ہمارے پاس حیس کا ہدیہ آیا ہوا تھا، آپ نے کہا : کیا تم لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ ہم نے کہا : جی ہاں ہے، ہمارے پاس ہدیہ میں حیس آیا ہوا ہے، آپ نے فرمایا : میں نے صبح روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تھا ، پھر آپ نے (اسے) کھایا۔ قاسم بن یزید نے ان کی یعنی ابوبکر حنفی کی مخالفت کی ہے ١ ؎، (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٢٤ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سند میں مخالفت اس طرح ہے کہ ابوبکر والی روایت میں طلحہ بن یحییٰ اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے درمیان مجاہد کا واسطہ ہے اور قاسم کی روایت میں عائشہ بنت طلحہ کا، نیز دونوں روایتوں کے متن کے الفاظ بھی مختلف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2324
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، ہم نے عرض کیا : ہمارے پاس حیس کا تحفہ بھیجا گیا، ہم نے اس میں آپ کا (بھی) حصہ لگایا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں روزہ سے ہوں ، پھر آپ نے روزہ توڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٢ (١١٥٤) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٢ (٢٤٥٥) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٥ (٧٣٣، ٧٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٢) ، مسند احمد ٦/٤٩، ٢٠٧ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2325
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آتے تھے اور آپ روزہ سے ہوتے تھے (اس کے باوجود) پوچھتے تھے : تمہارے پاس رات کی کوئی چیز ہے جسے تم مجھے کھلا سکو ؟ ہم کہتے نہیں۔ تو آپ ﷺ فرماتے : میں نے روزہ رکھ لیا پھر اس کے بعد ایک بار آپ ان کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا : ہمارے پاس ہدیہ آیا ہوا ہے آپ نے پوچھا : کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : حیس ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے صبح روزہ کا ارادہ کیا تھا پھر آپ نے کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٢٧ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2326
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا : تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے ؟ ہم نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : تو میں روزہ سے ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٢٧ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2327
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو میں روزہ سے ہوں ، پھر آپ ایک اور دن تشریف لائے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ہدیہ میں حیس آیا ہوا ہے، تو آپ نے اسے منگوایا، اور فرمایا : میں نے صبح روزہ کی نیت کی تھی ، پھر آپ نے کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٢٤ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2328
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
مجاہد اور ام کلثوم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے، اور ان سے پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ آگے اسی طرح ہے جیسے اس سے پہلی روایت میں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اور اسے سماک بن حرب نے بھی روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : مجھ سے ایک شخص نے روایت کی اور اس نے عائشہ بنت طلحہ سے روایت کی ہے (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٢٤ (حسن ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2329
روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحیٰی کے متعلق اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ آئے اور پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر تو میں روزہ رکھ لیتا ہوں ، پھر دوسری بار آپ میرے پاس تشریف لے آئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے پاس حیس کا ہدیہ آیا ہوا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : تب تو میں آج روزہ توڑ دوں گا حالانکہ میں نے روزہ کی نیت کرلی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٨٨٤) (صحیح) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2330
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص طلوع فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٧١ (٢٤٥٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٣٣ (٧٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٦ (١٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٢) ، مسند احمد ٦/٢٨٧، سنن الدارمی/الصوم ١٠ (١٧٤٠) ، وانظر الأرقام التالیة إلی ٢٣٤٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم فرض روزوں کے سلسلہ میں ہے یا قضاء اور کفارہ کے روزوں کے سلسلہ میں، نفلی روزے کے لیے رات میں نیت ضروری نہیں، جیسا کہ ابھی عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے معلوم ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2331
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہیں کی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2332
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص روزہ کا پختہ ارادہ طلوع فجر سے پہلے نہ کرلے تو وہ روزہ نہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2333
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے روزہ کی نیت رات ہی میں نہ کرلی ہو تو اس کا روزہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2334
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ جس نے رات ہی میں روزہ کی پختہ نیت نہ کرلی ہو تو وہ روزہ نہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2335
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اس شخص کا روزہ نہیں جو فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت نہ کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2336
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : اس شخص کا روزہ نہیں جو فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت نہ کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2337
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اس شخص کا روزہ نہیں جو فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت نہ کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2338
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اس شخص کا روزہ نہیں جو فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت نہ کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2339
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اس شخص کا روزہ نہیں جو فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت نہ کرلے۔ مالک بن انس نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مالک نے اسے من قطعاً روایت کیا ہے، کیونکہ زہری نے عائشہ رضی الله عنہا کو نہیں پایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2340
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
ام المؤمنین عائشہ و ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہما سے اسی کے مثل روایت ہے کہ صرف وہی شخص روزہ رکھے جو فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت کرلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2341
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آدمی نے رات ہی میں روزہ کی پختہ نیت نہ کی ہو تو وہ روزہ نہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2342
حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے کہ روزہ صرف وہی رکھے جس نے فجر سے پہلے روزہ کی پختہ نیت کرلی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2343
حضرت داؤد کے روزہ سے متعلق
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل کو روزوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ روزے داود (علیہ السلام) کے تھے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے، اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نماز بھی داود (علیہ السلام) کی نماز تھی، وہ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات قیام کرتے تھے، اور رات کے چھٹویں حصہ میں پھر سوتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2344
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ حضر میں ہوں یا سفر میں ایام بیض میں بغیر روزہ کے نہیں رہتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٤٧٠) (حسن) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٥٨٠، وتراجع الالبانی ٤٠٤ ) وضاحت : ١ ؎: قمری مہینہ کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو ایام بیض (روشن راتوں والے دن) کہا جاتا ہے، کیونکہ ان راتوں میں چاند ڈوبنے کے وقت سے لے کر صبح تک پوری رات رہتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2345
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے : آپ روزے رکھنا بند نہیں کریں گے، اور آپ بغیر روزے کے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزے رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اور آپ جب سے مدینہ آئے رمضان کے علاوہ آپ نے کسی بھی مہینہ کے مسلسل روزے نہیں رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٣ (١٩٧١) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٢ (٢٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣٠ (١٧١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٧) ، مسند احمد ١/٢٢٧، ٢٣١، ٢٤١، ٢٧١، ٣٠١، ٣٢١ سنن الدارمی/الصوم ٣٦ (١٧٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2346
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزہ سے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے : آپ بغیر روزہ کے رہیں گے ہی نہیں، اور بغیر روزہ کے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٦٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2347
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم ﷺ نے کبھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی میں یہ جانتی ہوں کہ آپ نے کبھی پوری رات صبح تک قیام کیا ہو، اور نہ ہی میں یہ جانتی ہوں کہ رمضان کے علاوہ آپ نے کبھی کوئی پورا مہینہ روزہ رکھا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2348
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ کے روزوں کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ (برابر) روزہ ہی رکھا کریں گے، اور آپ افطار کرتے (روزہ نہ رہتے) تو ہم کہتے کہ آپ برابر بغیر روزہ کے رہیں گے، رسول اللہ ﷺ نے مدینہ آنے کے بعد سوائے رمضان کے کبھی کوئی پورا مہینہ روزہ نہیں رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٤ (١١٥٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٧ (٧٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2349
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک روزہ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ مہینہ شعبان کا تھا، بلکہ آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٥٦ (٢٤٣١) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٨٠) ، مسند احمد ٦/١٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2350
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے سے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ بغیر روزے کے نہیں رہیں گے، اور بغیر روزہ کے رہتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٢ (١٩٦٩) ، صحیح مسلم/الصیام ٣٤ (١١٥٦) ، سنن ابی داود/الصیام ٥٩ (٢٤٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧١٠) ، موطا امام مالک/الصوم ٢ (٥٦) ، مسند احمد ٦/١٠١، ١٥٣، ٢٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2351
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سوائے شعبان اور رمضان کے مسلسل دو مہینے روزہ نہیں رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2352
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سال کے کسی بھی مہینہ میں پورا روزہ نہیں رکھتے تھے سوائے شعبان کے، آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٧٨ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2353
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی بھی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ شعبان کے پورے یا اکثر دن روزہ رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2354
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پورے شعبان روزہ رکھتے تھے سوائے چند دنوں کے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٧٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2355
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پورے شعبان روزہ رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2356
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا : رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٠) ، مسند احمد ٥/٢٠١ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2357
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ روزہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ روزہ بند ہی نہیں کریں گے، اور بغیر روزہ کے رہتے ہیں یہاں تک کہ لگتا ہے کہ روزہ رکھیں گے ہی نہیں سوائے دو دن کے۔ کہ اگر وہ آپ کے روزہ کے درمیان میں آگئے (تو ٹھیک ہے) اور اگر نہیں آئے تو بھی آپ ان میں روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا : وہ دو دن کون ہیں ؟ میں نے عرض کیا : وہ پیر اور جمعرات کے دن ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دو دن وہ ہیں جن میں اللہ رب العالمین کے سامنے ہر ایک کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٩) ، مسند احمد ٥/٢٠١، ٢٠٦، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٠ (٢٤٣٦) ، سنن الدارمی/الصوم ٤١ (١٧٩١) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2358
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ برابر روزہ رکھتے جاتے تھے، یہاں تک کہ کہا جانے لگتا کہ آپ بغیر روزہ کے رہیں گے ہی نہیں، اور (مسلسل) بغیر روزہ کے رہتے یہاں تک کہ کہا جانے لگتا کہ آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٤) ، مسند احمد ٥/٢٠١ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2359
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو شنبہ (پیر) اور جمعرات کے روزہ کا اہتمام فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2360
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن (کے روزہ) کا اہتمام فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2361
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن (کے روزہ) کا اہتمام فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٥٦) ، مسند احمد ٦/٨٠، ١٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2362
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن (کے روزہ) کا اہتمام فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2363
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦١٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2364
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین دن روزہ رکھتے تھے : پہلے ہفتہ کے دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو، اور دوسرے ہفتہ کے دوشنبہ (پیر) کو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨١٦١) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن لکن الأصح بلفظ وخميس صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2365
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے کی جمعرات اور دوشنبہ (پیر) کو اور دوسرے ہفتہ کے دوشنبہ (پیر) کو روزہ رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٩ (٢٤٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٦) ، مسند احمد ٦/٢٨٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2366
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنے دائیں گال کے نیچے رکھ لیتے، اور دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨١١) حم ٦/٢٨٧ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2367
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے کے ابتدائی تین دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ جمعہ کے دن روزہ سے نہ رہے ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٨ (٢٤٥٠) ، سنن الترمذی/الصوم ٤١ (٧٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٣٧ (١٧٢٥) مختصرا (تحفة الأشراف : ٩٢٠٦) ، مسند احمد ١/٤٠٦ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: صحیح بخاری کی ایک حدیث (صوم/ ١٩٨٤ ) میں خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے صراحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے، تو اس حدیث کا مطلب بقول حافظ ابن حجر یہ ہے کہ اگر ان تین ایام بیض میں جمعہ آپڑتا تو جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کے وجہ سے آپ روزہ نہیں توڑتے تھے، بلکہ رکھ لیتے تھے، ممانعت تو خاص ایک دن جمعہ کو روزہ رکھنے کی ہے، یا بقول حافظ عینی : ایک دن آگے یا پیچھے ملا کر جمعہ کو روزہ رکھتے تھے، لیکن قابل قبول توجیہ حافظ ابن حجر کی ہی ہے، کیونکہ آپ تین دن ایام بیض کے روزہ تو رکھتے ہی تھے، اور پھر دو دن جمعہ کی مناسبت سے بھی رکھتے ہوں، یہ کہیں منقول نہیں ہے، یا پھر یہ کہا جائے کہ خاص اکیلے جمعہ کے دن کی ممانعت امت کے لیے ہے، اور روزہ رکھنا آپ ﷺ کی خصوصیت تھی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2368
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چاشت کی دونوں رکعتوں کا حکم دیا، اور یہ کہ میں وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں، اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کروں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢١٩٠) ، مسند احمد ٢/٣٣١ ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٤٠٧، ٢٤٠٨، ٢٤٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2369
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان سے عاشوراء کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا : مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی دن کا روزہ اور دنوں سے بہتر جان کے رکھا ہو، سوائے اس دن کے، یعنی ماہ رمضان کے اور عاشوراء کے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٦) ، صحیح مسلم/الصوم ١٩ (١١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٦) ، مسند احمد ١/٢١٣، ٢٢٢، ٣٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2370
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو عاشوراء کے دن منبر پر کہتے سنا : اے مدینہ والو ! تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس دن میں کہتے ہوئے سنا کہ میں روزہ سے ہوں تو جو روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٦٩ (٢٠٠٣) ، صحیح مسلم/الصوم ١٩ (١١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٠٨) ، موطا امام مالک/الصوم ١١ (٣٤) ، مسند احمد ٤/٩٥، ٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2371
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روزہ! میرے والدین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
نبی اکرم ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ (ام المؤمنین رضی الله عنہا) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عاشوراء کے روز، ذی الحجہ کے نو دنوں میں، ہر مہینے کے تین دنوں میں یعنی : مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو اور پہلے اور دوسرے جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦١ (٢٤٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٩٧) ، مسند احمد ٥/٢٧١، ٦/٢٨٨، ٢٨٩، ٣١٠، ٤٢٣، یأتی عند المؤلف فی باب ٨٣ بأرقام : ٢٤١٩، ٢٤٢٠، ٢٤٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2372
زیر نظر حدیث شریف میں عطاء راوی پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزے رکھے، تو اس نے روزے ہی نہیں رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٣٣٠، ٨٦٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2373
زیر نظر حدیث شریف میں عطاء راوی پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے نہ روزے رکھے، اور نہ افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2374
زیر نظر حدیث شریف میں عطاء راوی پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزے رکھے تو اس نے روزے ہی نہیں رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2375
زیر نظر حدیث شریف میں عطاء راوی پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے ہی نہیں رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2376
زیر نظر حدیث شریف میں عطاء راوی پر اختلاف
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے نہ تو روزے ہی رکھے اور نہ ہی کھایا پیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٧ (١٩٧٧) ، ٥٩ (١٩٧٩) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٧ (٧٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٨ (١٧٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٥، ٨٩٧٢) ، مسند احمد ٢/١٦٤، ١٨٨، ١٨٩، ١٩٠، ١٩٩، ٢١٢، ٣٢١، ویأتی عند المؤلف ٢٣٩٩ إلی ٤٢٠٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سند میں مبہم راوی ابو العباس الشاعر ہیں جن کے نام کی صراحت اگلی روایت میں آئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2377
زیر نظر حدیث شریف میں عطاء راوی پر اختلاف
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو خبر ملی کہ میں روزہ رکھتا ہوں، پھر مسلسل روزہ رکھتا ہوں، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ عطاء نے کہا : مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے صیام ابد کا ذکر کیسے کیا، مگر اتنا یاد ہے کہ انہوں نے یوں کہا : اس شخص نے صیام (روزے) نہیں رکھے جس نے ہمیشہ صیام (روزے) رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2378
ہمیشہ (بلا ناغہ) روزہ رکھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! فلاں شخص کبھی دن کو افطار نہیں کرتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے نہ روزہ رکھا، نہ افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥٨) ، مسند احمد ٤/٤٢٦، ٤٣١، ٤٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2379
ہمیشہ (بلا ناغہ) روزہ رکھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور آپ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا تھا جو ہمیشہ روزہ رکھتا تھا تو آپ نے فرمایا : اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٨ (١٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٥٠) ، مسند احمد ٥/٢٤، ٢٥، ٢٦، سنن الدارمی/الصوم ٣٧ (١٧٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2380
ہمیشہ (بلا ناغہ) روزہ رکھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صیام الدھر رکھنے والے کے بارے میں فرمایا : نہ اس نے روزہ رکھا، اور نہ ہی افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2381
زیر نظر حدیث شریف میں راوی غیلان پر اختلاف
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تو ہم سب کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا، (اس کے بارے میں) لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! یہ شخص ایسا ہے جو اتنی مدت سے افطار نہیں کر رہا ہے (یعنی برابر روزے رکھ رہا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : نہ اس نے روزہ رکھا، نہ ہی افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٥) (صحیح) (اگلی روایت سے تقویت پا کر یہ بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابو ہلال راسبی “ ذرا کمزور راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2382
زیر نظر حدیث شریف میں راوی غیلان پر اختلاف
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہوگئے، عمر (رض) نے کہا : ہم اللہ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر، راضی ہیں، نیز آپ سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا : اس نے نہ روزہ رکھا، نہ ہی افطار کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٦ (١١٦٢) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٣ (٢٤٢٦) ، سنن الترمذی/الصوم ٥٦ (٧٦٧) ، (سنن ابن ماجہ/الصوم ٣١ (١٧١٣) ، ٤٠ (١٧٣٠) ، ٤١ (١٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢١١٧) ، مسند احمد ٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٢٩٧، ٢٩٩، ٣٠٣، ٣٠٨، ٣١٠، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٣٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2383
پے درپے روزے رکھنے سے متعلق حدیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں ایک ایسا آدمی ہوں جو مسلسل روزے رکھتا ہو، تو کیا سفر میں بھی روزہ رکھ سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر چاہو تو رکھو اور اگر چاہو تو نہ رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ١٧ (١١٢١) ، سنن ابی داود/الصوم ٤٢ (٢٤٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٥٧) ، سنن الدارمی/الصوم ١٥ (١٧٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2384
دو دن روزہ رکھنا اور ایک دن ناغہ کرنا
عمرو بن شرجبیل ایک صحابی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا گیا : ایک آدمی ہے جو ہمیشہ روزے رکھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میری خواہش ہے کہ وہ کبھی کھاتا ہی نہیں ١ ؎، لوگوں نے عرض کیا : دو تہائی ایام رکھے تو ؟ ٢ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی زیادہ ہے ، لوگوں نے عرض کیا : اور آدھا رکھے تو ؟ ٣ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی زیادہ ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اتنے روزوں نہ بتاؤں جو سینے کی سوزش کو ختم کردیں، یہ ہر مہینے کے تین دن کے روزے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ دن میں نہ رات میں یہاں تک کہ بھوک سے مرجائے، اس سے مقصود اس کے اس عمل پر اپنی ناگواری کا اظہار ہے اور یہ بتانا ہے کہ یہ ایک ایسا مذموم عمل ہے کہ اس کے لیے بھوک سے مرجانے کی تمنا کی جائے۔ ٢ ؎: یعنی دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے تو کیا حکم ہے ؟ ٣ ؎: یعنی ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے تو کیا حکم ہے ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2385
دو دن روزہ رکھنا اور ایک دن ناغہ کرنا
عمرو بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو صیام الدھر رکھے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تو یہ چاہوں گا کہ کبھی کچھ کھائے ہی نہ ، اس نے کہا : اس کا دو تہائی رکھے تو ؟ آپ نے فرمایا : زیادہ ہے ، اس نے کہا : آدھے ایام رکھے تو ؟ آپ نے فرمایا : زیادہ ہے ، پھر آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو سینے کی سوزش کو ختم کر دے ، لوگوں نے کہا : جی ہاں (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا : یہ ہر مہینے میں تین دن کا روزہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2386
دو دن روزہ رکھنا اور ایک دن ناغہ کرنا
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو صیام الدھر رکھتا ہو ؟ آپ نے فرمایا : اس نے نہ روزے رکھے، اور نہ ہی افطار کیا ۔ (راوی کو شک ہے لاصيام ولا أفطر کہا، یا لم يصم ولم يفطر کہا، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا اس کی کوئی طاقت رکھتا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : (اچھا) اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے ، انہوں نے کہا : اس شخص کا معاملہ کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے ؟ آپ نے فرمایا : میری خواہش ہے کہ میں اس کی طاقت رکھوں ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھنا، اور رمضان کے روزے رکھنا یہی صیام الدھر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2387
ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزوں میں سب سے افضل داود (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے، اور ایک دن افطار کرتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٨ (١٩٧٨) ، و فضائل القرآن ٣٤ (٥٠٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٩١٦) ، مسند احمد ٢/١٥٨، ١٨٨، ١٩٢، ٢١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2388
ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے؟
مجاہد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو (رض) نے کہا : میرے والد نے میری شادی ایک اچھے خاندان والی عورت سے کردی، چناچہ وہ اس کے پاس آتے، اور اس سے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھتے، تو (ایک دن) اس نے کہا : یہ بہترین آدمی ہیں ایسے آدمی ہیں کہ جب سے میں ان کے پاس آئی ہوں، انہوں نے نہ ہمارا بستر روندا ہے اور نہ ہم سے بغل گیر ہوئے ہیں، عمرو بن العاص (رض) نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : اسے میرے پاس لے کر آؤ ، میں والد کے ساتھ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا : تم کس طرح روزے رکھتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : ہر روز، آپ نے فرمایا : ہفتہ میں تین دن روزے رکھا کرو ، میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : اچھا دو دن روزہ رہا کرو اور ایک دن افطار کرو ، میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اچھا سب سے افضل روزے رکھے کرو جو داود (علیہ السلام) کے روزے ہیں، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2389
ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے میری شادی ایک عورت سے کردی، وہ اس سے ملاقات کے لیے آئے، تو اس سے پوچھا : تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا ؟ اس نے کہا : کیا ہی بہترین آدمی ہیں نہ رات میں سوتے ہیں اور نہ دن میں کھاتے پیتے ہیں، ١ ؎ تو انہوں نے مجھے سخت سست کہا اور بولے : میں نے تیری شادی ایک مسلمان لڑکی سے کی ہے، اور تو اسے چھوڑے رکھے ہے۔ میں نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اس لیے کہ میں اپنے اندر قوت اور (نیکیوں میں) آگے بڑھنے کی صلاحیت پاتا تھا، یہ بات نبی اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : میں رات میں قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، تو تم بھی قیام کرو اور سوؤ بھی۔ اور روزہ رکھو اور افطار بھی کرو، ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : تو پھر تم صیام داودی رکھا کرو، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کھاؤ پیو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : ہر مہینہ ایک مرتبہ قرآن پڑھا کرو ، پھر آپ (کم کرتے کرتے) پندرہ دن پر آ کر ٹھہر گئے، اور میں کہتا ہی رہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٩٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی رات میں قیام کرتے ہیں اور دن میں روزے سے رہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2390
ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے حجرے میں داخل ہوئے اور فرمایا : کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، ہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا : تم ایسا ہرگز نہ کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، روزہ سے بھی رہو اور کھاؤ پیو بھی، کیونکہ تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، اور تمہارے بدن کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے دوست کا تم پر حق ہے، توقع ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو، تمہارے لیے بس اتنا کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو، یہی صیام الدھر ہوگا کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، میں نے عرض کیا : میں اپنے اندر طاقت پاتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کردی گئی، آپ نے فرمایا : ہر ہفتے تین دن روزہ رکھا کرو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کردی گئی، آپ نے فرمایا : تم اللہ کے نبی داود (علیہ السلام) کے روزے رکھو ، میں نے کہا : داود (علیہ السلام) کا روزہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک دن روزہ ایک دن افطار ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٤ (١٩٧٤) مختصراً ، ٥٥ (١٩٧٥) ، الأدب ٨٤ (٦١٣٤) ، النکاح ٨٩ (٥١٩٩) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٠) ، مسند احمد ٢/١٨٨، ١٩٨، ٢٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2391
ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا گیا کہ میں کہتا ہوں کہ میں جب تک زندہ رہوں گا ہمیشہ رات کو قیام کروں گا، اور دن کو روزہ رکھا کروں گا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : تم ایسا کہتے ہو ؟ میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جی ہاں میں نے یہ بات کہی ہے، آپ نے فرمایا : تم ایسا نہیں کرسکتے، تم روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، اور مہینے میں تین دن روزہ رکھو کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، اور یہ صیام الدھر (پورے سال کے روزوں) کے مثل ہے ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو ، پھر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : اچھا ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو، یہ داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے، یہ بہت مناسب روزہ ہے ، میں نے کہا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : اس سے بہتر کچھ نہیں ۔ عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں : اگر میں نے مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کی رسول اللہ ﷺ کی بات قبول کرلی ہوتی تو یہ میرے اہل و عیال اور میرے مال سے میرے لیے زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٦ (١٩٧٦) ، الأنبیاء ٣٨ (٣٤١٨) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، سنن ابی داود/الصوم ٥٣ (٢٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2392
ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے؟
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس آیا۔ میں نے عرض کیا : چچا جان ! رسول اللہ ﷺ نے آپ سے جو کہا تھا اسے مجھ سے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا : بھتیجے ! میں نے پختہ عزم کرلیا تھا کہ میں اللہ کی عبادت کے لیے بھرپور کوشش کروں گا یہاں تک کہ میں نے کہہ دیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، اور ہر روز دن و رات قرآن پڑھا کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے اسے سنا تو میرے پاس تشریف لائے یہاں تک کہ گھر کے اندر میرے پاس آئے، پھر آپ نے فرمایا : مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے کہا ہے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور قرآن پڑھوں گا ؟ میں نے عرض کیا : ہاں اللہ کے رسول ! میں نے ایسا کہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا مت کرو (بلکہ) ہر مہینے تین دن روزہ رکھ لیا کرو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : ہر ہفتہ سے دو دن دوشنبہ (پیر) اور جمعرات کو روزہ رکھ لیا کرو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : داود (علیہ السلام) کا روزہ رکھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سب سے زیادہ بہتر اور مناسب روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے، اور وہ جب وعدہ کرلیتے تو وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے، اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تھی تو بھاگتے نہیں تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٩٣ (منکر) (جمعرات اور سوموار کا تذکرہ منکر ہے، باقی حصے صحیح ہیں ) قال الشيخ الألباني : منکر بزيادة الموعد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2393
روزوں میں کمی بیشی سے متعلق احادیث مبارکہ کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ایک دن روزہ رکھ تمہیں باقی دنوں کا ثواب ملے گا ۔ انہوں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : دو دن روزہ رکھ تمہیں باقی دنوں کا اجر ملے گا ، انہوں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تین دن روزہ رکھو اور باقی دنوں کا ثواب ملے گا ۔ انہوں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : چار دن روزہ رکھو اور تمہیں باقی دنوں کا بھی اجر ملے گا، انہوں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو پھر داود (علیہ السلام) کے روزے رکھو جو اللہ کے نزدیک سب سے افضل روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٩٦) ، مسند احمد ٢/٢٠٥، ٢٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2394
روزوں میں کمی بیشی سے متعلق احادیث مبارکہ کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے روزہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : ہر دس دن پر ایک دن روزہ رکھو، تمہیں ان باقی نو دنوں کا اجر و ثواب ملے گا ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : ہر نو دن پر ایک دن روزہ رکھو اور تمہیں ان آٹھ دنوں کا بھی ثواب ملے گا ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : ہر آٹھ دن پر ایک دن روزہ رکھ اور تجھے باقی سات دنوں کا بھی ثواب ملے گا ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ برابر اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٩٧١) ، مسند احمد ٢ ٢٢٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2395
روزوں میں کمی بیشی سے متعلق احادیث مبارکہ کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک دن روزہ رکھ تمہیں دس دن کا ثواب ملے گا ، میں نے عرض کیا : میرے لیے کچھ اضافہ فرما دیجئیے، آپ نے فرمایا : دو دن روزہ رکھ تمہیں نو دن کا ثواب ملے گا ، میں نے عرض کیا : میرے لیے کچھ اور بڑھا دیجئیے، آپ نے فرمایا : تین دن روزہ رکھ لیا کرو تمہیں آٹھ دن کا ثواب ملے گا ۔ ثابت کہتے ہیں : میں نے مطرف سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا : میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ کام میں تو بڑھ رہے ہیں لیکن اجر میں گھٹتے جا رہے ہیں، یہ الفاظ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٦٥٥، مسند احمد ٢/١٦٥، ٢٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2396
ہر مہینے میں دس روزے رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے خبر ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو، اور دن کو روزہ رکھتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اس سے خیر کا ارادہ کیا ہے، آپ نے فرمایا : جس نے ہمیشہ کا روزہ رکھا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا، لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہمیشہ کا روزہ کیا ہے ؟ یہ مہینہ میں صرف تین دن کا روزہ ہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : پانچ دن رکھ لیا کرو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : تو دس دن رکھ لیا کرو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : تم داود (علیہ السلام) کے روزے رکھا کرو ، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2397
ہر مہینے میں دس روزے رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٩ و ٢٣٩٠ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2398
ہر مہینے میں دس روزے رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : عبداللہ بن عمرو ! تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات میں کرتے ہو، جب تم ایسا کرو گے تو آنکھیں اندر کو دھنس جائیں گی اور نفس تھک جائے گا، جو ہمیشہ روزہ رہے گا اس کا روزہ نہ ہوگا، ہر مہینے میں تین دن کا روزہ پورے سال کے روزہ کے برابر ہے ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : صوم داود رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے، اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تو بھاگتے نہیں تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2399
ہر مہینے میں دس روزے رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : قرآن ایک مہینہ میں پڑھا کرو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، اور پھر میں برابر آپ سے مطالبہ کرتا رہا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : پانچ دن میں پڑھا کرو، اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھو ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو میں برابر آپ سے مطالبہ کرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : داود (علیہ السلام) کا روزہ رکھو، جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے، اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2400
ہر مہینے میں دس روزے رکھنے کا بیان
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو خبر ملی کہ میں روزہ رکھتا ہوں اور مسلسل رکھتا ہوں، اور رات میں نماز تہجد پڑھتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلا بھیجا، یا آپ ان سے ملے تو آپ نے فرمایا : کیا مجھے خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم (ہمیشہ) روزہ رکھتے ہو، اور کبھی بغیر روزہ کے نہیں رہتے، اور رات میں تہجد کی نماز پڑھتے ہو، تم ایسا نہ کرو کیونکہ تمہاری آنکھ کا بھی ایک حصہ ہے، اور تمہارے نفس کا بھی ایک حصہ ہے، تمہاری بیوی کا بھی ایک حصہ ہے، تم روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی، ہر دس دن میں ایک دن روزہ رکھو، تمہیں باقی نو دنوں کا بھی ثواب ملے گا ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : پھر تو تم روزہ داود رکھا کرو ، پوچھا : اللہ کے نبی ! داود (علیہ السلام) کے روزہ کیسے ہوا کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تو بھاگتے نہیں تھے ، انہوں نے کہا : کون ایسا کرسکتا ہے ؟ اللہ کے نبی !۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٢٣٩٠ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد ق نحوه دون قوله قال ومن لي صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2401
ہر ماہ پانچ روزے رکھنے سے متعلق احادیث
ابوقلابۃ ابوالملیح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں تمہارے والد زید کے ساتھ عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس آیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے میرے روزہ کا ذکر کیا گیا تو آپ میرے پاس تشریف لائے، میں نے آپ کے لیے چمڑے کا ایک درمیانی تکیہ لا کر رکھا جس کا بھراؤ کھجور کی پیتاں تھیں، آپ زمین پر بیٹھ گئے، اور تکیہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا ہر مہینے میں تین دن تمہارے روزہ کے لیے کافی نہیں ہیں ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! (کچھ بڑھا دیجئیے) آپ نے فرمایا : پانچ دن کرلو ، میں نے پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! (کچھ بڑھا دیجئیے) آپ نے فرمایا : سات دن کرلو ، میں نے پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کچھ اور بڑھا دیجئیے ! آپ نے فرمایا : نو دن ، میں نے پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! (کچھ اور بڑھا دیجئیے) تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : گیارہ دن کرلو ، میں نے پھر عرض کیا : اللہ کے رسول ! (کچھ بڑھا دیجئیے) آپ نے فرمایا : داود (علیہ السلام) کے روزہ سے بڑھ کر کوئی روزہ نہیں ہے، اور وہ اس طرح ہے ایک دن روزہ رکھا جائے، اور ایک دن بغیر روزہ کے رہا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصوم ٥٩ (١٩٨٠) ، الاستئذان ٣٨ (٦٢٧٧) ، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2402
ہر ماہ چار روزے رکھنا
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مہینے میں ایک دن روزہ رکھو تمہیں باقی دنوں کا ثواب ملے گا ، میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : دو دن رکھ لیا کر، تجھے باقی دنوں کا ثواب مل جایا کرے گا ، میں نے کہا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : تو تین دن رکھ لیا کرو تمہیں باقی دنوں کا بھی اجر ملا کرے گا ، میں نے کہا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو آپ نے فرمایا : چار دن رکھ لیا کرو باقی دنوں کا بھی اجر بھی تمہیں ملا کرے گا ، میں نے عرض کیا : میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل روزہ داود (علیہ السلام) کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2403
ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق احادیث شریفہ
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میرے حبیب ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی ہے میں انہیں ان شاء اللہ کبھی چھوڑ نہیں سکتا : آپ نے مجھے صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھنے کی وصیت کی، اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی، اور ہر مہینے تین دن روزہ رکھنے کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٩٧٠) ، مسند احمد ٥/١٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق دون قوله لا أدعهن أبدا وعند خ معناه صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2404
ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق احادیث شریفہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین چیزوں کا حکم دیا ہے : وتر پڑھ کر سونے کا، جمعہ کے دن غسل کرنے کا ١ ؎، اور ہر مہینے تین دن روزہ رکھنے کا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧١ (منکر) (جمعہ کے غسل کا تذکرہ منکر ہے، صحیح ” چاشت کی صلاة “ ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہی ٹکڑا منکر ہے، صحیح صلاۃ الضحیٰ چاشت کی نماز ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : منکر بذکر الغسل والمحفوظ صلاة الضحى صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2405
ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق احادیث شریفہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) دو رکعتیں پڑھنے کا، اور بغیر وتر پڑھے نہ سونے کا، اور ہر مہینے تین دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2406
ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق احادیث شریفہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وتر پڑھ کر سونے، جمعہ کے دن غسل کرنے، اور ہر مہینے تین دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧١ (منکر ) قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2407
حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف
ابوعثمان سے روایت ہے کہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : صبر کے مہینے کے، اور ہر مہینے سے تین دن کے روزے صوم الدهر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٦٢١) ، مسند احمد ٢/٢٦٣، ٣٨٤، ٥١٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صبر کے مہینہ سے مراد رمضان کا مہینہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2408
حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مہینے کے تین دن روزہ رکھے تو گویا اس نے صوم الدهر رکھے ، پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سچ فرمایا ہے : من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها جو کوئی ایک نیکی لائے گا اسے دس گنا ثواب ملے گا (الانعام : ١٦٠ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٤ (٧٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٩ (١٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٦٧) ، مسند احمد ٥/١٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2409
حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف
ابوعثمان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جس نے ہر مہینے میں تین روزہ رکھے تو اس نے (گویا) پورے مہینے کے روزہ رکھے ، یا یہ (فرمایا) : اس کے لیے پورے مہینے کے روزہ کا ثواب ہے ، عاصم راوی کو یہاں شک ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، مگر ابو عثمان نہدی کا براہ راست سماع ابو ذر رضی الله عنہ سے ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2410
حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف
عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ہر مہینے کے تین دن کے روزہ بہترین روزہ ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٢) ، مسند احمد ٤/٢١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2411
حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف
اس سند سے سعید بن ابی ہند نے روایت کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص (رض) نے اسی طرح کہا ہے، اور یہ مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (ضعیف) (مؤلف نے اسے مرسل کہا ہے، مرسل ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے مگر پچھلی روایت مرفوع متصل ہے ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2412
حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٦٨٥) ، مسند احمد ٢/٩٠ (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة اور شریک قاضی ضعیف ہیں، لیکن آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2413
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے، مہینے کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور اس کے بعد کے قریبی جمعرات کو، پھر اس کے بعد کے جمعرات کو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2414
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
ہنیدہ خزاعی کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین کے پاس آیا، اور میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے تین دن روزہ رکھتے تھے۔ مہینے کے پہلے کہ دوشنبہ (پیر) کو، پھر جمعرات کو، پھر اس کے بعد کے آنے والے جمعرات کو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨١٤) (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2415
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ چار باتیں ایسی ہیں جنہیں نبی اکرم ﷺ نہیں چھوڑتے تھے : ١ - عاشوراء کے روزے کو ٢ - ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے روزے کو ١ ؎ ٣ - ہر مہینہ کے تین روزے ٤ - اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں کو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٨١٣) ، مسند احمد ٦/٢٨٧ (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو اسحاق اشجعی “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں، ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اس سے خارج ہے کیونکہ یوم النحر کو روزے رکھنا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2416
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ذی الحجہ کے نو روزے، عاشوراء کے دن (یعنی دسویں محرم کو) اور ہر مہینے میں تین روزے رکھتے ١ ؎ ہر مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور دوسرا اس کے بعد والی جمعرات کو، پھر اس کے بعد والی جمعرات کو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٤ (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے ) وضاحت : ١ ؎: پہلی تاریخ سے لے کر نویں تاریخ تک۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2417
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
نبی اکرم ﷺ کی ایک بیوی کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (ذی الحجہ کے پہلے) عشرہ میں روزے رکھتے تھے، اور ہر مہینہ میں تین دن : دوشنبہ (پیر) اور (دو ) جمعرات کو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٤ (صحیح) (” الخمیسین “ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا ) قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ الخميسين صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2418
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر مہینے میں تین دن۔ ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو، اور دو اس کے بعد والے دو شنبہ (پیر) کو پھر اس کے بعد والے دوشنبہ (پیر) کو روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٧٤ (شاذ) (” حکم دیتے تھے “ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ یہ ہے کہ آپ خود روزے رکھتے تھے ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے دوشنبہ (پیر) کو مکرر رکھنے کا حکم دیا اور اس سے پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ آپ جمعرات کو مکرر رکھتے تھے، ان دونوں روایتوں کے ملانے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مطلوب ان دونوں دنوں میں تین دن روزے ہیں، خواہ وہ دوشنبہ (پیر) کو مکرر کر کے ہوں یا جمعرات کو، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2419
ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں؟
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر مہینے میں تین دن کا روزے پورے سال کا روزے ہے (یعنی ایام بیض کے روزے) اور ایام بیض (چاند کی) تیرہویں چودہویں اور پندرہویں راتیں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٢٢٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: انہیں ایام بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی راتیں چاندنی کی وجہ سے سفید اور روشن ہوتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2420
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بھنا ہوا خرگوش لے کر آیا، اور اسے آپ کے سامنے رکھ دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے آپ کو روکے رکھا خود نہیں کھایا، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کھا لیں، اور اعرابی (دیہاتی) بھی رکا رہا، تو نبی اکرم ﷺ نے اعرابی (دیہاتی) سے پوچھا : تم کیوں نہیں کھا رہے ہو ؟ اس نے کہا : میں مہینے میں ہر تین دن روزے رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا : اگر تم روزے رکھتے ہو تو ان دنوں میں رکھو جن میں راتیں روشن رہتی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٤) ، مسند احمد ٢/٣٣٦، ٣٤٦، ویأتی عند المؤلف برقم ٢٤٣٠، ٢٤٣١، مرسلاً ، ٤٣١٥ (حسن) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ١٥٦٧، وتراجع الالبانی ٤٢٣ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چاند کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخوں میں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2421
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم مہینے کے تین روشن دنوں : تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں کو روزے رکھا کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصوم ٥٤ (٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨٨) ، مسند احمد ٥/١٥٠، ١٥٢، ١٦٢، ١٧٧ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2422
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر مہینے کے ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کو روزے رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2423
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر (رض) کو مقام ربذہ میں کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تم مہینے میں کچھ دن روزے رکھو تو تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں کو رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٢٤ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2424
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : تم تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کے روزے کو اپنے اوپر لازم کرلو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہاں (راوی سے) غلطی ہوئی ہے، یہ بیان کی روایت نہیں ہے۔ غالباً ایسا ہوا ہے کہ سفیان نے کہا حدثنا اثنان کہا ہو تو اثنان کا الف گرگیا پھر ثنان سے بیان ہوگیا (جیسا کہ اگلی روایت میں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٦) ، مسند احمد ٥/١٥٠، ویأتي عند المؤلف ٤٣١٦ (حسن) (سند میں ابن الحوتکیہ لین الحدیث ہیں، مگر پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی حسن ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2425
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں کو روزے رکھنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) (دیکھئے پچھلی سند پر کلام ) قال الشيخ الألباني : حسن لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2426
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور اس کے ساتھ ایک بھنا ہوا خرگوش اور روٹی تھی، اس نے اسے نبی اکرم ﷺ کے آگے لا کر رکھا۔ پھر اس نے کہا : میں نے دیکھا ہے کہ اسے حیض آتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کوئی نقصان نہیں تم سب کھاؤ ، اور آپ نے اعرابی (دیہاتی) سے فرمایا : تم بھی کھاؤ، اس نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ نے پوچھا : کیسا روزے ؟ اس نے کہا : ہر مہینے میں تین دن کا روزے، آپ نے فرمایا : اگر تمہیں یہ روزے رکھنے ہیں تو روشن اور چمکدار راتوں والے دنوں یعنی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں کو لازم پکڑو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : صحیح عن ابی ذر ہے، قرین قیاس یہ ہے کہ ذر کاتبوں سے چھوٹ گیا۔ اس طرح وہ ابی بن کعب ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٨ (ضعیف) (ابن الحوتکیہ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2427
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
موسیٰ بن طلحہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس خرگوش لے کر آیا، آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کے لانے والے نے کہا : میں نے اس کے ساتھ خون (حیض) دیکھا تھا (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ روک لیا، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کھا لیں، ایک آدمی لوگوں سے الگ تھلگ بیٹھا ہوا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا بات ہے، تم الگ تھلگ کیوں بیٹھے ہو ؟ اس نے کہا : میں روزے سے ہوں، آپ نے فرمایا : پھر تم ایام بیض : تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کو کیوں نہیں رکھتے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر حدیث رقم : ٢٤٢٣ (ضعیف) (یہ مرسل روایت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2428
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک خرگوش لایا گیا جسے ایک شخص نے بھون رکھا تھا، جب اس نے اسے آپ کے سامنے پیش کیا تو کہا : میں نے دیکھا اسے خون (حیض) آ رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا، نہیں کھایا، اور ان لوگوں سے جو آپ کے پاس موجود تھے فرمایا : تم کھاؤ، اگر مجھے اس کی خواہش ہوتی میں بھی کھاتا ، اور وہ شخص (جو اسے لایا تھا) بیٹھا ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : قریب آ جاؤ، اور تم بھی لوگوں کے ساتھ کھاؤ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں روزے سے ہوں، آپ نے فرمایا : تو تم نے بیض کے روزے کیوں نہیں رکھے ؟ اس نے پوچھا : وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کے روزے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی روایت پر کلام ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2429
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
قتادہ بن ملحان (ابن منہال) رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیض کے ان تینوں دنوں کے روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے، اور فرماتے تھے : یہ مہینے بھر کے روزے کے برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصوم ٦٨ (٢٤٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٩ (١٧٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧١) ، مسند احمد ٤/١٦٥، ٢٧٥، ٢٨ (صحیح) (شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ” عبدالملک بن قتادہ بن المنھال “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2430
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
ابوالمنہال قتادہ بن ملحان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایام بیض کے تین روزے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ مہینہ بھر کے روزے کے برابر ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2431
زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف
قدامہ (قتادہ بن ملحان) بن ملحان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں روشن چاندنی راتوں کے دنوں یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2432
ایک ماہ میں دو روزے رکھنا
ابوعقرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے روزے رکھنے کے بارے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : مہینہ میں ایک دن رکھ لیا کرو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے لیے کچھ بڑھا دیجئیے، میرے لیے کچھ بڑھا دیجئیے، آپ نے فرمایا : تم کہتے ہو : اللہ کے رسول ! کچھ بڑھا دیجئیے، کچھ بڑھا دیجئیے، تو ہر مہینے دو دن رکھ لیا کرو ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کچھ اور بڑھا دیجئیے، کچھ اور بڑھا دیجئیے، میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں، اس پر آپ نے میری بات کچھ اور بڑھا دیجئیے، کچھ اور بڑھا دیجئیے میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں دہرائی پھر خاموش ہوگئے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ اب آپ مجھے لوٹا دیں گے، پھر آپ نے فرمایا : ہر مہینے تین دن رکھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٧١) ، مسند احمد ٤/٣٤٧، ٥/٦٧ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2433
ایک ماہ میں دو روزے رکھنا
ابوعقرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روزے کے بارے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : مہینہ میں ایک دن رکھ لیا کرو ، انہوں نے مزید کی درخواست کی اور کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں، تو آپ نے اس میں اضافہ فرما دیا، فرمایا : ہر مہینہ دو دن رکھ لیا کرو ، تو انہوں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے (میری بات) میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں، میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں دہرائی، آپ اضافہ کرنے والے نہ تھے، مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا : ہر مہینہ تین دن رکھ لیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2434