6. نمازوں کے اوقات کا بیان

【1】

کسی نے قصدا ایک جانب چہرہ کیا پھر صیحح علم ہوا تو بھی نماز ہوجائے گی

ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر میں کچھ تاخیر کردی، تو عروہ نے ان سے کہا : کیا آپ کو معلوم نہیں ؟ جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے، اور آپ نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھائی ١ ؎ اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا : عروہ ! جو تم کہہ رہے ہو اسے خوب سوچ سمجھ کر کہو، تو عروہ نے کہا : میں نے بشیر بن ابی مسعود (رض) سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابومسعود سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جبرائیل اترے، اور انہوں نے میری امامت کرائی، تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں نمازوں کو گن رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١ (٥٢١) ، بدء الخلق ٦ (٣٢٢١) ، المغازي ١٢ (٤٠٠٧) ، صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢ (٣٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١ (٦٦٨) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (١) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٧٧) ، مسند احمد ٤/١٢٠، ٥/٢٧٤، سنن الدارمی/الصلاة ٢ (١٢٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے عروہ کا مقصود یہ تھا کہ نماز کے اوقات کا معاملہ کافی اہمیت کا حامل ہے، اس کے اوقات کی تحدید کے لیے جبرائیل (علیہ السلام) آئے، اور انہوں نے عملی طور پر نبی اکرم ﷺ کو اسے سکھایا، اس لیے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 494

【2】

ظہر کا اول وقت

سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ ابوبرزہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے (سیار بن سلامہ سے) پوچھا : آپ نے اسے سنا ہے ؟ انہوں نے کہا : (میں نے اسی طرح سنا ہے) جس طرح میں اس وقت آپ کو سنا رہا ہوں، میں نے اپنے والد سے سنا وہ (ابوبرزہ سے) رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ آدھی رات تک عشاء کی تاخیر کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے، شعبہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں پھر سیار سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ ظہر اس وقت پڑھتے جس وقت سورج ڈھل جاتا، اور عصر اس وقت پڑھتے کہ آدمی (عصر پڑھ کر) مدینہ کے آخری کنارہ تک جاتا، اور سورج زندہ رہتا ١ ؎ اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے مغرب کا کون سا وقت ذکر کیا، اس کے بعد میں پھر ان سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ فجر پڑھتے تو آدمی پڑھ کر پلٹتا اور اپنے ساتھی کا جسے وہ پہچانتا ہو چہرہ دیکھتا تو پہچان لیتا، انہوں نے کہا : آپ ﷺ فجر میں ساٹھ سے سو آیتوں کے درمیان پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١١ (٥٤١) ، ١٣ (٥٤٧) ، ٢٣ (٥٦٨) ، ٣٨ (٥٩٩) ، الأذان ١٠٤ (٧٧١) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣ (٣٩٨) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ٣ (٦٧٤) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١١٦٠٥) ، مسند احمد ٤/٤٢٠، ٤٢١، ٤٢٣، ٤٢٤، ٤٢٥، سنن الدارمی/الصلاة ٦٦ (١٣٣٨) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥٢٦، ٥٣١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زرد نہیں پڑتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 495

【3】

ظہر کا اول وقت

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورج ڈھلنے کے بعد نکلے اور آپ نے انہیں ظہر پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٥٣٥) ، وقد أخرجہ عن طریق شعیب عن الزہری عن أنس بن مالک : صحیح البخاری/المواقیت ١١ مطولاً (٥٤٠) ، صحیح مسلم/الفضائل ٣٧ (٢٣٥٩) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣ (١٢٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 496

【4】

ظہر کا اول وقت

خباب (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے (تیز دھوپ سے) زمین جلنے کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہیں کیا ١ ؎، راوی ابواسحاق سے پوچھا گیا : (یہ شکایت) اسے جلدی پڑھنے کے سلسلہ میں تھی ؟ انہوں نے کہا ہاں، (اسی سلسلہ میں تھی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٣ (٦١٩) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٣٥١٣) ، مسند احمد ٥/١٠٨، ١١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ظہر تاخیر سے پڑھنے کی اجازت نہیں دی، جیسا کہ مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 497

【5】

بحالت سفر نماز ظہر میں جلدی کرنے کا حکم

حمزہ عائذی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ (ظہر سے پہلے) جب کسی جگہ اترتے ١ ؎ تو جب تک ظہر نہ پڑھ لیتے وہاں سے کوچ نہیں کرتے، اس پر ایک آدمی نے کہا : اگرچہ ٹھیک دوپہر ہوتی ؟ انہوں نے کہا : اگرچہ ٹھیک دوپہر ہوتی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٣ (١٢٠٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٥٥) ، مسند احمد ٣/١٢٠، ١٢٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی زوال (سورج ڈھلنے) سے پہلے اترتے، جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔ ٢ ؎: مراد زوال کے فوراً بعد ہے، کیونکہ ظہر کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 498

【6】

سردی کے موسم میں نماز ظہر میں جلدی کرنا

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نماز ١ ؎ ٹھنڈی کر کے پڑھتے ٢ ؎ اور جب جاڑا ہوتا تو جلدی پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ١٧ (٩٠٦) ، وفیہ ” یعنی الجمعة “ ، (تحفة الأشراف : ٨٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح بخاری کی روایت میں کسی راوی نے صلاة کی تفسیر جمعہ سے کی ہے، کیونکہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ کسی سائل نے انس (رض) سے جمعہ ہی کے بارے میں پوچھا تھا (فتح الباری) مؤلف نے اس کے مطلق لفظ الصلاة سے استدلال کیا ہے، نیز یہ کہ جمعہ اور ظہر کا وقت معتاد ایک ہی ہے۔ ٢ ؎: یعنی گرمی کی شدت کے سبب اس کے معتاد وقت سے اسے اتنا مؤخر کرتے کہ دیواروں کا اتنا سایہ ہوجاتا کہ اس میں چل کر لوگ مسجد آسکیں، اور گرمی کی شدت کم ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 499

【7】

جس وقت گرمی کی شدت ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت ادا کرنے کا حکم

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٢ (٦١٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٤٠٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥ (١٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٤ (٦٧٧) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٧ (٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٢٢٦) ، مسند احمد ٢/٢٢٩، ٢٣٨، ٢٥٦، ٢٦٦، ٣٤٨، ٣٧٧، ٣٩٣، ٤٠٠، ٤١١، ٤٦٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٤ (١٢٤٣) ، والرقاق ١١٩ (٢٨٨٧) ، وعن طریق أبی سلمة بن عبدالرحمن عن أبی ہریرة، (تحفة الأشراف : ١٥٢٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمہور علماء نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے یہ بطور تشبیہ و تقریب کہا گیا ہے، یعنی یہ گویا جہنم کی آگ کی طرح ہے اس لیے اس کی ضرر رسانیوں سے بچو اور احتیاط کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 500

【8】

جس وقت گرمی کی شدت ہو تو نماز ظہر ٹھنڈے وقت ادا کرنے کا حکم

ابوموسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ جو گرمی تم محسوس کر رہے ہو یہ جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٩٨٣) (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ثابت بن قیس نخعی “ لین الحدیث ہیں ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 501

【9】

نماز ظہر کا آخر وقت کیا ہے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں، تو انہوں نے نماز فجر اس وقت پڑھائی جب فجر طلوع ہوئی، اور ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، پھر عصر اس وقت پڑھائی جب انہوں نے سایہ کو اپنے مثل دیکھ لیا، پھر مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور روزے دار کے لیے افطار جائز ہوگیا، پھر عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق یعنی رات کی سرخی ختم ہوگئی، پھر وہ آپ کے پاس دوسرے دن آئے، اور آپ کو فجر اس وقت پڑھائی جب تھوڑی روشنی ہوگئی، پھر ظہر اس وقت پڑھائی جب سایہ ایک مثل ہوگیا، پھر عصر اس وقت پڑھائی جب سایہ دو مثل ہوگیا، پھر مغرب (دونوں دن) ایک ہی وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور روزے دار کے لیے افطار جائز ہوگیا، پھر عشاء اس وقت پڑھائی جب رات کا ایک حصہ گزر گیا، پھر کہا : نمازوں کا وقت یہی ہے تمہارے آج کی اور کل کی نمازوں کے بیچ میں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٠٨٥) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 502

【10】

نماز ظہر کا آخر وقت کیا ہے؟

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ گرمی میں رسول اللہ ﷺ کی ظہر کا اندازہ تین قدم سے پانچ قدم کے درمیان، اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم کے درمیان ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤ (٤٠٠) ، (تحفة الأشراف : ٩١٨٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 503

【11】

نماز عصر کے اول سے متعلق

جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا : تم میرے ساتھ نماز پڑھو ، تو آپ ﷺ نے ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا، اور مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہوگئی، پھر (دوسرے دن) ظہر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے برابر ہوگیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہوگیا، اور مغرب شفق غائب ہونے سے کچھ پہلے پڑھائی۔ عبداللہ بن حارث کہتے ہیں : پھر انہوں نے عشاء کے سلسلہ میں کہا : میرا خیال ہے اس کا وقت تہائی رات تک ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢ (٣٩٥) (تعلیقا ومختصراً ) ، (تحفة الأشراف : ٢٤١٧) ، مسند احمد ٣/٣٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 504

【12】

نماز عصر میں جلدی کرنے سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر پڑھی، اور دھوپ ان کے حجرے میں تھی، اور سایہ ان کے حجرے سے (دیوار پر) نہیں چڑھا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١ (٥٢٢) ، ١٣ (٥٤٥) ، الخمس ٤ (٣١٠٣) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/فیہ ٦ (١٥٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٨٥) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 505

【13】

نماز عصر میں جلدی کرنے سے متعلق

انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر پڑھتے تھے، پھرجانے والا قباء جاتا، زہری اور اسحاق دونوں میں سے ایک کی روایت میں ہے تو وہ ان کے پاس پہنچتا اور وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے، اور دوسرے کی روایت میں ہے : اور سورج بلند ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٣ (٥٤٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (١٠) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٢) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مسجد قباء مسجد نبوی سے تین میل کی دوری پر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 506

【14】

نماز عصر میں جلدی کرنے سے متعلق

انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر پڑھتے اور سورج بلند اور تیز ہوتا، اور جانے والا (نماز پڑھ کر) عوالی جاتا، اور سورج بلند ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ عن طریق شعیب عن الزہری : صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢١) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤٠٤) ، سنن ابن ماجہ/فیہ ٥ (٦٨٢) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٢) ، مسند احمد ٣/ ٢٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدینہ کے اردگرد جنوب مغرب میں جو بستیاں تھیں انہیں عوالی کہا جاتا تھا، ان میں سے بعض مدینہ سے دو میل بعض تین میل اور بعض آٹھ میل کی دوری پر تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 507

【15】

نماز عصر میں جلدی کرنے سے متعلق

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عصر پڑھاتے اور سورج سفید اور بلند ہوتا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٧١٠) ، مسند احمد ٣/١٣١، ١٦٩، ١٨٤، ٢٣٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 508

【16】

نماز عصر میں جلدی کرنے سے متعلق

ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں : ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ظہر پڑھی پھر ہم نکلے، یہاں تک کہ انس بن مالک (رض) کے پاس آئے، تو ہم نے انہیں عصر پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے پوچھا : میرے چچا ! آپ نے یہ کون سی نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا : عصر کی، یہی رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے جسے ہم لوگ پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ المواقیت ١٣ (٥٤٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٢٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 509

【17】

نماز عصر میں جلدی کرنے سے متعلق

ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں نماز پڑھی، پھر انس بن مالک (رض) کے پاس آئے تو انہیں (بھی) نماز پڑھتے ہوئے پایا، جب وہ نماز پڑھ کر پلٹے تو انہوں نے ہم سے پوچھا : تم نماز پڑھ چکے ہو ؟ ہم نے کہا : (ہاں) ہم نے ظہر پڑھ لی ہے، انہوں نے کہا : میں نے تو عصر پڑھی ہے، تو لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے جلدی پڑھ لی، انہوں نے کہا : میں اسی طرح پڑھتا ہوں جیسے میں نے اپنے اصحاب کو پڑھتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٧١٨) (حسن الإسناد ) قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 510

【18】

نماز عصر میں تاخیر کرنا

علاء کہتے ہیں کہ وہ جس وقت ظہر پڑھ کر پلٹے انس بن مالک (رض) کے پاس بصرہ میں ان کے گھر گئے، اور ان کا گھر مسجد کے بغل میں تھا، تو جب ہم لوگ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا : کیا تم لوگوں نے عصر پڑھ لی ؟ ہم نے کہا : نہیں، ہم لوگ ابھی ظہر پڑھ کر پلٹے ہیں، تو انہوں نے کہا : تو عصر پڑھ لو، ہم لوگ کھڑے ہوئے اور ہم نے عصر پڑھی، جب ہم پڑھ چکے تو انس (رض) کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا عصر کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہوجائے، (غروب کے قریب ہوجائے) تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور اس میں اللہ کا ذکر معمولی سا کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٤ (٦٢٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٦ (١٦٠) ، موطا امام مالک/القرآن ١٠(٤٦) ، (تحفة الأشراف : ١١٢٢) ، مسند احمد ٣/١٠٢، ١٠٣، ١٤٩، ١٨٥، ٢٤٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 511

【19】

نماز عصر میں تاخیر کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٥ (٦٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٦ (٦٨٥) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٩) ، مسند احمد ٢/٨، سنن الدارمی/الصلاة ٢٧ (١٢٦٦) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 512

【20】

نماز عصر میں تاخیر کرنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 512 جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے وہ آپ ﷺ کو نماز کے اوقات سکھا رہے تھے، تو جبرائیل (علیہ السلام) آگے بڑھے، اور رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے تھے اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے، تو جبرائیل (علیہ السلام) نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، پھر جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب سایہ قد کے برابر ہوگیا، اور جس طرح انہوں نے پہلے کیا تھا ویسے ہی پھر کیا، جبرائیل آگے بڑھے، اور رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے، پھر انہوں نے عصر پڑھائی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈوب گیا، تو جبرائیل آگے بڑھے، رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے، پھر انہوں نے مغرب پڑھائی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب شفق غائب ہوگئی، تو وہ آگے بڑھے، اور رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے، تو انہوں نے عشاء پڑھائی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب فجر کی پو پھٹی، تو وہ آگے بڑھے، رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے اور لوگ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے، انہوں نے فجر پڑھائی، پھر جبرائیل (علیہ السلام) دوسرے دن آپ کے پاس اس وقت آئے جب آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہوگیا، چناچہ انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو ظہر پڑھائی، پھر وہ آپ کے پاس اس وقت آئے جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہوگیا، انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے عصر پڑھائی، پھر آپ کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈوب گیا، تو انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے مغرب پڑھائی، پھر ہم سو گئے، پھر اٹھے، پھر سو گئے پھر اٹھے، پھر جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے، اور اسی طرح کیا جس طرح کل انہوں نے کیا تھا، پھر عشاء پڑھائی، پھر آپ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب فجر (کی روشنی) پھیل گئی، صبح ہوگئی، اور ستارے نمودار ہوگئے، اور انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے فجر پڑھائی، پھر کہا : ان دونوں نمازوں کے درمیان میں ہی نماز کے اوقات ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ٢٤٠١) ، مسند احمد ٣/٣٣٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 513

【21】

جس شخص نے سورج غروب ہونے سے قبل دو رکعات ادا کیں اس نے نماز عصر میں شرکت کرلی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی دو رکعت ٢ ؎ یا سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے (نماز کا وقت) پا لیا ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٥ (٤١٢) ، مسند احمد ٢/ ٢٨٢، (تحفة الأشراف : ١٣٥٧٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بعض نسخوں میں اس باب میں ركعة کا لفظ ہے۔ ٢ ؎: اکثر روایتوں میں ہے ایک رکعت پالی۔ ٣ ؎: یعنی اس کی یہ دونوں صلاتیں ادا سمجھی جائیں گی نہ کہ قضاء۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 514

【22】

جس شخص نے سورج غروب ہونے سے قبل دو رکعات ادا کیں اس نے نماز عصر میں شرکت کرلی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی یا سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی اس نے (پوری نماز) پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١١ (٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٧٤) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد ٢/٢٥٤، ٢٦٠، ٢٨٢، ٣٩٩، ٤٦٢، ٤٧٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 515

【23】

جس شخص نے سورج غروب ہونے سے قبل دو رکعات ادا کیں اس نے نماز عصر میں شرکت کرلی۔

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سورج ڈوبنے سے پہلے جب تم میں سے کوئی نماز عصر کا پہلا سجدہ پالے تو اپنی نماز مکمل کرلے، اور جب سورج نکلنے سے پہلے نماز فجر کا پہلا سجدہ پالے تو اپنی نماز مکمل کرلے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٧ (٥٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٣٧٥) ، مسند احمد ٢/٣٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 516

【24】

جس شخص نے سورج غروب ہونے سے قبل دو رکعات ادا کیں اس نے نماز عصر میں شرکت کرلی۔

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٨ (٥٧٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٣ (١٨٦) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١١ (٦٩٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢٢٠٦) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد ٢/ ٤٦٢، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 517

【25】

جس شخص نے سورج غروب ہونے سے قبل دو رکعات ادا کیں اس نے نماز عصر میں شرکت کرلی۔

معاذ (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے معاذ بن عفراء (رض) کے ساتھ طواف کیا، تو انہوں نے نماز (طواف کی دو رکعت) نہیں پڑھی، تو میں نے پوچھا : کیا آپ نماز نہیں پڑھیں گے ؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ١ ؎ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اور فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک سورج نکل آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی (تحفة الأشراف : ١١٣٧٤) ، مسند احمد ٤/٢١٩، ٢٢٠ (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ” نصر بن عبدالرحمن کنانی “ لین الحدیث ہیں، لیکن معنی دوسری روایات سے ثابت ہے، دیکھئے حدیث رقم ٥٦٢، ٥٦٩ ) وضاحت : ١ ؎: یہاں نفی نہی کے معنی میں ہے جیسے لارفث ولا فسوق میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 518

【26】

نماز مغرب کا اول وقت کب سے ہے؟

بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے نماز کے وقت کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا : تم یہ دو دن ہمارے ساتھ قیام کرو ، آپ نے بلال کو حکم دیا، تو انہوں نے فجر طلوع ہوتے ہی اقامت کہی، آپ ﷺ نے نماز فجر پڑھائی، پھر آپ نے جس وقت سورج ڈھل گیا، انہیں اقامت کہنے کا حکم دیا، تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھائی، پھر جس وقت دیکھا کہ سورج ابھی سفید ہے ١ ؎ آپ نے انہیں اقامت کہنے کا حکم دیا، تو انہوں نے عصر کی تکبیر کہی، پھر جب سورج کا کنارہ ڈوب ہوگیا، تو آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت کہی، پھر جب شفق ٢ ؎ غائب ہوگئی، تو آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی، پھر دوسرے دن انہیں حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت خوب اجالا ہوجانے پر کہی، پھر ظہر کو آپ ﷺ نے خوب ٹھنڈا کر کے پڑھا، پھر عصر پڑھائی جب کہ سورج سفید (روشن) تھا، لیکن پہلے دن سے کچھ دیر ہوگئی تھی، پھر مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھائی، پھر بلال کو حکم دیا، تو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب تہائی رات گزر گئی، تو آپ ﷺ نے عشاء پڑھائی، پھر فرمایا : نماز کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے ؟ تمہاری نمازوں کا وقت ان کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ١ (١٥٢) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١ (٦٦٧) ، (تحفة الأشراف : ١٩٣١) ، مسند احمد ٥/٣٤٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ابھی اس میں زردی نہیں آئی تھی۔ ٢ ؎: شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 519

【27】

نماز مغرب میں جلدی کا حکم

قبیلہ اسلم کے ایک صحابی (رض) سے روایت ہے کہ وہ لوگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب پڑھتے، پھر اپنے گھروں کو مدینہ کے آخری کونے تک لوٹتے، اور تیر مارتے تو تیر گرنے کی جگہ دیکھ لیتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائی (تحفة الأشراف : ١٥٥٤٧) ، مسند احمد ٥/٣٧١ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ مغرب کی نماز آپ جلدی پڑھتے تھے، افضل یہی ہے، بعض حدیثوں میں شفق ڈوبنے تک مغرب کو مؤخر کرنے کا جو ذکر ملتا ہے وہ بیان جواز کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 520

【28】

نماز مغرب میں تاخیر سے متعلق

ابو بصرہ غفاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مخمص ١ ؎ میں عصر پڑھائی، اور فرمایا : یہ نماز تم سے پہلے جو لوگ گزرے ان پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا، جو اس پر محافظت کرے گا اسے دہرا اجر ملے گا، اس کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ شاہد طلوع ہوجائے ٢ ؎،شاہد ستارہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/صلاة المسافرین ٥١ (٨٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٤٥) ، مسند احمد ٦/٣٩٦، ٣٩٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مخمص ایک جگہ کا نام ہے۔ ٢ ؎: سورج ڈوبنے کے تھوڑی دیر بعد ہی شاہد طلوع ہوتا ہے، مصنف نے اس سے مغرب کی تاخیر پر استدلال کیا ہے جیسا کہ ترجمۃ الباب سے ظاہر ہے، یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ مغرب کی تعجیل نصوص سے ثابت ہے یہ ایک اجماعی مسئلہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 521

【29】

مغرب کی نماز میں آخری وقت کا بیان

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے (شعبہ کہتے ہیں : قتادہ اسے کبھی مرفوع کرتے تھے اور کبھی مرفوع نہیں کرتے تھے ١ ؎) آپ ﷺ نے فرمایا : ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک عصر کا وقت نہ آجائے، اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج زرد نہ ہوجائے، اور مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق کی سرخی چلی نہ جائے، اور عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک سورج نکل نہ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢ (٣٩٦) ، (تحفة الأشراف : ٨٩٤٦) ، مسند احمد ٢/٢١٠، ٢١٣، ٢٢٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیح مسلم میں دیگر دو سندوں سے مرفوعاً ہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 522

【30】

مغرب کی نماز میں آخری وقت کا بیان

ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک سائل آیا وہ آپ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھ رہا تھا، آپ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، اور بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جس وقت فجر کی پو پھٹ گئی، پھر آپ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی جب سورج ڈھل گیا، اور کہنے والے نے کہا : کیا دوپہر ہوگئی ؟ حالانکہ وہ خوب جانتا ہوتا، پھر آپ ﷺ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج بلند تھا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی تکبیر کہی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی جب شفق غائب ہوگئی، پھر دوسرے دن آپ نے فجر کو مؤخر کیا جس وقت پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل آیا، پھر ظہر کو کل کے عصر کی وقت کے قریب وقت تک مؤخر کیا، پھر آپ ﷺ نے عصر کو دیر سے پڑھی یہاں تک کہ پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا سورج سرخ ہوگیا ہے، پھر آپ نے مغرب دیر سے پڑھی یہاں تک کہ شفق کے ڈوبنے کا وقت ہوگیا، پھر عشاء کو آپ نے تہائی رات تک مؤخر کیا، پھر فرمایا : نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢ (٣٩٥) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٩١٣٧) ، مسند احمد ٤/٤١٦، ٥/٣٤٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 523

【31】

مغرب کی نماز میں آخری وقت کا بیان

بشیر بن سلام کہتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی دونوں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ان سے ہم نے کہا : ہمیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے متعلق بتائیے (یہ حجاج بن یوسف کا عہد تھا) تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، اور فىء (زوال کے بعد کا سایہ) تسمے کے برابر ہوگیا، پھر آپ ﷺ نے عصر پڑھائی جس وقت فىء تسمے کے اور آدمی کے سایہ کے برابر ہوگیا، پھر آپ نے مغرب پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ ﷺ نے عشاء پڑھائی جب شفق غائب ہوگئی، پھر آپ ﷺ نے فجر پڑھائی جس وقت فجر طلوع ہوگئی، پھر دوسرے دن آپ نے ظہر پڑھائی جب سایہ آدمی کی لمبائی کے برابر ہوگیا، پھر آپ ﷺ نے عصر پڑھائی جب آدمی کا سایہ اس کے دوگنا ہوگیا، اور اس قدر دن تھا جس میں سوار متوسط رفتار میں ذوالحلیفہ تک جاسکتا تھا، پھر آپ ﷺ نے مغرب پڑھائی جس وقت سورج ڈوب گیا، پھر تہائی رات یا آدھی رات کو عشاء پڑھائی (یہ شک زید کو ہوا ہے) پھر آپ ﷺ نے فجر پڑھائی تو آپ نے خوب اجالا کردیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٢١٧) (صحیح) بما تقدم برقم : ٥٠٥ وما یأتی بأرقام ٥٢٧، ٥٢٨ (اس کے راوی ” حسین “ لین الحدیث ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 524

【32】

مغرب کی نماز میں آخری وقت کا بیان

سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں ابوبرزہ (رض) کے پاس آیا تو میرے والد نے ان سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : آپ ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر پڑھتے جب ہم میں سے مدینہ کے آخری کونے پر رہنے والا آدمی اپنے گھر لوٹ کر آتا، تو سورج تیز اور بلند ہوتا، مغرب کے سلسلہ میں جو انہوں نے کہا میں اسے بھول گیا، اور آپ ﷺ عشاء کو جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو مؤخر کرنا پسند کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد گفتگو کرنا ناپسند فرماتے تھے، اور آپ ﷺ فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، اور آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 525

【33】

نماز عشاء کے اول وقت کا بیان

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈھل گیا، اور کہا : محمد ﷺ ! اٹھیں اور جا کر جس وقت سورج ڈھل جائے ظہر پڑھیں، پھر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب آدمی کا سایہ اس کے مثل ہوگیا، تو وہ آپ کے پاس عصر کے لیے آئے اور کہا : محمد ﷺ ! اٹھیں اور عصر پڑھیں، پھر وہ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا، تو پھر آپ کے پاس آئے اور کہا : محمد ﷺ ! اٹھیں اور مغرب پڑھیں، چناچہ آپ ﷺ نے اٹھ کر جس وقت سورج اچھی طرح ڈوب گیا مغرب پڑھی، پھر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب شفق ختم ہوگئی تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ کے پاس آئے، اور کہا : اٹھیں اور عشاء پڑھیں، چناچہ آپ ﷺ نے اٹھ کر عشاء کی نماز پڑھی، پھر وہ آپ کے پاس صبح میں آئے جس وقت فجر روشن ہوگئی، اور کہنے لگے : محمد ﷺ ! اٹھیں اور نماز پڑھیں، چناچہ آپ ﷺ نے نماز فجر ادا فرمائی، پھر وہ آپ کے پاس دوسرے دن اس وقت آئے جب آدمی کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا، اور کہا : محمد ﷺ ! اٹھیں اور نماز ادا کریں، چناچہ آپ ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر آپ کے پاس اس وقت آئے جس وقت آدمی کا سایہ اس کے دو مثل ہوگیا، اور کہنے لگے : محمد ﷺ ! اٹھیں اور نماز پڑھیں چناچہ آپ ﷺ نے عصر پڑھی، پھر وہ آپ ﷺ کے پاس مغرب کے لیے اس وقت آئے جس وقت سورج ڈوب گیا جس وقت پہلے روز آئے تھے، اور کہا : محمد ﷺ ! اٹھیں اور نماز ادا کریں، چناچہ آپ ﷺ نے مغرب پڑھی، پھر وہ آپ کے پاس عشاء کے لیے آئے جس وقت رات کا پہلا تہائی حصہ ختم ہوگیا، اور کہا : اٹھیں اور نماز ادا کریں، چناچہ آپ ﷺ نے عشاء پڑھی، پھر وہ آپ کے پاس آئے جس وقت خوب اجالا ہوگیا، اور کہا : اٹھیں اور نماز ادا کریں، چناچہ آپ ﷺ نے نماز فجر ادا کی، پھر انہوں نے کہا : ان دونوں کے بیچ میں پورا وقت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الصلاة ١ (١٥٠) نحوہ، (تحفة الأشراف : ٣١٢٨) ، مسند احمد ٣/٣٣٠، ٣٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 526

【34】

نماز عشاء میں جلدی کا حکم

محمد بن عمرو بن حسن کہتے ہیں کہ حجاج آئے تو ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ ظہر دوپہر میں (سورج ڈھلتے ہی) پڑھتے تھے، اور عصر اس وقت پڑھتے جب سورج سفید اور صاف ہوتا، اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا، اور عشاء جب آپ دیکھتے کہ لوگ جمع ہوگئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے، اور جب دیکھتے کہ لوگ دیر کر رہے ہیں تو مؤخر کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٨ (٥٦٠) ، ٢١ (٥٦٥) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣ (٣٩٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٦٤٤) ، مسند احمد ٣/٣٦٩، ٣٧٠، سنن الدارمی/الصلاة ٢ (١٢٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 527

【35】

غروب شفق کا وقت

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اس نماز یعنی عشاء آخرہ کا وقت لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧ (٤١٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٩ (١٦٦) ، مسند احمد ٤/ ٢٧٠، ٢٧٢، ٢٧٤، سنن الدارمی/الصلاة ١٨ (١٢٤٧) ، (تحفة الأشراف : ١١٦١٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تیسری رات کا چاند دو گھنٹے تک رہتا ہے لہٰذا اگر چھ بجے سورج ڈوبے تو آٹھ بجے عشاء پڑھنی چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 528

【36】

غروب شفق کا وقت

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں اس نماز یعنی عشاء کا وقت لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: باب سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ عشاء کا وقت شفق کے غائب ہونے پر ہی شروع ہوتا ہے، گویا شفق تیسرے دن کے چاند کے غائب ہونے تک رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 529

【37】

نماز عشاء میں تاخیر کرنا مستحب ہے

سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد دونوں ابوبرزہ اسلمی (رض) کے پاس آئے تو میرے والد نے ان سے پوچھا : ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور آپ ﷺ عصر پڑھتے تھے پھر ہم میں سے ایک آدمی (نماز پڑھ کر) مدینہ کے آخری کونے پر واقع اپنے گھر کو لوٹ آتا، اور سورج تیز اور بلند ہوتا، اور انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا میں (اسے) بھول گیا، اور کہا : اور آپ ﷺ عشاء جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہوتا خیر سے پڑھنے کو پسند کرتے تھے، اور اس سے قبل سونے اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، اور آپ ﷺ فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 530

【38】

نماز عشاء میں تاخیر کرنا مستحب ہے

ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا : عشاء کی امامت کرنے یا تنہا پڑھنے کے لیے کون سا وقت آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو کہتے سنا کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے (پھر) سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے، تو عمر (رض) اٹھے اور کہنے لگے : صلاۃ ! صلاۃ ! تو اللہ کے نبی کریم ﷺ نکلے۔ گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ اپنا ہاتھ سر کے ایک حصہ پر رکھے ہوئے تھے۔ راوی (ابن جریج) کہتے ہیں : میں نے عطاء سے جاننا چاہا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر کیسے رکھا ؟ تو انہوں نے مجھے اشارہ کے ذریعہ بتایا جیسا کہ ابن عباس نے انہیں اشارہ سے بتایا تھا، عطاء نے اپنی انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا، پھر اسے رکھا یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سرے سر کے اگلے حصہ تک پہنچ گئے، پھر انہیں ملا کر سر پر اس طرح گزارتے رہے کہ آپ ﷺ کے دونوں انگوٹھے کان کے کناروں کو جو چہرہ سے ملا ہوتا ہے چھو لیتے، پھر کنپٹی اور پیشانی کے کناروں پر پھیرتے، نہ دیر کرتے نہ جلدی سوائے اتنی تاخیر کے - پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں اپنی امت کے لیے دشوار نہیں سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ اسی قدر تاخیر سے عشاء پڑھیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٤ (٥٧١) ، والتمنی ٩ (٧٢٣٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٥٩١٥) ، مسند احمد ١/٢٢١، ٣٦٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٩ (١٢٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 531

【39】

نماز عشاء میں تاخیر کرنا مستحب ہے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک رات نبی اکرم ﷺ نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا (ایک حصہ) گزر گیا، تو عمر (رض) کھڑے ہوئے، اور آواز دی : اللہ کے رسول ! صلاۃ ! عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ ﷺ نکلے، آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ فرما رہے تھے : یہی (مناسب اور پسندیدہ) وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا (تو اسے انہیں اسی وقت پڑھنے کا حکم دیتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 532

【40】

نماز عشاء میں تاخیر کرنا مستحب ہے

جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء کو مؤخر کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٣) ، (تحفة الأشراف : ٢١٧٠) ، مسند احمد ٥/٨٩، ٩٣، ٩٤، ٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 533

【41】

نماز عشاء میں تاخیر کرنا مستحب ہے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر میں اپنی امت کے لیے شاق نہ سمجھتا تو انہیں عشاء کو مؤخر کرنے، اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الطھارة ١٥ (٢٥٢) مختصراً ، سنن ابی داود/الطھارة ٢٥ (٤٦) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٧ (٢٨٧) مختصراً ، الصلاة ٨ (٦٩٠) مختصراً ، موطا امام مالک/الطھارة ٣٢ (١١٤) ، مسند احمد ٢/٢٤٥، ٢٥٠، ٢٥٩، ٢٨٧، ٤٠٠، ٤٢٩، ٤٣٣، ٤٦٠، ٥٠٩، ٥١٧، ٥٣١، سنن الدارمی/الصلاة ١٦٨ (١٥٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٦٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 534

【42】

نماز عشاء کے آخر وقت سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات عشاء میں تاخیر کی، تو عمر (رض) نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ ﷺ نکلے، اور فرمایا : تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے ١ ؎، اور (اس وقت) صرف مدینہ ہی میں نماز پڑھی جا رہی تھی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اسے شفق غائب ہونے سے لے کر تہائی رات تک پڑھو ۔ اور اس حدیث کے الفاظ ابن حمیر کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث شعیب بن أبي حمزة عن الزہري عن عروة أخرجہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦١ (٨٦٢) ، ١٦٢ (٨٦٤) ، مسند احمد ٦/ ٢٧٢، (تحفة الأشراف : ١٦٤٦٩) ، وحدیث إبراہیم بن أبي عبلة عن الزہري عن عروة قد تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف : ١٦٤٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ یہ شرف فضیلت صرف تم ہی کو حاصل ہے، اس لیے اس انتظار کو تم اپنے لیے باعث زحمت نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے شرف اور رحمت کا باعث ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 535

【43】

نماز عشاء کے آخر وقت سے متعلق

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم ﷺ نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا بہت سا حصہ گزر گیا، اور مسجد کے لوگ سو گئے، پھر آپ ﷺ نکلے اور نماز پڑھائی، اور فرمایا : یہی (اس نماز کا پسندیدہ) وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا (تو اسے اس کا حکم دیتا) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٨٤) ، حصحیح مسلم/٦ (١٥٠) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٩ (١٢٥٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 536

【44】

نماز عشاء کے آخر وقت سے متعلق

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک رات ہم نماز عشاء کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے رہے، جب تہائی یا اس سے کچھ زیادہ رات گزر گئی تو آپ نکل کر ہمارے پاس آئے، اور جس وقت نکل کر آئے آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ ایک ایسی نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کسی اور دین کا ماننے والا اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو انہیں اسی وقت نماز پڑھاتا ، پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے اقامت کہی، پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٣٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٧ (٤٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٦٤٩) ، مسند احمد ٢/ ١٢٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 537

【45】

نماز عشاء کے آخر وقت سے متعلق

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو مغرب پڑھائی، پھر آپ نہیں نکلے یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر نکلے اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر فرمایا : لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہیں، اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے نماز ہی میں تھے، اگر کمزور کی کمزوری، اور بیمار کی بیماری نہ ہوتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کیا جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٧ (٤٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٨ (٦٩٣) ، (تحفة الأشراف : ٤٣١٤) ، مسند احمد ٣/٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 538

【46】

نماز عشاء کے آخر وقت سے متعلق

حمید کہتے ہیں : انس (رض) سے پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم ﷺ نے انگوٹھی پہنی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، ایک رات آپ نے آدھی رات کے قریب تک عشاء مؤخر کی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا : جب تک تم لوگ نماز کا انتظار کرتے رہے برابر نماز میں رہے ۔ انس کہتے ہیں : گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : حدیث إسماعیل عن حمید أخرجہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٥ (٥٧٢) ، الأذان ٣٦ (٦٦١) ، ١٥٦ (٨٤٧) ، اللباس ٤٨ (٥٨٦٩) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٥٧٨) ، مسند احمد ٣/١٨٢، ١٨٩، ٢٠٠، ٢٦٧، وحدیث خالد عن حمید أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ٨ (٦٩٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٥) (صحیح) علی بن حجر کی روایت میں ” إلی قریب من شطرا للیل “ کے بجائے ” إلی شطر اللیل “ ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 539

【47】

نماز عشاء کو عتمہ کہنے کی اجازت

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ اس ثواب کو جو اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے میں ہے جان لیتے پھر اس کے لیے سوائے قرعہ اندازی کے کوئی اور راہ نہ پاتے، تو ضرور قرعہ ڈالتے، اور اگر لوگ جان لیتے کہ اول وقت نماز پڑھنے میں کتنا ثواب ہے، تو ضرور اس کی طرف سبقت کرتے، اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ عتمہ (عشاء) اور فجر میں آنے میں کیا ثواب ہے، تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آتے خواہ انہیں گھٹنے یا سرین کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٩ (٦١٥) ، ٣٢ (٦٥٤) ، ٧٢ (٧٢١) ، الشھادات ٣٠ (٢٦٨٩) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢٨ (٤٣٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٥٢ (٢٢٥) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٣) ، الجماعة ٢ (٦) ، (تحفة الأشراف : ١٢٥٧٠) ، مسند احمد ٢/٢٣٦، ٢٧٨، ٣٠٣، ٣٣٤، ٣٧٥، ٣٧٦، ٤٢٤، ٤٦٦، ٤٧٢، ٤٧٩، ٥٣١، ٥٣٣، ویأتي عند المؤلف في باب ٣١ برقم : ٦٧٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 540

【48】

نماز عشاء کو عتمہ کہنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے اس نماز کے نام کے سلسلہ میں اعراب تم پر غالب نہ آجائیں ١ ؎ وہ لوگ اپنی اونٹنیوں کو دوہنے کے لیے دیر کرتے ہیں (اسی بنا پر دیر سے پڑھی جانے والی اس نماز کو عتمہ کہتے ہیں) حالانکہ یہ عشاء ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٩ (٦٤٤) ، سنن ابی داود/الأدب ٨٦ (٤٩٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٣ (٧٠٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٥٨٢) ، مسند احمد ٢/١٠، ١٨، ٤٩، ١٤٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تم ان کی پیروی میں اسے عتمہ نہ کہنے لگو بلکہ اسے عشاء کہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 541

【49】

نماز عشاء کو عتمہ کہنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا : تمہارے اس نماز کے نام کے سلسلہ میں اعراب تم پر غالب نہ آجائیں، جان لو اس کا نام عشاء ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے عشاء کو عتمہ کہنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ اعراب (دیہاتیوں) کی اصطلاح ہے، قرآن میں ومن بعد صلا ۃ العشاء وارد ہے بعض حدیثوں میں جو عشاء کو عتمہ کہا گیا ہے اس کی تاویل کئی طریقے سے کی جاتی ہے، ایک تو یہ کہ یہ اطلاق نہی (ممانعت) سے پہلے کا ہوگا، دوسرے یہ کہ نہی تنزیہی ہے، تیسرے یہ کہ یہ اطلاق ان اعراب کو سمجھانے کے لیے ہوگا جو عشاء کو عتمہ کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 542

【50】

نماز فجر کا اول وقت کونسا ہے؟

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر پڑھی جس وقت صبح (صادق) آپ پر واضح ہوگئی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٧) ، وأخرجہ صحیح مسلم/الحج ١٩ (١٢١٨) ، سنن ابی داود/المناسک ٥٧ (١٩٠٥) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٨٤ (٣٠٧٤) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٩٣) ، (من حدیثہ في سیاق حجة النبی ﷺ ) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 543

【51】

نماز فجر کا اول وقت کونسا ہے؟

انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے فجر کے وقت کے بارے میں پوچھا، تو جب ہم نے دوسرے دن صبح کی تو آپ نے ہمیں جس وقت فجر کی پو پھٹی نماز کھڑی کرنے کا حکم دیا، آپ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر جب دوسرا دن آیا، اور خوب اجالا ہوگیا تو حکم دیا تو نماز کھڑی کی گئی، پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر فرمایا : نماز کا وقت پوچھنے والا کہاں ہے ؟ انہی دونوں کے درمیان (فجر کا) وقت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٩٢) ، مسند احمد ٣/١١٣، ١٨٢ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 544

【52】

اگر سفر نہ ہو تو نماز فجر کس اندھیرے میں ادا کرے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٣ (٣٧٢) ، المواقیت ٢٧ (٥٧٨) ، والأذان ١٦٣ (٨٦٧) ، ١٦٥ (٨٧٢) ، صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٨ (٤٢٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢ (١٥٣) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٧٩٣١) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (٤) ، مسند احمد ٦/٣٣، ٣٦، ١٧٨، ٢٤٨، ٢٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 545

【53】

اگر سفر نہ ہو تو نماز فجر کس اندھیرے میں ادا کرے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی فجر پڑھتی تھیں، پھر وہ لوٹتی تھیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی انہیں پہچان نہیں پاتا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٠ (٦٤٥) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٦٩) ، مسند احمد ٦/ ٣٧، (تحفة الأشراف : ١٦٤٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 546

【54】

دوران سفر نماز فجر اندھیرے میں ادا کرنا کیسا ہے؟

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے دن فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، (آپ خیبر والوں کے قریب ہی تھے) پھر آپ نے ان پر حملہ کیا، اور دو بار کہا : اللہ أكبر اللہ سب سے بڑا ہے خیبر ویران و برباد ہوا، جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٢ (٣٨١) ، الخوف ٦ (٩٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٣٠١) ، مسند احمد ٣/١٠٢، ١٨٦، ٢٤٢، (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں اور ہم فتح یابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 547

【55】

نماز فجر روشنی میں ادا کرنے سے متعلق

رافع بن خدیج (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فجر اسفار میں پڑھو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٨ (٤٢٤) مطولاً ، سنن الترمذی/الصلاة ٥ (١٥٤) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ٢ (٦٧٢) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٣٥٨٢) ، مسند احمد ٣/٤٦٥، ٤/ ١٤٠، ١٤٢، سنن الدارمی/الصلاة ٢١ (١٢٥٣، ١٢٥٤، ١٢٥٥) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس قدر تاخیر کرو کہ طلوع فجر میں شبہ باقی نہ رہے، یا یہ حکم ان چاندنی راتوں میں ہے جن میں طلوع فجر واضح نہیں ہوتا، شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں کو ہے جنہیں جماعت میں کم لوگوں کی حاضری کا خدشہ ہو، یا ایسی بڑی مساجد کے لوگوں کو ہے جس میں کمزور اور بچے سبھی جمع ہوتے ہوں، یا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ فجر خوب لمبی پڑھو تاکہ ختم ہوتے ہوتے خوب اجالا ہوجائے جیسا کہ ابوبرزہ (رض) کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ فجر پڑھ کر لوٹتے تو آدمی اپنے ہم نشیں کو پہچان لیتا، اس طرح اس میں اور غلس والی روایت میں کوئی منافات نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 548

【56】

نماز فجر روشنی میں ادا کرنے سے متعلق

محمود بن لبید اپنی قوم کے کچھ انصاری لوگوں سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جتنا تم فجر اجالے میں پڑھو گے، اتنا ہی ثواب زیادہ ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف : ١٥٦٧٠) (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: علماء نے اسفار کی تاویل یہ کی ہے کہ فجر واضح ہوجائے، اس کے طلوع میں کوئی شک نہ ہو، اور ایک تاویل یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں صلاۃ سے نکلنے کے وقت کا بیان ہے نہ کہ صلاۃ میں داخل ہونے کا اس تاویل کی رو سے فجر غلس میں شروع کرنا، اور اسفار میں ختم کرنا افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 549

【57】

جس شخص نے نماز فجر کا ایک سجدہ سورج نکلنے سے پہلے حاصل کرلیا تو اس کا کیا حکم ہے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج نکلنے سے پہلے نماز فجر کا ایک سجدہ پا لیا اس نے نماز فجر پالی ١ ؎ اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کا ایک سجدہ پا لیا اس نے نماز عصر پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٩٣٧) ، مسند احمد ٢/٣٩٩، ٤٧٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں مقصد ایک پوری رکعت پالینے کا ہے، جیسا کہ عائشہ کی حدیث میں آ رہا ہے یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے، اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائیگی قضاء نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہوگی، اور جو لوگ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہوگیا، اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی یا کافر اسلام لے آیا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو، تو وہ نماز اس پر واجب ہوگئی لیکن حدیث رقم :( ٥١٧ ) سے جس میں فلیتم صلوٰتہ کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی ہو رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 550

【58】

جس شخص نے نماز فجر کا ایک سجدہ سورج نکلنے سے پہلے حاصل کرلیا تو اس کا کیا حکم ہے؟

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی اس نے عصر پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٩) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١١ (٧٠٠) ، (تحفة الأشراف : ١٦٧٠٥) ، مسند احمد ٦/٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 551

【59】

نماز فجر کا آخری وقت کونسا ہے؟

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، اور عصر تمہاری ان دونوں نمازوں ١ ؎ کے درمیان پڑھتے تھے، اور مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈوب جاتا تھا، اور عشاء اس وقت پڑھتے تھے جب شفق غائب جاتی تھی، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا : اور آپ فجر پڑھتے تھے یہاں تک کہ نگاہ پھیل جاتی تھی ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٢٥٩) ، مسند احمد ٣/١٢٩، ١٦٩ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: ان دونوں نمازوں سے مراد ظہر اور عصر ہے یعنی تمہاری ظہر اور تمہاری عصر کے بیچ میں رسول اللہ ﷺ کی عصر ہوتی تھی، مقصود اس سے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر جلدی پڑھتے تھے اور تم لوگ تاخیر سے پڑھتے ہو۔ ٢ ؎: یعنی اجالا ہوجاتا اور ساری چیزیں دکھائی دینے لگتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 552

【60】

جس شخص نے کسی نماز کی ایک رکعت پائی

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٢٩ (٥٨٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٤١ (١١٢١) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٥٢٤٣) ، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ٣ (١٥) ، مسند احمد ٢/٢٤١، ٢٦٥، ٢٧١، ٢٨٠، ٣٧٥، ٣٧٦، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٦، ١٢٥٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس نے نماز وقت پر ادا کرنے کی فضیلت پالی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 553

【61】

جس شخص نے کسی نماز کی ایک رکعت پائی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢١٤) ، مسند احمد ٢/ ٣٧٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 554

【62】

جس شخص نے کسی نماز کی ایک رکعت پائی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز کو پا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٣٠ (٦٠٧) ، سنن الدارمی/الصلاة ٢٢ (١٢٥٦) ، (تحفة الأشراف : ١٥٢٠١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 555

【63】

جس شخص نے کسی نماز کی ایک رکعت پائی

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣١٩٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 556

【64】

جس شخص نے کسی نماز کی ایک رکعت پائی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے جمعہ کی یا کسی اور نماز کی ایک رکعت پالی اس کی نماز مکمل ہوگئی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ٩١ (١١٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی پوری نماز کے وقت پر ادا کرنے کا ثواب اسے مل گیا نہ کہ بالفعل اسے پوری نماز مل گئی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 557

【65】

جس شخص نے کسی نماز کی ایک رکعت پائی

سالم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے کسی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی البتہ وہ چھٹی ہوئی رکعتوں کو پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، مگر پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 558

【66】

وہ اوقات جن میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے

عبداللہ صنابحی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سورج نکلتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کی سینگ ہوتی ہے ١ ؎، پھر جب سورج بلند ہوجاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے، پھر جب دوپہر کو سورج سیدھائی پر آجاتا ہے تو پھر اس سے مل جاتا ہے، اور جب ڈھل جاتا ہے تو الگ ہوجاتا ہے، پھر جب سورج ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے، تو اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈوب جاتا ہے تو وہ اس سے جدا ہوجاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ان (تینوں) اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤٨ (١٢٥٣) ، موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٧٨) ، مسند احمد ٤/٣٤٨، ٣٤٩ (صحیح) (لیکن تعلیل میں ” فإذا استوت قارنھا، فإذا زالت فارقھا “ کا جملہ منکر ہے، اس کی جگہ عمروبن عبسہ کی حدیث (رقم : ٥٧٣) میں ” فإنہا ساعة تفتح فیہا أبواب جہنم وتسجر “ کا جملہ صحیح ہے ) وضاحت : ١ ؎: یعنی شیطان سورج سے اتنا قریب ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ سورج کے پوجنے والوں کا سجدہ اس کے لیے ہوجائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح إلا قوله فإذا استوت قارنها فإذا زالت فارقها صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 559

【67】

وہ اوقات جن میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے

عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ تین اوقات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھنے سے اور اپنے مردوں کو دفنانے سے منع کرتے تھے : ایک تو جس وقت سورج نکل رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہوجائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہوجائے یہاں تک کہ ڈوب جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٣١) ، سنن ابی داود/الجنائز ٥٥ (٣١٩٢) ، سنن الترمذی/الجنائز ٤١ (١٠٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ٣٠ (١٥١٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٩٣٩) ، مسند احمد ٤/١٥٢، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٢) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٥٦٦، ٢٠١٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 560

【68】

فجر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اور فجر کے بعد (بھی) یہاں تک کہ سورج نکل آئے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١٣٩٦٦) ، موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٨) ، مسند احمد ٢/٤٦٢، ٤٩٦، ٥١٠، ٥٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 561

【69】

فجر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سنا ہے، جن میں عمر (رض) بھی ہیں اور وہ میرے نزدیک سب سے محبوب تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے ١ ؎، اور عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا، یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠ (١٨٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤٧ (١٢٥٠) ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٩٢) ، مسند احمد ١/ ١٨، ٢٠، ٣٩، ٥٠، ٥١، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٢ (١٤٧٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بخاری کی روایت میں حتى ترتفع الشمس ہے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ طلوع (نکلنے) سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے، اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 562

【70】

سورج طلوع ہونے کے وقت نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨٢) ، ٣١ (٥٨٥) ، ٣٢ (٥٨٩) ، فضل الصلاة بمکة والمدینة والحج ٧٣ (١١٩٢) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٧٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٨) ، موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٧) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٧٥) ، مسند احمد ٢/١٣، ١٩، ٣٣، ٣٦، ٦٣، ١٠٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 563

【71】

سورج طلوع ہونے کے وقت نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج کے نکلنے یا اس کے ڈوبنے کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٧٨٨٦) ، مسند احمد ٢/ ٢٩، ٣٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 564

【72】

دوپہر کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عقبہ بن عامر (رض) کو کہتے سنا کہ تین اوقات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھنے، یا اپنے مردوں کو قبر میں دفنانے سے منع فرماتے تھے : ایک جس وقت سورج نکل رہا ہو، یہاں تک کہ بلند ہوجائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے کے لیے مائل ہو یہاں تک کہ ڈوب جائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٦١(صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 565

【73】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک، اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٠٨٤) مسند احمد ٣/ ٦، ٦٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 566

【74】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣١ (٥٨٦) ، فضل الصلاة بمکة ٦ (١١٩٧) ، الصید ٢٦ (١٨٦٤) ، الصوم ٦٧ (١٩٩٥) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٧) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٥) ، مسند احمد ٣/ ٧، ٣٩، ٤٦، ٥٢، ٥٣، ٦٠، ٦٧، ٧١، ٩٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 567

【75】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

اس سند سے بھی ابو سعید خدری (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 568

【76】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٧٦١) ، سنن الدارمی/المقدمة ٣٨ (٤٤٠) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 569

【77】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمر (رض) سے وہم ہوا ہے ١ ؎ رسول اللہ ﷺ نے تو صرف یہ فرمایا ہے : سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت تم اپنی نماز کا ارادہ نہ کرو، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٣ (٨٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٦١٥٨) ، مسند احمد ٦/ ١٢٤، ٢٥٥ (کلاھما بدون قولہ ” فإنھا…“ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود یہ ہے کہ عمر (رض) سمجھتے تھے کہ فجر اور عصر کے بعد مطلقاً نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، یہ صحیح نہیں بلکہ ممانعت اس بات کی ہے کہ آدمی نماز کے لیے ان دونوں وقتوں کو خاص کرلے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ ان دونوں وقتوں میں نماز پڑھنا اولیٰ و انسب ہے، یا یہ ممانعت سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کے وقت کے ساتھ خاص ہے نہ کہ عصر اور فجر کے بعد مطلقاً ، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلقاً ہے کیونکہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں علی الاطلاق ممانعت وارد ہے، اور بعض روایات میں جو تقیید ہے وہ اطلاق کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی ہیں، نووی نے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ تحری والی روایت اس بات پر محمول ہوگی کہ فرض نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہوجائے، اور مطلقاً ممانعت والی روایت ان صلاتوں پر محمول ہوگی جو سببی نہیں ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله فإنها ... صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 570

【78】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز کو مؤخر کرو، یہاں تک کہ وہ روشن ہوجائے، اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٠ (٥٨٢) ، بدء الخلق ١١ (٣٢٧٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥١ (٨٢٩) ، موطا امام مالک/القرآن ١٠ (٤٥) (مرسلاً ) ، مسند احمد ٢/١٣، ١٩، ٢٤، ١٠٦، (تحفة الأشراف : ٧٣٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 571

【79】

نماز عصر کے بعد نماز کے ممنوع ہونے کا بیان

ابوامامہ باہلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ (رض) کو یہ کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہوتا ہو، یا کوئی ایسا وقت ہے جس میں اللہ کا ذکر مطلوب ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، اللہ عزوجل بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت اللہ عزوجل کو یاد کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ہوجاؤ، کیونکہ فجر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور سورج نکلنے تک رہتے ہیں، (پھر چلے جاتے ہیں) کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اور یہ کافروں کی نماز کا وقت ہے، لہٰذا (اس وقت) تم نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ سورج نیزہ کے برابر بلند ہوجائے، اور اس کی شعاع جاتی رہے پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر میں سورج نیزہ کی طرح سیدھا ہوجائے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہ ایسا وقت ہے جس میں جہنم کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور وہ بھڑکائی جاتی ہے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ سایہ لوٹنے لگ جائے، پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، کیونکہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي : (تحفة الأشراف : ١٠٧٦١) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٢ (٨٣٢) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٧) ، سنن الترمذی/الدعوات ١١٩ (٣٥٧٤) ، (مختصراً ) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٨٢ (١٣٦٤) ، مسند احمد ٤/١١١، ١١٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 572

【80】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا الا یہ کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٤) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ١٠٣١٠) ، مسند احمد ١/ ٨٠، ٨١، ١٢٩، ١٤١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 573

【81】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی بھی نہیں چھوڑیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٣ (٥٩١) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٧٣١١) ، مسند احمد ٦/٥٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بہت سے علماء نے اسے نبی اکرم ﷺ کے لیے مخصوص قرار دیا ہے، کیونکہ ایک بار آپ سے ظہر کے بعد کی دونوں سنتیں فوت ہوگئی تھیں جن کی قضاء آپ نے عصر کے بعد کی تھی، پھر آپ نے اس کا التزام شروع کردیا تھا، اور قضاء کا التزام قطعی طور پر آپ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 574

【82】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد میرے پاس جب بھی آتے تو دونوں رکعتوں کو پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٩٧٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 575

【83】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر کے بعد میرے پاس ہوتے تو ان دونوں رکعتوں کو پڑھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٣ (٥٩٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٤ (٨٣٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩٩ (١٢٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٢٨، ١٧٦٥٦) ، مسند احمد ٦/ ١٣٤، ١٧٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٣ (١٤٧٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 576

【84】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر میں فجر کے پہلے کی دو رکعتوں اور عصر کے بعد کی دو رکعتوں کو چھپے اور کھلے کبھی نہیں چھوڑا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٣٣ (٥٩٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٤ (٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٦٠٠٩) ، مسند احمد ٦/١٥٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 577

【85】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ابوسلمہ (رض) کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں رکعتوں کے متعلق سوال کیا جنہیں رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ انہیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر آپ کسی کام میں مشغول ہوگئے یا بھول گئے تو انہیں عصر کے بعد ادا کیا، اور آپ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے برقرار رکھتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥٤ (٨٣٥) ، (تحفة الأشراف : ١٧٧٥٢) ، مسند احمد ٦/٤٠، ٦١، ٢٤١، مسند احمد ٦/١٨٤، ١٨٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 578

【86】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار نبی اکرم ﷺ نے ان کے گھر میں عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھی تو انہوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ دو رکعتیں ہیں جنہیں میں ظہر کے بعد پڑھتا تھا تو میں انہیں نہیں پڑھ سکا، یہاں تک کہ میں نے عصر پڑھ لی ، (تو میں نے اب عصر کے بعد پڑھی ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٢٤٢) ، مسند احمد ٦/ ٣٠٤، ٣١٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 579

【87】

نماز عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر سے پہلے والی دو رکعت نہیں پڑھ سکے، تو انہیں عصر کے بعد پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨١٩٣) ، مسند احمد ٦/٣٠٦ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 580

【88】

سورج غروب ہونے سے قبل نماز پڑھنے کی اجازت سے متعلق

عمران بن حدیر کہتے ہیں : میں نے لاحق (لاحق بن حمید ابومجلز) سے سورج ڈوبنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے، تو معاویہ (رض) نے ان سے پچھوا بھیجا کہ سورج ڈوبنے کے وقت کی یہ دونوں رکعتیں کیسی ہیں ؟ تو انہوں نے بات ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھا دی، تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عصر سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے تو (ایک مرتبہ) آپ انہیں نہیں پڑھ سکے، تو انہیں سورج ڈوبنے کے وقت ١ ؎ پڑھی، پھر میں نے آپ کو انہیں نہ تو پہلے پڑھتے دیکھا اور نہ بعد میں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٢٢٤) ، مسند احمد ٦/ ٣٠٩، ٣١١ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: ایسے وقت میں پڑھی جب سورج کے ڈوبنے کا وقت قریب آگ یا تھا، یہ مطلب نہیں کہ سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی کیونکہ اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 581

【89】

نماز مغرب سے قبل نماز ادا کرنا کیسا ہے؟

ابوالخیر کہتے ہیں کہ ابوتمیم جیشانی مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو میں نے عقبہ بن عامر (رض) سے کہا : انہیں دیکھئیے ! یہ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں ؟ تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور دیکھ کر بولے : یہ وہی نماز ہے جسے ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں پڑھا کرتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التھجد ٣٥ (١١٨٤) نحوہ، (تحفة الأشراف : ٩٩٦١) ، مسند احمد ٤/ ١٥٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنا جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے، صحیح بخاری (کے مذکورہ باب) میں عبداللہ مزنی (رض) کی روایت میں تو صلوا قبل المغرب حکم کے صیغے کے ساتھ وارد ہے، یعنی مغرب سے پہلے (نفل) پڑھو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 582

【90】

نماز فجر کے بعد نماز سے متعلق

ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر طلوع ہونے کے بعد صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦١٨) ، التھجد ٢٩ (١١٧٣) ، ٣٤ (١١٨١) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٤ (٧٢٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٠٣ (٤٣٣) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٠١ (١١٤٥) ، (تحفة الأشراف : ١٥٨٠١) ، مسند احمد ٦/٢٨٤، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٦ ویأتي عند المؤلف بأرقام : ١٧٦١، ١٧٦٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 583

【91】

فجر کی نماز کے بعد نماز (نفل) پڑھنے سے متعلق

عمرو بن عبسہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ کون اسلام لایا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ایک آزاد اور ایک غلام ١ ؎ میں نے عرض کیا : کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ حاصل ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، رات کا آخری حصہ ہے، اس میں فجر پڑھنے تک جتنی نماز چاہو پڑھو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور اسی طرح اس وقت تک رکے رہو جب تک سورج ڈھال کی طرح رہے (ایوب کی روایت میں وما دامت کے بجائے فما دامت ہے) یہاں تک کہ روشنی پھیل جائے، پھر جتنی چاہو پڑھو یہاں تک کہ ستون اپنے سایہ پر کھڑا ہوجائے ٢ ؎ پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اس لیے کہ نصف النہار (کھڑی دوپہر) میں جہنم سلگائی جاتی ہے، پھر جتنا مناسب سمجھو نماز پڑھو یہاں تک کہ عصر پڑھ لو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٤٨ (١٢٥١) ، ١٨٢ (١٣٦٤) ، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٢) ، مسند احمد ٤/١١١، ١١٣، ١١٤ (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس سند کے اندر ” عبدالرحمن بیلمانی “ ضعیف ہیں ) وضاحت : ١ ؎: آزاد سے ابوبکر (رض) اور غلام سے بلال (رض) مراد ہیں۔ ٢ ؎: یعنی سایہ کم ہوتے ہوتے صرف ستون کے نیچے رہ جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 584

【92】

مکہ مکرمہ میں ہر ایک وقت نماز کے درست ہونے کا بیان

جبیر بن مطعم (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے بنی عبد مناف ! تم کسی کو رات یا دن کسی بھی وقت اس گھر کا طواف کرنے، اور نماز پڑھنے سے نہ روکو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/المناسک ٥٣ (١٨٩٤) ، سنن الترمذی/الحج ٤٢ (٨٦٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤٩ (١٢٥٤) ، (تحفة الأشراف : ٣١٨٧) ، مسند احمد ٤/٨٠، ٨١، ٨٤، سنن الدارمی/المناسک ٧٩ (١٩٦٧) ، ویأتي عند المؤلف في المناسک ١٣٧ (برقم : ٢٩٢٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 585

【93】

مسافر آدمی نماز ظہر اور نماز عصر کو کون سے وقت میں ایک ساتھ جمع کرے اس سے متعلقہ احادیث

انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کردیتے، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے ١ ؎، اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ١٥ (١١١١) ، ١٦ (١١١٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢١٨) ، مسند احمد ٣/٢٤٧، ٢٦٥، (تحفة الأشراف : ١٥١٥) یأتي عند المؤلف برقم : ٥٩٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس حدیث میں سفر میں جمع بین الصلوٰتین کا جواز ثابت ہوتا ہے، احناف سفر اور حضر کسی میں جمع بین الصلوٰتین کے جواز کے قائل نہیں، ان کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایت من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى باباً من أبواب الکبائر ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے، قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین پر جو روایتیں دلالت کرتی ہیں وہ صحیح ہیں، ان کی تخریج مسلم اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگوں نے کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 586

【94】

مسافر آدمی نماز ظہر اور نماز عصر کو کون سے وقت میں ایک ساتھ جمع کرے اس سے متعلقہ احادیث

ابوالطفیل عامر بن واثلۃ (رض) سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل (رض) نے انہیں خبر دی کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال نکلے، تو رسول اللہ ﷺ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے رہے، چناچہ آپ ﷺ نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ ادا کیا، پھر اندر داخل ہوئے، پھر نکلے تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٦) ، الفضائل ٣ (٧٠٦) مختصراً ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢٠٦، ١٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٧٤ (١٠٧٠) مختصراً ، موطا امام مالک/السفر ١ (٢) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٢٠) ، مسند احمد ٥/٢٢٨، ٢٣٠، ٢٣٣، ٢٣٦، ٢٣٧، ٢٣٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢ (١٥٥٦) ، (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 587

【95】

دو وقت کی نماز جمع کرنا

کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے ؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے (یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہوگیا، تو سواری سے اترے اور بولے : تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو، ٢ ؎ چناچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا : نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا : جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہوگئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا : تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آجائے جس کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف : ٦٧٩٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٦ (١٠٩١) ، العمرة ٢٠ (١٨٠٥) ، الجھاد ١٣٦ (٣٠٠٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢٠٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٧ (٥٥٥) ، مسند احمد ٢/٥١، ویأتي عند المؤلف برقم : (٥٩٨) (حسن) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ” کثیر بن قاروندا “ لین الحدیث ہیں ) وضاحت : ٢ ؎: یعنی تھوڑا سا رک کر کے جیسا کہ صحیح بخاری میں فلما يلبث حتى يقيم العشاء کے الفاظ وارد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 588

【96】

جس وقت میں کوئی مقیم آدمی دو وقت کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مدینہ میں ایک ساتھ آٹھ رکعت، اور سات رکعت نماز پڑھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا، اور عصر میں جلدی کی، اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ١٢ (٥٤٣) ، ١٨ (٥٦٢) ، التھجد ٣٠ (١١٧٤) ، صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٥) سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢١٤) ، ” کلہم بدون قولہ : أخّر… إلخ “ ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٥٣٧٧) ، مسند احمد ١/٢٢١، ٢٢٣، ٢٧٣، ٢٨٥، ٣٦٦، ویأتی عند المؤلف برقم : ٥٩١، ٦٠٤، (صحیح) (لیکن ” أخر الظھر…إلخ “ کا ٹکڑا حدیث میں سے نہیں ہے، نسائی کے کسی راوی سے وہم ہوگیا ہے، یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں ہے بھی نہیں، مدرج ہونے کی صراحت مسلم میں موجود ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله أخر الظهر .. إلخ فإنه مدرج صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 589

【97】

جس وقت میں کوئی مقیم آدمی دو وقت کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے بصرہ میں پہلی نماز ١ ؎ (ظہر) اور عصر ایک ساتھ پڑھی، ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، انہوں نے ایسا کسی مشغولیت کی بناء پر کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ انہوں نے مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پہلی نماز (ظہر) اور عصر آٹھ رکعتیں پڑھی، ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز فاصل نہیں تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ٥٣٧٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز ظہر کو اولیٰ کہتے تھے کیونکہ یہی وہ پہلی نماز تھی جسے جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی اکرم ﷺ کو پڑھائی تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 590

【98】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں حمی ١ ؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تو میں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ نماز پڑھ لیجئیے، چناچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہوگئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٦٦٤٩) ، مسند احمد ٢/١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں سرکاری جانور چرا کرتے تھے اور یہ سرکاری چراگاہ تھی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 591

【99】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب مؤخر کرتے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ٦ (١٠٩١) ، ١٣ (١١٠٦) ، ١٤ (١١٠٩) ، العمرة ٢٠ (١٨٠٥) ، الجھاد ١٣٦ (٣٠٠٠) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٦٨٤٤) ، مسند احمد ٢/٧، ٨، ٥١، ٦٣ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 592

【100】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

جابر (رض) کہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا، اور رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے، تو آپ نے مقام سرف ١ ؎ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢١٥) ، (تحفة الأشراف : ٢٩٣٧) ، مسند احمد ٣/٣٠٥ (ضعیف الإسناد) (اس کے رواة ” مومل، یحییٰ ، اور عبدالعزیز “ تینوں حافظے کے کمزور رواة ہیں ) وضاحت : ١ ؎: سرف مکہ سے دس میل کی دوری پر ایک جگہ ہے سورج ڈوبنے کے بعد اتنی مسافت طے کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جمع صوری نہیں حقیقی رہی ہوگی، اور نماز آپ نے شفق غائب ہونے کے بعد پڑھی ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 593

【101】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

انس بن مالک (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر دونوں کو ایک ساتھ جمع کرتے، اور مغرب کو شفق کے ڈوب جانے تک مؤخر کرتے، اور پھر اسے اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 594

【102】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

نافع کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں نکلا، وہ اپنی زمین (کھیتی) کا ارادہ کر رہے تھے، اتنے میں ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا : آپ کی بیوی صفیہ بنت ابو عبید سخت بیمار ہیں تو آپ جا کر ان سے مل لیجئے، چناچہ وہ بڑی تیز رفتاری سے چلے اور ان کے ساتھ ایک قریشی تھا وہ بھی ساتھ جا رہا تھا، آفتاب غروب ہوا تو انہوں نے نماز نہیں پڑھی، اور مجھے معلوم تھا کہ وہ نماز کی بڑی محافظت کرتے ہیں، تو جب انہوں نے تاخیر کی تو میں نے کہا : اللہ آپ پر رحم کرے ! نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب شفق ڈوبنے لگی تو اترے، اور مغرب پڑھی، پھر عشاء کی تکبیر کہی، اس وقت شفق غائب ہوگئی تھی، انہوں نے ہمیں (عشاء کی) نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : جب رسول اللہ ﷺ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢١٣) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٥٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 595

【103】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

نافع کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آئے، تو جب وہ رات آئی تو وہ ہمیں لے کر چلے (اور برابر چلتے رہے) یہاں تک کہ ہم نے شام کرلی، اور ہم نے گمان کیا کہ وہ نماز بھول گئے ہیں، چناچہ ہم نے ان سے کہا : نماز پڑھ لیجئیے، تو وہ خاموش رہے اور چلتے رہے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے قریب ہوگئی ١ ؎ پھر وہ اترے اور انہوں نے نماز پڑھی، اور جب شفق غائب ہوگئی تو عشاء پڑھی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور کہنے لگے : جب چلنے کی جلدی ہوتی تو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٢٣١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ جمع صوری تھی حقیقی نہیں، لیکن صحیح مسلم کی روایت میں نافع سے جمع بین المغرب والعشاء بعدأن یغیب الشفق کے الفاظ وارد ہیں، اور صحیح بخاری میں حتیٰ کان بعد غروب الشفق نزل فصلی المغرب والعشاء جمعاًبینہما اور سنن ابوداؤد میں حتیٰ غاب الشفق وتصوبت النجوم نزل فصلی الصلاتین جمعاً اور عبدالرزاق کی روایت میں فاخرالمغرب بعد ذہاب الشفق حتیٰ ذہب ہوی من اللیل کے الفاظ ہیں، ان روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اسے تعدد واقعہ پر محمول کیا جائے، نہیں تو صحیحین کی روایت راجح ہوگی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 596

【104】

مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے

کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ ہم نے سالم بن عبداللہ سے سفر کی نماز کے بارے میں پوچھا، ہم نے کہا : کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں جمع بین الصلاتین کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں، سوائے مزدلفہ کے، پھر چونکے اور کہنے لگے : ان کے نکاح میں صفیہ تھیں، انہوں نے انہیں کہلوا بھیجا کہ میں دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں ١ ؎ (اس لیے آپ آ کر آخری ملاقات کرلیجئے) ، تو وہ سوار ہوئے، اور میں اس ان کے ساتھ تھا، وہ تیز رفتاری سے چلتے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا، تو ان سے مؤذن نے کہا : ابوعبدالرحمٰن ! نماز پڑھ لیجئے، لیکن وہ چلتے رہے یہاں تک کہ دونوں نمازوں کا درمیانی وقت آگیا، تو اترے اور مؤذن سے کہا : اقامت کہو، اور جب میں ظہر پڑھ لوں تو اپنی جگہ پر (دوبارہ) اقامت کہنا، چناچہ اس نے اقامت کہی، تو انہوں نے ظہر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر تو (مؤذن نے) اپنی اسی جگہ پر پھر اقامت کہی، تو انہوں نے عصر کی دو رکعت پڑھائی، پھر سوار ہوئے اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو مؤذن نے ان سے کہا : ابوعبدالرحمٰن نماز پڑھ لیجئے، تو انہوں نے کہا جیسے پہلے کیا تھا، اسی طرح کرو اور تیزی سے چلتے رہے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہوگئے تو اترے، اور کہنے لگے : اقامت کہو، اور جب سلام پھیر چکوں تو دوبارہ اقامت کہنا، پھر انہوں نے مغرب کی تین رکعت پڑھائی، پھر اپنی اسی جگہ پر اس نے پھر تکبیر کہی تو انہوں نے عشاء پڑھائی، اور اپنے چہرہ کے سامنے ایک ہی سلام پھیرا، اور کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اسی طرح نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٨٩ (حسن ) وضاحت : ١ ؎: یعنی میری موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 597

【105】

نمازوں کو کونسی حالت میں اکھٹا پڑھے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٣) ، موطا امام مالک/السفر ١ (٣) ، مسند احمد ٢/٧، ٦٣، (تحفة الأشراف : ٨٣٨٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 598

【106】

نمازوں کو کونسی حالت میں اکھٹا پڑھے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چلنے کی جلدی ہوتی یا کوئی معاملہ درپیش ہوتا، تو آپ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨٥٠٥) ، مسند احمد ٢/٨٠ (صحیح الإسناد) (لیکن ” أوحز بہ أمر “ کا جملہ شاذ ہے کیونکہ نافع کے طریق سے مروی کسی بھی روایت میں یہ موجود نہیں ہے، نیز اس کے محرف ہونے کا بھی امکان ہے، اور مصنف عبدالرزاق (٢/ ٥٤٧) کی سند سے ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے، ” أو أجد بہ المسیر “ ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد لکن قوله أو حزبه أمر شاذ لعدم وروده في سائر الطرق عن نافع وغيره ويمكن أن يكون محرفا ففي مصنف عبدالرزاق / بإسناده هذا أو أجد به المسير والله أعلم صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 599

【107】

نمازوں کو کونسی حالت میں اکھٹا پڑھے؟

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ١٣ (١١٠٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥ (٧٠٣) ، مسند احمد ٢/٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢ (١٥٥٨) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 600

【108】

مقیم ہونے کی حالت میں نمازوں کو ایک ساتھ کر کے پڑھنا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھی ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢١٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/السفر ١ (٤) ، (تحفة الأشراف : ٥٦٠٨) ، مسند احمد ١/٢٨٣، ٣٤٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدید ضرورت کے وقت مقیم بھی جمع بین الصلاتین کرسکتا ہے لیکن یہ عادت نہ بنا لی جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 601

【109】

مقیم ہونے کی حالت میں نمازوں کو ایک ساتھ کر کے پڑھنا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے، ان سے پوچھا گیا : آپ ایسا کیوں کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا : تاکہ آپ کی امت کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٦ (٧٠٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٤ (١٢١١) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٤ (١٨٧) ، مسند احمد ١/٣٥٤، (تحفة الأشراف : ٥٤٧٤) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو دو نمازوں کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوگیا ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لیے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہوسکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ ﷺ نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہو تو یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔ قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 602

【110】

مقیم ہونے کی حالت میں نمازوں کو ایک ساتھ کر کے پڑھنا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں، اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں ملا کر پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 603

【111】

مقام عرفات میں نماز ظہر اور نماز عصر ایک ساتھ پڑھنا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (حج میں منی سے مزدلفہ) چلے یہاں تک کہ آپ عرفہ آئے تو دیکھا کہ نمرہ ١ ؎ میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا ہے، آپ نے وہاں قیام کیا، یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا آپ نے قصواء نامی اونٹنی ٢ ؎ لانے کا حکم دیا، تو آپ کے لیے اس پر کجاوہ کسا گیا، جب آپ وادی میں پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال (رض) نے اذان دی، پھر اقامت کہی، تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھائی، پھر بلال (رض) نے اقامت کہی، تو آپ ﷺ نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے بیچ کوئی اور نماز نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٢٩) ، سنن الدارمی/المناسک ٣٤ (١٨٩٢) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٦٥٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عرفات میں ایک جگہ کا نام ہے، جو عرفات کے مغربی کنارے پر ہے، آج کل یہاں ایک مسجد بنی ہوئی ہے جس کا آدھا حصہ عرفات کے اندر ہے، اور آدھا مغربی حصہ عرفات کے حدود سے باہر ہے۔ ٢ ؎: نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی کا نام قصواء تھا، قصواء کے معنی کن کٹی کے ہیں لیکن آپ کی اونٹنی کن کٹی نہیں تھی یہ اس کا لقب تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 604

【112】

مقام مزدلفہ میں نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ساتھ پڑھنا

ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر مزدلفہ میں مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٦ (١٦٧٤) ، المغازي ٧٦ (٤٤١٤) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٧) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ٦٠ (٣٠٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٣٤٦٥) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٨) ، مسند احمد ٥/٤١٨، ٤١٩، ٤٢٠، ٤٢١، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٢ (١٥٥٧) ، المناسک ٥٢ (١٩٢٥) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٣٠٢٩ مختصراً (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 605

【113】

مقام مزدلفہ میں نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ساتھ پڑھنا

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہم عرفات سے چلے تو میں ان کے ساتھ تھا، جب وہ مزدلفہ آئے تو مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی، اور جب فارغ ہوئے تو کہنے لگے : اس جگہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح نماز پڑھی تھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 606

【114】

مقام مزدلفہ میں نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ساتھ پڑھنا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب و عشاء (جمع کر کے) پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٤٧ (٧٠٣) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٥ (١٩٢٦) ، موطا امام مالک/الحج ٦٥ (١٩٦) ، مسند احمد ٢/٥٦، (تحفة الأشراف : ٦٩١٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 607

【115】

مقام مزدلفہ میں نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ساتھ پڑھنا

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو مزدلفہ کے علاوہ کسی جگہ جمع بین الصلاتین کرتے نہیں دیکھا ١ ؎، آپ نے اس روز فجر (اس کے عام) وقت سے ٢ ؎ پہلے پڑھ لی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٩ (١٦٨٢) ، صحیح مسلم/الحج ٤٨ (١٢٨٩) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٥ (١٩٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٨٤) ، مسند احمد ١/٣٨٤، ٤٢٦، ٤٣٤، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٣٠١٣، ٣٠٣٠، ٣٠٤١ مختصراً (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: عبداللہ بن مسعود کا نہ دیکھنا جمع بین الصلاتین کی نفی کو مستلزم نہیں، خصوصاً جب عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے جمع بین الصلاتین کی صحیح روایات منقول ہیں۔ ٢ ؎: یعنی فجر طلوع ہوتے ہی پڑھ لی جب کہ عام حالات میں طلوع فجر کے بعد کچھ انتظار کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 608

【116】

نمازوں کو کس طریقہ سے جمع کیا جائے؟

اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ (انہیں نبی اکرم ﷺ نے عرفہ میں سواری پر پیچھے بٹھا لیا تھا) تو جب آپ ﷺ گھاٹی پر آئے تو اترے، اور پیشاب کیا، (انہوں نے لفظ بَالَ کہا أهراق الماء نہیں کہا ١ ؎ ) تو میں نے برتن سے آپ ﷺ پر پانی ڈالا، آپ نے ہلکا پھلکا وضو کیا، میں نے آپ سے عرض کیا : نماز پڑھ لیجئیے، تو آپ نے فرمایا : نماز تمہارے آگے ہے، جب آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب پڑھی، پھر لوگوں نے اپنی سواریوں سے کجاوے اتارے، پھر آپ نے عشاء پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٧) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٥ (١٨١) ، الحج ٩٥ (١٦٧٢) ، صحیح مسلم/الحج ٤٧ (١٢٨٠) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٤ (١٩٢٥) ، مسند احمد ٥/٢٠٠، ٢٠٢، ٢٠٨، ٢١٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ان دونوں لفظوں کے معنی ہیں پیشاب کیا ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 609

【117】

وقت پر نماز ادا کرنے کی فضیلت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المواقیت ٥ (٥٢٧) ، الجھاد ١ (٢٧٨٢) ، الأدب ١ (٥٩٧٠) ، التوحید ٤٨ (٧٥٣٤) ، صحیح مسلم/الإیمان ٣٦ (٨٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٣ (١٧٣) ، البر والصلة ٢ (١٨٩٨) ، (تحفة الأشراف : ٩٢٣٢) ، مسند احمد ١/٤٠٩، ٤٣٩، ٤٤٢، ٤٥١، سنن الدارمی/الصلاة ٢٤ (١٢٦١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل الاعمال (زیادہ بہتر) کہا گیا ہے، اس کی توجیہ بعض لوگوں نے اس طرح کی ہے کہ ان میں مِن پوشیدہ ہے یعنی من افضل الاعمال یعنی یہ کام زیادہ فضیلت والے عملوں میں سے ہے یا ان کی فضیلت میں مختلف اقوال، اوقات یا جگہوں کا اعتبار ملحوظ ہے، مثلاً کسی وقت اول وقت نماز پڑھنا افضل ہے، اور کسی وقت جہاد یا حج مبرور افضل ہے، یا مخاطب کے اعتبار سے اعمال کی ا فضیلت بتائی گئی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 610

【118】

وقت پر نماز ادا کرنے کی فضیلت

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 611

【119】

وقت پر نماز ادا کرنے کی فضیلت

محمد بن منتشر سے روایت ہے کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے کہ نماز کی اقامت کہی گئی، تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے (جب وہ آئے تو) انہوں نے کہا : میں وتر پڑھنے لگا تھا، (اس لیے تاخیر ہوئی) عبداللہ بن مسعود (رض) سے لوگوں نے پوچھا : کیا (فجر کی) اذان کے بعد وتر ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، اور اقامت کے بعد بھی، اور انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا، پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی ١ ؎ اس حدیث کے الفاظ یحییٰ بن حکیم کے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٩٤٨١) ، وأعادہ برقم : ١٦٨٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ابن مسعود (رض) کا مطلب یہ تھا کہ وقت گزر جانے سے نماز ساقط نہیں ہوتی بلکہ اس کی قضاء کرنی پڑتی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ قضاء فرائض کے ساتھ خاص ہے وہ اس حدیث سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑتے ہیں، لیکن اس روایت میں فرائض کے ساتھ قضاء کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں، سنتوں کی قضاء بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد إن کان محمد بن المنتشر سمع ابن مسعود وقصة النوم صحيحة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 612

【120】

جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے اس کا بیان

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز بھول جائے، جب یاد آجائے تو اسے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٤٢) مختصراً ، سنن الترمذی/الصلاة ١٧ (١٧٨) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٦) ، (تحفة الأشراف : ١٤٣٠) ، مسند احمد ٣/١٠٠، ٢٤٣، ٢٦٧، ٢٦٩، ٢٨٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 613

【121】

اگر کوئی شخص نماز کے وقت سوتا رہ جائے تو کیا کرے

انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو نماز سے سو جاتا ہے یا اس سے غافل ہوجاتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آجائے تو اسے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الصلاة ١٠ (٦٩٥) ، مسند احمد ٣/٢٦٧، (تحفة الأشراف : ١١٥١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 614

【122】

اگر کوئی شخص نماز کے وقت سوتا رہ جائے تو کیا کرے

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں نے نمازوں سے اپنے سو جانے کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : نیند کی حالت میں کوئی تقصیر (کمی) نہیں ہے ، تقصیر (کمی) تو جاگنے میں ہے (کہ جاگتا ہو اور نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ وقت گزر جائے) ، تو جب تم میں سے کوئی آدمی نماز بھول جائے، یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١١ (٤٤١) مختصراً ، سنن الترمذی/الصلاة ١٦ (١٧٧) ، (تحفة الأشراف : ١٢٠٨٥) ، مسند احمد ٥/٢٩٨، ٣٠٢، ٣٠٥ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 615

【123】

اگر کوئی شخص نماز کے وقت سوتا رہ جائے تو کیا کرے

ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نیند کی حالت میں کوئی تقصیر (کمی) نہیں ہے، تقصیر (کمی) تو اس شخص میں ہے جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ جس وقت اسے اس کا ہوش آئے تو دوسری نماز کا وقت ہوجائے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 616

【124】

جو نماز نیند کی حالت میں قضاہو جائے تو اس کو اگلے دن وقت پر پڑھ لے

ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ جب لوگ نماز سے سو گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اسے دوسرے روز اس کے وقت پر پڑھنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٠٩٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ آج نیند کی وجہ سے تقصیر ہوگئی تو ہوگئی، اس کی ابھی قضاء پڑھ لی ہے، لیکن کل سے اسے اپنے وقت پر پڑھنا، کیونکہ صحیح مسلم میں اس روایت کے الفاظ یوں ہیں فلیصلھاحین ینتبہ لھا، فإذا کان الغد فلیصلھاعند وقتھا یعنی : اس نماز کو جب اٹھے تب پڑھ لے (یعنی قضاء کر کے) ، اور کل سے اس کو اپنے وقت پر پڑھا کرے) مؤلف سے ذہول ہوا ہے، اسی ذہول کی بنا پر انہوں نے مذکورہ باب باندھا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 617

【125】

جو نماز نیند کی حالت میں قضاہو جائے تو اس کو اگلے دن وقت پر پڑھ لے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز بھول جاؤ تو یاد آنے پر اسے پڑھ لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : أقم الصلاة لذكري ١ ؎ نماز قائم کرو جب میری یاد آئے ۔ عبدالاعلی کہتے ہیں : اس حدیث کو ہم سے یعلیٰ نے مختصراً بیان کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٢٤٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مشہور قرأت یاء متکلم کی طرف اضافت کے ساتھ ہے لیکن یہ قرأت مقصود کے مناسب نہیں اس لیے اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ مضاف مقدر ہے اصل عبارت یوں ہے وقت ذکر صلاتی اور ایک شاذ قرأت للذکریٰ اسم مقصور کے ساتھ ہے جو أوفق بالمقصود ہے، (جو رقم : ٦٢١ کے تحت آرہی ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 618

【126】

جو نماز نیند کی حالت میں قضاہو جائے تو اس کو اگلے دن وقت پر پڑھ لے

ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی نماز بھول جائے تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نماز قائم کرو جب میری یاد آئے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٣٣٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 619

【127】

جو نماز نیند کی حالت میں قضاہو جائے تو اس کو اگلے دن وقت پر پڑھ لے

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو آدمی نماز بھول جائے تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نماز قائم کرو یاد آنے پر ، معمر کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح پڑھا ہے ؟ کہا : ہاں (یعنی : للذکریٰ ) ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٢٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 620

【128】

قضاء نماز کو کس طریقہ سے پڑھا جائے؟

ابومریم (مالک بن ربیعہ) (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم رات بھر چلتے رہے جب صبح ہونے لگی تو آپ ﷺ اترے اور سو رہے، لوگ بھی سو گئے، تو سورج کی دھوپ پڑنے ہی پر آپ جاگے، تو آپ نے مؤذن کو حکم دیا تو اس نے اذان دی، پھر آپ نے فجر سے پہلے کی دونوں رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے اقامت کہی، اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر آپ نے قیامت قائم ہونے تک جو اہم چیزیں ہونے والی ہیں انہیں ہم سے بیان کیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٢٠١) (صحیح) (شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کے راوی ” عطائ “ آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے، اور ابوالا حوص نے ان سے اختلاط کی حالت میں روایت لی ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 621

【129】

قضاء نماز کو کس طریقہ سے پڑھا جائے؟

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہمیں (کافروں کی طرف سے) ظہر، عصر، مغرب اور عشاء سے روک لیا گیا، تو یہ میرے اوپر بہت گراں گزرا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں، اور اللہ کے راستے میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا، تو انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں ظہر پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں عصر پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں مغرب پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی، تو آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی، پھر آپ ﷺ ہم پر گھومے اور فرمایا : روئے زمین پر تمہارے علاوہ کوئی جماعت نہیں ہے، جو اللہ کو یاد کر رہی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن الترمذی/الصلاة ١٨ (١٧٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٣٣) ، مسند احمد ١/٣٧٥، ٤٢٣، ویأتي عند المؤلف برقم : ٦٦٣، ٦٦٤ (صحیح) (اس کی سند میں ” ابو عبیدة “ اور ان کے والد ” ابن مسعود (رض) “ کے درمیان انقطاع ہے، نیز ” ابوالزبیر “ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، مگر ابو سعید کی حدیث (رقم : ٦٦٢) اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (رقم : ٤٨٣، ٥٣٦) سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 622

【130】

قضاء نماز کو کس طریقہ سے پڑھا جائے؟

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں سونے کے لیے پڑاؤ ڈالا، تو ہم (سوتے رہے) جاگ نہیں سکے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کو چاہیئے کہ اپنی سواری کا سر تھام لے (یعنی سوار ہو کر یہاں سے نکل جائے) کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جس میں شیطان ہمارے ساتھ رہا ، ہم نے ایسا ہی کیا، پھر آپ ﷺ نے پانی مانگا اور وضو کیا، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر اقامت کہی گئی تو آپ نے فجر پڑھائی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥٥ (٦٨٠) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٤٤) ، مسند احمد ٢/٤٢٨، ٤٢٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 623

【131】

قضاء نماز کو کس طریقہ سے پڑھا جائے؟

جبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک سفر میں فرمایا : آج رات کون ہماری نگرانی کرے گا تاکہ ہم فجر میں سوئے نہ رہ جائیں ؟ بلال (رض) نے کہا : میں، پھر انہوں نے سورج نکلنے کی جانب رخ کیا، تو ان پر ایسی نیند طاری کردی گئی کہ کوئی آواز ان کے کان تک پہنچ ہی نہیں سکی یہاں تک کہ سورج کی گرمی نے انہیں بیدار کیا، تو وہ اٹھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ وضو کرو ، پھر بلال (رض) نے اذان دی، تو آپ ﷺ نے دو رکعت فجر کی سنت پڑھی، اور لوگوں نے بھی فجر کی دو رکعت سنت پڑھی، پھر لوگوں نے فجر پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٣٢٠١) ، مسند احمد ٤/٨١ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 624

【132】

قضاء نماز کو کس طریقہ سے پڑھا جائے؟

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں چلے، پھر رات کے آخری حصہ میں سونے کے لیے پڑاؤ ڈالا، تو آپ جاگ نہیں سکے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، یا اس کا کچھ حصہ نکل آیا، اور آپ نماز نہیں پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج اوپر چڑھ آیا، پھر آپ نے نماز پڑھی، اور یہی صلوٰ ۃ وسطی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٣٨٨) ، وانظر مسند احمد ١/٢٥٩ (منکر) (فجر کو ” صلاة الوسطی “ کہنا منک رہے، ” صلاة الوسطی “ عصر کی صلاة ہے، اس کے راوی ” حبیب بن أبی حبیب “ سے وہم ہوجایا کرتا تھا ) وضاحت : ١ ؎: لیکن صلاۃ فجر کو صلاۃ الوسطی کہنا منکر ہے، صلاۃ الوسطی عصر کی صلاۃ ہے، جب کہ وہ فجر کی صلاۃ تھی۔ قال الشيخ الألباني : منکر بزيادة وهي صلاة الوسطى صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 625