48. زینت (آرائش) سے متعلق احادیت مبارکہ
پیدائشی سنتوں سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس چیزیں فطرت ٢ ؎ (انبیاء کی سنت) ہیں (جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہیں) : مونچھیں کتروانا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے پوروں اور جوڑوں کو دھونا، ڈاڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، استنجاء کرنا ۔ مصعب بن شبیہ کہتے ہیں : دسویں بات میں بھول گیا، شاید وہ کلی کرنا ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٦ (٢٦١) ، سنن ابی داود/الطھارة ٢٩ (٥٣) ، سنن الترمذی/الأدب ١٤ (٢٧٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٨ (٢٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٨٨، ١٨٨٥٠) ، مسند احمد (١٣٧٦) (حسن) (اس کے راوی ” مصعب “ ضعیف ہیں لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے ) وضاحت : ١ ؎: عنوان کتاب : کتاب الزین ۃ من السنن ہے، یعنی یہ احادیث سنن کبریٰ سے ماخوذ ہیں، جن کے نمبرات کا حوالہ ہم نے ہر حدیث کے آخر میں دے دیا ہے، اس کے بعد دوسرا عنوان : کتاب الزین ۃ من المجتبیٰ ہے، یعنی اب یہاں سے منتخب ابواب ہوں گے جو ظاہر ہے کہ سنن کبریٰ سے ماخوذ ہوں گے یا مؤلف کے جدید اضافے ہوں گے، اس تنبیہ کی ضرورت اس واسطے ہوئی کہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے نسخے میں عنوان کتاب صحیح آیا ہے، اور مولانا نے اس پر حاشیہ لکھ کر یہ واضح کردیا ہے کہ اس کتاب میں یہ ابواب سنن کبریٰ سے منقول ہیں، لیکن مولانا وحیدالزماں کے مترجم نسخے میں کتاب الزین ۃ : باب من السنن الفطر ۃ مطبوع ہے، اور حدیث کے ترجمہ میں آیا ہے : دس باتیں پیدائشی سنت ہیں (یعنی ہمیشہ سے چلی آتی ہیں، سب نبیوں نے اس کا حکم کیا) ( ٣ /٤٥٥) اور اس کا ترجمہ کتاب آرائش کے بیان میں ، پھر نیچے پیدائشی سنتیں لکھا ہے، اور مشہور حسن کے نسخے میں کتاب الزین ۃ من السنن الفطر ۃ مطبوع ہے، جب کہ من السنن کا تعلق کتاب الزین ۃ سے ہے۔ ٢ ؎: اکثر علماء نے فطرت کی تفسیر سنت سے کی ہے، گویا یہ خصلتیں انبیاء کی سنت ہیں جن کی اقتداء کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قول : فبهداهم اقتده (سورة الأنعام : 90) میں دیا ہے، بعض علماء اس کی تفسیر فطرت ہی سے کرتے ہیں، یعنی یہ سب کام انسانی فطرت کے ہیں جس پر انسان کی خلقت ہوئی ہے، بعض علماء دونوں باتوں کو ملا کر یوں تفسیر کرتے ہیں کہ یہ سب حقیقی انسانی فطرت کے کام ہیں اسی لیے ان کو انبیاء (علیہم السلام) نے اپنایا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5040
پیدائشی سنتوں سے متعلق
طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ دس باتیں فطرت (انبیاء کی سنتیں) ہیں : مسواک کرنا، مونچھ کترنا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے پوروں اور جوڑوں کو دھونا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مجھے شک ہے کہ کلی کرنا بھی کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5041
پیدائشی سنتوں سے متعلق
طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ دس باتیں انبیاء کی سنت ہیں : مسواک کرنا، مونچھ کاٹنا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ڈاڑھی بڑھانا، ناخن کترنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ختنہ کرانا، ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا اور پاخانے کے مقام کو دھونا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : سلیمان تیمی اور جعفر بن ایاس (ابوالبشر) کی حدیث مصعب کی حدیث سے زیادہ قرین صواب ہے اور مصعب منکر الحدیث ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: مصعب کی توثیق تجریح میں اختلاف ہے، امام مسلم، ابن معین اور عجلی نے ان کی توثیق کی ہے، اور اس حدیث کے اکثر مشمولات دیگر روایات سے ثابت ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد مقطوع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5042
پیدائشی سنتوں سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں خصائل فطرت سے ہیں : ختنہ کرانا، ناف کے نیچے کے بال مونڈنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن اور مونچھیں کاٹنا ۔ مالک نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٩٧٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: پانچ چیزوں کے ذکر سے یہاں حصر مراد نہیں ہے، خود پچھلی حدیث میں دس کا تذکرہ ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ پانچ، یا دس چیزیں فطرت کے خصائل میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بعض چیزیں فطرت کے خصائل میں سے ہیں جن کا تذکرہ کئی روایات میں آیا ہے (نیز دیکھئیے فتح الباری کتاب اللباس باب ٦٣ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5043
پیدائشی سنتوں سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ پانچ چیزیں خصائل فطرت سے ہیں : ناخن کترنا، مونچھ کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناف کے نیچے کے بال مونڈنا اور ختنہ کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٣٠١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5044
مونچھیں کترنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مونچھیں کاٹو اور ڈاڑھیاں بڑھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٢٩٧) ، مسند احمد (٢/٥٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5045
مونچھیں کترنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ڈاڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کترو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5046
مونچھیں کترنے سے متعلق
زید بن ارقم (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے مونچھیں نہیں کاٹیں وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5047
سر منڈانے کی اجازت
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بچے کو دیکھا، اس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور کچھ نہیں، آپ نے ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا : یا تو پورا سر مونڈو، یا پھر پورے سر پر بال رکھو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٣١ (٢١٢٠) ، سنن ابی داود/الترجل ١٤ (٤١٩٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٢٥) ، مسند احمد ٢/٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5048
عورت کو سر منڈانے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الحج ٧٥ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٠٨٥) ، ١٨٦١٧) (ضعیف) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5049
قزع (سر کے کچھ بال مونڈنا اور کچھ چھوڑنا) کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ نے قزع (سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع کیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٧٢(٥٩٢١) ، صحیح مسلم/اللباس ٣١(٢١٢٠) ، سنن ابی داود/الترجل ١٤(٤١٩٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٨(٣٦٣٧) ، مسند احمد (٢/٤، ٣٩، ٥٥، ٦٧، ٨٣، ١٠١، ١٠٦، ١١٨، ١٣٧، ١٤٣، ١٥٤) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام ٥٢٣٠- ٥٢٣٣ (منکر) (اس کے راوی ” عبدالرحمن “ حافظہ کے کمزور ہیں، لیکن اس کے بعد کی حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5050
قزع (سر کے کچھ بال مونڈنا اور کچھ چھوڑنا) کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قزع (سر کے کچھ بال منڈانے اور کچھ رکھ چھوڑنے) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یحییٰ بن سعید اور محمد بن بشر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٩٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یحییٰ بن سعید اور محمد بن بشر کی حدیث باب ذکر النہی عن أن یحلق بعض شعر الصبي و یترک بعضہ کے ضمن میں نمبر ٥٢٣٢ ، ٥٢٣٣ کے تحت ذکر ہے۔ ان دونوں حدیثوں میں عبیداللہ اور نافع کے درمیان عمر بن نافع کا ذکر ہے، جب کہ سفیان کی اس روایت میں ایسا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5051
سر کے بال کترنے سے متعلق
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میرے سر پر (لمبے) بال تھے، آپ نے فرمایا : نحوست ہے ، میں نے سمجھا کہ آپ مجھے کہہ رہے ہیں، چناچہ میں نے اپنے سر کے بال کٹوا دیے پھر میں آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : میں نے تم سے نہیں کہا تھا، لیکن یہ بہتر ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١١ (٤١٩٠) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٧ (٣٦٣٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٧٨٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٠٦٩) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اکثر نسخوں میں یہ تبویب ہے، بعض نسخوں میں الأخذ من الشعر ہے جو احادیث کے سیاق کے مناسب ہے، کیونکہ ان میں صرف بال کاٹنے کا تذکرہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5052
سر کے بال کترنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے بال درمیانے قسم کے تھے، نہ بہت گھنگرالے تھے، نہ بہت سیدھے، کانوں اور مونڈھوں کے بیچ تک ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٨ (٥٩٠٥، ٥٩٠٦) ، صحیح مسلم/فضائل ٢٦ (٢٣٣٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣ (٢٦) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٤) ، مسند احمد (٣/ ١٣٥، ٢٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5053
سر کے بال کترنے سے متعلق
حمید بن عبدالرحمٰن حمیری کہتے ہیں کہ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی، جو نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں ابوہریرہ (رض) کی طرح چار سال رہا تھا، اس نے کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٣٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث اگلے باب سے متعلق ہے، ناسخین کتاب کی غلطی سے یہاں درج ہوگئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5054
ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنے سے متعلق
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (بالوں میں) کنگھی کرنے سے منع فرمایا، مگر ایک دن چھوڑ کر۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١ (٤١٥٩) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٢ (١٧٥٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٠، ١٨٥٦٢، ١٩٣٠٦) مسند احمد (٤/٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5055
ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنے سے متعلق
حسن بصری سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا مگر ایک دن چھوڑ کر۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، وہ بھی حسن بصری کی جو مدلس بھی ہیں، لیکن پچھلی روایت متصل مرفوع ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5056
ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنے سے متعلق
حسن بصری اور محمد بن سیرین کہتے ہیں : (بالوں میں) کنگھی ایک ایک دن چھوڑ کر کرنا چاہیئے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر للمرفوع قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5057
ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنے سے متعلق
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ ایک صحابی رسول جو مصر میں افسر تھے، ان کے پاس ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص آیا جو پراگندہ سر اور بکھرے ہوئے بال والا تھا، تو انہوں نے کہا : کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو پراگندہ سرپا رہا ہوں حالانکہ آپ امیر ہیں ؟ وہ بولے : نبی اکرم ﷺ ہمیں ارفاہ سے منع فرماتے تھے، ہم نے کہا : ارفاہ کیا ہے ؟ روزانہ بالوں میں کنگھی کرنا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٧٤٧، ١٥٦١١) ویأتی عندہ برقم : ٥٢٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5058
دائیں جانب سے پہلے کنگھی کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (کاموں کو) دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے (کوئی چیز) لیتے تھے تو دائیں ہاتھ سے، دیتے تھے تو دائیں ہاتھ سے، نیز آپ ﷺ ہر کام میں داہنی طرف سے ابتداء کرنا پسند فرماتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5059
سر پر بال رکھنے سے متعلق
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو لال جوڑے میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے مونڈھوں تک تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥١) ، اللباس ٣٥ (٥٨٤٨) ، ٦٨(٥٩٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٢) ، مسند احمد (٤/٢٩٥، ٣٠٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کے سر کے بال تین طرح تھے : آدھے کانوں تک، پورے کانوں تک، اور کندھے تک، تینوں صورتیں مختلف احوال میں ہوتی تھیں، ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5060
سر پر بال رکھنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال کان کے آدھے حصہ تک ہوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٩ (٤١٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٩) ، مسند احمد (٣/١١٣، ١٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5061
سر پر بال رکھنے سے متعلق
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے لال جوڑے میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی آدمی کو نہیں دیکھا، اور میں نے دیکھا کہ آپ کے بال آپ کے مونڈھوں کے قریب تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٠٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5062
چوٹی رکھنے کے بارے میں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ تم لوگ مجھے کس کی قرأت کے مطابق پڑھنے کے لیے کہتے ہو ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ستر سے زائد سورتیں پڑھیں، اس وقت زید (زید بن ثابت) کی دو چوٹیاں تھیں، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٥٩٢) (صحیح) (اس کے راوی ” ابواسحاق “ اور ” اعمش “ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، مگر اگلی سند سے تقویف پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے ) وضاحت : ١ ؎: لمبے بال کو ذوابہ کہتے ہیں، نہ کہ عورتوں کی طرح بندھی ہوئی چوٹی کو، ابن مسعود (رض) کے اس اثر نیز اگلی حدیث سے سر کے اتنے بڑے بالوں کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان دونوں (نبی اکرم ﷺ و ابن مسعود) نے اس پر اعتراض نہیں کیا، لیکن آپ ﷺ نے لمبے بالوں کی بجائے انہیں چھوٹے کرنے کو زیادہ پسند کیا، جیسا کہ حدیث نمبر ٥٠٦٩ میں صراحت ہے (نیز ملاحظہ ہو : فتح الباری : کتاب اللباس، باب الذوائب) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5063
چوٹی رکھنے کے بارے میں
ابو وائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ مجھ سے زید بن ثابت کی قرأت کے مطابق پڑھنے کو کہتے ہو ١ ؎، اس کے بعد کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ستر سے زائد کئی سورتیں سن چکا ہوں، اس وقت زید بچوں کے ساتھ تھے، ان کی دو چوٹیاں تھیں ؟۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٢٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/فضائل القرآن ٨ (٥٠٠٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٢ (٢٤٦٢) ، مسند احمد (١/٣٨٩، ٤٠٥، ٤١١، ٤٤٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب ابن مسعود (رض) سے کہا گیا ہے کہ آپ عثمان (رض) عنہ کے مصحف کے مطابق قرآن پڑھا کریں کیونکہ آپ کے مصحف اور اس میں فرق ہے، تب انہوں نے مصحف عثمانی کے جمع کرنے والے زید بن ثابت (رض) کے بارے میں یہ بات کہی، آپ کی نظر اس بات پر نہیں گئی کہ عام صحابہ نے مصحف عثمانی ہی پر اجماع کیا، بہرحال بتصریح رسول اللہ ﷺ قرآن سات قراءتوں پر نازل ہوا، ابن مسعود صحابی رسول تھے، اور ان کو اپنے اوپر اعتماد تھا، لیکن مصحف عثمانی پر اجماع کے بعد اس کے مطابق پڑھنے پر اجماع امت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5064
چوٹی رکھنے کے بارے میں
حصین (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس مدینے میں آئے تو آپ نے ان سے فرمایا : میرے قریب آؤ، وہ آپ کے قریب ہوئے تو آپ نے اپنا ہاتھ ان کی چوٹی پر رکھا اور اپنا ہاتھ پھرایا پھر اللہ کا نام لے کر انہیں دعا دی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٤١٥) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5065
بالوں کو لمبا کرنے سے متعلق
وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا، میرے سر پر لمبے بال تھے، آپ نے فرمایا : نحوست ہے ، میں سمجھا کہ آپ کی مراد میں ہی ہوں۔ میں گیا اور اپنے بال کتروا دیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میری مراد تم نہیں تھے، ویسے یہ زیادہ اچھا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٥٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5066
داڑھی کو موڑ کر چھوٹا کرنا
رویفع بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے رویفع ! شاید میرے بعد تمہاری عمر لمبی ہو، لہٰذا تم لوگوں کو بتادینا کہ جس نے کر اپنی داڑھی میں گرہ لگائی یا گھوڑے کے گلے میں تانت ڈالی (کہ نظر نہ لگے) یا کسی چوپائے کے گوبر یا ہڈی سے استنجاء کیا تو محمد اس سے بری ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ٢٠ (٣٦) ، (تحفة الأشراف : ٣٦١٦) ، مسند احمد (٤/١٠٨، ١٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5067
سفید بال اکھاڑنا
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سفید بال اکھاڑنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٧٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأدب ٥٩ (٢٨٢١) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ٢٥ (٣٧٢١) ، مسند احمد (٢/٢٠٦، ٢٠٧، ٢١٠، ٢١٢) (حسن، صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5068
خضاب کرنے کی اجازت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٠ (٣٤٦٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥١٩٠، ١٥٣٤٧) ، مسند احمد (٢/٢٤٠، ٢٦٠، ٣٠٩، ٤٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کی مخالفت میں خضاب لگاؤ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5069
خضاب کرنے کی اجازت
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے رسول اللہ ﷺ سے اسی جیسی روایت مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٢٩٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5070
خضاب کرنے کی اجازت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو اور خضاب لگاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5071
خضاب کرنے کی اجازت
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : واللباس ٦٧ (٥٨٩٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٥ (٢١٠٣) ، سنن ابی داود/الترجل ١٨ (٤٢٠٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٠ (١٧٥٢) (نحوہ) سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٣ (٣٦٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٨٠) ، مسند احمد (٢/٢٤٠) ، ویأتي عند المؤلف : ٥٢٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5072
خضاب کرنے کی اجازت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑھاپے کا رنگ بدلو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٣٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5073
خضاب کرنے کی اجازت
زبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بڑھاپے کا رنگ بدلو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو ، یہ دونوں روایتیں محفوظ نہیں ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٣٦٤٢) ، مسند احمد (١/١٦٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عروہ کبھی اس کو ابن عمر (رض) کی حدیث سے روایت کرتے ہیں، اور کبھی زبیر (رض) کی حدیث سے، اور کبھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے، اسی وجہ سے مؤلف نے غیر محفوظ کہا ہے، جب کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ عروہ نے تینوں سے یہ روایت کی ہو، نیز اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5074
کالے رنگ کا خضاب ممنوع ہونے سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اخیر زمانے میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو کبوتر کے پوٹوں کی طرح کالا خضاب لگائیں گے، انہیں جنت کی خوشبو نصیب نہ ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٢٠ (٤٢١٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٤٨) مسند احمد (١/٢٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5075
کالے رنگ کا خضاب ممنوع ہونے سے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ابوقحافہ (رض) کو فتح مکہ کے دن لایا گیا، سفیدی میں ان کا سر اور ڈاڑھی دونوں ثغامہ کی طرح سفید تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کو کسی اور رنگ سے بدل لو، لیکن کالے رنگ سے دور رہنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٤ (٢١٠٢) ، سنن ابی داود/الترجل ١٨ (٤٢٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٠٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٣ (٣٦٢٤) ، مسند احمد (٣/٣٠٦، ٣٢٢، ٣٣٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثغامہ ایک گھاس ہے جس کے پھل اور پھول سب سفید ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5076
مہندی اور وسمہ کا خضاب
ابوذر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو مہندی اور کتم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٩٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کتم ایک پودا ہے جسے مہندی کے ساتھ ملاتے ہیں، ان دونوں کو ملا کر استعمال سے بالوں کا رنگ سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5077
مہندی اور وسمہ کا خضاب
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو مہندی اور کتم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١٨(٤٢٠٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٠ (١٧٥٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٢(٣٦٢٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٢٧، ١٨٨٨٥) ، مسند احمد (٥/١٤٧، ١٥٠، ١٥٤، ١٥٦، ١٦٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥٠٨٢- ٥٠٨٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5078
مہندی اور وسمہ کا خضاب
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5079
مہندی اور وسمہ کا خضاب
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم ہے ۔ جریری اور کہمس نے ان کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اجلح کی مخالفت کی ہے، اور دونوں کی سندوں میں انقطاع ہے جو واضح ہے (ان دونوں کی روایتیں آگے آرہی ہیں) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5080
مہندی اور وسمہ کا خضاب
عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٨١ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، عبداللہ بن بریدہ تابعی ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5081
مہندی اور وسمہ کا خضاب
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو، مہندی اور کتم ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٨١ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، عبداللہ بن بریدہ تابعی ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5082
مہندی اور وسمہ کا خضاب
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اس وقت آپ نے اپنی ڈاڑھی میں مہندی لگا رکھی تھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٧٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آگے انس (رض) کی حدیث (نمبر : ٥٠٨٩ ) میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بالوں میں اتنے سفید بال تھے ہی نہیں کہ آپ خضاب لگاتے۔ دونوں حدیثوں میں باہم یوں تطبیق دی جاتی ہے کہ واقعی اتنے زیادہ بال تھے نہیں کہ آپ کو ان کے رنگ تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی (یعنی بذریعہ خضاب) مگر آپ نے ان کا رنگ تبدیل کیا تاکہ امت کے لیے نمونہ ہو، اس عمل کو انس (رض) کو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوسکا۔ رہی ابن عمر (رض) کی اگلی حدیث (نمبر : ٥٠٨٨ ) کہ آپ ﷺ پیلے رنگ سے اپنے بال رنگتے تھے تو پیلے رنگ کا استعمال بعد میں منسوخ ہوگیا تھا جس کی خبر ابن عمر (رض) کو نہیں ہوسکی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5083
مہندی اور وسمہ کا خضاب
ابورمثہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ آپ اپنی داڑھی میں پیلے رنگ لگائے ہوئے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٧٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5084
زدر رنگ سے خضاب کرنا
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) اپنی ڈاڑھی خلوق سے پیلی کرتے تھے، میں نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! آپ اپنی ڈاڑھی خلوق سے پیلی کرتے ہیں ؟ کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس سے اپنی ڈاڑھی پیلی کرتے تھے، اور کوئی بھی رنگ آپ کو اس سے زیادہ پسند نہیں تھا، آپ اس سے اپنے تمام کپڑے یہاں تک کہ اپنی پگڑی بھی رنگتے تھے ٢ ؎۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابوقتیبہ کی حدیث کے مقابلے میں یہ زیادہ قرین صواب ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٨ (٤٠٦٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٢٨) ، ویأتی برقم ٥١١٨ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: خلوق ایک قسم کی خوشبو ہے جو کئی چیز سے بنتی ہے، اس میں ورس اور زعفران بھی شامل ہے۔ ٢ ؎: عبداللہ بن عمر (رض) کو پیلے رنگ کی اجازت منسوخ ہوجانے کی خبر نہیں مل سکی تھی، پیلا رنگ عورتوں کا رنگ ہونے کے سبب مردوں کے لیے منسوخ کردیا گیا۔ ٣ ؎: ابوقتیبہ کی روایت مؤلف کے یہاں آگے آرہی ہے (حدیث نمبر ٥٢٤٥ ) اس روایت میں ابن عمر (رض) سے سوال کرنے والے زید بن اسلم کی جگہ عبید ہیں، مؤلف یہی بتار ہے ہیں کہ سائل زید ہیں نہ کہ عبید ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5085
زدر رنگ سے خضاب کرنا
قتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے انس (رض) سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے خضاب لگایا تھا ؟ کہا : آپ کو اس کی حاجت نہ تھی، کیونکہ صرف تھوڑی سی سفیدی کان کے پاس تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٠) (وراجع أیضا اللباس ٦٦ (٥٨٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٨) ، مسند احمد (٤/١٩٢، ٢٥١، ٢٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5086
زدر رنگ سے خضاب کرنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خضاب نہیں لگاتے تھے، کیونکہ تھوڑی سی سفیدی آپ کے ہونٹ کے نیچے تھے، تھوڑی سی کان کے پاس ڈاڑھی میں اور تھوڑی سی سر میں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/فضائل ٢٩(٢٣٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٨) ، مسند احمد (٣/٢١٦) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5087
زدر رنگ سے خضاب کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو دس عادتیں ناپسند تھیں : پیلا رنگ لگانا یعنی خلوق، بڑھاپے کا رنگ بدلنا ١ ؎، تہبند (لنگی) ٹخنے سے نیچے لٹکانا، سونے کی انگوٹھی پہننا، چوسر شطرنج کھیلنا، بےموقع و محل عورتوں کا اجنبیوں کے سامنے بن ٹھن کر نکلنا، معوذات کے علاوہ دوسرے منتر پڑھنا، تعویذ لٹکانا، ناجائز جگہ میں منی بہانا، بچے کو صحت مند نہ ہونے دینا، ٢ ؎ البتہ آپ اسے حرام نہیں کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٣ (٤٢٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٥) ، مسند احمد (٣/٣٨٠، ٣٩٧، ٤٣٩) (منکر) (اس کے راوی ” قاسم “ اور ” عبدالرحمن “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ١ ؎: بڑھاپے کا رنگ بدلنا یعنی انہیں اکھیڑنا یا ان میں کالا خضاب لگانا۔ بچے کو صحت مند نہ ہونے دینا یعنی ایام رضاعت میں بچے کی ماں سے صحبت کرنا۔ قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5088
خواتین کا خضاب کرنا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ کو خط دینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا تو آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، وہ بولی : اللہ کے رسول ! میں نے ایک خط دینے کے لیے آپ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو آپ نے اسے نہیں لیا۔ آپ نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ وہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا ، میں نے عرض کیا : عورت کا ہاتھ ہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کو مہندی سے رنگا ہوتا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٤ (٤١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٦٨) ، مسند احمد (٦/٢٦٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے اس بات کی تاکید معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو اپنی نسوانیت کی علامت اختیار کئے رہنا چاہیئے اور مردوں سے مشابہت کی کوئی بات اختیار نہیں کرنی چاہیئے اس کی حکمت دراصل اللہ کی تخلیق کو اپنی جگہ برقرار رکھنے کی بات ہے، اللہ کی خلقت کو بدلنا حرام عمل ہے، اس کی خواہ کوئی صورت ہو، نسوانیت کی علامت کے سلسلے میں بھی خاص خاص مرد اور عورت کے امتیازی علامات کے علاوہ چیزوں میں علاقہ و سماج کے عزت و رواج کا لحاظ کیا جائے گا۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5089
مہندی کی بو ناپسند ہونا
کریمہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا : ان سے کسی عورت نے مہندی لگانے کے بارے میں پوچھا تو وہ بولیں : اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن میں اسے اس لیے ناپسند کرتی ہوں کہ میرے محبوب ﷺ اس کی بو کو ناپسند کرتے تھے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٤ (٤١٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٥٩) ، مسند احمد (٦/١١٧، ٢١٠) (ضعیف) (اس کی راویہ ” کریمہ “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5090
سفید بال اکھاڑنا
ابوالحصین ہیثم بن شفی کہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی جس کی کنیت ابوعامر تھی اور وہ قبیلہ معافر ١ ؎ کا تھا دونوں ایلیاء (بیت المقدس) میں نماز پڑھنے کے لیے نکلے، بیت المقدس میں لوگوں کے واعظ صحابہ میں سے قبیلہ ازد کے ابوریحانہ نامی ایک شخص تھے، میرے ساتھی مسجد میں مجھ سے پہلے پہنچے، پھر ان کے پیچھے میں آیا اور آ کر ان کے بغل میں بیٹھ گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا : آپ نے ابوریحانہ کا کچھ وعظ سنا ؟ میں نے کہا : نہیں، وہ بولے : میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس باتوں سے منع فرمایا ہے : دانت باریک کرنے سے، گودنا گودنے سے، (سفید) بال اکھیڑنے سے، دو مردوں کے ایک ساتھ ایک کپڑے میں سونے سے، دو عورتوں کے ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں سونے سے، مرد کے اپنے کپڑوں کے نیچے عجمیوں کی طرح ریشمی کپڑا لگانے سے، یا عجمیوں کی طرح اپنے مونڈھوں پر ریشم لگانے سے، دوسروں کے مال لوٹنے سے، درندوں کی کھال پر سوار ہونے سے، اور انگوٹھی پہننے سے سوائے بادشاہ (حاکم) کے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١١ (٤٠٤٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٦ (٣٦٥٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٩) ، مسند احمد (٤/١٣٤، ١٣٥) ، سنن الدارمی/الإستئذان ٢٠ (٢٦٩٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١١٣-٥١١٥ (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” ابو عامر معافری لین الحدیث ہیں، لیکن نمبر ٥١١٤ کی سند میں ان کا واسطہ نہیں ہے اس لیے اس سند سے یہ روایت صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: معافر یمن میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎: اکثر سلف نے صرف زیب و زینت کی خاطر انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے، (کچھ علماء اس ممانعت کو مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں) بادشاہ، یا بادشاہ کے نائبین جیسے عامل، گورنر، اسی طرح کسی بھی ادارے یا اس کے سربراہ کے لیے اپنی تحریر پر مہر لگانے کی خاطر انگوٹھی کے جواز کے سب قائل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5091
بالوں کو جوڑنے سے متعلق
معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فریب کاری (یعنی اپنے بالوں میں دوسرے بال جوڑنے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأنبیاء ٥٤ (٣٤٨٨) ، اللباس ٨٣ (٥٩٣٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٤١٨) ، مسند احمد (٤/٩١، ٩٣، ١٠١) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام ٥٢٤٨-٥٢٥٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5092
بالوں کو جوڑنے سے متعلق
سعید مقبری کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان (رض) کو منبر پر دیکھا ان کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں عورتوں کے بالوں کی ایک چوٹی تھی، انہوں نے کہا : کیا حال ہے مسلمان عورتوں کا جو ایسا کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس عورت نے اپنے سر میں کوئی ایسا بال شامل کیا جو اس میں کا نہیں ہے تو وہ فریب کرتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٤١٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5093
جو خاتون بالوں میں جوڑ لگائے
اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بال جوڑنے والی اور بال جو ڑوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٣٥) ، ٨٥ (٥٩٤١) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٩٨٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٤٧) ، مسند احمد (٦/١١١، ٣٤٥، ٣٤٦، ٣٥٣) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5094
بالوں کو جڑوانا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ بال جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) ولید بن ہشام نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، (ان کی روایت آگے آرہی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨١٠٧) ، ویأتي عند المؤلف : ٥٢٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5095
بالوں کو جڑوانا
نافع سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے بال جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٣ (٥٩٣٧) ، ٨٥ (٥٩٤٠) ، ٨٧ (٥٩٤٧) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٤) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٨) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٥ (١٧٥٩) ، الأدب ٣٣ (٢٧٨٤) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٧٥٩) ، مسند احمد (٢/٢١) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٥١ و ٥٢٥٣ (صحیح) (یہ مرسل ہے لیکن اوپر کی حدیث میں نافع نے اسے ابن عمر سے روایت کیا ہے اس سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5096
بالوں کو جڑوانا
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بال جوڑنے والی اور جو ڑوانے والی عورت پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/النکاح ٩٤ (٥٢٠٥) ، اللباس ٨٣ (٥٩٣٤) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٤٩) ، مسند احمد (٦/١١١، ١١٦، ٢٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5097
بالوں کو جڑوانا
مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آ کر کہا : میرے سر پر بال بہت کم ہیں، کیا میرے لیے صحیح ہوگا کہ میں اپنے بال میں کچھ بال جوڑ لوں ؟ انہوں نے کہا : نہیں، اس نے کہا : کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے یا کتاب اللہ (قرآن) میں ہے ؟ کہا : نہیں، بلکہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ اور اسے کتاب اللہ (قرآن) میں بھی پاتا ہوں …، اور پھر آگے حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٥٨٤) ، مسند احمد (١/٤١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5098
جو خواتین چہرہ کے بال (یعنی منہ کا) رواں اکھاڑیں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گودنے والی، گودوانے والی، پیشانی کے بال اکھاڑنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کروانے والی، اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیرسورة الحشر ٤ (٤٨٨٦) ، اللباس ٨٢ (٥٩٣١) ، ٨٤ (٥٩٣٩) ، ٨٥ (٥٩٤٣) ، ٨٦ (٥٩٤٤) ، ٨٧ (٥٩٤٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٥) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٩) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٣ (٢٧٨٢) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ٥٢ (١٩٨٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٥٠) ، مسند احمد (١/٤٣٣، ٤٤٣، ٤٦٥) ، سنن الدارمی/الإستئذان ١٩ (٢٦٨٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥١١٠- ٥١١٢، ٥٢٥٤- ٥٢٥٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چونکہ یہ سارے اعمال ممنوع ہیں اس لیے ان کو کرنے والے اور ان کے کرنے میں مدد دینے والے سب پر لعنت کی گئی ہے، دانتوں میں کشادگی کے لیے، دانتوں کی تراش خراش کرنی پڑتی ہے اور یہ عمل قدرتی دانتوں میں تبدیلی ہے جو اللہ کی تخلیق میں دخل دینا ہے اس لیے یہ عمل بھی ممنوع ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5099
جو خواتین چہرہ کے بال (یعنی منہ کا) رواں اکھاڑیں
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے (متفلجات للحسن کے بجائے) صرف متفلجات کہا اور حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٥ م) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٣١) ، ویأتي عند المؤلف : بأرقام : ٥٢٥٥، ٥٢٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5100
جو خواتین چہرہ کے بال (یعنی منہ کا) رواں اکھاڑیں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گودنے، گودوانے، بال جوڑنے، جڑوانے اور بال اکھاڑنے اور اکھڑوانے والی عورتوں کو ایسا کرے کرنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٥) ، مسند احمد (٦/٢٥٧) (صحیح) (اس کی راویہ ” ام ابان “ لین الحدیث ہیں، نیز ” ابان “ آخر میں مختلط ہوگئے تھے، مگر اس حدیث کے تمام مشمولات کے صحیح شواہد موجود ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5101
جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں : سود کھانے والا، کھلانے والا، اور اس کا لکھنے والا ١ ؎ جب کہ وہ اسے جانتا ہو (کہ یہ حرام ہے) اور خوبصورتی کے لیے گودنے اور گودوانے والی عورتیں، صدقے کو روکنے والا اور ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی (دیہاتی) ہوجانے والا ٢ ؎ یہ سب قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ملعون ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩١٩٥) ، مسند احمد (١/٤٠٩، ٤٣٠، ٤٦٥) ، وراجع أیضا : صحیح مسلم/المساقاة ١٩ (١٥٩٧) ، سنن ابی داود/البیوع ٤ (٣٣٣٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٢ (١٢٠٦) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٧) ، مسند احمد (١/ ٣٩٣، ٣٩٤، ٤٠٢، ٤٥٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سود کھانا اور کھلانا تو اصل گناہ ہے، اور حساب کتاب گناہ میں تعاون کی قبیل سے ہے اس لیے وہ بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے۔ اسی طرح وہ کام جو اس حرام کام میں ممدو معاون ہوں موجب لعنت ہیں۔ ٢ ؎: یہ اس وقت کے تناظر میں تھا جب اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ رہ کر ان کی مدد کرنی واجب تھی اور مدینہ کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی مرکزی بھی نہیں تھا، اگر دنیا میں کہیں اب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو دنیاوی منفعت کی خاطر مرکز اسلام کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوجانے کا یہی حکم ہوگا، مگر اب ایسا کہاں ؟۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5102
جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کا حساب لکھنے والے اور صدقہ نہ دینے والے پر لعنت فرمائی ہے، نیز آپ نوحہ (مردے پر چیخ چیخ کر رونے) سے منع فرماتے تھے۔ اسے ابن عون و عطا بن سائب نے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٠٣٦، ١٨٤٨٢) ، مسند احمد (١/٨٣، ٨٧، ١٠٧، ١٣٣، ١٥٠، ١٥٨) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١٠٧، ٥١٠٨) (صحیح) (شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” حارث اعور “ ضعیف ہیں ۔ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5103
جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے والے، سود پر گواہی دینے والے، سود کا حساب لکھنے والے پر، اور گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے، الا یہ کہ وہ کسی مرض کی وجہ سے ہو تو آپ نے فرمایا : ہاں اور آپ نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر، اور زکاۃ نہ دینے والے پر (لعنت فرمائی) اور آپ نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے (نوحہ کے بارے میں) لعن کا لفظ نہیں کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ یہ حارث اعور کی مرسل روایت ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5104
جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
شعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے والے، سود کی گواہی دینے والے، سود کا حساب لکھنے والے پر، اور گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے، اور نوحہ سے منع فرمایا، (اس روایت میں حلالہ کرنے والے اور صدقہ کو روکنے والے پر) لعنت کا ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٠٦ (صحیح) (یہ روایت بھی مرسل ہے، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5105
جسم گدوانے والیوں کا بیان اور راویوں کا اختلاف اور راویوں کے اختلاف کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ عمر (رض) کے پاس ایک عورت لائی گئی جو گودنا گودتی تھی تو انہوں نے کہا : میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، اس سلسلے میں تم میں سے کسی نے کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : چناچہ میں نے کھڑے ہو کر کہا : امیر المؤمنین ! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا : کیا سنا ہے ؟ میں نے کہا : میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا : (اے عورتو ! ) نہ گودو اور نہ گودواؤ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٧ (٥٩٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5106
دانتوں کو کشادہ کرنے والیاں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو چہرے کے بال اکھاڑنے والی، دانتوں کے درمیان کشادگی کرانے والی اور گودانے والی عورتوں پر لعنت فرماتے ہوئے سنا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی خلقت کو تبدیل کرتی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد النسائي (تحفة الأشراف : ٩٥٣٦) ، مسند احمد (١/٤١٦، ٤١٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١١١، ٥١١٢) (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5107
دانتوں کو کشادہ کرنے والیاں
دانتوں کو کشادہ کرنے والیاں
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے بال اکھاڑنے والی، گودوانے والی اور دانتوں میں کشادگی کرانے والی عورتوں پر، جو اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کرتی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5109
دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنا حرام ہونے سے متعلق
ابوالحصین حمیری کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ایک ساتھی ابوریحانہ (رض) کے ساتھ رہتے تھے اور خیر و بھلائی کی باتیں سیکھتے تھے، ایک دن میرے ساتھی میرے یہاں آئے اور مجھے بتایا کہ انہوں نے ابوریحانہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنے، گودنے اور بال اکھاڑنے کو حرام قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٤ (ضعیف) (اس کے ایک راوی مبہم ہیں، اور وہ ابوعامر معافری ہیں جن کی صراحت سابقہ حدیث نمبر میں موجود ہے، یہ لین الحدیث ہیں، لیکن اگلی سند سے یہ روایت متصل اور صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5110
دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنا حرام ہونے سے متعلق
ابوریحانہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنے اور گودنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5111
دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنا حرام ہونے سے متعلق
ابوریحانہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دانتوں کو رگڑ کر باریک کرنے اور گودنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5112
سرمہ کا بیان
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بہترین سرمہ اثمد (ایک پتھر) ہوتا ہے، وہ نظر تیز کرتا اور بال اگاتا ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : عبداللہ بن عثمان بن خثیم لین الحدیث ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الشمائل ٧، سنن ابن ماجہ/الطب ٢٥ (٣٤٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٣٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الطب ١٤ (٣٨٧٨) ، اللباس ١٦ (٤٠٦١) ، سنن الترمذی/اللباس ٢٣ (١٧٥٧) ، الطب ٩ (٢٠٣٨) ، مسند احمد (١/٢٣١، ٢٤٧، ٢٧٤، ٣٥٥، ٣٦٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن دیگر بہت سے أئمہ نے ان کی توثیق کی ہے، نیز بقول حافظ ابن حجر : ایک روایت کے مطابق خود امام نسائی نے ان کی توثیق کی ہے، (دیکھئیے تہذیب التہذیب ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5113
تیل لگانے سے متعلق حدیث
سماک کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ (رض) سے سنا، ان سے رسول اللہ ﷺ کے بالوں کی سفیدی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا : جب آپ اپنے سر میں خوشبو (دہن عود) یا تیل لگاتے تو ان بالوں کی سفیدی نظر نہ آتی اور جب نہ لگاتے تو نظر آتی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٩ (٢٣٤٤) ، سنن الترمذی/الشمائل ٥ (٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٢١٨٢) ، مسند احمد (٥/٨٦، ٨٨، ٩٠، ٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5114
زعفران کے رنگ سے متعلق
زید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر (رض) اپنے کپڑوں کو زعفران میں رنگتے تھے۔ ان سے (اس بارے میں) کہا گیا۔ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ بھی رنگتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٨٨ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: دیکھے حاشیہ حدیث نمبر : ٥٠٨٨ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5115
عنبر لگانے سے متعلق
محمد بن علی باقر کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ خوشبو لگاتے تھے ؟ کہا : ہاں، مردانہ خوشبو : مشک اور عنبر۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٥٩٢) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی بکر اور عبداللہ ہاشمی حافظے کے کمزور ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5116
مردوں اور خواتین کی خوشبو میں فرق سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ چھپا ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک چھپی ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/النکاح ٥٠ (٢١٧٤) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٦ (الاستئذان ٧٠) (٢٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٨٦) ، مسند احمد (٢/٤٤٧، ٥٤٠) (حسن) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ورنہ اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے ) وضاحت : ١ ؎: مردوں کے لیے رنگلین خوشبو اس لیے منع ہے کہ رنگ عورتوں کی چیز ہے جو مردانہ وجاہت کے خلاف ہے، رنگدار خوشبو جیسے زعفران اور خلوق جس کا تذکرہ حدیث نمبر : ٥١٢٣ (وما بعدہ) میں آ رہا ہے، سند کے لحاظ سے گرچہ وہ روایتیں ضعیف ہیں مگر اس حدیث سے ان کے معنی کو تقویت حاصل ہو رہی ہے اور عورتوں کے لیے یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب عورت گھر سے باہر نکلے، ورنہ شوہر کے ساتھ گھر میں رہتے ہوئے ہر طرح کی خوشبو استعمال کرسکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5117
مردوں اور خواتین کی خوشبو میں فرق سے متعلق
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مردوں کی خوشبو وہ ہے کہ جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ چھپا ہو، عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک چھپی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن لغیرہ) (اس کے راوی ” طفاوی “ مبہم ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5118
سب سے بہتر خوشبو؟
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کی ایک عورت نے سونے کی ایک انگوٹھی بنائی اور اس میں مشک بھر دی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ سب سے عمدہ خوشبو ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5119
زعفران لگانے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، وہ خلوق میں لتھڑا ہوا تھا تو اس سے آپ نے فرمایا : جاؤ اور اسے دھو ڈالو ، پھر وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : جاؤ اسے دھو ڈالو ۔ وہ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا : جاؤ اسے دھو ڈالو، پھر آئندہ نہ لگانا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٢٧١) (ضعیف) (اس کا راوی عمران بن ظبیان شیعہ اور ضعیف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5120
زعفران لگانے سے متعلق
یعلیٰ بن مرہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرے، اور وہ خلوق لگائے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : کیا تمہاری بیوی ہے ؟ کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : تو اسے دھوؤ اور دھوؤ پھر نہ لگانا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الأدب ٥١ (الإستئذان ٨٥) (٢٨١٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٤٩) ، مسند احمد (٤/١٧١، ١٧٣) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١٢٥-٥١٢٨) (ضعیف) (اس کا راوی ابو حفص بن عمرو مجہول ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5121
زعفران لگانے سے متعلق
یعلیٰ بن مرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خلوق لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا : جاؤ اسے دھو لو، اور پھر دھو لو اور دوبارہ نہ لگانا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5122
زعفران لگانے سے متعلق
اس سند سے بھی یعلیٰ (رض) سے اسی طرح مروی ہے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) سفیان کی روایت اس کے برخلاف ہے، چناچہ انہوں نے اسے عطاء بن سائب سے، انہوں نے عبداللہ بن حفص سے اور انہوں نے یعلیٰ سے روایت کیا ہے۔ (عبداللہ بن حفص وہی ابوحفص بن عمرو ہے جو پچھلی سند میں ہے۔ ) تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٢٤ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5123
زعفران لگانے سے متعلق
یعلیٰ بن مرہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا، مجھ پر خلوق کا داغ لگا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : یعلیٰ ! کیا تمہاری بیوی ہے ؟ میں نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اسے دھو لو، پھر نہ لگانا، پھر دھو لو اور نہ لگانا اور پھر دھو لو اور نہ لگانا ، میں نے اسے دھو لیا اور پھر نہ لگایا، میں نے پھر دھویا اور نہ لگایا اور پھر دھویا اور نہ لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٢٤ (ضعیف) (اس کا راوی عبداللہ بن حفص وہی ابو حفص بن عمرو ہے جو مجہول ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5124
زعفران لگانے سے متعلق
یعلیٰ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا، میں خلوق لگائے ہوئے تھا، آپ نے فرمایا : یعلیٰ ! کیا تمہاری بیوی ہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : جاؤ، اسے دھوؤ، پھر دھوؤ اور پھر دھوؤ، پھر ایسا نہ کرنا ، میں گیا اور اسے دھویا پھر دھویا اور پھر دھویا پھر ایسا نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٢٤ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5125
خواتین کو کونسی خوشبو لگانا ممنوع ہے؟
ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت عطر لگائے اور پھر لوگوں کے سامنے سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ٧ (١٤٧٣) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٥ (الاستئذان ٦٩) (٢٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٠٢٣) ، مسند احمد (٤/٣٩٤، ٤٠٠، ٤٠٧، ٤١٣، ٤١٤، ٤١٨) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ عطر مہک والا ہو، اور مہک والا عطر لگا کر باہر نکلنا عورتوں کے لیے حرام ہے، گھر میں شوہر کے لیے لگا سکتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5126
عورت کا غسل کر کے خوشبو دور کرنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عورت مسجد کے لیے نکلے تو خوشبو مٹانے کے لیے اس طرح غسل کرے جیسے غسل جنابت کرتی ہے ، یہ حدیث مختصر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٥٥٠٧) ، سنن ابی داود/فی الترجل ٧(٤١٧٤) ، وسنن ابن ماجہ/فی الفتن ١٩ (٤٠٠٢) ، وحم (٢/٢٩٧، ٤٤٤، ٤٦١) بلفظ ” لا تقبل صلاة لامرأة تطیب للمسجد حتی ترجع فتغسل غسلہا من الجنابة “ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5127
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عورت خوشبو لگائے ہو تو ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں نہ آئے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یزید بن خصیفہ کی بسر بن سعید سے روایت کرتے ہوئے عن ابی ھریرہ کہنے میں متابعت کی ہو۔ اس کے برعکس یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے اسے روایت کرنے میں عن زینب الثقفی ۃ کہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٤) ، سنن ابی داود/الترجل ٧ (٤١٧٥) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٧) ، مسند احمد (٢/٣٠٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٦٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یزید بن خصیفہ کی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے، یہ بالکل ممکن ہے کہ روایت یزید کے پاس دونوں سندوں سے ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5128
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم میں سے کوئی عورت عشاء پڑھنے کے لیے (مسجد) آئے تو خوشبو نہ لگائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٨٨) ، مسند احمد (٦/٣٦٣) ویأتي وبأرقام : ٥١٣٣- ٥١٣٧، ٥٢٦٢-٥٢٦٤) (حسن، صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5129
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں عشاء میں آئے تو خوشبو نہ لگائے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یحییٰ اور جریر کی حدیث وہب بن خالد کی حدیث سے زیادہ قرین صواب ہے، واللہ اعلم ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جریر کی روایت یہی ہے، اور جریر و یحییٰ کی مشترکہ روایت نمبر ٥٢٦٢ پر آرہی ہے، مؤلف کا مقصد یہ ہے زینب رضی اللہ عنہا کی روایت میں بسر بن سعید سے روایت کرنے والے بکیر کا ہونا یعقوب بن عبداللہ کے بالمقابل زیادہ قرین صواب بات ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5130
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں جو کوئی عورت مسجد جائے تو خوشبو نہ لگائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5131
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب ثقفیہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ جب عشاء کے لیے مسجد جائیں تو خوشبو نہ لگائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5132
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب عورت عشاء کے لیے مسجد جائے تو خوشبو نہ لگائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5133
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی عورت جب نماز کے لیے مسجد جائے تو خوشبو نہ لگائے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ روایت زہری کی روایت سے غیر محفوظ ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : بسر سے زہری کا راوی ہونا غیر محفوظ ہے، ان کی جگہ بکیر کا ہونا محفوظ ہے، بہرحال روایت محفوظ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5134
کوئی خاتون خوشبو لگا کر جماعت میں شامل نہ ہو
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر (رض) جب دھونی لیتے تو کبھی خالص عود کی دھونی جس میں کچھ نہ ملا ہوتا لیتے اور کبھی کافور ملا کر دھونی لیتے، پھر کہتے کہ اسی طرح رسول اللہ ﷺ دھونی لیتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ألفاظ من الأدب ٥ (٢٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٠٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5135
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کو زیورات اور ریشم سے منع فرماتے تھے اور فرماتے : اگر تم لوگ جنت کے زیورات اور اس کا ریشم چاہتے ہو تو اسے دنیا میں نہ پہنو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٩٢٠) ، مسند احمد (٤/١٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس باب میں مذکور بعض احادیث میں عورتوں کے لیے بھی سونے کے استعمال کو حرام بتایا گیا ہے، مؤلف نیز جمہور أئمہ عورتوں کے لیے سونے کے مطلق استعمال کے جواز کے قائل ہیں، اس لیے مؤلف نے ان احادیث کی گویا ایک طرح سے تاویل کرتے ہوئے یہ باب باندھا ہے، یعنی : ان احادیث میں جو عورتوں کے لیے سونے کے زیورات کو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ اس صورت میں ہے جب وہ ان کو پہن کر بطور فخر و مباہات کی نمائش کرتی پھریں، ورنہ ہر طرح کا سونے کا زیور عورتوں کے لیے حلال ہے، بعض علماء ان احادیث کو اس حدیث سے منسوخ مانتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا اور ریشم کو مردوں کے لیے حرام کردیا گیا ہے، اور عورتوں کے حلال کردیا گیا ہے ، اس حدیث میں کوئی قید نہیں کہ سونے کا زیور حلقہ دار ہو یا ٹکڑے والا، علامہ البانی نے دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق کی راہ یہ نکالی ہے (جس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے) کہ عورتوں کے لیے حلقہ دار سونے کا زیور (جیسے کنگن، بالی اور انگوٹھی وغیرہ) حرام ہے، ہاں ٹکڑے ٹکڑے والا زیور حلال ہے جیسے بٹن، ٹپ، اور ایسا ہار جس کا بعض حصہ دھاگہ ہو، وغیرہ وغیرہ، احتیاط علامہ البانی کے قول ہی میں ہے۔ (ملاحظہ ہو : آداب الزفاف للألبانی ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5136
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
حذیفہ (رض) کی بہن کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے خطاب کیا تو فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! کیا تم چاندی کا زیور نہیں بنا سکتیں ؟ دیکھو، تم میں سے جو عورت دکھانے کے لیے سونے کا زیور پہنے گی اسے عذاب ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٨ (٤٢٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٤٣، ١٨٣٨٦) ، مسند احمد (٦/٣٥٧، ٣٥٨، ٣٦٩) ، سنن الدارمی/الاستئذان ١٧ (٢٦٨٧) (ضعیف) (اس کی راویہ ” ربعی کی اہلیہ “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5137
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
حذیفہ (رض) کی بہن کہتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خطاب کیا اور فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! کیا تم چاندی کا زیور نہیں بنا سکتیں، دیکھو، تم میں سے جو عورت دکھانے کے لیے سونے کا زیور پہنے گی اسے عذاب ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (ضعیف ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5138
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت سونے کا ہار پہنے گی اللہ تعالیٰ اس کی گردن میں اسی جیسا آگ کا ہار پہنائے گا، اور جو کان میں سونے کی بالیاں پہنے گی، اللہ تعالیٰ اس کے کان میں اسی جیسی آگ کی بالیاں قیامت کے دن پہنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٨ (٤٢٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٧٧٦) ، مسند احمد (٦/٤٥٣، ٤٥٧، ٤٥٨) (ضعیف) (اس کے راوی ” محمود “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5139
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ بنت ہبیرہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی انگوٹھیاں تھیں رسول اللہ ﷺ ان کے ہاتھ پر مارنے لگے، وہ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئیں تاکہ ان سے اس برتاؤ کا گلہ شکوہ کریں جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ کیا تھا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گلے کا سونے کا ہار نکالا اور بولیں : یہ مجھے ابوالحسن (علی) نے تحفہ دیا تھا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ آگئے اور ہار ان کے ہاتھ ہی میں تھا، آپ نے فرمایا : فاطمہ ! تمہیں یہ بات پسند ہے کہ لوگ کہیں : رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور ہاتھ میں آگ کی زنجیر ؟ ، پھر آپ بیٹھے نہیں چلے گئے، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ہار بازار بھیج کر اسے بیچ دیا اور اس کی قیمت سے ایک غلام (لڑکا) خریدا اور اسے آزاد کردیا، نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : شکر ہے اللہ کا جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات دی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢١١٠) ، مسند احمد (٥/٢٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5140
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
ثوبان (رض) کہتے ہیں کہ ہبیرہ کی صاحب زادی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، ان کے ہاتھ میں سونے کی موٹی موٹی انگوٹھیاں تھیں، پھر آگے اسی طرح بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5141
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے آپ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میرے پاس سونے کے دو کنگن ہیں، آپ نے فرمایا : آگ کے دو کنگن ہیں وہ بولی : اللہ کے رسول ! سونے کا ہار ہے، آپ نے فرمایا آگ کا ہار ہے ، وہ بولی : سونے کی دو بالیاں ہیں، آپ نے فرمایا : آگ کی دو بالیاں ہیں ، اس عورت کے پاس سونے کے دو کنگن تھے، اس نے انہیں اتار کر پھینک دئیے اور بولی : اگر عورت اپنے شوہر کے لیے بناؤ سنگار نہ کرے تو وہ اس کے لیے پھر کس کام کی ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تمہیں چاندی کی بالیاں بنانے پھر اسے زعفران یا عبیر سے پیلا کرنے سے کون سی چیز مانع ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٩٣٤) ، مسند احمد (٢/٤٤٠) (ضعیف) (اس کے راوی ابو زید صاحب ابی ہریرہ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5142
خواتین کو زیور اور سونے کے اظہار کی کراہت سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سونے کی پازیب پہنے دیکھا، تو فرمایا : میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاتا ہوں، تم اسے اتار دو اور چاندی کی پازیب بنا لو، پھر انہیں زعفران سے رنگ کر پیلا کرلو، یہ بہتر ہے ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یہ حدیث محفوظ نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5143
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ریشم لے کر اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھا، اور سونا لے کر اسے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا : یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٤ (٤٠٥٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٩ (٣٥٩٥) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٣) ، مسند احمد (١/١١٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١٤٨-٤٨٥٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان دونوں کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5144
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
علی بن ابی طالب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم لے کر اسے دائیں ہاتھ میں رکھا، سونا لے کر اسے بائیں ہاتھ میں رکھا پھر فرمایا : یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5145
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ریشم لے کر اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھا، اور سونا لے کر اسے اپنے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا : یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : ابن مبارک کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے سوائے ان کے قول افلح کے، اس لیے کہ ابو افلح زیادہ صحیح ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٤٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مولف کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں لیث بن سعد سے روایت کرنے والے پہلے عبداللہ بن مبارک کا ہونا بمقابلہ دوسروں کے زیادہ صواب ہے۔ (جیسا کہ اس سند میں ہے) مگر ابن مبارک سے ابو افلح کے بارے میں وہم ہوگیا ہے، صحیح ابوافلح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5146
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا لیا اور بائیں ہاتھ میں ریشم، پھر فرمایا : یہ میری امت کے مردوں پر حرام ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5147
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١ (١٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٩٨) ، مسند احمد (٤/٣٩٤، ٤٠٧) ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5148
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم اور سونا پہننے سے منع فرمایا مگر جب مقطع یعنی تھوڑا اور معمولی ہو (یا ٹکڑے ٹکڑے ہو) ١ ؎۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) عبدالوہاب نے سفیان کے برخلاف اس حدیث کو خالد سے، خالد نے میمون سے اور میمون نے ابوقلابہ سے روایت کیا ہے، (یعنی : سند میں ایک راوی میمون کا اضافہ کیا ہے ) تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٨ (٤٢٣٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٢١) ، مسند احمد (٤/٩٢، ٩٣) (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” میمون “ لین الحدیث ہیں، اور ” ابو قلابہ “ کا معاویہ رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے ) وضاحت : ١ ؎: مقطع کی ایک تفسیر یسیر (یعنی کم) بھی ہے، جب یہ معنی ہو تو یہ رخصت و اجازت عورتوں کے لیے ہے، مردوں کے لیے سونا مطلقا حرام ہے چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ۔ عورتوں کے لیے جنس سونا حرام نہیں سونے کی اتنی مقدار جس میں زکاۃ واجب نہیں وہ اپنے استعمال میں لاسکتی ہیں، البتہ اس سے زائد مقدار ان کے لیے بھی مناسب نہیں کیونکہ بسا اوقات بخل کے سبب وہ زکاۃ نکالنے سے گریز کرنے لگتی ہیں جو ان کے گناہ اور حرج میں پڑجانے کا سبب بن جاتا ہے، اور مقطع کا دوسرا معنی ریزہ ریزہ کا بھی ہے، اس کے لیے دیکھئیے حدیث نمبر ٥١٣٩ کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5149
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا، مگر ریزہ ریزہ کر کے اور سرخ گدوں پر بیٹھنے سے (بھی منع فرمایا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5150
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوشیخ سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ (رض) کو بیان کرتے ہوئے سنا ان کے پاس کے صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی تھی، انہوں نے کہا : کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے مگر ریزہ ریزہ کر کے ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٢٣ (١٧٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٥٦) ، مسند احمد (٤/٩٢، ٩٥، ٩٨، ٩٩) ، ویأتي عندالمؤلف برقم : (٥١٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5151
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوشیخ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ حج میں معاویہ (رض) کے ساتھ تھے، اسی دوران انہوں نے صحابہ کرام کی ایک جماعت اکٹھا کی اور ان سے کہا : کیا آپ کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے ؟ مگر ریزہ ریزہ کر کے۔ لوگوں نے کہا : جی ہاں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) یحییٰ بن ابی کثیر نے مطر کے خلاف روایت کی ہے جب کہ یحییٰ بن ابی کثیر کے شاگرد خود ان سے روایت کرنے میں مختلف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5152
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوحمّان سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ (رض) نے حج کیا، اس سال کعبے میں رسول اللہ ﷺ کے کئی صحابہ کو جمع کر کے کہا : میں آپ کو قسم دیتا ہوں ! کیا رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے ؟ لوگوں نے کہا : ہاں۔ وہ بولے : میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) حرب بن شداد نے اسے علی بن مبارک کے خلاف روایت کرتے ہوئے عن یحییٰ عن ابی شیخ عن أخیہ حمان کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5153
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوشیخ کے بھائی حمان سے روایت ہے کہ جس سال معاویہ (رض) نے حج کیا، صحابہ کرام کی ایک جماعت کو کعبے میں اکٹھا کر کے ان سے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، انہوں نے کہا : میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) اوزاعی نے حرب بن شداد کے خلاف روایت کی ہے جب کہ خود اوزاعی کے شاگرد ان سے روایت کرنے میں مختلف ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5154
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
حمان بیان کرتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے حج کیا تو انصار کے کچھ لوگوں کو کعبے میں بلا کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سونا سے منع فرماتے نہیں سنا ؟ لوگوں نے کہا : ہاں۔ وہ بولے : اور میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5155
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
حمان کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے حج کیا تو کعبہ میں انصار کے کچھ لوگوں کو بلا کر کہا : میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سونا سے منع فرماتے نہیں سنا ؟ انہوں نے کہا : ہاں، وہ بولے : اور میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5156
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوحمان کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے حج کیا، تو انصار کے کچھ لوگوں کو کعبے میں بلا کر کہا : میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سونا سے منع فرماتے نہیں سنا ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ وہ بولے : اور میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5157
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
حمان بیان کرتے ہیں کہ معاویہ (رض) نے حج کیا، اور انصار کے کچھ لوگوں کو کعبے میں بلا کر کہا : میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو سونا سے منع فرماتے نہیں سنا ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ وہ بولے : اور میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : عمارہ یحییٰ (یحییٰ بن حمزہ) سے حفظ میں زیادہ پختہ ہیں اور ان کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یحییٰ بن ابی کثیر اور حمان کے درمیان ابواسحاق کا واسطہ اولیٰ و انسب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5158
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوشیخ ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو سنا، ان کے اردگرد مہاجرین و انصار کے کچھ لوگ تھے، معاویہ نے ان سے کہا : کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، وہ بولے : اور سونا پہننے سے منع فرمایا ہے، مگر جب مقطع ہو ؟ ان لوگوں نے کہا : ہاں۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) علی بن غراب نے نضر بن شمیل کے خلاف اس حدیث کو بیھس سے انہوں نے ابوشیخ سے اور انہوں نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5159
مردوں پر سونا حرام ہونے کے بارے میں
ابوشیخ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو سنا کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ وہ مقطع ہو (تو جائز ہے) ۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : نضر کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے۔ (یعنی : بیھس کی سند سے بھی معاویہ (رض) کی روایت سے ہونا زیادہ صواب ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨٥٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5160
جس کی ناک کٹ جائے کیا وہ شخص سونے کی ناک بنا سکتا ہے؟
عرفجہ بن اسعد (رض) سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جنگ کلاب کے دن ان کی ناک کٹ گئی، تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوا لی، پھر اس میں بدبو آگئی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں سونے کی ناک بنوانے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٧ (٤٢٣٢، ٤٢٣٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٣١ (١٧٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٨٩٥) ، مسند احمد (٥/١٣، ٢٣) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: کلاب ایک چشمے یا کنویں کا نام ہے، زمانہ جاہلیت میں اس کے پاس ایک عظیم جنگ لڑی گئی تھی۔ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے بوقت حاجت سونے کی ناک بنوانے اور دانتوں کو سونے کے تار سے باندھنے کو مباح قرار دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5161
جس کی ناک کٹ جائے کیا وہ شخص سونے کی ناک بنا سکتا ہے؟
عبدالرحمٰن بن طرفہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ جاہلیت میں جنگ کلاب کے دن ان کے دادا (عرفجہ بن اسد رضی اللہ عنہ) کی ناک کٹ گئی، تو انہوں نے چاندی کی ناک بنوائی، پھر اس میں بدبو آگئی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ سونے کی ناک بنوا لیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5162
مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننے سے متعلق حدیث
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے صہیب (رض) سے کہا : کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھتا ہوں ؟ انہوں نے کہا : اسے تو انہوں نے بھی دیکھا ہے جو آپ سے بہتر تھے، لیکن اسے معیوب نہیں سمجھا۔ پوچھا : وہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٩٦١) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” عطاء خراسانی “ مدلس اور حافظہ کے کمزور ہیں ) وضاحت : ١ ؎: یہ حدیث منکر ہے، کیونکہ عطاء خراسانی مدلس ہیں اور عنعنہ کے ساتھ روایت کی ہے، اور ان کی یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5163
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے پہنا، تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھی بنوائی، آپ نے فرمایا : میں یہ انگوٹھی پہنتا تھا لیکن اب کبھی نہیں پہنوں گا اور اسے پھینک دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧١٤٥) ، مسند احمد (٢/١٠٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٥٢٧٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5164
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی، ریشم، سرخ گدیوں اور گیہوں یا جو کی شراب سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١١ (٤٠٥١) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٥ (٢٨٠٨) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٦ (٣٦٥٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٠٤) ، مسند احمد (١/٩٣، ٤٠٩، ١٢٧، ١٣٧) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : (٥١٦٩، ٥١٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5165
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے اور سرخ زین (گدے) کے استعمال سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5166
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کے چھلوں، سرخ زین، ریشمی کپڑے اور جعہ سے منع فرمایا، جعہ ایک قسم کی شراب ہے جو جو اور گیہوں سے بنائی جاتی ہے۔ اور راوی نے اس کی شدت (تیزی) کا ذکر کیا۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) عمار بن رزیق نے اس حدیث کو زہیر کے برخلاف ابواسحاق سے، ابواسحاق نے صعصعہ سے، اور صعصہ نے علی (رض) سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5167
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سونے کے چھلوں، ریشمی کپڑوں، سرخ زین، جَو اور گیہوں کے شراب سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : اس سے پہلی حدیث زیادہ قرین صواب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠١٣٠، ١٠٢٦٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١٧٢- ٥١٧٤، ٥٦١٤، ٥٦١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ابواسحاق کا ہبیرہ سے اور ان کا علی (رض) سے روایت کرنا اولیٰ و انسب ہے بمقابلہ : عن ابی اسحاق عن صعصعہ عن علی رضی اللہ عنہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5168
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
صعصعہ بن صوحان کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) سے کہا : آپ ہمیں منع فرمایئے اس چیز سے جس سے آپ کو رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، وہ بولے : مجھے منع فرمایا : کدو سے بنے اور سبز رنگ کے برتن سے، سونے کے چھلے، ریشمی لباس اور حریر اور سرخ زین کے استعمال سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5169
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
مالک بن عمیر کہتے ہیں کہ صعصعہ بن صوحان نے علی (رض) کے پاس آ کر عرض کیا : آپ ہمیں اس چیز سے منع کریں جس سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو منع فرمایا ہے، کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے کدو سے بنے، سبز رنگ والے اور کھجور کی لکڑی سے بنے برتنوں کے استعمال سے اور جَو اور گیہوں کی شراب پینے سے منع فرمایا اور ہمیں سونے کے چھلے، ریشم اور حریر کے لباس اور سرخ زین کے استعمال سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٧١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دبّاء: کدو سے بنا ہوا برتن، حنتم : سبز رنگ کا برتن جس میں نبیذ بناتے ہیں، نقیر: کھجور کی جڑ کی لکڑی کھود کر بنایا ہوا برتن،مزفت: رنگ کیا ہوا برتن، ان برتنوں سے متعلق نہی منسوخ ہے، ممکن ہے علی (رض) کو اس کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہوسکا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5170
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
مالک بن عمیر کہتے ہیں کہ صعصعہ بن صوحان نے علی (رض) سے کہا کہ امیر المؤمنین ! ہمیں اس چیز سے منع فرمائیے جس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو منع فرمایا تو وہ بولے : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے کدو سے بنے، اور سبز رنگ والے برتن کے استعمال سے اور جو اور گیہوں سے بنی شراب کے پینے سے، سونے کے چھلے، ریشمی لباس اور سرخ زین کے استعمال سے منع فرمایا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مروان اور عبدالواحد کی روایت (نمبر ٥١٧٣ و ٥١٧٤ ) اسرائیل کی روایت (نمبر ٥١٧٢ ) سے زیادہ قرین صواب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٧١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5171
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب رسول اللہ ﷺ نے تین چیزوں سے منع فرمایا، میں یہ نہیں کہتا کہ آپ نے لوگوں کو منع فرمایا، بلکہ مجھے منع فرمایا : سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشمی لباس پہننے سے، زرد رنگ سے جو چمکیلا اور لال ہو، اور رکوع و سجدے کی حالت میں قرآن پڑھنے سے ١ ؎۔ ضحاک بن عثمان نے داود بن قیس کی متابعت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قرآن نہ پڑھنے کی بات مرد عورت سب کے لیے عام ہے، بقیہ باتوں میں مخاطب صرف مرد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5172
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، میں نہیں کہتا کہ تمہیں بھی منع فرمایا : سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشمی کپڑا پہننے سے، سرخ اور چمکیلے لباس پہننے سے اور زرد رنگ کا لباس پہننے سے، اور رکوع (نیز سجدہ) کی حالت میں قرآن پڑھنے سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5173
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے، اور سونا اور زرد رنگ کا لباس پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5174
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں منع فرمایا : سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے اور زرد رنگ کے کپڑے کے استعمال سے اور اس بات سے کہ میں رکوع میں قرآن پڑھوں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (حسن، صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5175
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے، زرد رنگ کا لباس پہننے اور ریشمی لباس پہننے سے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٠٢١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5176
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ریشمی کپڑے پہننے، زرد رنگ کے لباس پہننے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5177
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے چار باتوں سے منع فرمایا : سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشمی کپڑے پہننے، اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے، اور زرد رنگ کا لباس پہننے سے۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) ایوب نے عبیداللہ کی موافقت کی ہے مگر انہوں نے مولیٰ کا نام ذکر نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5178
سونے کی انگوٹھی سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زرد رنگ کے لباس، ریشمی کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یحییٰ بن ابی کثیر کے چار شاگرد ہیں اور یہ چاروں کے چاروں یحییٰ کے شیوخ کے ذکر کرنے میں مختلف ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5179
یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے زرد رنگ کے کپڑے، سونے کی انگوٹھی اور ریشمی کپڑے پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) لیث بن سعد نے عمرو بن سعید کے برخلاف روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5180
یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف
علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زرد رنگ سے، ریشمی کپڑے سے، اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5181
یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، … پھر پوری حدیث بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح) (یحییٰ ابن ابی کثیر کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5182
یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے ریشمی کپڑوں، ریشم، سونے کی انگوٹھی سے اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) ہشام نے اشعث کے برخلاف غیر مرفوع روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5183
یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف
علی (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے لال زین، ریشمی کپڑوں اور سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے سے منع کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح موقوف والأصح الرفع صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5184
یحیی بن ابی کثیر کے بارے میں اختلاف
عبیدہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سرخ زین اور سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح مقطوع والمرفوع هو الأصح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5185
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٥ (٥٨٦٤) ، صحیح مسلم/اللباس ١١ (٢٠٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢١٤) ، مسند احمد (٢/٤٦٨) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٧٥ و ٥٢٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5186
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
عمران (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے، سونے کی انگوٹھی پہننے اور ہرے یا لال برتن میں پانی پینے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١٣ (١٧٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٨١٨) ، مسند احمد (٤/٤٢٨، ٤٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5187
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نجران سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا، آپ نے اس سے منہ پھیرلیا اور فرمایا : تم میرے پاس اپنے ہاتھ میں جہنم کی آگ کا انگارہ لے کر آئے ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٤٠٤٢ ألف) ، مسند احمد (٣/١٤) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٠٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5188
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی یا ٹہنی، آپ ﷺ نے اس سے اس کی انگلی پر مارا۔ اس شخص نے کہا : کیا وجہ ہے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے نہیں پھینکو گے جو تمہارے ہاتھ میں ہے ؟ چناچہ اس شخص نے اسے نکال کر پھینک دیا، اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے اسے دیکھا اور فرمایا : انگوٹھی کیا ہوئی ؟ وہ بولا : میں نے اسے پھینک دی۔ آپ نے فرمایا : میں نے تمہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا، میں نے تو تمہیں صرف اس بات کا حکم دیا تھا کہ اسے بیچ دو اور اس کی قیمت کو کام میں لاؤ ۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں :) یہ حدیث منکر ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩٢٧) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5189
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
ابوثعلبہ خشنی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ ایک چھڑی سے جو آپ کے پاس تھی اس پر مارنے لگے، جب آپ کی توجہ ہٹ گئی تو انہوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی، آپ نے فرمایا : ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تمہیں تکلیف دی اور تمہارا نقصان کیا ۔ یونس نے نعمان بن راشد کے خلاف اسے زہری سے انہوں نے ابوادریس سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١١٨٧٠، ١٩٣٣٨) ، مسند احمد (٤/١٩٥) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥١٩٤-٥١٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5190
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
ابوادریس خولانی بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو پانے والے لوگوں میں سے ایک شخص نے سونے کی انگوٹھی پہنی … پھر آگے اسی طرح بیان کیا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : یونس کی روایت نعمان کی روایت کی نسبت سے زیادہ قرین صواب ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5191
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
ابوادریس خولانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا پھر آگے اسی طرح بیان کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩٣ (صحیح) (یہ سند مرسل ہے، اس لیے کہ عائذ بن عبداللہ ابو ادریس الخولانی نے راوی صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن حدیث دوسرے طرق سے آنے کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5192
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
ابوادریس خولانی سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اس کی انگلی کو ایک لکڑی سے مارا جو آپ کے پاس تھی، یہاں تک کہ اس نے وہ انگوٹھی پھینک دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩٣ (صحیح) (یہ سند بھی مرسل ہے، اس لیے کہ عائذ بن عبداللہ ابو ادریس خولانی نے راوی صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن حدیث دوسرے طرق سے آنے کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5193
حضرت ابوہریرہ کی حدیث شریف میں حضرت قتادہ پر اختلاف
اس سند سے بھی ابن شہاب زہری سے، اسی طرح مرسلاً روایت ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں : مرسل روایتیں زیادہ قرین صواب ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩٣ (صحیح) (یہ سند بھی ضعیف ہے، اس لیے کہ ابن شہاب زہری نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، لیکن دوسرے طرق سے آنے کی وجہ سے یہ صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5194
انگوٹھی میں چاندی کی مقدار کا بیان
بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، وہ لوہے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا، آپ نے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں جہنمیوں کا زیور پہنے دیکھ رہا ہوں ؟ یہ سن کر اس نے وہ انگوٹھی پھینک دی۔ پھر پیتل کی انگوٹھی پہن کر آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا : کیا وجہ ہے مجھے تم سے بتوں کی بو محسوس رہی ہے ؟ اس نے وہ انگوٹھی بھی پھینک دی اور بولا : اللہ کے رسول ! پھر کس چیز کی بناؤں ؟ آپ نے فرمایا : چاندی کی، لیکن ایک مثقال سے کم رہے ۔ تخریج دارالدعوہ : الخاتم ٤ (٤٢٢٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٤٣ (١٧٨٦) ، (تحفة الأشراف : ١٩٨٢) ، مسند احمد (٥/٣٥٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” ابو طیبہ “ حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں وہم ہوجایا کرتا تھا، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5195
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس کا نگینہ حبشی تھا ١ ؎ اور اس میں ـ محمد رسول اللہ نقش کیا گیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٧ (٥٨٦٦) ، ٥٠ (٥٨٧٤) ، ٥٢ (٥٨٧٥) ، ٥٤ (٥٨٧٧) ، صحیح مسلم/اللباس ١٢، ١٣ (٩٢) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٢٤١٦) ، سنن الترمذی/اللباس ١٤ (١٧٣٩) ، الشمائل ١١ (٩٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩(٣٦٤١) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٤) ، مسند احمد (٣/١٦١، ١٨١، ٢٠٩، ٢٢٣) ، وانظر الأرقام : ٥٢٧٩، ٥٢٨١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایک دوسری حدیث نمبر ( ٥٢٠١ ) کے مطابق نگینہ چاندی ہی کا تھا، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ حبشی طرز کا تھا یا اس کا بنانے والا حبشی تھا، ایک قول یہ بھی ہے کہ ممکن ہے آپ کے پاس دو انگوٹھیاں رہی ہوں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5196
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی چاندی کی ایک انگوٹھی تھی، اسے آپ دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے، اس کا نگینہ حبشی تھا۔ آپ نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (اس کے راوی ” طلحہ “ حافظہ کے کچھ کمزور ہیں، لیکن باب کی احادیث سے تقویت پا کر صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5197
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5198
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٨ (٥٨٧٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5199
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی اسی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٦) ، سنن الترمذی/اللباس ١٥(١٧٤٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٦٢) ، مسند احمد (٣/٢٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5200
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رومی بادشاہ کو کچھ لکھنا چاہا تو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ لوگ کوئی ایسی تحریر نہیں پڑھتے جس پر مہر نہ لگی ہو، چناچہ آپ نے چاندی کی مہر بنوائی، گویا میں آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو (ابھی ابھی) دیکھ رہا ہوں، اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٧ (٦٥) ، والجہاد ١٠١ (٢٩٣٨) ، اللباس ٥٠ (٥٨٧٤) ، ٥٢ (٥٨٧٥) ، الأحکام ١٥ (٧١٦٢) ، صحیح مسلم/اللباس ١٣ (٢٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٦) ، مسند احمد (٣/١٦٨-١٦٩، ١٧٠، ٢٢٣، ٢٧٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5201
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگوٹھی کی کیفیت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر آپ نکلے اور ہمیں نماز پڑھائی، گویا میں آپ کے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی کی سفیدی (ابھی بھی) دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5202
انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنے؟
علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ انگوٹھی اپنے داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٥ (٤٢٢٦) ، (تحفة الأشراف : ١٠١٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5203
انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنے؟
عبداللہ بن جعفر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١٦ (١٧٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٢٢) ، مسند احمد (١/٢٠٤ ٢٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5204
جس لوہے پر چاندی چڑھی ہو اس کی انگوٹھی پہننا
معیقیب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی چڑھی ہوئی تھی اور کبھی کبھی وہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں بھی ہوتی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ٤ (٤٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٨٦) (ضعیف شاذ) (اوپر گزرا کہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم چاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5205
کانسی کی انگوٹھی کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ بحرین (احساء) سے ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور سلام کیا، آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، اس کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی اور ریشم کا جبہ، اس نے وہ دونوں اتار کر پھینک دیے اور پھر سلام کیا، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا، اب اس نے کہا : اللہ کے رسول ! میں تو سیدھا آپ کے پاس آیا ہوں اور آپ نے مجھ سے رخ پھیرلیا ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے ہاتھ میں جہنم کی آگ کا انگارہ تھا ، وہ بولا : تب تو اس میں سے بہت سارے انگارے لے کر آیا ہوں، آپ نے فرمایا : تم جو کچھ بھی لے کر آئے ہو وہ ہمارے لیے اس حرہ کے پتھروں سے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے، البتہ وہ دنیا کی زندگی کی متاع ہے ، وہ بولا : تو پھر میں کس چیز کی انگوٹھی بنواؤں ؟ آپ نے فرمایا : لوہے کا یا چاندی کا یا پیتل کا ایک چھلا بنا لو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩١ (ضعیف) (اس کے راوی ” داود بن منصور “ حافظے کے کمزور ہیں، اور ان کی اس روایت میں حدیث نمبر ٥١٩١ سے متن میں جو اضافہ ہے وہ منکر ہے ۔ مذکورہ روایت صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5206
کانسی کی انگوٹھی کا بیان
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکلے اور آپ نے چاندی ایک چھلا بنوایا تھا۔ آپ نے فرمایا : جو اس طرح کا چھلا بنوانا چاہے تو بنوا لے، البتہ جو کچھ اس پر نقش ہے اسے نقش نہ کرائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٦٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5207
کانسی کی انگوٹھی کا بیان
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر نقش کرایا اور فرمایا : ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں کچھ نقش کرایا ہے، تو تم میں سے کوئی اسے نقش نہ کرائے ، پھر انس (رض) نے کہا : گویا اس کی چمک میں آپ کے ہاتھ میں (ابھی بھی) دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٦٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٥١ (٥٨٨٤) ، ٥٤ (٥٨٧٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٣٩) ، مسند احمد (٣/١٠١١، ١٦١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5208
فرمان نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ انگوٹھی پر عربی عبارت نہ کھدواؤ۔
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو اور نہ اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقش کراؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٦٧) ، مسند احمد (٣/٩٩٩٩) (ضعیف) (اس کے راوی ” ازہر بن راشد “ مجہول ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5209
کلمہ کی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی ممانعت
ابوبردہ کہتے ہیں کہ علی (رض) نے کہا : مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی ! اللہ سے ہدایت اور میانہ روی طلب کرو ، اور آپ نے مجھے روکا کہ انگوٹھی اس میں اور اس میں پہنوں۔ اور اشارہ کیا یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔلشراف : ١٠٣٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی زیادہ بہتر اس کا نہ پہننا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5210
کلمہ کی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی ممانعت
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے انگوٹھی اس میں اور اس میں پہننے سے منع فرمایا یعنی شہادت کی اور بیچ کی انگلی میں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٦ (٢٠٨٧) ، الذکر ١٨ (٢٧٢٥) ، سنن ابی داود/الخاتم ٤ (٤٢٢٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٤٤ (١٧٨٧) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٤٣ (٣٦٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٨) ، مسند احمد (١/١٠٩، ١٢٤، ١٣٤، ١٣٨، ١٥٠، ١٥٤) ، ویأتي عند المؤلف : بأرقام : ٥٢٨٨، ٥٢٨٩، ٥٣٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5211
کلمہ کی انگلی میں انگوٹھی پہننے کی ممانعت
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہو : اللہم اهدني وسددني اللہ ! مجھے ہدایت دے، مجھے درست رکھ ، اور آپ نے منع فرمایا کہ میں انگوٹھی اس میں اور اس میں پہنوں۔ اور اشارہ کیا شہادت کی اور بیچ کی انگلی کی طرف۔ عاصم بن کلیب نے ان میں سے صرف ایک کا تذکرہ کیا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5212
بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٠ (١٩) ، سنن الترمذی/اللباس ١٦ (١٧٤٦) ، الشمائل ١١ (٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١ (٣٠٣) ، (تحفة الٔ شراف : ١٥١٢) ، مسند احمد (٣/٩٩٩٩، ١٠١، ٢٨٢) (ضعیف) (اس میں ” ہمام “ سے وہم ہوگیا ہے، انس رضی الله عنہ سے انگوٹھی کی بابت جو روایت ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوائی، پھر اسے اتار کر پھینک دی) (بقول امام ابوداود : اس روایت میں ہمام بن یحییٰ سے وہم ہوگیا ہے، (ان سے اکثر وہم ہوجاتا تھا) اصل روایت اس سند سے یوں ہے : آپ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے پھینک دی ) وضاحت : ١ ؎: بہتر یہی ہے کہ جس انگوٹھی میں قرآنی آیات اور ذکر الٰہی ہو اسے پاخانہ میں لے جانے سے بچا جائے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5213
بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کی طرف رکھا، پھر لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، تو آپ نے اپنی انگوٹھی نکال پھینکی اور فرمایا : میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا پھر لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں نکال پھینک دیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔسشراف : ٨١٢٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی اس حدیث اور بعد کی آنے والی حدیثوں کا تعلق مذکورہ باب سے نہیں ہے، ممکن ہے صاحب کتاب نے کوئی عنوان قائم کیا ہو، مگر نساخ حدیث اسے سہوا درج نہ کرسکے ہوں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابن عمر (رض) سے مروی ان تمام طرق کے ذکر سے مصنف کا مقصد یہ ہے کہ پاخانہ میں داخل ہوتے وقت انگوٹھی اتار پھینکنے کی روایت ہمام کے وہم سے خالی نہیں ہے کیونکہ عام صحیح روایات سے جو ثابت ہے وہ کسی سبب سے سونے کی انگوٹھی کا اتار پھینکنا ہے نہ کہ پاخانہ جاتے وقت انگوٹھی کا اتارنا ہے، یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ ہمام کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5214
بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا۔ پھر لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوائیں، تو آپ نے وہ انگوٹھی نکال پھینکی اور فرمایا : میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١١ (٢٠٩١) ، (تحفة الٔحشراف : ٧٨٨١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5215
بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی پہنی پھر اسے نکال کر پھینک دی اور چاندی کی انگوٹھی پہنی اور اس میں محمد رسول اللہ نقش کرایا اور فرمایا : کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ میری اس انگوٹھی کے نقش کی طرح نقش کرائے ، پھر آپ نے اس کے نگینے کو ہتھیلی کی جانب کرلیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١١ (٢٠٩١) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٩ (٣٦٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٩٩) ، ویأتي عند المؤلف ٥٢٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5216
بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دن تک سونے کی انگوٹھی پہنی، پھر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو دیکھا تو سونے کی انگوٹھی عام ہوگئی۔ یہ دیکھ کر آپ نے اسے نکال پھینکا۔ پھر معلوم نہیں وہ کیا ہوئی، پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھی کا حکم دیا اور حکم دیا کہ اس میں محمد رسول اللہ نقش کردیا جائے، وہ انگوٹھی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی، پھر ابوبکر (رض) کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ بھی وفات پا گئے، پھر عمر (رض) کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ بھی وفات پا گئے، پھر عثمان (رض) عنہ کے ہاتھ میں ان کی مدت خلافت کے چھ سال تک رہی، پھر جب خطوط کثرت سے لکھے جانے لگے تو اسے انصار کے ایک شخص کے حوالے کردیا، وہ اس سے مہریں لگاتا تھا۔ ایک بار وہ انصاری عثمان (رض) عنہ کے ایک کنوئیں پر گیا، تو وہ انگوٹھی (اس میں) گرگئی، اور تلاش کے باوجود نہ ملی۔ پھر اسی جیسی انگوٹھی بنانے کا حکم ہوا اور اس میں محمد رسول اللہ نقش کیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٨٤٥٠) (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5217
بیت الخلاء جاتے وقت انگوٹھی اتارنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی، اس کا نگینہ آپ اپنی ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے، پھر لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، یہ دیکھ کر آپ نے اسے نکال پھینکی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں نکال پھینکیں، پھر آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی، اس سے آپ (خطوط پر) مہریں لگاتے تھے، اسے پہنتے نہیں تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٧٦١٤) ، سنن الترمذی/الشمائل ١١، رقم : ٨٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٩٤ (صحیح) (حدیث میں ” ولایلبسہ “ کا لفظ ” شاذ “ ہے، بقیہ حدیث صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اکثر اوقات میں نہیں پہنتے تھے، ورنہ یہ ثابت ہے کہ آپ انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله ولا يلبسه فإنه شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5218
گھونگرو اور گھنٹہ سے متعلق
ابوبکر بن ابی شیخ کہتے ہیں کہ میں سالم کے ساتھ بیٹھا ہو تھا۔ اتنے میں ام البنین کا ایک قافلہ ہمارے پاس سے گزرا ان کے ساتھ کچھ گھنٹیاں تھیں، تو نافع سے سالم نے کہا کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر (رض) نے روایت کی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے ایسے قافلوں کے ساتھ نہیں ہوتے جن کے ساتھ گھنگھرو یا گھنٹے ہوں، ان کے ساتھ تو بہت سارے گھنٹے دکھائی دے رہے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔ شراف : ٧٠٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٢٣، ٥٢٢٣ م) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5219
گھونگرو اور گھنٹہ سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے ایسے قافلوں کے ساتھ نہیں چلتے جن کے ساتھ گھنگھرو ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5220 عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتے ایسے قافلوں کے ساتھ نہیں چلتے جن کے ساتھ گھنگھرو ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢٢٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5221
گھونگرو اور گھنٹہ سے متعلق
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے، جس میں گھنگھرو یا گھنٹہ ہو، اور نہ فرشتے ایسے قافلوں کے ساتھ چلتے ہیں جن کے ساتھ گھنٹی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨١٥٦) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5222
گھونگرو اور گھنٹہ سے متعلق
ابوالاحوص کے والد مالک بن نضلہ جشمی (رض) روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے پھٹے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا : کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، اللہ کے رسول ! سب کچھ ہے، آپ نے فرمایا : جب تمہیں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ہے تو اس کے آثار بھی تمہارے اوپر ہونے چاہئیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٧ (٤٠٦٣) ، (تحفة الٔنشراف : ١١٢٠٣) ، مسند احمد (٤/١٣٧) ، ویأتي عند المؤلف برقم : ٥٢٩٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اللہ کی دی ہوئی نعمت کی قدر کرو اور اس کی شکر گزاری کرتے ہوئے فضول خرچی کئے بغیر اسے حسب ضرورت استعمال کرو اور اس میں سے دوسروں کے حقوق ادا کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5223
گھونگرو اور گھنٹہ سے متعلق
ابوالاحوص کے والد مالک بن نضلہ جشمی (رض) روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس گھٹیا کپڑے پہن کر آئے۔ تو آپ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے ؟ وہ بولے : جی ہاں، سب کچھ ہے۔ آپ نے فرمایا : کس طرح کا مال ہے ؟ وہ بولے : اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے اور غلام عطا کئے ہیں۔ آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل کے تم پر آثار بھی دکھائی دینے چاہیئے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5224
فطرت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں دین فطرت میں سے ہیں : مونچھ کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن کترنا، ناف کے نیچے کے بال مونڈنا اور ختنہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کتاب الزینہ کے جو ابواب اب تک گزرے وہ سنن کبری کے تھے، اور یہ ابواب اس مختصر (سنن مجتبیٰ ) میں بڑھائے گئے ہیں، یہ سنن کبری میں نہیں تھے۔ ٢ ؎: پانچ چیزوں کے ذکر سے حصر مقصود نہیں ہے کیونکہ بعض روایتوں میں عشر ۃ من الفطر ۃ فطرت میں دس باتیں ہیں بھی ہے۔ ٣ ؎: فطرت سے مراد جبلت یعنی مزاج و طبیعت کے ہیں جس پر انسان کی پیدائش ہوتی ہے، یہاں مراد قدیم سنت ہے جسے انبیاء کرام (علیہم السلام) نے پسند فرمایا ہے اور پچھلی شریعتیں اس پر متفق ہیں گویا کہ وہ پیدائشی معاملہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5225
مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا بیان
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مونچھیں کاٹو اور داڑھی بڑھاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5226
بچوں کا سر مونڈنے کا بیان
عبداللہ بن جعفر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آل جعفر کو یہ کہہ کر کہ آپ ان کے پاس آئیں گے تین روز تک (رونے اور غم منانے کی) اجازت دی ١ ؎، پھر آپ ان کے پاس آئے اور فرمایا : آج کے بعد میرے بھائی پر مت روؤ، پھر فرمایا : میرے بھائی کے بچوں کو بلاؤ ۔ چناچہ ہمیں لایا گیا گویا ہم چوزے بہت چھوٹے تھے پھر آپ نے فرمایا : نائی کو بلاؤ ، پھر آپ نے ہمارے سر مونڈنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١٣ (٤١٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٢١٦) ، مسند احمد (١/٢٠٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے پتہ چلا کہ میت پر بغیر آواز اور سینہ کو بی کے تین دن تک رونا اور اظہار غم کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5227
بچے کا سر کچھ منڈانا اور کچھ چھوڑنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قزع (کچھ بال مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے) سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔزشراف : ٨٠٣٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قزع یہ ہے کہ بچوں کے سر کے کچھ بال مونڈ دئیے جائیں اور کچھ چھوڑ دئیے جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5228
بچے کا سر کچھ منڈانا اور کچھ چھوڑنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو قزع (کچھ بال مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے) سے منع فرماتے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٥٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5229
بچے کا سر کچھ منڈانا اور کچھ چھوڑنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قزع (کچھ بال مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے) سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5230
بچے کا سر کچھ منڈانا اور کچھ چھوڑنا ممنوع ہے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قزع (کچھ بال مونڈنے اور کچھ چھوڑ دینے) سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5231
سر پر بال رکھنے سے متعلق
براء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ درمیانے قد کے، چوڑے مونڈھوں اور گھنی داڑھی والے تھے، آپ کے بدن پر کچھ سرخی ظاہر تھی، سر کے بال کان کی لو تک تھے ١ ؎، میں نے آپ کو لال جوڑا پہنے ہوئے دیکھا اور آپ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥١) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٥ (٢٣٣٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٢١ (٤٠٧٢) ، الترجل ٩ (٤١٨٤) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٧ (٢٨١١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٦٩) ، مسند احمد (٤/٢٨١) ، ویأتي عند المؤلف : ٥٣١٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نبی اکرم ﷺ کے سر کے بالوں کے بارے میں متعدد و مختلف روایات وارد ہیں : آدھے کان تک، کانوں کے لو تک، کانوں کے لووں اور کندھوں کے درمیان تک، اور کندھوں تک، اور ان سب روایات میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف حالات کی روایات ہیں، کبھی آپ نے بال کٹوائے تو آدھے کانوں تک کرلیا، اور وہ بڑھ کر کان کے لو تک ہوگئے، اور اسی حالت میں چھوڑ دیئے تو اور بڑھ گئے، کبھی اتنے ہی پر کٹوا لیا اور کبھی چھوڑ دیا تو تو کندھوں کے اوپر یا کندھوں تک ہوگئے، اب جس نے جو دیکھا وہی بیان کردیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5232
سر پر بال رکھنے سے متعلق
براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کسی بال والے کو لباس پہنے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ ﷺ کے بال مونڈھوں کے قریب تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٥ (٢٣٣٧) ، سنن ابی داود/الترجل ٩ (٤١٨٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٤ (١٧٢٤) ، المناقب ٨ (٣٦٣٥) ، الأدب ٤٧ (٢٨١١) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5233
سر پر بال رکھنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بال آدھے کانوں تک تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفضائل ٢٦ (٢٣٣٨) ، سنن ابی داود/الترجل ٩ (٤١٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٧) ، مسند احمد (٣/١٤٢، ٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5234
سر پر بال رکھنے سے متعلق
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے بال مونڈھوں تک رکھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٦٨ (٥٩٠٣، ٥٩٠٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٦) ، مسند احمد (٣/١١٨١٨، ١٢٥، ٢٤٥، ٢٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5235
بالوں کو برابر کرنے یعنی کنگھی کرنے اور تیل لگانے سے متعلق
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ آئے، آپ نے ایک شخص کو دیکھا، اس کے سر کے بال الجھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : کیا اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس سے اپنے بال ٹھیک رکھ سکے ؟ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ١٧ (٤٠٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٠١٢) ، مسند احمد (٣/٣٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5236
بالوں کو برابر کرنے یعنی کنگھی کرنے اور تیل لگانے سے متعلق
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ ان کے بال بڑے بڑے تھے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے حکم دیا : انہیں اچھی طرح رکھو اور ہر روز کنگھی کرو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢١٢٧) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن منکدر اور ابوقتادہ رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں ہر روز کنگھی کرنے سے ممانعت ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5237
بالوں میں مانگ نکالنا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بال چھوڑ دیتے تھے اور کفار و مشرکین بالوں میں مانگ نکالتے تھے، آپ ایسے معاملات میں جن میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب (یہود و نصاری) کی موافقت پسند فرماتے تھے، پھر اس کے بعد آپ نے بھی مانگ نکالی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٣ (٣٥٥٨) ، مناقب الٔلنصار ٥٢ (٣٩٤٤) ، اللباس ٧٠ (٥٩١٧) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٤ (٢٣٣٦) ، سنن ابی داود/الترجل ١٠ (٤١٨٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣ (٢٩) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٣٦ (٣٦٣٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٦) ، مسند احمد (١/٢٤٦٤٦، ٢٦١، ٢٨٧، ٣٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5238
کنگھی کرنے سے متعلق
عبید نامی ایک صحابی رسول (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ارفاہ (بہت زیادہ عیش میں پڑجانے) سے منع فرماتے تھے۔ عبداللہ بن بریدہ سے پوچھا گیا : ارفاہ کیا ہے ؟ کہا : ارفاہ میں (ہر روز) کنگھی کرنا بھی شامل ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠١١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لفظ ترجل کا معنی ہر روز کنگھی کرنا اس لیے کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ خود بھی کنگھی کرتے تھے، اور اس کی ترغیب بھی دیتے تھے، (جیسا کہ حدیث نمبر : ٥٢٣٨ میں ہے) آپ نے صرف کثرت سے کنگھی کرنے سے منع فرمایا، اور ناغہ کر کے کرنے کی اجازت دی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5239
کنگھی دائیں جانب سے شروع کرنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ طاقت بھر دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے : وضو کرنے، جوتے پہننے اور کنگھی کرنے (وغیرہ امور) میں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5240
خضاب کرنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہودی اور نصرانی (بالوں کو) نہیں رنگتے، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : سفید بالوں کو رنگ دو ، البتہ کالے خضاب سے بچو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5241
خضاب کرنے سے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس (ابوبکر کے والد) ابوقحافہ (رض) لائے گئے، ان کا سر اور داڑھی ثغامہ نامی گھاس کی طرح تھے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ان کے بالوں کا رنگ بدلو ، یا (فرمایا) خضاب لگاؤ ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٨٨٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ثغامہ ایک گھاس ہے جس کے پھل اور پھول سب سفید ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5242
داڑھی زرد کرنے سے متعلق
عبید کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) کو اپنی داڑھی پیلی کرتے دیکھا، تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا ؟ انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی داڑھی زرد (پیلی) کرتے ہوئے دیکھا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١١٧، ٢٧٦١، ٥٠٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دیکھئیے حدیث نمبر ٥٠٨٨ کا حاشیہ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5243
ورس اور زعفران سے داڑھی کو زرد کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ چمڑے کا جوتا پہنتے اور اپنی داڑھی ورس اور زعفران سے پیلی کرتے تھے، اور ابن عمر (رض) بھی ایسا کیا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الترجل ١٩ (٤٢١٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٦٢) ، مسند احمد (٢/١١٤) (صحیح الٕهسناد ) وضاحت : ١ ؎: دیکھئیے حاشیہ حدیث نمبر ٥٠٨٨ ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5244
بالوں میں جوڑ لگانے سے متعلق
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو سنا، وہ مدینے میں منبر پر تھے، انہوں نے اپنی آستین سے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور کہا : مدینہ والو ! تمہارے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ان جیسی چیزوں سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے، نیز آپ ﷺ نے فرمایا : بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ان جیسی چیزوں کو اپنانا شروع کیا تو وہ ہلاک و برباد ہوگئے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔنبیاء ٥٤ (٣٤٦٨) ، اللباس ٨٣ (٥٩٣٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٣٣ (٢١٢٧) ، سنن ابی داود/الترجل ٥ (٤١٦٧) ، سنن الترمذی/الأدب ٣٢ (الاستئذان ٦٦) (٢٧٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٠٧) ، موطا امام مالک/الشعر ١ (٢) ، مسند احمد (٤/٩٥، ٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5245
بالوں میں جوڑ لگانے سے متعلق
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ معاویہ (رض) مدینہ آئے اور ہمیں خطاب کیا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا لے کر کہا : میں نے سوائے یہود کے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا ١ ؎، اور رسول اللہ ﷺ تک جب یہ چیز پہنچی تو آپ نے اس کا نام دھوکا رکھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : اپنے اصلی بالوں میں دوسرے کے بال جوڑنا یہودی عورتوں کا کام ہے، مسلمان عورتوں کو اس سے بچنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5246
دھجی سے بال جوڑنے سے متعلق
معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : لوگو ! نبی اکرم ﷺ نے تمہیں جھوٹ اور فریب سے روکا ہے، راوی (ابن المسیب) کہتے ہیں : اور انہوں نے ایک کالا چیتھڑا نکالا پھر اسے ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا : یہی ہے وہ (یعنی جھوٹ اور فریب کاری) ، اسے عورت اپنے سر میں لگا کر دوپٹا اوڑھ لیتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٥ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عورت کے اپنے اصلی بال بڑے لمبے لمبے ہیں، اور لمبے بال عورتوں کی خوبصورتی میں شمار ہوتے ہیں، تو گویا غیر خوبصورت عورت خود کو مصنوعی ذریعے سے خوبصورت ظاہر کر کے اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، یہ عمل اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے کیونکہ یہ دھوکا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5247
دھجی سے بال جوڑنے سے متعلق
معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹ اور فریب کاری سے منع فرمایا، اور جھوٹ اور فریب کاری یہ ہے کہ عورت (بال زیادہ دکھانے کے لیے) سر پر کچھ لپیٹ لے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5248
جوڑ لگانے والی یعنی بال میں بال ملانے والی پر لعنت سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بال جوڑنے کا کام کرنے والی پر لعنت فرمائی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5249
بال میں بال ملانے والی اور بال ملوانے والی دونوں لعنت کی مستحق ہیں
اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میری ایک بیٹی نئی نویلی دلہن ہے، اسے ایک بیماری ہوگئی ہے کہ اس کے بال جھڑ رہے ہیں اگر میں اس کے بال جو ڑوا دوں تو کیا مجھ پر گناہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : بال جوڑنے اور جو ڑوانے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5250
جسم کو گودنے اور گدوانے والی عورتوں پر لعنت۔
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بال جوڑنے اور جو ڑوانے والی عورت پر اور گودنے اور گودانے والی عورت پر لعنت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٠٩٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5251
چہرہ کا رواں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی پر لعنت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ چہرہ کے روئیں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی عورتوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے، کیا میں اس پر لعنت نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5252
چہرہ کا رواں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی پر لعنت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (جسم پر) گودنا گودنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کروانے والی، پیشانی کے بال اکھاڑنے والی اور اللہ کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5253
چہرہ کا رواں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی پر لعنت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چہرہ کے بال اکھاڑنے والی، دانتوں میں کشادگی کرنے والی، گودنا گودانے والی اور اللہ کی فطرت کو تبدیل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، چناچہ ایک عورت ان کے پاس آ کر کہا : آپ ہی ایسا ایسا کہتے ہیں ؟ وہ بولے : آخر میں وہ بات کیوں نہ کہوں جو رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٦٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5254
چہرہ کا رواں اکھاڑنے والی اور دانتوں کو کشادہ کرنے والی پر لعنت
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے تھے کہ گودنا گودانے والی، چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں کے درمیان کشادگی کرانے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ کیا میں اس پر لعنت نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5255
زعفران کے رنگ سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو زعفرانی رنگ لگانے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٧٠٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5256
زعفران کے رنگ سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو بدن پر زعفرانی رنگ لگانے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٠٢١) (صحیح) (اس کے راوی ” زکریا “ حافظہ کے کمزور ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5257
خوشبو کے متعلق احادیث
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جب بھی خوشبو لائی گئی، آپ نے اسے لوٹایا نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ٩ (٢٥٨٢) ، اللباس ٨٠ (٥٩٢٩) ، سنن الترمذی/الْٔدب ٣٧ (الاستئذان ٧١) ٢٧٨٩، الشمائل ٣٢ (٢٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٤٩٩) ، مسند احمد (٣/١١٨، ١٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5258
خوشبو کے متعلق احادیث
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جسے خوشبو پیش کی جائے وہ اسے نہ لوٹائے کیونکہ وہ اٹھانے میں ہلکی اور سونگھنے میں اچھی ہوتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الفاظ من الُٔدب ٥(٢٢٥٣) (بلفظ ” ریحان “ )، سنن ابی داود/الترجل ٦ (٤١٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٥) ، مسند احمد (٢/٣٢٠٢٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5259
خوشبو کے متعلق احادیث
عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم (عورتوں) میں سے کوئی جب عشاء کو آئے تو خوشبو نہ لگائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣٢ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5260
خوشبو کے متعلق احادیث
عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب ثقفیہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا : تم جب عشاء کے لیے نکلو تو خوشبو نہ لگاؤ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5261
خوشبو کے متعلق احادیث
زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم (عورتوں) میں سے جو کوئی مسجد کو جائے تو وہ خوشبو کے نزدیک بھی نہ جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٢٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5262
کونسی خوشبو عمدہ ہے؟
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت (خوشبو کی) دھونی لے تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کے لیے نہ آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5263
خوشبو کے متعلق احادیث
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک عورت کا ذکر کیا، اس نے اپنی انگوٹھی میں مشک بھر رکھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ سب سے عمدہ خوشبو ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٠٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن ایسی انگوٹھی پہن کر شوہر کے گھر سے باہر نہ نکلے، جیسا کہ دیگر حدیثوں سے معلوم ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5264
سونا پہننے کی ممانعت سے متعلق
ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کی عورتوں کے لیے ریشم اور سونا حلال کیا، اور ان دونوں کو اس کے مردوں کے لیے حرام کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5265
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے لال کپڑے، سونے کی انگوٹھی اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤١(٤٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٧٨٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سند میں علی (رض) کا ذکر نہیں ہے، جب کہ اکثر روایات میں اس حدیث کو ابن عباس (رض) نے علی (رض) سے روایت کیا ہے جیسا کہ متعدد سن دوں سے گزرا، نیز دیکھئیے اگلی حدیث۔ اسی لیے امام مزی نے ابن عباس کی علی سے روایت کو محفوظ کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5266
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی سے اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے، ریشم اور زرد رنگ کے کپڑے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5267
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی سے، ریشم اور زرد رنگ کے کپڑے پہننے سے اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5268
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے روکا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5269
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے زرد رنگ کے کپڑے سے، سونے کی انگوٹھی سے، ریشم کے کپڑے سے اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے روکا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5270
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے چار باتوں سے روکا : پیلے رنگ کا کپڑا پہننے سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشمی کپڑے پہننے سے، اور رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5271
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پیلے رنگ کے کپڑے، اور ریشم کے استعمال سے، رکوع کی حالت میں قرآن پڑھنے سے اور سونے کی انگوٹھی (پہننے) سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5272
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5273
سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5274
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے پہنا تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، آپ نے فرمایا : میں اس انگوٹھی کو پہن رہا تھا، لیکن اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا ، چناچہ آپ نے اسے پھینک دی، تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٦٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5275
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی کا نقش محمد رسول اللہ تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٨١٠٦) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٥٢ (٥٨٧٥) ، صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩١) ، سنن ابی داود/الخاتم ١ (٤٢١٨) ، سنن الترمذی/الشمائل ١١، مسند احمد (٢/٢٢، ١٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5276
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس کا نگینہ حبشہ کا بنا ہوا تھا، اور اس پر محمد رسول اللہ نقش تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5277
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شاہ روم کو خط لکھنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا : وہ ایسی کوئی تحریر نہیں پڑھتے جس پر مہر نہ ہو، چناچہ آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، گویا میں آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو (اس وقت بھی) دیکھ رہا ہوں، اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢٠٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5278
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی، اس کا نگینہ حبشہ کا بنا ہوا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٩٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5279
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5280
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مبارک) انگوٹھی اور اس پر کندہ عبارت
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم نے انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں محمد رسول اللہ نقش کرایا ہے، لہٰذا اب کوئی ایسا نقش نہ کرائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٩ (٣٦٤٠) ، (تحفة الٔاشراف : ٩٩٩) ، مسند احمد (٣/٢٩٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5281
کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور فرمایا : ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس پر نقش کرایا ہے، لہٰذا ایسا نقش کوئی نہ کرائے ، گویا میں اس کی چمک رسول اللہ ﷺ کی چھنگلی میں (اب بھی) دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٥١ (٥٨٧٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5282
کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے؟
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، سنن الترمذی/الشمائل ١٢ (٩٧) ، (تحفة الٔاشراف : ١١٩٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5283
کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے؟
انس (رض) کہتے ہیں : گویا میں نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی کی سفیدی آپ کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں (اب بھی) دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف : ١٢٩١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5284
کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے؟
ثابت بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے انس (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی کے بارے میں سوال کیا، تو وہ بولے : گویا میں آپ ﷺ کی چاندی کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں، پھر انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی انگلی کو بلند کیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٠) ، اللباس ١٦ (٢٠٩٥) ، (تحفة الٔاشراف : ٣٣٣) ، مسند احمد (٣/٢٧٦) (صحیح) (انس رضی الله عنہ سے یمین اور یسار یعنی دائیں اور بائیں ہاتھ دونوں میں انگوٹھی پہنے کا ذکر آیا ہے، جس کے بارے میں احادیث کی صحت کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ کبھی دائیں ہاتھ میں پہنے دیکھا اور کبھی بائیں میں، اور بعض اہل علم کے یہاں بائیں میں پہنے والی حدیث راجح اور محفوظ ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : الإرواء ٣/٢٩٨، ٣٠٢، وتراجع الالبانی ١٥٩ ) وضاحت : ١ ؎: یعنی یہ بتار ہے تھے کہ آپ ﷺ انگوٹھی چھنگلی انگلی میں پہنتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5285
کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے شہادت اور بیچ کی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢١٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی خلافِ اولیٰ ہے، بہتر یہ ہے کہ ان انگلیوں میں نہ پہنا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5286
کونسی انگلی میں انگوٹھی پہنے؟
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس (شہادت کی) انگلی میں، بیچ کی انگلی اور اس سے لگی ہوئی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے روکا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5287
نگینہ کی جگہ
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے، پھر آپ نے اسے اتار پھینکا اور چاندی کی انگوٹھی پہنی، اور اس پر محمد رسول اللہ نقش کرایا، پھر فرمایا : کسی کے لیے جائز نہیں کہ میری اس انگوٹھی کے نقش پر کچھ نقش کرائے ، آپ نے اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥١٦٧، ٥٢١٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5288
انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور اسے پہنا، اور فرمایا : اس نے آج سے میری توجہ تمہاری طرف سے بانٹ دی ہے، ایک نظر اسے دیکھتا ہوں اور ایک نظر تمہیں ، پھر آپ نے وہ انگوٹھی اتار پھینکی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٥١٥) ، مسند احمد (١/٣٢٢) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5289
انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی، آپ اسے پہنتے تھے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے، تو لوگوں نے بھی (انگوٹھیاں) بنوائیں، پھر آپ منبر پر بیٹھے اور اسے اتار پھینکا اور فرمایا : میں یہ انگوٹھی پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا ، پھر آپ نے اسے پھینک دی، پھر فرمایا : اللہ کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا ، پھر لوگوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔلیمان ٦ (٦٦٥١) ، صحیح مسلم/اللباس ١١ (٢٠٩١) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨١) ، مسند احمد (٢/١١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5290
انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا
انس (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چاندی کی ایک انگوٹھی ١ ؎ صرف ایک دن دیکھی، تو لوگوں نے بھی بنوائی اور اسے پہنا، پھر نبی اکرم ﷺ نے پھینک دی تو لوگوں نے بھی پھینک دی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤٦ (٥٨٦٨ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/اللباس ١٤ (٢٠٩٣) ، سنن ابی داود/الخاتم ٢ (٤٢٢١) ، (تحفة الأشراف : ١٤٧٥) ، مسند احمد (٣/١٦٠، ٢٠٦، ٢٢٣، ٢٢٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ راوی کا وہم ہے، کیونکہ صحیح یہ ہے کہ آپ نے سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5291
انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا، تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، پھر آپ ﷺ نے اپنی انگوٹھی اتار دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار دیں، اور رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، جس سے آپ (خطوط پر) مہر لگاتے تھے اور اس کو پہنتے نہیں تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢٢١ (صحیح) (اس میں لفظ ” ولا یلبسہ “ شاذ ہے، بقیہ حدیث صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله ولا يلبسه فإنه شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5292
انگوٹھی اتارنا اور اس کو نہ پہننا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا، پھر لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوائیں، تو آپ نے اسے نکال دیا اور فرمایا : میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا ، پھر آپ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیا، پھر وہ انگوٹھی ابوبکر (رض) کے ہاتھ میں رہی، پھر عمر (رض) کے ہاتھ میں، پھر عثمان (رض) عنہ کے ہاتھ میں یہاں تک کہ وہ اریس نامی کنویں میں ضائع ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٢ (٢٠٩١) ، (تحفة الٔاشراف : ٨٠٨٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5293
کس قسم کے کپڑے پہننا بہتر ہیں اور کس قسم کے کپڑے برے ہیں؟
ابوالاحوص کے والد عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے مجھے خستہ حالت میں دیکھا، تو فرمایا : کیا تمہارے پاس کچھ مال و دولت ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر طرح کا مال دے رکھا ہے، آپ نے فرمایا : جب تمہارے پاس مال ہو تو اس کے آثار بھی نظر آنے چاہئیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢٢٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی : فضول خرچی اور ریاء و نمود کے کے بغیر، اور حیثیت کے مطابق آدمی کے اوپر اچھا لباس ہونا چاہیئے، ہاں۔ اسراف، فضول خرچی اور ریاء و نمود والا لباس ناپسندیدہ اور مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5294
سیرا (لباس) کی ممانعت سے متعلق
عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے کہ مسجد کے دروازے کے پاس میں نے ایک ریشمی دھاری والا جوڑا بکتے دیکھا، تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر آپ اسے جمعہ کے دن کے لیے اور اس وقت کے لیے جب آپ کے پاس وفود آئیں خرید لیتے (تو اچھا ہوتا) ١ ؎، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ سب وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ پھر اس میں کے کئی جوڑے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، تو ان میں سے آپ نے ایک جوڑا مجھے دے دیا، میں نے کہا : اللہ کے رسول ! یہ جوڑا آپ نے مجھے دے دیا، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اس کے بارے میں کیا کیا فرمایا تھا ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، بلکہ کسی (اور) کو پہنانے یا بیچنے کے لیے دیا ہے ، تو عمر (رض) نے اسے اپنے ایک ماں جائے بھائی کو دے دیا جو مشرک تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٨) ، (تحفة الٔاشراف : ١٠٥٥١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: آپ ﷺ نے عمر (رض) کی اس بات پر کوئی نکیر نہیں کی، اس سے ثابت ہوا کہ ان مواقع کے لیے اچھا لباس اختیار کرنے کی بات پر آپ نے صاد کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5295
عورتوں کو سیرا (نامی لباس) کی اجازت سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ریشم کی دھاری والی قمیص پہنے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/اللباس ١٩(٣٥٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٠) (شاذ) (صحیح نام ” ام کلثوم “ ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے، اسی وجہ سے یہ روایت شاذ ہے ویسے اس روایت کے معنی میں کوئی ضعف نہیں ) قال الشيخ الألباني : شاذ والمحفوظ أم کلثوم مکان زينب صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5296
عورتوں کو سیرا (نامی لباس) کی اجازت سے متعلق
انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو سیراء دھاری دار ریشمی چادر پہنے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٠ (٥٨٤٢) ، سنن ابی داود/اللباس ١٤ (٤٠٥٨) ، (تحفة الٔاشراف : ١٥٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5297
عورتوں کو سیرا (نامی لباس) کی اجازت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو سیراء چادر تحفے میں آئی، تو آپ نے اسے میرے پاس بھیج دی، میں نے اسے پہنا، تو میں نے آپ کے چہرے پر غصہ دیکھا، چناچہ آپ نے فرمایا : سنو، میں نے یہ پہننے کے لیے نہیں دی تھی ، پھر آپ نے مجھے حکم دیا تو میں نے اس کو اپنے خاندان کی عورتوں میں تقسیم کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٧١) ، سنن ابی داود/اللباس ١٠ (٤٠٤٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٢٩) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٣٠ (٥٨٤٠) ، مسند احمد ١/١٣٠، ١٣٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5298
استبرق پہننے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نکلے تو دیکھا بازار میں استبرق کی چادر بک رہی ہے، آپ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! اسے خرید لیجئے اور اسے جمعہ کے دن اور جب کوئی وفد آپ کے پاس آئے تو پہنئے۔ آپ نے فرمایا : یہ تو وہ پہنتے ہیں جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں ہوتا ، پھر آپ کے پاس تین چادریں لائی گئیں تو آپ نے ایک عمر (رض) کو دی، ایک علی (رض) کو اور ایک اسامہ (رض) کو دی، عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! آپ نے اس کے بارے میں کیا کیا فرمایا تھا، پھر بھی آپ نے اسے میرے پاس بھیجوایا ؟ آپ نے فرمایا : اسے بیچ دو اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرلو یا اسے اپنی عورتوں کے درمیان دوپٹہ بنا کر تقسیم کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف : ٦٧٥٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: استبرق ایک قسم کا ریشم ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5299
استبرق کی کیفیت سے متعلق
یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ سالم نے پوچھا : استبرق کیا ہے ؟ میں نے کہا : ایک قسم کا ریشم ہے جو سخت ہوتا ہے، وہ بولے : میں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ عمر (رض) نے ایک شخص کے پاس ایک جوڑا سندس کا دیکھا، اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اسے خرید لیجئیے … پھر پوری روایت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔمدب ٦٦ (٦٠٨١) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٨) ، (تحفة الٔاشراف : ٧٠٣٣) ، مسند احمد (٢/٤٩٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: سندس یہ بھی ایک قسم کا ریشمی کپڑا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5300
دیبا پہننے کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ حذیفہ بن الیمان (رض) نے پانی مانگا تو ایک اعرابی (دیہاتی) چاندی کے برتن میں پانی لے آیا، حذیفہ (رض) نے اسے پھینک دیا، پھر جو کیا اس کے لیے لوگوں سے معذرت کی اور کہا : مجھے اس سے روکا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیو اور دیبا نامی ریشم نہ پہنو اور نہ ہی حریر نامی ریشم، کیونکہ یہ ان (کفار و مشرکین) کے لیے دنیا میں ہے اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأطعمة ٢٩ (٥٤٢٦) ، الأشربة ٢٧ (٥٦٣٢) ، ٢٨ (٥٦٣٣) ، اللباس ٢٥ (٥٨٣١) ، ٢٧ (٥٨٣٧) ، صحیح مسلم/اللباس ١ (٢٠٦٧) ، سنن ابی داود/الأشربة ١٧ (٣٧٢٣) ، سنن الترمذی/الأشربة ١٠ (١٨٧٩) ، سنن ابن ماجہ/الأشربة ١٧ (٣٤١٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٦٨، ٣٣٧٣) ، مسند احمد (٥/٣٨٥، ٣٩، ٣٩٦، ٤٠٠، ٤٠٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5301
دیبا پہننا جو کہ سونے کی تار سے بنا گیا ہو
واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) جب مدینے آئے، تو میں ان کے پاس گیا، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے کہا : تم کون ہو ؟ میں نے کہا : میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ ہوں، وہ بولے : سعد تو بہت عظیم شخص تھے اور لوگوں میں سب سے لمبے تھے، پھر وہ رو پڑے اور بہت روئے، پھر بولے : رسول اللہ ﷺ نے دومۃ کے بادشاہ اکیدر کے پاس ایک وفد بھیجا، تو اس نے آپ کے پاس دیبا کا ایک جبہ بھیجا، جس میں سونے کی کاریگری تھی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پہنا، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور بیٹھ گئے، پھر کچھ کہے بغیر اتر گئے، لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھونے لگے، تو آپ نے فرمایا : کیا تمہیں اس پر تعجب ہے ؟ سعد کے رومال جنت میں اس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جسے تم دیکھ رہے ہو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٣ (١٧٢٣) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الہبة ٢٨ (٢٦١٥) ، وبدء الخلق ٨ (٣٢٤٨) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٢٤ (٢٤٦٩) ، مسند احمد (٢/١٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: دیبا نامی ایسا ریشمی کپڑا پہننا منسوخ ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5302
مذکورہ بالا شے دیباج کے منسوخ ہونے سے متعلق
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دیبا کی ایک قباء پہنی جو آپ کو ہدیہ کی گئی تھی، پھر تھوڑی دیر بعد اسے اتار دیا اور اسے عمر (رض) کے پاس بھیجا، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! آپ نے اسے بہت جلد اتار دی، فرمایا : مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کے استعمال سے روک دیا ہے ، اتنے میں عمر (رض) روتے ہوئے آئے اور بولے : اللہ کے رسول ! ایک چیز آپ نے ناپسند فرمائی اور وہ مجھے دے دی ؟ فرمایا : میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دی، میں نے تمہیں بیچ دینے کے لیے دی ہے ، چناچہ عمر (رض) نے اسے دو ہزار درہم میں بیچ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٧٠) ، (تحفة الٔاشراف : ٢٨٢٥) ، مسند احمد (٣/٣٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5303
ریشم پہننے کی سزا اور وعید اور جو شخص اس کو دنیا میں پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا
ثابت کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کو سنا وہ منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے : محمد ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں اسے ہرگز نہیں پہن سکے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٥٧) ، مسند احمد (٤/٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مردوں کے لیے ہے۔ عورتوں کے لیے ریشم پہننا جائز ہے، جیسا کہ حدیث نمبر ١٥٥١ میں گزرا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5304
ریشم پہننے کی سزا اور وعید اور جو شخص اس کو دنیا میں پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا
عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ تم اپنی عورتوں کو ریشم نہ پہناؤ اس لیے کہ میں نے عمر بن خطاب (رض) کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا میں ریشم پہنا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہن سکے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٣٤) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٨٣) ، مسند احمد (١/٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ عبداللہ بن زبیر (رض) کی اپنی سمجھ ہے، انہوں نے اس فرمان کو عام سمجھا حالانکہ یہ مردوں کے لیے ہے، ممکن ہے ان کو وہ حدیث رسول ﷺ نہیں پہنچ سکی ہو جس میں صراحت ہے کہ ریشم امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے ، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5305
ریشم پہننے کی سزا اور وعید اور جو شخص اس کو دنیا میں پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا
عمران بن حطان سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے ریشم پہننے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ لو، چناچہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو وہ بولیں : عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھ لو، میں نے ابن عمر (رض) سے پوچھا تو انہوں نے کہا : مجھ سے ابوحفص (عمر) (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دنیا میں ریشم پہنا، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٣٥) ، (تحفة الٔاشراف : ١٠٥٤٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بطور زجر و تہدید ہے، جو صرف مردوں کے لیے حرام ہیں، البتہ سونے چاندی کے برتن، اور ریشمی زین دونوں کے لیے حرام ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5306
ریشم پہننے کی سزا اور وعید اور جو شخص اس کو دنیا میں پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حریر نامی ریشم تو وہی پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف : ٦٦٥٦، ٦٦٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5307
ریشم پہننے کی سزا اور وعید اور جو شخص اس کو دنیا میں پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا
علی بارقی (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت میرے پاس مسئلہ پوچھنے آئی تو میں نے اس سے کہا : یہ ابن عمر (رض) ہیں، (ان سے پوچھ لو) وہ مسئلہ پوچھنے ان کے پیچھے گئی اور میں بھی اس کے پیچھے گیا تاکہ وہ جو کہیں اسے سنوں، وہ بولی : مجھے حریر نامی ریشم کے بارے میں بتائیے، ابن عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف : ٧٣٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5308
ریشمی لباس پہننے کی ممانعت کا بیان،
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا : آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھی سے، چاندی کے برتن سے، ریشمی زین سے، قسی، استبرق، دیبا اور حریر نامی ریشم کے استعمال سے منع فرمایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٩٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ سب ریشم کی اقسام ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5309
ریشم پہننے کی اجازت سے متعلق
انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام (رض) کو کھجلی کی وجہ سے جو انہیں ہوگئی تھی ریشم کی قمیص (پہننے) کی اجازت دی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩١ (٢٩٩١) ، اللباس ٢٩ (٥٨٣٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٣ (٢٠٧٦) ، سنن ابی داود/اللباس ١٣(٤٠٥٦) ، سنن الترمذی/اللباس ٢ (١٧٢٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٧(٣٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٦٩) ، مسند احمد (٣/ ٢١٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اجازت عذر (کھجلی) کی بنا پر تھی، اس لیے صرف عذر تک کی اجازت رہے گی، عذر ختم ہوجانے کے بعد ایسی قمیص نکال دینی ہوگی، یہ پوری قمیص پہننے کے بارے میں ہے، اور جہاں تک صرف ریشم کے بٹن کی بات ہے تو یہ مردوں کے لیے ہر حالت میں جائز ہے۔ (دیکھئیے حدیث نمبر ٥٣١٤ ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5310
ریشم پہننے کی اجازت سے متعلق
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عبدالرحمٰن اور زبیر (رض) کو ریشم کی قمیص کی اجازت دی اس مرض یعنی کھجلی کے سبب جو انہیں ہوگئی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5311
ریشم پہننے کی اجازت سے متعلق
ابوعثمان النہدی کہتے ہیں کہ ہم عتبہ بن فرقد کے ساتھ تھے کہ عمر (رض) کا فرمان آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : ریشم تو وہی پہنتا ہے جس کا اس میں سے آخرت میں کوئی حصہ نہیں مگر اتنا ، ابوعثمان نے انگوٹھے کے پاس والی اپنی دونوں انگلیوں کے اشارے سے کہا، میں نے دیکھا وہ طیلسان کے کپڑوں کے چند بٹن تھے، یہاں تک کہ میں نے طیلسان کا کپڑا بھی دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٢٥ (٥٨٢٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، سنن ابی داود/اللباس ١٠ (٤٠٤٢) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٨ (٣٥٩٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٥٩٧) ، مسند احمد (١/٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5312
ریشم پہننے کی اجازت سے متعلق
عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے دیباج کی اجازت صرف چار انگلی تک دی گئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢ (٢٠٦٩) ، سنن الترمذی/اللباس ١ (١٧٢١) ، (تحفة الٔاشراف : ١٠٤٥٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الجھاد ٢١ (٢٨٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی چار انگل دیباج کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5313
کپڑوں کے جوڑے پہننا
براء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپ لال جوڑا ١ ؎ پہنے ہوئے اور کنگھی کیے ہوئے تھے، میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا، نہ آپ سے پہلے، نہ آپ کے بعد۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢٣٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: متعدد صحیح احادیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ آئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں کے لیے لال رنگ کو ناپسند فرمایا ہے، (دیکھئیے حدیث نمبر ٥٣١٨ ، اور بعد کی حدیثیں) آپ کی مذکورہ چادر میں تھوڑی سی لال رنگ کی ملاوٹ تھی، یا لال رنگ سے آپ نے اس کے بعد منع فرمایا تھا۔ (لال رنگ کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں تفصیلی بحث کے لیے دیکھئیے فتح الباری میں اس حدیث کی شرح، کتاب اللباس، باب الثوب الأحمر) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5314
یمن کی چادر پہننے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا سب سے زیادہ پسندیدہ کپڑا یمن کی سوتی چادر تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ١٨ (٥٨١٢) ، صحیح مسلم/اللباس ٥ (٥٨١٣) ، سنن الترمذی/اللباس ٤٥(١٧٨٧) ، والشمائل ٨ (٦٠) ، (تحفة الٔاشراف : ١٣٥٣) ، مسند احمد (٣/١٣٤، ١٨٤، ٢٥١، ٢٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5315
زعفرانی رنگ کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا، وہ دو کپڑے زرد رنگ کے پہنے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : یہ کفار کا لباس ہے، اسے مت پہنو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٤(٢٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٦١٣) ، مسند احمد (٢/١٦٢، ١٦٤، ١٩٣، ٢٠٧، ٢١١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5316
زعفرانی رنگ کی ممانعت سے متعلق
عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، وہ پیلے رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر نبی اکرم ﷺ غصہ ہوئے اور فرمایا : جاؤ اور اسے اپنے جسم سے اتار دو ۔ وہ بولے : کہاں ؟ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا : آگ میں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٤ (٢٠٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٣٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: چناچہ انہوں نے اسے گھر کے تنور میں ڈال دیا، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے آگ میں ڈال دینے کا حکم دیا، ایسا صرف زجر و توبیخ کے لیے تھا، ورنہ اس نوع کا کپڑا عورتوں کے لیے جائز ہے، نیز بیچ کر کے قیمت کا استعمال بھی جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5317
زعفرانی رنگ کی ممانعت سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی سے، ریشمی کپڑوں سے، زعفرانی رنگ کے لباس سے، اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٠٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5318
ہرے رنگ کا لباس پہننا
ابورمثہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک بار گھر سے) باہر نکلے، آپ دو ہرے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٥٥٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5319
چادریں پہننے سے متعلق
خباب بن ارت (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے (کفار و مشرکین کی ایذا رسانی کی) شکایت کی، اس وقت آپ چادر کا تکیہ لگائے ١ ؎ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے کہا : کیا آپ ہمارے لیے مدد طلب نہیں کریں گے ؟ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعائیں نہیں کریں گے ؟۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦١٢) ، مناقب الٔةنصار ٢٩ (٣٨٥٢) ، الإکراہ ١ (٦٩٤٣) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٠٧ (٢٦٤٩) ، (تحفة الأشراف : ٣٥١٩) ، مسند احمد (٥/١٠٩، ١١٠، ١١١، ٦/٣٩٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اسی جملے میں باب سے مطابقت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5320
چادریں پہننے سے متعلق
سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادر لے کر آئی، جانتے ہو وہ کیسی چادر تھی ؟ لوگوں نے کہا : ہاں، یہی شملہ، اس کی گوٹا کناری بنی ہوئی تھی، وہ بولی : اللہ کے رسول ! میں نے یہ اپنے ہاتھ سے بنی ہے تاکہ آپ کو پہناؤں، رسول اللہ ﷺ نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ باہر نکلے اور ہمارے پاس آئے اور آپ اسی کا تہبند باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٣١ (٢٠٩٣) ، اللباس ١٨ (٥٨١٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٨٣) ، مسند احمد (٥/٣٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5321
سفید کپڑے پہننے کے حکم سے متعلق
سمرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سفید کپڑے پہنا کرو، اس لیے کہ یہ زیادہ پاکیزہ اور عمدہ ہوتے ہیں اور اپنے مردوں کو سفید کفن دیا کرو ۔ (عمرو بن علی کہتے ہیں کہ) یحییٰ نے کہا : میں نے اس روایت کو نہیں لکھا، میں نے کہا : کیوں ؟ کہا : میمون بن ابی شبیب کی وہ روایت جو سمرہ (رض) سے ہے وہی میرے لیے کافی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جس کو ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5322
سفید کپڑے پہننے کے حکم سے متعلق
سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم سفید کپڑوں کو پہنو، زندہ اسے پہنیں اور مردوں کو اسی کا کفن دو کیونکہ یہی کپڑوں میں سب سے عمدہ کپڑا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف : ٤٦٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5323
قباء پہننے سے متعلق
مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ق بائیں تقسیم کیں اور مخرمہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ (رض) نے کہا : بیٹے ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے چلو، چناچہ میں ان کے ساتھ گیا، انہوں نے کہا : اندر جاؤ اور آپ کو میرے لیے بلا لاؤ، چناچہ میں نے آپ کو بلا لایا، آپ نکل کر آئے تو آپ انہیں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : اسے میں نے تمہارے ہی لیے چھپا رکھی تھی ، مخرمہ نے اسے دیکھا اور پہن لی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الہبة ١٩ (٢٥٩٩) ، الشہادات ١١ (٢١٢٧) ، الخمس ١١ (٣١٢٧) ، اللباس ١٢ (٥٨٠٠) ، ٤٢ (٥٨٦٢) ، الأدب ٨٢ (٦١٣٢) ، صحیح مسلم/الزکاة ٤٤ (١٠٥٨) ، سنن ابی داود/اللباس ٤ (٤٠٢٨) ، الأدب ٥٣ (الاستئذان ٨٧) (٢٨١٨) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٦٨) ، مسند احمد (٤/٣٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5324
پائجامہ پہننے سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفات میں نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جسے تہبند نہ ملے تو وہ پاجامہ پہن لے، اور جسے چپل نہ ملے وہ خف (چمڑے کے موزے) پہن لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٦٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جب احرام کی حالت میں پاجامہ پہن سکتے ہیں تو احرام کے علاوہ حالت میں بدرجہ اولیٰ پہن سکتے ہیں یہی باب سے مناسبت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5325
بہت زیادہ تہہ بند لٹکانے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک شخص تکبر (گھمنڈ) سے اپنا تہبند لٹکاتا تھا، ) تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، چناچہ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جا رہا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔنبیاء ٥٤ (٣٤٨٥) ، اللباس ٥ (٥٧٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٩٨) ، مسند احمد (٢/٦٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اگر کسی مجبوری سے خود سے پاجامہ (تہبند) ٹخنے سے نیچے آجاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور تکبر سے کی قید احتراز نہیں ہے، (کہ اگر تکبر سے تہبند لٹکائے تو حرام ہے، ورنہ نہیں) بلکہ یہ لفظ اس لیے آیا ہے کہ عام طور سے تہبند کا لٹکانا پہلے تکبر اور گھمنڈ ہی سے ہوتا تھا، بہت سی روایات میں لفظ خیلاء نہیں ہے، ازار میں وہ سارے کپڑے شامل ہیں جو تہبند (لنگی) کی جگہ پہنے جاتے ہیں، دیکھئیے حدیث نمبر ٥٣٣١ - ٥٣٣٧۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5326
بہت زیادہ تہہ بند لٹکانے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا (ٹخنے سے نیچے) لٹکایا (یا یوں فرمایا : جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا لٹکاتا ہے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/٥ (٥٧٩١ تعلیقًا) ، صحیح مسلم/اللباس ٩(٢٠٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٨٢٨٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5327
بہت زیادہ تہہ بند لٹکانے کی ممانعت
عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے (ٹخنے سے نیچے) اپنا کپڑا تکبر سے لٹکایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٥ (٥٧٩١) ، صحیح مسلم/اللباس ٩ (٢٠٦٢ م) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٠٩) ، مسند احمد (٢/٤٢، ٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5328
تہہ بند کس جگہ تک ہونا چاہیے؟
حذیفہ بن الیمان (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تہبند آدھی پنڈلی تک جہاں گوشت ہوتا ہے ہونا چاہیئے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کچھ نیچے، اور اگر ایسا بھی نہ ہو تو پنڈلی کے اخیر تک، اور ٹخنوں کا تہبند میں کوئی حق نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ٤١ (١٧٨٣) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٧ (٣٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ٣٣٨٣) ، مسند احمد (٥/٣٨٢، ٣٩٨، ٤٠٠، ٤٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5329
ٹخنوں سے نیچے ازار رکھنے کا حکم (وعید)
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ٹخنوں سے نیچے کا تہبند جہنم کی آگ میں ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٠٩٩، ١٤٣٥٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جسم کا وہ حصہ جو ٹخنے سے نیچے ازار (تہبند) سے چھپا ہوا ہے جہنم کی آگ میں جلے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5330
ٹخنوں سے نیچے ازار رکھنے کا حکم (وعید)
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تہبند کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم کی آگ میں ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٤ (٥٧٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٩٦١) ، مسند احمد (٢/٤١٠، ٤٦١، ٤٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5331
تہہ بند لٹکانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو (ٹخنے سے نیچے) تہبند لٹکاتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٥٤٣٥) ، مسند احمد (١/٣٢٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5332
تہہ بند لٹکانے سے متعلق
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین لوگ ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : کچھ دے کر حد سے زیادہ احسان جتانے والا، (ٹخنے سے نیچے) تہبند لٹکانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٥٦٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5333
تہہ بند لٹکانے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تہبند، قمیص اور پگڑی میں کسی کو بھی کوئی تکبر (گھمنڈ) سے لٹکائے تو قیامت کے دن اللہ اس کی طرف نہیں دیکھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٣٠ (٤٠٩٤) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٩ (٣٥٧٦) ، (تحفة الأشراف : ٦٧٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تکبر اور گھمنڈ اللہ تعالیٰ کو قطعی پسند نہیں ہے، نیز تہبند، قمیص اور عمامہ (پگڑی) میں تکبر اور گھمنڈ کے قبیل سے جو زائد حصہ لگ رہا ہے وہ اسراف سے خالی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5334
تہہ بند لٹکانے سے متعلق
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنا کپڑا تکبر (گھمنڈ) سے گھسیٹے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا ، ابوبکر (رض) نے کہا : اللہ کے رسول ! میرے تہبند کا ایک کونا لٹک جاتا ہے، إلا اس کے کہ میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو تکبر (گھمنڈ) کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضائل الصحابة ٥ (٣٦٦٥) ، اللباس ٢ (٥٧٨٤) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٨ (٤٠٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٢٦) ، مسند احمد (٢/٦٧، ١٣٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5335
خواتین کس قدر آنچل لٹکائیں؟
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے تکبر (گھمنڈ) سے اپنا کپڑا لٹکایا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا ، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول ! تو پھر عورتیں اپنے دامن کیسے رکھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اسے ایک بالشت لٹکائیں ، وہ بولیں : تب تو ان کے قدم کھلے رہیں گے ؟ ، آپ نے فرمایا : تو ایک ہاتھ لٹکائیں، اس سے زیادہ نہ کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٩ (٢٠٨٥) ، سنن الترمذی/اللباس ٩ (١٧٣١) ، (تحفة الأشراف : ٧٥٢٦) ، مسند احمد (٢/٥، ٥٥، ١٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5336
خواتین کس قدر آنچل لٹکائیں؟
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عورتوں کے دامن لٹکانے کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ ایک بالشت لٹکائیں ١ ؎، ام سلمہ رضی اللہ عنہا بولیں : تب تو کھلا رہے گا ؟ آپ نے فرمایا : تب ایک ہاتھ لٹکائیں، اس سے زیادہ نہ کریں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٨٢١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عورتیں ایک بالشت یا ایک ہاتھ زیادہ کہاں سے لٹکائیں ؟ اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ مردوں کی جائز حد (ٹخنوں) سے زیادہ ایک بالشت لٹکائیں یا حد سے حد ایک ہاتھ زیادہ لٹکا لیں، اس سے زیادہ نہیں، یہ اجازت اس لیے ہے تاکہ عورتوں کے قدم اور پنڈلیاں چلتے وقت ظاہر نہ ہوجائیں، آج ٹخنوں تک پاجامہ (شلوار) کے بعد لمبے موزوں سے عورتوں کا مذکورہ پردہ حاصل ہوسکتا ہے، لیکن عورتوں کے لباس اصلی شلوار وغیرہ میں اس بات کی احتیاط ہونی چاہیئے کہ وہ سلاتے وقت ٹخنے کے نیچے ناپ کر سلاتے جائیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5337
خواتین کس قدر آنچل لٹکائیں؟
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب تہبند کے بارے میں جو کچھ کیا اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : پھر عورتیں کیسے کریں ؟ آپ نے فرمایا : ایک بالشت لٹکائیں ، وہ بولیں تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے ! آپ نے فرمایا : پھر ایک ہاتھ اور لٹکا لیں، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٠ (٤١١٧) ، (تحفة الأشراف : ١٨٢٨٢) ، موطا امام مالک/اللباس ٦ (١٣) ، مسند احمد (٦/٢٩٥) ، سنن الدارمی/الإستئذان ١٦ (٢٦٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5338
خواتین کس قدر آنچل لٹکائیں؟
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا : عورت اپنا دامن کس قدر لٹکائے ؟ آپ نے فرمایا : ایک بالشت ، وہ بولیں : تب تو کھلا رہ جائے گا ! آپ نے فرمایا : ایک ہاتھ، اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٠ (٤١١٧) ، سنن الترمذی/اللباس ٩ (١٧٣١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ١٣ (٣٥٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٨١٥٩) ، مسند احمد (٦/٢٩٣، ٣١٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5339
تمام جسم پر کپڑا لپیٹنے سے متعلق اس طریقہ سے کہ ہاتھ باہر نہ نکل سکیں ممنوع ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اشتمال صماء سے اور ایک ہی کپڑے میں احتباء سے کہ شرمگاہ پر کچھ نہ ہو منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠ (٣٦٧) ، اللباس ٢١ (٥٨٢٢) ، (تحفة الأشراف : ٤١٤٠) ، مسند احمد (٣/٦، ١٣، ٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اشتمال صماء اہل لغت کے یہاں اشتمال صماء : یہ ہے کہ ایک آدمی کپڑے کو اپنے جسم پر اس طرح سے لپیٹ لے کہ ہاتھ پاؤں کی حرکت مشکل ہو، اس طرح کا تنگ کپڑا پہننے سے آدمی بوقت ضرورت کسی تکلیف دہ چیز سے اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اور فقہاء کے نزدیک اشتمال صماء یہ ہے کہ پورے بدن پر صرف ایک کپڑا لپیٹے اور ایک جانب سے ایک کنارہ اٹھا کر گندھے پر رکھ لے، اس طرح کہ ستر (شرمگاہ) کھل جائے، اہل لغت کی تعریف کے مطابق یہ مکروہ ہے، اور فقہاء کی تعریف کے مطابق حرام۔ احتباء یہ ہے کہ آدمی ایک کپڑا پہنے اور گوٹ مار کر اس طرح بیٹھے کہ کپڑا اس کے ستر (شرمگاہ) سے ہٹ جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5340
تمام جسم پر کپڑا لپیٹنے سے متعلق اس طریقہ سے کہ ہاتھ باہر نہ نکل سکیں ممنوع ہے۔
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کپڑا پورے بدن پر لپیٹ لینے اور ایک ہی کپڑے میں آدمی کے احتباء کرنے سے کہ شرمگاہ کھلی ہوئی ہو، منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٥١٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5341
ایک ہی کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے کی ممانعت سے متعلق
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پورے بدن پر کپڑا لپیٹ لینے اور ایک ہی کپڑے میں لپیٹ کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٠، ٢١(٢٠٩٩) ، سنن الترمذی/الٔڑدب ٢٠ سنن ابی داود/الٔتدب ٣٦ (٤٨٦٥) ، (الاستئذان ٥٤) (٢٧٦٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٠٥) ، مسند احمد (٣/٣٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5342
سیاہ رنگ کا عمامہ باندھنا
عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو کی پگڑی باندھے دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٩) ، سنن ابی داود/اللباس ٢٤ (٤٠٧٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ١٦(١٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٢٢ (٢٨٢١) ، اللباس ١٤ (٣٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧١٦) ، مسند احمد (٤/٣٠٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حرقانیہ لفظ حرق (جلنا) سے ہے، یعنی : جلنے کے بعد کسی چیز کا جو رنگ ہوتا ہے، وہ سرمئی ہوتا ہے، لیکن مؤلف کے سوا سب کے یہاں، یہاں لفظ سوداء ہے، (خود مؤلف کے یہاں بھی آگے سوداء ہی ہے) اس لحاظ سے دونوں حدیثوں کو ایک ہی باب ( ١٠٩ ) میں لانا چاہیئے تھا، مگر کسی راوی کے یہاں حرقانی ۃ ہونے کی وجہ سے اور رنگ میں ذرا سا فرق ہونے کی وجہ سے مؤلف نے شاید الگ الگ دو باب باندھے ہیں، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5343
سیاہ رنگ کا عمامہ باندھنا
جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں احرام کے بغیر داخل ہوئے اور آپ کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٢٨٧٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5344
سیاہ رنگ کا عمامہ باندھنا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن (مکہ میں) داخل ہوئے اور آپ کالی پگڑی باندھے ہوئے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٨٤ (١٣٥٨) ، سنن الترمذی/الجہاد ٩ (١٦٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٢٨٩٠) ، مسند احمد (٣/٣٨٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5345
دونوں کندھوں کے درمیان (عمامہ کا) شملہ لٹکانے سے متعلق
عمرو بن امیہ (رض) کہتے ہیں : گویا میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھ رہا ہوں اور آپ کالی پگڑی باندھے ہوئے ہیں، اس کا کنارہ اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان (پیچھے) لٹکا رکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٣٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5346
تصاویر کے بیان سے متعلق
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر (مجسمہ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5347
تصاویر کے بیان سے متعلق
ابوطلحہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو، اور نہ ایسے گھر میں جس میں مورتیاں (مجسمے) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٢٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5348
تصاویر کے بیان سے متعلق
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ ابوطلحہ انصاری (رض) کے پاس عیادت کے لیے گئے، ان کے پاس انہیں سہل بن حنیف مل گئے۔ تو ابوطلحہ (رض) نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ ان کے نیچے سے بچھونا نکالے۔ ان سے سہل نے کہا : اسے کیوں نکال رہے ہیں ؟ وہ بولے ؟ اس لیے کہ اس میں تصویریں (مجسمے) ہیں اور اسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا وہ فرمان ہے جو تمہارے علم میں ہے، وہ بولے : کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا : اگر کپڑے میں نقش ہوں تو کوئی حرج نہیں ، انہوں نے کہا : کیوں نہیں، لیکن مجھے یہی بھلا معلوم ہوتا ہے (کہ میں نقش والی چادر بھی نہ رکھوں) ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/اللباس ١٨ (١٧٥٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٨٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تصویر کے سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ ذی روح (جاندار) کی تصویر حرام ہے، خواہ یہ تصاویر جسمانی ہیئت (مجسموں کی شکل) میں ہوں یا نقش و نگار کی صورت میں، إلا یہ کہ ان کے اجزاء متفرق ہوں، البتہ گڑیوں کی شکل کو علماء نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5349
تصاویر کے بیان سے متعلق
ابوطلحہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر (مجسمہ) ہو ، بسر کہتے ہیں : پھر زید بیمار پڑگئے تو ہم نے ان کی عیادت کی، اچانک دیکھا کہ ان کے دروازے پر پردہ ہے جس میں تصویر ہے، میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا : کیا زید نے ہمیں تصویر کے بارے میں پہلے روز حدیث نہیں سنائی تھی ؟ کہا : عبیداللہ نے کہا : کیا تم نے انہیں یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : کپڑے کے نقش کے سوا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٧ (٣٢٢٦) ، اللباس ٩٢ (٥٩٥٨) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٨ (٤١٥٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٧٧٥) ، مسند احمد (٤/٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5350
تصاویر کے بیان سے متعلق
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا اور نبی اکرم ﷺ کو مدعو کیا، چناچہ آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوئے تو ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں ١ ؎، تو آپ باہر نکل گئے اور فرمایا : فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جن میں تصویریں ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الٔقطعمة ٥٦ (٣٣٥٩) ، اللباس ٤٤ (٣٦٥٠) (تحفة الأشراف : ١٠١١٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جو جاندار کی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5351
تصاویر کے بیان سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ باہر نکلے پھر اندر چلے گئے، میں نے وہاں ایک باریک رنگین کپڑا لٹکا رکھا تھا جس میں پر دار گھوڑے بنے ہوئے تھے، جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا : اسے نکال دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٢٢٩) ، مسند احمد (٦/٢٢٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5352
تصاویر کے بیان سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر چڑیا کی شکل بنی ہوئی تھی جب کوئی آنے والا آتا تو وہ ٹھیک سامنے پڑتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عائشہ ! اسے بدل دو ، اس لیے کہ جب میں اندر آتا ہوں اور اسے دیکھتا ہوں تو دنیا یاد آتی ہے ، ہمارے پاس ایک چادر تھی جس میں نقش و نگار تھے، ہم اسے استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن اسے ہم نے کاٹا نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦(٢١٠٧) ، سنن الترمذی/صفة القیامة ٣ (٢٤٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٠١) ، مسند احمد (٦/٤٩٤٩، ٥٣، ٢٤١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بقول امام نووی : یہ تصویروں کی حرمت سے پہلے کی بات ہے، اس لیے آپ نے حرمت کی بجائے ذکرِ دنیا کا حوالہ دیا اور ہٹوا دیا، یا یہ غیر جاندار کے نقش و نگار تھے جنہیں دنیاوی اسراف و تبذیر کی علامت ہونے کے سبب آپ نے ہٹوا دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5353
تصاویر کے بیان سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے گھر میں ایک کپڑا تھا جس میں تصویریں تھیں ١ ؎، چناچہ میں نے اسے گھر کے ایک روشندان میں لٹکا دیا، اور رسول اللہ ﷺ اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر آپ نے فرمایا : عائشہ ! اسے ہٹا دو ، پھر میں نے اسے نکال دیا اور اس کے تکیے بنا دیے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٧٦٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ بھی تصویروں کی حرمت سے پہلے کی بات ہے، یا یہ بھی غیر جاندار چیزوں کے نقش و نگار تھے، لیکن دیواروں یا روشن دانوں پر پردہ اسراف وتبذیر ہے جس کی وجہ سے آپ نے ہٹوا کر بچھونے بنوا دیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5354
تصاویر کے بیان سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک پردہ لٹکایا جس میں تصویریں تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ اندر آئے تو اسے نکال دیا، چناچہ میں نے اسے کاٹ کر دو تکیے بنا دیے۔ اس وقت مجلس میں بیٹھے ایک شخص نے جسے ربیعہ بن عطا کہا جاتا ہے : نے کہا میں نے ابو محمد، یعنی قاسم کو، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے سنا، وہ بولیں : رسول اللہ ﷺ ان پر ٹیک لگاتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٦) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٤، ١٧٤٧٦) ، مسند احمد ٦/١٠٣، ٢١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5355
سب سے زیادہ عذاب میں مبتلا لوگ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر سے آئے، میں نے ایک روشندان میں ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، جس میں تصویریں تھیں، چناچہ آپ نے اسے اتار دیا اور فرمایا : قیامت کے روز سب سے سخت عذاب والے وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کی مخلوق کی تصویریں بناتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٩١ (٥٩٥٤) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٧٤٨٣) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٨٣، ٨٥، ٨٦، ١٩٩، ٢١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5356
سب سے زیادہ عذاب میں مبتلا لوگ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ آئے، میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جس پر تصاویر تھیں، چناچہ جب آپ نے اسے دیکھا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھاڑ دیا اور فرمایا : قیامت کے روز سب سے سخت عذاب والے وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کی مخلوق کی تصویریں بناتے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الٔكدب ٧٥ (٦١٠٩) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٧) ، (تحفة الٔاشراف : ١٧٥٥١) ، مسند احمد (٦/٣٦، ٨٥، ٨٦، ١٩٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5357
تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہوگا ؟
نضر بن انس کہتے ہیں کہ میں ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس اہل عراق میں سے ایک شخص آیا اور بولا : میں یہ تصویریں بناتا ہوں، آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : قریب آؤ۔ میں نے محمد ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے دنیا میں کوئی صورت بنائی قیامت کے روز اسے حکم ہوگا کہ اس میں روح پھونکے، حالانکہ وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ١٠٤ (٢٢٢٥ تعلیقًا) ، اللباس ٩٧ (٥٩٦٣) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١١٠) ، (تحفة الأشراف : ٦٥٣٦) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٢٤١، ٣٥٠، ٣٥٩، ٣٦٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5358
تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہوگا ؟
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی تصویر بنائی، تو اسے عذاب ہوگا یہاں تک کہ وہ اس میں روح ڈال دے، اور وہ اس میں روح نہیں ڈال سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤٥ (٧٠٤٢) ، سنن ابی داود/الٔسدب ٩٦ (٥٠٢٤) ، سنن الترمذی/اللباس ١٩ (١٧٥١) ، سنن ابن ماجہ/تعبیر الرؤیا ٨ (٣٩١٦) ، (تحفة الأشراف : ٥٩٨٦) ، مسند احمد (١/٢١٦، ٣٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5359
تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہوگا ؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی تصویر بنائی، قیامت کے روز اسے حکم ہوگا کہ وہ اس میں روح ڈالے اور وہ اس میں روح نہیں ڈال سکے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التعبیر ٤٥(٧٠٤٢) (تعلیقاً ) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٥٢) ، مسند احمد (٢/٥٠٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5360
تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہوگا ؟
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ وہ لوگ جو تصویریں بناتے ہیں، قیامت کے روز عذاب میں مبتلا ہوں گے، ان سے کہا جائے گا : زندگی عطا کرو اسے جسے تم نے بنایا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٨) ، (تحفة الأشراف ٧٥٢٠) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٩ (٥٩٥١) ، والتوحید ٥٦ (٧٥٥٨) ، مسند احمد (٢/٤، ٢٠، ٢٦، ٥٥، ١٠١، ١٢٦، ١٣٩، ١٤١، ١٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5361
تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہوگا ؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب پائیں گے اور ان سے کہا جائے گا : زندگی عطا کرو اسے جسے تم نے بنایا تھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٤٠ (٢١٠٥) ، بدء الخلق ٧ (٣٢٢٤) ، النکاح ٧٦ (٥١٨١) ، اللباس ٩٢ (٥٩٥٧) ، والتوحید ٥٦ (٧٥٥٧) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥ (٢١٥١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٥٧) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٧) ، مسند احمد (٦/٧٠، ٨٠، ٢٢٣، ٢٤٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5362
تصویر سازی کرنے والوں کو قیامت کے دن کس طرح کا عذاب ہوگا ؟
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو مخلوق کی تصویر بنانے میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٧٤٥٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5363
کن لوگوں کو شدید ترین عذاب ہوگا ؟
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سے سب سے زیادہ سخت عذاب والے تصویر بنانے والے لوگ ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/اللباس ٨٩ (٥٩٥٠) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٦ (٢١٠٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥٧٥) ، مسند احمد (١/٣٧٥، ٤٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5364
کن لوگوں کو شدید ترین عذاب ہوگا ؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی اکرم ﷺ سے اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا : اندر آئیے، وہ بولے : میں کیسے اندر آؤں ؟ آپ کے گھر میں تو ایسا پردہ لٹکا ہے جس میں تصویریں ہیں، لہٰذا یا تو آپ ان کے سر کاٹ دیجئیے، یا پھر ان کا بچھونا بنا دیجئیے تاکہ وہ روندا جائے۔ کیونکہ ہم فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/اللباس ٤٨ (٤١٥٨) ، سنن الترمذی/الأدب ٤٤ (الاستئذان ٧٨) (٢٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٤٥) ، مسند احمد (٢/٣٠٥، ٣٠٨، ٣٩٠، ٤٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5365
اوڑھنے کی چادر سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری اوڑھنے کی چادر میں نماز نہیں پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الطہارة ١٣٤ (٣٦٧) ، الصلاة ٨٧ (٦٤٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠٣ (الجمعة ٦٧) (٦٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا آپ احتیاط کے طور پر کرتے تھے، کیونکہ اس بات کا امکان تھا کہ کوئی ایسی چیز ہو جو آپ کے لیے باعث تکلیف ہو، بہرحال اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ آپ کے اہل خانہ لحاف استعمال کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5366
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتے کیسے تھے؟
انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے جوتوں کے دو تسمے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الخمس ٥ (٣١٠٥) ، اللباس ٤١ (٥٨٥٧) ، سنن ابی داود/اللباس ٤٤ (٤١٣٤) ، سنن الترمذی/اللباس ٣٣ (١٧٧٢، ١٧٧٣) ، والشمائل ١٠ (٧١) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ٢٧ (٣٦١٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٢) ، مسند احمد (٣/١٢٢، ٢٠٣، ٢٤٥، ٢٦٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5367
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوتے کیسے تھے؟
عمرو بن اوس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے جوتوں کے دو تسمے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٩١٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5368
ایک جوتہ پہن کر چلنا ممنوع ہونے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک جوتا پہن کر نہ چلے یہاں تک کہ اسے ٹھیک کرا لے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٢٤٥٩) ، مسند احمد (٢/ ٥٢٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا کرنے سے آپ نے اس لیے منع کیا تاکہ ایک پاؤں اونچا اور دوسرا نیچا نہ رہے کیونکہ ایسی صورت میں پھسلنے کا خطرہ ہے، ساتھ ہی دوسروں کی نگاہ میں برا بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5369
ایک جوتہ پہن کر چلنا ممنوع ہونے سے متعلق
ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو دیکھا وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے : عراق والو ! تم کہتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ گھڑتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک جوتا پہن کر نہ چلے یہاں تک کہ اسے ٹھیک کرا لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/اللباس ١٩ (٢٠٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٦٠٨) ، مسند احمد (٢/٤٢٤٢٤، ٤٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5370
کھالوں پر بیٹھنا اور لیٹنا
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک کھال پر لیٹے تو آپ کو پسینہ آگیا، ام سلیم رضی اللہ عنہا اٹھیں اور پسینہ اکٹھا کر کے ایک شیشی میں بھرنے لگیں، نبی اکرم ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا : ام سلیم ! یہ تم کیا کر رہی ہو ؟ وہ بولیں : میں آپ کے پسینے کو عطر میں ملاؤں گی، یہ سن کر نبی اکرم ﷺ ہنسنے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٩٦٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الاستئذان ٤١ (٦٢٨١) ، صحیح مسلم/الفضائل ٢٢ (٢٣٣١) ، مسند احمد (٣/١٣٦، ٢٢١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ نبی اکرم ﷺ کے پسینے کے ساتھ خاص تھا، چناچہ سلف میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے کسی کا پسینہ محفوظ رکھا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5371
خدمت کے لئے ملازم رکھنا اور سواری رکھنے سے متعلق
ابو وائل سے روایت ہے کہ سمرہ بن سہم جو ابو وائل کے قبیلے کے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ابوہاشم بن عتبہ (رض) کے یہاں ٹھہرا، وہ طاعون میں مبتلا تھے، چناچہ ان کی عیادت کے لیے معاویہ (رض) آئے، تو ابوہاشم رونے لگے، معاویہ (رض) نے کہا : کیوں رو رہے ہو ؟ کیا کسی تکلیف کی وجہ سے رو رہے ہو یا دنیا کے لیے ؟ دنیا کی راحت تو اب گئی، انہوں نے کہا : ایسی کوئی بات نہیں ہے، دراصل مجھے رسول اللہ ﷺ کا ایک عہد یاد آگیا جو آپ نے مجھ سے لیا تھا، میں چاہتا تھا کہ میں اس کی پیروی کروں، آپ نے فرمایا : تیرے سامنے ایسے اموال آئیں گے جو لوگوں کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے، لیکن تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک خادم اور اللہ کی راہ کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا پھر اسے جمع کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الزہد ١٩ (٢٣٢٧) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ١ (٤١٠٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٨) ، مسند احمد (٣/٤٤٣، ٤٤٤، ٥/٢٩٠) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5372
تلوار کے زیور سے متعلق
ابوامامہ بن سہل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار کا دستہ چاندی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ١٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5373
تلوار کے زیور سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے نیام کا نچلا حصہ چاندی کا تھا، آپ کی تلوار کا دستہ بھی چاندی کا تھا، اور ان کے درمیان میں چاندی کے حلقے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الجہاد ٧١ (٢٥٨٣) ، سنن الترمذی/الجھاد ١٦ (١٦٩١) ، والشمائل ١٣ (٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٦، ١٤٢٥، ١٨٦٨٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5374
تلوار کے زیور سے متعلق
سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار کا دستہ چاندی کا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5375
لال رنگ کے زین پوش کے استعمال کی ممانعت
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : کہو : اللہم سددني واهدني اے اللہ مجھے درست رکھ اور ہدایت عطا کر اور آپ نے مجھے میاثر پر بیٹھنے سے منع فرمایا، میاثر ایک قسم کا ریشمی کپڑا ہے، جسے عورتیں اپنے شوہروں کے لیے پالان پر ڈالنے کے لیے بناتی تھیں۔ جیسے گلابی رنگ کی چھوردار چادریں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٢١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5376
کرسیوں پر بیٹھنے سے متعلق
ابورفاعہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا، آپ خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ایک اجنبی شخص اپنے دین کے بارے میں معلومات کرنے آیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ اس کا دین کیا ہے ؟ چناچہ رسول اللہ ﷺ متوجہ ہوئے اور خطبہ روک دیا یہاں تک کہ آپ مجھ تک پہنچ گئے، پھر ایک کرسی لائی گئی، میرا خیال ہے اس کے پائے لوہے کے تھے، رسول اللہ ﷺ اس پر بیٹھے اور مجھے سکھانے لگے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سکھایا تھا، پھر آپ لوٹ کر آئے اور اپنا خطبہ مکمل کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الجمعة ١٥ (الصلاة ١٨٠) (٨٧٨) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٣٥) ، مسند احمد (٥/٨٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5377
لال رنگ کے خیموں کے استعمال سے متعلق
ابوحجیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ بطحاء میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ایک لال خیمے میں تھے اور آپ کے پاس تھوڑے سے لوگ بیٹھے تھے، اتنے میں آپ کے پاس بلال (رض) آئے اور انہوں نے اذان دینی شروع کی، تو اپنا منہ ادھر ادھر کرنے لگے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٤ (٥٢٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٠ (١٩٧ مطولا) ، (تحفة الأشراف : ١١٨٠٦) ، مسند احمد (٤/٣٠٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے وقت اپنا رخ دائیں اور بائیں کرنے لگے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 5378