30. وصیتوں سے متعلقہ احادیث
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا صدقہ اجر و ثواب میں سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارا اس وقت صدقہ کرنا جب تندرست اور صحت مند ہو، تمہیں مال جمع کرنے کی حرص ہو، محتاج ہوجانے کا ڈر ہو اور تمہیں لمبی مدت تک زندہ رہنے کی امید ہو اور صدقہ کرنے میں جان نکلنے کے وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے تو کہو : فلاں کو اتنا دے دو ، حالانکہ اب تو وہ فلاں ہی کا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٤٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مرتے وقت صدقہ دینے میں زیادہ ثواب نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3611
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں کون شخص ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پسند ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے ہر شخص کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمجھو اس بات کو، تم میں سے ہر شخص کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز و محبوب ہے، تمہارا مال تو وہ ہے جو تم نے (مرنے سے پہلے اپنی آخرت میں کام آنے کے لیے) آگے بھیج دیا اور تمہارے وارث کا مال وہ ہے جو تم نے (مرنے کے بعد) اپنے پیچھے چھوڑ دیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ١٢ (٦٤٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٩١٩٢) ، مسند احمد (١/٣٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ اپنی زندگی ہی میں کسی کو دے دلا دینا زیادہ بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3612
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ألهاكم التکاثر * حتى زرتم المقابر (کثرت و زیادتی) کی چاہت نے تمہیں غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے : میرا مال، میرا مال کہتا ہے ؟ (لیکن حقیقت میں) تمہارا مال تو صرف وہ ہے جو تم نے کھا (پی) کر ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ اور پرانا کردیا یا صدقہ کر کے اسے آخرت کے لیے آگے بھیج دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزہد ١ (٢٩٥٨) ، سنن الترمذی/الحج ٣١ (٢٣٤٢) ، تفسیر اتکاتر ٤٩ (٣٣٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٦) ، مسند احمد (٤/٢٤، ٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3613
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کچھ دینار اللہ کی راہ میں دینے کی وصیت کی۔ تو ابو الدرداء (رض) سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا : جو شخص اپنی موت کے وقت غلام آزاد کرتا ہے یا صدقہ و خیرات دیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص پیٹ بھر کھا لینے کے بعد (بچا ہوا) کسی کو ہدیہ دیدے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/العتق ١٥ (٣٩٦٨) ، مختصراً سنن الترمذی/الوصایا ٧ (٢١٢٣) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٠٩٧٠) ، مسند احمد (٥/١٩٦، ١٩٧ و ٦/٤٤٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو حبیبہ “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: تو جیسے اس ہدیہ کا کوئی خاص ثواب اور اہمیت نہیں ہے ایسے ہی مرتے وقت غلام آزاد کرنے اور صدقہ دینے کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، دے تو اس وقت دے جب خود کو بھی اس کی احتیاج اور ضرورت ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3614
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ضروری ہو مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی گزارے جس میں اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٠٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3615
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کو جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے بارے میں اسے وصیت کرنی ہو یہ حق نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٨٢) ، موطا امام مالک/الوصایا ١ (١) ، مسند احمد (٢/١١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3616
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
اس سند سے یہ ابن عمر سے موقوفاً روایت ہے (یعنی ابن عمر (رض) کا قول) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٧٥١) ، مسند احمد (٢/١٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3617
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کی تین راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کے اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے اس وقت سے ہمیشہ میری وصیت میرے پاس رہتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٧ م) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3618
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں وصیت کرنی ضروری ہو پھر بھی وہ تین راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کے پاس اس کی لکھی ہوئی وصیت موجود نہ ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٩٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجب حق ہو جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض اور امانت وغیرہ تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ وصیت کرے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3619
کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی؟
طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی ؟ کہا : نہیں ١ ؎، میں نے کہا : پھر مسلمانوں پر وصیت کیسے فرض کردی ؟ کہا : آپ نے اللہ کی کتاب سے وصیت کو ضروری قرار دیا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١ (٢٧٤٠) ، المغازي ٨٣ (٤٤٦٠) ، فضائل القرآن ١٨ (٥٠٢٢) ، صحیح مسلم/الوصایا ٥ (١٦٣٤) ، سنن الترمذی/الوصایا ٤ (٢١١٩) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ١ (٢٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١٧٠) ، مسند احمد (٤/٣٥٤، ٣٥٥، ٣٨١) ، سنن الدارمی/الوصیة ٣ (٣٢٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دنیا کے متعلق کوئی وصیت نہیں کی کیونکہ آپ نے ایسا کوئی مال چھوڑا ہی نہیں تھا جس میں وصیت کرنے کی ضرورت پیش آتی، رہی مطلق وصیت تو آپ نے کئی باتوں کی وصیت فرمائی ہے۔ ٢ ؎: اشارہ ہے آیت کریمہ : كتب عليكم إذا حضر أحدکم الموت إن ترک خيرا الوصية للوالدين والأقربين بالمعروف حقا على المتقي کی طرف، یعنی اس آیت کی بنا پر آپ نے وصیت کو فرض قرار دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3620
کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (موت کے وقت) نہ دینار چھوڑا، نہ درہم، نہ بکری چھوڑی، نہ اونٹ اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٦ (١٦٣٥) ، سنن ابی داود/الوصایا ١ (٢٨٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ١ (٢٦٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٦١٠) ، مسند احمد (٦/٤٤) ، ویأتي فیما یلي (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3621
کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ دینار چھوڑا، نہ درہم، نہ بکری چھوڑی، نہ اونٹ اور نہ ہی وصیت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : انطر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3622
کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ درہم چھوڑا، نہ دینار، نہ بکری چھوڑی اور نہ اونٹ اور نہ ہی وصیت فرمائی۔ (اس روایت کے دونوں راویوں میں سے ایک راوی جعفر بن محمد بن ہذیل نے اپنی روایت میں دینار اور درہم کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٩٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3623
کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی (رض) کو وصیت کی (اس وقت آپ کی حالت اتنی خراب تھی کہ) آپ نے پیشاب کرنے کے لیے طشت منگوایا کہ اتنے میں آپ کے اعضاء ڈھیلے پڑگئے (روح پرواز کرگئی) اور میں نہ جان سکی تو آپ نے کس کو وصیت کی ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ کی روح پرواز کرگئی، اس وقت تک میں وہاں موجود تھی پھر آخر کون ہے جسے وصی بنایا گیا ؟ البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے کتاب و سنت سے متعلق وصیت انتقال سے کچھ روز پہلے کی ہو اور یہ وصیت کسی کے ساتھ خاص نہیں ہوسکتی بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3624
کیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت فرمائی تھی؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے وقت میرے سوا آپ کے پاس کوئی اور نہ تھا اس وقت آپ نے (پیشاب کے لیے) طشت منگا رکھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3625
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا ایسا بیمار کہ مرنے کے قریب آ لگا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے پاس بہت سارا مال ہے اور ایک بیٹی کے علاوہ میرا کوئی وارث نہیں، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں ؟ آپ نے جواب دیا : نہیں ۔ میں نے کہا : آدھا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ میں نے کہا : تو ایک تہائی کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ایک تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٣٦ (١٢٩٥) مطولا، مناقب الأنصار ٤٩ (٣٩٣٦) ، المغازي ٧٧ (٤٣٩٥) ، النفقات ١ (٥٣٥٤) ، المرضی ١٣ (٥٦٥٩) ، ١٦ (٥٦٦٨) ، الدعوات ٤٣ (٦٣٧٣) ، الفرائض ٦ (٦٧٣٣) ، صحیح مسلم/ الوصایا ٢ (٢١١٦) ، سنن ابی داود/الوصایا ٢ (٢٨٦٤) ، سنن الترمذی/الجنائز ٦ (٩٧٥) ، الوصایا ١ (٢١١٧) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٥ (٢٧٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩٠) ، موطا امام مالک/الوصایا ٣ (٤) ، مسند احمد (١/١٦٨، ١٧٢، ١٧٦، ١٧٩) ، سنن الدارمی/الوصایا ٧ (٣٢٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3626
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وق اس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے اور میں ان دنوں مکے میں تھا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : آدھے مال کی ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، میں نے کہا : ایک تہائی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، ایک تہائی دے دو ، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں تنگدست چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور لوگوں سے جو ان کے ہاتھ میں ہے مانگتے پھریں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢ (٢٧٤٢) مطولا، النفقات ١ (٥٣٥٤) مطولا، صحیح مسلم/الوصایا ٢ (١٦٢٨ م) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٨٠) ، مسند احمد (١/١٧٢، ١٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3627
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (وہ مکہ میں بیمار پڑے تو) رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لاتے تھے، وہ اس سر زمین میں جہاں سے وہ ہجرت کر کے جا چکے تھے مرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی : سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمت نازل ہو ، (سعد کی صرف ایک بیٹی تھی) ، سعد (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں دینے کی) وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : آدھے مال کی، اللہ کی راہ میں وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : تو ایک تہائی مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : تہائی کی وصیت کر دو ، ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج اور پریشان حال بنا کر اس دنیا سے جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3628
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابراہیم کہتے ہیں کہ آل سعد میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ سعد بیمار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس تشریف لائے، تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں دینے) وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، اور انہوں نے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٩٥٠) ، (حم ١/٧٢) (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3629
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ مکہ میں بیمار پڑے تو (ان کی بیمار پرسی کے لیے) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، وہ آپ کو دیکھ کر رو پڑے، کہا : اللہ کے رسول ! میں ایسی سر زمین میں مر رہا ہوں جہاں سے ہجرت کر کے جا چکا ہوں، آپ نے فرمایا : نہیں، ان شاء اللہ (تم یہاں نہیں مرو گے) ۔ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، انہوں نے کہا : دو تہائی کی دے دینے کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، انہوں نے کہا : آدھا دینے کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں انہوں نے کہا : تو تہائی کی وصیت کر دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اچھا ایک تہائی کی وصیت کر دو ، ایک تہائی بھی زیادہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٨٧٦) ، مسند احمد (١/١٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3630
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری بیماری میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس بیمار پرسی کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا : تم نے وصیت کردی ؟ میں نے کہا : جی ہاں کردی، آپ نے فرمایا : کتنی ؟ میں نے کہا : اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ آپ نے پوچھا : اپنی اولاد کیلئے کیا چھوڑا ؟ میں نے کہا : وہ سب مالدار و بےنیاز ہیں، آپ نے فرمایا : دسویں حصے کی وصیت کرو ، پھر برابر آپ یہی کہتے رہے اور میں بھی کہتا رہا ١ ؎ آپ نے فرمایا : اچھا تہائی کی وصیت کرلو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الجنائز ٦ (٩٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩٨) ، مسند احمد (١/١٧٤) (ضعیف) (مولف کی یہ سند عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر پچھلی سند صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میں نے کل مال میں سے دو تہائی کہا، آپ نے فرمایا : نہیں ، میں نے آدھا کہا، آپ نے فرمایا : نہیں ، میں نے کہا : تہائی ؟ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3631
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی بیماری میں ان کی عیادت کی، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، کہا : آدھے کی کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، کہا : تہائی کی کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ایک تہائی کی کر دو ، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٩٠٦) ، مسند احمد (١/١٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3632
ایک تہائی مال کی وصیت
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سعد بن ابی وقاص (رض) کی عیادت کے لیے ان کے پاس آئے، سعد (رض) نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصے اللہ کی راہ میں دے دینے کا حکم (یعنی اجازت) دے دیجئیے۔ آپ نے فرمایا : نہیں ، انہوں نے کہا : تو پھر ایک تہائی کی وصیت کردیتا ہوں، آپ نے فرمایا : ہاں، ایک تہائی ہوسکتا ہے، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے، (آپ نے مزید فرمایا) اگر تم اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر (اس دنیا سے) جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں فقیر بنا کر جاؤ کہ وہ (دوسروں کے سامنے) ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٢٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3633
ایک تہائی مال کی وصیت
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ لوگ اگر وصیت کو ایک چوتھائی تک کم کریں (تو مناسب ہے) کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٣ (٢٧٤٣) ، صحیح مسلم/الوصایا ١ (١٦٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٥ (٢٧١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٧٦) ، مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3634
ایک تہائی مال کی وصیت
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت وہ بیمار تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا : (اللہ کے رسول ! ) میری کوئی اولاد (نرینہ) نہیں ہے، صرف ایک بچی ہے۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کردیتا ہوں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں ، انہوں نے کہا : آدھے کی وصیت کر دوں ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نہیں ، انہوں نے کہا : تو میں ایک تہائی مال کی وصیت کرتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٩٢٧) ، مسند احمد (١/١٧٢، ١٧٣) ، سنن الدارمی/الوصیة ٧ (٣٢٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سعد بن مالک ہی سعد بن ابی وقاص ہیں، والد کا نام مالک اور کنیت ابوسعد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3635
ایک تہائی مال کی وصیت
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ ان کے والد ١ ؎ اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور قرض چھوڑ کر جنگ احد میں شہید ہوگئے، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد میں شہید کردیے گئے ہیں اور وہ بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو (وہاں موجود) دیکھیں (تاکہ مجھ سے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا : جاؤ اور ہر ڈھیر الگ الگ کر دو ، تو میں نے (ایسا ہی) کیا، پھر آپ ﷺ کو بلایا، جب ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو اس گھڑی گویا وہ لوگ مجھ پر اور بھی زیادہ غصہ ہوگئے ٢ ؎ جب آپ نے ان لوگوں کی حرکتیں جو وہ کر رہے تھے دیکھیں تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے اردگرد تین چکر لگائے پھر اسی ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا : اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ جب وہ لوگ آگئے تو آپ انہیں برابر (ان کے مطالبے کے بقدر) ناپ ناپ کردیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کرا دی اور میں اس پر راضی و خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کردی اور ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥١ (٢١٢٧) ، الاستقراض ٨ (٢٣٩٥) ، ١٨ (٢٤٠٥) ، الہبة ٢١ (٢٦٠١) ، الوصایا ٣٦ (٢٧٨١) ، المناقب ٢٥ (٣٥٨٠) ، المغازي ١٨ (٤٠٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٣٤٤) ، ویأتی فیما یلي : ٣٦٦٧، ٣٦٦٨ و ٣٦٧٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی الله عنہ۔ ٢ ؎: یعنی اپنا اپنا مطالبہ لے کر شور برپا کرنے لگے کہ ہمیں دو ، ہمارا حساب پہلے چکتا کرو وغیرہ وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3636
وراثت سے قبل قرض ادا کرنا اور اس سے متعلق اختلاف کا بیان
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا، میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا اور کھجوروں کے باغ کی آمدنی کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور کئی سالوں کی باغ کی آمدنی کے بغیر یہ قرض ادا نہ ہو سکے گا، اللہ کے رسول ! میرے ساتھ چلئے تاکہ قرض خواہ لوگ مجھے برا بھلا نہ کہیں، چناچہ آپ کھجور کی ایک ایک ڈھیر کے اردگرد گھومے اور اس کے آس پاس سلام کیا اس کے لیے دعا فرمائی اور پھر اسی پر بیٹھ گئے اور قرض خواہوں کو بلایا اور انہیں (ان کا حق) پورا پورا دیا اور جتنا وہ لے گئے اتنا ہی بچ رہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3637
وراثت سے قبل قرض ادا کرنا اور اس سے متعلق اختلاف کا بیان
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام (رض) انتقال فرما کر گئے اور (اپنے ذمہ لوگوں کا) قرض چھوڑ گئے تو میں نے ان کے قرض خواہوں سے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ قرض میں کچھ کمی کردینے کی سفارش کرائی تو آپ نے ان سے کم کرانے کی گزارش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کو الگ الگ کر دو ، عجوہ کو علیحدہ رکھو اور عذق بن زید اور دوسری قسموں کو الگ الگ کرے کے رکھو۔ پھر مجھے بلاؤ، تو میں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور سب سے اونچی والی ڈھیر پر یا بیچ والی ڈھیر پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے فرمایا : لوگوں کو ناپ ناپ کر دو ، جابر (رض) کہتے ہیں : تو میں انہیں ناپ ناپ کردینے لگا یہاں تک کہ میں نے سبھی کو پورا پورا دے دیا پھر بھی میری کھجوریں بچی رہیں، ایسا لگتا تھا کہ میری کھجوروں میں کچھ بھی کمی نہیں آئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3638
وراثت سے قبل قرض ادا کرنا اور اس سے متعلق اختلاف کا بیان
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد کے ذمہ ایک یہودی کی کھجوریں تھیں، اور وہ جنگ احد میں قتل کردیے گئے اور کھجوروں کے دو باغ چھوڑ گئے، یہودی کی کھجوریں دو باغوں کی کھجوریں ملا کر پوری پڑ رہی تھیں تو نبی اکرم ﷺ نے (یہودی سے) فرمایا : کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم اس سال اپنے قرض کا آدھا لے لو اور آدھا دیر کر کے (اگلے سال) لے لو ؟ ، یہودی نے (ایسا کرنے سے) انکار کردیا، نبی اکرم ﷺ نے (مجھ سے فرمایا :) کیا تم پھل توڑتے وقت مجھے خبر کرسکتے ہو ؟ ، تو میں نے آپ کو پھل توڑتے وقت خبر کردی تو آپ اور ابوبکر (رض) تشریف لائے اور (کھجور کے) نیچے سے نکال کر الگ کرنے اور ناپ ناپ کردینے لگے اور رسول اللہ ﷺ برکت کی دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ چھوٹے باغ ہی کے پھلوں سے اس کے پورے قرض کی ادائیگی کردی، پھر میں ان دونوں حضرات کے پاس (بطور تواضع) تازہ کھجوریں اور پانی لے کر آیا، تو ان لوگوں نے کھایا پیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم لوگوں سے پوچھ تاچھ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٥٠١) ، مسند احمد ٣/٣٣٨، ٣٥١، ٣٩١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3639
وراثت سے قبل قرض ادا کرنا اور اس سے متعلق اختلاف کا بیان
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد (غزوہ احد میں) انتقال کر گئے اور ان کے ذمہ قرض تھا تو میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ والد کے ذمہ ان کا جو حق ہے اس کے بدلے (ہمارے باغ کی) کھجوریں لے لیں تو انہوں نے اسے لینے سے انکار کردیا، وہ سمجھتے تھے کہ اتنی کھجوریں ان کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہیں تو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم کھجوریں توڑ کر کھلیان میں رکھ دو تو مجھے خبر کرو ، چناچہ جب میں نے کھجوریں توڑ کر انہیں کھلیان میں رکھ دیں تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا (اور آپ کو بتایا) آپ آئے، آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر (رض) بھی تھے، آپ اس پر بیٹھ گئے اور برکت کی دعا فرمائی پھر فرمایا : اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور انہیں ان کا حق پورا پورا دیتے جاؤ تو میں نے کسی کو بھی جس کا میرے باپ پر قرض تھا نہیں چھوڑا، سب کو اس کا پورا پورا حق دے دیا اور میرے لیے تیرہ وسق کھجوریں بھی بچ رہیں، جب میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ہنسے اور فرمایا : ابوبکر و عمر (رض) کے پاس جاؤ اور انہیں بھی یہ بات بتاؤ، تو میں نے ان دونوں کو بھی اس بات کی خبر دی، تو ان دونوں نے کہا : جب ہم نے آپ کو وہ کرتے دیکھا جو آپ ﷺ نے کیا تو ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإستقراض ٩ (٢٣٩٦) ، الصلح ١٣ (٢٧٠٩) ، سنن ابی داود/الوصایا ١٧ (٢٨٨٤) ، مختصراً سنن ابن ماجہ/الصدقات ٢٠ (٢٤٣٤) ، تحفة الأشراف : ٣١٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3640
وارث کی حق میں وصیت باطل ہے
عمرو بن خارجہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا تو فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (تو تم سمجھ لو) وارث کے لیے وصیت نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الوصایا ٥ (٢١٢١) مطولا، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٦ (٢٧١٢) مطولا، (تحفة الأشراف : ١٠٧٣١) ، مسند احمد (٤/١٨٦، ١٨٧، ٢٣٨، ٢٣٩) ، سنن الدارمی/الوصیة ٢٨ (٣٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کا حق دے دیا ہے، اور اس کے حصے متعین کردیے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3641
وارث کی حق میں وصیت باطل ہے
عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ نے ذکر کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس خطبہ میں موجود تھے جو آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر دے رہے تھے، سواری جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میراث سے ہر انسان کا حصہ تقسیم فرما دیا ہے تو کسی وارث کے لیے وصیت کرنا درست اور جائز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ١٠٧٣١) ، انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3642
وارث کی حق میں وصیت باطل ہے
عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، اور کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : (تحفة الأشراف : ١٠٧٣١) ، انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3643
اپنے رشتہ داروں سے وصیت کرنے سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت : وأنذر عشيرتک الأقربين نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کو بلایا چناچہ قریش سبھی لوگ اکٹھا ہوگئے، تو آپ نے عام و خاص سبھوں کو مخاطب کر کے فرمایا : اے بنی کعب بن لوئی ! اے بنی مرہ بن کعب ! اے بنی عبد شمس ! اے بنی عبد مناف ! اے بنی ہاشم اور اے بنی عبدالمطلب ! تم سب اپنے آپ کو آگ سے بچا لو اور اے فاطمہ (فاطمہ بنت محمد) تم اپنے آپ کو آگ سے بچا لو کیونکہ میں اللہ کے عذاب کے سامنے تمہارے کچھ بھی کام نہیں آسکتا سوائے اس کے کہ ہمارا تم سے رشتہ داری ہے جو میں (دنیا میں) اس کی تری سے تر رکھوں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨٩ (٢٠٤) ، سنن الترمذی/تفسیرسورة الشعراء ٢ (٣١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٢٣) ، مسند احمد (٢/٣٣٣، ٣٦٠، ٥١٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ برابر صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3644
اپنے رشتہ داروں سے وصیت کرنے سے متعلق
موسیٰ بن طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے بنی عبد مناف ! اپنی جانوں کو اپنے رب سے (اپنے اعمال حسنہ کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا لینے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا، اے عبدالمطلب کی اولاد ! اپنی جانوں کو اپنے رب سے (اپنے نیک اعمال کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا لینے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا، البتہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرابت داری ہے، تو میں اس کی تری اسے تروتازہ اور زندہ رکھنے کی کوشش کروں گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١١ (٢٧٥٣ تعلیقًا) ، تفسیر سورة الشعراء ٢ (٤٧٧١ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/الإیمان ٨٩ (٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤٨، ١٥٢٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دنیا میں تمہارے ساتھ برابر صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3645
اپنے رشتہ داروں سے وصیت کرنے سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر جب آیت : وأنذر عشيرتک الأقربين آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا : اے قریش کی جماعت ! تم ! اپنی جانوں کو اللہ سے (اس کی اطاعت کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے بنی عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے کچھ بھی نجات نہیں دلا سکتا، اے صفیہ ! (رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی) میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے فاطمہ بنت محمد ! تمہیں جو کچھ بھی مانگنا ہو مانگ لو، لیکن (یہ جان لو کہ) میں اللہ کے پاس تمہارے کچھ بھی کام نہ آؤں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3646
اپنے رشتہ داروں سے وصیت کرنے سے متعلق
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ : وأنذر عشيرتک الأقربين اے محمد ! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنی جانوں کو اللہ سے (اس کی اطاعت کے بدلے) خرید لو، میں تمہیں اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا، اے بنی عبد مناف ! میں اللہ کے یہاں تمہارے کچھ بھی کام نہ آسکوں گا، اے عباس بن عبدالمطلب ! اللہ کے یہاں میں تمہارے بھی کچھ کام نہ آسکوں گا، اے صفیہ ! (رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی) ، میں اللہ کے یہاں تمہیں بھی کوئی فائدہ پہنچا نہ سکوں گا، اے فاطمہ ! تمہیں جو کچھ بھی مانگنا ہے مجھ سے مانگو، لیکن میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی فائدہ پہنچا نہ سکوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١١ (٢٧٥٣) ، تفسیر سورة الشعر ٢ (٤٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٥٦) ، سنن الدارمی/الرقاق ٣٧ (٢٧٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3647
اپنے رشتہ داروں سے وصیت کرنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت کریمہ : وأنذر عشيرتک الأقربين نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے فاطمہ بنت محمد ! اے صفیہ بنت عبدالمطلب ! اور اے بنی عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی فائدہ پہنچا نہ سکوں گا، میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٢٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے آخرت کے عذاب سے بچنے کی تدبیر خود تمہیں ہی کرنی ہے، میرے سہارے رہو گے تو نقصان اٹھاؤ گے کیونکہ میری قرابت داری کچھ کام نہ آئے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3648
اگر کوئی شخص اچانک مر جائے تو کیا اس کے وارثوں کے واسطے اس کی جانب سے صدقہ کرنا مستحب ہے یا نہیں؟
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہ : میری ماں اچانک مرگئی، وہ اگر بول سکتیں تو صدقہ کرتیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٧٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١٧١٦١) ، موطا امام مالک/الاقضیة ٤١ (٥٣) ، مسند احمد (٦/٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعا و استغفار اور مالی عبادات مثلاً صدقہ و خیرات، حج و عمرہ وغیرہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، اس سلسلہ میں کتاب و سنت میں دلائل موجود ہیں، امام ابن القیم (رح) نے کتاب الروح میں بہت تفصیلی بحث کی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کا کہنا ہے کہ تمام ائمہ اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ میت کے حق میں جو بھی دعا کی جائے اور اس کی جانب سے جو بھی مالی عبادت کی جائے اس کا پورا پورا فائدہ اس کو پہنچتا ہے، کتاب وسنت میں اس کی دلیل موجود ہے اور اجماع سے بھی ثابت ہے، اس کی مخالفت کرنے والے کا شمار اہل بدعت میں سے ہوگا۔ البتہ بدنی عبادات کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3649
اگر کوئی شخص اچانک مر جائے تو کیا اس کے وارثوں کے واسطے اس کی جانب سے صدقہ کرنا مستحب ہے یا نہیں؟
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک غزوہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ مدینہ میں ان کی ماں کے انتقال کا وقت آپہنچا، ان سے کہا گیا کہ وصیت کردیں، تو انہوں نے کہا : میں کس چیز میں وصیت کروں ؟ جو کچھ مال ہے وہ سعد کا ہے، سعد کے ان کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، جب سعد (رض) آگئے تو ان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! اگر میں ان کی طرف سے صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں فائدہ پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، سعد (رض) نے کہا : فلاں باغ ایسے اور ایسے ان کی طرف سے صدقہ ہے، اور باغ کا نام لیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٨٣٨، ٤٤٧١) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٤١ (٥٢) ، مسند احمد (٦/٧) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3650
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بھی ختم ہوجاتا ہے سوائے تین عمل کے (جن سے اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے) ایک صدقہ جاریہ، ١ ؎ دوسرا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ٢ ؎، تیسرا نیک اور صالح بیٹا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٣ (١٦٣١) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٦ (١٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٧٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الوصایا ١٤ (٢٨٨٠) ، مسند احمد ٢/٣١٦، ٣٥٠، ٣٧٢، سنن الدارمی/المقدمة ٤٦ (٥٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً مسجد، مدرسہ، تالاب اور مسافر خانہ وغیرہ عوام کے فائدہ کے لیے بنوایا جائے تو جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اسے ثواب ملتا رہے گا۔ ٢ ؎: مثلاً کوئی اچھی کتاب لکھ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسے شاگرد تیار کر جائے جو کتاب وسنت کی روشنی میں علم کی اشاعت کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3651
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : (اللہ کے رسول ! ) میرے والد وصیت کئے بغیر انتقال کر گئے اور مال بھی چھوڑ گئے ہیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کی طرف سے کفارہ (اور ان کے لیے موجب نجات) ہوجائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الوصایا ٢ (١٦٣٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٨٤) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الوصایا ٨ (٢٧١٦) ، مسند احمد (٢/٣٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3652
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے عرض کیا : میری ماں نے وصیت کی ہے کہ ان کی طرف سے ایک غلام آزاد کردیا جائے اور میرے پاس حبشی نسل کی ایک لونڈی ہے، اگر میں اسے ان کی طرف سے آزاد کر دوں تو کیا وہ کافی ہوجائے گی ؟ آپ نے فرمایا : جاؤ اسے ساتھ لے کر آؤ چناچہ میں اسے ساتھ لیے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوگیا، آپ نے اس سے پوچھا : تمہارا رب (معبود) کون ہے ؟ اس نے کہا : اللہ، آپ نے (پھر) اس سے پوچھا : میں کون ہوں ؟ اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے فرمایا : اسے آزاد کر دو ، یہ مسلمان عورت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأیمان والنذور ١٩ (٣٢٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٩) ، مسند احمد (٤/٢٢٢، ٣٨٨، ٣٨٩) ، سنن الدارمی/النذور ١٠ (٢٣٩٣) (حسن) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٣١٦١، تراجع الالبانی ١٠٧ ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3653
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : میری ماں مرچکی ہیں اور کوئی وصیت نہیں کی ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٠ (٢٧٧٠) ، سنن ابی داود/الوصایا ١٥ (٢٨٨٢ مطولا) ، سنن الترمذی/الزکاة ٣٣ (٦٦٩ مطولا) ، (تحفة الأشراف : ٦١٦٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا اس صدقہ کا ثواب انہیں ملے گا ؟ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3654
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، تو اس نے کہا : پھر تو میرے پاس کھجور کا ایک باغ ہے، آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی ماں کی طرف سے اسے صدقہ میں دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3655
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میری ماں مرچکی ہیں اور ان کے ذمہ ایک نذر ہے، اگر میں ان کی طرف سے (ایک غلام) آزاد کر دوں تو کیا یہ ان کی طرف سے پوری ہوجائے گی ؟ آپ نے فرمایا : (ہاں) اپنی ماں کی طرف سے غلام آزاد کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٨٣٧، (حم (٦/٧) (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎: سعد بن عبادہ کی ماں نے غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3656
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی انتقال کرگئی تھیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس نذر کو تم ان کی طرف سے پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3657
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک نذر کے بارے میں پوچھا جوان کی ماں کے ذمہ تھی اور نذر پوری کرنے سے پہلے ہی ان کی موت ہوگئی تھی ؟ آپ نے فرمایا : تم ان کی طرف سے نذر پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3658
مرنے والے کی جانب سے صدقہ کے فضائل
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے متعلق پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور اسے پوری کرنے سے پہلے ہی وہ انتقال کر گئیں، تو آپ نے فرمایا : تم ان کی طرف سے نذر پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ١٩ (٢٧٦١) ، الأیمان ٣٠ (٦٦٩٨) ، الحیل ٣ (٦٩٥٩) ، صحیح مسلم/النذور ١ (١٦٣٨) ، سنن ابی داود/الأیمان ٢٥ (٣٣٠٧) ، سنن الترمذی/الأیمان ١٩ (١٥٤٦) ، سنن ابن ماجہ/الکفارات ١٩ (٢١٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٥) ، ویأتي عند المؤلف : ٣٨٤٨، ٣٨٤٩، ٣٨٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3659
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے ایک نذر کے متعلق مسئلہ پوچھا جو ان کی ماں کے ذمہ تھی اور جسے پوری کرنے سے پہلے ہی وہ مرگئیں۔ تو آپ نے فرمایا : اسے تم ان کی طرف سے پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3660
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں مرگئیں اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی تو میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے ان کی طرف سے پوری کر دوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٩ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3661
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ انصاری (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر سے متعلق جو ان کی ماں کے ذمہ تھی مسئلہ پوچھا اور اسے پوری کرنے سے پہلے وہ انتقال کر گئیں تھیں، تو آپ نے ان سے فرمایا : اسے ان کی طرف سے تم پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3662
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : میری ماں انتقال کرگئی ہیں اور ان کے ذمہ ایک نذر ہے اور وہ اسے پوری نہیں کرسکی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم اسے ان کی طرف سے پوری کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3663
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! میری ماں مرگئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، میں نے پوچھا : کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : (پیاسوں کو) پانی پلانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الزکاة ٤١ (١٦٨٠) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٨ (٣٦٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٣٤) ، مسند احمد (٥/٢٨٤، ٢٨٥ و ٦/٧) ، ویأتي فیما یلي : ٣٦٩٥، ٣٦٩٦ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: نل لگوا دینا، کنواں، تالاب وغیرہ کھودوانا جس سے لوگ سیراب ہوں یہ بہترین صدقہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3664
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : پانی پلانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ پانی آب حیات ہے زیادہ دیر تک نہ ملے تو آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3665
حضرت سفیان سے متعلق زیر نظر حدیث میں راوی کے اختلاف سے متعلق
سعد بن عبادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ماں مرگئیں تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں انتقال کر گئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، انہوں نے کہا : کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : پانی پلانا تو یہ ہے مدینہ میں سعد (رض) کی پانی کی سبیل۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٦٩٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3666
یتیم کے مال کا والی ہونے کی ممانعت سے متعلق
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ابوذر ! میں تمہیں کمزور دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں (لہٰذا تم) دو آدمیوں کا بھی سردار نہ بننا اور نہ یتیم کے مال کا والی بننا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٤ (١٨٢٦) ، سنن ابی داود/الوصایا ٤ (٢٨٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٩١٩) ، مسند احمد (٥/١٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے کہ یہ دونوں بڑے اہم اور ذمہ داری کے کام ہیں اگر آدمی سنبھال نہ پائے تو خود عذاب و عقاب کا مستحق بن جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3667
اگر کوئی آدمی یتیم کے مال کا متولی ہو تو کیا اس میں سے کچھ وصول کرسکتا ہے؟
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : میں محتاج و فقیر ہوں، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری سرپرستی میں ایک یتیم ہے۔ آپ نے فرمایا : یتیم کے مال سے کھالیا کرو (لیکن دیکھو) فضول خرچی اور اسراف مت کرنا اور نہ ہی یتیم کا مال لے لے کر اپنا مال بڑھانا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الوصایا ٨ (٢٨٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الوصایا ٩ (٢٧١٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨١) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٨١) ، مسند احمد (٢/١٨٦، ٢١٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3668
اگر کوئی آدمی یتیم کے مال کا متولی ہو تو کیا اس میں سے کچھ وصول کرسکتا ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ : ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو کہ مستحسن ہو (یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے) (الأنعام : ١٥٢) اور إن الذين يأکلون أموال اليتامى ظلما اور جو لوگ یتیموں کا مال ظلم و زیادتی کر کے کھاتے ہیں (وہ دراصل مال نہیں کھاتے وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھر رہے ہیں (النساء : ١٠) نازل ہوئی تو لوگ یتیموں کے مال کے قریب جانے (اور ان کی حفاظت کی ذمہ داریاں سنبھالنے) اور ان کا مال کھانے سے بچنے لگے۔ تو یہ چیز مسلمانوں پر شاق (دشوار) ہوگئی، چناچہ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کی شکایت کی جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : ويسألونک عن اليتامى قل إصلاح لهم خير سے لأعنتکم اور تم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ اور حکمت والا ہے (البقرہ : ٢٢٠) تک نازل فرمائی ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الوصایا ٧ (٢٨٧١) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٦٩) ، مسند احمد (١/٣٢٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3669
اگر کوئی آدمی یتیم کے مال کا متولی ہو تو کیا اس میں سے کچھ وصول کرسکتا ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ : إن الذين يأکلون أموال اليتامى ظلما کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو جس کی پرورش میں یتیم ہوتا تھا وہ اس کا کھانا پینا اور اس کا برتن الگ کردیتا تھا لیکن یہ چیز مسلمانوں پر گراں گزری تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وإن تخالطوهم فإخوانکم اگر ان کو ملا کر رکھو تو وہ تمہارے بھائی ہیں (البقرہ : ٢٢٠) نازل فرمائی اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ساتھ ملا لینے کو جائز قرار دے دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٥٧٤) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3670
مال یتیم کھانے سے پرہیز کرنا
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ، پوچھا گیا : اللہ کے رسول ! یہ کیا کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، بخیلی، کسی شخص کا قتل جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، لڑائی کے وقت پیٹھ دکھا کر بھاگ جانا، اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں پر تہمت لگانا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوصایا ٢٣ (٢٧٦٦) ، الطب ٤٨ (٥٧٦٤) ، الحدود ٤٤ (٦٨٥٧) ، (المحاربین ٣١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٨٩) ، سنن ابی داود/الوصایا ١٠ (٢٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3671