21. زکوة سے متعلقہ احادیث
زکوۃ کی فرضیت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن بھیجتے وقت فرمایا : تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کے پاس جا رہے ہو، تو جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر (زکاۃ) فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں بانٹ دیا جائے گا، اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو پھر مظلوم کی بد دعا سے بچو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٥) ، ٤١ (١٤٥٨) ، ٦٣ (١٤٩٦) ، المظالم ١٠ (٢٤٤٨) ، المغازی ٦٠ (٤٣٤٧) ، والتوحید ١ (٧٣٧٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧ (١٩) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٨٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٦ (٦٢٥) ، البر ٦٨ (٢٠١٤) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١ (١٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٥١١) ، مسند احمد ١/٢٣٣، سنن الدارمی/الزکاة ١ (١٦٥٥) ، ٩ (٦٧١) ، ویأتی عند المؤلف فی باب ٤٦ برقم ٢٥٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح کہ زکاۃ کی وصولی میں ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ ہی اس کی تقسیم میں، مثلاً کسی سے اس کا بہت اچھا مال لے لو یا کسی کو ضرورت سے زیادہ دے دو اور کسی کو کچھ نہ دو کہ وہ تم سے دکھی ہو کر تمہارے حق میں بد دعا کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2435
زکوۃ کی فرضیت
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں آپ کے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ بار یہ قسم کھائی کہ نہ میں آپ کے قریب اور نہ آپ کے دین کے قریب آؤں گا۔ اور اب میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ کوئی چیز سمجھتا ہی نہیں ہوں سوائے اس چیز کے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دی ہے، اور میں اللہ کی وحی کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز دے کر آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اسلام کے ساتھ ، میں نے پوچھا : اسلام کی نشانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ ہیں کہ تم کہو کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا، اور شرک اور اس کی تمام آلائشوں سے کٹ کر صرف اللہ کی عبادت کے لیے یکسو ہوگیا، اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٨) ، مسند احمد ٥/٤، ٥، ویأتي عند المؤلف، بأرقام : ٢٥٦٧، ٢٥٦٩، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٢ (٢٥٣٦) (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2436
زکوۃ کی فرضیت
ابو مالک اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامل وضو کرنا آدھا ایمان ہے، الحمدللہ ترازو کو بھر دیتا ہے۔ اور سبحان اللہ اور اللہ اکبر آسمانوں اور زمین کو (ثواب) سے بھر دیتے ہیں۔ اور نماز نور ہے، اور زکاۃ دلیل ہے، اور صبر روشنی ہے، اور قرآن حجت (دلیل) ہے تیرے حق میں بھی، اور تیرے خلاف بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥ (٢٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢١٦٣) ، مسند احمد ٥/٣٤٢، ٣٤٣، سنن الدارمی/الطہارة ٢ (٦٧٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطھارة ١ (٢٢٣) ، سنن الترمذی/الدعوات ٨٦ (٣٥١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2437
زکوۃ کی فرضیت
ابوہریرہ اور ابوسعید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن خطبہ دیا۔ آپ نے تین بار فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، پھر آپ نے سر جھکا لیا تو ہم سے ہر شخص سر جھکا کر رونے لگا، ہم نہیں جان سکے آپ نے کس بات پر قسم کھائی ہے، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، آپ کے چہرے پر بشارت تھی جو ہمیں سرخ اونٹ پانے کی خوشی سے زیادہ محبوب تھی، پھر آپ نے فرمایا : جو بندہ بھی پانچوں وقت کی نماز پڑھے، روزے رمضان رکھے، اور زکاۃ ادا کرے، اور ساتوں کبائر ١ ؎ سے بچے تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا : سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٠٧٩، ١٣٥٠٩) ، مسند احمد ٣/٧٩ (ضعیف) (اس کے راوی صہیب عتواری لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: ساتوں کبائر یہ ہیں :( ١ ) شراب پینا ( ٢ ) جادو کرنا ( ٣ ) ناحق خون بہانا ( ٤ ) سود کھانا ( ٥ ) یتیم کا مال کھانا ( ٦ ) جہاد سے بھاگنا ( ٧ ) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2438
زکوۃ کی فرضیت
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں چیزوں میں سے کسی چیز کے جوڑے دے تو وہ جنت کے دروازے سے یہ کہتے ہوئے بلایا جائے گا کہ اللہ کے بندے ! آ جا یہ دروازہ تیرے لیے بہتر ہے، تو جو شخص اہل صلاۃ میں سے ہوگا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص مجاہدین میں سے ہوگا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو اہل صدقہ (و زکاۃ) میں سے ہوں گے تو وہ صدقہ (زکاۃ) کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو روزے رکھنے والوں میں سے ہوگا وہ باب الریان (ریان کے دروازہ) سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : جو کوئی ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بلا لیا جائے اسے مزید کسی اور دروازے سے بلائے جانے کی ضرورت نہیں، لیکن اللہ کے رسول ! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2439
زکوة ادا نے کرنے کی وعید اور عذاب سے متعلق احادیث
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں آتے دیکھا تو فرمایا : وہ بہت خسارے والے لوگ ہیں، رب کعبہ کی قسم ! میں نے (اپنے جی میں) کہا : کیا بات ہے ؟ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے، میں نے عرض کیا : کون لوگ ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ؟ آپ نے فرمایا : بہت مال والے، مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے، اپنے دائیں، اور اپنے بائیں دونوں ہاتھ سے اشارہ کیا، پھر آپ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص کوئی اونٹ یا بیل چھوڑ کر مرے گا جس کی اس نے زکاۃ نہ دی ہوگی تو وہ (اونٹ یا بیل) (دنیا میں) جیسا کچھ وہ تھا قیامت کے دن اس سے بڑا اور موٹا تازہ ہو کر اس کے سامنے آئے گا، اور اسے اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں سے مارے گا، جب آخری جانور روند اور مار چکے گا تو پھر ان کا پہلا لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٣ (١٤٦٠) ، الأیمان والنذور ٣ (٦٦٣٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٩ (٩٩٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ١ (٦١٧) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢ (١٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٨١) ، مسند احمد ٥/١٥٢، ١٥٨، ١٦٩، سنن الدارمی/الزکاة ٣ (١٦٥٩) ، ویأتي عند المؤلف فی باب ١١ برقم : ٢٤٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2440
زکوة ادا نے کرنے کی وعید اور عذاب سے متعلق احادیث
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اپنے مال کا حق ادا نہ کرے (یعنی زکاۃ نہ دے) تو وہ مال ایک گنجے زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی گردن کا ہار بنادیا جائے گا، وہ اس سے بھاگے گا، اور وہ (سانپ) اس کے ساتھ ہوگا ، پھر اس کی تصدیق کے لیے آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی ولا تحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله هو خيرا لهم بل هو شر لهم سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة تم یہ مت سمجھو کہ جو لوگ اس مال میں جو اللہ نے انہیں دیا ہے بخیلی کرتے ہیں ان کے حق میں بہتر ہے، یہ بہت برا ہے ان کے لیے۔ عنقریب جس مال کے ساتھ انہوں نے بخل کیا ہوگا وہ قیامت کے دن ان کے گلے کا ہار بنادیا جائے گا (آل عمران : ١٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر آل عمران (٣٠١٢) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢ (١٧٨٤) ، مسند احمد ١/٣٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2441
زکوة ادا نہ کرنے کی وعید اور عذاب سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے (لوگوں نے) عرض کیا : اللہ کے رسول ! نجدتها ورسلها سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا : تنگی اور آسانی ١ ؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ روند چکے گا تو پھر پہلا اونٹ روندنے کے لیے لوٹایا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی، اور یہ سلسلہ برابر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کردیا جائے گا، اور وہ اپنا راستہ دیکھ نہ لے گا، جن کے پاس گائے بیل ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے یعنی ان کی زکاۃ نہ دے، ان کی تنگی اور ان کی کشادگی کے زمانہ میں، تو وہ گائے بیل قیامت کے دن پہلے سے زیادہ مستی و نشاط میں موٹے تازے اور تیز رفتار ہو کر آئیں گے، اور اسے ایک کشادہ میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا اور ہر سینگ والا اسے سینگوں سے مارے گا، اور ہر کھر والا اپنی کھروں سے اسے روندے گا، جب آخری جانور روند چکے گا، تو پھر پہلا پھر لوٹا دیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے، اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور وہ ان کی تنگی اور آسانی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بکریاں اس سے زیادہ چست فربہ اور موٹی تازی ہو کر آئیں گی جتنی وہ (دنیا میں) تھیں، پھر وہ ایک کشادہ ہموار میدان میں منہ کے بل لٹا دیا جائے، تو ہر کھر والی اسے اپنے کھر سے روندیں گی، اور ہر سینگ والی اسے اپنی سینگ سے مارے گی، ان میں کوئی مڑی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی سینگ کی نہ ہوگی، جب آخری بکری مار چکے گی تو پھر پہلی بکری لوٹا دی جائے گی، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوگی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے، اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٣٢ (١٦٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٥٣) ، مسند احمد ٢/٣٨٣، ٤٨٩، ٤٩٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ نہ تنگی و پریشانی کے زمانے میں زکاۃ دے کہ دینے سے اونٹ کم ہوجائیں گے، اور محتاجی و تنگی مزید بڑھ جائے گی، اور نہ خوش حالی و فارغ البالی کے دنوں میں زکاۃ دے یہ سوچ کر کہ ایسے موٹے تازے جانور کی زکاۃ کون دے ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2442
جو شخص زکوة ادا نہ کرے اس سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور آپ کے بعد ابوبکر (رض) خلیفہ بنائے گئے، اور عربوں میں سے جنہیں کافر مرتد ہونا تھا کافر ہوگئے تو عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا : آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرلیں، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرلیا، اس نے مجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو سوائے اسلام کے حق ١ ؎ کے مجھے سے محفوظ کرلیا۔ اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے ٢ ؎ اس پر ابوبکر (رض) نے کہا : میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا (یعنی نماز تو پڑھے اور زکاۃ دینے سے منع کرے) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی، اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی جو وہ رسول اللہ ﷺ کو ادا کیا کرتے تھے مجھ سے روکیں گے، تو میں ان سے ان کے روکنے پر لڑوں گا، عمر (رض) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! زیادہ دیر نہیں ہوئی مگر مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو قتال کے سلسلے میں شرح صدر عطا کردیا ہے، اور میں نے جان لیا کہ یہ (یعنی ابوبکر (رض) کی رائے) حق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٩) ، ٤٠ (١٤٥٧) ، المرتدین ٣ (٦٩٢٤) ، الاعتصام ٢ (٧٢٨٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢٠) ، سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ١ (٢٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٦٦) ، مسند احمد ١/١٩، ٤٧، ٢/٤٢٣، ویأتی عند المؤلف فی الجھاد ١، (بأرقام : ٣٩٧٥، ٣٩٧٦، ٣٩٧٨، ٣٩٨٠) ، وفی المحاربة ١ (بأرقام : ٣٩٧٤- ٣٩٧٦، ٣٩٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سوائے اسلام کے حق کے کا مطلب یہ ہے کہ اگر قبول اسلام کے بعد کسی نے ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر ضرور نافذ ہوگی، مثلاً چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو غیر شادی شدہ کو سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں قتل کی، سزا دی جائے گی۔ ٢ ؎: اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے کا مطلب ہے اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے، یا قابل جرم کام کا ارتکاب کریں گے لیکن اسلامی عدالت اور افسران مجاز کے علم میں نہیں آسکا، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2443
جو کوئی زکوة ادا نہ کرے اس کی وعید
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : چرائے جانے والے ہر چالیس اونٹ میں ایک بنت لبون ١ ؎ ہے، اونٹوں کو (زکاۃ سے بچنے کے لیے) ان کے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو شخص زکاۃ دینے سے انکار کرے گا تو ہم زکاۃ بھی لیں گے اور بطور سزا اس کے آدھے اونٹ بھی لے لیں گے، یہ ہمارے رب کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے۔ اس میں سے محمد ﷺ کے خاندان کے لیے کوئی چیز جائز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٤) ، مسند احمد ٥/٢، ٤، سنن الدارمی/الزکاة ٣٦ (١٧١٩) ، ویأتی عند المؤلف فی باب ٧ (برقم ٢٤٥١) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: اونٹ کا وہ بچہ جو اپنی عمر کے دو سال پورے کرچکا ہو، اور تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2444
اونٹوں کی زکوة سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤ (١٤٠٤) ، ٣٢ (١٤٤٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٧٩) ، سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٨) ، سنن الترمذی/الزکاة ٧ (٦٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٦ (١٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٠٢) ، موطا امام مالک/الزکاة ١ (١) ، مسند احمد ٣/٦، ٤٤، ٤٥، ٥٩، ٦٠، ٧٣، ٨٦، ٧٤، ٧٩، سنن الدارمی/الزکاة ١١ (١٦٧٣، ١٦٧٤) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٤٧٥، ٢٤٧٧، ٢٤٧٨، ٢٤٨٦، ٢٤٨٧، ٢٤٨٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تقریباً ساڑھے سات کو ئنٹل بنتا ہے۔ ٢ ؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم کا ہوا، اور دو سو درہم موجودہ وزن کے اعتبار سے ٨٥ گرام بنتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2445
اونٹوں کی زکوة سے متعلق
ابوسعید خدری (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2446
اونٹوں کی زکوة سے متعلق
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے : پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے، اور جب پچیس اونٹ ہوجائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے، اور جب چھتیس اونٹ ہوجائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھیالیس اونٹ ہوجائیں تو چھیالیس سے ساٹھ اونٹ تک میں تین برس کی اونٹنی (یعنی جو ان اونٹنی جو نر کو دانے کے لائق ہوگئی ہو) ہے، اور جب اکسٹھ اونٹ ہوجائیں تو اکسٹھ سے پچہتر اونٹوں تک میں چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہوجائیں تو چھہتر سے نوے اونٹوں تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہوجائیں تو ایک سو بیس اونٹوں تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کے کو دانے کے قابل ہوگئی ہوں۔ اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہوگئی ہوں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی ایک اونٹنی۔ اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے، اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (یعنی زکاۃ کے لائق اونٹ نہ ہو، اس سے بڑا یا چھوٹا ہو) مثلاً جس شخص پر چار برس کی اونٹنی لازم ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو، تین برس کی اونٹنی ہو۔ تو تین برس کی اونٹنی ہی اس سے قبول کرلی جائے گی اور وہ ساتھ میں دو بکریاں بھی دے۔ اگر اسے بکریاں دینے میں آسانی و سہولت ہو، اور اگر دو بکریاں نہ دے سکتا ہو تو بیس درہم دے۔ اور جس شخص کو تین برس کی اونٹنی دینی پڑ رہی ہو، اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی نہ ہو، چار برس کی اونٹنی ہو تو چار برس کی اونٹنی ہی قبول کرلی جائے گی۔ اور عامل صدقہ (یعنی زکاۃ وصول کرنے والا) اسے بیس درہم واپس کرے گا۔ یا اسے بکریاں دینے میں آسانی ہو تو دو بکریاں دے۔ اور جس کو تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور تین برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کرلی جائے، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں اور دے، اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کو دو برس کی اونٹنی دینی ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کرلی جائے، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو سال کی اونٹنی زکاۃ میں دینی ہو، اور دو سال کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو ایک سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کرلی جائے، اور اس کے ساتھ وہ دو بکریاں دے اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کے اوپر ایک برس کی اونٹنی دینی لازم ہو، اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) اونٹ ہو، تو دو برس کا اونٹ قبول کرلیا جائے۔ (اس کے ساتھ کچھ مزید لینا دینا نہیں ہوگا) اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرائی جانے والی بکریاں جب چالیس ہوں تو ان میں ایک سو بیس بکریوں تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر ایک سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں کوئی بوڑھا، کانا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا، اور نہ بکریوں کا نر جانور لیا جائے گا مگر یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کوئی ضرورت و مصلحت سے مجھے تو لے سکتا ہے، زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مالوں کو یکجا نہیں کیا جاسکتا ١ ؎ اور نہ یکجا مال کو جدا جدا ٢ ؎ اور جب آدمی کی چرائی جانے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تودے سکتا ہے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے، اور اگر ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کوئی زکاۃ نہیں۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣٣ (١٤٤٨) ، ٣٧ (١٤٥٣) ، ٣٨ (١٤٥٤) ، الشرکة ٢ (٢٤٨٧) ، فرض الخمس ٥ (٣١٠٦) ، الحیل ٣ (٦٩٥٥) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٠ (١٨٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٨٢) ، مسند احمد ١/١١-١٢ ویأتی عند المؤلف برقم ٢٤٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور زکاۃ کے محصلین دونوں کے لیے ہے، اس کی تفسیر یہ ہے : مثلاً تین آدمیوں کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، تو اس صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری واجب ہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان تینوں نے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کردیا کہ ایک ہی بکری دینی پڑے، ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر تین متفرق لوگوں کے پاس انتالیس انتالیس بکریاں ہوں تو ان پر الگ الگ کوئی زکاۃ نہیں، تو عامل ان کو زکاۃ لینے کے لیے یکجا نہ کر دے کہ ایک بکری زکاۃ میں لے لے۔ ٢ ؎: اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک، ایک سو ایک، بکریاں ہیں، تو کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریاں لازم آتی ہیں، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ہی ایک بکری لازم آئے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، نیز اسی طرح اگر تین ساجھے داروں کے پاس ساجھا میں ایک سو بیس کی بکریاں ہوں تو اس مجموعہ پر صرف ایک بکری واجب ہوگی، تو عامل زکاۃ لینے کے لیے ان بکریوں کو تین الگ الگ حصوں میں نہ کر دے کہ تین بکریاں لے لے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2447
اونٹوں کی زکوة نے دینے والے کے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہوگا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہوگا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ان کا حق یہ بھی ہے کہ انہیں اسی جگہ دوہا جائے جہاں انہیں پانی پلانے کا نظم ہو ١ ؎، سن لو، قیامت کے دن تم میں کا کوئی اپنے اونٹ کو اپنی گردن پر لادے ہوئے نہ لائے وہ بلبلا رہا ہو، پھر وہ کہے : اے محمد ! (بچائیے مجھ کو اس عذاب سے) کہ میں کہوں : میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں تو تجھے بتاچکا تھا، سن لو ! قیامت کے دن کوئی اپنی گردن پر بکری کو لادے ہوئے نہ آئے کہ وہ ممیا رہی ہو، پھر وہ کہے : اے محمد ! (مجھے اس عذاب سے بچائیے) کہ اس وقت میں کہوں : میں تیرے لیے کچھ نہیں کرسکتا، میں تو تجھے پہلے ہی بتاچکا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : تم میں سے کسی کا خزانہ ٢ ؎ قیامت کے دن گنجا سانپ بن کر سامنے آئے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا برابر پیچھا کرتا رہے گا، اور کہے گا : میں تیرا خزانہ ہوں یہاں تک کہ وہ اس کی انگلی کو اپنے منہ میں داخل کرلے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣ (١٤٠٢) ، الجھاد ١٨٩ (٢٣٧٨) ، تفسیر براء ة ٦ (٣٠٧٣) ، الحیل ٣ (٦٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٣٦) ، مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٧٩، ٤٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : بکریوں کو گھاٹوں پر دوہا جائے تاکہ وہاں موجود مساکین کو بھی اس میں سے کچھ دیا جائے، نہ کہ بند گھروں میں مساکین سے بچنے کے لیے دوہا جائے۔ ٢ ؎: جس کی وہ زکاۃ نہیں ادا کرتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2448
گھریلو استعمال کیلئے رکھے ہوئے اونٹوں پر زکوة معاف ہے
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ہر چرنے والے چالیس اونٹوں میں دو برس کی اونٹنی ہے۔ اونٹ اپنے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کئے جائیں، جو ثواب کی امید رکھ کر انہیں دے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو دینے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے اسے لے کر رہیں گے، مزید اس کے آدھے اونٹ اور لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے تاکیدی حکموں میں سے ایک حکم ہے، محمد کے آل کے لیے اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2449
گائے بیل کی زکوة سے متعلق
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر بالغ شخص سے ایک دینار (جزیہ) لیں یا اتنی قیمت کی یمنی چادریں، اور ہر تیس گائے بیل میں ایک برس کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے اور بیل میں دو برس کی ایک گائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٧-١٦٦٣) ، سنن الترمذی/الزکاة ٥ (٦٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٢ (١٨٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٦٣) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٣، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2450
گائے بیل کی زکوة سے متعلق
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن بھیجا، تو مجھے حکم دیا کہ ہر چالیس گائے میں دو برس کی ایک گائے، اور ہر تیس میں ایک سال کا ایک بچھوا لوں۔ اور ہر بالغ سے (بطور جزیہ) ایک دینار لوں، یا ایک دینار کے مساوی قیمت کی یمنی چادر۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2451
گائے بیل کی زکوة سے متعلق
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ ہر تیس گائے بیل میں ایک سال کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی بچھیا۔ اور ہر بالغ سے (جزیہ میں) ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کی یمنی چادر۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2452
گائے بیل کی زکوة سے متعلق
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس وقت مجھے یمن بھیجا تو حکم دیا کہ میں گائے، بیل سے جب تک وہ تیس کی تعداد کو نہ پہنچ جائیں کچھ نہ لوں، اور جب تیس ہوجائیں تو ان میں گائے کا ایک سال کا بچہ چاہے نر ہو یا مادہ یہاں تک کہ وہ چالیس کو پہنچ جائیں، اور جب چالیس ہوجائیں تو ان میں دو سال کی ایک بچھیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣١٢) ، مسند احمد (٥/٢٣٣، ٢٤٧، سنن الدارمی/الزکاة ٥ (١٦٦٤) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2453
گائے بیل کی زکوة ادا نہ کرے تو کیا سزا ہے اس کے متعلق؟
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی اونٹ، گائے اور بکری والا ان کا حق ادا نہیں کرے گا، (یعنی زکاۃ نہیں ادا کرے گا) تو اسے قیامت کے دن ایک کشادہ ہموار میدان میں کھڑا کیا جائے گا، کھر والے جانور اپنے کھروں سے اسے روندیں گے، اور سینگ والے اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے۔ اس دن ان میں کوئی ایسا نہ ہوگا جس کے سینگ ہی نہ ہو اور نہ ہی کسی کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہوگی ، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کا حق کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ان پر نر کودوانا، ان کے ڈول کو منگنی دینا اور اللہ کی راہ میں ان پر بوجھ اور سواری لادنا، اور جو صاحب مال اپنے مال کا حق ادا نہ کرے گا وہ مال قیامت کے دن ایک گنجے (زہریلے) سانپ کی شکل میں اسے دکھائی پڑے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا پیچھا کرے گا، اور اس سے کہے گا : یہ تو تیرا وہ خزانہ ہے جس کے ساتھ تو بخل کرتا تھا، جب وہ دیکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو (لاچار ہو کر) اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا، اور وہ اس کو اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ چباتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٦ (٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٨٨) ، مسند احمد (٣/٣٢١) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣ (١٦٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2454
بکریوں کی زکوة سے متعلق احادیث
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر (رض) نے انہیں یہ لکھ کردیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے۔ اور جب پچیس اونٹ ہوجائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے۔ اور جب چھتیس اونٹ ہوجائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے۔ اور جب چھیالیس اونٹ ہوجائیں تو اس میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے، جو نر کو دانے کے لائق ہوگئی ہو، اور جب اکسٹھ اونٹ ہوجائیں تو اس میں پچہتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہوجائیں تو اس میں نوے تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہوجائیں تو ایک سو بیس تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کو دانے کے قابل ہوگئی ہوں، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہوگئی ہوں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی ہے، اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے۔ اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو ١ ؎ (مثلاً ) جس شخص پر چار برس کی اونٹنی کی زکاۃ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی قبول کرلی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ میں دو بکریاں بھی دیدے۔ اگر وہ اسے میسر ہوں ورنہ بیس درہم دے۔ اور جسے زکاۃ میں تین برس کی اونٹنی دینی ہو۔ اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کرلی جائے گی، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم دے یا دو بکریاں واپس دیدے، اور جسے تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور یہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کرلی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم دے، اور جسے زکاۃ میں دو سال کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس صرف تین سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کرلی جائے گی اور عامل زکاۃ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو برس کی اونٹنی دینی ہو، اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی نہ ہو صرف ایک برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کرلی جائے اور دو بکریاں دے اگر بکریاں اسے میسر ہوں بیس درہم دے۔ اور جسے ایک برس کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) کا اونٹ ہو، تو وہی اس سے قبول کرلیا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی اور چیز لی نہ جائے، اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرنے والی بکریوں میں جب چالیس ہوں تو ایک سو بیس تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں، اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں بوڑھے کانے اور عیب دار جانور نہیں لیے جائیں گے، اور نہ نر جانور لیا جائے گا الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کسی ضرورت و مصلحت سے لینا چاہے۔ زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مال یکجا نہ کئے جائیں، اور نہ یکجا مال کو جدا جدا کیا جائے۔ اور جب آدمی کی جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے، ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے اور اگر مال ایک سو نوے درہم ہی ہو تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2455
بکریوں کی زکوة ادا نہ کرنے کے بارے میں
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اونٹ گائے اور بکریاں رکھتا ہو اور ان کی زکاۃ نہ دے تو وہ دنیا میں جیسے تھے اس سے بڑے اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے، اور وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے، اور اپنی کھروں سے روندیں گے، جب آخری جانور مار چکے گا تو پھر پہلا جانور لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2456
مال دولت کو ملانا اور ملے ہوئے مال کو الگ کرنا ممنوع ہے
سوید بن غفلہ (رح) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا محصل (زکاۃ) ہمارے پاس آیا، میں آ کر اس کے پاس بیٹھا تو میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میرے عہد و قرار میں یہ بات شامل ہے کہ ہم دودھ پلانے والے جانور نہ لیں۔ اور نہ الگ الگ مال کو یکجا کریں، اور نہ یکجا مال کو الگ الگ کریں۔ پھر ان کے پاس ایک آدمی اونچی کوہان کی ایک اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا : اسے لے لو، تو اس نے انکار کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١١ (١٨٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٩٣) ، مسند احمد (٤/٣١٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٨ (١٦٧٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ محصل زکاۃ کو بہترین مال لینے سے منع کیا گیا ہے، اسے درمیانی مال میں سے لینا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2457
مال دولت کو ملانا اور ملے ہوئے مال کو الگ کرنا ممنوع ہے
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو زکاۃ کی وصولی پر بھیجا، وہ ایک شخص کے پاس آیا، اس نے اسے اونٹ کا ایک دبلا بچہ دیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے محصل زکاۃ (صدقہ وصول کرنے والے) کو بھیجا، فلاں شخص نے اسے ایک دبلا کمزور، دودھ چھوڑا ہوا بچہ دیا۔ اے اللہ ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت نہ دے ، یہ بات اس آدمی کو معلوم ہوئی تو وہ ایک اچھی اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا : میں اللہ عزوجل سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے سامنے اپنی اطاعت کا اظہار کرتا ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2458
زکوة نکالنے والے کے حق میں دعائے خیر سے متعلق
عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی قوم اپنا صدقہ لے کر آتی تو آپ فرماتے : اے اللہ ! فلاں کے آل (اولاد) پر رحمت بھیج (چنانچہ) جب میرے والد اپنا صدقہ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : اے اللہ ! آل ابی اوفی پر رحمت بھیج ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٤ (١٤٩٧) ، المغازی ٣٥ (٤١٦٦) ، الدعوات ١٩ (٦٣٣٢) ، ٣٣ (٦٣٥٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥٤ (١٠٧٨) ، سنن ابی داود/الزکاة ٦ (١٥٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٨ (١٧٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٦) ، مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٤، ٣٥٥- ٣٨١، ٣٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2459
جس وقت صدقہ قبول کرنے میں وصول کرنے والا کسی قسم کی زیادتی سے کام لے
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ دیہات کے لوگ آئے، اور انہوں آپ سے عرض کیا : آپ کے بھیجے ہوئے کچھ محصل زکاۃ ہمارے پاس آتے ہیں جو ہم پر ظلم کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا : اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی و مطمئن کرو ، انہوں نے عرض کیا : اگرچہ وہ ظلم کریں۔ آپ نے فرمایا : اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو ، انہوں نے پھر عرض کیا : اگرچہ وہ ظلم کریں ؟ آپ نے فرمایا : اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو ۔ جریر (رض) کہتے ہیں : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی اسی وقت سے کوئی محصل زکاۃ میرے پاس سے راضی ہوئے بغیر نہیں گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٧ (٩٨٩) ، سنن ابی داود/الزکاة ٦ (٥٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٨) ، مسند احمد (٤/٣٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2460
جس وقت صدقہ قبول کرنے میں وصول کرنے والا کسی قسم کی زیادتی سے کام لے
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب صدقہ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ اس حال میں لوٹے کہ وہ تم سے راضی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٥ (٩٨٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٠ (٦٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١١ (١٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٥) ، مسند احمد (٤/٣٦٠، ٣٦١، ٣٦٢، ٣٦٤، ٣٦٥) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٢ (١٧١٢، ١٧١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2461
دولت کا مالک خود ہی زکوة لگا کر ادا کرسکتا ہے
مسلم بن ثفنہ کہتے ہیں کہ ابن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کی عرافت (نگرانی) پر مقرر کیا، اور انہیں اس بات کا حکم بھی دیا کہ وہ ان سے زکاۃ وصول کر کے لائیں۔ تو میرے والد نے مجھے ان کے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا کہ میں ان سے زکاۃ لے کر آ جاؤں۔ تو میں (گھر سے) نکلا یہاں تک کہ ایک بوڑھے بزرگ کے پاس پہنچا انہیں سعر کہا جاتا تھا۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میرے والد نے مجھے آپ کے پاس آپ کی بکریوں کی زکاۃ لانے کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا : بھتیجے ! تم کس طرح کی زکاۃ لیتے ہو ؟ میں نے کہا : ہم چنتے اور چھانٹتے ہیں یہاں تک کہ ہم بکریوں کے تھنوں کو ناپتے و ٹٹولتے ہیں (یعنی عمدہ مال ڈھونڈ کرلیتے ہیں) ۔ انہوں نے کہا : بھتیجے ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں انہیں گھاٹیوں میں سے کسی ایک گھاٹی میں اپنی بکریوں کے ساتھ تھا، میرے پاس ایک اونٹ پر سوار دو شخص آئے، اور انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے فرستادہ ہیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کریں۔ میں نے پوچھا : میرے اوپر ان بکریوں میں کتنی زکاۃ ہے ؟ تو ان دونوں نے کہا : ایک بکری، میں نے دودھ اور چربی سے بھری ایک ایک موٹی تازی بکری کا قصد کیا جس کی جگہ مجھے معلوم تھی۔ میں اسے (ریوڑ میں سے) نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا : شافع ہے (شافع گابھن بکری کو کہتے ہیں) اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں گابھن جانور لینے سے روکا ہے۔ پھر میں نے ایک اور بکری لا کر پیش کرنے کا ارادہ کیا جو اس سے کمتر تھی جس نے ابھی کوئی بچہ نہیں جنا تھا لیکن حمل کے قابل ہوگئی تھی۔ میں نے اسے (گلّے سے) نکال کر ان دونوں کو پیش کیا، انہوں نے کہا : ہاں یہ ہمیں قبول ہے۔ پھر ہم نے اسے اٹھا کر انہیں پکڑا دیا۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ اونٹ پر لاد لیا، پھر لے کر چلے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤ (١٥٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧٩) ، مسند احمد (٣/٤١٤، ٤١٥) (ضعیف) (اس کے راوی ” مسلم بن ثفنہ، یا شعبہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2462
دولت کا مالک خود ہی زکوة لگا کر ادا کرسکتا ہے
مسلم بن ثفنہ کا بیان ہے کہ ابن علقمہ نے ان کے والد کو اپنی قوم سے زکاۃ وصول کرنے کے کام پر لگایا، اور پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی روایت پر کلام ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2463
دولت کا مالک خود ہی زکوة لگا کر ادا کرسکتا ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا حکم کیا۔ تو آپ سے کہا گیا : ابن جمیل، خالد بن ولید، اور عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہم) نے (زکاۃ) نہیں دی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابن جمیل زکاۃ کا انکار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ محتاج تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار بنادیا۔ اور رہے خالد بن ولید تو تم لوگ خالد پر زیادتی کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور اسباب اللہ کی راہ میں وقف کردی ہیں، اور رہے رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، تو یہ زکاۃ تو ان پر ہے ہی۔ مزید اتنا اور بھی دیں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٦٧٠، ١٣٩١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں فَھِیَ عَلَیَّ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رہے عباس رضی الله عنہ تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی کے مثل اور، یعنی میں ان سے دو سال کی زکاۃ پہلے ہی لے چکا ہوں اس لیے اس کی ادائیگی میں کروں گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2464
دولت کا مالک خود ہی زکوة لگا کر ادا کرسکتا ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ کا حکم دیا، آگے کی اوپر والی روایت کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، انظرما قبلہ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٩ (١٤٦٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣ (٩٨٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢١ (١٦٢٣) ، مسند احمد ٢/٣٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2465
دولت کا مالک خود ہی زکوة لگا کر ادا کرسکتا ہے
عبداللہ بن ہلال ثقفی (رح) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا : (لوگ اتنے جھگڑالو اور نادہند ہوگئے ہیں کہ) قریب ہے کہ میں آپ کے بعد زکاۃ کی بکری کے ایک بچے یا ایک بکری کے لیے قتل کردیا جاؤں گا، تو آپ نے فرمایا : اگر وہ فقراء مہاجرین کو نہ دی جاتی ہوتی تو اسے میں نہ لیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٧١) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، عبداللہ بن ہلال ثقفی تابعی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2466
گھوڑوں کی زکوة سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٥ (١٤٦٣) ، ٤٦ (١٤٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢ (٩٨٢) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٠ (١٥٩٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٨ (٦٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٥ (١٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٥٣) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٣ (٣٧) ، مسند احمد (٢/٢٤٢، ٢٤٩، ٢٥٤، ٢٧٩، ٤١٠، ٤٢٠، ٤٣٢، ٤٥٤، ٤٦٩، ٤٧٠، ٤٧٧، وانظر ما بعدہ۔٢٤٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2467
گھوڑوں کی زکوة سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2468
گھوڑوں کی زکوة سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام میں اور اس کے گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2469
غلاموں کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی پر اس کے گھوڑے اور اس کے غلام میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2470
غلاموں کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2471
غلاموں کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مسلمان پر اس کے غلام میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے گھوڑے میں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2472
چاندی کی زکوة سے متعلق احادیث
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم ہوا، جو موجودہ وزن کے حساب سے پانچ سو پنچانوے گرام بنتا ہے۔ ٢ ؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ وسق تین سو صاع کے برابر ہوا جو موجودہ وزن کے حساب سے چھ سو ترپن کیلو گرام بنتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2473
چاندی کی زکوة سے متعلق احادیث
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٢ (١٤٥٩) ، ٥٦ (١٤٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٦) ، موطا امام مالک/الزکاة ١ (١) ، مسند احمد (٣/٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق وليس عند خ من التمر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2474
چاندی کی زکوة سے متعلق احادیث
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2475
چاندی کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2476
چاندی کی زکوة سے متعلق احادیث
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے گھوڑے اور غلام کی زکاۃ معاف کردی ہے، تو تم اپنے مالوں کی زکاۃ ہر دو سو میں سے پانچ یعنی چالیسواں حصہ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٥ (١٥٧٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٤ (٦٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٣٦) ، مسند احمد (١/٩٢، ١١٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٧ (١٦٦٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٤ (١٧٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2477
چاندی کی زکوة سے متعلق احادیث
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے گھوڑے اور غلام کی زکاۃ معاف کردی ہے، اور دو سو درہم سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2478
زیور کی زکوة کے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ یمن کی رہنے والی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ نے فرمایا : کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : کیا تجھے اچھا لگے گا کہ اللہ عزوجل ان کے بدلے قیامت کے دن تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے ؟ یہ سن کر اس عورت نے دونوں کنگن (بچی کے ہاتھ سے) نکال لیے۔ اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے آگے ڈال دیا، اور کہا : یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٣ (١٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٢) ، مسند احمد (٢/١٧٨، ٢٠٤، ٢٠٨) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ١٢ (٦٣٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2479
زیور کی زکوة کے متعلق احادیث
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی اور اس کی بچی کے ہاتھ میں دو کنگن تھے، آگے اسی طرح کی روایت ہے جیسے اوپر گزری ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : خالد معتمر سے زیادہ ثقہ راوی ہیں (اس لیے ان کی متصل روایت معتمر کی مرسل سے زیادہ صحیح ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن) (اس سند میں دو راوی ساقط ہیں، مگر سابقہ سند متصل ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2480
مال دولت کی زکوة ادا نہ کرنے سے متعلق سزا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے مال کی زکاۃ نہیں دیتا ہے، اسے قیامت کے دن اس کا مال ایسے خوفناک سانپ کی صورت میں نظر آئے گا جو گنجا ہوگا، اس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ اس سے چمٹ جائے گا، یا اس کے گلے کا ہار بن جائے گا، اور کہے گا : میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٢١١) ، مسند احمد (٢/٩٨، ١٣٧، ١٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2481
مال دولت کی زکوة ادا نہ کرنے سے متعلق سزا
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس مال کی زکاۃ ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا سانپ بن جائے گا، اس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے دونوں کلّے پکڑے گا، اور اس سے کہے گا : میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں ۔ پھر آپ نے آیت کریمہ کی تلاوت کی : ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله اللہ تعالیٰ نے جنہیں مال دیا ہے وہ بخیلی کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہی مال قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا (آل عمران : ١٨٠ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣ (١٤٠٣) ، تفسیر آل عمران ١٤ (٤٥٦٥) ، براء ة ٦ (٤٦٥٩) ، الحیل ٣ (٦٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٢٠) ، مسند احمد (٢/٣٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2482
کھجوروں کی زکوة سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ وسق سے کم غلے یا کھجور میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2483
گیہوں کی زکوة سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گیہوں اور کھجور میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ وسق کو پہنچ جائے، اسی طرح چاندی میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ اوقیہ کو پہنچ جائے۔ اور اونٹ میں زکاۃ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ پانچ کی تعداد کو پہنچ جائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2484
غلوں کی زکوة سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : غلہ میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ کھجور میں یہاں تک کہ یہ پانچ وسق ہوجائیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2485
کس قدر دولت میں زکوة واجب ہے؟
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١ (١٥٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٣ (١٨٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٤٢) ، مسند احمد (٣/٥٩، ٨٣، ٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2486
کس قدر دولت میں زکوة واجب ہے؟
ابو سعید خدری رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ وسق سے کم غلہ میں زکاۃ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2487
عشر کس میں واجب ہے اور بیسواں حصہ کس میں؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے نہر اور چشمے سینچیں یا جس زمین میں تری رہتی ہو ١ ؎ اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جو اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے اس میں بیسواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٥ (١٤٨٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ١١ (١٥٩٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ٤٤ (٦٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٧ (١٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسے سینچنے کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2488
عشر کس میں واجب ہے اور بیسواں حصہ کس میں؟
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو پیداوار آسمان کی بارش اور نہروں کے پانی سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جو پیداوار جانوروں کے ذریعہ سینچائی کر کے ہو اس میں بیسواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١ (٩٨١) ، سنن ابی داود/الزکاة ١١ (١٥٩٧) ، مسند احمد ٣/٣٤١، ٣٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2489
عشر کس میں واجب ہے اور بیسواں حصہ کس میں؟
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ جسے آسمان کے پانی نے سینچا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو پیداوار ڈولوں کے پانی سے (سینچائی کر کے) ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ لوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٣١٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٧ (١٨١٨) ، مسند احمد ٥/٢٣٣ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2490
اندازہ چھوڑنے والا شخص کس قدر اندازہ چھوڑے؟
سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم درختوں پر پھلوں کا تخمینہ لگاؤ تو جو تخمینہ لگاؤ اسے لو، اور اس میں سے ایک تہائی چھوڑ دو ١ ؎ اور اگر تم نہ لے سکو یا تہائی نہ چھوڑ سکو (شعبہ کو شک ہوگیا ہے) تو تم چوتھائی چھوڑ دو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٤ (١٦٠٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٧ (٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٤٧) ، مسند احمد (٣/٤٤٨، ٤/٢) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبدالرحمان بن مسعود “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی زکاۃ نہ لو تاکہ اسے دوستوں اور ہمسایوں پر خرچ کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2491
آیت کریمہ کی تفسیر
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوامامہ بن سہیل بن حنیف (رض) نے اللہ عز و جل کے فرمان : ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون اللہ کی راہ میں برا مال خرچ کرنے کا قصد نہ کرو (البقرہ : ٢٦٧ ) کے متعلق مجھ سے بیان کیا کہ خبيث سے مراد جعرور اور لون حبیق ہیں، رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ میں خراب مال لینے سے منع فرما دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٩، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٦ (١٦٠٧) نحوہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جعرور اور لون حبیق دونوں کھجور کی گھٹیا قسموں کے نام ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2492
آیت کریمہ کی تفسیر
عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی (مسجد میں پہنچے) وہاں ایک شخص نے سوکھی خراب کھجور کا ایک گچھا لٹکا رکھا تھا ١ ؎ آپ اس گچھے میں (لاٹھی سے) کو چتے جاتے تھے، اور فرماتے جاتے تھے : یہ صدقہ دینے والا اگر چاہتا تو اس سے اچھی کھجوریں دے سکتا تھا، یہ صدقہ دینے والا قیامت میں اسی طرح کی سوکھی خراب کھجوریں کھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٦ (١٦٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٩ (١٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٤) ، مسند احمد (٦/٢٣، ٢٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ دستور تھا کہ لوگ مسجد نبوی میں محتاجوں اور ضرورت مندوں کے کھانے کے لیے کھجوریں لٹکا دیا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2493
کان (معدنیا ت) کی زکوة سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے راستہ میں پڑی ہوئی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : جو چیز چالو راستے میں ملے یا آباد بستی میں، تو سال بھر اسے پہنچواتے رہو، اگر اس کا مالک آجائے (اور پہچان بتائے) تو اسے دے دو ، ورنہ وہ تمہاری ہے، اور جو کسی چالو راستے یا کسی آباد بستی کے علاوہ میں ملے تو اس میں اور جاہلیت کے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے (یعنی : زکاۃ نکال کر خود استعمال کرلے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللقطة ١٢ (١٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٥٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2494
کان (معدنیا ت) کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنوئیں میں گر کر کوئی مرجائے تو وہ بھی رائیگاں ہے، کان میں کوئی دب کر مرجائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ١ ؎ اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، سنن ابی داود/الخراج ٤٠ (٣٠٨٥) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٧ (١٣٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٧ (٢٦٧٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٨، ١٣٣١٠) ، موطا امام مالک/الزکاة ٤ (٩) ، العقول ١٨ (١٢) ، مسند احمد ٢/٢٢٨، ٢٢٩، ٢٥٤، ٢٧٤، ٢٨٥، ٣١٩، ٣٨٢، ٣٨٦، ٤٠٦، ٤١١، ٤١٤، ٤٥٤، ٤٥٦، ٤٦٧، ٤٧٥، ٤٨٢، ٤٩٢، ٤٩٥، ٤٩٩، ٥٠١، ٥٠٧، سنن الدارمی/الزکاة ٣٠ (١٧١٠) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٦ (١٤٩٩) ، المساقاة ٣ (٢٣٥٥) ، الدیات ٢٨ (٦٩١٢) ، ٢٩ (٦٩١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان چیزوں کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔ ٢ ؎: اور باقی چار حصے پانے والے کے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2495
کان (معدنیا ت) کی زکوة سے متعلق احادیث
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٥١) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2496
کان (معدنیا ت) کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنویں میں گر کر مرجانا رائیگاں ہے، اور کان میں دب کر مرجانا رائیگاں ہے، اور جاہلیت کے دفینہ میں پانچواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٦ (١٤٩٩) ، صحیح مسلم/الحدود ١١ (١٧١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٣٦) ، موطا امام مالک/الزکاة ٤ (٩) ، العقول ١٨ (١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2497
کان (معدنیا ت) کی زکوة سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کنویں میں گر کر مرجانا لغو و رائیگاں ہے۔ جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے۔ کان میں دب کر مرجانا رائیگاں ہے، اور جاہلیت کے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٥٠٦، ١٤٥٥٠) ، مسند احمد (٢/٤٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2498
شہد کی زکوة
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے شہد کا دسواں حصہ لے کر آئے، اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اس وادی کو جسے سلبہ کہا جاتا ہے ان کے لیے خاص کردیں (اس پر کسی اور کا دعویٰ نہ رہے) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ مذکورہ وادی ان کے لیے مخصوص فرما دی۔ پھر جب عمر بن خطاب (رض) خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وھب نے عمر بن خطاب (رض) کو لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے (کہ یہ وادی ہلال (رض) کے پاس رہنے دی جائے یا نہیں) تو عمر (رض) نے جواب لکھا : اگر وہ اپنے شہد کا دسواں حصہ جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے ہمیں دیتے ہیں تو سلبہ کو انہیں کے پاس رہنے دیں، ورنہ وہ برسات کی مکھیاں ہیں (پھول و پودوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہیں) جو چاہے اسے کھائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٢ (١٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٦٧) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2499
رمضان المبارک کی زکوة یعنی احکام صدقہ فطر
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آزاد، غلام، مرد اور عورت ہر ایک پر رمضان کی زکاۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کی ہے، پھر اس کے برابر لوگوں نے نصف صاع گیہوں کو قرار دے لیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٤) ، ٧١ (١٥٠٧) ، ٧٤ (١٥٠٩) ، ٧٧ (١٥١١) ، ٧٨ (١٥١٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥١٠) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٢) ، مسند احمد ٢/٥، ٥٥، ٦٣، ٦٦، ١٠٢، ١١٤، ١٣٧، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٦٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس وقت (عہد معاویہ رضی الله عنہ میں) نصف صاع گیہوں قیمت میں جو کے ایک صاع کے برابر ہوگیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2500
ماہ رمضان المبارک کی زکوة غلام اور باندی پر لازم ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ہر مرد و عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے، پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر ٹھہرا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2501
نابالغ پر رمضان کی زکوة یعنی نا بالغ کا صدقة الفطر
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٣٢١) ، والحدیث أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٤) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١١) ، سنن الترمذی/ الزکاة ٣٥ (٦٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢١، موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٢) ، مسند احمد (٢/٦٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2502
صدقہ فطر مسلمانوں پر ہے نہ کہ کفار پر
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر مسلمان لوگوں پر ہر آزاد، غلام مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض ٹھہرایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2503
صدقہ فطر مسلمانوں پر ہے نہ کہ کفار پر
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ فطر مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام مرد، عورت چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا ہے، اور حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے (گھر سے) نکلنے سے پہلے ادا کردیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2504
مقدار صدقةالفطر
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام پر فرض کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٠٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2505
زکوة فرض ہونے سے قبل صدقہ فطر لازم تھا
قیس بن سعد بن عبادہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور عید الفطر کا صدقہ ادا کرتے تھے، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، اور زکاۃ کی (فرضیت) اتری، تو نہ ہمیں ان کا حکم دیا گیا نہ ہی ان کے کرنے سے روکا گیا، اور ہم (جیسے کرتے تھے) اسے کرتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٩٣) (شاذ) (اس کے راوی ” عمرو بن شرحبیل “ لین الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث ” فرض رسول صلی الله علیہ وسلم صدقة الفطر (رقم ٢٥٠٢) کی مخالف ہے جو صحیحین کی حدیث ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2506
زکوة فرض ہونے سے قبل صدقہ فطر لازم تھا
قیس بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زکاۃ کی فرضیت اترنے سے پہلے صدقہ فطر کا حکم دیا تھا، پھر جب زکاۃ کی فرضیت اتری تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی روکا، اور ہم اسے کرتے رہے۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں : ابوعمار کا نام عریب بن حمید ہے۔ اور عمرو بن شرحبیل کی کنیت ابومیسرہ ہے، اور سلمہ بن کہیل نے اپنی سند میں حکم کی مخالفت کی ہے اور حکم سلمہ بن کہیل سے زیادہ ثقہ راوی ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٩٨) ، مسند احمد (٢/٤٢١، ٦/٦) (شاذ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : سند میں عمرو بن شرحبيل ہونا بمقابلہ أبي عمار الهمداني اثبت ہے، حالانکہ اصل راوی عمرو بن شرحبیل بن سعید بن سعد بن عبادہ ہونا زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ حدیث قیس بن سعد بن عبادہ سے مروی ہے، اور یہ عمرو لین الحدیث ہیں، اور اگر یہ حدیث عمرو بن شرحبیل ابو میسرۃ ہی سے مروی ہو تب بھی یہ صحیحین کی حدیث فرض صدقۃ الفطر کے مخالف ہے، اس لیے شاذ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2507
صدقہ فطر میں کتنی مقدار میں غلہ ادا کیا جائے؟
حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے) : تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا : مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ ﷺ نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گی ہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لوگوں کو بتایا) ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، انہوں نے عن محمد بن سيرين کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٨١ (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس رضی الله عنہما سے سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2508
صدقہ فطر میں کتنی مقدار میں غلہ ادا کیا جائے؟
ابن سیرین کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے صدقہ فطر کا ذکر کیا۔ تو کہا : گیہوں سے ایک صاع، یا کھجور سے ایک صاع، یا جو سے ایک صاع، یا سلت (جَو کی ایک قسم ہے) سے ایک صاع ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٤٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2509
صدقہ فطر میں کتنی مقدار میں غلہ ادا کیا جائے؟
ابورجاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) کو تمہارے منبر سے یعنی بصرہ کے منبر سے خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے : صدقہ فطر گی ہوں سے ایک صاع ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ یعنی ایوب تینوں میں زیادہ ثقہ ہیں (یعنی : حسن بصری اور ابن سیرین سے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٣٢١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2510
صدقہ فطر میں کھجور دینے سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر جَو یا کھجور یا پنیر سے ایک صاع فرض کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٢ (١٥٠٥) ، ٧٣ (١٥٠٦) ، ٧٥ (١٥٠٨) ، ٧٦ (١٥١٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤ (٩٨٥) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١٧، ١٦١٨) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٥ (٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢١ (١٨٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٦٩) ، موطا امام مالک/الزکاة ٢٨ (٥٣) ، مسند احمد ٣/٢٣، ٧٣، ٩٨، سنن الدارمی/الزکاة ٢٧ (١٧٠٤، ١٧٠٥، ١٧٠٦) ، ویأتی عند المؤلف بعد ھذا (بأرقام ٢٥١٤-٢٥١٦، ٢٥١٩، ٢٥٢٠) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2511
صدقہ فطر میں انگور دینے سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب ہمارے درمیان موجود تھے تو ہم صدقہ فطر گی ہوں سے ایک صاع، یا جو سے، یا کھجور سے، یا کشمش سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2512
صدقہ فطر میں انگور دینے سے متعلق
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب ہم میں تھے تو ہم صدقہ فطر گی ہوں سے، کھجور سے، یا جو سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے، اور ہم برابر اسی طرح نکالتے رہے۔ یہاں تک کہ معاویہ (رض) شام سے آئے، اور انہوں نے جو باتیں لوگوں کو بتائیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ شامی گی ہوں کے دو مد (مدینہ کے) ایک صاع کے برابر ہیں، تو لوگوں نے اسی کو اختیار کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2513
صدقہ فطر میں آٹا دینا
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقہ فطر کھجور سے، یا جو سے، یا کشمش سے، یا آٹا یا پنیر سے، یا بےچھلکے والی جو سے ایک صاع ہی نکالا ہے۔ سفیان کو شک ہوا تو انہوں نے من دقیق أوسلت شک کے ساتھ روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥١٣ (حسن صحیح) (آٹے کا ذکر صحیح نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح دون ذکر الدقيق صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2514
صدقہ فطر میں گیہوں ادا کرنا
حسن (حسن بصریٰ ) سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) نے بصرہ میں خطبہ دیا، تو انہوں نے کہا : تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ دو (یعنی صدقہ فطر نکالو) تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ تو انہوں نے کہا : یہاں اہل مدینہ میں سے کون کون ہیں ؟ تم لوگ اٹھو، اور اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، انہیں بتاؤ، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام، مذکر اور مونث پر آدھا صاع گی ہوں، یا ایک صاع کھجور، یا جو فرض کیا ہے۔ حسن کہتے ہیں : علی (رض) نے کہا : رہی بات جب اللہ نے تمہیں وسعت و فراخی دے رکھی ہو تو تم بھی وسعت و فراخی کا مظاہرہ کرو۔ گیہوں وغیرہ (نصف صاع کے بجائے) ایک صاع دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٨١ (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح المرفوع منه صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2515
سلت صدقہ فطر میں دینا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں لوگ صدقہ فطر ایک صاع جَو یا کھجور یا سلت (بےچھلکے کا جو) یا کشمش نکالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٩ (١٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2516
صدقہ فطر میں جو ادا کرنا
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع جَو یا کھجور یا انگور یا پنیر نکالتے تھے۔ اور ہم برابر ایسا ہی کرتے چلے آ رہے تھے یہاں تک کہ معاویہ (رض) کا زمانہ آیا۔ تو انہوں نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ شامی گیہوں کے دو مد (یعنی نصف صاع) جو کے ایک صاع کے برابر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2517
صدقہ فطر میں پنیر دینے کے بارے میں
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (صدقہ فطر) کھجور یا جو یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ نہ نکالتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥١٣ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2518
صاع کی مقدار
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے آج کے مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد اور کچھ زائد کا تھا۔ اور ابوعبدالرحمٰن فرماتے ہیں : اس حدیث کو مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الکفارات ٥ (٦٧١٢) ، والاعتصام ١٦ (٧٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک ایک صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے، لیکن جب امام ابویوسف کا امام مالک سے مناظرہ ہوا اور امام مالک نے انہیں اہل مدینہ کے وہ صاع دکھلائے جو موروثی طور سے نبی اکرم ﷺ کے زمانے سے چلے آ رہے تھے تو انہوں نے جمہور کے قول کی طرف رجوع کرلیا۔ اور موجودہ وزن سے ایک صاع لگ بھگ ڈھائی کیلو کا ہوتا ہے مدینہ کے بازاروں میں جو صاع اس وقت بنتا ہے، یا مشائخ سے بالسند جو صاع متوارث ہے اس میں گی ہوں ڈھائی کیلو ہی آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2519
صاع کی مقدار
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پیمانہ اہل مدینہ کا پیمانہ ہے اور وزن اہل مکہ کا وزن ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٨ (٣٣٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٧١٠٢) ، ویأتی عند المؤلف برقم ٤٥٩٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد سونا اور چاندی وزن کرنے کے بانٹ ہیں کیونکہ ان کا وزن دراہم سے کیا جاتا تھا اور اس وقت مختلف شہروں کے دراہم مختلف وزن کے ہوتے تھے اس لیے کہا گیا کہ زکاۃ کے سلسلہ میں اہل مکہ کے دراہم کا اعتبار ہوگا، اور ایک قول یہ ہے کہ چوں کہ اہل مدینہ کاشتکار تھے اس لیے وہ پیمائش اور ناپ کے احوال کے زیادہ جانکار تھے اور مکہ والے عام طور سے تاجر تھے اس لیے وہ تول کے احوال کے زیادہ واقف کار تھے اس لیے ایسا کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2520
صدقہ فطر کس وقت دینا افضل ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کردیا جائے (ابن بزیع کی روایت میں بصدقة الفطر کے بجائے بزكاة الفطر ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٧٠ (١٥٠٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥ (٩٨٦) ، سنن ابی داود/الزکاة ١٨ (١٦١٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٦ (٦٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥٢) ، مسند احمد (٢/١٥، ١٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2521
ایک شہر سے دوسرے شہر زکوة منتقل کرنے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن بھیجا تو فرمایا : تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انہیں اس بات کی گواہی کی دعوت دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ (وقت کی) نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی، اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کردی جائے گی، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو ان کے اچھے و عمدہ مال لینے سے بچو، اور مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2522
جس وقت زکوة دولت مند شخص کو ادا کردی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ یہ شخص دولت مند ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک شخص نے کہا : میں ضرور صدقہ دوں گا، تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے، اس نے کہا : اللہ تیرا شکر ہے چور کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی ١ ؎، میں اور بھی صدقہ دوں گا چناچہ (دوسرے دن بھی) وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے لے جا کر ایک زانیہ عورت کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ تو اس نے پھر کہا : اللہ تیرا شکر ہے زانیہ کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی، میں پھر صدقہ دوں گا، چناچہ (تیسرے دن) پھر وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا، اور ایک مالدار شخص کو تھما آیا، پھر صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک مالدار شخص کو صدقہ کیا گیا ہے، اس نے کہا : اللہ تیرا شکر ہے، زانیہ، چور اور مالدار کو دے دینے پر بھی۔ تو خواب میں اس کے پاس آ کر کہا گیا : رہا تیرا صدقہ تو وہ قبول کرلیا گیا ہے، رہی زانیہ تو (صدقہ پا کر) شاید وہ زناکاری سے باز آجائے اور رہا چور تو صدقہ پا کر شاید وہ اپنی چوری سے باز آجائے، اور رہا مالدار آدمی (تو صدقہ پا کر) شاید وہ اس سے سبق سیکھے اور اللہ عزوجل نے اسے جو دولت دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٤ (١٤٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٤ (١٠٢٢) ، مسند احمد ٢/٣٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2523
خیانت کے مال سے صدقہ دینا
ابوالملیح کے والد اسامہ بن عمیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ عزوجل بغیر پاکی کے کوئی نماز قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی حرام مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ١٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2524
خیانت کے مال سے صدقہ دینا
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص بھی اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے (اور اللہ پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے) تو رحمن عزوجل اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے گو وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ رحمن کے ہاتھ میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے پہاڑ سے بھی بڑا ہوجاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا اونٹنی کے چھوٹے بچے کو پالتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٨ (١٤١٠) ، التوحید ٢٣ (٧٤٣٠) تعلیقا، صحیح مسلم/الزکاة ١٩ (١٠١٤) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٨ (٦٦١) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٨ (١٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧٩) ، موطا امام مالک/الصدقة ١ (١) (مرسلاً ) ، مسند احمد ٢/٢٦٨، ٣٣١، ٣٨١، ٤١٨، ٤١٩، ٤٣١، ٤٧١، ٥٣٨، ٥٤١، سنن الدارمی/الزکاة ٣٥ (١٧١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2525
کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر
عبداللہ بن حبشی خثعمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سے کام افضل ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ایسا ایمان جس میں شبہ نہ ہو، جہاد جس میں خیانت نہ ہو، اور حج مبرور ، پوچھا گیا : کون سی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : لمبے قیام والی نماز ، پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ صدقہ جو کم مال والا اپنی محنت کی کمائی سے دے ، پوچھا گیا : کون سی ہجرت افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایسی ہجرت جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے ، پوچھا گیا : کون سا جہاد افضل ہے، آپ نے فرمایا : اس شخص کا جہاد جو مشرکین سے اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرے ، پوچھا گیا : کون سا قتل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس میں آدمی کا خون بہا دیا گیا ہو، اور اس کا گھوڑا ہلاک کردیا گیا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١٤ (١٣٢٥) ، ٣٤٧ (١٤٤٩) ، مسند احمد ٣/٤١٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٥ (١٤٣١) ، ویأتی عند المؤلف برقم ٤٩٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2526
کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا ، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا : یہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا : ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کردیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٠٥٧) ، مسند احمد (٢/٣٧٩) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ ثواب میں دینے والے کی حالت کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ دیئے گئے مال کا، اللہ کے نزدیک قدر و قیمت کے اعتبار ایک لاکھ درہم اس غریب کے ایک درہم کے برابر نہیں ہے جس کے پاس صرف دو ہی درہم تھے، اور ان دو میں سے بھی ایک اس نے اللہ کی راہ میں دے دیا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2527
کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک درہم ایک لاکھ درہم سے آگے نکل گیا ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا : ایک شخص کے پاس دو درہم ہیں، اس نے ان دونوں میں سے ایک لیا اور اسے صدقہ کردیا۔ دوسرا وہ آدمی ہے جس کے پاس بہت زیادہ مال ہے، اس نے اپنے مال (خزانے) کے ایک کنارے سے ایک لاکھ درہم نکالے، اور انہیں صدقہ میں دیدے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٣٢٨) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2528
کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تھے، اور ہم میں بعض ایسے ہوتے تھے جن کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ وہ بازار جاتا اور اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتا، اور ایک مد لے کر آتا اور اسے رسول اللہ ﷺ کو دے دیتا۔ میں آج ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کے پاس ایک لاکھ درہم ہے، اور اس وقت اس کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٠ (١٤١٥) ، الإجارة ١٣ (٢٢٧٣) ، تفسیر التوبة ١١ (٤٦٦٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢١ (١٠١٨) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ١٢ (٤١٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩١) ، مسند احمد (٥/٢٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2529
کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا تو ابوعقیل (رض) نے آدھا صاع صدقہ دیا، اور ایک اور شخص اس سے زیادہ لے کر آیا، تو منافقین اس (پہلے شخص) کے صدقہ کے بارے میں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ایسے صدقے سے بےنیاز ہے، اور اس دوسرے نے محض دکھاوے کے لیے دیا ہے، تو (اس موقع پر) آیت کریمہ : الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم جو لوگ دل کھول کر خیرات کرنے والے مومنین پر اور ان لوگوں پر جو صرف اپنی محنت و مزدوری سے حاصل کر کے صدقہ دیتے ہیں طعن زنی کرتے ہیں (التوبہ : ٧٩ ) نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2530
اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والے ہاتھ کی فضیلت
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا : یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا) ۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٧٢) ، والوصایا ٩ (٢٧٥٠) ، الخمس ١٩ (٣١٤٣) ، الرقاق ١١ (٦٤٤١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٥) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٢٩ (٢٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٢٦) ، مسند احمد (٣/٤٠٢، ٤٣٤) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٢ (١٦٩٣) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٢٦٠٣، ٢٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2531
اوپر والا ہاتھ کونسا ہے؟
طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے ہیں آپ فرما رہے ہیں : دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو : پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔ یہ حدیث ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٩٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2532
نیچے والا (یعنی صدقہ لینے والا) ہاتھ
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اس وقت آپ صدقہ و خیرات اور مانگنے سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے) : اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے، اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٨ (١٤٢٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٨ (١٦٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٧) ، موطا امام مالک/الصدقة ٢ (٨) ، مسند احمد (٢/٩٧) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٢ (١٦٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2533
اس طرح کا صدقہ کرنا کہ انسان دولت مند رہے افضل ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہتر صدقہ وہ ہے جو مالداری کی برقراری اور دل کی بےنیازی کے ساتھ ہو، اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔ اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی کفالت و نگرانی تمہارے ذمہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤١٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٨ (١٤٢٦) ، النفقات ٢ (٥٣٥٥) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٢) (بحذف وزیادة) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٨ (٦٨٠) (مثل مسلم) ، مسند احمد (٢/٢٣٠، ٢٤٣، ٢٧٨، ٢٨٨، ٣١٩، ٣٦٢، ٣٩٤، ٤٣٤، ٤٧٥، ٤٧٦، ٤٨٠، ٥٠١، ٥٢٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا نہ ہو کہ سارا مال صدقہ کر دے اور خود محتاج ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2534
زیر نظر حدیث شریف کی تفسیر
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ دو ، ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ نے فرمایا : اسے اپنی ذات پر صدقہ کرو ١ ؎ اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا : اپنی بیوی پر صدقہ کرو ، اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے اپنے بیٹے پر صدقہ کرو ، اس نے کہا : میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا : اپنے خادم پر صدقہ کر دو ، اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا : آپ بہتر سمجھنے والے ہیں (جیسی ضرورت سمجھو ویسا کرو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤٥ (١٦٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٤١) ، مسند احمد (٢/ ٢٥١، ٤٧١) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی خود اپنی ضروریات میں صدقہ کرو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2535
اگر کوئی آدمی صدقہ ادا کرے اور وہ خود محتاج ہو تو اس شخص کا صدقہ واپس کردیا جائے
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا : تم دو رکعتیں پڑھو ، پھر وہ شخص دوسرے جمعہ کو بھی آیا اور نبی اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا : تم دو رکعتیں پڑھو ، پھر وہ تیسرے جمعہ کو (بھی) آیا، آپ نے فرمایا : دو رکعتیں پڑھو ، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا : صدقہ دو ، تو لوگوں نے صدقہ دیا، تو آپ نے اس شخص کو دو کپڑے دئیے، پھر آپ نے پھر فرمایا : لوگو صدقہ دو ، تو اس شخص نے اپنے ان دونوں کپڑوں میں سے ایک کو آپ کے سامنے ڈال دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے اس شخص کو نہیں دیکھا ؟ یہ خستہ حالت میں مسجد میں آیا، میں نے امید کی کہ تم لوگ اسے دیکھ کر اس کی خستہ حالی کو تاڑ لو گے اور اسے صدقہ دو گے، لیکن تم لوگوں نے ایسا نہیں کیا، تو مجھ ہی کو کہنا پڑا کہ تم صدقہ دو ، تو تم لوگوں نے صدقہ دیا تو میں نے اسے دو کپڑے دئیے، پھر لوگوں سے کہا : صدقہ دو ، تو اس نے ان کپڑوں میں سے (جو ہم نے اسے دیے تھے) ایک (ہمارے آگے) ڈال دیا، (ارے بیوقوف) تم اپنا کپڑا لے لو، آپ نے اسے ڈانٹا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٣٩ (١٦٧٥) ، سنن الترمذی/ الصلاة ٢٥٠ (٥١١) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٧٤) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ ڈانٹ ازراہ شفقت تھی، مطلب یہ تھا کہ میں تو تمہارے لیے انتظام میں لگا ہوا ہوں، تمہیں صدقہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2536
غلام کے صدقہ کرنے سے متعلق
عمیر مولی آبی اللحم کہتے ہیں کہ میرے مالک نے مجھے گوشت بھوننے کا حکم دیا، اتنے میں ایک مسکین آیا، میں نے اس میں سے تھوڑا سا اسے کھلا دیا، میرے مالک کو اس بات کی خبر ہوگئی تو اس نے مجھے مارا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اسے بلوایا اور پوچھا : تم نے اسے کیوں مارا ہے ؟ اس نے کہا : یہ میرا کھانا (دوسروں کو) بغیر اس کے کہ میں اسے حکم دوں کھلا دیتا ہے۔ اور دوسری بار راوی نے کہا : بغیر میرے حکم کے کھلا دیتا ہے، تو آپ نے فرمایا : اس کا ثواب تم دونوں ہی کو ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٦ (١٠٢٥) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٦ (٢٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2537
غلام کے صدقہ کرنے سے متعلق
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان پر صدقہ ہے ، عرض کیا گیا : اگر کسی کو ایسی چیز نہ ہو جسے صدقہ کرسکے ؟ آپ نے فرمایا : اپنے ہاتھوں سے کام کرے اور اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے، اور صدقہ کرے ، کہا گیا : اگر ایسا بھی نہ کرسکے ؟ آپ نے فرمایا : محتاج و پریشان حال کی مدد کرے ، کہا گیا : اگر ایسا بھی نہ کرسکے ؟ آپ نے فرمایا : بھلائی اور نیک باتوں کا حکم کرے ، کہا گیا : اگر یہ بھی نہ کرسکے ؟ آپ نے فرمایا : برائیوں سے باز رہے ، یہ بھی ایک صدقہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣٠ (١٤٤٥) ، الأدب ٣٣ (٦٠٢٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٦ (١٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٨٧) ، مسند احمد (٤/٣٩٥، ٤١١) ، سنن الدارمی/الرقاق ٣٤ (٢٧٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2538
اگر عورت شوہر کے مال سے خیرات کرے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دے تو اسے ثواب ملے گا، اور اس کے شوہر کو بھی۔ اور خازن کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا، اور ان میں سے کوئی دوسرے کا ثواب کم نہ کرے گا، شوہر کو اس کے کمانے کی وجہ سے ثواب ملے گا، اور بیوی کو اس کے خرچ کرنے کی وجہ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٤ (٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٤) ، مسند احمد (٦/٩٩) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٧، ٢٥، ٢٦ (١٤٢٥، ١٤٣٧، ١٤٣٩-١٤٤١) ، والبیوع ١٢ (٢٠٦٥) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٥ (١٠٢٤) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٥ (٢٢٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2539
عورت شوہر کی بلا اجازت صدقہ نہ کرے
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کرلیا، تو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے (منجملہ اور باتوں کے) اپنی تقریر میں فرمایا : کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں ، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٨٦ (٣٥٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الھبات ٧ (٢٣٨٨) ، ویأتی عند المؤلف ٣٧٨٨) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2540
فضیلت صدقہ
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محترم بیویاں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس اکٹھا ہوئیں، اور پوچھنے لگیں کہ ہم میں کون آپ سے پہلے ملے گی ؟ آپ نے فرمایا : تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی ، ازواج مطہرات ایک بانس کی کھپچی لے کر ایک دوسرے کا ہاتھ ناپنے لگیں، تو وہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا تھیں جو سب سے پہلے آپ سے ملیں، وہی سب میں لمبے ہاتھ والی تھیں، یہ ان کے بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کی وجہ سے تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١١ (١٤٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٩) ، مسند احمد (٦/١٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ کی بیویوں میں سب سے پہلے انہیں کا انتقال ہوا، وہ لمبے ہاتھ والی اس معنی میں تھیں کہ وہ بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرتی تھیں، بعض روایتوں میں سودہ کے بجائے زینب کا نام آیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2541
سب سے زیادہ افضل کونسا صدقہ ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارا اس وقت کا صدقہ دینا افضل ہے جب تم تندرست ہو اور تمہیں دولت کی حرص ہو اور تم عیش و راحت کی آرزو رکھتے ہو اور محتاجی سے ڈرتے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١١ (١٤١٩) ، والوصایا ٧ (٢٧٤٨) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣١ (١٠٣٢) ، سنن ابی داود/الوصایا ٣ (٢٨٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الوصایا ٤ (٢٧٠٦) ، مسند احمد ٢/٢٣١، ٢٥٠، ٤١٥، ٤٤٧، ویأتی عند المؤلف في الوصایا ١ (برقم ٣٦٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2542
سب سے زیادہ افضل کونسا صدقہ ہے؟
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو (یعنی مالداری باقی رکھتے ہوئے ہو) ، اور اوپر والا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (لینے والا ہاتھ) سے بہتر ہے، اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی تم کفالت کرتے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٢ (١٠٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٣٥) ، صحیح البخاری/الزکاة ١٨ (١٤٢٧) ، مسند احمد ٣/٤٠٢، ٤٠٣، ٤٣٤، سنن الدارمی/الزکاة ٢٢ (١٦٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2543
سب سے زیادہ افضل کونسا صدقہ ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو ١ ؎، اور ان سے شروع کرو جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١٨ (١٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤) ، مسند احمد (٢/٤٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آدمی صدقہ دے کر محتاج نہ ہوجائے، بلکہ اس کی مالداری برقرار رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2544
سب سے زیادہ افضل کونسا صدقہ ہے؟
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب آدمی اپنی بیوی پر خرچ کرے اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہو تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٢ (٥٥) ، المغازی ١٢ (٤٠٠٦) ، النفقات ١ (٥٣٥١) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (١٠٠٢) ، سنن الترمذی/البر ٤٢ (١٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٩٦) ، مسند احمد ٤/١٢٠، ١٢٢، و ٥/٢٧٣، سنن الدارمی/الاستئذان ٣٥ (٢٧٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2545
سب سے زیادہ افضل کونسا صدقہ ہے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کردیا ١ ؎، یہ خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اس شخص سے پوچھا : کیا تمہارے پاس اس غلام کے علاوہ بھی کوئی مال ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے مجھ سے کون خرید رہا ہے ؟ تو نعیم بن عبداللہ عدوی نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، تو رسول اللہ ﷺ ان درہموں کو لے کر آئے اور انہیں اس کے حوالہ کردیا، اور فرمایا : پہلے خود سے شروع کرو اسے اپنے اوپر صدقہ کرو اگر کچھ بچ رہے تو تمہاری بیوی کے لیے ہے، اور اگر تمہاری بیوی سے بھی بچ رہے تو تمہارے قرابت داروں کے لیے ہے، اور اگر تمہارے قرابت داروں سے بھی بچ رہے تو اس طرح اور اس طرح کرو، اور آپ اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کر رہے تھے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ١٣ (٩٩٧) ، والأیمان ١٣ (٩٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٩ (٢١٤١) ، ١١٠ (٢٢٣) ، والاستقراض ١٦ (٢٤٠٣) ، والخصومات ٣ (٢٤١٥) ، والعتق ٩ (٢٥٣٤) ، وکفارات الأیمان ٧ (٦٧١٦) ، والإکراہ ٤ (٦٩٤٧) ، والأحکام ٣٢ (٧١٨٦) (مختصراً ) ، سنن ابی داود/العتق ٩ (٣٩٥٧) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١ (٢٥١٣) (مختصراً ) ، مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣٦٨، ٣٦٩، ٣٧٠، ٣٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ ٢ ؎: مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس پڑوس کے محتاجوں اور غریبوں کو دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2546
کنجوس آدمی کا صدقہ خیرات کرنا
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ کرنے والے فیاض اور بخیل کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جن پر لوہے کے دو کرتے یا دو ڈھال ان دونوں کی چھاتیوں سے لے کر ان کی ہنسلی کی ہڈیوں تک ہوں، جب فیاض خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے بدن پر کشادہ ہوجاتی ہے، پھیل کر اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے، اور اس کے نشان قدم کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور اس کی کڑیاں اپنی جگ ہوں پر چمٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ اس کی ہنسلی یا اس کی گردن پکڑ لیتی ہے ۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسے کشادہ کر رہے تھے، اور وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔ طاؤس کہتے ہیں : میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے سنا کہ آپ اپنے ہاتھ سے کشادہ کرنے کے لیے اشارہ کر رہے تھے، اور وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ اللباس ٩ (٥٧٩٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٣ (١٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥١٧، ١٣٦٨٤) ، مسند احمد ٢/٢٥٦، ٣٨٩، ٥٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2547
کنجوس آدمی کا صدقہ خیرات کرنا
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بخیل اور صدقہ دینے والے (سخی) کی مثال ان دو شخصوں کی ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہوں، اور ان کے ہاتھ ان کی ہنسلیوں کے ساتھ چمٹا دیئے گئے ہوں، تو جب جب صدقہ کرنے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے لیے وسیع و کشادہ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ وہ اتنی بڑی ہوجاتی ہے کہ چلتے وقت اس کے پیر کے نشانات کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہر کڑی دوسرے کے ساتھ پیوست ہوجاتی اور سکڑ جاتی ہے، اور اس کے ہاتھ اس کی ہنسلی سے مل جاتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : وہ (بخیل) کوشش کرتا ہے کہ اسے کشادہ کرے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢٨ (١٤٤٣) ، الجہاد ٨٩ (٢٩١٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٣ (١٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٢٠) ، مسند احمد (٢/٣٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2548
بے حساب صدقہ خیرات نکالنا
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ کچھ مہاجرین و انصار بھی تھے، ہم نے ایک شخص کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بھیجا، (انہوں نے اجازت دے دی، ہم ان کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا : ایک بار میرے پاس ایک مانگنے والا آیا اس وقت رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف فرما تھے، میں نے (خادمہ کو) اسے کچھ دینے کا حکم دیا، پھر میں نے اسے بلایا اسے دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ چاہتی ہیں کہ بغیر آپ کے علم میں آئے تمہارے گھر میں کچھ نہ آئے اور تمہارے گھر سے کچھ نہ جائے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : عائشہ ! ٹھہر جاؤ، گن کر نہ دو کہ اللہ عزوجل بھی تمہیں بھی گن کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٣) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤٦ (١٧٠٠) ، مسند احمد ٦/٧١، ١٠٨ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2549
بے حساب صدقہ خیرات نکالنا
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : گن کر نہ دو کہ اللہ عزوجل بھی تمہیں گن کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٣) ، الھبة ١٥ (٢٥٩٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٨ (١٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٨) ، مسند احمد (٦/٣٤٤، ٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٢، ٣٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2550
بے حساب صدقہ خیرات نکالنا
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور کہنے لگیں : اللہ کے نبی ! میرے پاس تو کچھ ہوتا نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو زبیر (میرے شوہر) مجھے (کھانے یا خرچ کرنے کے لیے) دے دیتے ہیں، تو کیا اس دیے ہوئے میں سے میں کچھ (فقراء و مساکین کو) دے دوں تو مجھ پر گناہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : تم جو کچھ دے سکو دو ، اور روکو نہیں کہ اللہ عزوجل بھی تم سے روک لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢٢ (١٤٣٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٨ (١٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤٦ (١٦٩٩) ، سنن الترمذی/البر ٤٠ (١٩٦١) ، مسند احمد (٦/٣٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2551
قلیل صدقہ سے متعلق
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا اللہ کی راہ میں دے کر سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٩ (١٤١٣) مطولا، المناقب ٢٥ (٣٥٩٥) مطولا، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٤) ، مسند احمد (٤/٢٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2552
قلیل صدقہ سے متعلق
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جہنم کا ذکر کیا، اور نفرت سے اپنا منہ پھیرلیا، اور اس سے پناہ مانگی۔ شعبہ نے ذکر کیا کہ آپ نے تین دفعہ ایسا کیا، پھر فرمایا : آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی اللہ کی راہ میں دے کر سہی۔ اور اگر اسے نہ پاس کو تو بھلی بات کے ذریعہ معذرت کر کے سہی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٣٤ (٦٠٢٣) ، الرقاق ٥١ (٦٥٦٣) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2553
فضیلت صدقہ
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوگ ننگے بدن، ننگے پیر، تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، زیادہ تر لوگ قبیلہ مضر کے تھے، بلکہ سبھی مضر ہی کے تھے۔ ان کی فاقہ مستی دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ اندر گئے، پھر نکلے، تو بلال (رض) کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی، آپ نے نماز پڑھائی، پھر آپ نے خطبہ دیا، تو فرمایا : لوگو ! ڈرو، تم اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ اور انہیں دونوں (میاں بیوی) سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیئے۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم سب ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ قرابت داریوں کا خیال رکھو کہ وہ ٹوٹنے نہ پائیں، بیشک اللہ تمہارا نگہبان ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور تم میں سے ہر شخص یہ (دھیان رکھے اور) دیکھتا رہے کہ آنے والے کل کے لیے اس نے کیا آگے بھیجا ہے، آدمی کو چاہیئے کہ اپنے دینار میں سے، اپنے درہم میں سے، اپنے کپڑے میں سے، اپنے گیہوں کے صاع میں سے، اپنے کھجور کے صاع میں سے صدقہ کرے ، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی ، چناچہ انصار کا ایک شخص (روپیوں سے بھری) ایک تھیلی لے کر آیا جو اس کی ہتھیلی سے سنبھل نہیں رہی تھی بلکہ سنبھلی ہی نہیں۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کھانے اور کپڑے کے دو ڈھیر اکٹھے ہوگئے۔ اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور کھل اٹھا ہے گویا وہ سونے کا پانی دیا ہوا چاندی ہے (اس موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے گا، اس کے لیے دہرا اجر ہوگا : ایک اس کے جاری کرنے کا، دوسرا جو اس پر عمل کریں گے ان کا اجر، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا، تو اسے اس کے جاری کرنے کا گناہ ملے گا اور جو اس اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کوئی کمی کی جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٢٠ (١٠١٧) ، العلم ٦ (١٠١٧) ، سنن الترمذی/العلم ١٥ (٢٦٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٤ (٢٠٣) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٢) ، مسند احمد ٤/٣٥٧، ٣٥٨، ٣٥٩، ٣٦٢، ٣٦١، ٣٦٢، سنن الدارمی/المقدمة ٤٤ (٥٢٩) (مثل الترمذی) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2554
فضیلت صدقہ
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لے کردینے چلے گا تو جس شخص کو وہ دینے جائے گا وہ شخص کہے گا : اگر تم کل لے کر آئے ہوتے تو میں لے لیتا، لیکن آج تو آج نہیں لوں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٩ (١٤١١) ، ١٦ (١٤٢٤) ، الفتن ٢٥ (٧١٢٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٨ (١٠١١) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٨٦) ، مسند احمد (٤/٣٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ آج میں مالدار ہوگیا ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2555
صدقہ خیرات کرنے کی سفارش سے متعلق
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی، اللہ اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان سے جو چاہے فیصلہ فرمائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢١ (١٤٣٢) ، والأدب ٣٦ (٦٠٢٧) ، ٣٧ (٦٠٢٨) ، التوحید ٣١ (٧٤٧٦) ، صحیح مسلم/البر ٤٤ (٢٦٢٧) ، سنن ابی داود/الأدب ١٢٦ (٥١٣٢) ، سنن الترمذی/العلم ١٤ (٢٦٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٦) ، مسند احمد (٤/٤٠٠، ٤٠٩، ٤١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2556
صدقہ خیرات کرنے کی سفارش سے متعلق
معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کوئی چیز مجھ سے مانگتا ہے تو میں نہیں دیتا، تاکہ تم اس سلسلہ میں سفارش کرو، اور سفارش کرنے کا اجر پاؤ، نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سفارش کرو تمہیں سفارش کا اجر (ثواب) دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٢٦ (٥١٣٢) (تحفة الأشراف : ١١٤٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2557
صدقہ کرنے میں فخر سے متعلق احادیث
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے، (ایسے ہی) ایک فخر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور ایک فخر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، تو جس غیرت کو اللہ پسند کرتا ہے وہ تہمت کی جگہ کی غیرت ہے، اور وہ غیرت ١ ؎ جو اللہ عزوجل کو ناپسند ہے تو وہ غیر تہمت کی جگہ کی غیرت ہے ٢ ؎ رہا فخر جو اللہ کو پسند ہے تو وہ آدمی کا لڑائی کے وقت یا صدقہ دیتے وقت اپنی ذات پر فخر ہے ٣ ؎ اور وہ فخر جو اللہ کو ناپسند ہے وہ یہ ہے کہ آدمی لغو اور بیہودہ کاموں پر فخر کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١١٤ (٢٦٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣١٧٤) ، مسند احمد (٥/٤٤٥، ٤٤٦) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٧ (٢٢٧٢) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسی جگہوں میں جانے سے غیرت آئے جہاں بدنامی کا ڈر ہو جیسے غیر محرم کے ساتھ خلوت میں رہنے کی غیرت یا شراب خانہ میں جانے سے غیرت وغیرہ۔ ٢ ؎: یعنی ایسی جگہ میں غیرت کرے جہاں تہمت اور بدنامی کا خوف نہ ہو۔ ٣ ؎: اس لیے کہ اس سے دوسروں میں جہاد کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کا شوق پیدا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2558
صدقہ کرنے میں فخر سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کھاؤ، صدقہ کرو، اور پہنو، لیکن اسراف (فضول خرچی) اور غرور (گھمنڈ و تکبر) سے بچو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٣ (٣٦٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٧٣) ، مسند احمد (٢/١٨١، ١٨٢) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2559
کوئی ملازم یا غلام آقا کی مرضی سے صدقہ خیرات نکالے
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ، نیز فرمایا : امانت دار خازن جو خوش دلی سے وہ چیز دے جس کا اسے حکم دیا گیا ہو تو وہ بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٢٥ (١٤٣٨) ، الاجارة ١ (٢٢٦٠) ، الوکالة ١٦ (٢٣١٩) (فی جمیع المواضع مقتصراعلی قولہ : الخازن ۔۔۔ ) ، صحیح مسلم/الزکاة ٢٦ (١٠٢٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ٤٣ (١٦٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٣٨) ، مسند احمد (٤/٤٠٤) ، ٤٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2560
خفیہ طریقہ سے خیرات نکالنے والا
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا اعلانیہ صدقہ کرنے والے کی طرح ہے، اور دھیرے سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2561
صدقہ نکال کر احسان جتلانے والے کے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین طرح کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ دیکھے گا، ایک ماں باپ کا نافرمان، دوسری وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے، تیسرا دیوث (بےغیرت) اور تین شخص ایسے ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے۔ ایک ماں باپ کا نافرمان، دوسرا عادی شرابی، اور تیسرا دے کر احسان جتانے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد به المؤلف، (تحفة الأشراف : 6767) حم ٢/٦٩، ١٢٨، ١٣٤ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2562
صدقہ نکال کر احسان جتلانے والے کے متعلق
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت پڑھی۔ تو ابوذر (رض) نے کہا : وہ لوگ نامراد ہوئے، گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا : (وہ تین یہ ہیں) اپنا تہبند ٹخنے کے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے سامان کو رواج دینے والا، اپنے دیے ہوئے کا احسان جتانے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٧ (٤٠٨٧) ، سنن الترمذی/البیوع ٥ (١٢١١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٣٠ (٢٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٠٩) ، مسند احمد (٤/١٤٨، ١٥٨، ١٦٢، ١٦٨، ١٧٨) ، سنن الدارمی/البیوع ٦٣ (٢٦٤٧) ، ویأتی عند المؤلف فی البیوع ٥ (برقم : ٤٤٦٣، ٤٤٦٤) وفی الزینة ١٠٤ (برقم ٥٣٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2563
صدقہ نکال کر احسان جتلانے والے کے متعلق
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ عزوجل نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک و صاف کرے گا، اور انہیں درد ناک عذاب ہوگا : اپنے دئیے ہوئے کا احسان جتانے والا، اپنے تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، اپنے سامان کو جھوٹی قسمیں کھا کر رواج دینے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2564
مانگنے والے شخص کو انکار
ابن بجید انصاری اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مانگنے والے کو کچھ دے کر لوٹایا کرو اگرچہ کھر ہی سہی ۔ ہارون کی روایت میں محرق (جلی ہوئی) کا اضافہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٣٣ (١٦٦٧) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٩ (١٦٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٥) ، موطا امام مالک/صفة النبی ٥ (٨) ، مسند احمد ٤/٧٠، ٥/٣٨١، ٦/٣٨٢، ٣٨٣، ٤٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2565
جس شخص سے سوال کیا جائے اور وہ صدقہ نہ دے
بہز بن حکیم اپنے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : آدمی اپنے مالک کے پاس اس کی ضرورت سے زائد و فاضل چیز مانگنے آئے، اور وہ اسے نہ دے تو اس کے لیے قیامت کے دن ایک گنجا (زہریلا) سانپ بلایا جائے گا، جو اس کے فاضل مال کو جسے اس نے دینے سے انکار کردیا تھا چاٹتا پھرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٣٨ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: وہ فاضل و زائد مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا الٹا اس کے لیے وبال بن جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2566
جو آدمی خداوندتعالی کے نام سے سوال کرے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اسے پناہ دو ، اور جو شخص تم سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرے اسے دو ، اور جو شخص اللہ کے نام پر تم سے امان چاہے تو امان دو ، اور جو شخص تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو تم اسے اس کا بدلہ دو ، اور اگر تم بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٣٨ (١٦٧٢) الأدب ١١٧ (٥١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٩١) ، مسند احمد ٢/٦٨، ٩٥، ٩٩، ١٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2567
خداوند قدوس کی ذات کا واسطہ دے کر سوال سے متعلق
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے نبی ! میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے بھی زیادہ بار یہ قسم کھانے کے بعد کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین قبول کروں گا۔ آپ کے پاس آیا ہوں، میں ایک بےعقل اور ناسمجھ انسان ہوں (اب بھی کچھ نہیں سمجھتا) سوائے اس کے جو اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دیا ہے۔ میں اللہ کی ذات کا حوالہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں : اللہ نے آپ کو ہمارے پاس کیا چیزیں دے کر بھیجا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اسلام دے کر ، میں نے عرض کیا : اسلام کی نشانیاں کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ ہے کہ تم کہو : میں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اور اپنے آپ کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک کرلیا ہے، اور تم نماز قائم کرو، زکاۃ دو ۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے ١ ؎۔ ہر ایک دوسرے کا بھائی و مددگار ہے، اللہ تعالیٰ مشرک کا کوئی عمل اس کے بعد کہ وہ اسلام لے آیا ہو قبول نہیں کرتا، یا وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آ ملے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٣٨ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہر مسلمان کی جان، مال عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دار الشرک سے دار السلام کی طرف ہجرت واجب ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2568
جس شخص سے اللہ کے نام سے سوال کیا جائے لیکن اس کو صدقہ نہ دیا جائے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں لوگوں میں مرتبہ کے اعتبار سے بہترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کا سر تھامے رہے یہاں تک کہ اسے موت آجائے، یا وہ قتل کردیا جائے، اور میں تمہیں اس شخص کے بارے میں بتاؤں جو مرتبہ میں اس سے قریب تر ہے ۔ ہم نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! بتائیے، آپ نے فرمایا : یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے کٹ کر کسی وادی میں (گوشہ نشین ہوجائے) نماز قائم کرے، زکاۃ دے اور لوگوں کے شر سے الگ تھلگ رہے، اور میں تمہیں لوگوں میں برے شخص کے بارے میں بتاؤں ؟ ، ہم نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! ضرور بتائیے، آپ نے فرمایا : وہ شخص ہے جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجھاد ١٨ (١٦٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٠) ، مسند احمد (١/٢٣٧، ٣١٩، ٣٢٢) ، سنن الدارمی/الجھاد ٦ (٢٤٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2569
صدقہ دینے والے کا اجر و ثواب
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل محبت کرتا ہے، اور تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل بغض رکھتا ہے، رہے وہ جن سے اللہ محبت کرتا ہے تو وہ یہ ہیں : ایک شخص کچھ لوگوں کے پاس گیا، اور اس نے ان سے اللہ کے نام پر کچھ مانگا، اور مانگنے میں ان کے اور اپنے درمیان کسی قرابت کا واسطہ نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے اسے نہیں دیا۔ تو ایک شخص ان لوگوں کے پیچھے سے مانگنے والے کے پاس آیا۔ اور اسے چپکے سے دیا، اس کے اس عطیہ کو صرف اللہ عزوجل جانتا ہو اور وہ جسے اس نے دیا ہے۔ اور کچھ لوگ رات میں چلے اور جب نیند انہیں اس جیسی اور چیزوں کے مقابل میں بہت بھلی لگنے لگی، تو ایک جگہ اترے اور اپنا سر رکھ کر سو گئے، لیکن ایک شخص اٹھا، اور میرے سامنے گڑگڑانے لگا اور میری آیتیں پڑھنے لگا۔ اور ایک وہ شخص ہے جو ایک فوجی دستہ میں تھا، دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی، لوگ شکست کھا کر بھاگنے لگے مگر وہ سینہ تانے ڈٹا رہا یہاں تک کہ وہ مارا گیا، یا اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مند کیا۔ اور تین شخص جن سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے یہ ہیں : ایک بوڑھا زنا کار، دوسرا گھمنڈی فقیر، اور تیسرا ظالم مالدار ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦١٦ (ضعیف) (اس کے راوی ” زید بن ظبیان “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2570
مسکین کس کو کہا جاتا ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور ایک لقمہ یا دو لقمے (در در) گھماتے اور (گھر گھر) چکر لگواتے ہیں۔ بلکہ مسکین سوال سے بچنے والا ہے ١ ؎ اگر تم چاہو تو پڑھو لا يسألون الناس إلحافا وہ لوگوں سے گڑگڑا کر نہیں مانگتے (البقرہ : ٢٧٣ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٣ (١٤٧٩) ، تفسیر البقرة ٤٨ (٤٥٣٩) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٤ (١٠٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٢١) ، مسند احمد (٢/٣٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی نہیں مانگتا۔ قال الشيخ الألباني : شاذ بزيادة اقرؤوا صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2571
مسکین کس کو کہا جاتا ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جو اس طرح لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ ایک لقمہ دو لقمے یا ایک کھجور دو کھجوریں اسے در در پھرائیں ، لوگوں نے پوچھا : پھر مسکین کون ہے ؟ فرمایا : مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال و دولت نہ ہو کہ وہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے دوسروں کا محتاج نہ رہے، اور وہ محسوس بھی نہ ہو سکے کہ وہ مسکین ہے کہ اسے ضرورت مند سمجھ کر صدقہ دیا جائے۔ اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٣ (١٤٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٢٩) ، موطا امام مالک/صفة النبي ٥ (٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2572
مسکین کس کو کہا جاتا ہے؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک لقمے دو لقمے اور ایک کھجور، دو کھجور در در پھرائیں ۔ لوگوں نے کہا : پھر مسکین کون ہے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : مسکین وہ ہے : جو مالدار نہ ہو، اور لوگ اس کی محتاجی و حاجت مندی کو جان بھی نہ سکیں کہ اسے صدقہ دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٣ (١٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٧) ، مسند احمد (٢/٢٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2573
مسکین کس کو کہا جاتا ہے؟
ام بجید رضی الله عنہا (جو ان عورتوں میں سے ہیں جن ہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : (کبھی ایسا ہوتا ہے) کہ مسکین میرے دروازے پر آکھڑا ہوتا ہے، اور میں اسے دینے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں پاتی ؟ آپ نے فرمایا : اگر تم اسے دینے کے لیے صرف جلی ہوئی کھر ہی پاؤ تو اسے وہی دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2574
متکبر فقیر سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ عزوجل قیامت کے دن بات نہیں کرے گا : بوڑھا زنا کار، گھمنڈی فقیر، جھوٹا امام ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤١٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإیمان ٤٦ (١٠٧) ، مسند احمد (٢/٤٣٣، ٤٨٠) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2575
متکبر فقیر سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چار طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ بغض رکھتا ہے : قسمیں کھا کھا کر بیچنے والا، گھمنڈی فقیر، بوڑھا زنا کار، ظالم امام (حاکم) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٩٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2576
بیوہ خواتین کے واسطے محنت کرنے والے شخص کی فضیلت کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیوہ عورت اور مسکین پر خرچ کرنے کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النفقات ١ (٥٣٥٣) ، الأدب ٢٥ (٦٠٠٦) ، ٢٦ (٦٠٠٧) ، صحیح مسلم/الزھد ٢ (٢٩٨٢) ، سنن الترمذی/البر ٤٤ (١٩٦٩) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١ (٢١٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٤) ، مسند احمد (٢/٣٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2577
جن لوگوں کو تالیف قلب کے واسطے مال دولت دیا جاتا تھا
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس مٹی ملا ہوا غیر صاف شدہ سونے کا ایک ڈلا بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے چار افراد : اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدر فرازی، اور علقمہ بن علاثہ جو عامری تھے پھر وہ بنی کلاب کے ایک فرد بن گئے، اور زید جو طائی تھے پھر بنی نبہان میں سے ہوگئے، کے درمیان تقسیم کردیا۔ (یہ دیکھ کر) قریش کے لوگ غصہ ہوگئے۔ راوی نے دوسری بار کہا : قریش کے سرکردہ لوگ غصہ ہوگئے، اور کہنے لگے کہ آپ نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہم کو چھوڑ دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ ان کی تالیف قلب کروں (یعنی انہیں رجھا سکوں) ، اتنے میں گھنی داڑھی والا، ابھرے گالوں والا دھنسی آنکھوں والا، ابھری پیشانی والا، منڈے سر والا ایک شخص آیا اور کہنے لگا : محمد اللہ سے ڈرو، آپ نے فرمایا : اگر میں ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگوں گا تو پھر اللہ عزوجل کی تابعداری کون کرے گا ؟ وہ مجھے سارے زمین والوں میں اپنا امین (معتمد) سمجھتا ہے، اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے ، پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر چلا تو حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی (لوگوں کا خیال ہے کہ وہ خالد بن ولید (رض) تھے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ١ ؎، اہل اسلام کو قتل کریں گے، اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ یہ لوگ اسلام سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے جسم کو چھیدتا ہوا نکل جاتا ہے۔ اگر میں نے انہیں پایا، تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٦ (٣٣٤٤) ، والمغازی ٦١ (٤٣٥١) ، وتفسیرالتوبة ١٠ (٤٦٦٧) ، التوحید ٢٣ (٧٤٣٢) ، ٥٧ (٧٥٦٢) صحیح مسلم/الزکاة ٤٧ (١٠٦٣) ، سنن ابی داود/السنة ٣١ (٤٧٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١٣٢) ، مسند احمد ٣/٦٨، ٧٢، ٧٣، ویأتی عند المؤلف فی تحریم الدم ٢٦ (برقم ٤١٠٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ خارجی لوگ ہیں جن کا ظہور علی رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2578
اگر کوئی شخص کسی کے قرض کا ذمہ دار ہو تو اس کے لئے اس قرض کیلئے سوال کرنا درست ہے
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا : مانگنا صرف تین لوگوں کے لیے جائز ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے قوم کے کسی شخص کے قرض کی ضمانت لے لی ہو (پھر وہ ادا نہ کرسکے) ، تو وہ دوسرے سے مانگے یہاں تک کہ اسے ادا کر دے، پھر رک جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٦ (١٠٤٤) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٦ (١٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٦٨) ، مسند احمد (٣/٤٧٧، و ٥/٦٠) ، سنن الدارمی/الزکاة ٣٧ (١٦٨٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم ٢٥٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2579
اگر کوئی شخص کسی کے قرض کا ذمہ دار ہو تو اس کے لئے اس قرض کیلئے سوال کرنا درست ہے
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس (ادائیگی کے لیے روپے) مانگنے آیا، تو آپ نے فرمایا : اے قبیصہ رکے رہو۔ (کہیں سے) صدقہ آ لینے دو ، تو ہم تمہیں اس میں سے دلوا دیں گے ، وہ کہتے ہیں ـ: پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے قبیصہ ! صدقہ تین طرح کے لوگوں کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں ہے : وہ شخص جو کسی کا بوجھ خود اٹھا لے ١ ؎ تو اس کے لیے مانگنا درست ہے، یہاں تک کہ اس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے، اور (دوسرا) وہ شخص جو کسی ناگہانی آفت کا شکار ہوجائے، اور وہ اس کا مال تباہ کر دے، تو اس کے لیے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ وہ اسے پالے، پھر رک جائے، (تیسرا) وہ شخص جو فاقہ کا شکار ہوگیا ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین سمجھ دار افراد گواہی دیں کہ ہاں واقعی فلاں شخص فاقہ کا مارا ہوا ہے، تو اس کے لیے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے گزارہ کا انتظام ہوجائے، ان کے علاوہ مانگنے کی جو بھی صورت ہے حرام ہے، اے قبیصہ ! اور جو کوئی مانگ کر کھاتا ہے حرام کھاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کسی کا قرض وغیرہ اپنے ذمہ لے لے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2580
یتیم کو صدقہ خیرات دینا
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے، ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھے، آپ نے فرمایا : اپنے بعد میں تمہارے متعلق دنیا کی رونق و شادابی جس کی تمہارے اوپر بہتات کردی جائے گی سے ڈر رہا ہوں ، پھر آپ نے دنیا اور اس کی زینت کا ذکر کیا۔ تو ایک شخص کہنے لگا : کیا خیر شر لے کر آئے گا ؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ خاموش رہے۔ تو اس سے کہا گیا : تیرا کیا معاملہ ہے کہ تو رسول اللہ ﷺ سے بات کرتا ہے، اور وہ تجھ سے بات نہیں کرتے ؟ اس وقت ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی تھی۔ پھر وحی موقوف ہوئی تو آپ پسینہ پوچھنے لگے، اور فرمایا : کیا پوچھنے والا موجود ہے ؟ بیشک خیر شر نہیں لاتا ہے، مگر خیر اس سبزہ کی طرح ہے جسے موسم ربیع (بہار) اگاتا ہے، (جانور کو بدہضمی سے) مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کردیتا ہے مگر اس گھاس کو کھانے والے کو (نقصان نہیں پہنچاتا) جو کھائے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کوکھیں بھر جائیں تو وہ دھوپ میں جا کر سورج کا سامنا کرے، اور پائخانہ پیشاب کرے، پھر (جب بھوک محسوس کرے تو) پھر چرے (اس طرح) یقیناً یہ مال بھی ایک سرسبز و شیریں چیز ہے۔ وہ مسلمان کا کیا ہی بہترین ساتھی ہے اگر وہ اس سے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو دے، اور جو شخص ناحق مال حاصل کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور یہ قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ ہوگا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٨ (٩٢١) (مختصراً ) ، الزکاة ٤٧ (١٤٦٥) ، الجھاد ٣٧ (٢٨٤٢) ، الرقاق ٧ (٦٤٢٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤١ (١٠٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٤١٦٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١٨ (٣٩٩٥) ، مسند احمد (٣/٧، ٢١، ٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میرے بعد جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگا اور جو مال و دولت اس سے تمہیں حاصل ہوگی، اس سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت میں پڑ کر اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہوجاؤ، اور آخرت کو بھول بیٹھو۔ ٢ ؎: کہ اس نے مجھے ناحق حاصل کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2581
رشتہ داروں کو صدقہ دینا
سلمان بن عامر رضی الله عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین کو صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار مسکین کو صدقہ کرنا صدقہ بھی ہے، اور صلہ رحمی بھی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصیام ٢١ (٢٣٥٥) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٦ (٦٥٨) ، الصوم ١٠ (٦٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ٢٥ (١٦٩٩) ، الزکاة ٢٨ (١٨٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٦) ، مسند احمد ٤/١٨، ٢١٤، سنن الدارمی/الزکاة ٣٨ (١٧٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2582
رشتہ داروں کو صدقہ دینا
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی زینب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا : تم صدقہ دو اگرچہ اپنے زیوروں ہی سے سہی ، وہ کہتی ہیں : عبداللہ بن مسعود (رض) (میرے شوہر) تنگ دست و مفلس تھے، تو میں نے ان سے پوچھا : کیا میرے لیے یہ گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے دیا کروں ؟ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : اس بارے میں تم رسول اللہ ﷺ سے پوچھو۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ انصار کی ایک عورت اسے بھی زینب ہی کہا جاتا تھا آپ کے دروازے پر کھڑی ہے، وہ بھی اسی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی جس کے بارے میں میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال (رض) اندر سے نکل کر ہماری طرف آئے، تو ہم نے ان سے کہا : آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں، اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھیں، اور آپ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم کون ہیں، چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے (اور آپ سے پوچھا) آپ نے پوچھا : یہ دونوں کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : زینب، آپ نے فرمایا : کون سی زینب ؟ انہوں نے کہا : ایک زینب تو عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی، اور ایک زینب انصار میں سے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ہاں (درست ہے) انہیں دوہرا ثواب ملے گا ایک رشتہ داری کا اور دوسرا صدقے کا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٤٨ (١٤٦٦) ، صحیح مسلم/الزکاة ١٤ (١٠٠٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٢ (٦٣٥، ٦٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٤ (١٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٧) ، مسند احمد (٣/٥٠٢، و ٦/٣٦٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ٢٣ (١٦٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2583
سوال کرنے سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، پھر اسے بیچے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے مانگے، تو اسے دے یا نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٧٠) ، ٥٣ (١٤٨٠) ، والبیوع ١٥ (٢٠٧٤) ، والمساقاة ١٣ (٢٣٧٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٣١، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٨ (٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٥ (١٨٣٦) ، مسند احمد (٢/٤٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2584
سوال کرنے سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی برابر مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر کوئی لوتھڑا گوشت نہ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٢ (١٤٧٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٠٢) ، مسند احمد (٢/١٥، ٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2585
سوال کرنے سے متعلق احادیث
عائذ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے مانگا تو آپ نے اسے دیا۔ جب (وہ لوٹ کر چلا اور) اس نے اپنا پیر دروازے کے چوکھٹ پر رکھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم لوگ جان پاتے کہ بھیک مانگنے میں کیا (برائی) ہے تو کوئی کسی کے پاس کچھ بھی مانگنے نہ جاتا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٠٦٠) ، مسند احمد (٥/٦٥) (حسن) (تراجع الالبانی ٤٨٦، صحیح الترغیب والترہیب ٧٩٦ ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2586
نیک لوگوں سے سوال کرنا
فراسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! میں مانگوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، اور اگر تمہیں مانگنا ضروری ہو تو نیکو کاروں سے مانگو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٨ (١٦٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٢٤) ، مسند احمد (٤/٣٣٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” مسلم “ لین الحدیث ہیں، اور ” ابن الفراسی “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2587
بھیک سے بچتے رہنے کا حکم
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، تو آپ نے انہیں دیا، ان لوگوں نے پھر سوال کیا، تو آپ نے انہیں پھر دیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہوگیا، تو آپ نے فرمایا : میرے پاس جو ہوگا اسے میں ذخیرہ بنا کر نہیں رکھوں گا، اور جو پاک دامن بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے پاک دامن بنا دے گا، اور جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا، اور صبر سے بہتر اور بڑی چیز کسی کو نہیں دی گئی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٦٩) ، الرقاق ٢٠ (٦٤٧٠) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٢ (١٠٥٣) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٨ (١٦٤٤) ، سنن الترمذی/البر ٧٧ (٢٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٢) ، موطا امام مالک/الصدقة ٢ (٧) ، مسند احمد (٣/٩٣) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٨ (١٦٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2588
بھیک سے بچتے رہنے کا حکم
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک شخص کا اپنی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر پیٹھ پر لادنا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل (مال) سے نوازا ہو، وہ اس سے مانگے، تو وہ اسے دے یا نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة (١٤٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣٠) ، موطا امام مالک/الصدقة ٢ (١٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2589
لوگوں سے سوال نہ کرنے کی فضیلت سے متعلق
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو اس کے لیے جنت ہے (یحییٰ کہتے ہیں : یہاں ایک لفظ تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ) وہ لوگوں سے کچھ نہ مانگے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٥ (١٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٧ (١٦٤٣) ، مسند احمد (٥/٢٧٧، ٢٧٩، ٢٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2590
لوگوں سے سوال نہ کرنے کی فضیلت سے متعلق
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تین شخصوں کے علاوہ کسی اور کے لیے سوال کرنا درست نہیں ہے : ایک وہ شخص جس کا مال کسی آفت کا شکار ہوگیا ہو تو وہ مانگ سکتا ہے یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ حاصل کرلے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں، پھر رک جائے، (دوسرا) وہ شخص جو کسی کا قرض اپنے ذمہ لے لے تو وہ قرض لوٹانے تک مانگ سکتا ہے، پھر (جب قرض ادا ہوجائے) تو مانگنے سے رک جائے۔ اور (تیسرا) وہ شخص جس کی قوم کے تین سمجھدار افراد اللہ کے نام کی قسم کھا کر اس کی محتاجی و تنگ دستی کی گواہی دیں کہ فلاں شخص کے لیے مانگنا جائز ہے تو وہ مانگ سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ نہ حاصل کرلے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں، ان (تین صورتوں) کے علاوہ مانگنا حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2591
دولت مند کون ہے؟
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو مانگے اور اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے مانگنے سے بےنیاز کرتی ہو، تو وہ قیامت کے دن اپنے چہرے پر خراشیں لے کر آئے گا ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کتنا مال ہو تو اسے غنی (مالدار) سمجھا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : پچاس درہم، یا اس کی قیمت کا سونا ہو ۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں : سفیان ثوری نے کہا کہ میں نے زبید سے بھی سنا ہے، وہ محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید کے واسطہ سے (یہ حدیث) بیان کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٣ (١٦٢٦) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٢ (٦٥١) ، سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٦ (١٨٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٧) مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٥ (١٦٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2592
لوگوں سے لپٹ کر مانگنا
معاویہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چمٹ کر مت مانگو، اور تم میں سے کوئی مجھ سے کوئی چیز اس لیے نہ مانگے کہ میں اسے جو دوں اس میں اسے برکت دی جائے، اور حال یہ ہو کہ میں اسے نہ دینا چاہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٣ (١٠٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤٦) ، مسند احمد (٤/٩٨) ، سنن الدارمی/الزکاة ١٧ (١٦٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2593
لوگوں سے لپٹ کر سوال کرنا
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس چالیس درہم ہوں اور وہ مانگے تو وہ ملحف (چمٹ کر مانگنے والا) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٦٩٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2594
لوگوں سے لپٹ کر سوال کرنا
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میری ماں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس (کچھ مانگنے کے لیے) بھیجا، میں آیا، اور بیٹھ گیا، آپ نے میری طرف منہ کیا، اور فرمایا : جو بےنیازی چاہے گا اللہ عزوجل اسے بےنیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا، اور جو تھوڑے پر قناعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوگا۔ اور جو شخص مانگے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (یعنی چالیس درہم) کے برابر مال ہو تو گویا اس نے چمٹ کر مانگا ، تو میں نے (اپنے دل میں) کہا : میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے، چناچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے واپس چلا آیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٣ (١٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٢١) ، مسند احمد (٣/٩) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2595
جس شخص کے پاس دولت نہ ہو لیکن اس قدر مالیت کی اشیاء موجود ہوں
قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں بقیع الغرقد میں اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز مانگ کر لائیے، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا۔ مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا جو آپ سے مانگ رہا تھا، اور آپ اس سے فرما رہے تھے : میرے پاس (اس وقت) تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ وہ شخص آپ کے پاس سے پیٹھ پھیر کر غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا چلا : قسم ہے میری زندگی کی ! آپ تو اسی کو دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (خواہ مخواہ) مجھ پر اس بات پر غصہ ہو رہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، (ہوتا تو اسے دیتا ویسے تم لوگ جان لو کہ) تم میں سے جس کے پاس چالیس درہم ہو یا چالیس درہم کی قیمت کے برابر کا مال ہو، اور اس نے مانگا تو اس نے چمٹ کر مانگا ، اسدی (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں : میں نے (دل میں) کہا : ہماری دو دھاری اونٹنی ایک اوقیہ سے تو بہتر ہی ہے، اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، چناچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے لوٹ آیا۔ پھر آپ کے پاس جَو اور کشمش آئے، تو آپ نے ہم کو بھی اس میں سے حصہ دیا، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ہم کو مالدار کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٣ (١٦٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٦٤٠) ، مسند احمد (٤/٣٦ و ٥/٤٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2596
جس شخص کے پاس دولت نہ ہو لیکن اس قدر مالیت کی اشیاء موجود ہوں
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ کسی مالدار، طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے درست نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الزکاة ٢٥ (١٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٠) ، مسند احمد (٢/٣٧٧، ٣٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2597
کمانے کی طاقت رکھنے والے شخص کے واسطے سوال کرنا
عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے ان سے بیان کیا کہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، دونوں آپ سے صدقہ مانگ رہے تھے، تو آپ نے نگاہ الٹ پلٹ کر انہیں دیکھا (محمد کی روایت میں (نگاہ کے بجائے) اپنی نگاہ ہے تو دونوں کو ہٹا کٹا پایا، تو آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو لے لو، (لیکن یہ جان لو) کہ مالدار اور کما سکنے والے شخص کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٣ (١٦٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٥) ، مسند احمد (٤/٢٢٤، و ٥/٣٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2598
حاکم وقت سے سوال کرنا
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مانگنا خراش (زخم کی ہلکی لکیر) ہے جسے آدمی اپنے چہرے پر لگاتا ہے، تو جو چاہے اپنے چہرے پر (مانگ کر) خراش لگائے، اور جو چاہے نہ لگائے، مگر یہ کہ آدمی حاکم سے مانگے، یا کوئی ایسی چیز مانگے جس سے چارہ نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٦ (١٦٣٩) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٨ (٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦١٤) ، مسند احمد ٥/١٩، ٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2599
ضروری شے کے واسطے مانگنے کا بیان
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مانگنا خراش ہے جس سے آدمی اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے مگر یہ کہ آدمی حاکم سے مانگے، یا کوئی ایسی چیز مانگے جس کے بغیر چارہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2600
ضروری شے کے واسطے مانگنے کا بیان
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا : یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت ملے گی، اور جو شخص اسے نفس کی حرص و طمع سے لے گا تو اس میں اسے برکت نہیں دی جائے گی۔ وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ (جان لو) اوپر والا (یعنی دینے والا) ہاتھ نیچے والے (یعنی لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٠ (١٤٧٢) مطولا، (تحفة الأشراف : ٣٤٣١) ، مسند احمد (٣/٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2601
اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہونے سے متعلق
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا، پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا : حکیم ! یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے۔ جو اسے طبیعت کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت دی جائے گی، اور جو نفس کی حرص و لالچ کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہو لیکن آسودہ نہ ہوتا ہو، اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2602
اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہونے سے متعلق
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا۔ پھر آپ نے فرمایا : اے حکیم ! یہ مال میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے نفس کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اس میں اسے برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھائے تو لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ اور (جان لو) اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے سے ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے آپ کے بعد اب کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2603
جس کسی کو خداوند قدوس بغیر مانگے عطا فرمائے
عبداللہ بن ساعدی مالکی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب (رض) نے مجھے صدقہ پر عامل بنایا، جب میں اس سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کردیا، تو انہوں نے اس کام کی مجھے اجرت دینے کا حکم دیا، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ عزوجل کے لیے کیا ہے، اور میرا اجر اللہ ہی کے ذمہ ہے، تو انہوں نے کہا : ـ میں تمہیں جو دیتا ہوں وہ لے لو، کیونکہ میں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک کام کیا تھا، اور میں نے بھی آپ سے ویسے ہی کہا تھا جو تم نے کہا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو (اسے) کھاؤ، اور (اس میں سے) صدقہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥١ (١٤٧٣) ، الأحکام ١٧ (٧١٦٣) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٧ (١٠٤٥) ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٨ (١٦٤٧) ، الخراج والإمارة ١٠ (٢٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨٧) ، مسند احمد ١/١٧، ٤٠، ٥٢، ٢/٩٩، سنن الدارمی/الزکاة ١٩ (١٦٨٨، ١٦٨٩) ، وسیأتی بعد ھذا بأرقام ٢٦٠٦-٢٦٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2604
شراب کی حرمت سے متعلق خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا اے اہل ایمان! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (کے تیر) یہ تمام کے تمام ناپاک ہیں شیطان کے کام ہیں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان میں دشمنی اور لڑائی پیدا کرا دے شراب پلا اور جوا کھلا کر اور روک دے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے تو تم لوگ چھوڑتے ہو یا نہیں۔
عبداللہ بن السعدی القرشی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ شام سے عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام پر عامل بنائے جاتے ہو، اور اس پر جو تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو اسے تم قبول نہیں کرتے، تو انہوں نے کہا : ہاں یہ صحیح ہے، میرے پاس گھوڑے ہیں، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں (اللہ کا شکر ہے کوئی کمی نہیں ہے) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہوجائے۔ تو عمر (رض) نے کہا : جو تم چاہتے ہو وہی میں نے بھی چاہا تھا۔ نبی اکرم ﷺ مجھے مال دیتے تو میں عرض کرتا : اسے آپ اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، ایک بار آپ نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کیا : آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، تو آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل اس مال میں سے جو تمہیں بغیر مانگے اور بغیر لالچ کئے دے، اسے لے لو، چاہو تم (اسے اپنے مال میں شامل کر کے) مالدار بن جاؤ، اور چاہو تو اسے صدقہ کر دو ۔ اور جو نہ دے اسے لینے کے پیچھے مت پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2605
جس کسی کو خداوند قدوس بغیر مانگے عطا فرمائے
عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب (رض) کے پاس ان کی خلافت کے زمانہ میں آئے، تو عمر (رض) نے ان سے کہا : کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے ذمہ دار ہوتے ہو اور جب تمہیں مزدوری دی جاتی ہے تو قبول نہیں کرتے لوٹا دیتے ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں (صحیح ہے) اس پر عمر (رض) نے کہا : اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا : میرے پاس گھوڑے، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں (مجھے کسی چیز کی محتاجی نہیں ہے) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو۔ تو عمر (رض) نے ان سے کہا : ایسا نہ کرو کیونکہ میں بھی یہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو (لیکن اس کے باوجود) رسول اللہ ﷺ مجھے عطیہ (بخشش) دیتے تھے تو میں عرض کرتا تھا : اسے میرے بجائے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، تو آپ فرماتے : اسے لے کر اپنے مال میں شامل کرلو، یا صدقہ کر دو ، سنو ! تمہارے پاس اس طرح کا جو بھی مال آئے جس کا نہ تم حرص رکھتے ہو اور نہ تم اس کے طلب گار ہو تو وہ مال لے لو، اور جو اس طرح نہ آئے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2606
جس کسی کو خداوند قدوس بغیر مانگے عطا فرمائے
عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب (رض) کے زمانہ خلافت میں ان کے پاس آئے تو عمر (رض) نے کہا : کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے والی ہوتے ہو تو جب تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو ؟ وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : کیوں نہیں (ایسا تو ہے) انہوں نے کہا : اس سے تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا : میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہوجائے، اس پر عمر (رض) نے کہا : ایسا نہ کرو، کیونکہ میں بھی وہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو۔ نبی اکرم ﷺ مجھے عطایا (بخشش) دیتے تھے، تو میں عرض کرتا تھا : آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا، میں نے کہا : آپ اسے اس شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے لے کر اپنے مال میں شامل کرلو، نہیں تو صدقہ کر دو ۔ (سنو ! ) اس مال میں سے جو بھی تمہیں بغیر کسی لالچ کے اور بغیر مانگے ملے اس کو لے لو، اور جو نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2607
جس کسی کو خداوند قدوس بغیر مانگے عطا فرمائے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا : آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے آپ سے عرض کیا : اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا حاجت مند ہو، تو آپ نے فرمایا : تم لے لو، اور اس کے مالک بن جاؤ، اور اسے صدقہ کر دو ، اور جو مال تمہیں اس طرح ملے کہ تم نے اسے مانگا نہ ہو اور اس کی لالچ کی ہو تو اسے قبول کرلو، اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥١ (١٤٧٣) ، الأحکام ١٧ (٧١٦٤) ، صحیح مسلم/الزکاة ٣٧ (١٠٤٥) ، تحفة الأشراف : ١٠٥٢٠) ، مسند احمد (١/٢١، سنن الدارمی/الزکاة ١٩ (١٦٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2608
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل و عیال کو صدقہ لینے کیلئے مقرر کرنے سے متعلق احادیث
عبدالمطلب بن ربیعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث نے عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ، اور آپ سے کہو کہ اللہ کے رسول ! آپ ہمیں صدقہ پر عامل بنادیں، ہم اسی حال میں تھے کہ علی (رض) آگئے تو انہوں نے ان دونوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تم دونوں میں سے کسی کو بھی صدقہ پر عامل مقرر نہیں فرمائیں گے۔ عبدالمطلب کہتے ہیں : (ان کے ایسا کہنے کے باوجود بھی) میں اور فضل دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، تو آپ نے ہم سے فرمایا : یہ صدقہ جو ہے یہ لوگوں کا میل ہے، یہ محمد ﷺ کے لیے اور محمد ﷺ کے آل کے لیے جائز نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥١ (١٠٧٢) ، سنن ابی داود/الخراج والإمارة ٢٠ (٢٩٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٧) ، مسند احمد ٤/١٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2609
کسی قوم کا بھانجہ اسی قوم میں شمار ہونے سے متعلق
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوایاس معاویہ بن قرہ سے پوچھا : کیا آپ نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کا بھانجا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے ، انہوں نے کہا : جی ہاں (میں نے سنا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨) ، مسند احمد (٣/١١٩، ١٧١، ٢٢٢، ٢٣١، سنن الدارمی/السیر ٨٢ (٢٥٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2610
کسی قوم کا بھانجہ اسی قوم میں شمار ہونے سے متعلق
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کا بھانجا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ١٤ (٣٥١٦) ، الفرائض ٢٤ (٦٧٦١) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٦ (١٠٥٩) مطولا، سنن الترمذی/المناقب ٦٦ (٣٩٠١) (تحفة الأشراف : ١٢٤٤) ، مسند احمد (٣/١٧٢، ١٧٣، ١٨٠، ٢٢٢، ٢٧٥، ٢٧٦، ٢٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2611
کسی قوم کا آزاد کیا ہوا غلام (یعنی مولی ٰ) بھی ان ہی میں سے ہے
ابورافع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ پر عامل مقرر فرمایا، تو ابورافع نے بھی اس کے ساتھ جانا چاہا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں ہے، لوگوں کا غلام بھی انہیں میں سے شمار ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٢٩ (١٦٥٠) ، سنن الترمذی/الزکاة ٢٥ (٦٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٨) ، مسند احمد (٦/٨، ١٠، ٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابورافع رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2612
صدقہ خیرات حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے حلال نہیں ہے
بہز بن حکیم کے دادا (معاویہ بن حیدہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے : یہ ہدیہ ہے یا صدقہ ؟ اگر کہا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ نہ کھاتے اور اگر کہا جاتا یہ ہدیہ ہے تو آپ (کھانے کے لیے) اپنا ہاتھ بڑھاتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٢٥ (٦٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٨٦) ، مسند احمد (٥/٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2613
اگر صدقہ کسی شخص کے پاس ہو کر آئے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کردینا چاہا، لیکن ان کے مالکان نے ولاء (ترکہ) خود لینے کی شرط لگائی۔ تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا : اسے خرید لو، اور آزاد کر دو ، ولاء (ترکہ) اسی کا ہے جو آزاد کرے ، اور جس وقت وہ آزاد کردی گئیں تو انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں۔ (اسی درمیان) رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا، کہا گیا کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا پر صدقہ کیا جاتا ہے، تو آپ نے فرمایا : یہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے ، ان کے شوہر آزاد تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦١ (١٤٩٣) ، العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، الھبة ٧ (٢٥٧٨) ، النکاح ١٨ (٥٠٩٧) ، الطلاق ١٤ (٥٢٧٩) ، ١٧ (٥٢٨٤) ، والأطعمة ٣١ (٥٤٣٠) ، الکفارات ٨ (٦٧١٧) ، الفرائض ١٩ (٦٧٥١) ، ٢٠ (٦٧٥٤) ، ٢٢ (٦٧٥٧) ، ٢٣ (٦٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٢ (١٠٧٥) ، العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن ابی داود/الفرائض ١٢ (٢٩١٦) ، الطلاق ١٩ (٢٢٣٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٣ (١٢٥٦) ، الولاء ١ (٢١٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٩ (٢٠٧٤) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٠ (٢٥) ، مسند احمد ٦/٤٢، ٤٦، ١١٥، ١٢٣، ١٧٠، ١٧٢، ١٧٥، ١٧٨، ١٨٠، ١٩١، ٢٠٧، ٢٠٩، ویأتي عند المؤلف ٣٤٨٠ (صحیح) (یہ روایت ” وکان زوجھا عبدا “ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، اور ” کان حرا “ کا لفظ صرف ” الحکم عن الأسود عن عائشة “ کے طریق میں ہے، جو بقول امام بخاری راوی ” حکم “ کا ارسال ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله حر المحفوظ عبد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2614
صدقہ خیرات میں دیا ہوا مال کا دوبارہ خریدنا کیسا ہے؟
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے (ایک آدمی کو) ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا تو اسے اس شخص نے برباد کردیا، تو میں نے سوچا کہ میں اسے خرید لوں، خیال تھا کہ وہ اسے سستا ہی بیچ دے گا، میں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا : تم اسے مت خریدو گرچہ وہ تمہیں ایک ہی درہم میں دیدے، کیونکہ صدقہ کر کے پھر اسے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٩ (١٤٩٠) ، الھبة ٣٠ (٢٦٢٣) ، ٣٧ (٢٦٣٦) ، الوصایا ٣١ (٢٩٧٠) ، الجھاد ١١٩ (٢٩٧٠) ، ١٣٧ (٣٠٠٣) ، صحیح مسلم/الھبات ١ (١٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ١ (٢٣٩٠) ، ٢ (١٣٩٢) ، ما/الزکاة ٢٦ (٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٨٥) ، مسند احمد (١/ ٢٥، ٣٧، ٤٠، ٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2615
صدقہ خیرات میں دیا ہوا مال کا دوبارہ خریدنا کیسا ہے؟
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے، تو انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : تم اپنے صدقے میں آڑے نہ آؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزکاة ٣٢ (٦٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2616
صدقہ خیرات میں دیا ہوا مال کا دوبارہ خریدنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بیچا جا رہا ہے۔ تو انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور آپ سے اس بارے میں اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا : اپنا صدقہ واپس نہ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٥٩ (١٤٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2617
صدقہ خیرات میں دیا ہوا مال کا دوبارہ خریدنا کیسا ہے؟
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عتاب بن اسید کو (درخت پر لگے) انگور کا تخمینہ لگانے کا حکم دیا تاکہ اس کی زکاۃ کشمش سے ادا کی جاسکے، جیسے درخت پر لگی کھجوروں کی زکاۃ پکی کھجور سے ادا کی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ١٣ (١٦٠٣) ، سنن الترمذی/الزکاة ١٧ (٦٤٤) ، سنن ابن ماجہ/١٨ (١٨١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٤٨) (حسن الإسناد) (حدیث کی سند میں ارسال ہے، اور یہ سعید بن مسیب کی مرسل ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ سب سے صحیح مراسیل سعید بن مسیب ہی کی ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بظاہر اس حدیث کا تعلق اس کے باب صدقہ خریدنے کا بیان سے نظر نہیں آتا، ممکن ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ جب درخت پر لگے پھل کا تخمینہ لگا کر مالک کے گھر میں موجود کھجور سے اس کی زکاۃ لے لی گئی تو گویا یہ بیع ہوگئی ، اور تب عمر رضی الله عنہ کے واقعہ میں ممانعت تنزیہ پہ محمول کی جائے گی، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد مرسل صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2618