24. جہاد سے متعلقہ احادیث

【1】

جہاد کی فرضیت

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر (رض) نے کہا : انہوں نے اپنے نبی کو نکال دیا إنا لله وإنا إليه راجعون یہ لوگ ضرور ہلاک ہوجائیں گے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی ‏أذن للذين يقاتلون بأنهم ظلموا وإن اللہ على نصرهم لقدير جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔ (الحج : ٣٩ ) تو میں نے سمجھ لیا کہ اب جنگ ہوگی۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : یہ پہلی آیت ہے جو جنگ کے بارے میں اتری ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیرالحج (٣١٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٦١٨) ، مسند احمد (١/٢١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3085

【2】

جہاد کی فرضیت

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رض) اور ان کے کچھ دوست نبی اکرم ﷺ کے پاس جب آپ مکہ میں تشریف فرما تھے آئے، اور انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! جب ہم مشرک تھے عزت سے تھے، اور جب سے ایمان لے آئے ذلیل و حقیر ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : مجھے عفو و درگزر کا حکم ملا ہوا ہے۔ تو (جب تک لڑائی کا حکم نہ مل جائے) لڑائی نہ کرو ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدینہ بھیج دیا، اور ہمیں جنگ کا حکم دے دیا۔ تو لوگ (بجائے اس کے کہ خوش ہوتے) باز رہے (ہچکچائے، ڈرے) تب اللہ تعالیٰ نے آیت : ألم تر إلى الذين قيل لهم کفوا أيديكم وأقيموا الصلاة کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور نمازیں پڑھتے رہو، اور زکاۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے : اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی ؟ آپ کہہ دیجئیے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا (النساء : ٧٧ ) اخیر تک نازل فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦١٧١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3086

【3】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے جامع کلمات ١ ؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب ٢ ؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (اس دنیا سے) رخصت ہوگئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد (٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨١، ١٣٣٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٢٢ (٢٩٧٧) ، والتعبیر ١١ (٦٩٩٨) ، ٢٢ (٧٠١٣) ، والاعتصام ١ (٧٢٧٣) ، مسند احمد (٢/٢٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جامع کلمات یعنی قرآن و حدیث جن کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی بہت، جوامع الکلم میں صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے، اس سے مراد الکلم الجامع ۃ ہے۔ ٢ ؎: یعنی ایسے دبدبہ و دھاک سے کی گئی ہے جس سے بلا کسی عادی سبب کے دشمنوں کے دلوں میں خوف طاری ہوجاتا ہے۔ ٣ ؎: خزانوں سے مراد روم و ایران اور مصر و شام وغیرہ کی فتوحات اور وہاں کی دولت پر مسلمانوں کا تصرف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3087

【4】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میں جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہوں ١ ؎ اور میری مدد رعب و دبدبہ سے کی گئی ہے، مجھے سوتے میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں (اور پیش کرتے ہوئے) میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔ ابوہریرہ (رض) (اس کی وضاحت کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (اس دنیا سے) چلے گئے اور تم ان (خزانوں) سے فیض اٹھا رہے ہو۔ (انہیں نکال رہے اور خرچ کر رہے ہو ) تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد (٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مختصر فصیح و بلیغ کلمے جن میں الفاظ تو تھوڑے ہوں لیکن مفہوم و معانی سے بھرے ہوئے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3089

【5】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کہنے نہ لگ جائیں۔ تو جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کرلیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے ١ ؎، اور اس کا (آخری) حساب اللہ کے ذمہ ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، مسند احمد (٢/٣١٤، ٤٢٣، ٤٣٩، ٤٧٥، ٤٨٢، ٥٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسی صورت میں اس کی گردن ماری بھی جاسکتی ہے اور اس کا مال ضبط بھی کیا جاسکتا ہے۔ ٢ ؎: کس نے دکھانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور کون سچے دل سے اسلام لایا ہے، یہ اللہ ہی فیصلہ کرے گا، یہاں صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3090

【6】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور ابوبکر (رض) خلیفہ بنا دیئے گئے، اور عربوں میں سے جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہوگئے ١ ؎، تو عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں، تو جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کرلیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا (آخری) حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ، (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے لا إله إلا اللہ کے قائل ہیں) ابوبکر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، (یعنی نماز پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، (جس طرح نماز بدن کا حق ہے) قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ (عمر کہتے ہیں :) قسم اللہ کی اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے، اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دین حق سے مرتد ہوگیا، اور زکاۃ جو اس پر واجب تھی اس کی ادائیگی کا منکر ہو بیٹھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3091

【7】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے اور ابوبکر (رض) آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور عربوں میں جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہوگئے، عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں تو جس نے لا إله إلا اللہ کہہ لیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کرلیا (اب اس کی جان و مال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا (آخری) حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے لا إله إلا اللہ کے قائل ہیں) تو ابوبکر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی، میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، (یعنی نماز پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے (جس طرح نماز بدن کا) قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ (عمر (رض) کہتے ہیں :) قسم اللہ کی، اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ احمد کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3092

【8】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ابوبکر (رض) نے (لوگوں کو) ان (منکرین زکاۃ و مرتدین دین) سے جنگ کے لیے اکٹھا کیا۔ تو عمر (رض) نے کہا : آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں : مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں، اور جب انہوں نے یہ کلمہ کہہ لیا تو اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچا لیا۔ مگر اس کے حق کے بدلے (جان و مال پر جو حقوق لگا دیئے گئے ہیں اگر ان کی پاسداری نہ کرے گا تو سزا کا حقدار ہوگا۔ مثلاً قصاص و حدود ضمانت وغیرہ میں) ابوبکر (رض) نے فرمایا : میں تو ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ (دونوں فریضوں) میں فرق کرے گا۔ اور قسم اللہ کی اگر انہوں نے مجھے بکری کا ایک چھوٹا بچہ بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے۔ تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ عمر (رض) کہتے ہیں : قسم اللہ کی میں نے اچھی طرح جان لیا کہ ان (منحرفین) سے جنگ کے معاملہ میں ابوبکر (رض) کو پورے طور پر شرح صدر حاصل ہے۔ (تبھی وہ اتنے مستحکم اور فیصلہ کن انداز میں بات کر رہے ہیں) اور مجھے یقین آگیا کہ وہ حق پر ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3093

【9】

جہاد کی فرضیت

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ رحلت فرما گئے، تو عرب (دین اسلام سے) مرتد ہوگئے، عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ عربوں سے کیسے لڑائی لڑیں گے۔ ابوبکر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لوگ گواہی دینے لگیں کہ کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے لگیں، اور زکاۃ دینے لگیں، قسم اللہ کی، اگر انہوں نے ایک بکری کا چھوٹا بچہ دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں اس کی خاطر بھی ان سے لڑائی لڑوں گا۔ عمر (رض) کہتے ہیں : جب میں نے ابوبکر (رض) کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر حاصل ہے تو مجھے یقین ہوگیا کہ وہ حق پر ہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : عمران بن قطان حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس سے پہلے والی حدیث صحیح و درست ہے، زہری کی حدیث کا سلسلہ عن عبيد اللہ بن عبداللہ بن عتبة عن أبي هريرة‏ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٩) ، ویأتي عند المؤلف : ٣٩٧٤ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3094

【10】

جہاد کی فرضیت

اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی طرح مروی ہے وہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٣٤٦) ، مسند احمد (٢/٢٥٠، ٤٤٢) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3088

【11】

جہاد کی فرضیت

【12】

جہاد کی فرضیت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ لا إله إلا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں میں ان سے لڑوں تو جس نے اسے کہہ لیا (قبول کرلیا) تو اس نے مجھ سے اپنی جان و مال محفوظ کرلیا۔ اب ان پر صرف اسی وقت ہاتھ ڈالا جاسکے گا جب اس کا حق (وقت و نوبت) آجائے ١ ؎۔ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کرے گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٢ (٢٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥٢) ، و یأتي عند المؤلف : ٣٠٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً حد و قصاص و ضمان میں تو اس پر حد جاری کی جائے گی، قصاص لیا جائے گا اور اس سے مال دلایا جائے گا۔ ٢ ؎: کہ وہ ایمان خلوص دل سے لایا تھا یا صرف دکھاوے کے لیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3095

【13】

جہاد کی فرضیت

انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں، اپنے ہاتھوں، اور اپنی زبانوں کے ذریعہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٨ (٢٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : مسند احمد (٣/١٢٤، ١٥٣، ٢٥١) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٨ (٢٤٧٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣١٩٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مال اور ہاتھ سے جہاد کا مطلب بالکل واضح ہے، زبان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے جہاد کے فضائل بیان کئے جائیں، اور لوگوں کو اس پر ابھارنے کے ساتھ انہیں اس کی رغبت دلائی جائے۔ اور کفار کو اسلام کی زبان سے دعوت دی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3096

【14】

جہاد چھوڑ دینے پر وعید

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص مرگیا، اور اس نے جہاد نہیں کیا، اور نہ ہی جہاد کے بارے میں اس نے اپنے دل میں سوچا و ارادہ کیا ١ ؎، تو وہ ایک طرح سے نفاق پر مرا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة (٩١٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٨ (٢٥٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦٧) ، مسند احمد (٢/٣٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دل میں سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں مجاہد بننے کی تمنا کرے، اور ارادہ کا مطلب یہ ہے کہ جہاد سے متعلق ساز و سامان کے حصول کی کوشش اور اس کے لیے تیاری کرے۔ ٢ ؎: گویا وہ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے مشابہ ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3097

【15】

لشکر کے ساتھ نہ جانے کی اجازت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر بہت سے مسلمانوں کو مجھ سے پیچھے رہنا ناگوار نہ ہوتا اور میں ایسی چیز نہ پاتا جس پر انہیں سوار کر کے لے جاتا تو کسی ایسے فوجی دستے سے جو اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا ہو پیچھے نہ رہتا، (لیکن چونکہ مجبوری ہے اس لیے ایسے مجبور کے لیے فوجی دستے کے ساتھ نہ جانے کی رخصت ہے) اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھے پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٧ (٢٧٩٧) ، ١١٩ (٢٩٧٢) ، التمنی ١ (٧٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١ (٢٧٥٣) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٢٤٥، ٣٨٤، ٤٢٤، ٤٧٣، ٥٠٢) ویأتي عند المؤلف برقم ٣١٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3098

【16】

جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے

سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو بیٹھے دیکھا تو ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ زید بن ثابت (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر آیت : لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں ۔ (النساء : ٩٥ ) نازل ہوئی اور آپ اسے بول کر مجھ سے لکھوا رہے تھے کہ اسی دوران ابن ام مکتوم (رض) آگئے (وہ ایک نابینا صحابی تھے) انہوں نے (حسرت بھرے انداز میں) کہا : اگر میں جہاد کرسکتا تو ضرور کرتا (مگر میں اپنی آنکھوں سے مجبور ہوں) تو اس وقت اللہ تعالیٰ ٰ نے (کلام پاک کا یہ ٹکڑا) غير أولي الضرر نازل فرمایا۔ ضرر والے یعنی مجبور لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں اور (اس ٹکڑے کے نزول کے وقت کی صورت و کیفیت یہ تھی) کہ آپ ﷺ کی ران میری ران پر ٹکی ہوئی تھی۔ اس آیت کے نزول کا بوجھ مجھ پر (بھی) پڑا اور اتنا پڑا کہ مجھے خیال ہوا کہ میری ران ٹوٹ ہی جائے گی، پھر یہ کیفیت موقوف ہوگئی۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس روایت میں عبدالرحمٰن بن اسحاق ہیں ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جو نعمان بن سعد سے روایت کرتے ہیں ثقہ نہیں ہیں، اور عبدالرحمٰن بن اسحاق سے روایت کی ہے، علی بن مسہر، ابومعاویہ اور عبدالواحد بن زیاد روایت کرتے ہیں بواسطہ نعمان بن سعد جو ثقہ نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣١ (٢٨٣٢) ، وتفسیرسورة النساء ١٨ (٤٥٩٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٠ (٢٥٠٧) ، سنن الترمذی/تفسیرسورة النساء (٣٠٣٣) ، مسند احمد (٥/١٨٤، ١٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3099

【17】

جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے

زید بن ثابت رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بول کر لکھایا لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ (النساء : ٩٥ ) کہ اسی دوران ابن ام مکتوم (رض) آگئے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر میں جہاد کی استطاعت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا اور وہ ایک اندھے شخص تھے۔ تو اللہ نے اپنے رسول ﷺ پر آیت کا یہ حصہ غير أولي الضرر نازل فرمایا، (اس آیت کے اترتے وقت) آپ کی ران میری ران پر چڑھی ہوئی تھی اور (نبی اکرم ﷺ پر وحی کے نزول کے سبب) ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری ران چور چور ہوجائے گی، پھر وحی موقوف ہوگئی (تو وحی کا دباؤ و بوجھ بھی ختم ہوگیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3100

【18】

جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے

براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (فرمایا : کیا فرمایا ؟ وہ الفاظ راوی کو یاد نہیں رہے لیکن) وہ کچھ ایسے الفاظ تھے جن کے معنی یہ نکلتے تھے : شانے کی ہڈی، تختی (کچھ) لاؤ۔ (جب وہ آگئی تو اس پر لکھا یا) چناچہ (زید بن ثابت (رض) نے) لکھا : لا يستوي القاعدون من المؤمنين اور عمرو بن ام مکتوم (رض) آپ کے پیچھے موجود تھے۔ (وہ اندھے تھے۔ اسی مناسبت سے) انہوں نے کہا : کیا میرے لیے رخصت ہے ؟ (میں معذور ہوں، جہاد نہیں کر پاؤں گا) تب یہ آیت غير أولي الضرر ضرر، نقصان و کمی والے کو یعنی مجبور، معذور کو چھوڑ کر ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجہاد ١ (١٦٧٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٥٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣١ (٢٨٣١) ، وتفسیرسورة النساء ١٨ (٤٥٩٣) ، و فضائل القرآن ٤ (٤٩٩٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٠ (١٨٩٨) ، مسند احمد (٤/٢٨٣، ٢٩٠، ٣٣٠) ، سنن الدارمی/المناسک والجہاد ٢٨ (٢٤٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3101

【19】

جہاد نہ کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے۔

براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت : ‏لا يستوي القاعدون من المؤمنين اتری تو ابن ام مکتوم (رض) جو اندھے تھے آئے اور کہا : اللہ کے رسول ! میرے متعلق کیا حکم ہے ؟ (میں بیٹھا رہنا تو نہیں چاہتا) اور آنکھوں سے مجبور ہوں، (جہاد بھی نہیں کرسکتا) پھر تھوڑا ہی وقت گذرا تھا کہ یہ آیت : غير أولي الضرر نازل ہوئی (یعنی معذور لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٩٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3102

【20】

جس شخص کے والدین حیات ہوں اس کو گھر رہنے کی اجازت

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس جہاد میں شرکت کی اجازت لینے کے لیے آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا : کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں، تو آپ نے فرمایا : پھر تو تم انہیں دونوں کی خدمت کا ثواب حاصل کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٣٨ (٣٠٠٤) ، الأدب ٣ (٥٩٧٢) ، صحیح مسلم/البر ١ (٢٥٤٩) ، سنن ابی داود/الجہاد ٣٣ (٢٥٢٩) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢ (١٦٧١) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٣٤) ، مسند احمد (٢/١٦٥، ١٧٢، ١٨٨، ١٩٧، ٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان دونوں کی خدمت کر کے ان کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو تمہارے لیے یہی جہاد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3103

【21】

جس کی صرف والدہ زندہ ہو اس کے لئے اجازت

معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ جاہمہ (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ ﷺ نے (ان سے) پوچھا : کیا تمہاری ماں موجود ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٢ (٢٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٥) ، مسند احمد (٣/٤٢٩) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جنت کی حصول یابی ماں کی رضا مندی اور خوشنودی کے بغیر ممکن نہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3104

【22】

جان و مال سے جہاد کرنے والے کے بارے میں احادیث

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور کہا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : افضل وہ ہے جو اللہ کے راستے میں جان و مال سے جہاد کرے ، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : پھر وہ مومن جو پہاڑوں کی کسی گھاٹی میں رہتا ہو، اللہ سے ڈرتا ہو، اور لوگوں کو (ان سے دور رہ کر) اپنے شر سے بچاتا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢٤ (٢٧٨٦) ، الرقاق ٣٤ (٦٤٩٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٤ (١٨٨٨) ، سنن ابی داود/الجہاد ٥ (٢٤٨٥) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٤ (١٦٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٣٩٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥١) ، مسند احمد (٣/١٦، ٣٧، ٥٦، ٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3105

【23】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے سال رسول اللہ ﷺ اپنی سواری سے پیٹھ لگائے خطبہ دے رہے تھے، آپ نے کہا : کیا میں تمہیں اچھے آدمی اور برے آدمی کی پہچان نہ بتاؤں ؟ بہترین آدمی وہ ہے جو پوری زندگی اللہ کے راستے میں گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو کر یا اپنے قدموں سے چل کر کام کرے۔ اور لوگوں میں برا وہ فاجر شخص ہے جو کتاب اللہ (قرآن) تو پڑھتا ہے لیکن کتاب اللہ (قرآن) کی کسی چیز کا خیال نہیں کرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٤١٢) ، مسند احمد (٣/٣٧، ٤١، ٥٧) (ضعیف الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: نہ اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، اور نہ ہی منہیات سے باز رہتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3106

【24】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے خوف سے رونے والے کو جہنم کی آگ اس وقت تک لقمہ نہیں بنا سکتی جب تک کہ (تھن سے نکلا ہوا) دودھ تھن میں واپس نہ پہنچا دیا جائے ١ ؎، اور کسی مسلمان کے نتھنے میں جہاد کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٨ (١٦٣٣) ، والزہد ٨ (٢٣١١) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٩ (٢٧٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨٥) ، مسند احمد (٢/٢٩٨، ٤٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ کبھی دودھ تھن میں پہنچایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا کبھی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ ٢ ؎: یعنی مجاہد فی سبیل اللہ جنت ہی میں جائے گا جہنم میں نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3107

【25】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کے خوف سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے ١ ؎، اور اللہ کے راستے کا گرد و غبار اور جہنم کی آگ کا دھواں اکٹھا نہیں ہوسکتے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ کبھی دودھ تھن میں واپس ہوگا اور نہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا کبھی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ ٢ ؎: یعنی اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنے والا جہنم میں نہ جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3108

【26】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان جس نے کسی کافر کو قتل کردیا، اور آخر تک ایمان و عقیدہ اور عمل کی درستگی پر قائم رہا تو وہ دونوں (یعنی مومن قاتل اور کافر مقتول) جہنم میں اکٹھا نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ہی کسی مومن کے سینے میں اللہ کے راستے کا گردوغبار اور جہنم کی آگ کی لپٹ و حرارت اکٹھا ہوں گے ١ ؎، اور کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٧٤٩) ، مسند احمد (٢/٣٤٠، ٣٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جہنم کی آگ کی لپٹ مجاہد کو نہیں چھو سکتی کیونکہ اس کا مقام جنت ہے۔ ٢ ؎: یعنی مومن کامل حاسد نہیں ہوسکتا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3109

【27】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں دونوں کسی بندے کے سینے میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے اور بخل اور ایمان یہ دونوں بھی کسی بندے کے دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٢٦٢) ، مسند احمد (٢/٢٥٦، ٣٤٢، ٤٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پکا مومن ہوگا تو وہ تنگ دل و بخیل نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3110

【28】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی آدمی کے چہرے پر اللہ کے راستے (یعنی جہاد) میں نکلنے کی گرد اور جہنم کی آگ دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے، اور بخل اور ایمان کبھی کسی بندے کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو شخص صحیح معنی میں مومن ہوگا وہ بخیل نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3111

【29】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد کی گرد اور جہنم کا دھواں دونوں کسی بندے کے سینے میں جمع نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی کسی بندے کے سینے میں بخل اور ایمان اکٹھا ہوسکتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3112

【30】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومن کے نتھنے میں اللہ کے راستے کا غبار، اور جہنم کا دھواں کبھی بھی جمع نہیں ہوسکتے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3113

【31】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں دونوں مومن کے نتھنے میں جمع نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی کسی مسلمان کے نتھنے میں بخل اور ایمان اکٹھا ہوسکتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نہ بخیل کامل مومن ہوسکتا ہے، اور نہ ہی کامل مومن بخیل ہوسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3114

【32】

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی مسلمان شخص کے پیٹ میں اللہ عزوجل اکٹھا نہ کرے گا، اور نہ ہی کسی مسلمان کے دل میں اللہ پر ایمان اور بخالت (کنجوسی) کو اللہ تعالیٰ ایک ساتھ جمع کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3115

【33】

جس آدمی کے پاؤں پر راہ اللہ میں جہاد کا غبار پڑا ہو

یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے جا رہا تھا کہ (راستے میں) مجھے عبایہ بن رافع ملے، کہا : خوش ہوجاؤ! آپ کے یہ قدم اللہ کے راستے میں اٹھ رہے ہیں (کیونکہ) میں نے ابوعبس بن جبر انصاری (رض) کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے دونوں قدم اللہ کے راستے میں گرد آلود ہوجائیں تو وہ آگ یعنی جہنم کے لیے حرام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٨ (٩٠٧) ، الجہاد ١٦ (٢٨١١) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٧ (١٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٩٢) ، مسند احمد (٣/٤٧٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا، اللہ کرے ایسا ہی ہو، انہوں نے جمعہ کے لیے نکلنے کو بھی فی سبیل اللہ میں شامل فرمایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3116

【34】

جہاد میں رات میں جاگنے والی آنکھ کا اجر و ثواب

ابوریحانہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو آنکھ اللہ کے راستے میں جاگی ہو وہ آنکھ جہنم پر حرام ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٠) ، مسند احمد (٤/١٣٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ١١ (٢٤٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسی آنکھ والا جہنم میں نہ جائے گا بلکہ جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3117

【35】

جہاد کے واسطے صبح کے وقت کی فضیلت سے متعلق

سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے یعنی جہاد میں صبح یا شام (کسی وقت بھی نکلنا) دنیا وما فیہا سے افضل و بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٥ (٢٧٩٤) ، ٧٣ (٢٨٩٢) ، والرقاق ٢ (٦٤١٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٠ (١٨٨١) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٨٢) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٧ (١٦٤٨) ، ٢٦ (١٦٦٤) ، مسند احمد (٣/٤٣٣ و ٥/٣٣٥، ٣٣٧، ٣٣٩) ، سنن الدارمی/الجہاد ٩ (٢٤٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3118

【36】

بوقت شام جہاد کرنے کے واسطے فضیلت سے متعلق

ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد میں صبح کو نکلنا ہو، یا شام کے وقت یہ کائنات کی ان تمام چیزوں سے افضل و برتر ہے جن پر سورج نکلتا اور ڈوبتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٠ (١٨٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٦) ، مسند احمد (٥/٤٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3119

【37】

بوقت شام جہاد کرنے کے واسطے فضیلت سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین طرح کے لوگ ہیں جن کی مدد اللہ تعالیٰ پر حق اور واجب ہے، (ایک) اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا (دوسرا) ایسا نکاح کرنے والا، جو نکاح کے ذریعہ پاکدامنی کی زندگی گزارنا چاہتا ہو (تیسرا) وہ مکاتب ١ ؎ جو مکاتبت کی رقم ادا کر کے آزاد ہوجانے کی کوشش کر رہا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٠ (١٦٥٥) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٣ (٢٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٣٩) ، ویأتی عند المؤلف فی النکاح ٥ (برقم ٣٢٢٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مکاتب ایسا غلام ہے جو اپنی ذات کی آزادی کی خاطر مالک کیلئے کچھ قیمت متعین کر دے، قیمت کی ادائیگی کے بعد وہ آزاد ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3120

【38】

مجاہدین اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے وفد ہیں

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے وفد میں تین (طرح کے لوگ شامل) ہیں (ایک) مجاہد (دوسرا) حاجی، (تیسرا) عمرہ کرنے والا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وانظر حدیث رقم : ٢٦٢٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ تینوں اللہ کے مقرب ہیں اور اس کے ایلچی کا درجہ رکھتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3121

【39】

خداوند قدوس مجاہد کی جن چیزوں کی کفالت کرتا ہے اس سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اپنی راہ کے مجاہد کا کفیل و ضامن ہے جو خالص جہاد ہی کی نیت سے گھر سے نکلتا ہے، اور اس ایمان و یقین کے ساتھ نکلتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ اسے (شہید کا درجہ دے کر) جنت میں داخل فرمائے گا یا پھر اسے ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس کے اس ٹھکانے پر واپس لائے گا، جہاں سے نکل کر وہ جہاد میں شریک ہوا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٦ (٣٦) ، الجہاد ٢ (٢٧٨٧) ، فرض الخمس ٨ (٣١٢٣) ، التوحید ٢٨ (٦٤٥٧) ، ٣٠ (٧٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١ (٢٧٥٣) ، موطا امام مالک/الجہاد ١ (٢) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٣٨٤، ٣٩٩، ٤٩٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢ (٢٤٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3122

【40】

خداوند قدوس مجاہد کی جن چیزوں کی کفالت کرتا ہے اس سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اس کے راستے میں نکلتا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کا یہ نکلنا محض اللہ پر اپنے ایمان کے تقاضے، اور اس کے راستے میں جہاد کے جذبے سے ہے (تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو) اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا چاہے وہ قتل ہو کر مرا ہو، یا اپنی فطری موت پائی ہو، یا میں اسے اس اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو، اور جو بھی ملا ہو، اس کے اپنے اس گھر پر واپس پہنچا دوں گا جہاں سے وہ جہاد کے لیے نکلا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٢١١) ، مسند احمد (٢/٤٩٤، ویأتي عند المؤلف ٥٠٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3123

【41】

خداوند قدوس مجاہد کی جن چیزوں کی کفالت کرتا ہے اس سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال (اور اللہ کو معلوم ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے) دن بھر روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے ذمہ لیا ہے کہ اسے موت دے گا، تو اسے جنت میں داخل کرے گا یا (موت نہیں دے گا تو) صحیح و سالم حالت میں اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے حاصل ہوا ہے اسے واپس اس کے گھر بھیج دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢ (٢٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3124

【42】

ان مجاہدین کے متعلق جنہیں مال غنیمت نہ مل سکے

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں، اور مال غنیمت پاتے ہیں، تو وہ اپنی آخرت کے اجر کا دو حصہ پہلے پالیتے ہیں ١ ؎، اور آخرت میں پانے کے لیے صرف ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے، اور اگر غنیمت نہیں پاتے ہیں تو ان کا پورا اجر (آخرت میں) محفوظ رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٤ (١٩٠٦) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٣ (٢٤٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد (٢٧٨٥) ، مسند احمد ٢/١٦٢٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مفہوم یہ ہے کہ جو مجاہد کفار سے جہاد کر کے مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس لوٹ آیا تو سردست اسے دو فائدے دنیا میں حاصل ہوگئے ایک سلامتی دوسرا مال غنیمت اور اللہ کے دشمنوں سے اس نے جہاد کا جو ارادہ کیا تھا اس کے سبب اسے اس کے اجر کا تیسرا حصہ آخرت میں ثواب کی شکل میں ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3125

【43】

ان مجاہدین کے متعلق جنہیں مال غنیمت نہ مل سکے

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک حدیث قدسی میں اپنے رب سے نقل فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ میری رضا چاہتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا تو میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اگر میں اس کو لوٹاؤں گا (یعنی زندہ واپس گھر بھیجوں گا) تو لوٹاؤں گا اجر و ثواب اور غنیمت دے کر اور اگر اس کی روح قبض کرلوں گا تو اس کو بخش دوں گا اور اسے اپنی رحمت سے نوازوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٦٨٨) ، مسند احمد (٢/١١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3126

【44】

جہاد کرنے والے کی مثال کا بیان

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے (اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس کے راستے میں (واقعی) جہاد کرنے والا کون ہے) ۔ اس کی مثال مسلسل روزے رکھنے والے، نمازیں پڑھنے والے، اللہ سے ڈرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے کی سی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٣٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢ (٢٧٨٧) إلی قولہ : ” القائم “ ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٩ (١٨٧٨) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١ (١٦١٩) (کلاہما فی سیاق الحدیث الآتی) ما : الجہاد ١ (١) ، مسند احمد (٢/٤٢٤، ٤٣٨، ٤٥٩، ٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جتنے وقت تک مجاہد جہاد میں مشغول رہے اتنا ہی وقت تک نماز پڑھنے والا، اللہ سے ڈرنے والا، رکوع اور سجدہ کرنے والا جس ثواب عظیم کا مستحق ہے اسی ثواب عظیم کا مستحق وہ مجاہد بھی ہے جس خالص نیت سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3127

【45】

کونسا عمل جہاد کے برابر ہے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، پھر اس نے کہا : مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو جہاد کے برابر ہو (یعنی وہی درجہ رکھتا ہو) آپ نے فرمایا : میں نہیں پاتا کہ تو وہ کرسکے گا، جب مجاہد جہاد کے لیے (گھر سے) نکلے تو تم مسجد میں داخل ہوجاؤ، اور کھڑے ہو کر نمازیں پڑھنی شروع کرو (اور پڑھتے ہی رہو) پڑھنے میں کوتاہی نہ کرو، اور روزے رکھو (رکھتے جاؤ) افطار نہ کرو ، اس نے کہا یہ کون کرسکتا ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١ (٢٧٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٤٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٩ (١٨٧٨) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١ (١٦١٩) ، مسند احمد (٢/٣٤٤، ٤٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کوئی نہیں کرسکتا ہے، معلوم ہوا کہ مجاہد جس درجہ پر فائز ہے اس تک کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3128

【46】

کونسا عمل جہاد کے برابر ہے؟

ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٢ (٢٥١٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٤) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٤ (٢٥٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٤) ، مسند احمد (٥/١٥٠، ١٦٣، ١٧١، سنن الدارمی/الرقاق ٢٨ (٢٧٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3129

【47】

کونسا عمل جہاد کے برابر ہے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا ، اس نے کہا : پھر کون سا عمل ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ، اس نے کہا : پھر کون سا عمل ؟ آپ نے فرمایا : ایسا حج جو اللہ کے نزدیک قبول ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3130

【48】

مجاہد کے (بلند) درجے کا بیان

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ابوسعید ! جو شخص راضی ہوگیا اللہ کے رب ١ ؎ ہونے پر اور اسلام کو بطور دین قبول کرلیا ٢ ؎ اور محمد ﷺ کی نبوت ٣ ؎ کا اقرار کرلیا، تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئی ٤ ؎، (راوی کہتے ہیں) یہ کلمات ابوسعید کو بہت بھلے لگے۔ (چنانچہ) عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کلمات کو آپ مجھے ذرا دوبارہ سنا دیجئیے، تو آپ نے دہرا دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لیکن جنت میں بندے کو سو درجوں کی بلندی تک پہنچانے کے لیے ایک دوسری عبادت بھی ہے (اور درجے بھی کیسے ؟ ) ایک درجہ کا فاصلہ دوسرے درجے سے اتنا ہے جتنا فاصلہ آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا : یہ دوسری عبادت کیا ہے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : (یہ دوسری عبادت) اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣١ (١٨٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٢) ، مسند احمد (٣/١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: رب اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا، بغیر اضافت کے اس کا استعمال اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں، اور اسی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ آدمی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، کیونکہ وہی برتر و بالا مقدس ذات عبادت کی مستحق ہے یہاں رب ماننے کا معنی و مطلب اس رب کے لیے ہر طرح کی عبادت کو خاص کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ کو کائنات کے خالق ومالک ماننے اور اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنے میں مشرکین عرب و غیر عرب کو اعتراض نہ تھا، ان کا اصل مرض یہی تھا کہ وہ اللہ کو رب اور خالق ومالک مانتے ہوئے اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ ٢ ؎: اسلام کو بطور دین تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے طریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اپنی زندگی میں نہ اپنائے۔ ٣ ؎: محمد ﷺ کو نبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے اوامرو نواہی کو ہر چیز پر مقدم رکھے۔ اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ کے حکم کو بغیر کسی بحث و اعتراض کے قبول کرے۔ ٤ ؎: بشرطیکہ اس نے شرک، بدعات کی ان میں آمیزش نہ کی ہو اور بدعملی کا شکار نہ ہوا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3131

【49】

مجاہد کے (بلند) درجے کا بیان

ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز قائم کی اور زکاۃ دی، اور اللہ کے ساتھ کسی طرح کا شرک کئے بغیر مرا تو چاہے ہجرت کر کے مرا ہو یا (بلا ہجرت کے) اپنے وطن میں مرا ہو، اللہ پر اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اللہ اسے بخش دے، ہم صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم یہ خبر لوگوں کو نہ پہنچا دیں جسے سن کر لوگ خوش ہوجائیں ؟ آپ نے فرمایا : جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجے کے درمیان آسمان و زمین اتنا فاصلہ ہے، اور یہ درجے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے بنائے ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں مسلمانوں کو مشکل و مشقت میں ڈال دوں گا اور انہیں سوار کرا کے لے جانے کے لیے سواری نہ پاؤں گا اور میرے بعد میرا ساتھ چھوٹ جانے کی انہیں ناگواری اور تکلیف ہوگی تو میں کسی سریہ (فوجی دستے) کے ساتھ جانے سے بھی نہ چوکتا اور میں تو پسند کرتا اور چاہتا ہوں کہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، اور پھر قتل کیا جاؤں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٩٤٣) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح میں بلند سے بلند تر جنت کا درجہ و مرتبہ حاصل کرسکوں گا تو تم بھی صرف جنت میں چلے جانے کو کافی نہ سمجھو بلکہ بلند سے بلند درجے حاصل کرنے کی کوشش کرو، گویا مغفرت کے لیے ایمان کافی تو ہے لیکن جنت میں ترقی درجات جہاد پر موقوف ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3132

【50】

جو کوئی اسلام قبول کرے اور جہاد کرے ایسے شخص کا ثواب

فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو مجھ پر ایمان لایا، اور میری اطاعت کی، اور ہجرت کی، تو میں اس کے لیے جنت کے احاطے (فصیل) میں ایک گھر اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا ذمہ لیتا ہوں۔ اور میں اس شخص کے لیے بھی جو مجھ پر دل سے ایمان لائے، اور میری اطاعت کرے، اور اللہ کے راستے میں جہاد کرے ضمانت لیتا ہوں جنت کے گرد و نواح میں (فصیل کے اندر) ایک گھر کا، اور جنت کے وسط میں ایک گھر کا اور جنت کے بلند بالا خانوں (منزلوں) میں سے بھی ایک گھر (اونچی منزل) کا۔ جس نے یہ سب کیا (یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد) اس نے خیر کے طلب کی کوئی جگہ نہ چھوڑی ا ؎ اور نہ ہی شر سے بچنے کی کوئی جگہ ٢ ؎ جہاں مرنا چاہے مرے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٠٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی خیر کے طلب کے لیے کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں وہ پہنچا نہ ہو۔ ٢ ؎: یعنی شر سے اپنے آپ کو بچانے اور اس سے محفوظ رکھنے کے لیے شر کی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سے اس نے اپنے آپ کو دور نہ رکھا ہو۔ ٣ ؎: یعنی ہر طرح کا خیر اس نے حاصل کرلیا ہے، اور ہر طرح کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے، اب اس کے لیے فکر و غم کی کوئی بات نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3133

【51】

جو کوئی اسلام قبول کرے اور جہاد کرے ایسے شخص کا ثواب

سبرہ بن ابی فاکہہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : شیطان ابن آدم کو بہکانے کے لیے اس کے راستوں میں بیٹھا۔ کبھی وہ اسلام کے راستہ سے سامنے آیا۔ کہا : تم اسلام لاتے ہو ؟ اپنے دین کو، اپنے باپ کے دین کو اور اپنے دادا کے دین کو چھوڑ رہا ہے ؟ (یہ اچھی بات نہیں) لیکن انسان نے اس کی بات نہیں مانی اور اسلام لے آیا۔ پھر وہ ہجرت کے راستے سے اسے بہکانے کے لیے بیٹھا۔ کہا : تم ہجرت کر رہے ہو ؟ تم اپنی زمین اور اپنا آسمان چھوڑ کر جا رہے ہو، مہاجر کی مثال لمبی رسی میں بندھے گھوڑے کی مثال ہے (جو رسی کے دائرے سے باہر کہیں آ جا نہیں سکتا) ، لیکن اس نے اس کی بات نہیں مانی (اس کے بہکانے میں نہیں آیا) اور ہجرت کی۔ پھر وہ انسان کو جہاد کے راستے سے بہکانے کے لیے بیٹھا۔ کہا : تم جہاد کرتے ہو ؟ یہ تو جان و مال کو کھپا دینا اور ضائع کردینا ہے۔ تم جہاد کرو گے تو قتل کردیئے جاؤ گے۔ تمہاری بیوی کی شادی کردی جائے گی، اور تمہارا مال بانٹ دیا جائے گا۔ لیکن اس نے اس کی بات نہیں مانی اور جہاد کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایسا کیا اس کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اسے (اپنی رحمت سے) جنت میں داخل فرمائے، اور جو شخص (اس راہ میں) شہید ہوگیا اللہ تعالیٰ پر ایک طرح سے واجب ہوگیا کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے، اگر وہ (اس راہ میں) ڈوب گیا تو اسے بھی جنت میں داخل کرنا اللہ پر اس کا حق بنتا ہے، اگر اسے اس کی سواری گرا کر ہلاک کر دے تو بھی اللہ تعالیٰ پر اس کا حق بنتا ہے کہ اسے بھی (اپنے فضل و کرم سے) جنت میں داخل فرمائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٨٠٨) ، مسند احمد (٣/٤٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3134

【52】

جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا دے

ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں جوڑا دے ١ ؎، جنت میں (اسے مخاطب کر کے) کہا جائے گا : اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز۔ تو جو کوئی نمازی ہوگا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی مجاہد ہوگا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی صدقہ و خیرات دینے والا ہوگا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا، اور جو کوئی اہل صیام میں سے ہوگا اسے باب ریان (سیراب و شاداب دروازہ) سے بلایا جائے گا ۔ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! اس کی کوئی ضرورت و حاجت نہیں کہ کسی کو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے ٢ ؎ کیا کوئی ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو چیز بھی اللہ کے راستے میں دیتا ہے تو دینے والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جوڑا کی شکل میں دے، یا جوڑا سے مراد نیک عمل کی تکرار ہے۔ ٢ ؎: کیونکہ جنت میں داخل ہونے کا مقصد تو صرف ایک دروازے سے دخول کی اجازت ہی سے حاصل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3135

【53】

اس مجاہد کا بیان جو کہ نام الہی بلند کرنے کے واسطے جہاد کرے

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : آدمی لڑتا ہے تاکہ اس کا ذکر اور چرچا ہو ١ ؎، لڑتا ہے تاکہ مال غنیمت حاصل کرے، لڑتا ہے تاکہ اللہ کے راستے میں لڑنے والوں میں اس کا مقام و مرتبہ جانا پہچانا جائے تو کس لڑنے والے کو اللہ کے راستے کا مجاہد کہیں گے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے راستے کا مجاہد اسے کہیں گے جو اللہ کا کلمہ ٢ ؎ بلند کرنے کے لیے لڑے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٥ (٢١٨٣) ، الجہاد ١٥ (٢٨١٠) ، الخمس ١٠ (٣١٢٦) ، التوحید ٢٨ (٧٤٥٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٢ (١٩٠٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢٦ (٢٥١٨) ، سنن الترمذی/فضائل ١٦ (١٦٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٣ (٢٧٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٩) ، مسند احمد (٤/٣٩٢، ٣٩٧، ٤٠١، ٤٠٢، ٤٠٥، ٤١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ریاکاری کے ساتھ لڑتا ہے تاکہ لوگوں میں اپنی بہادری کی وجہ سے جانا اور پہچانا جائے۔ ٢ ؎: یعنی اس کے دین کی بلندی کے لیے لڑے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3136

【54】

اس شخص کا بیان جو کہ بہادر کہلانے کے واسطے جہاد کرے

سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) (کی مجلس) سے لوگ جدا ہونے لگے، تو اہل شام میں سے ایک شخص نے ابوہریرہ (رض) سے کہا : شیخ ! رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی کوئی حدیث مجھ سے بیان کیجئے، کہا : ہاں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : قیامت کے دن پہلے پہل جن لوگوں کا فیصلہ ہوگا، وہ تین (طرح کے لوگ) ہوں گے، ایک وہ ہوگا جو شہید کردیا گیا ہوگا، اسے لا کر پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی (ان) نعمتوں کی پہچان کروائے گا (جو نعمتیں اس نے انہیں عطا کی تھیں) ۔ وہ انہیں پہچان (اور تسلیم کر) لے گا۔ اللہ (اس) سے کہے گا : یہ ساری نعمتیں جو ہم نے تجھے دی تھیں ان میں تم نے کیا کیا وہ کہے گا : میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ میں شہید کردیا گیا۔ اللہ فرمائے گا : تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بلکہ تو اس لیے لڑاتا کہ کہا جائے کہ فلاں تو بڑا بہادر ہے چناچہ تجھے ایسا کہا گیا ١ ؎، پھر حکم دیا جائے گا : اسے لے جاؤ تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کرلے جایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایک وہ ہوگا جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ (اس سے) کہے گا : ان نعمتوں کا تو نے کیا کیا ؟ وہ کہے گا : میں نے علم سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا اور تیرے واسطے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا : تو نے جھوٹ اور غلط کہا تو نے تو علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے چناچہ تجھے کہا گیا۔ پھر اسے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چناچہ چہرے کے بل گھسیٹ کر اسے لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔ ایک اور شخص ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وسعت دی ہوگی طرح طرح کے مال و متاع دیئے ہوں گے اسے حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ (اس سے) کہے گا : ان کے شکریہ میں تو نے کیا کیا وہ کہے گا : اے رب ! میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہے کہ وہاں خرچ کیا جائے۔ مگر میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ بکتا ہے، تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تیرے متعلق کہا جائے کہ تو بڑا سخی اور فیاض آدمی ہے چناچہ تجھے کہا گیا، اسے یہاں سے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چناچہ چہرے کے بل گھسیٹتا ہوا اسے لے جایا جائے گا۔ اور لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں تحب (کا مفہوم) جیسا میں چاہتا تھا سمجھ نہ سکا لیکن جو میں نے سمجھا وہ یہ ہے کہ استاذ نے تحب کے آگے أن ينفق فيها کہا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٣ (١٩٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٢) ، مسند احمد (٢/٣٢٢، ٣٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تیری جرأت و بہادری کی دنیا میں بڑی تعریفیں ہوئیں اور بڑا چرچا رہا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3137

【55】

جس شخص نے راہ اللہ میں جہاد تو کیا لیکن اس نے صرف ایک رسی حاصل کرنے کی نیت کی

عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، اور کسی اور چیز کی نہیں صرف ایک عقال (اونٹ کی ٹانگیں باندھنے کی رسی) کی نیت رکھی تو اس کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥١٢٠) ، مسند احمد (٥/٣١٥، ٣٢٠، ٣٢٩) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٤ (٢٤٦٠) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ اس کی نیت خالص نہ تھی اس لیے وہ ثواب سے بھی محروم رہے گا، رسی ایک معمولی چیز ہے اس کے حصول کی نیت سے انسان اگر ثواب سے محروم ہوسکتا ہے، تو دین کا کام کرنے والا اگر کسی بڑی چیز کے حصول کی نیت کرے، اور اللہ کی رضا مندی مطلوب نہ ہو تو اس کا کیا حال ہوگا !۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3138

【56】

جس شخص نے راہ اللہ میں جہاد تو کیا لیکن اس نے صرف ایک رسی حاصل کرنے کی نیت کی

عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جہاد کیا اور اس نے (مال غنیمت میں) صرف عقال (یعنی ایک معمولی چیز) حاصل کرنے کا ارادہ کیا، تو اسے وہی چیز ملے گی جس کا اس نے ارادہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٤٠ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مزید اسے اور کوئی چیز از روئے ثواب بشکل انعام و اکرام جنت میں حاصل نہ ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3139

【57】

اس غزوہ کرنے والے شخص کا بیان جو کہ مزدوری اور شہرت حاصل کرنے کی تمنا رکھے

ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا : آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو جہاد کرتا ہے، اور جہاد کی اجرت و مزدوری چاہتا ہے، اور شہرت و ناموری کا خواہشمند ہے، اسے کیا ملے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے کچھ نہیں ہے ١ ؎۔ اس نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی۔ اور رسول اللہ ﷺ اس سے یہی فرماتے رہے کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو، اور اس سے اللہ کی رضا مقصود و مطلوب ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٨١) ، مسند احمد (٤/١٢٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ اس کی نیت خالص نہیں تھی اس لیے وہ ثواب سے محروم رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3140

【58】

جو شخص راہ اللہ میں اونٹنی کے دوبارہ دودھ اتارنے تک جہاد کرے اس کا جرو ثواب

معاذ بن جبل رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو (مسلمان) شخص اونٹنی دوہنے کے وقت مٹھی بند کرنے اور کھولنے کے درمیان کے وقفہ کے برابر بھی (یعنی ذرا سی دیر کے لیے) اللہ کے راستے میں جہاد کرے، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ اور جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے اپنی شہادت کی دعا کرے، پھر وہ مرجائے یا قتل کردیا جائے تو (دونوں ہی صورتوں میں) اسے شہید کا اجر ملے گا، اور جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوجائے یا کسی مصیبت میں مبتلا کردیا جائے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم کا رنگ (زخمی ہونے کے وقت) جیسا کچھ تھا، اس سے بھی زیادہ گہرا و نمایاں ہوگا، رنگ زعفران کی طرح اور (اس کا زخم بدنما و بدبودار نہ ہوگا بلکہ اس کی) خوشبو مشک کی ہوگی، اور جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوا اس پر شہداء کی مہر ہوگی ١ ؎۔ ١ ؎: یعنی اس کا شمار شہیدوں میں ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٤٢ (٢٥٤١) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٩ (١٦٥٤) مختصرا، ٢١ (١٦٥٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٢٧٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٥٩) ، مسند احمد (٥/٢٣٠، ٢٣٥، ٢٤٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ٥ (٢٤٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3141

【59】

راہ خداوندی میں تیر پھینکنے والوں سے متعلق

عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے کرتے) بوڑھا ہوگیا، تو یہ چیز قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گی، اور جس نے اللہ کے راستے میں ایک تیر بھی چلایا خواہ دشمن کو لگا ہو یا نہ لگا ہو تو یہ چیز اس کے لیے ایک غلام آزاد کرنے کے درجہ میں ہوگی۔ اور جس نے ایک مومن غلام آزاد کیا تو یہ آزاد کرنا اس کے ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات دلانے کا فدیہ بنے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٦) ، سنن ابی داود/العتق ١٤ (٣٩٦٦) (قولہ ” من أعتق “ الخ فحسب) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٩ (١٦٣٥) (إلی قولہ : ” نورا یوم القیامة “ )، مسند احمد (٤/١١٢، ٣٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3142

【60】

راہ خداوندی میں تیر پھینکنے والوں سے متعلق

ابونجیح سلمی (عمرو بن عبسہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص اللہ کے راستے میں ایک تیر لے کر پہنچا، تو وہ اس کے لیے جنت میں ایک درجہ کا باعث بنا تو اس دن میں نے سولہ تیر پہنچائے، راوی کہتے ہیں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تو (اس کا) یہ تیر چلانا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ١٤ (٣٩٦٥) مطولا، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١١ (١٦٣٨) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٨) ، مسند احمد (٤/١١٣، ٣٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3143

【61】

راہ خداوندی میں تیر پھینکنے والوں سے متعلق

شرحبیل بن سمط سے روایت ہے کہ انہوں نے کعب بن مرہ (رض) سے کہا : کعب ! ہم سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کیجئے، لیکن دیکھئیے اس میں کوئی کمی و بیشی اور فرق نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا : میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جو مسلمان اسلام پر قائم رہتے ہوئے اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوا تو قیامت کے دن یہی چیز اس کے لیے نور بن جائے گی ، انہوں نے (پھر) ان سے کہا : ہم سے نبی اکرم ﷺ کی (کوئی اور) حدیث بیان کیجئے، لیکن (ڈر کر اور بچ کر) بےکم وکاست (سنائیے) ۔ انہوں نے کہا : میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : (دشمن کو) تیر مارو، جس کا تیر دشمن کو لگ گیا تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا ، (یہ سن کر) ابن النحام نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ درجہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : (سن) وہ تمہاری ماں کی چوکھٹ نہیں ہے (جس کا فاصلہ بہت کم ہے) بلکہ ایک درجہ سے لے کر دوسرے درجہ کے درمیان سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ١٤ (٣٩٦٧) ، سنن ابن ماجہ/العتق ٤ (٢٥٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٦٣) ، مسند احمد (٤/٢٣٥-٢٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3144

【62】

راہ خداوندی میں تیر پھینکنے والوں سے متعلق

شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ (رض) سے کہا : آپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔ اور اس میں بھول چوک اور کمی و بیشی کا شائبہ تک نہ ہو۔ تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا، دشمن کے قریب پہنچا، قطع نظر اس کے کہ تیر دشمن کو لگایا نشانہ خطا کر گیا، تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا، اور جس نے ایک مسلمان غلام آزاد کیا تو غلام کا ہر عضو (آزاد کرنے والے کے) ہر عضو کے لیے جہنم کی آگ سے نجات کا فدیہ بن جائے گا، اور جو شخص اللہ کی راہ میں (لڑتے لڑتے) بوڑھا ہوگیا، تو یہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لیے نور بن جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٥٤) ، مسند احمد (٤/١١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3145

【63】

راہ خداوندی میں تیر پھینکنے والوں سے متعلق

عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایک تیر کے ذریعہ تین طرح کے لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (پہلا) تیر کا بنانے والا جس نے اچھی نیت سے تیر تیار کیا ہو، (دوسرا) تیر کا چلانے والا (تیسرا) تیر اٹھا اٹھا کر پکڑانے اور چلانے کے لیے دینے والا (تینوں ہی جنت میں جائیں گے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٢٤ (٢٥١٣) مطولا، (تحفة الأشراف : ٩٩٢٢) (ضعیف) (اس کے راوی ” خالد بن زید یا یزید “ لین الحدیث ہیں) ویأتي عند المؤلف في الخیل ٨ برقم ٣٦٠٨ حدیث کے بعض دوسرے الفاظ وطرق کے لیے دیکھئے : سنن ابی داود ٢٥١٣ ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3146

【64】

اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی ہونے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اللہ کے راستے میں گھائل ہوگا، اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہوا ١ ؎ تو قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ اس کے زخم سے خون ٹپک رہا ہوگا۔ رنگ خون کا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠ (٢٨٠٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٩٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٢٧٩٥) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٤ (٢٩) ، مسند احمد (٣/٢ ٢٤، ٣١، ٣٩٨، ٤٠٠، ٥١٢، ٥٣١، ٥٣٧) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٥ (٢٤٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس جملہ معترضہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں زخمی ہونے والے شخص کے عمل کا دارومدار اس کے اخلاص پر ہے جس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3147

【65】

اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی ہونے سے متعلق

عبداللہ بن ثعلبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہیں (یعنی شہداء کو) ان کے خون میں لت پت ڈھانپ دو ، کیونکہ کوئی بھی زخم جو اللہ کے راستے میں کسی کو پہنچا ہو وہ قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا ہوگا، اور خوشبو اس کی مشک کی ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آپ نے ان شہداء کے بارے میں فرمایا جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے زخم کھا کر شہید ہوگئے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3148

【66】

جس وقت دشمن زخم لگائے تو کیا کہنا چاہیے؟

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، (اس وقت) رسول اللہ ﷺ بارہ انصاری صحابہ کے ساتھ ایک طرف موجود تھے انہیں میں ایک طلحہ بن عبیداللہ (رض) بھی تھے ١ ؎۔ مشرکین نے انہیں (تھوڑا دیکھ کر) گھیر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا : ہماری طرف سے کون لڑے گا ؟ طلحہ (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں (آپ کا دفاع کروں گا) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم جیسے ہو ویسے ہی رہو تو ایک دوسرے انصاری صحابی نے کہا : اللہ کے رسول ! میں (دفاع کیلئے تیار ہوں) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم (لڑو ان سے) تو وہ لڑے یہاں تک کہ شہید کردیئے گئے ۔ پھر آپ نے مڑ کر (سب پر) ایک نظر ڈالی تو مشرکین موجود تھے آپ نے پھر آواز لگائی : قوم کی کون حفاظت کرے گا ؟ طلحہ (رض) (پھر) بولے : میں حفاظت کروں گا، آپ نے فرمایا : (تم ٹھہرو) تم جیسے ہو ویسے ہی رہو ، تو دوسرے انصاری صحابی نے کہا : اللہ کے رسول ! میں قوم کی حفاظت کروں گا، آپ نے فرمایا : تم (لڑو ان سے) پھر وہ صحابی (مشرکین سے) لڑے اور شہید ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ برابر ایسے ہی پکارتے رہے اور کوئی نہ کوئی انصاری صحابی ان مشرکین کے مقابلے کے لیے میدان میں اترتا اور نکلتا رہا اور اپنے پہلوں کی طرح لڑ لڑ کر شہید ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اور طلحہ بن عبیداللہ ہی باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے آواز لگائی۔ قوم کی کون حفاظت کرے گا ؟ طلحہ (رض) نے (پھر) کہا : میں کروں گا (یہ کہہ کر) پہلے گیارہ (شہید ساتھیوں) کی طرح مشرکین سے جنگ کرنے لگ گئے۔ (اور لڑتے رہے) یہاں تک کہ ہاتھ پر ایک کاری ضرب لگی اور انگلیاں کٹ کر گرگئیں۔ انہوں نے کہا : حس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم (حس کے بجائے) بسم اللہ کہتے تو فرشتے تمہیں اٹھا لیتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے ، پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو واپس کردیا (یعنی وہ مکہ لوٹ گئے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٣) ، (حسن من قولہ ” فقطعت أصابعہ…“ وماقبلہ یحتمل التحسین وہو شرط مسلم ) وضاحت : ١ ؎: طلحہ بن عبیداللہ کا شمار اگرچہ ان بارہ انصاری صحابہ میں ہوا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے، لیکن یہ انصاری نہیں ہیں، یہ اور بات ہے کہ تغلیباً سبھی کو انصاری کہا گیا ہے۔ حس: یہ کلمہ درد کی شدت کے وقت بولا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن من قوله فقطعت أصابعه وما قبله يحتمل التحسين وهو على شرط مسلم صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3149

【67】

جس کسی کو اس کی (اپنی) تلوار پلٹ کر لگ جائے اور وہ شہید ہوجائے؟

سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کی جنگ میں میرا بھائی رسول اللہ ﷺ کی معیت میں بہت بہادری سے لڑا، اتفاق ایسا ہوا کہ اس کی تلوار پلٹ کر خود اسی کو لگ گئی، اور اسے ہلاک کردیا۔ تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کے اصحاب چہ میگوئیاں کرنے لگے اور شک میں پڑگئے کہ وہ اپنے ہتھیار سے مرا ہے ١ ؎ سلمہ بن الاکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خیبر سے لوٹ کر آئے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ مجھے اپنے سامنے رجز یہ کلام (یعنی جوش و خروش والا کلام) پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : خوب سمجھ بوجھ کر کہنا ٢ ؎ میں نے کہا : قسم اللہ کی اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ـ نہ ہم صدقہ و خیرات کرتے، نہ نمازیں پڑھتے (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے سچی بات کہی ہے ۔ (دوسرے رجزیہ شعر کا ترجمہ) : اے اللہ ہم سب پر سکینت (اطمینان قلب) نازل فرما - اور جب میدان جنگ میں دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ مشرکین نے ہم پر ظلم و زیادتی کی ہے (تو ہماری ان کے مقابلے میں مدد فرما) ۔ جب میں اپنا رجزیہ کلام پڑھ چکا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رجزیہ (اشعار) کس نے کہے ہیں ؟ میں نے کہا : میرے بھائی نے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ ان پر رحم فرمائے (بہت اچھے رجزیہ اشعار کہے ہیں) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ! لوگ تو ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے بچ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ شخص خود اپنے ہتھیار سے مرا ہے۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ لڑتا ہوا مجاہد بن کر مرا ہے ١ ؎۔ ابن شہاب زہری (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں : میں نے سلمہ بن الاکوع (رض) کے بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے باپ سے یہ حدیث اسی طرح بیان کیا سوائے اس ذرا سے فرق کے کہ جب میں نے عرض کیا کہ کچھ لوگ ان کی نماز پڑھنے سے خوف کھا رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ غلط کہتے ہیں (بدگمانی نہیں کرنی چاہیئے) وہ جہاد کرتا ہوا بحیثیت ایک مجاہد کے مرا ہے ، آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اسے دو اجر ملیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجہاد ٤٣ (١٨٠٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ٤٠ (٢٥٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٢) ، مسند احمد (٤/٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی صحیح موت مرا ہے یا حرام موت کچھ پتہ نہیں۔ ٢ ؎: یعنی دیکھنا کوئی بات غیر مناسب نہ نکل جائے۔ ٣ ؎: یہ اور بات ہے کہ دشمن پر حملہ کرتے ہوئے تلوار اتفاقاً خود اسی کو لگ گئی لیکن یہ خودکشی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3150

【68】

راہ الٰہی میں شہید ہونے کی تمنا کرنے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر میری امت کے لیے یہ بات باعث تکلیف و مشقت نہ ہوتی تو میں کسی بھی فوجی ٹولی و جماعت کے ساتھ نکلنے میں پیچھے نہ رہتا، لیکن لوگوں کے پاس سواریوں کا انتظام نہیں، اور نہ ہی ہمارے پاس وافر سواریاں ہیں کہ میں انہیں ان پر بٹھا کرلے جا سکوں ؟ اور وہ لوگ میرا ساتھ چھوڑ کر رہنا نہیں چاہتے۔ (اس لیے میں ہر سریہ (فوجی دستہ) کے ساتھ نہیں جاتا) مجھے تو پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں ، آپ نے ایسا تین بار فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١١٩ (٢٩٧٢) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٤ (٢٧) ، مسند احمد (٢/٤٢٤، ٤٧٣، ٤٩٦، (تحفة الأشراف : ١٢٨٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3151

【69】

راہ الٰہی میں شہید ہونے کی تمنا کرنے سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر بہت سے مسلمانوں کے لیے یہ بات ناگواری اور تکلیف کی نہ ہوتی کہ وہ ہم سے پیچھے رہیں۔ (ہمارا ان کا ساتھ چھوٹ جائے) اور ہمارے ساتھ یہ دقت بھی نہ ہوتی کہ ہمارے پاس سواریاں نہیں ہیں جن پر ہم انہیں سوار کرا کے لے جائیں تو میں اللہ کے راستے میں جنگ کرنے کے لیے نکلنے والے کسی بھی فوجی دستہ سے پیچھے نہ رہتا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٧ (٢٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3152

【70】

راہ الٰہی میں شہید ہونے کی تمنا کرنے سے متعلق

ابن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی بھی مسلمان شخص جو اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اس دنیا سے جا چکا ہو یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ پھر لوٹ کر تمہارے پاس اس دنیا میں آئے اگرچہ اسے دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں دے دی جائیں سوائے شہید کے ١ ؎، مجھے اپنا اللہ کے راستے میں قتل کردیا جانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ میری ملکیت میں دیہات، شہر و قصبات کے لوگ ہوں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٧) ، مسند احمد (٤/٢١٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: شہید ہی کی ایک ایسی ہستی ہے جو باربار دنیا میں آنا اور اللہ کے راستے میں مارا جانا پسند کرتی ہے۔ ٢ ؎: یعنی سب کے سب میرے غلام ہوں اور میں انہیں آزاد کرتا رہوں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3153

【71】

راہ الٰہی میں شہید ہونے سے متعلق۔

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ایک شخص نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہا : آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں شہید ہوگیا تو میں کہاں ہوں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جنت میں ہو گے ، (یہ سنتے ہی) اس نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئی کھجوریں پھینک دیں، (میدان جنگ میں اتر گیا) جنگ کی اور شہید ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٧ (٤٠٤٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤١ (١٨٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٠) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٨ (٤٢) ، مسند احمد (٣/٣٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3154

【72】

اس شخص کا بیان جو کہ راہ اللہ میں جہاد کرے اور اس پر قرض ہو۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے اگر میں اللہ کے راستے میں ثواب کی نیت رکھتے ہوئے جنگ کروں، اور جم کر لڑوں، آگے بڑھتا رہوں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگوں، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہ مٹا دے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، پھر ایک لمحہ خاموشی کے بعد آپ نے پوچھا : سائل اب کہاں ہے ؟ وہ آدمی بولا : ہاں (جی) میں حاضر ہوں، (یا رسول اللہ ! ) آپ نے فرمایا : تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے کہا : آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں جم کر اجر و ثواب کی نیت سے آگے بڑھتے ہوئے، پیٹھ نہ دکھاتے ہوئے لڑتا ہوا مارا جاؤں تو کیا اللہ میرے گناہ بخش دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں (بخش دے گا) سوائے قرض کے، جبرائیل (علیہ السلام) نے آ کر ابھی ابھی مجھے چپکے سے یہی بتایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٠٥٦) مسند احمد (٢/٣٠٨، ٣٣٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قرض معاف نہیں کرے گا کیونکہ یہ بندے کا حق ہے، اس کے ادا کرنے یا بندہ کے معاف کرنے سے ہی اس سے چھٹکارا ملے گا، گویا قرض دار ہونا یہ باعث گناہ نہیں ہے بلکہ طاقت رکھتے ہوئے قرض ادا نہ کرنا یہ باعث گناہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3155

【73】

اس شخص کا بیان جو کہ راہ اللہ میں جہاد کرے اور اس پر قرض ہو۔

ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے اس بارے میں کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کردیا جاؤں، اور حال یہ ہو کہ میں نے ثواب کی نیت سے جم کر جنگ لڑی ہو، آگے بڑھتے ہوئے نہ کہ پیٹھ دکھاتے ہوئے، تو کیا اللہ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں پھر جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو رسول اللہ ﷺ نے آواز دے کر اسے بلایا۔ (راوی کو شبہ ہوگیا بلایا) یا آپ نے اسے بلانے کے لیے کسی کو حکم دیا۔ تو اسے بلایا گیا، رسول اللہ ﷺ نے (اس سے) کہا : تم نے کیسے کہا تھا ؟ تو اس نے آپ کے سامنے اپنی بات دہرا دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں، سوائے قرض کے سب معاف کر دے گا، جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ایسا ہی بتایا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٢ (١٨٨٥) ، سنن الترمذی/الجہاد ٣٢ (١٧١٢) ، ما/الجہاد ١٤ (٣١) ، مسند احمد ٥/٢٩٧، ٣٠٤، ٣٠٨، سنن الدارمی/الجہاد ٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3156

【74】

اس شخص کا بیان جو کہ راہ اللہ میں جہاد کرے اور اس پر قرض ہو۔

ابوقتادہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے لوگوں کو (ایک دن) خطاب فرمایا : اور انہیں بتایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد اور اللہ پر ایمان سب سے بہتر اعمال میں سے ہیں ، (یہ سن کر) ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے، اگر میں اللہ کے راستے میں قتل کردیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو بخش دے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اگر تم اللہ کے راستے میں قتل کردیئے گئے، اور تم نے لڑائی ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ثواب کی نیت سے لڑی ہے پیٹھ دکھا کر بھاگے نہیں ہو تو قرض (حقوق العباد) کے سوا سب کچھ معاف ہوجائے گا۔ کیونکہ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ایسا ہی بتایا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3157

【75】

اس شخص کا بیان جو کہ راہ اللہ میں جہاد کرے اور اس پر قرض ہو

ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اس وقت آپ منبر پر (کھڑے خطاب فرما رہے) تھے، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے اگر میں اپنی تلوار اللہ کے راستے میں چلاؤں، ثابت قدمی کے ساتھ، بہ نیت ثواب، سینہ سپر رہوں پیچھے نہ ہٹوں یہاں تک کہ قتل کردیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سبھی گناہوں کو مٹا دے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، پھر جب وہ جانے کے لیے مڑا، آپ نے اسے بلایا اور کہا : یہ جبرائیل ہیں، کہتے ہیں : مگر یہ کہ تم پر قرض ہو (تو قرض معاف نہیں ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٢ (١٨٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3158

【76】

راہ الہی میں جہاد کرنے والا کس چیز کی تمنا کرے گا؟

عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : شہید کے سوا دنیا میں کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جسے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے یہاں خیر ملا ہوا ہو (اچھا مقام و مرتبہ حاصل ہو) پھر وہ لوٹ کر تم میں آنے کے لیے تیار ہو اگرچہ اسے پوری دنیا مل رہی ہو۔ (صرف شہید ہے) جو لوٹ کر دنیا میں آنا اور دوبارہ قتل ہو کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا پسند کرتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥١٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/في الإمارة ٢٩ (١٨٧٧) مسند احمد (٥/٣١٨، ٣٢٢) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ اسے اپنی شہادت کی وجہ سے جو عزت و مرتبہ اور بلند مقام حاصل ہوا ہے وہ دوبارہ کی شہادت سے اور بھی بڑھ جائے اور بلند ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3159

【77】

جنت میں کس چیز کی تمنا ہوگی؟

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت والوں میں سے ایک شخص اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا، اللہ اس سے کہے گا : آدم کے بیٹے ! تم نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا ؟ وہ کہے گا : اے میرے رب ! مجھے تو بہترین ٹھکانہ ملا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا تمہاری کوئی طلب اور کوئی تمنا ہو تو مانگو اور ظاہر کرو۔ وہ کہے گا : میری تجھ سے یہی تمنا و طلب ہے کہ تو مجھے دنیا میں دسیوں بار بھیج تاکہ (میں جاؤں) پھر تیری راہ میں مارا جاؤں۔ اس کی یہ تمنا شہادت کی فضیلت دیکھنے کی وجہ سے ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صفات المنافقین ١٢ (٢٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٦) ، مسند احمد (٣/١٣١، ٢٠٣٠، ٢٠٧، ٢٣٩، ٢٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3160

【78】

اس بات کا بیان کہ شہید کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے؟

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شہید کو قتل کے وار سے بس اتنی ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے محسوس ہوتی ہے (پھر اس کے بعد تو آرام ہی آرام ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٦ (١٦٦٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٦ (٢٨٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦١) ، مسند احمد (٢/٢٩٧) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٧ (٢٤٥٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3161

【79】

شہادت کی تمنا کرنا

سہل بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سچے دل سے شہادت کی طلب کرے تو وہ چاہے اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرے اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے مقام پر پہنچا دے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤٦ (١٩٠٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦١ (١٥٢٠) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٩ (١٦٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٥ (٢٧٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٦ (٢٤٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ اسے بھی جنت میں انہیں کی طرح مقام و مرتبہ اور گھر عطا کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3162

【80】

شہادت کی تمنا کرنا

عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ حالتیں ہیں ان میں سے کسی بھی ایک حالت پر مرنے والا شہید ہوگا، اللہ کے راستے (جہاد) میں نکلا اور قتل ہوگیا تو وہ شہید ہے، جہاد میں نکلا اور ڈوب کر مرگیا تو وہ شہید ہے، جہاد میں نکلا اور دست میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوگیا تو وہ بھی شہید ہے، جہاد میں نکلا اور طاعون میں مبتلا ہو کر مرگیا وہ بھی شہید ہے، عورت (شوہر کے ساتھ جہاد میں نکلی ہے) حالت نفاس میں مرگئی تو وہ بھی شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٩٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3163

【81】

شہادت کی تمنا کرنا

عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : طاعون میں مرنے والوں کے بارے میں شہدا اور اپنے بستروں پر مرنے والے اللہ کے حضور اپنا جھگڑا (مقدمہ) پیش کریں گے، شہید لوگ کہیں گے : یہ ہمارے بھائی ہیں، جیسے ہم مارے گئے ہیں یہ لوگ بھی مارے گئے ہیں، اور جو لوگ اپنے بستروں پر وفات پائے ہیں وہ کہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں یہ لوگ اپنے بستروں پر مرے ہیں جیسے ہم لوگ اپنے بستروں پر پڑے پڑے مرے ہیں۔ تو میرا رب کہے گا : ان کے زخموں کو دیکھو اگر ان کے زخم شہیدوں کے زخم سے ملتے ہیں تو یہ لوگ شہیدوں میں سے ہیں اور شہیدوں کے ساتھ رہیں گے، تو جب دیکھا گیا تو ان کے زخم شہیدوں کی طرح نکلے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ٩٨٨٩) ، مسند احمد (٤/١٢٨، ١٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شہداء کا مقصد اس جھگڑے سے یہ ہے کہ طاعون سے مرنے والوں کے مراتب و درجات ہماری طرح ہوجائیں جب کہ بستروں پر وفات پانے والوں کا جھگڑا محض اس لیے ہوگا کہ طاعون سے مرنے والوں کی طرح ہمیں بھی شہداء کا درجہ ملنا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3164

【82】

شہید اور اس آدمی کے متعلق جو کہ قاتل تھا ان دونوں کے متعلق احادیث

ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ دو آدمیوں پر تعجب کرتا ہے کہ ایک ان میں کا ساتھی کو قتل کرتا ہے ، اور دوسری بار آپ نے یوں فرمایا : اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے جن میں کا ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہوئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٥ (١٨٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3165

【83】

مذکو رہ بالا حدیث کی تفسیر

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ (دونوں لڑتے ہیں) ایک دوسرے کو قتل کردیتا ہے۔ لیکن دونوں جنت میں جاتے ہیں، ایک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، تو وہ قتل ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مارنے والے کو توبہ کی توفیق دیتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے۔ پھر وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہادت پا جاتا ہے ۔ (اس طرح دونوں جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٢٨ (٢٨٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3166

【84】

پہرا دینے کی فضیلت

سلمان الخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن ایک رات پہرہ دیا اسے ایک مہینے کے روزے و نماز کا ثواب ملے گا، اور جو پہرہ دینے کی حالت میں مرگیا اسے اسی طرح کا اجر برابر ملتا رہے گا، اور اس کا رزق بھی جاری کردیا جائے گا، اور وہ فتنوں سے محفوظ ہوجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٥٠ (١٩١٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٩١) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٦ (١٦٦٥) ، مسند احمد (٥/٤٤٠، ٤٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ منکر نکیر اور قبر و حشر کے فتنوں سے محفوظ ہوجائے گا، اور پہرہ داری کی وجہ سے اس کے لیے ثواب ہمیشہ جاری رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3167

【85】

پہرا دینے کی فضیلت

سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن ایک رات پہرہ دیا اسے ایک ماہ کے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا، اور اگر وہ (اس دوران) مرگیا تو وہ جو کام کر رہا تھا اس کا وہ کام جاری تصور کیا جائے گا۔ اور (منکر و نکیر کے) فتنوں سے محفوظ ہوجائے گا، (یعنی وہ اس سے سوال و جواب کرنے کے لیے اس کے پاس حاضر نہ ہوں گے) اور اس کے لیے اس کا رزق (جو شہداء کا رزق ہے) جاری کردیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3168

【86】

پہرا دینے کی فضیلت

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : (جہاد کے دنوں میں) اللہ کے راستے کی ایک دن کی پہرہ داری دوسری جگہوں کی ہزار دنوں کی پہرہ داری سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٢٦ (١٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٤٤) ، مسند احمد (١/٦٢، ٦٥، ٦٦، ٧٥) ، سنن الدارمی/الجہاد ٣٢ (٢٤٦٨) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3169

【87】

پہرا دینے کی فضیلت

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ کے راستے (جہاد) کا ایک دن اس کے سوا کے ہزار دن سے بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3170

【88】

سمندر میں جہاد کی فضیلت

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے یہاں بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں۔ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا عبادہ بن صامت (رض) کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر کی جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں۔ آپ سو گئے، پھر جب اٹھے تو ہنستے ہوئے اٹھے، کہتی ہیں : میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : (خواب میں) مجھے میری امت کے کچھ مجاہدین دکھائے گئے وہ اس سمندر کے سینے پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے ، یا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں جیسے لگتے تھے۔ (اس جگہ اسحاق راوی کو شک ہوگیا ہے (کہ ان کے استاد نے ملوک على الأسرة کہا، یا مثل الملوک على الأسرة کہا) ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ سو گئے۔ (اور حارث کی روایت میں یوں ہے۔ آپ سوئے) پھر جاگے، پھر ہنسے پھر میں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! آپ کے ہنسنے کی وجہ کیا ہے ؟ آپ نے (جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا) فرمایا : مجھے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے دکھائے گئے وہ تختوں پر بیٹھے بادشاہ تھے، یا تختوں پر بیٹھے بادشاہوں جیسے لگتے تھے۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں شامل فرمائے، آپ نے فرمایا : تم (سمندر میں جہاد کرنے والوں کے) پہلے گروپ میں ہوگی۔ (انس بن مالک راوی حدیث فرماتے ہیں) پھر وہ معاویہ (رض) کے زمانہ میں سمندری سفر پر جہاد کے لیے نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گر کر ہلاک ہوگئیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣ (٢٧٨٨) ، ٩٣ (٢٩٢٤) ، الاستئذان ٤١ (٦٢٨٢) ، التعبیر ١٢ (٧٠٠١) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٩ (١٩١٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٠ (٢٤٩٠) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٥ (١٦٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٠ (٢٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٩) ، موطا امام مالک/الجہاد ١٨ (٣٩) ، مسند احمد (٣/٢٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قباء مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ ام حرام بنت ملحان کہا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3171

【89】

سمندر میں جہاد کی فضیلت

انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں آئے اور سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اپنی امت میں سے ایک جماعت دیکھی جو اس سمندری (جہاز) پر سوار تھے، ایسے لگ رہے تھے جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھے ہوئے ہوں ، میں نے کہا : اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی انہیں لوگوں میں سے کر دے، آپ نے فرمایا : تم اپنے کو انہیں میں سے سمجھو ، پھر آپ سو گئے پھر ہنستے ہوئے اٹھے، پھر میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی، میں نے پھر دعا کی درخواست کی کہ آپ دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے انہیں لوگوں میں کر دے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم (سوار ہونے والوں کے) پہلے دستے میں ہوگی ۔ پھر ان سے عبادہ بن صامت (رض) نے شادی کی ١ ؎، اور وہ سمندری جہاد پر نکلے تو وہ بھی انہیں کے ساتھ سمندری سفر پر نکلیں، پھر جب وہ جہاز سے نکلیں تو سواری کے لیے انہیں ایک خچر پیش کیا گیا، وہ اس پر سوار ہوئیں تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی (اور ان کا انتقال ہوگیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٨ (٢٧٩٩) ، ٦٣ (٢٨٧٧، ٢٨٧٨) ، ٧٥ (٢٨٩٤، ٢٨٩٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ٤٩ (١٩١٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٠ (٢٤٩٠، ٢٤٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٠ ٢٧٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠٧) ، مسند احمد (٦/٣٦١، ٤٢٣) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٩ (٢٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ان کی شادی رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کے بعد ہوئی ہے جب کہ اس سے ما قبل کی روایت میں یہ ہے کہ ام حرام رضی الله عنہا اس وقت عبادہ کے ماتحت تھیں۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی روایت میں و کانت تحت عبادة کے جملہ سے راوی کی مراد وقت کی تقیید کے بغیر دونوں کے تعلق کو بیان کرنا ہے جب کہ اس روایت میں وقت اور حال کی قید کے ساتھ اس تعلق کی وضاحت کرنا راوی کا مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3172

【90】

ہند میں جہاد کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم (مسلمانوں) سے ہندوستان پر لشکر کشی کا وعدہ فرمایا، یعنی پیش گوئی کی، تو اگر ہند پر لشکر کشی میری زندگی میں ہوئی تو میں جان و مال کے ساتھ اس میں شریک ہوں گا۔ اگر میں قتل کردیا گیا تو بہترین شہداء میں سے ہوں گا، اور اگر زندہ واپس آگیا تو میں (جہنم سے) نجات یافتہ ابوہریرہ کہلاؤں گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣٤) ، مسند احمد (٢/٢٢٨) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” جبر، یا جبیر “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3173

【91】

ہند میں جہاد کرنا

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ہندوستان کے غزوے کا وعدہ فرمایا یعنی پیش گوئی کی تو میں نے اگر اسے پا لیا، یعنی میری زندگی ہی میں ہند میں جہاد کا وقت آگیا تو میں اپنی جان و مال سب اس میں لگا دوں گا۔ اگر میں اس میں شہید ہوگیا تو برتر شہداء میں شامل ہوں گا اور اگر (شہادت نصیب نہ ہوئی) زندہ بچ کر واپس آگیا تو ابوہریرہ محرر ہوں گا، یعنی وہ ابوہریرہ ہوں گا جو جہنم کے عذاب سے آزاد کردیا گیا ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٧٥ (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3174

【92】

ہند میں جہاد کرنا

ثوبان رضی الله عنہ مولی رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم سے محفوظ کردیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہوگا جو ہند پر لشکر کشی کرے گا اور ایک گروہ وہ ہوگا جو عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے ساتھ ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٩٦) ، مسند احمد (٥/٢٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3175

【93】

ترکی اور حبشی لوگوں کے ساتھ جہاد سے متعلق

ایک صحابی رسول رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کو خندق کھودنے کا حکم دیا تو ایک چٹان نمودار ہوئی جو ان کی کھدائی میں رکاوٹ بن گئی۔ تو رسول اللہ ﷺ اٹھے، کدال پکڑی اپنی چادر خندق کے ایک کنارے رکھی، اور آیت تمت کلمة ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماته وهو السميع العليم پڑھ کر کدال چلائی تو ایک تہائی پتھر ٹوٹ کر گرگیا، سلمان فارسی (رض) کھڑے دیکھ رہے تھے۔ آپ ﷺ کے کدال چلائی، ایک چمک پیدا ہوئی پھر آپ نے آیت : ‏تمت کلمة ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماته وهو السميع العليم‏ پڑھ کر دوبارہ کدال چلائی تو دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ کر الگ ہوگیا پھر دوبارہ چمک پیدا ہوئی، سلمان نے پھر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے آیت : تمت کلمة ربک صدقا وعدلا لا مبدل لکلماته وهو السميع العليم پڑھ کر تیسری ضرب لگائی تو باقی تیسرا تہائی حصہ بھی الگ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ خندق سے نکل آئے، اپنی چادر لی اور تشریف فرما ہوئے، سلمان فارسی (رض) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جب آپ نے ضرب لگائی تو میں نے آپ کو دیکھا، جب بھی آپ نے ضرب لگائی آپ کی ضرب کے ساتھ ایک چمک پیدا ہوئی، رسول اللہ ﷺ فرمایا : سلمان ! تم نے یہ دیکھا ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول جی ہاں ! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا (میں نے ایسا ہی دیکھا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا : جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو مجھے (پردے اٹھا کر) فارس کے شہر اور اس کے اطراف کے دیہات اور دوسرے بہت سے شہر دکھائے گئے میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے خود دیکھا ، اس وقت آپ کے جو صحابہ وہاں موجود تھے انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ اللہ سے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر ہمیں فتح نصیب فرمائے اور ان کا ملک ہمیں بطور غنیمت عطا کرے، اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں ویران و برباد کرے، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی دعا فرما دی، پھر جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو پردے اٹھا کر مجھے قیصر کے شہر اور اس کے اطراف (کے قصبات و دیہات) دکھائے گئے (کہ یہ سب تمہیں ملنے والے ہیں) میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا ہے، لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ ان ممالک کو فتح کرنے میں وہ ہماری مدد فرمائے اور وہ علاقے ہمیں غنیمت میں ملیں اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں تباہ و برباد ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی دعا فرمائی، پھر جب میں نے تیسری ضرب لگائی، تو مجھے ملک حبشہ کے شہر اور گاؤں دکھائے گئے، میں نے فی الحقیقت انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس موقع پر آپ نے یوں فرمایا : حبشہ کو چھوڑ دو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں اور ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تمہیں چھوڑے رہیں (لیکن اگر وہ تم سے ٹکرائیں تو تم بھی ان سے ٹکراؤ اور انہیں شکست دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الملاحم ٨ (٤٣٠٢) مختصرا، (تحفة الأشراف : ١٥٦٨٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3176

【94】

ترکی اور حبشی لوگوں کے ساتھ جہاد سے متعلق۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مسلمان ترکوں سے نہ لڑیں گے جن کے چہرے تہہ بتہہ ڈھالوں کی طرح گول مٹول ہوں گے، بالوں کے لباس پہنیں گے ١ ؎ اور بالوں میں چلیں گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفتن ١٨ (٢٩١٢) ، سنن ابی داود/الملاحم ٩ (٤٣٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٧٦٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٥ (٢٩٢٨) ، ٩٦ (٢٩٢٩) ، والمناقب ٢٥ (٣٥٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٣٦ (٤٠٩٦) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٧١، ٣٠٠، ٣١٩، ٣٣٨، ٤٧٥، ٤٩٣، ٥٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کے لباس بالوں سے بنے ہوئے ہوں گے یا ان کے لباس ایسے گھنے اور لمبے ہوں گے کہ لباس کی طرح لٹک رہے ہوں گے۔ ٢ ؎: یعنی ان کی جوتیوں پر بال ہوں گے یا ان کی جوتیاں بالوں سے تیار کی گئی ہوں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3177

【95】

کمزور شخص سے امداد لینا

سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہیں خیال ہوا کہ انہیں اپنے سوا نبی اکرم ﷺ کے دیگر صحابہ پر فضیلت و برتری حاصل ہے ١ ؎، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد اس کے کمزور لوگوں کی دعاؤں، صلاۃ اور اخلاص کی بدولت فرماتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٧٦ (٢٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٥) ، مسند احمد (١/١٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: انہیں ایسا خیال شاید اپنی مالداری، بہادری، تیر اندازی اور زور آوری کی وجہ سے ہوا۔ ٢ ؎: اس لیے انہیں حقیر و کمزور نہ سمجھو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3178

【96】

کمزور شخص سے امداد لینا

ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے لیے کمزور کو ڈھونڈو، کیونکہ تمہیں تمہارے کمزوروں کی دعاؤں کی وجہ سے روزی ملتی ہے، اور تمہاری مدد کی جاتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧٧ (٢٥٩٤) ، سنن الترمذی/الجہاد ٢٤ (١٧٠٢) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٢٣) ، مسند احمد (٥/١٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے تم کمزوروں کا خیال رکھو تاکہ تمہیں ان کی دعائیں حاصل ہوتی رہیں، تمہیں روزی ملتی رہے اور اللہ کی طرف سے تمہاری مدد ہوتی رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3179

【97】

مجاہد کو جہاد کیلئے تیار کرنے کی فضیلت

زید بن خالد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں کسی لڑنے والے کو اسلحہ اور دیگر سامان جنگ سے لیس کیا۔ اس نے (گویا کہ) خود جنگ میں شرکت کی، اور جس نے مجاہد کے جہاد پر نکلنے کے بعد اس کے گھر والوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی ١ ؎ تو وہ بھی (گویا کہ) جنگ میں شریک ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٣٨، (٢٨٤٣) ، صحیح مسلم/الإمارة ٣٨ (١٨٩٥) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢١ (٢٥٠٩) ، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٦ (١٦٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤٧) ، مسند احمد (٤/١١٥، ١١٦، ١١٧، و ٥/١٩٢، ١٩٣، سنن الدارمی/الجہاد ٢٧ (٢٤٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مجاہد کے گھر والوں کی دیکھ بھال کے دوران نگرانی کرنے والے نے مجاہد کے اہل خانہ پر نہ تو بری نگاہ ڈالی اور نہ ہی کسی قسم کی خیانت کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3180

【98】

مجاہد کو جہاد کیلئے تیار کرنے کی فضیلت

زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی مجاہد کو مسلح کر کے بھیجا، تو گویا اس نے خود جہاد کیا۔ اور جس نے مجاہد کے پیچھے (یعنی اس کی غیر موجودگی میں) اس کے گھر والوں کی حفاظت و نگہداشت کی تو اس نے (گویا) خود جہاد کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3181

【99】

مجاہد کو جہاد کیلئے تیار کرنے کی فضیلت

احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ہم حاجی لوگ نکلے، اور مدینہ پہنچے، ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا ہم ابھی اپنا سامان اتار کر اپنے ڈیروں میں رکھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والا ہمارے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں، اور گھبرائے ہوئے ہیں، ہم بھی وہاں پہنچے دیکھا کہ لوگ بیچ مسجد میں کچھ (اکابر) صحابہ کو گھیرے ہوئے ہیں، ان میں علی، زبیر، طلحہ اور سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہم) ہیں، ہم ابھی یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں عثمان (رض) عنہ پیلی چادر پہنے ہوئے اور اسی سے اپنا سر ڈھانپے ہوئے تشریف لائے ١ ؎، اور کہا : کیا یہاں طلحہ ہیں ؟ کیا یہاں زبیر ہیں ؟ کیا یہاں سعد ہیں ؟ لوگوں نے کہا : جی ہاں ہیں، تو انہوں نے کہا : میں تم سب سے اس اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : جو شخص بنی فلاں کا کھلیان (مسجد نبوی کے قریب کی زمین) خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا تو میں نے اسے بیس ہزار یا پچیس ہزار میں خرید لیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا : اسے ہماری مسجد میں شامل کر دو ، اس کا ثواب تمہیں ملے گا (چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا) لوگوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہاں یہ سچ ہے۔ انہوں نے (پھر) کہا : میں تم سب سے اس اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص رومہ کا کنواں خریدے گا، اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا ، تو میں نے اسے اتنے اور اتنے میں خریدا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو بتایا کہ میں نے اتنے اور اتنے میں اسے خرید لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے مسلمانوں کے پانی پینے کے لیے (وقف) کر دو ، اس کا اجر تمہیں ملے گا ، (تو میں نے اسے مسلمانوں کے پینے کے لیے عام کردیا) ، لوگوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہاں (یہ سچ ہے) ، انہوں نے پھر کہا : میں تم سب سے اس اللہ کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے چہروں پر نگاہ ڈال کر کہا تھا جو کوئی انہیں (تنگی و محتاجی والی فوج کو) ضروریات جنگ سے مسلح کر دے گا اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا، میں نے اس لشکر کو ہر طرح سے مسلح کردیا یہاں تک کہ رسی اور نکیل کی بھی انہیں ضرورت نہ رہی۔ لوگوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہاں (یہ سچ ہے) ۔ انہوں نے کہا : اے اللہ ! تو گواہ رہ، اے اللہ ! تو گواہ رہ، اے اللہ ! تو گواہ رہ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٧٨١) ، مسند احمد (١/٧٠، و یأتي عند المؤلف برقم : ٣٦٣٦، ٣٦٣٧) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوارج نے عثمان رضی الله عنہ کے خلاف باغیانہ کارروائیاں شروع کردی تھیں، اور ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ٢ ؎: یہ میں نے تیری رضا اور اپنی آخرت کی کامیابی کے لیے کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3182

【100】

راہ اللہ میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کے راستے (جہاد) میں جوڑا جوڑا دیا ١ ؎ جنت میں اس سے کہا جائے گا : اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز، تو جو کوئی نمازی ہوگا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا اور جو کوئی مجاہد ہوگا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی خیرات دینے والا ہوگا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا، اور جو کوئی اہل صیام میں سے ہوگا اسے باب ریان (سیراب و شاداب دروازے) سے بلایا جائے گا ، ابوبکر (رض) نے عرض کیا (اللہ کے نبی ! ) اس کی کوئی ضرورت و حاجت تو نہیں کہ کسی کو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے ٢ ؎ کیا کوئی ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر (رقم : ٢٢٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو چیز بھی اللہ کے راستے میں دیتا ہے تو دینے والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بشکل جوڑا دے یا جوڑا سے مراد نیک عمل کی تکرار ہے۔ ٢ ؎: کیونکہ جنت میں داخل ہونے کا مقصد تو صرف ایک دروازے سے دخول کی اجازت ہی سے حاصل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3183

【101】

راہ اللہ میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کے راستے میں جوڑا جوڑا صدقہ دیا اسے جنت کے سبھی دروازوں کے دربان بلائیں گے : اے فلاں ادھر آؤ (ادھر سے) جنت میں داخل ہو ، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! اس میں آپ اس شخص کا کوئی نقصان تو نہیں سمجھتے ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (نہیں) میں تو توقع رکھتا ہوں کہ تم ان ہی (خوش نصیب لوگوں) میں سے ہو گے (جنہیں جنت کے سبھی دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کے لیے بلایا جائے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض ہے لیکن یہ تعارض اس طرح ختم ہوجاتا ہے کہ یہاں اس بات کا احتمال ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ دونوں واقعے پیش آئے ہوں، چناچہ آپ ﷺ نے جنت میں داخل ہونے کے لیے حسب وحی الٰہی پہلے ہر عابد کو اس کے مخصوص دروازے سے پکارے جانے کی خبر دی پھر جب ابوبکر رضی الله عنہ نے سوال کیا تو آپ نے ایک ہی عابد کو تمام دروازوں سے پکارے جانے کی خبر دی، اور ساتھ ہی ابوبکر رضی الله عنہ کو اس کی بشارت بھی دی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3184

【102】

راہ اللہ میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق

صعصہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ میری ملاقات ابوذر (رض) سے ہوئی، تو میں نے ان سے کہا : مجھ سے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے، تو انہوں نے کہا : اچھا (پھر کہا :) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی مسلمان اللہ کے راستے میں اپنا ہر مال جوڑا جوڑا کر کے خرچ کرتا ہے تو جنت کے سبھی دربان اس کا استقبال کریں گے اور ہر ایک کے پاس جو کچھ ہوگا انہیں دینے کے لیے اسے بلائیں گے ، (صعصعہ کہتے ہیں) میں نے کہا : یہ کیسے ہوگا ؟ تو انہوں نے کہا : اگر اونٹ رکھتا ہو تو دو اونٹ دیئے ہوں، اور گائیں رکھتا ہو تو دو گائیں دی ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٩٢٤) ، مسند احمد (٥/١٥١، ١٥٩١٥٣، ١٦٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ١٣ (٢٤٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی کچھ وضاحت فرمائیے کہ ہر قسم کے مال سے جوڑا دینے کا کیا مطلب ہے ؟ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3185

【103】

راہ اللہ میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق

خریم بن فاتک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں سات سو گنا بڑھا کر لکھا گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/فضائل الجہاد ٤ (١٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٢٦) ، مسند احمد (٤/٣٢٢، ٣٤٥، ٣٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3186

【104】

اللہ کی راہ میں صدقہ دینے کی فضیلت

ابومسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مہار والی ایک اونٹنی اللہ کے راستے میں صدقہ میں دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن (اس ایک اونٹنی کے بدلہ میں) سات سو مہار والی اونٹنیوں کے (ثواب) کے ساتھ آئے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٧ (١٨٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٨٧) ، مسند احمد (٤/٢٢١ و ٥/٢٧٤) (حسن ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3187

【105】

اللہ کی راہ میں صدقہ دینے کی فضیلت

معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد دو طرح کے ہیں : ایک جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا اللہ کی رضا و خوشنودی کا طالب ہو، امام (سردار) کی اطاعت کرے، اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اپنے شریک کو سہولت پہنچائے، اور فساد سے بچے تو اس کا سونا، و جاگنا سب کچھ باعث اجر ہوگا۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں جہاد کرنے والا ریاکاری اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امیر (سردار و سپہ سالار) کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد پھیلائے تو وہ برابر سرابر نہیں لوٹے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٢٥ (٢٥١٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٩) ، موطا امام مالک/الحج ١٨ (٤٣) (موقوفا) مسند احمد (٥/٢٣٤) ، سنن الدارمی/الجہاد ٢٥ (٢٤٦١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٢٠٠ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسے کچھ ثواب نہیں ملے گا، بلکہ ہوسکتا ہے الٹا اسے عذاب ہو۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3188

【106】

مجاہدین کی عورتوں کی حرمت

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد میں جانے والوں کی بیویوں کی عزت و حرمت جہاد میں نہ جانے والوں کے لیے ان کی ماؤں کی عزت و حرمت جیسی ہے ١ ؎ جو شخص مجاہدین کی بیویوں کی حفاظت و نگہداشت کے لیے گھر پر رہا اور اس نے کسی مجاہد کی بیوی کے ساتھ خیانت کی تو اسے قیامت کے دن روک رکھا جائے گا، (یعنی اس کا حساب و کتاب اس وقت تک چکتا نہیں کیا جائے گا جب تک کہ) وہ مجاہد اس خائن کے اعمال کا ثواب جس قدر چاہے گا لے (نہ) لے گا۔ تو تمہارا کیا خیال ہے ؟ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٣٩ (١٨٩٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٢ (٢٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣٣) ، مسند احمد (٥/٣٥٢، ٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مجاہدین کی بیویوں کی عزت و توقیر جہاد پر نہ جانے والوں پر واجب ہے۔ ٢ ؎: کیا وہ اس کے لیے کچھ چھوڑے گا ؟ وہ تو اس کی ساری نیکیاں لے لے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3189

【107】

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجاہدین کی بیویاں گھروں پر بیٹھ رہنے والوں کے لیے ویسی ہی حرام ہیں جیسی ان کی مائیں ان کے حق میں حرام ہیں۔ اگر وہ (مجاہد) کسی کو گھر پر (دیکھ بھال کے لیے) چھوڑ گیا اور اس نے اس کی (امانت میں) خیانت کی۔ تو قیامت کے دن اس (مجاہد) سے کہا جائے گا (یہ ہے تیرا مجرم) یہ ہے جس نے تیری بیوی کے تعلق سے تیرے ساتھ خیانت کی ہے۔ تو تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے۔ (آپ ﷺ نے فرمایا :) تمہارا کیا گمان ہے (کیا وہ کچھ باقی چھوڑے گا ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3190

【108】

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجاہدین کی بیویوں کی حرمت گھر پر بیٹھ رہنے والوں پر ویسی ہی ہے جیسی ان کی ماؤں کی حرمت ان پر ہے، اگر گھر پر بیٹھ رہنے والے کسی شخص کو کسی مجاہد نے اپنی غیر موجودگی میں اپنی بیوی بچوں کی دیکھ بھال سونپ دی، (اور اس نے اس کے ساتھ خیانت کی) تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور پکار کر کہا جائے گا : اے فلاں ! یہ فلاں ہے (تمہارا مجرم آؤ اور) اس کی نیکیوں میں سے جتنا چاہو لے لو ، پھر نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ اس کی نیکیوں میں سے کچھ باقی چھوڑے گا ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٩١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3191

【109】

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد کرو اپنے ہاتھوں سے، اپنی زبانوں سے، اور اپنے مالوں کے ذریعہ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٩٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسلام کی ترویج و اشاعت، حفاظت و دفاع کے لیے طاقت و تلوار اور زبان و قلم کے استعمال میں اور مال و دولت کے خرچ میں دریغ نہ کرو، مال اور ہاتھ سے جہاد کا مطلب بالکل واضح ہے، زبان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے جہاد کے فضائل بیان کئے جائیں اور لوگوں کو اس پر ابھارنے کے ساتھ انہیں اس کی رغبت دلائی جائے۔ قلم اور خطابت کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کا جواب دیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3192

【110】

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سانپوں کے مارنے کا حکم دیا اور فرمایا : جو ان کے بدلے (اور انتقام و قصاص) سے ڈرے (اور ان کو نہ مارے) وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ١٧٤ (٥٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3193

【111】

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

عبداللہ بن جبر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جبر (رض) کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، جب گھر میں (اندر) پہنچے تو آپ نے عورتوں کے رونے کی آواز سنی۔ وہ کہہ رہی تھیں : ہم جہاد میں آپ کی شہادت کی تمنا کر رہے تھے (لیکن وہ آپ کو نصیب نہ ہوئی) ۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم شہید صرف اسی کو سمجھتے ہو جو جہاد میں قتل کردیا جائے ؟ اگر ایسی بات ہو تو پھر تو تمہارے شہداء کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی۔ (سنو) اللہ کے راستے میں مارا جانا شہادت ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنا شہادت ہے، جل کر مرنا شہادت ہے، ڈوب کر مرنا شہادت ہے، (دیوار وغیرہ کے نیچے) دب کر مرنا شہادت ہے، ذات الجنب یعنی نمونیہ میں مبتلا ہو کر مرنا شہادت ہے، حالت حمل میں مرجانے والی عورت شہید ہے ، ایک شخص نے کہا : تم سب رو رہی ہو جب کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چھوڑ دو انہیں کچھ نہ کہو۔ (انہیں رونے دو کیونکہ مرنے سے پہلے رونا منع نہیں ہے) البتہ جب انتقال ہوجائے تو کوئی رونے والی اس پر (زور زور سے) نہ روئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کوئی نوحہ کرنے والی اس پر نوحہ نہ کرے، رہ گیا دھیرے دھیرے رونا اور آنسو بہانا تو یہ ایک فطری عمل ہے اسلام اس سے نہیں روکتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3194

【112】

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

جبر بن عتیک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک میت کے یہاں پہنچے تو عورتیں رونے لگیں تو انہوں نے کہا : تم رو رہی ہو جب کہ رسول اللہ ﷺ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چھوڑو انہیں رونے دو جب تک کہ وہ ان میں موجود ہے۔ پھر جب وہ انتقال کر جائے تو کوئی عورت (چیخ چیخ کر) نہ روئے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3195