36. شرطوں سے متعلق احادیث
شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ جب تم کسی مزدور سے مزدوری کراؤ تو اسے اس کی اجرت بتادو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٩٥٨) ، مسند احمد (٣/٥٩، ٦٨، ٧١) ، مرفوعاً (ضعیف) (اس کے راوی ” ابرہیم نخعی “ کا ابو سعید خدری سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے لیکن اس اثر کا معنی صحیح ہے، آگے کے آثار دیکھیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3857
شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں
حسن بصری سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی کسی آدمی سے اس کی اجرت بتائے بغیر مزدوری کرائے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٥٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3858
شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں
حماد بن ابی سلیمان سے روایت ہے کہ ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی مزدور سے اس کے کھانے کے بدلے کام لے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں (درست نہیں) یہاں تک کہ وہ اسے بتادے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٥٩٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3859
شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں
حماد اور قتادہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے سلسلے میں پوچھا گیا، جس نے ایک آدمی سے کہا : میں تجھ سے مکے تک کے لیے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں۔ اگر میں ایک مہینہ یا اس سے کچھ زیادہ - اور اس نے فاضل مسافت کی تعیین کردی - چلا تو تیرے لیے اتنا اور اتنا زیادہ کرایہ ہوگا۔ تو اس (صورت) میں انہوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ لیکن اس (صورت) کو انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ کہے کہ میں تم سے اتنے اور اتنے میں کرائے پر (سواری) لیتا ہوں، اب اگر مجھے ایک مہینہ سے زائد چلنا پڑا ١ ؎، تو میں تمہارے کرائے میں سے اسی قدر اتنا اور اتنا کاٹ لوں گا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٥٩٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: سواری کی سست رفتاری کے سبب ایسا کرنا پڑا تو ایسا کروں گا ٢ ؎: متعین مسافت (دوری) کو تیزی کی وجہ سے وقت سے پہلے طے کرلینے پر زیادہ اجرت بطور انعام و اکرام ہے اس لیے دونوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، اور دھیرے دھیرے چلنے کی وجہ سے کرائے میں کمی کرنا ظلم اور دوسرے کے حق کو چھیننے کے مشابہ ہے، یہی وجہ کہ دونوں نے اس دوسری صورت کو مکروہ جانا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3860
شرائط سے متعلق احادیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں بٹائی اور معاہدہ کی پابندی سے متعلق احادیث مذکورہ ہیں
ابن جریج کہتے ہں ي کہ میں نے عطا سے کہا : اگر میں ایک غلام کو ایک سال کھانے کے بدلے اور ایک سال تک اتنے اور اتنے مال کے بدلے نوکر رکھوں (تو کیا حکم ہے) ؟ انہوں نے کہا : کوئی حرج نہیں، اور جب تم اسے اجرت (مزدوری) پر رکھو تو اس کے لیے تمہارا اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ اتنے دنوں تک اجرت (مزدوری) پر رکھوں گا۔ (ابن جریج نے کہا) یا اگر میں نے اجرت (مزدوری) پر رکھا اور سال کے کچھ دن گزر گئے ہوں ؟ عطاء نے کہا : تم گزرے ہوئے دن کو شمار نہیں کرو گے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٠٧٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3861
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
اسید بن ظہیر (رض) سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ یعنی بنی حارثہ کی طرف نکل کر گئے اور کہا : اے بنی حارثہ ! تم پر مصیبت آگئی ہے، لوگوں نے کہا : وہ مصیبت کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرما دیا ہے۔ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! تو کیا ہم اسے کچھ اناج (غلہ) کے بدلے کرائے پر اٹھائیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، وہ کہتے ہیں : حالانکہ ہم اسے گھاس (چارہ) کے بدلے دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا : نہیں ، پھر کہا : ہم اسے اس پیداوار پر اٹھاتے تھے جو پانی کی کیا ریوں کے پاس سے پیدا ہوتی ہے، آپ نے فرمایا : نہیں ، تم اس میں خود کھیتی کرو یا پھر اسے اپنے بھائی کو دے دو ۔ مجاہد نے رافع بن اسید کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٧) (صحیح) (اس کے راوی ” رافع بن اسید “ لین الحدیث ہیں، مگر متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: مخالفت یہ ہے کہ رافع بن اسید نے اس کو اسید بن ظہیر (رض) کی حدیث سے روایت کیا ہے، جب کہ مجاہد نے اس کو اسید بن ظہیر سے اور اسید نے رافع بن خدیج (رض) کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور رافع بن اسید لین الحدیث راوی ہیں، جب کہ مجاہد ثقہ امام ہیں، بہرحال حدیث صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3862
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
اسید بن ظہیر (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج (رض) آئے تو کہا : رسول اللہ ﷺ نے تمہیں تہائی یا چوتھائی پیداوار پر (کھیتوں کو) بٹائی پر دینے سے اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، مزابنہ درختوں میں لگے کھجوروں کو اتنے اور اتنے میں (یعنی معین) وسق کھجور کے بدلے بیچنے کو کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٠(٢٤٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٤٩) ، مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤٦٦) ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٨٩٥-٣٨٩٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3863
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
اسید بن ظہیر (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج (رض) آئے تو کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے معاملے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ نے تمہیں محاقلہ سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا : جس کی کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے کسی کو ہبہ کر دے یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے ، نیز آپ نے مزابنہ سے روکا ہے، مزابنہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے پاس درخت پر کھجوروں کے پھل کا بڑا حصہ ہو۔ پھر کوئی (دوسرا) آدمی اسے اتنی اتنی وسق ١ ؎ ایسی ہی (گھر میں موجود) کھجور کے بدلے میں لے لے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں۔ اور صاع اڑھائی کلوگرام کا، یعنی وسق = ١٥٠ کلوگرام۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3864
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
اسید بن ظہیر (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج (رض) آئے تو انہوں نے کہا، اور میں اس (ممانعت کے راز) کو سمجھ نہیں سکا، پھر انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا ہے جو تمہارے لیے سود مند تھی، لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تمہارے لیے بہتر ہے اس چیز سے جو تمہیں فائدہ دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں حقل سے روکا ہے۔ اور حقل کہتے ہیں : تہائی یا چوتھائی پیداوار کے بدلے زمین کو بٹائی پر دینا۔ لہٰذا جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس سے بےنیاز ہو تو چاہیئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دیدے، یا اسے ایسی ہی چھوڑ دے، اور آپ نے تمہیں مزابنہ سے روکا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ آدمی بہت سارا مال لے کر کھجور کے باغ میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سال کی اس مال کو (یعنی پاس میں موجود کھجور کو) اس سال کی (درخت پر موجود) کھجور کے بدلے اتنے اتنے وسق کے حساب سے لے لو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٩٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3865
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہمارے لیے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا : جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے ۔ اس میں عبدالکریم بن مالک نے ان (سعید بن عبدالرحمٰن) کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٩٤ (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” اسید بن رافع “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: عبدالکریم بن مالک کی روایت آگے آرہی ہے، اور مخالفت ظاہر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3866
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ میں انہیں لے کر رافع بن خدیج (رض) کے بیٹے (اسید) کے یہاں گیا، تو انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میرے والد رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے زمین کرائیے پر دینے سے منع فرمایا، تو طاؤس نے انکار کردیا اور کہا : میں نے ابن عباس (رض) سے سنا ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث کو ابو عوانہ نے ابوحصین سے، اور ابوحصین نے مجاہد سے، اور مجاہد نے رافع (رض) سے مرسلاً (یعنی منقطعا) روایت کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ٢١ (١٥٥٠) (تحفة الأشراف : ٣٥٩١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سابقہ تمام سندوں میں مجاہد اور رافع کے درمیان یا تو اسید بن رافع بن خدیج یا اسید بن ظہیر کسی ایک کا واسطہ ہے اور اس سند میں یہ واسطہ ساقط ہے، اس لیے یہ سند منقطع ہے مگر متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3867
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، آپ ﷺ نے ہمیں زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ ابراہیم بن مہاجر نے ابوحصین کی متابعت کی ہے (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأحکام ٤٢(١٣٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٨) ، مسند احمد (١/٢٨٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٩٠٠-٣٩٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3868
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ انصار کے ایک آدمی کی زمین کے پاس سے گزرے جسے آپ جانتے تھے کہ وہ ضرورت مند ہے، پھر فرمایا : یہ زمین کس کی ہے ؟ اس نے کہا : فلاں کی ہے، اس نے مجھے کرائے پر دی ہے، آپ نے فرمایا : اگر اس نے اسے اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پردے دی ہوتی (تو اچھا ہوتا) ، تب رافع بن خدیج (رض) نے انصار کے پاس آ کر کہا بولے : رسول اللہ ﷺ نے تمہیں ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو تمہارے لیے نفع بخش تھی، لیکن رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تمہارے لیے سب سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٩٩ (صحیح) (سند میں راوی ” ابراہیم “ کا حافظہ کمزور تھا، اور سند میں انقطاع بھی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3869
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حقل سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٩٩ (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: حقل کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے مقصد تہائی اور چوتھائی کے بٹائی دینے کا معاملہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3870
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے تو آپ نے ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش تھی اور فرمایا : جس کے پاس کوئی زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ اس میں کھیتی کرے یا وہ اسے کسی کو دیدے یا اسے (یونہی) چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٩٤ (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3871
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہماری طرف رسول اللہ ﷺ نکل کر آئے تو ہمیں ایک ایسی چیز سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی، لیکن رسول اللہ ﷺ کا حکم ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے چھوڑ دے یا اسے (کسی کو) دیدے ۔ اور اس بات کی دلیل کہ یہ حدیث طاؤس نے (رافع (رض) سے خود) نہیں سنی ہے آنے والی حدیث ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨٩٩ (صحیح) (سابقہ متابعات کی وجہ سے یہ بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3872
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا : رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا : اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تو بس اتنا فرمایا تھا : تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دیدے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے ۔ اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں : عن عطاء، عن رافع (عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ٣٩٠٣ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان (عن رافع کے بجائے) عن عطاء عن جابر کہتے ہیں (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٠ (٢٣٣٠) ، ١٨ (٢٣٤٢) ، الہبة ٣٥ (٢٦٣٤) ، صحیح مسلم/البیوع ٢١(١٥٥٠) ، سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٨٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٤٢ (١٣٨٥) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٩ (٢٤٥٦) ، ١١(٢٤٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٣٥) مسند احمد (١/٢٣٤، ٢٨١، ٣٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3873
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیدے اور اس سے اس میں بٹائی پر کھیتی نہ کرائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧(١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٩) ، مسند احمد (٣/٣٠٢، ٣٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3874
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو دیدے اور اسے بٹائی پر نہ دے ۔ عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے عبدالملک بن ابی سلیمان کی متابعت کی ہے (یہ متابعت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3875
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد زمینیں تھیں جنہیں وہ آدھا، تہائی اور چوتھائی پر اٹھاتے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے یا بلا کھیتی کرائے روکے رکھے ۔ مطر بن طہمان نے اوزاعی کی موافقت (متابعت) کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤٠) ، الہبة ٣٥ (٢٦٣٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٧ (٢٤٥١) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٢٤) ، مسند احمد (٣/٣٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3876
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خطاب فرمایا اور کہا : جس کی کوئی زمین ہو تو اس میں کھیتی کرے یا کسی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرائیے پر نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٧ (٢٤٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٦) ، مسند احمد (٣/٣٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3877
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زمین کو کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔ زمین کو کرائے پر نہ دینے کے سلسلہ میں (روایت کرنے میں) عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج نے مطر کی موافقت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٨٧) ، مسند احمد (٣/٣٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3878
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع مخابرہ اور مزابنہ، محاقلہ سے اور ان پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جو ابھی کھانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، سوائے بیع عرایا کے ١ ؎۔ یونس بن عبید نے اس کی متابعت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٨٣ (٢١٨٩) ، المساقاة ١٧ (٢٣٨٠) ، صحیح مسلم/البیوع ١٦ (١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٥٢، ٢٨٠١) ، مسند احمد (٣/٣٦٠، ٣٨١، ٣٩١، ٣٩٢) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٥٢٧، ٤٥٢٨، ٤٥٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مخابرہ : زمین کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دینا، کہتے ہیں : مخابرہ خیبر سے ماخوذ ہے، یعنی خیبر کی زمینوں کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا اس کو مخابرہ کہتے ہیں۔ حالانکہ خیبر میں جو معاملہ کیا گیا وہ جائز ہے، اسی لیے تو وہ معاملہ کیا گیا، مؤلف نے حدیث نمبر ٣٩١٤ میں مخابرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ انگور جو ابھی بیلوں میں ہو کو اس انگور کے بدلے بیچنا جس کو توڑ لیا گیا ہو، یہی سب سے مناسب تعریف ہے جو مزابنہ اور محاقلہ سے مناسبت رکھتی ہے۔ مزابنہ : درخت پر لگے ہوئے پھل کو توڑے ہوئے پھل کے بدلے معینہ مقدار سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔ محاقلہ : کھیت میں لگی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے غلّہ سے بیچنا۔ عرایا : عرایا یہ ہے کہ مالک کا باغ ایک یا دو درخت کے پھل کسی مسکین و غریب کو کھانے کے لیے مفت دیدے، اور اس کے آنے جانے سے تکلیف ہو تو مالک اس درخت کے پھلوں کا اندازہ کر کے مسکین و فقیر سے خرید لے اور اس کے بدلے تر یا خشک پھل اس کے حوالے کر دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3879
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے محاقلہ و مزابنہ اور مخابرہ نامی بیع سے اور غیر متعین اور غیر معلوم مقدار کے استثناء ١ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ (آگے آنے والی) ہمام بن یحییٰ کی روایت میں گویا یہ دلیل ہے کہ عطاء نے جابر (رض) سے ان کی یہ حدیث نہیں سنی ہے ٢ ؎ جو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے کہ جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٤ (٣٤٠٥) ، سنن الترمذی/البیوع ٥٥ (١٢٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٥) ، ویأتي عند المؤلف ٤٦٣٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بیچی ہوئی چیز میں سے بلا تعیین و تحدید کچھ لینے کی شرط رکھنا یا سارے باغ یا کھیت کو بیچ دینا اور اس میں سے غیر معلوم مقدار نکال لینا۔ ٢ ؎: جابر بن عبداللہ (رض) سے عطاء کی یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے (دیکھئیے حدیث نمبر ٣٩٠٥ تخریج) سندھی فرماتے ہیں : مؤلف نے کالدلیل کہا ہے (الدلیل نہیں کہا ہے) جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات مؤکد نہیں ہے۔ نیز یہ ممکن ہے کہ عطاء نے سلیمان سے سننے کے بعد پھر جابر (رض) سے جا کر یہ حدیث سنی ہو۔ ایسا بہت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3880
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کی کوئی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے یا اپنے بھائی سے اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے لیکن اسے اپنے بھائی کو کرائیے پر نہ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩١) ، مسند احمد (٣/٣٦٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3881
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حقل (تہائی، چوتھائی پر بیع) ، اور یہی مزابنہ ہے، سے منع فرمایا۔ ہشام نے معاویہ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے عن یحییٰ عن ابی سلمہ عن جابر کی سند سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧(١٥٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٣١٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3882
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بیع مزابنہ اور مخاضرہ سے منع فرمایا ہے۔ اور کہا مخاضرہ : پھل کو پکنے سے پہلے بیچنا اور مخابرہ (درخت کی) انگور کو خشک انگور کے اتنے اتنے صاع کے بدلے بیچنا ہے۔ اس میں عمرو بن ابی سلمہ نے یحییٰ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے اپنے باپ ابوسلمہ سے، اور ابوسلمہ نے، ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣١٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3883
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔ محمد بن عمرو نے عمر بن ابی سلمہ اور یحییٰ دونوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٩٨٦) ، مسند احمد (٢/٤٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3884
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسود بن علاء نے ان سب کی مخالفت کی ہے، اور حدیثوں روایت کی ہے : عن ابی سلمۃ عن رافع بن خدیج ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٤٣١) ، مسند احمد (٣/٦٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٢٣ (٢٥٩٩) (حسن صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3885
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ و مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے قاسم بن محمد نے بھی رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٥٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3886
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے بٹائی پر کھیت دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے رافع بن خدیج (رض) سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی نے دوسری مرتبہ (روایت کرتے ہوئے) کہا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3887
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عثمان بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے قاسم سے زمین کرائے پر دینے کے سلسلے میں پوچھا تو وہ بولے : رافع بن خدیج نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ اس حدیث کی روایت میں سعید بن مسیب پر اختلاف واقع ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : خود اس زمین سے پیدا ہونے والے غلہ کے بدلے کرایہ اٹھانے سے منع فرمایا، کیونکہ خود رافع (رض) نے سونا چاندی کے بدلے کرایہ پر دینے کا فتویٰ دیا ہے۔ نیز مرفوعاً بھی روایت کی ہے (دیکھئیے حدیث رقم ٣٩٢١ ، و ٣٩٢٩ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3888
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
ابوجعفر خطمی جن کا نام عمیر بن یزید ہے، کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک بچے کو سعید بن مسیب کے پاس بٹائی پر زمین دینے کے بارے میں مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے کہا : ابن عمر (رض) اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج (رض) سے مروی حدیث پہنچی تو وہ ان سے ملے۔ رافع (رض) نے کہا : نبی اکرم ﷺ بنی حارثہ کے پاس آئے تو ایک کھیتی کو دیکھ کر فرمایا : ظہیر کی کھیتی کس قدر اچھی ہے ! لوگوں نے عرض کیا : یہ (کھیتی) ظہیر کی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : کیا یہ ظہیر کی زمین نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں ! لیکن انہوں نے اسے بٹائی پر اٹھا رکھا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی کھیتی لے لو اور اس پر آنے والی خرچ اسے دے دو ، تو ہم نے اپنی کھیتی لے لی اور ان کا خرچہ انہیں لوٹا دیا۔ اسے طارق بن عبدالرحمٰن نے بھی سعید بن مسیب سے روایت کیا اور اس میں طارق سے روایت کرنے میں اختلاف ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3889
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ١ ؎ اور فرمایا : کھیتی تین طرح کے لوگ کرتے ہیں : ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو ۔ اس حدیث کو اسرائیل نے طارق سے روایت کرتے ہوئے دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ کردیا ہے، پہلے ٹکڑے ٢ ؎ کو مرسلاً (بطور کلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) روایت کیا اور دوسرے ٹکڑے کو سعید بن مسیب کا قول بتایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٤٠٠) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٧ (٢٤٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٩٢٢-٣٩٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: محاقلہ سے مراد یہاں مزارعہ (بٹائی) پر دینا ہے اور مزابنہ سے مراد : درخت پر لگے کھجور یا انگور کا اندازہ کر کے اسے خشک کھجور یا انگور کے بدلے بیچنا ہے۔ ٢ ؎: پہلی بات سے مراد نہیٰ رسول اللہ ﷺ عن المحاقل ۃ والمزابن ۃ ہے اور آخری بات سے مراد إنما یزرع ثلاث ۃ ، الیٰ آخرہ ہے۔ یعنی : پہلی روایت میں آخری ٹکڑے کو درج کر کے اس کو مرفوع بنادیا ہے، حالانکہ یہ سعید بن مسیب کا اپنا قول ہے، اسرائیل کی روایت جسے انہوں نے طارق سے روایت کیا ہے، دونوں ٹکڑوں کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3890
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
تابعی سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا، پھر راوی (اسرائیل) نے دوسری بات کو اسی طرح بیان کیا (یعنی دوسرا قول ابن المسیب کا ہے) ، اسے طارق سے سفیان ثوری نے بھی روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢١ (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3891
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
طارق کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے سنا : تین قسم کی زمینوں کے علاوہ میں کھیتی درست نہیں : وہ زمین جو کسی کی اپنی ملکیت ہو، یا وہ اسے عطیہ دی گئی ہو، یا وہ زمین جسے آدمی سونے چاندی کے بدلے کرائے پر لی ہو۔ زہری نے صرف پہلی بات سعید بن سعید سے مرسلاً روایت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3892
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ اسے محمد بن عبدالرحمٰن بن لبیبہ نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے اور عن سعد بن أبي وقاص کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن مرفوع روایات سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3893
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ کھیتوں والے لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنے کھیت کرائیے پر اس اناج کے بدلے دیا کرتے تھے جو کھیتوں کی مینڈھوں پر ہوتا ہے۔ تو وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اس سلسلے میں کسی چیز کے بارے میں انہوں نے جھگڑا کیا۔ تو آپ نے انہیں اس کے (غلہ کے) بدلے کرائے پر دینے سے منع فرما دیا اور فرمایا : سونے چاندی کے بدلے کرائے پر دو ۔ اس حدیث کو سلیمان بن یسار نے بھی رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے اپنے چچاؤں میں کسی چچا کی حدیث سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٦٠) ، مسند احمد (١/١٧٨، ١٨٢) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٥ (٢٦٦٠) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” محمد بن عکرمہ “ لین الحدیث، اور ” محمد بن عبدالرحمن بن لبیبہ “ ضعیف ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3894
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، ہم اسے تہائی یا چوتھائی یا غلہ کی متعینہ مقدار کے عوض کرائیے پر دیتے تھے۔ تو ایک دن میرے ایک چچا آئے اور انہوں نے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے معاملے سے روک دیا جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے، آپ نے ہمیں زمین میں بٹائی کا معاملہ کر کے انہیں تہائی اور چوتھائی یا متعینہ مقدار کے غلے کے بدلے کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے۔ اور زمین کے مالک کو حکم دیا ہے کہ وہ اس میں کھیتی کرے، یا اس میں (بلا کرایہ لیے) کھیتی کرائے اور اسے کرائے پر اٹھانا یا اس کے علاوہ جو صورتیں ہوں انہیں ناپسند فرمایا۔ ایوب نے اس حدیث کو یعلیٰ سے نہیں سنا ہے، (بلکہ بذریعہ کتابت روایت کی ہے جیسا کہ اگلی سند سے ظاہر ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨ (٢٣٤٦) ، ١٩ (٢٣٣٧) ، صحیح مسلم/البیوع ١٨ (١٥٤٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٢ (٢٤٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٩، ١٥٥٧٠) ، مسند احمد (٣/٤٦٥، ٤/١٦٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٩٢٧- ٣٩٢٩، ٣٩٤٠، ٣٩٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3895
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں بٹائی کا معاملہ کیا کرتے تھے، ہم اسے تہائی اور چوتھائی اور غلہ کی مقررہ مقدار کے بدلے کرائیے پر دیتے تھے۔ سعید نے بھی اسے یعلیٰ بن حکیم سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3896
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بٹائی کا معاملہ کرتے تھے، پھر کہتے ہیں کہ ان کے ایک چچا ان کے پاس آئے اور بولے : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی چیز سے روک دیا ہے جو ہمارے لیے نفع بخش اور مفید تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔ ہم نے کہا : وہ کیا چیز ہے ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس کی کوئی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو کھیتی کرنے کے لیے (بلا کرایہ) دیدے، لیکن اسے تہائی، چوتھائی اور معینہ مقدار غلہ کے بدلے کرائے پر نہ دے ۔ اسے حنظلہ بن قیس نے بھی رافع (رض) سے روایت کیا ہے اور (حنظلہ سے روایت کرنے والے) ربیعہ کے تلامذہ نے ربیعہ سے روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3897
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ میرے چچا نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس کے بدلے زمین کو بٹائی پر دیتے تھے جو پانی کی کیا ریوں پر پیدا ہوتا تھا اور تھوڑی سی اس پیداوار کے بدلے جو زمین کا مالک مستثنی (الگ) کرلیتا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس سے روک دیا۔ میں نے رافع (رض) سے کہا : تو دینار اور درہم سے کرائے پر دینا کیسا تھا ؟ رافع (رض) نے کہا : دینار اور درہم کے بدلے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اوزاعی نے لیث کی مخالفت کی ہے، (ان کی روایت آگے آرہی ہے جس میں چچا کا ذکر نہیں ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3898
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے دینار اور چاندی کے بدلے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگ اس پیداوار کے بدلے کرائے دیا کرتے تھے جو کیا ریوں اور نالیوں کے اوپر پیدا ہوتی ہے، تو کبھی اس جگہ پیداوار ہوتی اور دوسری جگہ نہیں ہوتی اور کبھی یہاں نہیں ہوتی اور دوسری جگہ ہوتی، لوگوں کا بٹائی پر دینے کا یہی طریقہ ہوتا، اس لیے اس پر زجر و توبیخ ہوئی۔ رہی معین چیز (پر بٹائی) جس کی ضمانت دی جاسکتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مالک بن انس نے بھی اوزاعی کی سند میں (چچا کے نہ ذکر کرنے میں) موافقت کی ہے لیکن الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٧ (٢٣٢٧) ، ١٢ (٢٣٣٢) ، ١٩(٢٣٤٦) ، الشروط ٧ (٢٧٢٢) ، صحیح مسلم/البیوع ١٩ (١٥٤٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٩ (٢٤٥٨) (تحفة الأشراف : ٣٥٥٣) ، مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤/١٤٠، ١٤٢) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٩٣١-٣٩٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3899
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے زمین کو کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے روکا ہے، میں نے کہا : سونے، چاندی کے بدلے ؟ کہا : نہیں (اس سے نہیں روکا ہے) ۔ آپ نے تو اس سے صرف اس کی پیداوار کے بدلے روکا ہے۔ رہا سونا اور چاندی (کے بدلے کرایہ پر دینا) تو اس میں کوئی حرج نہیں سفیان ثوری نے بھی اسے ربیعہ سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3900
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج (رض) سے سونے، چاندی کے بدلے صاف زمین کرائے پر اٹھانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : حلال ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، یہ زمین کا حق ہے۔ یحییٰ بن سعید نے بھی اسے حنظلہ بن قیس سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع کیا ہے جیسا کہ مالک نے ربیعہ سے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر أیضا حدیث رقم : ٣٩٣٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3901
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اپنی زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا، اس وقت سونا اور چاندی (زیادہ) نہیں تھا۔ تو آدمی اپنی زمین کیا ریوں اور نالیوں پر ہونے والی پیداوار اور متعین چیزوں کے بدلے کرایہ پر دیتا تھا۔ اسے سالم بن عبداللہ بن عمر نے رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا ہے، اور اس میں زہری پر اختلاف ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٣٠ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3902
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
زہری سے روایت ہے کہ سالم بن عبداللہ نے کہا، اور پھر اسی طرح روایت بیان کی، اور (اس روایت میں) عقیل بن خالد نے مالک کی متابعت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٧١) ، مسند احمد (٣/٤٦٥، ١٤٣) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٩٣٥، ٣٩٣٦، ٣٩٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3903
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
سالم بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر (رض) اپنی زمین کرائے پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج (رض) زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکتے ہیں، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے ان سے ملاقات کی اور کہا : ابن خدیج ! زمین کو کرائے پر اٹھانے کے بارے میں آپ رسول اللہ ﷺ سے کیا نقل کرتے ہیں ؟ تو رافع (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا : میں نے اپنے دو چچاؤں کو (کہتے) سنا (ان دونوں نے بدر میں شرکت کی تھی) وہ دونوں گھر والوں سے بیان کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو کرائے پر اٹھانے سے روکا ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : میں تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جانتا تھا کہ زمین کرائے پر اٹھائی جاسکتی ہے، پھر عبداللہ بن عمر (رض) کو خوف ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلے میں کوئی ایسی نئی بات کہی ہوگی جسے وہ نہ جان سکے ہوں، چناچہ انہوں نے زمین کو کرائے پر اٹھانا چھوڑ دیا۔ اسے شعیب بن ابی حمزہ نے مرسلاً روایت کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شعیب نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے : عن الزھری قال بلغنا أن رافع بن خدیج جب کہ آگے روایت آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3904
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
زہری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رافع بن خدیج (رض) اپنے دو چچاؤں سے جو ان کے خیال میں غزوہ بدر میں شریک تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا۔ اسے عثمان بن سعید نے بھی شعیب سے روایت کیا ہے اور اس میں ان کے دونوں چچاؤں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٣٤(صحیح) (سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ روایت صحیح نہیں ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3905
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
زہری کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب کہتے تھے : سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرائے پر اٹھانے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں اور رافع بن خدیج (رض) بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ عبدالکریم بن حارث نے اس کے مرسل ہونے میں ان کی موافقت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٥٨٠) (صحیح) (یہ روایت منقطع ہے، زہری کی رافع رضی الله عنہ سے ملاقات نہیں ہے، لیکن سابقہ متابعات کی وجہ سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3906
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
١ ؎: یعنی شعیب کی موافقت کی ہے اور یہ موافقت اس طرح ہے کہ زھری اور رافع کے درمیان سالم کا ذکر نہیں ہے جب کہ مالک اور عقیل نے سالم کا ذکر کیا ہے۔ شرافع بن خدیج (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا۔ زہری کہتے ہیں : اس کے بعد رافع (رض) سے پوچھا گیا : وہ لوگ زمین کو کرائے پر کیوں کر اٹھاتے تھے ؟ وہ بولے : غلے کی متعینہ مقدار کے بدلے میں اور اس بات کی شرط ہوتی تھی کہ ہمارے لیے وہ بھی ہوگا جو زمین میں کیا ریوں اور نالیوں پر پیدا ہوتا ہے۔ اسے نافع نے بھی رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا ہے اور اس کی روایت میں ان کے شاگردوں میں اختلاف ہوا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت بھی منقطع ہے، لیکن سابقہ متابعت سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3907
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع کا بیان ہے کہ رافع بن خدیج (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) کو خبر دی کہ ہمارے چچا لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، پھر واپس آ کر خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، تو عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا : ہمیں معلوم ہے کہ وہ (رافع) رسول اللہ ﷺ کے عہد میں زمین والے تھے، اور اسے کرائے پر اس شرط پر دیتے تھے کہ جو کچھ اس کی کیا ریوں کے کناروں پر جہاں سے پانی ہو کر گزرتا ہے پیدا ہوگا اور کچھ گھاس (چارہ) جس کی مقدار انہیں معلوم نہیں ان کی ہوگی۔ اسے ابن عون نے بھی نافع سے روایت کیا ہے لیکن اس میں (عمومتہ کے بجائے) بعض عمومتہ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٣٥ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3908
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) زمین کا کرایہ لیتے تھے، انہیں رافع بن خدیج (رض) کی کوئی بات سننے کو ملی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور رافع (رض) کے پاس گئے اور میں ان کے ساتھ تھا، تو رافع (رض) نے ان سے اپنے کسی چچا سے روایت کرتے ہوئے (یہ حدیث بیان کی) کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، اس کے بعد عبداللہ بن عمر (رض) نے اسے ترک کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3909
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ وہ زمین کا کرایہ لیتے تھے، یہاں تک کہ رافع (رض) نے اپنے کسی چچا سے روایت کرتے ہوئے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائیے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ چناچہ اس کے بعد انہوں نے اسے ترک کردیا۔ اسے ایوب نے نافع سے، انہوں نے رافع (رض) سے روایت کیا ہے اور ان کے چچاؤں کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3910
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر (رض) اپنے کھیت کرایہ پر اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ معاویہ (رض) کی خلافت کے آخری دور میں انہیں معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں رافع بن خدیج (رض) رسول اللہ ﷺ سے ممانعت نقل کرتے ہیں تو وہ ان کے پاس آئے، میں ان کے ساتھ تھا، انہوں نے رافع سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرماتے تھے۔ اس کے بعد ابن عمر (رض) نے اسے ترک کردیا، پھر جب ان سے اس کے متعلق پوچھا جاتا تو کہتے کہ رافع (رض) کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے روکا ہے۔ ایوب کی موافقت عبیداللہ بن عمر، کثیر بن فرقد اور جویریہ بن اسماء نے بھی کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإجارة ٢٢ (٢٢٨٥) ، الحرث ١٨ (٢٣٤٣) ، صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٤ تعلیقًا) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٨ (٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٦) ، مسند احمد (٢/٦٤، ٣/٤٦٤، ٤٦٥، ٤/١٤٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٩٤٣-٣٩٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3911
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) کھیتوں کو کرائیے پر دیتے تھے، ان سے کہا گیا کہ رافع بن خدیج (رض) نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے روکا ہے۔ نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) مقام بلاط کی طرف نکلے، میں ان کے ساتھ تھا، تو آپ نے رافع (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں، رسول اللہ ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے روکا ہے، چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) نے اسے کرائے پر دینا چھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٤٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3912
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) کو بتایا کہ رافع بن خدیج (رض) زمین کو کرائے پر دینے کے سلسلے میں حدیث بیان کرتے ہیں، تو میں اور وہ شخص جس نے انہیں بتایا تھا ان کے ساتھ چلے یہاں تک کہ وہ رافع (رض) کے پاس آئے، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) نے زمین کرائے پر اٹھانی چھوڑ دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٤٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3913
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع سے روایت ہے کہ رافع بن خدیج (رض) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٤٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3914
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اپنی زمین کو اس میں پیدا ہونے والے غلہ کے بعض حصے کے بدلے کرائے پر دیتے تھے، پھر انہیں معلوم ہوا کہ رافع بن خدیج (رض) اس سے روکتے اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، اس پر عبداللہ بن عمر (رض) نے کہا کہ رافع (رض) کو جاننے سے پہلے ہم زمین کرائے پر اٹھاتے تھے۔ پھر آپ نے اپنے دل میں کچھ محسوس کیا، تو اپنا ہاتھ میرے مونڈھے پر رکھا یہاں تک کہ ہم رافع کے پاس جا پہنچے، پھر ابن عمر نے رافع سے کہا : کیا آپ نے نبی اکرم ﷺ کو زمین کرائے پر دینے سے منع فرماتے سنا ہے ؟ رافع (رض) نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ کسی چیز کے بدلے زمین کرائے پر نہ دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٣٩٤٢ (شاذ) (اس روایت میں ” بشیٔ “ کا لفظ شاذ ہے، باقی باتیں صحیح ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بشیٔ (کسی چیز کے بدلے) کا لفظ شاذ ہے، کیونکہ سونے چاندی کے عوض زمین کو کرایہ پر دینے کی بات صحیح اور ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : شاذ بزيادة بشيء صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3915
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے اسے رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا ہے، اور (اس روایت میں ابن عمر (رض) سے رویت کرنے والے) عمرو بن دینار سے روایت میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٥٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3916
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ مخابرہ کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ رافع بن خدیج (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٤٧) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣١ (٣٣٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ٨ (٢٤٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٦) ، مسند احمد (١/٢٣٤، ٢/١١، ٣/٤٦٣، ٤٦٥، ٤/١٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں مخابرہ سے مراد : بٹائی کا وہی معاملہ ہے جس کی تشریح حدیث نمبر ٣٨٩٣ کے حاشیہ میں گزری، یعنی : زمین کے بعض خاص حصوں میں پیدا ہونے والی پیداوار پر بٹائی کرنا، نہ کہ مطلق پیدا وار کے آدھا پر، جو جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3917
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار کو کہتے سنا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو سنا اور وہ مخابرہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ ہمیں رافع بن خدیج (رض) نے (خلافت یزید کے) پہلے سال ١ ؎ میں خبر دی کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو مخابرہ سے منع فرماتے سنا ہے۔ ان دونوں (سفیان و ابن جریج) کی موافقت حماد نے کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظرماقبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ واقعہ معاویہ (رض) کے آخری دور خلافت کا ہے، اس لیے پہلے سال سے مراد یزید کی خلافت کا پہلا سال ہے۔ (واللہ اعلم ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3918
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو کہتے سنا : ہم مخابرہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب پہلا سال ہوا تو رافع (رض) نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے روکا ہے۔ عارم محمد بن فضل نے یحییٰ بن عربی کی مخالفت کی ہے۔ اور اسے بسند عن حماد عن عمرو عن جابر روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3919
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ محمد بن مسلم طائفی نے حماد کی متابعت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٥١٨) ، مسند احمد (٣/٣٣٨، ٣٨٩) (صحیح) (اس کے راوی ” عارم محمد بن الفضل “ آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے، اور امام نسائی نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی تھی، لیکن سابقہ متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یہاں بھی کرایہ پر دینے سے مراد زمین کے بعض حصوں کی پیداوار کے بدلے کرایہ پر دینا ہے، نہ کہ روپیہ پیسے، یا سونا چاندی کے بدلے، جو کہ اجماعی طور پر جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے مخابرہ، محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے دونوں حدیثوں کو جمع کر کے ہے اور عن ابن عمر و جابر کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٥٦٥) (صحیح) (اس کے راوی ” محمد بن مسلم “ حافظہ کے قدرے کمزور تھے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3920
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عبداللہ بن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ اس کا پختہ ہوجانا واضح ہوجائے۔ نیز آپ نے مخابرہ یعنی زمین کو تہائی یا چوتھائی (پیداوار) کے بدلے کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اسے ابوالنجاشی عطاء بن صہیب نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں ان سے روایت میں ان کے تلامذہ نے اختلاف کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٧ (١٥٣٦) ، تحفة الأشراف : ٢٥٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3921
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تم اپنے کھیتوں کو اجرت پر دیتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! ہم انہیں چوتھائی اور کچھ وسق جو پر بٹائی دیتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو، ان میں کھیتی کرو یا عاریتاً کسی کو دے دو ، یا اپنے پاس رکھو ۔ اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر کی مخالفت کی ہے اور عن رافع عن ظہیر بن رافع کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/البیوع ١٨ (١٥٤٨) سنن ابی داود/البیوع ٣٢ (٣٣٩٤ تعلیقًا) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3922
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس (ہمارے چچا) ظہیر بن رافع (رض) نے آ کر کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی چیز سے روکا ہے جو ہمارے لیے مفید و مناسب تھی۔ میں نے کہا : وہ کیا ہے ؟ کہا : رسول اللہ ﷺ کا حکم اور وہ سچا (برحق) ہے، آپ نے مجھ سے پوچھا : تم اپنے کھیتوں کا کیا کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : ہم انہیں چوتھائی پیداوار اور کچھ وسق کھجور یا جو کے بدلے کرائے پر اٹھا دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم ایسا نہ کرو، یا تو ان میں خود کھیتی کرو یا پھر دوسروں کو کرنے کے لیے دے دو ، یا انہیں یوں ہی روکے رکھو ۔ بکیر بن عبداللہ بن اشج نے اسے اسید بن رافع سے روایت کیا ہے، اور اسے رافع کے بھائی سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ١٨(٢٣٣٩) ، صحیح مسلم/البیوع ١٨(١٥٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٠(٢٤٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٩) ، مسند احمد (١/١٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3923
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
اسید بن رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رافع کے بھائی نے اپنے قبیلے سے کہا : آج رسول اللہ ﷺ نے ایسی چیز سے منع فرمایا ہے، جو تمہارے لیے سود مند تھی اور آپ کا حکم ماننا واجب، آپ نے بیع محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٥٣١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3924
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عبدالرحمٰن بن ہرمز کہتے ہیں کہ میں نے اسید بن رافع بن خدیج انصاری کو بیان کرتے سنا کہ انہیں (یعنی صحابہ کو) بیع محاقلہ سے روک دیا گیا ہے، بیع محاقلہ یہ ہے کہ زمین کو اس کی کچھ پیداوار کے بدلے کھیتی کرنے کے لیے دے دیا جائے۔ اسے عیسیٰ بن سہل بن رافع نے بھی روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3925
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عیسیٰ بن سہل بن رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ میں یتیم تھا اور اپنے دادا رافع بن خدیج (رض) کی گود میں پرورش پا رہا تھا، میں جوان ہوا اور میں نے ان کے ساتھ حج کیا تو میرے بھائی عمران بن سہل بن رافع بن خدیج آئے اور کہا : اے ابا جان (دادا جان) ! ہم نے اپنی زمین فلاں عورت کو دو سو درہم پر کرائے پردے دی ہے۔ انہوں نے کہا : میرے بیٹے ! اسے چھوڑ دو ، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے علاوہ روزی دے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے روک دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٢(٣٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦٩) (شاذ) (اس کے راوی ” عیسیٰ بن سہل “ لین الحدیث ہیں اور اس میں شاذ بات یہ ہے کہ اس میں مطلق کرایہ پر دینے سے ممانعت ہے، جب کہ خود رافع رضی الله عنہ کی اس روایت کے کئی طرق میں سونا چاندی پر کرایہ پر دینے کی اجازت مذکور ہے ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3926
زمین کو تہائی یا چوتھائی پیدا وار پر کرایہ پر دینے سے متعلق مختلف احادیث
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت (رض) نے کہا : اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج (رض) کی مغفرت فرمائے۔ اللہ کی قسم ! میں یہ حدیث ان سے زیادہ جانتا ہوں، دو آدمی جھگڑ پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارا یہ حال ہے تو تم کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو ، تو رافع نے آپ کا صرف یہ قول سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر نہ دیا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣١ (٣٣٩٠) ، سنن ابن ماجہ/ الرہون ١٠(٢٤٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٣٠) ، مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو عبیدة “ لین الحدیث ہیں اور ” الولید بن ابی الولید “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3927 ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : بٹائی کے معاملات کو (اس طرح) لکھنا چاہیئے کہ بیج اور اس کا خرچ زمین کے مالک پر ہوگا اور کھیتی کرنے والے کے لیے کھیتی میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی پیداوار کا چوتھائی حصہ ہوگا ١ ؎۔ یہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے فلاں بن فلاں کے لیے لکھی ہے، صحت و تندرستی کی حالت میں لکھا اور اس حال میں جب اس کے احکام نافذ ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنی ساری زمین جو فلاں مقام پر فلاں علاقے میں ہے مجھے بٹائی پر دی، اور یہ وہ زمین ہے جس کی پہچان یہ ہے : اس کی چوحدی یہ ہے کہ ان میں سے ایک فلاں مقام سے لگی ہوئی ہے، اسی طرح پھر دوسری، تیسری اور چوتھی حد بیان کرے۔ اس کتاب میں مذکور تمام حدود والی اپنی پوری زمین آپ نے مجھے دے دی۔ اور اس کے سارے حقوق، اس کا پانی، اس کی نہریں، اور نالیاں دے دیں، ایک ایسی زمین جو ہر چیز سے خالی ہے، نہ اس میں کھیتی ہے، نہ کوئی پودا، پورے ایک سال کے لیے جو فلاں سال، فلاں مہینے کی ابتداء سے شروع ہوگا، اور اس معاہدے کا اختتام فلاں سن کے فلاں مہینے کے خاتمے تک ہوگا۔ اس شرط پر کہ یہ پوری زمین جس کی حدیں اس معاہدہ میں بیان کی گئی ہیں اور جو فلاں مقام میں ہے اسے میں نے معینہ سال کے لیے شروع سے آخر تک کھیتی کے لیے لی، اور اس میں جب چاہوں اور جو چاہوں میں کھیتی کروں۔ گیہوں، جو، تل، چاول، روئی، کھجوریں، ساگ، چنا، لوبیا، مسور، کھیرا ککڑی، خربوزہ، گاجر، شلجم، مولی، پیاز، لہسن، یا ساگ یا بیل پھول وغیرہ، یعنی گرمی و سردی کے سارے غلے، اس طرح کہ بیج آپ کا ہوگا اور اس کی ساری محنت میری ہوگی، میرے ہاتھ کی یا اس کی جسے میں چاہوں اپنے دوستوں، مزدوروں اور بیل و ہل وغیرہ میں سے، میں اس میں کھیتی کروں گا، اسے آباد کروں گا اور ایسا کام کروں گا کہ اس سے نشو و نما ہو، وہ درست رہے، زمین میں ہل جوتوں گا، اس کی گھاس صاف کروں گا۔ اگی ہوئی کھیتی میں جسے پانی کی ضرورت ہوگی اس کی سینچائی کروں گا، اور جہاں کھاد کی ضرورت ہوگی کھاد ڈالوں گا، اس کی نالیاں اور نہریں کھودوں گا اور جو پھل توڑنا ضروری ہوگا اسے توڑوں گا۔ اور جس کھیتی کا کاٹنا ضروری ہوگا کاٹوں گا اور اکٹھا کروں گا اور جس فصل کی کٹائی ضروری ہوگی اسے کٹواؤں گا اور اس پر جو کچھ خرچ ہوگا وہ آپ کے ذمے ہوگا، نہ کہ میرے، اور یہ سب کام میں اپنے ہاتھ سے کروں گا یا اپنے مدد گاروں کے ذریعے نہ کہ آپ کی مدد سے، اس شرط پر کہ اس عہد نامے میں اس کے شروع سے لے کر آخر تک جو مدت ذکر کی گئی ہے اس پوری مدت میں جو اللہ تعالیٰ اس کھیت میں سے اگائے گا آپ کے لیے تین چوتھائی حصہ ہوگا، اس لیے کہ زمین آپ کی تھی، بیج آپ کا تھا اور خرچہ بھی آپ نے کیا تھا، اور میرے لیے اس پورے میں سے باقی چوتھائی حصہ ہوگا اس لیے کہ میں نے کھیتی کی، کام کیا اور اپنے ہاتھ سے اور اپنے کے مدد گاروں کے ہاتھ سے اسے سر کیا، اور آپ نے وہ پوری زمین جس کی حدود اس عہد نامے میں بیان کی گئی ہیں میرے حوالے کی، اس کے تمام حقوق اور لوازمات کے ساتھ اور میں نے یہ زمین آپ سے اپنے قبضے میں لی، فلاں سال کے فلاں ماہ کے فلاں دن سے۔ تو یہ پوری کی پوری میرے ہاتھ میں ہے جو آپ کی ہے، میری اس میں نہ کوئی ملکیت ہے اور نہ ہی کوئی دعویٰ اور نہ ہی کوئی مطالبہ، سوائے اس فصل اور پیداوار کے جو اس معینہ سال میں اس عہد نامے میں ذکر کی گئی ہے، اور جب مدت پوری ہوگی تو یہ پوری زمین آپ کو لوٹا دی جائے گی، وہ آپ کے ہاتھ میں ہوگی اور مدت گزرنے کے بعد آپ کو اختیار ہوگا کہ آپ مجھے اس میں سے نکال دیں اور اسے میرے ہاتھ سے نکال لیں اور ہر اس شخص کے ہاتھ سے جس کا میری وجہ سے اس میں کوئی دخل تھا۔ فلاں اور فلاں نے یہ طے کیا، اور عہد نامہ کی دو کاپیاں لکھی گئیں۔ وضاحت : بیج اور دیگر سارے اخراجات زمین کے مالک کی طرف سے اٹھانے کی صورت میں پیداوار کا تین حصہ مالک کا ہوگا اور ایک حصہ کاشت کار کا، اور اگر بیج اور دیگر سارے اخراجات کاشتکار برداشت کرے تو مالک کو پیداوار کا آدھا ملے گا، جیسا کہ خیبر کے معاملے میں اللہ کے رسول صلی للہ علیہ وسلم نے کیا تھا (دیکھئے حدیث نمبر ٣٩٦١١) ایسا بالکل نہیں ہے کہ بہر حال بیج و اخراجات صرف مالک پر ہوں تب ہی بٹائی کا معاملہ جائز ہے۔ جیسا کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے۔ مذکورہ حدیث سے ان کے قول کی تردید ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
ابن عون کہتے ہیں کہ محمد (محمد بن سیرین) کہا کرتے تھے : میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے، تو جو کچھ مضاربت کے مال میں درست ہے، وہ زمین میں بھی درست ہے، اور جو مضاربت کے مال میں درست نہیں، وہ زمین میں بھی درست نہیں، وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زمین کاشتکار کے حوالے کردیں اس شرط پر کہ وہ (کاشتکار) خود اپنے آپ، اس کے لڑکے، اس کے دوسرے معاونین اور گائے بیل اس میں کام کریں گے اور وہ اس میں کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا بلکہ تمام مصارف زمین کے مالک کی طرف سے ہوں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٣٠٨) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: بٹائی کی یہ ایک جائز صورت ہے، واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ زمین کا مالک کچھ بھی خرچ نہ کرے، تمام اخراجات کاشتکار کرے اور آدھی پیداوار کا حقدار ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3928
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے یہود کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں اپنے خرچ پر کام کریں گے اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ رسول اللہ ﷺ کا ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١ (١٥٥١) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٥(٣٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٢٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الحرث ٨ (٢٣٢٨) (في سیاق أطول من ذلک) ٩ (٢٣٢٩) ، سنن الترمذی/الأحکام ٤١ (١٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ١٤ (٢٤٦٨) ، مسند احمد (٢/١٧، ٢٢، ٣٧) ، سنن الدارمی/البیوع ٧١ (٢٦٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3929
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہود خیبر کو خیبر کے باغات اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اپنے خرچ پر اس میں کام کریں گے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے اس کے پھل کا آدھا ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3930
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کھیت بٹائی پر دیے جاتے تھے اس شرط پر کہ زمین کے مالک کے لیے وہ پیداوار ہوگی جو نالیوں اور نہروں کی کیا ریوں پر ہو اور کچھ گھاس جس کی مقدار مجھے معلوم نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٤٢٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3931
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
عبدالرحمٰن بن اسود کہتے ہیں کہ میرے دو چچا تہائی اور چوتھائی پر کھیتی کرتے تھے اور میرے والد ان کے شریک ہوتے تھے۔ علقمہ اور اسود کو یہ بات معلوم تھی مگر وہ کچھ نہ کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٩٥٣) (ضعیف الإسناد) (قاضی شریک ضعیف الحفظ اور ابواسحاق مختلط راوی ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3932
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس میں سب سے بہتر یہ ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پردے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٥٤٩) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3933
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ وہ دونوں خالی زمین کو کرائے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٤٣٠، ١٨٦٨٧) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3934
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ شریح مضارب ١ ؎ کے سلسلے میں صرف دو طرح کے فیصلے دیتے تھے، کبھی مضارب سے کہتے کہ تم اس مصیبت پر گواہ لے کر آؤ جس کی وجہ سے تم معذور قرار دیئے جاؤ، اور کبھی صاحب مال سے کہتے : تم اس بات کا گواہ لے کر آؤ کہ تمہارے امین (مضارب) نے خیانت کی ہے۔ ورنہ اس سے اللہ کی قسم لی جائے گی کہ اس نے خیانت نہیں کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٨٠١) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: مضارب (راء کے زیر کے ساتھ) اسے کہتے ہیں جو کسی دوسرے کے مال سے تجارت کرے یعنی محنت اس شخص کی ہو اور پیسہ کسی اور کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3935
ان مختلف عبارات کا تذکرہ جو کہ کھیتی کے سلسلہ میں منقول ہیں
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ خالی زمین کو سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٧٠٧) (ضعیف) (اس کے راوی ” شریک القاضی “ ضعیف الحفظ ہیں) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3936 ( مؤلف) کہتے ہیں : جب کوئی آدمی کسی آدمی کو کچھ مال مضاربت کے طور پردے پھر اس کا معاہدہ لکھنا چاہے تو اس طرح لکھے : یہ وہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے، تندرستی کی حالت میں اور اس حال میں جب معاملات جاری ہوتے ہیں، فلاں بن فلاں کے لیے لکھا ہے : آپ نے مجھے فلاں سال کے فلاں مہینے کے شروع میں دس ہزار کھرے اور چوکھے درہم بہ طور مضاربت دیے جن کا وزن سات (مثقال) ہے۔ اس شرط پر کہ میں ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہوں گا اور اس امانت کو ادا کروں گا، اور اس شرط پر کہ ان سے میں وہ سب کچھ خریدوں گا جو میں چاہوں گا اور وہاں خرچ کروں گا جہاں میں خرچ کرنا مناسب سمجھوں گا، یعنی مختلف تجارتوں میں لگاؤں گا، جہاں اور جتنا مناسب سمجھوں گا اس میں سے لے کر جاؤں گا اور جو کچھ خریدوں گا اس میں سے نقد یا ادھار جب مناسب سمجھوں گا بیچوں گا، مال کی قیمت عینی چیز لوں گا یا پھر اس قیمت کا دوسرا مال، ان سب باتوں میں شرط یہ ہے کہ میں اپنی صواب دید سے کام کروں گا، اور ان تمام امور میں میں جسے مناسب سمجھوں گا اپنا وکیل بناؤں گا، اور اس اصل پونجی سے جو آپ نے مجھے دی ہے اور جس کی معینہ مقدار اس عہد نامے میں مذکور ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جو منافع اور جو بڑھوتری عطا کرے گا وہ میرے اور آپ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا، اس کا آدھا آپ کے لیے آپ کے رأس المال (اصل پونجی) کی وجہ سے اور میرے لیے اس کا آدھا میری محنت اور میرے کام کی وجہ سے ہوگا، اور جو نقصان ہوگا تو وہ رأس المال (اصل پونچی) میں سے ہوگا۔ تو میں نے یہ دس ہزار کھرے چوکھے درہم فلاں سال کے فلاں مہینہ کے شروع میں آپ سے اپنے قبضے میں لیے اور یہ میرے ہاتھ میں آپ کے لیے شرکت و مضاربت کے طور پر ہیں، ان شرطوں کے ساتھ جو اس معاہدہ میں لکھی گئی ہیں اور فلاں اور فلاں نے انہیں منظور کیا ہے۔ اور جب صاحب مال چاہے کہ وہ ادھار خریدو فروخت نہ کرے تو اس طرح لکھے گا : اور آپ نے مجھے ادھار خریدو فروخت کرنے سے منع کیا ١ ؎۔ وضاحت : ١ ؎: اسی طرح دیگر شرائط بھی اگر صاحب مال چاہے تو طے کرسکتا ہے، مثلاً : اس مال سے صرف فلاں سامان کی تجارت کی جاسکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہاں جو طے ہو لکھا ضرور جائے، یہی بات اگلے معاملہ میں بھی ہے۔
شرکت الابدان (یعنی شرکت صناائع) سے متعلق
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں عمار اور سعد (رض) بدر کی لڑائی کے روز شریک (کار) ہوئے تو سعد دو قیدی لے کر آئے، نہ میں کچھ لایا اور نہ ہی عمار کچھ لے کر آئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٣٠ (٣٣٨٨) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٦٣ (٢٢٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٦١٦) ، ویأتی عند المؤلف فی البیوع ١٠٣ (برقم : ٤٧٠١) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو اسحاق سبیعی “ مختلط ہوگئے تھے، اور ” ابو عبیدہ “ کا اپنے باپ ” ابن مسعود رضی الله عنہ “ سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: شرکت ابدان یہ ہے کہ دو آدمی کسی کام کے انجام دینے میں اس طرح شریکوں کہ ان دونوں کی محنت سے اس کام میں جو بھی فائدہ حاصل ہوگا اس میں وہ دونوں برابر برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3937
شرکت الابدان (یعنی شرکت صناائع) سے متعلق
زہری کہتے ہیں کہ مفاوضہ کے طور پر دو غلام شریکوں پھر ایک مکاتبت کرلے تو یہ جائز ہے اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں شریک میں یہ بات طے ہو کہ ہر ایک دوسرے کی طرف سے ادا کرے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٤١٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3938 یہ تحریر (معاہدہ) ہے، اسے فلاں، فلاں، فلاں اور فلاں نے آپس میں لکھا ہے، ان میں سے ہر ایک نے اپنے دوسرے ساتھیوں کے لیے جن کے نام اس تحریر میں درج ہیں، اس کے پورے مندرجات کے متعلق اقرار کیا ہے، صحت اور معاملات کے نافذ ہونے کی حالت میں، ہم چاروں میں معاملات، تجارتیں، خریدو فروخت، ہر طرح کے اموال اور ہر طرح کے معاملات میں شرکت اور حصہ داری تھی، اسی طرح ہمارے درمیان قرض، صرف، امانت، ڈرافٹ، مضاربت، عاریۃ اور قرض کے لین دین، کرایہ داری، کاشتکاری اور بٹائی کے معاملات جاری تھے۔ اب ہم سب نے اپنی رضا مندی سے اس کو ختم کردیا۔ جو شرکت اور حصہ داری، اموال اور معاملات میں اب تک ہمارے درمیان جاری تھی اس کو ہم سب نے فسخ کیا خواہ وہ کسی بھی قسم یا کسی بھی نوعیت کے ہوں۔ ہم نے اس کی حد اور مقدار کو الگ الگ بیان کردیا اور جو سچ اور صحیح تھا اس کو دریافت کرلیا اور ہر ایک نے اپنا پورا پورا حق پایا یا اپنے قبضے میں کرلیا، اب ہم میں سے کسی کو کسی ساتھی پر جن کے نام اس تحریر (معاہدہ) میں ہیں یا اس کی وجہ سے یا اس کے نام سے دوسرے پر کوئی دعویٰ اور مطالبہ نہیں رہا۔ کیونکہ ہر ایک نے اس کا جو حق تھا اسے پورا پورا پا لیا اور اپنے قبضہ میں لے لیا، اس کا اقرار فلاں، فلاں، فلاں اور فلاں نے کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا يحل لکم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئا إلا أن يخافا ألا يقيما حدود اللہ فإن خفتم ألا يقيما حدود اللہ فلا جناح عليهما فيما افتدت به تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم عورتوں سے اپنا دیا ہوا واپس لو، الا یہ کہ دونوں ڈریں کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت (حدود) کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر جب ایسا ڈر ہو تو عورت پر گناہ نہیں کہ کچھ دے کر اپنے کو چھڑا لے (البقرة : ٢٢٩) یہ وہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں کی فلاں بیٹی فلانہ نے اپنی صحت کی حالت میں اور تصرف نافذ ہونے کی صورت میں فلاں بن فلاں کے فلاں بیٹے کے لیے لکھا ہے، میں آپ کی بیوی تھی، آپ مجھ سے ملے اور صحبت کی اور دخول کیا، پھر مجھے آپ کی صحبت بری معلوم ہوئی اور میں نے آپ سے جدا ہونا اچھا جانا، آپ نے مجھے کسی طرح کا نہ تو نقصان پہنچایا اور نہ ہی میرے واجب الادا حقوق سے مجھے روکا، اور میں نے آپ سے اس وقت درخواست کی جب مجھے اندیشہ ہوا کہ ہم اللہ کے حدود کو ٹھیک سے قائم نہ رکھ سکیں گے کہ مجھ سے خلع کرلیں اور مجھے ایک طلاق بائن دے دیں، اس پورے مہر کے بدلے جو میرا آپ کے ذمے ہے اور وہ اتنے اتنے کھرے دینار جو اتنے مثقال کے ہیں، اور مہر کے علاوہ اتنے مثقال کے اتنے کھرے دینار کے بدلے۔ پھر آپ نے میرا مطالبہ پورا کردیا اور ایک طلاق بائن دے دی اس پورے مہر کے بدلے جو میرا آپ پر باقی تھا اور جس کی مقدار اس تحریر میں لکھی ہوئی ہے اور اس کے علاوہ ان دیناروں کے بدلے جن کی تعداد اس میں درج ہے، پھر میں نے آپ کے سامنے اسے اس وقت قبول کیا جب آپ میری طرف مخاطب تھے اور میں آپ کی بات کا جواب دیتی تھی اس سے پہلے کہ ہم اپنی اس بات چیت سے فارغ ہوں، اور میں نے آپ کو وہ سب دینار دے دیے جن کی تعداد اس تحریر میں درج ہے اور جن کے بدلے آپ نے خلع کیا، مہر کے علاوہ۔ اب میں آپ سے جدا اور اپنی مرضی کی مالک ہوگئی، اس خلع کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ اب آپ کا مجھ پر کچھ اختیار نہیں رہا، نہ ہی کسی طرح کا مطالبہ اور رجوع کا حق۔ اور میں نے آپ سے اپنے وہ سارے حقوق لے لیے جو مجھ جیسی عورت کے آپ جیسے شوہر پر ہوتے ہیں جب تک کہ میں آپ کی زوجیت میں رہی، اور مجھے وہ سارے حقوق مل گئے جو مجھ جیسی طلاق والی کسی عورت کے ہوتے ہیں اور آپ جیسے شوہر کو ان کو دینا ضروری ہوتا ہے۔ اب ہم میں سے کوئی دوسرے پر کسی طرح کا حق یا دعویٰ یا مطالبہ جو کسی طور کا ہو پیش کرے تو اس کے سب دعوے جھوٹے ہیں اور جس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ پورے طور پر بری ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کا اقرار اور اس کا ابراء (بری کرنا) قبول کیا۔ جس کا ذکر اس کتاب میں آمنے سامنے سوال کے وقت ہوا اس سے پہلے کہ ہم اس گفتگو سے فارغ ہوں یا اس مجلس سے اٹھ کھڑے ہوں جہاں یہ اقرار نامہ میاں بیوی کی طرف سے ہم دونوں کے بیچ میں لکھا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذين يبتغون الکتاب مما ملکت أيمانکم فکاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں دے دیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو (النور : ٣٣) ١ ؎۔ یہ وہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنی صحت کی حالت اور تصرف نافذ ہونے کی صورت میں اپنے اس غلام کے لیے جو نوبہ (ایک ملک کا نام ہے) کا رہنے والا ہے اور اس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے : میں نے تم سے تین ہزار عمدہ اور کھرے درہم پر جو وزن میں سات مثقال کے برابر ہیں مکاتبت کی جو مسلسل چھ سال میں قسط وار ادا کئے جائیں گے، پہلی قسط فلاں سال کے فلاں مہینے میں چاند دیکھتے ہی ادا کی جائے گی، اگر تم نے اس تحریر میں بتائی گئی متعینہ روپے کی مقدار برابر قسطوں میں ادا کردی تو تم آزاد ہو اور تمہارے وہ سارے حقوق ملیں گے جو آزاد لوگوں کے ہیں اور تم پر وہ سب باتیں لازم ہوں گی جو ان پر لازم ہیں۔ اگر تم نے اس تحریر کی ذرہ برابر خلاف ورزی کی تو یہ تحریر کالعدم ہوگی اور تم پھر غلامی کی زندگی گزارو گے، مکاتبت سے متعلق کوئی تحریر دوبارہ نہیں لکھی جائے گی۔ میں نے تمہاری کتابت قبول کی ان شرائط کے مطابق جن کا ذکر اس کتاب میں ہوا اس سے پہلے کہ ہم اپنی گفتگو سے فارغ ہوں یا اپنی اس مجلس سے جدا ہوں جس میں یہ تحریر لکھی گئی، اقرار ہوا فلاں اور فلاں کی طرف سے۔ وضاحت : ١ ؎: مکاتب : اس غلام کو کہتے ہیں جو اپنے مالک سے یہ معاہدہ کرلیتا ہے کہ میں اتنی رقم جمع کر کے ادا کر دوں گا تو آزادی کا مستحق ہوجاؤں گا۔ یہ تحریر (معاہدہ) ہے جس کو فلاں بن فلاں بن فلاں نے لکھا ہے اپنے اس غلام کے لیے جو (صیقل گر) نان بائی اور باورچی ہے، جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک میری ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تجھ کو مدبر (یعنی اپنی موت کے بعد آزاد) کیا اللہ کی رضا مندی اور اس کے ثواب کی امید سے، تو تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو، میرے مرنے کے بعد کسی کا تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے ولاء (وارث) کے، اس لیے کہ وہ میرے لیے ہے اور میرے مرنے کے بعد میرے وارثین کے لیے ہے۔ فلاں بن فلاں نے اقرار کیا کہ جو کچھ اس تحریر میں لکھا ہے وہ اپنی خوشی سے صحت اور تصرف کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھا گیا ہے۔ جب یہ تحریر اس عہد نامہ میں مذکور گواہ لوگوں کے سامنے پڑھی گئی تو اس نے اس کا اقرار کیا کہ میں نے اس کو سنا اور سمجھا اور جانا اور میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے پھر وہ لوگ گواہ ہیں جو حاضر ہیں۔ فلاں صیقل گر باورچی نے اپنی درستی عقل اور جسمانی صحت کی حالت میں اس کا اقرار کیا کہ جو کچھ اس میں ذکر کیا گیا وہ سب ٹھیک اور درست ہے۔ وضاحت : ١ ؎: تدبیر یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہے کہ تم میری موت کے بعد آزاد ہو، ایسے غلام کو مدبّر کہتے ہیں۔