27. طلاق سے متعلقہ احادیث
جو وقت اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لئے مقرر کیا ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہہ کر کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے مسئلہ پوچھا (کہ کیا اس کی طلاق صحیح ہوئی ہے) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عبداللہ سے کہو (طلاق ختم کر کے) اسے لوٹا لے (یعنی اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے اپنے اس حیض سے پاک ہو لینے دے، پھر جب وہ دوبارہ حائضہ ہو اور اس حیض سے پاک ہوجائے تو وہ اگر اسے چھوڑ دینا چاہے تو اسے جماع کرنے سے پہلے چھوڑ دے اور اگر اسے رکھنا چاہے تو اسے رکھ لے (اور اس سے اپنی ازدواجی زندگی بحال کرے) یہ ہے وہ عدت جس کے مطابق اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٢٢٠) ، مسند احمد (٢/٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3389
جو وقت اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لئے مقرر کیا ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر بن خطاب (رض) نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عبداللہ سے کہو کہ اس سے رجوع کرلے (یعنی طلاق ختم کر کے اسے اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے روکے رکھے جب تک کہ وہ حیض سے پاک نہ ہوجائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہو (جب وہ دوبارہ حیض سے پاک ہوجائے) تو چاہے تو اسے روک لے اور چاہے تو اسے چھونے (اس کے پاس جانے اور اس سے صحبت کرنے) سے پہلے اسے طلاق دیدے۔ یہی وہ عدت ہے جسے ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١ (٥٢٥١) ، ٤٤ (٥٣٣٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٣٦) ، موطا امام مالک/الطلاق ٢١ (٥٣) ، مسند احمد (٦/٦، ٥٤، ٦٣، ١٠٢، ١٢٤) ، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3390
جو وقت اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لئے مقرر کیا ہے
زبیدی کہتے ہیں : امام زہری سے پوچھا گیا : عدت والی طلاق کس طرح ہوتی ہے ؟ (اشارہ ہے قرآن کریم کی آیت : فطلقوهن لعدتهن (الطلاق : 1) کی طرف) تو انہوں نے کہا : سالم بن عبداللہ بن عمر نے انہیں بتایا ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی، اس بات کا ذکر عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ یہ سن کر غصہ ہوئے اور فرمایا : اسے رجوع کرلینا چاہیئے، پھر اسے روکے رکھے رہنا چاہیئے یہاں تک کہ (پھر) اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہوجائے، پھر اگر اسے طلاق دے دینا ہی مناسب سمجھے تو طہارت کے ایام میں طلاق دیدے ہاتھ لگانے سے پہلے ۔ عدت والی طلاق کا یہی طریقہ ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : میں نے اسے لوٹا لیا اور جو طلاق میں اسے دے چکا تھا اسے بھی شمار کرلیا (کیونکہ ان کے خیال میں وہ طلاق اگرچہ سنت کے خلاف اور حرام تھی پر وہ پڑگئی تھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ١ (٤٩٠٨) ، والأحکام ١٣ (٧١٦٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨١) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣ (٢١٠٩) ، مسند احمد ٢/٢٦، ٥٨، ٦١، ٨١، ١٣٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3391
جو وقت اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لئے مقرر کیا ہے
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر (رض) سے سوال کرتے سنا : آپ کی کیا رائے ہے ایسے شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ؟ انہوں نے جواب دیا : عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس وقت طلاق دی جب وہ حیض سے تھی تو عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بتاتے ہوئے مسئلہ پوچھا کہ عبداللہ بن عمر کی بیوی حالت حیض میں تھی اس نے اسے اسی حالت میں طلاق دے دی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عبداللہ کو چاہیئے کہ وہ اس سے رجوع کرے ، اور پھر آپ نے میری بیوی میرے پاس بھیج دی اور فرمایا : جب وہ حیض سے پاک و صاف ہوجائے تب اسے یا تو طلاق دیدے یا اسے روک لے (اسے دونوں کا اختیار ہے جیسی اس کی مرضی و پسند ہو) ۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : (اس کے بعد) نبی اکرم ﷺ نے پڑھا : يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن اے نبی ! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو (الطلاق : ١) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٤٣) ، مسند احمد (٢/٦١، ٨٠-١٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3392
جو وقت اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لئے مقرر کیا ہے
مجاہد (اپنے استاذ) ابن عباس رضی الله عنہما سے اللہ تعالیٰ کے قول يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن یعنی جب عورت حیض سے پاک ہوجائے اور اس سے اس طہر میں صحبت بھی نہ کی جائے تب طلاق دینی چاہیئے کے سلسلے میں روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے لعدتهن کی جگہ قبل عدتهن پڑھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٣٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3393
طلاق سنت
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت اس طرح ہے کہ جب عورت پاک ہو اور اس پاکی کے دنوں میں عورت سے جماع نہ کیا ہو تو اسے ایک طلاق دے، پھر جب دوبارہ اسے حیض آئے اور اس حیض سے پاک ہوجائے تو اسے دوسری طلاق دے پھر جب (تیسری بار) حیض سے ہوجائے اور اس حیض سے پاک ہوجائے تو اسے ایک اور طلاق دے۔ پھر اس کے بعد عورت ایک حیض کی عدت گزارے۔ اعمش کہتے ہیں : میں نے ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی اسی طرح بتایا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢ (٢٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سنت کے موافق طلاق کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو، یہی وہ طلاق ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق ہے۔ ٢ ؎: یعنی ہر طہر میں ایک طلاق دینا سنت کے مطابق ہے، جب کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا منع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3394
طلاق سنت
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے ہوئے طلاق دے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سنی طلاق کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والے کا عمل مسنون اور باعث اجر ہے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا شخص جو طلاق کا حاجت مند ہو اس کے لیے سنت میں جو مباح اور جائز طریقہ وارد ہے وہ یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3395
اگر کسی شخص نے حیض کے وقت عورت کو ایک طلاق دے دی؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی۔ تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی خبر دی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ اسے لوٹا لے۔ پھر جب (حیض سے فارغ ہو کر) وہ غسل کرلے تو اسے چھوڑے رکھے پھر جب حیض آئے اور اس دوسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل کرلے تو اسے نہ چھوئے یعنی (صحبت نہ کرے) یہاں تک کہ اسے طلاق دیدے پھر اسے روک لینا چاہے تو روک لے (اور طلاق نہ دے) یہی وہ عدت ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨١٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3396
اگر کسی شخص نے حیض کے وقت عورت کو ایک طلاق دے دی؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، اس بات کا ذکر نبی اکرم ﷺ کے سامنے ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے کہو کہ اس سے رجوع کرلے، پھر جب وہ (حیض سے) پاک ہوجائے یا حاملہ ہوجائے تب اس کو طلاق دے (اگر دینا چاہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨١) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣ (٢٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٩٧) ، مسند احمد (٢/٢٦، ٥٨، سنن الدارمی/الطلاق ١ (٢٣٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3397
غیر عدت میں طلاق دینا
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی تو رسول اللہ ﷺ نے (اس طلاق کو باطل قرار دے کر) اس عورت کو انہیں لوٹا دیا۔ پھر جب وہ حیض سے پاک و صاف ہوگئی تو انہوں نے اسے طلاق دی (اور وہ طلاق نافذ ہوئی) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٠٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3398
گر کوئی شخص عدت کے خلاف طلاق دے (یعنی حالت حیض میں طلاق دے) تو کیا حکم ہے؟
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے اس مرد کے متعلق (مسئلہ) پوچھا جس کی بیوی حیض سے ہو اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو ؟ انہوں نے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو ؟ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ (اس وقت) حیض سے تھی تو عمر (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا، تو آپ ﷺ نے عبداللہ بن عمر کو حکم دیا کہ اسے لوٹا لے اور اس کی عدت کا انتظار کرے۔ (یونس بن جبیر کہتے ہیں) میں نے ان سے کہا : یہ طلاق جو وہ دے چکا ہے کیا وہ اس کا شمار کرے گا ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہوجاتا (اور رجوع نہ کرتا یا رجوع کرنے سے پہلے مرجاتا) اور وہ حماقت کر گزرتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٢ (٥٢٥٢) ، ٣ (٥٢٥٨) ، ٤٥ (٥٣٣٣) ، صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤ (٢١٨٣) ، سنن الترمذی/الطلاق ١ (١١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢ (٢٠٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٧٣) ، مسند احمد (٢/٤٣، ٥١، ٧٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٥٨٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب رجعت سے عاجز ہوجانے یا دیوانہ ہوجانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ کا مرہ فلیراجعھا کہنا بےمعنی ہوگا۔ جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوگی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3399
گر کوئی شخص عدت کے خلاف طلاق دے (یعنی حالت حیض میں طلاق دے) تو کیا حکم ہے؟
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے کہا : ایک آدمی نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حیض سے تھی طلاق دے دی (تو اس کا مسئلہ کیا ہے ؟ ) تو انہوں نے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو، انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور وہ اس وقت حالت حیض میں تھی۔ تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹا لے، پھر اس کی عدت کا انتظار کرے۔ میں نے ان سے پوچھا : جب آدمی اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدے تو کیا وہ اس طلاق کو شمار کرے گا ؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، اگر وہ رجوع نہ کرتا اور حماقت کرتا۔ (تو کیا وہ شمار نہ ہوتی ؟ ہوتی، اس لیے ہوگی) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3400
ایک ہی وقت میں تین طلاق پر وعید سے متعلق
محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے : میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ١ ؎، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٢٣٧) (ضعیف) (سند میں مخرمہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کا حکم کیا ہے اسے نہیں دیکھتے ؟ میں تمہارے درمیان موجود ہوں مجھ سے نہیں پوچھتے اور سمجھتے ؟ اللہ کے فرمان کے خلاف عمل کرنے لگے ہو کیا اب یہی ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3401
ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کی اجازت
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی (رض) نے عاصم بن عدی (رض) کے پاس آ کر کہا : عاصم ! بتاؤ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے ؟ (وہ قتل کر دے) تو لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کردیں گے ! بتاؤ وہ کیا اور کیسے کرے ؟ عاصم ! اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر مجھے بتاؤ، عاصم نے رسول اللہ ﷺ سے (یہ مسئلہ) پوچھا، تو رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کے سوالات برے لگے اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا ١ ؎، عاصم (رض) کو رسول اللہ ﷺ کی گفتگو بڑی گراں گزری ٢ ؎، جب عاصم (رض) لوٹ کر اپنے گھر والوں کے پاس آئے تو عویمر (رض) ان کے پاس آئے اور کہا : عاصم ! رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا ؟ عاصم (رض) نے عویمر (رض) سے کہا : تم نے مجھے کوئی اچھی بات نہیں سنائی، جو مسئلہ تم نے پوچھا تھا اسے رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا۔ عویمر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! یہ مسئلہ تو میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ کر رہوں گا، (یہ کہہ کر) عویمر (رض) رسول اللہ ﷺ کی طرف روانہ ہوگئے اور آپ جہاں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے وہاں پہنچ کر کہا : اللہ کے رسول ! آپ بتائیے ایک شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے ؟ (اگر وہ اسے قتل کر دے) تو آپ لوگ اسے (اس کے بدلے میں) قتل کر ڈالیں گے ! (ایسی صورت حال پیش آجائے) تو وہ کیا کرے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں قرآن نازل ہوا ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو لے کر آؤ، سہل (رض) کہتے ہیں : (وہ لے کر آئے) پھر دونوں (یعنی عویمر اور اس کی بیوی نے) لعان کیا، میں بھی اس وقت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا۔ پھر جب عویمر (رض) لعان سے فارغ ہوئے تو کہا : اللہ کے رسول ! اگر میں نے (اس لعان کے بعد) اس کو اپنے گھر رکھا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں جھوٹا ہوں (اور میں نے اس پر تہمت لگائی ہے) یہ کہہ کر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے اسے (دھڑا دھڑ) تین طلاقیں دے دیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٤ (٤٢٣) ، تفسیر سورة النور ١ (٤٧٥٤) ، ٢ (٤٧٤٦) ، الطلاق ٤ (٥٢٥٩) ، ٢٩ (٥٣٠٨) ، ٣٠ (٥٣٠٩) ، الحدود ٤٣ (٦٨٥٤) ، الأحکام ١٨ (٧١٦٦) ، الاعتصام ٥ (٧٣٠٤) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٢) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٥) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٣ (٣٤) ، مسند احمد (٥/٣٣١، ٣٣٤، ٣٣٥، ٣٣٦، ٣٣٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٩ (٢٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا کہ آپ اس سے باخبر نہیں تھے کہ یہ واقعہ پیش آچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے کسی چیز کے وقوع سے پہلے اس کے متعلق استفسار کو فضول سمجھا۔ ٢ ؎: یعنی آپ ﷺ نے عاصم رضی الله عنہ کے سوال کو جو ناپسند کیا اور اسے اچھا نہیں سمجھا اس سے عاصم رضی الله عنہ رنجیدہ ہوئے اور انہیں پشیمانی بھی ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3402
ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کی اجازت
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے کہا : میں آل خالد کی بیٹی ہوں اور میرے شوہر فلاں نے مجھے طلاق کہلا بھیجی ہے، میں نے ان کے گھر والوں سے نفقہ و سکنی (اخراجات اور رہائش) کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھے دینے سے انکار کیا، ان لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے جس کے شوہر کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن الترمذی/الطلاق ٥ (١١٨٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٠ (٢٢٩١) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٠ (٣٠٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٥) ، ویأتي بأرقام ٣٥٧٧، ٣٥٧٨، ٣٥٧٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور تین طلاق کے بعد رجوع نہیں کرسکتا اس لیے عورت کو نفقہ و سکنیٰ بھی نہیں ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3403
ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کی اجازت
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین طلاق پائی ہوئی عورت کو نہ سکنی ملے گا اور نہ نفقہ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3404
ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کی اجازت
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی (رض) نے انہیں تین طلاقیں دیں، تو خالد بن ولید (رض) بنو مخزوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور کہا : اللہ کے رسول ! ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے (عدت کے دوران) نفقہ ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکنی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3405
تین طلاقیں مختلف کر کے دینے کا بیان
طاؤس سے روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس (رض) کے پاس آ کر کہا : اے ابن عباس ! کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں، ابوبکر (رض) کے زمانے میں اور عمر (رض) کے شروع عہد خلافت میں تین طلاقیں (ایک ساتھ) ایک مانی جاتی تھیں، انہوں نے کہا : جی ہاں (معلوم ہے، ایسا ہوتا تھا) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٢ (١٤٧٢) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٠ (٢٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٧١٥) ، مسند احمد (١/٣١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا عنوان باب سے تعلق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ إن الثلاث کانت ... ترو إلى الواحدة تو یہ اس مطلقہ کے بارے میں خاص ہے جسے جماع سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو، جب غیر مدخول بہا کو تین متفرق طلاقیں دی جائیں گی تو پہلی طلاق واقع ہوجائے گی اور دوسری اور تیسری طلاقیں بےمحل ہونے کی وجہ سے لغو قرار پائیں۔ اس چیز کو بتانے کے لیے امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3406
کوئی شخص عورت کو صحبت کرنے سے قبل طلاق دے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اس عورت نے دوسری شادی کرلی، وہ دوسرا شخص (تنہائی میں) اس کے پاس گیا اور اسے جماع کیے بغیر طلاق دے دی۔ تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں، وہ اس وقت تک پہلے کے لیے حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے شہد کا اور وہ عورت اس دوسرے شوہر کے شہد کا ذائقہ و مزہ نہ چکھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٩ (٢٣٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٥٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ٤ (٥٢٦٠) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، مسند احمد (٦/٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3407
کوئی شخص عورت کو صحبت کرنے سے قبل طلاق دے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہا : اللہ کے رسول ! میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی اور ان کے پاس تو اس کپڑے کی جھالر جیسے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لگتا ہے تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٤١٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ٤ (٢٣١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کے پاس حقوق زوجیت کے ادا کرنے کی صلاحیت و طاقت نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3408
طلاق قطعی سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، وہاں ابوبکر (رض) بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ہے تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی، اور اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی ان کے پاس تو اس جھالر جیسی چیز کے سوا کچھ نہیں ہے ١ ؎ انہوں نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر یہ بات کہی۔ اس وقت خالد بن سعید (رض) دروازے پر کھڑے تھے، آپ ﷺ نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی، انہوں نے (ابوبکر (رض) کو مخاطب کر کے) کہا : ابوبکر ! آپ سن رہے ہیں نا جو یہ زور زور سے رسول اللہ ﷺ سے کہہ رہی ہے، آپ ﷺ نے (ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس عورت سے) کہا : تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کے شہد کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأدب ٦٨ (٦٠٨٤) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٣١) ، مسند احمد (٦/٣٤، ٢٢٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ تو عورت کے قابل ہی نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3409
لفظ امرک بیدک کی تحقیق
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے کہا : کیا آپ حسن کے سوا کسی کو جانتے ہیں ؟ جو أمرک بیدک کہنے سے تین طلاقیں لاگو کرتا ہو ؟ انہوں نے کہا نہیں (میں کسی کو بھی نہیں جانتا) پھر انہوں نے کہا : اللہ انہیں بخش دے اب رہی قتادہ کی حدیث جو انہوں نے مجھ سے کثیر مولی ابن سمرۃ سے روایت کی ہے اور کثیر نے ابوسلمہ سے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ تین طلاقیں ہوتی ہیں تو (اس کا حال یہ ہے کہ) میری ملاقات کثیر سے ہوئی میں نے ان سے (اس حدیث کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے اسے پہچانا ہی نہیں (کہ میں نے ایسی کوئی روایت کی ہے) میں لوٹ کر قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی (کہ وہ ایسا کہتے ہیں) تو قتادہ نے کہا کہ وہ بھول گئے (انہوں نے ایسی بات کہی ہے) ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٣ (٢٢٠٤، ٢٢٠٥) مختصرا، سنن الترمذی/الطلاق ٣ (١١٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٢) (مرفوعا ضعیف، موقوفا صحیح) (مرفوع کی سند میں ” کثیر “ لین الحدیث ہیں، اور قتادہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے مرفوع حدیث ضعیف ہے، اور مؤلف نے بھی حدیث کو منکر کہا ہے، لیکن حسن کے قول کی سند صحیح ہے، اس لیے اثر موقوفا صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3410
تین طلاق دی گئی عورت کے حلال ہونے اور حلالہ کے لئے نکاح سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور (آپ سے) کہا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق بھی بتہ دی (کہ وہ رجوع نہیں کرسکتے) تو اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی، لیکن ان کے پاس تو اس کپڑے کے جھالر جیسے کے سوا کچھ نہیں ہے آپ ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا : لگتا ہے رفاعہ سے تم دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہو ؟ (سن لو) تو رفاعہ کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ (یعنی دوسرا شوہر) تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے اور تم اس کے شہد کا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3411
تین طلاق دی گئی عورت کے حلال ہونے اور حلالہ کے لئے نکاح سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس عورت نے دوسرے شخص سے شادی کرلی۔ اس (دوسرے شخص) نے اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دی، تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کیا (ایسی صورت میں) وہ عورت پہلے والے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، جب تک کہ وہ (دوسرا) اس کے شہد کا مزہ نہ لے لو جس طرح اس کے پہلے شوہر نے مزہ چکھ لیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٤ (٥٢٦١) ، صحیح مسلم/النکاح ١٧ (١٤٣٣) ، تحفة الأشراف : ١٧٥٣٦) ، مسند احمد (٦/١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب دوسرا شوہر اس سے مکمل صحبت کرلے گا اور طلاق دیدے گا یا انتقال کر جائے گا تو وہ عدت گزار کر پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی بشرطیکہ وہ اس سے دوبارہ نکاح کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3412
تین طلاق دی گئی عورت کے حلال ہونے اور حلالہ کے لئے نکاح سے متعلق احادیث
عبیداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ غمیصاء یا رمیصاء نامی عورت اپنے شوہر کی شکایت لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی کہ وہ اس کے پاس نہیں آتا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کا شوہر بھی آگیا، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ جھوٹی عورت ہے، وہ اس کے پاس جاتا ہے، لیکن یہ اپنے پہلے شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی ہے (اس لیے ایسا کہہ رہی ہے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ تمہارے لیے ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کا شہد چکھ نہ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٦٧٠ ألف) مسند احمد (١/٢١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3413
تین طلاق دی گئی عورت کے حلال ہونے اور حلالہ کے لئے نکاح سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آدمی کی بیوی ہوتی ہے وہ اسے طلاق دے دیتا ہے، پھر اس سے دوسرا شخص شادی کرلیتا ہے، پھر وہ دوسرا شخص اس سے جماع کیے بغیر طلاق دے دیتا ہے، تو وہ اپنے پہلے شوہر کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہے ؟ تو اس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وہ عورت ایسا نہیں کرسکتی جب تک کہ اس (دوسرے شوہر) کے شہد کو نہ چکھ لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/النکاح ٣٢ (١٩٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٣) مسند احمد (٢/٨٥) (صحیح بما قبلہ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس سے جماع نہ کرلے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3414
تین طلاق دی گئی عورت کے حلال ہونے اور حلالہ کے لئے نکاح سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں (مغلظہ) دے دیتا ہے پھر اس سے دوسرا آدمی نکاح کرلیتا ہے اور (اسے لے کر) دروازہ بند کرلیتا ہے، پردے گرا دیتا ہے، (کہ کوئی اندر نہ آسکے) پھر اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دیتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ پہلے والے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک اس کا دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کرلے ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ حدیث صواب سے قریب تر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٧١٥) ، مسند احمد (٢/٢٥، ٦٢، ٨٥) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3415
طلاق مغلظہ دی گئی خاتون سے حلالہ اور تین طلاق دینے والے پر وعید
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے گودنے اور گودانے والی پر اور بالوں کو (بڑا کرنے کے لیے) جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی پر اور سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور حلالہ کرنے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/النکاح ٢٨ (١١٢٠) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٩٥٩٥) ، مسند احمد (١/٤٤٨، ٤٦٢، سنن الدارمی/النکاح ٥٣ (٢٣٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3416
اگر مرد عورت کا چہرہ دیکھتے ہی (یعنی خلوت کے بغیر ہی) طلاق دے دے
اوزاعی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جس نے رسول اللہ ﷺ سے (بچنے کے لیے، اللہ کی) پناہ مانگی تھی تو انہوں نے کہا : عروہ نے مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان کی ہے کہ کلابیہ (فاطمہ بنت ضحاک بن سفیان) جب (منکوحہ کی حیثیت سے) نبی اکرم ﷺ کے سامنے آئی اور (اپنی سادہ لوحی سے دوسری ازواج کے سکھا پڑھا دینے کے باعث آپ ﷺ کو دیکھتے ہی) کہہ بیٹھی أعوذباللہ منک میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے (فوراً ) کہا تم نے تو بہت بڑی ذات گرامی کی پناہ مانگ لی ہے، جاؤ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ (یہ کہہ کر گویا آپ ﷺ نے اسے طلاق دے دی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣ (٥٢٥٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٨ (٢٠٥٠) ، تحفة الأشراف : ١٦٥١٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3417
کسی شخص کی زبانی بیوی کو طلاق کہلوانے سے متعلق
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کہلا بھیجی تو میں اپنے کپڑے اپنے آپ پر لپیٹ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس (نفقہ و سکنی کا مطالبہ لے کر) پہنچی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں ؟ میں نے کہا : تین، آپ نے فرمایا : پھر تو تمہیں نفقہ نہیں ملے گا تم اپنی عدت کے دن اپنے چچا کے بیٹے ابن ام مکتوم کے گھر میں پورے کرو کیونکہ وہ نابینا ہیں، تم ان کے پاس رہ کر بھی اپنے کپڑے اتار سکتی ہو پھر جب تمہاری عدت کے دن پورے ہوجائیں تو مجھے خبر دو ، یہ حدیث طویل ہے، یہاں مختصر بیان ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٦ (١٤٨٠) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٨ (١١٣٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٠ (٢٠٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٧) ، مسند احمد (٦/٤١٢٤١١، ٤١٣، ویأتي برقم : ٣٥٨١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3418
کسی شخص کی زبانی بیوی کو طلاق کہلوانے سے متعلق
مجاہد فاطمہ (فاطمہ بنت قیس) کے غلام تمیم سے اور وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے طرح جیسی کہ اوپر روایت گزری ہے روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٢٠) ، مسند احمد (٦/٤١١) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3419
اس بات کا بیان کہ اس آیت کریمہ کا کیا مفہوم ہے اور اس کے فرمانے سے کیا مقصد تھا؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا : میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے، تو انہوں نے اس سے کہا : تم غلط کہتے ہو وہ تم پر حرام نہیں ہے، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك (اور کہا) تم پر سخت ترین کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٥١١) (ضعیف الإسناد و ہو فی المتفق علیہ مختصردون قولہ : ” وعلیک أغلظ…“ (أی بلفظ ” إذاحرم الرجل امرأتہ فہی یمین یکفرہا “ انظرخ الطلاق، وم فیہ ٣ ) وضاحت : ١ ؎: سخت ترین کفارہ کا ذکر اس لیے کیا تاکہ لوگ ایسے عمل سے باز رہیں ورنہ ظاہر قرآن سے کفارہ یمین کا ثبوت ملتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد وهو في ق مختصر دون قوله عليك أغلط صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3420
مذکورہ بالا آیت کریمہ کی دوسری تاویل
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پی کر آتے تو ہم نے اور حفصہ نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی اکرم ﷺ آئیں وہ کہے کہ (کیا بات ہے) مجھے آپ کے منہ سے مغافیر ١ ؎ کی بو آتی ہے، آپ ہم میں سے ایک کے پاس آئے تو اس نے آپ ﷺ سے یہی بات کہی۔ آپ نے کہا : میں نے تو کچھ کھایا پیا نہیں بس زینب کے پاس صرف شہد پیا ہے (اور جب تم ایسا کہہ رہی ہو کہ اس سے مغافیر کی بو آتی ہے) تو آئندہ نہ پیوں گا ۔ چناچہ عائشہ اور حفصہ کی وجہ سے یہ آیت : يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں (التحریم : ١) اور إن تتوبا إلى اللہ (اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) ۔ (التحریم : ٤) نازل ہوئی اور آپ ﷺ کے اس قول : میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت : وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی (التحریم : ٣) نازل ہوئی ہے، اور یہ ساری تفصیل عطا کی حدیث میں موجود ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مغفر ایک قسم کی گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتی ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3421
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک (رض) کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا : رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے : رسول اللہ ﷺ نے (یہ فرمایا :)
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک (رض) کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کا قاصد آ کر کہتا ہے : رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا : کیا میں اسے طلاق دے دوں ؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس (قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو) ، میں نے اپنی بیوی سے کہا : تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ١ ؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آجائے وہیں رہو۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا الحقی بأھلک سے طلاق اس وقت واقع ہوگی جب اسے طلاق کی نیت سے کہا جائے۔ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3422
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک (رض) کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے (اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے ١ ؎، کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں ٢ ؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا : میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا : نہیں، طلاق نہ دو بلکہ اس سے الگ تھلگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا : تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور انہیں کے ساتھ رہو، تو وہ ان کے پاس جا کر رہنے لگی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٦ (٢٧٥٧) ، الجہاد ١٠٣ (٢٩٥٧) ، ١٩٨ (٣٠٨٨) ، المناقب ٢٣ (٣٥٥٦) ، المغازي ٣ (٣٩٥١) ، تفسیر سورة البراء ة ١٤ (٤٦٧٣) ، ١٧ (٤٦٧٧) ، ١٨ (٤٦٧٦) ، ١٩ (٤٦٧٨) ، الاستئذان ٢١ (٦٢٥٥) ، الأیمان والنذور ٢٤ (٦٦٩٠) ، الأحکام ٥٣ (٢٧٢٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٢ (٢٧٦٩) ، سنن ابی داود/الطلاق ١١ (٢٢٠٢) ، الجہاد ١٧٣ (٢٧٧٣) ، ١٧٨ (٢٧٨١) ، الأیمان والنذور ٢٩ (٣٣١٧) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/تفسیر التوبة (٣١٠١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣١) ، مسند احمد (٣/٤٥٦، ٤٥٧، ٤٥٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٤ (١٥٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ ٢ ؎: مرارہ بن ربیع العمری، ھلال بن امیہ الواقفی رضی الله عنہما۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3423
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب (رض) کو اپنا اس وقت کا قصہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے اور شریک نہ ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے ذکر کرنے کے دوران انہوں نے بتایا کہ اچانک رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو ، میں نے (اس سے) کہا : میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا : (طلاق نہ دو ) بلکہ اس سے الگ رہو اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی (رسول اللہ ﷺ نے) ایسا ہی پیغام دے کر بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا : تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ رہو اور اس وقت تک رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں اپنا فیصلہ نہ سنا دے۔ معقل بن عبیداللہ نے ان سب کے خلاف ذکر کیا ہے (تفصیل آگے حدیث میں آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3424
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
عبیداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب (رض) کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے دونوں (پیچھے رہ جانے والے) ساتھیوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ تم لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہوجاؤ، میں نے پیغام لانے والے سے کہا : میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا : نہیں، طلاق نہ دو ، بلکہ اس سے الگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ، (یہ سن کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا : تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور جب تک اللہ عزوجل فیصلہ نہ کر دے انہیں لوگوں میں رہو، تو بیوی انہیں لوگوں کے پاس جا کر رہنے لگی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) معمر نے معقل کے خلاف ذکر کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٥٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اشارہ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ معقل اور معمر دونوں امام زہری کے شاگرد ہیں۔ معقل نے اس روایت میں لاتقربھا کے بعد فقلت لامرأتی الحقی باھلک …… ذکر کیا ہے۔ لیکن معمر نے اپنی روایت میں جو اب آرہی ہے اور ان کے استاد زہری ہی کے واسطہ سے آرہی ہے لاتقربھا کے بعد فقلت لامرأتی الحقی باھلک … کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3425
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واقعے کے ذکر میں بتایا : اچانک رسول اللہ ﷺ کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا تم اپنی بیوی سے جدا ہوجاؤ، میں نے اس سے کہا : میں اسے طلاق دے دوں، اس نے کہا نہیں، طلاق نہ دو ، لیکن اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس حدیث میں انہوں نے الحقی باھلک کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١١٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3426
غلام کے طلاق دینے سے متعلق
ابوالحسن مولیٰ بنی نوفل کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں غلام تھے، میں نے اسے دو طلاقیں دے دی، پھر ہم دونوں اکٹھے ہی آزاد کردیے گئے۔ میں نے ابن عباس سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا : اگر تم اس سے رجوع کرلو تو وہ تمہارے پاس رہے گی اور تمہیں ایک طلاق کا حق حاصل رہے گا، یہی فیصلہ رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے۔ معمر نے اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٦ (٢١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٢ (٢٠٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٦١) ، مسند احمد (١/٢٢٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” عمر بن معتب “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3427
غلام کے طلاق دینے سے متعلق
بنی نوفل کے غلام حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے ایک غلام کے متعلق جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں پھر وہ دونوں آزاد کردیے گئے، پوچھا گیا : کیا وہ اس سے شادی کرسکتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، (کر سکتا ہے) کسی نے کہا کس سے سن کر یہ بات کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلہ میں یہی فتویٰ دیا ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے کہا : یہ حسن کون ہیں ؟ انہوں نے تو اپنے سر پر ایک بڑی چٹان لاد لی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: غلام دو طلاق دیدے تو عورت بائنہ ہوجاتی ہے، بائنہ ہوجانے کے بعد عورت جب تک کسی اور سے شادی نہ کرلے اور طلاق یا موت کسی بھی وجہ سے اس کی علیحدگی نہ ہوجائے تو وہ عورت پہلے شوہر سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن یہاں دونوں کو آزاد ہوجانے کے بعد بغیر حلالہ کے شادی کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اب یہ روایت - اللہ نہ کرے - غلط ہوئی تو اس طرح کی سبھی شادیوں کا وبال اس راوی حسن کے ذمہ آئے گا اور وہ گویا ایک بڑی چٹان کے نیچے دب کر رہ جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3428
لڑکے کا کس عمر میں طلاق دینا معتبر ہے؟
قریظہ رضی الله عنہ کے دونوں بیٹے روایت کرتے ہیں کہ وہ سب (یعنی بنو قریظہ کے نوجوان) قریظہ کے (فیصلے کے) دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیے گئے، تو جسے احتلام ہونے لگا تھا، یا جس کی ناف کے نیچے کے بال اگ آئے تھے اسے (جوان قرار دے کر) قتل کردیا گیا۔ اور جسے ابھی احتلام ہونا شروع نہیں ہوا تھا یا جس کی ناف کے نیچے کے بال نہیں آئے تھے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٦٦١) ، مسند احمد (٤/٣٤، ٥/٣٧٢) (صحیح) (آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہوجائے اور اچھا برا سمجھنے نہ لگے اسے طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3429
لڑکے کا کس عمر میں طلاق دینا معتبر ہے؟
عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ جب سعد (رض) نے بنو قریظہ کے مردوں کے قتل کا فیصلہ دیا تو اس وقت میں بچہ تھا، لوگوں کو میرے متعلق شبہ ہوا (کہ میں فی الواقع بچہ ہوں یا جوان ؟ جب انہوں نے تحقیق کی) تو مجھے زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا اور میں بچ رہا۔ چناچہ میں آج تمہارے درمیان موجود ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١٧ (٤٤٠٤) ، سنن الترمذی/السیر ٢٩ (١٥٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٤ (٢٥٤١) ، مسند احمد (٤/٣١٠، ٣٨٣، و ٥/٣١١، ٣١٢، سنن الدارمی/السیر ٢٦ (٢٥٠٧) ، ویأتي عند المؤلف في القطع ١٧ برقم : ٤٩٨٤، ٤٤٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3430
لڑکے کا کس عمر میں طلاق دینا معتبر ہے؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے) ١٤ سال کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اور غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہوچکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کرلیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٨ (٢٦٦٤) ، المغازي ٢٩ (٤٠٩٧) ، سنن ابی داود/الخراج ١٦ (٢٩٥٧) ، الحدود ١٧ (٤٤٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٨١٥٣) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٣ (١٨٦٨) ، سنن الترمذی/الأحکام ٢٤ (١٣١٦) ، الجہاد ٣١ (١٧١١) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٤ (٥٢٤٣) ، مسند احمد (٢/١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہوجاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہوجاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہوسکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہوچکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کرچکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3431
بعض لوگ جن کا طلاق دینا معتبر نہیں ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ١ ؎ ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے ٢ ؎، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے، تیسرے دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١٦ (٤٣٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٥ (٢٠٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٣٥) ، مسند احمد (٦/١٠٠، ١٠١، ١٤٤) ، سنن الدارمی/الحدود ١ (٢٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان حالات میں ان پر گناہ کا حکم نہیں لگتا۔ ٢ ؎: یعنی سونے کی حالت میں جو کچھ کہہ دے اس کا اعتبار نہ ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3432
جو شخص اپنے دل میں طلاق دے اس کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، (عبدالرحمٰن کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کردیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں اور اس پہ عمل نہ کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤١٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3433
جو شخص اپنے دل میں طلاق دے اس کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے ہماری امت کے وسوسوں اور جی میں گزرنے والے خیالات سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العتق ٦ (٢٥٢٨) ، الطلاق ١١ (٥٢٦٩) ، الأیمان والنذور ١٥ (٦٦٦٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٨ (١٢٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٥ (٢٢٠٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ٨ (١١٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١٦ (٢٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٩٦) ، مسند احمد ٢/ ٢٥٥، ٣٩٣، ٣٩٨، ٤٧٤، ٤٨١، ٤٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3434
جو شخص اپنے دل میں طلاق دے اس کے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میری امت کے لوگوں کے دل میں جو بات کھٹکتی اور گزرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3435
ایسے اشا رہ سے طلاق دینا جو سمجھ میں آتا ہو
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک فارسی پڑوسی تھا جو اچھا شوربہ بناتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں، اس نے آپ کو اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بلایا، آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر کے پوچھا : کیا انہیں بھی لے کر آؤں ، اس نے ہاتھ سے اشارہ سے منع کیا دو یا تین بار کہ نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الأشربة ١٩ (٢٠٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٥) ، مسند احمد (٣/١٢٣، ٢٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ کوئی اشارۃً طلاق دے اور معلوم ہوجائے کہ طلاق دے رہا ہے تو طلاق پڑجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح م نحوه وزاد قال رسول الله لا ثم عاد يدعوه فقال رسول الله وهذه قال نعم في الثالثة فقاما يتدافعان حتى أتيا منزله صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3436
ایسے کلام کے بارے میں جس کے متعدد معنی ہوں اگر کسی ایک معنی کا ارادہ ہو تو وہ درست ہوگا
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ آدمی جیسی نیت کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا، جو اللہ و رسول کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی (اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کا ثواب ملے گا) اور جو کوئی دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے دنیا ملے گی، یا عورت حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے عورت ملے گی۔ ہجرت جس قصد و ارادے سے ہوگی اس کا حاصل اس کے اعتبار سے ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3437
اگر کوئی ایک لفظ صاف بولا جائے اور اس سے وہ مفہوم مراد لیا جائے جو کہ اس سے نہیں نکلتا تو وہ بیکار ہوگا
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٧٨٢) ، مسند احمد (٢/٢٤٤، ٣٤٠، ٣٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نام اور وصف دونوں اعتبار سے میں محمد ہوں، لہٰذا مجھ پر مذمم کا اطلاق کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ محمد کا مطلب ہے جس کی تعریف کی گئی ہو تو مجھ پر ان کی گالیوں اور لعنتوں کا اثر کیونکر پڑ سکتا ہے۔ گویا ایسا لفظ جو طلاق کے معنی و مفہوم کے منافی ہے اس کا اطلاق طلاق پر اسی طرح نہیں ہوسکتا جس طرح مذمم کا اطلاق محمد پر نہیں ہوسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3438
اختیار کی مدت مقرر کرنے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا ١ ؎ تو رسول اللہ ﷺ نے اس (اختیار دہی) کی ابتداء مجھ سے کی، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں تو ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر فیصلہ لینے میں جلدی نہ کرنا ٢ ؎، آپ ﷺ بخوبی سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے، پھر آپ ﷺ نے آیت : يا أيها النبي قل لأزواجک إن کنتن تردن الحياة الدنيا اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔ (الاحزاب : ٢٨) تک پڑھی (یہ آیت سن کر) میں نے کہا : میں اس بات کے لیے اپنے ماں باپ سے صلاح و مشورہ لوں ؟ (مجھے کسی سے مشورہ نہیں لینا ہے) میں اللہ عزوجل، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) آپ ﷺ کی دوسری بیویوں نے بھی ویسا ہی کیا (اور کہا) جیسا میں نے کیا (اور کہا) تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے ان سے کہنے اور ان کے رسول اللہ ﷺ کو منتخب کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٠٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دنیا اور اس کی زینت اور نبی کی مصاحبت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرلیں۔ ٢ ؎: معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے عائشہ رضی الله عنہا کے خیار کی مدت ماں باپ سے مشورہ لینے تک متعین کی۔ ٤ ؎: اس لیے کہ وہ بیویاں تو پہلے ہی سے تھیں، اگر وہ آپ کو منتخب نہ کرتیں تب طلاق ہوجاتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3439
اختیار کی مدت مقرر کرنے کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت : إن کنتن تردن اللہ ورسوله اتری تو نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا : عائشہ ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کرلینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہیں ہیں، پھر آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی : يا أيها النبي قل لأزواجک إن کنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها میں نے (یہ آیت سن کر) آپ سے عرض کیا : کیا آپ مجھے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کرلینے کے لیے کہہ رہے ہیں، میں تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں (اس بارے میں مشورہ کیا کرنا ؟ ) ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ (یعنی حدیث معمر عن الزہری عن عائشہ غلط ہے اور اول (یعنی حدیث یونس و موسیٰ عن ابن شہاب، عن أبی سلمہ عن عائشہ زیادہ قریب صواب ہے۔ واللہ أعلم۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ١٥ (٤٧٨٦ م) تعلیقًا، صحیح مسلم/الطلاق ٤ (١٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٠ (٢٠٩) ، تحفة الأشراف : ١٦٦٣٢) ، مسند احمد (٦/٣٣، ١٦٣، ١٨٥، ٢٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3440
ان خواتین سے متعلق کہ جن کو اختیار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کو اختیار کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم (ازواج مطہرات) کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ﷺ ہی کو چن لیا، تو کیا یہ طلاق ہوئی ؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں ہوئی) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3441
ان خواتین سے متعلق کہ جن کو اختیار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کو اختیار کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو یہ اختیار دینا طلاق نہیں ہوا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3442
ان خواتین سے متعلق کہ جن کو اختیار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کو اختیار کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو یہ اختیار طلاق نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3443
ان خواتین سے متعلق کہ جن کو اختیار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کو اختیار کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو (انتخاب کا) اختیار دیا تو کیا یہ (اختیار) طلاق تھا ؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں تھا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3444
ان خواتین سے متعلق کہ جن کو اختیار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کو اختیار کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا تو ہم سب نے آپ کو منتخب اور قبول کرلیا، تو آپ ﷺ نے اسے ہم سے متعلق کچھ بھی شمار نہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3445
جس وقت شوہر اور بیوی دونوں ہی غلام اور باندی ہوں پھر وہ آزادی حاصل کرلیں تو اختیار ہوگا
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھی (یہ دونوں میاں بیوی تھے) میرا ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو میں آزاد کر دوں۔ میں نے اس ارادہ کا اظہار رسول اللہ ﷺ سے کردیا تو آپ نے فرمایا : لونڈی سے پہلے غلام کو آزاد کرو (پھر لونڈی کو) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٢ (٢٢٣٧) ، سنن ابن ماجہ/العتق ١٠ (٢٥٣٢) (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٤) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن موہب ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: غالباً ایسا عورت کے مقابلے میں مرد کی بزرگی و بڑائی کے باعث کہا گیا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3446
باندی کو اختیار دینے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ١ ؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کرلینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ ﷺ (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے ؟ (تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے ؟ ) لوگوں نے عرض کیا : ہاں، اللہ کے رسول ! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہوگا (اس لیے اسے پیش کرسکتے ہو) ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ النکاح ١٩ (٥٠٩٧) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٧٩) ، العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، الأطعمة ٣١ (٥٤٣٠) ، الفرائض ٢٠ (٦٧٥٤) ، ٢٢ (٦٧٥٧) ، ٢٣ (٦٧٥٩) ، م /الزکاة ٥٢ (١٠٧٥) ، العتق ٢ (١٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٤٩) وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الفرائض ١٢ (٢٩١٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٣٣ (١٢٥٦) ، والولاء ١ (٢١٢٥) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٠ (٢٥) ، مسند احمد (٦/١٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔ ٢ ؎: ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔ ٣ ؎: معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہوجائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3447
باندی کو اختیار دینے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے : بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولاء (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا : (ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہوگا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو ، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے ، اور وہ (خرید کر) آزاد کردی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کرلیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا) ، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ کو بتائی تو آپ نے فرمایا : اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٥٢ (١٠٧٥) ، العتق ٢ (١٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٢٨) ، مسند احمد (٦/٤٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٥ (٢٣٣٦، ٢٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور ہدیہ قبول کرنا ہمارے لیے جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3448
اس باندی کے اختیار دینے سے متعلق جو کہ آزاد کردی گئی ہو اور اس کا شوہر آزاد ہو
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے) ، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ نے فرمایا : تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے) ، چناچہ میں نے اسے آزاد کردیا پھر (میرے آزاد کردینے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کرلینے کا اختیار دیا۔ اس نے کہا : اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا (اور علیحدگی ہوگئی) ، اس کا شوہر آزاد شخص تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ العتق ١٠ (٢٥٣٦) ، الفرائض ٢٠ (٦٧٥٤) ، ٢٢ (٦٧٥٨) ، سنن الترمذی/البیوع ١٢ (١٢٥٦) ، الولاء ١ (٢١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٩٩٢) (صحیح) (حدیث میں ” وکان زوجہاحرا “ کا لفظ شاذ ہے ) وضاحت : ١ ؎: عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم ( ٣٤٨١ ) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے وکان عبدا یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لیے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله وکان زوجها حرا فإنه شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3449
اس باندی کے اختیار دینے سے متعلق جو کہ آزاد کردی گئی ہو اور اس کا شوہر آزاد ہو
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ١ ؎، اور (رسول اللہ ﷺ کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے تو ہدیہ و تحفہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، بریرہ کا شوہر آزاد شخص تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦١٥) (صحیح دون قولہ : ”…حرا “ والمحفوظ أنہ کان عبدا مملوکا کما یأتی فی الباب التالی ) وضاحت : ١ ؎: لہٰذا بیچنے والا اگر شرط لگائے تو وہ شرط فاسد ہے اور شرط فاسد کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله حر والمحفوظ أنه کان عبدا صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3450
اس مسئلہ سے متعلق کہ جس باندی کا شوہر غلام ہے اور وہ آزاد ہوگئی تو اس کو اختیار ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنی آزادی کے لیے نو اوقیہ ١ ؎ پر مکاتبت کی اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنے کی شرط ٹھہرائی اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا : میں اس طرح مدد تو نہیں کرتی لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوں کہ میں انہیں ایک ہی دفعہ میں پوری رقم گن دوں اور ولاء (وراثت) میرا حق ہو (تو میں ایسا کرسکتی ہوں) ، بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی اور ان لوگوں سے اس معاملے میں بات کی، تو انہوں نے بغیر ولاء (وراثت) کے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا (کہا ولاء (میراث) ہم لیں گے) تو وہ لوٹ کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، اور اسی موقع پر رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مالک کے جواب سے انہیں (عائشہ کو) آگاہ کیا، انہوں نے کہا : نہ قسم اللہ کی جب تک ولاء (میراث) مجھے نہ ملے گی (میں اکٹھی رقم نہ دوں گی) ، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : کیا قصہ ہے ؟ انہوں کہا : اللہ کے رسول ! (بات یہ ہے کہ) بریرہ اپنی مکاتبت رضی اللہ عنہا پر مجھ سے امداد طلب کرنے آئی تو میں نے اس سے کہا میں یوں تو مدد نہیں کرتی مگر ہاں اگر وہ ولاء (میراث) کو میرا حق تسلیم کریں تو میں ساری رقم انہیں یکبارگی گن دیتی ہوں، اس بات کا ذکر اس نے اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا : نہیں، ولاء (میراث) ہم لیں گے (تب ہی ہم اس پر راضی ہوں گے) ، رسول اللہ ﷺ نے (عائشہ سے) کہا : تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولاء (میراث) کی شرط مان لو، ولاء اس شخص کا حق ہے جو اسے آزاد کرے (اس طرح جب تم خرید کر آزاد کر دو گی تو حق ولاء (میراث) تم کو مل جائے گا) پھر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے لوگوں کو خطاب کیا (سب سے پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہیں ہیں، کہتے ہیں : (ہم سے خرید کر) آزاد تم کرو لیکن ولاء (وراثت) ہم لیں گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب برحق و صحیح تر ہے اور اللہ کی شرط مضبوط، ٹھوس اور قابل اعتماد ہے اور ہر وہ شرط جس کا کتاب اللہ میں وجود و ثبوت نہیں ہے باطل و بےاثر ہے، اگرچہ وہ ایک نہیں سو شرطیں ہوں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدہ ہوجانے کا اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا تو اس نے اپنے آپ کو علیحدہ کرلیا۔ عروہ کہتے ہیں : اگر اس کا شوہر آزاد شخص ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے (علیحدہ ہوجانے کا) اختیار نہ دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٩ (٢٢٣٣) مختصراً ، سنن الترمذی/الرضاع ٧ (١١٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٧٠) ، مسند احمد (٦/١٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3451
اس مسئلہ سے متعلق کہ جس باندی کا شوہر غلام ہے اور وہ آزاد ہوگئی تو اس کو اختیار ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام شخص تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٥٤) ، مسند احمد (٦/٢٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3452
اس مسئلہ سے متعلق کہ جس باندی کا شوہر غلام ہے اور وہ آزاد ہوگئی تو اس کو اختیار ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو کچھ انصاری لوگوں سے خریدا جنہوں نے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط رکھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ولاء (میراث) کا حقدار ولی نعمت (آزاد کرانے والا) ہوتا ہے ١ ؎، رسول اللہ ﷺ نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا (اس نے اس حق کا اپنے حق میں استعمال کیا اور شوہر کو چھوڑ دیا) ، اس نے (بریرہ نے) عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت کا ہدیہ بھیجا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس گوشت میں ہمارے لیے بھی تو حصہ رکھنا تھا ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : وہ گوشت بریرہ کے پاس صدقہ آیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا لیکن ہمارے لیے (صدقہ نہیں) ہدیہ ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/العتق ٢ (١٥٠٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ١٩ (٢٢٣٤) ، مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩٠) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو خریدے اور خرید کر آزاد کرے۔ ٢ ؎: نبی اور اس کے اہل بیت کے لیے صدقہ کھانا حرام ہے، ہدیہ کھانا حرام نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3453
اس مسئلہ سے متعلق کہ جس باندی کا شوہر غلام ہے اور وہ آزاد ہوگئی تو اس کو اختیار ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا : (اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے ۔ راوی کہتے ہیں : (عائشہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کردیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں : میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا) ، رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا : وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ و تحفہ ہے (اس لیے ہم کھا سکتے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١٣ (٢٥٨٧) ، صحیح مسلم/الزکاة ٥٢ (١٠٧٥) ، العتق ٢ (١٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٩١) ، مسند احمد (٦/١٧٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٦٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3454
ایلاء سے متعلق
ابویعفور کہتے ہیں کہ ہم ابوالضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا : انتیس ( ٢٩) دن کا۔ ابوالضحیٰ نے کہا : (سنو) ابن عباس (رض) نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم ﷺ کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ) بھری ہوئی تھی، (اس وقت) عمر (رض) آئے اور اوپر چڑھ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے، آپ اپنے بالا خانہ میں تھے، آپ کو سلام کیا تو کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، عمر (رض) نے پھر سلام کیا پھر کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، پھر سلام کیا پھر انہیں کسی نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ پھر لوٹ پڑے اور بلال کو بلایا ١ ؎ اور اوپر نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا : کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، لیکن میں نے ان سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا ہے، پھر آپ انتیس ( ٢٩) دن (اوپر) وہاں قیام فرما رہے، پھر نیچے آئے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٩٢ (٥٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٤٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نادی بلالا ( بلال کو بلایا ) کے بجائے نادی بلال ہے جیسا کہ فتح الباری ٩/٣٠٢ میں مذکور ہے، یعنی عمر رضی الله عنہ کو بلال نے آواز دی۔ ایلاء کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور شرع میں ایلاء یہ ہے کہ جماع پر قدرت رکھنے والا شوہر اللہ کے نام یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم اس بات پر کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے اپنے سے جدا رکھے گا اور اس سے جماع نہیں کرے گا۔ اس تعریف کی روشنی میں آپ ﷺ کا یہ ایلاء لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا، کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا اور اس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات (رض) نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہے، اور کفارہ یمین یہ ہے : دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن روزے رکھنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3455
ایلاء سے متعلق
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینے تک نہ جانے کا عہد کیا (یعنی ایلاء کیا) اور انتیس ( ٢٩) راتیں اپنے بالاخانے پر رہے پھر آپ ﷺ اتر آئے، آپ سے کہا گیا : اللہ کے رسول ! کیا آپ نے مہینہ بھر کا ایلاء نہیں کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : مہینہ انتیس ( ٢٩) دن کا (بھی) ہوا کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٤٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٨) ، المظالم ٢٥ (٢٤٦٩) ، النکاح ٩١ (٥٢٠١) ، الطلاق ٢١ (٥٢٨٩) ، الأیمان والنذور ٢٠ (٦٦٨٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٦ (٦٨٩، ٦٩٠) ، مسند احمد (٣/٢٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3456
ظہار سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا جس نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر اس سے صحبت کر بیٹھا، اس نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا لیکن میں کفارہ ادا کیے بغیر اس سے جماع کر بیٹھا۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، ایسا کر گزرنے پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا ہے ؟ اس نے کہا : چاند کی چاندنی میں میں نے اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس سے جماع کر بیٹھا) آپ نے فرمایا : (اچھا اب) اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ وہ نہ کرلو جس کا اللہ نے (ایسے موقع پر کرنے کا) حکم دیا ہے (یعنی کفارہ ادا کر دو ) ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٧ (٢٢٢٥) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٩ (١١٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٦ (٢٠٦٥) ، تحفة الأشراف : ٦٠٣٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مرد کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ ٢ ؎: ظہار کا کفارہ یہ ہے : ایک مؤمن غلام آزاد کرنا اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3457
ظہار سے متعلق احادیث
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا (یعنی اپنی بیوی کو اپنی ماں کی طرح کہہ کر حرام کرلیا) پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے صحبت کرلی، پھر جا کر نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا (کہ ایسا ایسا ہوگیا ہے) تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا : کس چیز نے تمہیں اس قدر بےقابو کردیا کہ تم اس کام کے کرنے پر مجبور ہوگئے ، اس نے کہا : اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ پر اللہ کے رسول ! میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی پازیب دیکھ لی (راوی کو شبہ ہوگیا کہ یہ کہا یا یہ کہا) کہ میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی (چمکتی ہوئی) پنڈلیاں دیکھ لیں (تو مجھ سے رہا نہ گیا) ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس سے دور رہو جب تک کہ وہ نہ کرلو جس کا اللہ عزوجل نے تمہیں کرنے کا حکم دیا ہے (یعنی کفارہ ادا کر دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3458
ظہار سے متعلق احادیث
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : اللہ کے نبی ! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا : کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ؟ اس نے کہا : اللہ کے نبی ! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں (تو بےقابو ہوگیا) ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو ) ۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی حدیث میں فاعتزل کے بجائے فاعتزلہا بیان کیا ہے اور یہ فاعتزل لفظ محمد کی روایت میں ہے۔ امام ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ مرسل حدیث مسند کے مقابل میں زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٨٧ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ حدیث مسنداً ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے اور مرسلاً عکرمہ سے اور مسند کی بنسبت مرسل روایت صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3459
ظہار سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں جو ہر آواز سنتا ہے، خولہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں (کہ انہوں نے ان سے ظہار کرلیا ہے) ان کی باتیں مجھے سنائی نہ پڑ رہی تھیں، تو اللہ عزوجل نے قد سمع اللہ قول التي تجادلک في زوجها وتشتکي إلى اللہ واللہ يسمع تحاورکما اتاری (جس سے ہم سبھی کو معلوم ہوگیا کہ کیا باتیں ہو رہی تھیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التوحید ٩ (٧٣٨٥) (تعلیقاً ) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٣ (١٨٨) ، الطلاق ٢٥ (٢٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٣٢) ، مسند احمد (٦/٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے ( المجادلہ : ١ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3460
خلع سے متعلق احادیث
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے شوہروں سے بلا عذر کے خلع اور طلاق مانگنے والیاں منافق عورتیں ہیں ٢ ؎۔ حسن بصری کہتے ہیں : یہ حدیث میں نے ابوہریرہ کے سوا کسی اور سے نہیں سنی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : حسن بصری نے (یہ حدیث ہی کیا) ابوہریرہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٦) ، مسند احمد (٢/٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خلع کچھ مال دے کر بیوی اپنے شوہر سے جدائی اور علیحدگی اختیار کرلے اسے خلع کہتے ہیں۔ وضاحت ٢ ؎: آپ ﷺ نے ان عورتوں کو منافق بطور زجر و توبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں کہ جنت میں دخول اولیٰ کا مستحق نہیں قرار پائیں گی، کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گزارو فرمانبردار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3461
خلع سے متعلق احادیث
حبیبہ بنت سہل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ ﷺ (نماز کے لیے) صبح صادق میں نکلے تو ان کو اپنے دروازے پر تاریکی میں کھڑا ہوا پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کون ہے یہ ؟ تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا : کیا بات ہے، کیسے آنا ہوا ؟ انہوں نے کہا : نہ میں اور نہ ثابت بن قیس (یعنی دونوں بحیثیت میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، آپ ہم میں علیحدگی کرا دیجئیے) پھر جب ثابت بن قیس بھی آگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : یہ حبیبہ بنت سہل ہیں، اللہ کو ان سے جو کہلانا تھا وہ انہوں نے کہا حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول ! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے (وہ یہ لے سکتے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے ثابت (رض) سے کہا : وہ ان سے لے لو (اور ان کو چھوڑ دو ) تو انہوں نے ان سے لے لیا اور وہ (وہاں سے آ کر) اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٨ (٢٢٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٩٢) ، موطا امام مالک/ الطلاق ١١ (٣١) ، سنن الدارمی/الطلاق ٧ (٢٣١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3462
خلع سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کسی کمی و کوتاہی کا الزام نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر و ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی ؟ (وہ باغ انہوں نے انہیں مہر میں دیا تھا) انہوں نے کہا : جی ہاں، رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس سے فرمایا : اپنا باغ لے لو اور انہیں ایک طلاق دے دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ١٢ (٥٢٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٠٥٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ١٨ (٢٢٢٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٠ (١١٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہوسکتا ہے میرے انہیں ناپسند کرنے کی وجہ سے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کمی و کوتاہی، نافرمانی و ناشکری ہوجائے اور میں گناہ گار ہوجاؤں، اس لیے میں ان سے علیحدگی چاہتی ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3463
خلع سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میری بیوی کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ١ ؎ آپ نے فرمایا : چاہو تو طلاق دے دو ، اس نے کہا میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرا دل اٹکا نہ رہے۔ آپ نے فرمایا : پھر تو اس سے اپنا کام نکالتے رہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٤ (٢٠٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦١) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل (رح) کا کہنا ہے : یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3464
خلع سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اللہ کے رسول ! میری ایک بیوی ہے جو کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی، آپ نے فرمایا : اسے طلاق دے دو ۔ اس نے کہا : میں اس کے بغیر رہ نہیں پاؤں گا۔ آپ نے فرمایا : پھر تو اسے رہنے دو ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ حدیث مرسل ہے، اس کا متصل ہونا غلط ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٣١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل (رح) کا کہنا ہے : یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3465
لعان شروع ہونے سے متعلق
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عاصم بن عدی (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عجلان کا ایک شخص عویمر میرے پاس آیا اور کہنے لگا : عاصم ! بھلا بتاؤ تو صحیح ؟ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر شخص کو دیکھتا ہے، اگر وہ اسے قتل کردیتا ہے تو کیا تم لوگ اسے قتل کر دو گے یا وہ کیا کرے ؟ عاصم میرے واسطے یہ مسئلہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھو تو عاصم (رض) نے اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے پوچھا، رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو برا جانا اور ناپسند کیا، عویمر ان کے پاس آئے اور کہا : عاصم ! کیا کیا تو نے ؟ (مسئلہ پوچھا یا نہیں ؟ ) انہوں نے کہا : میں نے کیا تو (یعنی پوچھا تو) لیکن تو اچھا سوال لے کر نہیں آیا تھا (جواب کیا ملتا) رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند کیا اور برا مانا۔ عویمر (رض) نے کہا : قسم اللہ کی ! میں تو ضرور رسول اللہ ﷺ سے یہ بات پوچھ کر رہوں گا (یہ کوئی فرضی سوال نہیں امر واقع ہے) پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں حکم نازل فرما دیا ہے۔ تو (جاؤ) اسے لے کر آؤ، سہل (رض) کہتے ہیں : اس وقت میں بھی لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، وہ اسے لے کر آئے اور دونوں نے لعان کیا ١ ؎۔ پھر اس نے (یعنی عویمر نے) کہا : اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی اگر میں نے اسے اپنے پاس رکھا تو میں اس پر تہمت لگانے والا ٹھہروں گا (یہ کہہ کر) انہوں نے اسے طلاق دے کر چھوڑ دیا اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ اسے چھوڑ دینے کا حکم دیتے۔ (راوی کہتے ہیں) پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہوگیا (یعنی لعان کے بعد میاں بیوی دونوں جدا ہوجائیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٠٣١) ، مسند احمد (٥/٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لعان کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دے کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے اگر اس کا شوہر سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3466
حمل کے وقت لعان کرنا
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا اور اس وقت اس کی بیوی حاملہ تھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٣٣٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣١ (٥٣١٠) ، ٣٦ (٥٣١٦) ، الحدود ٤٣ (٦٨٥٦) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٧) ، مسند احمد (١/٣٣٥، ٣٣٦، ٣٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3467
اگر کوئی شخص مقررہ آدمی کا نام لے کر عورت پر تہمت لگائے ان کے درمیان لعان کی صورت
عبدالاعلیٰ کہتے ہیں کہ ہشام سے ایک ایسے شخص سے متعلق پوچھا گیا جو اپنی بیوی پر زنا و بدکاری کا تہمت لگاتا ہے تو ہشام نے (اس کے جواب میں) محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے اس کے متعلق پوچھا اور یہ سمجھ کر پوچھا کہ ان کے پاس اس کے بارے میں کچھ علم ہوگا تو انہوں نے کہا : ہلال بن امیہ (رض) نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری میں ملوث ٹھہرایا۔ بلال براء بن مالک کے ماں کے واسطہ سے بھائی تھے اور یہ پہلے شخص تھے جن ہوں نے لعان کیا ١ ؎، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا۔ پھر فرمایا : بچے پر نظر رکھو اگر وہ بچہ جنے گورا چٹا، لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا تو سمجھو کہ وہ ہلال بن امیہ کا بیٹا ہے اور اگر وہ سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی ٹانگوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ وہ (یعنی انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں : مجھے خبر دی گئی کہ اس نے سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ چنا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦١) ، مسند احمد (٣/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان سے پہلے کسی نے لعان نہیں کیا تھا ان کے لعان کرنے سے لعان کا طریقہ معلوم ہوا۔ ٢ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں حاملہ عورت سے لعان کرنا منع نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3468
لعان کا طریقہ
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اس طرح ہوا کہ انہوں نے شریک بن سمحاء پر اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر آپ کو اس بات کی خبر دی، نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : چار گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی (کوڑے پڑیں گے) آپ نے یہ بات بارہا کہی، ہلال نے آپ سے کہا : قسم اللہ کی، اللہ کے رسول ! اللہ عزوجل بخوبی جانتا ہے کہ میں سچا ہوں اور (مجھے یقین ہے) اللہ بزرگ و برتر آپ ﷺ پر کوئی ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو کوڑے کھانے سے بچا دے گا، ہم سب یہی باتیں آپس میں کر ہی رہے تھے کہ آپ پر لعان کی آیت : والذين يرمون أزواجهم۔ آخر تک نازل ہوئی ١ ؎ آیت نازل ہونے کے بعد آپ نے ہلال کو بلایا، انہوں نے اللہ کا نام لے کر (یعنی قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہیں اور پانچویں بار انہوں نے کہا کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹے لوگوں میں سے ہوں، پھر عورت بلائی گئی اور اس نے بھی چار بار اللہ کا نام لے کر (قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے (راوی کو شک ہوگیا) چوتھی بار یا پانچویں بار قسم کھانے کا جب موقع آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ذرا) اسے روکے رکھو (آخری قسم کھانے سے پہلے اسے خوب سوچ سمجھ لینے دو ہوسکتا ہے وہ سچائی کا اعتراف کرلے) کیونکہ یہ گواہی (اللہ کی لعنت و غضب کو) واجب و لازم کر دے گی ، وہ رکی اور ہچکائی تو ہم نے شک کیا (سمجھا) کہ (شاید) وہ اعتراف گناہ کرلے گی، مگر وہ بولی : میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے شرمندہ، رسوا و ذلیل نہیں کرسکتی، یہ کہہ کر (آخری) قسم بھی کھا گئی۔ (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے دیکھتے رہو اگر وہ سفید (گورا) لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا بچہ جنے تو (سمجھو کہ) وہ ہلال بن امیہ کا لڑکا ہے اور اگر وہ بچہ گندم گوں، پیچیدہ الجھے ہوئے بالوں والا، میانہ قد کا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے ۔ تو اس عورت نے گندمی رنگ کا گھونگھریالے بالوں والا، درمیانی سائز کا، پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا، (اس کے جننے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس معاملے میں اللہ کا فیصلہ نہ آچکا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ (یعنی میں اس پر حد قائم کر کے رہتا) ۔ واللہ اعلم تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي وانظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں ( النور : ٦ ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت لعان ہلال رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے وقت نازل ہوئی جب کہ عاصم رضی الله عنہ کی حدیث رقم ( ٣٤٩٦ ) میں ہے کہ یہ آیت عویمر رضی الله عنہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہ واقعہ سب سے پہلے ہلال کے ساتھ پیش آیا پھر اس کے بعد عویمر بھی اس سے دو چار ہوئے پس یہ آیت ایک ساتھ دونوں سے متعلق نازل ہوئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3469
امام کا دعا کرنا کہ اللہ تو میری رہبری فرما
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے لعان کا ذکر آیا، عاصم بن عدی (رض) نے اس سلسلے میں کوئی بات کہی پھر وہ چلے گئے تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، یہ بات سن کر عاصم (رض) کہنے لگے : میں اپنی بات کی وجہ سے اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ١ ؎ تو وہ اس آدمی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور اس نے آپ کو اس آدمی کے متعلق خبر دی جس کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، کم گوشت والا (چھریرا بدن) سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کو اپنی بیوی کے پاس پانے کا مجرم قرار دیا تھا وہ شخص گندمی رنگ، بھری پنڈلیوں والا، زیادہ گوشت والا (موٹا بدن) تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہم بین اے اللہ معاملہ کو واضح کر دے ، تو اس عورت نے اس شخص کے مشابہہ بچہ جنا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کرنے کا حکم دیا۔ اس مجلس کے ایک آدمی نے جس میں ابن عباس (رض) نے یہ حدیث بیان کی کہا : (ابن عباس ! ) کیا یہ عورت وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کردیتا، ابن عباس (رض) نے فرمایا : نہیں، یہ عورت وہ عورت نہیں ہے۔ وہ عورت وہ تھی جو اسلام میں شر پھیلاتی تھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣١ (٥٣١٠) ، ٣٦ (٥٣١٦) ، الحدود ٤٣ (٦٨٥٦) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٢٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی نہ میں کہتا اور نہ یہ شخص میرے پاس یہ مقدمہ و قضیہ لے کر آتا۔ ٢ ؎: یعنی فاحشہ تھی، بدکاری کرتی تھی لیکن اس کے خلاف ثبوت نہیں تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3470
امام کا دعا کرنا کہ اللہ تو میری رہبری فرما
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لعان کی بات آئی تو عاصم بن عدی (رض) نے اس معاملے میں کوئی بات کہی پھر واپس چلے گئے، ان کی قوم کا ایک آدمی ان کے پاس پہنچا اور اس نے انہیں بتایا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (زنا کرتا ہوا) پایا ہے تو وہ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر گئے، اس نے آپ کو اس شخص سے باخبر کیا جس کے ساتھ اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، دبلا، سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے گندمی رنگ، بھری ہوئی پنڈلیوں والا، فربہ، گھونگھریالے چھوٹے بالوں والا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اللھم بیّن اے اللہ تو اسے واضح کر دے پھر اس نے بچہ جنا، وہ بچہ بالکل اسی طرح تھا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا، ایک آدمی نے جو (اس وقت) مجلس میں موجود تھا ابن عباس (رض) سے پوچھا : کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے کہا تھا کہ اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو کردیتا۔ ابن عباس (رض) نے کہا : نہیں، یہ عورت تو اسلام میں رہتے ہوئے شر پھیلاتی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٠٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بدکاری کراتی تھی، لیکن اقرار اور ثبوت نہ ہونے کے باعث قانون کی گرفت سے بچی ہوئی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3471
پانچویں مرتبہ قسم کھانے کے وقت لعان کرنے والوں کے چہرہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب دو لعان کرنے والوں کو لعان کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص کو (یہ بھی) حکم دیا کہ جب پانچویں قسم کھانے کا وقت آئے تو لعان کرنے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے ١ ؎ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ قسم اللہ کی لعنت و غضب کو لازم کر دے گی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٧٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تاکہ وہ ایک بار پھر سوچ لے کہ وہ کتنی بڑی اور بھیانک قسم کھانے جا رہا ہے۔ ٢ ؎: یعنی جھوٹے ہوں گے تو اللہ کی لعنت و غضب کے سزاوار ہونے سے بچ نہ سکیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3472
امام کا لعان کے وقت مرو و عورت کو نصیحت کرنا
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر (رض) کی امارت کے زمانہ میں دو لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا (کہ جب وہ دونوں لعان کر چکیں گے تو) کیا ان دونوں کے درمیان تفریق (جدائی) کردی جائے گی ؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں، میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ابن عمر (رض) کے گھر چلا گیا، میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی ؟ انہوں نے کہا : ہاں، سبحان اللہ، پاک و برتر ہے ذات اللہ کی۔ سب سے پہلے اس بارے میں فلاں ابن فلاں نے مسئلہ پوچھا تھا (ابن عمر (رض) نے ان کا نام نہیں لیا) اس آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : اللہ کے رسول ! (ارأیت عمرو بن علی جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں انہوں نے اپنی روایت میں ارأیت کا لفظ نہیں استعمال کیا ہے) ، آپ بتائیے ہم میں سے کوئی شخص کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھے (تو کیا کرے ؟ ) اگر وہ زبان کھولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے ١ ؎ اور اگر وہ چپ رہتا ہے تو بھی وہ ایسی بڑی اور بری بات پر چپ رہتا ہے (جو ناقابل برداشت ہے) ، آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا (اس روایت میں ـ فأمر عظیم کے الفاظ آئے ہیں، یہ اس روایت کے ایک راوی محمد بن مثنیٰ کے الفاظ ہیں، اس روایت کے دوسرے راوی عمرو بن علی نے اس کے بجائے اتی امراً عظیماً کے الفاظ استعمال کیے ہیں) ۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش آگیا تو وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : جس بارے میں، میں نے آپ سے مسئلہ پوچھا تھا میں خود ہی اس سے دوچار ہوگیا، (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے سورة النور کی یہ آیت : والذين يرمون أزواجهم سے لے کر والخامسة أن غضب اللہ عليها إن کان من الصادقين تک نازل فرمائیں، (اس کارروائی کا) آغاز آپ نے مرد کو وعظ و نصیحت سے کیا، آپ نے اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا، آسان اور کم تر ہے۔ اس شخص نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے جھوٹ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے عورت کو بھی خطاب کیا، آپ نے اسے بھی وعظ و نصیحت کی، ڈرایا اور آخرت کے سخت عذاب کا خوف دلایا۔ اس نے بھی کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ شخص جھوٹا ہے۔ (اس وعظ و نصیحت کے بعد لعان کی کارروائی روبہ عمل آئی) تو آپ نے (یہ کارروائی) مرد سے شروع کی۔ اس نے اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہے اور پانچویں بار اس نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے عورت سے گواہی لینی شروع کی، اس نے بھی اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے اور اس نے پانچویں بار کہا : اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ (شوہر) سچوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٣) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٢ (١١٠٢) ، صحیح البخاری/الطلاق ٣٢ (٥٣١١) ، ٣٥ (٥٣١٥) ، ٥٣ (٥٣٥٠) ، الفرائض ١٧ (٦٧٤٨) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٨) ، مسند احمد (٢/١٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٩ (٢٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس سے کہا جائے گا کہ چار گواہ لاؤ، چار گواہ نہ پیش کرسکو تو کوڑے کھاؤ۔ ٢ ؎: لعان کرنے والوں کے مابین جدائی کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ لعان کے بعد دونوں کے مابین جدائی ہوجائے گی، حاکم کے فیصلہ کی ضرورت نہیں، تفصیل کے لیے دیکھئیے زادالمعاد ( ٥/٣٨٨ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3473
لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب نے دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق نہیں کی (لعان کے بعد انہیں ایک ساتھ رہنے دیا) ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے بنی عجلان کے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے مابین تفریق کردی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3474
لعان کرنے والے لوگوں سے لعان کے بعد توبہ سے متعلق
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے کہا : کسی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا (تو کیا کرے) ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے بنو عجلان کے ایک مرد اور عورت کے مابین تفریق کردی تھی۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کا ارادہ رکھتا ہے ، آپ نے یہ بات ان دونوں سے تین بار کہی پھر بھی ان دونوں نے (توبہ کرنے سے) انکار کیا تو آپ نے ان دونوں کے مابین جدائی کردی۔ (ایوب کہتے ہیں : عمرو بن دینار نے کہا : اس حدیث میں ایک ایسی بات ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے بیان کرو گے ؟ کہتے ہیں : اس شخص نے کہا : میرے مال کا کیا ہوگا (ملے گا یا نہیں) ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ تو اپنی بات میں سچا ہو پھر بھی تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا کیونکہ تو اس کے ساتھ دخول کرچکا ہے اور اگر اپنی بات میں تو جھوٹا ہے تو تیری جانب مال کا واپس ہونا بعید ترشئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٢ (٥٣١١) ، ٣٣ (٥٣١٢) ، ٥٣ (٥٣٤٩) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٣) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧ (٢٢٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٠) ، مسند احمد (١/٧٥، ٢/٤، ٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اس عورت سے فائدہ اٹھایا، اس پر تہمت لگائی اور پھر مال کی حرص بھی رکھتا ہے، اس لیے تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3475
لعان کرنے والے افراد کا اجتماع
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے لعان کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے لعان کرنے والوں سے کہا : تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تم میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے، (مرد سے کہا :) تمہارا اب اس (عورت) پر کچھ حق و اختیار نہیں ہے ١ ؎، مرد نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے مال کا کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : تمہارا کوئی مال نہیں ہے۔ اگر تم نے اس پر صحیح تہمت لگائی ہے تو تم نے اب تک اس کی شرمگاہ سے حلت کا جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ مال اس کا بدل ہوگیا اور اگر تم نے اس عورت پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو یہ تو تمہارے لیے اور بھی غیر مناسب ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٣ (٥٣١٢) ، ٥٣ (٥٣٥٠) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٣) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥١) ، مسند احمد ٢/١١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ لعان کے بعد دونوں میں جدائی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوجائے گی، حدیث رسول اور اقوال صحابہ سے یہی ثابت ہے۔ ٢ ؎: یعنی تو نے اس کی شرمگاہ کو حلال بھی کیا، اس پر جھوٹا الزام بھی لگایا اور اس سے اپنا مال بھی لینے وپانے کا متمنی ہے یہ تو اور بھی غیر ممکن ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3476
لعان کی وجہ سے لڑکے کا نکار کرنا اور اس کو اس کی والدہ کے سپرد کرنے سے متعلق حدیث
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کا حکم دیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کردی اور بچے کو ماں کی سپردگی میں دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٥ (٥٣١٥) ، الفرائض ١٧ (٦٧٤٨) ، صحیح مسلم/اللعان ١ (١٤٩٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٧ (٢٢٥٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ٢٢ (١٢٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٧ (٢٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٢٢) ، موطا امام مالک/الطلاق ١٣ (٣٥) ، مسند احمد (٢/٧، ٣٨، ٦٤، ٧١) ، سنن الدارمی/النکاح ٣٩ (٢٢٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3477
اگر کوئی آدمی اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرے (بدکاری کا) اور بچے کے متعلق خاموش رہے لیکن اس کا ارادہ اس کا انکار کرنے کا ہی ہو؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بنی فرازہ کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے ١ ؎، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : کس رنگ کے ہیں ؟ ، اس نے کہا لال رنگ (کے ہیں) ، آپ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ اس نے کہا : (جی ہاں) ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں، آپ نے فرمایا : تم کیا سمجھتے ہو یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا ہوسکتا ہے کسی رگ نے یہ رنگ کشید کیا ہو۔ آپ نے فرمایا : (یہی بات یہاں بھی سمجھو) ہوسکتا ہے کسی رگ نے اس رنگ کو کھینچا ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٨ (٢٢٦٠) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٨ (٢٢٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٩) ، صحیح البخاری/الطلاق ٢٦ (٥٣٠٥) ، والحدود ٤١ (٦٨٤٧) ، والاعتصام ١٢ (٧٣١٤) ، سنن الترمذی/الولاء ٤ (٢١٢٩) ، مسند احمد (٢/٣٣٤، ٢٣٩، ٤٠٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا اس شخص کو اپنی بیوی پر شک ہوا کہ بیٹے کا کالا رنگ کہیں اس کی بدکاری کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟ ٢ ؎: یعنی تم گرچہ گورے سہی تمہارے آباء و اجداد میں کوئی کالے رنگ کا رہا ہوگا اور اس کا اثر تمہارے بیٹے میں آگیا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3478
اگر کوئی آدمی اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرے (بدکاری کا) اور بچے کے متعلق خاموش رہے لیکن اس کا ارادہ اس کا انکار کرنے کا ہی ہو؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فرازہ کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے اور وہ اسے اپنا بیٹا ہونے کے انکار کا سوچ رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ ، اس نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : ان کے رنگ کیسے ہیں ؟ اس نے کہا : سرخ، آپ نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ بھی ہے ؟ اس نے کہا (جی ہاں) خاکستری رنگ کے اونٹ بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے یہ رنگ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا : کسی رگ نے اسے کھینچا ہوگا۔ آپ نے فرمایا : (یہ بھی ایسا ہی سمجھ) کسی رگ نے اسے بھی کھینچا ہوگا ، آپ ﷺ نے اسے بچے کے اپنی اولاد ہونے سے انکار کی رخصت و اجازت نہ دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللعان ١ (١٥٠٠) ، سنن ابی داود/الطلاق ٢٨ (٢٢٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٧٣) ، مسند احمد (٢/٢٣٣، ٢٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3479
اگر کوئی آدمی اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرے (بدکاری کا) اور بچے کے متعلق خاموش رہے لیکن اس کا ارادہ اس کا انکار کرنے کا ہی ہو؟
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کھڑا ہو کر کہا : اللہ کے رسول ! میرے یہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہاں سے آیا یہ اس کا کالا رنگ ؟ ، اس نے کہا : مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ ، اس نے کہا : جی ہاں ہیں۔ آپ نے فرمایا : ان کے رنگ کیا ہیں ؟ ، اس نے کہا : سرخ ہیں، آپ نے فرمایا : کیا کوئی ان میں خاکی رنگ کا بھی ہے ؟ ، اس نے کہا : ان میں خاکی رنگ کے بھی اونٹ ہیں۔ آپ نے فرمایا : یہ خاکی رنگ کہاں سے آیا ؟ ، اس نے کہا : میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول ! ہوسکتا ہے کسی رگ نے اسے کشید کیا ہو (یعنی یہ نسلی کشش کا نتیجہ ہو اور نسل میں کوئی کالے رنگ کا ہو) ، آپ ﷺ نے فرمایا : اور یہ بھی ہوسکتا ہے کسی رگ کی کشش کے نتیجہ میں کالے رنگ کا پیدا ہوا ہو ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچے کا انکار کر دے جب تک کہ وہ اس کا دعویٰ نہ کرے کہ اس نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣١٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3480
بچے کا انکار کرنے پر وعید شدید کا بیان
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو عورت کسی قوم (خاندان و قبیلے) میں ایسے شخص کو داخل و شامل کر دے جو اس قوم (خاندان و قبیلے) کا نہ ہو (یعنی زنا و بدکاری کرے) تو کسی چیز میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کا تحفظ و تعاون حاصل نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل نہ کرے گا اور (ایسے ہی) جو شخص اپنے بیٹے کا (کسی بھی سبب سے) انکار کر دے اور دیکھ رہا (اور سمجھ بوجھ رہا) ہو (کہ وہ بیٹا اسی کا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کرلے گا ١ ؎ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اگلے و پچھلے سبھی لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٩ (٢٢٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٢) ، سنن الدارمی/النکاح ٤٢ (٢٢٨٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبداللہ بن یونس “ مجہول ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3481
جبکہ کسی عورت کا شوہر بچے کا منکر ہو تو بچہ اسی کو دے دینا چاہیے
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بچہ فراش والے کا ہے (یعنی جس کی بیوی ہو اس کا مانا جائے گا) اور زنا کار کے لیے پتھر ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ١٧ (٦٧٥٠) ، والحدود ٢٣ (٦٨١٨) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٨) ، سنن الترمذی/الرضاع ٨ (١١٥٧) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٩ (٢٠٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٣٤) ، مسند احمد (٢/٢٣٩، ٢٠٨) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زنا کار اگر کہتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے نطفہ کا ہے تو وہ پتھر کا مستحق ہے۔ اور اگر زنا کار شادی شدہ ہے تو ضابطے و قانون شریعت کے مطابق اسے پتھروں سے رجم کردیا جائے گا، یعنی اس کے لیے بالکل یہ محرومی ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3482
جبکہ کسی عورت کا شوہر بچے کا منکر ہو تو بچہ اسی کو دے دینا چاہیے
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لڑکا فراش والے (یعنی شوہر) کا ہے اور زنا کار کے لیے پتھر ہے (یعنی اسے مار لگے گی یا پتھروں سے رجم کردیا جائے گا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨٢) ، مسند احمد (٢/٢٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3483
جبکہ کسی عورت کا شوہر بچے کا منکر ہو تو بچہ اسی کو دے دینا چاہیے
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ (رض) کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہوگیا۔ سعد (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کرلوں) ، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے) ، عبد بن زمعہ (رض) نے کہا : وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عبد (عبد بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی و سرپرست ہو) ، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت و حصے میں پتھر ہے۔ اے سودہ بنت زمعہ ! تم اس سے پردہ کرو ١ ؎، تو اس نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣ (٢٠٥٣) ، ١٠٠ (٢٢١٨) ، الخصومات ٦ (٢٤٢١) ، العتق ٨ (٢٥٣٣) ، الوصایا ٤ (٢٧٤٥) المغازي ٥٣ (٤٣٠٣) ، الفرائض ١٨ (٤٣٤٩) ، ٢٨ (٦٧٦٥) ، الحدود ٢٣ (٦٨١٧) ، الأحکام ٢٩ (٧١٨٢) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٤ (٢٢٧٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٩ (٢٠٠٤) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٢١ (٢٢٨١) ، مسند احمد (٦/١٢٩، ٢٠٠، ٢٧٣، ٢٤٧) ، سنن الدارمی/النکاح ٤١ (٢٢٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ ﷺ نے اس جانب رہنمائی کردی کہ بچہ اگرچہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3484
جبکہ کسی عورت کا شوہر بچے کا منکر ہو تو بچہ اسی کو دے دینا چاہیے
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ صحبت کرتا تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سے بدکاری کیا کرتا ہے۔ چناچہ اس لونڈی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ اس شخص کی صورت کے مشابہ تھا جس کے بارے میں زمعہ کا گمان تھا کہ وہ اس کی لونڈی سے بدکاری کرتا ہے، وہ لونڈی حاملہ تھی جب ہی زمعہ کا انتقال ہوگیا، اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے ام المؤمنین سودہ (سودہ بنت زمعہ) رضی اللہ عنہا نے کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بچہ فراش والے کا ہے ١ ؎ اور سودہ ! تم اس سے پردہ کرو کیونکہ (فی الواقع) وہ تمہارا بھائی نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٢٩٣) ، مسند احمد (٤/٥) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بیوی یا لونڈی جس کی ہوگی بچہ اس کا مانا جائے گا جب تک کہ وہ خود ہی اس کا انکار نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ میرے نطفے کا نہیں ہے، اگرچہ خارجی اسباب سے معلوم بھی ہوتا ہو کہ یہ اس کے نطفہ کا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3485
جبکہ کسی عورت کا شوہر بچے کا منکر ہو تو بچہ اسی کو دے دینا چاہیے
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑکا فراش والے کا ہے ١ ؎ اور زنا کرنے والے کو پتھر ملیں گے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٢٩٤) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: بیوی اور لونڈی جس سے مرد کی صحبت جائز ہے اسے فراش ( بچھونا ) کہا گیا ہے، تو بچھونا جس کا ہوگا یعنی عورت یا لونڈی جس کی ہوگی لڑکا بھی اس کا کہا یا مانا جائے گا۔ ٢ ؎: یعنی غیر شادی شدہ ہوگا تو کوڑے لگیں گے جو پتھر کی مار کی طرح تکلیف دہ ہیں اور شادی شدہ ہوگا تو ( فی الواقع ) پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3486
باندی کے ہمبستر ہونے (یعنی باندی سے صحبت) سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ (رض) کا زمعہ کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہوگیا (کہ وہ کس کا ہے اور کون اس کا حقدار ہے) سعد (رض) نے کہا : میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھو (اور اسے حاصل کرلو) وہ میرا بیٹا ہے۔ چناچہ عبد بن زمعہ (رض) نے کہا : وہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر (یعنی اس کی ملکیت میں) پیدا ہوا ہے (اس لیے وہ میرا بھائی ہے) ، رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا کہ صورت میں بالکل عتبہ کے مشابہ تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (اگرچہ وہ عتبہ کے مشابہ ہے لیکن شریعت کا اصول و ضابطہ یہ ہے کہ) بچہ اس کا مانا اور سمجھا جاتا ہے جس کا بستر ہو (اس لیے اس کا حقدار عبد بن زمعہ ہے) اور اے سودہ (اس اعتبار سے گرچہ وہ تمہارا بھی بھائی لگے لیکن) تم اس سے پردہ کرو (کیونکہ فی الواقع وہ تیرا بھائی نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخصومات ٦ (٢٤٢١) ، صحیح مسلم/الرضاع ١٠ (١٤٥٧) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣٤ (٢٢٧٣) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٩ (٢٠٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٥) ، مسند احمد (٦/٣٧، ١٢٩، ٢٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3487
جس وقت لوگ کسی بچہ سے متعلق اختلاف کریں تو اس وقت قرعہ ڈالنا۔
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی (رض) جب یمن میں تھے ان کے پاس تین آدمی لائے گئے، ایک ہی طہر (پاکی) میں ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا (جھگڑا لڑکے کے تعلق سے تھا کہ ان تینوں میں سے کس کا ہے) انہوں نے دو کو الگ کر کے پوچھا : کیا تم دونوں یہ لڑکا تیسرے کا تسلیم و قبول کرتے ہو، انہوں نے کہا : نہیں، پھر انہوں نے دو کو الگ کر کے تیسرے کے بارے میں پوچھا : کیا تم دونوں لڑکا اس کا مانتے ہو، انہوں نے کہا : نہیں، پھر انہوں نے ان تینوں کے نام کا قرعہ ڈالا اور جس کے نام پر قرعہ نکلا بچہ اسی کو دے دیا، اور دیت کا دو تہائی اس کے ذمہ کردیا (اور اس سے لے کر ایک ایک تہائی ان دونوں کو دے دیا) ١ ؎ یہ بات نبی اکرم ﷺ کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ ہنس پڑے اور ایسے ہنسے کہ آپ کی داڑھ دکھائی دینے لگی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٢ (٢٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٠ (٢٣٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٧٠) مسند احمد (٤/٤٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دیت کے دو تہائی کا مفہوم یہ ہے کہ لونڈی کی قیمت کا دو ثلث اسے ادا کرنا پڑا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرعہ کے ذریعہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور کسی لڑکے کے جب کئی دعویدار ہوں تو قیافہ کے بجائے قرعہ کے ذریعہ فیصلہ ہوگا، جو لوگ قرعہ کے بجائے قیافہ کے قائل ہیں ممکن ہے انہوں نے علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کو اس حالت پر محمول کیا ہو جب قیافہ شناس موجود نہ ہو ( واللہ اعلم ) ۔ ٢ ؎: یعنی علی رضی الله عنہ کے اس انوکھے و عجیب فیصلے پر آپ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3488
جس وقت لوگ کسی بچہ سے متعلق اختلاف کریں تو اس وقت قرعہ ڈالنا۔
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں یمن سے ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو وہاں کی باتیں بتانے اور آپ سے باتیں کرنے لگا، ان دنوں علی (رض) یمن ہی میں تھے، اس نے کہا : اللہ کے رسول ! تین اشخاص ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے علی (رض) کے پاس آئے۔ ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں جماع کیا تھا اور آگے وہی حدیث بیان کی جو گزر چکی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٢ (٢٢٧١) ، (تحفة الأشراف : ٣٦٦٩) ، مسند احمد (٤/٣٧٤) ، ویأتی فیما یلی (٣٥٢٠، ٣٥٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3489
جس وقت لوگ کسی بچہ سے متعلق اختلاف کریں تو اس وقت قرعہ ڈالنا۔
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا اور علی (رض) ان دنوں یمن میں تھے، ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں ایک دن علی (رض) کے پاس موجود تھا، ان کے پاس تین آدمی آئے وہ تینوں ایک عورت کے بیٹے کے دعویدار تھے (کہ یہ بیٹا ہمارا ہے) علی (رض) نے ان میں سے ایک سے کہا : کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو ؟ اس نے کہا : نہیں، علی (رض) نے (دوسرے سے) کہا : کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو ؟ کہا : نہیں، اور تیسرے سے کہا : کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو ؟ کہا نہیں، علی (رض) نے کہا : تم سب آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہو، میں تم لوگوں کے درمیان قرعہ اندازی کردیتا ہوں تو جس کے نام قرعہ نکل آئے لڑکا اسی کا مانا جائے گا اور اسے دیت کا دو تہائی دینا ہوگا (جو لڑکے سے محروم دونوں کو ایک ایک ثلث تہائی کر کے دے دیا جائے گا) یہ قصہ سن کر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے (اور ایسے زور سے ہنسے) کہ آپ کی داڑھ دکھائی پڑنے لگی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3490
جس وقت لوگ کسی بچہ سے متعلق اختلاف کریں تو اس وقت قرعہ ڈالنا۔
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا۔ ان کے پاس ایک بچہ لایا گیا، جس کا باپ ہونے کے تین دعویدار تھے اور آگے وہی حدیث پوری بیان کردی (جو پہلے گزر چکی ہے) نسائی کہتے ہیں : خالفہم سلم ۃ بن کہیل سلمہ بن کہیل نے ان لوگوں کے خلاف روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥١٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مخالفت یہ ہے کہ اوپر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں صالح ہمدانی نے، ایک روایت میں اجلح نے اور ایک روایت میں شیبانی نے زید بن ارقم کو سند میں ذکر کر کے حدیث مرفوع بیان کیا ہے لیکن سلمہ بن کہیل نے اپنی روایت میں زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3491
جس وقت لوگ کسی بچہ سے متعلق اختلاف کریں تو اس وقت قرعہ ڈالنا۔
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو ابوالخیل سے یا ابن ابی الخیل سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی (ایک عورت سے) ایک ہی طہر میں (جماع کرنے میں) شریک ہوئے۔ انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا (جیسا کہ اوپر بیان ہوئی) لیکن زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہی صحیح ہے، واللہ أعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥١٩ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3492
علم قیافہ سے متعلق احادیث۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس خوش خوش آئے، آپ کے چہرے کے خطوط خوشی سے چمک دمک رہے تھے، آپ نے فرمایا : ارے تمہیں نہیں معلوم ؟ مجزز (قیافہ شناس ہے) نے زید بن حارثہ اور اسامہ کو دیکھا تو کہنے لگا : ان کے پیروں کے بعض حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٥) ، و فضائل الصحابة ١٧ (٣٧٣١) ، والفرائض ٣١ (٦٧٧٠) ، صحیح مسلم/الرضاع (١٤٥٩) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣١ (٢٢٦٨) ، سنن الترمذی/الولائ ٥ (٢١٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨١) ، مسند احمد (٦/٨٢، ٢٢٦) ، ویأتي فیما یلي (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ کے خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ لوگ اسامہ رضی الله عنہ کے نسب میں شک و شبہ کرتے تھے کہ زید رضی الله عنہ گورے ہیں اور اسامہ رضی الله عنہ کالے ہیں، ساتھ ہی یہ لوگ قیافہ شناس کی بات پر اعتماد بھی کرتے تھے اور جب قیافہ شناس نے یہ کہہ دیا کہ اسامہ کا نسبی تعلق زید سے ہے تو آپ بےحد خوش ہوئے کیونکہ قیافہ شناس کی بات سن کر لوگ اب اسامہ کے سلسلہ میں طعن و تشنیع سے کام نہیں لیں گے، قیافہ شناس کی بات سے آپ ﷺ کا خوش ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ قیافہ سے نسب کا اثبات صحیح ہے، جمہور کا یہی مسلک ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3493
علم قیافہ سے متعلق احادیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس خوش خوش آئے اور کہا : عائشہ ! ارے تم نے نہیں دیکھا مجزز مدلجی (قیافہ شناس) میرے پاس آیا اور (اس وقت) میرے پاس اسامہ بن زید تھے، اس نے اسامہ بن زید اور (ان کے والد) زید بن حارثہ (رض) دونوں کو دیکھا، ان کے اوپر ایک چھوردار چادر پڑی ہوئی تھی جس سے وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر دکھائی پڑ رہے تھے، اس نے ان کے پیر دیکھ کر کہا : یہ وہ پیر ہیں جن کا بعض بعض سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفرائض ٣١ (٦٧٧١) ، صحیح مسلم/الرضاع (١٤٥٩) ، سنن ابی داود/الطلاق ٣١ (٢٢٦٧) ، سنن الترمذی/الولاء ٥ (٢١٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢١ (٢٣٤٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3494
شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک کے مسلمان ہونے اور لڑکے کا اختیار
سلمہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا، ان دونوں کا ایک چھوٹا بیٹا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آیا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے بٹھا لیا، باپ بھی وہیں تھا اور ماں بھی وہیں تھی۔ آپ نے اسے اختیار دیا (ماں باپ میں سے جس کے ساتھ بھی تو ہونا چاہے اس کے ساتھ ہوجا) اور ساتھ ہی کہا (یعنی دعا کی) اے اللہ اسے ہدایت دے تو وہ باپ کی طرف ہو لیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٢٦ (٢٢٤٤) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٢ (٢٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٩٤) ، مسند احمد (٥/٤٤٦، ٤٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3495
شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک کے مسلمان ہونے اور لڑکے کا اختیار
ابومیمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (و آرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں) اس کا شوہر بھی آگیا اور اس نے کہا : کون میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا (اور اختلاف) کرتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے (اس کے بیٹے سے کہا :) اے لڑکے ! یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے، تو تم جس کے ساتھ رہنا چاہو اس کا ہاتھ پکڑ لو چناچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٥ (٢٢٧٧) مطولا، سنن الترمذی/الأحکام ٢١ (١٣٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٢٢ (٢٣٥١، ٢٣٥٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٣) ، مسند احمد (٢/٤٤٧) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٦ (٢٣٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3496
خلع کرنے والی خاتون کی عدت
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس (رض) نے اپنی بیوی کو مارا اور (ایسی مار ماری کہ) اس کا ہاتھ (ہی) توڑ دیا۔ وہ عورت عبداللہ بن ابی کی بیٹی جمیلہ تھی، اس کا بھائی اس کی شکایت لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس کو بلا بھیجا (جب وہ آئے تو) آپ نے ان سے فرمایا : تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو ١ ؎ انہوں نے کہا : اچھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے (یعنی عورت جمیلہ کو) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٨٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کر دو ۔ ٢ ؎: یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کے لیے جو کہتے ہیں کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3497
خلع کرنے والی خاتون کی عدت۔
عبادہ بن ولید ربیع بنت معوذ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے اپنا واقعہ (حدیث) بیان کیجئے انہوں نے کہا : میں نے اپنے شوہر سے خلع کیا اور عثمان (رض) عنہ کے پاس آ کر پوچھا کہ مجھے کتنی عدت گزارنی ہوگی ؟ انہوں نے کہا : تمہارے لیے عدت تو کوئی نہیں لیکن اگر انہیں دنوں (یعنی طہر سے فراغت کے بعد) اپنے شوہر کے پاس رہی ہو تو ایک حیض آنے تک رکی رہو۔ انہوں نے کہا : میں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے اس فیصلے کی پیروی کر رہا ہوں جو آپ نے ثابت بن قیس کی بیوی مریم غالیہ کے خلع کرنے کے موقع پر صادر فرمایا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٣ (٢٠٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثابت بن قیس کی بیوی کے مختلف نام لوگوں نے لکھے ہیں، انہیں میں سے ایک مریم غالیہ بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3498
مطلقہ خواتین کی عدت سے متعلق جو آیت کریمہ ہے اس میں سے کون کون سی خواتین مستثنی ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما (سورۃ البقرہ کی) آیت : ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها جس آیت کو ہم منسوخ کردیں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں ۔ (البقرہ : ١٠٦) ( اور سورة النمل کی) آیت : وإذا بدلنا آية مکان آية واللہ أعلم بما ينزل اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے ۔ (النحل : ١٠١) ( اور سورة الرعد کی) آیت : يمحو اللہ ما يشاء ويثبت وعنده أم الکتاب اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے لوح محفوظ اسی کے پاس ہے ۔ (الرعد : ٣٩) کے بارے میں فرماتے ہیں : ان آیات کی روشنی میں پہلی چیز جو منسوخ ہوئی وہ قبلہ کی تبدیلی ہے ١ ؎، اور (اس کے بعد) ابن عباس (رض) نے فرمایا : (اور یہ جو سورة البقرہ کی) آیت :والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ۔ (البقرہ : ٢٢٨) اور (سورۃ الطلاق کی) آیت : واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے ۔ (الطلاق : ٤) آئی ہے تو ان دونوں آیات سے (ان کا عموم) منسوخ ہوگیا (سورۃ الاحزاب کی اس) آیت :وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن سے اگر تم مومنہ عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو ۔ (الاحزاب : ٤٩) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٧ (٢٢٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٥٨٤ (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بیت المقدس کے بجائے قبلہ خانہ کعبہ بنادیا گیا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3499
جس کے شوہر کی وفات ہوگئی اس کی عدت۔
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، وہ شوہر کے انتقال پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٠ (١٢٨٠، ١٢٨١) ، والطلاق ٤٦ (٥٣٣٤) ، ٤٧ (٥٣٣٨) ، ٥٠ (٥٣٤٥) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٨٦) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٣ (٢٢٩٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٨ (١١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٧٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٤ (٢٠٨٤) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠١) ، مسند احمد (٦/٣٢٥، ٣٢٦، ٤٢٦) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٣٠) ، ویأتي عند المؤلف في ٥٩، ٦٣ (بأرقام ٣٥٥٧، ٣٥٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3500
جس کے شوہر کی وفات ہوگئی اس کی عدت
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس کا شوہر مرگیا ہو اور سرمہ (و کا جل) نہ لگانے سے اس کی آنکھوں کے خراب ہوجانے کا خوف و خطرہ ہو تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : (زمانہ جاہلیت میں) تمہاری ہر عورت (اپنے شوہر کے سوگ میں) اپنے گھر میں انتہائی خراب، گھٹیا و گندا کپڑا (اونٹ کی کاٹھ کے نیچے کے کپڑے کی طرح) پہن کر سال بھر گھر میں بیٹھی رہتی تھی، پھر کہیں (سال پورا ہونے پر) نکلتی تھی۔ اور اب چار مہینے دس دن بھی تم پر بھاری پڑ رہے ہیں ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٤٦ (٥٣٣٦) ، ٤٧ (٥٣٤٠) ، والطب ١٨ (٥٧٠٦) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٨٨) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٣ (٢٢٩٩) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٨ (١١٩٧) ، تحفة الأشراف : ١٨٢٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٤ (٢٠٨٤) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠٣) ، مسند احمد (٦/٢٩١، ٣١١، ٣٢٦) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٣٥٦٣، ٣٥٦٨-٣٥٧١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسلام کی رو سے وہ چار ماہ دس دن صبر نہیں کرسکتی ؟ یہ مدت تو سال کے مقابلہ میں اللہ کی جانب سے ایک رحمت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3501
جس کے شوہر کی وفات ہوگئی اس کی عدت
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہا : میری بیٹی کے شوہر (یعنی میرے داماد) کا انتقال ہوگیا ہے اور مجھے (عدت میں بیٹھی) بیٹی کی آنکھ کے خراب ہوجانے کا خوف ہے تو میں اس کی آنکھ میں سرمہ لگا سکتی ہوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں (سوگ منانے والی) عورت زمانہ جاہلیت میں سال بھر بیٹھی رہتی تھی، اور یہ تو چار مہینہ دس دن کی بات ہے، جب سال پورا ہوجاتا تو وہ باہر نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3502
جس کے شوہر کی وفات ہوگئی اس کی عدت
ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے سوائے شوہر کے، شوہر کے انتقال پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٥ (٢٠٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨١٧) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٥ (١٠٤) ، مسند احمد (٦/١٨٤، ٢٨٦، ٢٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3503
جس کے شوہر کی وفات ہوگئی اس کی عدت
بعض امہات المؤمنین اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے، شوہر کے مرنے پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3504
جس کے شوہر کی وفات ہوگئی اس کی عدت
صفیہ بنت ابو عبید نبی اکرم ﷺ کی ایک بیوی سے اور بیوی سے مراد ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہیں اور وہ نبی اکرم ﷺ سے اوپر گزری ہوئی حدیث جیسی حدیث بیان کرتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3505
حاملہ کی عدت کے بیان میں
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جن کر حالت نفاس میں ہوئے کچھ ہی راتیں گزریں تھیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے دوسری شادی کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے شادی کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٩ (٥٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٧٢) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣٠ (٨٥) ، مسند احمد (٤/٣٢٧) ، ویأتي فیما یلي (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3506
حاملہ کی عدت کے بیان میں
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نفاس سے فراغت کے بعد شادی کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3507
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسنابل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کو مرے ہوئے ٢٣ یا ٢٥ راتیں گزریں تھیں کہ اس نے بچہ جنا پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہوگئی تو اس نے (نئی) شادی کی تیاری کی اور اس کے لیے زیب و زینت سے مزین ہوئی تو اس کے لیے ایسا کرنا غیر مناسب سمجھا (اور ناپسند کیا) گیا اور اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے بھی کی گئی تو آپ نے فرمایا : جب اس کی عدت پوری ہوچکی ہے تو اب اس کے لیے کیا رکاوٹ ہے ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الطلاق ١٧ (١١٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٥٣) ، مسند احمد (٤/٣٠٤، ٣٠٥) ، سنن الدارمی/الطلاق ١١ (٢٣٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ ایسا کرسکتی ہے یہ کوئی عیب و برائی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3508
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم میں اس عورت کی عدت کے بارے میں اختلاف ہوگیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور اس نے بچہ جن دیا ہو۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا : (وضع حمل کے بعد نفاس سے فارغ ہو کر) وہ شادی کرسکتی ہے اور ابن عباس (رض) نے کہا : دونوں عدتوں (یعنی وضع حمل اور عدت طلاق) میں سے جس عدت کی مدت لمبی ہوگی اسے وہ عدت پوری کرنی ہوگی (یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد ہی وہ شادی کرسکے گی) آخر کار ان لوگوں نے کسی کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کر اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا سبیعہ رضی اللہ عنہا کے شوہر انتقال کر گئے اور ان کے انتقال کے پندرہ دن بعد اس نے بچہ جنا۔ پھر اسے دو آدمیوں نے شادی کا پیغام دیا، جن میں سے ایک کی طرف وہ مائل ہوگئی (اور اس کا بھی خیال اس سے شادی کر ڈالنے کا ہوگیا) تو جب (دوسرا شادی کا خواہشمند اور اس کے ساتھی) لوگ ڈرے کہ یہ تو ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے تو انہوں نے (شادی روکنے اور رکاوٹ ڈالنے کی خاطر) کہا : ابھی تو تم حلال ہی نہیں ہوئی ہو (تمہاری عدت پوری نہیں ہوئی ہے تم شادی رچانے کیسے جا رہی ہو) وہ کہتی ہیں (جب ان لوگوں نے یہ بات کہی) تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی، آپ نے فرمایا : بلاشبہ تم حلال ہوگئی ہو تو جس سے بھی چاہو اس سے نکاح کرسکتی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٣) ، مسند احمد (٦/٣١١، ٣١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3509
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس عورت (کی عدت) کے بارے میں پوچھا گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور وہ (انتقال کے وقت) حاملہ رہی ہو۔ ابن عباس (رض) نے کہا : دونوں عدتوں میں سے جو آخر میں ہو یعنی لمبی ہو اور دوسری کے مقابل میں بعد میں پوری ہوتی ہو ١ ؎، اور ابوہریرہ (رض) نے کہا : جس وقت عورت بچہ جنے اسی وقت اس کی عدت پوری ہوجائے گی۔ (یہ اختلاف سن کر) ابوسلمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا : سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے پندرہ دن بعد بچہ جنا پھر دو آدمیوں نے اسے شادی کرنے کا پیغام دیا، ان دونوں میں سے ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ عمر کا، وہ جوان کی طرف مائل ہوئی اور اسے شادی کے لیے پسند کرلیا۔ ادھیڑ عمر والے نے اس سے کہا : تو تم ابھی حلال نہیں ہوئی ہو (شادی کرنے کیسے جا رہی ہو) ، اس کے گھر والے غیر موجود تھے ادھیڑ عمر والے نے امید لگائی (کہ میرے ایسا کہنے سے شادی ابھی نہ ہوگی اور) جب لڑکی کے گھر والے آجائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کا اس کے ساتھ رشتہ کردینے کو ترجیح دیں (اور سبیعہ کو اس کے ساتھ شادی کرلینے پر راضی کرلیں) ۔ لیکن وہ تو (سیدھے) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم (بچہ جن کر) حلال ہوچکی ہو، تمہارا دل جس سے چاہے اس سے شادی کرلو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آیت : والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا ( البقرة : 234) کے مطابق ایک عدت چار مہینہ دس دن کی ہے اور دوسری عدت آیت : وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن ( الطلاق : 4) کے مطابق وضع حمل ہے۔ ٢ ؎: گویا ابوہریرہ رضی الله عنہ کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں درست تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3510
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنے شوہر کے انتقال کے بیس رات بعد بچہ جنا، کیا اس کے لیے نکاح کرلینا جائز و درست ہوگا ؟ انہوں نے کہا : اس وقت تک نہیں جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے بعد میں مکمل ہونے والی عدت کو پوری نہ کرلے۔ ابوسلمہ کہتے ہیں : میں نے کہا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن یعنی جن کے پیٹ میں بچہ ہے ان کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں ۔ ابن عباس (رض) نے کہا : یہ حکم مطلقہ (حاملہ) کا ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ابوسلمہ جو کہتے ہیں وہی میرے نزدیک بھی صحیح اور بہتر ہے) اس گفتگو کے بعد ابن عباس (رض) نے اپنے غلام کریب کو بھیجا کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کیا اس سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی کوئی سنت موجود ہے ؟ کریب ان کے پاس آئے اور انہیں (ساری بات) بتائی، تو انہوں نے کہا : ہاں، سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد کی بیس راتیں گزرنے کے بعد بچہ جنا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے شادی کرنے کی اجازت دی، اور ابوسنابل (رض) انہیں لوگوں میں سے تھے جن ہوں نے اسے شادی کا پیغام دیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ٢ (٤٩٠٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٥) ، سنن الترمذی/الطلاق ١٧ (١١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٠٦) ، مسند احمد (٦/٣١٤) ، سنن الدارمی/الطلاق ١١ (٢٣٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3511
حاملہ کی عدت کے بیان میں
سلیمان بن یسار سے روایت ہے، ابوہریرہ، ابن عباس (رضی الله عنہم) اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مرگیا ہو اور شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنا ہو آپس میں بات چیت کی۔ ابن عباس (رض) نے کہا : جو عدت بعد میں پوری ہو اس کا وہ لحاظ و شمار کرے گی، ابوسلمہ نے کہا : نہیں وہ وضع حمل کے ساتھ ہی (دوسرے کے لیے) حلال ہوجائے گی، ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں بھی اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ان کا ہم خیال ہوں) ، پھر ان لوگوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا تو انہوں نے کہا : سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے تھوڑے ہی دنوں بعد بچہ جنا پھر اس نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا تو آپ ﷺ نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3512
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے کچھ دنوں بعد بچہ جنا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے (اپنی پسند کے شخص سے) شادی کرلینے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3513
حاملہ کی عدت کے بیان میں
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس (رض) اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے درمیان اس عورت (کی عدت) کے بارے میں اختلاف ہوگیا جو اپنے شوہر کے انتقال کے چند ہی راتوں بعد بچہ جنے۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا : دونوں عدتوں میں سے جس عدت کی مدت زیادہ ہوگی اس پر عمل کرے گی اور ابوسلمہ نے کہا : جب بچہ پیدا ہوجائے گا تو وہ حلال ہوجائے گی، ابوہریرہ (رض) بھی (وہاں) پہنچ گئے (اور باتوں میں شریک ہوگئے) انہوں نے کہا : میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ساتھ ہوں (یعنی میری بھی وہی رائے ہے جو ابوسلمہ کی ہے) پھر ان سبھوں نے ابن عباس (رض) کے غلام کریب کو (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا وہ پوچھ کر ان لوگوں کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ وہ کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے چند راتوں بعد بچہ جنا پھر اس نے اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، آپ نے فرمایا : تو حلال ہوچکی ہے (جس سے بھی تو شادی کرنا چاہے کرسکتی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١ ش ٣٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3514
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم (سب) ساتھ میں تھے، ابن عباس (رض) نے کہا : جب عورت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنے گی تو وہ عورت دونوں عدتوں میں سے وہ عدت گزارے گی جس کی مدت بعد میں ختم ہوتی ہو۔ ابوسلمہ کہتے ہیں : ہم نے ام سلمہ (ام المؤمنین) رضی اللہ عنہا سے یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے ان کے پاس کریب کو بھیجا، وہ ہمارے پاس ان کے پاس سے یہ خبر لے کر آئے کہ سبیعہ کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا، ان کے انتقال چند دنوں بعد سبیعہ کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں شادی کرنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3515
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سن کر مجھے خبر دی کہ قبیلہ اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی اور حاملہ تھی (اسی دوران) شوہر کا انتقال ہوگیا تو ابوسنابل بن بعکک (رض) نے اسے شادی کا پیغام دیا جسے اس نے ٹھکرا دیا، اس نے اس سے کہا : تیرے لیے درست نہیں ہے کہ دونوں عدتوں میں سے آخری مدت کی عدت پوری کئے بغیر شادی کرے۔ پھر وہ تقریباً بیس راتیں ٹھہری رہی کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ (اس کے بعد) وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی (اور آپ سے اسی بارے میں مسئلہ پوچھا اور صورت حال بتائی) آپ نے فرمایا : تو (جس سے چاہے) نکاح کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطلاق ٣٩ (٣٥١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3516
حاملہ کی عدت کے بیان میں
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں اور ابوہریرہ (رض) دونوں ابن عباس (رض) کے پاس تھے، اتنے میں ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی : وہ حمل سے تھی کہ اسی دوران اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور اسے مرے ہوئے قریب چار مہینے ہوئے تھے کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا (اس کی عدت کیا ہوگی ؟ ) ۔ ابن عباس (رض) نے کہا : دونوں عدتوں میں سے جس کی مدت لمبی ہوگی وہی تمہاری عدت ہوگی، (یہ سن کر) ابوسلمہ نے کہا : مجھے ایک صحابی رسول ﷺ نے خبر دی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے کہا : اس کا شوہر انتقال کر گیا، اس وقت وہ حاملہ تھی پھر اس نے قریب چار مہینے پر بچہ جنا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے شادی کرلینے کا حکم دیا۔ ابوہریرہ (رض) کہنے لگے میں اس مسئلہ میں گواہ ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٦٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہوگئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3517
حاملہ کی عدت کے بیان میں
عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ان کے باپ عبداللہ (عبداللہ بن عتبہ) نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو خط لکھ کر حکم دیا کہ تم سبیعہ اسلمی بنت حارث (رض) کے پاس جاؤ اور ان کا قصہ معلوم کرو اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کیا فرمایا تھا جس وقت انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا، عمر بن عبداللہ نے (سبیعہ اسلمی سے ملاقات کر کے) عبیداللہ بن عتبہ کو باخبر کرتے ہوئے لکھا : سبیعہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں اور وہ (سعد) بنو عامر بن لوئی کے قبیلے سے تھے اور بدری بھی تھے، ان کا انتقال حجۃ الوداع میں ہوا اور اس وقت وہ حاملہ تھیں اور ان کی وفات کے بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہوگئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا (اور زیب و زینت کے ساتھ رہنے لگیں) ، ان کے پاس قبیلہ بنو عبدالدار کے ابوسنابل بن بعکک (رض) آئے، انہوں نے کہا : کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھتا ہوں، لگتا ہے تم شادی کرنا چاہ رہی ہو ؟ قسم اللہ کی ! تم اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتیں جب تک تم چار مہینے دس دن عدت کے پوری نہ کرلو۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب انہوں نے مجھے ایسی بات کہی تو شام کے وقت میں نے اپنے کپڑے لپیٹے و سمیٹے (اور اوڑھ پہن کر اور سلیقے سے ہو کر) رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ جس وقت میں نے بچہ جنا ہے اسی وقت سے میں حلال ہوچکی ہوں اور مجھے حکم دیا کہ میں شادی کرلوں اگر میرا جی چاہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ١٠ (٣٩٩١) تعلیقًا، الطلاق ٣٩ (٥٣١٩) ، صحیح مسلم/الطلاق ٨ (١٤٨٤) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٧ (٢٣٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٠) ، مسند احمد (٦/٤٣٢) ، ویأتي برقم : ٣٥٤٩، ٣٥٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3518
حاملہ کی عدت کے بیان میں
زفر بن اوس بن حدثان نصری بیان کرتے ہیں کہ ابوسنابل بن بعکک بن سباق (رض) نے سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم (نکاح کے لیے) حلال نہ ہوگی جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے لمبی مدت والی عدت کے چار ماہ دس دن تم پر گزر نہ جائیں، تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھا، پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فتویٰ دیا کہ جب وہ بچہ جن چکی ہے تو نکاح کرلے، وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں جب ان کے شوہر سعد کا انتقال ہوا تو ان کے حمل کا نوواں مہینہ چل رہا تھا، وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا، چناچہ بچہ جننے کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے شادی کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3519
حاملہ کی عدت کے بیان میں
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت الحارث اسلمی رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے حمل کے سلسلے میں انہیں کیا فتویٰ دیا تھا ؟ عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں (اس خط کے بعد) عمر بن عبداللہ نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ سعد بن خولہ (رض) کی بیوی تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ حجۃ الوداع میں وفات پا گئے اور شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوگیا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہوگئیں تو بنو عبدالدار کے ایک شخص ابوالسنابل (رض) ان کے پاس آئے اور انہیں زیب و زینت میں دیکھا تو کہا (عدت کے) چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی غالباً تم شادی کرنے کا ارادہ کر رہی ہو ؟ وہ (سبیعہ) کہتی ہیں : جب میں نے ابوالسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، میں نے آپ کو اپنی (اور ان کی) بات چیت بتائی۔ آپ نے فرمایا : تم تو اسی وقت سے حلال ہوگئی ہو جب تم نے بچہ جنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٤٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اب تم جب چاہو اور جس کے ساتھ چاہو شادی کرسکتی ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3520
حاملہ کی عدت کے بیان میں
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو (روایت) ابن عون کے قول حتیٰ تضع کے معنی اور حق میں تھی (یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے) ، (اس بات پر) ابن ابی لیلیٰ نے کہا : لیکن ان کے (یعنی عبداللہ بن عتبہ کے) چچا (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کے قائل نہ تھے (کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور (زور سے) کہا : کیا میں جرات کرسکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں (یہ نہیں ہوسکتا) وہ (عبداللہ بن عتبہ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں (جس کو ذرا بھی شک و شبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے) پھر میں مالک (بن عامر ابن عود) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود (رض) سبیعہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا کہتے تھے ؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود (رض) نے کہا : کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو (اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورة النساء (یعنی سورة الطلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے) بڑی سورة (بقرہ) کے بعد اتری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة البقرة ٤١ (٤٥٣٢) ، تفسیر سورة الطلاق ١ (٤٩١٠) تعلیقًا، (تحفة الأشراف : ٩٥٤٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ عدت چار ماہ دس دن کی عدت سے مستثنیٰ اور الگ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3521
حاملہ کی عدت کے بیان میں
علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ ابن مسعود (رض) نے کہا : جو کوئی مجھ سے مباہلہ کرنا چاہے میں اس سے اس بات پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں (کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے) کیونکہ وضع حمل کی مدت سے متعلق آیت متوفی عنہا زوجہا والی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے جس کا شوہر مرگیا ہو جب وہ بچہ جن دے گی حلال ہوجائے گی۔ اس روایت کے الفاظ میمون کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٤٤٢) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٧ (٢٣٠٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٧ (٢٠٣٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3522
حاملہ کی عدت کے بیان میں
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نسائی (یعنی طلاق) کی چھوٹی سورة البقرہ کی (بڑی) سورة کے بعد نازل ہوئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩١٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3523
اگر کسی کا شوہر ہمبستری سے قبل ہی انتقال کر جائے تو اس کی عدت؟
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کی مہر متعین نہ کی اور دخول سے پہلے مرگیا تو انہوں نے کہا : اسے اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر کے مثل مہر دلائی جائے گی نہ کم نہ زیادہ، اسے عدت گزارنی ہوگی اور اس عورت کو شوہر کے مال سے میراث ملے گی، یہ سن کر معقل بن سنان اشجعی (رض) اٹھے اور کہا : ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا جیسا آپ نے دیا ہے، یہ سن کر ابن مسعود (رض) خوش ہوئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3524
سوگ سے متعلق حدیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے سوائے اپنے شوہر کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٩ (١٤٩١) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٥ (٢٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤١) ، مسند احمد (٦/٣٧، ١٤٨، ٢٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عورت شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3525
سوگ سے متعلق حدیث
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو شوہر کے سوا کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٤٦١) ، مسند احمد (٦/٢٤٩، ٢٨١) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٢ (٢٣٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3526
اگر بیوی اہل کتاب میں سے ہو تو اس پر عدت کا حکم ساقط ہوجاتا ہے
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی منبر سے فرماتے ہوئے سنا : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے سوائے شوہر کے، اس (کے مرنے) پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٣٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3527
شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت گزارنے والی خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت مکمل ہونے تک اپنے گھر میں رہے
فارعہ بنت مالک رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر (بھاگے ہوئے) غلاموں کی تلاش میں نکلے (جب وہ ان کے سامنے آئے) تو انہوں نے انہیں قتل کردیا۔ (شعبہ اور ابن جریج کہتے ہیں : اس عورت کا گھر دور (آبادی کے ایک سرے پر) تھا، وہ عورت اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے گھر کے الگ تھلگ ہونے کا ذکر کیا (کہ وہاں گھر والے کے بغیر عورت کا تنہا رہنا ٹھیک نہیں ہے) آپ نے اسے (وہاں سے ہٹ کر رہنے کی) رخصت دے دی۔ پھر جب وہ (گھر جانے کے لیے) لوٹی تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ کتاب اللہ (قرآن) کی مقرر کردہ عدت کی مدت پوری ہوجائے۔ (اس کے بعد تم آزاد ہو جہاں چاہو رہو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٤ (٢٣٠٠) مطولا، سنن الترمذی/الطلاق ٢٣ (١٢٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٨ (٢٠٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٥) ، موطا امام مالک/الطلاق ٣١، مسند احمد (٦/٣٧٠، ٤٢٠) ، سنن الدارمی/الطلاق ١٤ (٢٣٣٣) ، ویأتي فیما یلي و برقم : ٣٥٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3528
شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت گزارنے والی خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت مکمل ہونے تک اپنے گھر میں رہے
فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے کچھ غلام اپنے یہاں کام کرانے کے لیے اجرت پر لیے تو انہوں نے انہیں مار ڈالا چناچہ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنے شوہر کے کسی مکان میں بھی نہیں ہوں اور میرے شوہر کی طرف سے میرے گزران کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے تو میں اپنے گھر والوں (یعنی ماں باپ) اور یتیموں کے پاس چلی جاؤں اور ان کی خبرگیری کروں ؟ آپ نے فرمایا : ایسا کرلو ، پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ نے فرمایا : کیسے بیان کیا تم نے (ذرا ادھر آؤ تو) ؟ تو میں نے اپنی بات آپ کے سامنے دہرا دی۔ (اس پر) آپ نے فرمایا : جہاں رہتے ہوئے تمہیں اپنے شوہر کے انتقال کی خبر ملی ہے وہیں رہ کر اپنی عدت کے دن بھی پوری کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3529
شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت گزارنے والی خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت مکمل ہونے تک اپنے گھر میں رہے
فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے شوہر اپنے (بھاگے ہوئے کچھ) غلاموں کی تلاش میں نکلے تو وہ قدوم کے علاقے میں قتل کردیئے گئے، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے اپنے گھر والوں کے پاس منتقل ہوجانے کی خواہش ظاہر کی اور آپ سے (وہاں رہنے کی صورت میں) اپنے کچھ حالات (اور پریشانیوں) کا ذکر کردیا تو آپ ﷺ نے مجھے (منتقل ہوجانے کی) اجازت دے دی۔ پھر میں جانے لگی تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا : عدت کی مدت پوری ہونے تک اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3530
کہیں بھی عدت گزارنے کی اجازت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آیت متاعا الی الحول غیر اخراج ... الی آخرہ جس میں متوفیٰ عنہا زوجہا کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارے تو یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے (اور اس کا ناسخ اللہ تعالیٰ کا یہ قول : فإن خرجن فلا جناح عليكم في ما فعلن في أنفسهن من معروف (البقرة : 240) ہے، اب عورت جہاں چاہے اور جہاں مناسب سمجھے وہاں عدت کے دن گزار سکتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ٤١ (٤٥٣١) ، والطلاق ٥٠ (٥٣٥٥) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٥ (٢٣٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٠٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سلسلہ میں فریعہ بنت مالک کی حدیث سے استدلال کرنے والوں کی دلیل مضبوط ہے، کیونکہ اس حدیث کا معارضہ کرنے والے کوئی ٹھوس اور مضبوط دلیل نہ پیش کرسکے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3531
جس کے شوہر کی وفات ہوجائے تو اس کی عدت اسی وقت سے ہے کہ جس روز اطلاع ملے
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر کا قدوم (بستی) میں انتقال ہوگیا تو میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور آپ کو بتایا کہ میرا گھر (بستی سے) دور (الگ تھلگ) ہے (تو میں اپنے ماں باپ کے گھر عدت گزار لوں ؟ ) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ پھر انہیں بلایا اور فرمایا : اپنے گھر ہی میں چار مہینے دس دن رہو یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3532
عدت میں بناؤ سنگھار چھوڑ دینا مسلمان عورت کے لئے ہے نہ کہ یہودی اور عیسائی خاتون کے لئے۔
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے انہوں نے یہ (آنے والی) تین حدیثیں بیان کیں : ١- زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب (رض) کا جب انتقال ہوگیا تو میں ان کے پاس (تعزیت میں) گئی، (میں نے دیکھا کہ) انہوں نے خوشبو منگوائی، (پہلے) لونڈی کو لگائی پھر اپنے دونوں گالوں پر ملا پھر یہ بھی بتادیا کہ قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت اور خواہش نہ تھی مگر (میں نے یہ بتانے کے لیے لگائی ہے کہ) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : کسی عورت کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے انتقال کرنے پر، کہ اس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی ۔ (اس لیے میں اپنے والد کے مرجانے پر تین دن کے بعد سوگ نہیں منا رہی ہوں) ۔ ٢- زینب (زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں : جب ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہوگیا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے خود لگایا پھر (مسئلہ بتانے کے لیے) کہا : قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے (و اعلان کرتے) ہوئے سنا ہے : جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی کے مرنے پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی ۔
عدت میں بناؤ سنگھار چھوڑ دینا مسلمان عورت کے لئے ہے نہ کہ یہودی اور عیسائی خاتون کے لئے۔
٣- زینب (زینب بنت ابی سلمہ) کہتی ہیں : میں نے (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا : اللہ کے رسول ! میری بیٹی کا شوہر انتقال کر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، پھر آپ نے فرمایا : ارے یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (جاہلیت میں کیا ہوتا تھا وہ بھی دھیان میں رہے) زمانہ جاہلیت میں تمہاری (بیوہ) عورت (سوگ کا) سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی ۔ حمید بن نافع کہتے ہیں : میں نے ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا سے کہا : سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا عورت کا شوہر جب انتقال کرجاتا تھا تو اس کی بیوی تنگ و تاریک جگہ (چھوٹی کوٹھری) میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتی۔ (سال پورا ہوجانے کے بعد) پھر کوئی جانور گدھا، بکری یا چڑیا اس کے پاس لائی جاتی اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے بھی وہ رگڑتی (دبوچتی) وہ (مر کر ہی چھٹی پاتا) مرجاتا، پھر وہ اس تنگ تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی (اس طرح وہ گویا اپنی نحوست دور کرتی) ، اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ جو چاہے استعمال کی اجازت ملتی۔ مالک کہتے ہیں : تفتض کا مطلب تمسح به کے ہیں (یعنی اس سے رگڑتی) ۔ محمد بن سلمہ مالک کہتے ہیں : حفش، خص کو کہتے ہیں (یعنی بانس یا لکڑی کا جھونپڑا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3533 ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی عورت شوہر کے سوا کسی میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی، نہ رنگ کر کپڑا پہنے، نہ ہی رنگین دھاگے سے بنا ہوا کپڑا (پہنے) ، نہ سرمہ لگائے، نہ کنگھی کرے، اور نہ خوشبو ملے۔ ہاں جب حیض سے پاک ہو تو اس وقت تھوڑے سے قسط و اظفار کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ١٢ (٣١٣) ، والجنائز ٣٠ (١٢٧٨) ، الطلاق ٤٧ (٥٣٣٩، ٤٩ (٥٣٤٢) ، صحیح مسلم/الطلاق ٩ (٩٣٨) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤٦ (٢٣٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٣٥ (٢٠٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٣٤) ، مسند احمد (٥/٨٥، ٤٠٨) ، ویأتي برقم : ٣٥٦٦، سنن الدارمی/الطلاق ١٣ (٢٣٣٢) ، ویأتي برقم : ٣٥٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قسط و اظفار ایک طرح کی دھوئیں دار چیزیں ہیں جنہیں حیض کی ناپسندیدہ بو ختم کرنے کے لیے سلگاتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دونوں ایک طرح کی خوشبو ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3534
شوہر کی موت کا غم منانے والی خواتین کا رنگین لباس سے پرہیز۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس عورت کا شوہر مرگیا ہے وہ عورت (عدت کے ایام میں) کسم کے رنگ کا اور سرخ پھولوں سے رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، خضاب نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٦ (٢٣٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٠) ، مسند احمد (٦/٣٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3535
دوران عدت مہندی لگانا
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے علاوہ کسی میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منائے اور سوگ منانے والی نہ سرمہ لگائے گی، نہ خضاب اور نہ ہی رنگا ہوا کپڑا پہنے گی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨١٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3536
دوران عدت بیری کے پتوں سے سر دھونے سے متعلق
ام حکیم بنت اسید اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور اس وقت ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی، چناچہ وہ آنکھوں کو جلا پہنچانے والا (یعنی اثمد کا) سرمہ لگایا کرتی تھیں تو انہوں نے (سوگ میں ہونے کے بعد) اپنی ایک لونڈی کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کر آنکھوں کو جلا اور ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کے لگانے کے بارے میں پوچھا ؟ انہوں نے کہا : نہیں لگا سکتی مگر یہ کہ کوئی ایسی مجبوری اور ضرورت پیش آجائے جس کو لگائے بغیر چارہ نہیں (تو لگا سکتی ہے) ۔ جب (میرے شوہر) ابوسلمہ کا انتقال ہوا اس وقت رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اس موقع پر میں اپنی آنکھ پر ایلوا لگائے ہوئے تھی۔ آپ نے پوچھا : ام سلمہ ! یہ کیا چیز ہے ؟ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ صرف ایلوا ہے ! اس میں کسی طرح کی خوشبو نہیں ہے، آپ نے فرمایا : (خوشبو تو نہیں ہے لیکن) یہ چہرے کو جوان (اور تروتازہ کردیتا) ہے۔ اسے نہ لگاؤ اور اگر لگانا ہی (بہت ضروری) ہو تو رات میں لگاؤ اور خوشبودار چیز اور مہندی لگا کر کنگھی نہ کیا کرو ۔ کیونکہ یہ خضاب ہے۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کیا چیز لگا کر سر دھوؤں اور کنگھی کروں ! آپ نے فرمایا : بیری کے پتے کا لیپ لگا کر اپنے سر کو ڈھانپ رکھو (اور دھو کر کنگھی کرو) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٦ (٢٣٠٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٠) (ضعیف) (اس کے راوی ” مغیرہ “ لین الحدیث ہیں، اور ” ام حکیم “ اور ان کی ماں دونوں مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3537
دوران عدت سرمہ لگانا
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ قریش کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میری بیٹی آشوب چشم میں مبتلا ہے اور وہ اپنے شوہر کے مرنے کا سوگ منا رہی ہے تو کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا دوں ؟ آپ نے فرمایا : کیا چار مہینے دس دن نہیں ٹھہر سکتی ؟ اس عورت نے پھر کہا : مجھے اس کی بینائی کے جانے کا خوف ہے۔ آپ نے فرمایا : نہیں، چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے نہیں لگا سکتی، زمانہ جاہلیت میں تمہاری ہر عورت اپنے شوہر کے مرنے پر سال بھر کا سوگ مناتی تھی پھر سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3538
دوران عدت سرمہ لگانا
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے اپنی بیٹی کا ذکر کر کے جس کا شوہر مرگیا تھا اور اس کی آنکھیں دکھتی تھیں (اس کے علاج و معالجے کے لیے) مسئلہ پوچھا، آپ نے فرمایا : تمہاری ہر عورت (جس کا شوہر مرجاتا تھا) پورے سال سوگ مناتی تھی (اور ہر طرح کی تکلیف اٹھاتی تھی) اور پھر سال پورا ہونے پر مینگنیاں پھینکتی تھی اور اب یہ (اسلام میں گھٹ کر) چار مہینے دس دن ہیں (تو تمہیں آنکھ کی تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3539
دوران عدت سرمہ لگانا
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قریش کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ میری بیٹی کا شوہر مرگیا ہے اور میں ڈرتی ہوں کہ اس کی آنکھیں کہیں خراب نہ ہوجائیں۔ اس کا مقصد تھا کہ آپ اسے سرمہ لگانے کی اجازت دے دیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری کوئی بھی عورت (جو سوگ منا رہی ہوتی تھی) سوگ کے سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی اور یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (یہ بھی تم لوگوں سے گزارے نہیں جاتے) ۔ حمید بن نافع کہتے ہیں : میں نے زینب سے پوچھا رأس الحول (سال بھر کے بعد) کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا جاہلیت میں ہوتا یہ تھا کہ جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو وہ عورت اپنے گھروں میں سے سب سے خراب (بوسیدہ) گھر میں جا بیٹھتی تھی، جب اس کا سال پورا ہوجاتا تو وہ اس گھر سے نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3540
دوران عدت سرمہ لگانا
زینب (زینب بنت ام سلمہ رضی الله عنہا) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا کوئی عورت اپنے شوہر کے انتقال پر عدت گزارنے کے دوران سرمہ لگا سکتی ہے ؟ تو انہوں نے بتایا : ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور آپ سے یہی سوال کیا (جو تم نے کیا ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں تم میں سے جس عورت کا شوہر اسے چھوڑ کر مرجاتا تھا تو وہ عورت سال بھر سوگ مناتی رہتی یہاں تک کہ وہ وقت آتا کہ وہ اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی پھر وہ گھر سے نکلتی ۔ (تب اس کی عدت پوری ہوتی) اور مدت پوری ہونے تک یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (سال بھر کے مقابل میں یہ کچھ بھی نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3541
دوران عدت (خوشبو) قسط اور اظفار کے استعمال سے متعلق
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس عورت کو جس کا شوہر مرگیا ہو عدت کے دوران حیض سے پاک ہونے پر (خون کی بدبو دور کرنے کے لیے) قسط اور اظفار کے استعمال کی رخصت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨١٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3542
شوہر کی وفات کے بعد عورت کو ایک سال کا خرچہ اور رہائش دینے کے حکم کے منسوخ ہونے کے بارے میں
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اللہ تعالیٰ کے اس قول والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج اور جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیبیاں چھوڑ جائیں (یعنی جس وقت مرنے لگیں) تو وہ اپنی بیبیوں کے لیے ایک سال تک ان کو نہ نکالنے اور خرچ دینے کی وصیت کر جائیں ۔ (البقرہ : ٢٤٠) کے متعلق فرماتے ہیں : یہ آیت میراث کی آیت سے منسوخ ہوگئی ہے جس میں عورت کا چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کردیا گیا ہے اور ایک سال تک عدت میں رہنے کا حکم چار ماہ دس دن کے حکم سے منسوخ ہوگیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٤٢ (٢٢٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٠) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3543
شوہر کی وفات کے بعد عورت کو ایک سال کا خرچہ اور رہائش دینے کے حکم کے منسوخ ہونے کے بارے میں
عکرمہ آیت کریمہ : والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج کے متعلق فرماتے ہیں : یہ آیت اس آیت : والذين يتوفون منکم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا اور جو لوگ تم میں سے (اے مسلمانو ! ) مرجائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ (یعنی بیبیاں) چار مہینے دس دن تک اپنے تئیں روک رکھیں ۔ (البقرہ : ٢٣٤) سے منسوخ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3544
تین طلاقوں والی خاتون کے واسطے عدت کے درمیان مکان سے نکلنے کی اجازت کے متعلق
عبدالرحمٰن بن عاصم سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بنی مخزوم کے ایک شخص کی بیوی تھیں، وہ شخص انہیں تین طلاقیں دے کر کسی جہاد میں چلا گیا اور اپنے وکیل سے کہہ گیا کہ اسے تھوڑا بہت نفقہ دیدے۔ (تو اس نے دیا) مگر اس نے اسے تھوڑا اور کم جانا (اور واپس کردیا) پھر ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس پہنچی اور وہ ان کے پاس ہی تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، انہوں نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ فاطمہ بنت قیس ہیں اور (ان کے شوہر) فلاں نے انہیں طلاق دے دی ہے اور ان کے پاس کچھ نفقہ بھیج دیا ہے جسے انہوں نے واپس کردیا، اس کے وکیل کا خیال ہے کہ یہ تو اس کی طرف سے ایک طرح کا احسان ہے (ورنہ اس کا بھی حق نہیں بنتا) آپ ﷺ نے فرمایا : وہ صحیح کہتا ہے، تم ام کلثوم کے یہاں منتقل ہوجاؤ اور وہیں عدت گزارو ، پھر آپ نے فرمایا : نہیں، تم عبداللہ بن ام مکتوم کے یہاں منتقل ہوجاؤ، ام کلثوم کے گھر ملنے جلنے والے بہت آتے ہیں (ان کے باربار آنے جانے سے تمہیں تکلیف ہوگی) اور عبداللہ بن ام مکتوم نابینا آدمی ہیں ، (وہاں تمہیں پریشان نہ ہونا پڑے گا) تو وہ عبداللہ ابن ام مکتوم کے یہاں چلی گئیں اور انہیں کے یہاں اپنی عدت کے دن پورے کئے۔ اس کے بعد ابوالجہم اور معاویہ بن ابی سفیان (رض) نے انہیں شادی کا پیغام دیا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے ان دونوں کے بارے میں کسی ایک سے شادی کرنے کا مشورہ چاہا، تو آپ نے فرمایا : رہے ابوالجہم تو مجھے ان کے تم پر لٹھ چلا دینے کا ڈر ہے اور رہے معاویہ تو وہ مفلس انسان ہیں۔ یہ سننے کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے اسامہ بن زید (رض) سے شادی کرلی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٣٠) ، مسند احمد (٦/٤١٤) (ضعیف الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد وقوله أم کلثوم منکر والمحفوظ أم شريك صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3545
تین طلاقوں والی خاتون کے واسطے عدت کے درمیان مکان سے نکلنے کی اجازت کے متعلق
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کی بیوی تھیں، انہوں نے انہیں تین طلاقوں میں سے آخری تیسری طلاق دے دی۔ فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور اپنے گھر سے اپنے نکل جانے کا مسئلہ پوچھا۔ تو آپ ﷺ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہوجانے کا حکم دیا۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ مروان بن حکم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مطلقہ کے گھر سے نکلنے کی بات کو صحیح تسلیم نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں : عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ کی اس بات کا انکار کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٤٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3546
تین طلاقوں والی خاتون کے واسطے عدت کے درمیان مکان سے نکلنے کی اجازت کے متعلق
فاطمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی (مجھے تنہا پا کر) اچانک میرے پاس گھس نہ آئے (اس لیے آپ مجھے کہیں اور منتقل ہوجانے کی اجازت دے دیجئیے) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے اپنی رہائش کی جگہ تبدیل کرلی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3547
تین طلاقوں والی خاتون کے واسطے عدت کے درمیان مکان سے نکلنے کی اجازت کے متعلق
شعبی کہتے ہیں کہ میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے ان کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ پوچھا ؟ انہوں نے کہا : میرے شوہر نے مجھے طلاق بتہ (تین طلاق قطعی) دی تو میں ان سے نفقہ و سکنیٰ حاصل کرنے کا اپنا مقدمہ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی تو آپ نے مجھے نفقہ و سکنیٰ پانے کا حقدار نہ ٹھہرایا اور مجھے حکم دیا کہ میں اب ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت کے دن گزاروں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3548
تین طلاقوں والی خاتون کے واسطے عدت کے درمیان مکان سے نکلنے کی اجازت کے متعلق
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں نے (شوہر کے گھر سے) منتقل ہوجانے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس (اجازت طلب کرنے کی غرض سے) آئی، آپ نے (اجازت عطا فرمائی) فرمایا : اپنے چچا زاد بھائی عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہوجاؤ اور وہیں عدت کے دن گزارو ۔ (یہ سن کر) اسود نے ان کی طرف (انہیں متوجہ کرنے کے لیے) کنکری پھینکی اور کہا : تمہارے لیے خرابی ہے ایسا فتویٰ کیوں دیتی ہو۔ عمر (رض) نے کہا : اگر تم دو ایسے گواہ پیش کر دو جو اس بات کی گواہی دیں کہ جو تم کہہ رہی ہو اسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے تو ہم تمہاری بات قبول کرلیں گے۔ اور اگر دو گواہ نہیں پیش کرسکتیں تو ہم کسی عورت کے کہنے سے کلام پاک کی آیت : لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں ۔ (الطلاق : ١) پر عمل کرنا ترک نہیں کرسکتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3549
جس عورت کے شوہر کی وفات ہوگئی تو اس کا عدت کے درمیان مکان سے نکلنا
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی (اسی دوران) انہوں نے اپنے کھجوروں کے باغ میں جانے کا ارادہ کیا تو ان کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے انہیں باغ میں جانے سے روکا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں (آپ سے اس بارے میں پوچھا) تو آپ نے فرمایا : تم اپنے باغ میں جاسکتی ہو، توقع ہے (جب تم اپنے باغ میں جاؤ گی، پھل توڑو گی تو) تم صدقہ کرو گی اور (دوسرے) اچھے بھلے کام کرو گی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ٧ (١٤٨٣) ، سنن ابی داود/الطلاق ٤١ (٢٢٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٩ (٢٠٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٩٩) ، مسند احمد (٣/٣٢١) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٢ (٢٥٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3550
بائنہ کے خرچہ سے متعلق
ابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ دونوں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، انہوں نے کہا : میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور میرے نفقہ و سکنیٰ کا انتظام نہ کیا، اور اپنے چچیرے بھائی کے یہاں میرے لیے دس قفیز رکھ دیئے : پانچ قفیز جو کے اور پانچ قفیز کھجور کے ١ ؎، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور آپ کو یہ ساری باتیں بتائیں تو آپ نے فرمایا : اس نے صحیح کہا ہے اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں فلاں کے گھر میں رہ کر اپنی عدت پوری کروں، ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائن دی تھی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک قفیز آٹھ مکیال برابر سولہ کیلو گرام کا ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3551
تین طلاق والی حاملہ خاتون کا نان و نفقہ
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ١ ؎ لڑکی کی ماں کا نام حمنہ بنت قیس تھا، لڑکی کی خالہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو کے گھر سے (کہیں اور) منتقل ہوجا، یہ بات مروان (مروان بن حکم) نے سنی تو انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی بیوی کو کہلا بھیجا کہ اپنے گھر میں آ کر اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے، (اس کے جواب میں) اس نے مروان کو یہ خبر بھیجی کہ مجھے میری خالہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے گھر چھوڑ دینے کا فتویٰ دیا تھا اور بتایا تھا کہ جب ان کے شوہر ابوعمرو بن حفص مخزومی (رض) نے انہیں طلاق دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں گھر سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا تھا۔ (یہ قصہ سن کر) مروان نے قبیصہ بن ذویب (نامی شخص) کو (تحقیق واقعہ کے لیے) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا۔ (وہ آئے) اور ان سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو کی بیوی تھیں اور وہ اس وقت جب رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) کو یمن کا امیر (گورنر) بنا کر بھیجا تھا علی (رض) کے ساتھ یمن چلے گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے انہیں وہ طلاق دے کر بھیجی جو باقی رہ گئی تھی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ (رض) کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ انہیں نفقہ دے دیں گے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حارث اور عیاش سے اس نفقہ کا مطالبہ کیا جسے انہیں دینے کے لیے ان کے شوہر نے ان سے کہا تھا، ان دونوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جواب دیا : قسم اللہ کی ! ان کے لیے ہمارے ذمہ کوئی نفقہ نہیں ہے، (یعنی ان کے لیے نفقہ کا حق ہی نہیں تھا) ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں بیشک وضع حمل تک نفقہ مل سکتا ہے) اور اب ان کے لیے ہمارے گھر میں رہنے کا بھی حق نہیں بنتا، الا یہ کہ ہم انہیں (ازراہ عنایت) اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ (یہ باتیں سن کر) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور یہ ساری باتیں آپ کو بتائیں تو آپ ﷺ نے ان دونوں کی تصدیق کی (کہ انہوں نے صحیح بات بتائی ہے) ۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کہاں چلی جاؤں ؟ آپ نے فرمایا : ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ۔ یہ ابن ام مکتوم وہی نابینا شخص ہیں جن کی خاطر اللہ نے اپنی کتاب (قرآن پاک کی سورة عبس) میں رسول اللہ ﷺ پر عتاب فرمایا تھا۔ تو میں ان کے یہاں چلی گئی۔ (ان کے نہ دیکھ پانے کی وجہ سے بغیر کسی دقت و پریشانی کے) میں وہاں اپنے کپڑے اتار لیتی (اور تبدیل کرلیتی) تھی ٢ ؎ اور یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی شادی اسامہ بن زید (رض) سے نہ کرا دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٢٢٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسی طلاق جس سے طالق کا مطلقہ سے ہر طرح کا رشتہ ختم ہوجائے اور مرد کا اس سے بغیر دوسری شادی کے نکاح ناجائز ہو۔ ٢ ؎: معلوم ہوا کہ بلاقصد و ارادہ عورت کی نگاہ اگر مرد پر پڑجائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، چناچہ آپ ﷺ نے ایک نابینا شخص کے گھر میں عورت کو عدت گزارنے کے لیے جو حکم صادر فرمایا اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عورت کی ذات مرد کی نگاہوں سے پوری طرح محفوظ رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے باوجود یہ کہ فاطمہ کی نگاہ ابن ام مکتوم پر پڑ سکتی تھی پھر بھی آپ نے اس ناحیہ سے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا، اب رہ گئی بات ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث افعمیاوان انتما کی تو اس سلسلہ میں امام ابوداؤد اپنی سنن ( ٤/٣٦٢ ) میں لکھتے ہیں کہ یہ ازواج مطہرات کے لیے خاص ہے، ابن حجر (رح) نے تلخیص ( ٣/١٤٨ ) میں ابوداؤد (رح) کی اس تطبیق کو جمع حسن کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3552
لفظ قرء سے متعلق ارشاد نبوی ﷺ
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی تو آپ نے ان سے کہا : یہ کسی رگ سے آتا ہے (رحم سے نہیں) تم دھیان سے دیکھتی رہو جب تمہیں قرؤ یعنی حیض آئے ١ ؎ تو نماز نہ پڑھو اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو (نہا دھو کر) پاک ہوجایا کرو اور پھر ایک حیض سے دوسرے حیض کے درمیان نماز پڑھا کرو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٠١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں آپ ﷺ نے قرؤ سے حیض مراد لیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3553
تین طلاق کے بعد حق رجوع منسوخ ہونے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما قرآن پاک کی آیت : ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها یعنی ہم جو کوئی آیت منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ہم اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسی کوئی اور آیت لے آتے ہیں (البقرہ : ١٠٦) اور دوسری آیت : وإذا بدلنا آية مکان آية واللہ أعلم بما ينزل یعنی جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کیا چیز اتاری ہے تو وہ کہتے ہیں تو تو گڑھ لاتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سمجھتے ہی نہیں ہیں (النحل : ١٠١) ، اور تیسری آیت : يمحو اللہ ما يشاء ويثبت وعنده أم الکتاب اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی اور ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ) ہے (الرعد : ٣٩) ۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : پہلی چیز جو قرآن سے منسوخ ہوئی ہے وہ قبلہ ہے۔ اور عبداللہ بن عباس (رض) آیت : والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء ولا يحل لهن أن يکتمن ما خلق اللہ في أرحامهن سے لے کر إن أرادوا إصلاحا تک یعنی اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض کے آجانے کا انتظار کریں گی اور ان کے لیے حلال نہیں ہے کہ ان کی بچہ دانیوں میں اللہ نے جو تخلیق کردی ہو اسے چھپائیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں، البتہ ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ انہیں لوٹا لینے کا پورا حق رکھتے ہیں (البقرہ : ٢٢٨) کی تفسیر میں فرماتے ہیں (پہلے معاملہ یوں تھا) کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو اسے لوٹا لینے کا بھی پورا پورا حق رکھتا تھا خواہ اس نے اسے تین طلاقیں ہی کیوں نہ دی ہوں، ابن عباس کہتے ہیں : یہ چیز منسوخ ہوگئی کلام پاک کی اس آیت الطلاق مرتان فإمساک بمعروف أو تسريح بإحسان یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روک لینا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے (البقرہ : ٢٢٩) سے (یعنی وہ صرف دو طلاق تک رجوع کرسکتا ہے اس سے زائد طلاق دینے پر رجوع کرنا جائز نہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٥٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3554
طلاق سے رجوع کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میری بیوی حالت حیض میں تھی اسی دوران میں نے اسے طلاق دے دی، عمر (رض) نے جا کر نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ رجوع کرلے، پھر جب وہ حالت طہر میں آجائے تو اسے اختیار ہے، چاہے تو اسے طلاق دیدے ۔ یونس کہتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا : کیا آپ نے (پہلی طلاق) کو شمار و حساب میں رکھا ہے تو انہوں نے کہا : نہ رکھنے کی کوئی وجہ ؟ تمہیں بتاؤ اگر کوئی عاجز ہوجائے یا حماقت کر بیٹھے (تو کیا شمار نہ ہوگی ؟ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٤٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3555
طلاق سے رجوع کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، اس بات کا ذکر عمر نے نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا : انہیں حکم دو کہ اسے لوٹا لے پھر جب دوسرا حیض آ کر پاک ہوجائے تو چاہے تو اسے طلاق دیدے اور چاہے تو اسے روکے رکھے، یہی وہ طلاق ہے جو اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فطلقوهن لعدتهن انہیں طلاق دو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں (الطلاق : ١) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٥٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3556
طلاق سے رجوع کے بارے میں
نافع کہتے ہیں کہ جب ابن عمر (رض) سے کسی ایسے شخص کے متعلق پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہو تو وہ کہتے : اگر اس نے ایک طلاق دی ہے یا دو طلاقیں دی ہیں (تو ایسی صورت میں) رسول اللہ ﷺ نے اسے رجوع کرلینے کا حکم دیا ہے پھر اسے دوسرے حیض آنے تک روکے رکھے پھر جب وہ (دوسرے حیض سے) پاک ہوجائے تو اسے جماع کرنے سے پہلے ہی طلاق دیدے اور اگر اس نے تین طلاقیں (ایک بار حالت حیض ہی میں) دے دی ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے معاملہ میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے ١ ؎ لیکن تین طلاق کی وجہ سے اس کی عورت بائنہ ہوجائے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٤٤) ، مسند احمد (٢/٦٤، ١٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ نے عورت کو طلاق دینے کا جو طریقہ بتایا تھا اس نے اس کے موافق کام نہ کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3557
طلاق سے رجوع کے بارے میں
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور بیوی اس وقت حیض سے تھی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں رجوع کرلینے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے اسے لوٹا لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٧٥٨) ، مسند احمد (٢/٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3558
طلاق سے رجوع کے بارے میں
طاؤس کہتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر سے اس وقت سنا جب ان سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہو۔ ابن عمر (رض) نے پوچھنے والے سے کہا : کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں، کہا : (انہیں کا واقعہ ہے) کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بیوی حیض سے تھی تو عمر (رض) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس بات کی خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے یہاں تک کہ (حیض آئے اور پھر) حیض سے پاک ہوجائے (اب چاہے تو طلاق نہ دے اپنی زوجیت میں قائم رکھے) طاؤس کہتے ہیں : میں نے ابن عمر (رض) سے اس سے مزید کچھ کہتے ہوئے نہیں سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطلاق ١ (١٤٧١) ، (تحفة الأشراف : ٧١٠١) ، مسند احمد (٢/١٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3559
طلاق سے رجوع کے بارے میں
عبداللہ بن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (اور عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے) حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تھی اور پھر رجوع فرمایا تھا۔ واللہ اعلم، (اللہ بہتر جانتا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطلاق ٣٨ (٢٢٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ١ (٢٠١٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠٩٣) ، سنن الدارمی/الطلاق ٢ (٢٣١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3560