1. طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ ﷺ سے
کوئی نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں ہوتی
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ٢ ؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے ٣ ؎۔ ٢- اس باب میں ابوالملیح کے والد اسامہ، ابوہریرہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢ (٢٢٤) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢ (٢٧٢) (تحفة الأشراف : ٧٤٥٧) مسند احمد (٢٠٢، ٣٩، ٥١، ٥٧، ٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے ، یعنی نماز کے لیے حدث اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے ، نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدثوں سے پاکی ( معنوی پاکی ) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی ( مکان ، بدن اور کپڑا کی پاکی ) بھی ضروری ہے ، نیز دیگر شرائط نماز بھی ، جیسے رو بقبلہ ہونا ، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر صلاۃ ہوجائے گی۔ ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض ، یا نماز جنازہ۔ ٣ ؎ : یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو ، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ (رض) کی ہے جو صحیحین میں ہے ( بخاری : الوضوء باب ٢ ، ( ١٣٥) و مسلم : الطہارۃ ٢ (٢٧٥) اور مولف کے یہاں بھی آرہی ہے ( رقم ٧٦) نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ ان صحابہ سے بھی روایت ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ ان صحابہ سے بھی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (272) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 1
طہارت کی فضلیت کا بیان
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں ١ ؎، جو اس کی آنکھوں نے کیے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے ٣ ؎، ٢- اس باب میں عثمان بن عفان، ثوبان، صنابحی، عمرو بن عبسہ، سلمان اور عبداللہ بن عمرو (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صنابحی جنہوں نے ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کی ہے، ان کا سماع رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ، اور کنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس سفر کیا، راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔ اور صنابح بن اعسرا حمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہا جاتا ہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پر فخر کروں گا تو میرے بعد تم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١١ (٢٤٤) (تحفة الأشراف : ١٢٧٤٢) موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٣١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گناہ جھڑ جاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ ٢ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔ ٣ ؎ : بظاہر یہ ایک مشکل عبارت ہے کیونکہ اصطلاحی طور پر حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہے ، تو اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جاسکتا ہے ؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجر نے کی ہے ( الف ) اگر حدیث کی دو یا دو سے زائد سندیں ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اور دوسری سند کے لحاظ سے صحیح ہے ، اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے یہاں صحیح ہے ، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حسن ہے یا صحیح۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، التعليق الرغيب (1 / 95) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 2
بے شک طہارت نماز کی کنجی ہے
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف «اللہ اکبر» کہنا ہے ١ ؎ اور نماز میں جو چیزیں حرام تھیں وہ «السلام علیکم ورحمة اللہ» کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے، ٢- عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں ٣ ؎، بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اور حمیدی : عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، اور وہ مقارب الحدیث ٤ ؎ ہیں، ٣- اس باب میں جابر اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣١ (٦١) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣ (٢٧٥) (تحفة الأشراف : ١٠٢٦٥) مسند احمد (١/١٢٣، ١٢٩) سنن الدارمی/ الطہارة ٢٢ (٧١٤) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اللہ اکبر ہی کہہ کر نماز میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے نماز میں حرام کیا ہے ، «اللہ اکبر» کہہ کر نماز میں داخل ہونا نبی اکرم ﷺ کا دائمی عمل تھا ، اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے نماز کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔ ٢ ؎ : یعنی صرف «السلام علیکم ورحمة اللہ» ہی کے ذریعہ نماز سے نکلا جاسکتا ہے۔ دوسرے کسی اور لفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔ ٣ ؎ : یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اور جمہور کے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پر دلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیں ہوتا ، امام بخاری (رح) جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جو تعدیل کا تیسرا مرتبہ ہے۔ ٤ ؎ : مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے ، لفظ مقارب دو طرح پڑھا جاتا ہے : راء پر زبر کے ساتھ ، اور راء کے زیر کے ساتھ ، زبر کے ساتھ مقارب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے ، اور زیر کے ساتھ مقارب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگر ثقہ راویوں کی حدیث سے قریب تر ہے ، یعنی اس میں کوئی شاذ یا منکر روایت نہیں ہے ، امام ترمذی (رح) نے یہ صیغہ ولید بن رباح اور عبداللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (275) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3
بے شک طہارت نماز کی کنجی ہے
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نماز جنت کی کنجی ہے، اور نماز کی کنجی وضو ہے ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٥٧٦) وانظر مسند احمد (٣/٣٣٠) (ضعیف) (سند میں سلیمان بن قرم اور أبویحیی القتات دونوں ضعیف ہیں، مگر آخری ٹکڑا ” مفتاح الصلاة الوضوء “ پچھلی حدیث کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح بما قبله (3) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 4
بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت کیا کہے
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے : « اللهم إني أعوذ بک من الخبث والخبيث أو الخبث والخبائث» اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اور ناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اور ناپاک جنیوں سے ١ ؎۔ شعبہ کہتے ہیں : عبدالعزیز نے دوسری بار «اللهم إني أعوذ بك» کے بجائے «أعوذ بالله» کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، زید بن ارقم، جابر اور ابن مسعود (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- انس (رض) کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور عمدہ ہے، ٣- زید بن ارقم کی سند میں اضطراب ہے، امام بخاری کہتے ہیں : کہ ہوسکتا ہے قتادہ نے اسے (زید بن ارقم سے اور نضر بن انس عن أبیہ) دونوں سے ایک ساتھ روایت کیا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٩ (١٤٢) والدعوات ١٥ (٦٣٢٢) صحیح مسلم/الحیض ٣٢ (٣٧٥) سنن ابی داود/ الطہارة ٣ (٤) سنن النسائی/الطہارة ١٨ (١٩) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩ (٢٩٨) (تحفة الأشراف : ١٠٢٢) مسند احمد (٣/١٠١/٢٨٢) سنن الدارمی/الطہارة ٩ (٦٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مذکورہ دعا پاخانہ میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہیئے ، اور اگر کوئی کھلی فضا میں قضائے حاجت کرنے جا رہا ہو تو رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہوئے کپڑا اٹھانے سے پہلے یہ دعا پڑھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (298) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 5
بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت کیا کہے
انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے : «اللهم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث» اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٠١١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گندی جگہوں میں گندگی سے انس رکھنے والے جن بسیرا کرتے ہیں ، اسی لیے نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت ناپاک جنوں اور جنیوں سے پناہ مانگتے تھے ، انسان کی مقعد بھی قضائے حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے اس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کو اذیت پہنچاتے ہیں ، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھی جاتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (5) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 6
بیت الخلاء سے نکلتے وقت کیا کہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے بعد جب پاخانہ سے نکلتے تو فرماتے : «غفرانک» یعنی اے اللہ : میں تیری بخشش کا طلب گار ہوں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے ٢ ؎، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) ہی کی حدیث معروف ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٧ (٣٠) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠ (٣٠٠) (تحفة الأشراف : ١٧٩٤) سنن الدارمی/الطہارة ١٧ (٧٠٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایسے موقع پر استغفار طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بےانتہا انعامات میں سے ہیں جن کا شکر ادا کرنے سے انسان قاصر ہے ، اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کوتاہی کا اعتراف کرے ، اس موقع کی دوسری دعا سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کردیا اور مجھے عافیت دی کے معنی سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث حسن غریب ہے ، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیونکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سند بھی ہوسکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو ، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت و تائید کی محتاج نہیں ، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں ، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دو طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں ، ایک «لانعرفه إلامن هذا الوجه» ہے ، اور دوسرا «وإسناده ليس بمتصل» پہلے جملہ سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے وارد ہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے ، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو ، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہر کرنا ہے اور «إسناده ليس بمتصل» کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سند میں انقطاع ہے یعنی اس کا ضعف خفیف ہے۔ ٣ ؎ : یعنی اس باب میں اگرچہ اور بھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ (رض) کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سند سے ثابت نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (300) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 7
قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونے کی مخالفت کے بارے میں
ابوایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو ١ ؎۔ ابوایوب انصاری کہتے ہیں : ہم شام آئے تو ہم نے دیکھا کہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں تو قبلہ کی سمت سے ترچھے مڑ جاتے اور ہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی، معقل بن ابی ہیشم (معقل بن ابی معقل) ابوامامہ، ابوہریرہ اور سہل بن حنیف (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابوایوب کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور سب سے صحیح ہے، ٣- ابوالولید مکی کہتے ہیں : ابوعبداللہ محمد بن ادریس شافعی کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ، اس سے مراد صرف صحراء (میدان) میں نہ کرنا ہے، رہے بنے بنائے پاخانہ گھر تو ان میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائز ہے، اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے، احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف صرف پیٹھ کرنے کی رخصت ہے، رہا قبلہ کی طرف منہ کرنا تو یہ کسی بھی طرح جائز نہیں، گویا کہ (امام احمد) قبلہ کی طرف منہ کرنے کو نہ صحراء میں جائز قرار دیتے ہیں اور نہ ہی بنے بنائے پاخانہ گھر میں (البتہ پیٹھ کرنے کو بیت الخلاء میں جائز سمجھتے ہیں) ۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/ الوضوء ١١ (١٤٤) والصلاة ٢٩ (٣٩٤) صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٤) سنن ابی داود/ الطہارة ٤ (٩) سنن النسائی/الطہارة ١٩، ٢٠، ٢١ (٢٠، ٢١، ٢٢) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٧ (١٨) (تحفة الأشراف : ٢٤٧٨) موطا امام مالک/القبلة ١ (١) مسند احمد (٥/٤١٦، ٤١٧، ٤٢١) سنن الدارمی/ الطہارة ٦ (٦٩٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ خطاب اہل مدینہ سے اور ان لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مدینہ کی سمت میں مکہ مکرمہ اور بیت اللہ الحرام سے شمال والی جانب واقع ہے ، اور اسی طرح مکہ مکرمہ سے جنوب والی جانب جن کا قبلہ مشرق ( پورب ) یا مغرب ( پچھم ) کی طرف ہے وہ قضائے حاجت کے وقت شمال یا جنوب کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (318) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 8
قبلہ کی طرف رخ کرنے میں رخصت
جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں جابر (رض) کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں ابوقتادہ، عائشہ، اور عمار بن یاسر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة (١٣) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٨ (٣٢٥) (تحفة الأشراف : ٢٥٧٤) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (325) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 9
قبلہ کی طرف رخ کرنے میں رخصت
عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیر سے اور ابوالزبیر نے جابر (رض) سے کہ ابوقتادہ (رض) نے نبی اکرم ﷺ کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جابر (رض) کی نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث (جس میں جابر کے بعد ابوقتادہ (رض) کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے، ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں، یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبار سے تضعیف کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٢٠٨١) (ضعیف الإسناد) قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 10
قبلہ کی طرف رخ کرنے میں رخصت
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک روز میں (اپنی بہن) حفصہ (رض) کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٢ (١٤٥) صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٦١١) سنن ابی داود/ الطہارة ٥ (١٢) سنن النسائی/الطہارة ٢٢ (٢٣) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٨ (٣٢٢) (تحفة الأشراف : ٨٥٥٢) موطا امام مالک/القبلة ٢ (٣) مسند احمد (٢/١٢، ١٣) سنن الدارمی/الطہارة ٨ (٦٩٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : احتمال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بنا پر تھا اور امت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ فعل قطعاً معارض ہے ، اور پھر یہ کہ آپ اوٹ تھے۔ ( تحفۃ الأحوذی : ١/٢٢ ، ونیل الأوطارللشوکانی ) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (322) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 11
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت
` ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جو تم سے یہ کہے کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا، آپ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عمر، بریدہ، عبدالرحمٰن بن حسنہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- اس باب میں عائشہ (رض) کی یہ حدیث سب سے زیادہ عمدہ اور صحیح ہے، ٣- عمر (رض) کی حدیث میں ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : عمر ! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو ، چناچہ اس کے بعد سے میں نے کبھی بھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ عمر (رض) کی اس حدیث کو عبدالکریم ابن ابی المخارق نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ایوب سختیانی نے ان کی تضعیف کی ہے اور ان پر کلام کیا ہے، نیز یہ حدیث عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے کہ عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ یہ حدیث عبدالکریم بن ابی المخارق کی حدیث سے (روایت کے اعتبار سے) زیادہ صحیح ہے ٢ ؎، ٤- اس باب میں بریدۃ (رض) کی حدیث محفوظ نہیں ہے، ٥- کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت ادب کے اعتبار سے ہے حرام نہیں ہے ٣ ؎، ٦- عبداللہ بن مسعود (رض) سے منقول ہے کہ تم کھڑے ہو کر پیشاب کرو یہ پھوہڑ پن ہے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٢٥ (٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٤ (٣٠٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٦١٤٧) ، مسند احمد (٦/١٣٦، ١٩٢، ٢١٣) (صحیح) (تراجع الالبانی /١٢، الصحیحہ : ٢٠١) وضاحت : ١ ؎ : ام المؤمنین عائشہ (رض) کا یہ دعویٰ اپنے علم کے لحاظ سے ہے ، ورنہ بوقت ضرورت نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر بھی پیشاب کیا ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے ، ہاں آپ کی عادت مبارکہ عام طور پر بیٹھ ہی کر پیشاب کرنے کی تھی ، اور گھر میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔ ٢ ؎ : یعنی عبدالکریم کی مرفوع روایت کہ ( نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر پیشاب سے روکا ) ضعیف ہے ، جبکہ عبیداللہ العمری کی موقوف روایت صحیح ہے۔ ٣ ؎ : یعنی کھڑے ہو کر پیشاب کرنا حرام نہیں بلکہ منع ہے۔ ٤ ؎ : دونوں ( مرفوع و موقوف ) حدیثوں میں فرق یوں ہے کہ مرفوع کا مطلب ہے : نبی اکرم ﷺ نے عمر (رض) کو جب سے منع کیا تب سے انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا ، اور موقوف روایت کا مطلب ہے کہ عمر (رض) اپنی عادت بیان کر رہے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني : (حديث عائشة) صحيح، (حديث عمر) ضعيف (حديث عائشة) ، ابن ماجة (307) . (حديث عمر) ، ابن ماجة (308) // ضعيف سنن ابن ماجة (63) ، المشکاة (363) ، الضعيفة (934) ، ضعيف الجامع (6403) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 12
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی رخصت
حذیفہ بن یمان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا، اسے رکھ کر میں پیچھے ہٹنے لگا، تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا، میں (آ کر) آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑا ہوگیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- وکیع کہتے ہیں : یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ٢- یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ (رض) بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے ١ ؎ ابو وائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے) زیادہ صحیح ہے ٢ ؎، ٣- محدثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٠ (٢٢٤) و ٦١ (٢٢٥) و ٦٢ (٢٢٦) والمظالم ٢٧ (٢٤٧١) صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٣) سنن ابی داود/ الطہارة ١٢ (٢٣) سنن النسائی/الطہارة ١٧، ٢٤ (١٨، ٢٦، ٢٧، ٢٨) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٣ (٣٠٥) (تحفة الأشراف : ٣٣٣٥) مسند احمد (٥/٣٩٤) سنن الدارمی/الطہارة ٩ (٦٩٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی حماد اور عاصم نے بھی ابو وائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابو وائل نے حذیفہ کے علاوہ مغیرہ بن شعبہ (رض) سے بھی روایت کیا ہے ، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دو دو راویوں سے روایت ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابو وائل نے دونوں صحابیوں سے سنا ہو۔ ٢ ؎ : کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عام والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے ، ( معاملہ صرف زیادہ صحیح ہونے کا ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (305) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 13
قضائے حاجت کے وقت پردہ کرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہوجاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔ دوسری سند میں اعمش سے روایت ہے، ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہوجاتے نہیں اٹھاتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ دونوں احادیث مرسل ہیں، اس لیے کہ کہا جاتا ہے : دونوں احادیث کے راوی سلیمان بن مہران الأعمش نے نہ ہی تو انس بن مالک (رض) سے سماعت کی ہے اور نہ ہی کسی اور صحابی سے، صرف اتنا ہے کہ انس کو صرف انہوں نے دیکھا ہے، اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انہیں نماز پڑھتے دیکھا ہے پھر ان کی نماز کی کیفیت بیان کی۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٦ (١٤) (تحفة الأشراف : ٨٩٢) سنن الدارمی/ الطہارة ٧ (٦٩٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں مرسل سے منقطع مراد ہے ، اس کی تشریح خود امام ترمذی نے کردی ہے کہ اعمش کا انس (رض) سے سماع نہیں ہے ، ویسے عام اصطلاحی مرسل : وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد والا راوی ساقط ہو ، ایسی روایت ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں اتصال سند مفقود ہوتا ہے جو صحیح حدیث کی ایک لازمی شرط ہے ، اسی طرح محذوف راوی کا کوئی تعین نہیں ہوتا ، ممکن ہے وہ کوئی غیر صحابی ہو ، اس صورت میں اس کے ضعیف ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ اور انقطاع کا مطلب یہ ہے کہ سند میں کوئی راوی چھوٹا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (11) ، الصحيحة (1071) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 14
داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی کراہت
ابوقتادہ حارث بن ربعی انصاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا ذکر (عضو تناسل) چھوئے ١ ؎۔ اس باب میں عائشہ، سلمان، ابوہریرہ اور سھل بن حنیف (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کو مکروہ جانا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ١٨ (١٥٣) و ١٩ (١٥٤) والأشربة ٢٥ (٥٦٣٠) صحیح مسلم/الطہارة ١٨ (٣٦٧) سنن ابی داود/ الطہارة ١٨ (٣١) سنن النسائی/الطہارة ٢٣ (٢٤، ٢٥) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٥ (٣١٠) (تحفة الأشراف : ١٢١٠٥) مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٠، ٣١٠) سنن الدارمی/ الطہارة ١٣ (٧٠٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ناپسندیدہ کاموں کے لیے بائیاں ہاتھ استعمال کیا جائے تاکہ دائیں ہاتھ کا احترام و وقار قائم رہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (310) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 15
پتھروں سے استنجا کرنا
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ سلمان فارسی (رض) سے بطور طنز یہ بات کہی گئی کہ تمہارے نبی نے تمہیں ساری چیزیں سکھائی ہیں حتیٰ کہ پیشاب پاخانہ کرنا بھی، تو سلمان فارسی (رض) نے بطور فخر کہا : ہاں، ایسا ہی ہے ہمارے نبی نے ہمیں پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے، اور تین پتھر سے کم سے استنجاء کرنے، اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے ہمیں منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عائشہ، خزیمہ بن ثابت جابر اور خلاد بن السائب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- سلمان (رض) کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ٣- صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ پتھر سے استنجاء کرلینا کافی ہے جب وہ پاخانہ اور پیشاب کے اثر کو زائل و پاک کر دے اگرچہ پانی سے استنجاء نہ کیا گیا ہو، یہی قول ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ١٧ (٢٦٢) سنن ابی داود/ الطہارة ٤ (٧) سنن النسائی/الطہارة ٣٧ (٤١) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٦ (٣١٦) (تحفة الأشراف : ٤٥٠٥) مسند احمد (٥/٤٣٧، ٤٣٨، ٤٣٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (316) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 16
دو پتھروں سے استنجا کرنا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے تو آپ نے فرمایا : میرے لیے تین پتھر ڈھونڈ لاؤ، میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا : یہ ناپاک ہے ١ ؎۔ (ابواسحاق سبیعی ثقہ اور مدلس راوی ہیں، بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہوگیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے، اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف، یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے) ۔ امام ترمذی نے یہاں : ابن مسعود کی اس حدیث کو بسند «اسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود» روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ٢ ؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکر کیا ہے، پھر بسند «معمر و عمار بن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود» کی روایت ذکر کی ہے، پھر بسند «زکریا بن ابی زائدہ و زہیر عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن یزید عن اسود بن یزید عن عبداللہ بن مسعود» روایت ذکر کی اور فرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے، نیز اسرائیل کی روایت کو صحیح ترین قرار دیا، یہ بھی واضح کیا کہ ابو عبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھر واضح کیا کہ زہیر نے اس حدیث کو بسند «ابواسحاق عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود» روایت کیا ہے، تو ان محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکر کردیا ہے، جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ «اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق» زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ و متقن ہیں، قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے، اور واضح رہے کہ زہیر نے ابواسحاق سے آخر میں اختلاط کے بعد سنا ہے، اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف بہذا السند ( تحفة الأشراف ٩٦٢٢) ، وأخرجہ کل من صحیح البخاری/الطہارة ٢١ (١٥٦) و سنن النسائی/الطہارة ٣٨ (٤٢) وسنن ابن ماجہ/الطہارة ١٦ (٣١٤) من طریق الأسود بن یزید عنہ کما في تحفة الأشراف : ٩١٧٠) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، لیکن اس کی سند میں ابو عبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود (رض) کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مولف نے بیان کردیا ہے۔ ) وضاحت : ١ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود ناپاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہوسکتی ، امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں «ائتني بغيرها» اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہوجائے ، اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جاسکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہیئے ، آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہیئے۔ ٢ ؎ : متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے ، اس کے جاننے کا یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہوجاتا ہے۔ ٣ ؎ : واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔ ( الف ) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل : زہیر ، معمر اور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابواسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔ ( ب ) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔ ( ج ) اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے ، ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے برخلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے ، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں ، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج ١ ص ٢٨۔ صاحب تحفۃ الاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ ( ١) بقول امام ابوداؤد : زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں اثبت ہیں۔ ( ٢) زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔ ( ٣) بقول ذہبی : امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے ، علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابوعبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کی اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کو ضعیف ماننا پڑے گا ، جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے ، اور اکثر ائمہ نے اسے صحیح ہی قرار دہا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 17
جن سے استنجا کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوہریرہ، سلمان، جابر، ابن عمر (رض) سے بھی احادیث مروی ہیں۔ ٢- اسماعیل بن ابراہیم وغیرہ نے بسند «داود ابن ابی ہند عن شعبی عن علقمہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) «لیلة الجن» میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے ٢ ؎ آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی جو لمبی ہے، شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے بھائیوں (جنوں) کی خوراک ہے، ٣- گویا اسماعیل بن ابراہیم کی روایت حفص بن غیاث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ٣ ؎، ٤- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، ٥- اور اس باب میں جابر اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائی فی الکبری) ( تحفة الأشراف : ٩٤٦٥) وضاحت : ١ ؎ : یہی صحیح ہے کہ ہڈی اور گوبر دونوں کو آپ ﷺ نے جنوں کا توشہ قرار دیا ، اور وہ روایتیں ضعیف ہیں جن میں ہے کہ ہڈی جنوں کا ، اور گوبر ان کے جانوروں کا توشہ ہے ( دیکھئیے ضعیفہ رقم : ١٠٣٨) ۔ ٢ ؎ : امام ترمذی نے اس سند سے جس لمبی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو خود وہ سورة الاحقاف کی تفسیر میں ( رقم : ٣٢٥٨) لائے ہیں ( نیز یہ حدیث مسلم ( رقم ٤٥٠) میں بھی ہے ) اس میں تو صاف ذکر ہے کہ سوال کرنے پر عبداللہ بن مسعود (رض) نے اپنے کو «لیلۃ الجن» میں موجود ہونے سے انکار کیا ، اور صحیح بات یہی ہے کہ ابن مسعود (رض) کے اس «لیلۃ الجن» میں موجود رہنے کی تمام روایات ضعیف ہیں ، جن میں جنوں نے اپنے کھانے کا سوال کیا تھا ، یا جس میں نبیذ سے وضو کا ذکر ہے ، ہاں دو تین بار کسی اور موقع سے جنوں سے ملاقات کی رات آپ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے ( الکوکب الدری فی شرح الترمذی ) ٣ ؎ : حفص بن غیاث اور اسماعیل بن ابراہیم کی حدیثوں میں فرق یہ ہے کہ حفص کی روایت سے «لا تستنجوا ……» کی حدیث متصل مرفوع ہے ، جبکہ اسماعیل کی روایت سے یہ شعبی کی مرسل حدیث ہوجاتی ہے ( اور اس ارسال پر دیگر بہت سے ثقات نے اسماعیل کی متابعت کی ہے ) اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے ، مگر صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ( جس کا تذکرہ مؤلف نے کیا ہے ) اس کی صحیح شاہد ہے ، نیز دیگر شواہد سے اصل حدیث ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (46) ، المشکاة (350) ، الضعيفة تحت الحديث (1038) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 18
پانی سے استنجا کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں، میں ان سے (یہ بات کہتے) شرما رہی ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جریر بن عبداللہ بجلی، انس، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اسی پر اہل علم کا عمل ہے ١ ؎، وہ پانی سے استنجاء کرنے کو پسند کرتے ہیں اگرچہ پتھر سے استنجاء ان کے نزدیک کافی ہے پھر بھی پانی سے استنجاء کو انہوں نے مستحب اور افضل قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٤١ (٤٦) (تحفة الأشراف : ١٧٩٧٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہاں بار بار آپ احادیث میں یہ جملہ پڑھ رہے ہیں : اسی پر اہل علم کا عمل ہے ، تو اہل علم سے مراد محدثین فقہاء اور قرآن وسنت کا صحیح فہم رکھنے والے لوگ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 19
اس بارے میں نبی کا قضائے حاجت کے وقت تو دور تشریف لے جانا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے نکلے تو بہت دور نکل گئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبدالرحمٰن بن ابی قراد، ابوقتادہ، جابر، یحییٰ بن عبید عن أبیہ، ابو موسیٰ ، ابن عباس اور بلال بن حارث (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- روایت کی جاتی ہے کہ نیز نبی اکرم ﷺ پیشاب کے لیے اس طرح جگہ ڈھونڈتے تھے جس طرح مسافر اترنے کے لیے جگہ ڈھونڈتا ہے۔ ٤- ابوسلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة (١) سنن النسائی/الطہارة ١٦ (١٧) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٢ (٣٣١) سنن ابی داود/ الطہارة ٤ (٦٨٦) (تحفة الأشراف : ٧٥٤٠) مسند احمد (٤/٢٤٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ایسا صرف لوگوں کی نظروں سے دور ہوجانے کے لیے کرتے تھے ، اب یہ مقصد تعمیر شدہ بیت الخلاء سے حاصل ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (3301) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 20
غسل خانے میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
عبداللہ بن مغفل (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ١ ؎ اور فرمایا : زیادہ تر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے، ٢- یہ حدیث غریب ہے، ٢ ؎ ہم اسے صرف اشعث بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، انہیں اشعث اعمی بھی کہا جاتا ہے، ٣- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے غسل خانے میں پیشاب کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر وسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں، ٤- بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے جن میں سے ابن سیرین بھی ہیں، ابن سیرین سے کہا گیا : کہا جاتا ہے کہ اکثر وسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ٣ ؎، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ غسل خانے میں پیشاب کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ اس میں سے پانی بہ جاتا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٥ (٢٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٢ (٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢ (٣٠٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٤٨) ، مسند احمد (٥/٥٦) (صحیح) (سند میں حسن بصری مدلس راوی ہیں، جن کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا دوسری روایات سے تقویت پا کر صحیح ہے، اور دوسرا ٹکڑا ضعیف ہے، دیکھئے : ضعیف ابی داود رقم : ٦، وصحیح ابی داود رقم : ٢٢) وضاحت : ١ ؎ : یہ ممانعت ایسے غسل خانوں کے سلسلے میں ہے جن میں پیشاب زمین میں جذب ہوجاتا ہے ، یا رک جاتا ہے ، پختہ غسل خانے جن میں پیشاب پانی پڑتے ہی بہہ جاتا ہے ان میں یہ ممانعت نہیں ( ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ رقم : ٣٠٤) ۔ ٢ ؎ : امام ترمذی کسی حدیث کے بارے میں جب لفظ غریب کہتے ہیں تو ایسی حدیثیں اکثر ضعیف ہوتی ہیں ، ایسی ساری احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے ( ضعیف ابی داود رقم ٦) البتہ غسل خانہ میں پیشاب کی ممانعت سے متعلق پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ ٣ ؎ : مطلب یہ ہے جو بھی وسوسے پیدا ہوتے ہیں ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ، غسل خانوں کے پیشاب کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح (إلا الشطر الثانی منه) ، ابن ماجة (304) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 21
مسواک کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بروایت ابوسلمہ، ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) کی مروی دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کا خیال ہے کہ ابوسلمہ کی زید بن خالد (رض) سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے ٢ ؎، ٢- اس باب میں ابوبکر صدیق، علی، عائشہ، ابن عباس، حذیفہ، زید بن خالد، انس، عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، ام حبیبہ، ابوامامہ، ابوایوب، تمام بن عباس، عبداللہ بن حنظلہ، ام سلمہ، واثلہ بن الاسقع اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الجمعة ٨ (٨٨٧) ، والتمنی ٩ (٧٢٤٠) ، صحیح مسلم/الطہارة ١٥ (٢٥٢) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٢٥ (٤٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٧ (٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧ (٢٨٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٦) ، موطا امام مالک/الطہارة ٣٢ (١٤) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٧ (٧١٠) ، والصلاة ١٦٨ (١٥٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٠٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت و حرج کو دور رکھنا ہے ، اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے ، رہا مسواک کا مسنون ہونا تو وہ علی حالہ باقی ہے۔ ٢ ؎ : امام بخاری نے اس طریق کو دو وجہوں سے راجح قرار دیا ہے : ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابوسلمہ کا یہ کہنا ہے کہ زید بن خالد مسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے ، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (287) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 22
مسواک کے بارے میں
زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اگر مجھے اپنی امت کو حرج و مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر صلاۃ کے وقت (وجوباً ) مسواک کرنے کا حکم دیتا، نیز میں عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرتا (راوی حدیث) ابوسلمہ کہتے ہیں : اس لیے زید بن خالد (رض) نماز کے لیے مسجد آتے تو مسواک ان کے کان پر بالکل اسی طرح ہوتی جیسے کاتب کے کان پر قلم ہوتا ہے، وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے پھر اسے اس کی جگہ پر واپس رکھ لیتے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٢٥ (٤٧) (تحفة الأشراف : ٣٧٦٦) مسند احمد (٤/١١٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہر نماز کے وقت مسواک مسنون ہے ، «عند کل صلاة» ہر نماز کے وقت سے جو مقصد ہے وہ مسجد میں داخل ہو کر ، وضو خانہ میں ، یا نماز کے وقت وضو کے ساتھ مسواک کرلینے سے بھی پورا ہوجاتا ہے ، یہ ہندوستان اور پاکستان کے باشندے عموماً نیم یا کیکر کی مسواک کرتے ہیں اور عرب میں پیلو کی مسواک کا استعمال بہت زیادہ ہے ، اور یہاں لوگ نماز کے وقت بکثرت مسواک کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (37) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 23
نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونے سے پہلے پانی کے برتن میں نہ ڈالے جائیں
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی رات کو نیند سے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ١ ؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر دو یا تین بار پانی نہ ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن عمر، جابر اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٣- شافعی کہتے ہیں : میں ہر سو کر اٹھنے والے کے لیے - چاہے وہ دوپہر میں قیلولہ کر کے اٹھا ہو یا کسی اور وقت میں - پسند کرتا ہوں کہ وہ جب تک اپنا ہاتھ نہ دھوئے اسے وضو کے پانی میں نہ ڈالے اور اگر اس نے دھونے سے پہلے ہاتھ ڈال دیا تو میں اس کے اس فعل کو مکروہ سمجھتا ہوں لیکن اس سے پانی فاسد نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگی ہو ٢ ؎، احمد بن حنبل کہتے ہیں : جب کوئی رات کو جاگے اور دھونے سے پہلے پانی میں ہاتھ ڈال دے تو اس پانی کو میرے نزدیک بہا دینا بہتر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : جب وہ رات یا دن کسی بھی وقت نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٦ (١٦٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٦ (٢٧٨) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٤٩ (١٠٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١ (١) ، و ١١٦ (١٦١) ، والغسل ٢٩ (٤٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٠ (٣٩٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٨٩ و ١٥٢٠٣) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٢ (٩) ، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٣، ٢٥٩، ٣٤٩، ٣٨٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : برتن کی قید سے حوض ، تالاب اور نہر وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا پانی قلتین سے زیادہ ہوتا ہے ، پس سو کر اٹھنے کے بعد ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ ٢ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے باب کی اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے ، یہی جمہور کا قول ہے ، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے ، لیکن احمد نے اسے رات کی نیند کے ساتھ خاص کردیا ہے اور اسحاق بن راہویہ نے اسے عام رکھا ہے ، صاحب تحفہ الأحوذی نے اسحاق بن راہویہ کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے ، احتیاط اسی میں ہے ، رات کی قید صرف اس لیے ہے کہ آدمی رات میں عموماً سوتا ہے ، نیز صحیحین کی روایات میں «من الليل» کی بجائے «ممن نومه» اپنی نیند سے ہے تو یہ رات اور دن ہر نیند کے لیے عام ہوا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (393) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 24
وضو کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا
سعید بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : جو «بسم اللہ» کر کے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- احمد بن حنبل کہتے ہیں : مجھے اس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں معلوم جس کی سند عمدہ ہو، ٣- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : اگر کوئی قصداً «بسم اللہ» کہنا چھوڑ دے تو وہ دوبارہ وضو کرے اور اگر بھول کر چھوڑے یا وہ اس حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو یہ اسے کافی ہوجائے گا، ٤- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے اچھی یہی مذکورہ بالا حدیث رباح بن عبدالرحمٰن کی ہے، یعنی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤١ (٣٩٨) (تحفة الأشراف : ٤٤٧٠) مسند احمد (٤/٧٠) و (٥/٣٨١-٣٨٢) و ٦/٣٨٢) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «بسم اللہ» کا پڑھنا وضو کے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضو صحیح نہیں ہوگا ، کیونکہ «لاوضوئ» سے صحت اور وجود کی نفی ہو رہی ہے نہ کہ کمال کی ، بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر «بسم اللہ» کیے بھی وضو صحیح ہوجائے گا لیکن وضو کامل نہیں ہوگا ، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ «لا» کو اپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لینا ہی حقیقت ہے ، اور نفی کمال کے معنی میں لینا مجاز ہے اور یہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے ، نفی کمال کے معنی میں آئی احادیث ثابت نہیں ہیں ، امام احمد کے نزدیک راجح «بسم اللہ» کا وجوب ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (399) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 25
None
سعید بن زید رضی الله عنہ سے اوپر والی حدیث کے مثل مروی ہے۔
کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
سلمہ بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو اور جب ڈھیلے سے استنجاء کرو تو طاق ڈھیلے لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عثمان، لقیط بن صبرہ، ابن عباس، مقدام بن معدیکرب، وائل بن حجر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- سلمہ بن قیس والی حدیث حسن صحیح ہے، ٣- جو کلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے : ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب کوئی ان دونوں چیزوں کو وضو میں چھوڑ دے اور نماز پڑھ لے تو وہ نماز کو لوٹائے ١ ؎ ان لوگوں کی رائے ہے کہ وضو اور جنابت دونوں میں یہ حکم یکساں ہے، ابن ابی لیلیٰ ، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں، امام احمد (مزید) کہتے ہیں کہ ناک میں پانی چڑھانا کلی کرنے سے زیادہ تاکیدی حکم ہے، اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جنابت میں کلی نہ کرنے اور ناک نہ جھاڑنے کی صورت میں نماز لوٹائے اور وضو میں نہ لوٹائے ٢ ؎ یہ سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا قول ہے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نہ وضو میں لوٹائے اور نہ جنابت میں کیونکہ یہ دونوں چیزیں مسنون ہیں، تو جو انہیں وضو اور جنابت میں چھوڑ دے اس پر نماز لوٹانا واجب نہیں، یہ مالک اور شافعی کا آخری قول ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٧٢ (٨٩) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٤ (٤٠٦) (تحفة الأشراف : ٤٥٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں عمل وضو اور غسل دونوں میں فرض ہیں ، ان کی دلیل یہی حدیث ہے ، اس میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے ، اور امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے ، الا یہ کہ کوئی قرینہ ایسا قرینہ موجود ہو جس سے امر کا صیغہ حکم اور وجوب کے معنی سے استحباب کے معنی میں بدل جائے جو ان کے بقول یہاں نہیں ہے ، صاحب تحفۃ الاحوذی اسی کے موید ہیں۔ ٢ ؎ : ان لوگوں کے یہاں یہ دونوں عمل وضو میں مسنون اور جنابت میں واجب ہیں کیونکہ جنابت میں پاکی میں مبالغہ کا حکم ہے۔ ٣ ؎ : یہی جمہور علماء کا قول ہے کیونکہ عطاء کے سوا کسی بھی صحابی یا تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ وہ بغیر کلی اور ناک جھاڑے پڑھی ہوئی نماز دہرانے کے قائل ہو ، گویا یہ مسنون ہوا فرض اور واجب نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (406) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 27
کلی کرنا اور ایک ہاتھ سے ناک میں پانی ڈالنا
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار آپ نے ایسا کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- عبداللہ بن زید (رض) کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ٣- مالک، سفیان، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے یہ بات ذکر نہیں کی کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، اسے صرف خالد ہی نے ذکر کیا ہے اور خالد محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا، اور بعض نے کہا ہے کہ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینا ہمیں زیادہ پسند ہے، شافعی کہتے ہیں کہ اگر ان دونوں کو ایک ہی چلو میں جمع کرے تو جائز ہے لیکن اگر الگ الگ چلّو سے کرے تو یہ ہمیں زیادہ پسند ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٣٨ (١٨٥) ، و ٣٩ (١٨٦) ، و ٤١ (١٩١) ، و ٤٢ (١٩٢) ، و ٤٥ (١٩٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ٧ (٢٣٥) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٥٠ (١١٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٠-٨٢ (٩٧، ٩٨، ٩٩) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ٥١ (٤٣٤) (نحوہ) و ٦١ (٤٧١) (مختصرا) ( تحفة الأشراف : ٥٣٠٨) موطا امام مالک/الطہارة ١ (١) ، مسند احمد (٤/٣٨، ٣٩) ، سنن الدارمی/ الطہارة ٢٨ (٧٢١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانا افضل ہے دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینے کی بھی احادیث آئی ہیں لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنے کی احادیث زیادہ اور صحیح ترین ہیں ، دونوں صورتیں جائز ہیں ، لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنا زیادہ اچھا ہے ، علامہ محمد بن اسماعیل الأمیرالیمانی سبل السلام میں فرماتے ہیں : اقرب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اختیار ہے اور ہر ایک سنت ہے ، گرچہ دونوں کو ایک کلی میں جمع کرنے کی روایات زیادہ ہیں اور صحیح تر ہیں ، واضح رہے کہ اختلاف زیادہ بہتر ہونے میں ہے جائز اور ناجائز کی بات نہیں ہے۔ ٢ ؎ : امام شافعی سے اس سلسلہ میں دو قول مروی ہیں ایک تو یہی جسے امام ترمذی نے یہاں نقل کیا ہے اور دوسرا ایک ہی چلو میں دونوں کو جمع کرنے کا اور یہ ان کا مشہور قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (110) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 28
داڑھی کا خلا ل
حسان بن بلال کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنی داڑھی میں خلال کیا ١ ؎ ان سے کہا گیا یا راوی حدیث حسان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا : کیا آپ اپنی داڑھی کا خلال کر رہے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں داڑھی کا خلال کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو داڑھی کا خلال کرتے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٠ (٤٢٩) (تحفة الأشراف : ١٠٣٤٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی کا خلال مسنون ہے ، بعض لوگ وجوب کے قائل ہیں ، لیکن تمام دلائل کا جائزہ لینے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنت ہے واجب نہیں ، جمہور کا یہی قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (429) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 29
داڑھی کا خلا ل
اس سند سے بھی عمار بن یاسر سے اوپر ہی کی حدیث کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عثمان، عائشہ، ام سلمہ، انس، ابن ابی اوفی اور ابوایوب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث عامر بن شقیق کی ہے، جسے انہوں نے ابو وائل سے اور ابو وائل نے عثمان (رض) سے روایت کیا ہے (جو آگے آرہی ہے) ، ٣- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں، ان لوگوں کی رائے ہے کہ داڑھی کا خلال (مسنون) ہے اور اسی کے قائل شافعی بھی ہیں، احمد کہتے ہیں کہ اگر کوئی داڑھی کا خلال کرنا بھول جائے تو وضو جائز ہوگا، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھول کر چھوڑ دے یا خلال والی حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو اسے کافی ہوجائے گا اور اگر قصداً جان بوجھ کر چھوڑے تو وہ اسے (وضو کو) لوٹائے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 30
داڑھی کا خلا ل
عثمان بن عفان (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٠ (٤٣٠) (تحفة الأشراف : ٩٨٠٩) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (430) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 31
سر کا مسح آگے سے پیچھے کی جانب کرنا
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- اس باب میں عبداللہ بن زید (رض) کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٢٨ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (434) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 32
سر کا مسح پچھلے حصہ سے شروع کرنا
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سر کا دو مرتبہ ١ ؎ مسح کیا، آپ نے (پہلے) اپنے سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا ٢ ؎، پھر (دوسری بار) اس کے اگلے حصہ سے اور اپنے کانوں کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کا مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث سند کے اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح اور زیادہ عمدہ ہے، ٢- اہل کوفہ میں سے بعض لوگ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، انہیں میں سے وکیع بن جراح بھی ہیں ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٠ (١٢٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٩ (٣٩٠) ، و ٥٢ (٤٤٠) (تحفة الأشراف : ١٥٨٣٧) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : حقیقت میں یہ ایک ہی مسح ہے آگے اور پیچھے دونوں کو راوی نے الگ الگ مسح شمار کر کے اسے «مرتین» دو بار سے تعبیر کیا ہے۔ ٢ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سر کا مسح سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا جائے ، لیکن عبداللہ بن زید کی متفق علیہ روایت جو اوپر گزری اس کے معارض اور اس سے زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ ربیع کی حدیث میں ایک راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ ہیں اور اگر اس کی صحت مان بھی لی جائے تو ممکن ہے آپ نے بیان جواز کے لیے ایسا بھی کیا ہو۔ ٣ ؎ : یہ مرجوح مذہب ہے ، راجح سر کے اگلے حصہ ہی سے شروع کرنا ہے ، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (390) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 33
سر کو مسح ایک مرتبہ کرنا
ربیع بنت معوذ بن عفراء (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، اگلے حصہ کا بھی اور پچھلے حصہ کا بھی اور اپنی دونوں کنپٹیوں اور کانوں کا بھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ربیع (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور بھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سر کا مسح ایک بار کیا، ٤- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور جعفر بن محمد، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی ٢ ؎ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ٥- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سر کے مسح کے بارے میں پوچھا : کیا ایک مرتبہ سر کا مسح کرلینا کافی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں قسم ہے اللہ کی۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (حسن الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : اس باب سے مؤلف ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جو تین بار مسح کے قائل ہیں۔ ٢ ؎ : امام ترمذی نے امام شافعی سے ایسا ہی نقل کیا ہے ، مگر بغوی نے نیز تمام شافعیہ نے امام شافعی کے بارے میں تین بار مسح کرنے کا قول نقل کیا ہے ، عام شافعیہ کا عمل بھی تین ہی پر ہے ، مگر یا تو یہ دیگر اعضاء پر قیاس ہے جو نص صریح کے مقابلہ میں صحیح نہیں ہے ، یا کچھ ضعیف حدیثوں سے تمسک ہے ( صحیحین کی نیز دیگر احادیث میں صرف ایک پر اکتفاء کی صراحت ہے ) ۔ قال الشيخ الألباني : حسن الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 34
سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سر کا مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ابن لھیعہ نے یہ حدیث بسند «حبان بن واسع عن أبیہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن زید (رض) نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے کیا، ٣- عمرو بن حارث کی روایت جسے انہوں نے حبان سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ١ ؎ کیونکہ اور بھی کئی سندوں سے عبداللہ بن زید وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا، ٤- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان کی رائے ہے کہ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٧ (٢٣٦) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٥٠ (١٢٠) ، وانظر أیضا رقم : ٢٨ (تحفة الأشراف : ٥٣٠٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مؤلف نے عمرو بن حارث کی روایت کے لیے زیادہ صحیح کا لفظ اس لیے اختیار کیا ہے کہ ابن لہیعہ کی روایت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن وہب کی روایت سے ہے ، اور عبادلہ اربعہ کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے ، لیکن اس روایت میں ابن لہیعہ اکیلے ہیں ، اس لیے ان کی روایت عمرو بن حارث کی روایت کے مقابلہ میں شاذ ہے اور عمرو بن حارث کی روایت ہی محفوظ ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 35
کان کے باہر اور اندر کا مسح
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابن عباس (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ربیع (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی دونوں حصوں کا مسح کیا جائے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٧ (١٤٠) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٥٢ (١٣٧) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٤ (١٠١، ١٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٩٧٨) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندورنی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں ، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے ، اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (439) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 36
دونوں کان سر کے حکم میں داخل ہیں
ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا تو اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا اور فرمایا : دونوں کان سر میں داخل ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- قتیبہ کا کہنا ہے کہ حماد کہتے ہیں : مجھے نہیں معلوم کہ یہ نبی اکرم ﷺ کا قول ہے یا ابوامامہ کا، ٢- اس باب میں انس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ٤- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ ہیں ١ ؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ کان کے سامنے کا حصہ چہرہ میں سے ہے (اس لیے اسے دھویا جائے) اور پیچھے کا حصہ سر میں سے ہے ٢ ؎۔ (اس لیے مسح کیا جائے) اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کان کے سامنے کے حصہ کا مسح چہرہ کے ساتھ کرے (یعنی چہرہ کے ساتھ دھوئے) اور پچھلے حصہ کا سر کے ساتھ ٣ ؎، شافعی کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنت ہیں (اس لیے) دونوں کا مسح نئے پانی سے کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٠ (١٣٤) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٥٣ (٤٤٤) (تحفة الأشراف : ٤٨٨٧) مسند احمد (٥/٢٥٨، ٢٦٨) (صحیح) (سند میں دو راوی ” سنان “ اور ” شہر “ ضعیف ہیں، لیکن دیگر احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہی قول راجح ہے۔ ٢ ؎ : یہ شعبی اور حسن بن صالح اور ان کے اتباع کا مذہب ہے۔ ٣ ؎ : امام ترمذی نے یہاں صرف تین مذاہب کا ذکر کیا ہے ، ان تینوں کے علاوہ اور بھی مذاہب ہیں ، انہیں میں سے ایک مذہب یہ ہے کہ دونوں کان چہرے میں سے ہیں ، لہٰذا یہ چہرے کے ساتھ دھوئے جائیں گے ، اسی طرف امام زہری اور داود ظاہری گئے ہیں ، اور ایک قول یہ ہے کہ انہیں چہرے کے ساتھ دھویا جائے اور سر کے ساتھ ان کا مسح کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (444) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 37
انگلیوں کا خلال کرنا
لقیط بن صبرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابن عباس، مستورد بن شداد فہری اور ابوایوب انصاری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٣- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وضو میں اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ وضو میں اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٥ (١٤٢) سنن النسائی/الطہارة ٧١ (٨٧) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٤ (٤٠٧) ویأتي عند المؤلف فی الصیام (٧٨٨) (تحفة الأشراف : ١١١٧٢) مسند احمد (٤/٣٣) سنن الدارمی/الطہارة ٣٤ (٧٣٢) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے ، کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے ، اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (448) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 38
None
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے بیچ خلال کرو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
None
میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں کو اپنے «خنصر» ( ہاتھ کی چھوٹی انگلی ) سے ملتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابن لھیعہ کے طریق ہی سے جانتے ہیں۔
ہلاکت ہے ان ایڑیوں کے لئے جو خشک وہ جائیں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی برتنے والوں کے لیے خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عائشہ، جابر، عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی معیقیب، خالد بن ولید، شرحبیل بن حسنہ، عمرو بن العاص اور یزید بن ابی سفیان سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ ان ایڑیوں اور قدم کے تلوؤں کے لیے جو وضو میں سوکھی رہ جائیں خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ پیروں کا مسح جائز نہیں اگر ان پر موزے یا جراب نہ ہوں۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، ( تحفة الأشراف : ١٢٧١٧) وانظر : مسند احمد (٢/٢٨٤٢٢٨٢، ٤٠٦، ٤٠٧، ٤٠٩، ٤٢٠، ٤٨٢، ٤٩٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر پیروں میں موزے یا جراب نہ ہو تو ان کا دھونا واجب ہے ، مسح کافی نہیں جیسا کہ شیعوں کا مذہب ہے ، کیونکہ اگر مسح سے فرض ادا ہوجاتا تو نبی اکرم ﷺ «ويل للأعقاب وبطون الأقدام من النار» نہ فرماتے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 41
وضو میں ایک ایک مرتبہ اعضاء کو دھونا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک بار دھوئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عمر، جابر، بریدۃ، ابورافع، اور ابن الفاکہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابن عباس کی یہ حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے، ٣- رشدین بن سعد وغیرہ بسند «ضحاک بن شرحبیل عن زید بن اسلم عن أبیہ» سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا ، یہ (روایت) کچھ بھی نہیں ہے صحیح وہی روایت ہے جسے ابن عجلان، ہشام بن سعد، سفیان ثوری اور عبدالعزیز بن محمد نے بسند «زید بن اسلم عن عطاء بن یسار عن ابن عباس عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢٢ (١٥٧) ، سنن ابی داود/ الطھارة ٥٣ (١٣٨) ، سنن النسائی/الطھارة ٦٤ (٨٠) ، ق ٤٥ (٤١١) (تحفة الأشراف : ٥٩٧٦) مسند احمد (١/٣٣٢) ، سنن الدارمی/الطھارة ٢٩ (٧٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ فرض تعداد ہے نبی اکرم ﷺ کبھی کبھی بیان جواز کے لیے ایسا کرتے تھے ، ورنہ سنت دو مرتبہ اور تین مرتبہ دھونا ہے۔ ٢ ؎ : یعنی اعضائے وضو کو دھونے کے بارے میں زید بن اسلم کے طریق سے جو روایت آتی ہے ، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ مذکورہ سند سے ابن عباس (رض) کی مسند سے ہے ، نہ کہ عمر (رض) کی مسند سے ، رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (411) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 42
اعضائے وضو کو دو دو مرتبہ دھونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو دو دو بار دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- ہم یہ جانتے ہیں کہ اسے صرف ابن ثوبان نے عبداللہ بن فضل سے روایت کیا ہے اور یہ سند حسن صحیح ہے، ٤- ھمام نے بسند «عامر الا ٔ حول عن عطاء عن ابی ہریرہ» روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٢ (١٣٦) (تحفة الأشراف : ١٣٩٤٠) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ہمام بن یحییٰ اور عامر الاحول دونوں سے وہم ہوجایا کرتا تھا ، تو ایسا نہ ہو کہ اس روایت میں ان دونوں میں سے کسی سے وہم ہوگیا ہو اور بجائے دو دو کے تین تین روایت کردی ہو ، ویسے ابوہریرہ (رض) سے ایک دوسری ( ضعیف ) سند سے ابن ماجہ ( رقم : ٤١٥) میں ایسی ہی روایت ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (125) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 43
وضو کے اعضاء کو تین تین مرتبہ دھونا
علی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عثمان، عائشہ، ربیع، ابن عمر، ابوامامہ، ابورافع، عبداللہ بن عمرو، معاویہ، ابوہریرہ، جابر، عبداللہ بن زید اور ابی بن کعب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- علی (رض) کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے کیونکہ یہ علی (رض) سے اور بھی سندوں سے مروی ہے، ٣- اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا کافی ہے، دو دو بار افضل ہے اور اس سے بھی زیادہ افضل تین تین بار دھونا ہے، اس سے آگے کی گنجائش نہیں، ابن مبارک کہتے ہیں : جب کوئی اعضائے وضو کو تین بار سے زیادہ دھوئے تو مجھے اس کے گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : تین سے زائد بار اعضائے وضو کو وہی دھوئے گا جو (دیوانگی اور وسوسہ) میں مبتلا ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٠ (١١٦) سنن النسائی/الطہارة ٧٩ (٩٦) و ٩٣ (١١٥) و ١٠٣ (١٣٦) (تحفة الأشراف : ١٠٣٢١، و ١٠٣٢٢) مسند احمد (١/١٢٢) ویأتي برقم : ٤٨، وانظر ما یأتي برقم ٤٩ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اگر کسی کو شک ہوجائے کہ تین بار دھویا ہے یا دو ہی بار ، تب بھی اسی پر اکتفا کرے کیونکہ اگر تین بار نہیں دھویا ہوگا تو دو بار تو دھویا ہی ہے ، جو کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (100) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 44
اعضائے وضو کو ایک دو اور تین مرتبہ دھونا
ابوحمزہ ثابت بن ابی صفیہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے پوچھا : کیا جابر (رض) نے آپ سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک بار، دو دو بار، اور تین تین بار دھوئے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا : جی ہاں (بیان کیا ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٥ (٤١٠) (تحفة الأشراف : ٢٥٩٢) (ضعیف) (سند میں ابو حمزہ ثابت بن ابی صفیہ الثمالی، و اور شریک بن عبداللہ القاضی دونوں ضعیف ہیں، نیز یہ آگے آنے والی حدیث کے مخالف بھی ہے، جس کے بارے میں امام ترمذی کا فیصلہ ہے کہ وہ شریک کی روایت سے زیادہ صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (410) ، //، المشکاة (422) ، ضعيف سنن ابن ماجة (91) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 45 یہ حدیث وکیع نے ثابت بن ابی صفیہ سے روایت کی ہے، میں نے ابو جعفر (محمد بن علی بن حسین الباقر) سے پوچھا کہ آپ سے جابر (رض) نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک بار دھو دیا، انہوں نے جواب دیا : جی ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اور یہ شریک کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ ثابت سے وکیع کی روایت کی طرح اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ٢- اور شریک کثیر الغلط راوی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : (صحیح) (سابقہ ابن عباس کی حدیث اور اس میں مذکور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح بحديث ابن عباس المتقدم برقم (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 46
None
آپ سے جابر رضی الله عنہما نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو کو ایک بار دھو دیا، انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ شریک کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ ثابت سے وکیع کی روایت کی طرح اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۲- اور شریک کثیر الغلط راوی ہیں۔
وضو میں بعض اعضاء دو مرتبہ اور بعض تین مرتبہ دھونا
عبداللہ بن زید (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا تو آپ نے اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پیر دو دو بار دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس کے علاوہ اور بھی حدیثوں میں یہ بات مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے بعض اعضائے وضو کو ایک ایک بار اور بعض کو تین تین بار دھویا، ٣- بعض اہل علم نے اس بات کی اجازت دی ہے، ان کی رائے میں وضو میں بعض اعضاء کو تین بار، بعض کو دو بار اور بعض کو ایک بار دھونے میں کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : (صحیح الإسناد) (وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ میں مرتين کا لفظ شاذ ہے، صحیح ابی داود ١٠٩) قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد، وقوله فی الرجلين : مرتين شاذ، صحيح أبي داود (109) ، // انظر صحيح سنن أبي داود - باختصار السند - طبع مکتب التربية - برقم (109 - 118) ، ضعيف سنن النسائی (3 / 99) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 47
نبی ﷺ کا وضو
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی چڑھایا، تین بار اپنا چہرہ دھویا اور ایک بار اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا ١ ؎، پھر کہا : میں نے تمہیں دکھانا چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کا وضو کیسے ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عثمان، عبداللہ بن زید، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، ربیع، عبداللہ بن انیس اور عائشہ رضوان اللہ علیہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر رقم : ٤٤ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : صحیح بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ علی (رض) نے کہا : لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز نہیں سمجھتے ، حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے کیا ہے ، اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ، ١- کھڑے ہو کر کبھی کبھی پانی پینا جائز ہے ، ٢- وضو سے بچے ہوئے پانی میں برکت ہوتی ہے اس لیے آپ نے اسے پیا اور کھڑے ہو کر پیا تاکہ لوگ یہ عمل دیکھ لیں ، نہ یہ کہ وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر ہی پینا چاہیئے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (101 - 105) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 48
نبی ﷺ کا وضو
عبد خیر نے بھی علی (رض) سے، ابوحیہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کی ہے، مگر عبد خیر کی روایت میں ہے کہ جب وہ اپنے وضو سے فارغ ہوئے تو بچے ہوئے پانی کو انہوں نے اپنے چلو میں لیا اور اسے پیا۔ امام ترمذی نے اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٠ (١١١) سنن النسائی/الطہارة ٧٤ (٩١) و ٧٥ (٩٢) و ٧٦ (٩٣) (تحفة الأشراف : ١٠٢٠٣) مسند احمد (١/١٢٢) سنن الدارمی/الطہارة ٣١ (٧٢٨) وانظر رقم : ٤٤ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذي قبله (48) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 49
وضو کے بعد ازار پر پانی چھڑکنا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جبرائیل نے آ کر کہا : اے محمد ! جب آپ وضو کریں تو (شرمگاہ پر) پانی چھڑک لیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے سنا ہے کہ حسن بن علی الھاشمی منکر الحدیث راوی ہیں ٢ ؎، ٣- اس حدیث کی سند میں لوگ اضطراب کا شکار ہیں، ٤- اس باب میں ابوالحکم بن سفیان، ابن عباس، زید بن حارثہ اور ابو سعید خدری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/ الطہارة ٥٨ (٤٦٣) (تحفة الأشراف : ١٣٦٤٤) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بن علی ہاشمی ضعیف ہیں، قولی حدیث ثابت نہیں، فعل رسول ﷺ سے یہ عمل ثابت ہے، دیکھئے : الضعیفة ١٣١٢، والصحیحة ٨٤١) وضاحت : ١ ؎ : اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ وسوسہ ختم ہوجاتا ہے کہ شاید شرمگاہ کے پاس کپڑے میں جو نمی ہے وہ ہو نہ ہو پیشاب کے قطروں سے ہو ، اور ظاہر بات ہے کہ وضو کے بعد اس طرح کی نمی ملنے پر یہ شک ہوگا ، لیکن اگر پیشاب کے بعد اور وضو سے پہلے نمی ہوگی تو وہ پیشاب ہی کی ہوگی۔ ٢ ؎ : حسن بن علی نوفلی ہاشمی کی وجہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث ضعیف ہے ، مگر اس باب میں دیگر صحابہ سے فعل رسول ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (463) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (103) ، الضعيفة (1312) ، الصحيحة (2 / 519 - 520) ، المشکاة (367 / الحقيق الثاني) ، ضعيف الجامع الصغير - بترتيبى - رقم (2622) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 50
وضو مکمل کرنے کے بارے میں
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیزیں نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیوں نہیں، آپ ضرور بتائیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ناگواری کے باوجود مکمل وضو کرنا ١ ؎ اور مسجدوں کی طرف زیادہ چل کر جانا ٢ ؎ اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا، یہی سرحد کی حقیقی پاسبانی ہے ٣ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/ الطہارة ١٤ (٢٥١) سنن النسائی/الطہارة ١٠٧ (١٤٣) (تحفة الأشراف : ١٣٩٨١) موطا امام مالک/السفر ١٨ (٥٥) مسند احمد (٢/٢٧٧، ٣٠٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ناگواری کے باوجود مکمل وضو کرنے کا مطلب ہے سخت سردی میں اعضاء کا مکمل طور پر دھونا ، یہ طبیعت پر نہایت گراں ہوتا ہے اس کے باوجود مسلمان محض اللہ کی رضا کے لیے ایسا کرتا ہے اس لیے اس کا اجر زیادہ ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : مسجد کا قرب بعض اعتبار سے مفید ہے لیکن گھر کا مسجد سے دور ہونا اس لحاظ سے بہتر ہے کہ جتنے قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہوگا۔ ٣ ؎ : یعنی یہ تینوں اعمال اجر و ثواب میں سرحدوں کی پاسبانی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی طرح ہیں ، یا یہ مطلب ہے کہ جس طرح سرحدوں کی نگرانی کے سبب دشمن ملک کے اندر گھس نہیں پاتا اسی طرح ان اعمال پر مواظبت سے شیطان نفس پر غالب نہیں ہو پاتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (428) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 51
وضو مکمل کرنے کے بارے میں
اس سند سے بھی ابوہریرہ (رض) سے اس طرح روایت ہے، لیکن قتیبہ نے اپنی روایت میں «فذلکم الرباط فذلکم الرباط فذلکم الرباط» تین بار کہا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں علی، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس، عبیدہ - یا۔۔۔ عبیدہ بن عمرو - عائشہ، عبدالرحمٰن بن عائش الحضرمی اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٤٠٧١) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر الذي قبله (51) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 52
وضو کے بعد رومال استعمال کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے آپ وضو کے بعد اپنا بدن پونچھتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی روایت درست نہیں ہے، نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے، ابومعاذ سلیمان بن ارقم محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ٢- اس باب میں معاذ بن جبل (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المولف ( تحفة الأشراف : ١٦٤٥٧) (حسن) (سند میں ” ابو معاذ سلیمان بن ارقم “ ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی ٥٠٢، والصحیحہ ٢٠٩٩) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، نیز اس باب میں وارد کوئی بھی صریح حدیث صحیح نہیں ہے جیسا کہ امام ترمذی نے صراحت کی ہے ، مگر ام سلمہ (رض) کی حدیث جو صحیحین کی حدیث سے اس سے اس کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے ، اس میں ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد ام سلمہ نے نبی اکرم ﷺ کو تولیہ پیش کیا تو آپ نے نہیں لیا ، اس سے ثابت ہوا کہ غسل کے بعد تولیہ استعمال کرنے کی عادت تھی تبھی تو ام سلمہ (رض) نے پیش کیا ، مگر اس وقت کسی وجہ سے آپ نے اسے استعمال نہیں کیا اور ایسا بہت ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 53
وضو کے بعد رومال استعمال کرنا
معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو چہرے کو اپنے کپڑے کے کنارے سے پونچھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے، رشدین بن سعد اور عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم الافریقی دونوں حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں، ٢- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کے ایک گروہ نے وضو کے بعد رومال سے پونچھنے کی اجازت دی ہے، اور جن لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے تو محض اس وجہ سے کہا ہے کہ کہا جاتا ہے : وضو کو (قیامت کے دن) تولا جائے گا، یہ بات سعید بن مسیب اور زہری سے روایت کی گئی ہے، ٣- زہری کہتے ہیں کہ وضو کے بعد تولیہ کا استعمال اس لیے مکروہ ہے کہ وضو کا پانی (قیامت کے روز) تولا جائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفردبہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١١٣٣٤) (ضعیف الإسناد) (سند میں رشدین بن سعد اور عبدالرحمن افریقی دونوں ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس معنی میں بھی کوئی مرفوع صحیح حدیث وارد نہیں ہے ، اور قیامت کے دن وزن کیے جانے کی بات اجر و ثواب کی بات ہے کوئی چاہے تو اپنے طور پر یہ اجر حاصل کرے ، لیکن اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ تولیہ کا استعمال ہی مکروہ ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 54
وضو کے بعد کیا پڑھا جائے
عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے : «أشهد أن لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں انس اور عقبہ بن عامر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- امام ترمذی نے عمر (رض) کی حدیث کے طرق ١ ؎ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے، ٣- اس باب میں زیادہ تر چیزیں نبی اکرم ﷺ سے صحیح ثابت نہیں ہیں ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٠٨٠) وأخرجہ بدون قولہ ” اللھم اجعلني … “ کل من : صحیح مسلم/الطھارة ٦ (٢٣٤) ، والطھارة ٦٥ (١٦٩) ، و سنن النسائی/الطھارة ١٠٩ (١٤٨) ، والطھارة ٦٠ (٤٧٠) ، و مسند احمد (١/١٤٦، ١٥١، ١٥٣) من طریق عقبة بن عامر عن عمر ( تحفة الأشراف : ١٠٦٠٩) (صحیح) (سند میں اضطراب ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود رقم ١٦٢) وضاحت : ١ ؎ : عمر (رض) کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے ( رقم : ٢٣٤) اور اس میں «اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» کا اضافہ نہیں ہے ، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے ، احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہر عضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں : مثلاً چہرہ دھونے کے وقت «اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه» اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت «اللهم أعطني کتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً» ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ٣ ؎ : ترمذی کی سند میں ابو ادریس کی روایت براہ راست عمر (رض) سے ہے ، لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں ابو ادریس کے بعد جبیر بن نفیر عن عقبہ بن عامر ، عن عمر ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے ، بہرحال ترمذی کی روایت میں «اللهم أجعلني …» کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان (رض) کی حدیث میں موجود ہے ، حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو : الإرواء رقم ٩٦ ، وصحیح أبی داود رقم ١٦٢) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (470) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 55
ایک مد سے وضو کرنے کے بارے میں
سفینہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، جابر اور انس بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مد پانی سے وضو کیا جائے اور ایک صاع پانی سے غسل، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصود تحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یا کم جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدار ایسی ہے جو کافی ہوتی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٦) سنن ابن ماجہ/الطہارة ١ (٢٦٧) (تحفة الأشراف : ٤٤٧٩) مسند احمد (٥/٢٢٢) سنن الدارمی/الطہارة ٢٣ (٧١٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : مسلم میں ایک «فرق» پانی سے نبی اکرم ﷺ کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے ، «فرق» ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا ، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ (رض) اور نبی اکرم ﷺ دونوں ایک «فرق» پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے ، یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے ، ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی ، یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے ، نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں ، اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے ، بہرحال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (267) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 56
وضو میں اسراف مکروہ ہے
ابی بن کعب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : وضو کے لیے ایک شیطان ہے، اسے ولہان کہا جاتا ہے، تم اس کے وسوسوں کے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے سے بچو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن مغفل (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- ابی بن کعب کی حدیث غریب ہے، ٣- اس کی سند محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہم نہیں جانتے کہ خارجہ کے علاوہ کسی اور نے اسے مسنداً روایت کیا ہو، یہ حدیث دوسری اور سندوں سے حسن (بصریٰ ) سے موقوفاً مروی ہے (یعنی اسے حسن ہی کا قول قرار دیا گیا ہے) اور اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی چیز صحیح نہیں اور خارجہ ہمارے اصحاب ١ ؎ کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں، ابن مبارک نے ان کی تضعیف کی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٤٨ (٤٢١) (تحفة الأشراف : ٦٦) ، و مسند احمد (٥/١٣٦) (ضعیف جدا) (خارجہ بن مصعب متروک ہے) وضاحت : ١ ؎ : امام ترمذی جب «اصحابنا» کہتے ہیں تو اس سے محدثین مراد ہوتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا، ابن ماجة (421) ، //، المشکاة (419) ، ضعيف الجامع الصغير (1970) ، ضعيف سنن ابن ماجة (94) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 57
ہر نماز کے لئے وضو کرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے باوضو ہوتے یا بےوضو۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس (رض) سے پوچھا : آپ لوگ کیسے کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی وضو کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حمید کی حدیث بواسطہ انس اس سند سے غریب ہے، اور محدثین کے نزدیک مشہور عمرو بن عامر والی حدیث ہے جو بواسطہ انس مروی ہے، اور بعض اہل علم ٢ ؎ کی رائے ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو مستحب ہے نہ کہ واجب۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٧٤٠) (ضعیف) (محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں اور محمد بن اسحاق مدلس، اور روایت ” عنعنہ “ سے ہے، لیکن متابعت جو حدیث : ٦٠ پر آرہی ہے کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : ایک ہی وضو سے کئی کئی نمازیں پڑھتے تھے۔ ٢ ؎ : بلکہ اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف صحيح أبى داود تحت الحديث (163) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 58
ہر نماز کے لئے وضو کرنا
عمرو بن عامر انصاری کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا : نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، میں نے (انس سے) پوچھا : پھر آپ لوگ کیسے کرتے تھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم «حدث» نہ کرتے ساری نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور حمید کی حدیث جو انس سے مروی ہے جید غریب حسن ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الطہارة ٥٤ (٢١٤) سنن النسائی/الطہارة ١٠١ (١٣١) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٢ (٥٠٩) (تحفة الأشراف : ١١١٠) مسند احمد (٣/١٣٢، ١٩٤، ٢٦٠) ، سنن الدارمی/ الطہارة ٤٦ (٧٤٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (509) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 60
ہر نماز کے لئے وضو کرنا
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو وضو پر وضو کرے گا اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث افریقی نے ابوغطیف سے اور ابوغطیف نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ہم سے اسے حسین بن حریث مروزی نے محمد بن یزید واسطی کے واسطے سے بیان کیا ہے اور محمد بن یزید نے افریقی سے روایت کی ہے اور یہ سند ضعیف ہے، ٢- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں : انہوں نے اس حدیث کا ذکر ہشام بن عروہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سند مشرقی ہے ١ ؎، ٣- میں نے احمد بن حسن کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ہے : میں نے اپنی آنکھ سے یحییٰ بن سعید القطان کے مثل کسی کو نہیں دیکھا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣٢ (٦٢) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٣ (٥١٢) (تحفة الأشراف : ٨٥٩٠) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں، اور ابو غطیف مجہول ہیں) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث کے رواۃ مدینہ کے لوگ نہیں ہیں بلکہ اہل مشرق ( اہل کوفہ اور بصرہ ) ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے معتبر نہیں ہیں جتنا اہل مدینہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (512) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (114) ، المشکاة (293) ، ضعيف أبي داود (12 / 62) ، ضعيف الجامع الصغير - بترتيب زهير - رقم (5536) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 59
کہ نبی ﷺ کا ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنا
بریدہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور جب فتح مکہ کا سال ہوا تو آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا، عمر (رض) نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جسے کبھی نہیں کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور اس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا ، ٣- سفیان ثوری نے بسند «محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» (مرسلاً روایت کیا ہے) کہ نبی اکرم ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے ، ٤- اور اسے وکیع نے بسند «سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ» سے روایت کیا ہے، ٥- نیز اسے عبدالرحمٰن بن مھدی وغیرہ نے بسند «سفیان عن محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ١ ؎، ٦- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں، جب تک «حدث» نہ ہو، ٧- بعض اہل علم استحباب اور فضیلت کے ارادہ سے ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، ٨- نیز عبدالرحمٰن افریقی نے بسند «ابی غطیفعن ابن عمر» روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو وضو پر وضو کرے گا تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ٩- اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک وضو سے ظہر اور عصر دونوں پڑھیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٥ (٢٧٧) سنن ابی داود/ الطہارة ٦٦ (١٧٢) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٢ (٥١٠) (تحفة الأشراف : ١٩٢٨) مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥١، ٣٥٨) سنن الدارمی/الطہارة ٣ (٦٨٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں ، لیکن عبدالرحمٰن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے ( جو مولف کی پہلی سند ہے ) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے ، فافہم۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (510) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 61
مرد اور عورت کا ایک برتن میں وضو کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے میمونہ (رض) نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ مرد اور عورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں، ٣- اس باب میں علی، عائشہ، انس، ام ہانی، ام حبیبہ، ام سلمہ اور ابن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٠ (٣٢٢) سنن النسائی/الطہارة ١٤٦ (٢٣٧) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٥ (٣٧٧) (تحفة الأشراف : ١٨٠٩٧) مسند احمد (٦/٣٢٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 62
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی کراہت کے بارے میں
قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی (حکم بن عمرو) (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے (وضو کرنے سے) منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن سرجس (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- بعض فقہاء نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ان دونوں نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو مکروہ کہا ہے لیکن اس کے جھوٹے کے استعمال میں ان دونوں نے کوئی حرج نہیں جانا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٤٠ (٨٢) سنن النسائی/المیاہ ١٢ (٣٤٥) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٤ (٣٧٣) (تحفة الأشراف : ٣٤٢١) ، مسند احمد (٤/٢١٣، ٦٦٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (373) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 63
عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی کراہت کے بارے میں
حکم بن عمرو غفاری (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کو منع فرمایا ہے، یا فرمایا : عورت کے جھوٹے سے وضو کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- اور محمد بن بشار اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ مرد عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے ١ ؎، اور محمد بن بشار نے اس روایت میں - «أو بسؤرها» والا شک بیان نہیں کیا ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظرما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس نہی سے نہی تنزیہی مراد ہے ، یعنی نہ استعمال کرنا بہتر ہے ، اس پر قرینہ وہ احادیث ہیں جو جواز پر دلالت کرتی ہیں ، یا یہ ممانعت محمول ہوگی اس پانی پر جو اعضائے وضو سے گرتا ہے کیونکہ وہ «ماء» مستعمل استعمال ہوا پانی ہے۔ ٢ ؎ : مطلب یہ کہ محمود بن غیلان کی روایت شک کے صیغے کے ساتھ ہے اور محمد بن بشار کی بغیر شک کے صیغے سے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (63) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 64
جنبی عورت کے نہائے ہوئے پانی کے بقیہ سے وضو کا جواز
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک بیوی نے ایک لگن (ٹب) سے (پانی لے کر) غسل کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس (بچے ہوئے پانی) سے وضو کرنا چاہا، تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ناپاک تھی، آپ نے فرمایا : پانی جنبی نہیں ہوتا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یہی سفیان ثوری، مالک اور شافعی کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣٥ (٦٨) سنن النسائی/المیاہ ١ (٣٢٦) (بلفظ ” لاینجسہ شیٔ “ ٣٣ (٣٧٠، ٣٧١) (تحفة الأشراف : ٦١٠٣) مسند احمد (١/٢٤٣) سنن الدارمی/الطہارة ٥٧ (٧٦١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت ( غسل اور وضو ) حاصل کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (370) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 65
پانی کو کوئی چیز نا پاک نہیں کر تی
ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں ١ ؎ سے وضو کریں اور حال یہ ہے وہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں آ کر گرتی ہیں ؟۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن ہے، ٢- بئر بضاعہ والی ابو سعید خدری کی یہ حدیث جس عمدگی کے ساتھ ابواسامہ نے روایت کی ہے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ٣ ؎، ٣- یہ حدیث کئی اور طریق سے ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے، ٤- اس باب میں ابن عباس اور عائشہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣٤ (٦٦) سنن النسائی/المیاہ ٢ (٣٢٧، ٣٢٨) (تحفة الأشراف : ٤١٤٤) مسند احمد (٣/١٥، ١٦، ٣١، ٨٦) (صحیح) (سند میں عبید اللہ بن عبد اللہ رافع مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : بئر بضاعہ مدینہ کے ایک مشہور کنویں کا نام ہے۔ ٢ ؎ : «إن الماء طهور» میں «المائ» میں جو لام ہے وہ عہد کا لام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے پاک نہیں ہوگا کیونکہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہوجاتا ، جیسا کہ امام ابوداؤد (رح) نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے ، یہ ہے کہ جب پانی کثیر مقدار میں ہو ( یعنی دو قلہ سے زیادہ ہو ) تو محض نجاست کا گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہوگا ، چاہے وہ کم ہو ، یا چاہے اس کا مزہ اور مہک بدل جائے۔ ٣ ؎ : مولف کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابو سعید خدری (رض) سے کئی طرق سے مروی ہے ان میں سب سے بہتر طریق یہی ابواسامہ والا ہے ، تمام طرق سے مل کر یہ حدیث صحیح ( لغیرہ ) کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (478) ، صحيح أبي داود (59) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 66
اسی کے متعلق دوسرا
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو میدان میں ہوتا ہے اور جس پر درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا : جب پانی دو قلہ ١ ؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کر دے گا ٢ ؎۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں : قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ (ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہی قول شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پانی دو قلہ ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کی بویا مزہ بدل نہ جائے، اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ دو قلہ پانچ مشک کے قریب ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣٣ (٦٣) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٤ (٥٢) ، والمیاہ ٢ (٣٢٩) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٥ (٥١٧، ٥١٨) (تحفة الأشراف : ٧٣٠٥) ، مسند احمد (١/١٢، ٢٦، ٣٨، ١٠٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٥ (٧٥٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں ، یہاں مراد قبیلہ ہجر کے مٹکے ہیں ، کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور و معروف تھے ، اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی ، لہٰذا دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی جو موجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دو کو ئنٹل ستائیس کلو گرام ہوتی ہے۔ ٢ ؎ : کچھ لوگوں نے «لم يحمل الخبث» کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہوگا یعنی نجس ہوجائے گا ، لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں ، ایک یہ کہ ابوداؤد کی ایک صحیح روایت میں «اذابلغ الماء قلتین فإنہ لاینجس» ہے ، یعنی : اگر پانی اس مقدار سے کم ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک ہوجائے گا ، چاہے رنگ مزہ اور بو نہ بدلے ، اور اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہوگا ، الا یہ کہ اس کا رنگ ، مزہ ، اور بو بدل جائے ، لہٰذا یہ روایت اسی پر محمول ہوگی اور «لم يحمل الخبث» کے معنی «لم ينجس» کے ہوں گے ، دوسری یہ کہ «قلتين» دو قلے سے نبی اکرم ﷺ نے پانی کی تحدید فرما دی ہے اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہوجائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آ جائیں گے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (517) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 67
رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا مکروہ ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ١ ؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٨ (٢٣٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٨ (٢٨٢) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٣٦ (٦٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٧ (٥٨) ، و ١٣٩ (٢٢١) ، و ١٤٠ (٢٢٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٥ (٣٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٧٢٢) ، مسند احمد (٢/٣١٦، ٣٦٢، ٣٦٤) ، سنن الدارمی/ الطہارة ٥٤ (٧٥٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد ایسا پانی ہے جو دریا کی طرح جاری نہ ہو جیسے حوض اور تالاب وغیرہ کا پانی ، ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہوگا ، یہ پانی کم ہو یا زیادہ اس میں نجاست ڈالنے سے بچنا چاہیئے تاکہ اس میں مزید بدبو نہ ہو ، ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے بھی سرانڈ پیدا ہوجاتی ہے ، اگر اس میں نجاست ( گندگی ) ڈال دی جائے تو اس کی سڑاند بڑھ جائے گی اور اس سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (344) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 68
دریا کا پانی پاک ہونا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سمندر کا پانی پاک ١ ؎ ہے، اور اس کا مردار حلال ہے ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور فراسی (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اور یہی صحابہ کرام (رض) میں سے اکثر فقہاء کا قول ہے جن میں ابوبکر، عمر اور ابن عباس بھی ہیں کہ سمندر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں، بعض صحابہ کرام نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ جانا ہے، انہیں میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو ہیں عبداللہ بن عمرو کا کہنا ہے کہ سمندر کا پانی آگ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٤١ (٨٣) سنن النسائی/الطہارة ٤٧ (٥٩) والمیاہ ٥ (٣٣٣) والصید ٣٥ (٤٣٥٥) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٩ (٣٨٦) (تحفة الأشراف : ١٤٦١٨) موطا امام مالک/الطہارة ٣ (١٢) مسند احمد (٢/٢٣٧، ٣٦١، ٣٧٨) سنن الدارمی/الطہارة ٥٣ (٧٥٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی «طاہر» (پاک ) اور «مطہر» (پاک کرنے والا ) دونوں ہے۔ ٢ ؎ : سمندر کے مردار سے مراد وہ سمندری اور دریائی جانور ہے جو صرف پانی ہی میں زندہ رہتا ہو ، نیز مردار کا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانور جو پانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اور خنزیر کے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں ، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : دو مردے حلال ہیں : مچھلی اور ٹڈی ، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیر و مثال جانور کھائے جاتے وہی سمندری مردار حلال ہے ، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندر کا ہر وہ جانور ( زندہ یا مردہ ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ نہ ہو ، اور نہ ہی خبیث قسم کا ہو جیسے کچھوا ، اور کیکڑا وغیرہ ، یہ دونوں اصول ضابطہٰ سمندری غیر سمندری ہر طرح کے جانور کے لیے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (386 - 388) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 69
پیشاب سے بہت زیادہ احتیاط کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا : یہ دونوں قبر والے عذاب دیئے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہوتا) رہا یہ تو یہ اپنے پیشاب سے بچتا نہیں تھا ١ ؎ اور رہا یہ تو یہ چغلی کیا کرتا تھا ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، ابوموسیٰ ، عبدالرحمٰن بن حسنہ، زید بن ثابت، اور ابوبکرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٥ (٢١٦) و ٥٦ (٢١٨) والجنائز ٩١ (١٣٦١) و ٨٨ (١٣٧٨) والأدب ٤٦ (٦٠٥٢) و ٤٩ (٦٠٥٥) صحیح مسلم/الطہارة ٣٤ (٢٩٢) سنن ابی داود/ الطہارة ١١ (٢٠) سنن النسائی/الطہارة ٢٧ (٣١) والجنائز ١١٦ (٢٠٧٠) سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٦ (٣٤٧) (تحفة الأشراف : ٥٧٤٧) مسند احمد (١/٢٢٥) سنن الدارمی/ الطہارة ٦١ (٧٦٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا ، پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن یا کپڑوں پر پڑجایا کرتے تھے ، جو قبر میں عذاب کا سبب بنے ، اس لیے اس کی احتیاط کرنی چاہیئے ، اور یہ کوئی بہت بڑی اور مشکل بات نہیں۔ ٢ ؎ : چغلی خود گرچہ بڑا گناہ ہے مگر اس سے بچنا کوئی مشکل بات نہیں ، اس لحاظ سے فرمایا کہ کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (347) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 70
شیر خوار بچہ جب تک کھانا نہ کھائے اس کے پیشاب پر پانی چھڑکنا کافی ہے
ام قیس بنت محصن (رض) کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، وہ ابھی تک کھانا نہیں کھاتا تھا ١ ؎، اس نے آپ پر پیشاب کردیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اسے اس پر چھڑک لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی، عائشہ، زینب، فضل بن عباس کی والدہ لبابہ بنت حارث، ابوالسمح، عبداللہ بن عمرو، ابولیلیٰ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں کا یہی قول ہے کہ بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے، اور یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دونوں کھانا نہ کھانے لگ جائیں، اور جب وہ کھانا کھانے لگ جائیں تو بالاتفاق دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٩ (٢٢٣) ، والطب ١٠ (٥٦٩٣) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٤ (٢٨٧) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٧ (٣٧٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٩ (٣٠٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٧ (٥٢٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٣٤٢) موطا امام مالک/٣٠ (١١٠) ، مسند احمد (٦/٣٥٥، ٣٥٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٢ (٧٦٧) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کی غذا صرف دودھ تھی ، ابھی اس نے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (524) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 71
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب
انس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چناچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا : تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہوگئے) تو ان لوگوں نے آپ ﷺ کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہوگئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم تپتی ہوئی زمین میں انہیں پھینک دیا۔ انس (رض) کہتے ہیں : میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا تھا کہ (وہ پیاس بجھانے کے لیے) اپنے منہ سے زمین چاٹ رہا تھا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور کئی سندوں سے انس سے مروی ہے، ٢- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہو اس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٦ (٢٣٣) ، والزکاة ٦٨ (١٥٠١) ، والجہاد ١٥٢ (٣٠١٨) ، والمغازی ٣٦ (٤٩٢) ، وتفسیر المائدة ٥ (٤٦١٠) ، والطب ٥ (٥٦٨٥) ، و ٦ (٥٦٨٦) ، و ٢٩ (٥٧٢٧) ، والحدود ١٥ (٦٨٠٢) ، و ١٧ (٦٨٠٤) ، و ١٨ (٦٨٠٥) ، والدیات ٢٢ (٦٨٩٩) ، صحیح مسلم/القسامة ١٣ (١٦٧١) ، سنن ابی داود/ الحدود ٣ (٤٣٦٧، وأیضا ٣٦٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩١ (٣٠٥) ، والمحاربة ٧ (٤٠٢٩، ٤٠٣٢) ، و ٨ (٤٠٣٣ - ٤٠٤٠) ، و ٩ (٤٠٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الطب ٣٠ (٣٥٠٣) (تحفة الأشراف : ٣١٧) ، مسند احمد (٣/١٠٧، ١٦١، ١٦٣، ١٧٠، ١٧٧، ١٩٨، ٢٠٥، ٢٣٣، ٢٨٧، ٢٩٠، ویأتی عند المؤلف برقم : ١٨٤٥ و ٢٠٤٢ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے ، اور یہی محققین محدثین کا قول ہے ، ناپاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (177) ، الروض النضير (43) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 72
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس لیے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- اور اللہ تعالیٰ کے فرمان «والجروح قصاص» کا یہی مفہوم ہے، محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے ساتھ یہ معاملہ حدود (سزاؤں) کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/القسامة ٥ (الحدود) ٢ (١٤/١٦٧١) سنن النسائی/المحاربة ٩ (٤٠٤٨) (تحفة الأشراف : ٨٧٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (177) ، الروض النضير (43) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 73
ہوا کے خارج ہونے سے وضو کا ٹوٹ جانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بو نہ آئے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٤ (٥١٥) (تحفة الأشراف : ١٢٦٨٣) مسند احمد (٢/٤١٠، ٤٣٥، ٤٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شک کی وجہ سے کہ ہوا خارج ہوئی یا نہیں وضو نہیں ٹوٹتا ، اور اس سے ایک اہم اصول کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہر چیز اپنے حکم پر قائم رہتی ہے جب تک اس کے خلاف کوئی بات یقین و وثوق سے ثابت نہ ہوجائے ، محض شبہ سے حکم نہیں بدلتا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (515) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 74
ہوا کے خارج ہونے سے وضو کا ٹوٹ جانا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہو اور وہ اپنی سرین سے ہوا نکلنے کا شبہ پائے تو وہ (مسجد سے) نہ نکلے جب تک کہ وہ ہوا کے خارج ہونے کی آواز نہ سن لے، یا بغیر آواز کے پیٹ سے خارج ہونے والی ہوا کی بو نہ محسوس کرلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن زید، علی بن طلق، عائشہ، ابن عباس، ابن مسعود اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور یہی علماء کا قول ہے کہ وضو «حدث» ہی سے واجب ہوتا ہے کہ وہ «حدث» کی آواز سن لے یا بو محسوس کرلے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب «حدث» میں شک ہو تو وضو واجب نہیں ہوتا، جب تک کہ ایسا یقین نہ ہوجائے کہ اس پر قسم کھا سکے، نیز کہتے ہیں کہ جب عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہو تو اس پر وضو واجب ہوجاتا ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٦ (٣٦٢) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٦٨ (١٧٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٧١٨) ، مسند احمد (٢/٣٠، ٤١٤) سنن الدارمی/الطہارة ٤٧ (٧٤٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مقصود یہ ہے کہ انسان کو ہوا خارج ہونے کا یقین ہوجائے خواہ ان دونوں ذرائع سے یا کسی اور ذریعہ سے ، ان دونوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر محض اس لیے کیا گیا ہے کہ اس باب میں عام طور سے یہی دو ذریعے ہیں جن سے اس کا یقین ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (169) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 75
ہوا کے خارج ہونے سے وضو کا ٹوٹ جانا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کسی کو «حدث» ہوجائے (یعنی اس کا وضو ٹوٹ جائے) ١ ؎ تو اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ وضو نہ کرلے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٢ (١٣٥) ، والحیل ٢ (٦٩٥٤) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢ (٢٢٥) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٣١ (تحفة الأشراف : ١٤٦٩٤) ، مسند احمد (٢/٣١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اسی جملہ میں باب سے مطابقت ہے ، یعنی : ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (54) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 76
نیند کے بعد وضو
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ سجدے کی حالت میں سو گئے یہاں تک کہ آپ خرانٹے لینے لگے، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ تو سو گئے تھے ؟ آپ نے فرمایا : وضو صرف اس پر واجب ہوتا ہے جو چت لیٹ کر سوئے اس لیے کہ جب آدمی لیٹ جاتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عائشہ، ابن مسعود، اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٨٠ (٢٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ٥٤٢٥) ، مسند احمد (١/٢٤٥، ٣٤٣) (ضعیف) (ابو خالد یزید بن عبدالرحمن دارمی دالانی مدلس ہیں، انہیں بہت زیادہ وہم ہوجایا کرتا تھا، شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے یہ حدیث ابو العالیہ سے نہیں سنی ہے یعنی اس میں انقطاع بھی ہے) وضاحت : ١ ؎ : چت لیٹنے کی صورت میں ہوا کے خارج ہونے کا شک بڑھ جاتا ہے جب کہ ہلکی نیند میں ایسا نہیں ہوتا ، یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ، مگر اس کے لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹ جانے والے ٹکڑے کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ضعيف أبي داود (25) ، المشکاة (318) ، // ضعيف الجامع (1808) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 77
نیند کے بعد وضو
انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) (بیٹھے بیٹھے) سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- میں نے صالح بن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ ابن مبارک سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو بیٹھے بیٹھے سو جائے تو انہوں نے کہا کہ اس پر وضو نہیں، ٣- ابن عباس والی حدیث کو سعید بن ابی عروبہ نے بسند «قتادہ عن ابن عباس» (موقوفاً ) روایت کیا ہے اور اس میں ابولعالیہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ٤- نیند سے وضو کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ کوئی کھڑے کھڑے سو جائے تو اس پر وضو نہیں جب تک کہ وہ لیٹ کر نہ سوئے، یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور احمد کہتے ہیں، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جب نیند اس قدر گہری ہو کہ عقل پر غالب آ جائے تو اس پر وضو واجب ہے اور یہی اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، شافعی کا کہنا ہے کہ جو شخص بیٹھے بیٹھے سوئے اور خواب دیکھنے لگ جائے، یا نیند کے غلبہ سے اس کی سرین اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس پر وضو واجب ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٣٣ (١٢٣/٣٧٦) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٨٠ (٢٠٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٢٧١) ، مسند احمد (٣/٢٧٧ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان تینوں میں راجح پہلا مذہب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (114) ، صحيح أبي داود (194) ، المشکاة (317) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 78
آگ سے پکی چیز کھانے سے وضو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو ہے اگرچہ وہ پنیر کا کوئی ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ، اس پر ابن عباس نے ان سے کہا : ابوہریرہ (رض) (بتائیے) کیا ہم گھی اور گرم پانی (کے استعمال) سے بھی وضو کریں ؟ تو ابوہریرہ (رض) نے کہا : بھتیجے ! تم جب رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنو تو اس پر (عمل کرو) باتیں نہ بناؤ۔ (اور مثالیں بیان کر کے قیاس نہ کرو) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ام حبیبہ، ام سلمہ، زید بن ثابت، ابوطلحہ، ابوایوب انصاری اور ابوموسیٰ اشعری (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو ہے، لیکن صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا مذہب ہے کہ اس سے وضو نہیں، (دلیل اگلی حدیث ہے) ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٥ (٤٨٥) (تحفة الأشراف : ١٥٠٣٠) مسند احمد (٢/٢٦٥، ٢٧١، ٤٥٨، ٤٧٠، ٤٧٩، ٥٠٢) (حسن) قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (485) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 79
آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (مدینہ میں) نکلے، میں آپ کے ساتھ تھا، آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے، اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا، وہ تر کھجوروں کا ایک طبق بھی لے کر آئی تو آپ نے اس میں سے بھی کھایا، پھر ظہر کے لیے وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی، آپ نے واپس پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوئے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کر آئی تو آپ نے (اسے بھی) کھایا، پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، ابورافع، ام الحکم، عمرو بن امیہ، ام عامر، سوید بن نعمان اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوبکر کی وہ حدیث جسے ابن عباس نے ان سے روایت کیا ہے سنداً ضعیف ہے ابن عباس کی مرفوعاً حدیث زیادہ صحیح ہے اور حفاظ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ ٢- صحابہ کرام تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا اسی پر عمل ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو واجب نہیں، اور یہی رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل ہے، گویا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٢٣٦٨) وانظر مسند احمد (٣/١٢٥، ٢٦٩) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سوائے اونٹ کے گوشت کے ، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے ، اونٹ کے گوشت میں ایک خاص قسم کی بو اور چکناہٹ ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے ناقض وضو کہا گیا ہے ، اس سلسلے میں وارد وضو کو صرف ہاتھ منہ دھو لینے کے معنی میں لینا شرعی الفاظ کو خواہ مخواہ اپنے حقیقی معنی سے ہٹانا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، صحيح أبي داود (185) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 80
اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو
براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اونٹ کے گوشت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اس سے وضو کرو اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اس سے وضو نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں جابر بن سمرہ اور اسید بن حضیر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- یہی قول احمد، عبداللہ اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، ٣- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس باب میں رسول اللہ ﷺ سے دو حدیثیں صحیح ہیں : ایک براء بن عازب کی (جسے مولف نے ذکر کیا اور اس کے طرق پر بحث کی ہے) اور دوسری جابر بن سمرہ کی، ٤- یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ ان لوگوں کی رائے ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو نہیں ہے اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٧٢ (١٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٧ (٤٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٨٣) ، مسند احمد (٤/٢٨٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : لوگ اوپر والی روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے مراد وضو لغوی ہے ، لیکن یہ بات درست نہیں ، اس لیے کہ وضو ایک شرعی لفظ ہے جسے بغیر کسی دلیل کے لغوی معنی پر محمول کرنا درست نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (494) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 81
ذکر چھونے سے وضو ہے
بسرہ بنت صفوان (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو اپنی شرمگاہ (عضو تناسل) چھوئے تو جب تک وضو نہ کرلے نماز نہ پڑھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام حبیبہ، ابوایوب، ابوہریرہ، ارویٰ بنت انیس، عائشہ، جابر، زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور عروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٧٠ (١٨١) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٨ (١٦٣) ، والغسل ٣٠ (١٤٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٣ (٦٧٩) (تحفة الأشراف : ١٥٧٨٥) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٥ (٥٨ مسند احمد (٦/٤٠٦) ، ٤٠٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٠ (٧٥١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ، اور بعض نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کا ذکر کیا ہے ، جن لوگوں نے عروۃ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بسرۃ سے سماع ثابت ہے ، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سنا پھر بسرۃ سے جا کر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (479) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 82 ابواسامہ اور کئی اور لوگوں نے اس حدیث کو بسند «ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (82) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 83 نیز اسے ابوالزناد نے «بسند عروہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔ ١- یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ ہیں، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے، ٣- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ (رض) کی حدیث ١ ؎ (بھی) اس باب میں صحیح ہے، ٤- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے ٢ ؎، اور مکحول نے ایک آدمی سے اور اس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ام حبیبہ (رض) کی حدیث کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے ( دیکھئیے : «باب الوضوء من مس الذکر» رقم ٤٨١) ۔ ٢ ؎ : یحییٰ بن معین ، ابوزرعہ ، ابوحاتم اور نسائی نے بھی یہی بات کہی ہے ، لیکن عبدالرحمٰن دحیم نے ان لوگوں کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے مکحول کا عنبسہ سے سماع ثابت کیا ہے ( دحیم اہل شام کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہیں ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح انظر ما قبله (83) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 84
None
اس حدیث کو بسند «ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرة عن النبی صلی الله علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔
None
«بسند عروہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔ ۱- یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے، ۳- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث ۱؎ ( بھی ) اس باب میں صحیح ہے، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے ۲؎، اور مکحول نے ایک آدمی سے اور اس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے۔
ذکر چھونے سے وضو نہ کرنا
طلق بن علی (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا : یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں ابوامامہ (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے نیز بعض تابعین سے بھی مروی ہے کہ عضو تناسل کے چھونے سے وضو واجب نہیں، اور یہی اہل کوفہ اور ابن مبارک کا قول ہے، ٣- اس باب میں مروی احادیث میں سے یہ سب سے اچھی حدیث ہے، ٤- ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر نے بھی اس حدیث کو قیس بن طلق نے «عن أبیہ» سے روایت کیا ہے۔ بعض محدثین نے محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ کے سلسلے میں کلام کیا ہے، ٥- ملازم بن عمرو کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن بدر سے روایت کیا ہے، سب سے صحیح اور اچھی ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٧١ (١٨٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٩ (١٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٤ (٤٨٣) (تحفة الأشراف : ٥٠٢٣) مسند احمد (٤/٢٢، ٢٣) (صحیح) (سند میں قیس کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن اکثر علماء نے توثیق کی ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث اور پچھلی حدیث میں تعارض ہے ، اس تعارض کو محدثین نے ایسے دور کیا ہے کہ طلق بن علی کی یہ روایت بسرہ (رض) کی روایت سے پہلے کی ہے ، اس لیے طلق (رض) کی حدیث منسوخ ہے ، رہی ان تابعین کی بات جو عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو بسرہ کی حدیث نہیں پہنچی ہوگی۔ کچھ علما نے اس تعارض کو ایسے دور کیا ہے کہ بسرہ کی حدیث بغیر کسی حائل ( رکاوٹ ) کے چھونے کے بارے میں ہے ، اور طلق کی حدیث بغیر کسی حائل ( پردہ ) کے چھونے کے بارے میں ہے۔ ٢ ؎ : طلق بن علی (رض) کی اس حدیث کے تمام طریق میں ملازم والا طریق سب سے بہتر ہے ، نہ یہ کہ بسرہ کی حدیث سے طلق کی حدیث بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (483) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 85
بوسہ سے وضو نہیں ٹوٹتا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کا بوسہ لیا، پھر آپ نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ سے) کہا : وہ آپ ہی رہی ہوں گی ؟ تو وہ ہنس پڑیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرح مروی ہے اور یہی قول سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو (واجب) نہیں ہے، مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو (واجب) ہے، یہی قول صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا ہے، ٢- ہمارے اصحاب نے عائشہ (رض) کی حدیث پر جو نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے محض اس وجہ سے عمل نہیں کیا کہ یہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ٢ ؎، ٣- یحییٰ بن قطان نے اس حدیث کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ «لاشیٔ» کے مشابہ ہے ٣ ؎، ٤- نیز میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) کو بھی اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا، انہوں نے کہا کہ حبیب بن ثابت کا سماع عروۃ سے نہیں ہے، ٥- نیز ابراہیم تیمی نے بھی عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ عائشہ سے ابراہیم تیمی کے سماع کا ہمیں علم نہیں۔ اس باب میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٦٩ (١٧٩، ١٨٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٢١ (١٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٩ (٥٠٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٣٧١) ، مسند احمد (٦/٢٠٧) (صحیح) (سند میں حبیب بن ابی ثابت اور عروہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : یعنی آپ نے سابق وضو ہی پر نماز پڑھی ، بوسہ لینے سے نیا وضو نہیں کیا ، اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور یہی قول راجح ہے۔ ٢ ؎ : لیکن امام شوکانی نے نیل الأوطار میں اور علامہ البانی نے صحیح أبی داود ( رقم ١٧١- ١٧٢) میں متابعات اور شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، نیز دیگر بہت سے ائمہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے ( تفصیل کے لیے دیکھئیے مذکورہ حوالے ) ۔ ٣ ؎ : «لاشئی» کے مشابہ ہے یعنی ضعیف ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (502) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 86
قے اور نکسیر سے وضو کا حکم ہے
ابو الدرداء (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قے کی تو روزہ توڑ دیا اور وضو کیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان (رض) سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو الدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ ﷺ پر پانی ڈالا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا) ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ١ ؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو نہیں ٹوٹتا یہ مالک اور شافعی کا قول ہے ٢ ؎، ٢- حدیث کے طرق کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الصوم ٣٢ (٢٣٩١) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٩٦٤) ، مسند احمد (٥/١٩٥، و ٦/٤٤٣) ، سنن الدارمی/الصوم ٢٤ (١٧٦٩) ، (ولفظ الجمیع ” قاء فأفطر “ ) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے ، لیکن اس حدیث سے استدلال دو باتوں پر موقوف ہے : ایک یہ کہ : حدیث میں لفظ یوں ہو «قاء فتوضأ» قے کی تو وضو کیا جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے ، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں «قاء فأفطر» قے کی تو روزہ توڑ لیا ہے «فأفطر» کے بعد بھی «فتوضأ» کا لفظ نہیں ہے ، یا اسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے ، یعنی «قاء فأفطرفتوضأ» یعنی قے کی تو روزہ توڑ لیا ، اور اس کے بعد وضو کیا اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ قے کے بعد آدمی کمزور ہوجاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے ، اور نظافت کے طور پر وضو کرلیتا ہے ، اور رسول اللہ ﷺ تو اور زیادہ نظافت پسند تھے ، نیز یہ آپ ﷺ کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر «قاء فتوضأ» کا لفظ ہی محفوظ ہو تو «فتوضأ» کی فاء سبب کے لیے ہو ، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اس لیے وضو کیا اور یہ بات متعین نہیں ہے ، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہوسکتی ہے ، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اور اس کے بعد وضو کیا ۔ ٢ ؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر (رض) کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آ کر لگا اور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی نماز جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اور سجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس نماز کا علم نبی اکرم ﷺ کو یقیناً رہا ہوگا کیونکہ اس کی یہ نماز بحالت پہرہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے اسے دیا تھا ، اس کے باوجود آپ نے اسے وضو کرنے اور نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (111) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 87
نبیذ سے وضو
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : تمہارے مشکیزے میں کیا ہے ؟ تو میں نے عرض کیا : نبیذ ہے ١ ؎، آپ نے فرمایا : کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے تو آپ نے اسی سے وضو کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوزید محدثین کے نزدیک مجہول آدمی ہیں اس حدیث کے علاوہ کوئی اور روایت ان سے جانی نہیں جاتی، ٢- بعض اہل علم کی رائے ہے نبیذ سے وضو جائز ہے انہیں میں سے سفیان ثوری وغیرہ ہیں، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبیذ سے وضو جائز نہیں ٢ ؎ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو یہی کرنا پڑجائے تو وہ نبیذ سے وضو کر کے تیمم کرلے، یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، ٣- جو لوگ نبیذ سے وضو کو جائز نہیں مانتے ان کا قول قرآن سے زیادہ قریب اور زیادہ قرین قیاس ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» جب تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو (النساء : 43) پوری آیت یوں ہے : «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سکاری حتی تعلموا ما تقولون ولا جنبا إلا عابري سبيل حتی تغتسلوا وإن کنتم مرضی أو علی سفر أو جاء أحد منکم من الغآئط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحواء بوجوهكم وأيديكم إن اللہ کان عفوا غفورا» تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٤٢ (٨٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٧ (٣٨٤) ، ( تحفة الأشراف : ٩٦٠٣) ، مسند احمد (١/٤٠٢) (ضعیف) (سند میں ابو زید مجہول راوی ہیں۔ ) وضاحت : ١ ؎ : نبیذ ایک مشروب ہے جو کھجور ، کشمش ، شہد گیہوں اور جو وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔ ٢ ؎ : یہی جمہور علما کا قول ہے ، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» (سورة النساء : 43 ) تو جب پانی نہ ہو تو نبیذ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کرلینا چاہیئے ، اور باب کی اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو استدلال کے لیے احتجاج کے لائق نہیں۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (384) ، //، ضعيف أبي داود (14 / 84) ، المشکاة (480) ، ضعيف سنن ابن ماجة (84) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 88
دودھ پی کر کلی کرنا
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیا تو پانی منگوا کر کلی کی اور فرمایا : اس میں چکنائی ہوتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں سہل بن سعد ساعدی، اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کلی دودھ پینے سے ہے، اور یہ حکم ہمارے نزدیک مستحب ١ ؎ ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٢ (٢١١) ، والأشربة ١٢ (٥٦٠٩) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٤ (٣٥٨) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٧٧ (١٩٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٢٥ (١٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٨ (٤٩٨) ، ( تحفة الأشراف : ٥٨٣٣) ، مسند احمد (١/٢٢٣، ٢٢٧، ٣٢٩، ٣٣٧، ٣٧٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعض لوگوں نے اسے واجب کہا ہے ، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ابن ماجہ کی ایک روایت ( رقم ٤٩٨) میں «مضمضوا من اللبن» امر کے صیغے کے ساتھ آیا ہے اور امر میں اصل وجوب ہے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب استحباب پر محمول کرنے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور یہاں استحباب پر محمول کئے جانے کی دلیل موجود ہے کیونکہ ابوداؤد نے ( برقم ١٩٦) انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیا تو نہ کلی کی اور نہ وضو ہی کیا ، اس کی سند حسن ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (498) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 89
بغیر وضو سلام کو جواب دینا مکروہ ہے
عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یا پیشاب کر رہا ہو، بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ١ ؎، ٢- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے، ٣- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء، جابر اور براء بن عازب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٧٠) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٨ (١٦) ، سنن النسائی/الطہارة ٣٣ (٣٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٢٧ (٣٥٣) ، ویأتی عند المؤلف برقم : ٢٧٢٠ (تحفة الأشراف : ٧٦٩٦) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی راجح ہے کہ آپ ﷺ پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا ، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں ، اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے ، نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے ، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہیئے ، یہ حکم وجوبی ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، الإرواء (54) ، صحيح أبي داود (12 و 13) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 90
کتے کا جھوٹا
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : برتن میں جب کتا منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھویا جائے، پہلی بار یا آخری بار اسے مٹی سے دھویا جائے ١ ؎، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ٣- ابوہریرہ (رض) کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک بار دھونے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، ٣- اس باب میں عبداللہ بن مغفل (رض) سے بھی روایت ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣٧ (٧٢) ، وانظر أیضا : صحیح البخاری/الوضوء ٣٣ (١٧٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٧ (٢٧٩) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٣٧ (٧١) ، سنن النسائی/الطہارة ٥١ (٦٣) ، والمیاہ ٧ (٣٣٦) ، و (٣٤٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣١ (٣٦٣، ٣٦٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٥٠٩) ، موطا امام مالک/الطہارة ٦ (٢٥) ، مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٣، ٢٦٥، ٢٧١، ٣٦٠، ٣٩٨، ٤٢٤، ٤٢٧، ٤٤٠، ٤٨٠، ٥٠٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہور کا مسلک ہے ، احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں ، ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ (رض) کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیئے ، حالانکہ ابوہریرہ سے سات بار دھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سند کے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے ، نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے ، اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے ، رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جا چکے ہیں ، تفصیل کے لیے دیکھئیے ( تحفۃ الاحوذی ، ج ١ ص ٩٣) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (64 - 66) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 91
بلی کا جھوٹا
کبشہ بنت کعب (جو ابن ابوقتادہ کے نکاح میں تھیں) کہتی ہیں کہ ابوقتادہ میرے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے (ایک برتن) وضو کا پانی میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آ کر پینے لگی تو انہوں نے برتن کو اس کے لیے جھکا دیا تاکہ وہ (آسانی سے) پی لے، کبشہ کہتی ہیں : ابوقتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا : بھتیجی ! کیا تم کو تعجب ہو رہا ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : یہ (بلی) نجس نہیں، یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث مروی ہیں، ٢- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٣- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ بلی کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٣٨ (٧٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٥٤ (٦٨) ، والمیاہ ٩ (٣٤١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٣٢ (٣٦٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٢١٤١) ، مسند احمد (٥/٢٩٦، ٣٠٣، ٣٠٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ٥٨ (٧٦٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے ، بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو ، اس حدیث میں بلی کو گھر کے خادم سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ خادموں کی طرح اس کا بھی گھروں میں آنا جانا بہت رہتا ہے ، اگر اسے نجس و ناپاک قرار دے دیا جاتا تو گھر والوں کو بڑی دشواری پیش آتی۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (367) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 92
موزوں پر مسح کرنا
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ (رض) نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے کہا گیا : کیا آپ ایسا کر رہے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کام سے کون سی چیز روک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو جریر (رض) کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیونکہ ان کا اسلام سورة المائدہ کے نزول کے بعد کا ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- جریر (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمر، علی، حذیفہ، مغیرہ، بلال، ابوایوب، سلمان، بریدۃ، عمرو بن امیہ، انس، سہل بن سعد، یعلیٰ بن مرہ، عبادہ بن صامت، اسامہ بن شریک، ابوامامہ، جابر، اسامہ بن زید، ابن عبادۃ جنہیں ابن عمارہ اور ابی بن عمارہ بھی کہا جاتا ہے (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الصلاة ٢٥ (٣٧٨) ، صحیح مسلم/الطہارة ٢٢ (٢٧٢) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٥٩ (١٥٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٦ (١١٨) ، والقبلة ٢٣ (٧٧٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٤ (٥٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے ، موزوں پر مسح کی احادیث تقریباً اسی ( ٨٠) صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں ، علامہ ابن عبدالبر نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے ، امام کرخی کی رائے ہے کہ «مسح علی خفین» موزوں پر مسح کی احادیث تواتر تک پہنچی ہیں اور جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں مجھے ان کے کفر کا اندیشہ ہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ «مسح علی خفین» کی حدیث کے راوی جریر (رض) آیت مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے ، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اور مخص ہیں ، یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں ، رہا موزے پر مسح کا طریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے بھگو کر ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیا جائے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (543) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 93
موزوں پر مسح کرنا
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جریر بن عبداللہ (رض) کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے ان سے پوچھا : آپ کا یہ عمل سورة المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہے، یا بعد کا ؟ تو کہا : میں تو سورة المائدہ اترنے کے بعد ہی اسلام لایا ہوں، یہ حدیث آیت وضو کی تفسیر کر رہی ہے اس لیے کہ جن لوگوں نے موزوں پر مسح کا انکار کیا ہے ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں پر جو مسح کیا تھا وہ آیت مائدہ کے نزول سے پہلے کا تھا، جبکہ جریر (رض) نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نزول مائدہ کے بعد نبی اکرم ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣٢١٣) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب میں کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، الإرواء ١/١٣٧) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (1 / 137) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 94
مسافر اور مقیم کے لئے مسح کرنا
خزیمہ بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : مسافر کے لیے تین دن ہے اور مقیم کے لیے ایک دن ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- یحییٰ بن معین سے منقول ہے کہ انہوں نے مسح کے سلسلہ میں خزیمہ بن ثابت کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، ٣- اس باب میں علی، ابوبکرۃ، ابوہریرہ، صفوان بن عسال، عوف بن مالک، ابن عمر اور جریر (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٦٠ (١٥٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٦ (٥٥٣) ، ( تحفة الأشراف : ٣٥٢٨) ، مسند احمد (٥/٢١٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (553) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 95
مسافر اور مقیم کے لئے مسح کرنا
صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہوجائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے، ٣- اکثر صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثر اہل علم مثلاً : سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے، اور مسافر تین دن اور تین رات، بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ (جب تک دل چاہے کرسکتا ہے) یہ مالک بن انس (رح) کا قول ہے، لیکن تحدید والا قول زیادہ صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٩٨، ١١٣، ١١٤ (١٢٦) ، و ١١٣ (١٥٨) ، و ١١٤ (١٥٩) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٦٣ (٤٧٨) ، ویأتي برقم : ٣٥٣٥ (تحفة الأشراف : ٤٩٥٢) ، مسند احمد (٤/٢٣٩، ٢٤٠) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے : مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ، یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہوگی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے ، حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے ، نیز مدت ختم ہوجانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (478) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 96
موزوں کے اوپر اور نیچے مسح کرنا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے اور مالک، شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ٢- یہ حدیث معلول ہے۔ میں نے ابوزرعہ اور محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٦٣ (١٦٥) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٥ (٥٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥٣٧) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، راوی ثور بن یزید کا رجاء بن حیوہ سے سماع نہیں ہے، اسی طرح ابو زرعہ اور بخاری کہتے ہیں کہ حیوہ کا بھی کاتب مغیرہ بن شعبہ کا وراد سے سماع نہیں ہے، نیز یہ کاتب مغیرہ کی مرسل روایت ثابت ہے۔ ) نوٹ : ابن ماجہ (٥٥٠) ابوداود (١٦٥) میں غلطی سے موطأ، مسند احمد اور دارمی کا حوالہ آگیا ہے، جب کہ ان کتابوں میں مسح سے متعلق مغیرہ بن شعبہ کی متفق علیہ حدیث آئی ہے جس میں اوپر نیچے کی صراحت نہیں ہے، ہاں آگے آنے والی حدیث (٩٨) میں مغیرہ سے صراحت کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا۔ وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی نے خود اس کی صراحت کردی ہے۔ ٢ ؎ : مولف نے یہاں حدیث علت کی واضح فرمائی ہے ان سب کا ماحصل یہ ہے کہ یہ حدیث مغیرہ کی سند میں سے نہیں بلکہ کاتب مغیرہ ( تابعی ) سے مرسلاً مروی ہے ، ولید بن مسلم کو اس سلسلے میں وہم ہوا ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ کی مسند میں سے روایت کردیا ہے ، ترمذی نے «لم یسندہ عن ثوربن یزید غیر الولید بن مسلم» کہہ کر اسی کی وضاحت ہے۔ مغیرہ (رض) سے مسنداً روایت اس کے برخلاف ہے جو آگے آرہی ہے اور وہ صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (550) ، //، ضعيف أبي داود (30 / 165) ، المشکاة (521) ، ضعيف سنن ابن ماجة (120) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 97
موزوں کے اوپر مسح کرنا
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مغیرہ (رض) کی حدیث حسن ہے، ٢- عبدالرحمٰن بن ابی الزناد کے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتا جس نے بسند «عروہ عن مغیرہ» دونوں موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کا ذکر کرتا ہو ٢ ؎ اور یہی کئی اہل علم کا قول ہے اور یہی سفیان ثوری اور احمد بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٦٣ (١٦١) ، (وراجع أیضا ما عندہ برقم : ١٤٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥١٢) (حسن صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور یہ روایت متصلاً و مسنداً حسن صحیح ہے۔ ٢ ؎ : یعنی «علی ظاهرهما» کے الفاظ ذکر کرنے میں عبدالرحمٰن بن ابی زناد منفرد ہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، المشکاة (522) ، صحيح أبي داود (151 - 152) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 98
جوربین اور نعلین پر مسح کرنے کے بارے میں
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور موزوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- کئی اہل علم کا یہی قول ہے اور سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاتابوں پر مسح کرے گرچہ جوتے نہ ہوں جب کہ پاتا بےموٹے ہوں، ٣- اس باب میں ابوموسیٰ (رض) سے بھی روایت آئی ہے، ٤- ابومقاتل سمرقندی کہتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس ان کی اس بیماری میں گیا جس میں ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے پانی منگایا، اور وضو کیا، وہ پاتا بےپہنے ہوئے تھے، تو انہوں نے ان پر مسح کیا، پھر کہا : آج میں نے ایسا کام کیا ہے جو میں نہیں کرتا تھا۔ میں نے پاتابوں پر مسح کیا ہے حالانکہ میں نے جوتیاں نہیں پہن رکھیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٦١ (١٥٩) ، سنن النسائی/الطہارة ٩٦ (١٢٣) ، و ٩٧/١ (١٢٥/م) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٨ (٥٥٩) ، ( تحفة الأشراف : ١١٥٣٤) ، مسند احمد (٣/٢٥٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (559) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 99
جوربین اور عمامہ پر مسح کرنے کے بارے میں
مغیرہ بن شعبہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور دونوں موزوں اور عمامے پر مسح کیا۔ محمد بن بشار نے ایک دوسری جگہ اس حدیث میں یہ ذکر کیا ہے کہ آپ نے اپنی پیشانی اور اپنے عمامے پر مسح کیا ، یہ حدیث اور بھی کئی سندوں سے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی گئی ہے، ان میں سے بعض نے پیشانی اور عمامے پر مسح کا ذکر کیا ہے اور بعض نے پیشانی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عمرو بن امیہ، سلمان، ثوبان اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔ ان میں سے ابوبکر، عمر اور انس (رض) ہیں اور اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عمامہ پر مسح کرے، صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا کہنا ہے کہ عمامہ پر مسح نہیں سوائے اس صورت کے کہ عمامہ کے ساتھ (کچھ) سر کا بھی مسح کرے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی اسی کے قائل ہیں، ٤- وکیع بن جراح کہتے ہیں کہ اگر کوئی عمامے پر مسح کرلے تو حدیث کی رو سے یہ اسے کافی ہوگا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٥٩ (١٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ١١٤٩٢) ، مسند احمد (٤/٢٤٤، ٢٤٨، ٢٥٠، ٢٥٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (137 - 138) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 100
جوربین اور عمامہ پر مسح کرنے کے بارے میں
ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے دونوں موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : میرے بھتیجے ! (یہ) سنت ہے۔ وہ کہتے ہیں اور میں نے عمامہ پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : بالوں کو چھوؤ۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٣١٦٥) (صحیح الإسناد) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : پانی سے بالوں کو مس کرو ، یعنی : عمامہ پر مسح نہ کرو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 102
جوربین اور عمامہ پر مسح کرنے کے بارے میں
بلال (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں موزوں پر اور عمامے پر مسح کیا۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الطہارة ٢٣ (٢٧٥) ، سنن النسائی/الطہارة ٨٦ (١٠٤، ١٠٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٩ (٥٦١) ، ( تحفة الأشراف : ٢٠٤٧) ، مسند احمد (٦/١٢، ١٣، ١٤، ١٥) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (561) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 101
غسل جنابت کے بارے میں
ام المؤمنین میمونہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے نہانے کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا، تو برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر جھکایا اور اپنے پہونچے دھوئے، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرمگاہ پر پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر تین مرتبہ سر پر پانی بہایا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر وہاں سے پرے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ، جابر، ابوسعید جبیر بن مطعم اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٩) ، و ٥ (٢٥٧) ، و ٧ (٢٥٩) ، و ٨ (٢٦٠) ، و ١٠ (٢٦٥) ، و ١١ (٢٦٦) ، و ١٦ (٢٧٤) ، و ١٨ (٢٧٦) ، و ٢١ (٢٨١) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٧) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٩٨ (٢٤٥) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦١ (٢٥٤) ، والغسل ٧ (٤٠٨) ، و ١٤ (٤١٨) ، و ٢٢ (٤٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩٤ (٥٧٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٠٦٤) ، مسند احمد (٦/٣٣٠، ٣٣٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٣٩ (٧٣٨) ، و ٦٦ (٧٧٤) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (573) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 103
غسل جنابت کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے، پھر شرمگاہ دھوتے، اور اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر بال پانی سے بھگوتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اسی کو اہل علم نے غسل جنابت میں اختیار کیا ہے کہ وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالے، پھر اپنے پورے بدن پر پانی بہائے، پھر اپنے پاؤں دھوئے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، نیز ان لوگوں نے کہا کہ اگر جنبی پانی میں غوطہٰ مارے اور وضو نہ کرے تو یہ اسے کافی ہوگا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ١ (٢٤٨) ، و ٩ (٢٦٢) ، و ١٥ (٢٧٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٦) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٩٨ (٢٤٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٥٦ (٢٤٨) ، و ١٥٧ (٢٤٩، ٢٥٠) ، والغسل ١٦ (٤٢٠) ، و ١٩ (٤٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٩٣٥) ، موطا امام مالک/الطہارة ١٧ (٦٧) ، مسند احمد (٦/٥٢، ١٠١) ، ہذا من طریق عروة عنہا، ولہ طرق عنہا، انظر : صحیح البخاری/الغسل ٦ (٢٥٨) ، صحیح مسلم/الحیض ٩ (٣١٨) ، و ١٠ (٣٢٠، ٣٢١) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٩٨ (٢٤٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٥٢ (٢٤٤) ، و ٢٥٣، و ١٥٤ (٢٤٦) ، و ١٥٥ (٢٤٧) ، والغسل ١٩ (٤٢٤) ، مسند احمد (٦/١٤٣، ١٦١، ١٧٣) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، الإرواء (132) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 104
غسل جنابت کے بارے میں
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں۔ کیا غسل جنابت کے لیے اسے کھولا کروں ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری سر پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے۔ پھر پورے بدن پر پانی بہا دو تو پاک ہوگئی، یا فرمایا : جب تم ایسا کرلے تو پاک ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اہل علم کا اسی پر عمل پر ہے کہ عورت جب جنابت کا غسل کرے، اور اپنے بال نہ کھولے تو یہ اس کے لیے اس کے بعد کہ وہ اپنے سر پر پانی بہا لے کافی ہوجائے گا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٢ (٣٣٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٥٠ (٢٤٢) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٨ (٦٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٨١٧٢) ، مسند احمد (٦/٣١٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١٤ (١١٩٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہی جمہور کا مذہب ہے کہ عورت خواہ جنابت کا غسل کر رہی ہو یا حیض سے پاکی کا : کسی میں بھی اس کے لیے بال کھولنا ضروری نہیں لیکن حسن بصری اور طاؤس نے ان دونوں میں تفریق کی ہے ، یہ کہتے ہیں کہ جنابت کے غسل میں تو ضروری نہیں لیکن حیض کے غسل میں ضروری ہے ، اور عائشہ (رض) کی روایت کو جس میں رسول اللہ ﷺ نے ان سے «انقضی رأسک وامتشطي» فرمایا ہے جمہور نے استحباب پر محمول کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (603) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 105
ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتا ہے، اس لیے بالوں کو اچھی طرح دھویا کرو اور کھال کو اچھی طرح مل کر صاف کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- حارث بن وجیہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قوی نہیں ہیں ١ ؎، وہ اس حدیث کو مالک بن دینار سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٩٨ (٢٤٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٦ (٥٩٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٥٠٢) (ضعیف) (سند میں حارث وجیہ ضعیف راوی ہے) وضاحت : ١ ؎ : اس لفظ قوی نہیں ہیں کا تعلق جرح کے مراتب کے پہلے مرتبہ سے ہے ، ایسے راوی کی روایت قابل اعتبار یعنی تقویت کے قابل ہے اور اس کی تقویت کے لیے مزید روایات تلاش کی جاسکتی ہیں ، ایسا نہیں کہ اس کی روایت سرے سے درخوراعتناء ہی نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (597) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (132) ، ضعيف أبي داود (46 / 248) ، المشکاة (443) ، الروض النضير (704) ، ضعيف الجامع الصغير - بترتيبي - رقم (1847) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 106
غسل کے بعد وضو کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا قول ہے کہ غسل کے بعد وضو نہ کرے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ١٦٠ (١٥٣) ، والغسل ٢٤ (٤٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩٦ (٥٧٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٠٢٥) ، مسند احمد (٦/٦٨، ١١٩، ١٥٤، ١٩٢، ٢٥٣، ٢٥٨) ، وانظر أیضا : سنن ابی داود/ الطہارة ٩٩ (٢٥٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی : درمیان غسل جو وضو کرچکا ہے وہ کافی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (579) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 107
جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب مرد کے ختنہ کا مقام (عضو تناسل) عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا ١ ؎، میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا تو ہم نے غسل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور رافع بن خدیج (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١١ (٢٠٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٩٩) ، وراجع أیضا : صحیح مسلم/الحیض ٢٢ (٣٤٩) ، وط/الطہارة ١٨ (٧٣) ، و مسند احمد (٦/٤٧، ٩٧، ١١٢، ٢٢٧، ٢٣٩، ٢٦٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : گرچہ انزال نہ ہو تب بھی غسل واجب ہوگیا ، پہلے یہ مسئلہ تھا کہ جب انزال ہو تب غسل واجب ہوگا ، جو بعد میں اس حدیث سے منسوخ ہوگیا ، دیکھئیے اگلی حدیث۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (608) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 108
جب دو شرمگاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوتا ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب مرد کے ختنے کا مقام عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- کئی سندوں سے عائشہ (رض) کی نبی اکرم ﷺ مرفوع حدیث مروی ہے کہ جب ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، ان میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور عائشہ (رض) بھی شامل ہیں، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بھی اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ جب دونوں ختنوں کے مقام آپس میں چھو جائیں تو غسل واجب ہوگیا۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٦١١٩) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح (بما قبله) ، الإرواء (1 / 121) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 109
اس بارے میں کہ منی نکلنے سے غسل فرض ہوتا ہے
ابی بن کعب (رض) کہتے ہیں کہ صرف منی (نکلنے) پر غسل واجب ہوتا ہے، یہ رخصت ابتدائے اسلام میں تھی، پھر اس سے روک دیا گیا۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٨٤ (٢١٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١١ (٩٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ٢٧) ، مسند احمد (٥/١١٥، ١١٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٧٣ (٧٨٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور حکم دیا گیا کہ منی خواہ نکلے یا نہ نکلے اگر ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہوجائے گا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (609) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 110 اس سند سے بھی زہری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، ٣- اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج (رض) بھی شامل ہیں، مروی ہے، ٤- اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، کہ جب آدمی اپنی بیوی کی (شرمگاہ) میں جماع کرے تو دونوں (میاں بیوی) پر غسل واجب ہوجائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہوا ہو۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 111
None
زہری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا، ۳- اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما بھی شامل ہیں، مروی ہے، ۴- اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، کہ جب آدمی اپنی بیوی کی ( شرمگاہ ) میں جماع کرے تو دونوں ( میاں بیوی ) پر غسل واجب ہو جائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہوا ہو۔
اس بارے میں کہ منی نکلنے سے غسل فرض ہوتا ہے
عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ منی نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے کا تعلق احتلام سے ہے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، ابوایوب اور ابوسعید (رض) نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا منی نکلنے ہی پر غسل واجب ہوتا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٠٨٠) (ضعیف الإسناد) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، اور یہ موقوف ہے، لیکن اصل حدیث إنما الماء من الماء مرفوعا صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اور مؤلف نے باب میں وارد احادیث کا ذکر کیا، لیکن مرفوع میں (في الاحتلام) کا لفظ نہیں ہے) وضاحت : ١ ؎ : یہ توجیہ حدیث «إنما الماء من الماء» انزال ہونے پر غسل واجب ہے کی ایک دوسری توجیہ ہے ، یعنی خواب میں ہمبستری دیکھے اور کپڑے میں منی دیکھے تب غسل واجب ہے ورنہ نہیں ، مگر بقول علامہ البانی ابن عباس (رض) کا یہ قول بھی بغیر «في الاحتلام» کے ہے ، یہ لفظ ان کے قول سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے ، اور «إنما الماء من الماء» شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ قال الشيخ الألباني : (حديث ابن عباس) صحيح دون قوله فی الاحتلام وهو ضعيف الإسناد موقوف، (حديث أبي سعيد) صحيح (حديث أبي سعيد) ، ابن ماجة (606 - 607) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 112
آدمی نیند سے بیداد ہو اور وہ اپنے کپڑوں میں تری دیکھے اور احتلام کا خیال نہ ہو تو
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن اسے احتلام یاد نہ آئے، آپ نے فرمایا : وہ غسل کرے اور اس شخص کے بارے میں (پوچھا گیا) جسے یہ یاد ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے تو آپ نے فرمایا : اس پر غسل نہیں ام سلمہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا عورت پر بھی جو ایسا دیکھے غسل ہے ؟ آپ نے فرمایا : عورتیں بھی (شرعی احکام میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ کی حدیث کو جس میں ہے کہ آدمی تری دیکھے اور اسے احتلام یاد نہ آئے صرف عبداللہ ابن عمر عمری ہی نے عبیداللہ سے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن عمر عمری کی یحییٰ بن سعید نے حدیث کے سلسلے میں ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے ١ ؎، ٢- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جب آدمی جاگے اور تری دیکھے تو غسل کرے، یہی سفیان ثوری اور احمد کا بھی قول ہے۔ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر غسل اس وقت واجب ہوگا جب وہ تری نطفے کی تری ہو، یہ شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور جب وہ احتلام دیکھے اور تری نہ پائے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٩٥ (٢٣٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٢ (٦١٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٥٣٩) ، مسند احمد (٦/٢٥٦) (صحیح) (ام سلمہ (یا ام سلیم) کا قول صرف عبداللہ العمری کی اس روایت میں ہے اور وہ ضعیف ہیں، بقیہ ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، ملاحظہ ہو : صحیح سنن ابی داود ٢٣٤) وضاحت : ١ ؎ : فی الواقع عبداللہ العمری حفظ میں کمی کے سبب تمام ائمہ کے نزدیک ضعیف ہیں ، لیکن اس حدیث کا آخری ٹکڑا صحیحین میں ام سلمہ (رض) کی حدیث سے مروی ہے ، اور پہلا ٹکڑا خولہ بنت حکیم کی حدیث جو حسن ہے سے تقویت پا کر صحیح ہے ( خولہ کی حدیث ابن ماجہ میں ہے ، دیکھئیے رقم : ٦٠٢) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (234) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 113
منی اور مذی کے بارے میں
علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے مذی ١ ؎ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : مذی سے وضو ہے اور منی سے غسل ٢ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں مقداد بن اسود اور ابی بن کعب (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- علی بن ابی طالب (رض) سے کئی سندوں سے مرفوعاً مروی ہے کہ مذی سے وضو ہے، اور منی سے غسل ، ٤- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، اور سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٠ (٥٠٤) ، مسند احمد (١/٨٧، ١١٠، ١١٢، ١٢١) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٢٢٥) ، وراجع أیضا : صحیح البخاری/الغسل ١٣ (٢٦٩) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٨٣ (٢٠٦) ، سنن النسائی/الطہارة ١١٢ (١٥٢) ، والغسل ٢٨ (٤٣٦) ، مسند احمد (١/ ٨٢، ١٠٨) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) وضاحت : ١ ؎ : حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مذی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ، اس سے صرف وضو ٹوٹتا ہے ، مذی سفید ، پتلا لیس دار پانی ہے جو بیوی سے چھیڑ چھاڑ کے وقت اور جماع کے ارادے کے وقت مرد کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔ ٢ ؎ : خواہ یہ منی جماع سے نکلے یا چھیڑ چھاڑ سے ، یا خواب ( نیند ) میں ، بہرحال اس سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (504) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 114
مذی کپڑے پر لگ جائے
سہل بن حنیف (رض) کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اگر وہ کپڑے میں لگ جائے تو کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا : تو ایک چلو پانی لے اور اسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- ہم مذی کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت محمد بن اسحاق کے طریق سے ہی جانتے ہیں، ٣- کپڑے میں مذی لگ جانے کے سلسلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ دھونا ضروری ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اس بات کے قائل ہیں کہ پانی چھڑک لینا کافی ہوگا۔ امام احمد کہتے ہیں : مجھے امید ہے کہ پانی چھڑک لینا کافی ہوگا ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٨٣ (٢١٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٠ (٥٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ٤٦٦٤) ، مسند احمد (٣/٤٨٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٤٩ (٧٥٠) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : اور یہی راجح ہے کیونکہ حدیث میں «نضح» چھڑکنا ہی آیا ہے ، ہاں بطور نظافت کوئی دھو لے تو یہ اس کی اپنی پسند ہے ، واجب نہیں۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (506) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 115
منی جب کپڑے پر لگ جائے
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ (رض) کے یہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے (اوڑھنے کے لیے) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔ وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہوگیا، ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چناچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا، تو عائشہ (رض) نے کہا : اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کردیا ؟ اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پر منی ١ ؎ لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے، گرچہ دھویا نہ جائے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٢ (٥٣٨) ، مسند احمد (٦/٤٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٧٧) ، وانظر أیضا : صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٨٨ (٢٩٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٢ (٥٣٧) ، مسند احمد (٦/٦٧، ١٢٥، ١٣٥، ٢١٣، ٢٣٩، ٢٦٣، ٢٨٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں خشک ہو تو اسے کھرچ دینے اور تر ہو تو کسی چیز سے صاف کردینے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے ، منی پاک ہے یا ناپاک اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے ، امام شافعی داود ظاہری اور امام احمد کی رائے ہے کہ منی ناک کے پانی اور منہ کے لعاب کی طرح پاک ہے ، صحابہ کرام میں سے علی ، سعد بن ابی وقاص ، ابن عمر اور عائشہ (رض) کا بھی یہی مسلک ہے اور دلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کا بھی یہی مسلک ہے شیخ الاسلام کا فتوی الفتاوی الکبریٰ میں مفصل موجود ہے ، جسے ابن القیم نے بدائع النوائد میں بعض فقہاء کہہ کر ذکر کیا ہے اور جن حدیثوں میں منی دھونے کا تذکرہ ہے وہ بطور نظافت کے ہے ، وجوب کے نہیں ( دیکھئیے اگلی حدیث کے تحت امام ترمذی کی توجیہ ) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (538) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 116
منی جب کپڑے پر لگ جائے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عباس (رض) سے بھی روایت ہے، ٣- اور عائشہ (رض) کی حدیث کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھوئی ان کی کھرچنے والی حدیث کے معارض نہیں ہے ١ ؎۔ اس لیے کہ کھرچنا کافی ہے، لیکن مرد کے لیے یہی پسند کیا جاتا ہے کہ اس کے کپڑے پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے۔ (کیونکہ مرد کو آدمیوں کی مجلسوں میں بیٹھنا ہوتا ہے) ابن عباس کہتے ہیں : منی رینٹ ناک کے گاڑھے پانی کی طرح ہے، لہٰذا تم اسے اپنے سے صاف کرلو چاہے اذخر (گھاس) ہی سے ہو۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٤ (٢٢٩) ، و ٦٥ (٢٣٢) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٢ (٢٨٩) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٦ (٣٧٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٧ (٢٩٦) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨١ (٥٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٦١٣٥) ، مسند احمد (٢/١٤٢، ٢٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس لیے کہ ان دونوں میں مطابقت واضح ہے ، جو لوگ منی کی طہارت کے قائل ہیں وہ دھونے والی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ دھونا بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطور نظافت تھا ، کیونکہ اگر دھونا واجب ہوتا تو خشک ہونے کی صورت میں بھی صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا ، حالانکہ عائشہ (رض) نے صرف کھرچنے پر اکتفاء کیا۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (536) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 117
جنبی کا بغیر غسل کئے سونا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سوتے اور پانی کو ہاتھ نہ لگاتے اور آپ جنبی ہوتے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٩٠ (٢٢٨) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩٨ (٥٨١) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٠٢٤) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی وضو اور غسل کے بغیر سو سکتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل بیان جواز کے لیے ہے تاکہ امت پریشانی میں نہ پڑے ، رہا اگلی حدیث میں آپ کا یہ عمل کہ آپ جنابت کے بعد سونے کے لیے وضو فرما لیا کرتے تھے تو یہ افضل ہے ، دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (581) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 118 اس سند سے بھی ابواسحاق سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہی سعید بن مسیب وغیرہ کا قول ہے، ٢- کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سونے سے پہلے وضو کرتے تھے، ٣- یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث (رقم ١١٨) سے جسے انہوں نے اسود سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، اور ابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ، ثوری اور دیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیال میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ ( تحفة الأشراف : ١٦٠٢٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : ان کا سب کا ماحصل یہ ہے کہ اسود کے تلامذہ میں سے صرف ابواسحاق سبیعی نے اس حدیث کو «كان النبي صلی اللہ عليه وسلم ينام وهو جنب لايمس ماء» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ، اس کے برخلاف ان کے دوسرے تلامذہ نے اسے «إنه کان يتوضأ قبل أن ينام» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ، لیکن کسی ثقہ راوی کا کسی لفظ کا اضافہ جو مخالف نہ ہو حدیث کے صحیح ہونے سے مانع نہیں ہے ، اور ابواسحاق سبیعی ثقہ راوی ہیں ، نیز یہ کہ احمد کی ایک روایت ( ٦/١٠٢) میں اسود سے سننے کی صراحت موجود ہے ، نیز سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سبیعی سے یہ روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی سے ان کی روایت سب سے معتبر مانی جاتی ( دیکھئیے صحیح ابوداودرقم : ٢٣٤ ، اور سنن ابن ماجہ رقم : ٥٨٣) ۔ صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 119
None
ابواسحاق سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی سعید بن مسیب وغیرہ کا قول ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سونے سے پہلے وضو کرتے تھے، ۳- یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث ( رقم ۱۱۸ ) سے جسے انہوں نے اسود سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، اور ابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ، ثوری اور دیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیال میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ۱؎۔
جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وضو کرے
عمر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا : کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، جب وہ وضو کرلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عمار، عائشہ، جابر، ابوسعید اور ام سلمہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٢- عمر (رض) والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے، ٣- یہی قول نبی اکرم ﷺ کے اصحاب اور تابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وہ سونے سے پہلے وضو کرلے ٢ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٥٥٢) ، مسند احمد (١/١٧، ٣٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں ، یہ وضو واجب ہے یا غیر واجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے ، جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واجب ہے۔ اور پہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔ ٢ ؎ : یعنی مستحب ہے کہ وضو کرلے ، یہی جمہور کا مذہب ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (585) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 120
جنبی سے مصافحہ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں : تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا : تم کہاں تھے ؟ یا : کہاں چلے گئے تھے (راوی کو شک ہے) ۔ میں نے عرض کیا : میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا : مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- ابوہریرہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں حذیفہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور ان کے قول «فانخنست» کے معنی «تنحیت عنہ» کے ہیں یعنی میں نظر بچا کر نکل گیا ، ٤- بہت سے اہل علم نے جنبی سے مصافحہ کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں کوئی حرج نہیں ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الغسل ٢٣ (٢٨٣) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٩ (٣٧١) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٩٢ (٢٣٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٢ (٢٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٨٠ (٥٣٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٤٦٤٨) ، مسند احمد (٢/٢٣٥، ٢٨٢، ٤٧١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : اور جب پسینے میں کوئی حرج نہیں تو بغیر پسینے کے بدن کی جلد ( سے پاک آدمی کے ہاتھ اور جسم کے ملنے ) میں بدرجہ اولیٰ کوئی حرج نہیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (534) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 121
عورت جو خواب میں مرد کی طرح دیکھے
ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ ام سلیم بنت ملحان نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : اللہ کے رسول ! اللہ حق سے نہیں شرماتا ١ ؎ کیا عورت پر بھی غسل ہے، جب وہ خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے ٢ ؎ آپ نے فرمایا : ہاں، جب وہ منی دیکھے تو غسل کرے ٣ ؎ ام سلمہ کہتی ہیں : میں نے ام سلیم سے کہا : ام سلیم ! آپ نے تو عورتوں کو رسوا کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- بیشتر فقہاء کا قول ہے کہ عورت جب خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے پھر اسے انزال ہوجائے (یعنی منی نکل جائے) تو اس پر غسل واجب ہے، یہی سفیان ثوری اور شافعی بھی کہتے ہیں، ٣- اس باب میں ام سلیم، خولہ، عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/العلم ٥٠ (١٣٠) ، والغسل ٢٢ (٢٨٢) ، والأنبیاء ١ (٣٣٢٨) ، والأدب ٦٨ (٦٠٩١) ، و ٧٩ (٦١٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ٧ (٣١٣) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣١ (١٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٧ (٦١٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٦٤) ، مسند احمد (٦/٢٩٢، ٣٠٢، ٣٠٦) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شرم و حیاء کی وجہ سے حق کے بیان کرنے سے نہیں رکتا ، تو میں بھی ان مسائل کے پوچھنے سے باز نہیں رہ سکتی جن کی مجھے احتیاج اور ضرورت ہے۔ ٢ ؎ : جو مرد دیکھتا ہے سے مراد احتلام ہے۔ ٣ ؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منی کے نکلنے سے عورت پر بھی غسل واجب ہوجاتا ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (600) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 122
مرد کا غسل کے بعد عورت کے جسم سے گرمی حاصل کرنا
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم ﷺ جنابت کا غسل فرماتے پھر آ کر مجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی، اور میں بغیر غسل کے ہوتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ١ ؎، ٢- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ مرد جب غسل کرلے تو اپنی بیوی سے چمٹ کر گرمی حاصل کرنے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں، وہ عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ (چمٹ کر) سو سکتا ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ٩٧ (٥٨٠) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٦٢٠) (ضعیف) (سند میں حریث ضعیف ہیں) وضاحت : ١ ؎ : یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے ، اس کے راوی «حریث بن ابی المطر» ضعیف ہیں ( جیسا کہ تخریج میں گزرا ) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن ابوداؤد اور ابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے ، جو عبدالرحمٰن افریقی کے طریق سے ہے ، عبدالرحمٰن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں ، لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دور ہوجاتا ہے ، نیز صحیحین میں عائشہ (رض) کی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہوجاتی ہے ، وہ یہ ہے : ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازار باندھنے کا حکم دیتے ، پھر ہم سے چمٹتے تھے واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (580) ، //، المشکاة (459) ، ضعيف سنن ابن ماجة (128) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 123
پانی نہ ملنے کی صورت میں جنبی تیمم کرے
ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پالے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے ۔ محمود (محمود بن غیلان) نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے : پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر فقہاء کا قول یہی ہے کہ جنبی یا حائضہ جب پانی نہ پائیں تو تیمم کر کے نماز پڑھیں، ٤- ابن مسعود (رض) جنبی کے لیے تیمم درست نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ پانی نہ پائے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ جب پانی نہیں پائے گا، تیمم کرے گا، یہی سفیان ثوری، مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن النسائی/الطہارة ٢٠٣ (٣٢٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٩٧١) ، مسند احمد (٥/١٥٥، ١٨٠) (صحیح) (سند میں عمروبن بجدان، مجہول ہیں، لیکن بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح سنن أبی داود ٣٥٧، والإرواء ١٥٣) قال الشيخ الألباني : صحيح، المشکاة (530) ، صحيح أبي داود (357) ، الإرواء (153) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 124
مستحاضہ کے بارے میں
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش (رض) نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا : اللہ کے رسول ! میں ایسی عورت ہوں کہ مجھے استحاضہ کا خون ١ ؎ آتا ہے تو میں پاک ہی نہیں رہ پاتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو ۔ اور جب وہ چلا جائے (یعنی حیض کے دن پورے ہوجائیں) تو خون دھو کر (غسل کر کے) نماز پڑھو ، ابومعاویہ کی روایت میں ہے ؛ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر نماز کے لیے وضو کرو یہاں تک کہ وہ وقت (حیض کا وقت) آ جائے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ام سلمہ (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- صحابہ کرام اور تابعین میں بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے، اور یہی سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ عورت کے حیض کے دن گزر جائیں تو وہ غسل کرے اور ہر نماز کے لیے (تازہ) وضو کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٨) ، والحیض ٨ (٣٠٦) ، و ١٩ (٣٢٠) ، و ٢٤ (٣٢٥) ، و ٢٨ (٣٣١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٣) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٩ (٢٨٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٥ (٢١٣) ، و ١٣٨ (٢١٩، ٢٢٠) ، والحیض ٤ (٣٥٩) ، و ٦ (٣٦٥، ٣٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٥ (٦٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٠٧٠، ١٧١٩٦، ١٧٢٥٩) ، مسند احمد (٦/٨٣، ١٤١، ١٨٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٣ (٨٠١) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : عورت کی شرمگاہ سے تین طرح کا خون خارج ہوتا ہے : ایک حیض کا خون جو عورت کے بالغ ہونے سے بڑھاپے تک ایام حمل کے علاوہ ہر ماہ اس کے رحم سے چند مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے اور اس کا رنگ کالا ہوتا ہے ، دوسرا نفاس کا خون ہے جو بچہ کی پیدائش کے بعد چالیس دن یا اس سے کم و بیش زچگی میں آتا ہے ، تیسرا استحاضہ کا خون ہے ، یہ ایک عاذل نامی رگ کے پھٹنے سے جاری ہوتا ہے اور بیماری کی صورت اختیار کرلیتا ہے ، اس کے جاری ہونے کا کوئی مقرر وقت نہیں ہے کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (621) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 125
مستحاضہ ہر نماز کے لئے وضو کرے
عدی کے دادا عبید بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا : وہ ان دنوں میں جن میں اسے حیض آتا ہو نماز چھوڑے رہے، پھر وہ غسل کرے، اور (استحاضہ کا خون آنے پر) ہر نماز کے لیے وضو کرے، روزہ رکھے اور نماز پڑھے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١١٣ (٣٩٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٥ (٦٢٥) ، ( تحفة الأشراف : ٣٥٤٢) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٣ (٨٢٠) (صحیح) (اس کی سند میں ابو الیقظان ضعیف، اور شریک حافظہ کے کمزور ہیں، مگر دوسری سندوں اور حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (625) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 126
مستحاضہ ہر نماز کے لئے وضو کرے
اس سند سے بھی شریک نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس حدیث میں شریک ابوالیقظان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، ٢- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ ہر نماز کے وقت غسل کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ احتیاط کی بات ہے اور اگر وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اگر وہ ایک غسل سے دو نمازیں جمع کرے تو بھی کافی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر ما قبلہ (صحیح) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 127
مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں پڑھ لیا کرے
حمنہ بنت جحش (رض) کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی تھی، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اور آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ ﷺ کو اپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی ہوں، اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس نے تو مجھے صوم و صلاۃ دونوں سے روک دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہا ہوں اس سے خون بند ہوجائے گا ، انہوں نے عرض کیا : وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا) آپ نے فرمایا : تو لنگوٹ باندھ لیا کرو ، کہا : خون اس سے بھی زیادہ آ رہا ہے، تو آپ نے فرمایا : تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو ، کہا : یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تو میں تجھے دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کرلو تمہارے لیے کافی ہوگا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو ، آپ نے فرمایا : یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کرلے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہوگئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں : حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں، اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے پاک صاف ہوجا اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایسا کرلیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اگر تم قادر ہو تو اس طرح کرو اور روزے رکھو ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان دونوں باتوں ١ ؎ میں سے یہ دوسری صورت ٢ ؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٣- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اور جانے کو جانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تو اس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش (رض) کی حدیث کے مطابق ہوگا ٣ ؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے (حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کرے گی اور ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ اور جب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کا حکم حمنہ بنت جحش (رض) کی حدیث کے مطابق ہوگا ٤ ؎ اسی طرح ابو عبید نے کہا ہے۔ شافعی کہتے ہیں : جب مستحاضہ کو پہلی بار جب اس نے خون دیکھا تبھی سے برابر خون جاری رہے تو وہ خون شروع ہونے سے لے کر پندرہ دن تک نماز چھوڑے رہے گی، پھر اگر وہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے، تو وہ چودہ دن کی نماز قضاء کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی نماز چھوڑ دے گی، ٤- حیض کی کم سے کم مدت اور سب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں : حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید کا قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١١٠ (٢٨٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٥ (٦٢٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٨٢١) ، مسند احمد (٦/٤٣٩) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٣ (٨١٢) (حسن) وضاحت : ١ ؎ : ان دونوں باتوں سے مراد : یا تو ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا یا ہر نماز کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بار نہانا۔ ٢ ؎ : یعنی روزانہ تین بار نہانا ایک بار ظہر اور عصر کے لیے ، دوسری مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرے فجر کے لیے۔ ٣ ؎ : یعنی حیض کے اختتام پر مستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے گی۔ ٤ ؎ : یعنی ہر روز تین مرتبہ غسل کرے گی ، پہلے غسل سے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھے گی اور دوسرے غسل سے مغرب اور عشاء کی اور تیسرے غسل سے فجر کی۔ قال الشيخ الألباني : حسن، ابن ماجة (627) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 128
مستحاضہ ہر نماز کے لئے غسل کرے
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں۔ تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، یہ تو محض ایک رگ ہے، لہٰذا تم غسل کرو پھر نماز پڑھو ، تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابن شہاب زہری نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ (رض) کو ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا، بلکہ یہ ایسا عمل تھا جسے وہ اپنے طور پر کیا کرتی تھیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- نیز یہ حدیث زہری سے «عن عمرة عن عائشہ» کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، ٢- بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت غسل کرے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ١٤ (٣٣٤) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٨ (٢٧٩) ، و ١١١ (٢٨٨) ، سنن النسائی/الطہارة ١٣٤ (٢٠٧) ، والحیض ٣ (٣٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٦ (٦٢٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٨٣) ، مسند احمد (٦/٨٣، ١٤١، ١٨٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٣ (٨٠٥) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : کسی بھی صحیح روایت میں نہیں آتا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ام حبیبہ (رض) کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا تھا ، جو روایتیں اس بارے میں ہیں سب ضعیف ہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ وہ بطور خود ( استحبابی طور سے ) ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (626) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 129
حائضہ عورت نمازوں کی قضا نہ کرے
معاذہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عائشہ (رض) سے پوچھا : کیا ہم حیض کے دنوں والی نماز کی قضاء کیا کریں ؟ تو انہوں نے کہا : کیا تو حروریہ ١ ؎ ہے ؟ ہم میں سے ایک کو حیض آتا تھا تو اسے قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اور عائشہ سے اور کئی سندوں سے بھی مروی ہے کہ حائضہ نماز قضاء نہیں کرے گی، ٣- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ حائضہ روزہ قضاء کرے گی اور نماز قضاء نہیں کرے گی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٢٠ (٣٢١) ، صحیح مسلم/الحیض ١٥ (٣٣٥) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٥ (٢٦٢) ، سنن النسائی/الحیض ١٧ (٣٨٢) ، والصوم ٣٦ (٢٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٩ (٦٣١) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٩٦٤) ، مسند احمد (٦/٣٢، ٩٧، ١٢٠، ١٨٥، ٢٣١) ، سنن الدارمی/الطہارة ١٠٢ (١٠٢٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : حروریہ منسوب ہے حروراء کی طرف جو کوفہ سے دو میل کی دوری پر ایک بستی کا نام تھا ، خوارج کو اسی گاؤں کی نسبت سے حروری کہا جاتا ہے ، اس لیے کہ ان کا ظہور اسی بستی سے ہوا تھا ، ان میں کا ایک گروہ حیض کے دنوں کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کو ضروری قرار دیتا ہے اسی لیے عائشہ (رض) نے اس عورت کو حروریہ کہا ، مطلب یہ تھا کہ کیا تو خارجی عورت تو نہیں ہے جو ایسا کہہ رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (631) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 130
جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھے
عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں علی (رض) سے بھی روایت ہے، ٢- ابن عمر (رض) کی حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ جس میں ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جنبی اور حائضہ (قرآن) نہ پڑھیں ، ٣- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اور ان کے بعد کے لوگ مثلاً سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ حائضہ اور جنبی آیت کے کسی ٹکڑے یا ایک آدھ حرف کے سوا قرآن سے کچھ نہ پڑھیں، ہاں ان لوگوں نے جنبی اور حائضہ کو تسبیح و تہلیل کی اجازت دی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٥ (٥٩٥) ، ( تحفة الأشراف : ٨٤٧٤) (منکر) (سند میں راوی اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہوتی ہے، اور موسیٰ بن عقبہ مدنی ہیں) ۔ قال الشيخ الألباني : منكر، ابن ماجة (595) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (130) ، المشکاة (461) ، الإرواء (192) ، ضعيف الجامع الصغير وزيادته الفتح الکبير - بترتيبى - برقم (6364) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 131
حائضہ عورت سے مباشرت
ام المؤمنین عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ مجھے جب حیض آتا تو رسول اللہ ﷺ مجھے تہ بند باندھنے کا حکم دیتے پھر مجھ سے چمٹتے اور بوس و کنار کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے۔ صحابہ کرام و تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ٢- اس باب میں ام سلمہ اور میمونہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الحیض ٥ (٣٠٠) ، صحیح مسلم/الحیض ١ (٢٩٣) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٧ (٢٦٧) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٠ (٢٨٦) ، والحیض ١٢ (٣٧٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢١ (٦٣٦) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٩٨٢) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (260) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 132
جنبی اور حائضہ کے ساتھ کھانا اور ان کے جھوٹا
عبداللہ بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ کھاؤ ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن سعد (رض) کی حدیث حسن غریب ہے، ٢- اس باب میں عائشہ اور انس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے : یہ لوگ حائضہ کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔ البتہ اس کے وضو کے بچے ہوئے پانی کے سلسلہ میں ان میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی اجازت دی ہے اور بعض نے اس کی طہارت سے بچے ہوئے پانی کو مکروہ کہا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٨٣ (٢١١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٣٠ (٦٥١) ، ( تحفة الأشراف : ٥٣٢٦) ، مسند احمد (٥/٢٩٣) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یہ حدیث آیت کریمہ : «فاعتزلوا النساء في المحيض» (البقرة : 222 ) کے معارض نہیں کیونکہ آیت میں جدا رہنے سے مراد وطی سے جدا رہنا ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (651) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 133
حائضہ کوئی چیز مسجد سے لے سکتی ہے
ام المؤمنین عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : مسجد سے مجھے بوریا اٹھا کر دو ، تو میں نے عرض کیا : میں حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا : تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عائشہ (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ ہم اس مسئلہ میں کہ حائضہ کے مسجد سے کوئی چیز اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٢ (٢٩٨) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٤ (٢٦١) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٣ (٢٧٢) ، والحیض ١٨ (٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢٠ (٦٣٢) ، ( تحفة الأشراف : ١٧٤٤٦) ، مسند احمد (٦/٤٥، ١٠١، ١١٢، ١٤١، ١٧٣، ٢١٤، ٢٢٩، ٢٤٥) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨١ (٧٩٨) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (632) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 134
حائضہ سے صحبت کی حرمت
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی حائضہ کے پاس آیا یعنی اس سے جماع کیا یا کسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یا کسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کا حال جاننے کے لیے) آیا تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہیں ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اہل علم کے نزدیک نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کا مطلب تغلیظ ہے، نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : جس نے کسی حائضہ سے صحبت کی تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر حائضہ سے صحبت کا ارتکاب کفر ہوتا تو اس میں کفارے کا حکم نہ دیا جاتا ، ٢- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطب ٢١ (٣٩٠٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢٢ (٦٣٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٥٣٦) ، مسند احمد (٢/٤٢٩) (صحیح) (سند میں حکیم الأثرم میں کچھ ضعف ہے، تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے، الإ رواء : ٢٠٠٦) وضاحت : ١ ؎ : آپ کا یہ فرمانا تغلیظاً ہے جیسا کہ خود امام ترمذی نے اس کی وضاحت کردی ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (639) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 135
حائضہ سے صحبت کا کفارہ
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آدمی کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع کرتا ہے فرمایا : وہ آدھا دینار صدقہ کرے ۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٠٦ (٢٦٤) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٢ (٢٩٠) ، والحیض ٩ (٣٧٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢٣ (١٤٠) ، و ١٢٩ (٢٥٠) ، ( تحفة الأشراف : ٦٤٨٦) ، مسند احمد (١/٢٣٧، ٢٧٢، ٢٨٦، ٣١٢، ٣٢٥، ٣٦٣، ٣٦٧) ، سنن الدارمی/الطہارة ١١١ (١١٤٥) (ضعیف) (اس لفظ سے ضعیف ہے، سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں اور خصیف بن عبدالرحمن الجزری بھی سیٔ الحفظ اور اختلاط کا شکار راوی ہیں، لیکن حدیث ... دينار أو نصف دينار کے لفظ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی ٣٣٤، صحیح سنن ابی داود ٢٥٦، ضعیف أبی داود ٤٢) قال الشيخ الألباني : ضعيف بهذا اللفظ، والصحيح بلفظ : دينار أو نصف دينار ، صحيح أبي داود (256) ، ابن ماجة (640) ، ضعيف أبي داود (42) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 136
حائضہ سے صحبت کا کفارہ
عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب خون سرخ ہو (اور جماع کرلے تو) ایک دینار اور جب زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- حائضہ سے جماع کے کفارے کی حدیث ابن عباس سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے مروی ہے، ٢- اور بعض اہل علم کا یہی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں : یہ اپنے رب سے استغفار کرے گا، اس پر کوئی کفارہ نہیں، ابن مبارک کے قول کی طرح بعض تابعین سے بھی مروی ہے جن میں سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی بھی شامل ہیں۔ اور اکثر علماء امصار کا یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٤٩١) (ضعیف) (سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ضعیف ہیں، یہ مفصل مرفوع روایت ضعیف ہے، لیکن موقوف یعنی ابن عباس کے قول سے صحیح ہے، دیکھئے صحیح ابی داود رقم : ٢٥٨) قال الشيخ الألباني : ضعيف، والصحيح عنه بهذا التفصيل موقوف، صحيح أبي داود (258) ، // هو فی صحيح سنن أبى داود - باختصار السند برقم (238 - 265) // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 137
کپڑے سے حیض کا خون دھونے کے بارے میں
اسماء بنت ابی بکر (رض) کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے کھرچ دو ، پھر اسے پانی سے مل دو ، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- کپڑے میں جو خون لگ جائے اور اسے دھونے سے پہلے اس میں نماز پڑھ لے … اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار میں ہو اور دھوے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز دہرائے ١ ؎، اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو تو نماز دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ٢ ؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے نماز کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ٣ ؎، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ٤ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٦٣ (٢٢٧) ، والحیض ٩ (٣٠٧) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٣ (٢٩١) ، و ١٣٢ (٢٩١) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٢ (٣٦٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٨٥ (٢٩٤) ، والحیض ٢٦ (٣٩٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٨ (٦٢٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٥٧٤٤) ، موطا امام مالک/الطہارة ٢٨ (١٠٣) ، سنن الدارمی/الطہارة ٨٢ (٧٩٩) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ (رض) سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «إذا کان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة» امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکر الحدیث ہے۔ ٢ ؎ : اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔ ٣ ؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر (رض) کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «إن النبي صلی اللہ عليه وسلم کان في غزوة ذات الرقاع فرمی رجل بسهم فنزفه الدم فرکع وسجد ومضی في صلاته» لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون ، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔ ٤ ؎ : کیونکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں ، نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے ( وہ یہی حدیث ہے ) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (629) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 138
عورتوں کے نفاس کی مدت
ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں، اور جھائیوں کے سبب ہم اپنے چہروں پر ورس (نامی گھاس ہے) ملتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف ابوسہل ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ٢- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے تمام اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن تک نماز نہیں پڑھیں گی۔ البتہ اگر وہ اس سے پہلے پاک ہو لیں تو غسل کر کے نماز پڑھنے لگ جائیں، اگر چالیس دن کے بعد بھی وہ خون دیکھیں تو اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ چالیس دن کے بعد وہ نماز نہ چھوڑیں، یہی اکثر فقہاء کا قول ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ پچاس دن تک نماز چھوڑے رہے جب وہ پاکی نہ دیکھے، عطاء بن ابی رباح اور شعبی سے ساٹھ دن تک مروی ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٢١ (٣١١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٢٨ (٦٤٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٨٧) ، مسند احمد (٦/٣٠٠، ٣٠٣، ٣٠٤، ٣١٠) (حسن صحیح) (سند میں مُسّہ ازدیہ لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : حسن صحيح، ابن ماجة (648) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 139
کئی بیویوں سے صحبت کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کرنا
انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک ہی غسل میں سبھی بیویوں کا چکر لگا لیتے تھے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- انس (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں ابورافع (رض) سے بھی روایت ہے۔ ٣- بہت سے اہل علم کا جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں یہی قول ہے کہ وضو کرنے سے پہلے دوبارہ جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٩) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧٠ (٢٦٤) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠١ (٥٨٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٣٣٦) ، مسند احمد (٣/٢٢٥) ، وراجع أیضا : صحیح البخاری/الغسل ١٢ (٢٦٨) ، و ٢٤ (٢٨٤) ، والنکاح ٤ (٥٠٦٨) ، و ١٠٢ (٥٢١٥) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٨٥ (٢١٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : یعنی سب سے صحبت کر کے اخیر میں ایک غسل کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (588) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 140
اگر دوبارہ صحبت کا ارادہ کرے تو وضو کر لے
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے پھر وہ دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کرلے ١ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عمر (رض) سے بھی روایت آئی ہے، ٢- ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے، ٣- عمر بن خطاب (رض) کا قول ہے، اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے یہی کہا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو جماع سے پہلے دوبارہ وضو کرے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح مسلم/الحیض ٦ (٣٠٨) ، سنن ابی داود/ الطہارة ٨٦ (٢٢٠) ، سنن النسائی/الطہارة ١٦٩ (٢٦٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٠ (٥٨٧) ، ( تحفة الأشراف : ٤٢٥٠) ، مسند احمد (٣/٧، ٢١، ٢٨) (صحیح) وضاحت : ١ ؎ : بعض اہل علم نے اسے وضو لغوی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ دھونا ہے ، لیکن ابن خزیمہ کی روایت سے جس میں «فليتوضأ وضوئه للصلاة» آیا ہے اس کی نفی ہوتی ہے ، صحیح یہی ہے کہ اس سے وضو لغوی نہیں بلکہ وضو شرعی مراد ہے ، جمہور نے «فليتوضأ» میں امر کے صیغے کے استحباب کے لیے مانا ہے ، لیکن ظاہر یہ کے نزدیک وجوب کا صیغہ ہے ، جمہور کی دلیل عائشہ (رض) کی وہ حدیث ہے جس میں ہے «كان للنبي صلی اللہ عليه وسلم يجامع ثم يعودو لايتوضأ» نیز صحیح ابن خزیمہ میں اس حدیث میں «فإنه أنشط للعود» کا ٹکڑا وارد ہے اس سے بھی اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ امر کا صیغہ یہاں استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (587) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 141
اگر نماز کی اقامت ہوجائے اور کسی کو تقاضہ حاجت ہو تو پہلے بیت الخلاء جائے
عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم (رض) اپنی قوم کے امام تھے، نماز کھڑی ہوئی تو انہوں نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب نماز کے لیے اقامت ہوچکی ہو اور تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کرے تو وہ پہلے قضائے حاجت کے لیے جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عبداللہ بن ارقم (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ثوبان اور ابوامامہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- اور یہی قول نبی اکرم ﷺ کے صحابہ اور تابعین میں کئی لوگوں کا ہے۔ احمد، اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جب آدمی کو پیشاب پاخانہ کی حاجت محسوس ہو تو وہ نماز کے لیے نہ کھڑا ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ نماز میں شامل ہوگیا، پھر نماز کے دوران اس کو اس میں سے کچھ محسوس ہو تو وہ اس وقت تک نماز نہ توڑے جب تک یہ حاجت (نماز سے) اس کی توجہ نہ ہٹا دے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پاخانے یا پیشاب کی حاجت کے ساتھ نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ چیزیں نماز سے اس کی توجہ نہ ہٹا دیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٤٣ (٨٨) ، سنن النسائی/الإمامة ٥١ (٨٥٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٤ (٦١٦) ، ( تحفة الأشراف : ٥١٤١) ، موطا امام مالک/ صلاة السفر ١٧ (٤٩) ، مسند احمد (٤/٣٥) ، سنن الدارمی/الصلاة ١٣٧ (١٤٦٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (616) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 142
گرد راہ دھونے کے بارے میں
عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ (رض) سے کہا : میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پر بھی چلنا ہوتا ہے، (تو میں کیا کروں ؟ ) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : اس کے بعد کی (پاک) زمین اسے پاک کردیتی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- اس باب میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گندی جگہوں پر سے گزرنے کے بعد پاؤں نہیں دھوتے تھے، ٢- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ جب آدمی کسی گندے راستے سے ہو کر آئے تو اسے پاؤں دھونے ضروری نہیں سوائے اس کے کہ گندگی گیلی ہو تو ایسی صورت میں جو کچھ لگا ہے اسے دھو لے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٤٠ (٣٨٣) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٩ (٥٣١) ، ( تحفة الأشراف : ١٨٢٩٦) ، موطا امام مالک/الطہارة ٤ (١٦) ، مسند احمد (٦/٢٩٠، ٣١٦) ، سنن الدارمی/الطہارة ٦٣ (٧٦٩) (صحیح) (سند میں ام ولد عبدالرحمن یا ام ولد ابراہیم بن عبدالرحمن مبہم ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے) قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (531) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 143
تیمم کے بارے میں
عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے تیمم کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- عمار (رض) کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عائشہ اور ابن عباس (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- یہی صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا قول ہے جن میں علی، عمار، ابن عباس (رض) شامل ہیں اور تابعین میں سے بھی کئی لوگوں کا ہے جن میں شعبی، عطاء اور مکحول بھی ہیں، ان سب کا کہنا ہے کہ تیمم چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی بار مارنا ہے، اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں، ٤- بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر (رض)، ابراہیم نخعی اور حسن بصری شامل ہیں کہتے ہیں کہ تیمم چہرہ کے لیے ایک ضربہ اور دونوں ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک ایک ضربہ ہے، اس کے قائل سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اور شافعی ہیں، ٥- تیمم کے سلسلہ میں عمار سے یہ حدیث جس میں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ضربہ کا ذکر ہے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ٦- عمار (رض) سے تیمم کی حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شانوں اور بغلوں تک تیمم کیا۔ ٧- بعض اہل علم نے تیمم کے سلسلہ میں عمار کے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں والی حدیث کی تضعیف کی ہے کیونکہ ان سے شانوں اور بغلوں والی حدیث بھی مروی ہے، ٨- اسحاق بن ابراہم مخلد حنظلی (ابن راہویہ) کہتے ہیں کہ چہرہ اور دونوں کہنیوں کے لیے ایک ہی ضربہ والی تیمم کے سلسلہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ٩- عمار (رض) کی حدیث جس میں ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شانوں اور بغلوں تک تیمم کیا چہرے اور دونوں ہتھیلیوں والی حدیث کے مخالف نہیں کیونکہ عمار (رض) نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا تھا بلکہ انہوں نے صرف اتنا کہا ہے کہ ہم نے ایسا ایسا کیا، پھر جب انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے انہیں صرف چہرے اور دونوں کا حکم دیا، تو وہ چہرے اور دونوں ہتھیلیوں ہی پر رک گئے۔ جس کی نبی اکرم ﷺ نے انہیں تعلیم دی، اس کی دلیل تیمم کے سلسلہ کا عمار (رض) کا وہ فتویٰ ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعد دیا ہے کہ تیمم صرف چہرے اور دونوں ہتھیلیوں ہی کا ہے، اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ وہ اسی جگہ رک گئے جس کی نبی اکرم ﷺ نے انہیں تعلیم دی ١ ؎ اور آپ نے انہیں جو تعلیم دی تھی وہ چہرے اور دونوں ہتھیلیوں تک ہی محدود تھی۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/التیمم ٤ (٣٣٨) ، و ٦ (٣٣٩، ٣٤٠، ٣٤١، ٣٤٢) ، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (١١٢/٣٦٨) ، سنن ابی داود/ الطہارة ١٢٣ (٣٢٢) ، سنن النسائی/الطہارة ١٩٦ (٣١٣) ، و ٢٠٠ (٣١٨) ، و ٢٠٢ (٣٢٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٩ (٥٦٩) ، ( تحفة الأشراف : ١٠٣٦٢) ، مسند احمد (٤/٢٦٣، ٢٦٥، ٣١٩، ٣٢٠) (صحیح) وضاحت : ١ ؎: بعض نسخوں میں یہاں سے اخیر تک کا ٹکڑا نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود (350 - 353) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 144
تیمم کے بارے میں
عکرمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) سے تیمم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس وقت وضو کا ذکر کیا تو فرمایا اپنے چہرے کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ، اور تیمم کے بارے میں فرمایا : اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو ، اور فرمایا : چوری کرنے والے مرد و عورت کی سزا یہ ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دو تو ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں سنت یہ تھی کہ (پہنچے تک) ہتھیلی کاٹی جاتی، لہٰذا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں ہی تک ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٦٠٧٧) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن خالد قرشی مجہول ہیں، لیکن یہ مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے) ۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف الإسناد صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 145
اگر کوئی شخص جنبی نہ ہو تو ہر حالت میں قرآن پڑھ سکتا ہے۔
علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔ خواہ کوئی بھی حالت ہو جب تک کہ آپ جنبی نہ ہوتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- علی (رض) کی یہ حدیث حسن صحیح ہے ١ ؎، ٢- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی وضو کے بغیر قرآن پڑھ سکتا ہے، لیکن مصحف میں دیکھ کر اسی وقت پڑھے جب وہ باوضو ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ٩١ (٢٢٩) ، سنن النسائی/الطہارة ١٧١ (٢٦٦، ٢٦٧) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١٠٥ (٥٩٤) ، ( تحفة الأشراف : ١٠١٨٦) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلمہ کا حافظہ آخری دور میں کمزور ہوگیا تھا، اور یہ روایت اسی دور کی ہے) وضاحت : ١ ؎ : بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ تخریج میں گزرا۔ قال الشيخ الألباني : ضعيف، ابن ماجة (594) ، // ضعيف سنن ابن ماجة (129) ، ضعيف أبي داود (39/229) نحوه، المشکاة (460) ، الإرواء (192 و 485) ، ضعيف سنن النسائي برقم (9/265) وهو في ضعيف ابن ماجة بلفظين هما لا يحجبه - أو يحجزه - عن القرآن شيء إلا الجنابة ، ولفظ لا يقرأ القرآن الجنب ولا الحائض // صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 146
وہ زمین جس میں پیشاب کیا گیا ہو
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا، نبی اکرم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، اس نے نماز پڑھی، جب نماز پڑھ چکا تو کہا : اے اللہ تو مجھ پر اور محمد پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم مت فرما۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : تم نے ایک کشادہ چیز (یعنی رحمت الٰہی) کو تنگ کردیا ، پھر ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ مسجد میں جا کر پیشاب کرنے لگا، لوگ تیزی سے اس کی طرف بڑھے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس پر ایک ڈول پانی بہا دو ، پھر آپ نے فرمایا : تم تو آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہونا کہ سختی کرنے والے ١ ؎۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ الطہارة ١٣٨ (٣٨٠) ، سنن النسائی/السہو ٢٠ (١٣١٧) ، ( تحفة الأشراف : ١٣١٣٩) ، مسند احمد (٢/٢٣٩) (صحیح) وراجع أیضا : صحیح البخاری/الوضوء ٥٨ (٢٢٠) ، والأدب ٢٧ (٦٠١٠) ، و ٨٠ (٦١٢٨) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٤ (٥٦) ، والمیاہ ٢ (٣٣١) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٨ (٥٢٩) ، مسند احمد (٢/٢٨٣، ٥٠٣) ، ( تحفة الأشراف : ١٤١١١، ١٥٠٧٣) وضاحت : ١ ؎ : آپ ﷺ نے یہ بات صحابہ سے ان کے اس اعرابی کو پھٹکارنے پر فرمائی ، یعنی نرمی سے اس کے ساتھ معاملہ کرو ، سختی نہ برتو۔ قال الشيخ الألباني : صحيح، ابن ماجة (529) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 147 اس سند سے انس بن مالک سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابن عباس اور واثلہ بن اسقع (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں، ٣- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/الوضوء ٥٦ (٢١٩) ، و ٥٧ (٢٢١) ، والأدب ٣٥ (٦٠٢٥) ، صحیح مسلم/الطہارة ٣٠ (٢٨٤) ، سنن النسائی/الطہارة ٤٥ (٥٣، ٥٤، ٥٥) ، والمیاہ ٣ (٣٣٠) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ٧٨ (٥٢٨) ، ( تحفة الأشراف : ١٦٥٧، ولم یذکر الترمذيَّ ) ، مسند احمد (٣/١١٠، ١١٤، ١٦٧) ، سنن الدارمی/الطھارة ٦٢ (٧٦٧) (صحیح) قال الشيخ الألباني : صحيح، صحيح أبي داود تحت الحديث (405) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 148