7. اذان کا بیان
اذان کی ابتداء اور تاریخ اذان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت کا اندازہ کرتے تھے، اس وقت کوئی نماز کے لیے اذان نہیں دیتا تھا، تو ایک دن لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی، تو کچھ لوگ کہنے لگے : نصاریٰ کے مانند ایک ناقوس بنا لو، اور کچھ لوگ کہنے لگے : بلکہ یہود کے سنکھ کی طرح ایک سنکھ بنا لو، تو اس پر عمر (رض) نے کہا : کیا تم کسی شخص کو بھیج نہیں سکتے کہ وہ نماز کے لیے پکار دیا کرے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بلال ! اٹھو اور نماز کے لیے پکارو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١ (٦٠٤) ، صحیح مسلم/الصلاة ١ (٣٧٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٥ (١٩٠) ، (تحفة الأشراف : ٧٧٧٥) ، مسند احمد ٢/١٤٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 626
کلمات اذان دو دو مرتبہ کہنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال (رض) کو اذان دہری اور اقامت اکہری کہنے کا حکم دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١ (٦٠٣) ، ٢ (٦٠٥) ، ٣ (٦٠٧) ، أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٥٧) ، صحیح مسلم/الصلاة ٢ (٣٧٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٩ (٥٠٨، ٥٠٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧ (١٩٣) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٦ (٧٢٩، ٧٣٠) ، (تحفة الأشراف : ٩٤٣) ، مسند احمد ٣/١٠٣، ١٨٩، سنن الدارمی/الصلاة ٦ (١٢٣٠، ١٢٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 627
کلمات اذان دو دو مرتبہ کہنے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عہدرسالت میں اذان دہری اور اقامت اکہری تھی، البتہ تم قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة (دو بار) کہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٩ (٥١٠، ٥١١) ، (تحفة الأشراف : ٧٤٥٥) ، مسند احمد ٢/٨٥، ٨٧، سنن الدارمی/الصلاة ٦ (١٢٢٩) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (٦٦٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 628
اذان میں دونوں کلمے شہادت کو ہلکی آواز سے کہنے سے متعلق
ابو محذورہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں بٹھایا، اور حرفاً حرفاً اذان سکھائی (راوی) ابراہیم کہتے ہیں : وہ ہمارے اس اذان کی طرح تھی، بشر بن معاذ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے (ابراہیم سے) کہا کہ میرے اوپر دہراؤ، تو انہوں نے کہا : اللہ أكبر اللہ أكبر ٢ ؎ أشهد أن لا إله إلا اللہ دو مرتبہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ دو مرتبہ، پھر اس آواز سے دھیمی آواز میں کہا : وہ اپنے اردگرد والوں کو سنا رہے تھے، أشهد أن لا إله إلا اللہ دو بار، أشهد أن محمدا رسول اللہ دو بار، حى على الصلاة دو بار، حى على الفلاح دو بار، اللہ أكبر اللہ أكبر،لا إله إلا اللہ ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٨ (٥٠٠، ٥٠١، ٥٠٣، ٥٠٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦ (١٩١) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٢ (٧٠٨) ، مسند احمد ٢/ ٤٠٨، ٤٠٩، سنن الدارمی/الصلاة ٧ (١٢٣٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) ، ویأتي عند المؤلف : (٦٣٣) (منکر) (یہ حدیث ابو محذورہ سے مروی دیگر روایات کے بر خلاف ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ اذان کے کلمات (١٩) ہیں، دیکھیں اگلی روایات ) وضاحت : ١ ؎: شہادتیں کے کلمات کو پہلے دو بار آہستہ کہنے، پھر انہیں دو بار بلند آواز سے پکار کر کہنے کو ترجیع کہتے ہیں، جیسا کہ ابوداؤد کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے، لیکن باب کی حدیث سے اس کے برعکس ظاہر ہے، الاّ یہ کہ دون ذلک کی تاویل سوی ذالک سے کی جائے۔ ٢ ؎: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر کلمات کی طرح تکبیر بھی دو ہی بار ہے لیکن آگے روایت آرہی ہے جس میں اذان کے کلمات ضبط کئے گئے ہیں، اس میں تکبیر چار بار ہے نیز اس روایت میں ترجیع کی تصریح آئی ہے، اور بلال (رض) کی اذان میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں، ترجیع کے ساتھ بھی اذان کہی جاسکتی ہے اور بغیر ترجیع کے بھی۔ قال الشيخ الألباني : منکر مخالف للروايات الأخرى عن أبي محذورة صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 629
اذان کے کلمات کی تعداد
ابو محذورہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اذان کے انیس کلمے ہیں، اور اقامت کے سترہ کلمے ، پھر ابومحذورۃ (رض) نے انیس اور سترہ کلموں کو گن کر بتایا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٣ (٣٧٩) ، سنن ابی داود/ الصلاة ٢٨ (٥٠٢، ٥٠٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٦ (١٩٢) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٢ (٧٠٩) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٦٩) ، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٦٣٢، ٦٣٤ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اذان میں انیس کلمات ترجیع والی اذان کے ساتھ مکمل ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 630
اذان کس طریقہ سے دی جائے؟
ابو محذورہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اذان سکھائی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ پھر آپ لوٹتے اور کہتے : أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، حى على الصلاة، حى على الصلاة، حى على الفلاح، حى على الفلاح، اللہ أكبر اللہ أكبر،لا إله إلا اللہ۔ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣١ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 631
اذان کس طریقہ سے دی جائے؟
عبداللہ بن محیریز جو ابومحذورہ کے زیر پرورش ایک یتیم کے طور پر رہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ان کے شام کے سفر کے لیے سامان تیار کیا) کہتے ہیں کہ میں نے ابو محذورہ (رض) سے کہا : میں شام جا رہا ہوں، اور میں ڈرتا ہوں کہ آپ کی اذان کے متعلق مجھ سے کہیں سوال کیا جائے (اور میں جواب نہ دے پاؤں، اس لیے مجھے اذان سکھا دو ) ، تو آپ نے کہا : میں چند لوگوں کے ساتھ نکلا، رسول اللہ ﷺ کے حنین سے لوٹتے وقت ہم حنین کے راستہ میں تھے، ہم رسول اللہ ﷺ سے راستے میں ملے، آپ ﷺ کے مؤذن نے نماز کے لیے آپ ﷺ کے پاس (ہی) اذان دی، ہم نے مؤذن کی آواز سنی، تو ہم اس کی نقل اتارنے، اور اس کا مذاق اڑانے لگے، رسول اللہ ﷺ نے آواز سنی تو ہمیں بلوایا تو ہم آ کر آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ نے پوچھا : میں نے (ابھی) تم میں سے کس کی آواز سنی ہے ؟ تو لوگوں نے میری جانب اشارہ کیا، اور انہوں نے سچ کہا تھا، آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا، اور مجھے روک لیا اور فرمایا : اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو ، تو میں اٹھا، آپ ﷺ نے بذات خود مجھے اذان سکھائی، آپ نے فرمایا : کہو : اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : دوبارہ اپنی آواز کھینچو (بلند کرو) ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کہو ! أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ،أشهد أن محمدا رسول اللہ، حى على الصلاة، حى على الصلاة، حى على الفلاح، حى على الفلاح، اللہ أكبر اللہ أكبر، لا إله إلا اللہ، پھر جس وقت میں نے اذان پوری کرلی تو آپ نے مجھے بلایا، اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے مکہ میں اذان دینے پر مامور فرما دیجئیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہیں اس کے لیے مامور کردیا ، چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کے عامل عتاب بن اسید (رض) کے پاس مکہ آیا تو میں نے ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے نماز کے لیے اذان دی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣٠ (حسن صحیح ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 632
دوران سفر اذان دینے سے متعلق احادیث
ابومحذورہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ حنین سے نکلے تو میں (بھی) نکلا، میں اہل مکہ کا دسواں شخص تھا، ہم انہیں تلاش کر رہے تھے تو ہم نے انہیں نماز کے لیے اذان دیتے ہوئے سنا، تو ہم بھی اذان دینے (اور) ان کا مذاق اڑانے لگے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان لوگوں میں سے ایک اچھی آواز والے شخص کی اذان میں نے سنی ہے چناچہ آپ نے ہمیں بلا بھیجا تو یکے بعد دیگرے سبھی لوگوں نے اذان دی، اور میں ان میں سب سے آخری شخص تھا جب میں اذان دے چکا (تو آپ ﷺ نے فرمایا) : ادھر آؤ! چناچہ آپ نے مجھے اپنے سامنے بٹھایا، اور میری پیشانی پر (شفقت کا) ہاتھ پھیرا، اور تین بار برکت کی دعائیں دیں، پھر فرمایا : جاؤ اور خانہ کعبہ کے پاس اذان دو (تو) میں نے کہا : کیسے اللہ کے رسول ؟ تو آپ نے مجھے اذان سکھائی جیسے تم اس وقت اذان دے رہے ہو : اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ (پھر دوبارہ) أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، حى على الصلاة، حى على الصلاة، حى على الفلاح، حى على الفلاح، اللہ أكبر اللہ أكبر، لا إله إلا اللہ، اور فجر میں الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے کہا، (اور) کہا : مجھے آپ نے اقامت دہری سکھائی : اللہ أكبر اللہ أكبر، اللہ أكبر اللہ أكبر، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن لا إله إلا اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، أشهد أن محمدا رسول اللہ، حى على الصلاة، حى على الصلاة، حى على الفلاح، حى على الفلاح، قد قامت الصلاة،قد قامت الصلاة، اللہ أكبر اللہ أكبر، لا إله إلا اللہ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ یہ پوری حدیث مجھے عثمان نے بتائی، وہ اسے اپنے والد اور عبدالملک بن ابی محذورہ (رض) کی ماں دونوں کے واسطہ سے روایت کر رہے تھے کہ ان دونوں نے اسے ابومحذورہ (رض) سے سنی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 633
دوران سفر جو لوگ تنہا نماز پڑھیں ان کیلئے اذان دینا چاہئے
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچا زاد بھائی دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے (دوسری بار انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک ساتھی دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم دونوں سفر کرو تو دونوں اذان کہو ١ ؎ اور دونوں اقامت کہو، اور جو تم دونوں میں بڑا ہو وہ امامت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٨ (٦٣٠) ، الجھاد ٤٢ (٢٨٤٨) ، صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٧ (٢٠٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٤٦ (٩٧٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٢) ، مسند احمد ٣/٤٣٦، ٥/٥٣، سنن الدارمی/الصلاة ٤٢ (١٢٨٨) ، ویأتي عند المؤلف : ٧٨٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک اذان کہے اور دوسرا جواب دے، یا یہ کہا جائے کہ دونوں کی طرف اسناد مجازی ہے، مطلب یہ ہے کہ تم دونوں کے درمیان اذان اور اقامت ہونی چاہیئے، جو بھی کہے، اذان اور اقامت کا معاملہ چھوٹے یا بڑے کے ساتھ خاص نہیں، البتہ امامت جو بڑا ہو وہ کرے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 634
دوسرے شخص کی اذان پر قناعت کرنے کا بیان
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس روز قیام کیا، آپ ﷺ رحیم (بہت مہربان) اور نرم دل تھے، آپ نے سمجھا کہ ہم اپنے گھر والوں کے مشتاق ہوں گے، تو آپ نے ہم سے پوچھا : ہم اپنے گھروں میں کن کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں ؟ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ نے فرمایا : تم اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ، (اور) ان کے پاس رہو، اور (جو کچھ سیکھا ہے اسے) ان لوگوں کو بھی سیکھاؤ، اور جب نماز کا وقت آپہنچے تو انہیں حکم دو کہ تم میں سے کوئی ایک اذان کہے، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٧ (٦٢٨) مطولاً ، ١٨ (٦٣١) مطولاً ، ٣٥ (٦٥٨) ، ٤٩ (٦٨٥) مطولاً ، ١٤٠ (٨١٩) ، الأدب ٢٧ (٦٠٠٨) مطولاً ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٤٦) مطولاً ، صحیح مسلم/المساجد ٥٣ (٦٧٤) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ٦١ (٥٨٩) ، (تحفة الأشراف : ١١١٨٢) ، ویأتی عند المؤلف (٦٧٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 635
دوسرے شخص کی اذان پر قناعت کرنے کا بیان
ایوب کہتے ہیں کہ ابوقلابہ نے مجھ سے کہا کہ عمرو بن سلمہ زندہ ہیں تم ان سے مل کیوں نہیں لیتے، (کہ براہ راست ان سے یہ حدیث سن لو) تو میں عمرو بن سلمہ (رض) سے ملا، اور میں نے ان سے جا کر پوچھا تو انہوں نے کہا : جب فتح (مکہ) کا واقعہ پیش آیا، تو ہر قبیلہ نے اسلام لانے میں جلدی کی، تو میرے باپ (بھی) اپنی قوم کے اسلام لانے کی خبر لے کر گئے، جب وہ (واپس) آئے تو ہم نے ان کا استقبال کیا، تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم، میں اللہ کے سچے رسول ﷺ کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا ہے : فلاں نماز فلاں وقت اس طرح پڑھو، فلاں نماز فلاں وقت اس طرح، اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان دے، اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/المغازي ٥٣ (٤٣٠٢) مطولاً ، سنن ابی داود/الصلاة ٦١ (٥٨٥، ٥٨٦، ٥٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٤٥٦٥) ، مسند احمد ٣/٤٧٥، و ٥/٢٩، ٣٠، ٧١، ویأتي عند المؤلف بأرقام : ٧٦٨، ٧٩٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 636
ایک مسجد کے واسطے دو موذنوں کا ہونا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں تو تم لوگ کھاؤ پیو ١ ؎ یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٢ (٦٢٠) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٣ (١٤) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: بلال (رض) سحری کے لیے سونے والوں کو جگاتے ہیں، اور فجر کی تیاری کے لیے رات باقی رہتی تھی تبھی اذان دیتے تھے، اور عبداللہ بن ام مکتوم (رض) صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد اذان دیا کرتے تھے، اس لیے بلال (رض) کی اذان پر کھاتے پیتے رہنے کی اجازت دی گئی۔ قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 637
ایک مسجد کے واسطے دو موذنوں کا ہونا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں، تو تم لوگ کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم ابن ام مکتوم کے اذان دینے کی آواز سنو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصیام ٨ (١٠٩٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٥ (٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٠٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 638
اگر دو موذن ہوں تو ایک ساتھ اذان دیں یا الگ الگ
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں ، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣ (٦٢٢، ٦٢٣) ، مختصراً الصوم ١٧ (١٩١٨، ١٩١٩) ، صحیح مسلم/الصیام ٨ (١٠٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٧٥٣٥) ، مسند احمد ٦/٤٤، ٤٥، ١٨٥، ١٨٦، سنن الدارمی/الصلاة ٤ (١٢٢٧) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مبالغہ کے طور پر ایسا کہا ہے، ورنہ صحیح بخاری میں ابن مسعود (رض) کی روایت میں صراحت ہے کہ بلال (رض) تہجد پڑھنے والوں کو اور سونے والوں کی متنبہ کرنے کے لیے اذان دیتے تھے کہ جا کر سحری کھالو، یا غسل وغیرہ کی ضرورت ہو تو فارغ ہو لو، (دیکھئیے حدیث نمبر ٦٤٢ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 639
اگر دو موذن ہوں تو ایک ساتھ اذان دیں یا الگ الگ
انیسہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں تو کھاؤ پیو، اور جب بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند کر دو ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٣) ، مسند احمد ٦/٤٣٣ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ ان بیشتر روایتوں کے خلاف ہے جن میں ہے کہ بلال کی اذان پہلے ہوتی تھی، چناچہ ابن عبدالبر وغیرہ نے کہا ہے کہ اس روایت میں قلب ہوا ہے، اور صحیح وہی ہے جو بیشتر روایتوں میں ہے، امام بیہقی نے ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اگر یہ روایت صحیح ہے تو ممکن ہے ان دونوں کے درمیان باری رہی ہو، تو جب بلال (رض) کی باری رات میں اذان کہنے کی ہوتی تو وہ رات میں اذان کہتے، اور جب ابن ام مکتوم (رض) کی ہوتی تو وہ رات میں کہتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 640
نماز کے اوقات کے علاوہ اذان دینا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بلال رات رہتی ہے تبھی اذان دے دیتے ہیں تاکہ سونے والوں کو جگا دیں، اور تہجد پڑھنے والوں کو (سحری کھانے کے لیے) گھر لوٹا دیں، اور وہ اس طرح نہیں کرتے یعنی صبح ہونے پر اذان نہیں دیتے ہیں بلکہ پہلے ہی دیتے ہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٣ (٦٢١) مطولاً ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٨) مطولاً ، أخبار الآحاد ١ (٧٢٤٨) مطولاً ، صحیح مسلم/الصوم ٨ (١٠٩٣) مطولاً ، سنن ابی داود/الصوم ١٧ (٢٣٤٧) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٢٣ (١٦٩٦) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٩٣٧٥) ، مسند احمد ١/٣٨٦، ٣٩٢، ٤٣٥، ویأتي عند المؤلف بأتم منہ في الصیام ٣٠ برقم : ٢١٧٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: لہٰذا ان کی اذان پر کھانا پینا نہ چھوڑو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 641
اذان فجر کے وقت کا بیان
انس (رض) سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہ ﷺ سے فجر کی اذان کا وقت پوچھا، تو آپ نے بلال کو حکم دیا، تو انہوں نے فجر طلوع ہونے کے بعد اذان دی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو انہوں نے فجر کو مؤخر کیا یہاں تک کہ خوب اجالا ہوگیا، پھر آپ نے انہیں (اقامت کا) حکم دیا، تو انہوں نے اقامت کہی، اور آپ نے نماز پڑھائی پھر فرمایا : یہ ہے فجر کا وقت ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٨١٥) ، مسند احمد ٣/١٢١ (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 642
اذان فجر کے وقت کا بیان
ابوحجیفہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، تو بلال (رض) نے نکل کر اذان دی، تو وہ اپنی اذان میں اس طرح کرنے لگے یعنی (حى على … کے وقت) دائیں اور بائیں مڑ رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٩ (٦٣٤) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١١٨٠٧) ، مسند احمد ٤/٣٠٨، سنن الدارمی/الصلاة ٨ (١٢٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 643
اذان دینے کے وقت آواز کو اونچا کرنا
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری (رض) نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ١ ؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٥ (٦٠٩) ، بدء الخلق ١٢ (٣٢٩٦) ، التوحید ٥٢ (٧٥٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٥ (٧٢٣) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٥) ، مسند احمد ٣/٦، ٣٥، ٤٣، (تحفة الأشراف : ٤١٠٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: کوئی اور چیز عام ہے اس میں حیوانات نباتات اور جمادات سبھی داخل ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں بھی قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بھی مؤذن کی اذان کی گواہی دیں گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 644
اذان دینے کے وقت آواز کو اونچا کرنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اسے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک کو یہ کہتے سنا ہے : مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جائے گی، اور تمام خشک وتر اس کی گواہی دیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٣١ (٥١٥) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٥ (٧٢٤) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٦٦) ، مسند احمد ٢/٢٦٦، ٤١١، ٤٢٩، ٤٥٨، ٤٦١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی جتنی بلند اس کی آواز ہوگی اسی قدر اس کی بخشش ہوگی، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قدر مسافت میں اس کے جتنے گناہوں کی سمائی ہوگی وہ سب بخش دیئے جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 645
اذان دینے کے وقت آواز کو اونچا کرنا
براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر صلاۃ یعنی رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے صلاۃ بھیجتے یعنی ان کے حق میں دعا کرتے ہیں، اور مؤذن کو جہاں تک اس کی آواز پہنچتی ہے بخش دیا جاتا ہے، اور خشک وتر میں سے جو بھی اسے سنتا ہے اس کی تصدیق کرتا ہے، اور اسے ان تمام کے برابر ثواب ملے گا جو اس کے ساتھ صلاۃ پڑھیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٨٨) ، مسند احمد ٤/٢٨٤، ٢٩٨، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٩٤ (٦٦٤) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥١ (٩٩٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 646
نماز فجر میں تثویب سے متعلق
ابو محذورہ (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے لیے اذان دیتا تھا، اور میں فجر کی پہلی اذان ٢ ؎ میں کہتا تھا : حى على الفلاح، الصلاة خير من النوم، الصلاة خير من النوم، اللہ أكبر اللہ أكبر، لا إله إلا اللہ آؤ کامیابی کی طرف، نماز نیند سے بہتر ہے، نماز نیند سے بہتر ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٠) ، مسند احمد ٣/٤٠٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: تثویب سے مراد فجر کی اذان میں الصلاة خير من النوم کہنا ہے۔ ٢ ؎: پہلی اذان سے مراد اذان ہے، اقامت کو دوسری اذان کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 647
نماز فجر میں تثویب سے متعلق
اس سند سے بھی سفیان سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف : ١٢١٧٠) (صحیح) ابوعبدالرحمن امام نسائی کہتے ہیں : ابو جعفر سے مراد ابو جعفر الفراء نہیں ہیں ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 648
کلمات اذان کے آخری جملے
بلال (رض) کہتے ہیں کہ اذان کا آخری کلمہ اللہ أكبر اللہ أكبر، لا إله إلا اللہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 649
کلمات اذان کے آخری جملے
اسود کہتے ہیں کہ بلال (رض) کی اذان کے آخری کلمات یہ تھے اللہ أكبر اللہ أكبر، لا إله إلا اللہ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٣١) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 650
کلمات اذان کے آخری جملے
اس سند سے بھی اسود سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٠٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 651
کلمات اذان کے آخری جملے
ابو محذورہ (رض) سے روایت ہے کہ اذان کا آخری کلمہ لا إله إلا اللہ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢١٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 652
اگر رات کے وقت بارش برس رہی ہو تو جماعت میں حاضر ہونا لازم نہیں ہے
عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ ہمیں قبیلہ ثقیف کے ایک شخص نے خبر دی کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کے منادی کو سفر میں بارش کی رات میں حى على الصلاة، حى على الفلاح، صلوا في رحالکم نماز کے لیے آؤ، فلاح (کامیابی) کے لیے آؤ، اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو کہتے سنا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٥٧٠٦) ، مسند احمد ٤/١٦٨، ٣٤٦، ٥/٣٧٠، ٣٧٣ (صحیح الإسناد ) وضاحت : ١ ؎: یہ نماز میں نہ آنے کے اجازت ہے، اور حى على الصلاة میں جو آنا چاہے اس کے لیے آنے کی نداء ہے، دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 653
اگر رات کے وقت بارش برس رہی ہو تو جماعت میں حاضر ہونا لازم نہیں ہے
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ایک سرد اور ہوا والی رات میں نماز کے لیے اذان دی، تو انہوں نے کہا : ألا صلوا في الرحال لوگو سنو ! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب سرد بارش والی رات ہوتی تو مؤذن کو حکم دیتے تو وہ کہتا : ألا صلوا في الرحال لوگو سنو ! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤٠ (٦٦٦) ، صحیح مسلم/المسافرین ٣ (٦٩٧) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢١٤ (١٠٦٣) ، وقد أخرجہ : موطا امام مالک/الصلاة ٢ (١٠) ، مسند احمد ٢/٦٣، سنن الدارمی/الصلاة ٥٥ (١٣١١) ، (تحفة الأشراف : ٨٣٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 654
جو شخص دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھے پہلی نماز کے وقت میں تو اس کو چاہئے کہ اذان دے
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چلے یہاں تک کہ عرفہ آئے، تو آپ کو نمرہ میں اپنے لیے خیمہ لگا ہوا ملا، وہاں آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء نامی اونٹنی پر کجاوہ کسنے کا حکم دیا، تو وہ کسا گیا (اور آپ سوار ہو کر چلے) یہاں تک کہ جب آپ وادی کے بیچو بیچ پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال (رض) نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھائی، پھر بلال (رض) نے اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عصر پڑھائی، اور ان دونوں کے درمیان کوئی اور چیز نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث حدیث رقم : ٦٠٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: نمرہ عرفات کی حدود سے پہلے ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 655
جو شخص دو وقت کی نماز ایک پڑھے پہلی نماز کے وقت ختم ہونے کے بعد تو اس کو اذان دینا چاہئے؟
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ (عرفہ سے) لوٹے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے، تو آپ ﷺ نے ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشاء پڑھائی، اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٦٣٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 656
جو شخص دو وقت کی نماز ایک پڑھے پہلی نماز کے وقت ختم ہونے کے بعد تو اس کو اذان دینا چاہئے؟
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر (رض) کے ساتھ مزدلفہ میں تھے، تو انہوں نے اذان دی پھر اقامت کہی، اور ہمیں مغرب پڑھائی، پھر کہا : عشاء بھی پڑھ لی جائے، پھر انہوں نے عشاء دو رکعت پڑھائی، میں نے کہا : یہ کیسی نماز ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس جگہ ایسی ہی نماز پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث حدیث رقم : ٤٨٢ (صحیح) (لیکن ” ثم قال : الصلاة “ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، اس کی جگہ ” ثم أقام الصلاة “ صحیح ہے، جیسا کہ رقم : ٨٢ میں گزرا) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح دون قوله ثم قال الصلاة والمحفوظ ثم أقام صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 657
جو شخص دو وقت کی نماز ایک پڑھے پہلی نماز کے وقت ختم ہونے کے بعد تو اس کو اذان دینا چاہئے؟
سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک اقامت سے پڑھی، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہم نے (بھی) ایسے ہی کیا تھا، اور ابن عمر رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٨٢ (شاذ) (لیکن ” بإقامة واحدة “ (ایک اقامت سے) کا ٹکڑا شاذ ہے، محفوظ یہ ہے کہ ” دو اقامت سے پڑھی “ جیسا کہ رقم : ٤٨٢ میں گزرا ) قال الشيخ الألباني : شاذ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 658
جو شخص دو نمازیں ایک ساتھ پڑھے اسے کتنی مرتبہ تکبیر کہنی چاہئے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مزدلفہ میں ایک اقامت سے نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٨٢ (شاذ) (ایک اقامت سے دونوں نمازیں پڑھنے کی بات شاذ ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ہر ایک الگ الگ اقامت سے پڑھے ) قال الشيخ الألباني : شاذ م ولفظ البخاري كل واحدة منهما بإقامة وهو المحفوظ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 659
جو شخص دو نمازیں ایک ساتھ پڑھے اسے کتنی مرتبہ تکبیر کہنی چاہئے؟
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے مزدلفہ میں دو نمازیں جمع کیں (اور) ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک اقامت سے پڑھا ١ ؎ اور ان دونوں (نمازوں) سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٩٦ (١٦٧٣) ، سنن ابی داود/المناسک ٦٥ (١٩٢٧، ١٩٢٨) ، مسند احمد ٢/٥٦، ١٥٧، سنن الدارمی/المناسک ٥٢ (١٩٢٦) ، ویأتي عند المؤلف : ٣٠٣١) (تحفة الأشراف : ٦٩٢٣) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کہی، اور اس سے پہلے جو روایتیں گزری ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ دونوں کے لیے ایک ہی اقامت کہی، دونوں کے لیے الگ الگ اقامت کہنے کی تائید جابر (رض) کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسلم میں آئی ہے، اور جس میں بأذان واحد وإقامتین کے الفاظ آئے ہیں، نیز اسامہ (رض) کی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے اقیمت الصلو ۃ فصلی المغرب، ثم أناخ کل إنسان بعیرہ فی منزلہ، ثم أقیمت العشاء فصلاہا لہذا مثبت کی روایت کو منفی روایت پر ترجیح دی جائے گی، یا ایک اقامت والی حدیث کی تاویل یہ کی جائے کہ ہر نماز کے لیے اقامت کہی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 660
قضاء نمازوں کے لئے اذان دینے کا بیان
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ مشرکین نے غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن ہمیں ظہر سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، (یہ (واقعہ) قتال کے سلسلہ میں جو (آیتیں) اتری ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے) چناچہ اللہ عزوجل نے وكفى اللہ المؤمنين القتال اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مؤمنوں کو کافی ہوگیا (الاحزاب : ٢٥ ) نازل فرمائی تو رسول اللہ ﷺ نے بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی نماز کی اقامت کہی تو آپ نے اسے ویسے ہی ادا کیا جیسے آپ اسے اس کے وقت پر ادا کرتے تھے، پھر انہوں نے عصر کی اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ویسے ہی ادا کیا جیسے آپ اسے اس کے وقت پر پڑھا کرتے تھے، پھر انہوں نے مغرب کی اذان دی تو آپ نے ویسے ہی ادا کیا، جیسے آپ اسے اس کے وقت پر پڑھا کرتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤١٢٦) ، مسند احمد ٣/٢٥، ٤٩، ٦٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٦ (١٥٦٥) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 661
اگر کئی نمازیں قضا ہوجائیں ایک ہی اذان تمام حضرات کے لئے کافی ہے لیکن تکبیر ہر ایک نماز کے لئے الگ الگ ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جنگ خندق (احزاب) کے دن مشرکین نے نبی اکرم ﷺ کو چار نمازوں سے روکے رکھا، چناچہ آپ نے بلال (رض) کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھی، پھر بلال (رض) نے تکبیر کہی تو آپ ﷺ نے عصر پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ نے عشاء پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٢٣ (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ” ابو عبیدہ “ کا اپنے والد ابن مسعود سے سماع نہیں ہے ) قال الشيخ الألباني : صحيح لغيره صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 662
ہر ایک وقت کی نماز کے واسطے صرف تکبیر پڑھنا بھی کافی ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے، تو مشرکوں نے ہمیں ظہر عصر، مغرب اور عشاء سے روکے رکھا، تو جب مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے نماز ظہر کے لیے اقامت کہی تو ہم نے ظہر پڑھی (پھر) اس نے عصر کے لیے اقامت کہی تو ہم نے عصر پڑھی، (پھر) اس نے مغرب کے لیے اقامت کہی تو ہم لوگوں نے مغرب پڑھی، پھر اس نے عشاء کے لیے اقامت کہی تو ہم نے عشاء پڑھی، پھر نبی اکرم ﷺ ہماری طرف گھومے (اور) فرمایا : روئے زمین پر تمہارے علاوہ کوئی جماعت نہیں جو اللہ عزوجل کو یاد کر رہی ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٢٣ (صحیح) (اس کے راوی ” ابو الزبیر “ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، اور ” ابو عبیدہ “ اور ان کے والد ” ابن مسعود “ کے درمیان سند میں انقطاع ہے، مگر شواہد سے تقویت پا کر صحیح ہے ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 663
جو شخص ایک رکعت پڑھنا بھول گیا اور سلام پھیر کر چل دیا
معاویہ بن حدیج (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن نماز پڑھائی، اور ابھی نماز کی ایک رکعت باقی ہی رہ گئی تھی کہ آپ نے سلام پھیر دیا، ایک شخص آپ کی طرف بڑھا، اور اس نے عرض کیا کہ آپ ایک رکعت نماز بھول گئے ہیں، تو آپ مسجد کے اندر آئے اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی، پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو ایک رکعت نماز پڑھائی، میں نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے مجھ سے کہا : کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں، لیکن میں اسے دیکھ لوں (تو پہچان لوں گا) کہ یکایک وہ میرے قریب سے گزرا تو میں نے کہا : یہ ہے وہ شخص، تو لوگوں نے کہا : یہ طلحہ بن عبیداللہ (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٩٦ (١٠٢٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٣٧٦) ، مسند احمد ٦/٤٠١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 664
چرواہے کا اذان دینا
عبداللہ بن ربیعہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ نے ایک شخص کی آواز سنی جو اذان دے رہا تھا، تو آپ ﷺ نے بھی اسی طرح کہا جیسے اس نے کہا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کوئی بکریوں کا چرواہا ہے، یا اپنے گھر والوں سے بچھڑا ہوا ہے ، لوگوں نے دیکھا تو وہ (واقعی) بکریوں کا چرواہا نکلا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٢٥١) ، مسند احمد ٤/٣٣٦، وفي الیوم واللیلة ١٨ (٣٨) (صحیح الإسناد ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 665
جو شخص تنہا نماز پڑھے اور وہ شخص اذان دے
عقبہ بن عامر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : تمہارا رب اس بکری کے چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر اذان دیتا اور نماز پڑھتا ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے : دیکھو میرے اس بندے کو یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، یہ مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے (اس) بندے کو بخش دیا، اور اسے جنت میں داخل کردیا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٢ (١٢٠٣) ، (تحفة الأشراف : ٩٩١٩) ، مسند احمد ٤/١٤٥، ١٥٧، ١٥٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 666
جو شخص تنہا نماز ادا کرے اور تکبیر پڑھے
رفاعہ بن رافع (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے، آگے راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٦١) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١١ (٣٠٢) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٣٦٠٤) ، مسند احمد ٤/٣٤٠، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٤٨ (٨٥٧، ٨٥٨، ٨٥٩، ٨٦٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٧ (٤٦٠) ، ویأتي عند المؤلف : ١٠٥٤، ١١٣٧، ١٣١٤، ١٣١٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ مسئی صلا ۃ جلدی جلدی صلاۃ پڑھنے والے شخص والی حدیث ہے جسے مصنف نے درج ذیل تین ابواب : باب الرخص ۃ فی ترک الذکر فی الرکوع، باب الرخص ۃ فی الذکر فی السجود اور باب أقل ما یجزی بہ الصلا ۃ میں ذکر کیا ہے، لیکن ان تینوں جگہوں پر کسی میں بھی اقامت کا ذکر نہیں ہے، البتہ ابوداؤد اور ترمذی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اس میں فتوضأ کما امرک اللہ ثم تشہد فأقم کے الفاظ وارد ہیں جس سے حدیث اور باب میں مناسبت ظاہر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 667
تکبیر کس طریقہ سے پڑھنا چاہئے؟
جامع مسجد کے مؤذن ابو مثنیٰ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے اذان کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اذان دوہری اور اقامت اکہری ہوتی تھی، البتہ جب آپ قد قامت الصلاة کہتے تو اسے دو بار کہتے، چناچہ جب ہم قد قامت الصلاة سن لیتے، تو وضو کرتے پھر ہم نماز کے لیے نکلتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٢٩ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ایسا بعض لوگ اور کبھی کبھی کرتے تھے، پھر بھی آپ کی لمبی قراءت کے سبب جماعت پالیتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 668
ہر شخص کا اپنے اپنے لئے تکبیر کہنا
مالک بن حویرث (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے اور میرے ایک ساتھی سے فرمایا : جب نماز کا وقت آجائے تو تم دونوں اذان دو ، پھر دونوں اقامت کہو، پھر تم دونوں میں سے کوئی ایک امامت کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٣٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ترجمہ الباب پر ثم أقیما سے استدلال ہے، اس سے لازم آتا ہے کہ اذان بھی ہر ایک اپنے لیے الگ الگ کہے، لیکن یہ بعید ازفہم ہے، اور اس کی توجیہ حدیث رقم : ٦٣٥ میں گزر چکی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 669
فضیلت اذان سے متعلق
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا ١ ؎ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے کہ اذان (کی آواز) نہ سنے، پھر جب اذان ہو چکتی ہے تو واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے، تو (پھر) پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، اور جب اقامت ہو چکتی ہے تو (پھر) آجاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اور اس کے نفس کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے (کہ) فلاں چیز یاد کر فلاں چیز یاد کر، پہلے یاد نہ تھیں یہاں تک کہ آدمی کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٤ (٦٠٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/، سنن ابی داود/المساجد ٣١ (٥١٦) ، موطا امام مالک/الالهة ١ (٦) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٨) ، مسند احمد ٢/٣١٣، ٣٩٨، ٤١١، ٤٦٠، ٥٠٣، ٥٢٢، ٥٣١، سنن الدارمی/الصلاة ١١ (١٢٤٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی تیزی سے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے جس سے اس کے جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور پیچھے سے ہوا خارج ہونے لگتی ہے، یا وہ بالقصد شرارتاً گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 670
اذان کہنے پر قرعہ ڈالنے کا بیان
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ جان لیں کہ اذان دینے میں اور پہلی صف میں رہنے میں کیا ثواب ہے، پھر قرعہ اندازی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ پائیں تو وہ اس کے لیے قرعہ اندازی کریں گے، نیز اگر وہ جان لیں (کہ) ظہر اول وقت پر پڑھنے کا کیا ثواب ہے تو وہ اس کی طرف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے، اور اگر وہ اس ثواب کو جان لیں جو عشاء اور فجر میں ہے تو وہ ان دونوں صلاتوں میں ضرور آئیں گے، گو چوتڑ کے بل گھسٹ کر آنا پڑے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٥٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: حدیث میں حبوا کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہاتھوں کے سہارے چلنے کے ہیں جیسے بچہ ابتداء میں چلتا ہے یا چوتڑوں کے بل گھسٹ کر چلنے کو حبوا کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 671
موذن ایسے شخص کو بنانا چاہئے کہ جو اذان پر معاوضہ وصول نہ کرے
عثمان بن ابی العاص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے میرے قبیلے کا امام بنا دیجئیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : تم ان کے امام ہو (لیکن) ان کے کمزور لوگوں کی اقتداء کرنا ١ ؎ اور ایسے شخص کو مؤذن رکھنا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٤٠ (٥٣١) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٣ (٩٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٧٧٠) ، مسند احمد ٤/٢١ (٢١٧، ٢١٨) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/ الصلاة ٣٧ (٤٦٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان کی رعایت کرتے ہوئے نماز ہلکی پڑھانا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 672
اذان کے کلمات موذن کے ساتھ دہرانا
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسا مؤذن کہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٧ (٦١١) ، صحیح مسلم/الصلاة ٧(٣٨٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦ (٥٢٢) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٠ (٢٠٨) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢٠) ، (تحفة الأشراف : ٤١٥٠) ، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٢) ، مسند احمد ٣/٥، ٥٣، ٧٨، ٩٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٠ (١٢٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 673
اذان دینے کا اجر و ثواب
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ بلال (رض) کھڑے ہو کر اذان دینے لگے، جب وہ خاموش ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے یقین کے ساتھ اس طرح کہا، وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٦٤١) ، مسند احمد ٢/٣٥٢ (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 674
جو کلمات موذن کہے وہی کلمات سننے والے شخص کو بھی کہنا چاہئے
مجمع بن یحییٰ انصاری کہتے ہیں کہ میں ابوامامہ بن سہل بن حنیف (رض) کے پاس بیٹھا تھا کہ مؤذن اذان دینے لگا، اور اس نے کہا : اللہ أكبر اللہ أكبر، تو انہوں نے بھی دو مرتبہ اللہ أكبر اللہ أكبر کہا، پھر اس نے أشهد أن لا إله إلا اللہ کہا، تو انہوں نے بھی دو مرتبہ أشهد أن لا إله إلا اللہ کہا، پھر اس نے أشهد أن محمدا رسول اللہ کہا، تو انہوں نے بھی دو مرتبہ أشهد أن محمدا رسول اللہ کہا، پھر انہوں نے کہا : معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کہتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٢٣ (٩١٤) ، (تحفة الأشراف : ١١٤٠٠) ، وفي عمل الیوم واللیلة رقم : (٣٥٠، ٣٥١) ، مسند احمد ٤/٩٣، ٩٥، ٩٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 675
جو کلمات موذن کہے وہی کلمات سننے والے شخص کو بھی کہنا چاہئے
ابوامامہ بن سہل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنا تو جیسے اس نے کہا ویسے ہی آپ نے بھی کہا۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ، وقد أخرجہ المؤلف فی الیوم واللیلة برقم : (٣٤٩) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : سكت عنه الشيخ صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 676
جس وقت مؤذن حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہے تو سننے والا شخص کیا کہے؟
علقمہ بن وقاص کہتے ہیں کہ میں معاویہ (رض) کے پاس تھا کہ ان کے مؤذن نے اذان دی، تو آپ ویسے ہی کہتے رہے جیسے مؤذن کہہ رہا تھا یہاں تک کہ جب اس نے حى على الصلاة کہا تو انہوں نے : لا حول ولا قوة إلا باللہ کہا، پھر جب اس نے حى على الفلاح کہا تو انہوں نے : لا حول ولا قوة إلا باللہ کہا، اور اس کے بعد مؤذن جس طرح کہتا رہا وہ بھی ویسے کہتے رہے پھر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کہتے ہوئے سنا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١١٤٣١) ، مسند احمد ٤/٩١، ٩٨، سنن الدارمی/الصلاة ١٠ (١٢٣٩) (حسن ) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 677
اذان کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنا
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : جب مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے، اور مجھ پر صلاۃ وسلام ١ ؎ بھیجو کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت و برکت بھیجتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ ٢ ؎ طلب کرو کیونکہ وہ جنت میں ایک درجہ و مرتبہ ہے جو کسی کے لائق نہیں سوائے اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کے، اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں، تو جو میرے لیے وسیلہ طلب کرے گا، اس پر میری شفاعت واجب ہوجائے گی ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦ (٥٢٣) ، سنن الترمذی/المناقب ١ (٣٦١٤) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٧١) ، مسند احمد ٢/١٦٨، وفی الیوم واللیلة (٤٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صلاۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی رحمت و مغفرت کے ہیں، اور فرشتوں کی طرف ہو تو مغفرت طلب کرنے کے ہیں، اور بندوں کی طرف ہو تو دعا کرنے کے ہیں۔ ٢ ؎: وسیلہ کے معنی قرب کے، اور اس طریقہ کے ہیں جس سے انسان اپنے مقصود تک پہنچ جائے، یہاں مراد جنت کا وہ درجہ ہے جو نبی کریم ﷺ کو عطا کیا جائے گا۔ ٣ ؎: بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان اور توحید پر ہوا ہو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 678
اذان کے وقت کی دعا
سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے مؤذن (کی اذان) سن کر یہ کہا : وأنا أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله رضيت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالإسلام دينا اور میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے، اور محمد ﷺ کے رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الصلاة ٧ (٣٨٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٦ (٥٢٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٢ (٢١٠) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢١) ، (تحفة الأشراف : ٣٨٧٧) ، مسند احمد ١/١٨١، فی الیوم واللیلة (٧٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 679
اذان کے وقت کی دعا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی : اللہم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه المقام المحمود الذي وعدته إلا حلت له شفاعتي يوم القيامة اے اللہ ! اس کامل پکار اور قائم رہنے والی صلاۃ کے رب ! محمد ﷺ کو وسیلہ ١ ؎ اور فضیلت ٢ ؎ عطا فرما، اور مقام محمود ٣ ؎ میں پہنچا جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ٤ ؎ تو قیامت کے دن اس پر میری شفاعت نازل ہوگی ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٨ (٦١٤) ، تفسیر الإسراء ١١ (٤٧١٩) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٨ (٥٢٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ٤٣ (٢١١) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٤ (٧٢٣) ، (تحفة الأشراف : ٣٠٤٦) ، وفی الیوم واللیلة (٤٦) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: وسیلہ جنت کے درجات میں سے ایک اعلی درجہ کا نام ہے۔ ٢ ؎: فضیلت وہ اعلی مرتبہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوق پر حاصل ہوگا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ وسیلہ ہی کی تفسیر ہو۔ ٣ ؎: مقام محمود یہ وہ مقام ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نبی اکرم ﷺ کو عطا کرے گا، اور اسی جگہ آپ ﷺ وہ شفاعت عظمی فرمائیں گے جس کے بعد لوگوں کا حساب و کتاب ہوگا۔ ٤ ؎: بیہقی کی روایت میں اس دعا کے بعد إنک لا تخلف الميعاد کا اضافہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اسی طرح اس دعا کے پڑھتے وقت کچھ لوگ یا ا ٔرحم الراحمین کا اضافہ کرتے ہیں، اس اضافہ کا بھی کتب حدیث میں کہیں وجود نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 680
اذان اور اقامت کے درمیان نماز ادا کرنے سے متعلق
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر دو اذان ١ ؎ کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذان کے درمیان ایک نماز ہے، جو چاہے اس کے لیے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٤ (٦٢٤) ، ١٦ (٦٢٧) ، صحیح مسلم/المسافرین ٥٦ (٨٣٨) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣٠٠ (١٢٨٣) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٢ (١٨٥) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١١٠ (١١٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥٨) ، مسند احمد ٤/٨٦ و ٥/٥٤، ٥٥، ٥٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٥ (١٤٨٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: ہر دو اذان سے مراد اذان اور اقامت ہے جیسا کہ مؤلف نے ترجمۃ الباب میں اشارہ کیا ہے، اس حدیث سے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا استحباب ثابت ہو رہا ہے، جس کے لیے دوسرے دلائل موجود ہیں واللہ أعلم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 681
اذان اور اقامت کے درمیان نماز ادا کرنے سے متعلق
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ مؤذن جب اذان دیتا تو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ کھڑے ہوتے، اور ستون کے پاس جانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، اور نماز پڑھتے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نکلتے، اور وہ اسی طرح (نماز کی حالت میں) ہوتے، اور مغرب سے پہلے بھی پڑھتے، اور اذان و اقامت کے بیچ کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٩٥ (٥٠٣) ، الأذان ١٤ (٦٢٥) ، (تحفة الأشراف : ١١١٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد ٣/٢٨٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٥ (١٤٨١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی کرتے کیونکہ اذان اور اقامت میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 682
مسجد میں اذان ہونے کے بعدبغیر نماز ادا کئے نکل جانا کیسا ہے؟
ابوالشعثاء کہتے ہیں : میں نے ابوہریرہ (رض) کو دیکھا کہ ایک شخص اذان کے بعد مسجد سے گزرنے لگا یہاں تک کہ مسجد سے باہر نکل گیا، تو انہوں نے کہا : رہا یہ شخص تو اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٤٥ (٦٥٥) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٣ (٥٣٦) ، سنن الترمذی/الصلاة ٣٦ (٢٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الأذان ٧ (٧٣٣) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٧٧) ، مسند احمد ٢/٤١٠، ٤١٦، ٤٧١، ٥٠٦، ٥٣٧، سنن الدارمی/الصلاة ١٢ (١٢٤١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 683
مسجد میں اذان ہونے کے بعدبغیر نماز ادا کئے نکل جانا کیسا ہے؟
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک شخص نماز کی اذان ہوجانے کے بعد مسجد سے باہر نکلا، تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : اس شخص نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٦٨٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 684
اذان دینے والا شخص امام کو اطلاع دے کہ جس وقت نماز شروع ہونے لگے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ١ ؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہوجاتا اور آپ ﷺ پر فجر عیاں اور ظاہر ہوجاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کردیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٧ (٧٣٦) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٣٧) ، (تحفة الأشراف : ١٦٥٧٣) ، مسند احمد ٦/٣٤، ٧٤، ٨٣، ٨٥، ٨٨، ١٤٣، ٢١٥، ٢٤٨، ویأتي عند المؤلف في السھو ٧٤ (برقم : ١٣٢٩) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اس سے صراحت کے ساتھ ایک رکعت کے وتر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 685
اذان دینے والا شخص امام کو اطلاع دے کہ جس وقت نماز شروع ہونے لگے
کریب مولی ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کی تہجد (صلاۃ اللیل) کیسی تھی ؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ ﷺ نے وتر کے ساتھ گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے یہاں تک کہ نیند گہری ہوگئی، پھر میں نے آپ کو خراٹے لیتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کے پاس بلال (رض) آئے، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! نماز ؟ تو آپ نے اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں، پھر لوگوں کو نماز پڑھائی اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥ (١٣٨) ، ٣٦ (١٨٣) ، الأذان ٥٨ (٦٩٨) ، ٧٧ (٧٢٦) ، ١٦١ (٨٥٩) ، الوتر ١ (٩٩٢) ، العمل في الصلاة ١ (١١٩٨) ، تفسیر آل عمران ١٩ (٤٥٧١) ، ٢٠ (٤٥٧٢) ، الدعوات ١٠ (٦٣١٦) ، التوحید ٢٧ (٧٤٥٢) ، صحیح مسلم/المسافرین ٢٦ (٧٦٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ٣١٦ (١٣٦٤، ١٣٦٧) ، سنن الترمذی/الشمائل ٣٨، ٣٩، ٢٤٥، ٢٥٢، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٨١ (١٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٦٣٦٢) ، موطا امام مالک/صلاة اللیل ٢ (١١) ، مسند احمد ١/٢٤٢، ٣٥٨، ویأتي عند المؤلف برقم : ١٦٢١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 686
امام نکلے تو موؤذن تکبیر کہے
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو جب تک تم مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ٢٢ (٦٣٧) ، ٢٣ (٦٣٨) ، الجمعة ١٨ (٩٠٩) ، صحیح مسلم/المساجد ٢٩ (٦٠٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٤٦ (٥٣٩، ٥٤٠) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٩٨ (٥٩٢) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٠٦) ، مسند احمد ٥/٣٠٣، ٣٠٤، ٣٠٧، ٣٠٨، ٣٠٩، ٣١٠، سنن الدارمی/الصلاة ٤٧ (١٢٩٦، ١٢٩٧) ، ویأتي عند المؤلف في الإمامة برقم : ٧٩١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 687