47. کتاب ایمان اور اس کے ارکان
افضل اعمال
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : سب سے بہتر عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٨ (٢٦) ، الحج ٤(١٥١٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٦ (٨٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣١٠١) ، مسند احمد (٢/٢٦٤، ٢٨٧، ٣٤٨، ٣٨٨، ٥٣١) ، سنن الدارمی/الجہاد ٤ (٢٤٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایمان کے لغوی معنیٰ تصدیق کے ہیں اور شرع کی اصطلاح میں ایمان یہ ہے : زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء وجوارح سے عمل کرنا، نیز ایمان کا طاعت و فرمانبرداری سے بڑھنا اور عصیان و نافرمانی سے گھٹنا سلف کا عقیدہ ہے۔ اور ایمان سب سے بہتر عمل اس لیے ہے کہ تمام اچھے اور نیک اعمال و افعال کا دارومدار ایمان ہی پر ہے، اگر ایمان نہیں ہے تو کوئی بھی نیک عمل مقبول نہیں ہوگا، بہت سی احادیث میں مختلف اعمال کو أفضل عمل سب سے اچھا کام ) بتایا گیا ہے، تو ( ایمان کے بعد ) پوچھنے والے یا پوچھے جانے کے وقت کے خاص حالات اور پس منظر کے لحاظ سے جواب دیا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4985
افضل اعمال
عبداللہ بن حبشی خثعمی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایسا ایمان جس میں کوئی شک نہ ہو، اور ایسا جہاد جس میں چوری نہ ہو، اور حج مبرور ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٢٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مقبول حج جس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے بعد گناہوں سے بچا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4986
ایمان کا مزہ
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس میں ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس اور اس کا مزہ پائے گا، ایک یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں، دوسرے یہ کہ آدمی محبت کرے تو اللہ کے لیے اور نفرت کرے تو اللہ کے لیے، تیسرے یہ کہ اگر بڑی آگ بھڑکائی جائے تو اس میں گرنا اس کے نزدیک زیادہ محبوب ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٢٨) ، مسند احمد (٣/٢٠٧، ٢٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کسی روایت میں ایمان کی مٹھاس ہے اور کسی میں اسلام کی مٹھاس ایسی جگہوں میں ایمان اور اسلام دونوں کا معنی مطلب ایک ہے یعنی دین اسلام، اور جہاں دونوں لفظ ایک سیاق میں آئیں تو دونوں کا معنی الگ الگ ہوتا ہے۔ (جیسے حدیث نمبر ٤٩٩٣ میں) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4987
ایمان کے ذائقہ سے متعلق
انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس میں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا، ایک یہ کہ جو کسی آدمی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے، دوسرے یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ہر ایک سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں اور تیسرے یہ کہ آگ میں گرنا اس کے لیے زیادہ محبوب ہو بہ نسبت اس کے کہ وہ کفر کی طرف لوٹے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نجات دے دی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٩ (٢١) ، ١٤(٢١) ، الأدب ٤٢ (٦٠٤١) الإکراہ ١ (٦٩٤١) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٥(٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٥) ، مسند احمد ٣/١٧٢، ٢٤٨، ٢٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4988
اسلام کی شیر ینی
انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس میں پائی جائیں گی وہ اسلام کی مٹھاس پائے گا، ایک یہ کہ جس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ جو آدمی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے، تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں گرنا ناپسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4989
اسلام کی تعریف
عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا، جس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے، اس پر سفر کے آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی اسے جانتا بھی نہیں تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر بیٹھا اور اپنے گھٹنے کو آپ کے گھٹنے سے لگا لیا، اپنی ہتھیلیاں آپ کی رانوں پر رکھی، پھر کہا : محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، رمضان کے روزے رکھنا، اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرنا ، وہ بولا : آپ نے سچ فرمایا، ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ خود ہی آپ سے سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر بولا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا ١ ؎۔ وہ بولا : آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے کہا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ٢ ؎۔ وہ بولا : اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ اس نے کہا : اچھا تو مجھے اس کی نشانی بتائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : ایک یہ کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ٣ ؎۔ دوسرے یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس اور بکریاں چرانے والے بڑے بڑے محل تعمیر کریں گے ۔ عمر (رض) کہتے ہیں : میں تین (دن) تک ٹھہرا رہا ٤ ؎، پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمر ! تم جانتے ہو پوچھنے والا کون تھا ؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے، وہ تمہیں تمہارے دین کے معاملات سکھانے آئے تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ١(٨) ، سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٥، ٤٦٩٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٤ (٢٦١٠) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٧٢٠) ، مسند احمد (١/٢٧، ٢٨، ٥١، ٥٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس نے ہر اس چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر چیز اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔ ٢ ؎: یعنی : اگر یہ کیفیت طاری نہ ہو سکے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو تو یہ تو یقین جانو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے، اس لیے اسی کیفیت میں عبادت کرو۔ ٣ ؎: اس کے کئی معنی بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔ ٤ ؎: تین دن، تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4990
ایمان اور اسلام کی صفت
ابوہریرہ اور ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے درمیان اس طرح بیٹھتے تھے کہ اجنبی آتا تو آپ کو پہچان نہیں پاتا جب تک پوچھ نہ لیتا، ہم نے رسول اللہ ﷺ سے خواہش ظاہر کی کہ ہم آپ کے بیٹھنے کی جگہ بنادیں تاکہ جب کوئی اجنبی شخص آئے تو آپ کو پہچان لے، چناچہ ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا جس پر آپ بیٹھتے تھے۔ ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ پر بیٹھے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا، جس کا چہرہ سب لوگوں سے اچھا تھا، جس کے بدن کی خوشبو سب لوگوں سے بہتر تھی، گویا کپڑوں میں میل لگا ہی نہ تھا، اس نے فرش کے کنارے سے سلام کیا اور کہا : السلام علیک یا محمد اے محمد ! آپ پر سلام ہو، آپ نے سلام کا جواب دیا، وہ بولا : اے محمد ! کیا میں نزدیک آؤں ؟ آپ نے فرمایا : آؤ، وہ کئی بار کہتا رہا : کیا میں نزدیک آؤں ؟ اور آپ ﷺ اس سے فرماتے رہے : آؤ، آؤ، یہاں تک کہ اس نے اپنا ہاتھ آپ کے دونوں گھٹنوں کے اوپر رکھا۔ وہ بولا : اے محمد ! مجھے بتائیے، اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز ادا کرو، زکاۃ دو ، بیت اللہ کا حج کرو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ وہ بولا : جب میں ایسا کرنے لگوں تو کیا میں مسلمان ہوگیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : آپ نے سچ کہا۔ جب ہم نے اس شخص کی یہ بات سنی کہ آپ نے سچ کہا تو ہمیں عجیب لگا (خود ہی سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی) ۔ وہ بولا : محمد ! مجھے بتائیے، ایمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، کتاب پر، نبیوں پر ایمان رکھنا اور تقدیر پر ایمان لانا ، وہ بولا : کیا اگر میں نے یہ سب کرلیا تو میں مومن ہوگیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں ، وہ بولا : آپ نے سچ کہا۔ پھر بولا : محمد ! مجھے بتائیے، احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ وہ بولا : آپ نے سچ کہا۔ پھر بولا : محمد ! مجھے بتائیے کہ قیامت کب آئے گی ؟ یہ سن کر آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے سوال دہرایا تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر سوال دہرایا تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا پھر آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا : جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ قیامت کے آنے کے متعلق سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ البتہ اس کی کچھ نشانیاں ہیں جن سے تم جان سکتے ہو : جب تم دیکھو کہ جانوروں کو چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنا رہے ہیں اور دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے زمین کے بادشاہ ہو رہے ہیں، اور دیکھو کہ غلام عورت اپنے مالک کو جنم دے رہی ہے (تو سمجھ لو کہ قیامت نزدیک ہے) ، پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آپ نے إن اللہ عنده علم الساعة اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے (سورة لقمان : 34) سے لے کر إن اللہ عليم خبير اللہ علیم (ہر چیز کا جاننے والا) اور خبیر (ہر چیز کی خبر رکھنے والا) ہے کی تلاوت کی، پھر فرمایا : نہیں، اس ذات کی قسم ! جس نے محمد کو حق کے ساتھ ہادی و بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، میں اس کو تم میں سے کسی شخص سے زیادہ نہیں جانتا، وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو دحیہ کلبی کی شکل میں آئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4991
آیت|"قالت الاعراب اٰمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا|" کی تفسیر
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ لوگوں کو عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا، سعد (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے ؟ تو نبی آپ نے فرمایا : بلکہ وہ مسلم ہے ١ ؎، سعد (رض) نے تین بار دہرایا (یعنی وہ مومن ہے) اور نبی اکرم ﷺ (ہر بار) کہتے رہے : وہ مسلم ہے ، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں بعض لوگوں کو عطیہ دیتا ہوں اور بعض ایسے لوگوں کو محروم کردیتا ہوں جو مجھے ان سے زیادہ محبوب ہیں، میں اسے اس اندیشے سے انہیں دیتا ہوں کہ کہیں وہ اپنے چہروں کے بل جہنم میں نہ ڈال دیئے جائیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٩ (٢٧) ، الزکاة ٥٣ (١٤٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦٧ (٢٣٦) ، الزکاة ٤٥ (٢٣٦) ، سنن ابی داود/السنة ١٦ (٤٦٨٣، ٤٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٩١) ، مسند احمد (١/١٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ ایمان کی جگہ دل ہے اور وہ کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوسکتا ہے اس لیے کسی کے بارے میں یقینی طور پر یہ دعویٰ کرنا کہ وہ صحیح معنوں میں مومن ہے جائز نہیں اس کو صرف اللہ عالم الغیوب ہی جانتا ہے، اور اسلام چونکہ ظاہری ارکان پر عمل کا نام ہے اس لیے کسی آدمی کو مسلم کہا جاسکتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے سعد (رض) کو مومن کی بجائے مسلم کہنے کی تلقین کی۔ ٢ ؎: یعنی : جن کو نہیں دیتا ہوں ان کے بارے میں یہ یقین سے جانتا ہوں کہ دینے نہ دینے سے ان کے ایمان میں کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے، اور جن کو دیتا ہوں ان کے بارے میں اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر (تالیف قلب کے طور پر) نہ دوں تو ایمان سے پھر کر جہنم میں جاسکتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4992
آیت|"قالت الاعراب اٰمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا|" کی تفسیر
سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال تقسیم کیا تو کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے۔ آپ نے فرمایا : مومن نہ کہو، مسلم کہو ۔ ابن شہاب زہری نے یہ آیت پڑھی : قالت الأعراب آمنا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4993
آیت|"قالت الاعراب اٰمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا|" کی تفسیر
بشر بن سحیم (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ ایام تشریق ( ١٠ ، ١١ ، ١٢ ، ١٣ ذی الحجہ) میں اعلان کردیں کہ جنت میں مومن کے سوا کوئی نہیں داخل ہوگا ١ ؎، اور یہ کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصیام ٣٥ (١٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٠١٩) ، مسند احمد (٣/٤١٥، ٤/٣٣٥) ، سنن الدارمی/الصوم ٤٨ (١٨٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : جنت میں پہلی مرتبہ ہی داخل ہونے کا شرف کامل ایمان والوں کو ہی حاصل ہوگا۔ ٢ ؎: سال کے سارے ہی دن کھانے پینے کے دن ہوں یہاں مراد یہ ہے کہ خاص طور سے کھانے پینے کے دن ہیں، یعنی ایام تشریق، قربانی کے دن ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4994
مومن کی صفات سے متعلق
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے بارے میں اطمینان رکھیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ١٢(٢٦٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨٦٤) ، مسند احمد (٢/٣٧٩) (حسن، صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : کامل مسلم وہ ہے جس کے شر و فساد سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، یہاں باب ہے مومن کی صفات اور حدیث میں مسلم کا لفظ ہے، مطلب یہ ہے کہ اسلام اگر حقیقی ہوگا تو وہ ایمان ہی کا مظہر ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4995
مسلمان کی صفت سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : (حقیقی اور کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور (حقیقی) مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤ (١٠) ، الرقاق ٢٦ (٦٤٨٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٤(٤٠) ، سنن ابی داود/الجہاد ٢(٢٤٨١) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٤) ، مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٢، ١٩٣، ٢٠٣، ٢٠٥، ٢٠٩، ٢١٢، ٢٢٤، سنن الدارمی/الرقاق ٨ (٢٧٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4996
مسلمان کی صفت سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ہمارے جیسی نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٨ (٣٩١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اعمال اسلام کے مظاہر اور شرائط ہیں۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتے ہیں اور بناوٹی بھی، اگر حقیقی ہوں گے تو یہ ایمان کامل کے مظاہر ہوں گے، اور اگر بناوٹی ہوں گے تو نفاقاً ہوگا، اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ جو صرف ان چند متعین اور خاص اعمال کو انجام دے لے وہ مسلمان ہوگیا، یہ باتیں خاص طور پر اس وقت کے یہود و نصاریٰ کے تناظر میں کہی گئی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز نہیں پڑھتے تھے، مسلمانوں کے قبلے کی طرف نماز نہیں پڑھتے تھے، اور نہ ہی مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتے تھے۔ آج کل کی دیگر غیر مسلم قومیں بھی ایسا نہیں کرتیں، اور بعض نام نہاد مسلمان ان سب اعمال کو انجام دے کر بھی شرک میں مبتلا ہیں تو یہ بھی مسلم نہیں ہیں۔ مگر ان کے ساتھ حرب و مقاطعہ جیسے معاملات سو فیصد اس طرح نہیں کیے جائیں گے جس طرح کھلم کھلا کفار و مشرکین کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ان کے لیے دعوت الی الحق اور وعظ و نصیحت ہوگی جب کہ یہود و نصاریٰ اور ہنود و مشرکین کے ساتھ جہاد و قتال ہوگا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4997
کسی انسان کے اسلام کی خوبی
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی بندہ اسلام قبول کرلے اور اچھی طرح مسلمان ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نیکی لکھ لیتا ہے جو اس نے کی ہو اور اس کی ہر برائی مٹا دی جاتی ہے جو اس نے کی ہو، پھر اس کے بعد یوں ہوتا ہے کہ بھلائی کا بدلہ اس کے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوتا ہے، اور برائی کا بدلہ اتنا ہی ہوتا ہے (جتنی اس نے کی) سوائے اس کے کہ اللہ معاف ہی کر دے (تو کچھ بھی نہیں ہوتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣١ (٤١ تعلیقا) ، (تحفة الأشراف : ٤١٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4998
افضل اسلام کونسا ہے؟
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کون سا اسلام بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٥ (١١) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٤٢) ، سنن الترمذی/القیامة ٥٢ (٢٥٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : کون سا مسلمان سب سے اچھا ہے ؟ یا اسلام والا کون آدمی سب سے اچھا ہے ۔ ٢ ؎: یہ کئی بار گزر چکا ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہر سائل کے اپنے خاص احوال، یا سوال کے خاص تناظر میں اسی کے حساب سے جواب دیا کرتے تھے، کسی کے لیے کسی عمل پر تنبیہ مقصود تھی تو کسی کے لیے کسی اور عمل کی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 4999
کونسا اسلام بہترین ہے؟
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کون سا اسلام سب سے اچھا ہے ؟ آپ نے فرمایا : کھانا کھلانا، سلام کرنا ہر شخص کو خواہ جان پہچان کا ہو یا نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٦ (١٢) ، ٢٠ (٢٨) الاستئذان ٩ (٦٢٣٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٤ (٣٩) ، سنن ابی داود/الأدب ١٤٢ (٥١٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الأطمعة ١ (٣٢٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٢٧) ، مسند احمد (٢/١٦٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : اسلام کا کون سا عمل بہتر اعمال میں سے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5000
اسلام کی بنیاد کیا ہیں؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا : کیا آپ جہاد نہیں کریں گے ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢ (٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٥ (١٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٣ (٢٦٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٣٤٤) ، مسند احمد (٢/٢٦، ٩٣، ١٢٠، ١٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عمر (رض) کا مطلب یہ تھا کہ بنیادی باتوں کو میں تسلیم کرچکا ہوں اور جہاد ان میں سے نہیں ہے، جہاد اسباب و مصالح کی بنیاد پر کسی کسی پر فرض عین ہوتا ہے اور ہر ایک پر فرض نہیں ہوتا۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ عبداللہ بن عمر (رض) نعوذ باللہ جہاد فی سبیل اللہ کے منکر تھے، بلکہ آپ تو اپنی زندگی میں دسیوں غزوات میں شریک ہوتے تھے، آپ نے مذکورہ بالا جواب :( ١ ) ارکان اسلام کو بیان کرنے کے لیے اور ( ٢ ) سائل کے سوال کی کیفیت کو سامنے رکھ کردیا تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5001
اسلام پر بیعت سے متعلق
عبادہ بن صامت (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مجلس میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا : تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے ، پھر آپ نے سورة الممتحنہ کی آیت پڑھی ١ ؎ پھر فرمایا : تم میں سے جو اپنے اقرار کو پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور جو ان میں سے کوئی کام کرے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے چھپالے تو اب یہ اللہ تعالیٰ پر ہے کہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤١٦٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وہ آیت یہ ہے : يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك (سورة الممتحنة : 12 ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5002
لوگوں سے کس بات پر جنگ (قتال) کرنا چاہیے؟
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، پھر جب وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں، ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری نماز پڑھیں تو ان کے خون اور ان کے مال ہم پر حرام ہوگئے مگر کسی حق کے بدلے، ان کے لیے وہ سب ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان پر وہ سب ہے جو مسلمانوں پر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٩٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5003
ایمان کی شاخیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣ (٩) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٥) ، سنن ابی داود/السنة ١٥ (٤٦٧٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٦ (٢٦١٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٨١٦) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥٠٠٨) ، ٥٠٠٩) حم ٢/٤١٤، ٤٤٢، ٤٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ستر کا عدد عربوں میں غیر متعین کثیر تعداد کے لیے بولا جاتا تھا، اس سے خاص متعین ستر کا عدد مراد نہیں ہے، اور بضع کا لفظ تین سے نو تک کے لیے بولا جاتا ہے، اور ایمان کی ان شاخوں میں خاص طور پر حیاء کا تذکرہ اس کی اہمیت جتانے کے لیے کیا ہے کہ حیاء ان ستر اعمال پر ابھارنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس حیاء سے بھی مراد وہی حیاء ہے جو نیک کاموں پر ابھارے، نہ کہ وہ حیاء جو حق بات کہنے اور اس پر عمل کرنے سے روکے، وہ شرعی حیاء ہے ہی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5004
ایمان کی شاخیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سب سے سب سے بہتر لا الٰہ الا اللہ اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5005
ایمان کی شاخیں
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حیاء (شرم) ایمان کی ایک شاخ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5006
اہل ایمان کا ایک دوسرے سے بڑھنا
نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عمار کا ایمان ہڈیوں کے پوروں تک بھر گیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٦٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ عمار (رض) کا ایمان بعض لوگوں سے زیادہ تھا، اس سے ایک دوسرے کا ایمان میں کم و بیش ہونا ثابت ہوا، سلف کا یہی عقیدہ ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی خود ہر آدمی کے حساب سے بھی ہوتی ہے، نیز ایک دوسرے کے مقابلے میں بھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5007
اہل ایمان کا ایک دوسرے سے بڑھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا، آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی جب بری بات دیکھے تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ کے ذریعہ دور کر دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنے دل کے ذریعہ اس کو دور کر دے، یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٢٠ (٤٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤٨ (١١٤٠) ، الملاحم ١٧ (٤٣٤٠) ، سنن الترمذی/الفتن ١١ (٢١٧٢) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٥٥ (١٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٥) ، مسند احمد (٣/١٠، ٢٠، ٤٩، ٥٤، ٩٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے یعنی جو دل کے ذریعہ برائی کو ختم کرے گا وہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ برائی کو دور کرنے والے سے ایمان میں کم ہوگا اور دل کے ذریعہ ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو برا جانے اور اس سے دور رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5008
اہل ایمان کا ایک دوسرے سے بڑھنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس کسی نے برائی دیکھی پھر اسے اپنے ہاتھ سے دور کردیا تو وہ بری ہوگیا، اور جس میں ہاتھ سے دور کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس نے زبان سے دور کردی ہو تو وہ بھی بری ہوگیا، اور جس میں اسے زبان سے بھی دور کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس نے اسے دل سے دور کیا ١ ؎ تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اسے برا سمجھا، اور اس سے دور رہا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5009
ایمان میں کمی بیشی سے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کا دنیاوی حق کے سلسلے میں جھگڑا اس جھگڑے سے زیادہ سخت نہیں جو مومن اپنے رب سے اپنے ان بھائیوں کے سلسلے میں کریں گے جو جہنم میں داخل کردیے گئے ہوں گے، وہ کہیں گے : ہمارے رب ! ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے پھر بھی تو نے انہیں جہنم میں ڈال دیا۔ وہ کہے گا : جاؤ اور ان میں سے جنہیں تم جانتے ہو نکال لو، چناچہ وہ ان کے پاس آئیں گے اور انہیں ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے، ان میں سے بعض ایسے ہوں گے جو آدھی پنڈلی تک جلے ہوئے ہوں گے اور بعض ایسے کہ ٹخنوں تک جلے ہوں گے، چناچہ وہ انہیں نکالیں گے تو وہ کہیں گے : ہمارے رب ! جنہیں نکالنے کا تو نے ہمیں حکم دیا تھا ہم نے انہیں نکال لیا، وہ کہے گا : جس کے دل میں ایک دینار برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لو، پھر کہے گا : جس کے دل میں آدھا دینار برابر ایمان ہو یہاں تک کہ کہے گا : جس کے دل میں ذرے کے وزن بھر ایمان ہو ۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں : جسے یقین نہ ہو تو وہ یہ آیت : إن اللہ لا يغفر أن يشرک به ويغفر ما دون ذلک لمن يشائ سے عظيما یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا (النساء : ٤٨ ) تک پڑھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٧٨) ، مسند احمد (٣/٩٤-٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5010
ایمان میں کمی بیشی سے متعلق
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ اسی دوران میں نے خواب دیکھا کہ لوگ مجھ پر پیش کئے جا رہے ہیں اور وہ قمیص پہنے ہوئے ہیں، بعض کی قمیص چھاتی تک ہے، بعض کی اس سے نیچے ہے اور میرے سامنے عمر بن خطاب کو پیش کیا گیا، وہ ایسی قمیص پہنے ہوئے تھے جسے وہ گھسیٹ رہے تھے ۔ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : دین ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٥ (٢٣) ، فضائل الصحابة ٦ (٣٦٩١) ، التعبیر ١٧ (٧٠٠٨) ، ١٨ (٧٠٠٩) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢ (٢٣٩٠) ، سنن الترمذی/الرؤیا ٩(٢٢٨٥، ٢٢٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٦١) ، مسند احمد (٣/٨٦) ، سنن الدارمی/الرؤیا ١٣ (٢١٩٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کا ایمان ان کے جسم میں کامل شکل میں رچا بسا ہوا ہے، یہی نہیں بلکہ ان کا ایمان اوروں کی نسبت سے زیادہ پختہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5011
ایمان میں کمی بیشی سے متعلق
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ یہود کا ایک یہودی عمر بن خطاب (رض) کے پاس آ کر بولا : امیر المؤمنین ! آپ کی کتاب (قرآن) میں ایک آیت ہے، اگر وہ ہم یہودیوں پر اترتی تو (جس روز اترتی) ہم اسے عید کا دن بنا لیتے، کہا : کون سی آیت ؟ یہودی بولا : اليوم أکملت لکم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لکم الإسلام دينا آج کے دن میں نے تمہارا دین پورا کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا (المائدہ : ٣ ) ۔ عمر (رض) نے کہا : مجھے وہ مقام جہاں یہ اتری وہ مقام معلوم ہے، وہ دن معلوم ہے جب یہ نازل ہوئی، یہ جمعہ کے دن عرفات میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣٠٠٥ (صحیح ) وضاحت : یہ آیت بھی ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے پر دلالت کرتی ہے، اس طرح کہ دین اسلام دیگر ادیان کے مقابلے میں کامل ہے، اور کامل کا ضد ناقص ہوتا ہے، تو اہل اسلام کا ایمان اگلی امتوں سے زیادہ ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5012
ایمان کی علامت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے اپنے بال بچوں، اس کے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ اسے محبوب نہ ہوجاؤں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٨ (١٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٦ (٤٤) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٤٩) ، مسند احمد (٣/١٧٧، ٢٠٧، ٢٧٥، ٢٧٨) ، سنن الدارمی/الرقاق ٢٩ (٢٧٨٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں اور باب کی دیگر حدیثوں میں جن جن اعمال کا بطور ایمان کی نشانی ذکر کیا گیا ہے وہ سب دل میں بیٹھے پختہ ایمان کا ہی نتیجہ ہیں اس لیے ان کو ایمان کی نشانی کہا گیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5013
ایمان کی علامت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے بیوی بچوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ اسے محبوب نہ ہوجاؤں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٨ (١٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٦ (٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣، ١٠٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5014
ایمان کی علامت
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے بال بچے اور اس کے ماں باپ سے زیادہ اسے محبوب نہ ہوجاؤں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٨ (١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٧٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5015
ایمان کی علامت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٧ (٤٥) ، سنن الترمذی/الزہد ١٢٤ (القیامة ٥٩) (٢٥١٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٦٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٣٩) ، مسند احمد (٣/١٧٦، ٢٧٢، ٢٧٨، سنن الدارمی/الرقاق ٢٩ (٢٧٨٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5016
ایمان کی علامت
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ! تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٧ (١٣ م) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٧ (٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١١٥٣) ، مسند احمد (٣/٢٠٦، ٢٥١، ٢٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5017
ایمان کی علامت
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی امّی ﷺ نے سے مجھ سے عہد کیا کہ تم سے صرف مومن ہی محبت کرے گا، اور تم سے صرف منافق ہی بغض رکھے اور نفرت کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٣ (٧٨) ، سنن الترمذی/المناقب ٢١ (٣٧٣٦) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١١ (١١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٩٢) ، مسند احمد (١/٨٤، ٩٥، ١٢٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5018
ایمان کی علامت
انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : انصار سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اور انصار سے نفرت نفاق کی نشانی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٠ (١٧) ، مناقب الأنصار ٤ (٣٧٨٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٣ (٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٣) ، مسند احمد (٣/١٣٠، ١٣٤، ٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5019
منافق کی علامات
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس میں چار چیزیں ہوں، وہ منافق ہے، یا ان چار میں سے کوئی ایک خصلت (عادت) ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، عہد و پیمان کرے تو توڑ دے، اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأیمان ٢٤ (٣٤) ، المظالم ١٧ (٢٤٥٩) ، الجزیة ١٧ (٣١٧٨) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٥ (٥٨) ، سنن ابی داود/السنة ١٦ (٤٤٨٨) ، سنن الترمذی/الإیمان ١٤ (٢٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٣١) ، مسند احمد (٢/١٨٩، ١٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5020
منافق کی علامات
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نفاق کی تین علامتیں (نشانیاں) ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٤ (٣٣) ، الشہادات ٢٨ (٢٦٨٢) ، الوصایا ٨ (٢٧٤٩) ، الأدب ٦٩ (٦٠٩٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢٥ (٥٩) ، سنن الترمذی/الإیمان ١٤ (٢٦٣١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٤١) ، مسند احمد (٢/٣٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5021
منافق کی علامات
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے عہد کیا کہ مجھ سے محبت صرف مومن کرے گا، اور مجھ سے بغض و نفرت صرف منافق کرے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5022
منافق کی علامات
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ تین باتیں جس شخص میں ہوں، وہ منافق ہے : جب بات چیت کرے تو جھوٹ بولے، جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک عادت ہو تو اس میں نفاق کی ایک عادت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٣٠٩ ألف) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد موقوف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5023
رمضان المبارک میں عبادت کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا (یعنی تراویح پڑھی) کی تو اس کے تمام گزرے ہوئے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5024
رمضان المبارک میں عبادت کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص رمضان کے مہینے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے تراویح پڑھے تو اس کے تمام گزرے ہوئے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5025
رمضان المبارک میں عبادت کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے تراویح پڑھی تو اس کے تمام گزرے ہوئے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5026
شب قدر میں عبادت کرنا
ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے نماز تہجد پڑھی تو اس کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا، اس کے بھی گزرے ہوئے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٢٠٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5027
زکوة بھی ایمان میں داخل ہے
طلحہ بن عبیداللہ (رض) سے روایت ہے کہ اہل نجد میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی گنگناہٹ سنائی دیتی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب وہ قریب ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : دن رات میں پانچ وقت کی نماز ، اس نے کہا : اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں میرے اوپر ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، سوائے اس کے کہ تم نفل (سنت) پڑھنا چاہو ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رمضان کے مہینے کے روزے ، اس نے کہا : میرے اوپر اس کے علاوہ کچھ اور بھی روزے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، سوائے اس کے کہ تم نفل ادا کرو ، اور پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا۔ اس نے کہا : میرے اوپر اس کے علاوہ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں سوائے اس کے کہ تم نفل دینا چاہو ، پھر وہ منہ موڑ کر چلا اور کہہ رہا تھا : نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ کامیاب ہوا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زکاۃ بھی ایمان کے ارکان اور پہچان میں سے ہے اس لیے مؤلف نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5028
جہاد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اس کی راہ میں نکلتا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کا یہ نکلنا صرف اللہ پر اپنے ایمان کے تقاضے اور اس کی راہ میں جہاد کے جذبے سے ہے (تو اللہ نے ایسے شخص کی) ضمانت اپنے ذمہ لے لی ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا چاہے وہ قتل ہو کر مرا ہو، یا اپنی طبعی موت پائی ہو، یا میں اسے اس اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو اور جو بھی ملا ہو، اس کے اپنے اس گھر پر واپس پہنچا دوں گا جہاں سے وہ جہاد کے لیے نکلا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٣١٢٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5029
جہاد کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ضمانت لی ہے اس شخص کی جو اس کے راستے میں نکلا ہو اور اس کا یہ نکلنا جہاد کے مقصد سے، اللہ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے ہو تو وہ ضامن ہے اس کا کہ اسے جنت میں داخل کرے یا اسے اس کے وطن لوٹا دے جہاں سے وہ نکلا تھا اس اجر یا مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو جو بھی ملا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٧ (٣٦) ، صحیح مسلم/الإمارة ٢٨ (١٨٧٦) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ١ (٢٧٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠١) ، مسند احمد (٢/٢٣١، ٣٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5030
مال غنیمت میں سے اللہ کے راستہ میں پانچواں حصہ نکالنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بنی عبدقیس کا وفد آیا، تو ان لوگوں بت کہا : ہم لوگ قبیلہ ربیعہ سے ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں کے علاوہ کبھی نہیں آسکتے تو آپ ہمیں کچھ باتوں کا حکم دیجئیے جو ہم آپ سے سیکھیں اور جو ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں اسے ان تک پہنچا سکیں، آپ ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے روکتا ہوں : اللہ پر ایمان ۔ پھر آپ نے اس کی تشریح کی کہ ایک تو گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں - دوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے زکاۃ کی ادائیگی، چوتھے یہ کہ مال غنیمت کا پانچواں (خمس) مجھے لا کردینا، اور میں تمہیں روکتا ہوں : (تمبی) کدو کے بنے پیالے، لاکھی (سبز رنگ) کے برتنوں، لکڑی کے برتنوں اور تار کول ملے ہوئے برتنوں کے استعمال سے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٤٠ (٥٣) ، العلم ٢٥ (١٨٧) ، المواقیت ٢ (٥٢٣) ، الزکاة ١(١٣٩٨) ، الخمس ٢ (٣٠٩٥) ، المناقب ٥ (٣٥١٠) ، المغازي ٦٩ (٤٣٦٩) ، الأدب ٩٨ (٦١٧٦) ، خبرالواحد ٥ (٧٢٦٦) ، التوحید ٥٦ (٧٥٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٦ (١٧) ، الأشربة ٦ (١٧) ، سنن ابی داود/الأشربة ٧ (٣٦٩٢) ، سنن الترمذی/السیر ٣٩ (١٥٩٩) (مایتعلق بالخمس فحسب) الإیمان ٥ (٢٦١١) (مختصرا) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٢٤) ، مسند احمد (١/١٢٨، ٢٩١، ٣٠٤، ٣٣٤، ٣٤٠، ٣٥٢، ٣٦١ ویأتی عند المؤلف فی الأشربة بأرقام ٥٦٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں وارد الفاظ میں دباء، حنتم، مزفت، نقیر، مختلف برتنوں کے نام ہیں جس میں زمانہ جاہلیت میں شراب بنائی اور رکھی جاتی تھی جب شراب حرام ہوئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تھا تاکہ لوگ شراب سے بالکل دور ہوجائیں اور اس حرام چیز کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیں، یہ حکم سد باب کے طور پر تھا، جب مسلمان اس وبا سے دور ہوگئے تو ان برتنوں کے استعمال کی اجازت ہوگئی، بریدہ اسلمی (رض) کی روایت میں ہے كنت نهيتكم عن الأوعية فاشربوا في كل وعاء اس حدیث کی رو سے اب سابقہ نہی کا حکم منسوخ ہوگیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5031
جنازہ میں شرکت بھی ایمان میں داخل ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے جائے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے، اس کی نماز جنازہ ادا کرے پھر قبر میں رکھے جانے تک انتظار کرے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے، ایک قیراط جبل احد کی طرح ہوگا، اور جس نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور لوٹ آیا تو اسے صرف ایک قیراط ثواب ملے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5032
شرم و حیاء
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا، جو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو ، (یعنی اس کو یہ نصیحت کرنی چھوڑ دو ) شرم و حیاء تو ایمان میں داخل ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٦ (٢٤) ، الأدب ٧٧(٦١١٨) ، سنن ابی داود/الأدب ٧ (٤٧٩٥) ، صحیح مسلم/الإیمان ١٢ (٣٦) ، سنن الترمذی/الإیمان ٧ (٢٦١٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٩ (٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٩١٣) ، موطا امام مالک/حسن الخلق ٢ (١٠) ، مسند احمد (٢/٥٦، ١٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5033
دین آسان ہونے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ دین آسان ہے اور جو دین میں (عملی طور پر) سختی برتے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا (اور اسے تھکا دے گا) لہٰذا صحیح راستے پر چلو (اگر مکمل طور سے عمل نہ کرسکو تو کم از کم) دین سے قریب رہو، لوگوں کو دین کے معاملے میں خوش رکھو (نفرت نہ پیدا کرو) انہیں آسانی دو اور صبح و شام اور کچھ رات گئے کی مدد سے اللہ کی عبادت کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٢٩ (٣٩) ، الرقاق ١٨ (٦٤٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٦٩) ، مسند احمد (٢/٥١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان اوقات سے مدد طلب کرنے کا مطلب ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5034
اللہ کے نزدیک پسندیدہ عبادت
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے، ان کے پاس ایک عورت تھی، آپ نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ کہا : فلانی ہے، یہ سوتی نہیں، اور وہ اس کی نماز کا تذکرہ کرنے لگیں، آپ نے فرمایا : ایسا مت کرو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تم میں سکت اور طاقت ہو، اللہ کی قسم ! اللہ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا، لیکن تم (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے اسے تو وہ دینی عمل سب سے زیادہ پسند ہے جسے آدمی پابندی سے کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٦٤٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5035
دین کی حفاظت کی خاطر فتنوں سے فرار اختیار کرنا
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی، جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش ہونے کی جگہوں میں چلا جائے گا، وہ اس طرح فتنوں سے اپنے دین کو بچائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ١٢ (١٩) ، بدء الخلق ١٥ (٣٣٠٠) ، المناقب ٢٥ (٣٦٠٠) ، الرقاق ٣٤ (٦٤٩٥) ، سنن ابی داود/الفتن ١٤(٤٢٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ١٣ (٣٩٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٠٣) ، موطا امام مالک/الاستئذان ٦ (١٦) ، مسند احمد (٣/٦، ٣٠، ٤٣، ٥٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5036
منافق کی مثال سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں میں چل رہی ہو، کبھی وہ ادھر جاتی ہے اور کبھی ادھر، وہ نہیں سمجھ پاتی کہ کس ریوڑ کے ساتھ چلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المنافقین ١٧ (٢٧٨٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٧٢) ، مسند احمد (٢/٣٢، ٤٧، ٦٨، ٨٢، ٨٨، ١٠٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5037
مومن اور منافق کی مثال جو کہ قرآن کریم پڑھتے ہوں
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے سنترے کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا ہے اور بو بھی اچھی ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کے مانند ہے کہ اس کا مزہ اچھا ہے لیکن کوئی بو نہیں ہے، اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحانہ (خوشبودار گھاس وغیرہ) کی سی ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا تھوہڑ (اندرائن) جیسی ہے کہ اس کا مزہ کڑوا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ١٧ (٥٠٢٠) ، ٣٦ (٥٠٥٩) ، الأطعمة ٣٠ (٥٤٢٧) ، التوحید ٥٧ (٧٥٦٠) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣٧ (٧٩٧) ، سنن ابی داود/الأدب ١٩ (٤٨٢٩) ، سنن الترمذی/الأمثال ٤ (٢٨٦٥) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ١٦ (٢١٤) ، (تحفة الأشراف : مسند احمد (٤/٣٩٧، ٤٠٣، ٤٠٤، ٤٠٨) سنن الدارمی/فضائل القرآن ٨ (٣٤٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5038
مومن کی نشانی سے متعلق
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5039