37. جنگ کے متعلق احادیث مبارکہ
خون کی حرمت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کفار و مشرکین سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر جب وہ گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور وہ ہماری نماز کی طرح نماز پڑھنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں اور ہمارے ذبیحے کھانے لگیں تو اب ان کے خون اور ان کے مال ہمارے اوپر حرام ہوگئے الا یہ کہ (جان و مال کے) کسی حق کے بدلے میں ہو (تو اور بات ہے) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر وہ کسی کا مال لے لیں تو اس کے بدلہ میں ان کا مال لیا جائے گا یا کسی کا خون کردیں تو اس کے بدلے ان کا خون کیا جائے گا یا شادی شدہ زانی ہو تو اس کو رجم (پتھر مار کر ہلاک) کیا جائے گا۔ اس حدیث اور اس مضمون کی آنے والی تمام احادیث (نمبر ٣٩٨٨ ) کے متعلق یہ واضح رہے کہ ان میں مذکورہ حکم نبوی خاص اس وقت کے جزیرۃ العرب اور اس وقت کے ماحول سے متعلق ہے۔ یہ حکم اتنا عام نہیں ہے کہ ہر مسلمان ہر عہد اور ہر ملک میں اس پر عمل کرنے لگے۔ یا موجودہ دور میں پائی جانے والی کوئی مسلمان نام کی حکومت اس پر عمل کرنے لگے۔ ان احادیث کا صحیح (پس منظر) نہ معلوم ہونے کے سبب ہی اس حکم نبوی کے خلاف واویلا مچایا جاتا ہے، فافھم وتدبر۔ مؤلف نے اس کتاب و باب میں اس حدیث کو اس مقصد سے ذکر کیا کہ اگر کوئی شہادتوں کے ساتھ ساتھ مذکورہ شعائر اسلام کو بجا لاتا ہو تو اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، مگر مذکورہ تین صورتوں میں ایسے آدمی کا خون بھی مباح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3966
خون کی حرمت
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پھر جب وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری نماز پڑھیں تو ان کے خون اور ان کے مال ہم پر حرام ہوگئے مگر (جان و مال کے) کسی حق کے بدلے، ان کے لیے وہ سب کچھ ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے، اور ان پر وہ سب (کچھ واجب) ہے جو مسلمانوں پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٨ (٣٩٢) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٠٤ (٢٦٤١) ، سنن الترمذی/الإیمان ٢ (٢٦٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٦) ، مسند احمد (٣/١٩٩، ٢٢٤) ، یأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3967
خون کی حرمت
میمون بن سیاہ نے انس بن مالک (رض) سے پوچھا : ابوحمزہ ! کس چیز سے مسلمان کی جان، اور اس کا مال حرام ہوجاتے ہیں ؟ کہا : جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے، ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے، اسے وہ سارے حقوق ملیں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور اس پر ہر وہ چیز لازم ہوگی جو مسلمانوں پر ہوتی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٨ (٣٩٣ تعلیقًا) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3968
خون کی حرمت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا تو بعض عرب مرتد ہوگئے، عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ عربوں سے کیسے جنگ کریں گے ؟ ابوبکر (رض) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے تو فرمایا ہے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم نہ کریں اور زکاۃ نہ دیں، اللہ کی قسم ! اگر وہ بکری کا ایک بچہ ١ ؎ بھی روکیں گے جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے لیے ان سے جنگ کروں گا ۔ عمر (رض) کہتے ہیں : جب میں نے ابوبکر (رض) کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر ہے تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث برقم : ٣٠٩٦ (حسن، صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یا تو یہ بطور مبالغہ ہے، یا یہ مراد ہے کہ اگر کسی کو بکریوں کی زکاۃ میں مطلوب عمر کی بکری نہ موجود ہو تو اس کی جگہ بکری کا بچہ بھی دے دینا کافی ہوگا۔ ٢ ؎: معلوم ہوا کہ صرف کلمہ شہادت کا اقرار کرلینا کافی نہیں ہوگا جب تک عقائد، اصول اسلام اور احکام اسلام کی کتاب وسنت کی روشنی میں پابندی نہ کرے، گویا کلمہ شہادت ذریعہ ہے شعائر اسلام کے اظہار کا اور شعائر اسلام کی پابندی ہی نجات کا ضامن ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3969
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور ابوبکر (رض) آپ کے خلیفہ بنے اور عربوں میں سے جن لوگوں کو کافر ہونا تھا کافر ہوگئے تو عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا : آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے ؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، پس جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے محفوظ کرلی مگر اس کے (یعنی جان و مال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔ ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، اس لیے کہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ رسی کا ایک ٹکڑا ١ ؎ بھی جسے رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے مجھے دینے سے روکیں گے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے جنگ کروں گا ۔ عمر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے، اور میں نے یہ جان لیا کہ یہی حق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یا تو یہ مبالغہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ بکریوں کی کسی تعداد پر زکاۃ میں رسی واجب نہیں ہے، یا عقال سے مراد مطلق زکاۃ ہے، اور ایسا شرعی لغت میں مستعمل بھی ہے، اس صورت میں اس عبارت کا معنی ہوگا تو اگر کوئی زکاۃ دیا کرتا تھا تو اب اس کے روکنے پر میں اس سے قتال کروں گا واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3970
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، جب وہ لوگ یہ کہنے لگیں تو اب انہوں نے اپنے خون، اپنے مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا مگر (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ پر ہے، پھر جب ردت کا واقعہ ہوا (مرتد ہونے والے مرتد ہوگئے) تو عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے کہا : کیا آپ ان سے جنگ کریں گے حالانکہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا اور ایسا فرماتے سنا ہے ؟ تو وہ بولے : اللہ کی قسم ! میں نماز اور زکاۃ میں تفریق نہیں کروں گا، اور میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو ان کے درمیان تفریق کرے گا، پھر ہم ان کے ساتھ لڑے اور اسی چیز کو ہم نے ٹھیک اور درست پایا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : زہری سے روایت کرنے والے سفیان قوی نہیں ہیں اور ان سے مراد سفیان بن حسین ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3971
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، چناچہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ لیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلیا مگر (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ شعیب بن ابی حمزہ نے اپنی روایت میں دونوں حدیثوں کو جمع کردیا ہے (یعنی : واقعہ ردت اور مرفوع حدیث) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٩٢ (صحیح متواتر ) قال الشيخ الألباني : صحيح متواتر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3972
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر (رض) خلیفہ ہوئے اور عرب کے جن لوگوں نے کفر (ارتداد) کی گود میں جانا تھا چلے گئے تو عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے ؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ إلا اللہ نہ کہیں، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنا مال، اپنی جان محفوظ کرلیا، مگر (جان و مال کے) حق کے بدلے میں، اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔ ابوبکر (رض) بولے : میں ہر اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں تفریق کرے گا کیونکہ زکاۃ یقیناً مال کا حق ہے، اللہ کی قسم ! اگر ان لوگوں نے بکری کا ایک بچہ بھی مجھے دینے سے روکا جسے یہ رسول اللہ ﷺ کو دیتے تھے تو میں اس کے روکنے پر ان سے جنگ کروں گا۔ عمر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے، تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3973
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں تو جس نے یہ کہہ دیا، اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کرلیا مگر (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔ ولید بن مسلم نے عثمان کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مخالفت یہ ہے کہ ولید نے مرفوع حدیث کے ساتھ ساتھ پورا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3974
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ (ارتداد کا فتنہ ظاہر ہونے پر) ابوبکر (رض) نے ان مرتدین سے جنگ کرنے کی ٹھان لی، تو عمر (رض) نے کہا : ابوبکر ! آپ لوگوں سے کیوں کر لڑیں گے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، جب وہ یہ کہنے لگیں تو ان کے خون، ان کے مال مجھ سے محفوظ ہوگئے مگر (جان و مال کے) حق کے بدلے ، ابوبکر (رض) نے کہا : میں ہر اس شخص سے لازماً جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ کے درمیان تفریق کرے گا۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھ سے بکری کا ایک بچہ بھی روکیں گے جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو اسے روکنے پر ان سے جنگ کروں گا ۔ عمر (رض) کہتے ہیں : یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر (رض) کے سینے کو ان مرتدین سے جنگ کرنے کے لیے کھول دیا ہے، تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3975
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ کرلیے مگر (جان و مال کے) حق کے بدلے اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٠٣ (٢٦٤٠) ، سنن الترمذی/الإیمان ١ (٢٦٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3976
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، پھر جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور اپنے مال محفوظ کرلیے مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٨ (٢١) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٩٨) ، وحدیث أبي صالح، قد تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٤٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3977
خون کی حرمت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم لوگوں سے اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیں تو ہم پر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہوگئے مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٩٠٤) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3978
خون کی حرمت
نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک شخص نے آ کر آپ سے رازدارانہ گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا : اسے قتل کر دو ، پھر آپ نے فرمایا : کیا وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ؟ کہا : جی ہاں، مگر اپنے کو بچانے کے لیے وہ ایسا کہتا ہے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے قتل نہ کرو۔ اس لیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں : جب وہ اسے کہہ لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال کو محفوظ کرلیا، مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٦٢٣) (صحیح ) وضاحت :: مزی نے تحفۃ الأشراف ( ٩/٢١ ) میں اس حدیث کے ذکر کے بعد نسائی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اسود کی روایت صحیح نہیں ہے۔ (جنہوں نے یہ نعمان بن بشیر (رض) کی مسند سے روایت کیا ہے، صحیح اگلی پانچ روایتیں ہیں، جن میں یہ حدیث اوس (رض) کی مسند سے روایت کی گئی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3979
خون کی حرمت
ایک شخص ١ ؎ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آئے اور ہم مدینے کی مسجد کے ایک خیمے میں تھے، وہاں آپ نے فرمایا : میرے پاس وحی آئی ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں … آگے حدیث اسی طرح ہے جیسی اوپر گزری۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١ (٣٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٨) ، مسند احمد (٤/٨) ، ویأتي فیما یلي : ٣٩٨٦، ٣٩٨٧، ٣٩٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ شخص صحابی رسول ﷺ اوس بن ابی اوس حذیفہ ثقفی (رض) ہیں، ان کے نام کی صراحت اگلی روایتوں میں آرہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3980
خون کی حرمت
اوس (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہم لوگ خیمہ میں تھے پھر مذکورہ حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3981
خون کی حرمت
اوس (رض) کہتے ہیں کہ میں قبیلہ ثقیف کے ایک وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، میں آپ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھا، میرے اور آپ کے علاوہ خیمے میں موجود سبھی لوگ سو گئے۔ اتنے میں ایک شخص نے آپ سے چپکے سے کہا تو آپ نے فرمایا : جاؤ اسے قتل کر دو ١ ؎، پھر آپ نے فرمایا : کیا یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے کہا : وہ گواہی دے رہا ہے۔ آپ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو پھر فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا إله إلا اللہ نہ کہیں : جب وہ یہ کہنے لگ جائیں تو ان کے خون، ان کے مال حرام ہوگئے مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے ۔ محمد (محمد بن جعفر غندر) کہتے ہیں : میں نے شعبہ سے کہا : کیا حدیث میں یہ نہیں ہے أليس يشهد أن لا إله إلا اللہ وأني رسول اللہ ؟ وہ بولے : میرے خیال میں أني رسول اللہ کا جملہ لا إله إلا اللہ کے ساتھ ہے، مجھے معلوم نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٨٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ حدیث نمبر ٣٩٨٤ میں فاقتلوہ میں جو ہ ضمیر ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے متعلق اس نے رازدارانہ سرگوشی کی تھی، نہ کہ بذات خود سرگوشی کرنے والا مراد ہے، کیونکہ اذھب فاقتلہ کا جملہ صریح طور پر اسی مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3982
خون کی حرمت
اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں (جب وہ اس کی گواہی دے دیں گے تو) پھر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہوجائیں گے مگر اس کے (جان و مال کے) حق کے بدلے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3983
خون کی حرمت
ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو خطبہ دیتے ہوئے سنا (انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بہت کم حدیثیں روایت کی ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دے سوائے اس (گناہ) کے کہ آدمی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، یا وہ شخص جو کافر ہو کر مرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٤٢٠) ، مسند احمد (٤/٩٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس صورت میں ہے جب کہ یہ دونوں توبہ کئے بغیر مرجائیں، نیز آیت کریمہ : ويغفر ما دون ذلک لمن يشاء یعنی : اللہ تعالیٰ شرک کے سوا دوسرے گناہ جس کے لیے چاہے معاف کرسکتا ہے (سورة النساء : 48) کی روشنی میں مومن کے قصد و ارادہ سے عمداً قتل کو بھی بغیر توبہ کے معاف کرسکتا ہے (جس کے لیے چاہے) محققین سلف کا یہی قول ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے حدیث رقم ٤٠٠٤ کا حاشیہ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3984
خون کی حرمت
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ناحق جو بھی خون ہوتا ہے اس کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے اس بیٹے پر جاتا ہے جس نے سب سے پہلے قتل کیا، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے (ناحق) خون کرنے کی کا راستہ نکالا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ١ (٣٣٣٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٧) ، الاعتصام ١٥ (٧٣٢١) ، صحیح مسلم/القسامة ٧ (١٦٧٧) ، سنن الترمذی/العلم ١٤ (٢٦٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١ (٢٦١٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٨) ، مسند احمد (١/٣٨٣، ٤٣٠، ٤٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3985
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کسی مومن کا (ناحق) قتل اللہ کے نزدیک پوری دنیا تباہ ہونے سے کہیں زیادہ بڑی چیز ہے ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ابراہیم بن مہاجر زیادہ قوی راوی نہیں ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٦٠٥) (صحیح) (اگلی متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابراہیم بن مہاجر “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایسا مومن کامل جو اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی احکام کا پورے طور پر پابند بھی ہے ایسے مومن کا ناحق قتل ہونا اللہ رب العالمین کی نظر میں ایسے ہی ہے جیسے دنیا والوں کی نگاہ میں دنیا کی عظمت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3986
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا زوال اور اس کی بربادی کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنے سے زیادہ حقیر اور آسان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الدیات ٧ (١٣٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3987
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کے ہلاک و برباد ہونے سے زیادہ بڑی بات ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3988
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے ہلاک و برباد ہونے سے زیادہ بڑی بات ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3989
قتل گناہ شدید
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے ہلاک ہونے سے کہیں زیادہ بڑی بات ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٥٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3990
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پہلی چیز جس کا بندے سے حساب ہوگا نماز ہے، اور سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ١ (٢٦١٧ مختصرا) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خالق کے حقوق سے متعلق پہلی چیز جس کا بندے سے حساب ہوگا نماز ہے، اور بندوں کے آپسی حقوق میں سے سب سے پہلے خون کی بابت فیصلہ کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3991
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الرقاق ٤٨ (٦٥٣٣) ، الدیات ١(٦٨٦٤) ، صحیح مسلم/القسامة ٨ (١٦٧٨) ، سنن الترمذی/الدیات ٨ (١٣٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ١(٢٦١٧) ، مسند احمد (١/٣٨٨، ٤٤١، ٤٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3992
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان قیامت کے روز سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ماقبلہ (صحیح) (عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا یہ کلام موقوف ہے، لیکن حکم میں یہ مرفوع یعنی حدیث نبوی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3993
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ قیامت کے روز سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3994
قتل گناہ شدید
عمرو بن شرحبیل کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩١٦٤) (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3995
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف وهو في حکم المرفوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3996
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (قیامت کے دن) آدمی آدمی کا ہاتھ پکڑے آئے گا اور کہے گا : اے میرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا : تم نے اسے کیوں قتل کیا تھا ؟ وہ کہے گا : میں نے اسے اس لیے قتل کیا تھا تاکہ عزت و غلبہ تجھے حاصل ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : وہ یقیناً میرے ہی لیے ہے، ایک اور شخص ایک شخص کا ہاتھ پکڑے آئے گا اور کہے گا : اس نے مجھے قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : تم نے اسے کیوں قتل کیا تھا ؟ وہ کہے گا : تاکہ عزت و غلبہ فلاں کا ہو، اللہ فرمائے گا : وہ تو اس کے لیے نہیں ہے۔ پھر وہ (قاتل) اس کا (جس کے لیے قتل کیا اس کا) گناہ سمیٹ لے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٤٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث آیت کریمہ ولا تزر وازرة وزر أخرء کے منافی اور خلاف نہیں ہے، اس لیے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی دوسرے کا گناہ ایسے شخص پر نہیں لادا جاسکتا جس کا اس گناہ سے نہ تو ذاتی تعلق ہے اور نہ ہی اس کے کسی ذاتی فعل کا اثر ہے، اور یہاں جس قتل ناحق کا تذکرہ ہے اس میں اس شخص کا تعلق اور اثر موجود ہے جس کی عزت و تکریم یا حکومت کی خاطر قاتل نے اس قتل کو انجام دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3997
قتل گناہ شدید
جندب (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے فلاں (صحابی) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے روز مقتول اپنے قاتل کو لے کر آئے گا اور کہے گا : (اے اللہ ! ) اس سے پوچھ، اس نے کس وجہ سے مجھے قتل کیا ؟ تو وہ کہے گا : میں نے اس کو فلاں کی سلطنت میں قتل کیا ۔ جندب کہتے (رض) ہیں : تو اس سے بچو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٥٤١۔ ألف) ، مسند احمد (٥/٣٦٧، ٣٧٣) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس طرح کے عذر لنگ والے جواب کی نوبت آنے سے بچو، یعنی تم کو اللہ کے پاس اس طرح کے جواب دینے کی نوبت نہ آئے، یہ خیال رکھو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3998
قتل گناہ شدید
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کیا گیا جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا، پھر توبہ کی، ایمان لایا، اور نیک عمل کئے پھر راہ راست پر آگیا ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : اس کی توبہ کہاں ہے ؟ میں نے تمہارے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے : وہ قاتل کو پکڑے آئے گا اور اس کی گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، تو وہ کہے گا : اے میرے رب ! اس سے پوچھ، اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ پھر (ابن عباس (رض) نے) کہا : اللہ تعالیٰ نے اس آیت (ومن يقتل مؤمنا متعمدا ... ) کو نازل کیا اور اسے منسوخ نہیں کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الدیات ٢ (٢٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٣٢) ، مسند احمد (١/٢٤٠، ٢٩٤، ٣٦٤) ، ویأتي عند المؤلف في القسامة (برقم : ٤٨٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ آیت : ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها جو کوئی مؤمن کو عمداً قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا (النساء : ٩٣ ) مدنی ہے اور بقول ابن عباس مدنی زندگی کے آخری دور میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔ اس لیے یہ اس مکی آیت کی بظاہر ناسخ ہے جو سورة الفرقان میں ہے : والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق سے لے کر إلا من تاب و عمل صالحا تک اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے۔۔۔۔ مگر جس نے توبہ کرلی اور نیک عمل کیے۔۔۔ (الفرقان : ٦٨-٧٠ ) علماء نے تطبیق کی صورت یوں نکالی ہے کہ پہلی آیت کو اس صورت پر محمول کریں گے جب قتل کرنے والا مؤمن کے قتل کو مباح بھی سمجھتا ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور وہ جہنمی ہوگا۔ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ مدنی آیت میں خلود سے مراد زیادہ عرصہ تک ٹھہرنا ہے، ایک نہ ایک دن توحید کی بدولت اسے ضرور جہنم سے خلاصی ہوگی۔ یہ بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ آیت میں زجر و توبیخ مراد ہے۔ یا جو بغیر توبہ مرجائے، یہ ساری تاویلات اس لیے کی گئی ہیں کہ جب کفر و شرک کے مرتکب کی توبہ مقبول ہے تو مومن کو عمداً قتل کرنے والے کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی، یہی وجہ ہے کہ ابن عباس (رض) نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا۔ دیکھئیے (صحیح حدیث نمبر : ٢٧٩٩ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 3999
قتل گناہ شدید
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا کے سلسلے میں اہل کوفہ میں اختلاف ہوا تو میں ابن عباس (رض) کے پاس گیا اور ان سے پوچھا : تو انہوں نے کہا : وہ سب سے اخیر میں نازل ہونے والی آیتوں میں اتری اور اسے کسی اور آیت نے منسوخ نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة النساء ١٦(٤٥٩٠) ، تفسیر سورة الفرقان ٢ (٤٧٦٣) ، صحیح مسلم/التفسیر ١٦ (٣٠٢٣) ، سنن ابی داود/الفتن ٦ (٤٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢١) ، ویأتی برقم : ٤٨٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4000
قتل گناہ شدید
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی ؟ ، میں نے ان کے سامنے سورة الفرقان کی یہ آیت : والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق پڑھی تو انہوں نے کہا : یہ آیت مکی ہے اسے ایک مدنی آیت ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم نے منسوخ کردیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفرقان ٢ (٤٧٦٤) ، صحیح مسلم/التفسیرح ٢٠ (٣٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢١) ، ویأتي برقم : ٤٨٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4001
قتل گناہ شدید
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے مجھے حکم دیا کہ میں ابن عباس سے ان دو آیتوں ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم،والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق کے متعلق پوچھوں، اور میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا۔ اور دوسری آیت کے بارے میں انہوں نے کہا : یہ اہل مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفرقان ٤ (٤٧٦٢) ، صحیح مسلم/التفسیرح ١٨ (٣٠٢٣) ، سنن ابی داود/الفتن ٦ (٢٤٧٣) ، وراجع أیضا : صحیح البخاری/مناقب الأنصار ٢٩ (٣٨٥٥) ، تفسیر الفرقان ٣ (٤٧٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٢٤) ، ویأتي برقم (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4002
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک (مشرک) قوم کے لوگوں نے بہت زیادہ قتل کئے، کثرت سے زنا کیا اور خوب حرام اور ناجائز کام کئے۔ پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : محمد ! جو آپ کہتے ہیں اور جس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں یقیناً وہ ایک بہتر چیز ہے لیکن یہ بتائیے کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے کیا اس کا کفارہ بھی ہے ؟ ، تو اللہ تعالیٰ نے والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر سے لے کر فأولئك يبدل اللہ سيئاتهم حسنات تک آیت نازل فرمائی، آپ ﷺ نے فرمایا : یعنی اللہ ان کے شرک کو ایمان سے، ان کے زنا کو عفت و پاک دامنی سے بدل دے گا اور یہ آیت قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم نازل ہوئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٥٤٧) (صحیح) (سعید بن جبیر سے پہلے کے تمام رواة حافظے کے کمزور ہیں لیکن اگلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: میرے ان بندوں سے کہہ دیجئیے جن ہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، الآیۃ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4003
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین میں سے کے کچھ لوگوں نے محمد ﷺ کے پاس آ کر کہا : آپ جو کہتے اور جس کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بہتر چیز ہے لیکن یہ بتائیے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے کیا اس کا بھی کفارہ ہے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور یہ نازل ہوئی قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم اے میرے بندو جن ہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (الزمر : ٥٣) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة الزمر ١(٤٨١٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥٤(١٢٢) ، سنن ابی داود/الفتن ٦(٤٢٧٤ مختصرا) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4004
قتل گناہ شدید
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آئے گا، اس کی پیشانی اور اس کا سر اس (مقتول) کے ہاتھ میں ہوں گے اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا، یہاں تک کہ وہ اسے لے کر عرش کے قریب جائے گا ۔ راوی (عمرو) کہتے ہیں : لوگوں نے ابن عباس سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت : ومن يقتل مؤمنا متعمدا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تلاوت کی اور کہا : جب سے یہ نازل ہوئی منسوخ نہیں ہوئی پھر اس کے لیے توبہ کہاں ہے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/تفسیر سورة النساء (٣٠٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4005
قتل گناہ شدید
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں : ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها یہ پوری آیت آخر تک، سورة الفرقان والی آیت کے چھ ماہ بعد نازل ہوئی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : محمد بن عمرو نے اسے ابوالزناد سے نہیں سنا، (اس کی دلیل اگلی روایت ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الفتن ٦ (٤٢٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٠٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٠١٢، ٤٠١٣) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4006
قتل گناہ شدید
زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اس آیت : ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم کے بارے میں کہا : یہ آیت سورة الفرقان کی اس آیت : والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق کے آٹھ مہینہ بعد نازل ہوئی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ابوالزناد نے اپنے اور خارجہ کے درمیان میں مجالد بن عوف کو داخل کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح) اور لفظ ” ستة أشہر “ زیادہ صحیح ہے قال الشيخ الألباني : حسن صحيح ولفظ بستة أشهر أصح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4007
قتل گناہ شدید
زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ جب آیت : ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها نازل ہوئی تو ہمیں خوف ہوا۔ پھر سورة الفرقان کی یہ آیت : والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠١١ (منکر) (اس روایت میں بات کو الٹ دیا ہے، فرقان کی آیت نساء کی آیت سے پہلے نازل ہوئی، جیسا کہ پچھلی روایات میں مذکور ہے اور نکارت کی وجہ ” مجالد “ ہیں جن کے نام ہی میں اختلاف ہے : مجالد بن عوف بن مجالد “ ؟ اور بقول منذری : عبدالرحمن بن اسحاق متکلم فیہ راوی ہیں، امام احمد فرماتے ہیں : یہ ابو الزناد سے منکر روایات کیا کرتے تھے، اور لطف کی بات یہ ہے کہ سنن ابوداود میں اس سند سے بھی یہ روایت ایسی ہے جیسی رقم ٤٠١١ ہیں گزری ؟ ) قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4008
کبیرہ گناہوں سے متعلق احادیث
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، نماز قائم کرتا ہے، زکاۃ دیتا ہے اور کبائر سے دور اور بچتا ہے۔ اس کے لیے جنت ہے ، لوگوں نے آپ سے کبائر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک کرنا، کسی مسلمان جان کو (ناحق) قتل کرنا اور لڑائی کے دن میدان جنگ سے بھاگ جانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٤٥١) ، مسند احمد (٥/٤١٣، ٤١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کبیرہ : ہر اس گناہ کو کہتے ہیں جس کے مرتکب کو جہنم کے عذاب اور سخت وعید کی دھمکی دی گئی ہو، ان میں سے بعض کا تذکرہ احادیث میں آیا ہے، اور جن کا تذکرہ لفظ کبیرہ کے ساتھ نہیں آیا ہے مگر مذکورہ سزا کے ساتھ آیا ہے، وہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔ کبائر تین طرح کے ہیں :( ١ ) پہلی قسم اکبر الکبائر کی ہے جیسے اشراک باللہ اور نبی اکرم ﷺ جو کچھ لائے ہیں اس کی تکذیب کرنا۔ ( ٢ ) اور دوسرے درجے کے کبائر حقوق العباد کے تعلق سے ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرنا، دوسرے کا مال غصب کرنا اور ہتک عزت کرنا وغیرہ۔ ( ٣ ) تیسرے درجے کے کبائر کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، مثلاً زنا اور شراب نوشی وغیرہ۔ (جیسے حدیث رقم ٤٠١٧ ) میں کبائر کی تعداد سات آئی ہے، لیکن متعدد احادیث میں ان سات کے علاوہ کثیر تعداد میں دیگر گناہوں کو بھی کبیرہ کہا گیا ہے۔ اس لیے وہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ہے (دیکھئیے : فتح الباری کتاب الحدود، باب رمی المحصنات) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4009
کبیرہ گناہوں سے متعلق احادیث
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کبائر یہ ہیں : اللہ کے ساتھ غیر کو شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹ بولنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشہادات ١٠ (٢٦٥٣) ، الأدب ٦ (٥٩٧٧) ، الدیات ٢ (٦٨٧١) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٨ (٨٨) ، سنن الترمذی/البیوع ٣ (١٢٠٧) ، تفسیرالنساء (٣٠١٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٧) ، مسند احمد (٣/١٣١، ١٣٤) ویأتي عند المؤلف في القسامة ٤٨ (برقم : ٤٨٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4010
کبیرہ گناہوں سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمرو (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کبائر (بڑے گناہ) یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) خون کرنا اور جھوٹی قسم کھانا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ١٦ (٦٦٧٥) ، الدیات ٢(٦٨٧٠) ، المرتدین ١(٦٩٢٠) ، سنن الترمذی/تفسیرسورة النساء (٣٠٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٥) ، مسند احمد (٢/٢٠١) ، سنن الدارمی/الدیات ٩ (٢٤٠٥) ، ویأتي عند المؤلف في القسامة ٤٨ (٤٨٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4011
کبیرہ گناہوں سے متعلق احادیث
صحابی رسول عمیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کبائر کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ سات ہیں : ان میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ غیر کو شریک کرنا، ناحق کسی کو قتل کرنا اور دشمن سے مقابلے کے دن میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جانا ہے ، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الوصایا ١٠ (٢٨٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4012
بڑا گناہ کون سا ہے؟ اور اس حدیث مبارکہ میں یحیی اور عبدالرحمن کا سفیان پر اختلاف کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر (ہم پلہ) ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اس ڈر سے اپنے بچے کو مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة البقرة ٣ (٤٤٧٧) ، تفسیرالفرقان ٢ (٤٧٦١) ، الأدب ٢٠(٦٠٠١) ، الحدود ٢٠ (٦٨١١) ، الدیات ١ (٦٨٦١) ، التوحید ٤٠ (٧٥٢٠) ، ٤٦ (٧٥٣٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٧ (٨٦) ، سنن ابی داود/الطلاق ٥٠ (٢٣١٠) ، سنن الترمذی/تفسیرسورة الفرقان (٣١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٨٠) ، مسند احمد (١/٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4013
بڑا گناہ کون سا ہے؟ اور اس حدیث مبارکہ میں یحیی اور عبدالرحمن کا سفیان پر اختلاف کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اپنے بچے کو اس وجہ سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر الفرقان ٢ (٤٧٦١) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة الفرقان (٣١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٣١١) ، مسند احمد (١/٤٣٤، ٤٦٢، ٤٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4014
بڑا گناہ کون سا ہے؟ اور اس حدیث مبارکہ میں یحیی اور عبدالرحمن کا سفیان پر اختلاف کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : شرک یعنی یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر ٹھہراؤ، اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو، اور فقر و فاقہ کے ڈر سے کہ بچہ تمہارے ساتھ کھائے گا تم اپنے بچے کو قتل کر دو ، پھر عبداللہ بن مسعود (رض) نے یہ آیت پڑھی والذين لا يدعون مع اللہ إلها آخر اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اس حدیث کی سند میں غلطی ہے، اس سے پہلے والی سند صحیح ہے، یزید کی اس سند میں غلطی ہے (کہ واصل کی بجائے عاصم ہے) صحیح واصل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٢٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4015
کن باتوں کی وجہ سے مسلمان کا خون حلال ہوجاتا ہے؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ! کسی مسلمان کا خون جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں حلال نہیں، سوائے تین افراد کے : ایک وہ جو (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہو کر اسلام کو ترک کر دے، دوسرا شادی شدہ زانی، اور تیسرا جان کے بدلے جان ١ ؎۔ اعمش کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے اس جیسی حدیث مجھ سے اسود کے واسطے سے عائشہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الدیات ٦ (٦٨٧٨) ، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) ٦ (١٦٧٦) ، سنن ابی داود/الحدود ١ (٤٣٥٢) ، سنن الترمذی/الدیات ١٠ (١٤٠٢) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦٧) ، مسند احمد (١/٣٨٢، ٤٢٨، ٤٤٤، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/السیر ١١ (٢٤٩١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٧٢٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اگر کوئی دین اسلام سے مرتد ہوگیا، یا شادی شدہ ہو کر بھی زنا کرلیا، یا کسی کو ناحق قتل کیا ہے، تو اسے ان جرائم کی بنا پر اس کا خون حلال ہوگیا لیکن اس کے خون لینے کا کام اسلامی حکومت کا ہے نہ کہ سماج کا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4016
کن باتوں کی وجہ سے مسلمان کا خون حلال ہوجاتا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے اس شخص کے جس نے شادی کے بعد زنا کیا یا اسلام لانے کے بعد کفر کیا یا جان کے بدلے جان لینا ہو ۔ اسے زہیر نے موقوفاً روایت کیا ہے (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٤٢٢) ، مسند احمد (٦/٥٨، ١٨١، ٢٠٥، ٢١٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم ٤٠٢٣ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4017
کن باتوں کی وجہ سے مسلمان کا خون حلال ہوجاتا ہے؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : عمار ! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے تین صورت کے : جان کے بدلے جان، یا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو، اور پھر انہوں نے آگے (یہی) حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4018
کن باتوں کی وجہ سے مسلمان کا خون حلال ہوجاتا ہے؟
ابوامامہ بن سہل اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عثمان (رض) عنہ کے ساتھ تھے اور وہ (اپنے گھر میں) قید تھے۔ ہم جب کسی جگہ سے اندر گھستے تو بلاط ١ ؎ والوں کی گفتگو سنتے۔ ایک دن عثمان (رض) عنہ اندر گئے پھر باہر آئے اور بولے : یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا : آپ کے لیے تو اللہ کافی ہے۔ وہ بولے : آخر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنے کے درپہ ہیں ؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے : کسی نے اسلام لانے کے بعد کافر و مرتد ہوگیا ہو، یا شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو ، اللہ کی قسم ! نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام لانے کے بعد، اور جب سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہوئی میں نے یہ آرزو بھی نہیں کی کہ میرے لیے اس دین کے بجائے کوئی اور دین ہو، اور نہ میں نے ناحق کسی کو قتل کیا، تو آخر یہ مجھے کیوں کر قتل کریں گے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الدیات ٣ (٤٥٠٢) ، سنن الترمذی/الفتن ١ (٢١٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ١ (٢٥٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٨٢) ، مسند احمد (١/٦١-٦٢، ٦٥، ٧٠) ، سنن الدارمی/الحدود ٢ (٢٣٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلاط : مسجد نبوی اور بازار کے درمیان مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا۔ بلاط : دراصل ایسی خالی جگہ کو کہتے ہیں جس میں اینٹ بچھائی گئی ہو۔ اس جگہ اینٹ بچھائی گئی تھی، پھر اس مکان کا یہی نام پڑگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4019
جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوجائے اس کو قتل کرنا
عرفجہ بن شریح اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا، آپ نے فرمایا : میرے بعد فتنہ و فساد ہوگا، تو تم جسے دیکھو کہ وہ جماعت سے الگ ہوگیا ہے یا امت محمدیہ میں افتراق و اختلاف ڈالنا چاہتا ہے، تو خواہ وہ کوئی بھی ہو اسے قتل کر دو ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا اس کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٤ (١٨٥٢) ، سنن ابی داود/السنة ٣٠ (٤٧٦٢) ، مسند احمد (٤/٢٦١، ٣٤١، ٥/٢٣) ، ویأتي فیما یلي : ٤٠٢٦، ٤٠٢٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4020
جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوجائے اس کو قتل کرنا
عرفجہ بن شریح (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے بعد فتنہ و فساد ہوگا، (آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے پھر فرمایا) تو تم جسے دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کر رہا ہے جب کہ وہ متفق و متحد ہیں تو اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4021
جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوجائے اس کو قتل کرنا
عرفجہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : میرے بعد فتنہ و فساد ہوگا پس اگر امت محمدیہ میں کوئی انتشار و تفرقہ ڈالنا چاہے جب کہ وہ متفق و متحد ہوں تو اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4022
جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوجائے اس کو قتل کرنا
اسامہ بن شریک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص میری امت میں پھوٹ ڈالنے کو نکلے اس کی گردن اڑا دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٩) (صحیح) (اس کے راوی ” زید بن عطاء “ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایتوں سے یہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4023
اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے|"انما جزاء الذین یحاربون اللہ۔ الآیہ یعنی ان لوگوں کی سزا جو کہ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فساد برپا کریں وہ (سزا) یہ ہے کہ وہ لوگ قتل کیے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالیں جائیں یا وہ لوگ ملک بدر کردیئے جائیں اور یہ آیت کریمہ کن لوگوں سے متعلق نازل ہوئی ہے یہ ان کا بیان ہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، بیمار پڑگئے، انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی۔ آپ نے فرمایا : کیا تم ہمارے چرواہوں کے ساتھ اونٹوں میں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب پیو گے ؟ وہ بولے : کیوں نہیں، چناچہ وہ نکلے اور انہوں نے ان کا دودھ اور پیشاب پیا ٢ ؎، تو اچھے ہوگئے، اب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، آپ ﷺ نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ کئے، جنہوں نے انہیں گرفتار کرلیا، جب انہیں لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ اور قبیلہ عرینہ کے مجرمین کے پاؤں کاٹ دئیے، ان کی آنکھیں (گرم سلائی سے) پھوڑ دیں اور انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٦ (٢٣٣) ، الجہاد ١٥٢ (٣٠١٨) ، صحیح مسلم/القسامة ٢ (١٦٧١) ، سنن ابی داود/الحدود ٣ (٤٣٦٤) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٥ (٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥) ، مسند احمد (٣/١٦١، ١٨٦، ١٩٨) ، ویأتي فیما یلي : ٤٠٣٠- ٤٠٤٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس آیت کے سبب نزول کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا کہنا ہے کہ اس کا نزول قبیلہ عرنین کے مجرمین کے بارے میں ہوا ہے جب کہ مالک، شافعی، ابوثور اور اصحاب رأے کا کہنا ہے کہ اس کے نزول کا تعلق مسلمانوں میں سے ہر اس شخص سے ہے جو رہزنی اور زمین میں فساد برپا کرے، امام بخاری اور امام نسائی جمہور کے موافق ہیں۔ ٢ ؎: جمہور علماء محدثین کے نزدیک جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب پائخانہ پاک ہے، اور بوقت ضرورت ان کے پیشاب سے علاج جائز ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ان کو حکم دیا۔ ٣ ؎: ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کے ساتھ جس طرح کیا تھا اسی طرح آپ نے ان کے ساتھ قصاص کے طور پر کیا، یا یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے والے باغی تھے اس لیے ان کے ساتھ ایسا کیا، جمہور کے مطابق اگر اس طرح کے لوگ مسلمان ہوں تو جن ہوں نے قتل کیا ان کو قتل کیا جائے گا، اور جنہوں نے صرف مال لیا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے، اور جنہوں نے نہ قتل کیا اور نہ ہی مال لیا بلکہ صرف ہنگامہ مچایا تو ایسے لوگوں کو اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ قید کردیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4024
اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے|"انما جزاء الذین یحاربون اللہ۔ الآیہ یعنی ان لوگوں کی سزا جو کہ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فساد برپا کریں وہ (سزا) یہ ہے کہ وہ لوگ قتل کیے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالیں جائیں یا وہ لوگ ملک بدر کردیئے جائیں اور یہ آیت کریمہ کن لوگوں سے متعلق نازل ہوئی ہے یہ ان کا بیان ہے
انس (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ صدقے و زکاۃ کے اونٹوں میں جا کر ان کا پیشاب اور دودھ پیئیں، انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر چرواہے کو قتل کردیا اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم ﷺ نے ان کی تلاش میں چند افراد بھیجے، جب پکڑ کر وہ لائے گئے تو آپ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے، ان کی آنکھیں گرم سلائی سے پھوڑ دیں، اور ان کے زخموں کو داغا نہیں بلکہ یوں ہی چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ مرگئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں، الآیۃ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4025
اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے|"انما جزاء الذین یحاربون اللہ۔ الآیہ یعنی ان لوگوں کی سزا جو کہ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فساد برپا کریں وہ (سزا) یہ ہے کہ وہ لوگ قتل کیے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالیں جائیں یا وہ لوگ ملک بدر کردیئے جائیں اور یہ آیت کریمہ کن لوگوں سے متعلق نازل ہوئی ہے یہ ان کا بیان ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی آئے، پھر انہوں نے اسی طرح لم يحسمهم ان کے زخموں کو داغا نہیں تک بیان کیا اور فقتلوا راعيها کے بجائے قتلوا الراعي کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4026
اس آیت کریمہ کی تفسیر وہ آیت ہے|"انما جزاء الذین یحاربون اللہ۔ الآیہ یعنی ان لوگوں کی سزا جو کہ اللہ اور رسول سے لڑتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں فساد برپا کریں وہ (سزا) یہ ہے کہ وہ لوگ قتل کیے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالیں جائیں یا وہ لوگ ملک بدر کردیئے جائیں اور یہ آیت کریمہ کن لوگوں سے متعلق نازل ہوئی ہے یہ ان کا بیان ہے
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند آدمی آئے، انہیں جب مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی تو آپ ﷺ نے اونٹوں کا یا دودھ والی اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا، تو انہوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ ہانک لے گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کی تلاش میں کچھ لوگوں کو روانہ کیا اور ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیے، اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4027
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں اپنے اونٹوں کے پاس بھیجا، انہوں نے ان کا دودھ اور پیشاب پیا، جب وہ اچھے ہوگئے تو اسلام سے پھرگئے اور رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ کئے، تو انہیں گرفتار کرلیا گیا، پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں اور انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٠٥) (صحیح) (مگر ” وصلبھم “ کا جملہ صحیح نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: سولی پر چڑھانے کی بات کسی اور روایت میں نہیں ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ آپ نے انہیں یونہی دھوپ میں ڈال دیا اسی حالت میں وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله وصلبهم صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4028
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عرینہ کے کچھ لوگ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر تم سب ہمارے اونٹوں میں جا کر رہتے، ان کا دودھ اور پیشاب پیتے (تو اچھا ہوتا) چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر جب وہ اچھے ہوگئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو جا کر قتل کردیا اور کافر و مرتد ہوگئے اور نبی اکرم ﷺ کے اونٹوں کو ہانک لے گئے، آپ نے ان کی تلاش میں کچھ لوگ روانہ کئے، چناچہ وہ سب گرفتار کر کے لائے گئے تو آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے اور ان کی آنکھوں کو گرم سلائی سے پھوڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٩٧) ، مسند احمد (٣/٢٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4029
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر تم جاتے اور ہمارے اونٹوں کا دودھ پیتے (تو اچھا ہوتا) (قتادہ نے البانہا (دودھ) کے بجائے ابو الہا (پیشاب) کہا ہے) چناچہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کے پاس گئے جب اچھے ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد کافر (مرتد) ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کے مسلمان چرواہے کو قتل کردیا اور آپ کے اونٹ ہانک لے گئے اور جنگجو (لڑنے والے) بن کر گئے۔ آپ نے ان کی تلاش میں کچھ لوگوں کو بھیجا تو وہ گرفتار کرلیے گئے، آپ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیے اور ان کی آنکھوں کو گرم سلائی سے پھوڑ دیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4030
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ اسلام لائے تو انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : اگر تم لوگ ہمارے اونٹوں میں جاتے اور ان کا دودھ پیتے (تو اچھا ہوتا) ، (حمید کہتے ہیں : قتادہ نے انس سے البانہا (دودھ کے) بجائے ابو الہا (پیشاب) روایت کی ہے۔ ) انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر جب وہ ٹھیک ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد کافر و مرتد ہوگئے، رسول اللہ ﷺ کے مسلمان چرواہے کو قتل کردیا، اور آپ کے اونٹوں کو ہانک لے گئے اور جنگجو بن کر نکلے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے کچھ لوگ بھیجے، چناچہ وہ سب گرفتار کرلیے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے، ان کی آنکھیں گرم سلائی سے پھوڑ دیں، اور انہیں حرہ (مدینے کے پاس پتھریلی زمین) میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ سب مرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٥٧) ، مسند احمد (٣/١٠٧، ٢٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4031
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بولے : اللہ کے رسول ! ہم مویشی والے لوگ ہیں ناکہ کھیت والے۔ انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے کچھ اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور ان سے وہاں جانے کے لیے کہا تاکہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پی کر صحت یاب ہو سکیں، جب وہ ٹھیک ہوگئے (وہ حرہ کے ایک گوشے میں تھے۔ ) تو اسلام سے پھر کر کافر (و مرتد) ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کے مسلمان چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، آپ نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیجا، تو وہ گرفتار کر کے لائے گئے، آپ نے ان کی آنکھیں گرم سلائی سے پھوڑ دیں، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے اور پھر انہیں حرہ میں ان کے حال پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ سب مرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦٨ (١٥٠١ مختصراً ) (تحفة الأشراف : ١٢٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4032
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
اس سند سے بھی عبدالاعلی سے اسی طرح روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٢٩(صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4033
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک سے حمید راوی پر دوسرے راویوں کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ حرہ میں ٹھہرے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ صدقے کے اونٹوں میں جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیئیں، تو انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا، اسلام سے پھرگئے اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے، آنکھیں پھوڑ دیں اور انہیں حرہ میں ڈال دیا۔ انس (رض) کہتے ہیں : میں نے ان میں سے ایک کو دیکھا کہ وہ پیاس کی وجہ سے زمین سے اپنے منہ کو رگڑ رہا تھا، (یعنی زمین کو اپنے منہ سے چاٹ رہا تھا) یہاں تک کہ سب مرگئے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٣ (٤٣٦٧) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٥ (٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4034
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ پیلے پڑگئے، ان کے پیٹ پھول گئے تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کا دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ جب وہ ٹھیک ہوگئے تو انہوں نے ان چرواہوں کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم ﷺ نے ان کی تلاش میں کچھ لوگ بھیجے، انہیں لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر ان کو پھوڑ دیا۔ امیر المؤمنین عبدالملک نے انس (رض) سے کہا (وہ ان سے یہ حدیث بیان کر رہے تھے) : کفر (ردت) کی وجہ سے یا جرم کی وجہ سے (ان کے ساتھ ایسا کیا گیا) ؟ انہوں نے کہا : کفر (ردت) کی وجہ سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٧ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4035
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
تابعی سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ کچھ عرب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، پھر وہ بیمار پڑگئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دودھ والی اونٹنیوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کا دودھ پیئں۔ وہ انہیں اونٹنیوں میں رہے، پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے غلام چرواہے پر نیت خراب کی اور اسے قتل کردیا اور اونٹنیاں ہانک لے گئے، لوگوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی : اللہم عطش من عطش آل محمد الليلة اے اللہ ! اسے پیاسا رکھ جس نے محمد کے گھر والوں کو اس رات پیاسا رکھا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کی تلاش میں کچھ لوگ بھیجے۔ جب وہ گرفتار کرلیے گئے تو آپ نے ان کے ہاتھ کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں گرم سلائی سے پھوڑ دیں۔ راویوں میں سے بعض دوسرے سے کچھ زیادہ بیان کرتے ہیں، سوائے معاویہ کے، انہوں نے اس حدیث میں کہا ہے کہ وہ ہانک کر مشرکوں کی زمین کی طرف لے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٧٥٢) (ضعیف الإسناد) (یہ روایت مرسل ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4036
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیوں کو لوٹا تو آپ نے انہیں گرفتار کیا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧١٧٩) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4037
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں لوٹ لیں، انہیں نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے، اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الحدود ٢٠ (٢٥٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٧٠٣٢) ، ویأتي عند المؤلف : ٤٠٤٤، ٤٠٤٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4038
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
عروہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹ لوٹ لیے، تو آپ ﷺ ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٤٣ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، اس لیے کہ عروہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4039
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں لوٹ لیں، انہیں ہانک لے گئے اور آپ کے غلام کو قتل کردیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ کیے، وہ سب گرفتار کرلیے گئے، تو آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٤٣ (صحیح) (یہ روایت بھی مرسل ہے، اس لیے کہ عروہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4040
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
عبداللہ بن عمر (رض) رسول اللہ ﷺ سے (اسی طرح کا واقعہ) نقل کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ انہیں کے سلسلے میں آیت محاربہ نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٣ (٤٣٦٩، ٤٣٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٧٥) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4041
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
ابوالزناد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ان کے ہاتھ کاٹے جن ہوں نے آپ کی اونٹنیاں چرائی تھیں اور آگ سے ان کی آنکھوں کو پھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں آپ کی سرزنش کی ١ ؎، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ مکمل آیت اتاری إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں … الخ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف الإسناد) (یہ روایت معضل ہے، سند سے ابو الزناد کے بعد دو آدمی ساقط ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ اثر ضعیف ہے اور اس میں یہ بات کہ ابوالزناد نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی اکرم ﷺ کے متعلق عتاب کی جو بات کہی ہے غیر مناسب ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک اپنایا جو انہوں نے آپ ﷺ کے چروا ہوں کے ساتھ اپنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلوک پر صاد کیا، صرف آنکھیں پھوڑنے کی ممانعت کردی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4042
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کی آنکھیں پھوڑ دیں کیونکہ ان لوگوں نے چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود القسامة ٢ (١٦٧١) ، سنن الترمذی/الطہارة ٥٥ (٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4043
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کو اس کے زیور کی لالچ میں قتل کر کے، اسے کنوئیں میں پھینک دیا اور اوپر سے اس کا سر پتھروں سے کچل دیا، تو نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ اسے پتھروں سے اس طرح مارا جائے کہ وہ مرجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحدود ٣ (١٦٧٢) (القسامة ٣) سنن ابی داود/الدیات ١٠ (٤٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوصایا ٥ (٢٧٤٦) ، الطلاق ٢٤(تعلیقاً ) ، الدیات ٤ (٦٨٧٦) ، ٥ (٦٨٧٧) ، ١٢(٦٨٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الدیات ٢٤ (٢٦٦٥) ، مسند احمد ٣/١٦٣) ، سنن الدارمی/الدیات ٤ (٢٤٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4044
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک انصاری لڑکی کو اس کے ایک زیور کی لالچ میں قتل کردیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں پھینک دیا اور اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ تو نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ اسے پتھروں سے اس طرح مارا جائے کہ وہ ہلاک ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4045
زیر نظر حدیث شریف میں حضرت یحیی بن سعید پر راوی طلحہ اور مصرف کے اختلاف کا تذکرہ
عبداللہ بن عباس (رض) آیت کریمہ إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں … کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین کے سلسلے میں نازل ہوئی، پس ان میں سے جو شخص توبہ کرنے سے پہلے اسے پکڑا جائے تو اس کو سزا دینے کا کوئی جواز نہیں، یہ آیت مسلمان شخص کے لیے نہیں ہے، پس جو (مسلمان) زمین میں فساد پھیلائے اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے، پھر پکڑے جانے سے پہلے کفار سے مل جائے تو اس کی جو بھی حد ہوگی، اس کے نفاذ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہوگی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٣ (٤٣٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥١) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: ابن عباس (رض) کا مطلب یہ ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی زمین میں فساد پھیلائے اور پکڑے جانے سے پہلے توبہ کرلے، تو اب اس پر زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے جرم کی حد نافذ نہیں کی جائے گی، لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی زمین میں فساد پھیلائے اور پکڑے جانے سے پہلے توبہ کرلے، تو بھی اس پر حد نافذ کی جائے گی اس کو معاف نہیں کیا جائے گا، یہ رائے صرف ابن عباس (رض) کی ہے، علی رضی اللہ عنہ، نیز دیگر لوگوں نے توبہ کرلینے پر حد نہیں نافذ کی تھی (ملاحظہ ہو : عون المعبود) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4046
مثلہ کرنے کی ممانعت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مردہ کے ہاتھ پاؤں اور کان ناک کاٹ دینے کو مثلہ کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4047
پھانسی دینا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں : ایک تو شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا، دوسرے وہ شخص جس نے کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اسے قتل کیا جائے گا، تیسرے وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہوئے اسلام سے مرتد ہوجائے، تو اسے سولی دی جائے گی، یا جلا وطن کردیا جائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١ (٤٣٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٢٦) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٧٤٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: من الإسلام کا ٹکڑا سنن أبی داود میں نہیں ہے، اسی بنا پر امام خطابی نے اس حدیث کا مصداق مسلم محاربین (جنگجوؤں) اور باغیوں کو قرار دیا ہے، جن کی سزاؤں کا بیان حدیث نمبر ٤٠٢٩ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے، تینوں سزاؤں میں (امام کو اختیار دینے کی بات کافر محاربین کے بارے میں ہے) ٢ ؎: گویا محاربین اسلام کے سلسلہ میں اختیار ہے کہ امام انہیں قتل کرے، سولی دے یا جلا وطن کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4048
مسلمان کا غلام اگر کفار کے علاقہ میں بھاگ جائے اور جریر کی حدیث میں شعبی پر اختلاف
جریر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ اپنے مالک کے پاس لوٹ آئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣١ (٦٨) ، سنن ابی داود/الحدود ١ (٤٣٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٧، مسند احمد (٤/٣٦٤، ٣٦٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٠٥٥-٤٠٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، یعنی اس کا اجر و ثواب نہیں ملے گا، البتہ دینا میں اس پر سے نماز کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4049
مسلمان کا غلام اگر کفار کے علاقہ میں بھاگ جائے اور جریر کی حدیث میں شعبی پر اختلاف
جریر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب غلام بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی، اور اگر وہ مرگیا تو وہ کفر کی حالت میں مرا ۔ اور جریر (رض) کا ایک غلام بھاگ گیا تو آپ نے اسے پکڑا اور اس کی گردن اڑا دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (شاذ) (اس کے راوی ” جریر بن عبدالحمید “ سے وہم ہوجایا کرتا تھا، اور یہاں وہم ہوگیا ہے، دیکھئے پچھلی اور اگلی روایات ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4050
مسلمان کا غلام اگر کفار کے علاقہ میں بھاگ جائے اور جریر کی حدیث میں شعبی پر اختلاف
جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ جب غلام مشرکوں کے ملک میں بھاگ جائے تو پھر اس کا ذمہ نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی امان کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4051
راوی ابواسحق سے اختلاف سے متعلق
جریر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب غلام مشرکوں کی زمین میں بھاگ کر چلا جائے تو اس کا خون حلال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٥٤) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابواسحاق “ مختلط اور مدلس ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4052
راوی ابواسحق سے اختلاف سے متعلق
جریر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب غلام مشرکوں کی زمین میں بھاگ کر چلا جائے تو اس کا خون حلال ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4053
راوی ابواسحق سے اختلاف سے متعلق
جریر (رض) کہتے ہیں کہ جو کوئی غلام بھاگ کر مشرکوں کی سر زمین میں چلا جائے تو اس کا خون حلال ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٥٤ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4054
راوی ابواسحق سے اختلاف سے متعلق
جریر (رض) کہتے ہیں کہ جو کوئی غلام بھاگ کر مشرکوں کی زمین میں چلا جائے تو اس کا خون حلال ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٥٤ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4055
راوی ابواسحق سے اختلاف سے متعلق
جریر (رض) کہتے ہیں کہ جو کوئی غلام اپنے مالکوں سے بھاگا اور دشمن سے جا کر مل گیا تو اس نے خود کو حلال کردیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٨٢١) ، مسند احمد (١/٦٣) (ضعیف ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کا خون حلال ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4056
مرتد سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ عثمان (رض) عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں : ایک وہ شخص جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا تو اسے رجم کیا جائے گا، یا جس نے جان بوجھ کر قتل کیا تو اس کو اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا، یا وہ شخص جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا، تو اسے بھی قتل کیا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٨٢١) ، مسند احمد (١/٦٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مرتد کے سلسلہ میں اجماع ہے کہ اسے قتل کرنا واجب ہے، اس سلسلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4057
مرتد سے متعلق احادیث
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں تین صورتوں کے سوائے : یہ کہ وہ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے، یا وہ کسی انسان کو قتل کرے تو اسے قتل کیا جائے یا وہ اسلام لانے کے بعد کافر (مرتد) ہوجائے تو اسے قتل کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٧٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4058
مرتد سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنے دین و مذہب کو بدلا اسے قتل کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٤٩(٣٠١٧) ، المرتدین ٢ (٦٩٢٢) ، سنن ابی داود/الحدود ١ (٤٣٥١) ، سنن الترمذی/الحدود ٢٥ (١٤٥٨) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ٢ (٢٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٧) ، مسند احمد (١/٢١٩، ٢٨٢، ٢١٩) ، ویأتي فیمایلي : ٤٠٦٥- ٤٠٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دین سے مراد دین اسلام ہے، لہٰذا اگر کوئی کفر سے اسلام میں داخل ہوا یا کسی دوسری ملت سے کسی اور ملت میں داخل ہوا تو اس کے سلسلہ میں یہ حکم نہیں ہے، واضح رہے کہ قتل کا حکم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4059
مرتد سے متعلق احادیث
عکرمہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ اسلام سے پھرگئے ١ ؎ تو انہیں علی (رض) نے آگ میں جلا دیا۔ ابن عباس (رض) نے کہا : اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : تم کسی کو اللہ کا عذاب نہ دو ، اگر میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جو اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ عبداللہ بن سبا کے متبعین و پیروکاروں میں سے تھے، انہوں نے فتنہ پھیلانے اور امت کو گمراہ کرنے کے لیے اسلام کا اظہار کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4060
مرتد سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنا دین بدلا اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4061
مرتد سے متعلق احادیث
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنا دین بدلا اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٦٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4062
مرتد سے متعلق احادیث
حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنا دین بدلا اسے قتل کر دو ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ عباد کی حدیث کی بہ نسبت صواب کے زیادہ قریب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (سند میں حسن بصری نے ارسال کیا ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی قتادہ کے طریق سے اس روایت کا (بجائے ابن عباس (رض) کے حسن بصری کی روایت سے) مرسل ہونا ہی صحیح ہے، ورنہ قتادہ کے سوا دوسروں کے طریق سے یہ روایت مرفوع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4063
مرتد سے متعلق احادیث
انس (رض) سے روایت ہے کہ ابن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنا دین بدل لیا اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٣٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4064
مرتد سے متعلق احادیث
انس (رض) سے روایت ہے کہ علی (رض) کے پاس کچھ جاٹ لائے گئے جو بت پوجتے تھے تو آپ نے انہیں جلا دیا ١ ؎ ابن عباس (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے تو بس اتنا کہا تھا جس نے اپنا دین بدل لیا، اسے قتل کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: علی (رض) کا یہ فعل ان کی اپنی رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر تھا، یہی وجہ ہے کہ جب انہیں ابن عباس (رض) سے مروی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے اس سے رجوع کرلیا۔ (واللہ اعلم ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4065
مرتد سے متعلق احادیث
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن بھیجا، پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے معاذ بن جبل (رض) کو بھیجا، جب وہ (معاذ) یمن آئے تو کہا : لوگو ! میں تمہارے پاس رسول اللہ ﷺ کا قاصد ہوں، ابوموسیٰ اشعری (رض) نے ان کے لیے گاؤ تکیہ رکھ دیا تاکہ وہ اس پر (ٹیک لگا کر) بیٹھیں، پھر ایک شخص ان کے پاس لایا گیا جو یہودی تھا، وہ اسلام قبول کرلینے کے بعد کافر ہوگیا تھا، تو معاذ (رض) نے کہا : میں نہیں بیٹھوں گا جب تک اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے اسے قتل نہ کردیا جائے۔ (ایسا) تین بار (کہا) ، پھر جب اسے قتل کردیا گیا تو وہ بیٹھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٠٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4066
مرتد سے متعلق احادیث
سعد (رض) کہتے ہیں کہ جب فتح مکہ کا دن آیا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مرد اور دو عورتوں کے، اور فرمایا : انہیں قتل کر دو چاہے تم انہیں کعبہ کے پردے سے چمٹا ہوا پاؤ، یعنی عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ١ ؎۔ عبداللہ بن خطل اس وقت پکڑا گیا جب وہ کعبے کے پردے سے چمٹا ہوا تھا۔ سعید بن حریث اور عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہما) اس کی طرف بڑھے، سعید عمار پر سبقت لے گئے، یہ زیادہ جوان تھے، چناچہ انہوں نے اسے قتل کردیا، مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں پایا تو اسے قتل کردیا۔ عکرمہ (بھاگ کر) سمندر میں (کشتی پر) سوار ہوگئے، تو اسے آندھی نے گھیر لیا، کشتی کے لوگوں نے کہا : سب لوگ خالص اللہ کو پکارو اس لیے کہ تمہارے یہ معبود تمہیں یہاں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ عکرمہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر سمندر سے مجھے سوائے توحید خالص کے کوئی چیز نہیں بچا سکتی تو خشکی میں بھی اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ اے اللہ ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر تو مجھے میری اس مصیبت سے بچا لے گا جس میں میں پھنسا ہوا ہوں تو میں محمد ﷺ کے پاس جاؤں گا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور میں ان کو مہربان اور بخشنے والا پاؤں گا، چناچہ وہ آئے اور اسلام قبول کرلیا۔ رہا عبداللہ بن ابی سرح، تو وہ عثمان بن عفان (رض) کے پاس چھپ گیا، جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا۔ تو عثمان ان کو لے کر آئے اور اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لا کھڑا کردیا اور بولے : اللہ کے رسول ! عبداللہ سے بیعت لے لیجئے، آپ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی طرف تین بار دیکھا، ہر مرتبہ آپ انکار کر رہے تھے، لیکن تین مرتبہ کے بعد آپ نے اس سے بیعت لے لی، پھر اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : کیا تم میں کوئی ایک شخص بھی سمجھ دار نہ تھا جو اس کی طرف اٹھ کھڑا ہوتا جب مجھے اس کی بیعت سے اپنا ہاتھ کھینچتے دیکھا کہ اسے قتل کر دے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمیں کیا معلوم کہ آپ کے دل میں کیا ہے ؟ آپ نے اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ کیوں نہیں کردیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی نبی کے لیے یہ مناسب اور لائق نہیں کہ وہ کنکھیوں سے خفیہ اشارہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ١٢٧ (٢٦٨٣ مختصراً ) ، الحدود ١(٤٣٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عکرمہ بن ابی جہل اپنے ایام شرک میں نبی کریم ﷺ کو پنے باپ کے ساتھ مل کر بہت تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے، ابوجہل بدر کے دن مارا گیا، اور عکرمہ کو فتح مکہ کے دن قتل کردینے کا حکم ہوا، اور عبداللہ بن خطل اسلام لا کر مرتد ہوگیا تھا، نیز دو لونڈیاں رکھتا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی ہجو (مذمت) میں گایا کرتی تھیں، اور مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح دونوں مرتد ہوگئے تھے۔ ٢ ؎: خائن ۃ الأعین دل میں جو بات ہو زبان سے نہ کہہ کر کے آنکھوں سے اشارہ کیا جائے، یہ بات ایک نبی کی شان کے خلاف ہے۔ اس لیے آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4067
مرتد کی توبہ اور اس کے دوبارہ اسلام قبول کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص اسلام لایا پھر وہ مرتد ہوگیا اور مشرکین سے جا ملا۔ اس کے بعد شرمندہ ہوا تو اپنے قبیلہ کو کہلا بھیجا کہ میرے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھو : کیا میرے لیے توبہ ہے ؟ اس کے قبیلہ کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بولے : فلاں شخص (اپنے کئے پر) شرمندہ ہے اور اس نے ہم سے کہا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں : کیا اس کی توبہ ہوسکتی ہے ؟ اس وقت یہ آیت اتری : كيف يهدي اللہ قوما کفروا بعد إيمانهم سے غفور رحيم تک اللہ اس قوم کو کیوں کر ہدایت دے گا جو ایمان لانے اور نبی اکرم ﷺ کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہوئی، اللہ تعالیٰ ایسے بےانصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا، ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے تمام فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی، مگر وہ لوگ جن ہوں نے اس سے توبہ کرلی اور نیک ہوگئے، پس بیشک اللہ غفور رحیم ہے (آل عمران : ٨٦-٨٩) تو آپ نے اسے بلا بھیجا اور وہ اسلام لے آیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨٤) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4068
مرتد کی توبہ اور اس کے دوبارہ اسلام قبول کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے سورة النحل کی اس آیت : من کفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے (النحل : ١٠٦) کے بارے میں کہا : یہ منسوخ ہوگئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی : ثم إن ربک للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربک من بعدها لغفور رحيم پھر جو لوگ فتنے میں پڑجانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کیا اور صبر کیا تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے (النحل : ١١٠) اور کہا : وہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھے جو (عثمان (رض) کے زمانے میں) مصر کے والی ہوئے، یہ رسول اللہ ﷺ کے منشی تھے، انہیں شیطان نے بہکایا تو وہ کفار سے مل گئے، آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ انہیں قتل کردیا جائے تو ان کے لیے عثمان بن عفان (رض) نے پناہ طلب کی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پناہ دے دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ١(٤٣٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٢٥٢) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: باب کی دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مرتد اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوگی، ان شاء اللہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4069
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) برا کہنے والے کی سزا
عثمان شحام کہتے ہیں کہ میں ایک اندھے آدمی کو لے کر عکرمہ کے پاس گیا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ مجھ سے عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک نابینا آدمی تھا، اس کی ایک ام ولد (لونڈی) تھی، اس سے اس کے دو بیٹے تھے، وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت برا بھلا کہتی تھی، وہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی، وہ اسے روکتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی (نابینا کا بیان ہے) ایک رات کی بات ہے میں نے نبی اکرم ﷺ کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اسے زور سے دبایا اور اسے مار ڈالا، وہ مرگئی، اس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا : میں قسم دیتا ہوں اس کو جس پر میرا حق ہے ! جس نے یہ کیا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو ، تو وہ نابینا گرتا پڑتا آیا اور بولا : اللہ کے رسول ! یہ میرا کام ہے، وہ میری ام ولد (لونڈی) تھی، وہ مجھ پر مہربان اور رفیق تھی، میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے ہیں، لیکن وہ آپ کو اکثر برا بھلا کہتی تھی اور آپ کو گالیاں دیتی تھی، میں اسے روکتا تھا تو وہ باز نہیں آتی تھی، میں اسے ڈانٹتا تھا تو وہ اثر نہ لیتی تھی، کل رات کی بات ہے میں نے آپ کا تذکرہ کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، میں نے خنجر لیا اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مرگئی، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سنو ! تم لوگ گواہ رہو اس کا خون رائیگاں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢ (٤٣٦١) ، (تحفة الأشراف : ٦١٥٥) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : اس کے خون کا قصاص یا خون بہا (دیت) نہیں ہے، معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کو گالی دینا، آپ پر طعن و تشنیع کرنا اور اس سے باز نہ آنے کی واجبی سزا قتل ہے اور آپ کو گالیاں دینے اور سب و شتم کرنے والا خواہ ذمی ہی کیوں نہ ہو قتل کیا جائے گا، اور یہ واضح رہے کہ یہ عمل صرف اسلامی حکومت اپنی حکومت ہی میں نافذ کرسکتی ہے کیونکہ اس کا تعلق حدود سے ہے جس کے لیے اسلامی حکومت اور حکمرانی کا ہونا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4070
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) برا کہنے والے کی سزا
ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر صدیق (رض) سے سخت کلامی کی تو میں نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کر دوں ؟ تو آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا : یہ مقام رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الحدود ٢ (٤٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٢١) ، مسند احمد (١/٩، ١٠) ، ویأتي فیما یلي : ٤٠٧٧- ٤٠٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صرف نبی اکرم ﷺ کو گالی دینے اور سب و شتم پر کسی کو قتل کیا جائے گا، آپ کے سوا کسی کا یہ مرتبہ و مقام نہیں کہ اس کو سب و شتم کرنے والے کو قتل کی سزا دی جائے، ہاں تعزیر کی جاسکتی ہے، جو معاملہ کی نوعیت اور قاضی (جج) کی رائے پر منحصر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4071
ان حادیث میں حضرت اعمش پر اختلاف
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) ایک آدمی پر غصہ ہوئے، تو میں نے کہا : اے خلیفہ رسول ! یہ کون ہے ؟ کہا : کیوں ؟ میں نے کہا : تاکہ اگر آپ کا حکم ہو تو میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ انہوں نے کہا : کیا تم ایسا کر گزرو گے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، ابوبرزہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! میری اس بات کی سنگینی نے جو میں نے کہی ان کا غصہ ٹھنڈا کردیا، پھر وہ بولے : یہ مقام محمد ﷺ کے بعد کسی کا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4072
ان حادیث میں حضرت اعمش پر اختلاف
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ میں ابوبکر (رض) کے پاس سے گزرا، وہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی پر غصہ ہو رہے تھے، میں نے کہا : اے رسول اللہ کے خلیفہ ! یہ کون ہے جس پر آپ غصہ ہو رہے ہیں ؟ کہا : آخر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو ؟ میں نے کہا : تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ ابوبرزہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! میری اس بات کی سنگینی نے ان کا غصہ ٹھنڈا کردیا، پھر بولے : محمد ﷺ کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4073
ان حادیث میں حضرت اعمش پر اختلاف
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) ایک شخص پر غصہ ہوئے، میں نے کہا : اگر آپ حکم دیں تو میں کچھ کروں، انہوں نے کہا : سنو، اللہ کی قسم ! محمد ﷺ کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4074
ان حادیث میں حضرت اعمش پر اختلاف
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) ایک آدمی پر سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ ان کا رنگ بدل گیا، میں نے کہا : اے رسول اللہ کے خلیفہ ! اللہ کی قسم ! اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں، اچانک دیکھا گویا آپ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو، چناچہ اس شخص پر آپ کا غصہ ختم ہوگیا اور کہا : ابوبرزہ ! تمہاری ماں تم پر روئے، یہ مقام تو رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا ہے ہی نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ (ابونضرۃ) غلط ہے صحیح ابونصر ہے، ان کا نام حمید بن ہلال ہے۔ شعبہ نے مخالفت کرتے ہوئے اس (ابونضرۃ) کے برعکس (ابونصر) کہا ہے۔ (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٧٦ (صحیح) (نمبر ٤٠٨٢ میں آنے والی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ اس میں انقطاع ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4075
ان حادیث میں حضرت اعمش پر اختلاف
ابوبرزہ (رض) کہتے ہیں کہ میں ابوبکر (رض) کے پاس آیا، انہوں نے ایک شخص کو کچھ سخت سست کہا تو اس نے جواب میں ویسا ہی کہا، میں نے کہا : کیا اس کی گردن نہ اڑا دوں ؟ آپ نے مجھے جھڑکا اور کہا : رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کا یہ مقام نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ابونصر کا نام حمید بن ہلال ہے اور اسے ان سے یونس بن عبید نے مسنداً روایت کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٤٠٧٦ (صحیح) (اس سند میں انقطاع ہے، لیکن اگلی سند متصل ہے ) وضاحت : ١ ؎: عمرو بن مرہ کی پچھلی دونوں سن دوں میں حمید بن ہلال اور ابوبرزہ (رض) کے درمیان انقطاع ہے، اور یونس بن عبید کی یہ روایت متصل ہے کیونکہ اس میں حمید اور ابوبرزہ کے درمیان عبداللہ بن مطرف کا واسطہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4076
ان حادیث میں حضرت اعمش پر اختلاف
ابوبرزہ اسلمی (رض) کہتے ہیں کہ ہم ابوبکر صدیق (رض) کے پاس تھے، آپ ایک مسلمان آدمی پر غصہ ہوئے اور آپ کا غصہ سخت ہوگیا، جب میں نے دیکھا تو عرض کیا کہ اے خلیفہ رسول ! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں نے یہ ساری گفتگو بدل کر دوسری گفتگو شروع کردی، پھر جب ہم جدا ہوئے تو مجھے بلا بھیجا اور کہا : ابوبرزہ ! تم نے کیا کہا ؟ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ بھول چکا تھا، میں نے کہا : مجھے یاد دلائیے، تو آپ نے کہا : کیا تم نے جو کہا تھا وہ تمہیں یاد نہیں آ رہا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم ! تو آپ نے کہا : جب مجھے ایک شخص پر غصہ ہوتے دیکھا تو کہا تھا : اے خلیفہ رسول ! کیا میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ کیا یہ تمہیں یاد نہیں ہے ؟ کیا تم ایسا کر گزرتے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، اللہ کی قسم ! اگر آپ اب بھی حکم دیں تو میں کر گزروں، تو آپ نے کہا : اللہ کی قسم ! محمد ﷺ کے بعد اب کسی کا یہ مقام نہیں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : اس سے متعلق مروی احادیث میں یہ حدیث سب سے بہتر اور عمدہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٠٧٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سند کے لحاظ سے بہتر اور عمدہ ہونا ہے، کیونکہ پچھلی دونوں سن دوں میں انقطاع ہے جیسا کہ گزرا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4077
جادو سے متعلق
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے دوست سے کہا : ہمیں اس نبی کے پاس لے چلو، دوست نے اس سے کہا : تم یہ نہ کہو کہ وہ نبی ہے، اگر اس نے تمہاری بات سن لی تو اس کی چار چار آنکھیں ہوں گی (یعنی اسے بہت خوشی ہوگی) ، پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے نو واضح احکام کے بارے میں پوچھا (جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے) ١ ؎ آپ نے ان سے فرمایا : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری اور زنا نہ کرو اور اللہ نے جس نفس کو حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہ کرو، کسی بےقصور کو (سزا دلانے کی غرض سے) حاکم کے پاس نہ لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاک دامن عورتوں پر الزام تراشی نہ کرو، جنگ کے دن پیٹھ دکھا کر نہ بھاگو، اور اے یہود ! ایک حکم تمہارے لیے خاص ہے کہ تم ہفتے (سنیچر) کے دن میں غلو نہ کرو، یہ سن کر ان لوگوں نے آپ کے ہاتھ پاؤں چوم لیے ٢ ؎ اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں، آپ نے فرمایا : پھر کون سی چیز تمہیں میری پیروی کرنے سے روک رہی ہے ؟ انہوں نے کہا : داود (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ہمیشہ نبی ان کی اولاد میں سے ہو، ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم آپ کی پیروی کریں گے تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الاستئذان ٣٣ (٢٧٣٣) ، تفسیر سورة الإسراء (٣١٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦(٣٧٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) ، مسند احمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” عبداللہ بن سلمہ “ حافظہ کے ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: آیات بینات سے مراد یا تو معجزات ہوتے ہیں یا واضح احکام، یہاں احکام مراد ہیں، اور جو نو معجزات موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے وہ یہ تھے : عصاء، ید بیضاء، بحر طوفان، قحط، ٹڈیاں، کھٹمل، مینڈک، اور خون، اور جو نو واضح احکامات دیئے گئے تھے وہ اس حدیث میں مذکور ہیں اور یہ ساری شریعتوں میں دیئے گئے تھے۔ ٢ ؎: یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ہاتھ چومنے سے متعلق ساری روایات ضعیف ہیں، ان سے استدلال صحیح نہیں، اور تعظیم و تکریم کا یہ عمل اگر صحیح ہوتا تو آپ کی صحبت میں رہنے والے جلیل القدر صحابہ اس کو ضرور اپناتے، لیکن کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی وغیرہم (رض) نے تعظیم کا یہ طریقہ اپنایا ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4078
جادو گر سے متعلق حکم
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی گرہ لگائی پھر اس میں پھونک ماری تو اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا، اس نے شرک کیا ١ ؎ اور جس نے گلے میں کچھ لٹکایا، وہ اسی کے حوالے کردیا گیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٥) (ضعیف) (اس کے راوی ” عباد بن میسرہ “ ضعیف ہیں، لیکن اس کا جملہ ” من تعلق ۔۔۔ الخ دیگر روایات سے صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مشرکین کا عمل اپنایا، یہ شرک اس صورت میں ہے جب وہ اس میں حقیقی تأثیر کا اعتقاد رکھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد ترک کردینے کے سبب وہ شرک خفی کا مرتکب ہوگا۔ اور مؤلف کا استدلال اسی جملہ سے ہے، یعنی جادو کرنے والا شرک کا مرتکب ہوا تو مرتد ہوگیا۔ ٢ ؎: یعنی اللہ کی نصرت و تائید اسے حاصل نہیں ہوگی۔ تعویذ کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ اس کا ترک کرنا ہر حال میں افضل ہے، بالخصوص جب اس میں شرکیہ کلمات ہوں یا اس کے مفید یا مضر ہونے کا اعتقاد رکھے۔ تو اس سے دور رہنا واجب و فرض ہے، ایسے تعویذ جو قرآنی آیات پر مشتمل ہوں اس کی بابت علماء کا اختلاف ہے، کچھ لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں اور ممانعت کی حدیث کو اس صورت پر محمول کرتے ہیں جب اس میں شرکیہ کلمات ہوں، جب کہ دوسرے لوگ جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نیز دیگر صحابہ ارشاد نبوی من تعلق شیأ وکل إلیہ کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے، نیز آیات و احادیث کی بیحرمتی کے سبب حرام قرار دیتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4079
اہل کتاب کے جادو گروں سے متعلق حدیث رسول ﷺ
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ یہود کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو جادو کیا۔ اس کی وجہ سے آپ کچھ دنوں تک بیمار رہے، آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) نے آ کر کہا : ایک یہودی نے آپ کو جادو کیا ہے، اس نے آپ کے لیے فلاں کنوئیں میں گرہ باندھ کر ڈال رکھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو بھیجا، انہوں نے اسے نکالا، وہ گرہ آپ کے پاس لائی گئی تو آپ کھڑے ہوگئے، گویا آپ کسی رسی کے بندھن سے کھلے ہوں۔ پھر آپ نے اس کا ذکر اس یہودی سے نہیں کیا اور نہ ہی اس نے آپ کے چہرے پر کبھی اس کا اثر پایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : مسند احمد ٤/٣٦٧ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ نے اس یہودی سے اس کے اس عمل کے سبب تعرض اس لیے نہیں کیا کہ جادو کے سبب شرک و ارتداد کا حکم اس پر لاگو نہیں ہوا، کیونکہ اس کا دین دوسرا تھا، نبی اکرم ﷺ پر جادو کئے جانے کے بارے میں اس حدیث کے علاوہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیحین میں بھی حدیثیں مروی ہیں، اس لیے ان کا انکار حدیث کا انکار ہے، سلف صالحین انبیاء (علیہم السلام) پر جادو کے اثر کے قائل ہیں اور یہ کہ یہ چیز ان کے مرتبہ و مقام میں کسی نقص اور کمی کا باعث نہیں ہے، یہ ایک قسم کا مرض ہی ہے، اور مرض انبیاء پر طاری ہوا کرتا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4080
اگر کوئی شخص مال لوٹنے لگ جائے تو کیا کیا جائے؟
مخارق (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا : میرے پاس ایک شخص آتا ہے اور میرا مال چھینتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو تم اسے اللہ کی یاد دلاؤ ، اس نے کہا : اگر وہ اللہ کو یاد نہ کرے، آپ نے فرمایا : تو تم اس کے خلاف اپنے اردگرد کے مسلمانوں سے مدد طلب کرو ۔ اس نے کہا : اگر میرے اردگرد کوئی مسلمان نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا : حاکم سے مدد طلب کرو۔ اس نے کہا : اگر حاکم بھی مجھ سے دور ہو ؟ آپ نے فرمایا : اپنے مال کے لیے لڑو، یہاں تک کہ اگر تم مارے گئے تو آخرت کے شہداء میں سے ہو گے ١ ؎ یا اپنے مال کو بچا لو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٢٤٢) ، مسند احمد (٥/٢٩٤-٢٩٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : اجر و ثواب کے لحاظ سے ایسا آدمی شہداء میں سے ہوگا لیکن عام مردوں کی طرح اس کو غسل دیا جائے گا اور تجہیز و تدفین کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4081
اگر کوئی شخص مال لوٹنے لگ جائے تو کیا کیا جائے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا کیا حکم ہے اگر کوئی میرا مال ظلم سے لینے آئے ؟ آپ نے فرمایا : انہیں اللہ کی قسم دو ، اس نے کہا : اگر وہ نہ مانیں ؟ آپ نے فرمایا : انہیں اللہ کی قسم دو , اس نے کہا : اگر وہ نہ مانیں ؟ آپ نے فرمایا : انہیں اللہ کی قسم دو ، اس نے کہا : پھر بھی وہ نہ مانیں ؟ آپ نے فرمایا : پھر ان سے لڑو، اگر تم مارے گئے تو جنت میں ہو گے ١ ؎ اور اگر تم نے انہیں مار دیا تو وہ جہنم میں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٢٧٦) ، مسند احمد (٢/٣٣٩، ٣٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جنت میں جانے کے اسباب میں سے ایک سبب اپنے مال کی حفاظت میں مارا جانا بھی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی کے پاس نہ عقیدہ صحیح ہو نہ ہی صوم و صلاۃ اور دوسرے احکام شریعت کی پاکی پابندی اور ایسا آدمی اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے تو سیدھے جنت میں چلا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4082
اگر کوئی شخص مال لوٹنے لگ جائے تو کیا کیا جائے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر کوئی میرا مال چھینے تو آپ کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : انہیں اللہ کی قسم دو ، اس نے کہا : اگر وہ نہ مانیں ؟ آپ نے فرمایا : تم انہیں اللہ کی قسم دو ، اس نے کہا : اگر وہ نہ مانیں تو ؟ آپ نے فرمایا : تم انہیں اللہ کی قسم دو ، اس نے کہا : اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو ؟ آپ نے فرمایا : تو تم ان سے لڑو، اب اگر تم مارے گئے تو جنت میں ہو گے اور اگر تم نے مار دیا تو وہ جہنم میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4083
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو اپنا مال بچانے کے لیے لڑا اور مارا گیا تو وہ شہید ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٩٠٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4084
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
اگر کوئی اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے
جو شخص اہل و عیال کی حفاظت میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے
جو شخص اپنا دین بچاتے یعنی دین کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شخص شہید ہے
جو شخص ظلم دور کرنے کے واسطے جنگ کرے؟
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
مسلمان سے جنگ کرنا
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٥٢١) ، مسند احمد (١/٤٤٦) ویأتی فیما یلی : ٤١١١ (صحیح موقوف ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4105
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔ ابان نے ابواسحاق سبیعی سے پوچھا : ابواسحاق ! کیا آپ نے اسے ابوالاحوص کے علاوہ کسی سے نہیں سنا ؟ کہا : میں نے اسود اور ہبیرہ سے بھی سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4106
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٥٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4107
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ١٥(٢٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٦٠) ، مسند احمد (١/٤١٧، ٤٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4108
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے ۔ (اس حدیث کی روایت کے بارے میں شعبہ نے حماد سے کہا) آپ کس پر (وہم اور غلطی کی) تہمت (اور الزام) لگاتے ہیں ؟ منصور پر، زبید پر یا سلیمان اعمش پر ؟ انہوں نے کہا : نہیں، میں تو ابو وائل پر تہمت لگاتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٦ (٤٨) ، الأدب ٤٤ (٦٠٤٤) ، الفتن ٨ (٧٠٧٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٨ (٦٢) ، سنن الترمذی/البر ٥٢ (١٩٨٣) ، الإیمان ١٥ (٢٦٣٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٤٣، ٩٢٥١، ٩٢٩٩) ، مسند احمد (١/٣٨٥، ٤٣٣) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤١١٥-٤١١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مجھے ابو وائل شقیق بن سلمہ کے سلسلہ میں شک ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے یہ حدیث سنی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ ابو وائل شقیق بن سلمہ ثقہ راوی ہیں (واللہ اعلم) ، نیز دیکھئیے اگلی روایت۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4109
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے ۔ زبید کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے کہا : کیا آپ نے اسے عبداللہ بن مسعود سے سنا ہے ؟ کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4110
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4111
مسلمان سے جنگ کرنا
ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے کہا : مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4112
مسلمان سے جنگ کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مومن کو قتل کرنا کفر (کا کام) اور اسے گالی دینا فسق ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4113
جو شخص گمراہی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کرے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو (امیر کی) اطاعت سے نکل گیا اور (مسلمانوں کی) جماعت چھوڑ دی پھر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا، اور جو میرے امتی کے خلاف اٹھے اور اچھے اور خراب سبھوں کو مارتا جائے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور عہد والے سے بھی وفا نہ کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، اور جو عصبیت کے جھنڈے تلے لڑے اور لوگوں کو عصبیت کی طرف بلائے یا اس کا غصہ عصبیت کی وجہ سے ہو، پھر وہ مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٣ (١٨٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٧ (٣٩٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٩١٢٩٠٢) ، مسند احمد (٢/٢٩٦، ٣٠٦، ٤٨٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ عصبیت زمانۂ جاہلیت ہی کی خصوصیات میں سے ہے، مسلمان کو ہمیشہ حق کا متلاشی ہونا چاہیئے، اور حق ہی کے لیے اس کا تعاون ہونا چاہیئے، اندھی عصبیت میں ذات برادری، پارٹی، جماعت اور علاقہ والوں کی اندھی حمایت مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4114
جو شخص گمراہی کے جھنڈے کے نیچے جنگ کرے؟
جندب بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص عصبیت کے جھنڈے تلے لڑے اور وہ اپنی قوم کی عصبیت میں لڑے یا عصبیت میں غصہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : عمران القطان زیادہ قوی نہیں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٣ (١٨٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٦٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسلم کی سند میں عمران القطان نہیں ہیں، بلکہ ان کی جگہ معتمر بن سلیمان التیمی ہیں، قتادہ بھی نہیں ہیں، ان کی جگہ سلیمان التیمی ہیں، اس لیے حدیث صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4115
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر ہتھیار اٹھائے (اور دونوں جھگڑنے کے ارادے سے ہوں) تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہیں، جب ایک دوسرے کو قتل کرے گا تو دونوں ہی اس میں جا گریں گے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ١٠ (٧٠٨٣ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/الفتن ٤ (٢٨٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١١ (٣٩٦٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٧٢) ، مسند احمد (٥/٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے درپے تھے، ایک کامیاب ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4116
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہیں، پھر جب ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرے گا تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4117
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں اور ان میں ایک دوسرے کو قتل کر دے تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے، لیکن مقتول کا قصور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے اپنے (مقابل) ساتھی کو مارنا چاہا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الفتن ١١ (٣٩٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٤) ، مسند احمد (٤/٤٠١، ٤٠٣، ٤١٠، ٤١٨) ویأتي عند المؤلف فیما یلي وبرقم ٤١٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4118
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں، پھر ان میں سے ایک اپنے ساتھی کو قتل کر دے تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4119
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قتل کرنا چاہتا ہو، تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے ۔ آپ سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا معاملہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا حریص اور خواہشمند تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٦٦٦) ، مسند احمد ٥/٤٦، ٥١، یأتي فیما یلي : ٤١٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4120
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ بھڑ جائیں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4121
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے آخر مقتول کا کیا معاملہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٢ (٣١) ، الدیات ٢ (٦٨٧٥) ، الفتن ١٠ (٧٠٨٢) ، صحیح مسلم/الفتن ٤ (٢٨٨٨) ، سنن ابی داود/الفتن ٥ (٤٢٦٨، ٤٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٥٥) ، مسند احمد (٥/٤٣، ٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4122
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ بھڑ جائیں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4123
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے ، ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا معاملہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4124
مسلمان کا خون حرام ہونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میرے بعد کافر نہ ہوجانا ١ ؎ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٧٧ (٤٤٠٢) ، الأدب ٩٥ (٦٠٤٣) ، الحدود ٩ (٦٧٨٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٨) ، الفتن ٨ (٧٠٧٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٩ (٦٦، ٤٤٠٣) ، سنن ابی داود/السنة ١٦ (٤٦٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٥(٣٩٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٤١٨) مسند احمد (٢/٨٥، ٨٧، ١٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی کافروں کی طرح نہ ہوجانا کہ کفریہ اعمال کرنے لگو، جیسے ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4125
مسلمان کا خون حرام ہونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، آدمی کو نہ اس کے باپ کے گناہ کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے ۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : یہ غلط ہے (کہ یہ متصل ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٤٥٢) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤١٣٢-٤١٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : جس سند میں مسروق ہیں اس سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صواب ہے، مسروق کے واسطے سے جس نے اس روایت کو متصل کردیا ہے اس نے غلطی کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے یہ حدیث ہی مرسل ہے، دیگر محدثین کی سندیں متصل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4126
مسلمان کا خون حرام ہونا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارو، کوئی شخص اپنے باپ کے گناہ کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4127
مسلمان کا خون حرام ہونا
مسروق کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں اس طرح نہ پاؤں کہ تم میرے بعد کافر ہوجاؤ کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارو، آدمی سے نہ اس کے باپ کے جرم و گناہ کا مواخذہ ہوگا اور نہ ہی اس کے بھائی کے جرم و گناہ کا ۔ یہی صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٣١ (صحیح) (اس لیے کہ یہ روایت مرسل ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مسروق کی سند سے مرسل روایت ہی صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4128
مسلمان کا خون حرام ہونا
مسروق کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد کافر نہ ہوجانا ۔ (یہ حدیث) مرسل ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٣١(صحیح) (مسروق نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، اس لیے یہ روایت بھی مرسل ہے، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4129
مسلمان کا خون حرام ہونا
ابوبکرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٧٠٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٦٨ (١٩٤٧) مسند احمد (٥/٣٧، ٤٤، ٤٥، ٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4130
مسلمان کا خون حرام ہونا
جریر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں لوگوں کو خاموش کیا اور فرمایا : میرے بعد تم کافر نہ ہوجانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٤٣ (١٢١) ، المغازي ٧٧ (٤٤٠٥) ، الدیات ٢ (٦٨٦٩) ، الفتن ٨ (٧٠٨٠) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٩ (٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٥ (٣٩٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٦) ، مسند احمد (٤/٣٥٨، ٣٦٣، ٣٦٦) ، سنن الدارمی/المناسک ٧٦ ١٩٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4131
مسلمان کا خون حرام ہونا
جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں سے خاموش رہنے کو کہو ، پھر فرمایا : اس کے بعد جب میں تمہیں دیکھوں (قیامت کے روز) تو ایسا نہ پاؤں کہ تم کافر ہوجاؤ اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٢٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4132