40. عقیقہ سے متعلق احادیث مبارکہ

【1】

عقیقہ کے آداب و احکام

عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا ۔ گویا کہ آپ کو یہ نام ناپسند تھا۔ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : ہم تو آپ سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ایک شخص کے یہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا : جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے ١ ؎ کرے، لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ۔ داود بن قیس کہتے ہیں : میں نے زید بن اسلم سے مكافئتان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : دو مشابہ بکریاں جو ایک ساتھ ذبح کی جائیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٠٠) ، مسند احمد (٢/١٨٢، ١٨٣، ١٨٧، ١٩٣، ١٩٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی جملے سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ کہتے ہیں کہ عقیقہ فرض نہیں مندوب و مستحب ہے، جب کہ فرض قرار دینے والے حدیث نمبر ٤٢١٩ سے استدلال کرتے ہیں جس میں حکم ہے کہ بچے کی طرف سے خون بہاؤ نیز اور بھی کچھ الفاظ ایسے وارد ہیں جن سے عقیقہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے، إلا یہ کہ کسی کو عقیقہ کے وقت استطاعت نہ ہو تو بعد میں استطاعت ہونے پر قضاء کرلے۔ ٢ ؎: عمر میں برابر ہوں یا وصف میں ایک دوسرے سے قریب تر ہوں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4212

【2】

عقیقہ کے آداب و احکام

بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین (رض) کی طرف سے عقیقہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٧١) ، مسند احمد (٥/٣٥٥، ٣٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4213

【3】

لڑکے کی جانب سے عقیقہ

سلمان بن عامر ضبی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑکے کی پیدائش پر ١ ؎ اس کا عقیقہ ہے، تو اس کی جانب سے خون بہاؤ ٢ ؎ اور اس سے تکلیف دہ چیز کو دور کرو ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧١) ، سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٩) ، سنن الترمذی/الضحایا ١٧ (١٥١٥) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٨٥) ، مسند احمد (٤/١٧، ١٨، ٢١٤) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس جملہ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ عقیقہ صرف لڑکے کی پیدائش پر ہے۔ لڑکی کی پیدائش پر نہیں، لیکن یہ استدلال صرف ایک حدیث پر نظر رکھنے کا نتیجہ ہے جو اصول استدلال کے خلاف ہے، متعدد دیگر احادیث وارد ہیں جن میں لڑکی کی طرف سے بھی خون بہا نے کا حکم دیا گیا ہے۔ (دیکھئیے اگلی حدیث) ٢ ؎: اسی جملہ سے (نیز حدیث نمبر ٤٢٢٥ کے مفہوم) سے عقیقہ کے واجب ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے، جب کہ بعض لوگ حدیث نمبر ٤٢١٨ کے جملہ جو چاہے وہ عقیقہ کرے سے استحباب پر استدلال کرتے ہیں، سلمان (رض) کی حدیث صحیح بخاری کی ہے جب کہ عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث صرف سنن کی ہے، نیز سلمان (رض) کی حدیث کے معنی کی تائید حدیث نمبر ٤٢٢٥ کے اس مفہوم سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے، نیز ام کرز رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے، ہاں جس کو عقیقہ کرنے کی استطاعت ہی نہ ہو تو اس سے معاف ہے، اگر ماں باپ کو اکیسوئیں دن بھی عقیقہ کرنے کی استطاعت ہوجائے تو کر دے، اس کے بعد وجوب ساقط ہوجائے گا۔ ٣ ؎: یعنی سر کے بال مونڈو اور غسل دو ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4214

【4】

لڑکے کی جانب سے عقیقہ

ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (عقیقہ کے لیے) لڑکے میں دو ہم عمر بکریاں اور لڑکی میں ایک بکری (کافی) ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بچے کی طرف سے خون بہانا اس کی جان کی بقاء کی خاطر ہے، تو یہ گویا دیت کی طرح ہوا، اور دیت میں نر جان کی دیت مادہ جان سے دگنی ہوتی ہے (کما فی المغنی مسألۃ نمبر ١٤٧٢ ) نیز ایک حدیث میں ہے جس نے ایک نر جان کو آزاد کیا اس کا ہر عضو جہنم سے آزاد کیا جائے گا، اور جس نے دو ماہ جان کو آزاد کیا اس کو بھی یہی اجر ملے گا۔ (فتح الباری تحت ٥٤٧١ من کتاب العقیقۃ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4215

【5】

لڑکی کی جانب سے عقیقہ کرنا

ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (عقیقے کے لیے) لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر بکریاں ہوں گی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥٢) ، مسند احمد (٦/٣٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4216

【6】

لڑکی کی جانب سے کس قدر بکریاں ہونا چاہئیں؟

ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حدیبیہ میں ہدی کے گوشت کے بارے میں پوچھنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، تو میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا : لڑکا ہونے پر دو بکریاں ہیں اور لڑکی پر ایک بکری، نر ہوں یا مادہ اس سے تم کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٥، ٢٨٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١ (٣١٦٢ مختصراً ) ، (تحفة الأشراف : ١٨٣٤٧) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4217

【7】

لڑکی کی جانب سے کس قدر بکریاں ہونا چاہئیں؟

ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہوں گی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری، نر ہوں یا مادہ اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4218

【8】

لڑکی کی جانب سے کس قدر بکریاں ہونا چاہئیں؟

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین (رض) کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٢٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٤١) ، مسند احمد ٥/٧، ٨، ١٢، ١٧، ١٨، ٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4219

【9】

عقیقہ کون سے دن کرنا چاہیے؟

سمرہ بن جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے ١ ؎ اس کی طرف سے ساتویں روز ذبح کیا جائے ٢ ؎، اس کا سر مونڈا جائے، اور اس کا نام رکھا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢١ (٢٨٣٧، ٢٨٣٨) ، سنن الترمذی/الأضاحی ٢٣ (١٥٢٢ م) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١(٣١٦٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٨١) ، مسند احمد (٥/٧، ٨، ١٢، ١٧، ١٨، ٢٢) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٩ (٢٠١٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء عقیقہ کے فرض ہونے کے قائل ہیں، کیونکہ اس میں بچے کے عقیقہ کے بدلے گروی باقی رہ جانے کی بات ہے، اور گروی رہنے کا مطلب علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ جس لڑکے کا عقیقہ نہ کیا جائے اور وہ بلوغت سے پہلے مرجائے تو وہ قیامت کے دن اپنے ماں باپ کی سفارش (شفاعت) نہیں کرے گا، بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جس طرح رہن رکھی ہوئی چیز کے بدلے کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح ذبح (عقیقہ) ضروری ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ٢ ؎: اگر ساتویں دن عقیقہ کی استطاعت نہیں ہوسکی تو چودہویں دن کرے، اور اگر اس دن میں نہ ہو سکے تو اکیسویں دن کرے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مستدرک حاکم میں ( ٤/٢٣٨ ) صحیح سند سے مروی ہے، اگر اکیسویں دن بھی نہ ہو سکے تو جو لوگ واجب قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک زندگی میں کسی دن بھی قضاء کرنا ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4220

【10】

عقیقہ کون سے دن کرنا چاہیے؟

حبیب بن شہید کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے کہا : حسن (حسن بصری) سے پوچھو، انہوں نے عقیقہ کے سلسلے میں اپنی حدیث کس سے سنی ہے ؟ چناچہ میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : یہ حدیث میں نے سمرہ (رض) سے سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٢ (٥٤٧٢ م) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣٣ (١٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٧٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4221