31. عطیہ اور بخشش سے متعلق احادیث مبارکہ
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کے والد نے ایک غلام ہبہ کیا، تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں۔ آپ نے پوچھا : کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو یہ عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو تم اسے واپس لے لو ۔ اس حدیث کے الفاظ محمد (راوی) کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١٢ (٢٥٨٦) ، صحیح مسلم/الہبات ٣ (١٦٢٣) ، سنن الترمذی/الأحکام ٣٠ (١٣٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الہبات ١ (٢٣٧٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٧) ، موطا امام مالک/الأقضیة ٣٣ (٣٩) ، مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٧٠) ویأتی فیما یلی : ٣٧٠٣، ٣٧٠٤، ٣٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3672
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد انہیں ساتھ لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا : میرے پاس ایک غلام تھا جسے میں نے اپنے (اس) بیٹے کو دے دیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو غلام دیے ہیں ؟ ، کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو تم اسے واپس لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3673
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد اپنے بیٹے نعمان کو لے کر آئے اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے اپنا ایک غلام اپنے اس بیٹے کو دے دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو بھی دیا ہے ؟ کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر تو تم اسے واپس لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3674
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
بشیر بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (اپنے بیٹے) نعمان بن بشیر کو لے کر آئے اور عرض کیا : میں نے اس بیٹے کو ایک غلام بطور عطیہ دیا ہے، اگر آپ اس عطیہ کے نفاذ کو مناسب سمجھتے ہوں تو میں اسے نافذ کر دوں، آپ نے فرمایا : کیا تم نے اپنے سبھی بیٹوں کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر تو تم اسے واپس لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٢، (تحفة الأشراف : ٢٠٢٠، ١١٦١٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٧٠٧، ٣٧٠٨، ٣٧١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3675
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک عطیہ دیا، تو ان کی ماں نے ان کے والد سے کہا کہ آپ نے جو چیز میرے بیٹے کو دی ہے اس کے دینے پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ بنا دیجئیے، چناچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اس کے لیے گواہ بننے کو ناپسند کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الہبات ٣ (١٦٢٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٨٥ (٣٥٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٣٥) ، مسند احمد (٤/٢٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3676
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
بشیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام بطور عطیہ دیا، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس ارادہ سے آئے کہ آپ کو اس پر گواہ بنادیں۔ آپ نے فرمایا : کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : تو اسے لوٹا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3677
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ بشیر (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے نبی ! میں نے (اپنے بیٹے) نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا : اس کے بھائیوں کو بھی دیا ہے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : جو دیا ہے اسے واپس لے لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3678
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انہیں اٹھا کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لے گئے اور کہا : آپ گواہ رہیں میں نے اپنے مال میں سے نعمان کو فلاں اور فلاں چیزیں بطور عطیہ دی ہیں۔ آپ نے فرمایا : کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو وہی دی ہیں جو نعمان کو دی ہیں ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١٣ (٢٨٥) ، والشہادات ٩ (٢٦٥٠) ، صحیح مسلم/الہبات ٣ (١٦٢٣) ، سنن ابی داود/البیوع ٨٥ (٣٥٤٢ مطولا) ، سنن ابن ماجہ/الہبات ١ (٢٣٧٥ مطولا) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٢٥) ، مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٦٩، ٢٧٠، ٢٧٣، ٢٧٦) ، ویأتي فیما یلي : ٣٧١٠-٣٧١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3679
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد انہیں ساتھ لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس اس ارادہ سے آئے کہ انہوں نے انہیں خاص طور پر عطیہ دیا ہے، اس پر آپ ﷺ کو گواہ بنادیں۔ آپ نے فرمایا : کیا تم نے اپنے سبھی لڑکوں کو ویسا ہی دیا ہے جیسا تم نے اسے دیا ہے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں ( اس طرح کی) کسی چیز پر گواہ نہیں بنتا۔ کیا یہ بات تمہیں اچھی نہیں لگتی کہ وہ سب تمہارے ساتھ اچھے سلوک میں یکساں اور برابر ہوں ، انہوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : تب تو یہ نہیں ہوسکتا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3680
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ماں رواحہ کی بیٹی نے ان کے باپ سے مال میں سے بعض چیزیں ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا تو وہ انہیں سال بھر ٹالتے رہے، پھر ان کے جی میں کچھ آیا تو اس ( بیٹے) کو وہ عطیہ دے دیا۔ ان کی ماں نے کہا : میں اتنے سے مطمئن اور خوش نہیں ہوں جب تک کہ آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہیں بنا دیتے تو انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! میں نے اس بچے کو جو عطیہ دیا ہے تو اس لڑکے کی ماں، رواحہ کی بیٹی، اس پر مجھ سے جھگڑتی ہے (کہ میں اس پر آپ کو گواہ کیوں نہیں بناتا ؟ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بشیر ! اس لڑکے کے علاوہ بھی تمہارا اور کوئی لڑکا ہے ؟ ، کہا : ہاں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے سبھی لڑکوں کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے جیسا تم نے اپنے اس بیٹے کو دیا ہے ، انہوں نے کہا : نہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھر تو تم مجھے گواہ نہ بناؤ، کیونکہ میں ظلم و زیادتی کا گواہ نہیں بن سکتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور یہ ظلم کی ہی بات ہے کہ ایک بیٹے کو عطیہ وہبہ کے نام پر نوازا جائے اور دوسرے بیٹے کو محروم رکھا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3681
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں نے میرے والد سے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کو کچھ عطیہ دو ، تو انہوں نے : مجھے عطیہ دیا۔ میری ماں نے کہا : میں اس پر راضی (و مطمئن) نہیں ہوں جب تک کہ میں اس پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ نہ بنا دوں، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا، اس وقت میں ایک چھوٹا لڑکا تھا، مجھے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس بچے کی ماں رواحہ کی بیٹی نے مجھ سے کچھ عطیہ کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی خوشی اس میں ہے کہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا دوں۔ تو آپ نے فرمایا : بشیر ! کیا تمہارا اس کے علاوہ بھی کوئی بیٹا ہے ؟ ، کہا : ہاں، آپ نے پوچھا : کیا تم نے جیسا اسے دیا ہے اسے بھی دیا ہے ؟ کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : پھر تو تم مجھے گواہ نہ بناؤ، کیونکہ میں ظلم و زیادتی پر گواہ نہیں بنتا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3682
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
عامر شعبی کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی گئی کہ بشیر بن سعد (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے کہا کہ میری بیوی عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ میں اس کے بیٹے نعمان کو کچھ ہبہ کروں، اور اس کی فرمائش یہ بھی ہے کہ جو میں اسے دوں اس پر آپ کو گواہ بنا دوں، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا : کیا تمہارے پاس اس کے سوا اور بھی بیٹے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : کیا تم نے انہیں بھی ویسا ہی دیا ہے جیسا تم نے اس لڑکے کو دیا ہے ؟ ، انہوں نے کہا : نہیں تو آپ نے فرمایا : پھر تو تم مجھے ظلم و زیادتی پر گواہ نہ بناؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٧٠٥ (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3683
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : میں نے اپنے بیٹے کو کچھ ہبہ کیا ہے تو آپ اس پر گواہ ہوجائیے۔ آپ نے فرمایا : کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے پاس کوئی اور لڑکا ہے ؟ ، انہوں نے کہا : جی ہاں، (ہے) آپ نے فرمایا : کیا تم نے انہیں بھی ایسا ہی دیا ہے جیسے تم نے اسے دیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : تو کیا میں ظلم پر گواہی دوں گا ؟ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٥٨٠) (صحیح) (یہ مرسل ہے ” عبداللہ بن عتبہ تابعی ہیں “ مگر اگلی سندوں سے یہ روایت صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: تمہارا دوسرے بیٹوں کو محروم کر کے ایک کو دینا اور اس پر مجھ سے گواہ بننے کے لیے کہنا گویا یہ مطالبہ کرنا ہے کہ میں اس ظلم و زیادتی کی تائید کروں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3684
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد مجھے لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے، مجھے ایک چیز دی تھی اس پر آپ ﷺ کو ایک چیز پر گواہ بنانا چاہتے تھے جو انہوں نے مجھے دی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے اس لڑکے کے علاوہ بھی کوئی اور لڑکا ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ہے، آپ نے اپنا پورا ہاتھ ہتھیلی سمیت ایک دم سیدھا پھیلاتے ہوئے فرمایا : تم نے اس طرح ان کے درمیان برابری کیوں نہ رکھی ١ ؎؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٦٣٩) ، مسند احمد (٤/٢٦٨، ٢٧٦) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جب تمہارے کئی لڑکے ہیں تو لینے دینے میں سب کے ساتھ انصاف و مساوات کا سلوک کیوں نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3685
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان رضی الله عنہ نے دوران خطبہ کہا کہ میرے والد مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر گئے، وہ آپ کو ایک عطیہ پر گواہ بنا رہے تھے تو آپ نے پوچھا : کیا اس کے علاوہ تمہارے اور بھی بیٹے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں (اور بھی بیٹے ہیں) تو آپ نے فرمایا : ان کے درمیان انصاف اور برابری کا معاملہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3686
نعمان بن بشیر کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : (لوگو ! ) اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو، اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٨٥ (٣٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الہبة ١٣ (٢٥٨٧) ، صحیح مسلم/الہبات ٣ (١٦٢٣) ، مسند احمد (٤/٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: معلوم ہوا کہ اولاد کے درمیان مساوات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے گا، مذکورہ احادیث کی روشنی میں علماء اسے واجب قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ زندگی میں عطیہ یا ہبہ اور بخشش کے سلسلے میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں ہے، اور لڑکی کے دوگنا لڑکے کو دینے کا مسئلہ موت کے بعد وراثت کی تقسیم میں ہے۔ ( واللہ اعلم ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3687