39. بیعت سے متعلق احادیث مبارکہ
تابعداری کرنے سے بیعت
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے خوشحالی و تنگی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی رہیں حق پر قائم رہیں، اور (اس سلسلے میں) ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈریں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ٢ (٧٠٥٦) ، الأحکام ٤٣ (٧١٩٩، ٧٢٠٠) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٧٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤١ (٢٨٦٦) ، (تحفة الأشراف : ٥١١٨) ، موطا امام مالک/الجھاد ١ (٥) ، مسند احمد (٣/٤٤١، ٥/٣١٦، ٣١٨) ، ویأتي فیما یلي : ٤١٥٥-٤١٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس کتاب میں بیعت سے متعلق جو بھی احکام بیان ہوئے ہیں، یہ واضح رہے کہ ان کا تعلق صرف خلیفہ وقت یا مسلم حکمراں یا اس کے نائبین کے ذریعہ اس کے لیے بیعت لینے سے ہے۔ عہد نبوی سے لے کر زمانہ خیرالقرون بلکہ بہت بعد تک بیعت سے سیاسی بیعت ہی مراد لی جاتی رہی، بعد میں جب تصوف کا بدعی چلن ہوا تو شیخ طریقت یا پیر و مرشد قسم کے لوگ بیعت کے صحیح معنی و مراد کو اپنے بدعی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے، یہ شرعی معنی کی تحریف ہے، نیز اسلامی فرقوں اور جماعتوں کے پیشواؤں نے بھی بیعت کے صحیح معنی کا غلط استعمال کیا ہے، فالحذر، الحذر۔ ٢ ؎: یعنی : ہم آپ کی اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی اگر ان کی بات بھلائی کی ہو اطاعت آسانی و پریشانی ہر حال میں کریں گے، خواہ وہ بات ہمارے موافق ہو یا مخالف، اور اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جو آدمی بھی شرعی قانونی طور سے ولی الامر بنادیا جائے ہم اس سے اس کے عہدہ کو چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے، وہ ولی الامر ہمارے فائدے کا معاملہ کرے یا اس کے کسی معاملہ میں ہمارا نقصان ہو، ہمارے غیروں کی ہم پر ترجیح ہو۔ اولیاء الأمور (اسلامی مملکت کے حکمرانوں) کے بارے میں سلف کا صحیح موقف اور منہج یہی ہے، اسی کی روشنی میں موجودہ اسلامی تنظیموں کو اپنے موقف ومنہج کا جائزہ لینا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4149
تابعداری کرنے سے بیعت
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوشی کی حالت میں سمع و طاعت پر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، پھر اسی طرح بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4150
اس پر بیعت کرنا کہ جو بھی ہمارا امیر مقرر ہوگا ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوشحالی، خوشی و غمی ہر حال میں رسول اللہ ﷺ سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کی اور اس بات پر کہ ہم اپنے حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑا نہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ ہم جہاں کہیں بھی رہیں حق کہیں گے یا حق پر قائم رہیں گے اور (اس بابت) ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4151
سچ کہنے پر بیعت کرنا
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے تنگی و خوشحالی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑ انہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں حق بات کہیں گے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4152
انصاف کی بات کہنے پر بیعت کرنے سے متعلق
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی ہر حال میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے، نیز اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں عدل و انصاف کی بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4153
کسی کی فضیلت پر صبر کرنے پر بیعت کرنا
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی حالت میں سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم حق پر قائم رہیں گے جہاں بھی ہو۔ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ سیار نے حیث ما کان کا لفظ ذکر نہیں کیا اور یحییٰ نے ذکر کیا۔ شعبہ کہتے ہیں : اگر میں اس میں کوئی لفظ زائد کروں تو وہ سیار سے مروی ہوگا یا یحییٰ سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4154
کسی کی فضیلت پر صبر کرنے پر بیعت کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم پر (امیر و حاکم کی) اطاعت لازم ہے۔ خوشی میں، غمی میں، تنگی میں، خوشحالی میں اور دوسروں کو تم پر ترجیح دئیے جانے کی حالت میں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٣٠) ، مسند احمد (٢/٣٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4155
اس بات پر بیعت کرنا کہ ہر ایک مسلمان کی بھلائی چاہیں گے
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٢ (٥٨) ، مواقیت الصلاة ٣ (٥٢٤) ، الزکاة ٢ (١٤٠١) ، البیوع ٦٨ (٢١٥٧) ، الشروط ١ (٢٧١٤) ، الأحکام ٤٣ (٧٢٠٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٢١٠) ، مسند احمد (٤/٣٥٧، ٣٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نصیحت کے معنی ہیں : خیر خواہی، کسی کا بھلا چاہنا، یوں تو اسلام کی طبیعت و مزاج میں ہر مسلمان بھائی کے ساتھ خیر خواہی و بھلائی داخل ہے، مگر آپ ﷺ کبھی کسی خاص بات پر بھی خصوصی بیعت لیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے بعد بھی کوئی مسلم حکمراں کسی مسلمان سے کسی خاص بات پر بیعت کرسکتا ہے، مقصود اس بات کی بوقت ضرورت و اہمیت اجاگر کرنی ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4156
اس بات پر بیعت کرنا کہ ہر ایک مسلمان کی بھلائی چاہیں گے
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے بیعت کی سمع و طاعت (بات سننے اور اس پر عمل کرنے) پر اور اس بات پر کہ میں ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کروں گا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأدب ٦٧ (٤٩٤٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٢٣٩) ، مسند احمد (٤/٣٦٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4157
جنگ سے نہ بھا گنے پر بیعت کرنا
جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے موت پر نہیں بلکہ میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ١٨ (١٨٥٦) ، سنن الترمذی/السیر ٣٤ (١٥٩١) ، (تحفة الأشراف : ٢٧٦٣) ، مسند احمد (٣/٣٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: موت پر بیعت کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ موت اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی مومن کے لیے جائز ہے کہ جان بوجھ کر اپنی جان دیدے۔ ہاں جنگ سے نہ بھاگنا ہر ایک کے اپنے اختیار کی بات ہے اس لیے آپ سے لوگوں نے میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر خاص طور سے بیعت کی (نیز دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4158
مرنے پر بیعت کرنے سے متعلق
یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع (رض) سے کہا : حدیبیہ کے دن نبی اکرم ﷺ سے آپ لوگوں نے کس چیز پر بیعت کی ؟ انہوں نے کہا : موت پر ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١١٠ (٢٩٦٠) ، المغازي ٣٥ (٤١٦٩) ، الأحکام ٤٣ (٧٢٠٦) ، ٤٤ (٧٢٠٨) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٨ (١٨٦٠) ، سنن الترمذی/السیر ٣٤ (١٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٦) ، مسند احمد (٤/٤٧، ٥١، ٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: موت کسی کے اختیار میں نہیں ہے، اس لیے موت پر بیعت کرنے کا مطلب میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت ہے، ہاں میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر کبھی موت بھی ہوسکتی ہے، اسی لیے بعض لوگوں نے کہا کہ موت پر بیعت کی ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4159
جہاد پر بیعت کرنے سے متعلق
یعلیٰ بن ابی امیہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس فتح مکہ کے دن ابوامیہ کو لے کر آیا اور میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے باپ نے ہجرت پر بیعت کرلی ہے۔ تو آپ نے فرمایا : میں ان سے جہاد پر بیعت لیتا ہوں اور ہجرت کا سلسلہ تو بند ہوگیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٨٤٣) ، وأعادہ المؤلف برقم ٤١٧٣ (ضعیف) (اس کے راوی ” عمرو بن عبدالرحمن “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مکہ سے ہجرت کا سلسلہ بند ہوگیا کیونکہ مکہ تو دارالاسلام بن چکا ہے، البتہ دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4160
جہاد پر بیعت کرنے سے متعلق
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اور اس وقت آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی) : تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کرو گے، اور اپنی طرف سے گھڑ کر کسی پر بہتان نہیں لگاؤ گے، کسی معروف (بھلی بات) میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ (بیعت کے بعد) جو ان باتوں کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، تم میں سے کسی نے کوئی غلطی کی ١ ؎ اور اسے اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جس نے غلطی کی اور اللہ نے اسے چھپائے رکھا تو اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہوگا، اگر وہ چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے۔ احمد بن سعید نے اسے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١١ (١٨) ، مناقب الأنصار ٤٣ (٣٨٩٢) ، المغازي ١٢ (٣٩٩٩) ، تفسیرالممتحنة ٣ (٤٨٩٤) ، الحدود ٨ (٦٧٨٤) ، ١٤ (٦٨٠١) ، الدیات ٢ (٦٨٧٣) ، الأحکام ٤٩ (٧٢١٣) ، التوحید ٣١ (٧٤٦٨) ، صحیح مسلم/الحدود ١٠ (١٧٠٩) ، سنن الترمذی/الحدود ١٢ (١٤٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٩٤) ، مسند احمد (٥/٣١٤) ، سنن الدارمی/السیر ١٧ (٢٤٩٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٤٨٣، و ٤٢١٥، و ٥٠٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شرک کے علاوہ، کیونکہ توبہ کے سوا شرک کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ ٢ ؎: یہ اختلاف اس طرح ہے کہ احمد بن سعید کی روایت (جو آگے آرہی ہے) میں صالح بن کیسان اور زہری کے درمیان حارث بن فضیل کا اضافہ ہے، اور زہری اور عبادہ بن صامت کے درمیان ابوادریس خولانی کا اضافہ نہیں ہے، اس اختلاف سے اصل حدیث کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4161
جہاد پر بیعت کرنے سے متعلق
عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت نہیں کرو گے جن پر عورتوں نے بیعت کی ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، نہ اپنے بچوں کو قتل کرو گے اور نہ خود سے گھڑ کر بہتان لگاؤ گے، اور نہ کسی معروف (اچھے کام) میں میری نافرمانی کرو گے ؟ ، ہم نے عرض کیا : کیوں نہیں، اللہ کے رسول ! چناچہ ہم نے ان باتوں پر آپ سے بیعت کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے اس کے بعد کوئی گناہ کیا اور اسے اس کی سزا مل گئی تو وہی اس کا کفارہ ہے، اور جسے اس کی سزا نہیں ملی تو اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور چاہے گا تو سزا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4162
ہجرت پر بیعت کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ہجرت پر بیعت کروں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے چھوڑا ہے، آپ نے فرمایا : تم ان کے پاس واپس جاؤ اور انہیں جس طرح تم نے رلایا ہے اسی طرح ہنساؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٣٣ (٢٥٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١٢ (٢٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٦٤٠) ، مسند احمد (٢/١٦٠، ١٩٤، ١٩٧، ١٩٨، ٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ نے ہجرت پر بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا، صرف اس آدمی کے مخصوص حالات کی بنا پر ہجرت کی بجائے ماں باپ کی خدمت میں لگے رہنے کی ہدایت کی، اس لیے اس حدیث سے ہجرت پر بیعت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4163
ہجرت ایک دشوار کام ہے
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تمہارا برا ہو۔ ہجرت کا معاملہ تو سخت ہے۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا : کیا تم ان کی زکاۃ نکالتے ہو ؟ کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : جاؤ، پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٣٦ (١٤٥٢) ، الہبة ٣٥ (٢٦٣٣) ، مناقب الأنصار ٤٥ (٣٩٢٣) ، الأدب ٩٥ (٦١٦٥) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٠ (٨٧) ، سنن ابی داود/الجہاد ١ (٢٤٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٣) ، مسند احمد (٣/١٤، ٦٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مفہوم یہ ہے کہ تمہاری جیسی نیت ہے اس کے مطابق تمہیں ہجرت کا ثواب ملے گا تم خواہ کہیں بھی رہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت ان لوگوں پر واجب ہے جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4164
بادیہ نشین کی ہجرت سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! کون سی ہجرت زیادہ بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ وہ تمام چیزیں چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناپسند ہیں ، اور فرمایا : ہجرت دو قسم کی ہے : ایک شہری کی ہجرت اور ایک اعرابی (دیہاتی) کی ہجرت، رہا اعرابی تو وہ جب بلایا جاتا ہے آجاتا ہے اور اسے جو حکم دیا جاتا ہے مانتا ہے، لیکن شہری کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے، اور اسی (حساب سے) اس کو بڑھ کر ثواب ملتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٦٣٠) ، مسند احمد (٣/١٦٠، ١٩١، ١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی ہجرت تو اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے روکا ہے اس کا چھوڑنا ہی ہے، خود ترک وطن بھی ممنوع چیزوں سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے، اور شہر میں رہنے والے سے زیادہ اعرابی (دیہاتی) کے لیے وطن چھوڑنا آسان ہے، کیونکہ آبادی میں رہنے والوں کے معاشرتی مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے ترک وطن بڑا ہی تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے، اور اسی لیے ان کی ہجرت (ترک وطن) کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4165
ہجرت کا مفہوم
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر مہاجرین میں سے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے مشرکین (ناطے داروں) کو چھوڑ دیا تھا۔ انصار میں سے (بھی) بعض مہاجرین تھے اس لیے کہ مدینہ کفار و مشرکین کا گڑھ تھا اور یہ لوگ (شرک کو چھوڑ کر) عقبہ کی رات رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٣٩٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : ہجرت کے اصل معنی کے لحاظ سے مہاجرین و انصار دونوں ہی مہاجرین تھے۔ ترک وطن کا مقصد اصلی شرک کی جگہ چھوڑنا ہی تو ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4166
ہجرت کی ترغیب سے متعلق
ابوفاطمہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے ایسا کام بتائیے جس پر میں جما رہوں اور اس کو کرتا رہوں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : تم پر ہجرت لازم ہے کیونکہ اس جیسا کوئی کام نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٠٧٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الإقامة ٢٠١ (١٤٢٢) ، مسند احمد (٣/٤٢٨) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ فرمان ابوفاطمہ اور ان جیسے لوگوں کے حالات کے لحاظ سے انہیں کے ساتھ خاص تھا، آپ ﷺ بہت سے اعمال و افعال کو سائل کے حالات کے لحاظ سے زیادہ بہتر اور اچھا بتایا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4167
ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث
یعلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے والد کے ساتھ آیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے باپ سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ان سے جہاد پر بیعت لوں گا، (کیونکہ) ہجرت تو ختم ہوچکی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٦٥ (ضعیف) (اس کے راوی ” عمرو بن عبدالرحمن “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4168
ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث
صفوان بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! لوگ کہتے ہیں کہ جنت میں مہاجر کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا، آپ نے فرمایا : فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے ١ ؎، البتہ جہاد ٢ ؎ اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٩٤٩) ، مسند احمد (٣/٤٠١ و ٦/٤٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں یہ حکم اہل مکہ کے لیے خاص تھا کہ اب مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہی، ورنہ اس کے علاوہ جہاں بھی ایسی ہی صورت پیش آئے گی ہجرت واجب ہوگی (دیکھئیے حدیث نمبر ٤١٧٧ ) إلا یہ کہ وہاں کے ملکی حالات و قوانین اجازت نہ دیتے ہوں، جیسے اس زمانہ میں اب یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ ایک ملک کے شہری کو کوئی دوسرا ملک قبول کرلے تو ہجرت واجب ہوتے ہوئے بھی آدمی اپنے وطن میں رہنے پر مجبور ہے، یہ مجبوری کی حالت ہے۔ ٢ ؎: یعنی جہاد کی خاطر گھر بار چھوڑنا یہ بھی ایک طرح کی ہجرت ہے، اسی طرح خلوص نیت سے محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جیسے دینی تعلیم وغیرہ کے لیے گھر سے دور جانا یہ بھی ایک طرح کی ہجرت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4169
ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے روز فرمایا : ہجرت تو (باقی) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ١٠ (١٨٣٤) ، الجہاد ١ (٢٧٨٣) ، ٢٧ (٢٨٢٥) ، ١٩٤(٣٠٧٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٠ (١٣٥٣) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢ (٢٤٨٠) ، سنن الترمذی/السیر ٣٣ (١٥٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٩ (٢٧٧٣) (الجزء الأخیرفحسب) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٤٨) ، مسند احمد (١/٢٢٦، ٢٦٦، ٣١٦، ٣٥٥) ، سنن الدارمی/السیر ٦٩ (٢٥٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4170
ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی موت کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٦٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4171
ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث
عبداللہ بن وقدان سعدی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کچھ غرض تھی، میں سب سے آخر میں آپ کے پاس داخل ہوا اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! میں اپنے پیچھے کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آ رہا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہجرت ختم ہوگئی تو آپ نے فرمایا : ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کفار و مشرکین سے جنگ ہوتی رہے گی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٩٧٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پچھلی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی، اور اس حدیث میں ہے کہ جب تک دنیا میں اسلام اور کفر کی لڑائی جاری رہے گی تب تک ہجرت جاری رہے گی، دونوں میں کوئی تضاد و اختلاف اور تعارض نہیں ہے، وہاں مراد ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کیونکہ مکہ فتح ہو کر، اسلامی حکومت میں شامل ہوچکا ہے، رہی دارالحرب سے ہجرت کی بات تو جس طرح فتح مکہ سے پہلے مکہ کے دارالحرب ہونے کی وجہ سے وہاں سے ہجرت ضروری تھی، یہاں بھی ضروری رہے گی، اس بابت اور بھی واضح احادیث مروی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4172
ہجرت منقطع ہونے کے سلسلہ میں اختلاف سے متعلق حدیث
عبداللہ بن سعدی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ میرے ساتھی آپ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے ان کی ضرورت پوری کی، میں سب سے آخر میں داخل ہوا تو آپ نے فرمایا : تمہاری کیا ضرورت ہے ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہجرت کب ختم ہوگی ؟ فرمایا : جب تک کفار سے جنگ ہوتی رہے گی ہجرت ختم نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4173
ہر ایک حکم پر بیعت کرنا چاہے وہ حکم پسند ہوں یا ناپسند۔
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : میں آپ سے ہر اس چیز میں جو مجھے پسند ہو اور اس میں جو ناپسند ہو سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا : جریر ! کیا تم اس کی استطاعت رکھتے ہو، یا طاقت رکھتے ہو ؟ آپ نے فرمایا : کہو ان چیزوں میں جن کو میں کرسکتا ہوں، چناچہ آپ نے مجھ سے بیعت لی، نیز ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت لی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٢١٢، ٣٢١٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٣ (٧٢٠٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤١٨٠-٤١٨٢، ٤١٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4174
کسی کافر و مشرک سے علیحدہ ہونے پر بیعت سے متعلق۔
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہنے پر بیعت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٧٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسلمانوں کے کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہنے کی بابت اور بھی احادیث مروی ہیں مگر ان کا مصداق اسی طرح کے حالات ہیں جو اس وقت تھے، شریعت نے آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ پابند نہیں کیا ہے، آج کل بہت سے ممالک میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مسلمان مشرکین و کفار سے الگ رہیں، حد تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک بھی دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں آنے نہیں دیتے، صرف چند دنوں کے ویزہ کے مطابق رہنے دیتے ہیں، پھر وقت پر نکل جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4175
کسی کافر و مشرک سے علیحدہ ہونے پر بیعت سے متعلق۔
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا …، پھر اسی جیسی حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4176
کسی کافر و مشرک سے علیحدہ ہونے پر بیعت سے متعلق۔
جریر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ بیعت لے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کروں، اور آپ شرط بتائیے کیونکہ آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، نماز قائم کرو گے، زکاۃ ادا کرو گے، مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کرو گے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہو گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4177
کسی کافر و مشرک سے علیحدہ ہونے پر بیعت سے متعلق۔
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، آپ نے فرمایا : میں تم لوگوں سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، اور نہ اپنے بال بچوں کو قتل کرو گے، نہ ہی من گھڑت کسی طرح کا بہتان لگاؤ گے، کسی بھی نیک کام میں میری خلاف ورزی نہیں کرو گے، تم میں سے جس نے یہ باتیں پوری کیں تو اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جس نے اس میں سے کسی چیز میں غلطی کی ١ ؎ پھر اسے اس کی سزا دی گئی تو وہی اس کے لیے کفارہ (پاکیزگی) ہے اور جسے اللہ نے چھپالیا تو اب اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہوگا۔ چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شرک کے سوا، اس لیے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4178
خواتین کو بیعت کرنا۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنی چاہی تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایک عورت نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ (سوگ منانے) میں میری مدد کی تھی تو مجھے اس کے یہاں جا کر نوحہ میں اس کی مدد کرنی چاہیئے، پھر میں آ کر آپ سے بیعت کرلوں گی۔ آپ نے فرمایا : جاؤ اس کی مدد کرو ، چناچہ میں نے جا کر اس کی مدد کی، پھر آ کر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٩) ، مسند احمد (٦/٤٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ بیعت کے بعد وہ نوحہ میں مدد نہیں کرسکتی تھیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آرہی ہے، یہ اجازت صرف ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھی اب نبی اکرم ﷺ کے سوا کسی کو یہ حق نہیں کہ شریعت کے کسی حکم کو کسی کے لیے خاص کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4179
خواتین کو بیعت کرنا۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیعت لی کہ ہم نوحہ نہیں کریں گے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجنائز ٤٥ (١٣٠٦ مطولا) ، الأحکام ٤٩ (٧٢١٥) ، صحیح مسلم/الجنائز ١٠ (٩٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4180
خواتین کو بیعت کرنا
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تاکہ ہم بیعت کریں، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گے، نہ زنا کریں گے، اور نہ ایسی کوئی الزام تراشی کریں گے جسے ہم خود اپنے سے گھڑیں، نہ کسی معروف (بھلے کام) میں ہم آپ کی نافرمانی کریں گے، آپ نے فرمایا : اس میں جس کی تمہیں استطاعت ہو یا قدرت ہو ، ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول ہم پر زیادہ مہربان ہیں، آئیے ہم آپ سے بیعت کریں، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو عورتوں سے کہنا ایک عورت سے کہنے کی طرح ہے یا ایک ایک عورت سے کہنے کے مانند ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/السیر ٣٧ (١٥٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢ (٢٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨١) ، موطا امام مالک/البیعة ١(٢) ، مسند احمد (٦/٣٥٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤١٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4181
کسی میں کوئی بیماری ہو تو اس کو بیعت کس طریقہ سے کرے؟
شرید (رض) کہتے ہیں کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے کہلا بھیجا کہ لوٹ جاؤ، میں نے تمہاری بیعت لے لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/السلام ٣٦ (٢٢٣١) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٤٤ (٣٥٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٨٣٧) ، مسند احمد (٤/٣٨٩، ٣٩٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ نبی اکرم ﷺ اچھی طرح سے یہ جانتے تھے کہ اس کے آنے سے لوگ گھن محسوس کریں گے اور ممکن ہے کہ بعض کمزور ایمان والے وہم میں بھی مبتلا ہوجائیں، اس لیے آپ ﷺ نے اسے کہلا بھیجا کہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہاری بیعت لے لی۔ خود آپ کو گھن نہیں آئی، نہ آپ کو کسی وہم میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا، آپ سے بڑھ کر صاحب ایمان کون ہوسکتا ہے ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4182
نالغ لڑکے کو کس طریقہ سے بیعت کرے؟
ہرماس بن زیاد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ہاتھ نبی اکرم ﷺ کی طرف بڑھایا تاکہ آپ مجھ سے بیعت لے لیں، میں ایک نابالغ لڑکا تھا تو آپ نے مجھ سے بیعت نہیں لی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٧٢٧) (حسن الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ بیعت میں کسی بات کا عہد و پیمان لیا جاتا ہے، جب کہ نابالغ پر کسی عہد و پیمان کی پابندی واجب نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4183
غلاموں کو بیعت کرنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے میرے ہاتھ بیچ دو ، چناچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کرلیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٢٣ (١٦٠٢) ، سنن ابی داود/البیوع ١٧ (٣٣٥٨ مختصرا) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٢ (١٢٣٩) ، السیر ٣٦ (١٥٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤١ (٢٨٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٤) ، یأتي عند المؤلف في البیوع ٦٦ (برقم ٤٦٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: غلام اپنے مالک کا تابع ہے، تو وہ کیسے ہجرت کرسکتا ہے اس لیے آپ غلاموں سے بیعت نہیں لیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4184
بیعت فسخ کرنے سے متعلق
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کی، پھر اس کو مدینے میں بخار آگیا، تو اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میری بیعت توڑ دیجئیے ١ ؎، آپ نے انکار کیا، اس نے پھر آپ کے پاس آ کر کہا : میری بیعت توڑ دیجئیے، آپ نے انکار کیا، تو اعرابی چلا گیا ٢ ؎، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ تو بھٹی کی طرح ہے جو اپنی گندگی کو نکال پھینکتا ہے اور پاکیزہ کو اور خالص بنا دیتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل المدینة ١٠ (١٨٨٣) ، الأحکام ٤٥ (٧٢٠٩) ، ٤٧ (٧٢١١) ، ٥ (٧٢١٦) ، الاعتصام ١٦ (٧٣٢٢) ، صحیح مسلم/الحج ٨٨ (١٣٨١) ، سنن الترمذی/المناقب ٦٨ (٣٩٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٧١) ، موطا امام مالک/الجامع ٢ (٤) ، مسند احمد (٣/٣٠٦، ٣٦٥، ٣٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کیونکہ وہ اس بیماری کو بیعت کی نحوست سمجھ بیٹھا تھا۔ ٢ ؎: یعنی مدینہ سے چلا گیا، تاکہ اپنے خیال میں اس نحوست سے نجات پا جائے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی خلیفہ (حکمراں) سے خلافت کی بیعت، یا کسی خاص بات کو توڑنا جائز نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4185
ہجرت کے بعد پھر دوبارہ اپنے دیہات میں آکر رہنا
سلمہ بن الاکوع (رض) سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا : ابن الاکوع ! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنی ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا : نہیں، مجھے تو رسول اللہ ﷺ نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الفتن ١٤ (٧٠٨٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ١٩ (١٨٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٣٩) ، مسند احمد (٤/٤٧، ٥٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ ہجرت کے بعد ہجرت والی جگہ کو چھوڑ دینا بھی ہے (اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں) اسی کی طرف حجاج نے اشارہ کر کے سلمہ بن الاکوع (رض) سے یہ بات کہی، جب کہ بات یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے سلمہ کے قبیلہ والوں کو فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی اجازت پہلے ہی دے دی تھی، اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث پر التعرب فی الفتن ۃ فتنہ کے زمانہ میں دیہات میں چلا جانا کا باب باندھا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4186
اپنی قوت کے مطابق بیعت کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ فرماتے تھے : جتنی تمہاری طاقت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٢٢ (١٨٦٧) ، سنن الترمذی/السیر ٣٤ (١٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٧١٢٧، ٧١٧٤) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٣ (٧٢٠٢) ، موطا امام مالک/البیعة ١(١) ، مسند احمد (٢/٦٢، ٨١، ١٠١، ١٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دین اسلام کی طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے یہی رکھی ہے کہ بن دوں پر ان کی طبعی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے : لا يكلف الله نفسا إلا وسعها اللہ تعالیٰ نے کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے (البقرة : 286) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4187
اپنی قوت کے مطابق بیعت کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جس وقت ہم رسول اللہ ﷺ سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے تو آپ ہم سے فرماتے تھے : جتنی تمہاری طاقت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٢٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4188
اپنی قوت کے مطابق بیعت کرنے سے متعلق
جریر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی تو آپ نے مجھے جتنی میری طاقت ہے کہنے کی تلقین کی، نیز میں نے ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4189
اپنی قوت کے مطابق بیعت کرنے سے متعلق
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ نے ہم سے فرمایا : جتنی تم استطاعت اور قدرت رکھتی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4190
جو شخص کسی امام کی بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دے تو اس پر کیا واجب ہے؟
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو (رض) کے پاس گیا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، لوگ ان کے پاس اکٹھا تھے، میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا : اسی دوران جب کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ہم میں سے بعض لوگ خیمہ لگانے لگے، بعض نے تیر اندازی شروع کی، بعض جانور چرانے لگے، اتنے میں نبی اکرم ﷺ کے منادی نے پکارا : نماز کھڑی ہونے والی ہے، چناچہ ہم اکٹھا ہوئے، نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر ہمیں مخاطب کیا اور آپ نے فرمایا : مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہ تھا جس پر ضروری نہ رہا ہو کہ جس چیز میں وہ بھلائی دیکھے اس کو وہ اپنی امت کو بتائے، اور جس چیز میں برائی دیکھے، انہیں اس سے ڈرائے، اور تمہاری اس امت کی خیر و عافیت شروع (کے لوگوں) میں ہے، اور اس کے آخر کے لوگوں کو طرح طرح کی مصیبتیں اور ایسے مسائل گھیر لیں گے جن کو یہ ناپسند کریں گے، فتنے ظاہر ہوں گے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہوں گے، پھر ایک ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا : یہی میری ہلاکت و بربادی ہے، پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا، پھر دوبارہ فتنہ آئے گا، تو مومن کہے گا : یہی میری ہلاکت و بربادی ہے۔ پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا۔ لہٰذا تم میں سے جس کو یہ پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو ضروری ہے کہ اسے موت ایسی حالت میں آئے جب وہ اللہ، اور آخرت (کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اور چاہیئے کہ وہ لوگوں سے اس طرح پیش آئے جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیش آیا جائے۔ اور جو کسی امام سے بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے اور اخلاص کے ساتھ دے تو طاقت بھر اس کی اطاعت کرے، اب اگر کوئی اس سے (اختیار چھیننے کے لیے) جھگڑا کرے تو اس کی گردن اڑا دو ، یہ سن کر میں نے ان سے قریب ہو کر کہا : کیا یہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے ؟ کہا : ہاں، پھر (پوری) حدیث ذکر کی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة (١٨٤٤) ، سنن ابی داود/الفتن ١(٤٢٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ٩(٣٩٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٨١) مسند احمد (٢/١٦١، ١٩١، ١٩٢، ١٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث کا آخری حصہ مؤلف نے نہیں ذکر کیا، امام مسلم نے اس کو ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن عبد رب کعبہ نے عرض کیا : معاویہ (رض) ایسا ویسا کر رہے ہیں، اس پر عبداللہ بن عمرو (رض) نے فرمایا : تم معروف (بھلی بات) میں ان کی اطاعت کرتے رہو، اگر کسی منکر (برے کام) کا حکم دیں تو تم انکار کر دو ، لیکن ان کے خلاف بغاوت مت کرو (خلاصہ) یہ کہ یہ حدیث سلف صالحین کے اس منہج اور طریقے کی تائید کرتی ہے کہ کسی مسلمان حاکم کے بعض منکر کاموں کی وجہ سے ان کو اختیار سے بےدخل کردینے کے لیے ان کے خلاف تحریک نہیں چلائی جاسکتی، معروف کے سارے کام اس کی ماتحتی میں کئے جاتے رہیں گے۔ اور منکر کے سلسلے میں صرف زبانی نصیحت کی جائے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4191
امام کی فرماں برداری کا حکم
یحییٰ بن حصین کی دادی (ام الحصٰن الاحمسیۃ رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں فرماتے ہوئے سنا : اگر کوئی حبشی غلام بھی تم پر امیر بنادیا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق چلائے تو تم اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٥١ (١٢٩٨) ، والإمارة ٨ (١٨٣٨) ، والجہاد ٣٩ (٢٨٦١) سنن ابن ماجہ/الجہاد ٣٩ (٢٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣١١) ، مسند احمد (٤/٦٩، ٥/٣٨١، ٦/٤٠٢، ٤٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4192
امام کی فرماں برداری کرنے کی فضیلت سے متعلق حدیث
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٣٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩ ١٠ (٢٩٥٧) ، الأحکام ١ (٧١٣٧) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١(٣) ، الجہاد ٣٩ (٢٨٥٩) ، مسند احمد ٢/٥١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4193
اولو الامر سے کیا مراد ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ يا أيها الذين آمنوا أطيعوا اللہ وأطيعوا الرسول اے لوگو، جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو (النساء : ٥٩) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی (رض) کے سلسلے میں اتری، انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ میں بھیجا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة النساء ١١ (٤٥٨٤) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٣٤) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٦ (٢٦٢٤) ، سنن الترمذی/الجہاد ٣ (١٦٧٢) ، تحفة الأشراف : ٥٦٥١) ، مسند احمد ١/٣٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ عبداللہ بن حذافہ (رض) اس سریہ میں کسی بات پر اپنے ماتحتوں پر ناراض ہوگئے تو آگ جلانے کا حکم دیا، اور جب آگ جلا دی گئی تو سب کو حکم دیا کہ اس میں کود جائیں، اس پر بعض ماتحتوں نے کہا : ہم تو آگ ہی سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو پھر آگ میں کیوں داخل ہوں، پھر معاملہ رسول اللہ ﷺ پر پیش کرنے کی بات آئی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیٰ الامر سے مراد امراء ہیں نہ کہ علماء اور اگر علماء بھی شامل ہیں تو مقصود یہ ہوگا کہ ایسے امور جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات موجود نہ ہوں ان میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ ائمہ اربعہ کے بارے میں خاص طور پر اس آیت کے نازل ہونے کی بات تو قیاس سے بہت زیادہ بعید ہے کیونکہ اس وقت تو ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور ان کی تقلید جامد تو بقول شاہ ولی اللہ دہلوی چوتھی صدی کی پیداوار ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4194
امام کی نا فرمانی کی مذمت سے متعلق
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا : جہاد دو طرح کے ہیں : ایک تو یہ کہ کوئی خالص اللہ کی رضا کے لیے لڑے، امام کی اطاعت کرے، اپنے سب سے پسندیدہ مال کو خرچ کرے اور فساد سے دور رہے تو اس کا سونا جاگنا سب عبادت ہے، دوسرے یہ کہ کوئی شخص دکھاوے اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امام کی نافرمانی کرے، اور زمین میں فساد برپا کرے، تو وہ برابر سراسر بھی نہ لوٹے گا (بلکہ عذاب کا مستحق ہوگا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4195
امام کے واسطے کیا باتیں لازم ہیں؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام ایک ڈھال ہے جس کے زیر سایہ ١ ؎ سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے جان بچائی جاتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ اللہ سے تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر وہ اس کے علاوہ کا حکم دے تو اس کا وبال اسی پر ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٠٩(٢٩٥٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٤١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الإمارة ٩ (١٨٤١) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٦٣ (٢٧٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کی رائے سے اور اس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4196
امام سے اخلاص قائم رکھنا
تمیم الداری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین نصیحت خیر خواہی کا نام ہے ، آپ نے کہا : (نصیحت و خیر خواہی) کس کے لیے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عوام کے لیے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٣ (٥٥) ، سنن ابی داود/الأدب ٦٧ (٤٩٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٥٣) ، مسند احمد (٤/١٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اللہ کے لیے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ کتاب اللہ (قرآن) کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے۔ رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ نبوت و رسالت محمدیہ کی تصدیق کرنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، اور آپ کی تعلیمات کو عام کرے، مسلمانوں کے حاکموں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے، اور ان کے مصالح کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4197
امام سے اخلاص قائم رکھنا
تمیم داری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کیا : کس کے لیے ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ اور عوام کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4198
امام سے اخلاص قائم رکھنا
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا : بلاشبہ دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے، بلاشبہ دین خلوص اور خیر خواہی ہے، بلاشبہ دین خلوص اور خیر خواہی ہے ، لوگوں نے عرض کیا : کس کے لیے، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عوام کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/البر ١٧ (١٩٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٣) ، مسند احمد (٢/٦٩٧) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4199
امام سے اخلاص قائم رکھنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کس کے لیے۔ آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عوام کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4200
امام کی طاقت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا کوئی حاکم نہیں جس کے دو قسم کے مشیر نہ ہوں، ایک مشیر اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ لہٰذا جو اس کے شر سے بچا وہ بچ گیا اور ان دونوں مشیروں میں سے جو اس پر غالب آجاتا ہے وہ اسی میں سے ہوجاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٢ (٧١٩٨ تعلیقًا) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٦٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٧، ٢٨٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے ہر صاحب اختیار (خواہ حاکم اعلی ہو یا ادنیٰ جیسے گورنر، تھا نے دار یا کسی تنظیم کا سربراہ) اسے چاہیئے کہ اپنا مشیر بہت چھان پھٹک کر اختیار کرے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے کہ اے اللہ ! مجھے صالح مشیر کار عطا فرما۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4201
امام کی طاقت کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہے، اور برائیوں سے معصوم محفوظ تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ معصوم محفوظ رکھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/القدر ٨ (٦٦١١) ، الأحکام ٤٢ (٧١٩٨) ، مسند احمد (٣/٣٩، ٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4202
امام کی طاقت کا بیان
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا گیا اور نہ اس کے بعد کوئی خلیفہ ایسا ہوا جس کے دو مشیر و راز دار نہ ہوں۔ ایک مشیر و راز دار اسے بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا جو خراب مشیر سے بچ گیا وہ (برائی اور فساد سے) بچ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٤٢ (٧١٩٨ تعلیقا) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4203
وزیر کی صفات
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جب کوئی کسی کام کا ذمہ دار ہوجائے پھر اللہ اس سے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے لیے ایسا صالح وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٥٤٤) ، مسند احمد (٦/٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4204
اگر کسی شخص کو حکم ہو گناہ کے کام کرنے کا اور وہ شخص گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کی کیا سزا ہے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فوج بھیجی اور ایک شخص ١ ؎ کو اس کا امیر مقرر کیا، اس نے آگ جلائی اور کہا : تم لوگ اس میں داخل ہوجاؤ، تو کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونا چاہا اور دوسروں نے کہا : ہم تو (ایمان لا کر) آگ ہی سے بھاگے ہیں، پھر لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ آپ نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونا چاہا تھا فرمایا : اگر تم اس میں داخل ہوجاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے، اور دوسروں سے اچھی بات کہی ۔ (ابوموسیٰ (محمد بن المثنیٰ ) نے اپنی حدیث میں (خیراً کے بجائے) قولاً حسناً (بہتر بات) کہا ہے) ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہوتی، اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٩ (٤٣٤٠) ، الأحکام ٤ (٧١٤٥) ، أخبارالأحاد ١ (٧٢٥٧) ، صحیح مسلم/الإمارة ٨ (١٨٤٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ٩٦ (٢٦٢٥) ، سنن الترمذی/السیر ٨ (١٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٦٨) ، مسند احمد (١/٨٢، ٩٤، ١٢٤، ١٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد وہی عبداللہ بن حذافہ (رض) ہیں جن کا تذکرہ حدیث نمبر ٤١٩٩ میں گزرا۔ ٢ ؎: صرف نیک کاموں میں اطاعت، اور نافرمانی کے کاموں میں اطاعت نہ کرنے کی بات ہر ایک اختیار والے کے ساتھ ہوگی : خواہ حکمران اعلی ہو یا ادنیٰ ، یا والدین، یا اساتذہ، شوہر یا کسی تنظیم کا سربراہ۔ اگر کسی سربراہ کا اکثر حکم اللہ کی نافرمانی والا ہی ہو تو ایسے آدمی کو سارے ماتحت لوگ مشورہ کر کے اختیار سے بےدخل کردیں۔ لیکن ہتھیار سے نہیں، یا فتنہ و فساد برپا کر کے نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4205
اگر کسی شخص کو حکم ہو گناہ کے کام کرنے کا اور وہ شخص گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کی کیا سزا ہے؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان شخص پر (امام و حکمراں کی) ہر چیز میں سمع و طاعت (حکم سننا اور اس پر عمل کرنا) واجب ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے۔ لہٰذا جب اسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے تو کوئی سمع و طاعت نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٧٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4206
جو کوئی کسی حاکم کی ظلم کرنے میں امداد کرے اس سے متعلق
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، آپ نے فرمایا : میرے بعد کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ ہی وہ (قیامت کے دن) میرے پاس حوض پہ آسکے گا۔ اور جس نے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہیں کی اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے پاس حوض پر آئے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الفتن ٧٢ (٢٢٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١١٠) حم ٤/٢٤٣(صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کسی حکمران، امیر، صدر، ناظم، کسی ادارہ کے سربراہ کے حوالی موالی جو ہر نیک و بد میں اس کی خوشامد کرتے ہیں اس کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ اس حدیث میں بیان کردہ وعید شدید پر توجہ دیں، نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ ﷺ نے ظالم امیر کے ظلم میں تعاون کرنے والے کے لیے اتنی سخت وعید تو سنائی مگر اس ظالم امیر کو ہٹا دینے کی کوئی بات نہیں کی، ایسے ظالم کو نصیحت کی جائے گی یا سارے مسلمانوں کے اصحاب رائے کے مشورہ سے علاحدہ کیا جائے گا (بغیر فتنہ و فساد برپا کئے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4207
جو شخص حاکم کی مدد نہ کرے ظلم و زیادتی کرنے میں اس کا اجر و ثواب
کعب بن عجرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، پانچ ایک طرح کے اور چار دوسری طرح کے، ان میں سے کچھ عرب تھے اور کچھ عجم۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سنو ! کیا تم نے سنا ؟ میرے بعد عنقریب کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے یہاں جائے گا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا تو وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ وہ میرے پاس (قیامت کے دن) حوض پر نہ آسکے گا، اور جو ان کے ہاں نہیں گیا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی، اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور عنقریب وہ میرے پاس حوض پر آئے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4208
جو شخص ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہے اس کی فضیلت
طارق بن شہاب (رض) ١ ؎ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا اور وہ یا آپ اپنا پیر رکاب میں رکھے ہوئے تھے، کون سا جہاد افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ظالم حکمراں کے پاس حق اور سچ کہنا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٩٨٣) ، مسند احمد (٤/٣١٤، ٣١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: طارق بن شہاب (رض) کو نبی اکرم ﷺ کو دیکھنے کا شرف تو حاصل ہے مگر آپ سے خود کوئی حدیث نہیں سنی تھی، آپ کی روایت کسی اور صحابی کے واسطہ سے ہوتی ہے، اور اس صحابی کا نام نہ معلوم ہونے سے حدیث کی صحت میں فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارے صحابہ کرام ثقہ ہیں اور سند سے معلوم ثقہ، بالخصوص صحابی کا ساقط ہونا حدیث کی صحت میں موثر نہیں، اس لیے کہ سارے صحابہ ثقہ اور عدول ہیں، اس طرح کی حدیث جس میں حدیث نقل کرنے میں صحابی واسطہ صحابی کا ذکر کئے بغیر حدیث کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کر دے، علمائے حدیث کی اصطلاح میں مرسل صحابی کہتے ہیں، اور مرسل صحابی مقبول و مستفید ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4209
جو کوئی اپنی بیعت کو مکمل کرے اس کا اجر
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا : تم لوگ مجھ سے بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، پھر آپ نے لوگوں کو (سورۃ الممتحنہ کی) آیت پڑھ کر سنائی ١ ؎، پھر فرمایا : تم میں سے جس نے بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اور جس نے اس میں سے کسی غلط کام کو انجام دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے چھپائے رکھا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے چاہے تو اسے سزا دے، اور چاہے تو اسے معاف کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس آیت سے مراد سورة الممتحنہ کی یہ آیت ہے : يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنک على أن لايشرکن بالله شيئا … (سورة الممتحنة : 12 ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4210
حکومت کی بری خواہش سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عنقریب تم لوگ امارت و سرداری کی خواہش کرو گے لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہوگی، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأحکام ٧ (٧١٤٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠١٧) ، مسند احمد (٢/٤٤٨، ٤٧٦) ویأتي عند المؤلف في القضاء (برقم ٥٣٨٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حکومت ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4211