42. شکار اور ذبیحوں سے متعلق

【1】

شکار اور ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ کہنا

عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا : جب تم اپنے کتے کو شکار کے لیے بھیجو تو اس پر بسم اللہ پڑھ لو، اب اگر تمہیں وہ شکار مل جائے اور مرا ہوا نہ ہو تو اسے ذبح کرو اور اس پر اللہ کا نام لو ١ ؎ اور اگر تم اسے مردہ حالت میں پاؤ اور اس (کتے) نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو اس کو کھاؤ، اس لیے کہ اس نے تمہارے لیے ہی اس کا شکار کیا ہے۔ البتہ اگر تم دیکھو کہ اس نے اس میں سے کچھ کھالیا ہے تو تم اس میں سے نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ اب اس نے اسے اپنے لیے شکار کیا ہے۔ اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں اور انہوں نے اس (شکار) کو قتل کردیا ہو اور اسے کھایا نہ ہو تب بھی تم اس میں سے کچھ مت کھاؤ، اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٥) ، البیوع ٣ (٢٠٥٤) ، الصید ٢ (٥٤٧٦) ، ٧(٥٤٨٣) ، ٨(٥٤٨٤) ، ٩(٥٤٨٦) ، ١٠(٥٤٨٧) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٤٨، ٢٨٤٩) ، سنن الترمذی/الصید ٥ (١٤٦٩) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٦ (٣٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٢) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٧، ٢٥٨، ٣٧٨، ٣٧٩، ٣٨٠) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٤٢٧٣، ٤٢٧٩، ٤٣٠٣، ٤٣٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : اللہ کا نام لے کر ذبح کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4263

【2】

جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس شکار کو کھانے کی ممانعت

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض (بےپر کے تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اگر اسے نوک لگی ہو تو کھاؤ اور اگر اسے آڑی لگی ہو تو وہ موقوذہ ہے ١ ؎ میں نے آپ سے کتے کے (شکار کے) بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب تم (شکار پر) کتا دوڑاؤ پھر وہ اسے پکڑے اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تم اسے کھاؤ اس لیے کہ اس کا پکڑ لینا ہی گویا شکار کو ذبح کرنا ہے۔ لیکن اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا ہو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے بھی پکڑا ہو اور وہ شکار مرگیا ہو تو مت کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی تھی دوسرے کتے پہ نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ١ (٥٤٧٥) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن الترمذی/الصید ٧ (١٤٧١) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٦ (٣٢١٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٠) ، مسند احمد (٤/٢٥٦) ، سنن الدارمی/الصید ١ (٢٠٤٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٢٧٤، ٤٢٧٩، ٤٣١٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جو شکار کسی بھاری چیز سے مارا گیا ہو جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے، یا کوئی جانور چھت وغیرہ سے گر کر مرجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4264

【3】

سدھے ہوئے کتے سے شکار

عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میں (شکار پر) سدھایا ہوا کتا چھوڑتا ہوں اور وہ جانور پکڑ لیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : جب تم سدھایا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ شکار پکڑے تو تم اسے کھاؤ میں نے عرض کیا : اگر وہ اسے مار ڈالے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگرچہ وہ اسے مار ڈالے ۔ میں نے عرض کیا : میں معراض پھینکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : اگر نوک لگے تو کھاؤ اور اگر آڑا لگے تو نہ کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٣ (٥٤٧٧) ، التوحید ١٣ (٧٣٩٧) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٢٧) ، سنن الترمذی/الصید ١ (١٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٦ (٣٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٨) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨، ٣٧٧، ٣٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4265

【4】

جو کتا شکاری نہیں ہے اس کے شکار سے متعلق

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ اس سر زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ملتا ہے۔ میں تیر کمان سے شکار کرتا ہوں اور سدھائے ہوئے کتے سے بھی شکار کرتا ہوں اور غیر سدھائے ہوئے کتے سے بھی۔ آپ نے فرمایا : جو شکار تم تیر سے کرو تو اللہ کا نام لے کر اسے کھاؤ ١ ؎ اور جو شکار تم سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو اللہ کا نام لے کر اسے کھاؤ، اور جو شکار تم غیر سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو اگر اسے ذبح کرسکو تو کھالو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٤ (٥٤٧٨) ، ١٠(٥٤٨٨) ، ١٤(٥٤٩٦) ، صحیح مسلم/الصید ١(١٩٣٠) ، سنن ابی داود/الصید ٢(٢٨٥٥) ، سنن الترمذی/السیر ١١ (١٥٦٠ م) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٣ (٣٢٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٥) ، مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ، سنن الدارمی/السیر ٥٦ (٢٥٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تیر پھینکتے وقت اللہ کا نام لو پھر اسے کھاؤ۔ ٢ ؎: اور اگر پانے سے پہلے مرگیا ہو تو مت کھاؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4266

【5】

اگر کتا شکار کو قتل کر دے؟

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سدھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لیے شکار پکڑ کر لاتے ہیں، کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : جب تم سدھائے ہوئے کتے چھوڑو (اور وہ تمہارے لیے شکار پکڑ کر لائیں) تو اسے کھالو ، میں نے عرض کیا : اگر وہ اسے مار ڈالیں ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں، مگر یہ اسی وقت جب کہ اس کے ساتھ کوئی اور کتا شریک نہ ہوا ہو ١ ؎ میں نے عرض کیا : میں معراض پھینکتا ہوں اور وہ (جانور کے جسم میں) گھس جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اگر وہ گھس جائے تو تم کھالو اور اگر وہ آڑا پڑے تو نہ کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٧٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : ١- سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔ ٢- کتا سدھایا ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔ ٣- اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو، پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ ٤- کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔ ٥- سدھائے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا۔ ٦- کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4267

【6】

اگر اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا شامل ہوجائے جو بسم اللہ کہہ کر چھوڑا گیا ہو

عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکار کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : جب تم (شکار پر) اپنا کتا چھوڑو پھر اس کے ساتھ کچھ ایسے کتے بھی شریک ہوجائیں جن پر تم نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے تو تم اسے مت کھاؤ۔ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسے کس کتے نے قتل کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4268

【7】

جب تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤ۔

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کتے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب تم اپنے کتے کو چھوڑو اور اس پر بسم اللہ پڑھو تو اسے (شکار کو) کھاؤ اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا پاؤ تو مت کھاؤ اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی، دوسرے کتے پر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4269

【8】

جب تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤ۔

شعبی کہتے ہیں کہ عدی بن حاتم (رض) نہرین میں ہمارے پڑوسی تھے، ہمارے گھر آتے جاتے تھے اور ایک زاہد شخص تھے، ان سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں تو میں اپنے کتے کے ساتھ ایک کتا دیکھتا ہوں جس نے شکار پکڑ رکھا ہے مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ ان میں سے کس نے پکڑا ہے، آپ نے فرمایا : اسے مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی تھی، دوسرے پر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦١) ، مسند احمد (٤/٢٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4270

【9】

جب تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤ۔

عدی بن حاتم (رض) اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٨) ، مسند احمد (٤/٢٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4271

【10】

جب تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤ۔

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : جب تم اپنا کتا چھوڑو اور اس پر بسم اللہ پڑھ لو تو اسے (شکار کو) کھاؤ اور اگر اس نے اس (شکار) میں سے کچھ کھایا ہو تو تم اسے نہ کھاؤ، اس لیے کہ اسے اس کتے نے اپنے لیے شکار کیا ہے، اور جب تم اپنے کتے کو چھوڑو پھر اس کے ساتھ اس کے علاوہ (کوئی کتا) پاؤ تو اس شکار کو مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٥) ، البیوع ٣ (٢٠٥٤) ، الصید ٢ (٥٤٧٦) ، (٥٤٨٦) ، صحیح مسلم/الصید ١ (١٩٢٩) ، سنن ابی داود/الصید ٢ (٢٨٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٦٣) ، مسند احمد (٤/٣٨٠) سنن الدارمی/الصید ١ (٢٠٤٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٣١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4272

【11】

جب تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاؤ۔

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں تو اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کس نے شکار کیا ؟ ۔ آپ نے فرمایا : اسے (شکار کو) مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی، کسی دوسرے (کتے) پر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٧٥، ٤٢٧٦، ٤٢٧٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4273

【12】

اگر کتا شکار میں سے کچھ کھالے تو کیا حکم ہے؟

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : اگر وہ نوک سے مارا جائے تو کھالو اور اگر وہ آڑے سے مارا جائے تو وہ موقوذہ ہے (جو حرام ہے) ۔ میں نے آپ سے شکاری کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب تم اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو تو اسے (شکار کو) کھاؤ، میں نے عرض کیا : اگرچہ وہ اسے مار ڈالے ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ وہ اسے مار ڈالے، ہاں اگر اس میں سے اس نے بھی کھالیا تو تم مت کھاؤ اور اگر تم اس کے ساتھ اپنے کتے کے علاوہ کوئی کتا دیکھو اور اس نے شکار مار ڈالا ہو تو مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے اللہ کا نام صرف اپنے کتے پر لیا تھا کسی اور کتے پر نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٦٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4274

【13】

اگر کتا شکار میں سے کچھ کھالے تو کیا حکم ہے؟

عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا : جب تم اپنے کتے کو چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ اسے مار ڈالے اور اس نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو تم کھاؤ، اور اگر اس نے اس میں سے کچھ کھایا ہو تو مت کھاؤ اس لیے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہے نہ کہ تمہارے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4275

【14】

کتوں کو مارنے کا حکم

ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو اور مجسمہ (مورت) ہو ۔ اس دن جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ چھوٹے چھوٹے کتوں (پلوں) کو بھی مارنے کا حکم دے رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٠٧٥) (صحیح) (یہ حدیث صحیح مسلم (٢١٠٥) ، سنن ابی داود (٤١٥٧) میں بسند عبید بن السباق عن ابن عباس عن میمونہ آئی ہے ۔ وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں چھوٹے باغوں کے کتوں کو مارنے اور بڑے باغوں کے کتوں کو چھوڑ دینے کا حکم دے رہے تھے، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، اور صرف کالے کتوں کو مارنے کا حکم دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح بلفظ يقتل کلب الحائط الصغير ويترك كلب الحائط الكبير صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4276

【15】

کتوں کو مارنے کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا سوائے ان (کتوں) کے جو اس حکم سے مستثنی (الگ) ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٣) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١(٣٢٠٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٩) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٥ (١٤) ، مسند احمد (٢/٢٢- ٢٣، ١١٣، ١٣٢، ١٣٦) ، سنن الدارمی/الصید ٣ (٢٠٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جیسے کھیتی، مویشی اور شکار کے کتے، لیکن بعد میں یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا، اور صرف کالے کتوں کو مارنے کا حکم برقرار رہا، لیکن عام کتوں کو بھی بغیر ضرورت پالنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا (دیکھئیے اگلی حدیث) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4277

【16】

کتوں کو مارنے کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اونچی آواز سے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرماتے سنا، چناچہ کتے مار دیے جاتے سوائے شکاری کتوں کے یا جو جانوروں کی رکھوالی کرتے ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصید ١ (٣٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٠٢) ، مسند احمد (٢/١٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4278

【17】

کتوں کو مارنے کا حکم

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری، یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے سوا باقی کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١١ (١٥٧١) ، سنن الترمذی/الصید ٤ (١٤٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4279

【18】

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس طرح کے کتے کو ہلاک کرنے کا حکم فرمایا؟

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق) ہیں ١ ؎ تو میں ان سب کو قتل کا ضرور حکم دیتا، اس لیے تم ان میں سے بالکل کالے کتے کو (جس میں کسی اور رنگ کی ذرا بھی ملاوٹ نہ ہو) قتل کرو، اس لیے کہ جن لوگوں نے بھی کھیت، شکار یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ کسی کتے کو رکھا تو ان کے اجر میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصید ١(٢٨٤٥) ، سنن الترمذی/الصید ٣(١٤٨٦) ، ٤(١٤٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢(٣٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٤٩) مسند احمد (٤/٨٥، ٨٦ و ٥/٥٤، ٥٦، ٥٧) ، سنن الدارمی/الصید ٣ (٢٠٥١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٢٩٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کی طرح یہ بھی ایک مخلوق ہیں۔ ٢ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوپایوں کی نگہبانی، زمین جائیداد کی حفاظت اور شکار کی خاطر کتوں کا پالنا درست ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4280

【19】

جس مکان میں کتا موجود ہو وہاں پر فرشتوں کا داخل نہ ہو نا

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ملائکہ (فرشتے) ١ ؎ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر (مجسمہ) ہو یا کتا ہو یا جنبی (ناپاک شخص) ہو ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٢ (ضعیف) ” حدیث ولا جنب کے لفظ سے ضعیف ہے) (اس کے راوی ” نجی “ لین الحدیث ہیں، لیکن اگلی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، مگر اس میں ” جنبی “ کا لفظ نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: فرشتوں سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں نہ کہ حفاظت کرنے والے فرشتے، کیونکہ حفاظت کرنے والے فرشتوں کا کسی انسان یا انسان کے رہنے والی جگہ سے دور رہنا ممکن نہیں۔ ٢ ؎: حدیث میں صحت و ثبوت ہونے کے اعتبار سے جنبی کا لفظ منکر یعنی ضعیف ہے اور کتا سے مراد شکار، کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے مقصد سے پالے جانے والے کتوں کے علاوہ کتے مراد ہیں، اور تصویر سے وہ تصویریں مراد ہیں جس کا سایہ ہوتا ہے، یعنی ہاتھ سے بنائے ہوئے مجسمے، یا دیواروں پر لٹکائی جانے والی کاغذ پر بنی ہوئی تصویریں ہیں، کرنسی نوٹوں، کتابوں اور رسائل و جرائد میں بنی ہوئی تصویروں سے بچنا اس زمانہ میں بڑا مشکل بلکہ محال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ق دون قوله ولا جنب صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4281

【20】

جس مکان میں کتا موجود ہو وہاں پر فرشتوں کا داخل نہ ہو نا

ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسے گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتے، یا تصاویر (مجسمے) ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٢٥) ، ١٧(٣٣٢٢) ، المغازي ١٢ (٤٠٠٢) ، اللباس ٨٨ (٥٩٤٩) ، ٩٢ (٥٩٧٥) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٨ (٤١٥٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٤ (٢٨٠٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٤ (٣٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٩) ، مسند احمد (٤/٢٨، ٢٩، ٣٠) ویأتي عند المؤلف في الزینة ١١١ (بأرقام ٥٣٤٩، ٥٣٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4282

【21】

جس مکان میں کتا موجود ہو وہاں پر فرشتوں کا داخل نہ ہو نا

ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز صبح کو رسول اللہ ﷺ بہت غمگین اور اداس اٹھے، میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے آپ کی حالت آج کچھ بدلی بدلی عجیب و غریب لگ رہی ہے، آپ نے فرمایا : جبرائیل نے مجھ سے رات میں ملنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ ملنے نہیں آئے، اللہ کی قسم ! انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ، آپ اس دن اسی طرح (غمزدہ) رہے، پھر آپ کو کتے کے ایک بچے (پلے) کا خیال آیا جو ہمارے تخت کے نیچے تھا، آپ نے حکم دیا تو اسے نکالا گیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اس سے اس جگہ پر چھینٹے مارے، پھر جب شام ہوئی تو آپ کو جبرائیل (علیہ السلام) ملے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : آپ نے مجھ سے گزشتہ رات ملنے کا وعدہ کیا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : جی ہاں، لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو یا تصویر (مجسمہ) ہو، پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٥) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٨ (٤١٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٨) ، مسند احمد (٦/٣٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4283

【22】

جانوروں کے گلے کی حفاظت کی خاطر کتا پالنے کی اجازت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کے اجر سے دو قیراط اجر کم ہوگا، سوائے شکاری یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٦ (٥٤٨٠) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠(١٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٥٠) مسند احمد (٢/٤٧، ١٥٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4284

【23】

جانوروں کے گلے کی حفاظت کی خاطر کتا پالنے کی اجازت

سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ سفیان بن ابی زہیر شنائی (رض) ہمارے پاس آئے اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس نے ایسا کتا پالا جو نہ کھیت کی حفاظت کرے اور نہ جانوروں کی تو اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوگا ، میں نے عرض کیا : سفیان ! کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں، اس مسجد کے رب کی قسم ! ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحرث ٣ (٢٣٢٣) ، بدء الخلق ١٧ (٣٣٢٥) ، صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الصید ٢ (٣٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٤٤٧٦) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٥ (١٣) ، مسند احمد (٥/٢١٩، ٢٢٠) ، سنن الدارمی/الصید ٢ (٢٠٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک قیراط اور دو قیراط کا اختلاف شاید زمان و مکان کے اعتبار سے ہے، چناچہ ابتداء میں کتوں کے قتل کا حکم ہوا پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور ثواب میں سے دو قیراط کی کمی کی خبر دی گئی پھر اس میں تخفیف ہوئی اور ایک قیراط کی خبر دی گئی (واللہ اعلم) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4285

【24】

شکار کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے شکار کرنے والے کتے یا جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٣١٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4286

【25】

شکار کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت سے متعلق

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے شکاری کتے یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٣١) ، مسند احمد (٢/٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4287

【26】

کھیت کی حفاظت کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت

عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے شکاری کتے، یا جانوروں یا کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کا اجر ایک قیراط کم ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٨٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4288

【27】

کھیت کی حفاظت کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے شکاری کتے یا کھیتی اور جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو اس کے عمل (اجر) میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (البیوع ٣١) (١٥٧٥) سنن ابی داود/الصید ١(٢٨٤٤) ، سنن الترمذی/الصید ٤(١٤٩٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧١) ، مسند احمد (٢/٢٦٧، ٣٤٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4289

【28】

کھیت کی حفاظت کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی ایسے کتے کو پالا جو نہ تو شکاری ہو نہ جانوروں کی نگرانی کے لیے ہو اور نہ ہی زمین (کھیتی) کی رکھوالی کے لیے، تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٣٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4290

【29】

کھیت کی حفاظت کرنے کے واسطے کتا پالنے کی اجازت

عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے یا شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کے عمل (اجر) میں سے ایک قیراط کم ہوگا ، عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں : ابوہریرہ (رض) نے یہ بھی کہا : یا کھیتی کا کتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٠ (١٥٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4291

【30】

کتے کی قیمت لینے کی ممانعت

ابومسعود عقبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت ١ ؎ زانیہ عورت کی کمائی ٢ ؎ اور کاہن کی اجرت ٣ ؎ سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١١٣ (٢٢٣٧) ، الإجارة ٢٠ (٢٢٨٢) ، الطلاق ٥١(٥٣٤٦) ، الطب ٤٦ (٥٧٦١) ، صحیح مسلم/المساقاة ٩ (البیوع ٣٠) (١٥٦٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٤١(٣٤٢٨) ، ٦٥(٣٤٨١) ، سنن الترمذی/النکاح ٣٧ (١١٣٣) ، البیوع ٤٦ (١٢٧٦) ، الطب ٢٣ (٢٠٧١) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٩(٢١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠١٠) ، موطا امام مالک/البیوع ٢٩ (٦٨) ، مسند احمد ١/١١٨، ١٢٠، ١٤٠، سنن الدارمی/البیوع ٣٤ (٢٦١٠) ، ویأتي عند المؤلف في البیوع ٩١ (برقم ٤٦٧٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کتا نجس و ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خریدو فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر، جائیداد اور جانوروں کی رکھوالی کے لیے ہو۔ مگر ایسے کتوں کی بھی تجارت ناپسندیدہ ہے، اور جس حدیث میں اس کی رخصت کی بات آئی ہے اس کی صحت میں سخت اختلاف ہے، (جیسے حدیث نمبر ٤٣٠٠ ) ٢ ؎ چونکہ زنا بڑے گناہوں اور فحش کاموں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ٣ ؎: علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا بڑا گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل طریقے سے لوگوں سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4292

【31】

کتے کی قیمت لینے کی ممانعت

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کتے کی قیمت حلال نہیں، نہ ہی کاہن کی اجرت، اور نہ ہی زانیہ عورت کی کمائی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٦٥ (٣٤٨٤) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4293

【32】

کتے کی قیمت لینے کی ممانعت

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بری کمائی زانیہ عورت کی کمائی، کتے کی قیمت، اور پچھنا لگانے کی اجرت ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساقاة ٩ (البیوع ٣٠) (١٥٦٨) ، سنن ابی داود/البیوع ٣٩ (٣٤٢١) ، سنن الترمذی/البیوع ٤٦ (١٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٥٥) ، مسند احمد (٣/٤٦٤، ٤٦٥ و ٤/١٤١) ، سنن الدارمی/البیوع ٧٨ (٢٦٦٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کسب الحجام کے سلسلہ میں شرالکسب کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہونے کے معنی میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے محیصہ (رض) کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ ﷺ نے بذات خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی، پس پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق شر کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے ثوم و بصل (لہسن، پیاز) کو خبیث کہا جب کہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ یہ پیشہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4294

【33】

شکاری کتے کی قیمت لینا جائز ہے اس سے متعلق حدیث رسول ﷺ

جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلی ١ ؎ اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا، سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : حماد بن سلمہ سے حجاج (حجاج بن محمد) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٦٩٧) ، ویأتي عند المؤلف في البیوع ٩٠ (برقم : ٤٦٧٢) (صحیح) ” إلا کلب صید “ کا جملہ امام نسائی کے یہاں صحیح نہیں ہے، لیکن البانی صاحب نے طرق اور شواہد کی روشنی میں اس کو بھی صحیح قرار دیا ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ٢٩٧١، ٢٩٩٠، وتراجع الالبانی ٢٢٦ ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ بلی سے کوئی ایسا فائدہ جو مقصود ہو حاصل ہونے والا نہیں اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے اس کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے اور یہی اس کے حرام ہونے کی علت اور اس کا سبب ہے۔ ٢ ؎: اس کے راوی ابوالزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یہ لفظ مسلم کی روایت میں ہے بھی نہیں ہے، انہیں اسباب و وجوہ سے بہت سے ائمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئیے فتح الباری ( ٤/٤٢٧ ) اور التعلیقات السلفیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4295

【34】

شکاری کتے کی قیمت لینا جائز ہے اس سے متعلق حدیث رسول ﷺ

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں، آپ نے فرمایا : تمہارے لیے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ۔ میں نے عرض کیا : اگرچہ وہ اسے قتل کر ڈالیں ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ قتل کر ڈالیں ، اس نے کہا : (میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہٰذا) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے، آپ نے فرمایا : جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ، اس نے کہا : اگر وہ (شکار تیر کھا کر) غائب ہوجائے ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ وہ غائب ہوجائے، جب تک کہ تم اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی چیز کا نشان نہ پاؤ یا اس میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو ١ ؎۔ ابن سواء کہتے ہیں : میں نے اسے ابو مالک عبیداللہ بن اخنس سے سنا ہے وہ اسے بسند عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) عن النبی کریم ﷺ روایت کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٧٥٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصید ٢(٢٨٥٧) ، مسند احمد (٢/١٨٤) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے مؤلف نے باب پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب شکار کے لیے کتے استعمال کرنے کی رخصت ہے تو بھر اس کی خریدو فروخت کی بھی رخصت ہے، لیکن جمہور اس استدلال کے خلاف ہیں، پچھلی احادیث میں صراحت ہے کہ کتے کی قیمت لینی دینی حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4296

【35】

اگر پالتو جانور وحشی ہوجائے؟

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تہامہ کے ذی الحلیفہ میں تھے تو لوگوں کو کچھ اونٹ ملے اور کچھ بکریاں (بطور مال غنیمت) اور رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں کے پیچھے تھے، تو آگے کے لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم غنیمت سے پہلے) انہیں ذبح کیا اور ہانڈیاں چڑھا دیں، اتنے میں رسول اللہ ﷺ پہنچے، آپ نے حکم دیا تو ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا، ابھی وہ اسی میں مصروف تھے کہ اچانک ایک اونٹ بھاگ نکلا، لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے، وہ اس کو پکڑنے دوڑے تو اس نے انہیں تھکا دیا، ایک شخص نے ایک تیر پھینکا تو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا (تیر لگ جانے سے) اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان چوپایوں میں بعض وحشی ہوجاتے ہیں جنگلی جانوروں کی طرح، لہٰذا جو تم پر غالب آجائے (یعنی تمہارے ہاتھ نہ آئے) اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ٣ (٢٤٨٨) ، ١٦(٢٥٠٧) ، الجہاد ١٩١(٣٠٧٥ مطولا) ، الذبائح ١٥ (٥٤٩٨) ، ١٨ (٥٥٠٣) ، ٢٣ (٥٥٠٩) ، ٣٦ (٥٥٤٣) ، ٣٧ (٥٥٤٤) ، صحیح مسلم/الأضاحي ٤ (١٩٦٨) ، سنن ابی داود/٤ الأضاحي ١٥ (٢٨٢١) ، سنن الترمذی/الصید ١٩(١٤٩٢) ، السیر ٤٠ (١٦٠٠) (مختصراً ) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٩ (٣١٨٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٦١) ، مسند احمد (٣/٤٦٣، ٤٦٤، و ٤/١٤٠، سنن الدارمی/الأضاحي ١٥ (٢٠٢٠) ، ویأتي عند المؤلف في الضحایا ١٥، ٢٦ (بأرقام ٤٣٩٦، ٤٤٠٨، ٤٤١٥، ٤٤١٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : جب اختیاری طور پر ذبح نہ کرسکو تو ذبح کی اضطراری شکل اختیار کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4297

【36】

اگر کوئی شکار کو تیر مارے پھر وہ تیر کھا کر پانی میں گر جائے؟

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے شکار کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا : جب تم اپنا تیر چلاؤ تو اللہ کا نام لو پھر اگر تم دیکھو کہ وہ اس تیر سے مرگیا تو اسے کھاؤ إلا یہ کہ وہ پانی میں گرجائے، اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ وہ پانی سے مرا ہے یا تیر سے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4298

【37】

اگر کوئی شکار کو تیر مارے پھر وہ تیر کھا کر پانی میں گر جائے؟

عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکار کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا : جب تم اپنا تیر چلاؤ یا کتا دوڑاؤ اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ تمہارے تیر سے مرجائے تو اسے کھاؤ، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! اگر وہ ایک رات میری پہنچ سے باہر رہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم اپنا تیر پاؤ اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کا اثر نہ پاؤ تو اسے کھاؤ اور اگر وہ پانی میں گرجائے تو نہ کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4299

【38】

اگر شکار تیر کھا کر غائب ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم لوگ شکاری ہیں، ہم میں سے ایک شخص شکار کو تیر مارتا ہے تو وہ ایک رات یا دو رات غائب ہوجاتا ہے، وہ اس کا پتا لگاتا ہے یہاں تک کہ اسے مردہ پاتا ہے اور اس کا تیر اس کے اندر ہوتا ہے، آپ نے فرمایا : جب تم اس میں تیر پاؤ اور اس میں کسی درندے کا نشان نہ ہو اور تمہیں یقین ہوجائے کہ وہ تمہارے تیر سے مرا ہے تو اسے کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصید ٤ (١٤٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٥٤) ، مسند احمد (٤/٣٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4300

【39】

اگر شکار تیر کھا کر غائب ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنا تیر اس (شکار) میں دیکھو اور اس کے علاوہ اس میں کوئی نشان نہ دیکھو اور تمہیں یقین ہوجائے کہ اسی سے وہ مرا ہے تو اسے کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4301

【40】

اگر شکار تیر کھا کر غائب ہوجائے تو کیا حکم ہے؟

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر میں ایک رات کے بعد اس کے نشانات ڈھونڈتا ہوں، آپ نے فرمایا : جب تم اس کے اندر اپنا تیر پاؤ اور اس میں سے کسی درندے نے نہ کھایا ہو تو تم کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4302

【41】

جس وقت شکار کے جانور سے بدبو آنے لگ جائے؟

ابوثعلبہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اپنا شکار تین دن کے بعد پائے تو اسے کھائے إلا کہ اس میں بدبو پیدا ہوگئی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٢ (١٩٣١) ، سنن ابی داود/الصید ٤ (٢٨٦١) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٦٣) ، مسند احمد (٤/١٩٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4303

【42】

جس وقت شکار کے جانور سے بدبو آنے لگ جائے؟

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں، وہ شکار پکڑ لیتا ہے، لیکن مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے ذبح کروں تو میں پتھر (چاقو نما سفید پتھر) سے یا (دھاردار) لکڑی سے اسے ذبح کرتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے چاہو خون بہاؤ اور اللہ کا نام لو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٥ (٢٨٢٤) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ٥ (٣١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٧٥) ، مسند احمد (٤/٢٥٦، ٢٥٨) ، ویأتي عند المؤلف فی الضحایا ١٩ (برقم : ٤٤٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4304

【43】

معراض کے شکار سے متعلق

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سدھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لیے شکار پکڑ کر لاتے ہیں، کیا میں اس سے کھا سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم کتے دوڑاؤ یا چھوڑو، (یعنی سدھائے ہوئے) اور اللہ کا نام لے لو اور وہ تمہارے لیے شکار پکڑ لائیں تو تم کھاؤ۔ میں نے عرض کیا : اور اگر وہ اسے مار ڈالیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں جب تک کہ اس میں کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جو ان کتوں میں سے نہیں تھا ۔ میں نے عرض کیا : میں معراض (بےپر کے تیر) سے شکار کرتا ہوں اور مجھے شکار مل جاتا ہے تو کیا میں کھاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم معراض (بغیر پر والا تیر) پھینکو اور بسم اللہ پڑھ لو اور وہ (شکار کو) چھید ڈالے تو کھاؤ اور اگر وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٧٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: شکار کو چھید ڈالنے کی صورت میں اس سے خون بہے گا جو ذبح کا اصل مقصود ہے، اور آڑا لگنے کی صورت میں صرف چوٹ لگے گی اور خون بہے بغیر شکار مرجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4305

【44】

جس جانور پر آڑا معراض پڑے

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب (شکار میں) معراض کی نوک لگے تو اسے کھاؤ اور جب آڑا معراض پڑے اور وہ (شکار) مرجائے تو وہ موقوذہ ١ ؎ ہے، اسے مت کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٧٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: موقوذہ: چوٹ کھایا ہوا جانور، اس کا کھانا حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4306

【45】

معراض کے نوک سے جو شکار مارا جائے اس سے متعلق حدیث

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کے شکار کے پوچھا سوال کیا تو آپ نے فرمایا : جب (شکار میں) معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کی نوک لگے تو کھاؤ اور جب وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٨٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4307

【46】

معراض کے نوک سے جو شکار مارا جائے اس سے متعلق حدیث

عدی بن حاتم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : جب اس (شکار) میں معراض کی نوک لگے تو کھاؤ اور جب وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ کیونکہ وہ موقوذہ (چوٹ کھایا ہوا شکار) ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٦٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4308

【47】

شکار کے پیچھے جانا

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو باديہ (دیہات) میں رہے گا وہ سخت مزاج ہوگا، اور جو شکار کا پیچھا کرے گا وہ (اس کے علاوہ دوسری چیزوں سے) غافل ہوجائے گا، اور جو بادشاہ کا چکر لگائے گا وہ فتنے اور آزمائش میں پڑجائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصید ٤ (٢٨٥٩) ، سنن الترمذی/الفتن ٦٩ (٢٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٣٩) مسند احمد (١/٣٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4309

【48】

خرگوش سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک خرگوش لایا، اس نے اسے بھون رکھا تھا، اسے آپ کے سامنے رکھ دیا، رسول اللہ ﷺ رکے رہے اور خود نہیں کھایا اور لوگوں کو کھانے کا حکم دیا۔ اعرابی بھی رک گیا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : تمہیں کھانے سے کیا چیز مانع ہے ؟ وہ بولا : میں ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : اگر تمہیں روزے رکھنے ہیں تو چاندنی راتوں (تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخوں) میں رکھا کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٢٣ (ضعیف) (اس کے راوی ” عبدالملک “ مدلس اور مختلط ہیں، موسیٰ بن طلحہ سے صحیح سند ” عن أبی ذر “ ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4310

【49】

خرگوش سے متعلق

عمر (رض) کہتے ہیں کہ قاحہ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) کے دن ہمارے ساتھ کون تھا ؟ ابوذر (رض) بولے : میں، (اس دن) نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک خرگوش لایا گیا تو جو لے کر آیا اس نے کہا : میں نے اسے حیض آتے دیکھا ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے اسے نہیں کھایا پھر فرمایا : تم لوگ کھاؤ، ایک شخص نے کہا : روزہ دار ہوں، آپ نے فرمایا : تمہارا یہ کون سا روزہ ہے ؟ اس نے کہا : ہر ماہ تین دن والا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو تم ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں راتوں کے روزے کیوں نہیں رکھتے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٤٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4311

【50】

خرگوش سے متعلق

انس (رض) کہتے ہیں کہ مرالظہران میں میں نے ایک خرگوش کو چھیڑا اور اسے پکڑ لیا، میں اسے لے کر ابوطلحہ (رض) کے پاس آیا، انہوں نے اسے ذبح کیا، پھر مجھے اس کی دونوں رانیں اور پٹھے دے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا، تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٥ (٢٥٧٢) ، الصید ١٠ (٥٤٨٩) ، ٣٢ (٥٥٣٥) ، صحیح مسلم/الصید ٩ (١٩٥٣) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٧ (٣٧٩١) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٢ (١٧٨٩) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٧ (٣٢٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٩) ، مسند احمد (٣/١١٨، ١٧١، ١٩١) ، سنن الدارمی/الصید ٧ ٩٢٠٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مرالظہران مکے سے کچھ دور ایک مقام کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4312

【51】

خرگوش سے متعلق

ابن صفوان (رض) کہتے ہیں کہ مجھے دو خرگوش ملے، انہیں ذبح کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے انہیں سفید پتھر سے ذبح کردیا ١ ؎، پھر نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں پوچھا، تو آپ نے مجھے انہیں کھانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الضحایا ١٥ (٢٨٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٧ (٣٢٤٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢٤) ، سنن الدارمی/الصید ٧ (٢٠٥٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٤٠٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ سفید پتھر نوک دار تھا، کسی بھی دھاردار یا نوکدار چیز سے جس سے خون بہہ جائے، ذبح کردینے سے جانور کا ذبح کرنا شرع کے مطابق صحیح ہوگا اور اس کا کھانا حلال ہوگا، ذبح کا اصل مقصود اللہ کا نام لینا اور خون بہنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4313

【52】

گوہ سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٣ (١٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٤٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصید ٣٣ (٥٥٣٦) ، صحیح مسلم/الصید ٧ (١٩٤٣) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٤ (١١) ، مسند احمد (٢/٩، ١٠، ٣٣، ٤١، ٤٦، ٦٠، ٦٢، ٧٤، ١١٥) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٥٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لیے یا طلاء کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ ﷺ کے دستر خوان پر یہ کھایا گیا اس لیے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم ﷺ کے دستر خوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے : ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈاز رعی اور پانی والے علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہوجاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ - ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) ایسا نہیں کرتی۔ نجدی ضب (گوہ) کی کھال کو پکا کر عرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو ضبة کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے ؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانور کو وَرَل کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے، جو ضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں : وَرَل عمدہ قامت اور لمبی دم والا جانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دو ہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے، دم کا رنگ سبز زردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلا ہوجاتا ہے، اور یہ صرف ٹڈی، چھوٹے کیڑے اور سبز گھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلا سب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹا کرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضو تناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو : تاج العروس : مادہ ورل، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب (گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت و حرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیئے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبو اٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کا کھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں جلالہ کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کردی : نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور ورل نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکار مشکل کام ہے، ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے، ضب چیر پھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے، جب کہ ورل چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے، ضب کھُردرا اور کانٹے دار ہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے، ضب گوشت بالکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے، اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آجائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بنا پر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایسا جانور ہے جس کو پانی سے پیار اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کر کے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیئے، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیئے اور عاملین حدیث کے نقطہٰ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیئے۔ گوہ کی کئی قس میں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشتر کہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفید ہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں : نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابر ہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم … اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات : ٤٢٧ ) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں : مشہور جانور ہے، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم و تر بدرجہ اول، افعال و استعمال بطور مقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ٢٧٥ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4314

【53】

گوہ سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول ! ضب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں نہ اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ٧٢٤٠، ٨٣٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4315

【54】

گوہ سے متعلق حدیث

خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول ! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید (رض) نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول ! کیا ضب حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آرہی ہے ، پھر خالد (رض) نے اپنا ہاتھ ضب کی طرف بڑھایا اور اس میں سے کھایا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ١٠ (٥٣٩١) ، ١٤ (٥٤٠٠) ، الذبائح ٣٣ (٥٥٣٧) ، صحیح مسلم/الذبائح ٧ (١٩٤٦) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٨ (٣٧٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٦ (٣٢٤١) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٤) ، موطا امام مالک/الإستئذان ٤ (١٠) ، مسند احمد (٤/٨٨، ٨٩) ، سنن الدارمی/الصید ٨ (٢٠٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4316

【55】

گوہ سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں خالد بن ولید (رض) ١ ؎ نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے (یہ ان کی خالہ تھیں) ٢ ؎، تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے ضب کا گوشت پیش کیا گیا، آپ کا معمول تھا کہ آپ کوئی چیز نہ کھاتے جب تک معلوم نہ ہوجائے کہ وہ کیا ہے، تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا : کیا تم رسول اللہ ﷺ کو نہیں بتاؤ گی کہ آپ کیا کھا رہے ہیں ؟ تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ یہ ضب کا گوشت ہے، چناچہ آپ نے اسے چھوڑ دیا، خالد (رض) کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا وہ حرام ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، لیکن وہ ایسا کھانا ہے جو میری قوم کی زمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آرہی ہے ۔ خالد بن ولید (رض) کہتے ہیں : تو میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے کھایا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ اس حدیث کو ابن الاصم نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، ابن الاصم آپ کی گود میں پلے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا ابن عباس کے دونوں بیٹے عبداللہ اور فضل اور خالد بن الولید تین کی خالہ ہیں، عبداللہ بن عباس کی والدہ کا نام لبابۃ الکبری ام الفضل ہے، اور خالد کی والدہ کا نام لبابۃ الصغریٰ بنت حارث بن حزن الھلالی ہے، رضی اللہ عنھن۔ ٢ ؎: ام المؤمنین خالد بن ولید (رض) کی خالہ تھیں، ابن الاصم یہ یزید بن الاصم، عمرو بن عبید بن معاویہ ہیں اور یزید میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4317

【56】

گوہ سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میری خالہ (ام حفید رضی اللہ عنہا) نے مجھے پنیر، گھی اور ضب دے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، آپ نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دی، لیکن وہ رسول اللہ ﷺ کے دستر خوان پر کھائی گئی ١ ؎ اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ ہی آپ اسے کھانے کا حکم فرماتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٧ (٢٥٧٥) ، الأطعمة ٨ (٥٧٨٩) ، ١٦ (٥٤٠٢) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٨) ، صحیح مسلم/الذبائح ٧ (١٩٤٥) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٨ (٣٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٤٤٨) ، مسند احمد (١/٢٥٤، ٣٢٢، ٣٢٨، ٣٤٠، ٢٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی دوسروں نے ضب بھی کھایا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4318

【57】

گوہ سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان سے ضب کھانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : ام حفید (ابن عباس (رض) کی خالہ) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس گھی پنیر اور ضب بھیجا تو آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دیا، لیکن اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ آپ اسے کھانے کا حکم دیتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4319

【58】

گوہ سے متعلق حدیث

ثابت بن یزید انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ ٹھہرے، لوگوں کو ضب ملی، میں نے ایک ضب پکڑی اور اسے بھونا، پھر اسے لے کر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ نے ایک لکڑی لی اور اس کی انگلیاں گنیں، پھر فرمایا : بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی شکل مسخ کر کے زمین کے کچھ جانوروں کی طرح بنادی گئی، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سا جانور ہے ١ ؎، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں نے اس میں سے کھالیا ہے، تو پھر نہ آپ نے کھانے کا حکم دیا اور نہ ہی روکا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٢٨ (٣٧٩٥) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٦ (٣٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٦٩) ، مسند احمد (٤/٢٢٠) ، ویأتي فیما یلي : ٤٣٢٦، ٤٣٢٧ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: احتمال ہے کہ آپ کا یہ فرمان اس وقت کا ہو جب آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ مسخ کی ہوئی مخلوق تین دن سے زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4320

【59】

گوہ سے متعلق حدیث

ثابت بن یزید بن ودیعہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ضب لایا۔ آپ اسے دیکھنے لگے اور اسے الٹا پلٹا اور فرمایا : ایک امت کی صورت مسخ کردی گئی تھی، نہ معلوم اس کا کیا ہوا، اور میں اس کا علم نہیں، شاید یہ اسی میں سے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4321

【60】

گوہ سے متعلق حدیث

ثابت بن یزید بن ودیعہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ضب لایا، آپ نے فرمایا : ایک امت مسخ کردی گئی تھی ، واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم ٤٢٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4322

【61】

بجو سے متعلق حدیث

ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا، میں نے کہا : کیا وہ شکار ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے کہا : کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ کہا : ہاں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٣٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ضبع: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سربڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع اضبع ہے (المعجم الوسیط : ٥٣٣-٥٣٤ ) ہند و پاک میں اس درندے کو لکڑ بگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیئے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے ضبع کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں : فارسی زبان میں اسے کفتار اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑ بگڑ کھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑ بگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحیدالزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں : اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے ، سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑ بگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیر پھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے : کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے : شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑ بگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) ۔ لکڑ بگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑ بگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر (رض) کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر ٤/١٥٢ ) ، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑ بگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے : قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربک غفور رحيم (سورة الأنعام : 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑ بگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو : الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ٥/١٣٣-١٣٤ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4323

【62】

درندوں کی حرمت سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو بھی دانت (سے پھاڑے) والا درندہ ہو، اسے کھانا حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٢٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤١٣٢) وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصید ٣ (١٤٧٩) ، موطا امام مالک/الصید ٤ (١٤) ، مسند احمد (٢/٤١٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا اور کتا وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4324

【63】

درندوں کی حرمت سے متعلق

ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دانت (سے پھاڑنے) والے تمام درندوں کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ٢٩ (٥٥٣٠) ، الطب ٥٧ (٥٧٨٠) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٢) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٣٣ (٣٨٠٢) ، سنن الترمذی/الصید ١١ (١٧٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٣(٣٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٧٤) ، مسند احمد (٤/١٩٣، ١٩٤، ١٩٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٨(٢٠٢٤) ، ویأتي فیما یلي و برقم : ٤٣٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4325

【64】

درندوں کی حرمت سے متعلق

ابوثعلبہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوٹا ہوا مال حلال نہیں، دانت (سے پھاڑنے) والا درندہ حلال نہیں، اور مجثمہ حلال نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٨٦٥) ، مسند احمد (٤/١٩٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٤٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مجثمہ ہر وہ جانور جسے باندھ کر اس پر تیر وغیرہ چلایا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4326

【65】

گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت

جابر (رض) کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر کے دن گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٣٢١٩) ، الصید ٢٧ (٥٥٢٠) ، ٢٨ (٥٥٢٤) ، صحیح مسلم/الصید ٦ (١٩٤١) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٢٦ (٣٧٨٨) ، ٣٤ (٣٨٠٨) ، سنن الترمذی/الأطعمة ٥ (١٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٣٩) ، مسند احمد (٣/٣٢٢، ٣٥٦، ٣٦١، ٣٦٢، ٣٨٥) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٢ (٢٠٣٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہی جمہور علماء کا مسلک ہے اور یہی صحیح ہے، حنفیہ گھوڑے کے گوشت کو حرام کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4327

【66】

گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے کا گوشت کھلایا ١ ؎ اور گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأطعمة ٥ (١٧٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : کھانے کی اجازت دی، جیسا کہ پچھلی روایت میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4328

【67】

گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر کے دن ہمیں گھوڑے کا گوشت کھلانا اور گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٤٢٣، ٢٥٠٨، ٢٦٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4329

【68】

گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٤ (٣١٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٣٠) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٣٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4330

【69】

گھوڑے کا گوشت حرام ہونے سے متعلق

خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : گھوڑے، خچر اور گدھے کا گوشت کھانا حلال نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٢٦ (٣٧٩٠) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٤ (٣١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٣٥٠٥) ، مسند احمد (٤/٨٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” صالح بن یحییٰ “ ضعیف، اور ان کے باپ ” یحییٰ “ مجہول الحال ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4331

【70】

گھوڑے کا گوشت حرام ہونے سے متعلق

خالد بن ولید (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے گھوڑے، خچر اور گدھے اور دانت والے ہر درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4332

【71】

گھوڑے کا گوشت حرام ہونے سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ گھوڑوں کا گوشت کھاتے تھے، عطاء کہتے ہیں : میں نے کہا : خچر ؟ کہا : نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٣٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: امام نسائی نے پہلے گھوڑے کی حلت سے متعلق باب میں صحیح احادیث کی تخریج کی پھر اس کی حرمت سے متعلق باب میں دو حدیث ذکر کی، جس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں، اور آخر میں جابر (رض) کے اس اثر کو ذکر کر کے اس بات کو راجح قرار دیا کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4333

【72】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

علی (رض) نے ابن عباس (رض) سے کہا : نبی اکرم ﷺ نے خیبر کے دن نکاح متعہ ١ ؎ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٦٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نکاح متعہ یعنی وقتی نکاح جو جاہلیت میں کچھ پیسوں کے بدلے کیا جاتا تھا، شروع اسلام میں یہ حلال تھا، پھر جنگ خیبر کے دن ہمیشہ کے لیے حرام کردیا گیا۔ اس حدیث میں خاص توجہ کی چیز یہ ہے کہ شیعہ متعہ کو اب بھی حلال مانتے ہیں جب کہ آخری ممانعت کی حدیث علی (رض) ہی سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4334

【73】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٣٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4335

【74】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن پالتو گدھوں سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الصید ٢٨ (٥٥٢١) ، صحیح مسلم/الصید ٥ (٥٦١) ، (تحفة الأشراف : ٨١٠٩، ٨١٧٤) ، مسند احمد (٢/٢١، ١٠٢، ١٤٣، ١٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4336

【75】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

اس سند سے بھی ابن عمر (رض) رسول اللہ ﷺ سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں، اس میں انہوں خیبر کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢١٨) ، الصید ٢٨ (٥٥٢١) ، صحیح مسلم/الصید ٥ (١٩٣٨) ، (تحفة الأشراف : ٨١١٦، ٦٧٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4337

【76】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت (پکا ہوا ہو یا غیر پکا ہوا) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٢٦) ، الصید ٢٨ (٥٥٢٥) ، صحیح مسلم/الصید ٥ (١٩٣٨) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٣ (٣١٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٠) ، مسند احمد (٤/٢٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4338

【77】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن ہم نے گاؤں سے باہر کچھ گدھے پکڑ کر پکائے، اتنے میں نبی اکرم ﷺ کے منادی نے آواز لگائی کہ رسول اللہ ﷺ نے (گھریلو) گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے، لہٰذا تم لوگ ہانڈیاں الٹ دو ، چناچہ ہم نے ہانڈیاں الٹ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٢٠ (٣١٥٥) ، المغازي ٣٨ (٤٢٢٠) ، الصید ٢٨ (٥٥٢٦) ، صحیح مسلم/الصید ٥ (١٩٣٧) ، (تحفة الأشراف : ٥١٦٤) ، مسند احمد (٤/٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4339

【78】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت خیبر پہنچے اور وہ سب (خیبر والے) ہماری طرف نکلے تھے، ان کے ساتھ کدال (بیلچے) تھے، جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو کہا : محمد اور فوج، اور جلدی جلدی واپس قلعے میں چلے گئے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر فرمایا : ‏اللہ أكبر اللہ أكبر، خیبر کا برا ہوا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے جنہیں تنبیہ کی جا چکی ہے ، وہاں کچھ گدھے ملے جنہیں ہم نے پکایا، اتنے میں نبی اکرم ﷺ کے منادی نے آواز لگائی : کہا : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہیں گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں اس لیے کہ یہ (یعنی گوشت) رجس (ناپاک) ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٩، و ٥٤٨، و ٣٣٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4340

【79】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

ابوثعلبہ خشنی (رض) کہتے ہیں کہ وہ لوگ (صحابہ کرام) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ کے لیے خیبر گئے، لوگ بھوکے تھے، انہیں وہاں گھریلو گدھوں میں سے کچھ گدھے مل گئے، لوگوں نے ان میں سے کچھ ذبح کیے۔ اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کو حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا : سنو ! پالتو گدھوں کا گوشت اس شخص کے لیے حلال نہیں جو گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٨٦٦) (صحیح) (اس کے راوی ” بقیہ “ ضعیف ہیں، مگر شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ بھی صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی مسلمان کے لیے گدھا کا گوشت کھانا حلال نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4341

【80】

بستی کے گدھوں کے گوشت کھانے سے متعلق حدیث

ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دانت (سے پھاڑ نے) والے تمام درندوں اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٣٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4342

【81】

وحشی گدھے کے گوشت کھانے کی اجازت سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن ہم نے گھوڑوں اور نیل گائے کا گوشت کھایا، اور ہمیں نبی اکرم ﷺ نے (گھریلو) گدھے (کے گوشت کھانے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصید ٦ (١٩٤١) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ١٢ (٣١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٠) ، مسند احمد (٣/٣٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4343

【82】

وحشی گدھے کے گوشت کھانے کی اجازت سے متعلق

عمیر بن سلمہ ضمری (رض) کہتے ہیں کہ اس دوران جب کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ روحاء کے پتھروں میں چل رہے تھے اور لوگ احرام باندھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک زخمی نیل گائے ملی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ممکن ہے اسے زخمی کرنے والا آئے ، اتنے میں قبیلہ بہز کا ایک شخص آیا، اسی نے اس کو زخمی کیا تھا، وہ بولا : اللہ کے رسول ! آپ اس نیل گائے کو لے لیجئے تو آپ نے ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٨٩٤) ، مسند احمد (٣/٣١٨) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4344

【83】

وحشی گدھے کے گوشت کھانے کی اجازت سے متعلق

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک نیل گائے شکار کیا اور اسے اپنے ساتھیوں کے پاس لے کر آئے، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے اور میں حلال (یعنی احرام سے باہر) تھا تو ہم نے اس میں سے کھایا، پھر ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے کہا : ہم اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیتے تو بہتر ہوتا، چناچہ ہم نے آپ ﷺ سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا : تم نے ٹھیک کیا ، پھر فرمایا : کیا تم لوگوں کے پاس اس میں سے کچھ ہے ؟ ہم نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا : ہمیں بھی دو ، تو ہم اس میں سے کچھ گوشت آپ کے پاس لے آئے، آپ نے اس میں سے کھایا حالانکہ آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٣ (٢٥٧٠) ، الجہاد ٤٦ (٢٨٥٤) ، الأطعمة ١٩ (٥٤٠٦، ٥٤٠٧) ، صحیح مسلم/الصید ٨ (١١٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٩) ، مسند احمد (٥/٣٠٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4345

【84】

مرغ کے گوشت کی کھانے کی اجازت سے متعلق حدیث

زہدم سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ (رض) کے پاس ایک مرغی لائی گئی تو لوگوں میں سے ایک شخص وہاں سے ہٹ گیا، ابوموسیٰ اشعری (رض) نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ وہ بولا : میں نے اسے دیکھا کہ وہ کوئی چیز کھا رہی تھی تو میں نے اس کو گندہ سمجھا اور قسم کھالی کہ میں اسے نہیں کھاؤں گا، ابوموسیٰ اشعری (رض) نے کہا : قریب آؤ اور کھاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے کھاتے دیکھا ہے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4346

【85】

مرغ کے گوشت کی کھانے کی اجازت سے متعلق حدیث

زہدم جرمی کہتے ہیں کہ ہم ابوموسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے، اتنے میں انہیں ان کا کھانا پیش کیا گیا اور ان کے کھانے میں مرغی کا گوشت پیش کیا گیا، لوگوں میں بنی تیم کا ایک سرخ آدمی تھا جیسے وہ غلام ہو ١ ؎، وہ کھانے کے قریب نہیں آیا، اس سے ابوموسیٰ (رض) نے کہا : قریب آؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے کھاتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٨١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس لیے کہ عام طور پر غلام عجمی ہوتے ہیں جو رومی یا ایرانی اور ترکی ہوتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4347

【86】

مرغ کے گوشت کی کھانے کی اجازت سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ خیبر کے دن پنجے والے تمام پرندوں کو کھانے سے اور دانت (سے پھاڑنے) والے تمام درندوں کو کھانے سے روکا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الأطعمة ٣٣ (٣٨٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٣ (٣٨٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٣٩) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٤) ، مسند احمد (١/ ٣٣٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اور چونکہ مرغی ان میں سے نہیں ہے اس لیے حلال ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4348

【87】

چڑیوں کے گوشت کھانے کے اجازت سے متعلق حدیث

عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی انسان کسی گوریا، یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چڑیا کو ناحق قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اس کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ اسے ذبح کرے اور کھائے اور اس کا سر کاٹ کر نہ پھینکے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٨٢٩) ، مسند احمد (٢/١٦٦، ١٩٧، ٢١٠) ، سنن الدارمی/الأضاحي ١٦ (٢٠٢١) ، ویأتي عند المؤلف في الضحایا ٤٢ (برقم : ٤٤٥٠) (حسن) (تراجع الالبانی ٤٥٧، صحیح الترغیب والت رہیب ٢٢٦٦ ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث گرچہ ضعیف ہے، لیکن دیگر دلائل سے گوریا حلال پرندوں میں سے ہے (دیکھئیے پچھلی حدیث) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4349

【88】

دریائی مرے ہوئے جانور

ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا : اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سمندر کا مردار حلال ہے اس سے مراد سمندر کے وہ حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مرگئے اور سمندر نے ان کو ساحل کی طرف بہا دیا ہو اسی کو قرآن میں : أحل لکم صيد البحر وطعامه (المائدة : 96) میں طعام سے مراد لیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ کہلاتا ہے جو خشکی میں زندگی نہ گزار سکے جیسے مچھلی۔ مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں اگر کسی جانور کا نص شرعی سے نبی اکرم ﷺ یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کھانا ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ جانور ان کے زمانہ میں موجود تھا تو اس کے نہ کھانے کے بارے میں ان کی اقتداء ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4350

【89】

دریائی مرے ہوئے جانور

جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرم ﷺ نے (سریہ فوجی ٹولی میں) بھیجا، ہم تین سو تھے، ہم اپنا زاد سفر اپنی گردنوں پر لیے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہوگیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کے حصے میں روزانہ ایک کھجور آتی تھی، عرض کیا گیا : ابوعبداللہ ! اتنی سی کھجور آدمی کا کیا بھلا کرے گی ؟ انہوں نے کہا : ہمیں اس کا فائدہ تب معلوم ہوا جب ہم نے اسے بھی ختم کردیا، پھر ہم سمندر پر گئے، دیکھا کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندر نے باہر پھینک دیا ہے، تو ہم نے اسے اٹھارہ دن تک کھایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الشرکة ١ (٢٤٨٣) ، الجہاد ١٢٤ (٢٩٨٣) ، المغازي ٦٥ (٣٤٦٣) ، الصید ١٢ (٥٤٩٤) ، سنن الترمذی/القیامة ٣٤ (٢٤٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١٢(٤١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ٣١٢٥) ، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ ١٠(٢٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4351

【90】

دریائی مرے ہوئے جانور

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح (رض) تھے، ہم قریش کی گھات میں تھے، چناچہ ہم سمندر کے کنارے ٹھہرے، ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے درخت کے پتے کھائے، اتنے میں سمندر نے ایک جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر استعمال کیا، تو ہمارے بدن صحیح ثابت ہوگئے، ابوعبیدہ (رض) نے اس کی ایک پسلی لی پھر فوج میں سے سب سے لمبے شخص کو اونٹ پر بٹھایا، وہ اس کے نیچے سے گزر گیا، پھر ان لوگوں کو بھوک لگی، تو ایک شخص نے تین اونٹ ذبح کئے، پھر ابوعبیدہ (رض) نے اسے روک دیا، (سفیان کہتے ہیں : ابوالزبیر جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں) ، پھر ہم نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا : کیا اس کا کچھ بقیہ تمہارے پاس ہے ؟ پھر ہم نے اس کی آنکھوں کی چربی کا اتنا اتنا گھڑا (بھرا ہوا) نکالا اور اس کی آنکھ کے حلقے میں سے چار لوگ نکل گئے، ابوعبیدہ کے ساتھ ایک تھیلا تھا، جس میں کھجوریں تھیں وہ ہمیں ایک مٹھی کھجور دیتے تھے پھر ایک ایک کھجور ملنے لگی، جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں اس کے نہ ملنے کا احساس ہوا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٦٥ (٤٣٦١) ، الصید ١٢ (٥٤٩٤) ، صحیح مسلم/الصید ٣ (١٩٣٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٩، ٢٧٧٠) ، مسند احمد (٣/٣٠٨) ، سنن الدارمی/الصید ٦ (٢٠٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4352

【91】

دریائی مرے ہوئے جانور

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ (رض) کے ساتھ ایک سریے (فوجی مہم) میں بھیجا، ہمارا زاد سفر ختم ہوگیا، ہمارا گزر ایک مچھلی سے ہوا جسے سمندر نے باہر نکال پھینکا تھا۔ ہم نے چاہا کہ اس میں سے کچھ کھائیں تو ابوعبیدہ (رض) نے ہمیں اس سے روکا، پھر کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے نمائندے ہیں اور اللہ کے راستے میں نکلے ہیں، تم لوگ کھاؤ، چناچہ ہم نے کچھ دنوں تک اس میں سے کھایا، پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو اس کی خبر دی، آپ نے فرمایا : اگر تمہارے ساتھ (اس میں سے) کچھ باقی ہو تو اسے ہمارے پاس بھیجو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٩٩٢) ، مسند احمد (٣/٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گویا کہ آپ ﷺ نے اس کو حلال قرار دیا تبھی تو اس میں سے طلب فرمایا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4353

【92】

دریائی مرے ہوئے جانور

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ (رض) کے ساتھ (ایک فوجی مہم میں) بھیجا، ہم تقریباً تین سو دس لوگ تھے، ہمیں توشہ کے بطور کھجور کا ایک تھیلا دیا گیا، وہ ہمیں ایک ایک مٹھی دیتے، پھر جب ہم اکثر کھجوریں کھاچکے تو ہمیں ایک ایک کھجور دینے لگے، یہاں تک کہ ہم اسے اس طرح چوستے جیسے بچہ چوستا ہے اور اس پر پانی پی لیتے، جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں ختم ہونے پر اس کی قدر معلوم ہوئی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور اسے چبا کر پانی پی لیتے، یہاں تک کہ ہماری فوج کا نام ہی جیش الخبط (یعنی پتوں والا لشکر) پڑگیا، پھر جب ہم سمندر کے کنارے پر پہنچے تو ٹیلے کی طرح ایک جانور پڑا ہوا پایا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ابوعبیدہ (رض) نے کہا : مردہ ہے مت کھاؤ، پھر کہا : رسول اللہ ﷺ کا لشکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے اور ہم مجبور ہیں، اللہ کا نام لے کر کھاؤ، چناچہ ہم نے اس میں سے کھایا اور کچھ گوشت بھون کر سکھا کر رکھ لیا، اس کی آنکھ کی جگہ میں تیرہ لوگ بیٹھے، ابوعبیدہ (رض) نے اس کی پسلی لی پھر کچھ لوگوں کو اونٹ پر سوار کیا تو وہ اس کے نیچے سے گزر گئے، جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا : تمہیں کس چیز نے روکے رکھا ؟ ہم نے عرض کیا : ہم قریش کے قافلوں کا پیچھا کر رہے تھے، پھر ہم نے آپ سے اس جانور (عنبر مچھلی) کا معاملہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے، کیا اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٩٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4354

【93】

مینڈک سے متعلق احادیث

عبدالرحمٰن بن عثمان (رض) عنہ سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ ﷺ کے پاس دوا میں مینڈک کا تذکرہ کیا تو آپ نے اسے مار ڈالنے سے روکا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطب ١١ (٣٨٧١) ، الأدب ١٧٧ (٥٢٦٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٠٦) ، مسند احمد (٣/٤٥٣، ٤٩٩) ، سنن الدارمی/الأضاحي ٢٦ (٢٠٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی آپ ﷺ نے مینڈک کو مار کر دوا میں استعمال کرنے سے روکا، کیونکہ یہ نجس و ناپاک ہے اور ناپاک چیزوں سے علاج حرام ہے، نیز مینڈک کو مارنے سے روکنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کھانا بھی حرام ہے، کیونکہ کھانے کے لیے بھی قتل کرنا پڑتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4355

【94】

ٹڈی سے متعلق حدیث شریف

عبداللہ بن ابی اوفی (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات جنگیں کیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصید ١٣ (٥٤٩٥) ، صحیح مسلم/الصید ٨ (١٩٥٢) ، سنن ابی داود/الأطعمة ٣٥ (٣٨١٢) ، سنن الترمذی/الأطعمة ١٠ (١٨٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨١٨٢) مسند احمد (٤/٣٥٣، ٣٥٧، ٣٨٠) ، سنن الدارمی/الصید ٥ (٢٠٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4356

【95】

ٹڈی سے متعلق حدیث شریف

ابویعفور کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے ٹڈی کے مارنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چھ جنگیں کی ہیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4357

【96】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے ایک نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دینے کا حکم دیا اور وہ جلا دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی : اگر تمہیں کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو (ایک ہی کو مارتے مگر) تم نے ایک ایسی امت (مخلوق) کو مار ڈالا جو (ہماری) تسبیح (پاکی بیان) کر رہی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٥٣ (٣٠١٩) ، بدء الخلق ١٦ (٣٣١٩) ، صحیح مسلم/السلام ٣٩ (٢٢٤١) ، سنن ابی داود/الأدب ١٧٦ (٥٢٦٦) ، سنن ابن ماجہ/الصید ١٠(٣٢٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٠٧، ١٣٣١٩) ، مسند احمد (٢/٤٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نبی کی شریعت میں کاٹنے والی چیونٹی کو جلانا جائز تھا مگر اسلامی شریعت میں جلانا جائز نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4358

【97】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک نبی ایک درخت کے نیچے ٹھہرے تو انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے ان کے گھروں کے بارے میں حکم دیا تو ان میں جو بھی تھا اسے جلا دیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل کی : آخر تم نے صرف ایک کو کیوں نہ جلایا ۔ اشعث کہتے ہیں : ابن سیرین سے روایت ہے وہ ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ (رض) نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں، اس میں یہ زائد ہے اس لیے کہ وہ تسبیح (اللہ کی پاکی بیان) کر رہی تھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٢٥٧، ١٤٤٠٤) ، ویأتي عند المؤلف : ٤٣٦٦) (صحیح) (حدیث اور حسن بصری کا اثر دونوں صحیح ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4359

【98】

چیو نٹی مارنے سے متعلق حدیث

اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اسی طرح مروی ہے لیکن یہ مرفوع نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٦٣ (ضعیف الإسناد) (حسن بصری مدلس ہیں، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ان کا سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4360