23. میقاتوں سے متعلق احادیث
مدینہ منورہ کے لوگوں کا میقات
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینے والے ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں، اور اہل شام حجفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے ۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یمن والے یلملم سے تلبیہ پکاریں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٢ (١٣٣) ، والحج ٥ (١٥٢٢) ، ٨ (١٥٢٥) ، ١٠ (١٥٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٢) ، سنن ابی داود/المناسک ٩ (١٧٣٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ١٣ (٢٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٦) ، موطا امام مالک/االحج ٨ (٢٢) ، مسند احمد ٢/٤٨، ٥٥، ٦٥، سنن الدارمی/المناسک ٥ (١٨٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مواقیت : میقات کی جمع ہے میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا عمرہ کرنے والے کو تلبیہ پکارنا اور احرام باندھنا ضروری ہوجاتا ہے البتہ حاجی یا عمرہ کرنے والے مکہ میں ہوں یا میقات کے اندر رہتے ہوں تو ان کے لیے گھر سے نکلتے وقت احرام باندھ لینا اور تلبیہ پکارنا ہی کافی ہے میقات پر جانا ضروری نہیں۔ ٢ ؎: ذوالحلیفہ مدینہ مکہ روڈ پر مسجد نبوی سے ( ٩ ) کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، افسوس ہے کہ شیعی روایات کی بنا پر یہ مشہور ہے کہ علی رضی الله عنہ کا جنوں سے مقابلہ ہوا اور آپ نے ان کو اس مقام کے کنوؤں میں بند کردیا، اور اس سے اس جگہ کو ابیار علی کہا جانے لگا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے منسک حج میں اس خرافات پر تنبیہ فرمائی ہے۔ ٣ ؎: مکہ مدینہ روڈ پر جُحفہ مکہ سے پانچ یا چھ مراحل کی دوری پر رابغ کے قریب ایک بستی کا نام ہے۔ ٤ ؎: قرن طائف کے قریب ایک بستی کا نام ہے یا پوری وادی کا نام ہے، اسے قرن المنازل اور قرن التعالب بھی کہا جاتا ہے۔ ٥ ؎: یلملم مکہ سے دو مرحلے کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے جس کے محاذاۃ میں مشرق جیسے ریاض، اور دمام نیز ہندوستان اور پاکستان وغیرہ سے آنے والے حجاج کرام کو جہاز میں باخبر کیا جاتا ہے کہ اب یلملم کی میقات کی محاذاۃ سے جہاز گزرنے والا ہے، حجاج احرام باندھنے اور تلبیہ پکارنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2651
ملک شام کے لوگوں کا میقات
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد (نبوی) میں کھڑا ہوا اور پوچھنے لگا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں کہاں سے تلبیہ پکارنے کا حکم دیتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں گے، اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (یہ بھی) فرمایا : اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں گے ، ابن عمر (رض) کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٢ (١٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2652
مصر کے لوگوں کا میقات
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو۔ اہل شام و مصر کے لیے حجفہ کو، اہل عراق کے لیے ذات عرق کو، اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٩ (١٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٨) ، ویأتی عند المؤلف فی ٢٢ (برقم ٢٦٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2653
یمن والوں کے میقات
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو، اہل شام کے لیے جحفہ کو، اہل نجد کے لیے قرن کو اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کی اور فرمایا : یہ یہاں کے لوگوں کی میقات ہیں اور ان تمام لوگوں کی بھی جو یہاں سے ہو کر گزریں چاہے جہاں کہیں کے بھی رہنے والے ہوں۔ اور جو لوگ ان میقاتوں کے اندر کے رہنے والے ہیں تو ان کی میقات وہیں سے ہے جہاں سے وہ چلیں یہاں تک کہ مکہ والوں کی میقات مکہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧ (١٥٢٤) ، ١٢ (١٥٣٠) ، وجزاء الصید ١٨ (١٨٤٥) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨١) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٩ (١٧٣٨) ، مسند احمد (١/٢٣٨، ٢٤٩، ٢٥٢، ٢٣٢، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٥ (١٨٣٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٦٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2654
نجد والوں کے میقات
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ والے ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں گے، شام والے حجفہ سے، اور نجد والے قرن (المنازل) سے ، اور میں نے تو نہیں سنا ہے لیکن مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اور یمن والے یلملم سے تلبیہ پکاریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩ (١٥٢٧) ، صحیح مسلم/الحج ٢ (١١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٢٤) ، مسند احمد (٢/٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2655
اہل عراق کا میقات
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اور شام و مصر والوں کے لیے حجفہ کو، اور عراق والوں کے لیے ذات عرق کو، اور نجد والوں کے لیے قرن (المنازل) کو، اور یمن والوں کے لیے یلملم کو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2656
میقات کے اند رجو لوگ رہتے ہوں ان سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اور شام والوں کے لیے جحفہ، اور نجد والوں کے لیے قرن (قرن المنازل) کو، اور یمن والوں کے لیے یلملم کو اور فرمایا : یہ سب یہاں کے رہنے والوں کے میقات ہیں، اور ان لوگوں کے میقات بھی جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں اور ان پر سے ہو کر گزریں۔ اور جو لوگ اس میقات کے اندر رہتے ہوں تو وہ جہاں سے شروع کریں وہیں سے وہیں سے تلبیہ پکاریں یہاں تک کہ یہی حکم مکہ والوں کو بھی پہنچے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2657
میقات کے اند رجو لوگ رہتے ہوں ان سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اور شام والوں کے لیے جحفہ کو اور یمن والوں کے لیے یلملم کو، اور نجد والوں کے لیے قرن المنازل کو۔ یہ جگہیں یہاں کے لوگوں کے لیے میقات ہیں اور ان کے علاوہ لوگوں کے لیے بھی جو ان پر سے ہو کر گزریں، اور حج و عمرہ کا ارادہ رکھنے والوں میں سے ہوں اور جو لوگ ان جگہوں کے اندر رہتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی سے تلبیہ پکاریں یہاں تک کہ مکہ والے مکہ ہی سے تلبیہ پکاریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩ (١٥٢٦) ، ١١ (١٥٢٩) ، صحیح مسلم/الحج ١٢ (١١٨١) ، سنن ابی داود/الحج ٩ (١٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٨) ، مسند احمد (١/٢٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2658
مقام ذوالحلیفہ میں رات میں رہنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ کے شروع ہونے کی جگہ میں رات گزاری اور اس کی مسجد میں نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦ (١١٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2659
مقام ذوالحلیفہ میں رات میں رہنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں آیا گیا اور آپ ذوالحلیفہ کے پڑاؤ کی جگہ میں تھے اور کہا گیا کہ آپ بابرکت بطحاء میں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٦ (١٥٣٥) ، المزارعة ١٦ (٢٣٣٦) ، مطولا، صحیح مسلم/الحج ٧٧ (١٣٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٥) ، مسند احمد (٢/٨٧، ٩٠، ١٠٤، ١٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2660
مقام ذوالحلیفہ میں رات میں رہنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بطحاء میں اپنا اونٹ بٹھایا جو ذوالحلیفہ میں ہے اور اسی جگہ آپ نے نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤ (١٥٣٢) ، صحیح مسلم/الحج ٧٧ (١٢٥٧) ، سنن ابی داود/المناسک ١٠٠ (٢٠٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٨) ، موطا امام مالک/الحج ٦٩ (٢٠٦) ، مسند احمد (٢/٢٨، ١١٢، ١٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2661
بیداء کے متعلق حدیث رسول ﷺ
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر کی نماز بیداء میں پڑھی، پھر سوار ہوئے اور بیداء پہاڑ پر چڑھے، اور ظہر کی نماز پڑھ کر حج و عمرے کا احرام باندھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢١ (١٧٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٤) ، مسند احمد (٣/٢٠٧) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام ٢٧٥٦، ٢٩٣٤ (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” حسن بصری “ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود ج ٦/ص ١٩، ٢٠ رقم ١٥٥٥، ١٥٥٦ ) وضاحت : ١ ؎: بیداء چٹیل میدان کو کہتے ہیں اور یہاں ذوالحلیفہ کے قریب ایک مخصوص جگہ مراد ہے آگے بھی اس لفظ سے یہی جگہ مراد ہوگی، اور جہاں تک آپ کے بیداء میں ظہر کی نماز پڑھنے کا معاملہ ہے تو کسی راوی سے وہم ہوگیا ہے، انس رضی الله عنہ ہی سے بخاری (کتاب الحج، ٢٧ ) میں مروی ہے کہ آپ نے ظہر مدینہ میں چار پڑھی اور عصر ذوالحلیفہ میں دو پڑھی، اور نماز کے بعد ہی احرام باندھ لیا، یعنی حج و عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ پکارنا شروع کردیا تھا، اور ہر جگہ پکارتے رہے، اب جس نے جہاں پہلی بار سنا اس نے وہیں سے تلبیہ پکارنے کی روایت کردی، سنن ابوداؤد (کتاب الحج، ٢١ ) میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی مفصل روایت ان تمام اختلافات و اشکالات کو دور کردیتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2662
احرام باندھنے کے واسطے غسل سے متعلق
اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن ابی بکر صدیق کو بیداء میں جنا تو ابوبکر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : ان سے کہو کہ غسل کرلیں پھر لبیک پکاریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٧٦١) ، موطا امام مالک/الحج ١ (١) ، مسند احمد (٦/٣٦٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الحج ١٦ (١٢٠٩) ، سنن ابن ماجہ/ الحج ١٢ (٢٩١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ غسل نظافت کے لیے ہے طہارت کے لیے نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2663
احرام باندھنے کے واسطے غسل سے متعلق
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ جب وہ لوگ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو وہاں اسماء نے محمد بن ابوبکر کو جنا۔ تو ابوبکر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور آپ کو اس بات کی خبر دی، تو انہیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ اسے حکم دیں کہ وہ غسل کرلیں پھر حج کا احرام باندھ لیں، اور وہ سب کام کریں جو دوسرے حاجی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ١٢ (٢٩١٢) ، وانظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2664
محرم کے غسل سے متعلق
عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ ان دونوں کے درمیان مقام ابواء میں (محرم کے سر دھونے اور نہ دھونے کے بارے میں) اختلاف ہوگیا۔ ابن عباس (رض) نے کہا : محرم اپنا سر دھوئے گا اور مسور نے کہا : نہیں دھوئے گا۔ تو ابن عباس (رض) نے مجھے ابوایوب انصاری (رض) کے پاس بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں سوال کروں، چناچہ میں گیا تو وہ مجھے کنویں کی دونوں لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے ہوئے ملے اور وہ کپڑے سے پردہ کئے ہوئے تھے، میں نے انہیں سلام کیا اور کہا : مجھے عبداللہ بن عباس (رض) نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ سے سوال کروں کہ رسول اللہ ﷺ حالت احرام میں اپنا سر کس طرح دھوتے تھے ١ ؎۔ (یہ سن کر) ابوایوب (رض) نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا، اور اسے جھکایا یہاں تک کہ ان کا سر دکھائی دینے لگا، پھر ایک شخص سے جو پانی ڈالتا تھا کہا : سر پر پانی ڈالو، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو حرکت دی، (صورت یہ رہی کہ) کہ دونوں ہاتھ کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٤ (١٨٤٠) ، صحیح مسلم/الحج ١٣ (١٢٠٥) ، سنن ابی داود/الحج ٣٨ (١٨٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٢ (٣٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٣) ، مسند احمد ٥/٤١٦، ٤١٨، ٤٢١، سنن الدارمی/المناسک ٦ (١٨٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ دونوں میں اختلاف غسل کرنے یا نہ کرنے میں تھا نہ کہ کیفیت کے بارے میں پھر انہوں نے ابوایوب رضی الله عنہ سے جا کر غسل کی کیفیت کے بارے کیوں سوال کیا ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں نے انہیں دونوں باتیں پوچھنے کے لیے بھیجا تھا لیکن وہاں پہنچ کر جب انہوں نے خود انہی کو حالت احرام میں غسل کرتے دیکھا تو اس سے انہوں نے اس کے جواز کو خودبخود جان لیا اب بچا مسئلہ صرف کیفیت کا تو اس بارے میں انہوں نے پوچھ لیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2665
حالت احرام میں زعفران وغیرہ میں رنگا ہوا کپڑا پہننے کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ محرم زعفران اور ورس میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٤ (٥٨٤٧) ، ٣٧ (٥٨٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٠ (٢٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٦) ، موطا امام مالک/الحج ٣ (٨) ، ٤ (٩) ، مسند احمد (٢/٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ورس ایک خوشبودار پیلی گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2666
حالت احرام میں زعفران وغیرہ میں رنگا ہوا کپڑا پہننے کی ممانعت کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ آپ نے فرمایا : محرم قمیص (کرتا) ٹوپی، پائجامہ، عمامہ (پگڑی) اور ورس اور زعفران لگا کپڑا نہ پہنے ١ ؎، اور موزے نہ پہنے اور اگر جوتے میسر نہ ہوں تو چاہیئے کہ دونوں موزوں کو کاٹ ڈالے یہاں تک کہ انہیں ٹخنوں سے نیچے کرلے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ١٥ (٥٨٠٦) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٣٢ (١٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٨١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس بات پر اجماع ہے کہ حالت احرام میں عورت کے لیے وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے صرف ورس اور زعفران لگے ہوئے کپڑے نہ پہنے، نیز اس بات پر بھی اجماع ہے کہ حالت احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں قمیص اور سراویل میں تمام سلے ہوئے کپڑے داخل ہیں اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢ ؎: جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے موزوں کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے موزہ پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس کی روایت من لم یجدنعلین فلیلبس خفین جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جواب دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے قبل مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت عرفات کی ہے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے، کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو اصح الاسانید ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2667
حالت احرام میں چوغہ استعمال کرنے سے متعلق
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں : کاش میں رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھتا، پھر اتفاق ایسا ہوا کہ ہم جعرانہ میں تھے، اور نبی اکرم ﷺ اپنے خیمے میں تھے کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی، تو عمر (رض) نے مجھے اشارہ کیا کہ آؤ دیکھ لو۔ میں نے اپنا سر خیمہ میں داخل کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا ہوا ہے وہ جبہ میں عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھا، اور خوشبو سے لت پت تھا اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس نے جبہ پہنے ہوئے احرام باندھ رکھا ہے کہ یکایک آپ پر وحی اترنے لگی، اور نبی اکرم ﷺ خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ کی یہ کیفیت جاتی رہی، تو آپ نے فرمایا : وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی مجھ سے (مسئلہ) پوچھا تھا تو وہ شخص حاضر کیا گیا، آپ نے (اس سے) فرمایا : رہا جبہ تو اسے اتار ڈالو، اور رہی خوشبو تو اسے دھو ڈالو پھر نئے سرے سے احرام باندھو۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ نئے سرے سے احرام باندھ کا یہ فقرہ نوح بن حبیب کے سوا کسی اور نے روایت کیا ہو یہ میرے علم میں نہیں اور میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٧ (١٥٣٦) ، تعلیقا، العمرة ١٠ (١٧٨٩) ، جزاء الصید ١٩ (١٨٤٧) ، المغازی ٥٦ (٤٣٢٩) ، فضائل القرآن ٢ (٤٩٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٨٠) ، سنن ابی داود/الحج ٣١ (١٨١٩-١٨٢٢) ، سنن الترمذی/الحج ٢٠ (٨٣٥) مختصرا، (تحفة الأشراف : ١١٨٣٦) ، مسند احمد (٤/٢٢٤) ویأتی عند المؤلف فی ٤٤ (برقم ٢٧١٠، ٢٧١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جعرانہ مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله ثم أحدث إحراما فإنه شاذ والمحفوظ دونها صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2668
محرم کے واسطے قمیض پہن لینا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نہ قمیص پہنو نہ عمامے نہ پائجامے، نہ ٹوپیاں اور نہ موزے البتہ اگر کسی کو جوتے نہ مل پائیں تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے سے کرلے، اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢١ (١٥٤٢) ، اللباس ١٣ (٥٨٠٣) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٣٢ (١٨٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٠ (٢٩٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٥) ، موطا امام مالک/الحج ٣ (٨) ، ٤ (٩) ، مسند احمد (٢/٦٣، سنن الدارمی/المناسک ٩ (١٨٤١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٦٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2669
حالت احرام میں پائجامہ پہننا منع ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب ہم احرام باندھ لیں تو کون سے کپڑے پہنیں ؟ آپ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، (عمرو بن علی نے دوسری بار قمیص کے بجائے جمع کے صیغے کے ساتھ قمص کہا) نہ عمامے، نہ پائجامے اور نہ موزے، البتہ اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزوں کو کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرلے، اور نہ ایسا کپڑا جس میں ورس اور زعفران لگی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٢١٥) ، مسند احمد (٢/٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2670
اگر تہ بند موجود نہ ہو تو اس کو پائجامہ پہن لینا درست ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے : پائجامہ اس شخص کے لیے ہے جسے تہبند میسر نہ ہو، اور موزہ اس شخص کے لیے ہے جسے جوتے میسر نہ ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٥ (١٨٤١) ، ١٦ (١٨٤٣) ، اللباس ١٤ (٥٨٠٤) ، ٣٧ (٥٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ١ (١١٧٨) ، سنن الترمذی/الحج ١٩ (٨٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٠ (٢٩٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٥) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٢١، ٢٢٨، ٢٧٩، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/الحج ٩ (١٨٤٠) ، ویأتی عند المؤلف فی ٣٧ (برقم ٢٦٨٠) وفی الزینة ١٠٠ (برقم ٥٣٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2671
اگر تہ بند موجود نہ ہو تو اس کو پائجامہ پہن لینا درست ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص (احرام کے موقع پر) تہبند نہ پائے تو وہ پائجامہ پہن لے اور جو جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2672
عورت کے واسطے بحالت احرام (چہرہ پر) نقاب ڈالنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ہمیں احرام میں کس طرح کے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامہ، نہ ٹوپیاں سوائے اس کے کہ کسی کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگے ہوں اور محرم عورت نہ نقاب پہنے اور نہ ہی دستانے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ١٣ (١٨٣٨) ، سنن ابی داود/المناسک ٣٢ (١٨٢٥) ، سنن الترمذی/الحج ١٨ (٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٥) ، مسند احمد (٢/١١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2673
بحالت احرام ٹوپی پہننے کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : محرم کون سے کپڑے پہنے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، نہ عمامہ، نہ پائجامے پہنو، نہ ٹوپیاں، اور نہ موزے پہنو، البتہ اگر کسی کو جوتے میسر نہ ہوں تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرلے، اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2674
بحالت احرام ٹوپی پہننے کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : جب ہم احرام باندھیں تو کون سے کپڑے پہنیں ؟ آپ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامے، نہ ٹوپیاں، نہ موزے، البتہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہو، اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں ورس زعفران لگے ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٢٤٥) ، مسند احمد (٢/٧٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٩ (١٨٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2675
بحالت احرام پگڑی باندھنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو آواز دی اور پوچھا : ہم جب محرم ہوں تو کیا پہنیں ؟ آپ نے فرمایا نہ قمیص پہنو، نہ عمامہ (پگڑی) ، نہ پائجامہ، نہ ٹوپی اور نہ موزے البتہ جس کو جوتے میسر نہ ہو تو وہ موزے ٹخنوں سے نیچے پہنے اور اسے نیچے کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨ (٥٧٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٣٥) ، مسند احمد (٢/٤، ٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2676
بحالت احرام پگڑی باندھنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو آواز دی اور اس نے پوچھا : جب ہم محرم ہوں تو کیا پہنیں ؟ تو آپ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، نہ عمامے (پگڑیاں) ، نہ ٹوپیاں، نہ پائجامے، نہ موزے البتہ اگر جوتے نہ ہوں تو ایسے موزے پہنو جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، اور نہ ورس اور زعفران لگے ہوئے کپڑے پہنو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٧٤٩) ، مسند احمد (٢/٣، ٢٩) ، ویأتي برقم : ٢٦٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2677
بحالت احرام موزے پہن لینے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : احرام میں نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامے (پگڑیاں) نہ ٹوپیاں، نہ موزے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨١٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2678
(محرم کے پاس) اگر جوتے موجود نہ ہوں تو موزے پہننا درست ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ فرماتے سنا : جب کسی کو تہبند نہ ملے تو پائجامہ پہن لے، اور جب جوتیاں نہ پائے تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٧٢ (صحیح) (حدیث میں ” ولیقطعہما “ ” ان چمڑے کے موزوں کو کاٹ دے “ کا لفظ شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون وليقطعهما فإنه شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2679
موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جب محرم جوتے نہ پائے تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2680
عورت کے واسطے بحالت احرام دستانے پہن لینا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! احرام میں آپ ہمیں کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ موزے، البتہ اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہن لے جو ٹخنوں سے نیچے سے ہوں اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس لگا ہو، اور محرمہ عورت نہ نقاب پہنے، اور نہ دستانے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ١٣ (١٨٣٨ م) ، تعلیقًا، (تحفة الأشراف : ٧٤٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2681
بحالت احرام بالوں کو جمانے سے متعلق
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا بات ہے لوگوں نے احرام کھول دیا ہے اور آپ نے اپنے عمرہ کا احرام نہیں کھولا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اپنے سر کی تلبید ١ ؎، اور اپنے ہدی کی تقلید ٢ ؎ کر رکھی ہے، تو میں احرام نہیں کھولوں گا جب تک کہ حج سے فارغ نہ ہوجاؤں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٦) ، ١٠٧ (١٦٩٧) ، ١٢٦ (١٧٢٥) ، والمغازی ٧٧ (٤٣٩٨) ، صحیح مسلم/الحج ٢٥ (١٢٢٩) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٧٢ (٣٠٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٠) ، موطا امام مالک/الحج ٥٨ (١٨٠) ، مسند احمد (٦/٢٨٣، ٢٨٤، ٢٨٥) ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٧٨٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تلبید : بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینے کو کہتے ہیں تاکہ وہ بکھریں نہیں اور گرد و غبار سے محفوظ رہیں۔ ٢ ؎: قربانی کے جانور کے گلے میں قلادہ یا اور کوئی چیز لٹکانے کو تقلید کہتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ ہدی کا جانور ہے اس کا فائدہ یہ تھا کہ عرب ایسے جانور کو لوٹتے نہیں تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2682
بحالت احرام بالوں کو جمانے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بالوں کو جمائے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٩ (١٥٤٠) ، اللباس ٦٩ (٥٩١٥) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، سنن ابی داود/الحج ١٢ (١٧٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٧٢ (٣٠٤٧) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٦) ، مسند احمد (٢/١٢١، ١٣١) ویأتي عند المؤلف ٢٧٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2683
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو احرام باندھنے کے وقت جس وقت آپ نے احرام باندھنے کا ارادہ کیا اور احرام کھولنے کے وقت اس سے پہلے کہ آپ احرام کھولیں اپنے دونوں ہاتھوں سے خوشبو لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٩١) ، مسند احمد (٦/١٠٦، ١٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2684
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام کے لیے اس سے پہلے کہ آپ احرام باندھیں، اور آپ کے احرام کھولنے کے لیے اس سے پہلے کہ آپ طواف کریں خوشبو لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٨ (١٥٣٩) ، صحیح مسلم/الحج ١١٨٩) ، سنن ابی داود/المناسک ١١ (١٧٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥١٨) ، موطا امام مالک/الحج ٧ (١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2685
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام کے لیے اس سے پہلے کہ آپ احرام باندھیں اور آپ کے احرام کھولنے کے لیے جس وقت آپ نے احرام کھولا خوشبو لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٣ (٥٩٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٢٩) ، مسند احمد (٦/٢٣٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١٠ (١٨٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2686
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام کے لیے خوشبو لگائی جس وقت آپ نے احرام باندھا، اور آپ کے احرام کھولنے کے لیے خوشبو لگائی اس کے بعد کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی، اور اس سے پہلے کہ آپ بیت اللہ کا طواف کریں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2687
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام کھولنے کے لیے خوشبو لگائی، اور آپ کے احرام باندھنے کے لیے خوشبو لگائی جو تمہاری اس خوشبو کے مشابہ نہیں تھی، یعنی یہ خوشبو دیرپا نہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2688
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کون سی خوشبو لگائی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : سب سے عمدہ خوشبو تھی جو آپ کے احرام باندھتے وقت اور احرام کھولتے وقت میں نے لگائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٩ (٥٩٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٦٥) ، مسند احمد (٦/٣٨، ١٣٠، ١٦١، سنن الدارمی/المناسک ١٠ (١٨٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2689
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے جو اچھی سے اچھی خوشبو مل سکتی تھی وہی میں آپ کو احرام باندھتے وقت لگاتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٢٦٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2690
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول ﷺ کو آپ کے احرام باندھتے اور کھولتے وقت اور جس وقت آپ بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ کرتے بہترین خوشبو جو میں پاسکتی لگاتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2691
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو احرام باندھنے سے پہلے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ایسی خوشبو لگائی جس میں مشک کی آمیزش تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩١) ، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٩١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٢٦) ، مسند احمد (٦/١٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2692
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : گویا کہ میں آپ ﷺ کے سر میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔ احمد بن نصر نے اپنی روایت میں وبيص الطيب في رأس رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم کے بجائے وبيص طيب المسک في مفرق رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم (رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں مشک کی خوشبو کی چمک) روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، سنن ابی داود/المناسک ١١ (١٧٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٥) ، مسند احمد (٦/٣٨، ٢٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2693
بوقت احرام خوشبو لگانے کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں اس حال میں کہ آپ محرم ہوتے خوشبو کی چمک دیکھی جاتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٨ (١٥٣٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٨) ، مسند احمد (٦/٢٥٤، ٢٦٧، ٢٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2694
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سر میں اس حال میں کہ آپ محرم ہیں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2695
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بالوں کی جڑوں میں اس حال میں کہ آپ محرم ہوتے خوشبو کی چمک دیکھتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2696
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سر کی مانگ میں اس حال میں کہ آپ محرم ہوتے خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارة ١٤ (٢٧١) ، اللباس ٧٠ (٥٩١٨) ، صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2697
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سر میں اس حال میں کہ آپ محرم خوشبو کی چمک دیکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٤) ، مسند احمد (٦/١٠٩، ١٧٣، ١٧٥، ٢٢٤، ٢٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2698
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ لبیک پکار رہے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2699
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ جب احرام باندھنے کا ارادہ کرتے (ہناد کی روایت میں ہے جب رسول اللہ ﷺ احرام باندھنے کا ارادہ کرتے) تو اچھے سے اچھا عطر جو آپ کو میسر ہوتا لگاتے یہاں تک کہ میں اس کی چمک آپ کے سر اور داڑھی میں دیکھتی۔ امام نسائی کہتے ہیں : اس بات پر ابواسحاق کی اسرائیل نے متابعت کی ہے انہوں نے اسے عن عبدالرحمٰن بن الأسود عن أبيه عن عائشة کے طریق سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2700
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو اچھی سے اچھی خوشبو جو مجھے میسر ہوتی لگاتی تھی یہاں تک کہ احرام سے پہلے میں آپ کے سر اور داڑھی میں خوشبو کی چمک دیکھتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٤ (٥٩٢٣) ، صحیح مسلم/الحج ٧ (١١٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠١٠) ، مسند احمد (٦/٢٠٩، ٢٥٠، ٢٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2701
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی مانگوں میں خوشبو کی چمک تین دن بعد (بھی) دیکھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٩) ، مسند احمد (٦/٤١، ٢٦٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2702
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں تین دن بعد (بھی) خوشبو کی چمک دیکھتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ١٨ (٢٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٦) (صحیح بما قبلہ ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2703
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے احرام کے وقت خوشبو کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : تارکول لگا لینا میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے۔ تو میں نے اس بات کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا، تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم فرمائے، میں خود رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگاتی تھی، پھر آپ اپنی بیویوں کا چکر لگاتے، پھر آپ اس حال میں صبح کرتے تو آپ کے جسم سے خوشبو پھوٹ رہی ہوتی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق وليس عند خ ذکر الإطلاء صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2704
خوشبو لگانے کی جگہ سے متعلق
محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھ پر تار کول مل دیا جائے تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں احرام کی حالت میں صبح کروں اور میرے جسم سے خوشبو بکھر رہی ہو۔ تو میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے انہیں ان کی بات بتائی تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگائی پھر آپ اپنی بیویوں کے پاس پھرے، آپ نے صبح کیا اس حال میں کہ آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2705
محرم کے واسطے زعفران لگانا
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی (حالت احرام میں) زعفران لگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الباس ٢٣ (٢١٠١) ، سنن ابی داود/الترجل ٨ (٤١٧٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٥١ (٢٨١٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٣ (٥٨٤٦) ، ویأتی عند المؤلف رقم ٥٢٥٨، مسند احمد (٣/١٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2706
محرم کے واسطے زعفران لگانا
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی (حالت احرام میں) زعفران لگائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظرماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2707
محرم کے واسطے زعفران لگانا
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زعفران استعمال کرنے سے روکا ہے۔ حماد (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں : یعنی مردوں کے لیے ممانعت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٠٧ (تحفة الأشراف : ١٠١١) ، مسند احمد (٣/١٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2708
محرم شخص کے واسطے خلوق کا استعمال
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص عمرہ کا احرام باندھے ہوئے، سلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے اور خلوق لگائے ہوئے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، وہ عمرہ کا احرام باندھے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے تھا، اور خلوق میں لت پت تھا، تو اس نے عرض کیا : میں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہے تو میں کیا کروں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہی کرو جو حج میں کرتے ہو ، اس نے کہا : میں (حج میں) اس سے بچتا تھا، اور اسے دھو ڈالتا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : جو تم حج میں کرتے تھے وہی اپنے عمرہ میں بھی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلوق ایک معروف خوشبو ہے جو زعفران ملا کر بنائی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2709
محرم شخص کے واسطے خلوق کا استعمال
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ جعرانہ میں تھے، وہ جبہ پہنے ہوئے تھا، اور اپنی داڑھی اور سر کو (زعفران سے) پیلا کیے ہوئے تھا۔ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا ہے اور میں جس طرح ہوں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : جبہ اتار دو اور زردی اپنے سے دھو ڈالو، اور جو حج میں کرتے ہو وہی اپنے عمرہ میں بھی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2710
محرم کے واسطے سرمہ لگانا
عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کے بارے میں فرمایا : جب اس کے سر میں درد ہو یا آنکھیں دکھیں تو ایلوا کا لیپ کرلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٢ (١٢٠٤) ، سنن ابی داود/الحج ٣٧ (١٨٣٨) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٦ (٩٥٢) ، مسند احمد (١/٥٩، ٦٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٣ (١٩٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسی دوا لگالے جس میں خوشبو نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2711
محرم کے واسطے رنگین کپڑے استعمال کرنے کی کراہٹ سے متعلق
محمد الباقر کہتے ہیں کہ ہم جابر (جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، اور ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے پہلے معلوم ہوگیا ہوتا جو اب معلوم ہوا تو میں ہدی (کا جانور) لے کر نہ آتا اور اسے عمرہ میں تبدیل کردیتا (اور طواف و سعی کر کے احرام کھول دیتا) تو جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اسے عمرہ قرار دے لے (اسی موقع پر) علی (رض) یمن سے ہدی (کے اونٹ) لے کر آئے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ سے لے کر گئے۔ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب رنگین کپڑے پہن لیے اور سرمہ لگا لیا علی (رض) کہتے ہیں کہ میں تو غصہ میں رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھنے گیا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! فاطمہ نے تو رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے اور کہتی ہیں : میرے ابا جان ﷺ نے مجھے اس کا حکم دیا ہے ؟ ، آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا، اس نے، سچ کہا، میں نے ہی اسے حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن ابی داود/الحج ٥٧ (١٩٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٨٤ (٣٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) ، مسند احمد (٣/٣٢٠) ، ویأتی عند المؤلف فی ٥١، ٥٢، ٧٣، ٣٣١، ٣٣٣، ٣٤٠، ٣٧٣، ٣٨٨، ٣٩٤، ٣٩٧، سنن الدارمی/المناسک ١١ (١٨٤٦) (بأرقام ٢٧٤١، ٢٧٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2712
محرم کا سر اور چہرہ ڈھانکنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی سواری سے گرپڑا تو سواری نے اسے کچل کر ہلاک کردیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیر کے پتوں سے غسل دو ، اور اسے دو کپڑوں میں کفنایا جائے، اور اس کا سر اور چہرہ کھلا رکھا جائے کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٢٠ (١٢٦٧) ، الصید ٢١ (١٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٨٩ (٣٠٨٤ م) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٥٣) ، مسند احمد (١/٢١٥، ٢٨٦، ٣٢٨، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٨٥٦، ٢٨٥٧، ٢٨٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2713
محرم کا سر اور چہرہ ڈھانکنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص (حالت احرام میں) مرگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیر کے پتے سے غسل دو اور اسے اس کے کپڑوں ہی میں کفنا دو ، اور اس کے سر اور چہرے کونہ ڈھانپو کیونکہ قیامت کے دن وہ لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2714
حج افراد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج افراد کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٧٧) ، سنن الترمذی/الحج ١٠ (٨٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٧ (٢٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥١٧) ، موطا امام مالک/الحج ١١ (٣٧) حم ٦/٢٤٣، سنن الدارمی/المناسک ١٦ (١٨٥٣) (صحیح الإسناد، شاذ ) وضاحت : ١ ؎: حج کی تین قسمیں ہیں : افراد، قران اور تمتع، حج افراد : یہ ہے کہ صرف حج کی نیت سے احرام باندھے اور حج قران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے اور ساتھ میں ہدی کا جانور بھی لے اور حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ سے نئے سرے سے حج کا احرام باندھے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2715
حج افراد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے لیے لبیک پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٢) ، المغازی ٧٧ (٤٤٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣٧ (٢٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٨٩) ، موطا امام مالک/الحج ١١ (٣٦) ، مسند احمد (٦/٣٦، ١٠٤، ١٠٧، ٢٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2716
حج افراد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس حال میں نکلے کہ (چند دنوں کے بعد) ہم ذی الحجہ کا چاند دیکھنے ہی والے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو حج کا احرام باندھنا چاہے حج کا احرام باندھ لے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے عمرہ کا احرام باندھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٦٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحیض ١٧ (٣١٧) ، والعمرة ٥ (١٧٨٣) ، ٧ (١٧٨٦) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، موطا امام مالک/ الحج ١١ (٣٦) ، مسند احمد (٦/١٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدینہ سے یہ روانگی ذی قعدہ کی پچیسویں تاریخ کو ہوئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2717
حج افراد کا بیان
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦١) ، ٣٥ (١٥٦٢) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/المناسک ٢٣ (١٧٨٣) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٧، ١٥٩٨٤) ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٨٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2718
حج قران سے متعلق
صبی بن معبد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک نصرانی بدوی تھا تو میں مسلمان ہوگیا اور جہاد کا حریص تھا، مجھے پتہ لگا کہ حج و عمرہ دونوں مجھ پر فرض ہیں، تو میں اپنے خاندان کے ایک شخص کے پاس آیا جسے ھریم بن عبداللہ کہا جاتا تھا، میں نے اس سے پوچھا (کیا کریں) تو اس نے کہا : دونوں ایک ساتھ کرلو۔ پھر جو ہدی (قربانی) بھی تمہیں میسر ہو اسے ذبح کر ڈالو، تو میں نے (حج و عمرہ) دونوں کا احرام باندھ لیا، پھر جب میں عذیب ١ ؎ پہنچا، تو وہاں مجھے سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان ملے، میں اس وقت حج و عمرہ دونوں کے نام سے لبیک پکار رہا تھا ٢ ؎ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : یہ شخص اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھدار نہیں، (یہ سن کر) میں عمر (رض) کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا : امیر المؤمنین ! میں مسلمان ہوگیا ہوں، اور میں جہاد کا حریص ہوں، اور میں نے حج و عمرہ دونوں کو اپنے اوپر فرض پایا، تو میں ہریم بن عبداللہ کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا : حج و عمرہ دونوں مجھ پر فرض ہیں، انہوں نے کہا : دونوں ایک ساتھ کر ڈالو، اور جو جانور تمہیں میسر ہو اس کی قربانی کرلو، تو میں نے دونوں کا احرام باندھ لیا، جب میں عذیب پہنچا تو مجھے سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان ملے، تو ان میں سے ایک دوسرے سے کہنے لگا : یہ اپنے اونٹ سے زیادہ سمجھ دار نہیں ہے، اس پر عمر (رض) نے کہا : تمہیں اپنے نبی کی سنت کی توفیق ملی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٧٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣٨ (٢٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٦) ، مسند احمد (١/١٤، ٢٥، ٣٤، ٣٧، ٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عذیب بنی تمیم کے ایک چشمہ کا نام ہے جو کوفہ سے ایک مرحلہ کی وادی پر ہے۔ ٢ ؎: یعنی لبیک بحج ۃ وعمر ۃ کہہ رہا تھا۔ ٣ ؎: یعنی جو تم نے کیا ہے یہی تمہارے نبی کی سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2719
حج قران سے متعلق
ابو وائل شقیق کہتے ہیں کہ ہمیں صبی بن معبد (رض) مجھ نے خبر دی پھر راوی نے اسی کے مثل بیان کی اس میں ہے کہ میں عمر (رض) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں پورا واقعہ سنایا، مگر ان میں اس کے قول یا ھناہ کا ذکر نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2720
حج قران سے متعلق
شقیق بن سلمہ ابو وائل نامی ایک عراقی سے روایت ہے کہ بنی تغلب کا ایک شخص جسے صبی بن معبد کہا جاتا تھا اور وہ نصرانی تھا مسلمان ہوگیا، تو وہ اپنے حج کے شروع ہی میں حج اور عمرے دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے چلا تو وہ اسی طرح کا تلبیہ پکارتا سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے پاس سے گزرا، تو ان دونوں میں سے ایک نے کہا : تم تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے کہا : تو برابر یہ بات میرے دل میں رہی یہاں تک میری ملاقات عمر بن خطاب (رض) سے ہوئی تو میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : تمہیں اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی ہدایت و توفیق ملی ہے۔ شقیق (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں : میں اور مسروق بن اجدع دونوں صبی بن معبد (رض) کے پاس آیا جایا کرتے تھے اور ان سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے تو میں اور مسروق بن اجدع دونوں متعدد بار ان کے پاس گئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2721
حج قران سے متعلق
مروان بن حکم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں عثمان کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے علی کو عمرہ و حج دونوں کا تلبیہ پکارتے ہوئے سنا تو کہا : کیا ہم اس سے روکے نہیں جاتے تھے۔ انہوں نے کہا : کیونکہ نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان دونوں (حج و عمرہ) کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ہے، تو میں رسول اللہ ﷺ کے قول کو آپ کے قول کے لیے نہیں چھوڑ سکتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٢٧٤) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٣) ، مسند احمد (١/١٩٥، ١٣٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2722
حج قران سے متعلق
مروان سے روایت ہے کہ عثمان (رض) عنہ نے متعہ سے اور اس بات سے کہ آدمی حج و عمرہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کرے منع کیا تو علی نے حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا، عثمان (رض) عنہ نے کہا : کیا تم اسے کر رہے ہو ؟ اور حال یہ ہے کہ میں اس سے منع کر رہا ہوں، اس پر علی (رض) نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کی سنت کو کسی بھی شخص کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2723
حج قران سے متعلق
اس سند سے بھی شعبہ سے اسی کے مثل مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٢٣ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2724
حج قران سے متعلق
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب (رض) کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کا حاکم بنایا، پھر جب وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، علی (رض) نے کہا : تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا : تم نے کیسے کیا ہے ؟ یعنی کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے، میں نے کہا : میں نے آپ کا تلبیہ پکارا ہے (یعنی آپ کے احرام کے مطابق احرام باندھا ہے) ، آپ نے فرمایا : میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے قران کیا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : اگر مجھے پہلے وہ باتیں معلوم ہوئی ہوتیں جواب معلوم ہوئی ہیں تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسے تم نے کیا ہے ١ ؎ لیکن میں ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے حج قران کا احرام باندھ رکھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٢٦) ویأتی عند المؤلف برقم ٢٧٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میں بھی احرام کھول کر حلال ہوجاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2725
حج قران سے متعلق
مطرف کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے حج و عمرہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا پھر اس سے پہلے کہ آپ اس سے منع فرماتے یا اس کے حرام ہونے کے سلسلے میں آپ پر کوئی آیت اترتی آپ کی وفات ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٤٦) ، صحیح البخاری/الحج ٣٦ (١٥٧١) ، و تفسیر البقرة ٣٣ (٤٥١٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤٠ (٢٩٧٨) ، مسند احمد (٤/٤٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2726
حج قران سے متعلق
عمران رضی الله عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا پھر اس سلسلے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی ان دونوں کو جمع کرنے سے نبی اکرم ﷺ نے روکا، لیکن ایک شخص نے ان دونوں کے بارے میں اپنی رائے سے جو چاہا کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اشارہ عمر رضی الله عنہ کی طرف سے، کیونکہ وہ حج و عمرہ دونوں کو جمع کرنے سے روکتے تھے، جیسے عثمان رضی الله عنہ روکتے تھے جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح ٢ /٨٩٨ میں اس کی تصریح کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2727
حج قران سے متعلق
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین (رض) نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حج) تمتع کیا، ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ اسماعیل بن مسلم نام کے تین لوگ ہیں، یہ اسماعیل بن مسلم (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) انہیں تینوں میں سے ایک ہیں، ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور (دوسرے) اسماعیل بن مسلم ایک شیخ ہیں جو ابوالطفیل سے روایت کرتے ہیں ان سے بھی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور تیسرے اسماعیل بن مسلم ہیں جو زہری اور حسن سے روایت کرتے ہیں یہ متروک الحدیث ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2728
حج قران سے متعلق
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لبيك عمرة وحجا لبيك عمرة وحجا کہتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٤ (١٢٥١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٧٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٨١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١١ (٨٢١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ١٤، ٣٨ (٢٩١٧، ٢٩٦٨، ٢٩٦٩) ، مسند احمد (٣/٩٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2729
حج قران سے متعلق
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (حج و عمرہ) دونوں کا تلبیہ پکارتے ہوئے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2730
حج قران سے متعلق
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ہے تو میں نے اسے ابن عمر (رض) سے بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف حج کا تلبیہ پکارا تھا، پھر میری ملاقات انس سے ہوئی تو میں نے ان سے ابن عمر (رض) کی بات بیان کی، اس پر انس (رض) نے کہا : تم لوگ ہمیں بچہ ہی سمجھتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک ساتھ لبيك عمرة وحجا کہتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازی ٦١ (٤٣٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٢٧ (١٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٥٧) ، مسند احمد (٢/٤١، ٥٣، ٧٩، ٣/٩٩، سنن الدارمی/المناسک ٧٨ (١٩٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2731
حج تمتع کے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا ١ ؎ یعنی پہلے عمرہ کیا پھر حج کیا اور ہدی بھیجی، بلکہ اپنے ساتھ ذوالحلیفہ سے ہدی لے گئے (وہاں) رسول اللہ ﷺ نے پہلے عمرہ کا تلبیہ پکارا پھر حج کا تلبیہ پکارا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی تمتع کیا، یعنی عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا۔ البتہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہدی بھیجی اور اپنے ساتھ بھی لیے گئے، اور کچھ لوگ ایسے تھے جو ہدی نہیں لے گئے تھے۔ تو جب رسول اللہ ﷺ مکہ پہنچ گئے تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : جو لوگ اپنے ساتھ ہدی لے کر آئے ہیں وہ جب تک حج پورا نہ کرلیں کسی بھی چیز سے جو ان پر حرام ہیں حلال نہ ہو) اور جو ہدی ساتھ لے کر نہیں آئے ہیں تو وہ خانہ کعبہ کا طواف کریں اور صفا ومروہ کی سعی کریں، اور بال کتروائیں اور احرام کھول ڈالیں۔ پھر (اٹھویں ذی الحجہ کو) حج کا احرام باندھے پھر ہدی دے اور جسے ہدی میسر نہ ہو تو وہ حج میں تین دن روزے رکھے، اور سات دن اپنے گھر واپس پہنچ جائیں تب رکھیں ، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر طواف کیا، اور سب سے پہلے حجر اسود کا بوسہ لیا پھر سات پھیروں میں سے پہلے تین پھیروں میں دوڑ کر چلے ٢ ؎، باقی چار پھیرے عام رفتار سے چلے۔ پھر جس وقت بیت اللہ کا طواف پورا کرلیا، تو مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا۔ اور نماز سے فارغ ہو کر صفا آئے اور صفا اور مروہ کے درمیان سات پھیرے کیے۔ پھر جو چیزیں حرام ہوگئی تھیں ان میں سے کسی چیز سے بھی حلال نہیں ہوئے یہاں تک کہ اپنے حج کو مکمل کیا اور یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو اپنے ہدی کی نحر کی (جانور ذبح کئے) اور منیٰ سے لوٹ کر مکہ آئے، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر جو چیزیں حرام ہوگئی تھیں ان سب سے حلال ہوگئے، اور لوگوں میں سے جو ہدی (کا جانور) لے کر گئے تھے، انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٤ (١٦٩١) ، صحیح مسلم/الحج ٢٤ (١٢٢٧) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٧٨) ، مسند احمد (٢/١٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حج و عمرہ دونوں کو ایک ساتھ کرنے کا فائدہ اٹھایا یہاں تمتع سے لغوی تمتع مراد ہے نہ کہ اصطلاحی کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع میں قارن تھے۔ ٢ ؎: یعنی مونڈھے ہلاتے ہوئے تیز چال سے چلے اسے رمل کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ق لکن قوله وبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2732
حج تمتع کے متعلق احادیث
سعید بن مسیب کہتے ہیں : علی اور عثمان (رض) عنہما نے حج کیا تو جب ہم راستے میں تھے تو عثمان (رض) عنہ نے تمتع سے منع کیا، علی (رض) نے کہا : جب تم لوگ انہیں دیکھو کہ وہ (عثمان) کوچ کر گئے ہیں تو تم لوگ بھی کوچ کرو، علی (رض) اور ان کے ساتھیوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا (یعنی تمتع کیا) تو عثمان (رض) عنہ نے انہیں منع نہیں کیا، علی (رض) نے کہا : کیا مجھے یہ اطلاع نہیں دی گئی ہے کہ آپ تمتع سے روکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں (صحیح اطلاع دی ہے) تو علی (رض) نے ان سے کہا : کیا آپ نے سنا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، ضرور سنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٩) ، صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠١١٤) ، مسند احمد (١/٥٧، ١٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس بات چیت کا خلاصہ یہ ہے کہ عمر اور عثمان رضی الله عنہما دونوں کی رائے یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ کے وقت میں لوگوں نے جو تمتع کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی، اور اب اس کا نہ کرنا افضل ہے، اس کے برخلاف علی رضی الله عنہ کی رائے یہ تھی کہ یہی سنت اور افضل ہے (واللہ تعالیٰ اعلم) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2733
حج تمتع کے متعلق احادیث
محمد بن عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس (رض) کو جس سال معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے حج کیا تمتع کا یعنی عمر (رض) کے بعد حج کرنے کا ذکر کرتے سنا، ضحاک (رض) نے کہا : اسے وہی کرے گا، جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہوگا، اس پر سعد (رض) نے کہا : میرے بھتیجے ! بری بات ہے، جو تم نے کہی، تو ضحاک (رض) نے کہا : عمر بن خطاب (رض) نے تو اس سے روکا ہے اس پر سعد (رض) نے کہا : اسے رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١٢ (٨٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٢٨) ، موطا امام مالک/الحج ١٩ (٦٠) ، مسند احمد (١/١٧٤) ، سنن الدارمی/المناسک ١٨ (١٨٥٥) (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2734
حج تمتع کے متعلق احادیث
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، تو ایک شخص نے ان سے کہا : آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ١ ؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر (رض) نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ اراک میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح ہی حج کے لیے اس حال میں نکلیں کہ ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٢ (١٢٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤٠ (٢٩٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٨٤) ، مسند احمد (١/٤٩) ، سنن الدارمی/المناسک ١٨ (١٨٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا یہ فتویٰ امیر المؤمنین کے جاری کردہ حکم کے خلاف ہو اور وہ تم پر ناراض ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2735
حج تمتع کے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو کہتے ہوئے سنا : قسم اللہ کی ! میں تمہیں متعہ سے یعنی حج میں عمرہ کرنے سے روک رہا ہوں، حالانکہ وہ کتاب اللہ میں موجود ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اسے کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2736
حج تمتع کے متعلق احادیث
طاؤس کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے ابن عباس (رض) سے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ مروہ کے پاس میں نے رسول اللہ ﷺ کے بال کترے تھے (میں یہ اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ) ابن عباس (رض) یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ معاویہ ہیں جو لوگوں کو تمتع سے روکتے ہیں حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے تمتع کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٢٧ (١٧٣٠) ، صحیح مسلم/الحج ٣٣ (١٢٤٦) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٢، ١١٤٢٣) ، مسند احمد (٤/٩٦، ٩٧، ٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں روایت میں ایک اشکال ہے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ متمتع تھے حالانکہ صحیح یہ ہے کہ آپ قارن تھے، آپ نے اپنے بال میں سے کوئی چیز نہیں کتروائی اور نہ کوئی چیز اپنے لیے حلال کی یہاں تک کہ یوم النحر کو منیٰ میں آپ نے حلق کرائی اس لیے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ شاید حج سے معاویہ کی مراد عمرہ جعرانہ ہو کیونکہ اسی موقع پر وہ اسلام لائے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ق دون قول ابن عباس هذا معاوية صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2737
حج تمتع کے متعلق احادیث
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ بطحاء میں تھے۔ آپ نے فرمایا : تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے ؟ میں نے عرض کیا : میں نے نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ پر تلبیہ پکارا ہے، پوچھا : کیا تم کوئی ہدی لے کر آئے ہو ، میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : خانہ کعبہ کا طواف کرو اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرو پھر احرام کھول کر حلال ہو جاؤ، تو میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں اپنے خاندان کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا۔ چناچہ میں ابوبکر اور عمر (رض) کی خلافت میں لوگوں کو اسی کا فتویٰ دیتا رہا۔ (ایک بار ایسا ہوا کہ) میں حج کے موسم میں کھڑا تھا کہ یکایک ایک شخص میرے پاس آ کر کہنے لگا : آپ اس چیز کو نہیں جانتے جو امیر المؤمنین نے حج کے سلسلے میں نیا حکم دیا ہے ؟ تو میں نے کہا : لوگو ! میں نے جس کسی کو بھی کوئی فتویٰ دیا ہو وہ اس پر عمل کرنے میں ذرا توقف کرے، کیونکہ امیر المؤمنین تمہارے پاس آنے والے ہیں، تو وہ جو فرمائیں اس کی پیروی کرو۔ تو جب وہ آئے تو میں نے کہا : امیر المؤمنین ! یہ کیا ہے جو حج کے سلسلے میں آپ نے نئی بدعت نکالی ہے ؟ انہوں نے کہا : اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کریں تو اللہ عزوجل نے فرمایا ہے : وأتموا الحج والعمرة لله اور اگر ہم اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کریں، تو آپ حلال نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے ہدی کی قربانی نہیں کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٢ (١٥٥٩) ، ١٢٥ (١٧٢٤) ، العمرة ١١ (١٧٩٥) ، المغازی ٦٠ (٤٣٤٦) مختصراً ، ٧٧ (٤٣٩٧) مختصراً ، صحیح مسلم/الحج ٢٢ (١٢٢١) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٠٨) ، مسند احمد (١/٣٩، ٤/٣٩٣، ٣٩٥، ٣٩٧، ٤١٠، سنن الدارمی/المناسک ١٨ (١٨٥٦) ، ویأتی عند المؤلف فی باب ٥٢ (برقم ٢٧٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2738
حج تمتع کے متعلق احادیث
مطرف کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (حج) تمتع کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ (حج) تمتع کیا (لیکن) کہنے والے نے اس سلسلے میں اپنی رائے سے کہا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٢٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لہٰذا صریح سنت کے مقابلہ میں قائل کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2739
لبیک کہنے کے وقت حج یا عمرہ کے نام نے لینے کے بارے میں
ابو جعفر محمد بن علی باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نو سال تک مدینہ میں رہے پھر لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ امسال رسول اللہ ﷺ حج کو جانے والے ہیں، تو بہت سارے لوگ مدینہ آگئے، سب یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کریں اور وہی کریں جو آپ کرتے ہیں۔ تو جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی رہ گئے تو رسول اللہ ﷺ حج کے لیے نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے آپ پر قرآن اتر رہا تھا اور آپ اس کی تاویل (تفسیر) جانتے تھے اور جو چیز بھی آپ نے کی ہم نے بھی کی۔ چناچہ ہم نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٢٧١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2740
لبیک کہنے کے وقت حج یا عمرہ کے نام نے لینے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔ جب ہم سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہوگئی، تو رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا : کیا تجھے حیض آگیا ہے میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں (عورتوں) پر لکھ دی ہے، تم وہ سب کام کرو جو احرام باندھنے والے کرتے ہیں، البتہ بیت اللہ طواف نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2741
دوسرے کسی شخص کی نیت کے موافق حج کرنے سے متعلق
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں یمن سے آیا، اور نبی اکرم ﷺ بطحاء میں جہاں کہ آپ نے حج کیا تھا اونٹ بٹھائے ہوئے تھے، آپ نے (مجھ سے) پوچھا : کیا تم نے حج کا ارادہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے پوچھا : تم نے کیسے کہا ؟ انہوں نے کہا : میں نے یوں کہا : لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى اللہ عليه وسلم میں حاضر ہوں اس تلبیہ کے ساتھ جو نبی اکرم ﷺ کا تلبیہ ہے آپ نے فرمایا : بیت اللہ کا طواف کرلو، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرلو، پھر احرام کھول کر حلال ہو جاؤ، میں نے ایسے ہی کیا، پھر میں ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ تو میں اسی کے مطابق لوگوں کو فتویٰ دینے لگا یہاں تک کہ عمر (رض) کے دور خلافت میں مجھ سے ایک شخص کہنے لگا : ابوموسیٰ ! تم اپنے بعض فتوے دینے بند کر دو ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ تمہارے بعد امیر المؤمنین نے حج کے سلسلے میں کیا نیا حکم جاری کیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا : لوگو ! جس کو بھی میں نے فتویٰ دیا ہو وہ توقف کرے کیونکہ امیر المؤمنین تمہارے پاس آنے والے ہیں (وہ جیسا بتائیں) ان کی پیروی کرو۔ (اور جب عمر (رض) کے سامنے یہ بات آئی تو) انہوں نے کہا : اگر ہم اللہ کی کتاب (قرآن) کو لیں تو وہ (حج اور عمرہ کو) پورا کرنے کا حکم دے رہی ہے اور اگر ہم نبی اکرم ﷺ کی سنت کو لیں تو آپ کی سنت یہ رہی ہے کہ آپ نے اپنا احرام نہیں کھولا جب تک کہ ہدی اپنے ٹھکانے پر نہیں پہنچ گئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2742
دوسرے کسی شخص کی نیت کے موافق حج کرنے سے متعلق
جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ علی (رض) یمن سے ہدی لے کر آئے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ سے ہدی لے کر گئے۔ آپ نے علی (رض) سے پوچھا : تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے یوں کہا ہے : اے اللہ ! میں اسی چیز کا تلبیہ پکارتا ہوں جس کا تلبیہ رسول اللہ ﷺ نے پکارا ہے۔ اور میرے ساتھ ہدی بھی ہے۔ آپ نے فرمایا : تو تم احرام نہ کھولو (جب تک کہ حج سے فارغ نہ ہوجاؤ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2743
دوسرے کسی شخص کی نیت کے موافق حج کرنے سے متعلق
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی (رض) زکاۃ کی وصولی کا کام کر کے آئے تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا : علی ! تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے ؟ انہوں نے کہا : جس چیز کا رسول ﷺ نے پکارا ہے، تو آپ نے فرمایا : ہدی دو اور احرام باندھے رہو جیسا کہ تم اس وقت باندھے ہو ، جابر (رض) کہتے ہیں : علی (رض) بھی اپنے لیے ہدی لے کر آئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٢ (١٥٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٥٧) ، مسند احمد (٣/٣٠٥، ٣١٧، ٣٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2744
دوسرے کسی شخص کی نیت کے موافق حج کرنے سے متعلق
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں علی (رض) کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن کا گورنر (امیر) بنایا تو مجھے ان کے ساتھ کئی اوقیے ملے جب علی (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، میں نے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ انہوں نے گھر میں خوشبو پھیلا رکھی ہے، تو میں گھر سے نکل کر باہر آگیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا : آپ کو کیا ہوا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا تو انہوں نے اپنے احرام کھول دیا، میں نے کہا : میں نے تو نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ کی طرح تلبیہ پکارا ہے، تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے مجھ سے پوچھا : تو تم نے کیسے کیا ہے ؟ میں نے کہا : میں نے آپ کی طرح تلبیہ پکارا ہے، آپ نے فرمایا : میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں اور میں نے قران کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2745
اگر عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو تو وہ ساتھ میں حج کرسکتا ہے؟
نافع سے روایت ہے کہ جس سال حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر (رض) پر چڑھائی کی، ابن عمر (رض) نے حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ ان کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ آپ کو (حج سے) روک دیں گے تو انہوں نے کہا : (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیش آئی تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا ١ ؎ میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ واجب کرلیا ہے پھر چلے، جب بیداء کے پاس پہنچے تو کہا : حج و عمرہ دونوں تو ایک ہی ہیں، میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کرلیا ہے، اور ہدی بھی ساتھ لے لی جسے قدید میں خریدا تھا پھر کچھ راستے دونوں (حج و عمرہ) کا تلبیہ پکارتے ہوئے چلے یہاں تک کہ مکہ آگئے، تو بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کی سعی کی اس سے زیادہ کچھ نہ کیا، نہ قربانی کی، نہ سر منڈایا، نہ بال کتروائے، اور نہ ان چیزوں سے حلال ہوئے جو اس کی وجہ سے ان پر حرام ہوئی تھیں یہاں تک کہ جب ذی الحجہ کی دسویں تاریخ آئی تو انہوں نے نحر کیا (قربانی کیا) سر منڈوایا اور یہ خیال کیا کہ پہلے ہی طواف سے حج و عمرہ دونوں کا طواف ہوگیا ہے۔ اور ابن عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٧ (١٦٤٠) ، صحیح مسلم/الحج ٢٦ (١٢٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کافروں نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا تو آپ نے وہیں قربانی کر ڈالی تھی، بال منڈوا لیا تھا اور احرام کھول دیا تھا پھر دوسرے سال آپ نے عمرہ کی قضاء کی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2746
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تلبیہ پکارتے سنا، آپ کہہ رہے تھے : لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك حاضر ہوں تیری خدمت میں اے رب ! حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک و ساجھی دار نہیں، حاضر ہوں میں، تمام تعریفیں تجھی کو سزاوار ہیں اور تمام نعمتیں تیری ہی عطا کردہ ہیں، تیری ہی سلطنت ہے، تیرا کوئی ساجھی و شریک نہیں عبداللہ بن عمر (رض) کہتے تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر جب اونٹنی آپ کو مسجد ذوالحلیفہ کے پاس لے کر پوری طرح کھڑی ہوئی تو آپ نے ان کلمات کو بلند آواز سے کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2747
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ تلبیہ یوں کہتے لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٦٦٥) ، مسند احمد (٢/٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2748
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٦ (١٥٤٩) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٧ (١٨١٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٤) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٢٨) ، مسند احمد (٢/٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2749
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا تلبیہ یوں تھا : لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لک والملک لا شريك لك اور اس میں ابن عمر (رض) نے اتنا اضافہ کیا ہے : لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك والرغباء إليك والعمل یعنی میں حاضر ہوں، تیری خدمت میں، میری سعادت ہے تیرے پاس آنے میں، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، رغبت تیری ہی طرف ہے، اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٣١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2750
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا تلبیہ یوں تھا : لبيك اللہم لبيك لبيك لا شريك لک لبيك إن الحمد والنعمة لك۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٣٩٨) ، مسند احمد (١/٤١٠) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2751
کیفیت تلبیہ سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ میں لبيك إله الحق بھی تھا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ عبدالعزیز کے علاوہ اس حدیث کو کسی نے بواسطہ عبداللہ بن فضل مسند قرار دیا ہے، اسماعیل بن امیہ نے اسے عبداللہ بن فضل سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ١٥ (٢٩٢٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤١) ، مسند احمد (٢/٣٤١، ٣٥٢، ٤٧٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2752
تلبیہ کے وقت آواز بلند کرنا
سائب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا : محمد ! آپ اپنے اصحاب کو حکم دیجئیے کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٧ (١٨١٤) ، سنن الترمذی/الحج ١٥ (٨٢٩) ، سنن ابن ماجہ/ الحج ١٦ (٢٩٢٢) ، موطا امام مالک/الحج ١٠ (٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٨) ، مسند احمد (٤/٥٥، ٥٦) ، سنن الدارمی/المناسک ١٤ (١٨٥٠، ١٨٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2753
وقت تلبیہ
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد تلبیہ پکارنا شروع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٩ (٨١٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٠٢) ، مسند احمد (١/٢٨٥، سنن الدارمی/المناسک ١٢ (١٨٤٧) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2754
وقت تلبیہ
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیداء میں ظہر کی نماز پڑھی پھر سوار ہوئے اور بیداء کے پہاڑ پر چڑھے، اور حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پکارا جس وقت ظہر پڑھ لی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2755
وقت تلبیہ
نبی اکرم ﷺ کے حج کے سلسلے میں جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ ذوالحلیفہ آئے تو آپ نے (ظہر کی) نماز پڑھی، اور آپ خاموش رہے یہاں تک کہ بیداء آئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2756
وقت تلبیہ
سالم سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) کو کہتے سنا : تمہارا یہ بیداء وہی ہے جس کے تعلق سے تم لوگ رسول اللہ ﷺ کی طرف غلط بات منسوب کرتے ہو ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے (بیداء سے نہیں) ذوالحلیفہ کی مسجد ہی سے تلبیہ پکارا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٠ (١٥٤١) ، صحیح مسلم/الحج ٤ (١١٨٦) ، سنن ابی داود/الحج ٢١ (١٧٧١) ، سنن الترمذی/الحج ٨ (٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٠) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣٠) ، مسند احمد (٢/١٠، ٢٨، ٦٦، ٨٥، ١١١، ١٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: واقع کے خلاف خبر دینے کو جھوٹ کہتے ہیں، خواہ یہ عمداً ہو یا کسی غلط فہمی اور سہو کی وجہ سے ہو، ابن عمر رضی الله عنہما نے انہیں جھوٹا اس اعتبار سے کہا ہے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے نہ اس اعتبار سے کہ انہوں نے عمداً جھوٹ کہا ہے۔ ٢ ؎: اس مسئلہ میں صحابہ میں اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے احرام ذو الحلیفہ میں احرام کی دونوں رکعتوں کے پڑھنے کے بعد مسجد میں ہی تلبیہ پکارنا شروع کیا تھا اور بعض کا کہنا ہے کہ جس وقت آپ سواری پر سیدھے بیٹھے اس وقت آپ نے تلبیہ پکارا، اور بعض کا کہنا ہے کہ سواری جس وقت آپ کو لے کر کھڑی ہوئی اس وقت آپ نے تلبیہ پکارنا شروع کیا، اس اختلاف کی وجہ ہے کہ لوگ مختلف وقتوں میں الگ الگ مختلف ٹکڑوں میں آپ کے پاس آ رہے تھے تو لوگوں نے جہاں آپ کو تلبیہ پکارتے سنا یہی سمجھا کہ آپ نے یہیں سے تلبیہ شروع کیا ہے، حالانکہ آپ نے تلبیہ پکارنے کی شروعات وہیں کردی تھی جہاں آپ نے احرام کی دونوں رکعتیں پڑھی تھیں، پھر جب اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ نے تلبیہ پکارا، پھر بیداء کی اونچائی پر چڑھتے وقت آپ نے تلبیہ پکارا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2757
وقت تلبیہ
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وہ ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوتے دیکھا، پھر جب اونٹنی (آپ کو لے کر) پورے طور پر کھڑی ہوگئی تو آپ نے تلبیہ پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢ (١٥١٤) ، ٢٨ (١٥٥٢) ، ٢٩ (١٥٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٣ (١١٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ١٤ (٢٩١٦) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣٢) (موقوفاً ) ، مسند احمد (٢/١٧، ١٨، ٢٩، ٣٦، ٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2758
وقت تلبیہ
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وہ بتا رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے تلبیہ پکارا جس وقت آپ کی سواری آپ کو لے کر کھڑی ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٨ (١٥٥٢) ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٨٠) ، ٨٢ (١٩٧٠) ، مسند احمد ٢/٣٦، سنن الدارمی/المناسک ٨٢ (١٩٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2759
وقت تلبیہ
عبید بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے کہا کہ میں آپ کو دیکھا کہ جب اونٹنی آپ کو لے کر کھڑی ہوئی ہے تو آپ نے اس وقت تلبیہ پکارا، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت تلبیہ پکارا تھا جب آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٠ (١٦٦) ، اللباس ٣٧ (٥٨٥١) ، صحیح مسلم/الحج ٥ (١١٨٧) ، دالحج ٢١ (١٧٧٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٤ (٣٦٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٣١٦) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٠ (٧٤) ، موطا امام مالک/الحج ٩ (٣١) ، مسند احمد (٢/، ١٧) ، وراجع رقم ١١٧، وما یأتي برقم : ٢٩٥٣، ٥٢٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2760
جس خاتون کو نفاس جاری ہو وہ کس طریقہ سے لبیک پڑھے؟
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نو برس تک مدینہ میں رہے، اور حج نہیں کرسکے، پھر (دسویں سال) آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا تو کوئی بھی جو سواری سے یا پیدل آسکتا تھا ایسا بچا ہو جو نہ آیا ہو، لوگ آپ کے ساتھ حج کو جانے کے لیے آتے گئے یہاں تک کہ آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس (رض) نے محمد بن ابی بکر کو جنا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس اطلاع بھیجی کہ وہ کیا کریں۔ تو آپ نے فرمایا : تم غسل کرلو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، پھر لبیک پکارو ، تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یہ حدیث ایک بڑی حدیث کا اختصار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2761
جس خاتون کو نفاس جاری ہو وہ کس طریقہ سے لبیک پڑھے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر کو جنا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں ؟ تو آپ نے انہیں غسل کرنے، کپڑے کا لنگوٹ باندھنے، اور تلبیہ پکارنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2762
اگر کسی خاتون نے عمرہ ادا کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھا اور اس کو حیض کا سلسلہ شروع ہوجائے جس کی وجہ سے حج فوت ہونے کا اندیشہ ہوجائے؟
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا عمرہ کا تلبیہ پکارتی ہوئی آئیں۔ یہاں تک کہ جب ہم سرف ١ ؎ پہنچے، تو وہ حائضہ ہوگئیں۔ اور اسی حالت میں رہیں یہاں تک کہ جب ہم (مکہ) پہنچ گئے اور ہم نے خانہ کعبہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کرلی، تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ حلال ہوجائے۔ تو ہم نے پوچھا : کیا چیزیں ہم پر حلال ہوئیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ساری چیزیں حلال ہوگئی (یہ سن کر) ہم نے اپنی عورتوں سے جماع کیا، خوشبو لگائی، اور اپنے (سلے) کپڑے پہنے، اس وقت ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف چار راتیں باقی رہ گئیں تھیں، پھر ہم نے یوم الترویہ (آٹھ ذی الحجہ) کو حج کا تلبیہ پکارا، پھر رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہیں روتا ہوا پایا۔ آپ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا : بات یہ ہے کہ مجھے حیض آگیا ہے، اور لوگ حلال ہوگئے ہیں اور میں حلال نہیں ہوئی اور (ابھی تک) میں نے خانہ کعبہ کا طواف نہیں کیا ہے ٢ ؎ اور لوگ اب حج کو جا رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں (عورتوں) کے لیے مقدر فرما دیا ہے، تم غسل کرلو، اور حج کا احرام باندھ لو تو انہوں نے ایسا ہی کیا ، اور وقوف کی جگ ہوں (یعنی منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کیا یہاں تک کہ جب وہ حیض سے پاک ہوگئیں تو انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا اور مروہ کی سعی کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اب تم حج و عمرہ دونوں سے حلال ہوگئیں ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ میں نے حج سے پہلے عمرے کا طواف نہیں کیا ہے ؟ (پھر عمرہ کیسے ہوا) تو آپ ﷺ نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی) سے فرمایا : عبدالرحمٰن ! تم انہیں لے جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کروا لاؤ، یہ واقعہ محصب میں ٹھہرنے والی رات کا ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٣) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٨) ، مسند احمد (٣/٣٩٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سرف مکہ سے دس میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎: یعنی حیض کی وجہ سے میں ابھی عمرے سے فارغ نہیں ہوسکی ہوں۔ ٣ ؎: یعنی منیٰ سے بارہویں یا تیرہویں تاریخ کو روانگی کے بعد محصب میں ٹھہرنے والی رات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2763
اگر کسی خاتون نے عمرہ ادا کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھا اور اس کو حیض کا سلسلہ شروع ہوجائے جس کی وجہ سے حج فوت ہونے کا اندیشہ ہوجائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، تو ہم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس ہدی ہو وہ حج و عمرہ دونوں کا تلبیہ پکارے، پھر احرام نہ کھولے جب تک کہ ان دونوں سے فارغ نہ ہوجائے ، تو میں مکہ آئی، اور میں حائضہ تھی تو میں نہ بیت اللہ کا طواف کرسکی اور نہ ہی صفا ومروہ کی سعی کرسکی، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی، تو آپ نے فرمایا : اپنا سر کھول دو ، کنگھی کرلو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ کو جانے دو ، تو میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب میں حج کرچکی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ تنعیم بھیجا، تو میں نے عمرہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تیرے عمرہ کی جگہ میں ہے ، تو جن لوگوں نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کی سعی کی، پھر وہ حلال ہوگئے (پھر منیٰ سے لوٹنے کے بعد انہوں نے ایک دوسرا طواف ١ ؎ اپنے حج کا کیا، اور جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا (یعنی قران کیا تھا) تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں طواف سے مراد صفا ومروہ کی سعی ہے مطلب یہ ہے کہ قارن پر ایک ہی سعی ہے عمرہ اور حج دونوں میں سے کسی ایک کی سعی کرلے کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2764
حج میں مشروط نیت کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ضباعہ (رض) نے حج کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ شرط کرلیں ١ ؎ تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ایسا ہی کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تلبیہ پکارے وقت اس بات کی شرط کرلیں کہ اگر میں کسی وجہ سے مکہ تک نہیں پہنچ سکی تو جہاں تک پہنچ سکوں گی وہیں احرام کھول ڈالوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2765
شرط لگاتے وقت کس طرح کہا جائے؟
ہلال بن خباب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو مشروط حج کر رہا ہو تو انہوں نے کہا : یہ شرط بھی اس طرح ہے جیسے لوگوں کے درمیان اور شرطیں ہوتی ہیں ٢ ؎ تو میں نے ان سے ان کی یعنی عکرمہ کی حدیث بیان کی، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں حج کرنا چاہتی ہوں، تو کیسے کہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کہو : لبيك اللہم لبيك ومحلي من الأرض حيث تحبسني حاضر ہوں، اے اللہ ! حاضر ہوں، جہاں تو مجھے روک دے، وہیں میں حلال ہوجاؤں گی ، کیونکہ تو نے جو شرط کی ہے وہ تیرے رب کے اوپر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٢ (١٧٧٦) ، سنن الترمذی/الحج ٩٧ (٩٤١) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٣٢) ، مسند احمد (١/٣٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ١٥ (١٨٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جس طرح اور شرطیں جائز ہیں اسی طرح یہ شرط بھی جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2766
شرط لگاتے وقت کس طرح کہا جائے؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ایک بھاری بھر کم عورت ہوں اور میں حج کرنا چاہتی ہوں، آپ مجھے بتائیے، میں کس طرح تلبیہ پکاروں ؟ آپ نے فرمایا : تم تلبیہ پکارو اور شرط لگا لو کہ (اے اللہ) تو جہاں مجھے روک دے گا وہیں حلال ہوجاؤں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٤ (٢٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٥٤) ، مسند احمد (١/٣٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2767
شرط لگاتے وقت کس طرح کہا جائے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ضباعہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں بیمار ہوں اور میں حج کرنا چاہتی ہوں ؟ ، آپ نے فرمایا : حج کرو اور شرط لگا لو کہ (اے اللہ) تو جہاں مجھے روک دے گا میں وہیں حلال ہوجاؤں گی ۔ اسحاق کہتے ہیں : میں نے (اپنے استاد) عبدالرزاق سے کہا : ہشام اور زہری دونوں عائشہ ہی سے روایت کرتے ہیں : انہوں نے کہا : ہاں (ایسا ہی ہے) ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کو معمر کے سوا کسی اور نے بھی زہری سے مسنداً روایت کیا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٥ (١٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٤٤، ١٧٢٤٥) ، صحیح البخاری/النکاح ١٥ (٥٠٨٩) ، مسند احمد (٦/١٦٤، ٢٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2768
اگر کسی نے بوقت احرام کوئی دوسرے رکن کی شرط نہ رکھی ہو اور اتفاقا حج کرنے سے روک جائے؟
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) حج میں شرط لگانا پسند نہیں کرتے تھے، اور کہتے تھے : کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ کی یہ سنت کافی نہیں ؟ اگر تم میں سے کوئی حج سے روک دیا گیا ہو تو (اگر ممکن ہو تو) کعبے کا طواف، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرلے، پھر ہر چیز سے حلال ہوجائے، یہاں تک کہ آنے والے سال میں حج کرے اور ہدی دے، اور اگر ہدی میسر نہ ہو تو روزہ رکھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٢ (١٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2769
اگر کسی نے بوقت احرام کوئی دوسرے رکن کی شرط نہ رکھی ہو اور اتفاقا حج کرنے سے روک جائے؟
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) حج میں شرط لگانا ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے : کیا تمہارے لیے تمہارے نبی کریم ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے کہ آپ نے (کبھی) شرط نہیں لگائی۔ اگر تم میں سے کسی کو کوئی روکنے والی چیز روک دے تو اگر ممکن ہو سکے تو بیت اللہ کا طواف کرے، اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر سر منڈوائے یا کتروائے پھر احرام کھول دے اور اس پر آئیندہ سال کا حج ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٢ (١٨١٠ م) ، سنن الترمذی/الحج ٩٨ (٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٣٧) ، مسند احمد (٢/٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2770
قربانی کرنے کے واسطے بھیجے گئے جانوروں کے شعار سے متعلق
مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زیادہ صحابہ کے ساتھ (عمرہ کے لیے) نکلے، یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے ہدی کے جانور کو قلادۃ پہنایا اور اس کا اشعار ١ ؎ کیا اور عمرے کا احرام باندھا، یہ حدیث بڑی حدیث سے مختصر کی ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٤) ، المغازي ٣٥ (٤١٥٧، ٤١٥٨) ، سنن ابی داود/الحج ١٥ (١٧٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٥٠) ، مسند احمد (٤/٣٢٣، ٣٢٧، ٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تقلید اور اشعار کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ٢٦٨٣ کا حاشیہ نمبر ٢ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2771
قربانی کرنے کے واسطے بھیجے گئے جانوروں کے شعار سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ کا اشعار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٦) ١٠٨ (١٦٩٩) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن ابی داود/الحج ١٧ (١٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٦ (٣٠٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٣٣) ، حصحیح مسلم/٧٨٦، ویأتی عند المؤلف فی ٦٨ (برقم ٢٧٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2772
کس طرف سے شعار کرنا چاہئے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اونٹ کا دائیں جانب سے اشعار کیا، اور خون کو اپنی انگلی سے صاف کیا، اور اس کا اشعار کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٢ (١٢٤٣) ، سنن ابی داود/الحج ١٥ (١٧٥٢) ، سنن الترمذی/الحج ٦٧ (٩٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٦ (٣٠٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥٩) ، مسند احمد ١/٢١٦، ٢٥٤، ٢٨٠، ٣٣٩، ٣٤٤، ٣٤٧، ٣٧٢، سنن الدارمی/المناسک ٦٨ (١٧٥٣، ١٩٥٣) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام ٢٧٨٤، ٢٧٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2773
قربانی کے جانور سے خون صاف کرنے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ذوالحلیفہ میں تھے تو آپ نے اپنے (قربانی کے) اونٹ کے متعلق حکم دیا تو اس کے کوہان کے دائیں جانب اشعار کیا گیا پھر آپ نے اس کا خون صاف کیا اور اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکائیں تو جب بیداء میں آپ کو لے کر وہ پورے طور پر کھڑی ہوگئی تو آپ نے لبیک پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2774
(قربانی کا جانور کا) ہار بٹنے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ سے ہدی (قربانی کے جانور) بھیجتے تھے تو میں آپ کی ہدی کے ہار بٹتی تھی پھر آپ ان چیزوں میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہ کرتے تھے جن چیزوں سے محرم اجتناب کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٦ (١٦٩٨) ، ١٠٧ (١٦٩٩) ، ١٠٨ (١٧٠٠) ، ١٠٩ (١٧٠٢) ، ١١٠ (١٧٠٣) ، الوکالة ١٤ (٢٣١٧) ، الأضاحي ١٥ (٥٥٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن ابی داود/الحج ١٧ (١٧٥٨) ، سنن الترمذی/الحج ٧٠ (٩٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٤ (١٠٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٢، ١٧٩٢٣) ، مسند احمد (٦/٣٥، ٣٦، ٧٨، ٨٢، ٨٥، ٩١، ١٠٢، ١٢٧، ١٧٤، ١٨٠، ١٨٥، ١٩٠، ١٩١، ٢٠٠، ٢٠٨، ٢١٣، ٢١٦، ٢١٨، ٢٢٥، ٢٣٦، ٢٥٣، ٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے کہ محض ہدی بھیجنے سے آدمی محرم نہیں ہوتا جب تک کہ وہ خود ہدی کے ساتھ نہ جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2775
(قربانی کا جانور کا) ہار بٹنے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہدی کے ہار (قلادے) بٹا کرتی تھی، آپ انہیں پہنا کر بھیجتے پھر آپ وہ سب کرتے جو غیر محرم کرتا ہے اس سے پہلے کہ ہدی اپنے مقام پر (یعنی قربان گاہ پر) پہنچے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٠) ، مسند احمد (٦/١٨٣، ٢٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2776
(قربانی کا جانور کا) ہار بٹنے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے ہار (قلادے) بٹتی تھی، پھر آپ مقیم ہوتے اور احرام نہیں باندھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١١١ (١٧٠٤) ، الأضاحي ١٥ (٥٥٦٦) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٦) ، مسند احمد (٦/٣٠، ٣٥، ١٢٧، ١٩٠، ١٩١، ٢٠٨) ، سنن الدارمی/المناسک ٨٦ (١٩٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ خود احرام کو نہیں بلکہ حج مرجانے والے کسی حاجی کے ساتھ ہدی بھیج دیتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2777
(قربانی کا جانور کا) ہار بٹنے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہدی کے ہار (قلادے) بٹتی تھی، آپ اسے اپنے ہدی کے جانور کو پہناتے تھے پھر اسے روانہ فرماتے تھے۔ اور آپ خود مقیم رہتے، اور جن چیزوں سے محرم بچتا ہے ان چیزوں سے آپ نہیں بچتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١١٩ (١٧٠٢) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٣٢١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٤ (٣٠٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٤٧) ، مسند احمد (٦/٢٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2778
(قربانی کا جانور کا) ہار بٹنے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کی بکریوں کے ہار (قلادے) بٹا کرتی تھی پھر آپ حلال (غیر محرم) ہی رہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١١٠ (١٧٠٣) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن الترمذی/الحج ٧٠ (٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٨٥) ، مسند احمد (٦/٩١، ١٧٤، ١٩١، ٢٥٣، ٢٦٢) ، ویأتي عند المؤلف : ٢٧٨٧، ٢٧٩١، ٢٧٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2779
قربانی کے جانور کے ہار کس چیز سے بانٹے جائیں اس سے متعلق
ام المؤمنین (عائشہ رضی الله عنہا) کہتی ہیں کہ میں نے ان ہاروں (قلادوں) کو اس رنگین اون سے بٹا جو ہمارے پاس تھے پھر ہم میں موجود رہ کر آپ نے صبح کی اور وہ سب کام کرتے رہے جو غیر محرم اپنی بیوی سے کرتا ہے اور جو عام آدمی اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١١٢ (١٧٠٥) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ١٧ (١٧٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2780
(قربانی کے جانور) یعنی ہدی کے گلے میں کچھ لٹکانے سے متعلق احادیث
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا : بات ہے لوگ عمرہ کر کے حلال ہوگئے اور آپ اپنے عمرہ سے حلال نہیں ہوئے، آپ نے فرمایا : میں نے اپنے سر کی تلبید، اور اپنی ہدی کو قلادۃ پہنا دیا ہے، تو جب تک میں قربانی نہ کرلوں حلال نہیں ہوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٨٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2781
(قربانی کے جانور) یعنی ہدی کے گلے میں کچھ لٹکانے سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ذوالحلیفہ آئے تو آپ نے ہدی کے دائیں کوہان کی جانب اشعار کیا پھر اس سے خون صاف کیا، اور اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکائیں، پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے، اور جب وہ آپ کو کو لے کر سیدھی کھڑی ہوگئی تو آپ نے تلبیہ پکارا اور ظہر کے وقت احرام باندھا، اور حج کا تلبیہ پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2782
اونٹ کے گلے میں ہار ڈالنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے اونٹوں کے ہار میں نے اپنے ہاتھوں سے بٹے، پھر آپ نے اسے ان کے گلوں میں لٹکایا، اور ان کا اشعار کیا، اور بیت اللہ کی طرف ان کا رخ کر کے روانہ فرمایا، اور خود آپ مقیم رہے اور کوئی چیز جو آپ کے لیے حلال تھی آپ پر حرام نہیں ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٧٤ و ٢٧٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2783
اونٹ کے گلے میں ہار ڈالنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے اونٹوں کے ہار بٹے (جو آپ نے پہنائے) پھر آپ محرم نہیں ہوئے، اور نہ آپ نے کپڑوں میں سے کوئی چیز پہننی چھوڑی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٧٠ (٩٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2784
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کی بکریوں کے ہار بٹتی تھی (جو قربانی کے لیے مکہ بھیجی جاتی تھیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2785
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بکریوں کو بطور ہدی (مکہ) بھیجتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2786
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار بکریوں کی ہدی بھیجی اور آپ نے ان کے گلوں میں ہار لٹکایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2787
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کی بکریوں کے ہار بٹتی تھی (اور آپ انہیں مکہ بھیجتے) پھر بھی آپ (حلال ہی رہتے تھے) محرم نہیں ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2788
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کی بکریوں کے قلادے (ہار) بٹا کرتی تھی، آپ ﷺ احرام نہیں باندھتے تھے (یعنی حلال رہتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٣١) ، مسند احمد (٦/٢٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2789
بکریوں کے گلے میں ہار لٹکانے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم بکری کے گلے میں ہار ڈالتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ اسے (مکہ) بھیجتے تھے، اس حال میں کہ آپ حلال رہتے تھے، کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2790
ہدی کے گلے میں دو جوتے لٹکانے سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کے داہنی کوہان کی جانب اشعار کیا، پھر اس کا خون صاف کیا، پھر اس کے گلے میں دو جوتے ڈالے، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے تو جب وہ بیداء میں آپ لے کر پورے طور پر کھڑی ہوگئی تو آپ نے حج کا احرام باندھا اور ظہر کے وقت احرام باندھا، اور حج کا تلبیہ پکارا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2791
اگر قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالے تو کیا اس وقت احرام بھی باندھے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہدی بھیجی تو سب لوگ مدینہ میں موجود تھے تو جس نے چاہا احرام باندھا اور جس نے چاہا نہیں باندھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٩٢٨) ، مسند احمد (٣/٣٥٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص ہدی بھیجے اسے اختیار ہے چاہے وہ محرم ہو کر رہے چاہے غیر محرم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2792
کیا قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنے پر احرام باندھنا لازم ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے ہار اپنے ہاتھوں سے بٹتی تھی، رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ سے اسے ہدی کے گلے میں ڈالتے تھے اور اسے میرے والد کے ساتھ بھیجتے تھے تو رسول اللہ ﷺ کسی بھی ایسی چیز کا استعمال ترک نہیں کرتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کر رکھی ہے یہاں تک کہ ہدی کو نحر کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2793
کیا قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنے پر احرام باندھنا لازم ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے ہار بٹتی تھی پھر آپ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتے تھے جس سے محرم پرہیز کرتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٨ (١٧٠٠) ، الوکالة ١٤ (٢٣١٧) ، صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٩٩) ، موطا امام مالک/الحج ١٥ (٥١) ، مسند احمد (٦/١٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2794
کیا قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنے پر احرام باندھنا لازم ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی ہدی کے ہار بٹتی تھی تو آپ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتے تھے، اور ہم نہیں جانتے کہ حج سے (حاجی کو) بیت اللہ کے طواف ١ ؎ کے علاوہ بھی کوئی چیز حلال کرتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٤ (١٣٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٧) (صحیح) (حدیث کا آخری ٹکڑا ” لانعلم “ صحیح مسلم میں نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی طواف زیارت کے بعد ہی حاجی پورے طور سے حلال ہوتا ہے، رہا حلق تو اس سے کلی طور پر حلال نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2795
کیا قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنے پر احرام باندھنا لازم ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے جانور کے ہار بٹتی تھی، وہ ہار پہنا کر روانہ کردیئے جاتے، اور رسول اللہ ﷺ مقیم ہی رہتے اور اپنی بیویوں سے پرہیز نہیں کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2796
کیا قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالنے پر احرام باندھنا لازم ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی ہدی کی بکریوں کے ہار بٹتے دیکھا، آپ انہیں پہنا کر بھیج دیتے تھے، پھر ہمارے درمیان حلال شخص کی حیثیت سے رہتے تھے (کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2797
قربانی کا جانور کو ساتھ لے جانے سے متعلق
جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھ حج میں ہدی لے کر گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2798
ہدی کے جانور پر سوار ہونا
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے اونٹ کو ہانک کرلے جا رہا ہے آپ نے فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ نے (پھر) فرمایا : سوار ہو جاؤ، تمہارا، برا ہو، راوی کو شک ہے ويلك تمہارا برا ہو ١ ؎ کا کلمہ آپ نے دوسری بار میں کہا یا تیسری بار میں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٣ (١٦٨٩) ، ١١٢ (١٧٠٦) ، الوصایا ١٢ (٢٧٥٥) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٠) ، صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٢) ، سنن ابی داود/الحج ١٨ (١٧٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٨١) ، موطا امام مالک/الحج ٤٥ (١٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٥٤، ٢٧٨، ٣١٢، ٤٦٤، ٤٧٤، ٤٨١، ٤٨٧، ٥٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے یہاں بدعا مقصود نہیں بلکہ زجر و توبیخ مراد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2799
ہدی کے جانور پر سوار ہونا
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کا اونٹ اپنے ساتھ ہانکے لیے جا رہا ہے، آپ نے فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا : یہ قربانی کا اونٹ ہے، آپ نے (پھر) فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا : یہ قربانی کا اونٹ ہے، آپ نے چوتھی مرتبہ فرمایا : سوار ہوجاؤ تیرا برا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢١٩) ، مسند احمد (٣/١٧٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٣ (١٦٩٠) ، الوصایا ١٢ (٢٧٥٤) ، الأدب ٩٥ (٦١٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٣) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٧٠، ١٧٣، ٢٠٢، ٢٣١، ٢٤٣، ٢٧٥، ٢٧٦، ٢٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2800
جو شخص تھک جائے وہ ہدی کے جانور پر سوار ہوسکتا ہے
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ہدی کا اونٹ لے جاتے دیکھا اور وہ تھک کر چور ہوچکا تھا آپ نے اس سے فرمایا : اس پر سوار ہو جاؤ وہ کہنے لگا ہدی کا اونٹ ہے، آپ نے فرمایا : وار ہوجاؤ اگرچہ وہ ہدی کا اونٹ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٩٦) وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الحج ٦٥ (١٣٢٣) ، مسند احمد (٣/٩٩، ١٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2801
بوقت ضرورت ہدی کے جانور پر سوار ہونے کے بارے میں
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا ان سے قربانی کے جانور پر سوار ہونے کے متعلق پوچھا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دستور کے مطابق اس کی سواری کر جب تم اس کے لیے مجبور کر دئیے جاؤ یہاں تک کہ دوسری سواری پالو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٥ (١٣٢٤) ، سنن ابی داود/المناسک ١٨ (١٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٨) ، مسند احمد (٣/٣١٧، ٣٢٤، ٣٢٥، ٣٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2802
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، اور ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، رسول اللہ ﷺ نے جو لوگ ہدی لے کر نہیں آئے تھے انہیں احرام کھول دینے کا حکم دیا تو جو ہدی نہیں لائے تھے حلال ہوگئے، آپ کی بیویاں بھی ہدی لے کر نہیں آئیں تھیں تو وہ بھی حلال ہوگئیں، تو مجھے حیض آگیا (جس کی وجہ سے) میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکی، جب محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگ حج و عمرہ دونوں کر کے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی، آپ نے پوچھا : کیا تم نے ان راتوں میں جن میں ہم مکہ آئے تھے طواف نہیں کیا تھا ؟ میں نے عرض کیا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو تم اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم جاؤ، وہاں عمرے کا تلبیہ پکارو، (اور طواف وغیرہ کر کے) واپس آ کر فلاں فلاں جگہ ہم سے ملو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2803
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، تو جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے جن کے ساتھ ہدی تھی انہیں اپنے احرام پر قائم رہنے کا حکم دیا، اور جن کے ساتھ ہدی نہیں تھی انہیں احرام کھول دینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2804
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ٤ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو ، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے احرام کھول کر حلال ہوجائیں تو ہم منیٰ کو جائیں گے، اور ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہوگی، تو نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : جو بات تم لوگوں نے کہی ہے وہ مجھے معلوم ہوچکی ہے، میں تم سے زیادہ نیک اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی حلال ہوگیا ہوتا، اگر جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے پہلے معلوم ہوگئی ہوتی تو میں ہدی ساتھ لے کر نہ آتا ۔ (اسی دوران) علی (رض) یمن سے آئے، تو آپ نے ان سے پوچھا : تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے ؟ انہوں نے کہا : جس کا نبی اکرم ﷺ نے پکارا ہے، آپ نے فرمایا : تم ہدی دو اور احرام باندھے رہو، جس طرح تم ہو ۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمیں بتائیے ہمارا یہ عمرہ اسی سال کے لیے ہے، یا ہمیشہ کے لیے ؟ آپ نے فرمایا : ہمیشہ کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٢٣ (١٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٩) ، مسند احمد (٣/٣١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2805
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمیں بتائیے کیا ہمارا یہ عمرہ ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٤٠ (٢٩٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٨١٥) ، مسند احمد (٤/١٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2806
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
سراقہ بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج تمتع کیا ١ ؎ اور ہم سب نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا۔ تو ہم نے عرض کیا : کیا یہ ہمارے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٠٨ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہاں اصطلاحی تمتع مراد نہیں لغوی تمتع مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ عمرہ اور حج دونوں کا آپ نے فائدہ اٹھایا کیونکہ صحیح روایتوں سے آپ کا قارن ہونا ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2807
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
بلال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا حج کو عمرہ میں تبدیل کردینا صرف ہمارے ساتھ خاص ہے یا سب لوگوں کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، بلکہ ہم لوگوں کے لیے خاص ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٢٥ (١٨٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤٢ (٢٩٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٧) ، مسند احمد (٣/٤٦٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٧ (١٨٩٧) (ضعیف منکر) (اس کے راوی ” حارث “ لین الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث دیگر صحیح حدیثوں کے مخالف ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حج کو عمرہ کے ذریعہ فسخ کرنا خاص ہے، نہ کہ تمتع کیونکہ اس کا حکم عام ہے جیسا کہ اوپر کی روایت میں گزرا اور جو لوگ فسخ کو بھی عام کہتے ہیں وہ اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں ایک راوی حارث ہیں جو ضعیف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2808
قلیل صدقہ سے متعلق
ابوذر رضی الله عنہ سے حج کے متعہ کے سلسلہ میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے رخصت تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٣ (١٢٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤٢ (٢٩٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٥) (صحیح) (سند کے اعتبار سے یہ روایت صحیح ہے، مگر یہ ابو ذر رضی الله عنہ کی اپنی غلط فہمی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف مخالف للأحاديث المتقدمة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2809
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
ابوذر رضی الله عنہ حج کے متعہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تمہارے لیے نہیں ہے، اور نہ تمہارا اس سے کوئی واسطہ ہے، یہ رخصت صرف ہم اصحاب محمد ﷺ کے لیے تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2810
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ متعہ کی رخصت ہمارے لیے خاص تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2811
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
عبدالرحمٰن بن ابی الشعثاء کہتے ہیں کہ میں ابراہیم نخعی اور ابراہیم تیمی کے ساتھ تھا، تو میں نے کہا : میں نے اس سال حج اور عمرہ دونوں کو ایک ساتھ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر ابراہیم نے کہا : اگر تمہارے والد ہوتے تو ایسا ارادہ نہ کرتے، وہ کہتے ہیں : ابراہیم تیمی نے اپنے باپ کے واسطہ سے روایت بیان کی، اور انہوں نے ابوذر (رض) سے روایت کی کہ ابوذر (رض) نے کہا : متعہ ہمارے لیے خاص تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2812
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ (زمانہ جاہلیت میں) لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرلینے کو زمین میں ایک بہت بڑا گناہ تصور کرتے تھے، اور محرم (کے مہینے) کو صفر کا (مہینہ) بنا لیتے تھے، اور کہتے تھے : جب اونٹ کی پیٹھ کا زخم اچھا ہوجائے، اور اس کے بال بڑھ جائیں اور صفر کا مہینہ گزر جائے یا کہا صفر کا مہینہ آجائے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ حلال ہوگیا چناچہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو (مکہ میں) حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اسے عمرہ بنالیں، تو انہیں یہ بات بڑی گراں لگی ١ ؎، چناچہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون کون سی چیزیں حلال ہوں گی ؟ تو آپ نے فرمایا : احرام سے جتنی بھی چیزیں حرام ہوئی تھیں وہ ساری چیزیں حلال ہوجائیں گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٤) ، مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٢) ، صحیح مسلم/الحج ٣١ (١٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٨٠ (١٩٨٧) ، مسند احمد (١/٢٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٨ (١١٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ یہ بات ان کے عقیدے کے خلاف تھی، وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2813
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا اور آپ کے اصحاب نے حج کا، اور آپ نے جن کے ساتھ ہدی کے جانور نہیں تھے انہیں حکم دیا کہ وہ احرام کھول کر حلال ہوجائیں، تو جن کے ساتھ ہدی کے جانور نہیں تھے ان میں طلحہ بن عبیداللہ اور ایک اور شخص تھے، یہ دونوں احرام کھول کر حلال ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٠ (١٢٣٩) ، سنن ابی داود/الحج ٢٤ (١٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٦٢) ، مسند احمد (١/٢٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2814
جو آدمی ساتھ میں ہدی نہیں لے گیا ہو تو وہ شخص احرام حج توڑ کر احرام کھول سکتا ہے اس سے متعلقہ حدیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، تو جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ پورے طور پر حلال ہوجائے، کیونکہ عمرہ حج میں شامل ہوگیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣١ (١٢١٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٨٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٨٩ (٩٣٢) ، مسند احمد (١/٢٣٦، ٣٤١) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٨ (١٨٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2815
محرم کے واسطے جو شکار کھانا جائز ہے اس سے متعلق حدیث
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ مکہ کے راستہ میں احرام باندھے ہوئے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے، اور وہ خود محرم نہیں تھے (وہاں) انہوں نے ایک نیل گائے دیکھی، تو وہ اپنے گھوڑے پر جم کر بیٹھ گئے، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے درخواست کی وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں، تو ان لوگوں نے انکار کیا تو انہوں نے خود ہی لے لیا، پھر تیزی سے اس پر جھپٹے، اور اسے مار گرایا، تو اس میں سے نبی اکرم ﷺ کے بعض اصحاب نے کھایا، اور بعض نے کھانے سے انکار کیا۔ پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو پا لیا تو آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو ایسی غذا ہے جسے اللہ عزوجل نے تمہیں کھلایا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٤ (١٨٢٣) ، الہبة ٣ (٢٥٧٠) ، الجہاد ٤٦ (٢٨٥٤) ، ٨٨ (٢٩١٤) ، الأطعمة ١٩ (٥٤٠٦، ٥٤٠٧) ، الذبائح ١٠ (٥٤٩١) ، ١١ (٥٤٩٢) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٦) ، سنن ابی داود/المناسک ؟ ؟ (١٨٥٢) ، سنن الترمذی/الحج ٢٥ (٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٣١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٩٣ (٣٠٩٣) ، موطا امام مالک/الحج ٢٤ (٧٦) ، مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠١، ٣٠٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2816
محرم کے واسطے جو شکار کھانا جائز ہے اس سے متعلق حدیث
عبدالرحمٰن تیمی کہتے ہیں کہ ہم طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے ساتھ تھے اور ہم احرام باندھے ہوئے تھے، تو انہیں (شکار کی ہوئی) ایک چڑیا ہدیہ کی گئی اور وہ سوئے ہوئے تھے تو ہم میں سے بعض نے کھایا اور بعض نے احتیاط برتی تو جب طلحہ (رض) جاگے، تو انہوں نے کھانے والوں کی موافقت کی، اور کہا کہ ہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٢) ، مسند احمد (١/١٦١، ١٦٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2817
محرم کے واسطے جو شکار کھانا جائز ہے اس سے متعلق حدیث
زید بن کعب بہزی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے، آپ مکہ کا ارادہ کر رہے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے یہاں تک کہ جب آپ روحاء پہنچے تو اچانک ایک زخمی نیل گائے دکھائی پڑا، رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اسے پڑا رہنے دو ، ہوسکتا ہے اس کا مالک (شکاری) آجائے (اور اپنا شکار لے جائے) اتنے میں بہزی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور وہی اس کے مالک (شکاری) تھے انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ گور نیل گائے آپ کے پیش خدمت ہے ١ ؎ آپ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں۔ تو رسول ﷺ نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا، تو انہوں نے اس کا گوشت تمام ساتھیوں میں تقسیم کردیا، پھر آپ آگے بڑھے، جب اثایہ پہنچے جو رویثہ اور عرج کے درمیان ہے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ہرن اپنا سر اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کے درمیان کئے ہوئے ہے، ایک سایہ میں کھڑا ہے اس کے جسم میں ایک تیر پیوست ہے، تو ان کا (یعنی بہزی کا) گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ وہاں کھڑا ہوجائے تاکہ کوئی شخص اسے چھیڑنے نہ پائے یہاں تک کہ آپ (مع اپنے اصحاب کے) آگے بڑھ جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٥) ، موطا امام مالک/الحج ٢٤ (٧٩) ، مسند احمد (٣/٤١٨، ٤٥٢) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ہماری طرف سے آپ کو تحفہ ہے۔ اثایہ جحفہ سے مکہ کے راستہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ رویثہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ عرج ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ سے چند میل کی دوری پر واقع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2818
محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کو ایک نیل گائے ہدیہ کیا اور آپ ابواء یا ودان میں تھے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے انہیں واپس کردیا۔ پھر جب آپ نے میرے چہرے پر جو کیفیت تھی دیکھی تو فرمایا : ہم نے صرف اس وجہ سے اسے تمہیں واپس کیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٦ (١٨٢٥) ، الہبة ٦ (٢٥٧٣) ، ١٧ (٢٥٩٦) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٣) ، سنن الترمذی/الحج ٢٦ (٨٤٩) ، ق ٩٢ (٣٠٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٤٠) ، موطا امام مالک/الحج ٢٥ (٨٣) ، مسند احمد (٤/٣٧، ٣٨، ٧١، ٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابواء اور ودّان یہ دونوں جگہوں کے نام ہیں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2819
محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے
صعب بن جثامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ آگے بڑھے یہاں تک کہ جب ودان پہنچے تو ایک نیل گائے دیکھا (جسے کسی نے شکار کر کے پیش کیا تھا) تو آپ نے اسے پیش کرنے والے کو لوٹا دیا، اور فرمایا : ہم احرام باندھے ہوئے ہیں، شکار نہیں کھا سکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2820
محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے
عطاء سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) نے زید بن ارقم (رض) سے کہا : آپ کو معلوم نہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو کسی شکار کا کوئی عضو ہدیہ بھیجا گیا، اور آپ محرم تھے تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا، انہوں نے کہا : جی ہاں، (ہمیں معلوم ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤١ (١٨٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٥) ، مسند احمد (٤/٣٦٩، ٣٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2821
محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ زید بن ارقم (رض) آئے تو ابن عباس (رض) نے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھے شکار کے گوشت کے بارے میں جسے رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ کیا گیا تھا اور آپ محرم تھے کیا بتایا تھا ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، نبی اکرم ﷺ کو ایک شخص شکار کے گوشت کا ایک پارچہ (عضو) بطور ہدیہ دیا، تو آپ ﷺ نے اسے لوٹا دیا اور فرمایا : ہم نہیں کھا سکتے، ہم احرام باندھے ہوئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٣) ، مسند احمد (٤/٣٦٧، ٣٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2821
محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ صعب بن جثامہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس نیل گائے کی ٹانگ بھیجی جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے، اور آپ احرام باندھے ہوئے مقام قدید میں تھے۔ تو آپ نے اسے انہیں واپس لوٹا دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٩٩) ، مسند احمد (١/٢٨٠، ٢٩٠، ٣٤١، ٣٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2822
محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صعب بن جثامہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو ایک نیل گائے ہدیہ میں بھیجا اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے، تو آپ نے اسے انہیں واپس کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2823
اگر محرم شکار کو دیکھ کر ہنس پڑے؟
عبداللہ بن ابی قتادہ کہتے ہیں کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے تو ان کے ساتھیوں نے احرام باندھ لیا لیکن انہوں نے نہیں باندھا، (ان کا بیان ہے) کہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ تھا کہ اسی دوران ہمارے اصحاب ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسے، میں نے نظر اٹھائی تو اچانک ایک نیل گائے مجھے دکھائی پڑا، میں نے اسے نیزہ مارا اور (اسے پکڑنے اور ذبح کرنے کے لیے) ان سے مدد چاہی تو انہوں نے میری مدد کرنے سے انکار کیا پھر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا، اور ہمیں ڈر ہوا کہ ہم کہیں لوٹ نہ لیے جائیں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کا ساتھ پکڑنا چاہا کبھی میں اپنا گھوڑا تیز بھگاتا اور کبھی عام رفتار سے چلتا تو میری ملاقات کافی رات گئے قبیلہ غفار کے ایک شخص سے ہوئی میں نے اس سے پوچھا : تم نے رسول اللہ ﷺ کو کہاں چھوڑا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے آپ کو مقام سقیا میں قیلولہ کرتے ہوئے چھوڑا ہے، چناچہ میں جا کر آپ سے مل گیا، اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کے صحابہ آپ کو سلام عرض کرتے ہیں اور آپ کے لیے اللہ کی رحمت کی دعا کرتے ہیں اور وہ ڈر رہے ہیں کہ وہ کہیں آپ سے پیچھے رہ جانے پر لوٹ نہ لیے جائیں، تو آپ ذرا ٹھہر کر ان کا انتظار کر لیجئیے تو آپ نے ان کا انتظار کیا۔ پھر میں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! (راستے میں) میں نے ایک نیل گائے کا شکار کیا اور میرے پاس اس کا کچھ گوشت موجود ہے، تو آپ نے لوگوں سے کہا : کھاو ٔ اور وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٢ (١٨٢١) ، ٣ (١٨٢٢) ، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٣ (٣٠٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٩) ، مسند احمد (٥/٣٠١، ٣٠٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2824
اگر محرم شکار کو دیکھ کر ہنس پڑے؟
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ غزوہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے، وہ کہتے ہیں کہ میرے علاوہ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا ہے تھا۔ تو میں نے (راستہ میں) ایک نیل گائے کا شکار کیا اور اس کا گوشت اپنے ساتھیوں کو کھلایا، اور وہ محرم تھے، پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو میں نے بتایا کہ ہمارے پاس اس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے، تو آپ نے (لوگوں سے) فرمایا : کھاؤ، اور وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2825
اگر محرم شکار کی طرف اشارہ کرے اور غیر محرم شکار کرے
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ سفر میں تھے ان میں سے بعض نے احرام باندھ رکھا تھا اور بعض بغیر احرام کے تھے، میں نے ایک نیل گائے دیکھا تو میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا، اور اپنا نیزہ لے لیا، اور ان لوگوں سے مدد چاہی تو ان لوگوں نے مجھے مدد دینے سے انکار کیا تو میں نے ان میں سے ایک کا کوڑا اچک لیا اور تیزی سے نیل گائے پر جھپٹا اور اسے پا لیا (مار گرایا) تو ان لوگوں نے اس کا گوشت کھایا پھر ڈرے (کہ ہمارے لیے کھانا اس کا حلال تھا یا نہیں) تو اس بارے میں نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے اشارہ کیا تھا یا کسی طرح کی مدد کی تھی ؟ انہوں نے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تو کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٥ (١٨٢٤) مطولا، صحیح مسلم/الحج ٨ (١١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٢) ، مسند احمد (٥/٣٠٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٢ (١٨٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2826
اگر محرم شکار کی طرف اشارہ کرے اور غیر محرم شکار کرے
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : خشکی کا شکار تمہارے لیے حلال ہے جب تک کہ تم خود شکار نہ کرو، یا تمہارے لیے شکار نہ کیا جائے ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس حدیث میں عمرو بن ابی عمرو قوی نہیں ہیں، گو امام مالک نے ان سے روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤١ (١٨٥١) ، سنن الترمذی/الحج ٢٥ (٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٩٨) ، مسند احمد (٣/٣٦٢، ٣٨٧، ٣٨٩) (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2827
کاٹنے والے کتے کو محرم کا قتل کرنا کیسا ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں محرم کے مارنے میں کوئی حرج (گناہ) نہیں ہے۔ کوا، چیل، بچھو، چوہیا اور کٹ کھنا (کاٹنے والا) کتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٦) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٥) ، صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٦٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٤٠ (١٨٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩١ (٣٠٨٨) ، موطا امام مالک/الحج ٢٨ (٨٨) ، مسند احمد (٢/١٣٨) ، سنن الدارمی/المناسک ١٩ (١٨٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کٹ کھنے کتے سے مراد وہ تمام درندے ہیں جو لوگوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کردیتے ہوں، مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2828
سانپ کو ہلاک کرنا کیسا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں محرم مار سکتا ہے : سانپ، چوہیا، چیل، کوا اور کاٹ کھانے والا کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٩) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٤) ، سنن الترمذی/الحج ٢١ (٨٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩١ (٣٠٨٧) ، مسند احمد (٦/٩٧، ٢٠٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٨٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2829
چوہے کو مارنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو پانچ جانور کو مارنے کی اجازت دی ہے : کوا، چیل، چوہیا، کٹ کھنا (کاٹنے والا) کتا، اور بچھو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨ م، ١١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2830
گرگٹ کو مارنے سے متعلق
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک عورت ام المؤمنین عائشہ کے پاس آئی، اور ان کے ہاتھ میں لوہے کی پھلی لگی ہوئی لاٹھی تھی، اس عورت نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ کہا : یہ ان چھپکلیوں (کے مارنے) کے لیے ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ کو اس جانور کے سوا سبھی جانور بجھاتے تھے اسی وجہ سے آپ نے ہمیں اسے مارنے کا حکم دیا ہے۔ اور گھروں میں رہنے والے سانپ کے مارنے سے روکا ہے سوائے دو دھاریوں والے، اور دم بریدہ سانپ کے کیونکہ یہ دونوں بصارت کو زائل کردیتے ہیں، اور حاملہ عورت کا حمل گرا دیتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦١٢٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصید ١٢ (٣٢٣١) ، مسند احمد (٦/٨٣، ١٠٩، ٢١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2831
بچھو کو مارنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں احرام کی حالت میں مارنے پر یا جنہیں احرام کی حالت میں مارنے میں کوئی گناہ نہیں : چیل، چوہیا، کاٹ کھانے والا کتا، بچھو اور کوا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٢١٧) ، مسند احمد (٢/٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2832
چیل کو مارنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب ہم احرام باندھے ہوئے ہوں تو کون سے جانور مار سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : پانچ جانور ہیں جن کے مارنے پر کوئی گناہ نہیں : چیل، کوا، چوہیا، بچھو اور کٹ کھنا (کاٹنے والا) کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٣) ، مسند احمد (٢/٤٨، ٦٥، ٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2833
کوے کو مارنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ محرم کن (جانوروں) کو قتل کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ بچھو، چوہیا، چیل۔ کوا، اور کاٹ کھانے والے کتے کو قتل کرسکتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٢٣) ، مسند احمد (٢/٧٧) ، سنن الدارمی/المناسک ١٩ (١٨٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2834
کوے کو مارنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں اور حالت احرام میں مارنے میں کوئی گناہ نہیں ہے : چوہیا، چیل، کوا، بچھو اور کاٹ کھانے والا کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٩) ، سنن ابی داود/المناسک ٤٠ (١٨٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2835
محرم کو جن چیزوں کو مار ڈالنا درست نہیں ہے
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کے کھانے کا حکم دیا، میں نے ان سے پوچھا : کیا وہ شکار ہے ؟ کہا : ہاں، میں نے کہا : کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ کہا : ہاں (میں نے سنا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٢ (٣٨٠١) ، سنن الترمذی/الحج ٢٨ (٨٥١) ، الأطعمة ٤ (١٧٩١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٩٠ (٣٠٨٥) ، الصید ١٥ (٣٢٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٨١) ، مسند احمد (٣/٢٩٧، ٣١٨، ٣٢١) ، سنن الدارمی/المناسک ٩٠ (٨٩٨٤، ١٩٨٥) ، ویأتی عند المؤلف في الصید ٢٧ (برقم ٤٣٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2836
محرم کو نکاح کرنے کی اجازت سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور آپ محرم تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ انکاح ٣٠ (٥١١٥) ، صحیح مسلم/انکاح ٥ (١٤١٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٣٩ (١٨٤٤) ، سنن الترمذی/ الحج ٢٤ (٨٤٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٦) ، مسند احمد ١/٢٢١، ٢٢٨، ٢٤٥، ٢٦٦، ٢٧٠، ٢٨٣، ٢٨٥، ٢٨٦، ٣٢٤، ٣٣٠، ٣٣٣، ٣٣٦، ٣٣٧، ٣٤٦، ٣٥١، ٣٥٤، ٣٦٠، ٣٦١ سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٣) ، ویأتی عند المؤلف فیما یأتی برقم : ٣٢٧٤ (صحیح) (ابن عباس کا وہم ہے کہ میمونہ سے شادی حالت احرام میں ہوئی، صحیح اور ثابت یہی ہے کہ احرام سے باہر یہ شادی ہوئی، اسی لیے علماء نے ابن عباس سے ثابت ان احادیث کو شاذ کہا ہے ) وضاحت : ١ ؎: سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ابن عباس کو وہم ہوا ہے کیونکہ ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ نے مجھ سے شادی کی تو ہم دونوں حلال تھے، نیز ان دونوں کا نکاح کرانے والے ابورافع رضی الله عنہ کا بیان بھی ابن عباس رضی الله عنہما کے برعکس ہے، دراصل ابن عباس رضی الله عنہما نے مکہ نہ جا کر صرف ہدی کا جانور بھیج دینے کو بھی احرام سمجھا، حالانکہ یہ احرام نہیں ہوتا، اور یہ نکاح اسی حالت میں ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے اشعار کر کے ہدی بھیج دی اور حج سے رہ گئے، اور بقول عائشہ رضی الله عنہا آپ نے اپنے اوپر احرام کی کوئی بات لاگو نہیں کی، (دیکھئیے سنن ابوداؤد حدیث رقم ١٨٤٢ ) ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ نے حالت احرام میں نکاح سے ممانعت حجۃ الوداع میں کی تھی، اور میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح اس حرمت سے پہلے کیا تھا۔ واللہ اعلم قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2837
محرم کو نکاح کرنے کی اجازت سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں نکاح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ (صحیح) (لیکن شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2838
محرم کو پچھنے لگانا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور دونوں محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٣٣٩١) (صحیح) (لیکن شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2839
قلیل صدقہ سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٥) ، مسند احمد (١/٢٤٥) (صحیح) (لیکن شاذ ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2840
محرم کو پچھنے لگانا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٢ (١٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٣) ، مسند احمد (١/٣٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2841
اس کی ممانعت سے متعلق
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محرم نہ اپنا نکاح کرے، نہ شادی کا پیغام بھیجے اور نہ ہی کسی دوسرے کا نکاح کرائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/النکاح ٥ (١٤٠٩) ، سنن ابی داود/الحج ٣٩ (١٨٤١) مطولا، سنن الترمذی/الحج ٢٣ (٨٤٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٤٥ (١٩٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٦) ، موطا امام مالک/الحج ٢٢ (٧٠) ، مسند احمد (١/٥٧، ٦٤، ٦٥، ٦٨، ٦٩، ٧٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٢١ (١٨٦٤) ، ویأتي عند المؤلف فی انکاح ٣٨ (برقم ٣٢٧٧، ٣٢٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2842
اس کی ممانعت سے متعلق
عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے منع فرمایا : محرم اپنا نکاح کرے یا کسی دوسرے کا نکاح کرائے، یا کسی کو شادی کا پیغام بھیجے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2843
اس کی ممانعت سے متعلق
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر نے ابان بن عثمان کے پاس کسی کو یہ سوال کرنے کے لیے بھیجا کہ کیا محرم نکاح کرسکتا ہے ؟ تو ابان نے کہا کہ عثمان بن عفان (رض) نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : محرم نہ نکاح کرے، اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2844
محرم کو پچھنے لگانا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٥) ، الصوم ٣٢ (١٩٣٨) ، الطب ١٢ (٥٦٩٤) ، ١٥ (٥٦٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٢) ، سنن ابی داود/الحج ٣٦ (١٨٣٥) ، سنن الترمذی/الحج ٢٢ (٨٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٧) ، مسند احمد (١/٢٢١، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2845
محرم کو پچھنے لگانا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظرماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2846
محرم کو پچھنے لگانا
عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ احرام باندھے ہوئے تھے، اس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ طاؤس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پچھنا لگوایا، اور آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2847
محرم کا کسی بیماری کی وجہ سے پچھنے لگانا
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک تکلیف کے باعث جو آپ کو لاحق تھی پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٩٩٨) ، مسند احمد (٣/٣٦٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ٥ (٣٨٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٢١ (٣٤٨٥) (تعلیقاً ) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2848
محرم کے پاؤں میں پچھنے لگوانے کے بارے میں
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پاؤں کے اوپری حصہ پر اس تکلیف کی وجہ سے جو آپ کو تھی پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٣٦ (١٨٣٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ٤٩ (٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٥) ، مسند احمد (٣/١٦٤، ٢٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2849
محرم کا سر کے درمیان فصد لگوانا کیسا ہے؟
عبداللہ بن بحینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے راستہ میں لحی جمل میں اپنے سر کے بیچ میں پچھنا لگوایا، اور آپ محرم تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١١ (١٨٣٦) ، والطب ١٤ (٥٦٩٨) ، صحیح مسلم/الحج ١١ (١٢٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٢١ (٣٤٨١) ، (تحفة الأشراف : ٩١٥٦) ، مسند احمد (٥/٣٤٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٠ (١٨٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لحی جمل مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2850
اگر کسی محرم کو جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ احرام باندھے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تو ان کے سر کے جوئیں انہیں تکلیف دینے لگیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سر منڈا لینے کا حکم دیا اور فرمایا : (اس کے کفارہ کے طور پر) تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کوفی مسکین دو دو مد کے حساب سے کھانا کھلاؤ، یا ایک بکری ذبح کرو، ان تینوں میں سے جو بھی کرلو گے تمہاری طرف سے کافی ہوجائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ٥، ٦، ٧، ٨ (١٨١٤-١٨١٨) ، المغازی ٣٥ (٤١٥٩) ، تفسیر البقرة ٣٢ (٤٥١٧) ، المرضی ١٦ (٥٦٦٥) ، الطب ١٦ (٥٧٠٣) ، الکفارات ١ (٦٧٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ١٠ (١٢٠١) ، سنن ابی داود/الحج ٤٣ (١٨٥٧) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٧ (٩٥٣) ، و تفسیر البقرة (٢٩٧٣، ٢٩٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٨٦ (٣٠٧٩) ، موطا امام مالک/الحج ٧٨ (٢٣٧) ، مسند احمد (٤/ ٢٤١، ٢٤٢، ٢٤٣، ٢٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2851
اگر کسی محرم کو جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تو میرے سر میں جوئیں بہت ہوگئیں، نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میں اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا پکا رہا تھا، تو آپ نے اپنی انگلی سے میرا سر چھوا اور فرمایا : جاؤ، سر منڈا لو اور چھ مسکینوں پر صدقہ کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١١٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2852
اگر محرم مر جائے تو اس کو بیری کے پتے ڈال کر غسل دینے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، اس کی اونٹنی نے گرا کر اس کی گردن توڑ دی، اور وہ محرم تھا تو وہ مرگیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو اور اسے اس کے (احرام کے) دونوں کپڑوں ہی میں کفنا دو ، نہ اسے خوشبو لگاؤ، اور نہ اس کا سر ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2853
اگر محرم مر جائے تو اس کو کس قدر کپڑوں میں کفن دینا چاہیے؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک محرم اپنی اونٹنی سے گرگیا، تو اس کی گردن ٹوٹ گئی، ذکر کیا گیا کہ وہ مرگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، اور دو کپڑوں ہی میں اسے کفنا دو ، اس کے بعد یہ بھی فرمایا : اس کا سر کفن سے باہر رہے ، فرمایا : اور اسے کوئی خوشبو نہ لگانا کیونکہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ شعبہ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں : میں نے ان سے (یعنی اپنے استاد ابوبشر سے) دس سال بعد پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی جیسے پہلے کی تھی البتہ انہوں نے (اس بار اتنا مزید) کہا کہ اس کا منہ اور سر نہ ڈھانپو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2854
اگر محرم مر جائے تو اس کو خوشبو نہ لگانا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص عرفہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑا تھا کہ وہ اپنی سواری سے گرگیا اور اس کی اونٹنی نے اسے کچل کر ہلاک کردیا۔ (راوی کو شک ہے کہ ابن عباس (رض) نے فأقعصه (مذکر کے صیغہ کے ساتھ) کہا یا فأقعصته (مونث کے صیغہ کے ساتھ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، اور اسے اس کے دونوں کپڑوں ہی میں کفنا دو ، نہ اسے خوشبو لگاؤ، اور نہ اس کے سر کو ڈھانپو، اس لیے کہ اللہ عزوجل اسے قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ١٩ (١٢٦٥) ، ٢٠ (١٢٦٦) ، ٢١ (١٢٦٨) ، جزاء الصید ٢٠ (١٨٥٠) ، صحیح مسلم/الحج ١٤ (١٢٠٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٢٣٩، ٣٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣٧) ، مسند احمد (١/٣٣٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٥ (١٨٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2855
اگر محرم مر جائے تو اس کو خوشبو نہ لگانا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک محرم شخص کو اس کی اونٹنی نے گرا کر اس کی گردن توڑ دی اور اسے ہلاک کردیا، تو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا : اسے نہلاؤ، اور کفناؤ، (لیکن) اس کا سر نہ ڈھانپنا اور نہ اسے خوشبو لگانا کیونکہ وہ (قیامت کے دن) لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٣ (١٨٣٩) ، سنن ابی داود/المناسک ٨٤ (٣٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٩٧) ، مسند احمد (١/٢٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2856
اگر کوئی آدمی حالت احرام میں وفات پا جائے تو اس کا سر اور چہرے نہ چھپا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کر رہا تھا کہ اس کے اونٹ نے اسے گرا دیا جس سے وہ مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے غسل دیا جائے، اور دونوں کپڑوں ہی میں اسے کفنا دیا جائے، اور اس کا سر اور چہرہ نہ ڈھانپا جائے، کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2857
اگر محرم کی وفات ہوجائے تو اس کا سر نہ ڈھانکنا چاہیے
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص احرام باندھے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آیا، تو وہ اپنے اونٹ پر سے گرپڑا تو اسے کچل ڈالا گیا اور وہ مرگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو ، اور اسے اس کے یہی دونوں (احرام کے) کپڑے پہنا دو ، اور اس کا سر نہ ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا آئے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2858
اگر کسی شخص کو دشمن حج سے روک دے تو کیا کرنا چاہیے؟
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں نے انہیں خبر دی کہ ان دونوں نے جب حجاج بن یوسف کے لشکر نے ابن زبیر (رض) پر چڑھائی کی تو ان کے قتل کئے جانے سے پہلے عبداللہ بن عمر (رض) سے بات کی ان دونوں نے کہا : امسال آپ حج کے لیے نہ جائیں تو کوئی نقصان نہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کردی جائے، تو انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، تو کفار قریش بیت اللہ تک پہنچنے میں حائل ہوگئے، تو آپ ﷺ نے (وہیں) اپنی ہدی کا نحر کرلیا اور سر منڈا لیا (اور حلال ہوگئے) سنو ! میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ (اپنے اوپر) واجب کرلیا ہے۔ ان شاء اللہ میں جاؤں گا اگر مجھے بیت اللہ تک پہنچنے سے نہ روکا گیا تو میں طواف کروں گا، اور اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیش آگئی تو میں وہی کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ پھر وہ تھوڑی دیر چلتے رہے۔ پھر کہنے لگے بلاشبہ حج و عمرہ دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے، میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔ چناچہ انہوں نے حج و عمرہ دونوں میں سے کسی سے بھی احرام نہیں کھولا۔ یہاں تک کہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو احرام کھولا، اور ہدی کی قربانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المحصر ١ (١٨٠٧) ، ١٨٠٨) ، المغازي ٣٥ (٤١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2859
اگر کسی شخص کو دشمن حج سے روک دے تو کیا کرنا چاہیے؟
حجاج بن عمرو انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو شخص لنگڑا ہوجائے، یا جس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے، تو وہ حلال ہوجائے گا، (اس کا احرام کھل جائے گا) اور اس پر دوسرا حج ہوگا ، (عکرمہ کہتے ہیں) میں نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس کے متعلق پوچھا، تو ان دونوں نے کہا کہ انہوں (یعنی حجاج انصاری) نے سچ کہا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤٤ (١٨٦٣) ، سنن الترمذی/الحج ٩٦ (٩٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٨٥ (٣٠٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٩٤) ، مسند احمد (٣/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٧ (١٩٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2860
اگر کسی شخص کو دشمن حج سے روک دے تو کیا کرنا چاہیے؟
حجاج بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کی ہڈی ٹوٹ گئی، یا جو لنگڑا ہوگیا تو وہ حلال ہوگیا، اور اس پر دوسرا حج ہے (عکرمہ کہتے ہیں) میں نے ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا، تو ان دونوں نے کہا، انہوں (حجاج انصاری) نے سچ کہا ہے۔ اور شعیب اپنی روایت میں وعليه حجة أخرى ان پر دوسرا حج ہے کے بجائے وعليه الحج من قابل آئندہ سال ان پر حج ہے کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2861
مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذی طویٰ میں اترتے اور وہیں رات گزارتے، پھر صبح کی نماز پڑھ کر مکہ میں داخل ہوتے، اور رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک سخت ٹیلے پر تھی نہ کہ مسجد میں جو وہاں بنائی گئی ہے، بلکہ اس مسجد سے نیچے ایک ٹھوس کھردرے ٹیلے پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٩ (٩٤٨٤) ، والحج ١٤٨ (١٧٦٧) ، ١٤٩ (١٧٦٩) ، صحیح مسلم/الحج ٣٨ (١٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٦٠) ، مسند احمد (٢/٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ذی طویٰ مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2862
رات کے وقت مکہ مکرمہ داخل ہونے کے بارے میں
محرش کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات میں جعرانہ ٢ ؎ سے نکلے جس وقت آپ عمرہ کرنے کے لیے چلے پھر آپ رات ہی میں جعرانہ واپس آگئے اور جعرانہ میں اس طرح صبح کی گویا آپ نے رات وہیں گزاری ہے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ جعرانہ سے چل کر بطن سرف پہنچے، سرف سے مدینہ کی راہ لی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٨١ (١٩٩٦) ، سنن الترمذی/الحج ٩٣ (٩٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٠) ، مسند احمد (٣/٤٢٦، ٤٢٧، ٤/٦٩، ٥/٣٨٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٤١ (١٩٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جعرانہ مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ سرف ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2863
رات کے وقت مکہ مکرمہ داخل ہونے کے بارے میں
محرش کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جعرانہ سے رات میں نکلے گویا آپ کھری چاندی کے ڈلے ہوں (یعنی آپ کا رنگ سفید چاندی کی طرح چمکدار تھا) آپ نے عمرہ کیا، پھر آپ نے جعرانہ ہی میں صبح کی جیسے آپ نے وہیں رات گزاری ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2864
مکہ مکرمہ میں کس جانب سے داخل ہوں؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ علیا سے داخل ہوئے جو کہ بطحاء میں ہے، اور ثنیہ سفلی سے واپس نکلے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٠ (١٥٧٦) ، ٤١ (١٥٧٧) ، صحیح مسلم/الحج ٣٧ (١٢٥٧) ، سنن ابی داود/الحج ٤٥ (١٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٨١٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٦ (٢٩٤٠) ، مسند احمد (٢/١٤، ١٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٨١ (١٩٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2865
مکہ مکرمہ میں جھنڈا لے کر داخل ہونے کے بارے میں
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں (یعنی فتح مکہ کے دن) سفید جھنڈا لیے ہوئے داخل ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧٦ (٢٥٩٢) ، سنن الترمذی/الجہاد ٩ (١٦٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٠ (٢٨١٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2866
مکہ میں بغیر احرام کے واخل ہونا
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ (فتح مکہ کے موقع پر) خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے، تو آپ سے کہا گیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے، تو آپ نے فرمایا : اسے قتل کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ١٨ (١٨٤٦) ، الجہاد ١٦٩ (٣٠٤٤) ، المغازی ٤٨ (٤٢٨٦) ، اللباس ١٧ (٥٨٠٨) ، صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٢٧ (٢٦٨٥) ، سنن الترمذی/الجہاد ١٨ (١٦٩٣) ، والشمائل ١٦ (١٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٨ (١٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧) ، موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٧) ، مسند احمد (٣/١٠٩، ١٦٤، ١٨٠، ١٨٦، ٢٢٤، ٢٣١، ٢٣٢، ٢٤٠) ، سنن الدارمی/ المناسک ٨٨ (١٩٨١) ، والسیر ٢٠ (٢٥٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ نبی اکرم ﷺ کو بہت اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2867
مکہ میں بغیر احرام کے واخل ہونا
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کے سر پر خود تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2868
مکہ میں بغیر احرام کے واخل ہونا
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے، آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی، اور آپ بغیر احرام کے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٤٧) ، مسند احمد (٣/٣٨٧) ، ویأتی عند المؤلف فی الزینة ١٠٩، برقم ٥٣٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ عمامہ خود کے اوپر رہا ہو، یا خود عمامہ کے اوپر رہا ہو یا داخل ہوتے وقت سر پر خود رہا ہو پھر آپ نے اسے ہٹا کر پگڑی باندھ لی ہو، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2869
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں داخل ہونے کا وقت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب چار ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے مکہ آئے، تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ (عمرہ کر کے) احرام کھول ڈالیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرال صلاة ٣ (١٠٨٥) ، الحج ٣٤ (١٥٦٤) ، الشرکة ١٥ (٢٥٠٦) ، مناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٢) ، صحیح مسلم/الحج ٣١ (١٢٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٥) ، مسند احمد (١/٣٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2870
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں داخل ہونے کا وقت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چار ذی الحجہ کو (مکہ) آئے، آپ نے حج کا احرام باندھ رکھا تھا، تو آپ نے صبح کی نماز بطحاء میں پڑھی، اور فرمایا : جو اسے عمرہ بنانا چاہے وہ بنا لے (یعنی طواف کر کے احرام کھول دے، اور حلال ہوجائے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2871
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ میں داخل ہونے کا وقت
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چار ذی الحجہ کی صبح کو مکہ آئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ١٥ (٢٥٠٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٧٦ (١٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2872
حرم میں اشعار پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کے متعلق
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ (رض) آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے : خلوا بني الکفار عن سبيله اليوم نضربکم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله اے کافروں کی اولاد ! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو) ، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خواب گاہوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو اپنے دوست سے غافل کر دے گی، تو عمر (رض) نے ان سے کہا : ابن رواحہ ! رسول اللہ ﷺ کے سامنے اور اللہ عزوجل کے حرم میں تم شعر پڑھتے ہو ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھوڑو ان کو (پڑھنے دو ) کیونکہ یہ ان پر تیر سے زیادہ اثرانداز ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٧٠ (٢٨٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٦) ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٨٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2873
مکہ مکرمہ کی تعظیم سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ شہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اسی دن سے محترم قرار دیا ہے جس دن اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، لہٰذا یہ اللہ کی حرمت کی سبب سے قیامت تک حرمت والا رہے گا، نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں گے، نہ اس کے شکار بدکائے جائیں گے، نہ وہاں کی کوئی گری پڑی چیز اٹھائے گا سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے اور نہ وہاں کی ہری شاخ کاٹی جائے گی ، اس پر ابن عباس (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! سوائے اذخر کے ١ ؎ تو آپ نے ایک بات کہی جس کا مفہوم ہے سوائے اذخر کے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٧٦ (١٣٤٩) تعلیقًا، الحج ٤٣ (١٥٨٧) ، جزاء الصید ٩ (١٨٣٣) ، ١٠ (١٨٣٤) ، البیوع ٢٨ (٢٠٩٠) ، واللقطة ٧ (٢٤٣٣) ، والجزیة ٢٢ (٣١٨٩) ، المغازي ٥٣ (٤٣١٣) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٣) ، سنن ابی داود/الحج ٩٠ (٢٠١٨) ، سنن الترمذی/السیر ٣٣ (١٥٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٨) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٥٩، ٣١٦، ٣٥٥، ٣١٨) ، سنن الدارمی/السیر ٦٩ (٢٥٥٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤١٧٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اذخر ایک قسم کی مشہور گھاس ہے جو خوشبودار ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2874
مکہ میں جنگ کی ممانعت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا : یہ شہر (مکہ) حرام ہے اور اسے اللہ عزوجل نے حرام قرار دیا ہے، اس میں لڑائی مجھ سے پہلے کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوئی۔ صرف میرے لیے ذرا سی دیر کے لیے جائز کی گئی، لہٰذا یہ اللہ عزوجل کے حرام قرار دینے کی وجہ سے حرام (محترم و مقدس) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2875
مکہ میں جنگ کی ممانعت
ابوشریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا، اور وہ (عبداللہ بن زبیر (رض) پر حملہ کے لیے) مکہ پر چڑھائی کے لیے فوج بھیج رہے تھے، امیر (محترم) ! آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن کہی تھی اور جسے میرے دونوں کانوں نے سنی ہے میرے دل نے یاد رکھا ہے اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے جس وقت آپ نے اسے زبان سے ادا کیا ہے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے لوگوں نے حرام قرار نہیں دیا ہے، اور آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں کہ اس میں خونریزی کرے، یا یہاں کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ ﷺ کے قتال کی وجہ سے اس کی رخصت دے تو اس سے کہو : یہ اجازت اللہ تعالیٰ نے تمہیں نہیں دی ہے صرف اپنے رسول کو دی تھی، دن کے ایک تھوڑے سے حصہ میں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اجازت دی، پھر اس کی حرمت آج اسی طرح واپس لوٹ آئی جیسے کل تھی، اور چاہیئے کہ جو موجود ہے وہ غائب کو یہ بات پہنچا دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٣٧ (١٠٤) ، جزاء الصید ٨ (١٨٣٢) ، المغازي ٥١ (٤٢٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ٨٢ (١٣٥٤) ، سنن الترمذی/الحج ١ (٨٠٩) ، الدیات ١٣ (١٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٧) ، مسند احمد (٤/٣١ و ٦/٣٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2876
حرم شریف کی حرمت
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس گھر سے یعنی بیت اللہ سے لڑنے ایک لشکر آئے گا ١ ؎ تو اسے بیداء میں دھنسا دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٩٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدینہ کے قریب ایک میدان ہے جو اسی نام سے معروف ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2877
حرم شریف کی حرمت
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس گھر پر لشکر کشی سے لوگ باز نہ آئیں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی لشکر دھنسا دیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2878
حرم شریف کی حرمت
ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس حرم کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا تو جب وہ سر زمین بیداء میں ہوگا تو ان کے شروع سے لے کر آخر تک سبھی لوگ دھنسا دئیے جائیں گے، درمیان کا بھی کوئی نہ بچے گا ، میں نے کہا : بتائیے اگر ان میں مسلمان بھی ہوں تو بھی ؟ آپ نے فرمایا : ان کے لیے قبریں ہوں گی (اور اعمال صالحہ کی بنا پر اہل ایمان کو ان قبروں میں عذاب نہیں ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ٢ (٢٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٣) (منکر ) قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2879
حرم شریف کی حرمت
عبداللہ بن صفوان کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ایک لشکر اس گھر پر حملہ کرنا چاہے گا، اس کا قصد کرے گا یہاں تک کہ جب وہ سر زمین بیداء میں پہنچے گا، تو اس کا درمیانی حصہ دھنسا دیا جائے گا (ان کو دھنستا دیکھ کر) لشکر کا ابتدائی و آخری حصہ چیخ و پکار کرنے لگے گا، تو وہ بھی سب کے سب دھنسا دیے جائیں گے، اور کوئی نہیں بچے گا، سوائے ایک بھاگے ہوئے شخص کے جو ان کے متعلق خبر دے گا ، ایک شخص نے ان (امیہ بن صفوان) سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے اپنے دادا کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں کی ہے، اور انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف جھوٹی بات کی نسبت نہیں کی ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٠ (٤٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٩) ، مسند احمد (٦/٢٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2880
حرم شریف میں جن جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ موذی جانور ہیں جو حرم اور حرم سے باہر مارے جاسکتے ہیں : کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا، بچھو، اور چوہیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2881
حرم شریف میں سانپ کو مار ڈالنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ موذی جانور ہیں جو حرم اور حرم سے باہر دونوں جگہوں میں مارے جاسکتے ہیں۔ سانپ، کاٹ کھانے والا کتا، چتکبرا کوا، چیل اور چوہیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2882
حرم شریف میں سانپ کو مار ڈالنے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ کی مسجد خیف میں تھے یہاں تک کہ سورة والمرسلات عرفاً نازل ہوئی، اتنے میں ایک سانپ نکلا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے مارو تو ہم مارنے کے لیے جلدی سے لپکے، لیکن وہ اپنی سوراخ میں گھس گیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٣٠) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٧) ، تفسیرالمرسلات ١ (٤٩٣١) ، ٤ (٤٩٣٤) ، صحیح مسلم/السلام ٣٧ (٢٢٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٣) ، مسند احمد (١/٣٧٧، ٤٢٢، ٤٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2883
حرم شریف میں سانپ کو مار ڈالنے سے متعلق
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم عرفہ کی رات جو عرفہ کے دن سے پہلے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، اچانک سانپ کی سرسراہٹ محسوس ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے مارو لیکن وہ ایک سوراخ کے شگاف میں داخل ہوگیا تو ہم نے اس میں ایک لکڑی گھسیڑ دی، اور سوراخ کا کچھ حصہ ہم نے اکھیڑ دیا، پھر ہم نے کھجور کی شاخ لی اور اس میں آگ بھڑکا دی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے شر سے اور تمہیں اس کے شر سے بچا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٠) ، حصحیح مسلم/١/٣٨٥ (صحیح) (اس کے راوی ” ابو عبیدہ “ کا اپنے والد محترم ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے، مگر پچھلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2884
گرگٹ کے مار ڈالنے سے متعلق
ام شریک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں گرگٹ کو مارنے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٧) ، أحادیث الأنبیاء ٨ (٣٣٥٩) ، صحیح مسلم/السلام ٣٨ (٢٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٢ (٣٢٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٢٩) ، مسند احمد (٦/٤٢١، ٤٦٢) ، سنن الدارمی/الاضاحي ٢٧ (٢٠٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2885
گرگٹ کے مار ڈالنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گرگٹ چھوٹا فاسق (موذی) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٩٨) ، مسند احمد (٦/٨٧، ١٥٥، ٢٧١، ٢٧٩، ٢٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فویسق، فاسق کی تصغیر ہے تحقیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2886
بچھو کو مارنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ہیں جو سب کے سب فاسق (موذی) ہیں حرم اور حرم سے باہر دونوں جگ ہوں میں مارے جاسکتے ہیں : کاٹ کھانے والا کتا، کوا، چیل، بچھو اور چوہیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2887
حرم میں چوہے کو مارنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جانوروں میں پانچ ایسے ہیں جو سب کے سب فاسق (موذی) ہیں وہ حرم میں (بھی) مارے جاسکتے ہیں : کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا، چوہیا اور بچھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٩) ، صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2888
حرم میں چوہے کو مارنا
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور ایسے ہیں جن کے مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں : بچھو، کوا، چیل، چوہیا اور کاٹ کھانے والا کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/جزاء الصید ٧ (١٨٢٨) ، صحیح مسلم/الحج ٩ (١٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠٤) ، مسند احمد (٦/٢٨٥، ٣٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2889
حرم میں چیل کو مارنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ فاسق (موذی) جانور ہیں انہیں حرم اور حرم کے باہر دونوں جگ ہوں میں مارا جاسکتا ہے : چیل، کوا، چوہیا، بچھو اور کاٹ کھانے والا کتا ۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب نے ذکر کیا ہے کہ معمر اس سند کا ذکر یوں کرتے ہیں : عن الزهري عن سالم عن أبيه وعن عروة عن عائشة أن النبي صلى اللہ عليه وسلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٦ (٣٣١٤) ، صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨) ، سنن الترمذی/الحج ٢١ (٨٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٢٩) ، مسند احمد (٦/٣٣، ١٦٤، ٢٥٩) ، سنن الدارمی/المناسک ١٩ (١٨٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2890
حرم میں کوے کو قتل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ جانور فاسق (موذی) ہیں انہیں حرم میں (بھی) مارا جاسکتا ہے (وہ ہیں) : بچھو، چوہیا، کوا، کاٹ کھانے والا کتا اور چیل ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩ (١١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٨٦٢) ، مسند احمد (٦/٢٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2891
حرم میں شکار بھگانے کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ مکہ ہے جس کی حرمت اللہ تعالیٰ نے اسی دن قائم کردی تھی جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، یہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا، نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا، صرف میرے لیے دن کے ایک حصہ میں حلال کیا گیا اور وہ یہی گھڑی ہے اور یہ اب اللہ تعالیٰ کے حرام کردینے کی وجہ سے قیامت تک حرام رہے گا، نہ اس کی تازہ گھاس کاٹی جائے گی، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں گے، نہ اس کے شکار بدکائے جائیں گے، نہ اس کی کوئی گری پڑی چیز حلال ہوگی، مگر اس شخص کے لیے جو اس کی تشہیر کرنے والا ہو ، یہ سنا تو ابن عباس (رض) اٹھے، وہ ایک تجربہ کار شخص تھے اور کہنے لگے سوائے اذخر کے، کیونکہ وہ ہمارے گھروں اور قبروں میں کام آتی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : سوائے اذخر کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللقطة ٧ (٢٤٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٩) ، مسند احمد (١/٣٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2892
حج میں آگے چلنے سے متعلق
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب عمرہ قضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے اور ابن رواحہ آپ کے آگے تھے اور کہہ رہے تھے : خلوا بني الکفار عن سبيله اليوم نضربکم على تأويله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله اے کافروں کی اولاد ! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ، ١ ؎ ان کے اشارے پر آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو تمہارے سروں کو گردنوں سے اڑا دے گی اور دوست کو اس کے دوست سے غافل کر دے گی ، عمر (رض) نے کہا : ابن رواحہ (رض) ! تم اللہ کے حرم میں اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسے شعر پڑھتے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : چھوڑو انہیں (پڑھنے دو ) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان کے یہ اشعار کفار پر تیر لگنے سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٧٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: باب پر استدلال ابن رواحہ کے اسی قول خلو بنی الکفار سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2893
حج میں آگے چلنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو بنی ہاشم کے چھوٹے بچوں نے آپ کا استقبال کیا، تو آپ ﷺ نے ایک کو اپنے آگے بٹھا لیا، اور دوسرے کو اپنے پیچھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العمرة ١٣ (١٧٩٨) ، اللباس ٩٩ (٥٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٥٣) ، مسند احمد (١/٢٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2894
بیت اللہ شریف کو دیکھ کر ہاتھ نے اٹھانا
مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بیت اللہ کو دیکھے، تو کیا وہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ؟ انہوں نے کہا : میں نہیں سمجھتا کہ یہود کے سوا کوئی ایسا کرتا ہے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا، تو ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٤٦ (١٨٧٠) ، سنن الترمذی/الحج ٣٢ (٨٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٣١١٦) ، (لکن عندہ بالإثبات أی بلفظ ” فکنانفعلہ “ وأثبت صاحب تحفة الأحوذی ” أفکنا نفعلہ ؟ ۔۔ “ ) (ضعیف) (اس کے راوی ” مہاجر بن عکرمہ مکی “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2895
خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنا
عبدالرحمٰن بن طارق کی والدہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب دار یعلیٰ کے مکان میں آجاتے ١ ؎ تو قبلہ کی طرف منہ کرتے، اور دعا کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٨٦ (٢٠٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٧٤) ، مسند احمد (٦/٤٣٦، ٤٣٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبدالرحمن بن طارق “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: مکہ کے قریب جہاں سے بیت اللہ نظر آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2896
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میری مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی ہزار نمازوں سے افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کو موسیٰ جہنی کے سوا کسی اور نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے اور ابن جریج وغیرہ نے ان کی مخالفت کی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٩٥ (١٤٠٥) ، مسند احمد (٢/١٦، ٢٩، ٥٣، ٦٨، ١٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد الحرام میں نماز کا ثواب مسجد نبوی کی نماز سے سو گنا زیادہ ہے۔ ٢ ؎: ابن جریج نے اسے عن نافع عن ابراہیم عن میمونہ رضی الله عنہا روایت کیا ہے بخلاف موسیٰ جہنی کے کیونکہ انہوں نے اسے عن نافع عن ابن عمر رضی الله عنہما روایت کیا ہے، موسیٰ کی روایت کے مطابق یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کے مسانید میں سے ہوگی اور ابن جریج وغیرہ کی روایت کے مطابق یہ ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کے مسانید میں سے ہوگی لیکن یہ مخالفت حدیث کے لیے ضرر رساں نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ نافع نے اسے دونوں سے سنا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2897
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : میری اس مسجد میں ایک نماز اور مسجدوں کی ہزار نمازوں سے افضل ہے، سوائے مسجد الحرام کے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2898
مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری اس مسجد میں ایک نماز کعبہ کے علاوہ دوسری مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضل ال صلاة ١ (١١٩٠) ، صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٦ (٣٢٥) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٩٥ (١٤٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٤، ١٤٩٦٠) ، موطا امام مالک/القبلة ٥ (٩) ، مسند احمد ٢/٢٥٦، ٣٨٦، ٤٦٦، ٤٧٣، ٤٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٣١ (١٤٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2899
خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جس وقت کعبہ کو بنایا تو ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد میں کمی کردی تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد پر اسے کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ نے فرمایا : اگر تمہاری قوم زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتی ١ ؎ (تو میں ایسا کر ڈالتا) ٢ ؎ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : اگر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی بات سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے حطیم سے قریب کے دونوں رکن (رکن شامی و عراقی) کو بوسہ نہ لینے کی وجہ یہی ہے کہ خانہ کعبہ کی (اس جانب سے) ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد پر تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٢ (١٥٨٣) ، أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٨) ، تفسیر البقرة ١٠ (٤٤٨٤) ، صحیح مسلم/الحج ٦٩ (١٣٣٣) ، موطا امام مالک/الحج ٣٣ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/١١٣، ١٧٦، ١٧٧، ٢٤٧، ٢٥٣، ٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر وہ نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے۔ ٢ ؎: یعنی اسے گرا کر کے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیادوں پر اس کی تعمیر کردیتا لیکن چونکہ ابھی اسلام ان کے دلوں میں پوری طرح راسخ نہیں ہوا ہے اس لیے ایسا کرنے سے ڈر ہے کہ وہ اسلام سے متنفر نہ ہوجائیں، اور اسے غلط اقدام سمجھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2900
خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا دیتا، اور اسے (پھر سے) ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد پر تعمیر کرتا، اور سامنے کے مقابل میں پیچھے بھی ایک دروازہ کردیتا، قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اسے گھٹا دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٠٩٣) ، مسند احمد (٦/٥٧، ١٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2901
خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
ام المؤمنین (عائشہ) رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میری قوم (اور محمد بن عبدالاعلی کی روایت میں تیری قوم) جاہلیت کے زمانہ سے قریب نہ ہوتی تو میں کعبہ کو ڈھا دیتا اور اس میں دو دروازے کردیتا ، تو جب عبداللہ بن زبیر (رض) وہاں کے حکمراں ہوئے تو انہوں نے (رسول اللہ ﷺ کی خواہش کے مطابق) کعبہ میں دو دروازے کر دئیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٤٧ (٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٣٠) ، مسند احمد (٦/١٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن عبدالملک بن مروان کے عہد خلافت میں حجاج بن یوسف نے اس دوسرے دروازے کو بند کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2902
خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کو گرا دیے جانے کا حکم دیتا، اور جو حصہ اس سے نکال دیا گیا ہے اسے اس میں داخل کردیتا، اور اسے زمین کے برابر کردیتا، اور اس میں دو دروازے بنا دیتا، ایک دروازہ مشرقی جانب اور ایک مغربی جانب، کیونکہ وہ اس کی تعمیر سے عاجز رہے تو میں اسے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد پر پہنچا دیتا ۔ راوی کہتے ہیں : اسی چیز نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو اسے منہدم کرنے پر آمادہ کیا۔ یزید (راوی حدیث) کہتے ہیں : میں موجود تھا جس وقت ابن زبیر (رض) نے اسے گرا کر دوبارہ بنایا، اور حطیم کو اس میں شامل کیا۔ اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی بنیاد کے پتھر دیکھے، وہ پتھر اونٹ کی کوہان کی طرح تھے، ایک دوسرے میں پیوست۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٢ (١٥٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥٣) ، مسند احمد (٦/٢٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2903
خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خانہ کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والے حبشی ویران کریں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٤٧ (١٥٩١) ، ٤٩ (١٥٩٦) ، صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣١١٦) ، مسند احمد (٢/٣٢٨، ٤١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ قیامت کے قریب ہوگا، جب روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا باقی نہ رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2904
خانہ کعبہ میں داخلہ سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے پاس پہنچے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، بلال اور اسامہ بن زید (رض) اندر داخل ہوچکے تھے، اور (ان کے اندر جاتے ہی) عثمان بن طلحہ (رض) نے دروازہ بند دیا۔ تو وہ لوگ کچھ دیر تک اندر رہے، پھر انہوں نے دروازہ کھولا تو نبی اکرم ﷺ نکلے (اور آپ کے نکلتے ہی) میں سیڑھیاں چڑھ کر اندر گیا، تو میں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ہے ؟ لوگوں نے بتایا، یہاں، اور میں ان لوگوں سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ نے بیت اللہ میں کتنی رکعتیں پڑھیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2905
خانہ کعبہ میں داخلہ سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، اور آپ کے ساتھ فضل بن عباس، اسامہ بن زید، عثمان بن طلحہ اور بلال رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ انہوں نے دروازہ بند کرلیا، اور جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ اس میں رہے، پھر باہر آئے، تو سب سے پہلے میری جس سے ملاقات ہوئی وہ بلال (رض) تھے۔ میں نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ؟ انہوں نے کہا : دونوں ستونوں کے درمیان۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2906
خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، آپ کے نکلنے کا وقت نزدیک آیا تو میرے دل میں کچھ خیال آیا تو میں چلا اور جلدی سے آیا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو نکلتے ہوئے پایا۔ میں نے بلال (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، دو رکعتیں، دونوں ستونوں کے درمیان۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2907
خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ
مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس ان کے گھر آ کر ان سے کہا گیا کہ (دیکھئیے) رسول اللہ ﷺ (ابھی ابھی) کعبہ کے اندر گئے ہیں۔ (ابن عمر (رض) کہتے ہیں) تو میں آیا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نکل چکے ہیں، اور بلال (رض) دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا : بلال ! کیا رسول اللہ ﷺ نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، میں نے پوچھا : کہاں ؟ انہوں نے کہا : ان دونوں ستونوں کے درمیان دو رکعتیں آپ نے پڑھیں۔ پھر آپ وہاں سے نکلے، اور کعبہ رخ ہو کر دو رکعتیں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2908
خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے، تو اس کے کناروں میں آپ نے تسبیح پڑھی اور تکبیر کہی اور نماز نہیں پڑھی ١ ؎، پھر آپ باہر نکلے، اور مقام ابراہیم کے پیچھے آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر فرمایا : یہ قبلہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠) ، مسند احمد (٥/٢٠٩، ٢١٠) (منکر) (اسامہ کی اس روایت میں صرف ” خلف المقام “ کا ذکر منکر ہے (جو کسی کے نزدیک نہیں ہے) باقی باتیں سنداً صحیح ہیں ) وضاحت : ١ ؎: اسامہ کی یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے، وہ کسی کام میں مشغول رہے ہوں گے جس کی وجہ سے انہیں آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہیں ہوسکا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : منکر بذکر المقام صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2909
حطیم سے متعلق حدیث
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر لوگوں کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا اور میرے پاس اسے ٹھوس اور مستحکم بنانے کے لیے اخراجات کی کمی نہ ہوتی تو میں حطیم میں سے پانچ ہاتھ خانہ کعبہ میں ضرور شامل کردیتا اور اس میں ایک دروازہ بنا دیتا جس سے لوگ اندر جاتے اور ایک دروازہ جس سے لوگ باہر آتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٩ (١٣٣٣) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٦١٩٠) ، مسند احمد (٦/١٧٩، ١٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2910
حطیم سے متعلق حدیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں بیت اللہ کے اندر داخل نہ ہوں ؟ آپ نے فرمایا : حطیم میں چلی جاؤ، وہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2911
حطیم میں نماز ادا کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ میں بیت اللہ کے اندر داخل ہوں، اور اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ اور مجھے حطیم کے اندر کردیا، پھر فرمایا : جب تم بیت اللہ کے اندر جا کر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں آ کر پڑھ لیا کرو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک ٹکڑا ہے۔ لیکن تمہاری قوم نے بناتے وقت اتنا کم کر کے بنایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٩٤ (٢٠٢٨) ، سنن الترمذی/الحج ٤٨ (٨٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٦١) ، مسند احمد (٦/٦٧، ٩٢- ٩٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٤ (١٩١١) (حسن، صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا انہوں نے خرچ کی کمی کے باعث کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2912
خانہ کعبہ کے کو نوں میں تکبیر کہنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی، لیکن اس کے گوشوں میں تکبیر کہی۔ (یہ ابن عباس (رض) کے اپنے علم کی بنا پر ہے، کیونکہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر نہیں گئے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٤٦ (٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2913
بیت اللہ شریف میں دعا اور ذکر
اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ اور رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے اندر گئے، تو آپ نے بلال کو حکم دیا، انہوں نے دروازہ بند کردیا۔ اس وقت خانہ کعبہ چھ ستونوں پر قائم تھا، جب آپ اندر بڑھتے گئے یہاں تک کہ ان دونوں ستونوں کے درمیان پہنچ گئے جو کعبہ کے دروازے کے متصل ہیں، تو بیٹھے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور اس سے خیر کا سوال کیا اور مغفرت طلب کی، پھر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ کعبہ کی پشت کی طرف آئے جو سامنے تھی، اس پر اپنا چہرہ اور رخسار رکھا، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور اس سے خیر کا سوال کیا، اور مغفرت طلب کی۔ پھر کعبہ کے ستونوں میں سے ہر ستون کے پاس آئے اور اس کی طرف منہ کر کے تکبیر، تہلیل، تسبیح کی، اور اللہ کی ثنا بیان کی، خیر کا سوال کیا اور گناہوں سے مغفرت طلب کی، پھر باہر آئے، اور کعبہ کی طرف رخ کر کے دو رکعت نماز پڑھی، پھر پلٹے تو فرمایا : یہی قبلہ ہے یہی قبلہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩١٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2914
خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ سینہ اور چہرہ لگانا
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر گیا۔ آپ بیٹھے پھر آپ نے اللہ کی حمد و ثنا اور تکبیر و تہلیل کی، پھر آپ بیت اللہ کے اس حصہ کی طرف جھکے جو آپ کے سامنے تھا، اور آپ نے اس پر اپنا سینہ، رخسار اور اپنے دونوں ہاتھ رکھے، پھر تکبیر و تہلیل کی، اور دعا مانگی، آپ نے اسی طرح خانہ کعبہ کے سبھی ستونوں پر کیا، پھر باہر نکلے دروازے کے پاس آئے، اور قبلہ رخ ہو کر فرمایا : یہی قبلہ ہے یہی قبلہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نماز اسی طرف منہ کر کے پڑھی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2915
خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ سے متعلق
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ سے باہر آئے، اور کعبہ کے سامنے آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر فرمایا : یہی قبلہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩١٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2916
خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے اسامہ بن زید (رض) نے خبر دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کعبہ کے اندر گئے اور اس کے سبھی گوشوں میں (جا جا کر) دعا کی، اور اس میں نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اس سے باہر آگئے، اور باہر آ کر آپ نے کعبہ کے سامنے دو رکعتیں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٦) ، مسند احمد (٥/٢٠١، ٢٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2917
خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ سے متعلق
عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس (رض) کو (جب بڑھاپے سے ان کی بینائی جاتی رہی تھی) سہارا دے کرلے جاتے اور لے کر خانہ کعبہ کے انہیں تیسرے کونے میں جو اس رکن کے قریب ہے جو حجر اسود سے متصل ہے اور بیت اللہ کے دروازے سے بھی قریب ہے کھڑا کردیتے تھے تو ابن عباس (رض) کہتے : کیا تمہیں نہیں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہیں نماز پڑھتے تھے، وہ کہتے : جی ہاں، بتایا گیا، تو وہ آگے بڑھتے اور نماز پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٥٥ (١٩٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٣١٧) ، مسند احمد (٣/٤١٠) (ضعیف) (اس کے راوی ” محمد بن عبداللہ بن سائب “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2918
خانہ کعبہ کے طواف کی فضیلت
عبداللہ بن عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے (عبداللہ بن عمر (رض) سے) نے کہا : ابوعبدالرحمٰن (کیا بات ہے) میں آپ کو صرف انہیں دونوں رکنوں کو (یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کو) بوسہ لیتے دیکھتا ہوں ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : ان کے چھونے سے گناہ جھڑتے ہیں اور میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے سنا ہے : جس نے سات بار طواف کیا تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ١١١ (٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣١٧) ، مسند احمد (٢/٣، ١١، ٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابوعبدالرحمٰن عبداللہ بن عمر کی کنیت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2919
دورن طواف گفتگو کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ طواف کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جس کی ناک میں نکیل ڈال کر ایک آدمی اسے کھینچے لیے جا رہا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے نکیل کاٹ دی، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کرلے جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦٥ (١٦٢٠) ، ٦٦ (١٦٢١) ، الأیمان والنذور ٣١ (٦٧٠٣) ، سنن ابی داود/الأیمان والنذور ٢٣ (٣٣٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٠٤) ، مسند احمد (١/٣٦٤) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٨٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2920
دورن طواف گفتگو کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جسے ایک آدمی ایک ایسی چیز سے (باندھ کر) کھینچے لیے جا رہا تھا جسے اس نے نذر میں ذکر کیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے لے کر کاٹ دیا، فرمایا : یہ نذر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظرماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نذر اس طرح بھی ادا ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح خ دون قوله إنه نذر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2921
دوران طواف گفتگو کرنا درست ہے
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک شخص جس نے رسول اللہ ﷺ کو پایا ہے، کہتے ہیں : بیت اللہ کا طواف نماز ہے تو (دوران طواف) باتیں کم کرو ۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) اس حدیث کے الفاظ یوسف (یوسف بن سعید) کے ہیں۔ حنظلہ بن ابی سفیان نے ان کی یعنی حسن ١ ؎ مخالفت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٦٩٤) ، مسند احمد (٣/٤١٤ و ٤/٦٤ و ٥/٣٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں مخالفت سے لفظی مخالفت مراد ہے، معنوی نہیں کیونکہ مبہم اور مفسر میں کوئی تضاد نہیں ہے، حسن نے صحابی کے نام کو مبہم رکھا ہے، اور حنظلہ نے نام کی وضاحت کردی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2922
دوران طواف گفتگو کرنا درست ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ طواف کے دوران باتیں کم کرو کیونکہ تم نماز میں ہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، وانظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2923
طواف کعبہ ہر وقت صیحیح ہے
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے بنی عبد مناف ! تم اس گھر کے طواف کرنے سے، اور اس میں نماز پڑھنے سے کسی کو نہ روکو، رات اور دن کے جس حصہ میں وہ بھی چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انطر حدیث رقم : ٥٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2924
مریض شخص کے طواف کعبہ کرنے کا طریقہ
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں۔ آپ نے فرمایا : لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کرلو ، تو میں نے طواف کیا، اور رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پہلو میں نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ الطور * وکتاب مسطور پڑھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٨ (٤٦٤) ، الحج ٦٤ (١٦١٩) ، ٧١ (١٦٢١) ، ٧٤ (١٦٣٣) ، تفسیرالطور ١ (٤٨٥٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٦) ، سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣٤ (٢٩٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٦٢) ، موطا امام مالک/الحج ٤٠ (١٢٣) ، مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2925
مردوں کا عورتوں کے ساتھ طواف کرنا
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے تو واپسی کا طواف نہیں کیا ہے۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب نماز کھڑی کردی جائے، تو تم اپنے اونٹ پر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو ۔ عبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : عروہ کا ام سلمہ (رض) سے سماع نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨١٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2926
مردوں کا عورتوں کے ساتھ طواف کرنا
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ مکہ آئیں، اور وہ بیمار تھیں، تو انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا سوار ہو کر نمازیوں کے پیچھے سے طواف کرلو ، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ کعبہ کے پاس والطور پڑھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2927
اونٹ پر سوار ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر کعبہ کے گرد طواف کیا، آپ اپنی خمدار چھڑی سے حجر اسود کا استلام (چھونا) کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2928
حج افراد کرنے والے شخص کا طواف کرنا
وبرہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر (رض) سے سنا اس حال میں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں نے حج کا احرام باندھ رکھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کروں ؟ تمہیں کیا چیز روک رہی ہے ؟ اس نے کہا : میں نے عبداللہ بن عباس (رض) کو اس سے روکتے دیکھا ہے ١ ؎، لیکن آپ ہمیں ان سے زیادہ پسند ہیں انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے حج کا احرام باندھا پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٨ (١٢٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٥٥) ، مسند احمد (٢/٦، ٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابن عباس رضی الله عنہما کا کہنا تھا کہ طواف کرنے سے احرام کھولنا ضروری ہوجاتا ہے، لہٰذا جو اپنے احرام پر باقی رہنا چاہے وہ طواف نہ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2929
جو کوئی عمرہ کا احرام باندھے اس کا طواف کرنا
عمرو کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے سنا، اور ہم نے ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا جو عمرہ کی نیت کر کے آیا، اور اس نے بیت اللہ کا طواف کیا، لیکن صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کی۔ کیا وہ اپنی بیوی کے پاس آسکتا ہے انہوں نے جواب دیا، جب رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کیے، اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ میں بہترین نمونہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٥) ، الحج ٦٩ (١٦٢٣) ، ٧٢ (١٦٢٧) ، ٨٠ (١٤٤٥، ١٤٤٧) ، العمرة ١١ (١٧٩٣) ، صحیح مسلم/الحج ٢٨ (١٢٣٤) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٣٣ (٢٩٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥٢) ، مسند احمد (٢/١٥، ١٥٢، ٣/٣٠٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام ٢٩٦٣، ٢٩٦٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے تمہیں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنی چاہیئے، اور سعی کئے بغیر بیوی سے صحبت نہیں کرنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2930
جو آدمی حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں ساتھ ساتھ ادا کرنے کی نیت کرے اور ہدی ساتھ نہ لے جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور جب وہ بیداء میں آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ نے حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا، ہم نے بھی آپ کے ساتھ تلبیہ پکارا پھر جب رسول اللہ ﷺ مکہ آئے، اور ہم نے طواف کرلیا تو آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ احرام کھول کر حلال ہوجائیں۔ تو لوگ ڈرے (کہ یہ کیا بات ہوئی کہ خود تو آپ نے احرام نہیں کھولا ہے، اور ہمیں کھول ڈالنے کا حکم دے رہے ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر ہمارے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول ڈالتا ، تو سب لوگ (احرام کھول کر) حلال ہوگئے یہاں تک کہ بیویوں کے لیے بھی حلال ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ) تک حلال نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ نے بال کتروائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2931
قران کرنے والے شخص کے طواف سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے حج و عمرہ کو ایک ساتھ ملایا، اور (ان دونوں کے لیے) ایک ہی طواف کیا، اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٦٠٢) ، مسند احمد (٢/١١، ١٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٩ (٢٩٧٣) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2932
قران کرنے والے شخص کے طواف سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ نکلے تو جب وہ ذوالحلیفہ آئے تو انہوں نے عمرے کا احرام باندھا، پھر تھوڑی دیر چلے، پھر وہ ڈرے کہ بیت اللہ تک پہنچنے سے پہلے ہی انہیں روک نہ دیا جائے تو انہوں نے کہا : اگر مجھے روک دیا گیا تو میں ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! حج کی راہ بھی وہی ہے جو عمرہ کی ہے، میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے اوپر واجب کرلیا ہے، پھر وہ چلے یہاں تک کہ وہ قدید آئے، اور وہاں سے ہدی (قربانی کا جانور) خریدا، پھر مکہ آئے۔ اور بیت اللہ کے سات پھیرے کیے اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2933
قران کرنے والے شخص کے طواف سے متعلق
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ہی طواف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٢٨٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٣٩ (٢٩٧٣) ، مسند احمد (٣/٣٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2934
حجر اسود سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حجر اسود جنت کا پتھر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٤٩ (٨٧٧) ، مسند احمد ١/٣٠٧، ٣٢٩، ٣٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2935
حجر اسود کو بوسہ دینا
سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے (حجر اسود) کا بوسہ لیا، اور اس سے چمٹے، اور کہا : میں نے ابوالقاسم ﷺ کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤١ (١٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٠) ، مسند احمد (١/٣٩، ٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2936
حجر اسود کو بوسہ دینا
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور کہا : میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا، پھر وہ اس سے قریب ہوئے، اور اسے بوسہ لیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٠ (١٥٩٧) ، ٥٧ (١٦٠٥) ، ٦٠ (١٦١٠) ، صحیح مسلم/الحج ٤١ (١٢٧٠) ، سنن ابی داود/الحج ٤٧ (١٨٧٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٧ (٨٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٢٧ (٢٩٤٣) ، موطا امام مالک/الحج ٣٦ (١١٥) ، مسند احمد (١/١٦، ٢٦، ٤٦) ، سنن الدارمی/ المناسک ٤٢ (١٩٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2937
بوسہ کس طریقہ سے دینا چاہیے
حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کو دیکھا وہ رکن (یعنی حجر اسود) سے گزرتے، اگر وہاں بھیڑ پاتے تو گزر جاتے کسی سے مزاحمت نہ کرتے، اور اگر خالی پاتے تو اسے تین بار بوسہ لیتے، پھر کہتے : میں نے ابن عباس (رض) کو ایسا ہی کرتے دیکھا۔ اور ابن عباس (رض) کہتے ہیں : میں نے عمر بن خطاب (رض) کو دیکھا ہے انہوں نے اسی طرح کیا، پھر کہا : بلاشبہ تو پتھر ہے، تو نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا پھر عمر (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠٣) (ضعیف) (اس کے راوی ” ولید “ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، لیکن میں صرف ” تین بار “ کا لفظ منکر ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد منکر بهذا السياق صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2938
طواف شروع کرنے کا طریقہ اور حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد کس طریقہ سے چلنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ آئے تو مسجد الحرام میں گئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر اس کے داہنے جانب (باب کعبہ کی طرف) چلے، پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں معمول کی چال چلے، پھر مقام ابراہیم پر آئے اور آیت کریمہ : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى پڑھی پھر دو رکعت نماز پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور کعبہ کے بیچ میں تھا۔ پھر دونوں رکعت پڑھ کر بیت اللہ کے پاس آئے، اور حجر اسود کا استلام کیا، پھر آپ صفا کی طرف نکل گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن الترمذی/الحج ٣٣ (٨٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٧) ، ٣٨ (٨٦٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الحج ٥٧ (١٩٠٥) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٩ (٢٩٥١) ، ٨٤ (٣٠٧٤) ، مسند احمد (٣/٣٤٠، ٣٧٣، ٣٨٨، ٣٩٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٧ (١٨٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2939
کتنے طواف میں دوڑنا چاہیے
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) پہلے تین پھیروں میں رمل ١ ؎ کرتے اور چار پھیرے عام چال چلتے، اور کہتے : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٢١٨) ، مسند احمد (٢/١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اکڑ کر مونڈھے ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2940
کتنے چکروں میں عادت کے مطابق چلنا چاہیے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ آتے ہی جب حج یا عمرہ کا طواف کرتے تو تین پھیرے دوڑ کر چلتے اور چار پھیرے عام چال سے چلتے، پھر دو رکعت پڑھتے، پھر صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦٣ (١٦١٦) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦١) ، سنن ابی داود/الحج ٥١ (١٨٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥٣) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/ المناسک ٢٩ (٢٩٥٠) ، مسند احمد (٢/١١٤، ١٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2941
سات میں سے تین طواف میں دوڑ کر چلنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت مکہ آتے تو طواف کے شروع میں حجر اسود کا استلام کرتے، پھر سات پھیروں میں سے پہلے تین پھیروں میں دلکی چال (کندھے ہلا کر تیز) چلتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٦ (١٦٠٣) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2942
حج اور عمرے میں تیز تیز چلنا
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) جب حج یا عمرہ میں آتے تو پہلے تین پھیروں میں کندھے ہلاتے ہوئے دوڑتے اور باقی چار پھیروں میں عام رفتار سے چلتے، اور کہتے : رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٧ (١٦٠٤) تعلیقًا (تحفة الأشراف : ٨٢٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2943
حجر اسود سے حجر اسود تک تیز تیز چلنے سے متعلق
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کرتے یہاں تک آپ نے تین پھیرے پورے کئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٤ (٨٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٢٩ (٢٩٥١) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٤) ، مسند احمد (٣/٣٧٣، ٣٩٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٧ (١٨٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2944
حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رمل کرنے کی وجہ
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب (فتح کے موقع پر) مکہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے : انہیں یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے لاغر و کمزور کردیا ہے، اور انہیں وہاں شر پہنچا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دی تو آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اکڑ کر کندھے ہلاتے ہوئے تیز چلیں، اور دونوں رکنوں (یعنی رکن یمانی اور حجر اسود) کے درمیان عام چال چلیں، اور مشرکین اس وقت حطیم کی جانب ہوتے تو انہوں نے (ان کو اکڑ کر کندھے اچکاتے ہوئے تیز چلتے ہوئے دیکھ کر) کہا : یہ تو یہاں سے بھی زیادہ مضبوط اور قوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٥ (١٦٠٢) ، المغازی ٤٣ (٤٢٥٦) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٦) ، سنن ابی داود/الحج ٥١ (١٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣٨) ، سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٣) مسند احمد (١/٢٩٠، ٢٩٤، ٢٩٥، ٢٧٣، ٣٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2945
حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رمل کرنے کی وجہ
زبیر بن عدی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عمر سے حجر اسود کے استلام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے چھوتے اور چومتے دیکھا ہے، اس آدمی نے کہا : اگر میرے اس تک پہنچنے میں بھیڑ آڑے آجائے یا میں مغلوب ہوجاؤں اور نہ جا پاؤں تو ؟ ابن عمر (رض) نے کہا : أرأیت ١ ؎ کو تم یمن میں رکھو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے چھوتے اور چومتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦٠ (١٦١١) ، سنن الترمذی/الحج ٣٧ (٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦٧١٩) مسند احمد (٣/١٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: أرأیت مطلب یہ ہے کہ اگر مگر چھوڑو جسے سنت رسول کی جستجو ہوا سے اس طرح کے سوالات زیب نہیں دیتے یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے جہاں تک ممکن ہو کوشش کرنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2946
حجر اسود اور رکن یمانی کو ہر ایک چکر میں چھونے کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ طواف کے ہر پھیرے میں رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٤٨ (١٨٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٦١) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2947
حجر اسود اور رکن یمانی کو ہر ایک چکر میں چھونے کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ طواف میں صرف حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٢٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٨٨٠) ، مسند احمد (٢/٨٦، ١١٤، ١١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2948
حجر اسود اور رکن یمانی پر ہاتھ پھیرنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں یمانی رکنوں ١ ؎ کے علاوہ کسی اور چیز پر ہاتھ پھیرتے نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٩ (٦٠٩) ، صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٢٦٧) ، سنن ابی داود/المناسک ٤٨ (١٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠٦) ، مسند احمد (٢/٨٩، ١٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد رکن یمانی اور حجر اسود ہے حجر اسود کو یمانی تغلیباً کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2949
دوسرے دو رکن کو نہ چھونے سے متعلق
عبید بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے کہا : میں نے آپ کو کعبہ کے چاروں ارکان میں سے صرف انہیں دونوں یمانی (رکن یمانی اور حجر اسود) کا استلام کرتے دیکھا، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان دونوں رکنوں کے علاوہ کسی اور رکن کا استلام کرتے نہیں دیکھا، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر الأرقام ١١٧، ٢٧٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2950
دوسرے دو رکن کو نہ چھونے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے ارکان میں سے کسی کا استلام نہیں کرتے تھے سوائے حجر اسود اور اس رکن کے جو جمحی لوگوں کے گھروں کی طرف حجر اسود سے قریب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٢٦٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٢٧ (٢٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2951
دوسرے دو رکن کو نہ چھونے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کرتے دیکھا، میں نے ان دونوں رکنوں کا استلام نہیں چھوڑا، نہ سختی میں اور نہ آسانی میں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٧ (١٦٠٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٠ (١٢٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٢) ، مسند احمد (٢/٤٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٢٥ (١٨٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2952
دوسرے دو رکن کو نہ چھونے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجر اسود کا استلام کرتے دیکھا، آسانی اور پریشانی کسی حال میں بھی اس کا استلام نہیں چھوڑا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٥٩٦) ، مسند احمد (٢/٣٣، ٤٠، ٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2953
لاٹھی سے حجر اسود کو چھونا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ ایک خمدار چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2954
حجر اسود کی جانب اشا رہ کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے جب آپ کے سامنے پہنچے تو آپ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٦١ (١٦١٢) ، ٦٢ (١٦١٣) ، ٧٤ (١٦٣٢) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٣) ، سنن الترمذی/الحج ٤٠ (٨٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٥٠) ، مسند احمد (١/٢٦٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٠ (١٨٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2955
آیت کریمہ کا شان نزول
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ (ایام جاہلیت میں) عورت یہ شعر پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی تھی۔ اليوم يبدو بعضه أو كله وما بدا منه فلا أحله آج کے دن جسم کا کل یا کچھ حصہ ظاہر ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی ظاہر ہو رہا ہے میں اس کو مباح نہیں کرسکتی (کہ لوگ اسے دیکھیں یا ہاتھ لگائیں) عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں : پھر یہ آیت اتری : يا بني آدم خذوا زينتکم عند کل مسجد اے بنی آدم ! جس کسی بھی مسجد میں جاؤ اپنا لباس پہن لیا کرو (الأعراف : ٣١ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/التفسیر ٢ (٣٠٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2956
آیت کریمہ کا شان نزول
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے انہیں اس حج میں جس کا رسول ﷺ نے انہیں حجۃ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا، اس جماعت میں شامل کر کے بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر رہی تھی : لوگو ! سن لو ! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور نہ کوئی ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠ (٣٦٩) ، الحج ٦٧ (١٦٢٢) ، الجزیة ١٦ (٣١٧٧) ، المغازي ٦٦ (٤٣٦٣) ، تفسیرالبراء ة ٢ (٤٦٥٥) ، ٣ (٤٦٥٦) ، ٤ (٤٦٥٧) ، صحیح مسلم/الحج ٧٨ (١٣٤٧) ، سنن ابی داود/الحج ٦٧ (١٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2957
آیت کریمہ کا شان نزول
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب (رض) کے ساتھ آیا جس وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں اہل مکہ کے پاس سورة براءت دے کر بھیجا محرر بن ابی ہریرہ نے اپنے والد سے پوچھا : آپ لوگ کیا پکارتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ہم اعلان کرتے تھے کہ جنت میں سوائے مومن کے کوئی نہ جائے گا، اور ننگا ہو کر کوئی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، اور جس شخص کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی عہد و معاہدہ ہو تو اس کی مدت و مہلت چار مہینے کی ہے، اور جب چار مہینے گزر جائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بری ہوگا، اور اس کا رسول بھی، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا۔ میں (یہ باتیں) لوگوں کو پکار پکار کر بتارہا تھا یہاں تک کہ میری آواز بیٹھ گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٣٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٩٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2958
طواف کی دو رکعات کس جگہ پڑھنی چاہئیں؟
مطلب بن ابی وداعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا جس وقت آپ طواف کے اپنے سات پھیروں سے فارغ ہوئے، تو مطاف کے کنارے آئے، اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کسی طرح کی آڑ نہ تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٥٩ (ضعیف) (اس کے راوی ” کثیر بن المطلب “ لین الحدیث ہیں، اس لیے ان کے بیٹے ” کثیر بن کثیر “ اپنے باپ کو حذف کر کے کبھی ” عن بعض أھلہ “ اور کبھی ” عمن سمع جدہ “ کہا کرتے تھے ) وضاحت : ١ ؎: دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم ٧٥٩ ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2959
طواف کی دو رکعات کس جگہ پڑھنی چاہئیں؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آئے، تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے لگائے اور مقام (ابراہیم) کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، اور فرمایا : لقد کان لکم في رسول اللہ أسوة حسنة رسول اللہ کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے (تو اللہ کا رسول جیسا کچھ کرے ویسے ہی تم بھی کرنا) (الأحزاب : ٢١ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2960
طواف کی دو رکعات کے بعد کیا پڑھنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کئے ان میں سے تین میں رمل کیا اور چار میں عام چال چلے پھر مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر دو رکعات پڑھیں، پھر آپ نے آیت کریمہ : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ پڑھی اور اپنی آواز بلند کی آپ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ پھر آپ وہاں سے پلٹے اور جا کر حجر اسود کا استلام کیا اور فرمایا : کہ ہم وہیں (سعی) شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے (اپنی کتاب میں) شروع کی ہے، تو آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا تو آپ نے تین مرتبہ لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير کہا، پھر آپ نے اللہ کی تکبیر اور تحمید کی۔ اور دعا کی جواب آپ کے لیے مقدر تھی، پھر آپ پیدل چل کر نیچے اترے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم وادی کے نشیب میں رہے پھر دوڑے یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم بلندی پر چڑھے، پھر عام چال چلے یہاں تک کہ مروہ کے پاس آئے اور اس پر چڑھے پھر خانہ کعبہ آپ کو دکھائی دینے لگا تو آپ نے لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير تین بار کہا۔ پھر اللہ کا ذکر کیا اور اس کی تسبیح و تحمید کی۔ اور دعا کی جو اللہ کو منظور تھی ہر بار ایسا ہی کیا یہاں تک کہ سعی سے فارغ ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الحروف ١ (٣٩٦٩) ، سنن الترمذی/الحج ٣٣ (٨٥٦) ، ٣٨ (٨٦٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ٥٦ (١٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٢٩٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2961
طواف کی دو رکعات کے بعد کیا پڑھنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طواف میں کعبہ کے سات پھیرے لگائے، تین پھیروں میں رمل کیا اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر آیت کریمہ : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى پڑھی اس کے بعد مقام ابراہیم کو اپنے اور خانہ کعبہ کے درمیان کر کے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر آپ نے حجر اسود کا استلام کیا پھر نکلے اور آیت کریمہ : إن الصفا والمروة من شعائر اللہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پڑھی تو جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا، اسی سے تم بھی شروع کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2962
طواف کی دو رکعتوں میں کونسی سورتیں پڑھی جائیں
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مقام ابراہیم پر پہنچے تو آپ نے آیت کریمہ : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى پڑھی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، تو اس میں آپ نے سورة فاتحہ اور قل يا أيها الکافرون، اور قل هو اللہ أحد پڑھی پھر آپ حجر اسود کے پاس آئے، اور آپ نے اس کا استلام کیا، پھر آپ صفا کی طرف نکلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2963
آب زمزم پینے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٦ (١٦٣٧) ، الأشربة ١٦ (٥٦١٧) ، صحیح مسلم/الأشربة ١٥ (٢٠٢٧) ، سنن الترمذی/الأشربة ١٢ (١٨٨٢) ، والشمائل ٣١ (١٩٧، ١٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٢١ (٣٤٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٦٧) ، مسند احمد (١/٢١٤، ٢٢٠، ٢٤٢، ٢٤٩، ٢٨٧، ٣٤٢، ٣٦٩، ٣٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2964
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آب زمزم کھڑے ہو کر پینا۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمزم (کا پانی) پلایا، تو آپ نے اسے پیا اور آپ کھڑے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2965
صفا کی طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسی دروازے سے جانا جس سے جانے کے لئے نکلا جاتا ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کیے، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ صفا کی طرف اس دروازے سے نکلے جس دروازے سے باہر نکلا جاتا ہے، تو صفا ومروہ کی سعی کی۔ اور عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : یہ سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2966
صفا اور مروہ کے بارے میں
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے آیت کریمہ : فلا جناح عليه أن يطوف بهما پڑھی اور کہا : میں صفا ومروہ کے درمیان نہ پھروں، تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ١ ؎، تو انہوں نے کہا : تم نے کتنی بری بات کہی ہے (صحیح یہ ہے) کہ لوگ ایام جاہلیت میں صفا ومروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے (بلکہ اسے گناہ سمجھتے تھے) تو جب اسلام آیا، اور قرآن اترا، اور یہ آیت فلا جناح عليه أن يطوف بهما اتری تو رسول اللہ ﷺ نے سعی کی، اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی کی، تو یہی سنت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣) ، العمرة ١٠ (١٧٩٠) ، تفسیرالبقرة ٢١ (٤٤٩٥) ، تفسیرالنجم ٣ (٤٨٦١) مختصراً ، صحیح مسلم/الحج (١٢٧٧) ، سنن الترمذی/تفسیرالبقرة (٢٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٨) ، موطا امام مالک/الحج ٤٢ (١٢٩) ، مسند احمد (٣/١٤٤، ١٦٢، ٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : فلا جناح عليه أن يطوف بهما۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2967
صفا اور مروہ کے بارے میں
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے قول فلا جناح عليه أن يطوف بهما کے متعلق پوچھا (میں نے کہا کہ اس سے تو پتا چلتا ہے کہ) کوئی صفا ومروہ کی سعی نہ کرے، تو قسم اللہ کی اس پر کوئی حرج نہیں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میرے بھانجے ! تم نے نامناسب بات کہی ہے۔ اس آیت کا مطلب اگر وہی ہوتا جو تم نے نکالا ہے تو یہ آیت اس طرح اترتی فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما اگر کوئی صفا ومروہ کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں اتری ہے۔ اسلام لانے سے پہلے وہ مشلل ١ ؎ کے پاس مناۃ بت کے لیے احرام باندھتے تھے جس کی وہ عبادت کرتے تھے، اور جو مناۃ کے نام سے احرام باندھتا تھا وہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے میں حرج جانتا تھا تو جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت کریمہ : إن الصفا والمروة من شعائر اللہ فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس سے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں کوئی گناہ نہیں اتاری تو رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کی سعی کو مسنون قرار دیا۔ تو کسی کے لیے جائز و درست نہیں کہ ان دونوں کی سعی چھوڑ دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٧٩ (١٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مشلل ایک بلند گھاٹی کا نام ہے جو قدید پر واقع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2968
صفا اور مروہ کے بارے میں
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس وقت آپ مسجد (خانہ کعبہ) سے نکلے اور صفا کا ارادہ کر رہے تھے فرماتے سنا : ہم وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢١، موطا امام مالک/الحج ٤١ (١٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2969
صفا اور مروہ کے بارے میں
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صفا کی طرف نکلے اور آپ نے فرمایا : ہم اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، پھر آپ نے إن الصفا والمروة من شعائر اللہ کی تلاوت کی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2970
صفا پہاڑ پر کس جگہ کھڑا ہونا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صفا پر چڑھے یہاں تک کہ جب آپ نے بیت اللہ کو دیکھا، تو آپ نے تکبیر کہی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2971
صفا پر تکبیر کہنا
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صفا پر کھڑے ہوتے تو تین بار تکبیر کہتے اور لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير کہتے اور دعا کرتے، اور مروہ پر بھی پہنچ کر ایسا ہی کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٣) ، موطا امام مالک/الحج ٤١ (١٢٥) ، مسند احمد (٣/٣٨٨) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٩٨٧، ٢٩٨٨، ٣٠٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2972
صفا پر لا الہ الا اللہ کہنا
ابو جعفر بن محمد الباقر کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے حج کے سلسلے میں جابر (رض) سے سنا : پھر نبی اکرم ﷺ صفا پر رکتے، آپ اس کے درمیان اللہ عزوجل کی تہلیل کرتے، اور دعا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2973
صفا پر ذکر کرنا اور دعا مانگنا
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خانہ کعبہ کا سات پھیرا کیا، جس میں سے تین میں رمل کیا، اور چار میں عام چال چلے۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی، اور آیت : واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى پڑھی اور (پڑھتے وقت) آواز بلند کی، آپ لوگوں کو سنا رہے تھے پھر آپ پلٹے اور حجر اسود کا استلام کیا پھر (صفا کی طرف) گئے اور فرمایا : جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے اسی سے ہم بھی (سعی) شروع کریں گے، پھر آپ نے صفا سے شروع کیا تو آپ اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ دکھائی دینے لگا تو تین بار آپ نے لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شىء قدير پڑھا اللہ کی بڑائی بیان کی، اور اس کی تعریف کی اور حسب توفیق دعائیں مانگی۔ پھر پیدل ہی نیچے اترے یہاں تک کہ وادی کے بالکل نشیب میں پہنچ گئے تو آپ دوڑے یہاں تک کہ آپ کے قدم بلندی کی طرف بڑھے پھر آپ عام رفتار سے چلے یہاں تک کہ مروہ پہاڑی پر آئے تو اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ آپ کو دکھائی دینے لگا تو آپ نے تین بار لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير تین بار پڑھا۔ پھر اللہ کا ذکر کیا، اس کی تسبیح اور تعریف کی اور دعا مانگی جتنی اللہ کو منظور تھیں اسی طرح (ہر بار) کرتے رہے یہاں تک کہ سعی سے فارغ ہوگئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2974
صفا اور مروہ کی سعی اونٹ پر سوار ہو کر کرنا
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، (اور ایسا اس لیے کیا) تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ لوگوں سے اونچائی پر رہیں اور تاکہ لوگ مسئلے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگوں نے آپ کو ڈھانپ لیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٣) ، سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٣) ، مسند احمد (٣/٣١٧، ٣٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2975
صفا اور مروہ کے درمیان چلنا
کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو صفا ومروہ کے درمیان عام چال چلتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا : اگر میں عام چال چلتا ہوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر میں دوڑتا ہوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٥٦ (١٩٠٤) ، سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤٣ (٢٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٧٩) ، (١٨٨٠) ، مسند احمد (٢/٥٣، ٦٠، ٦١، ١٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2976
صفا اور مروہ کے درمیان چلنا
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کو دیکھا … آگے راوی نے اسی طرح ذکر کیا ہے جو اوپر کی حدیث میں گزرا، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں بہت بوڑھا ہوچکا ہوں (میں عام چال چل لوں یہی میرے لیے بہت ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٠٦٧) ، مسند احمد (٢/١٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2977
صفا اور مروہ کے درمیان رمل
زہری کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو صفا ومروہ کے درمیان رمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ لوگوں کی ایک جماعت کے درمیان تھے (میں خود تو آپ کو دیکھ نہ سکا) لیکن لوگوں نے رمل کیا تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ آپ کے رمل کرنے کی وجہ سے ہی لوگوں نے رمل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٤٤٦) (ضعیف الإسناد) (زہری کا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2978
صفا اور مروہ کی سعی کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھا سکیں (تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم مدینے جا کر کمزور و لاغر ہوگئے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨٠ (١٦٤٩) ، المغازي ٤٣ (٤٢٥٧) ، صحیح مسلم/الحج ٣٩ (١٢٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٣) ، سنن الترمذی/الحج ٣٩ (٨٦٣) ، مسند احمد (١/٢٢١، ٢٥٥، ٣٠٦، ٣١٠، ٣١١، ٣٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2979
وادی کے درمیان دوڑنا
صفیہ بنت شیبہ ایک عورت سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی کے نشیبی حصہ کو دوڑ کر طے کرتے ہوئے دیکھا ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے : یہ وادی دوڑ کر ہی پار کی جائے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٤٣ (٢٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٨٢) ، مسند احمد (٦/٤٠٤، ٤٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اب اس حصے پر دو سبز پتھر لگا دیئے گئے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2980
عادت کے موافق چلنے کی جگہ
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صفا سے اتر کر نیچے آتے تو عام رفتار سے چلتے یہاں تک کہ جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچ جاتے تو آپ دوڑنے لگتے یہاں تک کہ اس (نشیبی جگہ) سے نکل جاتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٤) ، موطا امام مالک/الحج ٤١ (١٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2981
رمل کس جگہ کرنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول ﷺ کے دونوں قدم وادی کے نشیبی حصہ میں پہنچے، تو آپ نے رمل کیا یہاں تک کہ اس نشیبی جگہ سے نکل گئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2982
رمل کس جگہ کرنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صفا سے نیچے اترے یہاں تک کہ جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے تو آپ نے رمل کیا، اور جب چڑھائی پر پہنچے تو عام رفتار سے چلے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2983
مروہ پہاڑ پر کھڑے ہونے کی جگہ
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مروہ پر آئے تو اس پر چڑھے پھر بیت اللہ دکھائی دینے لگا تو آپ نے تین بار لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد وهو على كل شىء قدير کہا، پھر اللہ کا ذکر کیا اس کی تسبیح اور تحمید کی اور جو اللہ نے چاہا دعا کی، ہر بار ایسے ہی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ طواف سے فارغ ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2984
مروہ پہاڑ پر کس جگہ کھڑا ہو؟
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صفا کے پاس گئے تو اس پر چڑھے یہاں تک کہ آپ کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا پھر آپ نے اللہ عزوجل کی وحدانیت اور اس کی بڑائی بیان کی اور لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شىء قدير کہا پھر آپ چلے یہاں تک کہ جب آپ کے دونوں قدم نشیب میں پڑے تو آپ نے سعی کی (دوڑے) اور جب آپ کے قدم اونچائی و بلندی کی طرف اٹھے ١ ؎ تو آپ عام چال چلنے یہاں تک کہ آپ مروہ کے پاس آئے تو وہاں بھی آپ نے وہی کیا جو آپ نے صفا پر کر کیا تھا یہاں تک کہ اپنی سعی پوری کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩٧٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چڑھائی شروع ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2985
قران اور تمتع کرنے والا شخص کتنی مرتبہ سعی کرے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے صفا ومروہ کا طواف (یعنی ان دونوں کی سعی) صرف ایک بار کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٣) ، سنن ابی داود/الحج ٥٤ (١٨٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ١٠٢ (٩٤٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٣٩ (٢٩٧٣) مسند احمد (٣/٣١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2986
عمرہ کرنے والا شخص کس جگہ بال چھوٹے کرائے؟
معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مروہ پر ایک عمرہ کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کے بال تیر کے لمبے پھل سے کترے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٣٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2987
عمرہ کرنے والا شخص کس جگہ بال چھوٹے کرائے؟
معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ ﷺ کے بال ایک اعرابی کے تیر کے پھل سے کترے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٣٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ عمرہ جعرانہ کا واقعہ ہے کیونکہ معاویہ رضی الله عنہ اسی موقع پر اسلام لائے تھے عمرہ قضاء کا واقعہ نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ وہ اس وقت کافر تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2988
بال کس طرح کترے جائیں؟
معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کے پہلے د ہے میں بیت اللہ کے طواف اور صفا ومروہ کی سعی کر چکنے کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کے بال کے کناروں کو اپنے پاس موجود ایک تیر کے پھل سے کاٹے۔ قیس بن سعد کہتے ہیں : لوگ معاویہ پر اس حدیث کی وجہ سے نکیر کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٤٣) ، مسند احمد (٤/٩٢) (شاذ ) وضاحت : ١ ؎: یہ معاویہ رضی الله عنہ کا وہم ہے، صحیح بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ حجۃ الوداع میں متمتع نہیں تھے، بلکہ قارن تھے، آپ نے مروہ پر نہیں، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں حلق کروایا تھا معاویہ والا واقعہ غالباً عمرہ جعرانہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2989
جو شخص حج کی نیت کرے اور ہدی ساتھ لے جائے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا تو جب آپ نے بیت اللہ کا طواف کرلیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کرلی تو آپ نے فرمایا جس کے پاس ہدی ہو وہ اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٩١٤٢، ٢٩٥١، ٢٦٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2990
جو شخص عمرہ کی نیت کرے اور ہدی ساتھ لے جائے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، تو ہم میں سے بعض نے حج کا احرام باندھا اور بعض نے عمرہ کا، اور ساتھ ہدی بھی لائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور ہدی ساتھ نہیں لایا ہے، تو وہ احرام کھول ڈالے، اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے، اور ساتھ ہدی لے کر آیا ہے تو وہ احرام نہ کھولے، اور جس نے حج کا تلبیہ پکارا ہے تو وہ اپنا حج پورا کرے ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو میں ان لوگوں میں سے تھی جن ہوں نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٧٤٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٣٤ (١٥٦٢) ، والمغازی ٧٧ (٤٣٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١١) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٧٨) ، مسند احمد (٦/٣٧، ١١٩) (صحیح) (لیست عندصحیح البخاری/وکنت ممن أہل بالعمرة ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2991
جو شخص عمرہ کی نیت کرے اور ہدی ساتھ لے جائے
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے، جب مکہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ حلال ہوجائے (یعنی احرام کھول دے) اور جس کے ساتھ ہدی ہو وہ اپنے احرام پر باقی رہے ، زبیر (رض) کے ساتھ ہدی تھی تو وہ اپنے احرام پر باقی رہے اور میرے پاس ہدی نہ تھی تو میں نے احرام کھول دیا، اپنے کپڑے پہن لیے اور اپنی خوشبو میں سے، خوشبو لگائی، پھر (جا کر) زبیر کے پاس بیٹھی، تو وہ کہنے لگے : مجھ سے دور ہو کر بیٹھو۔ تو میں نے ان سے کہا : کیا آپ ڈر رہے ہیں کہ میں آپ پر کود پڑوں گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٩ (١٢٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٤١ (٢٩٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٣٩) ، مسند احمد (٦/٣٥٠، ٣٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2992
یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے خطبہ دینا
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جس وقت جعرانہ کے عمرہ سے لوٹے تو ابوبکر (رض) کو (امیر مقرر کر کے) حج پر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ آئے۔ پھر جب وہ عرج ١ ؎ میں تھے اور صبح کی نماز کی اقامت کہی گئی اور وہ اللہ اکبر کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تو اپنی پیٹھ کے پیچھے آپ نے ایک اونٹ کی آواز سنی تو اللہ اکبر کہنے سے رک گئے اور کہنے لگے : یہ تو رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی جدعا کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہ ﷺ کا خود بھی حج کے لیے آنے کا ارادہ بن گیا ہو تو ہوسکتا ہے رسول اللہ ﷺ آ رہے ہوں (آپ ہوئے) تو ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس اونٹنی پر علی (رض) سوار ہیں۔ تو ابوبکر (رض) نے ان سے پوچھا : آپ (امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں) یا قاصد بن کے آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، ہم قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے مقامات حج میں سورة برأۃ پڑھ کر لوگوں کو سنانے کے لیے بھیجا ہے۔ پھر ہم مکہ آئے تو ترویہ سے ایک دن پہلے (یعنی ساتویں تاریخ کو) ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ اور انہیں ان کے حج کے ارکان بتائے۔ جب وہ (اپنے بیان سے) فارغ ہوئے تو علی (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو سورة برأت پڑھ کر سنائی، یہاں تک کہ پوری سورت ختم ہوگئی، پھر ہم ان کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب عرفہ کا دن آیا تو ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے انہوں نے خطبہ دیا اور انہیں حج کے احکام سکھائے۔ یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہوگئے تو علی (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورة برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ پھر جب یوم النحر یعنی دسویں تاریخ آئی تو ہم نے طواف افاضہ کیا، اور جب ابوبکر (رض) لوٹ کر آئے تو لوگوں سے خطاب کیا، اور انہیں طواف افاضہ کرو، قربانی کرنے اور حج کے دیگر ارکان ادا کرنے کے طریقے سکھائے اور جب وہ فارغ ہوئے تو علی (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو سورة برأت پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ پوری سورت انہوں نے ختم کی، پھر جب کوچ کا پہلا دن آیا ٢ ؎ تو ابوبکر (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ وہ کیسے کوچ کریں اور کیسے رمی کریں۔ پھر انہیں حج کے (باقی احکام) سکھلائے جب وہ فارغ ہوئے تو علی (رض) کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورة برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابن خثیم (یعنی عبداللہ بن عثمان) حدیث میں قوی نہیں ہیں، اور میں نے اس کی تخریج اس لیے کی تاکہ اسے ابن جریج عن ابی الزبیر نہ بنا لیا جائے ٣ ؎ میں نے اسے صرف اسحاق بن راہویہ بن ابراہیم سے لکھا ہے، اور یحییٰ ابن سعید القطان نے ابن خیثم کی حدیث کو نہیں چھوڑا ہے، اور نہ ہی عبدالرحمٰن کی حدیث کو۔ البتہ علی بن مدینی نے کہا ہے کہ ابن خیثم منکر الحدیث ہیں اور گویا علی بن مدینی حدیث ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٧٧٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٧١ (١٩٥٦) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” عبداللہ بن عثمان بن خثیم “ کو علی بن المدینی نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، مگر حافظ نے ” صدوق “ کہا ہے ) وضاحت : ١ ؎: عرج ایک مقام کا نام ہے۔ ٢ ؎: یعنی بارہویں تاریخ ہوئی جسے نفر اول کہا جاتا ہے اور نفر آخر تیرہویں ذی الحجہ ہے۔ ٣ ؎: یعنی میں نے اس حدیث کی تخریج اس سند کے ساتھ جس میں ابن جریج اور ابوزبیر کے درمیان ابن خیثم ہیں اس سند سے نہیں کی ہے جس میں ابن جریج بن ابی الزبیر جیسا کہ بعض محدثین نے کی ہے تاکہ یہ ابن جریج کے طریق سے منقطع ہو کیونکہ وہ ابوالزبیر سے ارسال کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2993
تمتع کرنے والا کب حج کا احرام باندھے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مکہ) آئے تو ذی الحجہ کی چار تاریخیں گزر چکی تھیں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : احرام کھول ڈالو اور اسے عمرہ بنا لو ، اس سے ہمارے سینے تنگ ہوگئے، اور ہمیں یہ بات شاق گزری۔ اس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا : لوگو ! حلال ہوجاؤ (احرام کھول دو ) اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو تم لوگ کر رہے ہو ، تو ہم نے احرام کھول دئیے، یہاں تک کہ ہم نے اپنی عورتوں سے صحبت کی، اور وہ سارے کام کئے جو غیر محرم کرتا ہے یہاں تک کہ یوم ترویہ یعنی آٹھویں تاریخ آئی، تو ہم مکہ کی طرف پشت کر کے حج کا تلبیہ پکارنے لگے (اور منیٰ کی طرف چل پڑے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٤٤٥) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٦) ، سنن ابی داود/الحج ٢٣ (١٧٨٨) ، و مسند احمد (٣/٢٩٢، ٣٦٤، ٣٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2994
منیٰ سے متعلق احادیث
عمران انصاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) میری طرف مڑے اور میں مکہ کے راستہ میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا : تم اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو ؟ میں نے کہا : مجھے اس کے سایہ نے (کچھ دیر آرام کرنے کے لیے) اتارا ہے، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم منیٰ کے دو پہاڑوں کے بیچ ہو، آپ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو وہاں ایک وادی ہے جسے سربہ کہا جاتا ہے، اور حارث کی روایت میں ہے اسے سرربہ کہا جاتا ہے تو وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر انبیاء کے نال کاٹے گئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٣٦٧) موطا امام مالک/الحج ٨١ (٢٤٩) ، مسند احمد (٢/١٣٨) (ضعیف) (اس کے رواة ” محمد بن عمران “ اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2995
منیٰ سے متعلق احادیث
عبدالرحمٰن بن معاذ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منیٰ میں خطبہ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کان کھول دیے یہاں تک کہ آپ جو کچھ فرما رہے تھے ہم اپنی قیام گاہوں میں (بیٹھے) سن رہے تھے۔ تو نبی اکرم ﷺ لوگوں کو حج کے طریقے سکھانے لگے یہاں تک کہ آپ جمروں کے پاس پہنچے تو انگلیوں سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں اور مہاجرین کو حکم دیا کہ مسجد کے آگے کے حصے میں ٹھہریں اور انصار کو حکم دیا کہ مسجد کے پچھلے حصہ میں قیام پذیر ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٧٤ (١٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٤) ، مسند احمد (٤/٦١) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٩ (١٩٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2996
آٹھویں تاریخ کو امام نماز ظہر کس جگہ پڑھے؟
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا، میں نے کہا : آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایسی چیز بتائیے جو آپ کو یاد ہو، آپ نے ترویہ کے دن ظہر کہاں پڑھی تھی ؟ تو انہوں نے کہا : منیٰ میں۔ پھر میں نے پوچھا : کوچ کے دن ١ ؎ عصر کہاں پڑھی تھی ؟ انہوں نے کہا : ابطح میں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨٣ (١٦٥٣، ١٦٥٤) ، ١٤٦ (١٧٦٣) ، صحیح مسلم/الحج ٥٨ (١٣٠٩) ، سنن ابی داود/الحج ٥٩ (١٩١٢) ، سنن الترمذی/الحج ١١٦ (٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٨) ، مسند احمد (٣/١٠٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٦ (١٩١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کوچ کے دن سے مراد یوم نفر آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ ہے۔ ابطح مکہ کے قریب ایک وادی ہے جسے محصب بھی کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2997
منی سے عرفات جانا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفہ کی طرف چلے۔ تو ہم میں سے بعض لوگ تلبیہ پکار رہے تھے، اور بعض تکبیر کہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٢٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٤٦ (١٢٨٤) ، سنن ابی داود/الحج ٢٨ (١٨١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2998
منی سے عرفات جانا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات کی طرف چلے، ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے، اور کچھ تکبیر کہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 2999
عرفات روانہ ہوتے وقت تکبیر پڑھنا
محمد بن ابی بکر ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا اور ہم منیٰ سے عرفات جا رہے تھے کہ آج کے دن آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے) کس طرح تلبیہ پکارتے تھے، تو انہوں نے کہا : تلبیہ پکارنے والا تلبیہ پکارتا تو اس پر کوئی نکیر نہیں کی جاتی تھی، اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تھا، تو اس پر بھی کوئی نکیر نہیں کی جاتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العیدین ١٢ (٩٧٠) ، الحج ٨٦ (١٦٥٩) ، صحیح مسلم/الحج ٤٦ (١٢٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٣ (٣٠٠٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٥٢) ، موطا امام مالک/الحج ١٣ (٤٣) ، مسند احمد (٣/١١٠، ٢٤٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٤٨ (١٩١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3000
منی سے عرفات روانہ ہونے کے وقت تلبیہ پڑھنا
محمد بن ابی بکر ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عرفہ کی صبح انس (رض) سے پوچھا : آج کے دن تلبیہ پکارنے کے سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں نے یہ مسافت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ طے کی ہے، ان میں سے بعض لوگ تلبیہ پکارتے تھے، اور بعض تکبیر پکارتے تھے تو ان میں سے کوئی اپنے ساتھی پر نکیر نہیں کرتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3001
عرفات کے دن سے متعلق
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر (رض) سے کہا : اگر یہ آیت : اليوم أکملت لکم دينكم ہمارے یہاں اتری ہوتی تو جس دن یہ اتری اس دن کو ہم عید (تہوار) کا دن بنا لیتے۔ عمر (رض) نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن اتری ہے، جس رات ١ ؎ یہ آیت نازل ہوئی وہ جمعہ کی رات تھی، اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٣ (٤٥) ، المغازي ٧٧ (٤٤٠٧) ، تفسیرالمائدة ٢ (٤٦٠٦) ، الاعتصمام ١ (٧٢٦٨) ، صحیح مسلم/التفسیر (٣٠١٧) ، سنن الترمذی/تفسیرالمائدة (٣٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٦٨) ، مسند احمد ١/٢٨، ٣٩ ویأتی عند المؤلف برقم : ٥٠١٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شاید اس سے مراد سنیچر کی رات ہے جمعہ کی طرف اس کی نسبت اس وجہ سے کردی گئی ہے کہ وہ جمعہ سے متصل تھی، مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن شام کو نازل ہوئی اس طرح اللہ تعالیٰ نے دو عیدیں اس میں ہمارے لیے جمع کردیں ایک جمعہ کی عید دوسری عرفہ کی عید۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3002
عرفات کے دن سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل عرفہ کے دن جتنے غلام اور لونڈیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں کرتا، اس دن وہ اپنے بندوں سے قریب ہوتا ہے، اور ان کے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ہوسکتا ہے یہ یونس (جن کا اس روایت میں نام آیا ہے) یونس بن یوسف ہوں، جن سے مالک نے روایت کی ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٧٩ (١٣٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٦ (٣٠١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٣١) (صحیح) (شیخ البانی نے لکھا ہے کہ سیوطی نے الجامع الکبیر میں مسلم، نسائی اور ابن ماجہ سے یہ حدیث نقل کی ہے اور اس میں (عبدا وأمة) کا ذکر کیا ہے، اور أو أمة کی زیادتی ان لوگوں کے یہاں اور دوسرے محدثین (دار قطنی، بیہقی اور ابن عساکر کے یہاں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اور میں نے صحیح الجامع میں اس کا ذکر کیا ہے، تو جس کے پاس یہ کتاب ہو وہ لکھ لے کہ أو أمة کا لفظ بےاصل ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٢٥٥١، وتراجع الالبانی ٢٠٣) اور آپ یہاں دیکھ رہے ہیں کہ نسائی کے یہاں یہ زیادتی موجود ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3003
یوم عرفہ کو روزہ رکھنے کی ممانعت
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ یوم نحر اور ایام تشریق ( ١١ ، ١٢ ، ١٣ ذی الحجہ کے دن) ہم اہل اسلام کی عید ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصیام ٤٩ (٢٤١٩) ، سنن الترمذی/الصیام ٥٩ (٧٧٣) ، مسند احمد ٤/١٥٢، سنن الدارمی/الصوم ٤٧ (١٨٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرفہ کے دن روزہ کی ممانعت اس حج کرنے والے شخص کے لیے خاص ہے جو اس دن میدان عرفات میں ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3004
عرفہ کے دن مقام عرفات میں جلدی پہنچنا
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے (مکہ کے گورنر) حجاج بن یوسف کو لکھا وہ انہیں حکم دے رہے تھے کہ وہ حج کے امور میں عبداللہ بن عمر (رض) کی مخالفت نہ کریں، تو جب عرفہ کا دن آیا تو سورج ڈھلتے ہی عبداللہ بن عمر (رض) اس کے پاس آئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور اس خیمہ کے پاس انہوں نے آواز دی کہاں ہیں یہ، حجاج نکلے اور ان کے جسم پر کسم میں رنگی ہوئی ایک چادر تھی اس نے ان سے پوچھا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا : اگر سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو چلئے۔ اس نے کہا : ابھی سے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، حجاج نے کہا : (اچھا) ذرا میں نہا لوں، پھر آپ کے پاس آتا ہوں۔ انہوں نے ان کا انتظار کیا، یہاں تک کہ وہ نکلے تو وہ میرے اور میرے والد کے درمیان ہو کر چلے۔ تو میں نے کہا : اگر آپ سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو خطبہ مختصر دیں اور عرفات میں ٹھہرنے میں جلدی کریں۔ تو وہ ابن عمر (رض) کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ ان سے اس بارے میں سنے۔ تو جب ابن عمر (رض) نے یہ دیکھا تو انہوں نے کہا : اس نے سچ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٨٧ (١٦٦٠) ، ٨٩ (١٦٦٢) ، ٩٠ (١٦٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٩١٦) ، موطا امام مالک/الحج ٦٣ (١٩٤) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٠١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3005
عرفات میں لبیک کہنا
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس (رض) کے ساتھ عرفات میں تھا تو وہ کہنے لگے : کیا بات ہے، میں لوگوں کو تلبیہ پکارتے ہوئے نہیں سنتا۔ میں نے کہا : لوگ معاویہ (رض) سے ڈر رہے ہیں، (انہوں نے لبیک کہنے سے منع کر رکھا ہے) تو ابن عباس (رض) (یہ سن کر) اپنے خیمے سے باہر نکلے، اور کہا : لبيك اللہم لبيك لبيك (افسوس کی بات ہے) علی (رض) کی عداوت میں لوگوں نے سنت چھوڑ دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3006
عرفات میں نماز سے پہلے خطبہ دینا
نبی ط رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو نماز سے پہلے ایک سرخ اونٹ پر سوار ہو کر خطبہ دیتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٢ (١٩١٦) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٨ (١٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩) ، مسند احمد (٤/٣٠٥، ٣٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3007
عرفہ کے دن اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھنا
نبی ط رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفہ کے دن سرخ اونٹ پر سوار ہو کر خطبہ دیتے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3008
عرفات میں مختصر خطبہ پڑھنا
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) عرفہ کے دن جس وقت سورج ڈھل گیا حجاج بن یوسف کے پاس آئے، اور میں ان کے ساتھ تھا۔ اور کہا : اگر سنت کی پیروی چاہتے ہیں تو آؤ چلیں۔ تو حجاج نے کہا : اسی وقت، انہوں نے کہا : ہاں (اسی وقت) ، سالم کہتے ہیں : میں نے حجاج سے کہا : اگر آپ آج سنت کو پانا چاہتے ہیں تو خطبہ مختصر دیں، اور نماز جلدی پڑھیں، اس پر عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : اس نے سچ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3009
عرفات میں نماز ظہر اور نماز عصر ساتھ پڑھنا
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز اس کے وقت پر پڑھتے تھے، سوائے مزدلفہ اور عرفات کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرفات میں ظہر اور عصر دونوں ظہر کے وقت پڑھتے یعنی جمع تقدیم کرے، اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں عشاء کے وقت پڑھتے یعنی جمع تاخیر کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3010
مقام عرفات میں دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں عرفہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا۔ تو آپ نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے، اتنے میں آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر مڑی تو اس کی نکیل گرگئی تو آپ نے ایک ہاتھ سے اسے پکڑ لیا، اور دوسرا ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١١) ، مسند احمد (٥/٢٠٩) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3011
مقام عرفات میں دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ قریش مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے، اور اپنا نام حمس رکھتے تھے، باقی تمام عرب کے لوگ عرفات میں، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں ٹھہریں، پھر وہاں سے لوٹیں، اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں وہیں سے تم بھی لوٹو نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩١ (١٦٦٥) ، تفسیرالبقرة ٣٥ (٤٥٢٠) ، صحیح مسلم/الحج ٢١ (١٢١٩) ، سنن ابی داود/الحج ٥٨ (١٩١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٩٥) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حمس احمس کی جمع ہے چونکہ وہ اپنے دینی معاملات میں جو شیلے اور سخت تھے اس لیے اپنے آپ کو حمس کہتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3012
مقام عرفات میں دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ایک اونٹ کھو دیکھا، تو میں عرفہ کے دن عرفات میں اس کی تلاش میں گیا، تو میں نے وہاں نبی اکرم ﷺ کو وقوف کیے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا : ارے ان کا کیا معاملہ ہے ؟ یہ تو حمس میں سے ہیں (پھر یہاں کیسے ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩١ (١٦٦٤) ، صحیح مسلم/الحج ٢١ (١٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣١٩٣) ، مسند احمد ٤/٨٠، سنن الدارمی/المناسک ٤٩ (١٩٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3013
مقام عرفات میں دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا
یزید بن شیبان کہتے ہیں کہ ہم عرفہ کے دن عرفات میں موقف (ٹھہرنے کی خاص جگہ) سے دور ٹھہرے ہوئے تھے۔ تو ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے اور کہنے لگے تمہاری طرف میں رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں، آپ فرماتے ہیں : تم اپنے مشاعر میں رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث کے وارث ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٣ (١٩١٩) ، سنن الترمذی/الحج ٥٣ (٨٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٥ (٣٠١١) ، مسند احمد ٤/١٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3014
مقام عرفات میں دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا
ابو جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے تو ہم ان سے نبی اکرم ﷺ کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عرفات سارا کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٢٠ (١٢١٨) ، سنن ابی داود/الحج ٥٧ (١٩٠٧، ١٩٠٨) ، ٦٥ (١٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٧٣ (٣٠٤٨) ، مسند احمد ٣/٣٢١، ٣٢٦، سنن الدارمی/المناسک ٥٠ (١٩٢١) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٠٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3015
عرفات میں ٹھہر نے کی فضیلت
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا کہ اتنے میں کچھ لوگ آپ ﷺ کے پاس آئے، اور انہوں نے حج کے متعلق آپ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : حج عرفات میں ٹھہرنا ہے جس شخص نے عرفہ کی رات مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے پا لی تو اس کا حج پورا ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٩ (١٩٤٩) ، سنن الترمذی/٥٧ (٨٨٩، ٩٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٧ (٣٠١٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٣٥) ، مسند احمد (٤/٣٠٩، ٣١٠، ٣٣٥) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٧ (١٩٢٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٠٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے، اور حج کے فوت ہونے سے مامون ہوگیا، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہوگیا، اب اسے کچھ اور نہیں کرنا ہے، ابھی تو طواف افاضہ جو حج کا ایک رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہوسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3016
عرفات میں ٹھہر نے کی فضیلت
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے واپس ہوئے، اور آپ کے پیچھے سواری پر اسامہ بن زید (رض) سوار تھے، تو اونٹنی آپ کو لیے ہوئے گھومی، اور آپ اپنے دونوں ہاتھ (دعا کے لیے) اٹھائے ہوئے تھے لیکن وہ آپ کے سر سے اونچے نہ تھے تو برابر آپ اسی حالت پر چلتے رہے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٦) ، مسند احمد (١/٢١٢، ٢٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3017
عرفات میں ٹھہر نے کی فضیلت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ اسامہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے چلے، اور میں آپ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا، تو آپ اپنی سواری اونٹ کی نکیل (اسے تیز چلنے سے روکنے کے لیے کھینچنے لگے یہاں تک کہ اس کے کان کی جڑیں پالان کے اگلے حصے کو چھونے لگی) اور آپ فرما رہے تھے : لوگو ! اپنے اوپر وقار اور سکون کو لازم پکڑو، کیونکہ بھلائی اونٹ دوڑانے میں نہیں (بلکہ لوگوں کو ایذا پہنچانے سے بچنے میں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٥) ، مسند احمد (٥/٢٠١، ٢٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3018
عرفات سے لوٹتے وقت اطمینان و سکون کے ساتھ چلنے کا حکم
ابوغطفان بن طریف سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس (رض) کو کہتے سنا : جب رسول اللہ ﷺ عرفات سے (مزدلفہ کے لیے چلے، تو آپ نے اپنی اونٹنی کی مہار کھینچی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کی لکڑی سے چھونے لگا، آپ عرفہ کی شام میں (مزدلفہ کے لیے چلتے وقت لوگوں سے) فرما رہے تھے : اطمینان و سکون کو لازم پکڑو، اطمینان و سکون کو لازم پکڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٥٦٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٩٤ (١٦٧١) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٢) ، سنن ابی داود/الحج ٦٤ (١٩٢٠) ، مسند احمد (١/٢٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3019
عرفات سے لوٹتے وقت اطمینان و سکون کے ساتھ چلنے کا حکم
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹنی پر سوار تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کی شام کو اور مزدلفہ کی صبح کو اپنی اونٹنی روک کر لوگوں سے فرمایا : اطمینان و وقار کو لازم پکڑو یہاں تک کہ جب آپ وادی محسر میں داخل ہوئے، اور وہ منیٰ کا ایک حصہ ہے، تو فرمایا : چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لو جسے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان رکھ کر مارا جاسکے تو رسول اللہ ﷺ برابر تلبیہ پکارتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٧) ، مسند احمد (١/٢١٠، ٢١١، ٣١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٦ (١٩٣٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٠٦٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3020
عرفات سے لوٹتے وقت اطمینان و سکون کے ساتھ چلنے کا حکم
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفات سے لوٹے، آپ پر سکینت طاری تھی، آپ نے لوگوں کو بھی اطمینان و سکون سے واپس ہونے کا حکم دیا، اور وادی محسر میں اونٹ کو تیزی سے دوڑایا، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اتنی چھوٹی کنکریوں سے جمرہ کی رمی کریں جنہیں وہ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان رکھ کر مار سکیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٦ (١٩٤٤) ، (٨٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦١ (٣٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٥ مسند احمد (٣/٣٠١، ٣٣٢، ٣٦٧، ٣٩١) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٦ (١٩٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3021
عرفات سے لوٹتے وقت اطمینان و سکون کے ساتھ چلنے کا حکم
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عرفات سے لوٹے اور کہنے لگے : اللہ کے بندو ! اطمینان و سکون کو لازم پکڑو ، آپ اس طرح اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور ایوب نے اپنی ہتھیلی کے باطن سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٧٢) ، مسند احمد ٣/٣٥٥، ٣٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3022
عرفات سے روانگی کا راستہ
اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان سے حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کی چال کے بارے میں پوچھا گیا (کہ آپ کیسے چل رہے تھے) تو انہوں نے کہا : آپ عنق (تیز چال) چل رہے تھے، اور جب خالی جگہ پاتے تو نص کی رفتار چلتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٣ (١٦٦٦) ، الجہاد ١٣٦ (٢٩٩٩) ، المغازي ٧٧ (٤٤١٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٤٦) ، سنن ابی داود/الحج ٦٤ (١٩٢٣) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٨ (٣٠١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤) ، موطا امام مالک/الحج ٥٧ (١٧٦) ، مسند احمد (٥/٢٠٥، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥١ (١٩٢٢) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٠٥٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نص عنق سے بھی تیز چال کو کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3023
عرفات سے واپسی پر گھاٹی میں قیام سے متعلق
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب عرفہ سے لوٹے تو پہاڑ کی گھاٹی کی طرف مڑے، وہ کہتے ہیں : تو میں نے عرض کیا : کیا (یہاں) آپ مغرب کی نماز پڑھیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : نماز پڑھنے کی جگہ آگے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٨١) ، الحج ٩٥ (١٦٧٢) ، الحج ٤٧ (١٢٨٠) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٤ (١٩٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥) ، موطا امام مالک/الحج ٥٧ (١٧٦) ، مسند احمد (٥/١٩٩، ٢٠٨، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٢ (١٩٢٣، ١٩٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3024
عرفات سے واپسی پر گھاٹی میں قیام سے متعلق
اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس گھاٹی میں اترے جہاں امراء اترتے ہیں، تو آپ نے پیشاب کیا، پھر ہلکا وضو کیا، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا نماز کا ارادہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز آگے ہوگی (یعنی آگے چل کر پڑھیں گے) تو جب ہم مزدلفہ آئے، تو ابھی (قافلے کے) پیچھے والے لوگ اترے بھی نہ تھے کہ آپ نے نماز شروع کردی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3025
مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا
ابوایوب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں ایک ساتھ پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3026
مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب اور عشاء دونوں مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3027
مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء دونوں ایک ساتھ ایک تکبیر سے پڑھیں، نہ ان دونوں کے بیچ میں کوئی نفل پڑھی، اور نہ ہی ان دونوں نمازوں کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٦١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3028
مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب و عشاء دونوں ایک ساتھ پڑھیں، ان دونوں کے درمیان اور کوئی نماز نہیں پڑھی۔ مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں اور عشاء کی دو رکعتیں۔ اور عبداللہ بن عمر اسی طرح دونوں نمازیں جمع کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل سے جا ملے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3029
مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء دونوں ایک اقامت سے پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خود ابن عمر رضی الله عنہما ہی سے ایک دوسری روایت بھی مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں نمازیں آپ نے الگ الگ اقامت کے ساتھ جمع کیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بزيادة لکل منهما صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3030
مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا
کریب کہتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید (رض) سے اور وہ عرفہ کی شام میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے پوچھا : آپ لوگوں نے کیسے کیا ؟ انہوں نے کہا : ہم چلتے رہے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے، تو آپ ﷺ نے اونٹ کو بٹھایا، پھر مغرب پڑھی، پھر آپ نے لوگوں کو (اترنے کی اطلاع) بھیجی، تو لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانوں پر اپنے اونٹ بٹھا لیے۔ تو ابھی وہ اتر بھی نہ سکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے دوسری نماز عشاء بھی پڑھ لی۔ پھر لوگ اترے اور قیام کیا، پھر صبح کی تو میں قریش کے پہلے جتھے والوں کے ساتھ پیدل گیا۔ اور فضل بن عباس (رض) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (اونٹ پر) سوار ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٤ (١٩٢١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٩ (٣٠١٩) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦ (١٣٩) ، ٣٥ (١٨١) ، الحج ٩٣، ٩٥ (١٦٦٧، ١٦٦٩، ١٦٧٢) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥، ٤٧ (١٢٨٠) ، مسند احمد (٥/٢٠٠، ٢٠٢، ٢٠٨، ٢١٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥١ (١٩٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3031
خواتین اور بچوں کو مزدلفہ پہلے بھیج دینے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کو نبی اکرم ﷺ نے مزدلفہ کی رات مجھے اپنے گھر والوں کے کمزور لوگوں ساتھ پہلے ہی (منیٰ ) بھیج دیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٧٨) ، جزاء الصید ٢٥ (١٨٥٦) ، صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٣) ، سنن ابی داود/الحج ٦٦ (١٩٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٨ (٨٩٢) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٢ (٣٠٢٥) ، مسند احمد ١/٢٢٢، ٢٤٥، ٢٧٢، ٣٣٤، ٣٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3032
خواتین اور بچوں کو مزدلفہ پہلے بھیج دینے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے اہل خانہ کے ان کمزور لوگوں میں سے تھا جنہیں آپ نے مزدلفہ کی رات پہلے ہی (منیٰ ) بھیج دیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٣) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٢ (٣٠٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٤) ، مسند احمد (١/٢٢، ٢٢٧، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٠٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3033
خواتین اور بچوں کو مزدلفہ پہلے بھیج دینے سے متعلق
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بنی ہاشم کے کمزور لوگوں (یعنی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں) کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ سے منیٰ رات ہی میں چلے جائیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٢) ، مسند احمد (١/٢١٢) (حسن، صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3034
خواتین اور بچوں کو مزدلفہ پہلے بھیج دینے سے متعلق
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں رات کی تاریکی ہی میں مزدلفہ سے منیٰ چلے جانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٥٠) ، مسند احمد (٦/٤٢٦، ٤٢٧) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٣ (١٩٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3035
خواتین اور بچوں کو مزدلفہ پہلے بھیج دینے سے متعلق
ام حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں رات کی تاریکی ہی میں مزدلفہ سے منیٰ چلے جاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3036
خواتین کے واسطے مقام مزدلفہ سے فجر سے قبل نکلنے کی اجازت
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو مزدلفہ سے فجر ہونے سے پہلے لوٹ جانے کی اجازت دی، اس لیے کہ وہ ایک بھاری بدن کی سست رفتار عورت تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٥٢٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٨١) ، صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦٢ (٣٠٢٧) ، مسند احمد (٦/٣٠، ٩٤، ٩٩، ١٢٣، ١٦٤، ٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٣ (١٩٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3037
مزدلفہ میں نماز فجر کب ادا کی جائے؟
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بھی کوئی نماز بغیر اس کے وقت کے پڑھتے نہیں دیکھا سوائے مغرب و عشاء کے جنہیں آپ نے مزدلفہ میں پڑھی، اور اسی دن کی فجر جسے آپ نے اس کے مقررہ وقت سے پہلے پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3038
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
عروہ بن مضرس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا : جس نے ہمارے ساتھ یہاں یہ نماز (یعنی نماز فجر) پڑھ لی، اور ہمارے ساتھ ٹھہرا رہا، اور اس سے پہلے وہ عرفہ میں رات یا دن میں (کسی وقت بھی) وقوف کرچکا ہے تو اس کا حج پورا ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٩ (١٩٥٠) ، سنن الترمذی/الحج ٥٧ (٨٥١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٥٧ (٣٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٠٠) ، مسند احمد ٤/١٥، ٢٦١، ٢٦٢، سنن الدارمی/المناسک ٥٤ (١٩٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3039
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
عروہ بن مضرس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مزدلفہ کو امام اور لوگوں کے ساتھ پالے یہاں تک کہ وہ وہاں سے واپس منیٰ کو لوٹے تو اس نے حج پا لیا۔ اور جو امام اور لوگوں کے ساتھ مزدلفہ کو نہ پاسکا تو اس نے حج نہیں پایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اچھے ڈھنگ سے نہیں پایا، یہ تاویل اس لیے کی گئی ہے کہ مزدلفہ میں رات گزارنا حج کا رکن نہیں ہے کہ اس کے فوت ہوجانے سے حج فوت ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3040
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
عروہ بن مضرس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں طے کے دونوں پہاڑوں سے ہوتا ہوا آیا ہوں، میں نے ریت کا کوئی ٹیلہ نہیں چھوڑا جس پر میں نے وقوف نہ کیا ہو، تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے یہ نماز (یعنی نماز فجر) ہمارے ساتھ پڑھی، اور وہ اس سے پہلے عرفہ میں رات یا دن کے کسی حصے میں ٹھہر چکا ہے، تو اس کا حج پورا ہوگیا، اور اس نے اپنا میل و کچیل دور کرلیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3041
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
عروہ بن مضرس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا : کیا میرا حج ہوا ؟ آپ نے فرمایا : جس نے ہمارے ساتھ ہماری یہ نماز (یعنی نماز فجر) پڑھی، اور اس مقام پر لوٹتے وقت تک ٹھہرا، اور اس سے پہلے عرفات سے رات یا دن میں کسی وقت لوٹ کر آیا، تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور اس نے اپنا میل و کچیل دور کرلیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3042
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
عروہ بن مضرس طائی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا : میں آپ کے پاس طے کے دونوں پہاڑوں سے ہو کر آیا ہوں میں نے اپنی سواری کو تھکا دیا ہے، اور میں خود بھی تھک کر چور چور ہوچکا ہوں۔ ریت کا کوئی ٹیلہ ایسا نہیں رہا جس پر میں نے وقوف نہ کیا ہو، تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ آپ نے فرمایا : جس نے یہاں ہمارے ساتھ نماز فجر پڑھی، اور اس سے پہلے وہ عرفہ آچکا ہو تو اس نے اپنا میل و کچیل دور کرلیا، اور اس کا حج پورا ہوگیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3043
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی کہتے ہیں کہ میں عرفہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھا۔ آپ کے پاس نجد سے کچھ لوگ آئے تو انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا، تو اس نے آپ ﷺ سے حج کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا : حج عرفہ (میں وقوف) ہے، جو شخص مزدلفہ کی رات میں صبح کی نماز سے پہلے عرفہ آجائے، تو اس نے اپنا حج پا لیا۔ منیٰ کے دن تین دن ہیں، تو جو دو ہی دن قیام کر کے چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور جو تاخیر کرے اور تیرہویں کو بھی رکے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے ۔ پھر آپ نے ایک شخص کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا، جو لوگوں میں اسے پکار پکار کر کہنے لگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3044
جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے
ابو جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پورا مزدلفہ موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠١٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3045
مزدلفہ میں تلبیہ کہنا
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم مزدلفہ میں تھے کہ میں نے اس ذات کو جس پر سورة البقرہ نازل ہوئی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اس جگہ لبيك اللہم لبيك کہتے سنا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٩١) ، مسند احمد (١/٣٧٤، ٤١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3046
مزدلفہ سے واپس آنے کا وقت
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں عمر (رض) کے ساتھ تھا، تو وہ کہنے لگے : اہل جاہلیت جب تک سورج نکل نہیں جاتا مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے، کہتے تھے أشرق ثبیر اے ثبیر روشن ہوجا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی، پھر وہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٠٠ (١٦٨٤) ، ومناقب الأنصار ٢٦ (٣٨٣٨) ، سنن ابی داود/الحج ٦٥ (١٩٣٨) ، سنن الترمذی/الحج ٦٠ (٨٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦١ (٣٠٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦١٦) ، مسند احمد (١/١٤، ٢٩، ٣٩، ٤٢، ٥٠، ٥٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٥ (١٩٣٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثبیر مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3047
ضعفاء کو مزدلفہ کی رات فجر کی نماز منی ٰ پر پہنچ کر پڑھنے کی اجازت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے خاندان کے کمزور لوگوں کے ساتھ (رات ہی میں) بھیج دیا تو ہم نے نماز فجر منیٰ میں پڑھی، اور جمرہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3048
ضعفاء کو مزدلفہ کی رات فجر کی نماز منی ٰ پر پہنچ کر پڑھنے کی اجازت
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے خواہش ہوئی کہ میں بھی رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کرتی جس طرح سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت طلب کی تھی۔ اور لوگوں کے آنے سے پہلے میں بھی منیٰ میں نماز فجر پڑھتی، سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بدن کی سست رفتار عورت تھیں، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے (پہلے ہی لوٹ جانے کی) اجازت مانگی۔ تو آپ نے انہیں اجازت دے دی، تو انہوں نے فجر منیٰ میں پڑھی، اور لوگوں کے پہنچنے سے پہلے رمی کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٠٣) ، مسند احمد (٦/٩٨، ١٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3049
ضعفاء کو مزدلفہ کی رات فجر کی نماز منی ٰ پر پہنچ کر پڑھنے کی اجازت
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کے ایک غلام کہتے ہیں کہ میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے ساتھ اخیر رات کے اندھیرے میں منیٰ آیا۔ میں نے ان سے کہا : ہم رات کی تاریکی ہی میں منیٰ آگئے (حالانکہ دن میں آنا چاہیئے) ، تو انہوں نے کہا : ہم اس ذات کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے (یعنی غلس میں آتے تھے) جو تم سے بہتر تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٦ (١٩٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٣٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحج ٩٨ (١٦٧٩) ، صحیح مسلم/الحج ٤٩ (١٢٩١) ، موطا امام مالک/الحج ٥٦ (١٧٢) (وعندہ ” مولاة لأسمائ “ ) مسند احمد (٦/٣٤٧، ٣٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3050
ضعفاء کو مزدلفہ کی رات فجر کی نماز منی ٰ پر پہنچ کر پڑھنے کی اجازت
عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن زید (رض) سے پوچھا گیا، اور میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ مزدلفہ سے لوٹتے وقت کیسے چل رہے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : اپنی اونٹنی کو عام رفتار سے چلا رہے تھے، اور جب خالی جگہ پاتے تو تیز بھگاتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3051
ضعفاء کو مزدلفہ کی رات فجر کی نماز منی ٰ پر پہنچ کر پڑھنے کی اجازت
ودائی محسر سے تیزی سے گزرنے کا بیان
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وادی محسر میں اونٹ کو تیز دوڑایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٥٥ (٨٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3053
ودائی محسر سے تیزی سے گزرنے کا بیان
ابو جعفر محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ (رض) کے پاس گئے تو میں نے کہا : آپ رسول اللہ ﷺ کے حج کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ مزدلفہ سے سورج نکلنے سے پہلے چلے آپ نے فضل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا، یہاں تک کہ وادی محسر پہنچے، تو اونٹ کی رفتار آپ نے قدرے بڑھا دی، پھر آپ نے وہ درمیانی راستہ پکڑا جو تمہیں جمرہ کبریٰ کے پاس لے جا کر نکالے گا یہاں تک کہ آپ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے۔ آپ نے (وہاں پہنچ کر) سات ایسی چھوٹی کنکریاں ماریں جو انگوٹھے اور شہادت کی دونوں انگلیوں کے درمیان آجائیں، ہر کنکری کے ساتھ آپ تکبیر کہہ رہے تھے، آپ نے وادی کی نشیب سے رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٣، ٢٦٣٦) ، انظر حدیث رقم : ٢٩٧٥) ، ویأتي عند المؤلف : ٣٠٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3054
چلتے ہوئے لبیک کہنا
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے، تو برابر تلبیہ پکارتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٢ (١٥٤٣) ، ٩٣ (١٦٧٠) ، ١٠١ (١٦٨٥) ، صحیح مسلم/الحج ٤٥ (١٢٨١) ، دالحج ٢٨ (١٨١٥) ، سنن الترمذی/الحج ٧٨ (٩١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٦٩ (٣٠٤٠) ، مسند احمد (١/٢١٠-٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠ (١٩٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3055
چلتے ہوئے لبیک کہنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٤٨٥) ، مسند احمد (١/٣٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3056
کنکری جمع کرنے اور ان کے اٹھانے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عقبہ کی صبح مجھ سے فرمایا : اور آپ اپنی سواری پر تھے کہ میرے لیے کنکریاں چن دو ۔ تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں جو چھوٹی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آسکتی تھیں جب میں نے آپ کے ہاتھ میں انہیں رکھا تو آپ نے فرمایا : ایسی ہی ہونی چاہیئے، اور تم اپنے آپ کو دین میں غلو سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے دین میں غلو ہی نے ہلاک کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٦٣ (٣٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٢٧) ، مسند احمد (١/٢١٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم ٣٠٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ترمزی اور امام احمد دونوں نے یہاں ابن عباس سے عبداللہ بن عباس سمجھا ہے، حالانکہ عبداللہ کو نبی اکرم ﷺ نے رات ہی میں عورتوں بچوں کے ساتھ منی روانہ کردیا تھا، اور مزدلفہ سے منی تک سواری پر آپ کے پیچھے فضل بن عباس ہی سوار تھے، یہ دونوں باتیں صحیح مسلم کتاب الحج باب ٤٥ اور ٤٩ میں اور سنن کبریٰ بیہقی ( ٥ /١٢٧) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3057
کنکری جمع کرنے اور ان کے اٹھانے کے بارے میں
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے جس وقت وہ عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح کو چلے تو اپنی اونٹنی کو روک کر فرمایا : تم لوگ سکون و وقار کو لازم پکڑو یہاں تک کہ جب آپ منیٰ میں داخل ہوئے تو جس وقت اترے وادی محسر میں اترے، اور آپ نے فرمایا : چھوٹی کنکریوں کو جسے چٹکی میں رکھ کر تم مار سکو لازم پکڑو ، اور نبی اکرم ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، جیسے آدمی کنکری کو چٹکی میں رکھ کر مارتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3058
کس قدر بڑی کنکریاں ماری جائیں؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عقبہ کی صبح کو فرمایا اور آپ اپنی سواری کو روکے ہوئے تھے : آؤ میرے لیے کچھ کنکریاں چن دو ، تو میں نے آپ کے لیے کنکریاں چنیں۔ یہ اتنی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آجائیں، تو میں نے انہیں آپ کے ہاتھ میں لا کر رکھا، تو آپ انہیں اپنے ہاتھ میں حرکت دینے لگے۔ اور یحییٰ نے انہیں اپنے ہاتھ میں ہلا کر بتایا کہ اسی طرح کی کنکریاں یہ اتنی چھوٹی تھیں کہ چٹکی میں آجائیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں ابن عباس سے مراد فضل ہیں (ملاحظہ ہو ٣٠٥٩ ، ٣٠٦٠ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3059
جمرات پر سوار ہو کر جانا اور محرم پر سایہ کرنا
ام حصین رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو بلال (رض) کو دیکھا کہ وہ آپ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے، اور اسامہ بن زید (رض) آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر اپنے کپڑے کا سایہ کیے ہوئے تھے۔ اور آپ حالت احرام میں تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر لوگوں کو خطبہ دیا، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، اور بہت سی باتیں ذکر کیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٨) ، (ببعضہ) سنن ابی داود/الحج ٣٥ (١٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣١٠) ، مسند احمد (٦/٤٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3060
جمرات پر سوار ہو کر جانا اور محرم پر سایہ کرنا
قدامہ بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے قربانی کے دن رسول اللہ ﷺ کو اپنی سرخ و سفید اونٹنی پر سوار جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، نہ کوئی مار رہا تھا، نہ بھگا رہا، نہ ہٹو ہٹو کہہ رہا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٦٥ (٩٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦٦ (٣٠٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٧٧) ، (حم (٣/٤١٢، ٤١٣) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠ (١٩٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسا کہ آج کل کسی بڑے افسر و حاکم کے آنے پر کیا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3061
جمرات پر سوار ہو کر جانا اور محرم پر سایہ کرنا
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر جمرہ کو کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا، اور آپ فرما رہے تھے : لوگو ! مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید میں اس سال کے بعد آئندہ حج نہ کرسکوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٧) ، سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٤) ، مسند احمد (٣/٣٠١، ٣١٨، ٣٣٢، ٣٣٧، ٣٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3062
دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے کا وقت
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمرہ کو دسویں ذی الحجہ کو چاشت کے وقت کنکریاں ماریں، اور دسویں تاریخ کے بعد (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ کو) سورج ڈھل جانے کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٣ (١٢٩٩) ، سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧١) ، سنن الترمذی/الحج ٥٩ (٨٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٧٥ (٣٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٥) ، مسند احمد (٣/٣١٣، ٣١٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3063
طلوع آفتاب سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کی ممانعت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم بنی عبدالمطلب کے گھرانے کے بچوں کو گدھوں پر سوار کر کے بھیجا، آپ ہماری رانوں کو تھپتھپا رہے تھے، اور فرما رہے تھے : میرے ننھے بیٹو ! جب تک سورج نکل نہ آئے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہ مارنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٦٦ (١٩٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦٢ (٢٠٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٦) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الحج ٥٨ (٨٩٣) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٣١١، ٣٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3064
طلوع آفتاب سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کی ممانعت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے گھر والوں کو (رات میں) پہلے ہی بھیج دیا اور انہیں حکم دیا کہ جب تک سورج نہ نکل آئے جمرہ کی رمی نہ کریں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٦ (١٩٤١) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3065
خواتین کے واسطے اس کی اجازت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک بیوی کو حکم دیا کہ وہ مزدلفہ کی رات ہی میں مزدلفہ سے کوچ کر جائیں، اور جمرہ عقبہ کے پاس آ کر اس کی رمی کرلیں، اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر صبح کریں۔ اور عطا اپنی وفات تک ایسے ہی کرتے رہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧٨٧٧) (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3066
شام ہونے کے بعد کنکریاں مارنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے ایام میں رسول اللہ ﷺ سے (حج کے مسائل) پوچھے جاتے تو آپ فرماتے کوئی حرج نہیں ، ایک شخص نے آپ سے پوچھا : میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا ؟ آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ، اور ایک دوسرے شخص نے کہا : شام ہوجانے کے بعد میں نے کنکریاں ماریں ؟ آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٢٤ (٨٤) ، الحج ١٢٥ (١٧٢٣) ، ١٣٠ (١٧٣٥) ، الأیمان ١٥ (٦٦٦٦) ، سنن ابی داود/الحج ٧٩ (١٩٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٧٤ (٣٠٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٤٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٥٧ (١٣٠٧) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٥٨، ٢٦٩، ٢٩١، ٣٠٠، ٣١١، ٣٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3067
چرواہوں کا کنکری مارنا
ابوالبداح بن عاصم کے والد عاصم بن عدی بن جدا القضاعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چرواہوں کو ایک دن چھوڑ کر ایک دن رمی کرنے کی رخصت دی ہے، (اس لیے کہ وہ اونٹوں کو ادھر ادھر چرانے لے جانے کی وجہ سے ہر روز منیٰ نہیں پہنچ سکتے تھے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧٥) ، سنن الترمذی/الحج ١٠٨ (٩٥٥) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦٧ (٣٠٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٣٠) ، موطا امام مالک/الحج ٧٢ (٢١٨) ، مسند احمد (٥/٤٥٠) ، سنن الدارمی/المناسک ٥٨ (١٩٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3068
چرواہوں کا کنکری مارنا
ابوالبداح بن عاصم کے والد عاصم بن عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چرواہوں کو منیٰ میں رات میں نہ رہنے کی رخصت دی ہے۔ وہ یوم النحر (یعنی دسویں تاریخ) کو رمی کریں، اور پھر اس کے بعد دونوں دنوں کو کسی ایک دن میں جمع کرلیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی گیارہویں اور بارہویں دونوں کی رمی گیارہویں تاریخ کو کرلیں یا بارہویں تاریخ کو کریں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3069
جمرہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ جمرہ کو گھاٹی کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں، تو عبداللہ بن مسعود نے وادی کے نیچے سے کنکریاں ماریں، پھر کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اسی جگہ سے اس شخص نے کنکریاں ماریں جس پر سورة البقرہ نازل ہوئی (یعنی محمد ﷺ نے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٣٥٠ (١٧٤٧) ، ٣٦ (١٧٤٨) ، ٣٧ (١٧٤٩) ، ٣٨ (١٧٥٠) ، صحیح مسلم/الحج ٥٠ (١٢٩٦) ، سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧٤) ، سنن الترمذی/الحج ٦٤ (٩٠١) ، سنن ابن ماجہ/الحج ٦٤ (٣٠٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٢) ، مسند احمد (١/٤١٥، ٤٢٧، ٤٣٠، ٤٣٢، ٤٣٦، ٤٥٦، ٤٥٧، ٤٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3070
جمرہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے خانہ کعبہ کو اپنے بائیں جانب کیا اور عرفہ کو اپنے دائیں جانب اور جمرہ کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا : یہی اس ذات کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جس پر سورة البقرہ نازل کی گئی۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ابن ابی عدی کے سوا میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس حدیث میں منصور کے ہونے کی بات کہی ہو، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3071
جمرہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کو وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں، پھر کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، یہی ہے اس ہستی کے کھڑے ہونے کی جگہ جس پر سورة البقرہ اتاری گئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3072
جمرہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو کہتے سنا کہ سورة البقرہ نہ کہو، بلکہ کہو وہ سورة جس میں بقرہ کا ذکر کیا گیا ہے میں نے اس بات کا ذکر ابراہیم سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن یزید نے بیان کیا ہے کہ وہ عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) کے ساتھ تھے جس وقت انہوں نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں، وہ وادی کے اندر آئے، اور جمرہ کو اپنے نشانہ پر لیا، اور سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہی، تو میں نے کہا : بعض لوگ (کنکریاں مارنے کے لیے) پہاڑ پر چڑھتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، یہی جگہ ہے جہاں سے میں نے اس شخص کو جس پر سورة البقرہ نازل ہوئی کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورة البقرہ کہنا درست ہے اور حجاج کا خیال صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3073
جمرہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمرہ عقبہ کی رمی چٹکی میں آنے والی جیسی کنکریوں سے کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٨٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3074
جمرہ عقبی ٰکی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے؟
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ چٹکی میں آنے والی جیسی کنکریوں سے جمرہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥٢ (١٢٩٩) ، سنن الترمذی/الحج ٦١ (٨٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٩) ، مسند احمد (٣/٣١٣، ٣١٩، ٣٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3075
کتنی کنکریوں سے رمی کرنی چاہیے؟
ابو جعفر محمد بن علی بن حسین باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ کے پاس گئے تو میں نے ان سے کہا : آپ ہمیں نبی اکرم ﷺ کے حج کا حال بتائیے، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس جمرہ کو جو درخت کے قریب ہے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ آپ تکبیر کہہ رہے تھے، کنکریاں اتنی چھوٹی تھیں جو چٹکی میں آسکیں۔ آپ نے وادی کے اندر سے رمی کی، پھر آپ منحر (قربان گاہ) کی طرف پلٹے اور قربانی کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3076
کتنی کنکریوں سے رمی کرنی چاہیے؟
سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج میں لوٹے۔ تو ہم میں سے کوئی کہتا تھا : ہم نے سات کنکریاں ماریں اور کوئی کہتا تھا : ہم نے چھ ماریں، تو ان میں سے کسی نے ایک دوسرے پر نکیر نہیں کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٩١٧) ، مسند احمد (١/١٦٨) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3077
کتنی کنکریوں سے رمی کرنی چاہیے؟
ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے کنکریوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : مجھے معلوم نہیں، رسول اللہ ﷺ نے چھ کنکریاں ماریں یا سات۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحج ٧٨ (١٩٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٤١) ، مسند احمد (١/٣٧٢) (صحیح) (حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن اگلی حدیث میں سات کنکریاں مارنے کا بیان ہے، اس لیے اس میں موجود شک چھ یا سات کنکری کی بات غریب اور خود ابن عباس اور دوسروں کی احادیث کے خلاف ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3078
ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہنا
عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل بن عباس (رضی الله عنہم) سے روایت کرتے ہیں، فضل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سوار تھا آپ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ آپ اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٤) ، مسند احمد (١/٢١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3079
جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد لبیک نہ کہنے کے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس (رض) نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا تو میں برابر آپ کو لبیک پکارتے ہوئے سن رہا تھا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو جب رمی کرلی تو آپ نے تلبیہ پکارنا بند کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٩ (٣٠٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٠٥٦) ، مسند احمد (١/٢١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3080
جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد لبیک نہ کہنے کے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ فضل (فضل بن عباس رضی اللہ عنہما) نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے اور آپ برابر تلبیہ پکار رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3081
جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد لبیک نہ کہنے کے متعلق
فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے، اور آپ برابر لبیک پکار رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٠٤٦) ، مسند احمد (١/٢١٤) ، سنن الدارمی/المناسک ٦٠ (١٩٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3082
جمرات کی طرف کنکری پھینکنے کے بعد دعا کرنے کے بارے میں
زہری کہتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اس جمرے کو کنکری مارتے جو منیٰ کی قربان گاہ کے قریب ہے، تو اسے سات کنکریاں مارتے، اور جب جب کنکری مارتے اللہ اکبر کہتے، پھر ذرا آگے بڑھتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر قبلہ رو کھڑے ہو کر دعا کرتے اور کافی دیر تک کھڑے رہتے، پھر جمرہ ثانیہ کے پاس آتے، اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے اور جب جب کنکری مارتے اللہ اکبر کہتے۔ پھر بائیں جانب مڑتے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھا کر کھڑے ہو کر دعا کرتے۔ پھر اس جمرے کے پاس آتے، جو عقبہ کے پاس ہے اور اسے سات کنکریاں مارتے اور اس کے پاس (دعا کے لیے) کھڑے نہیں ہوتے۔ زہری کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے یہ حدیث سنی، وہ اپنے والد عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں، اور ابن عمر (رض) بھی اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ١٤٠ (١٧٥١) ، ٤١ (١٧٥٣) تعلیقًا، سنن ابن ماجہ/الحج ٦٥ (٣٠٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨٦) ، مسند احمد (٢/١٥٢) ، سنن الدارمی/المناسک ٦١ (١٩٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3083
کنکریاں مارنے کے بعد کون کون سی اشیاء حلال ہوتی ہیں؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آدمی نے جمرہ عقبہ کی رمی کرلی، تو اس کے لیے سبھی چیزیں حلال ہوگئیں سوائے عورت کے، پوچھا گیا : اور خوشبو ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں خوشبو بھی، میں نے رسول اللہ ﷺ کو مشک ملتے ہوئے دیکھا، کیا وہ خوشبو ہے ؟ (اگر خوشبو ہے تو خوشبو بھی حلال ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٧٠ (٣٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٩٧) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٣٤٤، ٣٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3084