8. مساجد کے متعلق کتاب
مساجد تعمیر کرنے کی فضیلت کا بیان
عمرو بن عبسہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے کوئی مسجد بنائی جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٠٧٦٧) ، مسند احمد ٤/٣٨٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 688
مساجد تعمیر کرنے میں فخر کرنا
انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ لوگ مساجد بنانے میں فخر و مباہات کریں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ١٢ (٤٤٩) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٢ (٧٣٩) ، (تحفة الأشراف : ٩٥١) ، مسند احمد ٣/١٣٤، ١٤٥، ١٥٢، ٢٣٠، ٢٨٣، سنن الدارمی/الصلاة ١٢٣ (١٤٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 689
کونسی مسجد پہلے بنائی گئی؟
ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ گلی میں راستہ چلتے ہوئے میں اپنے والد (یزید بن شریک) کو قرآن سنا رہا تھا، جب میں نے آیت سجدہ پڑھی تو انہوں نے سجدہ کیا، میں نے کہا : ابا محترم ! کیا آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں ؟ کہا : میں نے ابوذر (رض) سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : مسجد الحرام ، میں نے عرض کیا : پھر کون سی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مسجد الاقصیٰ ١ ؎ میں نے پوچھا : ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چالیس سال کا، اور پوری روئے زمین تمہارے لیے سجدہ گاہ ہے، تو تم جہاں کہیں نماز کا وقت پا جاؤ نماز پڑھ لو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٦) ، ٤٠ (٣٤٢٥) ، صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٠) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٧ (٧٥٣) ، (تحفة الأشراف : ١١٩٩٤) ، مسند احمد ٥/١٥٠، ١٥٦، ١٥٧، ١٦٠، ١٦٦، ١٦٧ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہاں ابراہیم (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کا مسجد بنانا مراد نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے، بلکہ مراد آدم (علیہ السلام) کا بنانا ہے، ابن ہشام کی کتاب التیبحان میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) جب کعبہ بنا چکے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس جانے اور ہاں ایک مسجد بنانے کا حکم دیا، چناچہ وہ گئے اور جا کر وہاں بھی انہوں نے ایک مسجد بنائی، (کذا فی زہرالربی) ، حافظ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ ١؍١٦٢ ) میں لکھتے ہیں کہ اہل کتاب کا کہنا ہے کہ مسجد الاقصیٰ کی تعمیر پہلے یعقوب (علیہ السلام) نے کی ہے، اگر یہ قول صحیح ہے تو ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل (علیہما السلام) کے خانہ کعبہ کی تعمیر اور یعقوب (علیہ السلام) کے مسجد الاقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا فاصلہ ہوسکتا ہے۔ تاریخ انسانی میں ایسا دوسری بار ہوا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 690
بیت اللہ شریف میں نماز پڑھنے کی فضیلت
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھی تو میں نے اس کے متعلق آپ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ : اس مسجد میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا افضل ہے، سوائے خانہ کعبہ کے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٦) (وعندہ ” عن ابن عباس عن میمونة، وھو الصواب کما في التحفة، (تحفة الأشراف : ١٨٠٥٧) ، مسند احمد ٦/٣٣٣، ویأتی عند المؤلف في المناسک ١٢٤ (برقم : ٢٩٠١) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: خانہ کعبہ کی ایک رکعت مسجد نبوی کی سو رکعت کے برابر ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہم کی حدیث میں ہے صلا ۃ فی مسجدي ہذا أفضل من ألف صلا ۃ في غیرہ إلا المسجدالحرام فإنہ أفضل منہ بمائ ۃ صلا ۃ میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز دوسری مسجدوں سے ہزار گنا افضل (بہتر) ہے، ہاں، مسجد الحرام میں نماز اس (مسجد نبوی) سے سو گنا افضل (بہتر) ہے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 691
بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرنا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : رسول اکرم ﷺ ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، اور ان لوگوں نے خانہ کعبہ کا دروازہ بند کرلیا، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے اسے کھولا تو سب سے پہلے اندر جانے والا میں تھا، پھر میں بلال (رض) سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے اس میں نماز پڑھی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، آپ نے دونوں یمانی ستونوں یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان نماز پڑھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٠ (٣٩٧) ، ٨١ (٤٦٨) ، ٩٦ (٥٠٤، ٥٠٥) ، التھجد ٢٥ (١١٦٧) ، الحج ٥١ (١٥٩٨، ١٥٩٩) ، الجھاد ١٢٧ (٢٩٨٨) مطولاً ، المغازي ٤٩ (٤٢٨٩) مطولاً ، ٧٧ (٤٤٠٠) مطولاً ، صحیح مسلم/الحج ٦٨ (١٣٢٩) ، سنن ابی داود/الحج ٩٣ (٢٠٢٣، ٢٠٢٤، ٢٠٢٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٧٩ (٣٠٦٣) ، (تحفة الأشراف : ٢٠٣٧) ، موطا امام مالک/الحج ٦٣ (١٩٣) ، مسند احمد ٢/٢٣، ٣٣، ٥٥، ١١٣، ١٢٠، ١٣٨، ٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥، سنن الدارمی/المناسک ٤٣ (١٩٠٩) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٧٥٠، ٢٩٠٨، ٢٩٠٩، ٢٩١٠، ٢٩١١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 692
بیت المقدس کی مسجد کا اور اس میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سلیمان بن داود (علیہما السلام) نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٩٦ (١٤٠٨) ، (تحفة الأشراف : ٨٨٤٤) ، مسند احمد ٢/١٧٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 693
مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت اور اس میں نماز ادا کرنے کی فضیلت
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا افضل ہے سوائے خانہ کعبہ کے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کی مسجد آخری مسجد ہے ١ ؎ ابوسلمہ اور ابوعبداللہ کہتے ہیں : ہمیں شک نہیں کہ ابوہریرہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہی بیان کرتے تھے، اسی وجہ سے ہم نے ان سے یہ وضاحت طلب نہیں کی کہ یہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے یا خود ان کا قول ہے، یہاں تک کہ جب ابوہریرہ (رض) وفات پا گئے تو ہم نے اس کا ذکر کیا تو ہم ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم نے اس سلسلے میں ابوہریرہ (رض) سے کیوں نہیں گفتگو کرلی کہ اگر انہوں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے تو اسے آپ کی طرف منسوب کریں، ہم اسی تردد میں تھے کہ ہم نے عبداللہ بن ابراہیم بن قارظ کی مجالست اختیار کی، تو ہم نے اس حدیث کا اور ابوہریرہ (رض) سے حدیث پوچھنے میں جو ہم نے کوتاہی کی تھی دونوں کا ذکر کیا، تو عبداللہ بن ابراہیم نے ہم سے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابوہریرہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ : بلاشبہ میں آخری نبی ہوں، اور یہ (مسجد نبوی) آخری مسجد ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : من طریق عبداللہ بن إبراہیم بن قارظ عن أبي ہریرة أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٤) ، (تحفة الأشراف : ١٣٥٥١) ، مسند احمد ٢/٢٥١، ٢٧٣، ومن طریق أبي عبداللہ (سلمان الأغر) عن أبي ہریرة قد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة ١ (١١٩٠) ، صحیح مسلم/الحج ٩٤ (١٣٩٤) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٦ (٣٢٥) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٩٥ (١٤٠٤) ، موطا امام مالک/القبلة ٥ (٩) ، مسند احمد ٢/٢٥٦، ٣٨٦، ٤٦٦، ٤٧٣، ٤٨٥، سنن الدارمی/الصلاة ١٣١ (١٤٥٨) ، (تحفة الأشراف : ١٣٤٦٤) ، وحدیث أبي سلمة تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٩٦٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی ان تینوں مساجد میں جن کی فضیلت کی گواہی دی گئی ہے مسجد نبوی آخری مسجد ہے، یا انبیاء کی مساجد میں سے آخری مسجد ہے کیونکہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 694
مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت اور اس میں نماز ادا کرنے کی فضیلت
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جو حصہ میرے گھر ١ ؎ اور میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة في مسجد مکة والمدینة ٥ (١١٩٥) ، صحیح مسلم/الحج ٩٢ (١٣٩٠) ، موطا امام مالک/القبلة ٥ (١١) ، (تحفة الأشراف : ٥٣٠٠) ، مسند احمد ٤/٣٩، ٤٠، ٤١ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: گھر سے مراد حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے جس میں آپ کی قبر شریف ہے، طبرانی کی روایت میں ما بين المنبر وبيت عائشة ہے، اور بزار کی روایت (کشف الاستار ٢ /٥٦) میں ما بين قبري ومنبري ہے۔ ٢ ؎: اس کی تاویل میں کئی اقوال وارد ہیں ایک قول یہ ہے کہ اتنی جگہ اٹھ کر جنت کی ایک کیا ری بن جائے گی، دوسرا قول یہ ہے جو شخص یہاں عبادت کرے گا جنت میں داخل ہوگا، اور جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری پائے گا، تیسرا قول یہ ہے کہ یہ حصہ جنت ہی سے آیا ہوا ہے، چوتھا قول یہ ہے کہ اس میں حرف تشبیہ محذوف ہے ای کروض ۃ فی نزول الرحم ۃ والسعاد ۃ بما یحصل من ملازم ۃ حلق الذکر لا سیما فی عہدہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رحمت و سعادت کے نازل ہونے میں روضہ کی طرح ہے، ذکر کے حلقات کی پابندی سے ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 695
مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت اور اس میں نماز ادا کرنے کی فضیلت
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اس منبر کے پائے جنت میں گڑے ہوئے ہیں ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٨٢٣٥) ، مسند احمد ٦/٢٨٩، ٢٩٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 696
اس مسجد کا تذکرہ جو کہ تقوی پر تعمیر کی گئی
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی اس بارے میں لڑ پڑے کہ وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، تو ایک شخص نے کہا : یہ مسجد قباء ہے، اور دوسرے نے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ میری یہ مسجد ہے (یعنی مسجد نبوی) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحج ٩٦ (١٣٩٨) ، سنن الترمذی/تفسیر التوبة ١٠ (٣٠٩٩) ، (تحفة الأشراف : ٤١١٨) ، مسند احمد ٣/٨، ٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 697
مسجد قبا میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد قباء (کبھی) سوار ہو کر اور (کبھی) پیدل جاتے تھے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/الحج ٩٧ (١٣٩٩) ، موطا امام مالک/السفر ٢٣ (٧١) ، (تحفة الأشراف : ٧٢٣٩) ، مسند احمد ٢/٥، ٣٠، ٥٧، ٥٨، ٦٥ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: صحیحین کی روایت میں ہے کہ آپ ہر ہفتہ مسجد قباء آتے اور وہاں دو رکعتیں پڑھتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 698
مسجد قبا میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا بیان
سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے یہاں تک کہ وہ اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آ کر اس میں نماز پڑھے تو اس کے لیے عمرہ کے برابر ثواب ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ١٩٧ (١٤١٢) ، (تحفة الأشراف : ٤٦٥٧) ، مسند احمد ٣/٤٨٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 699
کون کونسی مساجد کی جانب سفر درست ہے؟
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ثواب کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کے لیے سفر کیا جائے : ایک مسجد الحرام، دوسری میری یہ مسجد (مسجد نبوی) ، اور تیسری مسجد اقصی (بیت المقدس) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/فضل الصلاة في مسجد مکة ١ (١١٨٩) ، صحیح مسلم/الحج ٩٥ (١٣٩٧) ، سنن ابی داود/الحج ٩٨ (٢٠٣٣) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ١٣١٣٠) ، مسند احمد ٢/٢٣٤، ٢٣٨، ٢٧٨، ٥٠١، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 700
عیسائیوں کے گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنا
طلق بن علی (رض) روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی طرف وفد کی شکل میں نکلے، ہم نے آ کر آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور آپ کو بتایا کہ ہماری سر زمین میں ہمارا ایک گرجا گھر ہے، ہم نے آپ سے آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی کی درخواست کی، تو آپ نے پانی منگوایا وضو کیا، اور کلی کی پھر اسے ایک برتن میں انڈیل دیا، اور ہمیں (جانے) کا حکم دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : تم لوگ جاؤ اور جب تم لوگ اپنے علاقے میں پہنچنا تو گرجا (کلیسا) کو توڑ ڈالنا، اور اس جگہ اس پانی کو چھڑک دینا اور اسے مسجد بنا لینا ، ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ہمارا ملک دور ہے، اور گرمی سخت ہے، پانی سوکھ جاتا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں اور پانی ملا لیا کرنا کیونکہ تم جس قدر ملاؤ گے اس کی خوشبو بڑھتی جائے گی ؛ چناچہ ہم نکلے یہاں تک کہ اپنے ملک میں آگئے، تو ہم نے گرجا کو توڑ ڈالا، پھر ہم نے اس جگہ پر یہ پانی چھڑکا اور اسے مسجد بنا لیا، پھر ہم نے اس میں اذان دی، اس گرجا کا راہب قبیلہ طے کا ایک آدمی تھا، جب اس نے اذان سنی تو کہا : یہ حق کی پکار ہے، پھر اس نے ہمارے ٹیلوں میں ایک ٹیلے کی طرف چلا گیا، اس کے بعد ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٥٠٢٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 701
قبروں کو کھود کر اس جگہ مساجد تعمیر کرنا کیسا ہے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے تو اس کے ایک کنارے بنی عمرو بن عوف نامی ایک قبیلہ میں اترے، آپ نے ان میں چودہ دن تک قیام کیا، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلا بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، آپ ان کے ساتھ چلے گویا میں آپ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں، اور ابوبکر (رض) آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنی نجار کے لوگ آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ ابوایوب (رض) کے دروازے پر اترے، جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں آپ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم ہوا، تو آپ ﷺ نے بنی نجار کے لوگوں کو بلوایا، وہ آئے تو آپ نے فرمایا : بنو نجار ! تم مجھ سے اپنی اس زمین کی قیمت لے لو ، ان لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں، انس (رض) کہتے ہیں : اس میں مشرکین کی قبریں، کھنڈر اور کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، اور کھنڈرات ہموار کردیئے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے درختوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب لائن میں رکھ دیا، اور چوکھٹ کے دونوں پٹ پتھر کے بنائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر ڈھوتے، اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ تھے، وہ لوگ کہہ رہے تھے : اے اللہ ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے، انصار و مہاجرین کی تو مدد فرما۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٨ (٤٢٨) ، فضائل المدینة ١ (١٨٦٨) ، فضائل الأنصار ٤٦ (٣٩٣٢) ، صحیح مسلم/المساجد ١ (٥٢٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٢ (٤٥٣، ٤٥٤) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٣ (٧٤٢) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩١) ، مسند احمد ٣/١١٨، ١٢٣، ١٨٠، ٢١١، ٢١٢، ٢٤٤ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 702
قبور کا مساجد بنانا ممنوع ہے
ام المؤمنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت آیا تو آپ اپنی چادر چہرہ مبارک پر ڈالتے، اور جب دم گھٹنے لگتا تو چادر اپنے چہرہ سے ہٹا دیتے، اور اس حالت میں آپ ﷺ نے فرمایا : یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٥ (٤٣٥) ، أحادیث الأنبیاء ٥٠ (٣٤٥٣) ، المغازي ٨٣ (٤٤٤٢، ٤٤٤٣) ، اللباس ١٩ (٥٨١٦) ، والحدیث عند صحیح البخاری/الجنائز ٦١ (١٣٣٠) ، ٩٥ (١٣٩٠) ، صحیح مسلم/المساجد ٣ (٥٣١) ، مسند احمد ١/٢١٨ و ٦/٣٤، ٢٢٨، ٢٧٥) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٤٢، ١٦٣١٠) ، ویأتی عند المؤلف سنن الدارمی/الصلاة ١٢٠ (١٤٤٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 703
قبور کا مساجد بنانا ممنوع ہے
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم دونوں نے ایک کنیسہ (گرجا گھر) کا ذکر کیا جسے ان دونوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کا کوئی صالح آدمی مرتا تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے، اور اس کی مورتیاں بنا کر رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٤٨ (٤٢٧) ، ٥٤ (٤٣٤) ، الجنائز ٧٠ (١٣٤١) ، مناقب الأنصار ٣٧ (٣٨٧٣) ، صحیح مسلم/المساجد ٣ (٥٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٧٣٠٦) ، مسند احمد ٦/٥١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 704
مسجد میں حاضری کا اجر و ثواب
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس وقت بندہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف نکلتا ہے تو ایک قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اور دوسرے قدم پر ایک برائی مٹا دی جاتی ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٤٩٤٧) ، مسند احمد ٢/٣١٩، ٤٣١، ٤٧٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 705
خواتین کو مسجد میں داخلہ سے منع نہیں کرنا چاہئے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت چاہے تو وہ اسے نہ روکے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٦ (٨٧٣) ، النکاح ١١٦ (٥٢٣٨) ، صحیح مسلم/الصلاة ٣٠ (٤٤٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٨٢٣) ، مسند احمد ٢/٧، ٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 706
مسجد میں داخلہ کس حالت میں ممنوع ہے؟
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کوئی اس درخت میں سے کھائے، پہلے دن آپ نے فرمایا لہسن میں سے، پھر فرمایا : لہسن، پیاز اور گندنا میں سے، تو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے، کیونکہ فرشتے بھی ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے انسان اذیت و تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الأذان ١٦٠ (٨٥٤) ، الأطعمة ٤٩ (٥٤٥٢) ، الاعتصام ٢٤ (٧٣٥٩) ، صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٤) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/الأطعمة ١٣ (١٨٠٧) ، (تحفة الأشراف : ٢٤٤٧) ، مسند احمد ٣/٣٨٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 707
مسجد سے کونسا شخص باہر نکال دیا جائے؟
عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں : لوگو ! تم ان دونوں پودوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں خبیث ہی سمجھتا ہوں ١ ؎ یعنی اس پیاز اور لہسن سے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کسی آدمی سے ان میں سے کسی کی بدبو پاتے تو اسے مسجد سے نکل جانے کا حکم دیتے، تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا، جو ان دونوں کو کھائے تو پکا کر ان کی بو کو مار دے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٧ (٥٦٧) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٨ (١٠١٤) ، الأطعمة ٥٩ (٣٣٦٣) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٤٦) ، مسند احمد ١/١٥، ٢٦، ٢٧، ٤٨ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کی بو ناگوار اور مکروہ ہے جب تک یہ کچے ہوں، یہ اس اعتبار سے خبیث ہیں کہ انہیں کھا کر مسجد میں جانا ممنوع ہے، البتہ پکنے کے بعد اس کا حکم بدل جائے گا، اور ان کا کھانا جائز ہوگا، اسی طرح مسجد میں جانے کا وقت نہ ہو تو اس وقت بھی ان کا کھانا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 708
مسجد کے اندر خیمہ لگانے اور نصب کرنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہوجاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چناچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ ﷺ نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا : کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو ؟ ١ ؎، چناچہ آپ ﷺ نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الاعتکاف ٦ (٢٠٣٣) ، ٧ (٢٠٣٤) ، ١٤ (٢٠٤١) ، ١٨ (٢٠٤٥) ، صحیح مسلم/الاعتکاف ٢ (١١٧٢) ، سنن ابی داود/الصوم ٧٧ (٢٤٦٤) ، سنن الترمذی/الصوم ٧١ (٧٩١) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/الصوم ٥٩ (١٧٧١) ، (تحفة الأشراف : ١٧٩٣٠) ، مسند احمد ٦/٨٤، ٢٢٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تم لوگوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یہ خیمے لگائے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 709
مسجد کے اندر خیمہ لگانے اور نصب کرنے سے متعلق
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : غزوہ خندق (غزوہ احزاب) کے دن سعد بن معاذ (رض) زخمی ہوگئے، قبیلہ قریش کے ایک شخص نے ان کے ہاتھ کی رگ ١ ؎ میں تیر مارا، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کرسکیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٧٧ (٤٦٣) مطولاً ، المغازي ٣٠ (٤١٢٢) مطولاً ، صحیح مسلم/الجھاد ٢٢ (١٧٦٩) ، سنن ابی داود/الجنائز ٨ (٣١٠١) ، (تحفة الأشراف : ١٦٩٧٨) ، مسند احمد ٦/٥٦، ١٣١، ٢٨٠ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: اکحل ہاتھ میں ایک رگ ہوتی ہے جسے عرق الحیا ۃ کہتے ہیں اگر وہ کٹ جائے تو خون رکتا نہیں سارا خون بہہ جاتا ہے، اور آدمی مرجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 710
بچوں کو مسجد میں لانے کا بیان
ابوقتادہ (رض) کہتے ہیں : ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران رسول اللہ ﷺ امامہ بنت ابی العاص بن ربیع (رض) کو (گود میں) اٹھائے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، (ان کی ماں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا ہیں) امامہ ایک (کمسن) بچی تھیں، آپ انہیں اٹھائے ہوئے تھے، تو آپ ﷺ نے انہیں اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے نماز پڑھائی، جب رکوع میں جاتے تو انہیں اتار دیتے، اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں پھر گود میں اٹھا لیتے، ١ ؎ یہاں تک کہ اسی طرح کرتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی نماز پوری کی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٠٦ (٥١٦) ، الأدب ١٨ (٥٩٩٦) مختصراً ، صحیح مسلم/المساجد ٩ (٥٤٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٦٩ (٩١٧، ٩١٨، ٩١٩، ٩٢٠) ، موطا امام مالک/السفر ٢٤ (٨١) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٤) ، مسند احمد ٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٤، ٣١٠، ٣١١، سنن الدارمی/الصلاة ٩٣ (١٣٩٩، ١٤٠٠) ، ویأتی عند المؤلف بأرقام : ٨٢٨، ١٢٠٥، ١٢٠٦ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ باجماعت نماز تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرض نماز رہی ہوگی کیونکہ جماعت سے عموماً فرض نماز ہی پڑھی جاتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ فرض نماز میں بھی بوقت ضرورت ایسا کرنا جائز ہے، نبی اکرم ﷺ کا ایسا کرنا یا تو ضرورت کے تحت رہا ہوگا، یا بیان جواز کے لیے، کچھ لوگوں نے اسے منسوخ کہا ہے، اور کچھ نے اسے آپ کے خصائص میں سے شمار کیا ہے لیکن یہ دعوے ایسے ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 711
قیدی شخص کو مسجد کے اندر باندھنے سے متعلق
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ١٨٩ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 712
اونٹ کو مسجد میں لے جانے سے متعلق
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا، آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحج ٥٨ (١٦٠٧) ، ٦١ (١٦١٢) ، ٦٢ (١٦١٣) ، ٧٤ (١٦٣٢) ، الطلاق ٢٤ (٥٢٩٣) ، صحیح مسلم/الحج ٤٢ (١٢٧٢) ، سنن ابی داود/الحج ٤٩ (١٨٧٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الحج ٢٨ (٢٩٤٨) ، (تحفة الأشراف : ٥٨٣٧) ، مسند احمد ١/٢١٤، ٢٣٧، ٢٤٨، ٣٠٤، سنن الدارمی/المناسک ٣٠ (١٨٨٧) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٩٥٧ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 713
مسجد کے اندر خرید و فروخت کے ممنوع ہونے اور نماز جمعہ سے قبل حلقہ باندھ کر بیٹھنا
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے، اور مسجد میں خریدو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٠ (١٠٧٩) مطولاً ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٤ (٣٢٢) مطولاً ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٥ (٧٤٩) مختصراً ، وإقامة ٩٦ (١١٣٣) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) ، مسند احمد ٢/١٧٩، ٢١٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: جمعہ کے دن مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ سننا اور خاموش رہنا ضروری ہے، اور جب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھیں گے تو خواہ مخواہ باتیں کریں گے، اور اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ جمعہ سے پہلے کسی وقت بھی حلقہ باندھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 714
مسجد کے اندر اشعار پڑھنے کے ممنوع ہونے کا بیان
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں اشعار پڑھنے سے منع فرمایا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢٠ (١٠٧٩) ، سنن الترمذی/الصلاة ١٢٤ (٣٢٢) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ٥ (٧٤٩) ، مسند احمد ٢/١٧٩، والمؤلف في عمل الیوم واللیلة ٦٦ (برقم : ١٧٣) ، (تحفة الأشراف : ٨٧٩٦) (حسن ) وضاحت : ١ ؎: مسجد میں فحش اور مخرب اخلاق اشعار پڑھنا ممنوع ہے، رہے ایسے اشعار جو توحید اور اتباع سنت ﷺ وغیرہ اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوں تو ان کے پڑھنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 715
مسجد کے اندر عمدہ شعر پڑھنے کی اجازت
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر (رض) حسان بن ثابت (رض) کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، تو عمران (رض) کی طرف گھورنے لگے، تو انہوں نے کہا : میں نے (مسجد میں) شعر پڑھا ہے، اور اس میں ایسی ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے بہتر تھی، پھر وہ ابوہریرہ (رض) کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا : کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو (مجھ سے) یہ کہتے نہیں سنا کہ تم میری طرف سے (کافروں کو) جواب دو ، اے اللہ ! روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید فرما !، تو ابوہریرہ (رض) نے کہا ! ہاں (سنا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٨ (٤٥٣) ، بدء الخلق ٦ (٣٢١٢) ، الأدب ٩١ (٦١٥٢) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ٣٤ (٢٤٨٥) ، سنن ابی داود/الأدب ٩٥ (٥٠١٣، ٥٠١٤) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٣٤٠٢) ، مسند احمد ٥/٢٢٢، وفی الیوم واللیلة (١٧١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 716
گم شدہ شے مسجد میں تلاش کرنے کی ممانعت کا بیان
جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی آ کر مسجد میں ایک گمشدہ چیز ڈھونڈنے لگا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کرے تو نہ پائے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٧٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 717
مسجد کے اندر ہتھیار نکالنے سے متعلق
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا : کیا آپ نے جابر (رض) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں کچھ تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : ان کی پیکان پکڑ کر رکھو ، تو عمرو نے کہا : جی ہاں (سنا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٦ (٤٥١) ، الفتن ٧ (٧٠٧٣) ، صحیح مسلم/البر والصلة والآداب ٣٤ (٢٦١٥) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ٥١ (٣٧٧٧، ٣٧٧٨) ، (تحفة الأشراف : ٢٥٢٧) ، مسند احمد ٣/٣٠٨، ٣٥٠، سنن الدارمی/المقدمة ٥٣ (٦٥٧) ، الصلاة ١١٩ (١٤٤٢) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 718
مسجد کے اندر انگلیوں کو انگلیوں کے اندر داخل کرنا
اسود کہتے ہیں کہ میں اور علقمہ دونوں عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس گئے، تو آپ نے ہم سے پوچھا : کیا ان لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا : نہیں، تو آپ نے کہا : اٹھو نماز پڑھو، ہم چلے تاکہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوں، تو آپ نے ہم میں سے ایک کو اپنی داہنی طرف، اور دوسرے کو اپنی بائیں طرف کرلیا، پھر بغیر کسی اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، جب آپ رکوع کرتے تو اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرلیتے، اور دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں کے بیچ کرلیتے ١ ؎، اور (نماز کے بعد) کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤) ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٤) ، مسند احمد ١/٤١٤، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٠٣٠ (صحیح) (یہ حدیث منسوخ ہے ) وضاحت : ١ ؎: ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دونوں رانوں کے بیچ میں رکھنے کو تطبیق کہتے ہیں، اور یہ بالاتفاق منسوخ ہے، ابن مسعود (رض) کو اس کی منسوخی کا علم نہیں ہوسکا تھا، یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ جب یہ منسوخ ہے تو مصنف کا اس کے جواز پر استدلال کرنا کیسے درست ہے ؟ کیونکہ رکوع کی حالت میں ایسا کرنا منسوخ ہے، واضح رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ مسجد میں ایسا کرنا بھی جائز نہیں، نیز حدیث میں ممانعت ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کی نہیں ہے، بلکہ رکوع کی حالت میں اس کیفیت میں ہاتھ لٹکانے کی ممانعت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 719
مسجد کے اندر انگلیوں کو انگلیوں کے اندر داخل کرنا
اس سند سے علقمہ اور اسود نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی جیسی حدیث ذکر کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ٥ (٥٣٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٥٠ (٨٦٨) ، (تحفة الأشراف : ٩١٦٤، ٩١٦٥) ، ویأتي عند المؤلف برقم : (١٠٣١) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 720
مسجد کے اندر چت لیٹ جانا کیسا ہے؟
عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں اپنے ایک پیر کو دوسرے پیر پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے دیکھا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٨٥ (٤٧٥) ، اللباس ١٠٣ (٥٩٦٩) ، الاستئذان ٤٤ (٦٢٨٧) ، صحیح مسلم/اللباس ٢٢ (٢١٠٠) ، سنن ابی داود/الأدب ٣٦ (٤٨٦٦) ، سنن الترمذی/الأدب ١٩ (٢٧٦٥) ، موطا امام مالک/السفر ٢٤ (٨٧) ، (تحفة الأشراف : ٥٢٩٨) ، مسند احمد ٤/٣٨، ٣٩، ٤٠، سنن الدارمی/الاستئذان ٢٧ (٢٦٩٨) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: زمین پر پیٹھ رکھ کر گُدّی کے بل لیٹنے کو استلقاء کہتے ہیں، اس روایت سے استلقاء کا جواز ثابت ہوتا ہے، ایک روایت میں اس کی ممانعت آئی ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جواز والی روایت دونوں پیر پھیلا کر اس طرح سونے پر محمول ہوگی کہ شرمگاہ کے کھلنے کا اندیشہ نہ ہو، اور نہی (ممانعت) والی روایت کو انہیں کھڑا کر کے سونے پر محمول ہوگی جس میں شرمگاہ کے کھل جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 721
مسجد کے اندر سونے سے متعلق
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جب وہ نوجوان اور غیر شادی شدہ تھے تو مسجد نبوی میں سوتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٥٨ (٤٤٠) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٨١٧٣) ، مسند احمد ٢/١٢٠، سنن الدارمی/الصلاة ١١٧ (١٤٤٠) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 722
مسجد کے اندر تھوکنے سے متعلق
انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، اور اس کا کفارہ اسے مٹی ڈال کر دبا دینا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٢) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢ (٤٧٥) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٤ (٥٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١٤٢٨) ، مسند احمد ٣/١٧٣، ٢٣٢، ٢٧٤، ٢٧٧، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٥) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یہ اس صورت میں ہے جب مسجد کچی ہو، اس میں مٹی یا ریت وغیرہ موجود ہو تو تھوک کر مٹی کے نیچے چھپا دے، اور بعض نے کہا ہے کہ دفن کرنے سے مراد اسے صاف کر کے مسجد سے باہر پھینک دینا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 723
مسجد کے اندر قبلہ کی جانب تھوکنا منع ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبلہ والی دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے رگڑ دیا، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے چہرہ کی جانب ہرگز نہ تھوکے، کیونکہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اس کے چہرہ کے سامنے ہوتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٣ (٤٠٦) ، الأذان ٩٤ (٧٥٣) ، العمل في الصلاة ١٢ (١٢١٣) ، الأدب ٧٥ (٦١١١) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٧) ، وقد أخرجہ : (تحفة الأشراف : ٨٣٦٦) ، موطا امام مالک/القبلة ٣ (٤) ، مسند احمد ٢/٣٢، ٦٦، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٧) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 724
بحالت نماز سامنے کی جانب یا دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد کی قبلہ (والی دیوار پر) بلغم دیکھا تو اسے کنکری سے کھرچ دیا، اور لوگوں کو اپنے سامنے اور دائیں طرف تھوکنے سے روکا، اور فرمایا : (جنہیں ضرورت ہو) وہ اپنے بائیں تھوکے یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٤ (٤٠٨) ، ٣٥ (٤١٠) ، ٣٦ (٤١٤) ، صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٤٧) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٠ (٧٦١) ، (تحفة الأشراف : ٣٩٩٧) ، مسند احمد ٣/٦، ٢٤، ٥٨، ٨٨، ٩٣، سنن الدارمی/الصلاة ١١٦ (١٤٣٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 725
نمازی کو پیچھے یا بائیں جانب تھوکنے کی اجازت
طارق بن عبداللہ محاربی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو اپنے سامنے اور اپنے داہنے ہرگز نہ تھوکو، بلکہ اپنے پیچھے تھوکو، یا اپنے بائیں تھوکو، بشرطیکہ بائیں طرف کوئی نہ ہو، ورنہ اس طرح کرو ، آپ ﷺ نے اپنے پیر کے نیچے تھوک کر اسے مل دیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٢ (٤٧٨) ، سنن الترمذی/الصلاة ٢٨٤، الجمعة ٤٩ (٥٧١) مختصراً ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٦١ (١٠٢١) مختصراً ، (تحفة الأشراف : ٤٩٨٧) ، مسند احمد ٦/٣٩٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 726
کون سے پاؤں سے تھوک ملنا چاہئے؟
شخیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے کھکھار کر تھوکا، پھر اسے اپنے بائیں پیر سے رگڑ دیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المساجد ١٣ (٥٥٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢ (٤٨٢، ٤٨٣) ، مسند احمد ٤/٢٥، ٢٦، (تحفة الأشراف : ٥٣٤٨) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 727
مساجد میں خوشبو لگانا کیسا ہے؟
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو غضبناک ہوگئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، انصار کی ایک عورت نے اٹھ کر اسے کھرچ کر صاف کردیا، اور اس جگہ پر خلوق خوشبو مل دی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس نے کیا ہی اچھا کیا ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٠ (٧٦٢) ، (تحفة الأشراف : ٦٩٨) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/الصلاة ٣٩ (٤١٧) ، مسند احمد ٣/١٨٨، ١٩٩، ٢٠٠ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 728
مسجد کے اندر داخل ہونے اور باہر آنے کے وقت کیا کہے
ابوحمید اور ابواسید (مالک بن ربیعہ) رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ : اللہم افتح لي أبواب رحمتک اے اللہ ! تو میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے پڑھے، اور جب نکلے تو : اللہم إني أسألک من فضلک اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ١٠ (٧١٣) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٨ (٤٦٥) ، سنن ابن ماجہ/المساجد ١٣ (٧٧٢) ، (تحفة الأشراف : ١١١٩٦، ١١٨٩٣) ، مسند احمد ٣/٤٩٧، ٥ (٤٢٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١١٥ (١٤٣٤) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 729
جس وقت مسجد کے اندر داخل ہو تو مسجد میں بیٹھنے سے قبل دو رکعت ادا کرے
ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٦٠ (٤٤٤) ، التھجد ٢٥ (١١٦٣) ، صحیح مسلم/المسافرین ١١ (٧١٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ١٩ (٤٦٧) ، سنن الترمذی/الصلاة ١١٩ (٣١٦) ، سنن ابن ماجہ/إقامة ٥٧ (١٠١٣) ، (تحفة الأشراف : ١٢١٢٣) ، موطا امام مالک/السفر ١٨ (٥٧) ، مسند احمد ٥/٢٩٥، ٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٥، ٣١١، سنن الدارمی/الصلاة ١١٤ (١٤٣٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 730
بغیر نماز پڑھے ہوئے مسجد میں بیٹھنا اور مسجد سے باہر نکلنا
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک (رض) سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ ﷺ سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ ﷺ نے ایسا کرلیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کرلیا، اور ان سے بیعت کرلی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کردیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ ﷺ مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا : آ جاؤ! چناچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ١ ؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا : تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے ؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی ؟ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے ، چناچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجہاد ١٩٨ (٣٠٨٨) ، صحیح مسلم/المسافرین ١٢ (٧١٦) ، سنن ابی داود/الجہاد ١٧٣ (٢٧٧٣) ، ١٧٨ (٢٧٨١) ، (تحفة الأشراف : ١١١٣٢) ، وقد أخرجہ : سنن الترمذی/التفسیر ١٠ (٣١٠٢) ، مسند احمد ٣/٤٥٥، ٤٥٧، ٤٥٩ و ٦/٣٨٨ (کعب بن مالک (رض) کی حدیث کی مفصل تخریج کے لیے حدیث رقم : (٣٤٥١) کی تخریج دیکھئے، یہاں باب کی مناسبت سے متن اور تخریج میں اختصار سے کام لیا گیا ہے) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف نے اسی سے باب پر استدلال کیا ہے، یعنی : کعب (رض) بغیر تحیۃ المسجد پڑھے بیٹھ گئے، پھر اٹھ کر چلے گئے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا، لیکن یہ بعض حالات کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 731
جو شخص کسی مسجد کے پاس سے گذرے اس کے متعلق
ابوسعید بن معلی (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں بازار جاتے تو مسجد سے گزرتے، تو اس میں نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٢٠٤٨) (ضعیف) (سند میں ” مروان “ ضعیف ہیں ) قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 732
مسجد میں بیٹھ کر نماز کا منتظر رہنا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فرشتے تمہارے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں جب تک آدمی اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے، اور وضو نہ توڑا ہو، وہ کہتے ہیں : اے اللہ ! تو اسے بخش دے، اور اے اللہ ! تو اس پر رحم فرما ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٤ (١٧٦) ، الصلاة ٦١ (٤٤٥) ، ٨٧ (٤٧٧) ، الأذان ٣٠ (٦٤٧) ، ٣٦ (٦٥٩) ، البیوع ٤٩ (٢١١٩) ، بدء الخلق ٧ (٣٢٢٩) ، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الصلاة ٢٠ (٤٦٩) ، (تحفة الأشراف : ١٣٨١٦) ، موطا امام مالک/السفر ١٨ (٥٤) ، مسند احمد ٢/٢٦٦، ٢٨٩، ٣١٢، ٣٩٤، ٤١٥، ٤٢١، ٤٨٦، ٥٠٢ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 733
مسجد میں بیٹھ کر نماز کا منتظر رہنا
سہل ساعدی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جو شخص مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے، وہ نماز ہی میں رہتا ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٤٨٠٨) ، مسند احمد ٥/٣٣١ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 734
عمرو بن علی، یحیی، اشعث، حسن، عبداللہ بن مغفل،
عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے سے روکا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/المساجد ١٢ (٧٦٩) مطولاً ، (تحفة الأشراف : ٩٦٥١) ، مسند احمد ٤/٨٥، ٨٦، و ٥/٥٤، ٥٥، ٥٦ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 735
ہر جگہ نماز پڑھنے کی اجازت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پوری روئے زمین ١ ؎ میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے، میری امت کا کوئی بھی آدمی جہاں نماز کا وقت پائے نماز پڑھ لے ۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : ٤٣٢ (صحیح ) وضاحت : ١ ؎: یعنی اس عموم میں اونٹوں کے باڑے بھی شامل ہیں، مگر پھر بھی اس عموم سے دیگر دلائل کی بنیاد پر زمین کے بعض حصے مستثنیٰ ہیں مثلاً گندی اور ناپاک جگہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 736
بوریے پر نماز ادا کرنے سے متعلق
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ان کے پاس تشریف لا کر ان کے گھر میں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اسی کو اپنی نماز گاہ بنالیں ١ ؎، چناچہ آپ ان کے ہاں تشریف لائے، تو انہوں نے چٹائی لی اور اس پر پانی چھڑکا، پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ گھر والوں نے بھی نماز پڑھی۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ٢٢٠) (صحیح) (یہ حدیث آگے (٨٠٢) پر آرہی ہے ) وضاحت : ١ ؎: ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کی کھانے کی دعوت کی تھی اس موقع پر آپ سے گھر میں مصلیٰ بنانے کی جگہ پر نماز ادا کرنے کی فرمائش کی تو آپ نے اسے قبول فرما لیا، یہ ایک اتفاقیہ بات تھی، مصلیٰ بنانے کی کوئی تقریب نہ تھی، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :( ٨٠٢ کے حوالہ جات) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 737
جائے نماز پر نماز ادا کرنے کا بیان
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٣٠ (٣٣٣) ، الصلاة ١٩ (٣٧٩) ، ٢١ (٣٨١) ، وقد أخرجہ : سنن ابن ماجہ/إقامة ٦٣ (١٠٢٨) ، (تحفة الأشراف : ١٨٠٦٢) ، مسند احمد ٦/٣٣٠، ٣٣٥، ٣٣٦، سنن الدارمی/الصلاة ١٠١ (١٤١٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 738
منبر پر نماز ادا کرنے سے متعلق
ابوحازم بن دینار کہتے ہیں کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی (رض) کے پاس آئے وہ لوگ منبر کی لکڑی کے بارے میں بحث کر رہے تھے کہ وہ کس چیز کی تھی ؟ ان لوگوں نے سہیل (رض) اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم میں خوب جانتا ہوں کہ یہ منبر کس لکڑی کا تھا، میں نے اسے پہلے ہی دن دیکھا تھا جس دن وہ رکھا گیا، اور جس دن رسول ﷺ پہلے پہل اس پر بیٹھے (ہوا یوں تھا) کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں عورت (سہل (رض) نے اس کا نام لیا تھا) کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے غلام سے جو بڑھئی ہے کہیں کہ وہ میرے لیے کچھ لکڑیوں کو اس طرح بنا دے کہ جب میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کروں تو اس پر بیٹھ سکوں، تو اس عورت نے غلام سے منبر بنانے کے لیے کہہ دیا، چناچہ غلام نے جنگل کے جھاؤ سے اسے تیار کیا، پھر اسے اس عورت کے پاس لے کر آیا تو اس نے اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیج دیا گیا، آپ ﷺ کے حکم پر اسے یہاں رکھا گیا، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس پر چڑھے، اور اس پر نماز پڑھی، آپ نے اللہ اکبر کہا، آپ اسی پر تھے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور آپ اسی پر تھے، پھر آپ الٹے پاؤں اترے اور منبر کے پایوں کے پاس سجدہ کیا، پھر آپ نے دوبارہ اسی طرح کیا، تو جب آپ فارغ ہوگئے، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : لوگو ! میں نے یہ کام صرف اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کرسکو، اور (مجھ سے) میری نماز سیکھ سکو ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ١٨ (٣٧٧) ، ٦٤ (٤٤٨) ، الجمعة ٢٦ (٩١٧) ، البیوع ٣٢ (٢٠٩٤) ، صحیح مسلم/المساجد ١٠ (٥٤٤) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٢١ (١٠٨٠) ، (تحفة الأشراف : ٤٧٧٥) ، مسند احمد ٥/٣٣٩، سنن الدارمی/الصلاة ٤٥ (١٢٩٣) (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 739
گدھے پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا بیان
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور آپ کا رخ خیبر کی طرف تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/المسافرین ٤ (٧٠٠) ، سنن ابی داود/الصلاة ٢٧٧ (١٢٢٦) ، موطا امام مالک/السفر ٧ (٢٥) ، (تحفة الأشراف : ٧٠٨٦) ، مسند احمد ٢/٧، ٤٩، ٥٢، ٥٧، ٧٥، ٨٣، ١٢٨ (صحیح ) قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 740
گدھے پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا بیان
انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جا رہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن یحییٰ کی ان کے قول يصلي على حمار میں متابعت کی ہو ١ ؎ اور یحییٰ بن سعید کی حدیث جو انس (رض) سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ٢ ؎ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف : ١٦٦٥) ، وقد أخرجہ : صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ١٠ (١١٠٠) ، موطا امام مالک/قصر الصلاة ٧ (٢٦) (حسن صحیح ) وضاحت : ١ ؎: مؤلف کا یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہم کی پچھلی حدیث سے متعلق ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن یحییٰ کے سوا دیگر رواۃ نے حمار کی جگہ مطلق سواری (راحلتہ ) کا ذکر کیا ہے، اور بعض روایات میں اونٹ کی صراحت ہے، یعنی آپ ﷺ اس وقت اونٹ پر سوار تھے نہ کہ گدھے پر، لیکن نووی نے دونوں روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے کہ کبھی آپ اونٹ پر سوار ہوئے اور کبھی گدھے پر، اور اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سواری کی حالت میں آپ ﷺ نے وتر یا نفل پڑھی ہے۔ ٢ ؎: صحیح مسلم میں تو اس کی صراحت موجود ہے کہ لوگوں نے انس (رض) کو گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو سوال کیا، اس پر انہوں نے صراحتاً کہا : اگر میں نے نبی اکرم ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا اس لیے ان کی روایت کو محض ان کا فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني : حديث نمبر 741