5. نماز کا بیان

【1】

فرضیت نماز

انس بن مالک، مالک بن صعصعہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو ؟ انہوں نے کہا : جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : محمد ﷺ ہیں، پوچھا گیا : کیا بلائے گئے ہیں ؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی ! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا : کون ہو ؟ انہوں نے کہا : جبرائیل ہوں، پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : محمد ﷺ ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی ! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو ؟ انہوں نے کہا : جبرائیل ہوں، پوچھا گیا : آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : محمد ﷺ ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی ! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی ! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی ! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی ! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ١ ؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے ؟ انہوں نے کہا : پروردگار ! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا : خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی ! پھر بیت معمور ٢ ؎ میرے قریب کردیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کردیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا : باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا : آپ نے کیا کیا ؟ میں نے کہا : میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا : میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجئیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چناچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کردیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا : آپ نے کیا کیا ؟ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس کردی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تو میں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیس کردیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کردیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں نے کہا : (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (باربار) جانے سے شرم آرہی ہے، تو آواز آئی : میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/بدء الخلق ٦ (٣٢٠٧) ، أحادیث الأنبیاء ٢٢ (٣٣٩٣) ، ٤٢ (٣٤٣٠) ، مناقب الأنصار ٤٢ (٣٨٨٧) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٤) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة الم نشرح (٣٣٤٦) (مختصراً ، وقال : في الحدیث قصة طویلة) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٠٢) ، مسند احمد ٢/٢٠٧، ٢٠٨، ٢١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ رونا حسد کے طور پر نہیں تھا، بلکہ یہ بطور تاسف و رنج تھا کہ میری امت نے میری ایسی پیروی نہیں کی جیسی محمد ﷺ کی ان کی امت نے کی۔ ٢ ؎: بیت معمور خانہ کعبہ کے عین اور ساتویں آسمان پر ایک عبادت خانہ ہے جہاں فرشتے بہت بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں۔ ٣ ؎: سدرۃ المنتھی بیری کا وہ درخت جو ساتویں آسمان پر ہے، اور جس سے آگے کوئی نہیں جاسکتا۔ ٤ ؎: ان دونوں سے مراد جنت کی دونوں نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 448

【2】

فرضیت نماز

انس بن مالک اور ابن حزم (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو میں انہیں لے کر لوٹا، تو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزر ہوا، تو انہوں نے پوچھا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا : اس نے ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا : جا کر اپنے رب سے پھر سے بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، تو میں نے اپنے رب عزوجل سے بات کی، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے آدھا ١ ؎ معاف کردیا، تو میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، اور میں نے انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے کہا : اپنے رب سے پھر بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، چناچہ میں نے اپنے رب سے پھر سے بات کی، تو اس نے کہا : یہ پانچ نمازیں ہیں جو (اجر میں) پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک فرمان بدلا نہیں جاتا، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا : اپنے رب سے جا کر پھر بات کیجئے، میں نے کہا : مجھے اپنے رب کے پاس (باربار) جانے سے شرم آرہی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلا ة ١/٣٤٩ وأحادیث الأنبیاء ٥ (٣٣٤٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٩٤ (١٣٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٥٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پانچ پانچ کر کے پانچ بار میں آدھا معاف کیا، یا شطر سے مراد آدھا نہیں بلکہ کچھ حصہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 449

【3】

فرضیت نماز

یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک (رض) نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہوگیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا : اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چناچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا : کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے ؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہوگی، پھر انہوں نے کہا : اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا : کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے ؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا تھا، پھر کہا : اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا : کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے ؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء (علیہم السلام) کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبرائیل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم (علیہ السلام) موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف (علیہ السلام) موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون (علیہ السلام) ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس (علیہ السلام) موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ (علیہ السلام) ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم (علیہ السلام) ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہیٰ تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گرپڑا، تو مجھ سے کہا گیا : جس دن میں نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس نمازیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا : تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (نمازیں) فرض کی گئیں ؟ میں نے کہا : پچاس نمازیں، تو انہوں نے کہا : نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چناچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس نمازیں تخفیف کردیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چناچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس نمازیں تخفیف کردیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چناچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس نمازیں تخفیف کردیں، پھر (باربار درخواست کرنے سے) پانچ نمازیں کردی گئیں، (اس پر بھی) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کرسکے، چناچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا : جس دن میں نے زمین و آسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو اب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی) ، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چناچہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا : پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چناچہ میں پھر واپس نہیں گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف ١٧٠١) (منکر) (فریضئہ صلاة پانچ وقت ہوجانے کے بعد پھر اللہ سے رجوع، اور اس کے جواب سے متعلق ٹکڑا صحیح نہیں ہے، صحیح یہی ہے کہ پانچ ہوجانے کے بعد آپ نے شرم سے رجوع ہی نہیں کیا ) قال الشيخ الألباني : منكر صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 450

【4】

شراب کی حرمت سے متعلق خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا اے اہل ایمان! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (کے تیر) یہ تمام کے تمام ناپاک ہیں شیطان کے کام ہیں اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان میں دشمنی اور لڑائی پیدا کرا دے شراب پلا اور جوا کھلا کر اور روک دے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے تو تم لوگ چھوڑتے ہو یا نہیں۔

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ (معراج کی شب) جب رسول اللہ ﷺ کو لے جایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ١ ؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ٢ ؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ٣ ؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ٤ ؎ عبداللہ بن مسعود (رض) نے آیت کریمہ إذ يغشى السدرة ما يغشى ٥ ؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا : وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں) آپ کو تین چیزیں دی گئیں : پانچ نمازیں، سورة البقرہ کی آخری آیتیں ٦ ؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٧٦ (١٧٣) ، سنن الترمذی/تفسیر سورة النجم (٣٢٧٦) ، (تحفة الأشراف ٩٥٤٨) ، مسند احمد ١/٣٨٧، ٤٢٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے پہلے انس (رض) والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پر ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ٢ ؎: یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ۔ ٣ ؎: یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔ ٤ ؎: مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔ ٥ ؎: النجم : ١٦ ۔ ٦ ؎: یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 451

【5】

نماز کس جگہ فرض ہوئی؟

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ پنج وقتہ نمازیں مکہ میں فرض کی گئیں، دو فرشتے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، وہ دونوں آپ کو زمزم کے پاس لے گئے، اور آپ کا پیٹ چاک کیا، اور اندر کی چیزیں نکال کر سونے کے ایک طشت میں رکھیں، اور انہیں آب زمزم سے دھویا، پھر آپ کا پیٹ علم و حکمت سے بھر کر بند کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف ٤٥٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 452

【6】

کس طریقہ سے نماز فرض ہوئی؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابتداء میں دو رکعت نماز فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز (دو ہی) باقی رکھی گئی اور حضر کی نماز (بڑھا کر) پوری کردی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١ (٣٥٠) ، وتقصیر الصلاة ٥ (١٠٩٠) ، ومناقب الأنصار ٨ (٣٩٣٥) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١ (٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٤٣٩) ، سنن الدارمی/ الصلاة ١٧٩ (١٥٥٠) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٠ (١١٩٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 453

【7】

کس طریقہ سے نماز فرض ہوئی؟

ولید کہتے ہیں کہ ابوعمرو اوزاعی نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے زہری سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مکہ میں آپ کی نماز کیسی ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا : مجھے عروہ نے خبر دی ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر دو دو رکعت نماز فرض کی، پھر حضر میں چار رکعت کر کے انہیں مکمل کردی، اور سفر کی نماز سابق حکم ہی پر برقرار رکھی گئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٥٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 454

【8】

کس طریقہ سے نماز فرض ہوئی؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نماز دو دو رکعت فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز (دو ہی) برقرار رکھی گئی، اور حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١ (٣٥٠) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١ (٦٨٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٠ (١١٩٨) ، (تحفة الأشراف : ١٦٣٤٨) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٢ (٨) ، مسند احمد ٦/٢٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ابن خزیمہ ( ١ /١٥٧) اور ابن حبان ( ٣ /١٨٠) کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے، تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کردیا گیا، اور فجر اور مغرب کی نماز میں اضافہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے اور مغرب دن کی وتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 455

【9】

کس طریقہ سے نماز فرض ہوئی؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز بزبان نبی اکرم ﷺ حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت، اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین حدیث ٦ (٦٨٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٨٧ (١٢٤٧) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٧٣ (١٠٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٨٠) ، بدون الشطر الأخیر، حم ١/٢٣٧، ٢٤٣، ٢٥٤، ٣٥٥، ویأتی عند المؤلف (برقم : ١٤٤٢، ١٤٤٣، ١٥٣٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خوف کی حالت میں ایک ہی رکعت پر اکتفا کرے تو جائز ہے، کئی ایک صحابہ کرام اور ائمہ عظام اس کے قائل بھی ہیں، حذیفہ (رض) کی روایت میں اس کی صراحت بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 456

【10】

کس طریقہ سے نماز فرض ہوئی؟

امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں ؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : ‏فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم‏ اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں (النساء : ١٠١ ) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا : بھتیجے ! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ٧٣ (١٠٦٦) ، مسند احمد ٢/٩٤، ١٤٨، ویأتي عند المؤلف (برقم : ١٤٣٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 457

【11】

دن اور رات میں نمازیں کتنی تعداد میں فرض قرار دی گئیں

ابو سہیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلحہ بن عبیداللہ (رض) کو کہتے سنا کہ اہل نجد کا ایک آدمی پراگندہ سر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن جو کہہ رہا تھا اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے، یہاں تک کہ وہ قریب آگیا، تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : (اسلام) دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا ہے ، اس نے پوچھا : کیا میرے اوپر ان کے علاوہ بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، الا یہ کہ تم نفل پڑھو ، نیز آپ ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کا روزہ ہے ، اس نے پوچھا : اس کے علاوہ بھی کوئی روزہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، الا یہ کہ تم نفل رکھو ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا، تو اس نے پوچھا : کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، الا یہ کہ تم نفل صدقہ دو ، پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر جانے لگا، اور وہ کہہ رہا تھا : قسم اللہ کی ! میں اس سے نہ زیادہ کروں گا نہ کم، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کامیاب ہوگیا اگر اس نے سچ کہا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٤ (٤٦) ، والصوم ١ (١٨٩١) ، والشہادات ٢٦ (٢٦٧٨) ، والحیل ٣ (٦٩٥٦) ، صحیح مسلم/الإیمان ٢ (١١) ، سنن ابی داود/الصلاة ١ (٣٩١، ٣٩٢) ، الأیمان والنذور ٥ (٣٢٥٢) ، صحیح مسلم/قصر الصلاة ٢٥ (٩٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٠٠٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٢٠٩٢، ٥٠٣١، مسند احمد ١/١٢٦، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 458

【12】

دن اور رات میں نمازیں کتنی تعداد میں فرض قرار دی گئیں

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک آدمی نے دریافت کیا : اللہ کے رسول ! اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، اس نے دریافت کیا : اللہ کے رسول ! کیا ان سے پہلے یا بعد میں بھی کوئی چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں ہی فرض کی ہیں ، تو اس آدمی نے قسم کھائی کہ وہ نہ اس پر کوئی اضافہ کرے گا، اور نہ کوئی کمی کرے گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر اس نے سچ کہا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف ١١٦٦) ، وقد أخرجہ : حم ٣/٢٦٧، صحیح مسلم/في الإیمان ٣ (١٢) ، سنن الترمذی/في الزکاة ٢ (٦١٩) والمؤلف في الصوم ١ (برقم : ٢٠٩٣) من طریق ثابت عن أنس مطولاً (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 459

【13】

نماز پنج گانہ کے لئے بیعت کرنے کا بیان

عوف بن مالک اشجعی (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم لوگ رسول اللہ ﷺ سے بیعت نہیں کرو گے ؟ آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے آپ سے بیعت تو کرلی، لیکن یہ بیعت کس چیز پر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے ، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الزکاة ٣٥ (١٠٤٣) مطولاً ، سنن ابی داود/الزکاة ٢٧ (١٦٤٢) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ٤١ (٢٨٦٧) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٠٩١٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 460

【14】

نماز پنج گانہ کی حفاظت کا بیان

ابن محریز سے روایت ہے کہ بنی کنانہ کے ایک آدمی نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا شام میں ایک آدمی کو جس کی کنیت ابو محمد تھی کہتے سنا کہ وتر واجب ہے، مخدجی کہتے ہیں : تو میں عبادہ بن صامت (رض) کے پاس گیا، اور میں نے مسجد جاتے ہوئے انہیں راستے ہی میں روک لیا، اور انہیں ابو محمد کی بات بتائی، تو عبادہ (رض) نے کہا : ابو محمد نے جھوٹ کہا ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو انہیں ادا کرے گا، اور ان میں سے کس کو ہلکا سمجھتے ہوئے ضائع نہیں کرے گا، تو اللہ کا اس سے پختہ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جس نے انہیں ادا نہیں کیا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے، اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣٣٧ (١٤٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٩٤ (١٤٠١) ، (تحفة الأشراف : ٥١٢٢) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ٣/١٤ (١٤) ، مسند احمد ٥/٣١٥، ٣١٩، ٣٢٢، سنن الدارمی/الصلاة ٢٠٨ (١٦١٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 461

【15】

نماز پنج گانہ کی فضیلت کا بیان

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کے دروازے پر کوئی نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہے گا ، لوگوں نے کہا : کچھ بھی میل باقی نہیں رہے گا، آپ ﷺ نے فرمایا : تو اسی طرح پانچوں نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت ٦ (٥٢٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٥١ (٦٦٧) ، سنن الترمذی/الأمثال ٥ (٢٨٦٨) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٩٨) ، مسند احمد ٢/٣٧٩، ٤٢٦، ٤٢٧، ٤٤١، سنن الدارمی/الصلاة ١/١٢٢١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لیکن شرط یہ ہے کہ ان نمازوں کو سنت کے مطابق خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 462

【16】

نماز پنج گانہ کی فضیلت کا بیان

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو (فرق کرنے والا) عہد ہے، وہ نماز ہے، تو جو اسے چھوڑ دے گا، کافر ہوجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦٢١) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٧٧ (١٠٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٩٦٠) ، مسند احمد ٥/٣٤٦، ٣٥٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمہور کے نزدیک یہ حکم ایسے شخص کے لیے ہے جو نماز کے ترک کو حلال سمجھے، اور جو شخص محض سستی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے تو وہ کافر نہیں ہوتا، لیکن صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے بہت سے محققین کے نزدیک نماز کی فرضیت کے عدم انکار کے باوجود عملاً چھوڑ دینے والا بھی کافر ہے، دیکھئیے اس موضوع پر عظیم کتاب تعظيم قدر الصلاة مؤلفہ امام محمد بن نصر مروزی (تحقیق دکتور عبدالرحمٰن الفریوائی) ، اور تارک صلاۃ کا حکم تصنیف شیخ ابن عثیمین (ترجمہ : دکتور عبدالرحمٰن الفریوائی) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 463

【17】

نماز پنج گانہ کی فضیلت کا بیان

جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندے اور کفر کے درمیان سوائے نماز چھوڑ دینے کے کوئی اور حد فاصل نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٢) ، (تحفة الأشراف : ٢٨١٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/السنة ١٥ (٤٦٧٨) ، سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦٢٠) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٧٧ (١٠٧٨) ، مسند احمد ٣/٣٧٠، ٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 464

【18】

نماز سے متعلق گرفت ہونے سے متعلق

حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، وہ کہتے ہیں : میں نے دعا کی، اے اللہ ! مجھے کوئی نیک ہم نشیں عنایت فرما، تو مجھے ابوہریرہ (رض) کی ہم نشینی ملی، وہ کہتے ہیں : تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے دعا کی تھی کہ مجھے ایک نیک ہم نشیں عنایت فرما تو (مجھے آپ ملے ہیں) آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کیجئیے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، ہوسکتا ہے اللہ اس کے ذریعہ مجھے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : (قیامت کے دن) بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے میں بازپرس ہوگی، اگر یہ درست ہوئی تو یقیناً وہ کامیاب و کامراں رہے گا، اور اگر خراب رہی تو بلاشبہ ناکام و نامراد رہے گا ، راوی ہمام کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم یہ قتادہ کی بات ہے یا روایت کا حصہ ہے، اگر اس کے فرائض میں کوئی کمی رہی تو اللہ فرمائے گا : دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے ؟ (اگر ہو تو) ١ ؎ فرض میں جو کمی ہے اس کے ذریعہ پوری کردی جائے، پھر اس کا باقی عمل بھی اسی طرح ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨٩ (٤١٣) ، مسند احمد ٢/٤٢٥، (تحفة الأشراف : ١٢٢٣٩) وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ٢٠٢ (١٤٢٥) (صحیح) راوی ابوالعوام نے (جو اگلی سند میں ہیں) ہمام کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ وضاحت ١ ؎: مخالفت اس طرح ہے کہ ہمام نے اسے بطریق قتادہ عن الحسن عن حریث عن ابی ہریرہ، اور ابوالعوام نے بطریق قتادہ عن الحسن عن ابی رافع عن ابی ہریرہ روایت کیا ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 465

【19】

نماز سے متعلق گرفت ہونے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے بندہ سے اس کی نماز کے بارے میں بازپرس ہوگی، اگر وہ پوری ملی تو پوری لکھ دی جائے گی، اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کہے گا : دیکھو تم اس کے پاس کوئی نفل پا رہے ہو کہ جس کے ذریعہ جو فرائض اس نے ضائع کئے ہیں اسے پورا کیا جاسکے، پھر باقی تمام اعمال بھی اسی کے مطابق جاری ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٤٦٦٠) ، مسند احمد ٤/١٠٣ (صحیح ) صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 466

【20】

نماز سے متعلق گرفت ہونے سے متعلق

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے پہلے بندہ سے نماز کی بازپرس ہوگی، اگر اس نے اسے پورا کیا ہے (تو ٹھیک ہے) ورنہ اللہ عزوجل فرمائے گا : دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے ؟ اگر اس کے پاس کوئی نفل ملا تو فرمائے گا : اس کے ذریعہ فرض پورا کر دو ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٤٨١٨) ، مسند احمد ٤/١٠٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 467

【21】

نماز سے متعلق گرفت ہونے سے متعلق

ابوایوب (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کرے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو، اسے چھوڑ دو گویا آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الزکاة ١ (١٣٩٦) ، والأدب ١٠ (٥٩٨٣، ٥٩٨٢) ، صحیح مسلم/الإیمان ٤ (١٣) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٣٤٩١) ، مسند احمد ٥/٤١٧، ٤١٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اعرابی سامنے آ کر اونٹنی کی باگ تھام کر پوچھ رہا تھا آپ ﷺ جواب دے چکے تو آپ نے اس سے فرمایا : اونٹنی کی باگ چھوڑ دے اسے جانے دے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 468

【22】

حالت قیام یعنی مقیم ہونے کی حالت میں کس قدر رکعات پڑھنا چاہئے؟

ابن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے انس (رض) کو کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٥ (١٠٨٩) ، والحج ٢٤ (١٥٤٧) ، ٢٥ (١٥٤٨) ، ١١٩ (١٧١٤) ، والجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، صحیح مسلم/صلاة المسافرین ١ (٦٩٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧١ (١٢٠٢) ، والمناسک ٢١ (١٧٧٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٩١ (٥٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١٦٦، ١٥٧٣) ، مسند احمد ٣/١١٠، ١١١، ١٧٧، ١٨٦، ٢٣٧، ٢٦٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٧٩ (١٥٤٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: قصر اس لیے پڑھی کہ آپ حج کے لیے مکہ جا رہے تھے، نہ اس لیے کہ ذوالحلیفہ قصر کی حد ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 469

【23】

بحالت سفر نماز ظہر کی کتنی رکعت پڑھنا چاہئے؟

حکم بن عتیبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوجحیفہ (رض) کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر میں نکلے (ابن مثنی کی روایت میں ہے : بطحاء کی طرف نکلے) تو آپ نے وضو کیا، اور ظہر کی نماز دو رکعت پڑھی، اور عصر کی دو رکعت پڑھی، اور آپ کے سامنے نیزہ (بطور سترہ) تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٤٠ (١٨٧) ، الصلاة ٩٣ (٤٩٩) ، ٩٤ (٥٠١) ، المناقب ٢٣ (٣٥٥٣) ، مطولاً صحیح مسلم/الصلاة ٤٧ (٥٠٣) ، وقد أخرجہ (تحفة الأشراف : ١١٧٩٩) ، مسند احمد ٤/٣٠٧، ٣٠٨، ٣٠٩، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٤ (١٤٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 470

【24】

فضیلت نماز عصر

عمارہ بن رویبہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو شخص سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نماز پڑھے گا وہ ہرگز جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٦٣٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٩ (٤٢٧) ، (تحفة الأشراف : ١٠٣٧٨) ، مسند احمد ٤/١٣٦، ٢٦١ ویأتي عند المؤلف برقم : ٤٨٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: فجر اور عصر کی نمازوں کا ذکر ان کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ صرف ان نمازوں کی پابندی کرنے والا جہنم سے محفوظ رہے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو ان دونوں کی پابندی کرے گا وہ یقیناً دوسری نمازوں میں بھی کوتاہی نہیں کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 471

【25】

عصر کی نماز کی حفاظت کی تاکید

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں، اور کہا : جب اس آیت کریمہ : حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى (البقرہ : ٢٨٣ ) پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چناچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے انہیں بتایا، تو انہوں نے مجھے املا کرایا حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين پھر انہوں نے کہا : میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٢٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٠) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٨٢) ، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ٨ (٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٨٠٩) ، مسند احمد ٦/٧٣، ١٧٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلاۃ وسطیٰ عصر کے علاوہ کوئی اور صلاۃ ہے إلاّ یہ کہ اسے عطف تفسیری مانا جائے، اور صحیح بھی یہی لگتا ہے کہ اسے نبی اکرم ﷺ نے آیت کی تفسیر کے طور پر ذکر کیا ہوگا، اور اسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت کا جزء سمجھ لیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 472

【26】

عصر کی نماز کی حفاظت کی تاکید

علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (جنگ خندق کے موقع پر) فرمایا : ان لوگوں (کافروں) نے ہمیں بیچ والی نماز سے مشغول کردیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ٩٨ (٢٩٣١) مطولاً ، المغازي ٢٩ (٤١١١) مطولاً ، تفسیر البقرة ٤٢ (٤٥٣٣) ، الدعوات ٥٨ (٦٣٩٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٧) ، ٣٦ (٦٢٧) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤٠٩) مطولاً ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٨٤) مطولاً ، وقد اخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٠٢٣٢) ، مسند احمد ١/٧٩، ١٢٢، ١٣٥، ١٣٧، ١٤٤، ١٥٢، ١٥٣، ١٥٤، سنن الدارمی/الصلاة ٢٨ (١٢٦٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 473

【27】

جو شخص نماز عصر ترک کرے اس کا حکم

ابوالملیح (ابوالملیح بن اسامہ) کہتے ہیں کہ بدلی والے ایک دن میں ہم بریدہ (رض) کے ساتھ تھے تو انہوں نے کہا : نماز جلدی پڑھو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل رائیگاں گیا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٥ (٥٥٣) ، ٣٤ (٥٩٤) ، وقد اخرجہ : (تحفة الأشراف : ٢٠١٣) ، مسند احمد ٥/٣٤٩، ٣٥٠، ٣٥٧، ٣٦٠، ٣٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے اس معصیت کی سنگینی کا اظہار مقصود ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 474

【28】

مقیم ہونے کی حالت میں نماز عصر کتنی ادا کرے؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے، تو ہم نے ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں آپ کے قیام کا اندازہ سورة السجدہ کی تیس آیتوں کے بقدر لگایا، اور آخر کی دونوں رکعتوں میں اس کا آدھا، اور ہم نے عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں آپ کے قیام کا اندازہ ظہر کی آخری دونوں رکعتوں کے بقدر لگایا، اور عصر کی آخری دونوں رکعتوں کا اندازہ اس کا آدھا لگایا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣٤ (٤٥٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٠ (٨٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٧٤) ، مسند احمد ٣/٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ٦٢ (١٢٢٥، ١٢٢٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 475

【29】

مقیم ہونے کی حالت میں نماز عصر کتنی ادا کرے؟

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز ظہر میں قیام کرتے تھے تو ہر رکعت میں تیس آیت کے بقدر پڑھتے تھے، پھر عصر میں پہلی دونوں رکعتوں میں پندرہ آیت پڑھنے کے بقدر قیام کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٢٥٩) ، مسند احمد ٣/٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 476

【30】

نماز سفر میں نماز عصر کی کتنی رکعت ادا کرے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت، اور ذوالحلیفہ میں نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٢٤ (١٥٤٧) ، ٢٥ (١٥٤٨) ، ٢٧ (١٥٥١) ، ١١٩ (١٧١٤، ١٧١٥) ، الجہاد ١٠٤ (٢٩٥١) ، ١٢٦ (٢٩٨٦) ، صحیح مسلم/ صلاة المسافرین (٦٩٠) ، سنن ابی داود/المناسک ٢٤ (١٧٩٦) ، الضحایات (٢٧٩٣) ، مسند احمد ٣/ ١١١، ١٦٤، ١٨٦، ٢٦٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 477

【31】

نماز سفر میں نماز عصر کی کتنی رکعت ادا کرے؟

نوفل بن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی تو گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : کہ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، تحفة الأشراف : (١١٧١٧) ، وحدیث عراک بن مالک عن عبداللہ بن عمر قد تفرد بہ النسائی (أیضاً ) ، تحفة الأشراف : (٧٣٢٠) ، وقد أخرجہ عن طریق مالک عن نافع عن عبداللہ بن عمر : صحیح البخاری/المناقب ٢٥ (٣٦٠٢) ، مواقیت ١٤ (٥٥٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٥) ، طا/وقوت الصلاة ٥ (٢١) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٥) ، مسند احمد ٢/٨، ١٣، ٢٧، ٤٨، ٥٤، ٦٤، ٧٥، ٧٦، ١٠٢، ١٣٤، ١٤٥، ١٤٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٧ (١٢٦٧) (صحیح) یزید نے (آنے والی روایت میں) جعفر کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ وضاحت ١ ؎: یہ مخالفت سند اور متن دونوں میں ہے، سند میں اس طرح کہ جعفر کی روایت میں ہے کہ نوفل نے عراک سے بیان کی ہے اور یزید کی روایت میں ہے کہ عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ نوفل بن معاویہ نے کہا، دونوں میں فرق واضح ہے پہلی صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عراک نے نوفل بن معاویہ سے خود سنا ہے، اور دوسری صورت سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ میں واسطہ ہے، متن میں مخالفت اس طرح ہے کہ جعفر کی روایت میں ” من فاتته صلاة العصر “ کے الفاظ ہیں، اور یزید کے الفاظ اس طرح ہیں ” من الصلاة صلاة من فاتته “۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 478

【32】

نماز سفر میں نماز عصر کی کتنی رکعت ادا کرے؟

نوفل بن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : نمازوں میں ایک نماز ایسی ہے کہ جس کی وہ فوت ہوجائے گویا اس کا گھربار لٹ گیا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : یہ عصر کی نماز ہے ۔ محمد بن اسحاق نے (آنے والی روایت میں) لیث کی مخالفت کی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٧٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں بھی سند اور متن دونوں میں مخالفت ہے، سند میں مخالفت اس طرح ہے کہ محمد بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ عراک نے نوفل بن معاویہ سے سنا ہے، اور لیث کی روایت میں ہے کہ عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ نوفل بن معاویہ نے کہا ہے، اور متن میں اس طرح کہ محمد بن اسحاق نے اسے موقوف قرار دیا ہے، اور لیث نے مرفوع قرار دیا ہے، اور وقف اور رفع میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ صحابی کبھی مرفوع روایت کو بصورت فتوی بیان کرتا ہے، اور اسے نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب نہیں کرتا، اور کبھی اسے مرفوعاً روایت کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 479

【33】

نماز مغرب سے متعلق

نوفل بن معاویہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک نماز ایسی ہے کہ جس کی وہ فوت ہوجائے گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ عصر کی نماز ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٧٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 480

【34】

نماز مغرب سے متعلق

سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر کو مزدلفہ میں دیکھا، انہوں نے اقامت کہی، اور مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی، پھر اقامت کہی، اور عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر انہوں نے ذکر کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ اسی جگہ میں ایسا ہی کیا، اور ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (بھی) اس جگہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٨) ، سنن ابی داود/الحج ٦٥ (١٩٣٠، ١٩٣١) ، سنن الترمذی/الحج ٥٦ (٨٨٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٢) ، مسند احمد ١/٢٨٠، ٢/٣، ٣٣، ٥٩، ٦٢، ٧٩، ٨١، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٣ (١٥٥٩، ١٥٦٠) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٤٨٤، ٤٨٥، ٦٠٧، ٦٥٨، ٣٠٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مزدلفہ کو جمع اس لیے کہتے ہیں کہ آدم و حوّا جب جنت سے زمین پر اتارے گئے تو اسی مقام پر دونوں جمع ہوئے، یا مغرب اور عشاء دونوں نمازیں یہاں جمع کی جاتی ہیں اس لیے اسے جمع کہا گیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 481

【35】

نماز عشاء کے فضائل

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کو مؤخر کیا یہاں تک کہ عمر (رض) نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ ﷺ نکلے، اور فرمایا : تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کو (اس وقت) پڑھ رہا ہو ، ان دنوں اہل مدینہ کے سوا کوئی اور نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٦٢) تعلیقاً ، (تحفة الأشراف : ١٦٦٤٢) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٣٨) ، مسند احمد ٦/٣٤، ١٩٩، ٢١٥، ٢٧٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٩ (١٢٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 482

【36】

بحالت سفر نماز عشائ

حکم کہتے ہیں کہ ہمیں سعید بن جبیر نے مزدلفہ میں ایک اقامت سے مغرب کی تین رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، پھر (دوسری اقامت سے) عشاء کی دو رکعت پڑھائی، پھر ذکر کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کیا، اور انہوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (بھی) ایسا ہی کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٨٢ بلفظ ” ثم اقام فصلی یعنی العشاء “ وھو المحفوظ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح ق بلفظ ثم أقام فصلى العشاء وهو المحفوظ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 483

【37】

بحالت سفر نماز عشائ

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کو مزدلفہ میں نماز پڑھتے دیکھا، انہوں نے اقامت کہی، اور مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی، پھر (دوسری اقامت سے) عشاء کی دو رکعت پڑھی، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس جگہ ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 484

【38】

فضیلت جماعت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے ١ ؎ باری باری آتے جاتے ہیں، اور فجر اور عصر کی نماز میں اکٹھا ہوجاتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری تھی وہ اوپر چڑھتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہتر جانتا ہے، ٢ ؎ ہمارے بندوں کو تم کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو ؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز کی حالت میں چھوڑا ہے، اور ہم ان کے پاس آئے تھے تو بھی وہ نماز ہی میں مصروف تھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/مواقیت ١٦ (٥٥٥) ، بدء الخلق ٦ (٣٢٢٣) ، التوحید ٢٣ (٧٤٢٩) ، ٣٢ (٧٤٨٦) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٧ (٦٣٢) ، موطا امام مالک/قصرالصلاة ٢٤ (٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨٠٩) ، مسند احمد ٢/٢٥٧، ٣١٢، ٤٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو لوگوں کے اعمال لکھتے ہیں، اور جنہیں کراماً کاتبین کہا جاتا ہے۔ ٢ ؎: اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے، وہ فرشتوں سے اپنے بندوں کی بابت اس لیے پوچھتا ہے تاکہ فرشتوں پر بھی اہل ایمان کا فضل وشرف واضح ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 485

【39】

فضیلت جماعت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جماعت کی نماز تمہاری تنہا نماز سے پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ١ ؎ رات اور دن کے فرشتے نماز فجر میں اکٹھا ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو آیت کریمہ وقرآن الفجر إن قرآن الفجر کان مشهودا ٢ ؎ پڑھ لو (الاسراء : ٢٨ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائی (تحفة الأشراف : ١٣٢٥٩) ، کلہم مقتصرا إلی قولہ ” خمس وعشرین جزائ “ إلا البخاری وأحمد (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں ٢٥ گنا کا ذکر ہے، اور صحیحین کی ایک روایت میں ٢٧ گنا وارد ہے، اس کی توجیہ اس طرح کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٢٥ گنا بتایا گیا پھر ٢٧ گنا، تو جیسے جیسے آپ کو بتایا گیا آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اسی طرح بتلایا، اور بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ کمی و بیشی صلاۃ کے خشوع و خضوع اور صلاۃ کی ہیئت و آداب کی حفاظت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 486

【40】

فضیلت جماعت

عمارہ بن رویبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نماز پڑھے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی فجر اور عصر کی نمازوں کی محافظت کرے گا کیونکہ جو ان دونوں نمازوں کی محافظت کرے گا وہ دیگر فرائض کی بدرجہ اولیٰ محافظت کرے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 487

【41】

بیت اللہ شریف کی جانب رخ کرنا فرض ہے

براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، یہ شک سفیان کی طرف سے ہے، پھر آپ ﷺ قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف پھیر دئیے گئے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تفسیر البقرة ١٨ (٤٤٩٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٨٤٩) ، مسند احمد ٤/ ٢٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 488

【42】

بیت اللہ شریف کی جانب رخ کرنا فرض ہے

براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو آپ نے سولہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر آپ ﷺ کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، تو ایک آدمی جو آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے ہیں، (لوگوں نے یہ سنا) تو وہ بھی قبلہ کی طرف پھرگئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٨٣٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الإیمان ٣٠ (٤٠) ، الصلاة ٣١ (٣٩٩) ، تفسیر البقرة ١٢ (٤٤٨٦) ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٥٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥٥ (٣٤٠) ، تفسیر البقرة (٢٩٦٢) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٦ (١٠١٠) ، مسند احمد ٤/٢٨٣، ویأتي عند المؤلف في القبلة ١ (برقم : ٧٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث سے خبر واحد جو ظنی ہے سے قرآن سے ثابت حکم قطعی کا منسوخ ہونا ثابت ہو رہا ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نسخ کے علم سے پہلے منسوخ کے مطابق جو عمل کیا گیا ہو وہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 489

【43】

کونسی صورت میں بیت اللہ شریف کی علاوہ کسی دوسری جانب رخ کرسکتا ہے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل پڑھتے تھے، وہ چاہے جس طرف متوجہ ہوجاتی، نیز آپ اس پر وتر (بھی) پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوتر ٦ (١٠٠٠) ، تقصیر الصلاة ٩ (١٠٩٧) تعلیقاً ١٢ (١١٠٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٧ (١٢٢٤) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٧٨) ، مسند احمد ٢/١٣٢ ویأتي عند المؤلف برقم : ٧٤٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 490

【44】

کونسی صورت میں بیت اللہ شریف کی علاوہ کسی دوسری جانب رخ کرسکتا ہے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، اسی سلسلہ میں یہ آیت کریمہ : فأينما تولوا فثم وجه اللہ تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے (البقرہ : ١١٥ ) نازل ہوئی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صلاة المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (٢٩٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٥٧) ، مسند احمد ٢/٢٠، ٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 491

【45】

کونسی صورت میں بیت اللہ شریف کی علاوہ کسی دوسری جانب رخ کرسکتا ہے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے جس طرف بھی وہ متوجہ ہوتی، مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار نے کہا : اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، موطا امام مالک/سفر ٧ (٢٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣٨) ، مسند احمد ٢/١٣ (٦٦) ، ویأتي عند المؤل برقم : ٧٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 492

【46】

کسی نے قصدا ایک جانب چہرہ کیا پھر صیحح علم ہوا تو بھی نماز ہوجائے گی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا : رسول اللہ ﷺ پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کرلو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٢ (٤٠٣) ، تفسیر البقرة ١٤ (٤٤٨٨) ، ١٦ (٤٤٩٠) ، ١٧ (٤٤٩١) ، ١٩ (٤٤٩٣) ، ٢٠ (٤٤٩٤) ، خبر الآحاد ١ (٧٢٥١) ، صحیح مسلم/المساجد ٢ (٥٢٦) ، موطا امام مالک/قبلة ٤ (٦) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٢٨) ، مسند احمد ٢/١١٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ٧٤٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس طرح پھرجانے سے لوگ آگے ہوجائیں گے، اور امام لوگوں کے پیچھے ہوجائے گا، إلا یہ کہ یہ کہا جائے کہ پہلے امام مسجد کے پچھلے حصہ میں چلا گیا ہوگا پھر لوگ اپنی جگہ پر گھوم گئے ہوں گے، اس طرح پہلے جو اگلی صف تھی اب وہ پچھلی ہوگئی ہوگی، اور حدیث کا مستفاد یہ ہے کہ جس کو حالت نماز میں صحیح قبلہ کے بارے میں علم ہوجائے وہ بھی اسی طرح قبلہ رخ ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 493