22. مناسک حج سے متعلقہ احادیث
فرضیت و وجوب حج
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو فرمایا : اللہ عزوجل نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص نے پوچھا : کیا ہر سال ؟ آپ خاموش رہے یہاں تک اس نے اسے تین بار دہرایا تو آپ نے فرمایا : اگر میں کہہ دیتا ہاں، تو وہ واجب ہوجاتا، اور اگر واجب ہوجاتا تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، تم مجھے میرے حال پر چھوڑے رہو جب تک کہ میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑے رکھوں ١ ؎، تم سے پہلے لوگ بکثرت سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کے سبب ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس پر عمل کرو۔ اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آ جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٣ (١٣٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٦٧) ، مسند احمد (٢/٥٠٨) وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاعتصام ٢ (٧٢٨٨) ، سنن الترمذی/العلم ١٧ (٢٦٧٩) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٧، ٢٥٨، ٣١٣، ٤٢٨، ٤٤٨، ٤٥٧، ٤٦٧، ٤٨٢، ٤٩٥، ٥٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ غیر ضروری سوال نہ کیا کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2619
فرضیت و وجوب حج
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، تو اقرع بن حابس تمیمی (رض) نے پوچھا : ہر سال ؟ اللہ کے رسول ! آپ خاموش رہے، پھر آپ نے بعد میں فرمایا : اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال (حج) فرض ہوجاتا، پھر نہ تم سنتے اور نہ اطاعت کرتے، لیکن حج ایک بار ہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ١ (١٧٢١) مختصرا، سنن ابن ماجہ/ الحج ٢ (٢٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٥٦) ، مسند احمد (١/٢٥٥، ٢٩٠، ٣٥٢، ٣٧٠، ٣٧١) ، سنن الدارمی/المناسک ٤ (١٧٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2620
عمرہ کے وجوب سے متعلق
ابورزین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد بوڑھے ہیں، نہ حج کرسکتے ہیں نہ عمرہ اور نہ سفر ؟ آپ نے فرمایا : اپنے والد کی طرف سے تم حج و عمرہ کرلو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٦ (١٨١٠) ، ت الحج ٨٧ (٩٣٠) ، ق الحج ١٠ (٢٩٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١١١٧٣) ، مسند احمد ٤/١٠، ١١، ١٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم ٢٦٣٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس میں بطور نیابت حج و عمرہ کرنے کی تاکید ہے لیکن نائب کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ خود حج کرچکا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2621
حج مبرور کی فضیلت
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مبرور و مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں اور ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الحج ٧٩ (١٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/العمرة ١ (١٧٧٣) ، سنن الترمذی/الحج ٩٠ (٩٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣ (٢٨٨٨) ، ما/الحج ٢١ (٦٥) ، مسند احمد ٢/٢٤٦، ٤٦١، ٤٦٢، سنن الدارمی/المناسک ٧ (١٨٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2622
حج مبرور کی فضیلت
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ، اس سے آگے پہلے کی حدیث کے مثل ہے، مگر فرق یہ ہے کہ اس میں کفارة لما بينهما کے بجائے تكفر ما بينهما کا لفظ آیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2623
فضیلت حج سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! اعمال میں سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا ، اس نے پوچھا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، اس نے پوچھا : پھر کون سا عمل ؟ آپ نے فرمایا : پھر حج مبرور (مقبول) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٦ (٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٨ (٢٦) ، والحج ٤ (١٥١٩) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٢ (١٦٥٨) ، مسند احمد (٢/٢٦٨) ، ویأتی برقم : ٣١٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حج مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو بعض کہتے ہیں کہ حج مبرور وہ حج ہے جس میں حج کے جملہ شرائط و آداب کا التزام کیا گیا ہو اور ایک قول یہ ہے کہ حج مبرور سے مراد حج مقبول ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد وہ انسان عبادت گزار بن جائے جب کہ اس سے پہلے وہ غافل تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2624
فضیلت حج سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے وفد میں تین لوگ ہیں : ایک غازی، دوسرا حاجی اور تیسرا عمرہ کرنے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٥٩٤) ، ویأتی رقم : ٣١٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2625
فضیلت حج سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بوڑھے، بچے، کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٠٠٢) ، مسند احمد (٢/٤٢١) (حسن) (شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ ہے، تراجع الالبانی ٤١٤ ) قال الشيخ الألباني : حسن وفقرة المرأة صحيحة من حديث عائشة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2626
فضیلت حج سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اس گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا حج کیا، نہ بیہودہ بکا ١ ؎ اور نہ ہی کوئی گناہ کیا، تو وہ اس طرح (پاک و صاف ہو کر) ٢ ؎ لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤ (١٥٢١) ، والمحصر ٩ (١٨١٩) ، ١٠ (١٨٢٠) ، صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٥٠) ، سنن الترمذی/ الحج ٢ (٨١١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣ (٢٨٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٣١) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٤١٠، ٤٨٤، ٤٩٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٧ (١٨٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رفث: کے اصل معنی ہیں جماع کرنا یہاں مراد فحش گوئی، بیہودگی، اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے دوران حج چونکہ بیوی سے ہمبستری ممنوع ہے اس لیے اس موضوع پر بیوی سے گفتگو اور دل لگی کی بات بھی ناپسندیدہ ہے اور فسق سے نافرمانی اور لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرنا مراد ہے۔ ٢ ؎: یہ پاگیزگی صرف ان صغیرہ گناہوں سے ہوتی ہے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ورنہ حقوق اللہ سے متعلق بڑے بڑے گناہ اور اسی طرح حقوق العباد سے متعلق کوتاہیاں خالص توبہ اور ادائیگی حقوق کے بغیر معاف نہیں ہوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2627
فضیلت حج سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم نکل کر آپ کے ساتھ جہاد نہ کریں کیونکہ میں قرآن میں جہاد سے زیادہ افضل کوئی عمل نہیں دیکھتی ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، لیکن (تمہارے لیے) سب سے بہتر اور کامیاب جہاد بیت اللہ کا حج مبرور (مقبول) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤ (١٥٢٠) ، جزاء الصید ٢٦ (١٨٦١) ، والجہاد ١ (٢٧٨٤) ، ٦٢ (٢٨٧٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨ (٢٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧١) ، مسند احمد (٦/٧١، ٧٦، ٧٩، ١٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2628
فضیلت عمرہ سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے ١ ؎، اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١ (١٧٧٣) ، صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٤٩) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣ (٢٨٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٣) ، موطا امام مالک/الحج ٢١ (٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2629
حج کے ساتھ عمرہ کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج و عمرہ ایک ساتھ کرو، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہ کو اسی طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٣٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2630
حج کے ساتھ عمرہ کرنے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حج و عمرہ ایک ساتھ کرو، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہ کو اسی طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ اور حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٢ (٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٧٤، مسند احمد (١/٣٨٧) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2631
اس مرنے والے کی طرف سے حج کرنا کہ جس نے حج کی منت مانی ہو۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی، پھر (حج کئے بغیر) مرگئی، اس کا بھائی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ فرمایا : بتاؤ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتے ؟ اس نے کہا : ہاں میں ادا کرتا، آپ نے فرمایا : تو اللہ کا قرض ادا کرو وہ تو اور بھی ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢٢ (١٨٥٢) ، الأیمان والنذور ٣٠ (٦٦٩٩) ، الاعتصام ١٢ (٧٣١٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٥٧) ، مسند احمد (١/٢٣٩، ٣٤٥) سنن الدارمی/الصوم ٤٩ (١٨٠٩) ، النذور الأیمان ١ (٢٣٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2632
اس مرنے والے کی طرف سے حج کرنا کہ جس نے حج ادا نہ کیا ہو
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے سنان بن سلمہ جہنی (رض) سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں کہ میری ماں مرگئی ہے اور اس نے حج نہیں کیا ہے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں تو اسے کافی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اگر اس کی ماں پر قرض ہوتا اور وہ اس کی جانب سے ادا کرتی تو کیا یہ اس کی طرف سے کافی نہ ہوجاتا ؟ لہٰذا اسے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنا چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٥٠٥) ، مسند احمد (١/٢٧٩) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2633
اس مرنے والے کی طرف سے حج کرنا کہ جس نے حج ادا نہ کیا ہو
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے والد کے بارے میں جو مرگئے تھے اور حج نہیں کیا تھا پوچھا : آپ نے فرمایا : تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١ (١٥١٣) ، جزاء الصید ٢٣ (١٨٥٤) ، ٢٤ (١٨٥٥) ، المغازی ٧٧ (٤٣٩٩) ، الاستئذان ٢ (٦٢٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧١ (١٣٣٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٦ (١٨٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٧٠) ، موطا امام مالک/الحج ٣٠ (٩٧) مسند احمد (١/٢١٩، ٢٥١، ٣٢٩، ٣٥٩، سنن الدارمی/المناسک ٢٣ (١٨٧٤، ١٨٧٥) ، ویأتی عند المؤلف أرقام ٢٦٣٦، ٢٦٤٢، ٢٦٤٣، ٥٣٩٢، ٥٣٩٣، ٩٣٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2634
اگر کوئی آدمی سواری پر سوار نہیں ہوسکتا تو اس کی جانب سے حج کرنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے مزدلفہ (یعنی دسویں ذی الحجہ) کی صبح کی کو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! حج کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے اس نے میرے والد کو اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (کر لو) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٧٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2635
اگر کوئی آدمی سواری پر سوار نہیں ہوسکتا تو اس کی جانب سے حج کرنا کیسا ہے؟
اس سند سے بھی ابن عباس (رض) سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2636
جو کوئی عمرہ ادا کرسکے تو اس کی جانب سے عمرہ کرنا کیسا ہے؟
ابورزین عقیلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، نہ وہ حج و عمرہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اور نہ ہی سواری پر چڑھ سکتے ہیں، آپ نے فرمایا : تم اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ کرلو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2637
حج قضا کرنا قرضہ ادا کرنے جیسا ہے
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ سواری پر چڑھ نہیں سکتے، اور حج کا فریضہ ان پر عائد ہوچکا ہے، میں ان کی طرف سے حج کرلوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہوجائے گا ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم ان کے بڑے بیٹے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں (میں ان کا بڑا بیٹا ہوں) آپ نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے ؟ اس نے کہا : ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا : تو تم ان کی طرف سے حج ادا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٢) ، مسند احمد ٤/٥، سنن الدارمی/المناسک ٢٤ (١٨٧٨) ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٦٤٥) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” یوسف “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2638
حج قضا کرنا قرضہ ادا کرنے جیسا ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول ! میرے والد انتقال کر گئے اور انہوں نے حج نہیں کیا، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : کیا خیال ہے اگر تمہارے والد پر کچھ قرض ہوتا تو تم ادا کرتے ؟ اس نے کہا : ہاں (میں ادا کرتا) تو آپ نے فرمایا : تو اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کئے جانے کا زیادہ مستحق ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٠٤١) (ضعیف الإسناد شاذ) (اس کے راوی ” محکم “ کو وہم ہوجایا کرتا تھا، اسی لیے انہوں نے پوچھنے والے کو مرد اور جس کے بارے میں پوچھا گیا اس کو عورت بنادیا ہے ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی روایت میں صحیح بات یہ ہے کہ مسئلہ پوچھنے والی عورت تھی، اور اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تھا جو زندہ مگر کمزور تھا، اور اس واقعہ کے وقت یا تو دونوں بھائی (عبداللہ اور فضل) موجود تھے یا فضل نے یہ واقعہ عبداللہ بن عباس سے بیان کیا، روایت کی صحت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت کے سوا دیگر صحابہ کی روایتوں میں دیگر واقعات بھی اسی طرح کے سوال و جواب کے ممکن ہیں، پوچھنے والے مرد و عورت بھی ہوسکتے ہیں، اور جن کے بارے میں پوچھا گیا وہ بھی مرد و عورت ہوسکتے ہیں، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں، جس کو بنیاد بنا کر حدیث کی حجیت کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2639
حج قضا کرنا قرضہ ادا کرنے جیسا ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : میرے باپ کو (فریضہ) حج نے اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اپنی سواری پر ٹک نہیں سکتے، اگر میں انہیں سواری پر بٹھا کر باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں مر نہ جائیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتے، تو وہ کافی ہوجاتا ؟ اس نے کہا : ہاں (کافی ہوجاتا) آپ نے فرمایا : پھر اپنے باپ کی طرف سے حج کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلنسائي، (تحفة الأشراف : ٥٦٥٧) ، انظر حدیث رقم : ٢٦٣٥ (شاذ أومنکر) (اس کے راوی ” ہشیم “ کثیر التدلیس ہیں، سائل کا عورت ہونا ہی محفوظ بات ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ أو منکر بذکر الرجل والمحفوظ أن السائل امرأة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2640
عورت کا مرد کی جانب سے حج ادا کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر تھے، تو قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے آئی، تو فضل اسے دیکھنے لگے، اور وہ فضل کو دیکھنے لگی، اور آپ فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے، تو اس عورت نے پوچھا : اللہ کے رسول ! اپنے بندوں پر اللہ کے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے باپ کو اس حال میں پایا : انتہائی بوڑھے ہوچکے ہیں، سواری پر ٹک نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں کرلو ، یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2641
عورت کا مرد کی جانب سے حج ادا کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خثعم کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس مسئلہ پوچھنے آئی اور فضل بن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے، اس عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اپنے بندوں پر عائد کردہ اللہ کے فریضہ حج نے میرے والد کو اس حال میں پایا کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں وہ سواری پر سیدھے نہیں رہ سکتے، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو ان کی طرف سے پورا ہوجائے گا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ہوجائے گا ، تو فضل بن عباس (رض) اسے مڑ کر دیکھنے لگے، وہ ایک خوبصورت عورت تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل بن عباس کو پکڑ کر ان کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2642
مرد کا عورت کی جانب سے حج کرنے سے متعلق
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے تو آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں بہت بوڑھی ہوچکی ہیں، اگر میں انہیں سواری پر چڑھا دوں تو وہ بیٹھی نہیں رہ سکتیں، اور اگر میں انہیں (سواری پر بٹھا کر) باندھ دوں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی جان نہ لے بیٹھوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا خیال ہے اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے ؟ اس نے کہا : جی ہاں (میں ادا کرتا) آپ نے فرمایا : تو تم اپنی ماں کی جانب سے حج کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٤٤) ، مسند احمد (١/٢١٢) ، ویأعند المؤلف برقم : ٥٣٩٦، ٥٣٩٧ (شاذ) (سائل کا عورت ہونا ہی محفوظ بات ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2643
والد کی طرف سے بڑے بیٹے کا حج کرنا مستحب ہے
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : تم اپنے باپ کا بڑے بیٹے ہو تو تم ان کی طرف سے حج کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٣٩ (ضعیف) (اس کے راوی ” یوسف “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2644
نا بالغ بچہ کو حج کرانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے اٹھایا اور پوچھا : اللہ کے رسول ! کیا اس کا بھی حج ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٢ (١٣٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٦٠) ، مسند احمد (١/٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بچے کو حج کرانا جائز ہے اس کا اجر ماں باپ کو ملے گا لیکن کوئی بچہ بالغ ہونے کے بعد صاحب استطاعت ہوجائے تو اس کے لیے دوبارہ فریضہ حج کی ادائیگی ضروری ہوگی بچپن کا کیا ہوا حج کافی نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2645
نا بالغ بچہ کو حج کرانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو ہودج سے اوپر اٹھایا اور کہنے لگی : اللہ کے رسول ! کیا اس کا بھی حج ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2646
نا بالغ بچہ کو حج کرانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے ایک بچے کو نبی اکرم ﷺ کے سامنے اٹھایا اور پوچھنے لگی : کیا اس کا بھی حج ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (اس کا بھی حج ہے) اور تمہیں اس کا اجر ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٢ (١٣٣٦) ، سنن ابی داود/الحج ٨ (١٧٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٦) ، موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٤) ، مسند احمد (١/٢٤٤، ٢٨٨، ٣٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2647
نا بالغ بچہ کو حج کرانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چلے جب روحاء پہنچے تو کچھ لوگوں سے ملے تو آپ نے پوچھا : تم کون لوگ ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہم مسلمان ہیں، پھر ان لوگوں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ لوگوں نے بتایا : آپ اللہ کے رسول ہیں ، یہ سن کر ایک عورت نے کجاوے سے ایک بچے کو نکالا، اور پوچھنے لگی : کیا اس کے لیے حج ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں اور ثواب تمہیں ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مکہ کے راستے میں مدینہ سے ٣٦ میل ( ٧٥ کلومیٹر) کی دوری پر ایک مقام کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2648
نا بالغ بچہ کو حج کرانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے وہ پردے میں تھی اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا، اس نے کہا : کیا اس کے لیے حج ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اور ثواب تمہیں ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح م دون ذکر الخدر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2649
جب حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ سے حج کرنے کے واسطے نکلے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ذی قعدہ کی پانچ تاریخیں رہ گئی تھیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مدینہ سے) سے نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کو جن کے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہیں تھا حکم دیا کہ وہ طواف کر چکیں تو احرام کھول دیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦١) ، ١١٥ (١٧٠٩) ، ١٢٤ (١٧٢٠) ، والجہاد ١٠٥ (٢٩٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤١ (٢٩٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٣) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٨٣) ، موطا امام مالک/الحج ٥٨ (١٧٩) ، مسند احمد (٦/٢ ١٢، ١٩٤، ٢٦٦، ٢٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٣١ (١٨٨٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٨٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2650