41. فرع اور عتیرہ سے متعلق احادیث مبارکہ
فرع اور عتیرہ کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرع اور عتیرہ واجب نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العقیقة ٤ (٥٤٧٣) ، الأضاحي ٦ (١٩٧٦) ، سنن ابی داود/الأضاحي ٢٠ (٢٨٣١) ، سنن الترمذی/الضحایا ١٥ (١٥١٢) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٢(٣١٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٢٧، ١٣٢٦٩) ، مسند احمد (٢/٢٢٩، ٢٣٩، ٢٧٩، ٤٩٠) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٨ (٢٠٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فرع : زمانہ جاہلیت میں جانور کے پہلوٹے کو بتوں کے واسطے ذبح کرنے کو فرع کہتے ہیں، ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ تعالیٰ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کردیا گیا اور اس سے منع کردیا گیا۔ اور عتیرہ : زمانہ جاہلیت میں رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرتے تھے، اور اسلام کی ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے۔ کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لیے اور مسلمان اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لیے ذبح کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہوگئے اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ بلکہ مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کے روز قربانی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4222
فرع اور عتیرہ کے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرع اور عتیرہ سے منع فرمایا (دوسری روایت میں ہے کہ) آپ نے فرمایا : فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ١٣١٢٧، ١٣٢٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ دونوں اب واجب نہیں رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4223
فرع اور عتیرہ کے متعلق
مخنف بن سلیم (رض) کہتے ہیں کہ ہم عرفہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا : لوگو ! ہر گھر والے پر ہر سال قربانی اور عتیرہ ہے ١ ؎۔ معاذ کہتے ہیں : ابن عون رجب میں عتیرہ کرتے تھے، ایسا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١(٢٧٨٨) ، سنن الترمذی/الضحایا ١٩ (١٥١٨) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ٢ (٣١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٤٤) ، مسند احمد (٤/٢١٥، ٥/٧٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: فرع اور عتیرہ کے سلسلے میں مروی تمام احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں ایام جاہلیت میں جاہلی انداز میں انجام دیئے جاتے تھے جس میں شرک کی ملاوٹ ہوتی تھی، رسول اللہ ﷺ نے اسلام میں ان کو جائز قرار تو دیا، مگر وہ شرک و کفر سے خالی اور جاہلی عادات کی مشابہت سے دور ہو، اور اگر نہ انجام دیئے جائیں تو بہتر ہے، خاص طور پر فرع کو اگر چھوڑ رکھا جائے تو یہ جانور بڑا ہو کر زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، واللہ اعلم (دیکھئیے اگلی روایات) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4224
فرع اور عتیرہ کے متعلق
محمد بن عبداللہ بن عمرو اور زید بن اسلم سے روایت ہے لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! فرع کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : حق ہے، البتہ اگر تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہوجائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں دو ، یا اسے کسی مسکین، بیوہ کو دے دو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے (بچہ کی شکل میں) ذبح کرو اور (اس کے کاٹے جانے کی وجہ سے) اس کا گوشت چمڑے سے لگ جائے ۔ (یعنی دبلی ہوجائے گی) پھر تم اپنا برتن اوندھا کر کے رکھو گے (کہ وہ دودھ دینے کے لائق ہی نہ ہوگی) اور تمہاری اونٹنی تکلیف میں رہے گی ۔ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اور عتیرہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : عتیرہ بھی حق ہے ١ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں : ابوعلی حنفی چار بھائی ہیں : ابوبکر، بشر، شریک اور ایک اور ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٧٠١) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الأضحایا ٢١(٢٨٤٢) ، مسند احمد ٢/١٨٢ -١٨٣ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی باطل اور حرام نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4225
فرع اور عتیرہ کے متعلق
حارث بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ سے ملا، آپ اپنی اونٹنی عضباء، پر سوار تھے۔ میں آپ کی ایک جانب گیا اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے، آپ نے فرمایا : اللہ تم لوگوں کی مغفرت فرمائے ۔ پھر میں آپ کی دوسری جانب گیا، مجھے امید تھی کہ آپ خاص طور پر میرے لیے دعا کریں گے، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں (کو اٹھا کر) فرمایا : اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف کرے ۔ پھر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! عتیرہ اور فرع کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو چاہے عتیرہ ذبح کرے اور جو چاہے نہ کرے اور جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے، بکریوں میں صرف قربانی ہے ، اور آپ نے اپنی سب انگلیاں بند کرلیں سوائے ایک کے (یعنی : سالانہ صرف ایک قربانی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٢٧٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/المناسک ٩ (١٧٤٢) ، مسند احمد (٣/٤٨٥) (ضعیف) (اس کے راوی ” یحییٰ بن زرارہ “ لین الحدیث ہیں، مگر اس حدیث کے مضامین دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4226
فرع اور عتیرہ کے متعلق
حارث بن عمرو (رض) کہتے ہیں ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ سے ملا۔ اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف فرمائے ، آپ ﷺ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے، پھر میں مڑا اور دوسری جانب گیا۔ اور پھر آگے پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4227
عتیرہ سے متعلق احادیث
نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے بتایا گیا کہ ہم لوگ جاہلیت میں عتیرہ ذبح کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے ذبح کرو چاہے کوئی سا مہینہ ہو، اور اللہ کے لیے نیک کام کرو اور لوگوں کو کھلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ٢ (٢٨٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ١٦ (٣١٦٠) ، الذبائح ٢ (٣١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٦) ، مسند احمد (٥/٧٥، ٧٦) ، ویأتي فیما یلي : ٤٢٣٤، ٢٢٣٦، ٤٢٣٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4228
عتیرہ سے متعلق احادیث
نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے منیٰ میں پکار کر کہا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ جاہلیت میں رجب میں عتیرہ کرتے تھے۔ تو اللہ کے رسول ! ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : ذبح کرو جس مہینے میں چاہو اور اللہ کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ، اس نے کہا : ہم فرع ذبح کرتے تھے، تو آپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہر چرنے والے جانور میں ایک فرع ہے، جسے تم چراتے ہو، جب وہ مکمل اونٹ ہوجائے تو اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4229
عتیرہ سے متعلق احادیث
بنی ہذیل کے ایک شخص نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم نے تم لوگوں کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے اس واسطے روکا تھا تاکہ وہ تم سب تک پہنچ جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے گنجائش دے دی ہے تو کھاؤ اور اٹھا (بھی) رکھو اور (صدقہ دے کر) ثواب (بھی) کماؤ۔ سن لو، یہ دن کھانے، پینے اور اللہ تعالیٰ کی یاد (شکر ادا کرنے) کے ہیں۔ ایک شخص نے کہا : ہم لوگ رجب کے مہینہ میں زمانہ جاہلیت میں عتیرہ ذبح کرتے تھے تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے ذبح کرو چاہے کوئی سا مہینہ ہو، اور اللہ کے لیے نیک کام کرو اور لوگوں کو کھلاؤ۔ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں فرع ذبح کرتے تھے، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہر چرنے والی بکری میں ایک فرع ہے، جسے تم چراتے ہو، جب وہ مکمل اونٹ ہوجائے تو اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو، یہی چیز بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٠(٢٨١٣) ، سنن ابن ماجہ/الضحایا ١٦ (٣١٦٠) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٨٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4230
فرع کے متعلق احادیث
نبیشہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو پکار کر کہا : ہم لوگ عتیرہ ذبح کرتے تھے۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جس مہینہ میں چاہو اسے ذبح کرو، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ، اس نے کہا : ہم لوگ عہد جاہلیت میں فرع ذبح کرتے تھے ؟ آپ نے فرمایا : ہر چرنے والے جانور میں فرع ہے یہاں تک کہ جب وہ مکمل (جانور) ہوجائے تو تم اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو، یہی چیز بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4231
فرع کے متعلق احادیث
نبیشہ ہذلی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں عتیرہ ذبح کرتے تھے، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جس مہینے میں چاہو ذبح کرو، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٣٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4232
فرع کے متعلق احادیث
ابورزین لقیط بن عامر عقیلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں کچھ جانور ذبح کیا کرتے تھے، ہم خود کھاتے تھے اور جو ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ۔ وکیع بن عدس کہتے ہیں : چناچہ میں اسے نہیں چھوڑتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١١٧٨) ، مسند احمد (٤/١٣) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٨ (٢٠٠٨) (صحیح لغیرہ ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4233
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک پڑی ہوئی مردار بکری کے پاس سے ہوا، آپ نے فرمایا : یہ کس کی ہے ؟ لوگوں نے کہا : میمونہ کی۔ آپ نے فرمایا : ان پر کوئی گناہ نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتیں ، لوگوں نے عرض کیا : وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے (صرف) اس کا کھانا حرام کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٤) ، سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٠) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦١٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٦) ، مسند احمد (٦/٣٢٩، ٣٣٦) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٢٤٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس کے جسم کے دیگر اعضاء مثلاً بال، دانت، سینگ وغیرہ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4234
مردار کی کھال سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک مردار بکری کے پاس سے ہوا جو آپ نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو دی تھی، آپ نے فرمایا : تم نے اس کی کھال سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا : اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ٦١ (١٤٩٢) ، البیوع ١٠١ (٢٢٢١) ، الذبائح ٣٠ (٥٥٣١) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٧(٣٦٤) ، سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٩) ، موطا امام مالک/الصید ٦ (١١٦) ، مسند احمد ١/٣٦٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٣١، ٢٠٣٢) ، ویأتي بأرقام : ٤٢٤٣، ٤٢٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4235
مردار کی کھال سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مردار بکری کو دیکھا جو ام المؤمنین میمونہ کی لونڈی کی تھی اور وہ بکری صدقے کی تھی، آپ نے فرمایا : اگر لوگوں نے اس کی کھال اتار لی ہوتی اور اس سے فائدہ اٹھایا ہوتا (تو اچھا ہوتا) ۔ لوگوں نے عرض کیا : وہ مردار ہے، آپ نے فرمایا : صرف اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4236
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک بکری مرگئی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے اس کی کھال نہیں اتاری کہ اس سے فائدہ اٹھاتے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٣٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4237
مردار کی کھال سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے، تو آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں نے اس کی کھال نہیں اتاری کہ اسے دباغت دے کر فائدہ اٹھا لیتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٤٧) ، مسند احمد (١/٢٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4238
مردار کی کھال سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے اور فرمایا : کیا تم لوگوں نے اس کی کھال سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٧٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4239
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مرگئی تو ہم نے اس کی کھال کو دباغت دی، پھر ہم اس میں ہمیشہ نبیذ بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان والنذور ٢١ (٦٦٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٦) ، مسند احمد (٦/٤٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4240
مردار کی کھال سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کھال کو دباغت دے دی جائے وہ پاک ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٧ (٣٦٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٩٦) ، موطا امام مالک/الصید ٦ (١٧) ، مسند احمد ١/٢١٩، ٢٣٧، ٢٧٠، ٢٧٩، ٢٨٠، ٣٤٣، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٠ (٢٠٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حلال جانور کی کھال دباغت کے بعد پاک ہوگی، اور اس کا استعمال جائز ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4241
مردار کی کھال سے متعلق
عبدالرحمٰن بن وعلہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس (رض) سے پوچھا : ہم لوگ مغرب کے علاقہ میں جہاد کو جا رہے ہیں، وہاں کے لوگ بت پرست ہیں، ان کے پاس مشکیں ہیں جن میں دودھ اور پانی ہوتا ہے ؟ ابن عباس (رض) نے کہا : دباغت کی ہوئی کھالیں پاک ہوتی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا : یہ آپ کا خیال ہے یا کوئی بات آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا : بلکہ رسول اللہ ﷺ سے (سنی) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4242
مردار کی کھال سے متعلق
سلمہ بن محبق (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ تبوک میں ایک عورت کے پاس سے پانی منگوایا۔ اس نے کہا : میرے پاس تو ایک ایسی مشک کا پانی ہے جو مردار کی کھال کی ہے، آپ نے فرمایا : تم نے اسے دباغت نہیں دی تھی ؟ وہ بولی : کیوں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٠) ، مسند احمد (٣/٤٧٦ و ٥/٦، ٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4243
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مردار کی کھال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٠٥١) ، مسند احمد (٦/١٥٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4244
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مردے کی کھالوں کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا : اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٩٦٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٢٥١، ٤٢٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4245
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مردار کی کھال کی پاکی ہی اس کی دباغت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4246
مردار کی کھال سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردار کی کھال کی پاکی ہی اس کی دباغت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4247
مردار کی کھال کس چیز سے دباغت دی جائے؟
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ گزرے، وہ اپنی ایک بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹ رہے تھے، ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم لوگ اس کی کھال رکھ لیتے (تو بہتر ہوتا) ، انہوں نے کہا : وہ مردار ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے پانی اور سلم درخت کا پتا (جس سے دباغت دی جاتی ہے) پاک کردیتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٨٤) ، مسند احمد (٦/٣٣٣، ٣٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ضروری نہیں کہ ہمارے زمانہ میں بھی دباغت کے لیے پانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے کانٹے دار درخت ہی کا استعمال کیا جائے، موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں جس پاک چیز سے بھی دباغت دی جائے مقصد حاصل ہوگا لیکن اس کے ساتھ پانی کا استعمال ضروری ہے (قرظ: ایک سلم نامی کانٹے دار درخت کے پتے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4248
مردار کی کھال کس چیز سے دباغت دی جائے؟
عبداللہ بن عکیم جہنی کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا گیا (اس وقت میں ایک نوخیز لڑکا تھا) کہ تم لوگ مردے کی بغیر دباغت کی ہوئی کھال یا پٹھے سے فائدہ مت اٹھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٢ (٤١٢٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٧ (١٧٢٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٦ (٣٦١٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٢) ، مسند احمد (٤/٣١٠، ٣١١) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٢٥٥، ٤٢٥٦) (صحیح) (الإرواء ٣٨، وتراجع الالبانی ٤٧٠ ) وضاحت : ١ ؎: بعض لوگوں نے اس حدیث کو ناسخ، اور ابن عباس اور میمونہ رضی اللہ عنہم کی حدیثوں کو منسوخ قرار دیا ہے کیونکہ یہ مکتوب آپ کی وفات سے چھ ماہ پہلے کا ہے، لیکن جمہور محدثین نے اس کے برخلاف پچھلی حدیثوں کو ہی سند کے لحاظ سے زیادہ صحیح ہونے کی بنیاد پر راجح قرار دیا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں، پچھلی حدیثوں میں جو مردار کے چمڑے سے نفع اٹھانے کی اجازت ہے وہ دباغت کے بعد ہے، اور (مخضرم راوی) عبداللہ بن عکیم کی حدیث میں جو ممانعت ہے وہ دباغت سے پہلے کی ہے (دیکھئیے اگلی حدیث) امام ابوداؤد (رح) نے اس حدیث کے بعد نضر بن سہیل سے نقل کیا ہے کہ إہاب دباغت سے پہلے والے چمڑے کو کہتے ہیں، اور دباغت کے بعد چمڑے کو شف یا قرب ۃ کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4249
مردار کی کھال کس چیز سے دباغت دی جائے؟
عبداللہ بن عکیم جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لکھ بھیجا : تم لوگ مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4250
مردار کی کھال کس چیز سے دباغت دی جائے؟
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کے لوگوں کو لکھا : مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی) کہتے ہیں : اس باب میں مردار کی کھال جبکہ اسے دباغت دی گئی ہو سب سے صحیح حدیث زہری کی حدیث ہے جسے عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس سے اور وہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں (نمبر ٤٢٣٩) ، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4251
مردار کی کھال سے دباغت کے بعد نفع حاصل کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مردار جانور کی کھال سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب کہ وہ دباغت دی گئی ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤١ (٤١٢٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٥ (٣٦١٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٩١) ، مسند احمد ٧٣٦، ١٠٤، ١٤٨، ١٥٣ (ضعیف) (اس کی راویہ ” ام محمد “ لین الحدیث ہیں لیکن اس کا مضمون دیگر احادیث سے ثابت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4252
درندوں کی کھالوں سے نفع حاصل کرنے کی مما نعت
ابوالملیح کے والد اسامہ بن عمیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے درندوں کی کھالوں سے (فائدہ اٹھانے سے) منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٣ (٤١٣٢) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٢ (١٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٣١) ، مسند احمد (٥/٧٤، ٧٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٩ (٢٠٢٦، ٢٠٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4253
درندوں کی کھالوں سے نفع حاصل کرنے کی مما نعت
مقدام بن معد یکرب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم، سونے اور چیتوں کی کھال کے بستر یا کجاوے وغیرہ سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٣ (٤١٣١) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٥٥) ، مسند احمد (٤/١٣٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4254
درندوں کی کھالوں سے نفع حاصل کرنے کی مما نعت
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ مقدام بن معد یکرب (رض) معاویہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے درندوں کی کھالوں کے لباس پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے ؟ کہا : ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4255
مردار کی چربی سے نفع حاصل کرنے کی ممانعت
جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خریدو فروخت حرام کردی ہے۔ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! مردار کی چربی کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ اسے کشتیوں پر لگایا جاتا اور کھالوں پر ملا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ نے فرمایا : نہیں، وہ حرام ہے ، پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہودیوں کو تباہ کرے، اللہ تعالیٰ نے جب ان پر چربی حرام کردی تو انہوں نے اسے گلایا، پھر بیچا، پھر اس کی قیمت کھائی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٢ (٢٢٣٦) ، المغازي ٥١ (٤٢٩٦) ، تفسیر سورة الأنعام ٦ (٤٦٣٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٣ (البیوع ٣٤) (١٥٨١) ، سنن ابی داود/البیوع ٦٦ (٣٤٨٦) ، سنن الترمذی/البیوع ٦١ (١٢٩٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ١١ (٢١٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٩٤) ، مسند احمد (٣/٣٢٤، ٣٢٦، ٣٧٠) ، ویأتي عند المؤلف في البیوع ٩٣ (برقم : ٤٦٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے حیلہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، یہ ایسی ہی ہے جیسے یہودیوں نے سنیچر کے دن شکار کی ممانعت پر حیلہ کیا تھا کہ جمعہ کے دن پانی میں جال پھیلا دیتے تاکہ مچھلیاں پھنس جائیں اور سنیچر کی مدت ختم ہونے کے بعد آسانی سے شکار ہاتھ میں آجائے، کسی بھی حرام چیز سے کسی طرح بھی فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4256
حرام شے سے فائدہ حاصل کرنے کی ممانعت سے متعلق حدیث
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کو خبر پہنچی کہ سمرہ (رض) نے شراب بیچی ہے تو انہوں نے کہا : اللہ سمرہ کو ہلاک و برباد کرے، کیا اسے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک و برباد کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے گلایا۔ سفیان کہتے ہیں : یعنی اسے پگھلایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٣(٢٢٢٣) ، الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٣ (١٥٨٢) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ٧ (٣٣٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٠١) ، مسند احمد (١/٢٥) ، سنن الدارمی/الأشربة ٩ (٢١٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پھر اس کا تیل بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4257
اگر چوہا گھی میں گر جائے تو کیا کرنا ضروری ہے؟
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مرگئی تو نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا ؟ آپ نے فرمایا : اسے اور اس کے اردگرد گھی کو نکال کر پھینک دو اور پھر اسے کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٧ (٢٣٥، ٢٣٦) ، الذبائح ٣٤ (٥٥٣٨، ٥٥٣٩، ٥٥٤٠) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٤٨ (٣٨٤١، ٣٨٤٢، ٣٨٤٣) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٨ (١٧٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٥) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٧ (٢٠) ، مسند احمد (٦/٣٢٩، ٣٣٠، سنن الدارمی/الطھارة ٥٩ (٧٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4258
اگر چوہا گھی میں گر جائے تو کیا کرنا ضروری ہے؟
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس چوہیا کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی جمے ہوئے گھی میں گرجائے تو آپ نے فرمایا : اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو لے کر پھینک دو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4259
اگر چوہا گھی میں گر جائے تو کیا کرنا ضروری ہے؟
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گرجائے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر گھی جما ہوا ہو تو اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال پھینکو اور اگر جما ہوا نہ ہو تو تم اس کے قریب نہ جاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (شاذ) (معمر کے سوا زہری کے اکثر تلامذہ اس کو بغیر تفصیل کے روایت کرتے ہیں جیسے پچھلی دونوں روایتوں میں ہے ) وضاحت : ١ ؎: سند اور علم حدیث کے قواعد کے لحاظ سے یہ حدیث درجہ میں پہلی حدیث سے کم تر ہے، اور اس کے مخالف ہونے کی وجہ سے شاذ ہے، لیکن پہلی حدیث کے مضمون ہی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسی قسم کے گھی کا اردگرد ہوسکتا ہے جو جامد ہو، اور اگر سیال (بہنے والا) ہو تو اس کا اردگرد کیسے ہوسکتا ہے ؟ اسی لیے بہت سے علماء اس حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4260
اگر چوہا گھی میں گر جائے تو کیا کرنا ضروری ہے؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا : اس بکری والوں پر کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال (دباغت دے کر) سے فائدہ اٹھا لیتے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الذبائح ٣٠ (٥٥٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4261
اگر مکھی برتن میں گر جائے؟
ابو سعید خدری (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گرجائے تو اسے اچھی طرح ڈبو دو (پھر اسے نکال کر پھینک دو ) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطب ٣١ (٣٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٢٦) مسند احمد (٣/٢٤، ٦٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4262